Sannata a Kashmiri Story by Bansi Nirdosh

Articles

سنّاٹا

بنسی نِردوش

 

 

جب میں نے یہ سنا کہ محی الدین کی بیوی اب اس دنیا میں نہیں رہی تو نہ جانے کیوں ایک لمحے کے لیے میں نے راحت محسوس کی۔لیکن دوسرے ہی لمحے میرے دل میں ایک ٹیس سی اُٹھی۔ ہاجرہ کی بھولی بھالی صورت میری آنکھوں کے آگے ناچنے لگی۔اس کی صورت،اس کی گھنی پلکیں اور دو بڑی بڑی آنکھیں۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ !وہ چھریرے بدن کی ایک سلونی لڑکی تھی۔اگرچہ وہ خوبصورت نہیں تھی۔مگر اس میں غضب کی کشش تھی اور یہی وجہ تھی کہ شادی سے پہلے محی الدین ہاجرہ پر ہزار جان سے فدا تھا۔
شادی سے پہلے اور شادی کے بعد میں نے دونوں کی زندگی کا بڑی نزدیک سے مشاہدہ کیا تھا۔ہاجرہ میرے ہی محلے کی لڑکی تھی۔بچپن سے ہم سب ایک ساتھ کھیلتے تھے۔محی الدین سے بھی میرا بچپن سے دوستانہ تھا۔جب ہاجرہ اور محی الدین کی شادی کی بات چلی تو مجھے یقین تھا کہ یہ شادی کامیاب گرہستی کی مثال ثابت ہوگی۔لیکن میرا اندازہ غلط نکلا۔شادی کے بعد میاں بیوی میں گہرا اعتماد ،خودسپردگی اور قربانی کے جو جذبات ابھرکر آنے چاہیے تھے وہ اس جوڑے میں میں نے بالکل نہیں پائے۔ان میں آئے دن اَن بَن رہتی اور جھگڑے ہوتے۔ہاجرہ اکثر ساس اور نند کی جلی کٹی سننے کے بعد میکے چلی آتی اور محی الدین دوسرے دن ہی زبردستی اسے اپنے گھر واپس لے آتا۔
مجھے محی الدین کی یہ بے صبری پسندنہیں تھی۔میں نے کئی بار کہا بھی۔’’بھئی ،جب تم دونوں کے مزاج آپس میں ملتے نہیں ہیں تو تم اسے طلاق کیوں نہیں دیتے؟‘‘وہ میری بات سن کر ہنس دیتااور کہتا، ’’تو کیاتمہارے خیال سے مجھے ہاجرہ سے محبت نہیں ہے؟میں تو محبت میں اپنے آپ کو ختم کردینے کا قائل ہوں۔ مگر میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ جس کے لیے میں مِٹ جائوں وہ بھی میرے جذبات کی قدر کرے۔۔۔۔۔۔۔بھائی میرے،تمہیں کیسے یقین دلائوں،یہ بھی تمہیں اتنا نہ چاہتی ہوگی جتنا میں اسے چاہتا ہوں۔‘‘
اس بات پر میں زور سے ہنس پڑا۔میری بیوی شرماگئی۔کچھ دیر رک کر محی الدین نے پھر بات کا انداز بدلا،’’خدا کی قسم،میں تو اسے پوجنا چاہتا ہوں۔جس طرح تم لوگ مندر میں کسی مورت کو پوجتے ہو۔‘‘
میری بیوی کچھ پھیلے کپڑے سمیٹ رہی تھی۔کپڑوں کی گٹھری بغل میں دباکر وہ دروازے کے پاس پہنچ کر بولی،’’اچھا تو تم بیوی نہیں پتھر کی مورت چاہتے ہو۔‘‘شوبھا کا یہ جواب سن کر میں خود دنگ رہ گیا۔محی الدین نے اس کا کیا مطلب لیا میں کہہ نہیں سکتا،کیونکہ اس بات چیت کے بعد وہ زیادہ دیر تک میرے یہاں نہیں رُکا ۔
اب چونکہ میں نے سنا،ہاجرہ مر گئی،مجھے راحت سی محسوس ہوئی کہ چلو اچھا ہوا،اس جھگڑے کا خاتمہ ہوگیا۔اب محی الدین کو نئے سرے سے اپنی زندگی گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ ہاجرہ کے انتقال کے دوسرے دن ہی میں اس کے گھر گیا۔وہ گھرپر نہیں تھا۔میں نے اس کی ماں سے پوچھا تو اس نے روکھا سا جواب دیا۔اس کی بہن سے پوچھا تواس نے بھی ٹھیک سے جواب نہ دیا۔بس اتنا کہا کہ جاکر مزار پر دیکھئے اسے۔
’’مزار پر!مگر،اب وہاںکیا لینے گیا ہے؟‘‘میں نے حیرانی ظاہر کی۔
’’یہ تو مجھے نہیں معلوم۔‘‘اس کی ماں نے کہااورسسکیاں لینے لگی۔
میں نے ہمدردی کے لہجے میں پوچھا،’’مگر آپ رو کیوںرہی ہیں؟‘‘
’’کیا کروں بیٹا،اس موئے کو اسی دن کے لیے جینا تھا۔‘‘محی الدین کی بہن ماں کی بات کاٹ کر بیچ میں بول پڑی۔’’کل ہاجرہ کو دفناکر جب لوگ واپس آئے تو محی الدین نے مارمارکر ماں کا بھرکس نکال دیا۔‘‘
’’ارے! کیا کہہ رہی ہو تم؟ایسا پاگل پن اس نے کیا۔مگر کیوں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’مجھے کیا معلوم،اب تم ہی سوچو بیٹا میں کیااس کی دشمن تھی۔خیر مرنے والی تو مرگئی، مگر اسے تو اپنی زندگی بسانی ہے۔‘‘
محی الدین نے جب بھی ہاجرہ کے بارے میںمجھ سے بات کی تو ہمیشہ گھٹن اور پریشانیوں کو ہی اجاگر کیا۔وہ زور دے کر کہتا،’’بھئی ساس اور نند کے ساتھ اس کی بنتی نہیں ہے تو اس کا بدلہ وہ مجھ سے کیوں لیتی ہے؟‘‘
میں روکھاسا جواب دیتا،’’بھائی ،کیوں اپنی جان مصیبت میں ڈالے ہوئے ہو۔ تمہاری برادری میں تو ایسا ہوتا ہی رہتا ہے،شادیاں ہوتی ہیں،ٹوٹتی ہیں،پھر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ہم لوگ چاہتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرسکتے۔سماج اور برادری ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔شاید ہی ایسی کچھ مثالیں ہوں،ورنہ اپنی قسمت سے بری بھلی جیسی بھی بیوی ملتی ہے۔اسی سے نباہ کرنا پڑتاہے۔‘‘
مگر میرے اس خیال سے وہ کبھی مطمئن نہیں ہوا۔وہ پلٹ کر جواب دیتا،’’تمہاری سوچ میں خرابی ہے میرے بھائی۔ہاجرہ تو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیاری ہے،لیکن ہے ضدی اور لاپرواہ۔ اس کی یہی لاپرواہی میری امنگوں کو کچل دیتی ہے،نہیں تو اس میں اور کوئی کمی نہیںہے۔‘‘
محی الدین کا یہ عجیب برتائو میری سمجھ میں بالکل نہیں آرہا تھا۔وہ اپنی بیوی سے لڑتا تھا،کئی کئی دنوں تک اس سے بات نہیں کرتا۔مگر پھر بھی اسے طلاق دے کر الگ سے زندگی بسر کرنے کا خیال وہ برداشت نہیں کرتاتھا۔میرے دل میں یہ بات یقین کی طرح گھر کرچکی تھی کہ وہ یہ سب ناٹک کررہا ہے، اسے ہاجرہ سے کوئی لگائو یا محبت نہیں ہے۔وہ اس سے اکتا چکا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک روز میری بیوی نے بھی اسی طرح کی بات اس سے کہی تھی،’’تم لوگ عورت کو اپنے پیر کی جوتی بھی نہیں سمجھتے۔تم لوگوں کی زندگی میں پیار نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ؟‘‘
’’کیا کہتی ہو بھابھی؟‘‘اس نے غمگین ہوکر جواب دیاتھا،’’تم اور ہم میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ تم غلط سمجھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں تو ہاجرہ کی پوجا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیوں جھوٹ بولتے ہو؟جیسے میں کچھ نہیں جانتی۔‘‘میری بیوی نے جواب دیاتھا۔
یہ سوال میرے دماغ میں برابر سے گھومتارہا کہ اس کی ماں سے پوچھوں کہ ہاجرہ کیسے مری ہے؟مگر پوچھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔دل ہی دل میں مجھے اس پر غصہ آرہاتھا۔بھلا اس بات کو بھی کوئی مانے گا کیاکہ وہ اپنی بیوی کو کتنا چاہتا تھا،اب اس کی جدائی میں پاگل ہوا جارہاہے۔محلے والے اگر اس کی پاگل حرکتیں دیکھ کر کچھ کہتے بھی ہوں گے تو غلط نہیں کہتے ہوں گے۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میں قبرستان گیا۔محی الدین وہاں پر ایک قبر کے پاس زمین پر لکیریں کھینچ رہاتھا۔قبر پر پھیلی ہوئی تازہ مٹی میں سوندھی سوندھی خوشبوآرہی تھی۔مجھے دیکھ کر وہ دیر تک میری آنکھوں میں جھانکتا رہااور بڑے درد بھرے لہجے میں بولا،’’یارہاجرہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔‘‘یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اسکی روتی صورت دیکھ کر میرا دل ذرا بھی نہیں پگھلا۔مجھے تو اس کے اس انداز میں بھی بناوٹ کا احساس ہونے لگا ۔کوئی اور موقع ہوتا تو شاید میرے منہ سے ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑتا۔لیکن میں نے ضبط سے کام لیا اور کہا،’’جو ہوناتھا،وہ ہوگیا،اب رونے دھونے سے کیا فائدہ؟‘‘
’’یہ تم کہہ رہے ہو!میری تو ساری دنیا لٹ گئی۔مجھے اس کے بغیر ہر چیز کاٹنے کو دوڑتی ہے۔کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔‘‘اس نے کہا اور سونی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’شروع شروع میں ایسے ہی لگتاہے۔‘‘میں نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا اور ساتھ میں ایسی بات بھی کہہ دی جو شاید مجھے نہیں کہنی چاہیے تھی۔میں نے کہا،’’تمہاری بے چینی کی وجہ ہاجرہ کی موت نہیں بلکہ تنہائی ہے،تمہیں اب دوسری شادی کرلینی چاہیے۔‘‘
’’کیابکواس کرتے ہو؟‘‘وہ مجھے کاٹنے کو دوڑپڑا۔
’’ناراض کیوں ہوتے ہو؟‘‘میں نے سنبھل کر جواب دیا۔’’خدا نے تمہاری سن لی۔ ہاجرہ ہمیشہ کے لیے میٹھی نیند سوگئی۔اب کس بات کا ڈر!تم تو روزروز کے جھگڑے سے تنگ آگئے تھے۔‘‘
’’نہیں،نہیں میں تنگ نہیں آیاتھا۔میں تو اس کی محبت کا بھوکا تھا۔اس کے بغیر اب میری زندگی میں کچھ بھی باقی نہیں رہا۔‘‘
’’جذبات میں بہنے کی کوشش مت کرو۔‘‘میں نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ صرف جذبات نہیں ۔‘‘اس کی آواز بھراگئی،’’میں نے اسے سمجھنے میں غلطی کی اور اس نے مجھے۔اب میں جان گیاکہ گھر کے جھمیلے میں پڑکر ہاجرہ کو کسی بات کا ہوش نہیں رہتا تھا۔ کبھی اس کے بال سلیقے سے سنوارے ہوئے نہ رہتے،کبھی کپڑے میلے ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہی بات میرے جذبات کو کچل کر رکھ دیتی تھی۔‘‘یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک مزار کی اس تازہ مٹی پر جس میں ہاجرہ بڑے آرام کی نیند سورہی تھی، بڑی محبت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔
میں اب کسی سوال جواب میں نہیں پڑنا چاہتاتھا۔پھر بھی دھیان بٹانے کے لیے میں نے کہا، ’’دراصل تم ہاجرہ سے محبت کی وہی ترنگ پاناچاہتے تھے جو شادی سے پہلے تم دونوں میں موجود تھی۔لیکن محبت صرف آزاد ماحول میں پھلتی پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں قدم قدم پربندشیں ہوں۔ سماجی حد بندیاں ہوں،وہاں محبت کی ترنگ کتنی ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔کتنی ہی امنگ بھری کیوں نہ ہو،دب کر رہ جاتی ہے اور دو جوان دلوں کے ارمانوں کا خون ہونے میں دیر نہیں لگتی۔‘‘
اس نے میری باتیں غور سے سنیں اور کہا،’’اب میں زیادہ جی نہ سکوں گا۔میں نے اپنی جگہ چن لی ہے۔یہیں پر،اسی جگہ میں نے اپنے ہاتھوں سے ہاجرہ کو منوں مٹی کے ڈھیر تلے دفن کردیا اور اب اس جگہ یہاں پر میری قبر بن جائے تو اس پر تم اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈال دینا۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو تم؟‘‘میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔میں یہ جان گیاتھا کہ اس کی آواز اس حد تک رُندھی جارہی ہے کہ اگر اس سے اور تکرار کی جائے تو شاید وہ پھوٹ پڑے۔
’’ہاں،میں سچ کہتا ہوں۔بالکل سچ کہتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر وہ سچ مچ بچوں کی طرح رو پڑا۔
بڑی منتوں کے بعد اسے میں گھر لے گیا۔جب میں اس کے گھر سے نکل کر گلی میں پہنچا تو اس محلّے کے ایک بزرگ نے مجھے آواز دی اور کہا،’’کیوں بھئی،محی الدین کو لے آئے؟‘‘
میںنے ’ہاں ‘کے انداز میں سرہلایا۔اُن کی بھنوئیں تن گئیں اور وہ مجھے زبردستی روکتے ہوئے بولے، ’’تم اس کے دوست ہو؟‘‘میں نے پھر ’ہاں‘میں سر کو جُنبش دی۔تب انہوں نے کہا،’’کسی نئی لڑکی پر نظر ہوگی اس کی!‘‘یہ کہہ کر وہ ہنس پڑے۔
میں نے پلٹ کر جواب دیا۔’’آپ غلط سمجھتے ہیں۔وہ تو دوسری شادی کے نام سے بھی بیزار ہے۔‘‘
’’یہ تو اس کی مکاری ہے۔کم بخت نے ایک محنتی لڑکی کا خون کردیا۔اب اس بات کو دبانے کے لیے یہ ناٹک کررہا ہے۔‘‘
’’آپ اسے ناٹک کہتے ہیں؟‘‘میں نے حیرانی سے کہا۔
’’اور نہیں تو کیا؟میں نے دنیا دیکھی ہے لڑکے۔اگر یہ ناٹک نہ کرے تو بھلا اسے دوسری بیوی کیسے ملے گی؟‘‘
’’کیوں نہیں مل سکتی؟جوان ہے اور کمائو بھی۔کوئی بھیک منگا تو نہیں ہے۔‘‘
’’کچھ بھی ہو۔‘‘اس بوڑھے نے اعتماد سے کہا،’’اب کوئی آنکھ موند کر اپنی بیٹی کو کنوئیں میں دھکیل دے یہ بات الگ ہے۔مگر پھر بھی لڑکی والے یہ تو معلوم کریں گے ہی کہ ہاجرہ مری کیسے؟کھانسی بڑھ جانے سے بھلا کوئی مرتا ہے؟‘‘
اس بوڑھے کی باتوں نے محی الدین کے بارے میں مری رائے اور پختہ کردی۔میں سوچنے لگا بھلا کھانسی بھی اتنی خطرناک بیماری ہوسکتی ہے کہ کسی کے لیے جان لیوا ثابت ہو۔وہ کہتا گیا ، میں سنتا گیا۔’’تم نہیں جانتے۔روز ہمارے نل پر پانی بھرنے آتی تھی۔روز میںنے اسے کھانستے ہوئے دیکھا۔ اس کی آنکھیں آنسوئوں میں ڈوبی دیکھیں اور اس جانور نے کبھی اس کی پرواہ تک نہیں کی اور تم اس کے دوست ہو!‘‘آخری جملہ حقارت بھراتھا۔میں وہاں سے بھاگناچاہتا تھا۔مگر بھاگ نہ سکا۔میرے قدم دھیرے دھیرے اٹھنے لگے جیسے سامنے گہرے گڑھے ہوں اور مجھے بچ بچ کر چلنا پڑرہا ہو۔
اس بوڑھے کی باتوں سے مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ محی الدین سے قبر پر کی گئی ساری باتیں میرے دماغ سے اتر گئیں اور میں اس شک میں مبتلا ہوگیا کہ سچ مچ معمولی کھانسی کسی کی موت کا سبب نہیں بن سکتی۔ہاجرہ کن حالات میں مری ،یہ مجھے اس کے میکے والوں سے بھی معلوم نہ ہوسکا۔ ہاں، اس دن کے بعد میں محی الدین سے نہیں ملا۔ایک دن اس کی ماں میرے گھر آئی اور شکایت کی کہ میںنے اپنے دوست کو بھلادیا ۔میں نے کہا،’’نہیں،ایسی کوئی بات نہیں ہے۔دراصل،میں کام میں اتنا مصروف رہا کہ فرصت ہی نہ ملی اس سے ملنے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
محی الدین کی ماں نے اپنے کالے برقعے کی جیب سے ایک تصویر نکالی اور میرے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے سوال کیا،’’کیسی ہے لڑکی؟‘‘
’’صورت سے تو بھلی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘میں نے جواب دیا اور خاموش ہوگیا۔
’’ہاں،بڑی خوبصورت ہے،محی الدین کے لیے میں نے اس لڑکی کے ماں باپ سے بات پکی کردی ہے۔‘‘
’’کیا محی الدین نے یہ تصویر دیکھی ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’اس نے بھی دیکھی مگر کوئی جواب نہیں دیا۔کہنے لگا اب تو میری شادی قبر سے ہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب تم ہی بتائو بیٹا ایسی باتیں کب تک چلیں گی؟‘‘
میری بیوی شوبھا ناحق اس کی ہاں میں ہاں ملاتی رہی،مگر میں سب کچھ چپ چاپ سنتا رہا۔ میری اداسی دیکھ کر وہ شوبھا سے کہنے لگی،’’اب تم ہی بتائو،ہاجرہ کو مرے ہوئی کئی ہفتے بیت گئے۔ کئی گھرانے زور دے رہے ہیں۔سوچتی ہوں بہو جلدی سے گھر میں آئے۔محی الدین کا جی بھی بہل جائے گااور مجھے بھی اس بڑھاپے میں آرام مل جائے گا۔ہاجرہ گھر آئی تو نہ زندگی میں آرام پایا اور نہ دوسروں کو یہ لگا کہ اپنے گھر میں بھی بہو آگئی ہے۔دوسروں کو دیکھتی ہوں تودل رواٹھتا ہے۔ ان کے یہاں بہو آئی ہے تو جیسے سونے سے گھربھر جاتا ہے۔میرا تو بسابسایا گھر اجڑگیا۔دونوں میں نبھ نہ سکی۔خدا نے میری دعا سن لی۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘یہ سن کر میں بہت تلملایا،مگر کچھ کہہ نہ سکا۔شوبھابھی جیسے انگاروں پر لوٹ رہی تھی۔اس بڑھیا کے لیے میرے دل میں بڑی عزت تھی۔مجھے اس میں پہلے ماں کا جو روپ نظر آرہا تھا،وہ اب کہیں نہ تھا۔اب مجھے یہ عام قسم کی دنیاوی عورت نظر آنے لگی۔
جب اس نے کہا،’’بیٹا ،اب تم ہی اسے سمجھائو۔وہ تمہاری ہی بات مانے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے،کل نہیں تو پرسوں تک میں ضرور آئوں گا۔‘‘میں نے جواب دیا۔
مگر میں کئی دنوں تک نہیں گیا۔میںنے دل میں فیصلہ کرلیا تھا کہ اب محی الدین کی صورت بھی نہ دیکھوں گا۔مانا کہ ہاجرہ سگھڑبہو نہ تھی۔مانا کہ وہ محی الدین کے جذبات کی قدر نہ کرتی تھی۔ مانا کہ اس میں اور بھی نقص تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ انسان تو تھی۔کیا وہ بازار کی ایک معمولی چیز تھی؟ جو پسند آئے تو رکھ لی ورنہ پھینک دی۔مجھے اس کی ایک ایک بات یاد آنے لگی۔ایک دن وہ میکے چلی آئی تھی۔میں نے اسے اپنی گلی میں سے گزرتے ہوئے دیکھا اور پوچھا،’’ہاجرہ ،تم پھر میکے چلی آئی؟‘‘
’’پھر کیا کروں بھائی صاحب!وہاں رہوں تو وہاں بھی چین نہیں۔یہاں بھی چین سے رہنے نہیں دیتے ہیں۔میں تو تنگ آگئی ہوں اس زندگی سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘یہ کہتے ہوئے اسے کھانسی کا دورہ پڑا تھا۔میں نے اسے سہارا دیا اور گھر کے دروازے تک لے گیا۔پھر انجان بنتے ہوئے پوچھا،’’آخر جھگڑے کی کوئی وجہ بھی تو ہو؟‘‘
’’معلوم نہیں،وہ چاہتے کیا ہیں؟ایک کولہو کے بیل کی طرح سارا دن گھر کے کام میں لگی رہتی ہوں ،اوپر سے تمہارے مہربان دوست کی جھڑکیاں بھی سنوں۔ہمیشہ یہی کہتے رہتے ہیں کہ میں پہلے کی طرح ان سے پیار نہیں کرتی ہوں۔بھلا بتائو،پیار اور کیسے کیا جاتا ہے؟گھر کا سارا کام کرنا، ساس اور نند کی ڈانٹ پھٹکار سننا،اس پر بھی وہ محبت کا ثبوت مانگتے ہیں ،میں تو بھائی صاحب امتحان دے کر ہارگئی۔اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔‘‘
ہاجرہ نے شاید سچی بات کہی تھی۔اس سے برداشت نہیں ہوسکا اور وہ اس دنیا سے اُٹھ گئی۔اب اس کی جگہ دوسری بہو کی تلاش ہورہی ہے۔
ان دنوں شادیوں کی بڑی دھوم دھام تھی۔کسی کسی محلے میں سہاگ گیت سننے میں آرہے تھے۔ جب میں دفتر سے لوٹا تو اپنے گھر کے دروازے پر تالا لگاہوا پایا۔پڑوسیوں نے بتایا کہ شوبھا اور ماں دونوں محی الدین کے گھر گئے ہیں۔مجھے بہت غصہ آیا۔میں نے ماں اور بیوی دونوں سے کہا تھا کہ محی الدین خود بھی اگر شادی کا دعوت نامہ دینے آئے تب بھی نہ جانا۔لیکن انہوں نے میرا کہنا نہیں مانا۔میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ ابھی اس کے گھر جاتا ہوں اور دونوں کو بھری مجلس سے زبردستی اٹھاکر لاتا ہوں۔محی الدین روکنا بھی چاہے گا تب بھی نہیں رکوں گا۔ایک دن اس کی ماں راستے میں ملی تھی اور میں نظریںبچاکر بازو میں ہٹ گیاتھا۔
محی الدین کے گھر کی طرف میں غصے میں چل پڑا۔میری سوچ کے برخلاف وہاں سنّاٹا تھا۔نہ جانے کہاں کہاں درجنوں کتّے آنگن میں جمع ہوگئے تھے۔آس پاس کے گھروں میں خاموشی تھی۔محی الدین کے مکان کے نچلے کمرے میں عورتوں کی بھیڑ تھی۔کھڑکیاں کھلی تھیں،مگر اندھیرے میں کوئی بھی صورت ٹھیک طرح سے پہچاننا مشکل تھا۔میں گھبرایا سا مکان کے اندر چلاگیا۔ شوبھا نے مجھے آتے ہوئے دیکھ لیاتھا۔وہ کمرے سے باہر نکل آئی ننگے پائوں۔اس کی آنکھیں گیلی تھیں۔ میرا دل دھک سے رہ گیا،’’کیا بات ہے؟‘‘میں نے افسردہ ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’تم نے سنا نہیں؟محی الدین کا انتقال ہوگیا۔‘‘وہ بولی۔
ایک لمحے کے لیے جیسے میری جان ہی نکل گئی ۔مجھ سے مزید کچھ سنا نہ گیا۔ میں دوڑتا ہوا قبرستان پہنچا۔وہاں پر بہت سارے لوگ سرجھکائے ہوئے کھڑے تھے۔محی الدین کی میت قبر میں اتاری جاچکی تھی۔قبر کی تازہ مٹی بے ترتیب پڑی تھی۔مولانا کچھ پڑھ رہے تھے۔میں نے مٹی کے ڈھیلے توڑتوڑ کر اس کی قبر پر پھیلا دیئے ،ان میں میرے آنسوبھی شامل تھے !!


ترجمہ: قاسم ندیم

کشمیری کہانی