Maze a Story by Moinuddin Jinabade

Articles

بھُول بھلیاں

معین الدین جینابڑے

گلی میں کھیل رہے بچوں کے شور اور از خود ورق الٹنے والے البم کی موسیقی نے آپس میں مل کر بابو کھوجی رام پرایک عجیب کیفیت طاری کردی تھی۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں یادوں کے جگنو چمک رہے تھے۔ ان جگنوؤں کی جلتی بجھتی روشنی میں وہ ٹھہرٹھہر کر،ماضی کے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے کافی دور تک نکل آئے تھے اور اب ان کی عمر اپنے اس پوتے جتنی ہوگئی تھی جو باہر گلی میں اپنے ہم سِنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔
ساٹھ باسٹھ برس کا فاصلہ جب مٹ گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ گلی کی چہل پہل بدستور قائم تھی۔ آنے جانے والوں کاسلسلہ جاری تھا۔ پھیری والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ دو ایک کو گلی کی عورتوں نے روک لیا تھا اور ان سے مول تول کررہی تھیں۔ ایک بغیر گھنٹی کا سائیکل سوار چلا چلا کر راہ گیروں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا۔ ادھرے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی تو دوسروں کے ساتھ سائیکل سوار بھی ایک طرف کو ہوگیا۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ بس اتنا فرق ہوا تھا کہ دور دور تک ان کا کوئی ساتھی، کوئی ہمجولی نظر نہیں آرہا تھا۔ سب چھپ گئے تھے اور انہیں ان چھپے ہوؤں میں سے کسی ایک کو ڈھونڈ کر چھونا تھا۔
اپنے چھپے ہوئے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالنا کھوجی رام کے لیے کوئی بات نہیں تھی۔ جب کبھی اس پر داؤ چڑھتا وہ یوں چٹکیوں میں اسے اتار دیتا۔ بھگوان جانے یہ اس کے نام کی برکت کی وجہ سے تھا یا کھیل کے قاعدوں کی وجہ سے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کھوجی رام پر داؤ چڑھا ہو اور اس نے سو کی گنتی کے اندر اسے اتارا نہ ہو۔ اس داؤ کو اتارنے میں اس کے ساتھی پسینے پسینے ہوجاتے تھے۔
جب کبھی کھوجی رام کی بات آتی تو لڑکوں کا جی چاہتا کہ کھیل کے قاعدوں میں کچھ ترمیم کی جائے اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو یوں ہوجائے کہ ان کی گلی کچھ پھیل جائے…… اتنی پھیل جائے کہ سارا شہر اس کے اندر سماجائے……کھوجی جیسا ڈھونڈنے والا ہو تو اتنی سی گلی میں چھپنا بھی کوئی چھپنا ہوا۔ کھیل کا مزہ تو اسی وقت ہے کہ داؤ اُتارنے والے کو نانی یاد آجائے!
داؤ اتارنے کے لیے کھوجی چاروں طرف گھوم کر گلی کا جائزہ لے رہا تھا اور اسکے دوست جہاں کہیں بھی چھپے تھے، دم سادھے دل ہی دل میں گنتی گن رہے تھے۔ یہ طے تھا کہ سو کی گنتی تک پہنچتے پہنچتے ان میں سے کسی ایک پر داؤ چڑھ چکا ہوگا۔ ہر لڑکا اپنی خیر منا رہا تھا۔ چھٹپٹے کاوقت تھا۔ اب پکڑے جانے کا مطلب تھا رات کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھر اکریں اور دیر سے گھر جانے کی سزا میں پٹائی ہوگی سو وہ الگ!
اکثر یہ ہوتا کہ نوّے پچانوّے کے اندر ہی کھوجی پکار کر کسی کے پکڑے جانے کا اعلان کرتا اور باقی لڑکے اپنی اپنی جگہ سے نکل کر باہر آجاتے۔ آج یہ ہوا کہ ان میں سے ہر ایک کی گنتی سو تک پہنچ گئی اور وہ باہر نہیں نکل سکے۔ کھوجی نے کسی کے پکڑے جانے کا اعلان ہی نہیں کیاتھا۔
اتنی دیر میں کھوجی داؤ نہ اتار سکے یہ ناممکن ہے۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس نے انہیں بے وقوف بنایا ہو۔ یہ حرکت تو کچے کھلاڑیوں کی ہے کہ جب ان پر داؤ چڑھے تو سب کے چھپ جانے کا انتظار کریں اور پھر چپ چاپ آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر گھر کی راہ لیں۔ چھپنے والے، چھپے بیٹھے یہ سوچ کر خوش ہوتے رہیں کہ کوئی انہیں ڈھونڈرہا ہے اور وہ کسی کو پدار ہے ہیں۔ یہ تو انہیں بعد میں معلوم ہوگا کہ وہ خود پد گئے۔
کھوجی ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ ایک پکا کھلاڑی ہے اور اس کھیل کے تعلق سے کچھ ایسی ازلی مناسبت ساتھ لے کر آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، کھیل کے اسرار رموز ازخود اس پر آشکار ہونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ وہ واحد کھلاڑی تھا جسے صرف چھپنے میں نہیں بلکہ ڈھونڈنے میں بھی لطف آتا تھا۔ اس کھیل میں وہ دونوں رول یکساں دلچسپی اور انہماک سے ادا کرتا تھا۔ اس کے لیے آنکھ مچولی کے کھیل میں پدنا اور پدانا بے معنی لفظ تھے۔ ایساکبھی نہیں ہوا کہ اس نے ڈھونڈنے کی باری سے جی چرایا ہو یا یہ کہ چھپنے کی باری کی طرف اس کی رغبت ظاہر ہوئی ہو۔ سب دیکھتے تھے کہ اسے ڈھونڈنے میں بھی وہی مزہ آتا ہے جو دوسروں کو چھپنے میں آتا ہے۔ چھپنے میں اوروں کے ساتھ اسے مزہ آتا تھا تو کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ہر لڑکے کو یہ یقین تھا کہ سب کے چھپ جانے کے بعد چپ چاپ گھر چلے جانے کی حرکت اس سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اسے شرارت سوجھی ہو اور اپنی شرارت میں اس نے پکڑے جانے والے لڑکے کو ساجھی بنا لیا ہو۔ کھوجی نے اسے اس بات پر آمادہ کر لیا ہو کہ دونوں خاموش بیٹھے رہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ڈھونڈے جانے کے شوق میں سب لڑکے کب تک چھپے رہ سکتے ہیں۔ یہ حرکت کھوجی پہلے بھی دو ایک مرتبہ کرچکا تھا۔
آج ایک مرتبہ پھر ان لڑکوں کو معلوم ہوا کہ جس چھپنے کی باری کی خاطر وہ مرے جاتے ہیں وہ چھپنا کتنا اذیت ناک ہوسکتا ہے۔ وہ جو کچھ دیر پہلے اس خیال سے مسرور تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ رہا ہے، اب پریشان ہوگئے تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ کیوں نہیں لیتا؟ ڈھونڈے جانے کا نشہ اتر چکا تھا۔ اتنی دیر تک چھپے رہنے سے ان کی طبیعتیں منغض ہونے لگیں تو انہوں نے اپنی اپنی جگہ سے کسی آڑ، کسی اوٹ سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش سود مند ثابت نہیں ہوئی تو سب کے سب اوٹ سے نکل کر باہر گلی میں آگئے۔
باہر گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی تھی۔ میونسپلٹی کا بلب ٹمٹما رہا تھا۔ ساری چہل پہل ماند پڑچکی تھی۔ فضا بوجھل ہوگئی تھی اور راستے پر اداسی بچھی ہوئی تھی…… رہا کھوجی تو اس کا دور دور تک پتا نہیں تھا!
کھوجی نے نہ تو اپنے دوستوں کو بے وقوف بنایا تھا اور نہ اس شام اسے شرارت سوجھی تھی۔ داؤ اتارنے کے لیے چاروں طرف گھوم کر جب اس نے گلی کا جائزہ لیا اور ایک اچٹتی ہوئی نظر بڑی سڑک پر ڈالی تو وہاں سے گذرتے ایک آدمی پر اسے اپنے ماما کا گمان ہوا۔ اس کے وہ ماما جو کبھی ممبئی نہیں آئے تھے۔ کھوجی نے دیکھا کہ وہ گلی میں نہیں مڑے بلکہ سیدھا آگے بڑھ گئے۔ لپک کر انہیں روکنے کے خیال سے کھوجی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آگیا……وہ اماں کی اس تاکید کو بھولا نہیں تھا کہ کھیل کود کے دوران کبھی گلی سے باہر قدم نہ نکالے ……لیکن اسے اماں کی یہ بات بھی یاد تھی کہ اس بمبئی کی بھیڑ میں بچے تو بچے بڑے بھی کھوجاتے ہیں۔ پردیس میں ماما کے کھو جانے کا اندیشہ اس کے ذہن پر کچھ ایسا حاوی ہوا کہ اس نے سوچا بھگوان نہ کرے اگر اس بھیڑ میں ماما کھوگئے تو اس کی ذمہ داری اس کے سر ہوگی۔
بڑی سڑک پر آکر اس نے ماما کو آواز دی لیکن سڑک کے شور میں شاید اس کی آواز ان تک نہیں پہنچی۔ وہ برابر آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ کھوجی نے سوچا ذرا سا تو فاصلہ ہے ابھی دوڑ کر انہیں روک لیتا ہوں۔ وہ بھیڑ کر چیرتے ہوئے ان کی طرف بڑھنے لگا۔ لوگوں کو ہٹاتے اور موٹروں سے بچتے بچاتے انہیں جالینے کی کھوجی کی تمام تر کوشش کے باوجود اس کے اور ماما کے بیچ کا فاصلہ مستقل بڑھتا رہا۔ اس کوشش میں وہ اپنے گھر اور گلی سے بہت دور نکل آیا اور اسے اس بات کا بھی دھیان نہیں رہا کہ وہ بڑی سڑک کو کب کا چھوڑ چکا ہے۔
انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اس کے ماما کی حیثیت ایک تنکے کے سی تھی۔ وہ تنکا اس سمندر کی پرشور موجوں پر ہچکولے کھا رہا تھا اور کھوجی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اس ڈوبتے ابھرتے تنکے کو دیکھتے دیکھتے ایک پل کے لیے کھوجی کو ایسا لگا کہ وہ خود اس سمندر میں ڈوبا جارہا ہے۔ دوسرے ہی پل اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی موج آئی اور اس میں وہ تنکا ایسا ڈوبا کہ پھر ابھر نہ سکا!
تنکے کے ڈوبنے نے کھوجی کو اپنے ڈوبنے کے احساس سے نجات دلائی۔ اس نے ٹھہر کر سانس درست کیا۔ خود اپنا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ پسینہ پسینہ ہورہا ہے۔ اپنے اطراف نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہ شہر کے کسی انجانے چوراہے کے بالکل بیچ میں کھڑا ہے…… چشم زدن میں اس پر روشن ہوا کہ وہ کھو گیا ہے!………… تو آخر وہ ڈوب ہی گیا!!
ان دنوں بمبئی میں ٹرا میں چلا کرتی تھیں۔ سڑک پر ان کے لیے لوہے کی پٹریاں ڈال دی گئی تھیں۔ اوپر برقی تار جھول رہے تھے جن سے ٹرام جڑی رہتی تھی۔ وہ شائد ٹرام کے وہاں سے گزرنے کاوقت نہیں تھا۔ بسوں، موٹروں اور سائیکلوں سے البتہ چاروں راستے پٹے پڑے تھے۔ تمام سواریوں کی رفتار میں ایک تال میل تھا۔ پیدل چلنے والوں کی بھیڑ الگ تھی۔ مختلف عمروں کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھی وہ بھیڑ۔ اس میں بعضوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔ وہ سب ان سواریوں سے بے نیاز اپنے اپنے راستے، چلے جارہے تھے۔ ویسے ہی جیسے وہ سواریاں، ٹرام کی لوہے کی پٹریوں سے بے نیاز فراٹے بھر رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان سبھوں کو بڑے سلیقے کے ساتھ سدھایا گیا ہے۔ کسی کی کسی سے ٹکر نہیں ہورہی تھی۔ جبکہ ٹکرا جانے کے امکانات قوی تھے۔ سب سہج سبھاؤ سے چلے جارہے تھے۔ گویا ہر چیز اپنے معمول پر تھی، سوائے اس کے…………ہر چیز اپنے محور سے بندھی ہوئی تھی اور اس کی گردش کا راستہ طے تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ کھو گیا تھا!
لوگوں کا وہ ہجوم دیکھتے دیکھتے کئی ریلوں میں بٹ جاتا اور کچھ دیر میں الگ الگ سمتوں سے کئی ریلے آکر پھر سے ہجوم بناتے۔ کبھی کبھی دو ریلے آمنے سامنے ہوجاتے تو وہ آپس میں بڑے عجیب ڈھنگ سے گتھ جاتے۔ ذرا سی دیر میں معلوم ہوتا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو پار کرلیا ہے۔ لیکن وہ تواپنے محور ہی سے دور جاپڑا ہے وہ بھلا کس کے مقابل ہوسکتا ہے؟
تادیر مستقل طور پر ڈوبتے ابھرتے تنکے کے تعاقب کی وجہ سے اس کی نظر دھندلاگئی تھی اور یہ منظر اس کے لیے ایک پراسرار کیفیت کا حامل ہوگیا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ایک مہین چادر اس پورے منظر پر تان دی گئی ہے اور اس چادر سے منظر کے اسرار ایک ایک کرکے چھن رہے ہیں ………… سچ تو یہ ہے کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی تھی………… اور یہ اس پل بدل گئی تھی جس پل اس پر یہ بات کھلی تھی کہ وہ کھو گیا ہے!
اس ننھی سی عمر میں شعوری طور پر وہ ان باتوں کو کیا سمجھتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نے خود کو کھو کر جسے پایا تھا اس ایک پل کے لیے اس نے اپنے اندر ایک عجیب اپنا پن محسوس کیا تھا۔ وقت گذرتا رہالیکن وہ ایک پل کہیں اس کے اندر ٹھہر سا گیا!
کھو جانے کے باوجود وہ طمانیت کے احساس سے بھرا ہوا تھا۔ اسے کھونے کا مطلق غم نہیں تھا لیکن جب اسے اماں کی یاد آئی اور خیال آیا کہ اب وہ انہیں مل نہیں پائے گا تو بے اختیار اس کے آنسو نکل پڑے۔ آنسو پوچھنے کے لیے اس نے ابھی ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ………… گلی سے آرہی رونے کی آواز اور دادا اا کی پکار نے ان ہاتھوں کو روک لیا!
بابو کھوجی رام ایک زقندبھر کے دوبارہ وقت کے دھارے سے آملے۔ البم کی چابی آخری ورق پر آکر ختم ہوگئی تھی۔ اس آخری ورق پر ان کی اپنی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد الوداعی تقریب کی تصویر تھی وہ۔ اس کے ساتھ ہی صبح کا دیکھا ہوا اخبار رکھا تھا اور سامنے سے ان کا پوتا روتا ہوا آرہا تھا۔
آج صبح اخبار میں اپنے پوتے کی عمر کے ایک گم شدہ بچے کی تصویر دیکھ کرانہیں یاد آیا تھا کہ ساٹھ برس قبل پہلی مرتبہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا اس دن آج ہی کی تاریخ تھی۔ اپنے حافظے کو جانچنے کے خیال سے وہ بچپن کی اس تصویر کو ڈھونڈ رہے تھے جس کی پشت پر بابوجی نے اس کے نام اور پتے کے ساتھ کھوجانے کی تاریخ لکھ رکھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ بابو جی اس تصویر کو لیے پولس اسٹیشن کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں وہ انہیں روتا ہوا مل گیا تھا………… جیسے اچانک غیر متوقع طور پر وہ کھو گیا تھا ویسے ہی اچانک غیر متوقع طور پر وہ مل بھی گیا تھا!!
اس اتفاق پر سبھی حیران تھے اور اماں تھیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں۔ انہوں نے اسے سینے سے لگا کر چمکارتے ہوئے جب پوچھا کہ بیٹا تو کھو کیسے گیا تھا؟ تو اس نے انہیں بڑی سڑک پر ماما کو دیکھنے اور ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہنے کی تفصیل بتائی تھی۔ اس پر اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا:
”بیٹا! میری دادی کہا کرتی تھی کہ دنیا میں ایک صورت کے تین آدمی ہوتے ہیں۔ یہ دھرتی اتنی وشال ہے کہ ایک صورت کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک صورت کا ایک ہی آدمی ہوتا ہے………… بیٹا!وہ تیرے ماما نہیں تھے۔ ان کی شکل تیرے ماما سے ملتی ہوگی۔ آئندہ یاد رکھنا کبھی کسی کی صورت دیکھ کر دھوکے میں مت آنا“
اس نے امّاں کی بات گرہ میں باندھ لی تھی لیکن وہ ایک پل جو اس کے اندر کہیں ٹھہر گیا تھا، ہر پل خود کو دہرانے کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر والے تو گھر والے، گلی محلے والے بھی اس کے تعلق سے پریشان اور فکر مند رہنے لگے تھے۔ سال میں دو ایک مرتبہ یوں ہی اتفاقیہ طور پر کھوجانا، کھوجی کی زندگی کا معمول بنتا جارہا تھا۔ وہ تو خیر تھی کہ وہ اتفاقیہ طور پر مل بھی جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرنے لگا اور کھوجی کی عمر بڑھنے لگی ماں باپ کے اندیشوں کی نوعیتیں بھی بدلنے لگیں۔ اب بابو جی بات بے بات اس پر بگڑنے لگے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے جھلا کر، اسے ڈپٹ کر پوچھا تھا:
”تو بار بار کھو کیوں جاتا ہے!“
اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کی خاموشی پر وہ اور بگڑے تھے۔ بگڑ کر انہوں نے دوسرا سوال داغا تھا:
”تجھے کیا مل جاتا ہے اس بار بار کے کھو نے میں؟“
اس کے پاس اس کا بھی جواب نہیں تھا…………وہ بابو جی کو کیسے سمجھاتا کہ کھونا اپنے آپ میں ایک پانا ہے!
اب اس کے چھوٹے بھائی بہن اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ اس کی زندگی کے اس معمول سے وہ بھی اپنی بساط بھر واقف ہونے لگے تھے۔ ان کی آپس کی بات چیت اور ہنسی مذاق میں حوالے کے طور پر کبھی کبھار اس کا ذکر بھی آنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی دیدی سے پوچھا:
”دیدی! بمبئی میں اتنی بھیڑ کیوں ہے!“
تو اسے دیدی نے جواب دیا تھا:
”یہ ساری بھیڑ ہمارے بھیا کے کھونے کے واسطے جٹائی گئی ہے۔“
گھر والوں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود بمبئی کی یہ بھیڑ بار بار بھیا کے کام آنے سے باز نہ آئی تو انہوں نے بھیا کے پیروں ہی میں بیڑی ڈال دی……بڑی دھوم دھام سے اس کا بیاہ کرکے بہو گھر لے آئے کہ اب یہ کھونٹی سے بندھا رہے گا! کم از کم اماں تو یہی سمجھتی تھیں لیکن بابو جی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے۔ ان کی سوچ ذرا الگ تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ آج جب یہ کھو جاتا ہے تو گھوم پھر کر ہمیں مل جاتا ہے۔ کل کو اگر ہم نہ ہوئے تو کھونے کے بعد یہ کسے ملے گا؟ کھونے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے کسی کا ہو نا ضروری ہے۔ کافی غورو فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس ضرورت کو صرف بہو ہی پورا کرسکتی ہے!
کچھ دنوں کے بعد باتوں باتوں میں امّاں نے بہو کے سامنے اس کے کھونے کے معمول کاذکر کردیا۔ ابھی اس غریب کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں چھٹی تھی کہ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ ڈاکٹر نے خواب آور گولیاں تجویز کی۔ اب یہ ہونے لگا کہ رات میں وقت بے وقت وہ ہڑ بڑا کر نیند سے جاگ اٹھتی اور اندھیرے ہی میں ساتھ والے بسترکو ٹٹول کر دیکھ لیتی کہ وہ کھو تو نہیں گیا۔
اس کی بیوی نہیں جانتی تھی کہ وہ یوں راتوں کو پراسرار طور پر غائب نہیں ہوتا۔ وہ تو بڑے ہی فطری انداز میں سہج سبھاؤ سے کھوتا آیاہے……لیکن وہ یہ بات اپنی بیوی کو کیسے سمجھاتا!
کچھ دنوں میں اس کی بیوی اس بات کو خود ہی سمجھ گئی۔ ویسے بھی وہ بڑی سمجھدار عورت تھی اپنی گرہستی جمانے میں اس نے جس سلیقے اور اسے چلانے میں جس سگھڑاپے کا مظاہرہ کیا تھا وہ اسی کاحصہ تھا۔ اس کے اس سلیقے کو دیکھ کر کھوجی کے ماں باپ نہال ہوگئے تھے۔ اس نے آکر گھر کی کایا ہی پلٹ دی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پانچ برسوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ کھوجی کا معمول پرانی بات ہو کر رہا گیاہے………… لیکن ایک دن بہو اپنی ساس سے کہہ رہی تھی ”ماں جی! جیسا آپ بتاتی ہیں وہ کھونا تو پھر بھی ٹھیک تھا۔ کھو گئے…… پھر مل گئے۔ لیکن اب تو انہوں نے کھونے کا ڈھنگ ہی بدل دیا ہے“
بوڑھی ماں لرز کر رہ گئی تھی۔
”وہ کیسے بیٹی؟“
”کیا بتاؤں ماں جی! اب تو یہ آٹھوں پہر کھوئے کھوئے رہتے ہیں۔“
اماں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا تھا اور بہو کی طرف ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر، مجرم کی طرح پلکیں جھکالی تھیں!
اماں کے خیال نے بابو کھوجی رام کو بچپن کی وہ بات یاد دلادی جسے انہوں نے کبھی گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ان کی نظر سامنے پڑے البم کے آخری ورق پر جمی تھی۔ وہ سوچنے لگے اگر دنیا میں ایک شکل کے تین آدمی ہوتے ہیں تو اس صورت کے بھی ہوں گے۔ یہ کیوں کر ہوا کہ انہوں نے اماں کی بات کو گرہ میں باندھ کر بھلادیا۔ کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ جبکہ زندگی میں چار چھ مرتبہ خود ان کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ کسی اجنبی سے ان کا تعارف ہوا اور اس نے چھوٹتے ہی یہ بتایا کہ ان کی صورت اجنبی کے کسی دوست یا عزیز سے ہو بہو ملتی ہے۔
وہ حیران تھے کہ جدید ایجادات کی وجہ سے یہ دنیا سمٹ سمٹا کر بہت چھوٹی ہوگئی ہے لیکن پھر بھی یہ ا تنی بڑی ہے کہ ایک شکل کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ ایسا آدمی مل جاتا ہے جو الگ الگ جگہوں پر، الگ الگ وقتوں میں دونوں سے مل چکاہو لیکن ایک وقت ایک جگہ، دو ایک جیسے آدمی نہیں مل پاتے، کیا وجہ ہے کہ اتفاقیہ طور پر ہی سہی وہ کبھی آمنے سامنے نہیں ہوتے۔ اس اتفاق کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے قدرت نے نہ جانے کیا اہتمام کیا ہے اور پتا نہیں ایسا کرنے میں اس کا کون سا راز پوشیدہ ہے……ورنہ یہ کیوں کر ہوا کہ وہ زندگی بھر کھوتے آتے ہیں لیکن یہ نہ ہوا کہ کسی بار اتفاق ہی سے اپنے کسی ہم شکل سے ٹکرا جاتے!
باہر گلی میں بچے اب بھی آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ کھیل میں ان کا پوتا بھی شریک تھا۔ بچے اس سے بے نیاز تھے کہ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ بابو کھوجی رام کو البتہ یہ احساس ضرور ہوا کہ وہ کھوئے بیٹھے رہے اور ان کے معمول میں فرق آگیا۔ یہ وقت تو شام کی سیر کا ہے۔ اس وقت انہیں کارپوریشن کے گارڈن کی بینچ پر ہونا چاہیے تھا۔ ان کے بچپن میں یہ گارڈن نہیں تھا۔ اس جگہ کھلی زمین پڑی تھی۔ جس پرسنتے تھے کہ مداری اپنا بندر نچاتا تھا۔ جگہ ویسے دور نہیں تھی۔ گلی سے نکل کر بایاں موڑ مڑکر بڑی سڑک پر بیس بائیس قدم چلنے جتنا فاصلہ تھا۔ اس وقت تو عمر وہ تھی کہ اس فاصلے کو تین چا ر چھلانگوں میں طے کرلیتے لیکن اماں نے تاکید جو کر رکھی تھی کہ کبھی گلی سے باہر قدم نہ رکھنا، آج اس فاصلے کو طے کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ دس پندرہ منٹ بینچ پر سستانے کے بعد جب وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی ہڈیاں کڑ کڑا کر رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس عمر میں جسم کے لیے اتنی ورزش ضروری ہے ورنہ تو وہ دہلیز سے باہر قدم نہ نکالتے۔ دیر ہی سے سہی معمول کو پورا کرنے کی خاطر بابو کھوجی رام نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھ میں چھڑی سنبھالی، ناک پر عینک کو جمایا اور باہر گلی میں نکل آئے، وہ بڑی سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پیچھے سے ان کے پوتے نے آواز دی:
”دادا جی آج آپ دوسری بار سیر پر جار ہے ہیں۔“
”دوسری بار کیا مطلب؟“
کچھ دیر پہلے تو آپ گئے تھے۔“
”کب؟“
”جب میں داؤ اتار رہا تھا۔“
”کہاں گیا تھا میں؟“
”آپ گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر ادھر مڑ گئے تھے۔“
پوتے نے دائیں موڑ کی طرف ہاتھ دکھا کر کہا۔
”لیکن میں تو روز بائیں طرف مڑتا ہوں۔ گارڈن کی طرف!“
”میں نے دیکھا آج آپ اس طرف مڑر ہے تھے۔“
اس نے پھر دائیں جانب اشارہ کیا۔
”کیا اب بھی تم پر داؤ چڑھا ہے؟“
”نہیں۔ اب میرے چھپنے کی باری ہے۔“
چھپنے کی خوشی میں لڑکے نے مسکرا کر پلکیں جھپکائیں، بابو کھوجی رام نے پوتے کو سمجھاتے ہوئے کہا:
”دیکھو! باری چاہے چھپنے کی ہو یا داؤ اتارنے کی، سب کچھ بھول کر اسے اتارنے میں من لگانا چاہیے۔“
”داؤچڑھ جائے تو سبھی اتارتے ہیں لیکن چھپنے کی باری کیسے اتاری جاتی ہے۔“
”ڈھونڈ کر“
”اور ڈھونڈنے کی باری…………!“
”چھپ کر…………“
پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں“
”سوچو مت، جاؤ چھپ جاؤ تمہارے سب دوست چھپ چکے ہیں۔“
گلی اب بھی وہی تھی جو ساٹھ باسٹھ برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ آنے جانے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پھیر ی والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ راہ گیروں اور سائیکلوں کی آر جار میں اسکوٹریں اور موٹریں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ آنکھ مچولی کا کھیل اب بھی کھیلا جارہا تھا۔ سب لڑکے چھپ چکے تھے اور ڈھونڈنے والے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کسے ڈھونڈ نکالے گا۔
بابو کھوجی رام آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے وہاں تک آگئے جہاں گلی دائیں بائیں مڑکر بڑی سٹرک سے مل جاتی ہے۔ پیچھے مڑ کر انہوں نے ایک بھر پور نظر ڈالی، پھر پلٹ کر پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب دیکھا۔ بڑی سڑک اب نام ہی کی بڑی رہ گئی تھی۔ باوجود اس کے کہ ان برسوں میں کارپوریشن نے دو ایک مرتبہ سٹرک کے کنارے بنی غیر قانونی تعمیرات کو توڑ کر اسے چوڑا بھی کیا تھا، وہ کچھ سمٹی سکڑی سی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے سرے البتہ اب بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ جہاں تک نظر نے ساتھ دیا پہلے کی طرح اب بھی یہی نظر آیا کہ بس سٹرک چلی جارہی ہے۔ دائیں طرف بھی سٹرک ہی سڑک تھی اور بائیں طرف بھی سڑک ہی سڑک……!
بابو کھوجی رام نے جب چھڑی پر اپنی گرفت مضبوط کی اور دایاں موڑ مڑ گئے تو پیچھے گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی اور کارپوریشن کے کھمبے سے ٹنگا ٹیوب ٹمٹمانے لگا!!
٭٭٭
Best Urdu Short Story