Selected Poetry of Faiz Ahmad Faiz

Articles

فیض احمد فیض


انتخابِ کلام فیض احمد فیض

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکم شہر بھی مجمع عام بھی
تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

——————————————————————–

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

موتی ہو کہ شیشہ جام کہ در
جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا

تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

شاید کہ انہیں ٹکڑوں میں کہیں
وہ ساغر دل ہے جس میں کبھی
صد ناز سے اترا کرتی تھی
صہبائے غم جاناں کی پری

پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ ساغر لے کر پھوڑ دیا
جو مے تھی بہا دی مٹی میں
مہمان کا شہپر توڑ دیا

یہ رنگیں ریزے ہیں شاید
ان شوخ بلوریں سپنوں کے
تم مست جوانی میں جن سے
خلوت کو سجایا کرتے تھے

ناداری دفتر بھوک اور غم
ان سپنوں سے ٹکراتے رہے
بے رحم تھا چومکھ پتھراؤ
یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے

یا شاید ان ذروں میں کہیں
موتی ہے تمہاری عزت کا
وہ جس سے تمہارے عجز پہ بھی
شمشاد قدوں نے رشک کیا

اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت رہزن بھی کئی
ہے چور نگر یاں مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی

یہ ساغر شیشے لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط
چبھتے ہیں لہو رلواتے ہیں

تم ناحق شیشے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

یادوں کے گریبانوں کے رفو
پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک بخیہ ادھیڑا ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے

اس کار گہ ہستی میں جہاں
یہ ساغر شیشے ڈھلتے ہیں
ہر شے کا بدل مل سکتا ہے
سب دامن پر ہو سکتے ہیں

جو ہاتھ بڑھے یاور ہے یہاں
جو آنکھ اٹھے وہ بختاور
یاں دھن دولت کا انت نہیں
ہوں گھات میں ڈاکو لاکھ مگر

کب لوٹ جھپٹ سے ہستی کی
دوکانیں خالی ہوتی ہیں
یاں پربت پربت ہیرے ہیں
یاں ساگر ساگر موتی ہیں

کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے لٹکاتے پھرتے ہیں
ہر پربت کو ہر ساگر کو
نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں

کچھ وہ بھی ہیں جو لڑ بھڑ کر
یہ پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی کے اٹھائی گیروں کی
ہر چال الجھائے جاتے ہیں

ان دونوں میں رن پڑتا ہے
نت بستی بستی نگر نگر
ہر بستے گھر کے سینے میں
ہر چلتی راہ کے ماتھے پر

یہ کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں

سب ساغر شیشے لعل و گہر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
اٹھو سب خالی ہاتھوں کو
اس رن سے بلاوے آتے ہیں

———————————————————————

صبح آزادی (اگست 47)
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

———————————————————————

ایرانی طلبا کے نام
یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی
اشرفیاں چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی ہیں
یہ کون جواں ہیں ارض عجم
یہ لکھ لٹ
جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اے ارض عجم، اے ارض عجم!
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے
ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان ہاتھوں کی بے کل چاندی
کس کام آئی کس ہاتھ لگی
اے پوچھنے والے پردیسی
یہ طفل و جواں
اس نور کے نو رس موتی ہیں
اس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبح بغاوت کا گلشن
اور صبح ہوئی من من، تن تن،
ان جسموں کا چاندی سونا
ان چہروں کے نیلم، مرجاں،
جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی
پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر
یہ امن کی دیوی کا کنگن!

——————————————————————-