Portrait a Short Story by Iqbal Hasan Azad

Articles

پورٹریٹ

اقبال حسن آزاد

آبادی سے تھوڑی دور ہٹ کر جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اسے گھنے جنگلوں سے خوف آتا۔ رام دین مالی کا لڑکا جو اس سے عمر میں چند سال بڑا تھا اسے لے کر جنگل کی سمت نکل جاتا۔ جہاں تک جنگل چھدرا رہتا اور سورج کی روشنی دکھائی دیتی اسے بڑا لطف آتا مگر جیسے ہی اندھیرا سروں پر چھانے لگتا وہ گھبرا کر کہتا۔
” سکھو! اب گھر چلو۔“ سکھو کو اس کی گھبراہٹ پر ہنسی آجاتی۔ وہ اور اندر جانا چاہتا مگر صاحب کے ڈر سے لو ٹ جاتا۔
گذرتے وقت کی دھند ہر شے پر چھاتی جا رہی تھی۔ یادیں مٹ میلی ہو گئی تھیں۔اسے لگتا جیسے درخت بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے تنے کھوکھلے ہو گئے ہیں اور وہ کسی تیز آندھی کے منتظر ہیں۔ وہ بہت ساری باتوں کو بھول چکا تھا اور بہت ساری جگہیں اور شکلیں بھی اس کے حافظے سے نکل چکی تھیں حتیٰ کہ اسے اپنے باپ کی شکل بھی بالکل یاد نہ رہی تھی کہ اسے گذرے ہوئے چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ اس کا بڑا لڑکا اس سانحے کے بعد پیدا ہوا تھا۔ ان دنوں وہ اپنی پہلی پوسٹنگ پر اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ کسی دور دراز کے شہر میں مقیم تھا۔ اس زمانے میں ٹیلی فون کی سہولت عام نہیں ہوئی تھی اور کسی کی پیدایش یا موت کی خبر دینے کے لیے ٹیلی گرام مقبول عام ذریعہ تھا۔ لیکن کبھی کبھی ٹیلی گرام بھی دیر سے پہنچتا۔ چنانچہ اس خبر کے ملنے کے بعد جب وہ گھر گیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے باپ کو سپرد خاک کیا جا چکا ہے اور اس طرح وہ اس کے آخری دیدار سے محروم رہا تھا جس کا قلق اسے اب تک تھا۔ البتہ اس کی بڑی بہن جو قریب کے شہر میں بیاہی گئی تھی اپنے شوہر کے ہمراہ وقت پر پہنچ گئی تھی۔ چہلم کے بعد اس کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چلی گئی تھی اور وہ ماں کو اپنے ساتھ شہر لے آیا تھا۔ قصبے کے مکان میں تالا پڑ گیا۔
کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا کہ اس کے دماغ میں کوئی جنگل اُگ آیا ہے جہاں اونچے گھنے پیڑ آپس میں جڑے کھڑے ہیں اور سورج کی روشنی ان کے بڑے بڑے پتوں سے ٹکراکر وہیں رک جاتی ہے۔ نیچے گہرا اندھیرا ہے۔ وہ سوتے میں چونک اٹھتا۔ اسے اپنی پیشانی پر پسینے کے قطرے محسوس ہوتے۔ وہ سات بار لاحول پڑھ کر دوبارا سونے کی کوشش کرتا۔ عموماًاسے نیند آ جاتی مگر تھوڑی ہی دیر بعد پھر اچٹ جاتی۔ بڑھاپے کی نیند کچے گھڑے کی مانند ہوتی ہے۔
اسے اپنی عمر بھی ٹھیک ٹھاک یاد نہیں رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا کہ وہ ستر کا ہو چکا ہے مگر واقعات کے جوڑ گھٹاﺅ میں اسے اپنی عمر پچھتر کی معلوم ہوتی۔ بالکنی میں آرام کرسی پر بوڑھی ہڈیوں کو دھوپ دکھلاتے وقت جب وہ انگلیوں پر حساب لگا رہا ہوتا تو اس کی بیوی کو شک ہوتا کہ اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ وہ اس کی جانب سے فکر مند رہنے لگی تھی۔ مگر درحقیقت ایسی بات نہیں تھی۔ وہ پابندی سے اخبار پڑھتا اور ٹی۔وی پر خبر یں سنتا۔ اسے لگتا جیسے دنےا بہت بدل گئی ہے۔ پچھلی دفعہ جب اس کا لڑکا اس سے ملنے آیا تھا تو وہ اس کے لئے ایک موبائل لیتا آیا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس بدلی ہوئی دنیا کا موازنہ اپنی دنیا سے کرتا تو اسے عجیب سا محسوس ہوتا۔ اسے اس بات کا اطمینان تھا کہ اس کے انتقال کی خبر اس کے بیٹے کو چند منٹوں میں ہو جائے گی۔
گھنے جنگلوں میں جب کبھی زور کی ہوا چلتی ہے تو درختوں کے پتے شور مچاتے ہوئے چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سورج کی روشنی بلا روک ٹوک زمین تک پہنچ جاتی ہے۔ تنہائی کی چادر اوڑھ کر اونگھتے ہوئے اچانک اس کے ذہن میں جھکڑ چلنے لگتے اور بہت ساری یادیں روشنی سے جگمگا اٹھتیں۔مگر اسے یہ بالکل یاد نہ رہا تھا کہ اس کے باپ کی شکل و صورت کیسی تھی؟ہاں! بچپن سے لے کر جوانی کے دنوں تک کی بہت ساری باتیں جن کا تعلق اس کے باپ سے تھا اسے یاد تھیں۔
ایک چھوٹے سے قصبے میں اس کا بڑا سا آبائی مکان تھا۔ سڑک کی جانب گول ستونوں سے گھرا ایک طویل برآمدہ۔ اس کے بعد کشادہ ڈرائنگ روم ۔اندر تین طرف دالان، درمیان میں آنگن اور آنگن سے ایک دروازہ گلی میں کھلتا ہوا۔ دالان سے ملحق چھ رہائشی کمرے اور سب سے آخر میں اسٹور روم۔ اس کے باپ کو پرانی چیزیںترتیب اور قرینے سے رکھنے کا شوق تھا۔ اکثر اس کی ماں کسی بیکار شے کو پھینکنا چاہتی تو اس کا باپ اسے اسٹور روم میں رکھنے کا مشورہ دیتا اور کہتا کہ داشتہ آید بکار۔ اس کی ماں اس محاورے سے چڑ جاتی حالانکہ اس کا باپ نہایت شریف آدمی تھا اور کسی نامحرم کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہ کرتا تھا۔ اس آبائی مکان میں اس کا باپ اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد آکر رہا تھا۔ زندگی کے بیشتر ایام کوارٹروں میں گذرے تھے۔ اس کا باپ بیک وقت شفیق بھی تھا اور سخت گیر بھی۔ اسے یاد تھا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھایا کرتا تھا اور اس کا باپ اپنی پلیٹ سے کوئی چیز مثلاً گوشت کی کوئی اچھی بوٹی یا کوئی میٹھی شے اس کی پلیٹ میں ڈال دیا کرتا تھا۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ اس کا باپ ہی اسے نہلاتا تھا اور اگر نہانے کے دوران وہ کوئی شرارت کرتا تو اس کے باپ کا بے رحم طمانچہ اس کے گال پر پڑتا۔ اس نے جب اسکول جانا شروع کیا تو اس کا باپ اسے خود سے پڑھانے لگا اور پڑھاتے وقت ایک لمبی چھڑی اپنے پاس رکھتا ۔
اسے اپنے باپ کے بہت سارے دوستوں کے دھندلے دھندلے چہرے اب بھی یاد تھے۔بعض کی وضع قطع بھی یاد تھی ۔یادوں کے خزانے میں پھندنے والی سرخ ٹوپی بھی تھی اور بغیر چھت کی کار بھی۔ اور وہ رجسٹری آفس بھی جہاں سے اس کا باپ ریٹائر ہوا تھا۔ وکٹورین طرز کی سرخ عمارت ،گول ستونوں سے گھرا ہوا طویل برآمدہ ،بڑے بڑے دروازے جن کے پٹ روشن دانوں کی مانند کھلتے اور بند ہوتے اور ان کے اوپر سبز رنگ کی چق۔ ایک بڑا سا ہال۔ اجلاس، کٹہرے اور بنچیں۔ سامنے کھلا میدان اور میدان کے درمیان میں یونین جیک لہراتا ہوا۔ جب اجلاس ختم ہو جاتا تو وہ سکھو کے ساتھ برآمدے میں کھیلتا۔ کبھی کبھی اس کی بڑی بہن اسے تلاش کرتی ہوئی آتی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتی۔ اکثر وہ سکھو کے ساتھ مالی کے چھوٹے سے کوارٹر میں چلا جاتا جہاں سکھو کی ماں اسے گرم گرم لِٹّی کھلاتی۔ ایک دفعہ اس کی بہن نے یہ بات باپ کو بتا دی تھی۔ اس روز اسے کافی مار پڑی تھی اور مار کھانے کے دوران اس سے پیشاب خطا ہو گیا تھا۔
ان ہی دنوں اسے اپنے آس پاس کسی بہت بڑی تبدیلی کا احساس ہوا تھا۔ اسے لگا جیسے جنگلوں میں چھپے بہت سارے سانپ، بچھو، شیر اور چیتے، بھالو اور بندر زمین پر چاروں طرف پھیل گئے ہیں۔ان دنوں اس کا باپ بہت فکر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی ماں کو کہتے سنا۔
”سب لوگ چلے جا رہے ہیں۔ آپ کے بڑے بھیا بھی بیوی بچوں کو لے کر چلے گئے۔ کیوں نہ ہم لوگ بھی….“
”ہر گز نہیں۔“ اس کے باپ کی کرخت آواز گونجی تھی اور پھر خاموشی چھا گئی تھی۔
اور پھر پتا نہیں کہاں سے آدمیوں کا جنگل امڈ آیا تھا۔ روتے بلکتے، ننگے بھوکے لوگ پوری کچہری اور پورے میدان میں بھر گئے تھے۔ لاریاں بھر بھر کر آتیں اور آدمیوں کا جنگل گھنا ہوتا جاتا۔ وہ لوگ اپنے کوارٹر تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔
پھر جیسے کئی دنوں تک چھائے رہنے کے بعد جب بادل اور کہاسا ختم ہوکر سورج نظر آنے لگتا ہے اورمنجمد زندگی میں حرارت پیدا ہونے لگتی ہے اسی طرح دھیرے دھیرے وہ سارے لوگ، ان کے سازوسامان ، لاریاں اور خاکی وردیاں سب دھیرے دھیرے غائب ہو گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ سرخ پھندنے والی گول ٹوپی اور بغیر چھت کی کار بھی۔ اور یونین جیک کی جگہ ترنگا لہرانے لگا تھا۔ ان دنوں اس کی عمر تیرہ سال کی تھی۔
اس کے ایک سال بعد کی سردیوں میں اس کا باپ ریٹائر ہو گیا۔ اس بڑے میدان میں ایک گروپ فوٹو گرافی ہوئی تھی۔ اس کا باپ سوٹ پہنے درمیان کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ دائیں بائیں آفس کے دوسرے لوگ ۔ پچھلی صف میں ڈرائیور، خاکروب، مالی، چپراسی اور آس پاس کے لوگ۔ بقیہ کرسی پر کچہری کے اسٹاف اور زمین پر ان کے افراد خانہ۔ اپنے باپ کے قریب وہ اور اس کی بڑی بہن بیٹھے تھے۔ اس کے باپ کے گلے میں گیندے کے پھولوں کا ہار ڈالا گیا تھاجسے اس کے با پ نے اس کے گلے میں ڈال دیا تھا۔ ایک بڑے اسٹینڈ پر کیمرہ رکھا ہوا تھا اور فوٹو گرافر نے اپنے سر پر کالی چادر ڈال کر تصویر اتاری تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب اس کا باپ اپنے آبائی مکان لوٹا تو اس تصویر کو فریم کروا کے ڈرائنگ روم میں لگا دیا گیا۔ عرصے تک وہ تصویر ڈرائنگ روم میں لگی رہی تھی۔ پھر پتا نہیں کیسے وہ تصویر ڈرائنگ روم سے ہٹ گئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ جس وقت اس کی بڑی بہن کی شادی ہو رہی تھی اور گھر میں سفیدی پھیری جا رہی تھی اس وقت وہ تصویر اسٹور روم میں رکھ دی گئی ہو۔
اس کے باپ کی پنشن قلیل تھی اور اس مکان کے علاوہ اس کے پاس کوئی جائداد بھی نہ تھی۔ جب وہ پہلی بار میٹرک میں فیل ہو گیا تو اس کے باپ نے اسے مارا تو نہیں مگر غصے میں تھرتھراتے ہوئے یہ ضرور کہا تھا کہ اگر اگلے سال بھی وہ فیل ہو گیا تو وہ اسے ننگا کرکے گھر سے باہر نکال دے گا مگر اس کی نوبت نہیں آئی تھی کہ اس نے وہ سارا سال پڑھنے میں گذار دیا تھا۔ اگلے سال وہ پاس ہوگیا اور آگے کی تعلیم کے لیے اس کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا گیا۔
کبھی کبھی کسی نیوز چینل کی تلاش میں ریموٹ کنٹرول کا بٹن دباتے وقت اسے عجیب بے ہنگم کپڑوں میں ملبوس اچھلتے کودتے طالب علم نظر آتے تو اسے لگتا جیسے واقعی بہت کچھ بدل گیا ہے۔لیکن جب اسے خبروں کے درمیان خون کے دھبے اور دھوئیں کے بادل دکھائی دیتے تو محسوس ہوتا کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ وہ اکتا کر ٹی وی آف کر دیتا اور کتابوں سے دل بہلانے لگتا۔ ایک دن کتابوں کی الماری سے ایک ناول نکل آیا۔ Portrait of a lady ۔یہ ناول وہ کئی بار پڑھ چکا تھامگر آج اس کے عنوان کو دیکھ کر ایک بھولی بسری یاد اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں روشن ہو گئی۔ جن دنوں وہ بی اے کا امتحان دے کر گھر آیا تھا ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جس شہر سے اس کا باپ ریٹائر ہوا تھا وہاں ایک شخص کے گھر میں آگ لگ گئی اور دوسری اشیاکے ساتھ مالک مکان رام اودھیش سنگھ کے ضروری کاغذات بھی جل گئے۔ ان کاغذات میں اس کے مکان کا قبالہ بھی تھا۔ اس کی رجسٹری اس کے باپ ہی نے کی تھی۔ وہ پریشان حال اس کے باپ کے پاس آیا۔ اس کا باپ فوراً اس کی مدد کو تیار ہو گیا۔ دونوں اس رجسٹری آفس میں گئے اور وہاں اس کے باپ نے اپنے اثر و رسوخ کی بدولت قبالے کی نقل بہت جلد اسے دلوادی۔ رام اودھیش سنگھ اس مہربانی سے اس قدر خوش ہوا کہ اس نے بہت سارے تحفے تحائف دینے کے ساتھ یہ بھی کیا کہ اپنے بیٹے سے جو کہ ایک پینٹر تھا اس کے باپ کا ایک قدآدم پورٹریٹ بنوا دیا اور پھر وہ پورٹریٹ گھر کے ڈرائنگ روم کی زینت بن گیا تھا۔
باپ کے انتقال کے بعد وہ اپنی ماں کو شہر لے آیا تھا اور قصبے کے مکان میں تالا پڑ گیا تھا۔ اس کی ماں کو جب کبھی اپنے گھر کی یاد ستاتی وہ اسے لے کر چند دنوں کے لیے وہاں چلا جاتا۔ اس طرح کئی سال گذر گئے۔ اس دوران بہت سی اچھی اور بری باتیں ہوئیں۔ اس کی ماں اور بڑی بہن کا انتقال ہو گیا اور اس کی بیوی نے تین بچوں کو جنم دیا۔ ایک لڑکا اور دو لڑکیاں۔ اس کی ترقی ہوئی اور وہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو ا۔ بیوی کہتی کہ قصبے کا مکان فروخت کر دیا جائے۔ اس کا بھی یہی ارادہ تھا مگر پیشے کی ذمہ داریاں اسے مہلت نہ دیتی تھیں۔ پھر بھی سال دو سال پر وہ گھر چلا جاتا اور ہر بار گھر کا کوئی نہ کوئی حصہ مخدوش پاتا۔ وہ اس کی مرمت کرواکر واپس چلا آتا۔ اس نے یہ بھی چاہا کہ کوئی کرایہ دار مل جائے تاکہ مکان کی دیکھ بھال ہوتی رہے مگر اس چھوٹے سے قصبے میں جہاں زندگی جوہڑ کے پانی کی طرح ٹھہری ہوئی تھی اسے اس مقصد کے لیے کوئی نہ مل سکا۔ تب اس نے یہ چاہا کہ کوئی یونہی رہنے کو تےار ہو جائے اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا۔ قصبے کا ایک شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اس مکان میں رہنے کو تیار ہو گیا۔ اب وہ اس جانب سے بالکل بے فکر ہو گیا تھا اور کئی کئی برسوں تک وہاں جانے کی ضرورت محسوس نہ کرتا مگر مکان کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے ہر سال ایک معقول رقم اس شخص کو بھیج دیا کرتا۔
ان دنوں وہ سرحدی علاقے میں تعینات تھا جہاں چاروں اطراف گھنے جنگل تھے اور پھر ان جنگلوں سے چھن کر آتی ہوئی خون اور بارود کی بو نے اسے اپنے باپ کی یاد دلا دی تھی۔ایک بارپھرآدمیوں کاجنگل اُگ آیا تھا۔روتے بلکتے ننگے بھوکے لوگ…. چھولداریاں…. لاریاں….بوٹوں کی دھمک….آنے والوں میں سے کسی نے بتایا کہ اس کے چچا مع اہل وعیال شہید کر دیئے گئے۔اس نے یہ خبر صبر و سکون کے ساتھ سنی لیکن کئی دنوں تک اسے ٹھیک طور پر نیند نہ آسکی تھی۔ پھر جب اس کی نوکری اسے شہر در شہر گھماتی اس شہر میں لے آئی تھی جہاں سے اسے سبکدوش ہونا تھا تو اس نے وہاں ایک بڑا سا فلیٹ خرید لیا تھا۔ لڑکا تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملک سے باہر چلا گیا تھا اور لڑکیوں کی شادی ہو چکی تھی۔
شام کے وقت ہر روز تو نہیں مگر اکثر وہ سامنے والے پارک میں ٹہلنے کے لیے چلا جاتا۔ جہاں اسے چند اور بوڑھے مل جاتے۔ وہ لوگ کسی بنچ پر بیٹھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ زیادہ نہیں ہوتا چنانچہ ان کے منہ سے الفاظ کم نکلتے اور خاموشی کا جنگل پھیلتا جاتا۔ ایک دن ایک بوڑھا، جس کا نام اسے معلوم نہ تھا ،بہت خوش نظر آ رہا تھا اور خلاف معمول لگاتار بولتا جا رہا تھا۔ اس کی گفتگو سے اندازہ لگانا دشوار نہ تھا کہ وہ اپنے آبائی مکان میں چند روز گذار کر آیا ہے جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں بشاشت آگئی ہے۔ پارک سے لوٹنے کے بعد اسے بھی اپنے آبائی مکان کے یاد بری طرح ستانے لگی۔ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے باپ کی یاد بھی آنے لگی مگر عجیب بات تھی کہ اسے اپنے باپ کی شکل اب بھی یاد نہیں آ رہی تھی۔ اس کے دل میں گھر جانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی مگر وہاں جانے کا کوئی بہانہ نہ سوجھتا تھا۔ دل کے بہلانے کو اس نے پرانے البم تلاش کیے اور ایک ایک البم کو دیکھ لیا مگر کسی میں بھی اس کے باپ کی تصویر نہ تھی۔ نہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کی نہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی۔ اس کی بیوی نے دریافت بھی کیا کہ آخر اسے کس چیز کی تلاش ہے مگر وہ ٹال گیا۔
ایک دن حسب معمول دن کے دو بجے وہ کھانا کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا کہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ اس نے دروازہ کھولا تو اپنے سامنے ایک ادھیڑ عمر کے اجنبی کو پایا۔ اس نے بتایا کہ وہ قصبے سے آرہاہے۔ اب وہ قصبہ دھیرے دھیر ے شہر میں تبدیل ہو رہا ہے اور ایک نئی فیکٹری کے سنگ بنیاد کے ساتھ ہی زمین کی قیمت بڑھنے لگی ہے اور نئے نئے لوگ وہاں بسنے کے لیے آ رہے ہیں۔ اگر وہ اپنا آبائی مکان فروخت کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے خریدنے کے لیے تیار ہے۔ اس دوران اس کی بیوی بھی اس کے پاس آکھڑی ہوئی تھی۔ اس نے نووارد سے کہا کہ اس کا آفر انہیں قبول ہے اور وہ لوگ جلد ہی اس مکان کو فروخت کرنا چاہیں گے۔ مکان کے تذکرے کے ساتھ ہی اسے اپنے باپ کا پورٹریٹ یاد آگیا اور اس نے دل میں تہیہ کر لیاکہ وہ اسے لیتا آئے گا اور یہاں ڈرائنگ روم میں آویزاں کردے گا۔
دس روز بعد وہاں جانے کا پروگرام بنا جس کی اطلاع اس نے نووارد کے ذریعہ نگراں کو بھیج دی۔ اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی کہ اگر کوئی کام کی چیز بچی ہو تو اسے اپنے ساتھ لے آئے۔ اس نے اپنے بہنوئی کو فون کرکے صورت حال بتائی۔ اس کے بہنوئی نے کہا کہ وہ جو مناسب سمجھے کرے۔ جس روز وہ گھر کے لیے روانہ ہوا اسے راستے بھر اپنے باپ کی یاد آتی رہی۔ گاڑی جب اس کے شہر پہنچی تو شام ہو رہی تھی اور آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے جس سے فضا نیم تاریک ہو گئی تھی۔ گھر کا نگراں ان لوگوں کا منتظر تھا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی اور بچے اب اس کے پاس نہیں رہتے تھے۔ اس نے ڈرائنگ روم کو صاف ستھرا پایا۔ نگراں نے بتایا کہ وہ اسی کمرے میں رہتا ہے۔بقیہ کمرے بند رہتے ہیں مگر ان لوگوں کی آمد پر اس نے بیڈروم صاف کروا دیا ہے۔ وہ اس کی باتیں بے دھیانی کے ساتھ سن رہا تھا اور اس کی نگاہیں دیواروں کا طواف کر رہی تھیں۔ پھر وہ بیڈروم میں گیا۔ وہاں مسہری پر دھلی ہوئی چادر بچھی تھی اور تکئے لگے تھے۔اس اثنا میں رات گھر آئی۔اس کی بیوی نے اسے مشورہ دیاکہ چونکہ وہ لوگ سفر کے تھکے ماندے ہیں لہذا انہیں رات کا کھانا کھا کر جلد سو جانا چاہئے۔جگہ اجنبی تو نہیں تھی مگر اسے دیر رات گئے تک نیند نہیں آئی۔رات کے پچھلے پہر زوروں کی بارش ہوئی اور وہ اندھیرے کمرے میں آنکھیں پھاڑے بجلی کی چمک اور گرج سنتا رہا تھا۔ اس کی بیوی گہری نیند سوئی تھی۔
دوسری صبح دونوں نے پورے گھر کا جائزہ لیا۔ عقبی حصے میں جہاں اس کے باپ کے وقتوں میں سبزیاں اُگائی جاتی تھیں،وہاں ایک بے ترتیب جنگل اُگ آیا تھا۔نگراں نے بتایا کہ چونکہ وہ اکیلا ہے اور اس عمر میں جسمانی مشقت سے گریزاں ہے اس لیے اس نے سبزیاں اُگانی چھوڑ دی ہیں۔ اس کی بیوی نگراں سے باتوں میں مشغول ہو گئی ۔اسے ان دنوں کی گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ اسٹور روم کی جانب بڑھ گیا۔ حالانکہ اسے ایسی کوئی جلدی نہیں تھی مگر وہ اس پورٹریٹ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ صحیح سلامت ہے کہ نہیں۔ اسٹور روم کا دروازہ بند تھا مگر اس میں تالا نہیں تھا۔ اس نے کواڑوں کو دھکا دیا تو وہ ایک دھیمی کراہ کے ساتھ کھل گئے۔ اندر اندھیراتھا اور سارے میں ایک ناگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر ناک پر رکھ لیا اور اندھیرے کمرے میں آنکھیں جمانے کی کوشش کرنے لگا۔ جب اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں تو اس نے اسٹور روم کا جائزہ لیا۔ وہاں ٹوٹی پھوٹی کرسیاں، ٹیبل، مٹی کے گھڑ ے، لوہے کے بکسے، لکڑی کی ایک بڑی الماری اور جانے کیا کیابھرا تھا۔ آخر اس کی متلاشی نگاہوں کو ایک کونے میں رکھا وہ آدم قدپورٹریٹ نظر آہی گیا۔ پورٹریٹ پر گرد جمی تھی اور اس کے خد و خال نظر نہیں آرہے تھے۔ اس نے بدقت تمام کمرے کی کھڑکی کھولی جو عام روشن دان سے ذرا سی بڑی تھی اور قدرے اونچائی پر تھی۔ کمرہ کچھ روشن ہوا۔ پورٹریٹ دیوار کے سہارے زمین پر کھڑا تھا۔ وہ ا س کے سامنے جاکھڑا ہوا۔”تو ایسا تھا اس کا باپ۔ سر پر ہلکے سفید بال،چوڑی پیشانی، گھنی گھنی بھنویں، بھاری پپوٹے، ستواں ناک، پتلے ہونٹ اور دوہرے جبڑے۔ “وہ کافی دیر تک بغیر پلک جھپکائے اسے دیکھتا رہا۔ اچانک کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ وہ چونک کر مڑا۔ دروازے پر اس کی بیوی کھڑی حیرت سے اسے تکے جا رہی تھی۔ جب اس نے اپنی بیوی کی جانب نگاہ اٹھائی تو اس نے پوچھا۔”آپ اتنی دیرسے آئینے کے سامنے کیوں کھڑے ہیں؟“
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔