memories of Shamsur Rahman Farooqi

Articles

میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور کی کچھ یادیں

شمس الرحمن فاروقی

 

میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور کی کچھ یادیں

مجھے میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور کی بہت سی باتیں یاد ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں اس وقت وہاں پڑھنے گیا تھا جب میری عمر کم تھی، اور اس عمر کی باتیں انسان اکثر یاد رکھتا ہے۔ میں ویزلی ہائی اسکول (Wesley High School)اعظم گڑھ (اب انٹر کالج) میں پڑھنے گیا تھا (1943ئ) تو اس وقت میری عمر اور بھی کم تھی ، یعنی اس وقت میں صرف آٹھ سال کا تھا ۔ لیکن وہاں کی باتیں مجھے اتنی یاد نہیں جتنی جارج اسلامیہ کی باتیں۔ لہٰذا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ جارج اسلامیہ کے اساتذہ اور طلبہ میں متعدد ایسے تھے جنھیں آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا۔
میں نے ۹۴۹۱ءمیں گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول (اب انٹر کالج) گورکھپور سے ہائی اسکول پاس کیا اور نیا تعلیمی سال شروع ہوتے ہی میرانام میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج کے گیارہویں درجے میں لکھوادیا گیا۔ لیکن یہ میری اور جارج اسلامیہ کالج کی پہلی ملاقات نہ تھی ۔ گذشتہ سال جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا ، میں نے جارج اسلامیہ کالج میں مضمون نویسی اور فی البدیہ تقریر کے مقابلوں میں تیسرا انعام ( مضمون نویسی) اور خاص انعام ( فی البدیہ تقریر) حاصل کیا تھا۔ مجھے دو کتابیں انعام میں ملیں۔ ایک تو جوش صاحب کا چھوٹا سا ، لیکن مجلد مجموعہ ”شاعر کی راتیں“ تھا اور دوسرا تیغ الہٰ آبادی ( بعد میں مصطفی زیدی) کا اتنا ہی چھوٹا سا غیرمجلد مجموعہ تھا ”روشنی“ ۔ تیغ صاحب کا مجموعہ مجھے اس زمانے میں بھی بہت چھچھلا معلوم ہوا ، بلکہ خدا اور مذہب پر ان کے حملے چھچھورپن اور رکاکت سے مملو معلوم ہوئے ۔ مجھے اس مجموعے کے بہت سے شعر یاد ہیں، اور ان کے بارے میں میری اب بھی یہی رائے ہے۔ جوش صاحب کی کتاب مجھے نسبتاً زیادہ ”شاعرانہ“ معلوم ہوئی اور اس کے بھی بہت سے شعر مجھے اب تک یاد ہیں ۔ تیغ صاحب کی کتاب اب میرے پاس نہیں، لیکن ”شاعر کی راتیں“ خوش قسمتی سے محفوظ ہے۔ اس پر 6 فروری ، 1949ءکی تاریخ پڑی ہے، اور یہ بھی درج ہے کہ میں نے اسے دوسرے دن ختم کرلیا تھا۔
کالج میں جو مضامین مجھے پڑھنے پڑے ان میں انگریزی چھوڑ کرکسی سے بھی مجھے کچھ لگاﺅ نہ تھا۔ انگریزی کے استاد جناب غلام مصطفی خاں رشیدی مرحوم نے اپنی طلاقت لسانی ، تبحر علمی ، پھر اچھے طالب علموں سے دلچسپی اور مسلسل ہمت افزائی کے ذریعہ چند ہی دنوں میں سارے فرسٹ ایر کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ مجھے اس بات کا فخر رہے گا کہ رشیدی صاحب مجھے اچھے طالب علموں میں شمار کرتے تھے اور میرے اردو ادبی ذوق کوبھی انھوں نے ہمیشہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا۔ میں اپنی اردو تحریریں کبھی کبھی ان کو دکھاتا تھا۔ ان کے مشورے نہایت ہمدردانہ اور باریک بینی سے مملو ہوتے تھے اور میں نے ان سے بہت فائدہ اٹھایا۔ رشیدی صاحب بہت عمدہ شاعر بھی تھے اور یہاں بھی ان کی مثال میرے لیے رہنمائی کاکام کرتی تھی۔
رشیدی صاحب کے بہت سے شعر مجھے یاد ہیں۔وہ غزل اور نظم دونوں کہتے تھے،اور نظموں میں ان کی طویل نظم ”سراپا“کے بہت چرچے تھے،لیکن وہ طالب علموں کے سامنے ،یاعام محفلوں میں یہ نظم نہ سناتے تھے کہ اس میں کئی شعروں میں تکلف اور احتیاط کا دامن چھوڑ کر معشوق کے بدن کا بیان اور اس کے حسن کی ثنا کی گئی تھی۔میری زندگی کے یادگار دنوں میں ایک دن وہ ہے جب مسعود اختر جمال کسی مشاعرے میں گورکھپور آئے تھے۔ان سے میری اور میرے ایک دوست کی کچھ ملاقات تھی۔ہم لوگ انھیں راضی کرکے اپنے یہاں لے آئے اور جمال صاحب کے وعدے کا سہارا لے کر رشیدی صاحب کو اور گورکھپور کے مشہور شاعر ہندی گورکھپوری کو بھی بلا لائے۔یہ ان بزرگوں کی طالب علم نوازی اور ادب دوستی تھی کہ تینوں بے حیل وحجت تشریف لے آئے اور ہم لوگوں نے دیر تک ان کا کلام سنا ۔ ہندی صاحب نے کیا سنایا،افسوس کہ یہ مجھے یاد نہیں،لیکن جمال صاحب نے میری درخواست پر اپنی مشہور طویل نظم ”صبح بنارس“ بڑے دلنشیں دھیمے ترنم سے سنائی تھی۔مجھے کچھ شعر پہلے سے یاد تھے اور اب بھی یاد ہیں۔نظم شروع ہوتی تھی ،ع
صبح بنارس گنگا کنارے
ایک بند تھا
دلکش منظر حد نظر تک
حد نظر تک دلکش منظر
جنبش لہروں میں ہلکی سی
جیسے فسوں بر لب ہو فسوں گر
رشیدی صاحب نے ہم لوگوں کی درخواست پر ”سراپا“سنائی،لیکن اکثر شعرپھر بھی چھوڑ دئیے ،اور مزاج کی شائستگی دیکھئے کہ انھوں نے کبھی ہم لوگوں سے مخاطب ہو کر نہ کہا،بلکہ ہمیشہ جمال صاحب یا ہندی صاحب سے کہتے، ”یہاں بہت سے شعر چھوٹتے ہیں۔“جو شعر انھوں نے سنائے ان میں سے کچھ مجھے یاد رہ گئے مندرجہ ذیل شعر کے روشن اور لطیف جنسی پیکر مجھے اب بھی بے نظیر لگتے ہیں
سینے سے ہے کلائی روشن وادی شانہ شانے سے
گورے سے گورے عضو بدن میں صبح کف پا عام نہیں
نظم کئی بحروں میں تھی ،اور ہر بند میں کئی شعر تھے۔ایک یہ شعر بھی اب تک میرے دل میں سنسنی پیدا کردیتا ہے ۔
آکاش سے تارے چن لاﺅں لمحوں کو ابد میں ضم کردوں
تم اپنی زباں سے کہہ تو دو پھر کوشش آدم کیا کہئے
افسوس کے اب وہ تینوں اللہ کو پیارے ہوچکے۔ان جیسے شرافت کے پتلے ،حسن خلق اور خوش لباسی کے مجسمے اب کہاں دیکھنے کو ملیں گے۔تینوں شیروانی اور چوڑی مہری کے پاجاموں میں ملبوس ،تینوں کے ہونٹوں پر پان کی سرخی، چہرے پر متین تبسم کی جھلک ۔رشیدی صاحب چھوٹے قد کے اور گورے تھے،ہندی صاحب بھی پستہ قد لیکن سونولے تھے اور تاریک شیشوں کی عینک لگاتے تھے۔مسعود اختر جمال اچھے ہاتھ پاﺅں کے اور گندم گوں تھے۔تینوں کی پیشانیاں شرافت کے نور سے روشن تھیں۔رشیدی صاحب نے شادی نہیں کی تھی۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ رنگین مزاج اور حسن پرست ہیں،لیکن مدت مدید کے نیاز مندانہ اور شاگردانہ مراسم میں مجھے ان کی کوئی بات شرافت اور متانت سے سر مو متجاوز نہیں دکھائی دی۔
رشدی صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ان کے مجرد رہنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ عشق میں ناکام رہے تھے۔ممکن ہے ایسا ہی ہو،لیکن ان کے کلام میں عشق کی سچی گرمی تھی اور مضامین کی کیفیت عشق میں ناکامی سے زیادہ محبوب کی بے وفائی کا پتہ دیتی تھی ۔وہ میرا لڑکپن تھا،مطالعہ اور فہم دونوں ہی محدود تھے اور عمر بھی ایسی کہ ہر دلکش کلام فوراً متاثر کرتا تھا۔یہ وہ دن تھے جب جدید شعرا میں مجھے جذبی اور ساحر کا تقریباًسارا کلام ،اور حفیظ جالندھری اور مجاز کا بہت سا کلام یاد تھا۔لہٰذا اس زمانے میں رشیدی صاحب کے کلام سے متاثر ہونا کوئی خاص بات نہ تھی ۔لیکن آج بھی،نصف صدی سے کچھ زیادہ مدت گذر جانے کے بعد میں کہہ سکتا ہوں کہ عشق کی گرمی اور معشوق کی بے وفائی کا تجربہ رشیدی صاحب کی غزل میں بے نظیر بانکپن اورمحزونی کے ساتھ ادا ہوا۔
یہی بہت کہ میں غائبانہ جبین عجز بچھا سکوں
تراسنگ در تو مرا نہیں کہ وہیں پہ سر کو جھکا سکوں
ہے ملاحتوں کا وہ حال جس پہ صباحتیں بھی نثار ہیں
میں تجھے بھی اپنی نگاہوں سے ترا حسن کاش دکھا سکوں
یہی آرزو ہے رشید یا کہ میں خاک ہونے سے پہلے اب
وہی زندگی وہی صحبتیں کبھی ایک بار تو پاسکوں
٪٪٪٪٪
انداز و اشارات و کنایات نہیں ہیں
آنکھوں کے سوالات و جوابات نہیں ہیں
نظریں ہیں ابھی تک وہی پیمانہ¿ رقصاں
پر پینے پلانے کے اشارات نہیں ہیں
اب تک اسی خاموشی ناطق کے ہیں جلوے
اس نطق میں لیکن وہ خیالات نہیں ہیں
جھک جاتی ہیں اب بھی کبھی ملنے پہ نگاہیں
لیکن وہ محبت کے حجابات نہیں ہیں
٪٪٪٪٪
نگاہیں کہہ رہی تھیں کچھ یکایک خامشی کیوں ہے
یہ دامان نوازش میں شکن آلودگی کیوں ہے
شکایت ہو کہ نفرت ہو کوئی انداز ہو لیکن
تمھیں ترک تعلق پر بھی یہ وابستگی کیوں ہے
٪٪٪٪٪
پیمانہ ¿رقصاں ،پینے پلانے کے اشارات،خاموشی ناطق،دامان نوازش میں شکن آلودگی ،بھلا مجاز اور اختر شیرانی اس سے بہتر کیا کہتے ؟اور تمام اشعار ،خاص کر پہلی غزل کی روانی اور کیفیت ،اور اس کے ساتھ دوسرے شعر کا مضمون،اعلیٰ درجے کی شاعری ضمانت ہیں۔رشیدی صاحب کو چھپنے چھپانے یا مشاعرہ پڑھنے سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسلامیہ کالج کے مشاعروں اور سالانہ میگزین میں وہ ضرور نظر آتے تھے۔کاش کوئی اللہ کا بندہ ان کا کلام وہاں سے جمع کرکے شائع کردیتا۔
انگریزی کے دوسرے استاد ایک مدراسی (غالباً تامل بولنے والے)عیسائی مسٹرپی۔آئی۔کورئین(P.I. Kurien)تھے کورئین صاحب مدراسی لہجے میں انگریزی بولتے تھے جو ہم لوگوں کے لئے انوکھا اور ساتھ ہی ساتھ مرعوب کن تھا،کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ان کا لہجہ اہلِ زبان جیسا ہے۔ اس زمانے میں مدراس (آج کے چنئی) میں انگریزی اس کثرت سے بولی جاتی تھی کہ ہم سب اسے وہاں کی دوسری زبان سمجھتے تھے، اور یہ غلط نہ تھا ۔ یہ اور بات کہ مدراسیوں کا انگریزی لہجہ اہلِ زبان کی طرح بالکل نہ تھا، لیکن یہ بات ہم لوگ اس وقت کہاں سمجھ سکتے تھے۔ بہرحال ، کورئین صاحب چند مہینے بعد سینٹ اینڈروز کالج (St. Andrew’s College) چلے گئے۔ وہاں ایم۔اے ۔ تک پڑھائی ہوتی تھی اور وہ گورکھپور کا نہایت قدیمی اور مہتم بالشان کالج تھا۔ مجنوں صاحب بھی وہیں اردو اور انگریزی پڑھاتے تھے۔ ہم لوگ کورئین صاحب سے اس بناپر بھی مرعوب ہوئے کہ انھیں بی۔اے۔ پڑھانے کے لائق سمجھا گیا، لیکن رشیدی صاحب کی بات ہی اور تھی۔
ہمارے پرنسپل حامد علی خاں صاحب دبلے پتلے نہایت کم سخن تھے اور دھیمی آواز میں گفتگو کرتے تھے لیکن ناراض ہوجائیں تو ڈانٹ بھی دیا کرتے ۔ انھوں نے کچھ دن ہم لوگوں کو الگ سے انگریزی صرف و نحو وغیرہ پڑھائی۔
اردو کے اساتذہ میں منظور علی صاحب کی نستعلیق صورت ، عمدہ شیروانی، منجھی ہوئی آواز اور باوقار رکھ رکھاﺅ سے لگتا تھا کہ وہ کسی بڑی یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں۔ شمس الآفاق صاحب شمس اردو کے دوسرے استاد تھے ۔ وہ منظور صاحب کے مقابلے ذرا کم بارعب شخصیت کے مالک تھے ۔ شیروانی اور بڑے پائینچوں کا پاجامہ وہ بھی پہنتے تھے۔ یہ لباس ان پر بھلا لگتا تھا۔ دیگر استادوں کی طرح شمس الآفاق صاحب بھی مجھ پر مہربان تھے۔ ایک بار میرے ایک افسانے کی انھوں نے بہت تعریف کی تھی۔
سائنس سے مجھے کوئی لگاﺅ نہ تھا لیکن کیمسٹری کی لیبوریٹری سے اٹھنے والی پراسرار بدبوئیں مجھے ہمیشہ ان تقریباً مخبوط الحواس سائنس دانوں(Mad Scientists)کی یاد لائی تھیں جواس زمانے میں کئی انگریزی اور ایک آدھ اردو افسانوں میں نظر آتے تھے۔لطف یہ کہ کیمسٹری کے لکچرر صاحب(وہ بھی شاید کوئی مدراسی تھے،لیکن ہندو)کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بہت بڑے سائنٹسٹ ہوتے لیکن ایک بار بڑے حادثے کا شکار ہوگئے۔کہا جاتا تھا کہ وہ کیمسٹری کا کوئی بہت مشکل اور عالمانہ تجربہ کررہے تھے جس میں طرح طرح کی گیسیں بروئے کار لائی جاتی تھیں۔ان گیسوں میں کچھ ایسی بھی تھیں جنھوں نے ان کے دماغ پر اثر ڈالا اور وہ نیم مخبوط الحواس ہوگئے۔یہی وجہ تھی کہ وہ کسی بہت بڑی یونیورسٹی میں ہونے کے بجائے گورکھپور کے ایک چھوٹے سے انٹر کالج ہی میں لکچرر ہوسکے تھے۔حقیقت کیا تھی ،یہ تو خدا ہی جانے لیکن ایک بار ان کا غصہ میں نے بھی دیکھا تھا۔وہ سب لڑکوں کو بھگاتے ہوئے لیبوریٹری کے باہر تک لے آئے تھے اور چیخ رہے تھے:
Get out! You are not fit to study!
ظاہر ہے کہ قصور لڑکوں ہی کا رہا ہوگا۔ہم لوگ ان کی لیبوریٹری کے سامنے سے چپ چاپ گذرتے ،شور ہر گز نہ مچاتے تھے۔افسوس کہ ان کا نام بھول گیا ہوں لیکن ان کی شکل ٹھیک سے یاد ہے،پکا سانولا رنگ،موٹے موٹے ہونٹ ،ماتھے پر شکن اور ناک پر عینک ہمیشہ رہتی۔
اقتصادیات کے استادانتظار حسین صاحب مجھے اس لیے یاد ہیں کہ وہ کرکٹ کے عمدہ کھلاڑی تھے اور بریلی ضلع کی ٹیم میں مشہور زمانہ تیز گیند انداز اور ٹسٹ کھلاڑی محمد نثار صاحب کی گیندوں پر وکٹ کیپری کرچکے تھے۔کلاس میں وہ اقتصادیات کی اصطلاحات کے سوا ایک بھی لفظ انگریزی کا نہ بولتے تھے۔نہایت خوش مزاج اور خوش لباس شخص تھے۔ ہائی اسکول کے درجے پڑھانے والوں میں ایک استاد شیخ جگو المتخلص بہ مائل تھے۔ان کا اصل نام ہی ”جگو“ تھا،جس طرح موجودہ پرنسپل صاحب کے پیش رو پرنسپل صاحب کا نام چھوٹے خاں تھا۔وہ بھی بڑے دبدبے کے پرنسپل تھے،انگریز نے انہیں ”خان صاحب“کا خطاب بھی دیا تھا۔شیخ جگو صاحب کی لیاقت کا عالم تھا کہ اگرچہ و ہ سائنس کے طالب علم کبھی نہ رہے تھے لیکن انھوں نے الہٰ آباد یونیورسٹی کے نامور پرفیسر گورکھ پرشاد کی کتاب ،جو فلکیات اور علم ہیئت پر تھی،اس کا ترجمہ اردو میں کیا تھا۔یہ ترجمہ اعلیٰ درجے کے کاغذ پر ٹائپ کے حروف میں ہندوستانی اکیڈمی الہٰ آباد سے چھپا تھا۔پھر انگریزی گرامر اور ریاضی کے ماہر بابو گجا دھر پرشاد تھے۔سارا کالج ان کا ادب کرتا تھا۔جغرافیہ کے لکچر ر منیر صاحب تھے ، نہایت نیک نفیس اور کم گو۔وہ شاعر بھی تھے۔ہم لوگ ان کی خدمت میں تھوڑے بہت گستاخ تھے۔ہندی کے استاد کا نام بھول گیاہوں،بہت سیدھے سادھے بھلے آدمی تھے۔ایک بار ان کی چھتری کلاس میں چھوٹ گئی تھی۔میں اسے اٹھائے اٹھائے ان کے پیچھے بھاگ کر گیااور چھتری ان کی خدمت میں حاضر کردی۔انھوں نے گرم جوشی سے”دھنیہ واد“ کہا۔مجھے یہ بات ان کے لہجے کی گرم جوشی کے باعث ،اور اس سبب سے یاد رہ گئی کہ اب تک مجھے کسی نے ”دھنیہ واد“نہ کہا تھا۔میرے کان Thank Youاور ”شکریہ“کے آشنا تھے۔
میں اردو کا طالب علم نہ تھا(ہندی البتہ میں نے پڑھی،اس زمانے میں انٹر اور بی۔اے۔دونوں میں غیر ہندی داں طالب علموں کو”ابتدائی ہندی“پڑھائی جاتی تھی۔انٹر میں ہم لوگوں نے ہندی کی ایک درسی کتاب”ہندی ہلور“نام کی پڑھی تھی۔ہم لوگ مدتوں اس نام سے لطف اندوز ہوتے رہے تھے۔اس زمانے میں ہندی کی نثر بہت غیر ترقی یافتہ تھی۔لیکن آج تو ہندی خوب اچھی لکھی جارہی ہے اور اہل اردو پچھڑے جارہے ہیں۔)ادب سے میرے شغف کی بدولت منظور صاحب نے مجھے بزم ادب کا معتمد بنادیا تھا۔اس کے پچھلے سال منظور صاحب کی نگرانی میں انشا کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں انتہائی دلچسپ اور پر اثر ڈراما کالج میں ہوا تھا۔انشا،سعادت علی خاں،اور جرا¿ت کے کردار جن لڑکوں نے ادا کئے تھے ان کے نام بھول گیا ہوں ،لیکن ان کے ادا کئے ہوئے مکالمے ،ان کا طرز گفتار ورفتار ، اب بھی مجھے یاد ہیں۔میں بے کھٹکے کہتا ہوں کہ اتنے عمدہ ڈرامے میں نے کم دیکھے ہیں ۔اس سال ایک بڑا مشاعرہ بھی ہوا تھا جس کے شعرا میں سید حامد اور ان کے شعر مجھے خوب یاد ہیں۔سید حامد ان دنوں آئی۔اے۔ایس۔میں کامیاب ہو کر گورکھپور میں ریجنل فوڈ کنٹر ولر کے عہدے پر تھے اور ہمارے لئے ہیرو کا مرتبہ رکھتے تھے۔
منظور صاحب نے مجھے معتمد بزم ادب بنا تو دیا تھا لیکن جلد ہی انھیں اور مجھے معلوم ہوا کہ اس کام کے لئے جتنے محنت،ذمہ داری ،اور طالب علموں سے ملتے جلتے رہنے کی ضرورت ہے،وہ میری بساط کے باہر ہے۔لہٰذا میں نے استعفیٰ دے دیا جو بخوشی قبول کرلیا گیا۔
اردو کے ایک استاد مولوی صدیقی صاحب تھے،منظور صاحب اور شمس الآ فاق صاحب کے مقابلے میں وہ بالکل مولوی لگتے تھے،شاید جماعت اسلامی سے بھی منسلک تھے۔میں بزعم خوداردو میں مہارت رکھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ اردو کا کوئی شعر یا کلام ایسا نہیں جسے میں نہ سمجھ سکوں۔پھر ایک دن اونٹ پہاڑ کے نیچے آگیا۔ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ مجھے سودا کا قصیدہ پڑھادو،ع
سنگ کو اتنے لئے کرتا ہے پانی آسماں
میں نے کہا ،لاﺅ جھٹ پڑھادیں گے۔لیکن جب کتاب کھلی تو میری زبان بند ہوگئی ۔بھلا ایک شعر تو سمجھ میں آیا ہو۔میں کوئی بہانہ کرکے بھاگا بھاگ مولوی صدیق صاحب کے یہاں گیا۔وہ فرشتہ صفت شاید کسی کام میں مصروف رہے ہوں،لیکن انھوں نے نہایت خندہ پیشانی سے،اور مزے لے لے کر وہ قصیدہ مجھے پڑھایا۔میں اس وقت ان کا شکر گذار ہوا ،اور ہمیشہ کے لئے احسان مند بھی ہوں کہ ان کی پڑھائی سے مجھے معلوم ہوا کہ کلاسیکی ادب کی کیا خوبصورتیاں ہیں،اور یہ کہ یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا میں سمجھ رہاتھا۔
جارج اسلامیہ کی لائبریری اس زمانے میں اعلیٰ درجے کی انگریزی کتابوں،خاص کر یورپی فکشن کے انگریزی تراجم پر مبنی موٹی موٹی جلدوں سے بھری ہوئی تھی۔میں نے کئی کتابیں وہاں نکال کر پڑھیں،گھر لے جانے کی اجازت نہ تھی ۔موجودہ زمانے کا حال نہیں کہہ سکتا،لیکن اس زمانے میں کالج لائبریری کا دارالمطالعہ تقریباً ہمیشہ لڑکوں سے بھرا رہتا تھا۔غلام مصطفیٰ صاحب اور شمس الآ فاق صاحب بھی اکثر وہاں بیٹھتے تھے۔کیا مجال کہ کسی طالب علم یا استاد کی آواز بلند ہوجائے،یا کرسی ہی کھینچنے کی آواز اونچی سنائی دے۔میں فرسٹ ایر میں تھا تو سکنڈ ایر کے ایک مقبول اور اچھے طالب علم نے (افسوس کہ ان کا نام اب یاد نہیں)میری طرف اشارہ کرکے شاید کورئین صاحب سے،یا کسی اور سے ، مسکراتے ہوئے مجھےThis little chapکہا۔میری عمر کم تو تھی ہی،لیکن میں کچھ دبلا پتلا اور متوسط قد بھی تھا ،اور وہ صاحب تنو مند اور بلند و بالا تھے۔مجھے یاد ہے کہ This little chapکا خطاب مجھے کچھ برا نہ لگا ،بلکہ اچھا ہی لگا کہ ان کی انگریزی با محاورہ تھی۔اس وقت تک میری انگریزی کے چرچے بہت نہ تھے،لیکن واقف کار لوگ جانتے تھے ۔فرسٹ ایر کے شش ماہی امتحان میں انگریزی کے کسی پرچے میں ہمیں ”کتب بینی “پر مضمون لکھنا تھا۔میں لکھنے میں منہمک تھا اور ایک استاد سید تسنیم احمد میری پشت پر کھڑے دیکھ رہے تھے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں۔معاً ان کے منھ سے نکلا ،”اجی تم تو بہت اچھی انگریزی لکھتے ہو!“پندرہ بیس لڑکے رہے ہو ں گے ،لیکن کوئی متوجہ نہ ہوا ،کیوں کہ اس وقت میرے ساتھی سبھی جان گئے تھے کہ میری انگریزی بہت اچھی ہے۔
شہر میں ایک اور لائبریری سے میرا رابطہ مدتوں رہا۔یہ واحد لائبریری تھی ،اور اس کے کرتا دھرتا ، مالک،منیجر،سب کچھ واحد بھائی(واحد علی ہاشمی)تھے۔اللہ بخشے واحد بھائی مرحوم سے میری اچھی نہ بنتی تھی،کیونکہ میں الماری سے بے تکلف کتاب نکال لینے کا عادی تھا،لیکن لائبریری کا ممبر نہ تھا۔میری مالی حالت ہی ایسی نہ تھی کہ لائبریری کی بہت حقیر فیس ادا کر سکتا، اور واحد بھائی کا خیال تھا کہ دارالمطالعہ میں بیٹھ کر پڑھنے کا استحقاق بھی انھیں کو ہے جو باضابطہ رکن کتب ہوں۔ دوسری بات یہ کہ طالب علم کی حیثیت سے میری سنجیدگی شاید واحد بھائی کی نظر میں بہت مشکوک تھی ، کیونکہ میں افسانے ، ناول ،اور خاص کر جاسوسی ناول بہت پڑھتا تھا ۔ ایک بار جب میں نے ان سے اختر حسین رائے پوری کی مترجمہ قاضی نذر الاسلام کی نظموں کے مجموعے ”پیغامِ شباب“ کی فرمائش کی تو انھوں نے سمجھا کہ میں عنوان سے دھوکا کھاکر اسے کوئی عشقیہ ناول سمجھا ہوں۔ انھوں نے کتاب مجھے دے تو دی لیکن کئی بار کہا کہ یہ آپ کے مطلب کی نہیں ہے۔
میں نے واحد بھائی جیسا فنافی الکتاب شخص نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنا تن من دھن سب لائبریری میں لگا دیا۔ خدا جانے ان کی روٹی کس طرح چلتی تھی اور کتابیں وہ کہاں سے خریدتے تھے۔ افسوس کہ وہ بھی راہی ملک عدم ہوئے اور ان کی لائبریری سب بکھر گئی۔
مجھ سے اوپر کے طالب علموں میں نجات اللہ صدیقی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ وہ مجھ سے دوسال آگے تھے لہٰذا جب میں پہنچا تو وہ کالج چھوڑ چکے تھے۔ لیکن تمام کالج میں ان کی شہرت بہت تھی، اور ہم لوگوں سے کچھ ان کی عزیز داری بھی تھی۔ انھوں نے انٹر میڈیٹ میں سارے یو۔پی ۔ میں نواں مقام حاصل کیا تھا۔ یہ آج بھی بہت بڑی بات ہے، اور اس زمانے میں تو اور بھی بڑی بات تھی، کہ اس زمانے میں طالب علم نسبتہً کم تھے لیکن امتحان بہت سخت ہوتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ میں فرسٹ کلاس لانا گویا چاند پر اترنا تھا۔ سیکنڈ کلاس بھی بہت باعزت نتیجہ تھا۔ اکثریت تھرڈ کلاس والوں کی ہوتی تھی۔ پھر نجات اللہ صاحب نے نویں پوزیشن اس وقت حاصل کی تھی جب سارے ملک میں مسلمانوں کے دل مایوسی سے بھرے ہوئے تھے کہ ان کے ساتھ ایمان دارانہ سلوک بہت کم ہوتا تھا ، بلکہ اکثر حالات میں تو ہوتا ہی نہ تھا۔ نجات اللہ صاحب کی شاندار کامیابی سے کچھ ہی کم بڑی بات یہ تھی کہ انھوں نے انگریزی تعلیم جاری رکھنے کے بجاے رام پور میں جماعت اسلامی کے مدرسہ¿ عالیہ میں اسلام اور عربی پڑھنے کا فیصلہ کیا۔
نجات اللہ صاحب ایک بار مجھے اسلامیہ کالج میں پرنسپل صاحب کے دفتر کے سامنے ملے تو میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے ، تو انھوں نے اپنے ہاتھ میں ایک کاغذ کی طرف اشارہ کرکے جواب دیا:
” پرنسپل صاحب سے اپنے بارے میں ایک Testimonial(تصدیق نامہ) لینا ہے ، اسی کا ڈرافٹ لایا ہوں۔ “
میں اس وقت لفظ ” ڈرافٹ “ سے ناواقف تھا، کچھ غور کرنے پر سمجھ میں آیا کہ اس طرح کے مسودے کو ، جس پر کسی اور کی منظوری یا دستخط ہونے ہوں ، انگریزی میں ڈرافٹ کہتے ہیں۔ اور یہ بات بھی مجھے متاثر کن لگی کہ اپنے تصدیق نامے کا مسودہ نجات اللہ صاحب خود لائے تھے ، یعنی انھیں اپنے اوپر اس قدر اعتماد ہے اور پرنسپل صاحب بھی ان پر اس قدر اعتبار کرتے ہیں کہ انھیں سے ان کا تصدیق نامہ لکھواتے ہیں۔ چونکہ یہ لفظ ” ڈرافٹ“ میں نے ان سے گویا حاصل کیا تھا اس لیے میں انھیں اپنا استاد سمجھتا ہوں۔ نجات اللہ صاحب موٹے شیشوں کی نیلگونی عینک لگاتے تھے ، اس کا بھی ہم لوگوں پر بڑا رعب تھا۔ بعد میں جب میں جماعت اسلامی سے متاثر ہوا اور نجات اللہ صاحب کبھی کبھی رام پور سے آتے تو ہم لوگوں کا محاسبہ کرتے کہ جماعت کی کتابیں ہم نے کتنی پڑھیں اور ان پر کس حد عمل پیرا ہوئے ۔ یہ سلسلہ جلد ہی ختم ہوگیا۔
میرے ساتھیوں میں سب سے تیز اور لائق لڑکا اظہار عثمانی تھا۔ افسوس کہ وہ پاکستان چلاگیا۔ پاکستان سے اس کے خط کبھی کبھی آئے ، پھر بند ہوگئے۔ اس کا ایک خط واحد بھائی کے پاس آیا تھا جس میں میری بڑی تعریف تھی کہ ان کا مطالعہ ”وسیع اور ہمہ گیر“ ہے۔ واحد بھائی کی رائے میرے بارے میں ایسی نہ تھی اس لیے انھیں یقین کرنے میں مشکل ہورہی تھی کہ اظہار کی مراد مجھی سے ہے۔ انھوں نے اس کا خط مجھے دکھایا اور پوچھا، یہ کون صاحب ہیں جن کا ذکر اظہار صاحب نے کیا ہے۔ پاکستان جانے کے بعد اظہار نے کچھ بہت زیادہ ترقی نہ کی ۔ شاید وہ کسی کالج میں لیکچرر ہوگیا اور پھر بہت جلد اللہ کو پیارا ہوگیا۔ میرا اس کا رابطہ اس وقت سے بالکل ٹوٹ گیا تھا جب میں نے گورکھپور چھوڑا (1953) اس کے مرنے کی خبر مجھے بہت بعد میں ملی۔ پھر اس کے بعد اظہار کا ذکر میں نے پاکستان میں تب سنا جب مظفر علی سیّد سے میری ملاقات ہوئی ۔ دریغا کہ اب مظفر علی سیّد بھی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ انھوں نے میرا مضمون ”غبارکارواں“ پڑھا تھا جس میں اظہار کا ذکر تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اظہار سے ان کی اچھی ملاقات تھی اور اس کی موت کار حادثے میں ہوئی تھی۔
اظہار کے ساتھ میرے دوسرے لائق دوست عبدالحی¿ خاں، یامین اور ابرار حسین خاں تھے ۔ عبدالحی¿ خاں ڈاکٹر بنے اور تھوڑا بہت تصنیف و تالیف کا شوق انھوں نے کالج کے بعد برقرار رکھا لیکن موت نے انھیں بھی بہت جلد تاک لیا۔ یامین کو شعر گوئی کا ذوق تھا ، ترنم بھی اس کا اچھا تھا۔ بھاری بھرکم ، بذلہ سنج ، کم جاننے والا لیکن زیادہ مرعوب کرنے والا، وہ بھی پاکستان چلا گیا۔ خدا جانے اس پر کیا بیتی۔ ابرار حسین خاں خود کو بہت لیے دیئے رہنے والے ، نہایت ذہین اور شعر فہم ، لیکن بہت جلد پریشان ہوجانے والے ، میرے قریب ترین دوست تھے۔ وہ گورکھپور سے علی گڑھ گئے ، پھر انھوں نے تعلیمات میں پی۔ایچ۔ڈی ۔ کی ڈگری لی ، شاعری میں ابرار اعظمی کے نام سے نام کمایا ۔ اب وظیفہ یاب ہوکر اپنے گاﺅں خالص پور ، ضلع اعظم گڑھ میں رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہماراگھر کا سا آناجانا اب بھی ہے۔
اقبال انصاری ہم لوگوں سے ایک سال پیچھے تھے لیکن ذہانت اور خوش مزاجی او ر خوش صورتی کے سبب سے ہم لوگوں میں بہت مقبول تھے۔ انھوں نے بنارس میں انجینئرنگ میں داخلہ لیا، لیکن پھر انگریزی میں آگئے اور اقبال اے۔انصای کے نام سے علی گڑھ میں انگریزی کے سربرآوردہ پروفیسر بنے۔ اب بھی وہ علی گڑھ میں ہیں اور اقلیتوں اور انسانی حقوق کے لیے نبرد آزما کئی اداروں سے منسلک یا ان کے سربراہ ہیں۔
ہم سب پر جماعت اسلامی کا تھوڑا ، یا بہت اثر پڑا ۔ اظہار تو بہت جلد کمیونزم کی طرف مائل ہوگیا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصے میں مارکس اور لینن کی تصنیفات پڑھ ڈالی تھیں۔ لیکن اس میں کٹر پن کا شائبہ نہ تھا، بڑا عالی دماغ شخص تھا ۔ عبدالحی¿ خاں بھی اشتراکیت کی طرف جھکے ہوئے تھے، لیکن ان کا رنگ ہلکا تھا۔ ابرار اعظمی اور اقبال انصاری دیر تک جماعت کی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ دونوں کی مذہبیت اب بھی باقی ہے۔ لیکن جماعت سے وہ تعلق شاید اب نہیں رہ گیا، جماعت کے بارے میں خوش عقیدگی ابرار اعظمی میں بے شک اب تک ہے۔ بی۔اے کا دوسرا سال ختم ہوتے ہوتے (1953) میں جماعت اسلامی سے منحرف ، اور پھر بہت جلد متنفر ہوگیا۔ جماعت سے لگاﺅ کے ساتھ ساتھ ، یا اس کے باوجود ، میں گورکھپور کی انجمن ترقی پسند مصنفین کے بھی جلسوں میں شریک ہوتا تھا۔ وہاں ،اور بعض دوسرے جلسوں میں فراق صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقع کئی بار ملا ۔نامی گرامی ترقی پسندوں کا مداح ہونے کے باوجود مجھے ترقی پسندی کو گلے سے اتارنے (ےا کم از کم گلے سے لگالےنے)کی توفیق کبھی نہ ہوئی۔اس کی ایک وجہ شاید یہ تھی روس،اور پھر سویت یونین نے وسط ایشیاکے مسلمان ممالک پر جو ظلم کیے تھے اور جس طرح اسلامی تہذیب کی بیخ کنی کی تھی ،اس سے میں واقف تھا ۔انسانی حقوق کے احترا م کے سلسلے میں بھی مجھے اسٹالن کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہ تھی ۔
ممکن ہے امتداد زمانہ کے سبب پرانی کہانیاں اب زیادہ رنگین نہ معلوم ہوتی ہوں،مجھے تو یہی لگتا ہے کہ میری طالب علمی کے سب سے اچھے دن وہی تھے جومیں نے میاں صاحب جارج اسلامیہ کالج گورکھپور میں گذارے۔انھیں کو یاد کرکے خوش ہو لیتا ہوں ،ظفر خاں احسن کیا خوب کہہ گئے
زبہر مستیم کے کاربا جام و شراب افتد
مرا از گفتگو ے بادہ سر خوش مہ تواں کردن
٪٪٪٪٪