Rafia Sbabnam Abidi by Shaikh Hasina

Writers

Rafia Sbabnam Abidi by Shaikh Hasina

شیخ حسینہ

رفیعہ شبنم عابدی کی پیدائش مہاراشٹر کے بمبئی کے علاقے میں بی۔ آئی۔ ٹی بلاکس نامی کالونی میں ۷؍دسمبر ۱۹۴۳ کو ہوئی یہ گھرانہ بڑا ہی معزز گھرانہ ہے۔ رفیعہ کے جد اعلیٰ سید محمد مدنی جو کہ اپنے زمانے کے ایک بہت بڑے عالم دین تھے جن کا سلسلہ اٹھارہویں پشت میں امام جعفر صادق سے جا ملتا ہے۔ وہ مدینے سے ایران ہوتے ہوئے ہندوستان تشریف لائے اور ہندوستان آکر یہاں رشد و ہدایت میں اپنے آپ کو مصروف کر لیا، تبلیغ دین اور انسان دوستی کا درس عام کرنے کی خاطر مہاراشٹر کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے پونہ ضلع کے ایک قصبہ ’’ منچر‘‘ میں آ گئے اور یہ جگہ انھیں ایسی بھائی کہ ہمیشہ کے لئے یہیں سکونت اختیار کر لی۔ یہاں مراٹھا سرداروں کا تسلط تھا۔ اس دور میں جن سیدوں کو جاگیر اور انعام و اکرام سے نوازا گیا ان میںرفیعہ شبنم عابدی کے آبا و اجداد بھی شامل تھے۔ اسی باعث اس خاندان کو ’’ انعام دار خاندان ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آگے جاکر ان کے چار بیٹے ہوئے ان چاروں نے بھی ’’منچر‘‘ ہی میں سکونت اختیار کی۔ اس بارے میں رفیعہ شبنم عابدی نے لکھا ہے کہ :
’’ وہ ایک درویش صفت عالم دین تھے۔ اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں علم بانٹتے بانٹتے کسی نیک ساعت میں مہاراشٹرا کے ضلع پونے کے ایک قصبے منچر ( جسے ایرانی سپاہی پہلے ہی مینو چر بمعنی جنت نشاں کا لقب دے چکے تھے۔) پہنچے، یہ جگہ خد اجانے کیوں انھیں ایسی بھائی کہ بستی کے عین قلب میں کافی اونچائی پر اپنا حجرہ بنا کر تا دم آخر بستی والوں پر علم و عرفان کی بارش برساتے رہے۔ پھر ان کے چار بیٹے مستقل طور پر یہیں بس گئے ۔ میری رگوں میں اسی قبیلے کا خون دوڑرہا ہے جسے آج بھی سادات جعفری منچر کے نام سے جوڑا جاتاہے۔‘‘ ۲؎
رفیعہ کے والد صاحب کی جائے پیدائش بھی منچر ہی ہے۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد تلاش معاش میں وہ بمبئی آگئے۔ اور پھر انھوں نے بمبئی ہی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ رفیعہ کے والد سجاد علی منچری ایک اچھے شاعر، ادیب اور ماہر ریاضیات تھے۔ شاکر لقب کرتے تھے۔ شاعری میں انھیں بالواسطہ دبستان داغ سے نسبت تھی انھوں نے شاعری کی تقریباً ہر ایک صنف شاعری میں طبع آزمائی کی اور کامیاب رہے۔ وہ پرائمری ٹیچرز ٹریننگ کالج میں لکچرر تھے بعد میں صدر مدرس کے مقام پر فائز ہوئے۔ ان دنوں جب مہاراشٹر ریاست عمل میں نہیں آئی تھی اور سرکاری اداروں کا وجود نہ تھا سجاد علی منچری درسی کتابوں کی ترتیب اور تیاری بڑی ذمہ داری سے نبھایا کرتے تھے۔ تحتانوی اور ثانوی دونوں جماعتوں کی سائنس اور ریاضی کتابیں بڑی مشقت اور عرق ریزی سے تیار کیا کرتے ا ور یہ سلسلہ ہنوز ریاست مہاراشٹر کے قیام میں آنے اور ٹیکسٹ بک کمیٹی و بال بھارتی اداروں کے شروع ہونے تک جاری و ساری رہا۔
رفیعہ کی والدہ سیدہ زینب بھی ایک نہایت ہی دلکش اور سادہ طبیعت کی مالک خاتون تھیں اور اس دور میں جب لڑکیوں ک تعلیم معیوب و معتوب سمجھی جاتی تھی سیدہ زینب نہ صرف قرآن مجید اور دینی تعلیم سے آراستہ تھیں بلکہ روزنامہ انقلاب کا مطالعہ ان کا معمول تھا۔ ساتھ ہی مولوی نذیر احمداور راشد الخیری وغیرہ کے ناول پڑھ کر ادب کے مطالعہ سے بھی فیض یاب ہو اکرتیں ۔ ایک اچھی گھریلو عورت کی تما م ذمہ داریاں اور بچوں کی پرورش و پرداخت ان کے اولین فریضے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کی بھی پابندتھیں۔
ایسے علم و ادب کے دلدادہ والدین کے گھر میں رفیعہ نے اپنی زندگی کی پہلی سانس لی۔بی۔ آئی۔ ٹی بلاکس نامی یہ کالونی جہاں رفیعہ پید اہوئیں۔ اس دور میں تعلیم یافتہ اور سلجھے ہوئے لوگوں سے آباد تھی۔ ایک ایسی صاف ستھری میں جو ہر طرح کی گراوٹوں کمیوں اور خامیوں سے پاک صاف تھی۔ شعبہ حیات کے لگ بھگ تما م ذی علم و با شعور افراد جیسے ڈاکٹر، انجینئر، ماہر تعلیم، وکیل، پروفیسرز ،شعر و ادبا تمام کے تمام نے ا س بستی کو اپنے وجود سے معمور کیے ہوئے تھے۔ اس کالونی میں ایک لائبریری تھی جو وہاں کے مکینوں کی ادبی ذوق و شوق کا منہ بولتاثبوت تھی۔ جہاں مختلف موضوعات پر نہ صرف ادبی بلکہ مذہبی کتب کا گنج بیکراں موجود تھا۔ رفیعہ کے لئے ادبی شخصیات اور ان کی بیش قیمتی خدمات کو سمجھنے کے لئے لائبریری نے بڑا اہم کردار نبھایا ہے۔ اسی کالونی میں ’’ انجمن باشندگان بی آئی ٹی بلاکس‘‘ نامی ادبی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا جو یہاں کے علم دوست شخصیات کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ ا س سوسائٹی کے صدر رفیعہ کے والد صاحب ہی تھے ۔ اس انجمن کے ذریعہ ہر سال ادبی، سماجی، اور ثقافتی پروگراموں کے علاوہ مشاعرے بھی منعقد کیے جاتے تھے۔ جن میں اس دور کے مشہور و معروف شعرا مثلاً کیفی اعظمی، شکیل بدایونی، اعجاز صدیقی، احسن دانا پوری، خمار بارہ بنکوی، منیر الہ آبادی وغیرہ شرکت کیا کرتے تھے۔ رفیعہ کے ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں ان تمام شعرا نے بھی بڑا بڑاخاص رول نبھایا۔ بچپن ہی سے مطالعہ کے شوق اور ان تما م شعرا و ادبا کی محبت او رشفقت کے باعث رفیعہ کے شعر و ادب کی طرف اٹھتے قدم روز بروز اور زیادہ مستحکم ہوتے چلے گئے۔ رفیعہ کے گھر میں ا س وقت کے تمام ادبی جرائد آیا کرتے تھے ، آجکل ، افکار، اصلاح، ماہ نو، نقوش، نگارا ایسے جریدوں کی بھر مار تھی۔ شعری مجموعے بھی منگوائے جاتے ا س کے علاوہ عروض و اصطلاحات پر مبنی کتابیں وغیرہ بھی گھر ہی میں موجود تھیں۔ رفیعہ نے کم سنی کی عمر سے ہی ،متذکرہ بالا تما باتوں سے استفادہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے اندر ایک شاعرہ نے انگڑائی لی اور شبنم کی صورت میں وہ تمام دنیا سے متعارف ہوئیں۔
سجاد علی منچری کی یہاں کل نو اولادیں ہوئیں۔ رفیعہ ان میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ ، منچری صاحب کی پانچ بیٹیوں او رچار بیٹوں نے ادبی ذوق ورثہ میں پایا تھا۔ رفیعہ کو علاحدہ کریں تو باقی تمام بھائی بہن بے حد جدت پسند اور خوش طبع تھے۔ ا س کے بر خلاف رفیعہ کافی سنجیدہ مزاج، اور بے حد حساس تھیں اور الگ تھلگ اپنی دنیا میں مگن رہنا جیسے ان کی عادت بن گئی تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دن بہ دن ان کی حساس طبیعت اور سنجیدہ مزاجی نے انھیں بے انتہا گہری سوچ و فکر اور عمیق مشاہدہ کرنے کی صلاحیت عطاکی، انھوںنے ایک ایک موضوع پر سنجیدگی سے غور و خوض کر ناشروع کر دیا۔ اسی علاحدہ اور نرالی طبیعت نے انھیں احساس کمتری کا شکار بھی بنادیا تھا ۔لیکن اس میں مبتلا ہوکر رہنے کی بجائے اپنے سنجیدہ فن کی گہری بصیرت سے شعر و ادب کو ایک نرالا رنگ و روپ عطاکیا۔ اسی نئے رنگ سے انھوں نے خیالات و تصورات کا ایک نیا جہاں بسایا اور دنیا کو یہ احساس دلایا کہ وہ بالکل’’ منفرد و مختلف‘‘ ہیں۔ بچپن میں بہن بھائیوں میں جب بھی شعرگوئی کا مقابلہ ہوا کرتا تو سب سے بہترین غزل کہنے کا انعام رفیعہ ہی کے حصے میں آتا۔ اس طرح یہ کہا جا سکتاہے کہ ان کے تخلیقی سفرکی شروعات ان کے گھر آنگن سے ہی ہوتی ہے۔
با قاعدہ ان کے تعلیمی سفر کا آغاز بمبئی میونسپل کارپوریشن کے زیر نگرانی چلنے والے امام باڑہ گرلز اسکول سے ہوا۔ جہاں انھیں پانچویں جماعت میں داخل کروا یا گیا۔ ان کے شعری سفر کی ابتداء بھی یہیں سے ہوتی ہے۔ ا س اسکول کے محرک انسپکٹر آف ایجوکیشن سید ابو محمد طاہر تھے۔ انھوں نے طلبہ کے اندر موجود ادبی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لئے نظم خوانی کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ رفیعہ نے اسی سلسلے کے تحت طاہر صاحب کی عقیدت میں نظمیں کہناشروع کیں۔ بقول رفیعہ شبنم عابدی :
’’ہماری کلاس ماڈل کلاس قرا ردی گئی تھی۔ میں چونکہ کلاس میں مانیٹر تھی لہٰذا مجھے ہی ا س کاسرخیل بنایا گیا۔ میرا کام یہ تھا کہ کسی بھی استاد شاعر کی نظم از بر کرکے تحت اللفظ میں بآواز بلند سناؤں اور ٹیپ کا بند یا مصرعہ دوسرے دہرائیں۔ بس اسی دوران کب کسیے ایک مشاعرہ نے میرے ا ندر انگڑائی لی اور میں نے طاہر صاحب کی عقیدت میں نظمیں کہنا شروع کیں۔ ظاہر ہے بچکانہ نظمیںمثلاً :
جب بھی طاہر جناب آتے ہیں
ہم کو جغرافیہ پڑھاتے ہیں
کبھی نظموں کی با ت کرتے ہیں
کبھی کچھ شعر بھی سناتے ہیں
کبھی کرتے ہیں کچھ سوال عجیب
کچھ طریقے نئے سکھاتے ہیں‘‘۳؎
مذکورہ تمام باتوں کا نتیجہ یہ کلا کہ رفیعہ کو پانچویں جماعت ہی میں آزادؔ، نظیرؔ، اقبالؔ اور حالیؔ جیسے شعرا کی نظمیں ازبر ہو نے لگیں بعد ازاں رفیعہ نے نوویں جماعت کے لئے انجمن اسلام سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول بلاسس روڈ میں داخلہ لیا اس اسکول کے نظم و ضبط نے انھیں خاصہ متاثر کیا ۔ یہاں وسیع لائبریری تھی جس نے رفیعہ کے مطالعہ کو علم و ادب کے بسیط میدان سے آشنا کروایا اور رفیعہ کے مطالعہ کو تقویت بخشی۔ انھوں نے پریم چند، کرشن چندر، علی عباس حسینی، خواجہ احمد عباس اور عصمت چغتائی کی کئی کہانیاں اور افسانوں کے مجموعے پڑھ ڈ الے جس کی بدولت ان کا رجحان افسانہ نگاری کی طرف ہو گیا۔ اس دور میں ’’انقلاب ‘‘ نے رفیعہ کے علم و ادب کے ذوق کو پروان چڑھانے تخلیقی سفر کو صحیح سمت و راہ مہیا کرانے میں اہم کردار نبھایا۔ ’’ ہفت رنگ‘‘ کے نام سے انقلاب میں انور اشفاق کا ترتیب کردہ ایک صفحہ نکلتا تھا۔ رفیعہ ’’ ہفت رنگ قلم کار‘‘ سوسائٹی کے گرلز سیکشن کی برسوں سیکریٹری رہیں۔ رفیعہ جب تک سیف طیب جی اسکول میںزیر تعلیم رہیں ان کا رجحان شاعری سے زیادہ نثر کی طرف رہا۔ نوویں جماعت میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’ آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں‘‘ جس میں انھوں نے اپنے ایک آنکھوں دیکھے حادثے کو بیان کیا ہے۔یہ افسانہ روز نامہ انقلاب میں ’’بچوں کی دنیا‘‘ میں شائع ہوا، اسی دور میں پہلی دفعہ روزنامہ انقلاب میں رفیعہ کی غزل خواتین کے صفحہ’’ عالمِ نسواں‘‘ میں چھپی۔ مطلع ملاحظہ فرمایئے:
روکا تو بہت موجوں نے مگر ہم دامنِ ساحل پا ہی گئے
اک کوشش پیہم کرتے رہے اور جادۂ منزل پا ہی گئے
اسی زمانہ میں ’’ ماہ نامہ شمع ( دہلی) میں ایک اور غزل شائع ہوئی مطلع کچھ اس طرح تھا:
جو غم سے دور ہو ، وہ زندگی اچھی نہیں لگتی
تڑپ جب تک نہ شامل ہو ہنسی اچھی نہیں لگتی
شاعری کا یہ ورثہ ان کے والد صاحب کی طرف سے ملا مگر شاعری میںوہ اپنے والد صاحب کی شاگردی اختیا رنہ کر سکیں ، غالباً اپنے والد صاحب کو اپنا کلام دکھانے میں شرم مانع آجاتی ہو گی۔ مگر انھوں نے اپنے کلام پر نہ ہی کبھی کسی سے اصلاح لی اور نہ کسی کی شاگردی اختیار کی بس اپنی راہیں خود ہی تلاشتی رہیں۔
۱۹۶۰؁ء کے آس پاس جب تانیثیت کی تحریک بھی زور شور سے چل پڑی تھی۔ اسی دور میں رفیعہ شبنم منچری کے نام سے رومانی و سماجی کہانیاں لکھنے لگیں تھی۔ اس وقت وہ سب سے زیادہ ’’ واجدہ تبسم‘‘ کے رومانی افسانوں کا مطالعہ کیا کرتیں۔ اسی سے متاثر ہوکر ’’ جب دل ہی ٹوٹ گیا‘‘ اور ’’ میں پاگل میرا منوا پاگل‘‘ یہ دو رومانی ناول بھی لکھے۔ ۱۹۶۰؁ء سے ۱۹۷۰؁ء تک ماہنامہ بیسویں صدی میں رومانی کہانیاںلکھتی رہیں۔
اسکول کی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد انھوں نے صوفایہ گرلز کالج میں داخلہ لیا اور انٹر میڈیٹ میں امتیازی نمبروں سے کامیاب ہوئیں۔ یہاںڈاکٹر فصیح الدین صدیقی اور محترمہ خیر النسا باقر مہدی جیسے باصلاحیت اساتذہ کی رہنمائی نے رفیعہ کے تخلیقی سفر کو رہنمائی عطا کی۔ انھوں نے صوفایہ کالج سے۱۹۶۵؁ء میں بی اے آنرز کیا پھر پروفیسر نجیب اشرف ندوی کی نگرانی میں ایم اے مکمل کر لیا۔ سینٹ جوزف کالج بمبئی سے پروفیسر نظام الدین گوریکر کے زمانے میں فارسی ایم اے اوّل درجے سے کامیاب ہوئیں۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری ’’ ہندوستان میں شیعیت اور عزا داری‘‘ کے عنوان پر بمبئی یونیورسٹی سے ڈاکٹر آدم شیخ کی نگرانی میں حاصل کی ۔ اس کے بعد ان کی تحقیقی و تنقیدی کتاب ’’ ملّا وجہی اور انشائیہ‘‘ کے لئے بمبئی یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی ڈگری سے نوازا۔
رفیعہ نے جیسے ہی بی اے آنرز کامیاب کیا تو انھیںکے اسکول یعنی سیف طیب جی گرلز ہائی اسکول میں لکچرر کے طور پر متعین کر دیا گیا۔ ایسااس لئے بھی ہوا کہ طالب علمی کے دور میں رفیعہ اس اسکول میں تما م اساتذہ کی ہر دل عزیز طالبہ تھیں۔ دوسرے ان میں قابلیت بھی بے پناہ تھی۔ اس ملازمت کو ابھی دو برس ہوئے تھے کہ ان کی شادی ’’ سید حسن اختر عابدی‘‘ سے ۱۹۶۷؁ء میں ہو گئی۔ عابدی صاحب اتر پردیش ضلع مراد آباد کے ’’نو گاواں سادات‘‘ کے ایک معزز گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ مائیکے کی طرح سسرال بھی عالم ، فاضل اور ذی فہم با شعور لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ عابدی صاحب خود بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے معاشیات میں بی۔ اے کرکے بمبئی یونیورسٹی پوسٹ گریجویٹ کرنے کے بعد بمبئی کے میو نسپل کارپوریشن میںمحکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے۔ اتناہی نہیں عابدی صاحب کو شعر و شاعری سے بھی خاصہ لگاؤ رہا ہے۔ اچھا شعری ذوق رکھتے ہیں۔ ’’شعلہ‘‘ تخلص کرتے ہیں۔ عابدی صاحب کو شعر و شاعری کا یہ رنگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے وقت آل احمد سرور، خورشید الاسلام، معین احسن جذبی، خلیل الرحمٰن اعظمی جیسے اعلیٰ شعری شعور اور ادبی ذوق رکھنے والے استادوں کی شفقت اور صحبتو ںکا نتیجہ ہے۔ عابدی صاحب کے چند اشعار دیکھئے ـ:
ہو گئیں سب حقیقتیں جھوٹی
اب تو کاغذ کی ناؤ چلتی ہے
آگ سے کھیلتے ہو کیوں شعلہؔ
یہ جلاتی ہے اور جلتی ہے
۔۔۔
اگلے تصورات کو بالکل فضول کر
دنیا کی انگلیاں اٹھیں کچھ ایسی بھول کر
کب تک جئیں گے یوں ہی فرشتوں کی زندگی
اپنے اصول توڑ ، مجھے بے اصول کر
شعلہ تو نذر کر دے غزل زندگی کے نام
اپنی سخن وری کی نہ قیمت وصول کر
اسی شعر فہمی اور ذی علمی کے باعث عابدی صاحب رفیعہ کی تمام شعری تخلیقات کے اولین سامع اور ناقد بھی رہے ہیں۔ رفیعہ خود اس بات کا اقرارکچھ اس طرح کرتی ہیں :
’’ وہ میری شعری تخلیقات کے نہ صرف اولین سامع اور ناقد ہیں بلکہ محرک بھی ہیں میری نوے فیصدی شاعری ان ہی کی ذات کے ارد گرد گھومتی ہے۔ کوئی بات ، کوئی رمز، کوئی کنایہ، کوئی واقعہ، کوئی حادثہ، جو ان کی زندگی سے ہوتا ہوا مجھ تک پہنچتا ہے۔ شعر بن جاتاہے۔‘‘ ۴؎
عابدی صاحب کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے خود کو پس منظر میں رکھا اور رفیعہ کو آگے بڑھنے اور لکھنے پڑھنے میں مکمل تعاون کرتے رہے۔ شادی کے بعد رفیعہ نے ادبی مشاغل ترک کردینے کا تہیہ کر لیا تھامگر شفیق و مہربان مانند دوست شوہر کی سرپرستی اور اعتبار کا نتیجہ تھا کہ رفیعہ نے یہ کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کیں اور ایک فرماں بردار نصف بہتر کی طرح نہ صرف ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے تعلیم مکمل کی بلکہ امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کے فرائض بھی تقریباً ۳۸ سال تک بے حد ذمہ داری اور خندہ پیشانی سے نبھاتی رہیں ساتھ ساتھ ان کاتخلیقی سفر بھی جاری رہا۔
انجمن اسلام طیب جی اسکول میں لکچرر تھیں اسی دوران رفیعہ کا تقرر برہانی کالج ( مجگاؤں) میں اردو اور فارسی کی لکچرر کے طور پر ہوا۔ یہاں تقریباً چھ برس تک وہ لکچرر شپ کے فرائض انجام دیتی رہیں۔ ۱۹۸۱ میں ان کا تقرر مہاراشٹرا کالج آف آرٹس سائنس اینڈ کامرس میں بحیثیت ریڈر ہوا۔ یہاں اول تو فارسی درس و تدریس اور بعد ازاں صدر شعبۂ اردو کی حیثیت سے تقریباً بیس برس کے طویل عرصہ تک منسلک رہیں اور مہاراشٹرا کالج کو علم و ادب کا گہوارہ بنادیا۔ آخر کار ۲۰۰۱؁ء میں ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بمبئی یونیورسٹی میں کرشن چندر چئیر پر بحیثیت پروفیسر اور صدر شعبۂ اردو فائز ہوئیں اور دو سال بعد یعنی ۳۱؍ دسمبر ۲۰۰۳؁ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئیں اس طرح رفیعہ تقریباً ۳۸ سال درس و تدریس کے پیشہ سے وابستہ رہیں اور اپنی گراں قدر ادبی خدمات سے اپنے طلبہ کو سرفراز کرتی رہیں۔
رفیعہ شبنم عابدی کی پانچ اولادیں ہیں۔ دو بیٹیاں اور تین بیٹے۔ سب سے بڑی دختر شاداب سید ہیں رضوی کالج باندرہ میں درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ ان کی دوسری بیٹی سیماب سید جو کہ دوبئی میں مقیم ہیں۔ دونوں بیٹوں کو شعر و شاعری سے گہرا شغف ہے۔ ۔ بیٹیوں میں سید دانش رضا بھی شاعر ی کا شغل فرماتے ہیں۔ دوسرے بیٹے شارق رضا کو نہ صرف شعر و و ادب سے لگاؤ ہے بلکہ اچھی خاصی شاعری بھی کر لیتے ہیں۔ یہ دونوں متحدہ امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا میں مقیم ہیں اور سب سے چھوٹے فرزند سید محمد کاشف کینیڈا میں بر سر روزگار ہیں۔ انھیں البتہ شعر و شاعری سے کوئی لگاؤ نہیں ہے۔ تما م بھائیوں بہنوں میں شاداب سید بڑی بیٹی ہونے کی حیثیت سے نہ صرف اپنی والدہ کے بے حد قریب ہیں بلکہ جذباتی و شعوری دونوں طور پر شاداب کا رشتہ رفیعہ سے بے حد گہر اہے۔
رفیعہ شبنم عابدی کا نام بیسیویں صدی کی اہم خواتین قلم کاروں میں بے حد نمایاں رہا ہے۔ آزادی کے بعد جن خواتین شاعرات نے اپنے فن کا لوہا منوایا اور اپنی مختلف پہچان و منفرد شناخت قائم کی اس میں ادا جعفری، شفیق فاطمہ شعریٰ ترنم ریاض، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، عذرا پروین، رخسانہ جبین اورشہناز نبی وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔ نقادوں کا یہ کہنا ہے کہ یہ مختصر سی فہرست رفیعہ شبنم عابدی کے نام کے بغیر بالکل مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کی انہی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہندوستان کے کئی سرکاری اور دیگرنیم سرکاری اداروں کی طرف سے انھیں اب تک کل ۲۸ چھوٹے و بڑے اعزازار سے نوازا جا چکا ہے۔
انعامات و اعزازات:
آل انڈیا روبی ادبی ایوارڈبرائے طرحی غزل (۱۹۶۸ء)، مہاراشٹرا اردو اکادمی ممبئی، بہار اردو اکادمی، پٹنہ، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ، کلچرل اکاڈمی بنگلور، مغربی بنگال اور اردو اکادمی، نیتاجی سبھاش چندر بوس سمرتی سمّان دہلی برائے صحافت (۱۹۹۰ء) مائیناریٹیز ایجوکیشنل فیڈریشن ایوارڈ برائے بہترین مدرس، کالج اور یونیورسٹی ٹیچر ایوارڈس(۱۹۹۸ء) رضوی ایجوکیشل فاؤنڈیشن ، ثانی زہراؐ ایوارڈ برائے نمایاں ادبی خدمات (۲۰۰۰ء) اور دیگر چھوٹے بڑے انعام و اکرام ، اس کے علاوہ مختلف تنظیموں اور اداروں کی رکن نامزد ہوئیں۔ ساہتیہ اکاڈمی دہلی میں پریلیمنری ایڈوائزر کی حیثیت سے دوبار شامل ہوئیں۔بمبئی یونیورسٹی میں صدر شعبۂ اردو کے عہدے پر ہوتے ہوئے مختلف کمیٹیوں کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔
فی الحال رفیعہ شبنم عابدی اپنے شوہر کے ہمراہ اندھیر ی( مغرب) سات بنگلہ کی گلشن کالونی میں سن رائز اپارٹمنٹ میں رہتی ہیں۔ مالک ایزدی سے دعاہے کہ انھیں درازی عمر اور تندرستی عطا کرے تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں بھی ان کی شخصیت سے فیض یاب ہوتی رہیں۔
شخصیت :
میرے کردار کو کیا قتل کرے گی دنیا
میں جہاں بھی رہی بیدار ضمیروں میں رہی
کہتے ہیں کہ انسان کہ شخصیت پر بچپن کے حالات و واقعات گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ رفیعہ شبنم عابدی چونکہ ایک اعلیٰ ادبی گھرانے میں پید اہوئیں انھیں علم و ادب کا خزانہ ورثہ میں ملا۔ رفیعہ کے بھائی بہن انھیں خاموش طبع ہونے سنجیدہ مزاجی اورسبھی سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ’’ کونے کی مکھی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ مگریہ کونے کی مکھی در اصل ایسا گوہر نایاب نکلی جس نے سوچ کی گہرائی و گیرائی میں غوطہ زن ہوکر بڑی متانت کے ساتھ اپنی تازہ گہری فکر کو شاعری ، تنقید اور تحقیق کی صورت میں پرت در پرت اپنی شخصیت کے نہاں خانوں کو لوگوں کے سامنے ایسے شگفتہ و شاداب لب و لہجے میں پیش کیا کہ ہر کوئی ان کے مشاہدے کا قائل ہو گیا۔ اور انھیں ادب میں ایک اعلیٰ و افضل مقام پر بیٹھا دیا۔
ا س پراثر شخصیت کو سامنے دیکھنے کا موقع مجھ نا چیز کو اس وقت ملا جب شعبۂ اردو ممبئی یونیورسٹی کے زیر اہتمام منعقدہ سیمیناربہ عنوان ’’ فراق گورکھپوری فن اور شخصیت‘‘ کا کلیدی خطبہ موصوفہ نے پیش کیا اور ان کی شخصیت کا اولین تاثر ایساتھا جس کا بیان میری ناقص عقل کے بیان سے بالاتر ہے۔ ایک تو شخصیت معمر، پر وقار، اور اوپر سے تقریر کا انداز ایسا بے مثال کہ دل چاہ رہا تھاکہ وہ بولتی ہی چلی جائیں اور میری تمام حسیات منجمد ہو کہ سماعت تک محدود ہو جائے۔ تاکہ میں انھیں سنتی چلی جاؤں۔ یہ مبالغہ بالکل بھی نہیں ہے۔ میں ان کی تعریف وتوصیف بھلاکیا بیان کر سکوں گی۔ بہر حال آج ان کی شخصیت کسی تعریف ، توصیف اور کسی سرٹیفکٹ کی محتاج نہیں ہے۔ اس بات کا اعتراف ان کے سخن شناس خود بھی کرتے ہیں۔
ان کا چہرہ علم و ادب سے ان کی آشنائی کا بین ثبوت معلوم ہوتاہے کسی کی بات سنتے وقت ان کے چہرے پر سوچ و فکر کی گہری لکیریں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔ ایسامحسوس ہوتاہے کہ گویا کسی گہرے تخیل سے ابھر کربس اب یا تب کوئی علم و دانش سے بھرا جملہ ان کے لبوں سے ادا ہوگا۔ اس سے زیادہ دلچسپ اور خوبصورت ان کی بڑی گہری آنکھیں سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہیں۔ بقول عابدی صاحب یہ آنکھیں جن سے ہوش مندی اور ذہانت جھانکتی ہے۔ جو اچھے اور برے کی تمیز کرنا جانتی ہیں ناک ستواں نہ سہی مگر ان کی پر وقار شخصیت کے اعتبار سے وقاربھر ناک ان کے چہرے پر بہت جچتی ہے۔ آنکھوں میں ہلکی سی کاجل کی لکیر اور لب ساری کی مناسبت سے کسی ہلکے رنگ کی لپ اسٹک سے مزین ، جن لبوں سے ہمہ وقت مقدس الفاظ نکل کر مدِّ مقابل کے حواسوں پر چھا جاتے ہیں لب و لہجہ بے حد مترنم اور آوازکا اتار چڑھاؤ کسی دھیمی موسیقی کا گمان کراتا ہے۔ رفیعہ بونے قد کی ہیں۔ گندمی رنگ ، خوش پو شاک او رہلکے گھنگھریالے دراز گیسو، کم عمر اور چھوٹے انھیں عزت و احترام سے رفیعہ آپا کہہ کر پکارتے ہیں تو بڑی محبت و اپنائیت سے بڑے عمدہ طریقے سے اور بڑی خندہ پیشان ی سے ملتی ہیں۔ حتیٰ کہ مزاج ایسا صلح پسند ہے اپنے دشمنوں کو بھی فوراً معاف کر دیتی ہیں۔انھیں کی زبانی سنیئے:
میں اپنے دشمنوں سے بھی بدلہ نہ لے سکی
نفرت مرے مزاج کا حصہ کبھی نہ تھی
ان کی سار ی خوبیاں انھیں ایک عمدہ ، ہندوستانی عورت کے حسن کی عمدہ مثال بنا دیتی ہے اور یہ صرف حلیہ کی حد تک ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی وہ ہندوستانی عورت کا سچا روپ ہیں۔ تانیثی اور نسائی شاعرہ ہونے کے باوجود کافی conservative واقع ہوئی ہیں، یہاں وہ ’’ خاتون خانہ ہو وہ صبا کی پری نہ ہو‘‘۔ ا س بات کی قائل نظر آتی ہیں۔ ا سکے باوجود اپنے حقوق آگہی اور ان کا جائز استعمال کرنے سے وہ کبھی چونکتی نہیں ہیں
’’ ہر چند کہ آزادیِ فکر و فن کی قائل ہوں مگر آزادیِ نسواں کا مفہوم میرے نزدیک وہ نہیں جو ہماری بیشتر شاعرات کے یہاں دکھائی دیتاہے۔ مجھے مرد سے کوئی شکایت نہیں کہ وہ عورت پر ظلم کیوں کرتا ہے۔ مجھے عورت سے شکایت ہے کہ وہ مرد کے ظلم کیوں سہتی ہے۔ اپنے آپ کو مظلوم کیوں تصور کرتی ہے۔ ‘‘ ۵؎
بعض اوقات یہ احتجاجی لہجہ ہلکی سی کرختگی اختیار کر جاتاہے۔ پھر وہی ان کا ازلی اعتدال پسند رویہ اسے تھپکی دے کر پر سکون کر دیتا ہے۔ ان کا یہی رویہ انھیں مردوزن میں یکساں مقبول کرتاہے۔ اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مذہب کی پاسدار اور عورتوں کی بے جا آزادی کے خلاف سہی لیکن بعض اوقات ان روایتوں سے انحراف کرتی نظر آتی ہیں اور یہی کشمکش ان کی حیات و شخصیت کے ساتھ ساتھ شاعری کی بھی شناخت معلوم ہوتی ہے۔
شہر میں ، دشت میں، گلزار میں کب جاتی ہے
میری آواز مرے گھر میں ہی دب جاتی ہے
۔۔۔
ایک لمحہ بھی اگر سیر کو باہر نکلوں
شہر میں ڈھونڈھنے لگتا ہے مجھے گھر میرا
درون خانہ افراد کے تاثرات سے ان کی شخصیت کاجو تاثر نکلتا ہے۔ وہ کچھ ایساہے کہ وہ نہایت ہی شوہر پرست، سلیقہ شعار بیوی ، اپنے بچوں کی خواہشات پر ممتا نچھاور کرنے والی ماں اور ایک ایسی بہو جو اپنی ساس کی گہری سہیلی اور بہو کی دوست و غم گسار ساس ہیں۔ شاداب سیدلکھتی ہیں:
’’ میں نے اپنی ماں کی شکل میں ایک ایسی عورت کو دیکھا جو بہو بنی تو ساس اپنے سارے دکھڑے ، حال دل راز بیاں کرنے کے لئے اس کا انتظار کرتی اور بچپن کی پکی سہیلیوں کی طرح بیٹھ کر ایک دوسرے کا درد بانٹا جاتا۔ سسر کے ساتھ عربی، فارسی زبان و ادب کے علاوہ مذہبی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ ممی وہ ماں ہے جو بیٹیوں کو رخصت کرتی ہے تو اس نصیحت کے ساتھ کہ ساس کو اپنی ماں سمجھنا اور نندوں اور دیوروں کو بھائی بہن۔ اور جب بہو بیاہ کر لاتی ہیں توبیٹوں کے سر پر اپناہاتھ رکھ کر قسم لیتی ہیں کہ تمھارا سلوک اپنے ساس سسر کے ساتھ بالکل والدین جیساہوگا۔ جو درجہ والدین کا ہے وہی بیوی کے والدین کا ہوگا ۔‘‘ ۶؎
رفیعہ کی شخصیت کا یہ خاصہ ہے کہ وہ رشتے نبھاناخوب جاتی ہیں۔ شاید اسی باعث ان کے بہو بیٹے انھیں کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ ویسے تو انھیں غصہ جلدی نہیں آتا مگر جب کوئی بات طبیعت کے منافی ہو جائے اور ناگوار محسوس ہو، وہ بھی خاص طور سے اپنے خود کے بچوں کے تعلق سے تو انھیں غصہ ضرور آتا ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ غصہ میں احتجاج انگریزی زبان میں کرتی ہیں اور فر فر انگریزی کے کچھ اس طرح کے جملے ان کے منھ سے نکلتے ہیں مثلاً :
I cannot tolarate all these things, I hate this, I don’t like nonsense,
وغیرہ وغیرہ جن سے سب سے زیادہ محبت کرتی ہیں انھیں سے تغافل برتتی ہیں مگر ان کی طبیعت میں کچھ اس طرح کی نرمی موجود ہے کہ اپنے دشمنوں تک سے زیادہ دنوں تک ناراض نہیں رہ سکتیں۔ تو اپنے بچوں سے کب تک ناراضگی مناسکتی ہیں۔ ان کی ۳۸ سے ۳۹ سالہ کامیاب ازدواجی زندگی کی بنیاد بھی ان کا اعتدال پسند رویہ ہی ہے۔ اور ا س معتدل رویے کی باعث انھوں نے اپنے شوہر، بچوں امور خانہ داری اور شعر و ادب
ان تمام خانوں کو صحیح ڈھنگ سے پر کرنے کی مکمل سعی کی اور کامیاب بھی ٹھہریں۔
ان کی انصاف پسند طبیعت اور صلح رحمی والے رویہ کا کئی لوگ فائدہ اٹھا تے ہیں۔ خاص کر شعر و ادب میں اتنا بلند مقام ہونے کی وجہ سے ان کے کئی دشمن بھی ہیں لیکن حریفوں کوحسن و سلوک سے زیر کرناان کے دلوں پر حکومت کرنے کی ضد ان میں بدرجہ اتم موجودہے۔ سچ تویہ ہے کہ لڑنا جھگڑنا ان کی سرشت میں ہے ہی نہیں۔ اور اگر کسی سے لڑائی ہو بھی جائے تو لڑتے لڑتے انھیں رونا آ جاتاہے۔ اور اسی کے بارے میں سوچ سوچ کر جان ہلکان کر دیتی ہیں یہاں تک کہ بیمار ہو جاتی ہیں پھر تمام بچے اور عابدی صاحب کوئی نہ کوئی الٹی سیدھی حرکتیں کرکے ان کا جی بہلائے رکھنے اور دھیان بٹانے رکھنے کی سعی میں جٹ جاتے ہیں۔
زندگی اور ادب کے متعلق رفیعہ کے چند اصول ہیں وہ چاہتی ہیں کہ جہاں بھی جاؤں کامیاب ٹھہروں۔ ان کی اس ضد نے انھیں گھر آنگن سے لے کر ادبی دنیا کی بسیط وادیوں تک میں کامرانیاں عطا کیں۔ گھر میں مکمل طور پر ایک روایتی گھریلو عورت کا کردار نبھایا ایک ایسی خاتون خانہ جس نے اپنے گھریلو کام اور ادبی مصروفیات کے با وجود اپنے بچوں کوصحیح طریقہ زندگی سکھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا تو وہیں ادب کے تئیں مکمل خدمات انجام دیتی رہیں دوست و احباب کے حلقۂ میں کوئی علیل ہوا تو اس کی عیادت و غم گساری کے لئے جانا بھی از حد ضروری خیال کرتی ہیں۔ انھیں دیکھ کر اور ان کے علم و عمل کے قصے سن کر یہ گمان ہونے لگتاہے کہ آیا یہ عورت کوئی عورت ہی ہے یا جادو گرنی جوہمہ وقت ہر کام کرنے پر یونہی آمادہ رہتی ہے۔ مگر ہر وقت کا م کو کرنے کے لئے تیار رہنے والی یہ شخصیت بعض اوقات عجلت میں بہت سے کام بگاڑ بھی دیتی ہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کی شخصیت کا ایک چھوٹا سا منفی پہلو ہے۔ کہ وہ عجلت پسند ہیں۔ اسی باعث جب کچھ کام بگڑ جاتے ہیں تو ندامت او رپچھتاوا بھی محسوس کرتی ہیں۔
فیاض احمد فیضی جو رفیعہ کو اپنے بچپن سے جانتے ہیں وہ ا س مسحور کن شخصیت اور ان کی مداح کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ :
’’ رفیعہ شبنم کی دیانت داری کے بارے میںکیا عرض کروں انھیں زندگی میں بد دیانتی کے بہت کم مواقع نصیب ہوئے۔ لیکن جہاں بھی ملے وہ ان سے یوں دامن بچا کر نکل گئیں جیسے آج کل کے سیاستدان سچ بولنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کی عادت نہ بگڑ جائے۔ رفیعہ شبنم کو میں نے کبھی کبھی جھوٹ بولتے سنا ہے۔ لیکن وہ سب بڑے بے ضرر قسم کے جھوٹ ہو اکرتے ہیں۔ ‘‘ ۷؎
اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھلے کی خاطر وہ جھوٹ بھی کہہ سکتی ہے۔ واقعی وہ ان کی حساس اس طبیعت اب تک ان پر چھائی ہوئی ہے۔ یا ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اب ا س طبیعت نے انھیں اتنی مہارت عطاکر دی ہے کہ لفظوں کے بغیر صرف حسیات سے ہی وہ لوگوں کے دکھ جان لیتی ہیں۔
بڑا سکون، بڑا سکھ ہے اس کے سائے میں
وہ ایک پیڑ جو برگد کی چھاؤں جیسا ہے
استاد کی حیثیت سے بھی رفیعہ کی شخصیت اتنی ہی اہم اتنی ہی پر اثر رہی ہے۔ آج بھی ان کے شاگرد انھیں بے انتہا عقیدت و احترام کے ساتھ نہ صرف آنکھوں پر بٹھاتے ہیں بلکہ ان ہی کے نقش پا پر چلنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس ضمن میںاعجاز احمدلکھتے ہیں:
’’ بقول شخصے : معلم اس جوہری کی مانند ہوتاہے جو ایک بے ڈول پتھر کو تراش کر نگینہ بنادیتا ہے۔ ہماری استاد بالکل اسی طرح کی جوہری ہیں۔ جوہم جیسے کم اور ناقص العلم طلبہ کو تراش کر انھیں کامیاب زندگی گزارنے میں بڑی مدد دیتی ہیں۔ اور ان کے پڑھانے کا انداز بہت ہی خوبصورت ہے۔ وہ پڑھائی کے دوران اپنے حسنِ عمل سے بچوں کے ذہنوں میں رچ بس جاتی ہیں۔‘‘ ۸؎
رفیعہ شبنم عابدی کی ہمہ جہت، ہمہ رنگ شخصیت اور ا س میں نہاں و پوشیدہ ، خوبیوں کی قوس قزح کو چند ایک صفحوں میں سمیٹنا بالکل ناممکن امرہے ۔ او رمجھ جیسی ناقص العلم، ناقص العقل طالب علم کے بیان سے باہر بھی۔ ان کی شایان شان پذیرائی کرنے کاحق تو ادب کے جیالے اور متوالے بھی اب تک ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ البتہ تریاق کی خصوصی پیش کش ’’ شناخت رفیعہ شبنم عابدی نمبر سے ان کی شاعری اور شخصیت کے کئی باطنی پہلو ہر خاص و عام کے سامنے آ گئے ہیں۔

حواشی
۱۔اردو میں نسائی ادب کا منظر نامہ: مرتبہ نیر جہاں جولائی ۲۰۱۴ ص ۹۱
۲۔ماہنامہ شاعرممبئی: شمارہ مارچ ۲۰۱۰ ص ۲۹
۳۔ایضاََ ص ۱۲
۴۔ایضاََ ص ۱۲
۵۔ ماہنامہ تریاق ممبئی: رفیعہ شبنم عابدی نمبرجون ۲۰۱۷ ص۳۵
۶۔ایضاََ ص ۷۲
۷۔ ایضاََ ص ۵۷
۸۔ ایضاََ ۶۲