پریم چند کا خاندانی نام دھنپت رائے تھا۔31/ جولائی1880کو اترپردیش کے مردم خیز شہر بنارس سے چار پانچ میل دورایک چھوٹے سے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ احباب خانہ انھیں پیار سے نواب رائے کے نام سے پکارتے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اسی نام سے کچھ تحریریں بھی قلمبند کیں۔ منشی پریم چند کے والد منشی عجائب لال ڈاکخانے میں ملازم تھے۔ پریم چند کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ اردو اور فارسی پڑھنے کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کرکے پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوگئے۔ چونکہ پریم چند کو تعلیم کا شوق تھا لہٰذا تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دیا اور ترقی کرتے کرتے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ پریم چند کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔1902میں ٹریننگ کے لیے الہ آباد کے ایک کالج میں داخل ہوئے تو ان کی طبیعت ناول نگاری کی طرف ملتفت ہوئی۔ یہیں انھوں نے اپنا پہلا ناول ”اسرارِ معبد“ کے نام سے لکھنا شروع کیا جس کی کچھ قسطیں بنارس کے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔ اسی زمانے میں پریم چند نے رسالہ ”زمانہ“کانپور کے لیے پابندی سے افسانے اور مضامین بھی لکھنے شروع کیے۔ 1908 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”سوزِ وطن“ کے نام سے شائع ہوا۔چونکہ اس مجموعہ میں شامل مشمولات حب وطن اور آزادی کے جذبات سے مملو تھے۔ لہٰذا انگریز حکومت سے اسے ضبط کرکے نذرِ آتش کردیا۔”سوزِ وطن“ تک کی بیشتر تحریریں پریم چند نے نواب رائے قلمی نام سے تحریر کی تھیں۔ انگریزوں کے معاندانہ رویہ کے پیش نظر منشی دیا نرائن نگم کے مشورے پرانھوں نے پریم چند کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا اور اسی نام سے مقبول ہوئے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اردو افسانے کو ابتدائی دور میں ہی کچھ ایسے افسانہ نگار مل گئے جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف مزاج رکھتے تھے۔ پریم چند ایک رجحان کی ترویج کر رہے تھے، راشد الخیری دوسرے اورسجاد حید ر تیسرے نظریے و رجحان کے علمبردار تھے۔ لیکن پریم چند کی مقصدیت راشد الخیری کی اصلاح پسندی اور یلدرم کی رومانیت پر بازی لے گئی۔مقصدیت اور اصلاح کے پہلو نے پریم چند کے فن کو اتنا غیر معمولی بنادیا کہ وہ اردو افسانے کے سچے بنیاد گزار تسلیم کیے گئے۔ راشد الخیری اور سجاد حیدریلدرم کے رجحانات کی نیاز فتح پوری، مجنوں گوکھپوری، مہدی الافادی اور قاضی عبدالغفار کے بعد کوئی خاص تقلید نہ ہوئی۔ جبکہ پریم چند کی مقصدیت کا سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی وغیرہ نے تتبع کیا اور ان بعد کے افسانہ نگاروں نے اس روایت کو مزید آگے بڑھانے میں معاونت کی۔اسی لیے سمجھا جانے لگا کہ پریم چند اردو افسانے کے موجد ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ مختصر افسانے کی ابتداکا سہرا توراشد الخیری اور سجاد حیدر یلدرم کے سر ہی بندھے گا۔ البتہ فنی اعتبار سے پریم چند راشد الخیری پر سبقت لے گئے ہیں۔ پریم چند کی افسانہ نگاری پر غور کیا جائے تو بتدریج ارتقانظر آتا ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ”سوز وطن“ سے لے کر آخری دور کے مجموعوں ”واردات“ اور ”زادراہ“ کے افسانوں میں واضح فرق ہے۔ لہٰذا ان کی فسانہ نگاری کے مختلف رویوں اور رجحان کے مطالعہ کے لیے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور1909 سے لے کر1920کے عرصہ پر محیط ہے۔ دوسرا دور1920 سے1932تک اور تیسرا دور جو نسبتاً مختصر دور ہے یعنی1932ء سے1936تک ان کی زندگی کے آخری چار سال کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلے دور کے ابتدائی برسوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ”سوز وطن“ زمانہ پریس کانپور سے شائع ہوا تھا۔ جسے انگریز سرکارکے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔اس کے بعد وہ تاریخ نگاری اور اصلاح ِمعاشرہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس وقت تک پریم چند کے افسانوں میں فنی اور تکنیکی پختگی نہیں آئی تھی اور ان کی تحریروں میں داستانوی اسلوب غالب نظر آتا ہے۔1909 سے1920تک پریم چند ”مہوبا“ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈرات نے شایدانہیں ہندوؤں کی عظمت ِ رفتہ کی یاد دلائی۔ غالباً اسی لیے انھوں نے سوچا ہوگا کہ حالیؔ کی طرح انہیں اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوقوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگرکرنا چاہیے۔ چنانچہ ”رانی سارندھا“1911 میں اور1912میں ”راجہ ہردول“ اور ”آلھا“ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔ ان تاریخی اور نیم تاریخی افسانوں کے بعد اپنے دوسرے دور میں پریم چند نے قومی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے ہندو معاشرے کی قبیح رسوم پر قلم اٹھایا اور بیوہ عورت کے مسائل، بے جوڑ شادی، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات جیسے موضوعات پر افسانے لکھے۔افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند سیاست سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ دور برصغیر میں تحریکوں کا دور تھا۔ تحریک ِ خلافت، تحریک عدم تعاون، ستیہ گرہ، سول نافرمانی وغیرہ۔ برصغیر کے تمام باشندے ملک کی آزادی کے لیے پرجوش تھے۔ پریم چند نے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے قلم کے ذریعہ اس مہم میں شرکت کا ارادہ کیا اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ اگرچہ کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن شاید وہ سماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سرکاری ملازمت کا جو اگلے سے اتار پھینکا۔ اس دور کے افسانوں میں سیاست کا رنگ قدرے واضح طور پر جھلکتا ہے۔ افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند نے دیہی زندگی کی طرف بھی توجہ دی اور انھوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل کواپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ ”پوس کی رات“،”سواسیر گہیوں“ اور دیگر افسانے کسانوں کی غربت و افلاس کی عکاسی کرتے ہیں۔پریم چند کے افسانوں کا آخری دور مختصر عرصے پرمحیط ہے لیکن یہی دور ان کے نظریات کی پختگی اور ترویج کا دور بھی ہے۔ اس دور کے افسانوں کے موضوعات بھی سیاسی زندگی سے متعلق ہیں۔ لیکن فن اور معیار کے اعتبار سے پچھلے دونوں ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہیں۔”سوز وطن“ کے افسانوں کے بعد پریم چند کے قلم سے حج اکبر،بوڑھی کاکی، دو بیل، نئی بیوی اور زادِ راہ جیسے افسانے تخلیق ہوئے اور پھر ان کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ”کفن“جیسا افسانہ لکھ کر انہوں نے دنیائے ادب میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ آخری دور کے افسانوں میں پریم چند ایک عظیم افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں۔ اس دور کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود آفاقی کہلانے کے مستحق قرار دئیے جا سکتے ہیں۔کیونکہ اب ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں جو اچھے اور معیاری افسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔
Prem Chand: Life and Work
Writers