کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا
راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا
باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق
ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا
ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو
لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا
تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد
بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا
جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار
کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا
2
میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ
میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ
پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی
ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ
حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح
میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ
تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام
تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ
پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم
مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ
لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں
اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ
چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو
پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ
اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار
شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ
3
ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے
داد نہیں فریاد نہیں ہے
قتل ہوئے ہیں اب تک کتنے
کوئے ستم کو یاد نہیں ہے
آخر روئیں کس کو کس کو
کون ہے جو برباد نہیں ہے
قید چمن بھی بن جاتا ہے
مرغ چمن آزاد نہیں ہے
لطف ہی کیا گر اپنے مقابل
سطوت برق و باد نہیں ہے
سب ہوں شاداں سب ہوں خنداں
تنہا کوئی شاد نہیں ہے
دعوت رنگ و نکہت ہے یہ
خندۂ گل برباد نہیں ہے
4