Krishan Chandar: Life and Work

Writers

Krishan Chandar: Life and Work

---

23 Nov. 1914 - 8 March 1977

کرشن چندر اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کی پیدائش 23/ نومبر1914کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے۔ انھوں نے کرشن چندر کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔ کرشن چندر نے چونکہ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا اس لئے اردوزبان و ادب پر ان کی گرفت کافی تھی۔ابتدائی تعلیم پونچھ(جموں کشمیر) میں ہوئی۔ 1930کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور فورمین کرسچن کالج میں داخلہ لیا۔1934میں پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔اے کیا۔
کرشن چندر کی ادبی زندگی صحیح معنوں میں ”ادبی دنیا“ لاہور سے شروع ہوئی۔ جہاں صلاح الدین احمد نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی زمانے میں کرشن چندر کو آل انڈیا ریڈیو، لاہور میں ملازمت مل گئی اور سال بھر میں دہلی اور پھر لکھنؤ تبادلہ ہوگیا۔لکھنؤ اس زمانے میں ترقی پسند تحریک کا مرکز تھا۔ لکھنؤ کے قیام کے دوران ہی انھیں شالیمارپکچرز کی طرف سے مکالمے لکھنے کی دعوت ملی اور وہ ریڈیو کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر پونہ چلے گئے۔بعد میں مستقل طور پر ممبئی میں سکونے اختیار کرلی اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر کی رومان پرورآب و ہوا میں ہوش سنبھالا اس لیے ابتدائی دور کے اکثر افسانوں اور ناولوں میں سماجی حقیقت نگاری اور طبقاتی شعور کا عنصر کم کم نظر آتا ہے اور رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے جب ان کے ذہن نے پختگی اختیار کی اور سماجی معاملات سے ان کا سابقہ پڑا تو لہجے میں تبدیلی آئی اور اس میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا۔
کرشن چندرنے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اْبھرتے ہوئے دولت مند طبقے کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی کا پل‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ قارئین کے ذہن پر تادیر اپنا تاثر قائم رکھتے ہیں۔ کرشن چندر اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں سے کسی حد تک مختلف تھے۔ کرشن چندر کو زبان پر جو عبور حاصل تھا اور ان کی خوبصورت اور آرائشی زبان قاری کو آغاز میں ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی۔کرشن چندر کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معروف نقاد گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:
”کرشن چندر اردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا۔ ان کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی بے حد اہم نام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرشن چندر ۰۶۔۵۵۹۱ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کا نام پریم چند کے بعد تین بڑے افسانہ نگاروں میں آئے گا“(افسانہ بیسوی صدی میں۔ از: مہدی جعفر۔ ص: ۹۳۱۔ معیار پبلی کیشنز، دہلی۔۳۰۰۲ء)
کرشن چندر کے افسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلامبالغہ اس بات کا اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف محبت کے جذبہ اور احساس کو پورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے تھے بلکہ سماجی برائیوں کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھتے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اسی لئے عام انسان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کے دل میں امیروں کے تئیں بغاوت اور بدلے کا جذبہ تھا۔
’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ جیسے رومانی افسانے نہ صرف جذباتی ہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ’زندگی کے موڑ پر‘ افسانہ پنجاب کی قصباتی زندگی کی انتہائی رومانی شبیہ پیش کرتا ہے، وہیں ’بالکونی‘ کشمیر کی خوبصورتی اور آب و ہوا کا عکاس ہے۔ کرشن چندر کے یہ رومانی افسانے دوسرے افسانہ نگاروں کے ذریعہ لکھے گئے افسانوں سے قدرے مختلف ہیں کیونکہ وہ ان افسانوں میں بھی روز مرہ کے عمل کے اندر سماجی عنصر کی تلاش کر لیتے ہیں۔ گویا کہ کرشن چندر کے رومانی افسانوں کی دنیا اردو افسانے کی روایتی رومانی دنیا نہیں ہے۔ اس ضمن میں محمد حسن عسکری نے تحریر کیا ہے کہ:
”اب رہی وہ رومانیت جسے عام طور پر کرشن چندر سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے وہ افسانے جنہیں رومانی کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ افسانے رومانی ہیں، تب بھی کرشن چندر کی رومانیت دوسروں سے کافی مختلف ہے۔ وہ رومان کی تلاش میں ہجرت کر کے مالدیپ نہیں جاتا بلکہ یہ کوشش کرتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں رومان کے امکانات ہیں یا نہیں۔ درحقیقت یہ افسانے رومانی نہیں ہیں بلکہ رومان کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں“۔(افسانہ بیسوی صدی میں۔ از: مہدی جعفر۔ ص:۱۴۱۔ معیار پبلی کیشنز، دہلی۔۳۰۰۲ء)
کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پیشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب لگاتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔
کرشن چندر کے شاہکار افسانوں میں ’کالو بھنگی‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کہانی میں انہوں نے چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے کالو بھنگی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی پریشان حال زندگی اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں صرف کالو بھنگی کی پریشانیوں اور جدوجہد کو ہی پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے سماج کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
کرشن چندر کی تقریباً ۰۸کتابیں شائع ہوئیں۔ حالانکہ انھوں نے ناول، افسانے، ڈرامے، رپورتاژ، مضامین گویا کہ نثرکی کماحقہ‘ اصناف میں طبع آزمائی کی تاہم ان کی بنیادی شناخت ایک افسانہ نگار کی ہے۔ان کے ناولوں میں شکست، جب کھیت جاگے، اور آسمان روشن ہے قابلِ ذکر ہیں لیکن کوئی ناول زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ کرشن چندر دراصل بسیار نویس اور زود نویس تھے اور اسی چیز نے ان کے فن کو نقصان پہنچایا۔ان کی مقبولیت رومانیت اور سبک و رواں نثر کی وجہ سے تھی جس میں گویا ایک طرح کی جادو اثری تھی۔ ان کے بہترین افسانے ان کی رومان پسندی، حسن کاری، فطرت پرستی، انسان دوستی اور بہتر سماج کی آرزو مندی کے سبب زندہ رہیں گے۔
کرشن چندرنے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔کرشن چندر کا انتقال8/ مارچ 1977 کو ممبئی میں ہوا۔
٭٭٭
یہ تحریر ڈاکٹر قمر صدیقی، ممبئی کی ہے۔