اردو کے معروف فکشن نگار راجندر سنگھ بیدی غیرمنقسم پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکامیں 1915 میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے ابتدائی ایام لاہور میں گزرے۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اردو میں حاصل کی۔1931میں میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد ڈی۔اے۔وی کالج لاہور سے انٹر میڈیٹ کیا۔گھرکے معاشی حالات بہت اچھے نہ تھے اس وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ان کا گریجویشن کرنے کا خواب شرمندہئ تعبیر نہ ہوسکا۔1932 سے طالب علمی کے زمانے میں ہی انگریزی، اردو اور پنجابی میں نظمیں اور کہانیاں لکھنے لگے تھے۔
راجندر سنگھ بیدی کے معاشی حالات چونکہ اچھے نہ تھے۔لہٰذا محض18سال کی عمر میں انھوں نے لاہور پوسٹ آفس میں 1933میں بطورکلرک ملازمت اختیار کرلی۔یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو راس نہیں آرہی تھی اوروہ بہتر ملازمت کی تلاش میں تھے۔ 1941میں انھیں آل انڈیا ریڈیو، لاہور کے اردو سیکشن میں ملازمت مل گئی۔ آل انڈیا ریڈیو کے ادبی ماحول میں ان کی صلاحیتیں دھیرے دھیرے نکھرنے لگیں۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو کے لیے متعددڈرامے تحریر کیے۔ ان ڈراموں میں ”خواجہ سرا“ اور ”نقل مکانی“ بہت مشہور ہوئے۔ بعد ازاں ان دونوں ڈراموں کو ملاکر انھوں نے 1970 میں فلم ”دستک“ بنائی۔
1943میں راجندر سنگھ بیدی لاہور کے مہیشوری فلم سے وابستہ ہوگئے۔ اس ملازمت میں ڈیڑھ سال رہنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو واپس آگئے۔ ریڈیو واپسی پر انھیں جموں میں تعینات کیا گیا جہاں وہ 1947 تک رہے۔1947میں ملک کی تقسیم ہوئی اور بیدی کا خاندان ہندوستان کی ریاست پنجاب کے فاضلکہ میں آباد ہوگیا۔ البتہ بیدی پاکستان سے نقل مکانی کرکے ممبئی آگئے اور فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ڈی ڈی کیشپ کی نگرانی میں بننے والی فلم ”بڑی بہن“ بطور مکالمہ نگار ہندوستان میں بیدی کی پہلی فلم تھی۔ یہ فلم1949 میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ”داغ“ تھی جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور فلم انڈسٹری میں بیدی کی شناخت قائم ہوگئی۔ ”داغ“1952میں ریلیز ہوئی تھی۔
1954 میں بیدی نے امرکمار، بلراج ساہنی اور گیتا بالی کے ساتھ مل کر ”سِنے کو آپریٹیو“ نامی فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس کمپنی نے پہلی فلم ”گرم کوٹ“ بنائی جو بیدی کے ہی مشہور افسانہ ”گرم کوٹ“ پر مبنی تھی۔ اس فلم میں بلراج ساہنی اور نروپارائے نے مرکزی کردار ادا کیا تھاجبکہ امرکمار نے ہدایت کاری کی خدمات انجام دی تھیں۔اس فلم کے ذریعے راجندر سنگھ بیدی کو پہلی بار اسکرین پلے تحریر کرنے کا موقع ملا۔ سِنے کو آپریٹیو نے دوسری فلم ”رنگولی“ بنائی جس میں کشور کمار، وجنتی مالا اور درگا کھوٹے نے مرکزی کردار ادا کیے اور امرکمار نے ڈائریکشن دیا۔ اس فلم میں بھی اسکرین پلے راجندر سنگھ بیدی نے ہی تحریر کیا تھا۔
اپنی ذاتی فلم کمپنی کے باوجود بیدی نے مکالمہ نگاری جاری رکھی اور متعدد مشہور فلموں کے ڈائیلاگ تحریر کیے۔ جن میں سہراب مودی کی فلم ”مرزا غالب“ (1954)، بمل رائے کی فلم ”دیو داس“(1955)اور ”مدھومتی“(1958) امرکمار اور ہریکیش مکرجی کی فلمیں ”انورادھا“ (1960)، ”انوپما“(1969)، ”ستیم“ (1966)، ”ابھیمان“ (1973) وغیرہ شامل ہیں۔
1970میں فلم ”دستک“ کے ساتھ انھوں نے ہدایت کاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ اس فلم میں سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان نے مرکزی کردار ادا کیے تھے جبکہ موسیقی کار مدن موہن تھے۔ ”دستک“ کے علاوہ انھوں نے مزید تین فلموں ”پھاگن“ (1973)، ”نواب صاحب“ (1978) اور ”آنکھوں دیکھی“(1978) میں ہدایت کاری کے جوہر دکھائے۔
راجندر سنگھ بیدی کے ناول ”ایک چادر میلی سی“ پر ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں فلم بن چکی ہے۔ پاکستان میں 1978 میں ”مٹھی بھر چاول“ کے عنوان سے جبکہ ہندوستان میں ”ایک چادر میلی سی“ کے ہی نام سے1986میں۔ اس طرح وہ برصغیر ہند و پاک کے واحد فکشن نگار ہیں جن کی ایک ہی کہانی پر دونوں ممالک میں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں فلم بن چکی ہے۔بیدی کے افسانے ”لاجونتی“ پر نینا گپتا2006میں ایک ٹیلی فلم بھی بنا چکی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی شادی خاندانی روایت کے مطابق کم عمری میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کی بیوی گھریلو خاتون تھیں اور بیدی نے تا عمر ان کے ساتھ محبت اور رواداری کا سلوک رکھا۔حالانکہ اداکارہ ریحانہ سلطان کے ساتھ معاشقے کی خبریں بھی گرم ہوئیں تاہم بیدی کی ازدواجی زندگی پر اس کے کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ بیدی کی شخصیت میں امن پسندی، صلح کل اور محبت و رواداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔یہی محبت واپنائیت ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کا سبب بنی۔ بیدی کی صرف ایک اولاد تھی جس کا نام نریندر بیدی تھا۔ جوان ہوکر نریندر بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے اور بطور فلم ڈائریکٹر اور فلم ساز انھوں نے خوب نام کمایا۔ان کی مشہور فلموں میں ”جوانی دیوانی“(1972)، ”بے نام“ (1974)، ”رفو چکر“ (1975) اور ”صنم تیری قسم“ (1982) وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ نریندر بیدی1982 میں انتقال کرگئے۔ بیٹے کی اس ناگہانی موت کے صدمے سے راجندر سنگھ بیدی ابھر نہ سکے اور نریندر کی موت کے دو سال بعد1984میں وہ بھی دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
راجندر سنگھ بیدی کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کے کل چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ”دانہ و دام“(1936)اور ”گرہن“ (1942) آزادی سے پہلے شائع ہوچکے تھے۔”کوکھ جلی“(1949)، ”اپنے دکھ مجھے دے دو“(1965)، ”ہاتھ ہمارے قلم ہوئے“(1974)اور ”مکتی بودھ“ (1982) آزادی کے بعد منظر عام پر آئے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ”بے جان چیزیں“(1943) اور ”سات کھیل“ (1974) بھی شائع ہوئے۔ ان کا ناولٹ ”ایک چادر میلی سی“1962میں شائع ہوا۔ انھیں 1965 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا جبکہ1972میں حکومتِ ہند نے پدم شری کا خطاب عطا کیا۔ 1978میں غالب ایوارڈ دیا گیا۔
راجندر سنگھ بیدی کو کردار نگاری اور انسانی نفسیات کی مرقع کشی میں کمال حاصل تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک حقیقت نگار تھے۔اگرچہ انھوں نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا، وہ قدرِ اول کی چیز ہے۔ بیدی کسی فیشن یا فارمولے کے پابند نہیں تھے۔ ان کے افسانوں میں مشاہدے اور تخیل کی آمیزش ملتی ہے۔ انسانی نفسیات پر گہری نظر کی وجہ سے ان کے کردار صرف سیاہ و سفید کے خانوں میں بند نہیں، بلکہ انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ اس تعلق سے پروفیسر شمس الحق عثمانی رقم طراز ہیں:
”راجندر سنگھ بیدی کے فن کے ان اجزا و عناصر….. ان کی پُر جہد زندگی……. اور ان کی پُر گداز شخصیت کے تارو پود کو ایک دوسرے کے قریب رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے وجود کے جن لطیف ترین اجزا کے تحفظ و ارتفاع کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماجی زندگی میں پیش کیا، ان اجزا نے انھیں گہرا ایقان اور عمیق بصیرت عطا کی…….اسی ایقان اور بصیرت نے اُن کے پورے فن میں وہ عرفانی کیفیت خلق کی ہے جس کے وسیلے سے راجندر سنگھ بیدی اپنے ارد گرد سانس لینے والے افراد کو شناخت کرتے اور کراتے رہے۔ افراد کی شناخت کا یہ عمل دراصل کائنات شناسی کا عمل ہے کیونکہ راجندر سنگھ بیدی کا فن، آدمی کے وسیلے سے ہندوستانی معاشرے…… ہندوستانی معاشرے کے وسیلے سے آدمی……..اور ہندوستانی آدمی کے وسیلے سے پورے انسانی معاشرے کی شناخت کرتا ہے۔“(ممبئی کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتگان۔ مرتب: پروفیسر صاحب علی۔ ص: ۶۰۱۔ ناشر: شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی)
راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں رمزیت، استعاراتی معنویت اور اساطیری فضا ہوتی ہے۔ ان کے کردار اکثر و بیشتر محض زمان و مکاں کے نظام میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے جسم کی حدود سے نکل کر ہزاروں لاکھوں برسوں کے انسان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ یوں تو ان کے یہاں ہر طرح کے کردار ملتے ہیں لیکن عورت کے تصور کو ان کے یہاں مرکزیت حاصل ہے۔ عورت جو ماں بھی ہے، محبوبہ بھی، بیوی بھی اور بہن بھی۔ ان کے یہاں نہ تو کرشن چندر جیسی رومانیت ہے اور نہ منٹو جیسی بے باکی۔ بلکہ ان کا فن زندگی کی چھوٹی بڑی سچائیوں کا فن ہے۔ فن پر توجہ بیدی کے مزاج کی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں جذبات کی تیزی کے بجائے خیالات اور واقعات کی ایک دھیمی لہر ملتی ہے جس کے پیچھے زندگی کی گہری ///معنویت ہوتی ہے۔
(یہ تحریر ڈاکٹر قمر صدیقی کی ہے)