Akhtar Imaan ki Khud Noosht

Articles

اختر الایمان کی خود نوشت

ڈاکٹر قاسم امام

کہنے کو بہت کچھ تھا، کہنے کو بہت کچھ ہے۔ ہر دور کی اپنی ایک مخصوص پہچان ہوتی ہے۔ ایک مزاج جو اس دور کی شناخت بن جاتا ہے۔ کسی بھی مخصوص دور کے مزاج کا اندازہ صرف اُس عہد سے متعلق لکھی گئی تاریخی کتابوں سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ ہر دور کے سچے احساسات اور واقعات کو سمجھنے کے لیے سوانحی خود نوشت کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔

اردو ادب میں سوانح نگاری کی روایت طویل ہے۔ عبدالمجید سالک کی ’’سرگزشت‘‘ ، سر اختر رضا علی کے ’’اعمال نامہ‘‘ ، جوش ملیح آبادی کی ’’یادوں کی برات‘‘ ، قدرت اللہ شہاب کی ’’شہاب نامہ‘‘ ، مرزا ادیب کی ’’مٹی کا دیا‘‘ ، احسان دانش کی ’’جہانِ دانش‘‘ کے علاوہ بہت سے ادبا و شعرا نے اس صنف کو جلا بخشی ہے۔ ہمارے یہاں شاعروں میں خودنوشت لکھنے کا رجحان قدرے کم کم ہی پایا جاتا ہے۔ تاہم ایک سرسری جائزے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کے شعرا مثلاً اختر الایمان کی ’’اس آباد خرابے میں‘‘،امرتا پریتم کی ’’رسیدی ٹکٹ‘‘ ، زبیر رضوی کی ’’گردشِ پا‘‘ ، ندا فاضلی کی ’’دیواروں کے بیچ‘‘ (۳ حصوں میں) ، ادا جعفری کی ’’ جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ اور ’’کشور ناہید کی کی ’’بری عورت کی کتھا‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔
اختر الایمان کا شمار اُن شاعروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے وقت کے مروجہ شعری رویات سے ہٹ کر اپنا ایک الگ راستہ بنایا ۔ اُن کی شاعری میں دانشورانہ فکر اور عام زندگی کے بھولے بسرے لمحوں کی بازیابی دیکھنے کو ملتی ہے۔ رشتوں کی حرارت اور جذبوں کی رفاقت سے ان کی شاعری کا خمیر اٹھا ہے۔ غرضیکہ ان کی شاعری خود اُن کی اپنی زندگی شامل ہے۔ اس بات کا اندازہ ان کے چیدہ چیدہ مضامین ، دیباچوں اور خود نوشت سوانح سے بھی ہوتا ہے۔

’’اس آباد خرابے میں ‘‘ اخترالایمان کی سوانح حیات سلسلہ وار کئی سال تک محمود ایاز کے پرچے ’سوغات‘ میں شائع ہوئی ۔ 1996ء میں پہلی بار اردو اکادمی ،دہلی نے ’اس آاد خرابے میں‘ عنوان سے اسے کتابی شکل میں شائع کیا۔

اختر الایمان کی نظموں کا ایک روشن عنصر ان کی نظموں کی منظر نگاری بھی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر وہ فلموں میں ایک کامیاب مکالمہ نگار اور اسکرین پلے رائٹر ثابت ہوئے۔ فلموں سے وابستگی نے ان کی شاعری اور بعد میں سوانح نگاری کو بھی تکنیک کی سطح پر متاثر کیا ہے۔ مثال کے طور پر فلموں کی ایک پسندیدہ تکنیک فلش بیک تکنیک ہے۔ اس تکنیک کی کافرمائی ان کی متعدد نظموں میں نظر آتی ہے۔ جبکہ ان کی خود نوشت سوانح پر بھی اس تکنیک کے اثرات کی چھوٹ پڑتی دکھائی دیتی ہے۔ پوری سوانح ایک مربوط قصے کے طور پر نہیں بیان ہوئی ہے بلکہ اس میں ماضی ، حال اور مستقبل کواس طرح گوندھ دیا گیا ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے آپ ایک سرے سے دوسرے سرے تک نہیں پہنچ سکتے ۔ اظہار کا یہ طریقہ انوکھا ہی نہیں ندرت کا حامل بھی ہے جوقاری کے تجسس کو انگیخت کرتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں اس سوانح میں کیمیرہ تکنیک کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ لہٰذا اس سوانح کے متعدد واقعات ہمارے ذہنوں میں فریج ہوتے محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں ایسے واقعات کے مثال کی گنجائش نہیں ہے لیکن جنھوں نے یہ سوانح پڑھی ہے وہ اسے بخوبی محسوس کرسکتے ہیں۔

آپ کی پسندیدہ کتابیں کون سی ہیں؟ ایک دانشور دوست کے سوال پر مجھے خیال آیا کہ امریکہ کے تیسرے صدر تھامس جیفرسن نے بہترین کتابوں کی ایک فہرست مرتب کی تھی اور تب سے مغربی ممالک میں دنیا کی بہترین کتابوں کی فہرست ترتیب دینے کا چلن شروع ہوا۔ اردو میں اس طرح کی کوئی مربوط روایت نہیں ہے۔ البتہ ہر قاری کا اپنا ایک بُک شیلف ہوتا ہے۔ جہاں وہ اپنی پسند کے مطابق کتابیں رکھتا ہے۔ میرے بُک شیلف میں میری جو پسندیدہ کتابیں ہیں اس میں اختر الایمان کی خود نوشت سوانح ’’اس آباد خرابے میں ‘‘ بھی ہے۔