سعادت منٹو کی ولادت لدھیانہ کے سبرمالہ ضلع کے پاپرودی گاؤں میں 11/مئی1912 میں ہوئی۔ والد کانام میاں غلام حسن تھا جو حکومت پنجاب کے محکمہئ انصاف میں سب جج کے عہدے پر فائز تھے۔ منٹو کی والدہ سردار بیگم، میاں غلام حسن کی دوسری بیوی تھیں۔ منٹو کومیٹرک کا امتحان مسلم ہائی اسکول، امرتسر سے پاس کرنے میں چار برس لگ گئے۔ تین بار فیل ہوئے اور آخر کار1931 میں یہ امتحان درجہ سوم میں پاس کیا۔ اردو کے مضمون میں برابر فیل ہوتے رہے تھے، چوتھی بار میٹرک تو پاس ہوگئے لیکن اردو کے مضمون میں فیل ہی رہے۔ انٹر کے طالبِ علم کی حیثیت سے پہلے ہندو سبھا کالج امرتسر میں داخلہ لیا اور اُس کے بعد ایم اے او کالج، امرتسر چلے گئے۔ انٹر تو نہ کرسکے البتہ1935میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچ گئے۔ لیکن تپ دق کا مریض ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی حکام نے انھیں کیمپس کے حدود میں رہنے سے منع کردیا۔ منٹو ایک بار پھر امرتسر واپس آگئے اور غازی عبد الرحمن کے اخبار ”مساوات“ میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کرلی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب منٹو نے عبدالباری علیگ کی حوصلہ افزائی کے طفیل 1933میں وکٹر ہیگو کے ناول The Last Days of Condemnکا ترجمہ ”سرگزشتِ اسیر“ کے نام سے اور آسکر وائلڈ کے ایک ڈرامے کا حسن عباس کے اشتراک سے ”ویرا“ کے عنوان سے کیا۔ منٹو کے تراجم اردو میں مقبول ہوئے اور انھوں نے ایک طرح سے راتوں رات شہرت حاصل کرلی۔ اِس شہرت سے منٹو کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ ایڈیٹر ملازم ہوگئے۔ اسی شہرت کے چلتے انھیں منورنجن پکچرز کی فلم ”بنجارہ“ لکھنے کا موقع بھی ملا۔ تاہم فلم مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ ادارہ بند ہوگیا اور فلموں میں لکھنے کا شوق منٹوکو ممبئی لے آیا۔ ممبئی کی فلم نگری کو شروع میں بطور فلم رائٹر منٹو کچھ زیادہ متاثر نہ کرسکے لہٰذا وہ ہفتہ وار فلمی اخبار ”مصور“ سے بطور ایڈیٹر منسلک ہوگئے۔اسی ہفتہ وار اخبار سے منسلک رہتے ہوئے منٹو نے دھواں، کالی شلوار، بو، کھول دواور ٹھندا گوشت جیسے افسانے تحریر کیے۔ ان افسانوں میں فحش نگاری کو بنیاد بناکر انجمن ترقی پسند مصنفین نے منٹو کو انجمن سے بے دخل کردیااور حکومت نے بھی منٹو پر مقدمے قائم کیے۔ مئی1938میں منٹو کا نکاح کشمیری خاندان کی ایک سادہ سی لڑکی صفیہ سے ہوا۔ شادی کے بعد منٹو ’سنے ٹون فلم کمپنی‘ سے منسلک ہوگئے اور اس کمپنی کے لیے انھوں نے فلم ’اپنی نگریا‘ لکھی۔ یہ فلم 1940 میں ریلیز ہوئی۔ فلم سوپر ہٹ ہوئی اور منٹو کی مالی مشکلات کچھ دنوں کے لیے حل ہوگئیں۔ ابھی فلم انڈسٹری میں منٹو کے قدم جم ہی رہے تھے کہ وہ جنوری 1948 میں لاہور ہجرت کرگئے۔ ایک بارپھر اُن کی معاشی حالت ڈانواں ڈول ہوگئی۔ اُن کا قلم رواں رہا لیکن معاشی مسائل تھے کہ الجھتے گئے۔ اِس پر مزید ستم یہ کہ اُن کی مخصوص سنک اور شراب کی لت نے انھیں کہیں کا نہ رکھا۔دو بار ذہنی امراض کے شفا خانے میں بھی داخل ہونا پڑا۔ معاشی اور ذہنی پریشانیوں نے ازدواجی زندگی پر بھی تلخ اثرات مرتب کیے تاہم اُن کی صابر و شاکر بیوی صفیہ نے ان تمام تلخیوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ آخری وقت میں منٹو کو اپنی بیوی کی اِس عظمت کا احساس ہوا اور 18/ جنوری1955کو مرتے وقت منٹو نے اُن سے کہا: ”اب یہ ذلت ختم ہوجانی چاہیے۔“ منٹو نے اپنا ادبی سفر وکٹر ہگو، اوسکر وائلڈ، چیکوف اور میکسم گورکی کی تخلیقات کے تراجم سے شروع کیا۔منٹو کاپہلا مطبوعہ افسانہ ”تماشا“ تھا جو ہفت روزہ ”خلق“ امرتسر میں 1933 میں شائع ہوا۔ جلیانوالہ باغ کے پس منظر میں لکھے گئے اس افسانے کو منٹو نے ’ابنِ آدم‘ کے قلمی نام سے لکھا تھا۔ منٹو کی ابتدائی تخلیقات پر ترقی پسندرویے اور رجحانات کے اثرات نمایاں ہیں۔ انھوں نے سماجی حقیقت پسندی اور کمیونزم کے اثرات بھی قبول کیے۔منٹو نے انسانی نفسیات اورتقسیم کے بعد گرتی ہوئی قدروں کو اپنا موضوع بنایا۔ کہیں کہیں پر منٹو نے انسانی زندگی کے معاشی مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔غرض کہ انسانی وجود اور بقا کا شاید ہی کوئی ایسا جزو رہا ہو گا جسے منٹو کے نوکِ قلم نے نہ چھوا ہو۔ انھوں نے طوائفوں کے حالات تحریر کرتے ہوئے جنسی غلامی کے موضوع کو لافانی بنا دیا۔منٹوکو اپنی بصیرت اور بصارت دونوں کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سعادت حسن منٹو کے بیش تر افسانے تھیم پر مبنی ہیں۔منٹوکا افسانوی عمل کسی سماجی یا ادبی گروہ کا حلیف بننے سے انکار کرتا اورایک نیااور منفرد تھیم تخلیق کرتا ہے۔اس امر کی ایک عمدہ مثال ان کا افسانہ جانکی ہے۔واحد متکلم کے ”نقطہئ نظر“میں لکھے گئے اس افسانے کا موضوع ”عورت کی محبت“ ہے اور تھیم یہ ہے:”عورت ایک آزاد و خود مختار وجود ہے۔وہ محبت کے فیصلے آزادانہ طور پر کرتی ہے اور اپنی ہر محبت میں پر خلوص ہوتی ہے۔“ واضح رہے کہ موضوع اور تھیم میں فرق ہوتا ہے اور اس فرق کا لحاظ اکثر نہیں رکھا گیا۔کسی افسانے کا موضوع ایک عام سچائی،رویہ،قدر،مسئلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اس لیے موضوع سے کسی افسانے کے امتیاز کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اس کے مقابلے میں تھیم کے ذریعے اس امتیاز کی طرف اشارہ ممکن ہے۔لہٰذا افسانے میں موضوع ”عام“ ہے،جبکہ تھیم خاص۔یہ دوسری بات ہے کہ ہر خاص تھیم میں ایک عمومی صداقت یا اصول بننے کا امکان ہوتا ہے۔افسانہ جانکی کے علاوہ بھی منٹو کے بیشتر افسانے اِس رجحان کے حامل نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانہ ’ہتک‘ کا موضوع جسم فروشی جیسی لعنت پر طنز ہے جبکہ اِس کا تھیم عورت کی عظمت ہے۔ اس تعلق سے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے تحریر کیا ہے کہ: ”جو چیز منٹو کے تخلیقی ذہن میں اضطراب پیدا کرتی ہے۔ وہ خریدی اور بیچی جاسکنے والی جنس نہیں بلکہ انسانی روح کا وہ درد و کرب ہے جو جسم کو بکاؤ مال بنانے سے پیدا ہوتا ہے یعنی انسانی عظمت کا سودا اور بے بسی اور بے چارگی کا گھاؤ جو وجود کو کھوکھلا اور زندگی کو لغو بنا دیتا ہے۔ مال کے دام تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن انسانی روح کی عظمت کے دام نہیں لگائے جا سکتے۔“(جدیدیت کے بعد:منٹو کی نئی قرأت۔ از: پروفیسرگوپی چند نارنگ۔ص ۰۱۳۔) منٹو کے افسانوں میں انسانی نفسیات کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔انسانی زندگی کی صورتحال اور فطرت نگاری کے علاوہ ان کے یہاں جو ایک اور اہم موضوع ملتا ہے وہ سماجی اور معاشی ناہمواری کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل ہیں۔ یہ مسائل انسانی دکھوں اور آشوب کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اس کے علاوہ جنسی ناآسودگی بھی منٹو کا من پسند موضوع ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جو ہولناک فسادات کی کہانیاں منظرعام پر آئیں وہ بھی منٹو کے افسانوں میں جا بجا ملتی ہیں۔ منٹو براہ راست ابلاغ میں یقین رکھتے تھے اور حقیقت پسندانہ اسلوب نگارش ان کے افسانوں کا طرہئ امتیاز ہے۔لیکن وہ موپساں کی طرح انسانوں کی بے بسی اور بے کسی پر خاموشی سے ماتم کناں نہیں ہوتے بلکہ مروجہ سماجی اور معاشی نظام کے جسم پر بڑی سفاکی سے تنقید اور طنز کے کوڑے برساتے نظر آتے ہیں۔ان کے اکثر افسانوں کا کلائمکس بھی بہت حیران کن ہوتا ہے اور قاری کوبہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں اْ ن کے بے مثال افسانے ٹھنڈا گوشت،کالی شلوار، دھْواں، ’جانکی ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون، بابو گوپی ناتھ اور ”بو“ وغیرہ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اردو کے افسانوی منظر نامے کو مسلسل متاثر کررہے ہیں۔ منٹواردو کے ایک رجحان ساز نہیں بلکہ تاریخ ساز افسانہ نگار ہیں۔
Sadat Hasan Manto: Life and Work
Writers