کمال بے خبری کو خبر سمجھتے ہیں
تری نگاہ کو جو معتبر سمجھتے ہیں
فروغ طور کی یوں تو ہزار تاویلیں
ہم اک چراغ سر رہ گزر سمجھتے ہیں
لب نگار کو زحمت نہ دو خدا کے لیے
ہم اہل شوق زبان نظر سمجھتے ہیں
جناب شیخ سمجھتے ہیں خوب رندوں کو
جناب شیخ کو ہم بھی مگر سمجھتے ہیں
وہ خاک سمجھیں گے راز گل و سمن تاباںؔ
جو رنگ و بو کو فریب نظر سمجھتے ہیں
گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے
بہار آئی تو گلشن میں دام بھی آئے
ہمیں نہ کر سکے تجدید آرزو ورنہ
ہزار بار کسی کے پیام بھی آئے
چلا نہ کام اگرچہ بہ زعم راہبری
جناب خضر علیہ السلام بھی آئے
جو تشنہ کام ازل تھے وہ تشنہ کام رہے
ہزار دور میں مینا و جام بھی آئے
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے تاباںؔ
رہ حیات میں ایسے مقام بھی آئے
ہر موڑ کو چراغ سر رہ گزر کہو
بیتے ہوئے دنوں کو غبار سفر کہو
خوں گشتہ آرزو کو کہو شام میکدہ
دل کی جراحتوں کو چمن کی سحر کہو
ہر رہ گزر پہ کرتا ہوں زنجیر کا قیاس
چاہو تو تم اسے بھی جنوں کا اثر کہو
میری متاع درد یہی زندگی تو ہے
نا معتبر کہو کہ اسے معتبر کہو
یہ بھی عروج رنگ کا اک معجزہ سہی
پھولوں کی تازگی کو فروغ شرر کہو
دانش وران حال کا تاباںؔ ہے مشورہ
ہر منظر جہاں کو فریب نظر کہو
بستی میں کمی کس چیز کی ہے پتھر بھی بہت شیشے بھی بہت
اس مہر و جفا کی نگری سے دل کے ہیں مگر رشتے بھی بہت
اب کون بتائے وحشت میں کیا کھونا ہے کیا پایا ہے
ہاتھوں کا ہوا شہرہ بھی بہت دامن نے سہے صدمے بھی بہت
اک جہد و طلب کے راہی پر بے راہروی کی تہمت کیوں
سمتوں کا فسوں جب ٹوٹ گیا آوارہ ہوئے رستے بھی بہت
موسم کی ہوائیں گلشن میں جادو کا عمل کر جاتی ہیں
روداد بہاراں کیا کہئے شبنم بھی بہت شعلے بھی بہت
ہے یوں کہ طرب کے ساماں بھی ارزاں ہیں جنوں کی راہوں میں
تلووں کے لیے چھالے بھی بہت چھالوں کے لیے کانٹے بھی بہت
کہتے ہیں جسے جینے کا ہنر آسان بھی ہے دشوار بھی ہے
خوابوں سے ملی تسکیں بھی بہت خوابوں کے اڑے پرزے بھی بہت
رسوائی کہ شہرت کچھ جانو حرمت کہ ملامت کچھ سمجھو
تاباںؔ ہوں کسی عنوان سہی ہوتے ہیں مرے چرچے بھی بہت
—————————————-