Intekhab E Kalam Ali Sardar Jafri

Articles

علی سردار جعفری


انتخابِ کلام علی سردار جعفری

 

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق

ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا

ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو

لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار

کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا

2

میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ

میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ

پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی

ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ

حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح

میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ

تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام

تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ

پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم

مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ

لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں

اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ

چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو

پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ

اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار

شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ

3

ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے

داد نہیں فریاد نہیں ہے

قتل ہوئے ہیں اب تک کتنے

کوئے ستم کو یاد نہیں ہے

آخر روئیں کس کو کس کو

کون ہے جو برباد نہیں ہے

قید چمن بھی بن جاتا ہے

مرغ چمن آزاد نہیں ہے

لطف ہی کیا گر اپنے مقابل

سطوت برق‌ و باد نہیں ہے

سب ہوں شاداں سب ہوں خنداں

تنہا کوئی شاد نہیں ہے

دعوت رنگ و نکہت ہے یہ

خندۂ گل برباد نہیں ہے

4

آئے ہم غالبؔ‌ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد

مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد

اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے

بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد

نار نمرود یہی اور یہی گلزار خلیل

کوئی آتش نہیں آتش کدۂ ذات کے بعد

رام و گوتم کی زمیں حرمت انساں کی امیں

بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد

تشنگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی سردارؔ

بڑھ گئی کوثر و تسنیم کی سوغات کے بعد

5

ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں

رنگ‌ بر دوش گلستاں بہ کنار آتے ہیں

چاک دل چاک جگر چاک گریباں والے

مثل گل آتے ہیں مانند بہار آتے ہیں

کوئی معشوق سزا وار غزل ہے شاید

ہم غزل لے کے سوئے شہر نگار آتے ہیں

کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں

جا کے ہم کوچۂ قاتل میں پکار آتے ہیں

قافلے شوق کے رکتے نہیں دیواروں سے

سینکڑوں مجس و زنداں کے دیار آتے ہیں

منزلیں دوڑ کے رہرو کے قدم لیتی ہیں

بوسۂ پا کے لیے راہ گزار آتے ہیں

خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر

پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں

کم ہو کیوں ابروئے قاتل کی کمانوں کا کھنچاؤ

جب سر تیر ستم آپ شکار آتے ہیں