” چل جلدی کر! یہ بلوریاں لے، دیکھ برابر لگنا چاہئے ورنہ میں سب لے لوں گی۔” سر پر قاعدے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے وہ گویا ہوئی۔
” ارے ہٹ! بڑی آئی سب لینے والی! ایک دھکا لگاؤں گا نا، دیکھ جا کر کہاں گرے گی ،بڑا خود کو طُرّم خان سمجھتی ہے”
ثاقب نے جھٹکے سے اس کے دوپٹے کو کھینچا اور وہ گرتے گرتے بچی۔
” خبردار ! دوپٹے کو ہاتھ نہ لگانا۔” نوخیز لڑکی کی طرح شرماتے ہوئے اس نے کہا :
” امی مرحومہ کہتی تھیں دوپٹہ لڑکیوں کے سر کا تاج ہوتا ہے۔” اور دوسرے ہی پل اس نے زمین پر پڑے بڑے چھوٹے پتھر اٹھائے اور ثاقب پر جارحانہ انداز میں تانے۔
ثاقب کہاں رُکتا، وہ یہ جا وہ جا۔سلیم کی اب باری تھی۔سلیم چنچل نہ تھا۔سمجھتا تھا۔اس کے گھر میں بڑے چھوٹے سبھی موجود تھے۔وہ ہر کسی کا احترام کرتا تھا۔اس نے دھیرے سے سمجھایا دیکھو ایسے بلوریاں پھینکو پھر برابر لگے گی۔”
وہ خوش ہوگئ اور خوب تالیاں بجانے لگی۔وہ بچوں کے ساتھ ایسے ہی کھیل کر خوش ہوتی۔شام میں گھر کے لڑکوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ چھت پر چڑھ جاتی اور چکری اپنے ہاتھوں میں دھر لیتی ۔لڑکوں سے پتنگ خوب اونچی اُڑانے کی فرمائش کرتی اور یک لخت تالیاں بجانے میں چکری زمین پر گر جاتی اور پتنگ بے چاری ہچکولے کھاتی زمین کا سفر کرتی۔پھر لڑکے شرارت سے اس کے سر پر چپت لگاتے اور خوب بڑ بڑ کرتے اور وہ کسی کو دھپ لگاتی زینے طئے کر نیچے آجاتی۔
وہاں کچن سے آتی اس کی دیورانی کی بڑبڑاہٹ گھر کے سبھی افراد کے لئے باعث تذلیل ہو جاتی کہ ” کچھ کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی ! لڑکوں بالوں کے ساتھ کھیلنا نہی نا بھولتا۔”
ایسا کیوں ہوا؟ وہ ایسی تو نہیں تھی۔ایک سلیقہ شعار، قبول صورت بہو تھی۔ساس کے ہاتھ کا چھالا تو میاں کے دل کی رانی۔ساری رشتہ داریوں کا پاس بخوبی نبھاتی۔کس کے گھر کون پیدا ہوا، کس کے گھر چھٹّی کے کپڑے بھجوانا ہے، بتیسے کے لڈو بنانا ہے، شادی بیاہ کے لوازمات تو موت میت کی بھاتی سب وقت پر ان کے گھر سے پہنچ جاتی۔ خاندان والے بھی اس کی عزت واکرام میں کوئی کمی نہ کرتے کہ والد محترم کے قول کو ہمیشہ دامن میں سمیٹ کر رکھا تھا کہ” دینے والے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہتا ہے۔”
لیکن وقت کا پہیہ کچھ ایسا گھوما کہ دینے والے ہاتھ لینے والے بن گئے ۔یہی دنیا کی ستم ظریفی کہ دیکھتے دیکھتے جو قصیدہ خواں تھے وہ مرثیہ خواں بن گئے اور وہ کچھ بھی تو نہ کر سکی۔سب سے چھوٹے دیور کہ جس کو ایسے پالا تھا جیسے کوکھ کا بچہ ہو، جس کی شادی اپنے بیٹے کی طرح کی تھی اسی کی بہو نے دھیرے دھیرے اس کی بیماری کو کچھ یوں طول دیا کہ ان طعنوں کی بندش میں اس نے اپنے وجود کو گم کر دیا۔نہ عدالت میں جُرم کی سماعت ہوئی نہ مجرم کو سزا سنائی گئی۔ذہنی طور پر وہ حال سے بے خبر ہوتی چلی گئی ۔ کچھ عمر کا تقاضےاور پہلے پہل بھولنے کی عادت سے شروعات ہوئی ۔کچھ بھولا کچھ یاد رہا کے مصداق خود کو حالات کے حوالے کر دیا اور یہاں دیورانی اس کے سجے سجائے سنگھاسن پر براجمان ہوتی چلی گئی ۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کے سبب جب گھر کے اخراجات و اندراج میں اس سے گڑبڑی ہونے لگی تب دیورانی کو مکمل موقع مل گیا اور وہ سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی۔
کبھی ایسا بھی ہوتا کہ لکھنے بیٹھتی تو لکھ ہی نہ پاتی۔کاغذ پر قلم سے صرف آڑھے ترچھے دائرے بناتی۔تب بیٹا وسیم آتا اور ہاتھ پکڑ کر اسے لکھنے کی ترغیب دیتا۔وہ غائب دماغی سے اس کا چہرہ تاکا کرتی لکھتی کم۔ بیٹا کہتا :
” اماں! اس طرح نہ دیکھیں ۔آپ کو یاد نہیں بچپن میں آپ نے بھی تو اسی طرح مجھے سکھایا تھا۔اب کیا ہوگیا کہ میں نے آپ کا ہاتھ تھاما۔
ہال سے اٹھتی دیورانی کی آواز وہ سمجھ نہ پاتی، شاید سمجھنے کی کوشش نہ کرتی اور انگوٹھا منھ میں لے کر وہیں زمین پر سو جاتی۔ ” دیکھو تو کیسے بچوں سی حرکت ہے۔کچھ شرم غیرت ہے کہ نہیں! ” اور پھر وسیم کا دل پھٹ جاتا لیکن اماں کی سمجھائی عزت و تکریم کا لحاظ آجاتا، ان کی بتائی باتیں یاد آجاتیں اور وہ اپنی بیوی کو آواز دیتا اور گود میں اٹھا کر اس کے کمرے میں لے جاتا۔
” ہائے ہائے! دیکھو تو کیسا زمانہ آگیا۔بیٹے کی گود میں سواری ہو رہی ہے! ” ایک اور چرکا لگتا پر وسیم صبر کا دامن تھامے رکھتا۔ اس نے اپنی ساری زندگی اماں کے لئے وقف کرنے کاتہیہ کر لیا تھا اس لئے شادی سے بھی انکار کرتا رہا لیکن جب اماں کی نجی ضروریات کا خیال آتا تب کسی خاتون کی مدد کے بارے میں سوچنے لگتا۔کہتے ہیں کہ ہم جس راہ پر چلنا چاہتے ہیں پاک پروردگار وہ راہیں آسان بنا دیتا ہے اور یوں زندگی کی ڈگر پر اس کی ملاقات ڈاکٹر صبا سے ہو گئی ۔
صبا ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ایک سائیکیاٹرسٹ۔نفسیاتی ڈاکٹر۔وسیم کے فیملی ڈاکٹر نے اسے اس کے پاس بھیجا تاکہ مریضہ کی بیماری کی بخوبی شناخت ہو۔ اس نے بتایا ” اماں کے ساتھ ایک دن یہ حادثہ ہوا تھا کہ گھر کے قریب کے کھیتوں میں آگ لگ گئی تھی اور انھیں ایسا لگا تھا کہ ساری زندگی کا اثاثہ برباد ہو گیا۔جس طرح بچپن میں ان کے میکے میں ایسا ہی اندوہناک واقعہ ہو گزرا تھا، وہ اس صدمے کی ہو کر رہ گئی تھیں اور جب سارے واقعات کی ڈوریاں ملائی گئیں اور کئی ٹیسٹ کروائے گئے تب یہی بتایا گیا کہ اماں
Age regression in Dissoliative identity Disorder کے دہن رسیدہ ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر صبا نے بتایا :” 60 سال کے اوپر کے لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عمر کے علاوہ زندگی کا کوئی واقعہ یا بہت زیادہ دماغی تناؤ ،کوئی صدمہ ان کو بچپن میں ہوئے کسی خاص واقعہ کی طرف موڑ دیتا ہے اور وہ وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔واپسی ممکن نہیں ہوتی۔البتہ اسے مزید آگے بڑھنے سے افراد خانہ کی محبتیں یا ماحول کی تبدیلی روک سکتی ہے۔”
صبا نے اُن کے علاج معالجے سے رجوع کیا۔ دعائیں و دوائیں کبھی اپنا اثر ضرور دکھاتیں لیکن دیورانی کے طعنے اس کی سماعتوں سے ٹکراتے رہتے۔شاید سمجھ جاتی ہو یا نہ سمجھے لیکن بہرحال اپنائیت کی ضرورت تھی۔وسیم اپنے والد کے ساتھ زمینداری میں مصروف رہتا اور گھر پر ملازم بھی دیورانی کے ہاتھوں بک چکے تھے۔وہ ویسے ہی بولائی بولائی گھر میں گھومتی رہتی ۔نہ وقت پر کھانا کھاتی نہ سوتی۔بچے بھی کیا کبھی تنہا سب کچھ کر پاتے ہیں؟ وہ بچہ ہی تو بن گئی تھیں۔کئی بار اس کے والد نے بھائی سے دیورانی کی شکایت کی، ڈانٹا گیا، وسیم نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن دیورانی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اس کا ہدف یہ تھا کہ کسی طرح یہ افرادِ خانہ کہیں چلی جائیں اور وہ بلا شرکتِ غیر وارث قرار دی جائے۔
انسان کی سوچ سے بہت آگے مالک کائنات سوچتا ہے۔کسی کا حق مار کر کوئی کتنا دوڑ سکتا ہے؟ اسی دوران وسیم نے پہلے اپنے ابا سے اجازت لی پھر صبا سے شادی کی درخواست کی۔ صبا نے بھی وقت لیا اور یہ کہہ دیا کہ آپ اپنے والد کو ہمارے گھر بھیج دیں اگر والدین نے مناسب جانا تو اسے انکار نہ ہوگا اور اس طرح صبا نے ایک بہو، ایک ڈاکٹر بن کر وسیم کی دہلیز پر محبت کے چراغ جلائے ۔دیورانی کو تو آگ ایسے لگی کہ سر سے چلی اور پیر تک پہنچی لیکن کچھ کر نہ پائی. وہ تو اپنی خالہ کی بیٹی کو اس مقام پر دیکھنا چاہتی تھی لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔۔سادگی سے نکاح و رخصتی ہوئی کہ کوئی خلاف قیاس بات نہ ہو جائے اور محبتوں کی چھم چھم پازیب پہنے صبا اماں کی زندگی میں آگئیں۔شبِ زفاف وسیم نے ایک بار پھر بات دہرائی کہ ” ماں ہی اس کی متاع حیات ہے۔” اور اس نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر دی کہ جنت جانے کا راستہ ماں کے قدموں تلے سے ہی گزرتا ہے۔
صبا کئی بار باتیں سنی ان سنی کر دیتی۔ایک دن تو حد ہی کر دی کہ ” لو بڑی ڈاکٹر صاحبہ بنی گھومتی تھیں، کیا ہوا سارے سرٹیفیکٹ جھوٹے نکلے کہ کلنیک نہیں جاتیں، گھر کی ہو کر رہ گئی ہیں محترمہ!! اس کا کیا راز ہے؟ اے منشی! ذرا پتہ تو کر آ کہ سرٹیفکیٹ جعلی تو نہیں۔” اور وہ بھونچکی رہ گئی ۔کیا کرے کیا نہیں۔کلینک جائے تو گھر ہاتھ سے چھوٹتا ہے نہ جائے تو ایسے طعنوں کے لئے کہاں سے اتنا بڑا جگر لائے؟ لیکن اسے اپنا وعدہ یاد رہا۔باقی سب بھول گئی اور تن من دھن سے اماں کی ہو گئی ۔اس طرح اُن کی دیکھ بھال کرتی جیسے اپنے بچے کی کرتی ہو۔ اماں بھی اس کا ساتھ پاکر ایسی خوش ہوتیں کہ کوئی دیرینہ سہیلی مل گئی ہو۔اس کے ساتھ گڑیا گڑیا کھیلتیں، دوڑ لگاتیں، کھیتوں میں تتلیوں کے پیچھے دوڑتیں۔بہت بہت خوش ہوتیں۔
کہ ایک دن وسیم کے ابو ایسے سوئے کہ پھر سویرا نہ ہوا۔کفن دے کر جب اماں کو سامنے لایا گیا تب بھی اس کی غائب دماغی کے آگے پہلے تو بس بیٹھی رہیں اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر صبا کو تھا ۔ دلدوز چیخ کے ساتھ اس نے ہاتھ پیر چلانے شروع کئے۔بلند آواز سے رونے لگیں اور مٹھیاں بھینچ لیں۔کچھ منٹ نہ گزرے کہ دیوار پر سر مار کر خود کو لہولہان کر لیا۔صبا کے ساتھ وسیم اور ملازمہ بھی آگے بڑھے پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ایسی خوفناک حالت میں وہ دیورانی کی طرف دوڑیں اور اس کے بال پکڑ کر کھینچنے لگیں۔بڑی مشکل سے بالوں کو چھڑایا اور مغلظات کا طوفان برپا ہو گیا۔ صبا بھاگم بھاگ بیڈروم سے نیند کا انجکشن تیار کر، لے آئی اور کسی طرح وسیم نے کنٹرول کر انھیں لگوایا پھر وہ ہوش وخرد سے بیگانہ ہوگئیں۔وسیم کاندھوں پر اسے کمرے میں لے آیا۔ لیکن دیورانی کی زبان پر قابو نہ تھا۔سارے سوگواران بس ٹک ٹک دیدم کی کیفیت میں مبتلا تھے۔آخر کسی طرح ان کے میاں نے کھری کھری سنائی کہ موقع تو دیکھو کہ ابھی بھائی کا لاشہ آخری سفر کا منتظر اور گھر کی یہ حالت!!!
میت میں آئے لوگوں نے بھی تدفین کے بعد اپنے گھر کی راہ لی کہ اب اس گھر میں مشفق ہستیوں کا کال پڑ گیا تھا۔مزارعین کی آنکھیں خون کے آنسو رو رہی تھیں پر کیا کرتے کہ حالات سازگار نہ تھے۔دوسرے دن بھی چچی کا حال ویسا ہی رہا۔جہاں اماں کو ہوش آتا تو پھر بے قابو ہو جاتیں اور وسیم کے ابو! کہاں ہیں آپ؟ کہتیں، جواب نہ پاکر کر چیختیں اور دیوار پر سر مارنا شروع کر دیتیں۔صبا کی کوشش یہی رہتی کہ انجکشن سے ان کے ذہنی تناؤ کو کم کیا جائے ۔کبھی کامیاب ہوتی اور کبھی ویسے ہی بے حال۔ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھنے کی بھی نوبت آ گئی ۔دل پر آری چلتی لیکن قابو پانے کے لئے کرنا پڑتا۔واحد علاج اسپتال جاکر بجلی کے شاک سے گزاریں لیکن نہ وسیم کو یہ گوارا تھا نہ صبا اس کی اجازت دیتی کہ ایک بار اس کا تانتا چل نکلے تو بار بار مریض کو اس کرب سے گزرنا ہوتا ہے۔
اب وقت آچکا تھا۔صبا نے وسیم سے بتا دیا کہ اب صرف ماحول کی تبدیلی ہی انھیں کچھ بہتر بنا سکتی ہے ۔وسیم کے آگے اور کوئی راستہ نہ رہا۔سوئم کے دن ہی اس نے چچا کے آگے اپنی بات رکھی۔اس نے بتایا :” چچا جان! آپ میرے والد کی جگہ ہیں۔آپ کی عزت و تکریم میرے لئے مقدم ہےلیکن گھر کے حالات سے آپ باخبر ہیں۔اب میں کیا کروں آپ ہی مشورہ دیجئے۔اماں کو میں اس حالتِ زار سے نکالنا چاہتا ہوں۔بتائیے کیا کروں؟ ” چچی نے جوں ہی سنا فوراَ لقمہ دیا ” کیا کروں کیا؟ پاگل خانے بھجوا دو یا اسپتال ڈال آؤ اور کیا کرو؟ اور تم اور بہو اپنا سوچو” چچا نے ڈانٹ کر کہا :” زبان ہے کہ آری! جو منھ میں آئے بکتی رہتی ہو۔کچھ وقت کا لحاظ بھی کر لیا کرو۔” لیکن جن کی آنکھوں کا پانی اُتر جائے وہ کہاں کسی کی سنتے ہیں۔ان کی بڑ بڑاہٹ جاری رہی اور آخر چچا نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ ” اگر ماحول بدلنا چاہتے ہو تو وہ دو گاؤں دور پار کی ارضی ہے وہیں چلے جاؤ اور اپنا نیا جیون شروع کرو۔حالات ٹھیک ہوں تب دیکھ لیں گے۔” وسیم سوچ میں پڑ گیا کہ وہ قطعہءارضی اتنی زرخیز بھی نہیں لیکن میری محنت، لگن اللہ کے حکم سے اسے ہرابھرا بنا دے گی۔اس نے حامی بھر لی اور اماں و صبا کے ساتھ وہاں سے کوچ کر لیا۔وقتِ رخصت چچا، چچی سے کہہ دیا :” جب تک آپ لوگ یہاں ہیں یہ آپ کی لیکن جس دن اسے فروخت کرنے کا ارادہ کریں گے میں اپنا حصہ لینے آجاؤں گا کہ وراثت اللہ پاک کا عطیہ ہے۔
یوں وہ دور پار کا ہو گیا ۔ دور پار کہاں؟ بس دو گاؤں کے ہی فاصلے تھےلیکن دلوں کی دوریوں نے دریا کے دو پاٹوں میں تقسیم کر دیا تھا جب کہ وہ کبھی تقسیم کا خواہاں نہ تھا۔
ذہن کو کچھ سکون ملا تو صبا نے بھی اماں کی طرف مکمل طور پر علاج شروع کیا۔جگہ و حالات بدلے تو دوائیں بھی اثر دکھانے لگیں اور اماں کی طبیعت میں بھی کچھ فرق نظر آنے لگا ۔اب ہیجانی دورے موقوف تو نہ ہوئے لیکن کچھ کم ضرور ہو گئے ۔
ماہ وایام کا سفر جاری رہا۔اماں یہاں بھی بچوں کے ساتھ گلی محلے میں کھیل کر خوش ہوتیں ۔تالیاں بجاتیں۔بچے بھی ان سے مانوس ہو چلے تھے۔ایک دن گر کھیلنے نہ آتیں تو بچے جاننے کے لئے دستک دے دیتے۔بے بی اماں ان میں مقبول ہو گئی تھیں۔صبا اکثر دور کھڑی رہ کر یا دریچوں سے جھانک کر ان کی حرکات وسکنات دیکھتی رہتی۔پیر فلک آسمان خاموشی سے جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ کیا اماں کی واپسی ممکن ہے؟ سر سبز زمین جس پر وسیم کی محنت رنگ لا رہی تھی اس سے بھی وسیم کی خاموش سرگوشیاں کہہ اٹھتیں ” اماں! واپس آجاؤ” لیکن نٹ کھٹ بچے بھی کہاں بڑوں کے دلوں کے حالِ زار سے واقف ہوتے ہیں ۔
صبا ایک سائیکیاٹرسٹ تھی، وہ جانتی تھی کہ زندگی کا کوئی کمزور لمحہ یا بڑا صدمہ ان کی زیست کی شمع گُل کرنے کے لئے کافی ہوگا۔وہ انھیں ہر طرح سے خوش رکھتی۔ایک دن جب وسیم پرانی یادیں، وہ بچپن کے واقعات جو سینت سینت کر تصاویر کی شکل میں رکھے گئے تھے انھیں دیکھ رہا تھا۔اماں بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں کہ آس کے پنچھی نے ایک زبردست اُڑان لی ۔اماں نے ایک تصویر اٹھا لی اور اسے بڑے غور سے دیکھنے لگیں۔تصویر کو کبھی الٹا کرتیں کبھی سیدھا۔مختلف زاویوں سے اس نے دیکھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔تصویر میں ابو ساتھ تھے اور اماں دلہن کے روپ میں ساری کا پلّو سر پر رکھے ہوئے تھیں۔زیوروں نے ان کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہوا تھاماتھے کا ٹیکہ اور لونگ کا لشکارا اپنی آب وتاب سے ان کی سج دھج کو دوبالا کر رہا تھا۔سونے کے کنگنوں کے ساتھ دھانی کانچ کی چوڑیوں کی کھنک کو شاید اماں نےآج پھر سے محسوس کر لیا تھا ۔منظر میں دور گگن کا چاند ان کی محبت کا گواہ تھا اور حویلی کے خوبصورت حوض میں امی کا ہاتھ جس کے پانی میں چاند کا عکس دکھائی دے رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا گویا اماں نے پانی میں چاند کو چھو لیا ہو۔پرانی تصویر نے انھیں اس جگہ کھڑا کر دیا جہاں سے انھوں نے شبستانِ حیات کی دہلیز پار کی تھی۔ہچکیوں کے درمیان وہ اس تصویر کو دیکھنے لگیں ساتھ دوسری تصویر جس میں کالے لانبے بالوں کے ساتھ بنگالی ساری پہن رکھی تھی اسے نہارنے لگیں اور وسیم کو ہاتھ کے اشارے سے بتایا یہ میں ہوں اور میرے بال!!! اور ہاتھوں نے بالوں کو تلاش کرنا چاہا لیکن وہ چمکتے بال تو کب کے اس سے رخصت ہو چکے تھے۔بس وہ دیکھتے ہی رہ گئی ۔ہاتھ کے اشارے سے بالوں کے بارے میں چہرے پر سوالیہ نشان ابھرے اور یک لخت اس نے خود کو سمیٹا اور زمین پر ڈھیر ہوگئی ۔وسیم کی چیخ سن کر صبا دوڑتی ہوئی آئی پر جانے والی نے عدم کی دنیا آباد کر لی تھی۔
گلی کے نکڑ کا بورڈ جہاں گاؤں کے لوگوں کو انتقال پر ملال کی اطلاع دی جاتی ہے، وہاں درج تھا کہ ” مہرانساء بیگم، وسیم زمیندار کی امی کی تدفین عصر بعد گاؤں کے بڑے قبرستان میں کی جائے گی۔” اس تحریر کو پڑھ کر لوگ ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے۔” یہ مہرالنساء کون ہیں؟ ” چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ ہواؤں نے یہ بات وسیم تک پہنچا دی۔غم کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے اس نے خود کو نکالا اور بورڈ تک آکر مہرالنساء نام کو اپنے ہاتھوں سے ہٹا دیا اور اس کی جگہ ” بےبی اماں” کا نام جگمگانے لگا۔ہر گھر کا بچہ بچہ اب اس تدفین میں شریک ہو مٹھی بھر مٹی ڈال رہا تھا۔
——————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Best Urdu Short Story , Fiction
Talash Ahd e Rafta ki Story by Fareeda Nisar
Articles
تلاش عہد رفتہ کی
فریدہ نثار احمد انصاری