Kab Hum Aap Paraye Hain by Shams Wadood

Articles

کب ہم آپ پرائے ہیں؟

شمس ودود

ہندوستانی زبان، ہندوستانی تہذیب اور یہ لب ولہجہ عصرحاضر کے دانشوروں کو ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، لیکن اب بھی اس کے افق سے کچھ ستارے جو اپنی روشنی سے یہ اعلان کرتے ہیں۔ اعلان ہی نہیں بلکہ سناٹے میں نقارے کے مانند گونج اٹھتے ہیں اور ہماری بصارت خیرہ ہو اٹھتی ہے۔ تاریخ نے چونکہ ہمیں بھاری بھرکم اژدر نما پیش کیا ہے۔ لہذا اس بھاری بھرکم وجود کے ساتھ متحرک ہونے پر ہمیں گامزن کئے بغیر نہیں رہتا۔
میری مراد آلوک یادو سے ہے، جن کا شعری مجموعہ اسی کے نام منظرعام پر آچکا ہے اور ہر قاری کو چندھیائے بغیر نہیں رہتا۔ علی سردار جعفری اردو (ہندوستانی) زبان کو ناگری رسم الخط میں تبدیل کرتے کرتے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ان سے پہلے پریم چند دونوں زبانوں اور ان کے رسم الخط یعنی اردو۔۔۔نستعلیقی رسم الخط اور ہندی۔۔۔ ناگری رسم الخط میں قاری سے روبرو ہوئے، نیز دیگر اشخاص نے بھی ایسی کوششیں کیں جو کبھی مثبت رہیں اور کبھی منفی، لیکن ہم جسے ہندوستانی لب و لہجہ کہہ رہے ہیں یا کہتے اور سمجھتے آئے ہیں، اس کے وجود پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ زیر نظر شعری مجموعہ ہندی(ناگری) رسم الخط سے نستعلیقی رسم الخط میں منتقل ہوکر بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں کہیں خالص ہندی کے کچھ الفاظ شعر کو سمجھنے میں کچھ دشواریاں پیدا کرتے ہیں، لیکن وہ بھی ہماری کم نظری ہی کو ثابت کرتے ہے۔ (ہماری سے مراد میں اور جو لوگ اپنے آپ کو اس فریم میں فٹ پاتے ہیں۔ بقیہ حضرات اس زمرے میں نہیں آتے ہیں(
برسوں سے تسلیم شدہ وحشی صنف غزل میں واقعی وحشیانہ پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جبھی تو اس صنف کو برتنے اور اس صنف میں شاعری کرنے والے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی اردوداں خانوادے ہی سے تعلق رکھے، بلکہ اس صنف کو صرف لب و لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر وہ شخص (شاعر) چاہے جس خطہ ارض کا باسی ہو، غزل اسے اپنائے بغیر نہیں رہتی۔
غزل کہنے کیلئے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے تقریبا تمام آلوک یادو کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ خواہ ردیف و قافیہ کا انتخاب ہو یا ہر شعر ایک مکمل واقعہ، بیان کی ندرت ہو یا شعریت و نغمگی۔۔۔ ہر وہ چیز ان کی غزلوں میں موجود ہے، جسے ملاکر غزل کا قالب ڈھلتا ہے۔ روایتوں کے ذریعے قاری تک اپنا پیغام پہنچانا ہو یا مٹتی تہذیب کی عکاسی ہو ۔۔۔ آلوک یادو انہیں اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ بندہ سانس روک کر اس جگہ ٹھہر کے غور کرنے پہ مجبور ہوجائے۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں:۔
پھر اسے بے وفا کہہ دیا ؍ ہائے ہم نے یہ کیا کہہ دیا
ہر ستم اس کا نعمت سمجھ ؍ یار کو جب خدا کہہ دیا۔
ہوائیں ساونی جو پڑھ سکو تم ؍ انہیں پہ آنسووں نے خط لکھے ہیں۔
جئے ہیں درد اور آنسو پئے ہیں ؍ کہاں روتا، ترا کاندھا نہیں تھا۔
نہ ہوتی عشق میں حاصل جو لذت غم بھی ؍ تو کرتا کیا یہ مرا قلب زار، سمجھا کرو۔
بے خطا ہوکے بھی مانگی ہے معافی ہم نے؍ اپنے رشتے کو اسی طرح بچائے رکھا۔
جس کے ہونے کی دعا مانگی خدا سے ہم نے؍ دربدر ہم کو وہی لخت جگر کرتا ہے۔
سراپا ترا،کیا قیامت نہیں ہے؍ ادھر حشر سی دل کی حالت نہیں ہے۔
کھا کر قسم تمہاری نشیلی نگاہ کی؍ ہر روز توبہ کرتے رہے مئے کشی سے ہم۔
اس کی ہرچیزمری، عشق کیآغاز میں تھی؍ لیکن آج اس نے مری جاں بھی پرائی لکھ دی۔
پیار کا دونوں پہ آخر جرم ثابت ہوگیا؍ یہ فرشتے آج جنت سے نکالے جائیں گے۔
خفا خفا سے ہیں آخر جناب ناصح کیوں؟؍ کسی نے کردیا کیا آج ذکر حق پھر سے؟
جڑیں چاہتی ہیں ٹھہرنے کو مٹی؍ ہتھیلی پہ سرسوں اگائیں گے کیسے؟
یہ اس کا ہم، پیار میں ڈھل جائے تو اچھا؍ رسی تو جلی، بل بھی نکل جائے تو اچھا۔
مندرجہ بالا اشعار میں جابجاان روایتوں کا ذکر ملتا ہے جو اس معاشرے میں پل کر جوان ہوئیں یا پھر شاعری میں ان کا ذکر بھی ہوتا ریا ہے۔ انسان کے حقیقی ضزبوں کی عکاسی بھی، اور تجربے کی بھٹی میں تپے خیالات بھی، محبت کی باتیں بھی اور رشتوں کی حقیقت بھی، الغرض قاری کو اپنے ذوق کے مطابق یا ہم ایسے طالب علم کو اپنے ذوق کے مطابق چیزیں ان غزلوں میں دستیاب ہیں۔
عام طور پر چھوٹی بحر میں شاعری کرنا لیکھ سے ذرا ہٹ کے اور مشکل تصور کیا جاتا ہے، لیکن آلوک یادو کا یہ امتیاز ہے کہ وہ چھوٹی بحر میں اچھی شاعری کرتے ہیں اور اپنی بات بھی مکمل کہتے ہیں، جس میں کہیں پر بھی کجی محسوس نہیں ہوتی۔؎
آپ سے ہر خوشی ہوگئی ؍ سرجھکا، بندگی ہوگئی۔
غزلوں میں محبوب کے عارض و گیسو، لب و رخسار کے ذکر پہ ہی تنقید کا ایک نیا باب اور ادب میں نئے طرز اظہار کا در کھلا تھا۔ جہاں سے نظم اور جدید اردو تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ اس تفصیل سے قطع نظر۔۔۔ آلوک یادو نے بعض روایتوں اور اساطیر الاولین کو ایسی چوٹ دی ہے کہ دانتوں تلے انگلیاں چلی جائیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔
دینے والے نے اتنا دیا ؍ حسرتوں میں کمی ہوگئی۔
ترے ان لبوں کو میں تشبیہ کیا دوں ؍ کہ پھولوں میں ایسی نزاکت نہیں ہے۔

مذکورہ بالا اشعار میں پہلا شعر غالب کے اس شعر کا رد محسوس ہوتا ہے۔؎
ہزاروں خواہشیں ایسی، کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے۔
پھر دوسرا اور تیسرا شعر میر کے مشہور شعر ؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے ؍ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔ یا کلاسیکی شاعری اور ان کی روایتوں کی کاٹ ہے، جن پہ ناقدوں نے ایک زمانے تک بحث کیا ہے۔ یہاں کسی کو کم تر یا برتر دکھانا ہرگز نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہر زمانے کی اپنی ضرورتیں اور روایتیں ہوتی ہیں۔ سو گردش ایام کے بقدر شاعری بھی اپنا رخ تبدیل کرتی ہے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے، اپنے استعارے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ضروریات زندگی تبدیل نہیں ہوتی ہے، لیکن کسی حد تک ان کی نوعیت ضرور بدل جاتی ہے۔
بحر، وزن اور قافیہ و ردیف کی آمیزش اور لفظوں کی ہیرا پھیری سے شاعری تو ہوسکتی ہے، لیکن ایک ایک شعر میں عمر بھر کا تجربہ بیان کرجانے کا فن ہر کسی کو میسر نہیں ہوتا۔ اگلے زمانے میں کسی انسان کو اس وقت تک تجربہ کار تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، جب تک کہ اس کے بالوں میں سفیدی، ہاتھوں میں لرزش اور کمر میں خم نہ آجائے۔ لیکن اس دور میں بڑھاپے کا تجربہ بیان کرنے والے ایسے نوجوان موجود ہیں کہ کبھی کبھی تو ان میں اور ان کی شاعری میں کوئی مناسبت ہی نظر نہیں آتی۔ پھر بھی ان کی بات تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے۔ شاید اس لئے کہ جب فن کامل ہو، تو فن کار کی عمر نہیں پوچھی جاتی۔؎
جب کسی نے سر بزم دیکھا نہیں ؍ کسمساتی رہیں کانچ کی چوڑیاں۔
زندگی بھر کسی کی زمیں پہ سجے ؍ پھول تھے ہم کہیں کے، کہیں پہ سجے
ٹھوکروں میں رہے، سنگ تھے جب تلک ؍ خاک بن کر کسی کی جبیں پر سجے۔
جب بھی چھونے چلا، عکس دھندھلا گیا ؍ جیسے ہو جھیل میں چاند سی زندگی۔
آنکھ سے آنسو چرا لے گیا لیکن وہ شخص ؍ بے گہر سیپ یہیں چھوڑ گیا ہے صاحب۔
بنا کر پاوں کی بیڑی کو گھنگھرو، زندگانی؍کرے گی رقص جب تک درد سا زندہ رہے گا۔
وہ پیاس اپنی بڑھانا چاہتا ہے ؍ لب دریا پھر آنا چاہتا ہے۔
اس دور کی ہر اک چیز انوکھی ہے، یہاں ہر شخص اپنا رہبر بھی ہے اور رہزن بھی، روایتیں اور قدریں سب بدل گئیں۔ جہالت کتابوں میں سمائی ہے۔ درندے رحم کررہے ہیں، انسان درندگی پہ آمادہ ہے۔ ہر جگہ، ہر رشتے اور ہر تعلق کے معنی ہونے چاہئے۔ اس ماحول میں شاعر اپنا طرز نہ بدلے تو اور کیا کرے۔؎
کر لیں گے خود تلاش،کہ منزل ہے کس طرف؍ اکتا گئے ہیں یار،تری رہبری سے ہم۔
جرم تھا عشق،سزا ملنی تھی تاعمر کی قید؍ فیصلے میں مرے حاکم نے جدائی لکھ دی۔
جان دینے میں سربلندی ہے ؍ جان کا مول سر بھی ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا اشعار میں شاعر ہر بار بنے بنائے سانچے کو توڑتا ہے۔ احساسات و خیالات کا رقص اور تجربے کی الٹ موجود ہے۔ بے مثل اور ہر وہ کام جو شاید کبھی نہ ہوا ہو، ان کا ذکر بلکہ ایک آپ بیتی کی شکل میں نظر آتا ہے جو جگ بیتی بھی ہے۔
آلوک یادو کا ایک رنگ ایسا بھی ہے جو میر و غالب اور قدیم شعری روایات کی تردید کرتا ہے۔ اس کے علاوہ طنز کا ایسا اچھوتا اور نادر تجربہ پیش کرتے ہیں کہ قاری نہ چاہتے ہوئے بھی ان اشعار کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اس میں ایک انوکھاپن یہ بھی ہے کہ وہاں جمود نہیں بلکہ حرکت ہوتی ہے اور تخیلات کا قافلہ تھمتا نہیں بلکہ اس کے سارے کل پرزے متحرک نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔؎
میں دل کی بات کرتا تھا تمہیں دنیا کی چاہت تھی؍ تومجھ کوچھوڑکربھی تم، نہ ہو پائے زمانے کے۔
خفا خفا سے ہیں آخر جناب ناصح کیوں؟ ؍ کسی نے کر دیا کیا آج ذکر حق پھر سے۔
کسی سے روٹھ گئے یا کسی کا دل توڑا ؍ جبیں آگیا کیوں آپ کی عرق پھر سے۔
پھول سے جسم، بوجھ بستوں کا ؍ کیا ہے تعلیم، تربیت کیا ہے؟
جہاں ایک طرف اردو داں طبقے کو آلوک یادو کے ہندی زبان کے الفاظ پہ اعتراض ہو سکتا ہے، اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زبان بوجھل ہو رہی ہے، لیکن اپنی ہی کہی ہوئی بات پھر نہ دہراتے ہوئے اخیر میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ مندرجہ بالا چار اشعار تین مختلف غزلوں کے ہیں، جو زبان کی سطح پہ اعلی نمونے میں شامل کئے جانے کے قابل ہیں۔ اسلئے جہاں ہندی الفاظ کا استعمال ہے، وہیں اردو زبان کی شگفتگی بھی پائی جاتی ہے، اور اس طرح ایک توازن قائم ہوجاتا ہے جوکم از کم میری نظر میں ہی سہی ہندوستانی لب و لہجہ کی عکاسی ضرور کرتے ہے، اور یہی وہ آمیزش ہے جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ؎
کب ہم آپ پرائے ہیں؟
ایک ہی ماں کے جائے ہیں