Dana o Daam by Rajindar Singh Bedi

Articles

دانہ و دام

راجندر سنگھ بیدی

Apne Dukh Mujhe Dedo by Rajindar Singh Bedi

Articles

اپنے دکھ مجھے دے دو

راجندر سنگھ بیدی

Intekhab E Kalam Moin Ahsan Jazbi

Articles

انتخابِ کلام معین احسن جذبی

معین احسن جذبی

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں آہوں میں اشارا کرتے ہیں

کیا تجھ کو پتا کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکل گیتی ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں

کیا جانیے کب یہ پاپ کٹے کیا جانیے وہ دن کب آئے
جس دن کے لیے ہم اے جذبیؔ کیا کچھ نہ گوارا کرتے ہیں

 

۲

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

۳

بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں

ڈھونڈیں کہاں وہ نالۂ شب تاب کا جمال
آہ سحر گہی کی صباحت کہاں سے لائیں

سمجھائیں کیسے دل کی نزاکت کا ماجرا
خاموشی نظر کی خطابت کہاں سے لائیں

ترک تعلقات کا ہو جس سے احتمال
بیباکیوں میں اتنی صداقت کہاں سے لائیں

افسردگی ضبط الم آج بھی سہی
لیکن نشاط ضبط مسرت کہاں سے لائیں

ہر فتح کے غرور میں بے وجہ بے سبب
احساس انفعال ہزیمت کہاں سے لائیں

آسودگی لطف و عنایت کے ساتھ ساتھ
دل میں دبی دبی سی قیامت کہاں سے لائیں

وہ جوش اضطراب پہ کچھ سوچنے کے بعد
حیرت کہاں سے لائیں ندامت کہاں سے لائیں

ہر لحظہ تازہ تازہ بلاؤں کا سامنا
ناآزمودہ کار کی جرأت کہاں سے لائیں

ہے آج بھی نگاہ محبت کی آرزو
پر ایسی اک نگاہ کی قیمت کہاں سے لائیں

سب کچھ نصیب ہو بھی تو اے شورش حیات
تجھ سے نظر چرانے کی عادت کہاں سے لائیں

۴

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا

حسن و عشق دونوں تھے بے کراں و بے پایاں
دل وہاں بھی کچھ لمحے جانے کب گزار آیا

اس افق کو کیا کہیے نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی بارہا غبار آیا

ہم نے غم کے ماروں کی محفلیں بھی دیکھیں ہیں
ایک غم گسار اٹھا ایک غم گسار آیا

آرزوئے ساحل سے ہم کنارا کیا کرتے
جس طرف قدم اٹھے بحر بے کنار آیا

یوں تو سیکڑوں غم تھے پر غم جہاں جذبیؔ
بعد ایک مدت کے دل کو سازگار آیا

۵

عیش سے کیوں خوش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کیے
زندگی کیا جانے کیا تھی اور کیا سمجھا کیے

نالۂ بے تاب لب تک آتے آتے رہ گیا
جانے کیا شرمیلی نظروں سے وہ فرمایا کیے

عشق کی معصومیوں کا یہ بھی اک انداز تھا
ہم نگاہ لطف جاناں سے بھی شرمایا کیے

ناخدا بے خود فضا خاموش ساکت موج آب
اور ہم ساحل سے تھوڑی دور پر ڈوبا کیے

وہ ہوائیں وہ گھٹائیں وہ فضا وہ اس کی یاد
ہم بھی مضراب الم سے ساز دل چھیڑا کیے

مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی
اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

کاٹ دی یوں ہم نے جذبیؔ راہ منزل کاٹ دی
گر پڑے ہر گام پر ہر گام پر سنبھلا کیے

Jazbi ki Jamaliaat by Dr. Rasheed Ashraf Khan

Articles

جذبی کی جمالیات

رشید اشرف خاں

جمالیات فلسفہ کی ایک شاخ ہے جسے یونانی لفظ (Aisthetikes)سے اخذ کرکے انگریزی زبان میں(Aesthetics)بنالیا گیا ۔ فارسی میں اسے زیبائی شناسی اور ہندی میں رس سدّھانت یا رس شاستر کہتے ہیں۔ ’’جمال ‘‘ بذات خود عربی زبان کا لفظ ہے ۔عام طور پر یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ’’جمال‘‘ اور ’’حسن‘‘ ایک دوسرے کے مترادف یا ہم معنی الفاظ ہیں۔بے شک کسی حد تک ان میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے وہ لازمی طور پر ہم معنی نہیں ہیں ۔ مثلاََ فارسی زبان کا یہ شعر: جمالیات فلسفہ کی ایک شاخ ہے جسے یونانی لفظ (Aisthetikes)سے اخذ کرکے انگریزی زبان میں(Aesthetics)بنالیا گیا ۔ فارسی میں اسے زیبائی شناسی اور ہندی میں رس سدّھانت یا رس شاستر کہتے ہیں۔ ’’جمال ‘‘ بذات خود عربی زبان کا لفظ ہے ۔عام طور پر یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ’’جمال‘‘ اور ’’حسن‘‘ ایک دوسرے کے مترادف یا ہم معنی الفاظ ہیں۔بے شک کسی حد تک ان میں مماثلت پائی جاتی ہے لیکن مفہوم کے اعتبار سے وہ لازمی طور پر ہم معنی نہیں ہیں ۔ مثلاََ فارسی زبان کا یہ شعر:
جمال ہم نشیں، درمن اثر کرد
وگر نہ من ہمان خاکم،کہ ہستم
ڈاکٹر معین احسن جذبیؔ کا میدان حیات21؍اگست 1912ء سے شروع ہوکر 13؍ فروری 2005ء یعنی تقریباََ 93 برس تک پھیلا ہوا تھا۔ ان کے لائق فرزند ،پروفیسر سہیل احسن جذبی نے اپنے والد مرحوم کا کلیات 2006ء میں ساہتیہ اکادمی نئی دہلی سے شائع کروایا بیشتر نظموں اور غزلوں کے نیچے سنِ تخلیق بھی دے دیا ہے جس سے بہ آسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سی غزل یا نظم کب کہی گئی تھی۔ان کی پہلی غزل جو انھوں نے شوکت علی خان فانیؔ بدایونی کو 1929ء میں آگرے میں سنائی تھی اسی مختصر سی غزل کایہ شعر جذبیؔ کی جمالیاتی حِس(Sense of Beauty) کا غمازہے:
حسن ہوں میں کہ عشق کی تصویر
بے خودی، تجھ سے پوچھتا ہوں میں
اسی دور کے کلام میں جب ان کا عنفوان شباب تھا ان کاذہن جمال پسند پوری طرح بے دار تھا اور ایسا ہونا امر فطری تھا۔اس دور کے کچھ اور اشعاردیکھیے:
تیرے جلوؤں کی حد ملی تو کب
ہوگئی جب نظر بھی لا محدود

آہ کی دل نے ، نہ پھر شکوۂ بیداد کیا
جب سے شرمیلی نگاہوں نے کچھ ارشاد کیا
ہو نہ ہو دل کو ، ترے حسن سے کچھ نسبت ہے
جب اٹھا درد تو کیوں میں نے تجھے یاد کیا
مذکورہ بالا اشعار کو پڑھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’ جمالیات‘‘ کا پہلا زینہ رجائیت اور سر خوشی کی کیفیت ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا ہو کر جذبیؔ کی طرح ہر حساس شاعر زندگی کے روشن رخ کو دیکھتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ’’ حالتِ سُکر‘‘ میں ہے ۔ اس کے نو خیز دل ودماغ پر نشہ سا طاری ہے سوتے جاگتے وہ کچھ خواب سے دیکھتا ہے۔رنگین اور سہانے خواب:
تمھارے جلوؤں کی رنگینیوں کا کیا کہنا
ہمارے اجڑے ہوئے دل میں اک بہار تو ہے

تمھارے حسن کے جلوؤں کی شوخیاں توبہ
نظر تو آتے نہیں ،دل پہ چھا ئے جاتے ہیں
ہزار حسن کی فطرت سے ہو کوئی آگاہ
نگاہِ لطف کے سب ہی فریب کھاتے ہیں
جذبیؔ جیسے جیسے بلوغت کی منزل کی طرف بڑھنے لگے کبھی شعوری طور پر اور کبھی لا شعوری طور پر وہ روشنی ، تحرک اور حرکت کے تجربات سے دو چار ہونے لگے ۔ اب ان کے خیالات اور محسوسات اکہرے اور سپاٹ نہیں رہ گئے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے سبھی فلسفیانہ افکار و خیالات تجربات کے سانچوں میں ڈھل کر آئے ہیں ۔ مثالیں دیکھئے:
پھول چننا بھی عبث ، سیرِبہاراں بھی فضول
دل کا دامن ہی جو کانٹوں سے بچایا نہ گیا
مختصر یہ ہے ہماری داستانِ زندگی
اک سکونِ دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے
جن لوگوں نے کلام جذبی کے سبھی مجموعوں( فروزاں، گداز شب، سخن مختصر) کو اسی قدر باریک بینی سے اور احساس لذت یابی کے ساتھ پڑھاہے جیسے وہ میرؔ،غالبؔ اور اقبالؔ کو پڑھتے ہیں تو انھوں نے خاکسار کی طرح یہ ضرورمحسوس کیا ہوگا کہ جذبیؔ کا رشتہ جمالیات سے مختلف النوع اور ہزار شیوہ ہے۔ جذبیؔ کے تجربوں کی داستان جمالیاتی وجدان سے شروع ہوئی تھی اور اس داستان کا اختتام وجدانی ، حسّی اور پیکری انکشافات پر ہوا۔ ان کے اشعار کی روشنی میں آپ میرے معروضات کو زیادہ بہتر طریقے پر سمجھ سکیں گے۔جذبیؔ کے کلام کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ان کا احساس جمال انھیں اپنے افکارو خیالات میں تلاش ذات پر اکساتا رہتا ہے:
ان بجلیوں کی چشمک باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو، یا وہ دنیا ،اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت  و  سالم تھی ، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جذبیؔ اپنے فلسفہ جمالیات کے سہارے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انسان کی آنکھ کھلی رہتی ہے تو اس کے حواس خمسہ بیدار ہوجاتے ہیں ۔ یہ آنکھ ( جو بصارت کا سر چشمہ ہے) اپنی روشنی کے ساتھ تمام خوشبوؤں ،تمام لذتوں اورتمام محسوسات تک پہنچ جاتی ہے اسی کے ساتھ وہ مسرت ، غم ، محبت اور طاقت سب کو دیکھتی ہے ۔ یہی روشنی ہے جو پہلے تو تصورات کے چھوٹے بڑے خاکے بناتی ہے پھر ان خاکوں میں معنویت اور نئی معنویت کے رنگ بھرتی ہے۔ چند نمونے دیکھئے:
ہم بھی تو سن رہے تھے ، رعنائیِ گلستاں
بادِ خزاں سے جو کچھ کلیوں نے آرزو کی

ہزار بار کیا عزم ترک نظّارہ
ہزار بار مگر دیکھنا پڑا مجھے
ان کے بھیگے ہوئے بالوں میں جو ہے عالم کیف
کچھ وہی کیف مرے دیدۂ نمناک میں ہے

وہ ایک لمحہ ، وہ ایک ساعت، ہوا تھا جب ان سے عہدِ الفت
اسے بھی کیا اے خداے راحت ،شریک خواب و خیال کرلیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر جذبیؔ ایک غزل گو شاعر تھے اور اسی حیثیت سے وہ معروف بھی ہوئے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے غزل کی روایتی لفظیات ، علامات اور استعاروں کو دوسرے ترقی پسند معاصرین سے پہلے معنوی وسعت بخشی ۔ انھوںنے مضامین غزل کے کینوس (Canvas) کو پہلے سے کہیں زیادہ وسیع کیا ۔ لیکن جب ہم فلسفۂ جمالیات کے نقطۂ نظرسے ان کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ بھی اپنا ایک منفرد رنگ کی حامل نظر آتی ہے۔ مثلاََان کی نظم پر غور کیجیے جس کا عنوان ہے ’’ گل‘‘
اے گلِ رنگیں قبا ، اے غازۂ روے بہار
تو ہے خود اپنے جمال حسن کی آئینہ دار
ہائے وہ تیرے تبسم کی ادا وقت سحر
صبح کے تارے نے اپنی جان تک کردی نثار
شرم کے مارے ، گلابی ہے ادھر روے شفق
شبنم آگیں ہے ادھر پیشانیِ صبحِ بہار
خامشی تیری ادا ہے ، سادگی فطرت میں ہے
پھر بھی جو تیرا حریف حسن ہے ، حیرت میں ہے

مذکورہ نظم کی ابتدا ہی میں فطرت سے لگا و ٔ ، حسن پرستی اور تخئیل آفرینی کے خوب صورت عناصر کس قدر پر کشش اور قابل دید ہیں۔ شاعر نے اپنی لفظیات اور حسن تخئیل کی مدد سے مظاہر فطرت کو الگ الگ شخصیت اور تجسیم سے نوازا ہے ۔ یہ وصف رومان اور جمالیت کی جان ہے۔
’’ رازو نیاز‘‘ جذبیؔ کی ایک ایسی نظم ہے جس میں حسن و عشق کی دلکش کیفیات کا بیان تو ہے ہی لیکن شاعر نے اپنے جمالیاتی حس کی مدد سے ایک نادر و نایاب گمان بھی پیدا کیا ہے ۔ اس کانظریہ یہ ہے کہ محبوب کو آزمانے کے دلچسپ بہانے خواہ جس طرح بھی تراشے جائیں لیکن سچ تو بس یہ ہے کہ محبوب کاحسن وادا، شاعر ہی کے والہانہ عشق کی رہین منت ہے:
ترے گیسوؤں کو پریشان کرکے
تجھے رشک سنبل بنایا ہے میں نے
ترے رخ پہ چھڑکا ہے خونِ تمنا
ترے رخ کا غازہ بنایا ہے میں نے
اگر میں بنا ہوں محبت کا دریا
تجھے ماہ تاباں بنایا ہے میں نے
سَتا کر، جَلاکر ، رُلاکر ، ہنساکر
تجھے مدتوں آزمایا ہے میں نے

مذکورہ نظموں کے علاوہ کئی ایسی نظمیں ہیں جو جذبیؔ کے شعور جمالیات کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ ان میں بعض کے عنوانات ہیں مطربہ، حسن برہم، طوائف،نیا سورج ، مجاز، موت وغیرہ۔
اپنی ڈگر آپ بنانے کے مقدس جنون کے نتیجے میں ان کے ہم عصر نقادوں نے ان کی طرف وہ توجہ مبذول نہ کی جو جذبی ؔ کا حق تھا لیکن جب انصاف پسند ، حقیقت بیں اور مردم شناس ادب نوازوں کو اپنی کم نگاہی اور بے بصیری کا احساس ہوا تو جذبیؔ شناسی کا دور شروع ہوا ۔1994ء میں جذبیؔ کو اقبال سمّان سے نوازا گیا۔خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ نے جذبیؔ پر سیمینار منعقد کیا ۔ بقول اکبر الہ آبادی  ع
نگاہیں کامِلوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے کی
درحقیقت اب معین احسن جذبیؔ کو حیات نو ملی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ روشن ، عالم گیر اور پائیدار ہے ۔اگرچہ ازراہ انکسار اس شاعر دردآشنا نے کہا تھا:
مجھے کمال کا دعویٰ نہیں ہے اے جذبیؔ
کہ میں ہوں گرد رہ کاروانِ اہل کمال

Jazbi ki Shairi Kainaat by Qamar Siddiqui

Articles

جذبی کی شعری کائنات

قمر صدیقی

معین احسن جذبی کا شعری کینواس مختلف رنگوں سے مزّین ہے اور اِن میں احساس کی تازگی اور جذبے کی شدت کا رنگ سب سے گہرا ہے۔ یہی جذبات و احساسات کی شدت انھیں اپنے دیگر ترقی پسند معاصر شعرا سے منفرد کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جذبی کا شعری رویہ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی مستحکم ہوچکا تھا۔ وہ اپنی مشہور غزل ’’ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے‘‘1933ء میں نہ صرف لکھ چکے تھے بلکہ اس غزل کے حوالے سے اُن کی شناخت بھی قائم ہوچکی تھی۔ ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز کے بعد، تحریک سے ان کی واضح وابستگی کا پتہ ہمیں نظم ’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘سے ملتا ہے۔ یہ نظم 1937ء میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے بعدان کے یہاں ترقی پسند نظریات سے وابستگی دھیرے دھیرے پختہ ہوتی گئی۔ البتہ 1942ء کے بعد جذبی کے شعری اظہار میں ترقی پسند نظریات کی بندش ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔ 1943ء کی ایک مشہور غزل جس کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے: معین احسن جذبی کا شعری کینواس مختلف رنگوں سے مزّین ہے اور اِن میں احساس کی تازگی اور جذبے کی شدت کا رنگ سب سے گہرا ہے۔ یہی جذبات و احساسات کی شدت انھیں اپنے دیگر ترقی پسند معاصر شعرا سے منفرد کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جذبی کا شعری رویہ 1936ء میں ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی مستحکم ہوچکا تھا۔ وہ اپنی مشہور غزل ’’ مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں، جینے کی تمنا کون کرے‘‘1933ء میں نہ صرف لکھ چکے تھے بلکہ اس غزل کے حوالے سے اُن کی شناخت بھی قائم ہوچکی تھی۔ ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز کے بعد، تحریک سے ان کی واضح وابستگی کا پتہ ہمیں نظم ’’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘سے ملتا ہے۔ یہ نظم 1937ء میں تحریر کی گئی تھی۔ اس کے بعدان کے یہاں ترقی پسند نظریات سے وابستگی دھیرے دھیرے پختہ ہوتی گئی۔ البتہ 1942ء کے بعد جذبی کے شعری اظہار میں ترقی پسند نظریات کی بندش ڈھیلی پڑتی نظر آتی ہے۔ 1943ء کی ایک مشہور غزل جس کا یہ شعر زبان زد خاص و عام ہے:
اے موجِ بلا ! ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
مذکورہ شعر کے علاوہ جس میں ہلکی سے نظریاتی وابستگی کا احساس ہوتا ہے پوری غزل پر کلاسیکی لہجہ حاوی ہے۔ ہرچند کہ 1943ء سے 1956ء تک جذبی کے کلام میں ترقی پسند تحریک سے نظریاتی وابستگی کسی نہ کسی صورت نظر آجاتی ہے البتہ اِس کی لو کا دھیما پن صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ منزل تک ، میرے سوا، نیاسورج وغیرہ نظموں اور اُس دور کی غزلوں کے مطالعے سے اس امر کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ البتہ اُس دور میں کلاسیکی تہذیب سے مربوط دھیما دھیما مگر خوش آہنگ لہجہ جو جذبی کی اصل شناخت ہے بہت صاف اور روشن نظر آتا ہے:
بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
ہے آج بھی نگاہِ محبت کی آرزو
پر ایسی اک نگاہ کی قیمت کہاں سے لائیں

کوچۂ یار میں اب جانے گزر ہو کہ نہ ہو
وہی وحشت ، وہی سودا ، وہی سر ہو کہ نہ ہو
جانے اک رنگ سا اب رخ پہ ترے آئے نہ آئے
نفسِ شوق سے گل شعلۂ تر ہو کہ نہ ہو

یہ دل کا داغ جو چمکے تو کیسی تاریکی
اسی گھٹا میں چلیں ہم اسی گہن میں چلیں

شمیم زلف و گلِ تر نہیں تو کچھ بھی نہیں
دماغِ عشق معطر نہیں تو کچھ بھی نہیں
غم حیات بجا ہے ، مگر غم جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
مذکورہ بالا اشعار اس احساس کے غماز ہیں کہ اُن کا خالق اردو غزل کی روایت سے کماحقہ‘ واقفیت ہی نہیں رکھتا بلکہ اُسے اِس روایت کے ساتھ چلنے کا سلیقہ بھی آتا ہے۔اپنے تخلیقی مزاج اور ذہنی ہم آہنگی کے سبب جذبی مشرقی شعریات اور اردو کے شعری آداب و رسوم کے دلدادہ تھے۔ تاہم ایک جنیوئین شاعر ہونے کی وجہ سے ان کی بالغ نظری اور ان کا مشاہدہ کائناتی تھا۔ اگر 1936ء میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز نہ بھی ہوا ہوتا تب بھی جذبی کا تجسس سے بھرپور خلاقانہ ذہن اور شگفتہ لہجہ صبح نو کی نوید کا ایسا ہی پیامبر ہوتا جیسا کہ وہ آج ہے:
ان بجلیوں کی چشمک باہم کو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے
یہ دل کا داغ جو چمکے تو کیسی تاریکی
اسی گھٹا میں چلیں ہم اسی گہن میں چلیں

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسمِ بہار آیا
اِس افق کو کیا کہیے ، نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی ، بارہا غبار آیا

دنیا سنے تو قصۂ غم ہے بہت طویل
ہاں تم سنو تو قصۂ غم مختصر بھی ہے
مذکورہ بالا اشعار اشاراتی و علامتی طور پر اپنے عہد کے معاصر رویوں و رجحانات کے ترجمان تو ہیں ہی تاہم یہ اشعار اردو غزل کی بہت ہی توانا شعری روایت سے رنگ و روشنی اخذ کرتے ہوئے بھی معلوم ہوتے ہیں۔ پرانے چراغوں کی مدد سے نئے چراغ روشن کرنے کا یہ عمل جذبی کے یہاں اس ہنر مندی سے برتا گیا ہے کہ شیشے میں بال پڑنے کا احتمال بھی نظر نہیں آتا۔غور کریں تو یہ اشعار روایتی لفظیات مثلاً بجلی ، بجلیوں کی چشمک باہم اور نشیمن، دل کا داغ اور اس داغ کی روشنی کی وجہ سے تاریکی و گہن کی فضا میں رفت کا اہتمام ، گل و نگاہ ، نکھار و بہار ، افق ، نور ، دھندلکا اور پھر کرن اور غبار ، قصۂ غم کا طولانی ہونا اور اسی قصۂ غم کا اختصار وغیرہ سے منور ہیں۔ اس طرح کی لفظیات کے ساتھ مشکل یہ ہوتی ہے کہ امتداد زمانہ اور کثرتِ استعمال کی وجہ سے یہ اپنا آب و رنگ کھو دیتے ہیں۔ جذبی کی فنکاری یہ ہے کہ انھوں نے ایسے بے آب و رنگ لفظیات کو اپنے جوہر ذاتی کے ذریعے ایک نئے اور انوکھے شعری تجربے میں ڈھال دیا ہے۔لغت اور شاعری میں یہی فرق ہے کہ لغت میں لفظ جامد ، ٹھہرا ہوا اور کم امکان نظر آتا ہے جبکہ شعر میں وہی لفظ معنی کے نت نئے دروازے وا کرتا ہے۔
جذبی کی شعری کائنات میں جذبے اور رنگ کی فراوانی کم تو نہیں ہے لیکن اس کی حدیں متیعن ہیںالبتہ یہ جس مقدار میں بھی ہیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ہیں۔ شاید جذبی نے ایک محدود دائرے میں رہتے ہوئے اپنی پرواز کی وسعتیں خود ہی طے کرلی تھیں۔ یہ حدیں قدیم شعری روایت سے آگہی و آشنائی ، زندگی کی تلخیوں میں عزم و حوصلے کے جذبے کی نمو کو قدرے جمالیاتی و حسی ادراک کے ساتھ پیش کرنے سے عبارت ہیں:
عذابِ درد پہ نازاں ہیں اہل درد مگر
نشاطِ درد میسر نہیں تو کچھ بھی نہیں
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں

ہوائے گرم ! کچھ مہلت دے ان معصوم غنچوں کو
کہ تھوڑی دیر تو نظارۂ رنگِ جہاں کرلیں

وہ خراشِ دل جو اے جذبی مری ہمراز تھی
آج اسے بھی زخم بن کر مسکرانا آگیا ہے
جذبی کی کلاسیکی شعریات سے وابستگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہنگامی اور سیاسی شاعری کی حیثیت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس کی وقعت اور قدر و قیمت بھی پہچانتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے اپنے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جس کی فضا کلاسیکیت کی خوشبوسے معطر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ادب میں جذبی کا مقام و مرتبہ اور اعتبارترقی پسند تحریک کے طفیل نہیں بلکہ ترقی پسند تحریک کا اعتبارو استناد جذبی جیسے شعرا سے قائم ہے۔

Jazbi ka Fan by Qazi Jamal Husain

Articles

جذبی کا فن

پروفیسر قاضی جمال حسین

جذبی کا پورا کلام توجہ سے پڑھنے کے بعد قاری آسانی سے یہ رائے قائم کرلیتا ہے کہ شاعر کسی مخصوص سیاسی نظریے کا نہ تو پابند ہے نہ ہی اپنی جانبداریوں کے حق میں ،فن کے تقاضوں سے مفاہمت پر آمادہ ہے۔جذبی کی شاعری میں کوئی خیال ‘اس طور پر نظم ہوتا ہے کہ شاعری کا منصب مجروح نہ ہو اور بیش تر صورتوں میں خیال ،شعر کے پیکر میں ڈھل کر قاری کی اپنی واردات بن جاتا ہے ۔ترقی پسند تصورات کو نظم کرنے میں بھی جذبی نے خیال کی‘شعری وسائل سے ہم آہنگی کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔جذبی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے گل و بلبل کے علائم کو نہ تو مسترد کیا نہ ہی غمِ جاناں کو غمِ روزگار سے کمتر سمجھا ۔ان کا موقف یہ ہے کہ : جذبی کا پورا کلام توجہ سے پڑھنے کے بعد قاری آسانی سے یہ رائے قائم کرلیتا ہے کہ شاعر کسی مخصوص سیاسی نظریے کا نہ تو پابند ہے نہ ہی اپنی جانبداریوں کے حق میں ،فن کے تقاضوں سے مفاہمت پر آمادہ ہے۔جذبی کی شاعری میں کوئی خیال ‘اس طور پر نظم ہوتا ہے کہ شاعری کا منصب مجروح نہ ہو اور بیش تر صورتوں میں خیال ،شعر کے پیکر میں ڈھل کر قاری کی اپنی واردات بن جاتا ہے ۔ترقی پسند تصورات کو نظم کرنے میں بھی جذبی نے خیال کی‘شعری وسائل سے ہم آہنگی کو نظر انداز نہیں کیا ہے ۔جذبی کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے گل و بلبل کے علائم کو نہ تو مسترد کیا نہ ہی غمِ جاناں کو غمِ روزگار سے کمتر سمجھا ۔ان کا موقف یہ ہے کہ :
حکایت گل و بلبل پہ خندہ زن ہیں وہی
جو شامِ ہجرنہ صبح وصال سے گزرے
غمِ دوراں بڑی حقیقت سہی لیکن شیشہ و ساغر کا فریب اس تلخ حقیقت کو گوارا بنانے کے لیے ضروری ہے :
غمِ حیات بجا ہے مگر غمِ جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
حقیقت غمِ دوراں کے ساتھ اے ناصح
فریب شیشہ و ساغر نہیں تو کچھ بھی نہیں
ترقی پسند شعرا میں جذبی صاحب کی شناخت یہ ہے کہ غم دوراں کی حقیقت کا عرفان ہونے کے ساتھ ہی انھیں فریبِ حقیقت کی دلکشی کا بھی اعتراف ہے۔اس فریب کو وہ فن کے لیے ضروری تصور کرتے ہیں ۔ترقی پسند تحریک کی کل ہند کانفرنس کے خطبۂ صدارت میں منشی پریم چند نے شعر و ادب کے لیے جو نیا منشورپیش کیا اس میں حقیقت پسندی اور افادیت پر اصرار کرتے ہوئے انھوں نے یہ بات بھی کہی کہ:
’’جب ادب پر دنیا کی بے ثباتی غالب ہو اور ایک ایک لفظ یاس،شکوۂ روزگار اور معاشقہ میں ڈوبا ہوا ہو تو سمجھ لیجئے کہ قوم جمودکا شکار ہوچکی ہے اور اس میں سعی و اجتہادکی قوت باقی نہیںرہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادب دل بہلانے کی چیز نہیں ہے۔دل بہلانے کے سوا اس کا کچھ اور مقصد بھی ہے۔وہ اب محض عشق و عاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کو(ادب کو) ان مسائل سے دلچسپی ہے، جن سے سوسائٹی کے افراد شاعر ہوتے ہیں‘‘ (’’نیا ادب‘‘؍اپریل ۱۹۳۹ء، ص۔۵۳)
ترقی پسند شاعر اور ادیب اس منشور پر عمل کرنے میں اتنے پرجوش اور سرگرم تھے کہ سب کچھ بدل دینا چاہتے تھے ۔انھیں حسن کا معیار بدلنے کی عجلت تھی۔اس صورت حال کا کسی قدر اندازہ سجاد ظہیر کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ کانفرنس ختم ہونے کے بعد شام کو تھکے ماندے سبھی لوگ گھر آئے کھانا کھاکر سب بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے کہ پریم چند نے نوجوان ترقی پسندوں کی حرکتوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا:
’’بھئی یہ تم لوگوں کا جلدی سے انقلاب لانے کے لیے تیز تیز چلنا مجھے بہت پسند آتا ہے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم بے تحاشا دوڑنے لگے تو ٹھوکر کھاکر منہ کے بل گر نہ پڑو اور میں ٹھہرا بوڑھا آدمی ۔تمہارے ساتھ اگر میںبھی دوڑا اور گرا تو مجھے بہت چوٹ آجائے گی ۔یہ کہہ کر انھوں نے بڑی زور کا قہقہہ لگایا۔ہم سب بھی ان کے ساتھ ہنسنے لگے۔‘‘(روشنائی ۔ص ۱۱۲)
یہ زمانے کی روتھی ،سبھی رجعت پسندی کے مقابلہ میں ترقی پسند بننے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے ۔ان حالات میں جذبی صاحب کا متوازن رویہ ان کی سلامت روی کا ثبوت ہے۔اپنے پہلے مجموعے کی دوسری اشاعت (۱۹۵۱ء)میں ’’چند باتیں‘‘کے عنوان سے جذبی نے اپنے شاعرانہ موقف پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پہلی وفاداری اشتراکی خیالات کے بجائے شاعری کے فن سے تھی۔۱۹۵۰ ء کے آس پاس جب ترقی پسندی کا سورج نصب النہار پہ تھا جذبی کے یہ خیالات حیرت انگیز معلوم ہوتے ہیں۔
۱)ہم میں سے اکثر ترقی پسندی کی رومیں ادب کے تقاضوں کو بھول گئے ہیں،چنانچہ اس دوران میں جوادب پیدا ہوا ہے اسے ہم مشکل سے ادب کہہ سکتے ہیں۔
۲)ہمارے بعض ترقی پسند شاعر کسی سیاسی جماعت سے منسلک ہیں۔یہ حضرات اپنی جماعتی وفاداری کی رو میں صرف وہی دیکھتے اور سوچتے ہیں جو ان کی جماعت دیکھتی اور سوچتی ہے۔اس وجہ سے ایک قسم کا ادبی انتشار پیدا ہوتا ہے۔
۳)ادھرکچھ ترقی پسند شاعروں میں ایک رحجان پیدا ہونے لگا ہے جو بڑی حد تک تنگ نظری پر مبنی ہے۔ہمارے شاعر اور ادیب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ حسن و عشق کاذکر ترقی پسندی کے مذہب میں وہ گناہ ہے جو شاید ہی بخشا جائے ۔ترقی پسندی صرف سیاست کا نام ہے۔
۴)رہے حسن و عشق کے خالص انفرادی جذبات ،سو ان کے متعلق صرف اتنا عرض کروںگا کہ ازل سے آج تک یہ دلوں کو گر ما رہے ہیں اور گرماتے رہیں گے۔
اس پس منظر میں چند باتیں جذبی کی عشقیہ شاعری کے حوالے سے:
غزل کی روایت کو رجعت پسندی کہہ کر مسترد کرنے کے بجائے جذبی نے کلاسیکی شعریات کو پیش نظر رکھا ہے اور کلاسیکی مضامین میں معنی کی نئی جہتیںدریافت کی ہیں ،شعر سنئے:
دہانِ زخم جو منہ پھیر لیں تو کیا معلوم
تبسم لبِ قاتل رہے رہے نہ رہے
معاًغالب کا مشہورشعر ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے  ؎
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن واکرے کوئی
پہلے دہانِ زخم تو پیدا کرے کوئی
تبسم ،لب، دہان اور منہ کی رعایت کے علاوہ زخم اور قاتل کی مناسبت نے بھی جذبی کے شعر میں کلاسیکی شان پیدا کردی ہے اور ان کی نئی جہت یہ ہے کہ قاتل کاتبسم،عاشق کے کھلے ہوئے زخم کا رہینِ منت ہے، اگر یہ زخم مندمل ہوگیا تو قاتل کے لبوں پر بھی تبسم باقی نہیں رہے گا ۔عاشق کا زخمِ دل مرتبہ اور منزلت میں قاتل کے تبسم سے فزوںتر ہے۔اس غزل کا ایک اور شعر ہے جس میں ساحل کا روایتی استعارہ سیاق و سباق کی وجہ سے نئی معنویت اختیار کرلیتا ہے :
یہ سوچتے ہوئے طوفاں میں ڈال دی کشتی
کہ پھر اشارۂ ساحل رہے رہے نہ رہے
ساحل کا استعارہ ،سکون ،تحفظ اور دل و جان کی سلامتی کے مفاہیم کا احاطہ کرتا ہے لیکن معاملاتِ عشق کے سیاق و سباق میں یہی ساحل، معشوق کی دلنوازی اور رخصتِ بے باکی کی سرحد وں سے جا ملتا ہے۔عاشق اپنے جرأت مندانہ اقدام سے ڈرتا ہے اور جھجھکتا ہے کہ خدا معلوم کیا صورت پیش آئے گی۔اسی پس و پیش میں عاشق پیش آنے والے طوفان کا خطرہ مول لے لیتا ہے کہ خود ساحل کا خاموش اشارہ اسے پیش قدمی کا حوصلہ عطا کرتا ہے :
یہ سوچتے ہوئے طوفان میں ڈال دی کشتی
کہ پھر اشارہ ساحل رہے رہے نہ رہے
طوفان اور ساحل کی دلالتوںمیں معنی کے یہ امکانات شاعر کے پیرایہ ٔبیان اور غزل کی روایت سے پیدا ہوئے ہیں۔
غالب کا مشہور شعر ہے  :
جب کرم رخصت بے باکئی و گستاخی ہے
کوئی تقصیر بجز خجلتِ تقصیر نہیں
دل کے زخم اور محبت کے داغ غزل کی روایت میں نئے نہیں لیکن جذبی کی شاعری میں ان زخموں نے جا بجا بہار کی کیفیت اور داغوں نے چراغاں کا منظر پیدا کردیا ہے ۔ فقط تین شعر ملاخطہ ہوں :
دل کے زخموں کی تم بھی سیر کرو
اس چمن کے گلاب ہیں کیا کیا
ہر داغ دل میں عکسِ رخ گل بدن لیے
بیٹھے ہیں اہل عشق چمن در چمن لیے
آؤ نہ دل کے داغ جلا ئیں کہ صبح ہو
اختر شماریِ شبِ آلام کیا کریں
پہلے شعر میں ردیف غزل کا فقط نصاب پورا نہیں کرتی بلکہ متکلم کے نشاط بے پایاں کو نمایاں کرکے معنی کی توسیع بھی کرتی ہے۔عاشق دل کے زخموں سے افسردہ ہونے کے بجائے ،سرشاری کی عجیب کیفیت سے دوچار ہے۔عاشق گلابوں کے اس باغ کی سیر کے لیے معشوق کو بھی بلاتا ہے کہ ایسے خوش رنگ ،شاداب اور ہنستے ہوئے گلاب کہیں اور دیکھنے کو نہ ملیں گے۔
دوسرے شعر میں دل کا ہر داغ معشوق کے عکس رخ سے لالہ زار بنا ہوا ہے۔داغوں کی ایسی کثرت ہے کہ عاشق کا دل چمن در چمن کا منظر پیش کرتا ہے چونکہ یہ عکس ایک گل بدن کا ہے اس لیے چمن در چمن کا جواز بھی شعر کے متن ہی میں موجود ہے۔
آخری شعر میں داغِ دل لو دے اٹھتے ہیں اور تیرہ و تار شبِ غم میںاختر شماری کا فضول کام کرنے کے بجائے عاشق داغوں کی روشنی سے اپنی بزم چراغاں کرلیتا ہے ۔’آئو نہ دل کے داغ جلالیں‘ میں خود کلامی کا اندازہ، شعر میں ڈرامائی کیفیت پیدا کر رہا ہے۔
اس طرح مختلف فنی تدابیر سے کام لے کر جذبی صاحب نے روایتی عشقیہ مضامین میں بھی کوئی نئی جہت دریافت کرلی ہے اور ہجر و وصال کے پامال قصے میں خیال کا نیا پہلو روشن کردیا ہے۔
جذبی کا ایک اور پسندیدہ طریقہ کاراضافتوں کا برمحل استعمال ہے۔مرکب توصیفی اور اضافی کی بہت سی مثالیں ان کے اشعار سے پیش کی جاسکتی ہیں۔اکثر تراکیب میں ایک سے زائد اضافتیں استعمال کرکے جذبی نے تو الئیِ اضافات سے بھی کام لیا ہے۔اضافتوں کے اس طرح استعمال سے ان کے کلام میں ایک طرح کی شائستگی اورSophisticationپیدا ہوگیا ہے اور زبان عوامی سطح سے بلند ہوکر اشرافیہ طبقہ کے خیالات کی ترجمان بن گئی ہے۔ہندی الاصل الفاظ یا عام بول چال کی زبان چونکہ تراکیب کے صوتی آہنگ اور معنوی پیچیدگی کی متحمل نہیں ہوسکتی اس لیے تراکیب کے استعمال سے اسالیبِ اظہار میں ترفع پیدا ہوجاتا ہے۔ترکیب میں استعمال ہونے والا ہر لفظ ایک مخصوص معنی پر دلالت کرتا ہے اور ترکیب کی صورت میں خیال اپنے مضاف الیہ سے مل کر ایک دوسرے خیال کوبھی معنی میں شامل کرلیتا ہے۔اس طرح خیال پیچیدہ اور لطیف تر ہوجاتا ہے ۔خیالات کا یہ مجموعہ اپنی دلالتوں اور معنوی انسلاکات کے سبب ، آسانی سے گرفت میں نہیں آتا اور زبان اشرافیہ طبقہ کی نمائندہ بن جاتی ہے۔جذبی نے اضافتوںکے استعمال سے زبان کو رواںاور خوش آہنگ بنانے کے علاوہ معنی کی سطح پر بھی بہت سے کام لیے ہیں۔ایک سے زائد اضافتوں پر مشتمل مرکبات کی چند مثالیں ملاخطہ ہوں :
وہ خوش خرامیِ آوارگانِ راہِ وفا
جہاں سے دار و رسن کے مقام آتے ہیں
ہر جورِ نارواکے مقابل رہے ہیں ہم
وجۂ شکستِ شیوۂ قاتل رہے ہیں ہم
گستاخیِ نگاہِ تمنّا کدھر گئی
تعزیرِ درد کے وہ سزاوار کیا جائے
صبر آزما رہ شوقِ نظارہ کہاں گیا
منت کشانِ سایۂ دیوار کیا ہوئے
افسردگیِ ضبطِ الم آج بھی سہی
لیکن نشاطِ ضبطِ مسرت کہاں سے لائیں
ان اشعار کا آہنگ اور خیال کی نزاکت،توالئی اضافات کی رہین منت ہے۔جذبی کی ایک اور پسندیدہ فنی تدبیر’بعض لفظوں کی تکرارہے‘۔Adjectives Adverbs یا حروف استفہام کی تکرار سے جذبی نے حسب دلخواہ احساس کی شدت کو بڑھانے یا جذبے کے وفور کو کم کرنے کا کام بڑی ہنر مندی سے لیا ہے۔ظاہر ہے میٹھا درد اور میٹھا میٹھا درد یا چپ رہنا اور چپ چپ رہنا ایک ہی معنی پر دلالت نہیں کرتے۔ان کے معنی اور ان سے قائم ہونے ولانقش یکسر مختلف ہوتا ہے۔اب جذبی کے یہ مصرعے سنئے :
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
دل میں دبی دبی سے قیامت کہاں سے لائیں
زخم گل تجھ کو مہکنا ہے تو ہنس ہنس کے مہک
دھندلی دھندلی سی نظر آتی ہے کچھ پرچھائیاں
یہ چپ چپ نرگس کی کلیاں کیا جانیں کیسی کلیاں ہیں
نالۂ بے تاب لب تک آتے آتے رہ گیا۔
ایک وہ راہ کہ ہر کام پہ بس پھول ہی پھول
تری بلندیٔ فطرت کی نرم نرم ضیا
صاف محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مصور احساس کے مختلف رنگوں کو ،تکرار ِ الفاظ کے ذریعہ کہیں ہلکا تو کہیں گہرا کر رہا ہے۔’’بس پھول ہی پھول‘‘کہنے سے پھولوں کی کثرت اور رنگوں کا وفورخود بخود پیش نظر میں ابھرتا ہے اسی طرح ’’نرم نرم ضیا‘‘سے محض حسی اور بصری پیکر ہی ہم آغوش نہیں ہوتے بلکہ روشنی کی شدت ازخود خوشگوار حد تک کم ہوجاتی ہے۔
بلا شبہ جذبی نے کئی ترقی پسند نظمیں کہی ہیں،غزلوں میں بھی کہیں کہیں ترقی پسندانہ خیالات کا اظہار ہوا ہے لیکن ایسے موقعوں پر جذبی کے قلم کا وہ ہنر نظر نہیں آتا جو ان کے عشقیہ اشعار میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔نیا سورج ،چشم سوال،طوائف،اے کاش اور فطرت ایک مفلس کی نظر میں جذبی کی اچھی نظمیں ہیں کہ ان میں افلاس،بھوک اور آزادی کے خواب کو فن کے پیکر میں ڈھال دیا گیا ہے لیکن ان نظموں میں خیال ،احساس سے اس درجہ ہم آہنگ نہیں ہوتا کہ دونوں کی حدیں تحلیل ہوجائیں۔یہ نظمیں قاری کے دل میں اس طرح نہیں اترتیں کہ جمالیاتی تجربہ بن کر اس کے باطن میں ارتعاش پیدا کردیںاور قاری ان خیالات کو دل کی آواز سمجھ کر پکاراٹھے کہ ’’یہ میں میرے دل میںہے‘‘۔
جذبی کی ترقی پسند نظموں پر سب سے بہتر تبصرہ خود جذبی کا وہ شعر ہے جس میں صبا کی زبانی گلوں کو یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ کسی سبب سے ان دنوں اگر ہم رنگ و بو کا ذکر نہیں کرتے تو معاملات عشق میں اس عارضی وقفہ کو لا تعلقی پر محول نہ کریںاور ہر گز بدگمان نہ ہوں۔گلوں سے ربط اور ان کی محبت فطری اورلازوال جذبہ ہے۔اجتماع کے مسائل ،زمانے کا دکھ اور زندگی کے حقائق وہ اسباب ہیں جو شاعر جذبی کو منصب عشق سے بر طرف کرکے مقصدی شاعری کی تخلیق پر مامور کردیتے ہیں ۔شعر ملاخطہ ہو :
صبا گلوں سے یہ کہنا کہ بد گمان نہ ہوں
کسی سبب سے جوہم ذکر رنگ و بو نہ کریں
’’کسی سبب ‘‘کاپیرایۂ بیان ان اسباب کی تخفیف اور تحقیرپر دلالت کرتا ہے ۔مزید توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ لاتعلق ہوکربھی شاعر گلوں کو اپنی طرف سے بدگمان نہیں دیکھ سکتا ۔اس لیے وہ آج بھی انھیں اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے۔
جذبی کے اشعار میں پیرایہ ٔبیان کی شائستگی اور لہجے کی شناخت نے انھیں ترقی پسند شعرا میں بہت ممتاز کردیا ہے۔آواز وں کے ہجوم میں بھی جذبی کی آواز اپنی نرمی اورمدھم سروں کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاسکتی ہے۔یقین ہے کہ وقت کے ساتھ ان اشعار کی منزلت میں اضافہ ہوگا اورمختصر سرمایۂ سخن کی قدر وقیمت کے مزید امکانات روشن ہونگے ۔

Jazbi ki Fankari by Fuzail Jafri

Articles

جذبی کی فن کاری

فضیل جعفری

معین احسن جذبی ؔسے متعلق بطور تمہید جو دو چار قسم کے حقائق بیان کیے جا سکتے ہیں ، ان سے شعر و ادب کا ہر سنجیدہ طالب علم واقف ہے ۔ مثال کے طور پریہ کہ جذبی کی نوجوانی کا زمانہ کم و بیش وہی تھا  جو جنگ ِ آزادی کے شباب کا دور تھا ۔ اسی طرح وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے با قاعدہ ممبر یا عہدے دارنہ رہے ہوں، لیکن ان کا حلقہ وہی تھا جن سے فیض، مخدوم، سردار جعفری ، جاں نثار اختر اور مجاز وغیرہ وابستہ تھے ۔ جذبی نے بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثرخاصی تعداد میں سیاسی اشعار لکھے ہیں ۔ ان کے یہاں دار و رسن کا بھی ذکر ہے اور اجڑے ہوئے چمن کا بھی۔انھوں نے بھی فطرت اور دنیا کے دلکش نظاروں کو ایک مفلس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا دل بھی ’’ کاکلِ گیتی‘‘ کو سنوارنے کی خواہش سے معمور رہا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے با وجود انھوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔ باکل اسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو ادبی ہنگاموں اور معرکہ آرائیوں سے بھی ہمیشہ دور رکھا ۔ معین احسن جذبی ؔسے متعلق بطور تمہید جو دو چار قسم کے حقائق بیان کیے جا سکتے ہیں ، ان سے شعر و ادب کا ہر سنجیدہ طالب علم واقف ہے ۔ مثال کے طور پریہ کہ جذبی کی نوجوانی کا زمانہ کم و بیش وہی تھا  جو جنگ ِ آزادی کے شباب کا دور تھا ۔ اسی طرح وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے با قاعدہ ممبر یا عہدے دارنہ رہے ہوں، لیکن ان کا حلقہ وہی تھا جن سے فیض، مخدوم، سردار جعفری ، جاں نثار اختر اور مجاز وغیرہ وابستہ تھے ۔ جذبی نے بھی اپنے ساتھیوں کی طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثرخاصی تعداد میں سیاسی اشعار لکھے ہیں ۔ ان کے یہاں دار و رسن کا بھی ذکر ہے اور اجڑے ہوئے چمن کا بھی۔انھوں نے بھی فطرت اور دنیا کے دلکش نظاروں کو ایک مفلس کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ ان کا دل بھی ’’ کاکلِ گیتی‘‘ کو سنوارنے کی خواہش سے معمور رہا ہے ۔ لیکن ان تمام باتوں کے با وجود انھوں نے عملی سیاست میں کبھی حصہ نہیں لیا ۔ باکل اسی طرح انھوں نے اپنے آپ کو ادبی ہنگاموں اور معرکہ آرائیوں سے بھی ہمیشہ دور رکھا ۔
جذبی ؔ صاحب علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے برسوں وابستہ رہے ۔ لیکن انھوں نے اپنے ارد گرد وفا دار شاگردوں اور مداحوں کا کو ئی ایسا گروہ جمع نہیں کیا جو ان کی شاعرانہ عظمت جا ڈھول بجاتا پھرتا ۔ در اصل وہ شرو ع سے ہی ایک کم گو،حلیم الطبع، منکسر المزاج اور گوشہ گیر قسم کے آدمی رہے ہیں ۔ ان خصوصیات کی پرچھائیاں ان کی شاعری میں بھی جا بجا بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس حقیقت سے بھی ہر شخص آگا ہ ہے کہ انھوں نے اپنے فوری پیش روؤں، اپنے ہم عصروں اور اپنے بعد آنے والے تمام اہم شاعروں کے مقابلے میں بہت کم لکھا ہے ۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ سچ ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جذبی کسی بھی دور میں نہ صرف یہ کہ گمنام نہیں رہے بلکہ ہر دور میں ان کا شمار صف اول کے غزل گو شعرا میں ہو تا رہا ہے ۔ گذشتہ ۵۰۔ ۶۰ برس کے دوران ہونے والی تمام تر نظریاتی اُکھاڑ پچھاڑ کے باوجود ان کے قارئین کا ایک الگ اور خاصا وسیع حلقہ رہا ہے ۔ جذبیؔ کے کئی اشعار مثلاً:
میری ہی نظر کی مستی سے سب شیشہ و ساغر رقصاں تھے
میری ہی نظر کی گرمی سے سب شیشہ و ساغر ٹوٹ گئے
اس حرص و ہوس کی دنیا میںہم کیا چاہیں ہم کیا مانگیں
جو چاہا ہم کو مل نہ سکا، جو مانگا وہ بھی پا نہ سکے
کیا تجھ کو پتہ کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکلِ گیتی ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
پھر عشرتِ ساحل یاد آئی پھر شورشِ طوفاں بھول گئے
نیرنگیٔ دوراں کے مارے نیرنگیِ دوراں بھول گئے
ہر منزل تھی دل کی منزل ، جب دل کو غمِ منزل نہ رہا
ہر کوچہ ، کوچۂ جاناں تھا ، جب کوچۂ جاناں بھول گئے  آج سے دہائیوں پہلے جس طرح زبان زدِ خاص و عام تھے ، بالکل اسی طرح آج بھی ہیں ۔ جذبی کے یہاں متاثر کرنے والے اور قاری کے دل کے اندر تک اتر کر اپنے لیے علاحدہ گوشہ بنا لینے والے اور بھی ایسے درجنوں اشعار مل جاتے ہیں جو ہمیں جذبی کا نام سنتے ہی یاد آجاتے ہیں اور جنھیں یاد کرنے کے لیے قطعاً ذہن پر زور دینے کی کو ئی ضرورت نہیں پڑتی ، لیکن جیسا کہ آپ نے دیکھا منقولہ بالا سبھی اشعار طویل بحروں والی غزلوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ طویل بحروں میں غزل نگاری بجائے خود ایک مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اسے جذبی کا طرۂ امتیاز سمجھنا چاہئے کہ انھوں نے طویل بحروں میں جتنی زیادہ اور جتنی کامیاب غزلیں لکھی ہیں ان کی نظیر ہمارے زمانے کے شاعروں میں شاذ و نادر ہی نظر آئے گی ۔ فیض ؔ اور مجازؔ نے اگر چہ طویل بحروں میں کچھ غزلیں ضرور کہی ہیں ، لیکن وہ ان کی پہچان نہیں بن سکیں ۔ یوں بھی اردو شاعری میں سراج اورنگ آبادی ، میر تقی میر اور شاد عظیم آبادی کے علاوہ دوسرے شعرانے طویل بحروں پر کوئی خصوصی توجہ نہیں دی ۔
اس میدان میں جذبی کی نمایاں کا میابی کی بنیاد ی وجہ صرف یہی نہیں کہ ان کی ذہنی تربیت میں کلاسیکی شعری روایات کا بڑا عمل دخل رہا ہے کہ وہ گہرے تفکر اور مدھم لہجے والے شاعر ہیں ۔ اس طرح کے اشعار قاری کے ذہن کو متحرک کرنے کے علاوہ نہایت ہی نرم روی کے ساتھ ساتھ زینہ بہ زینہ اس کے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ ان اشعار میں جذباتی خلوص اور ذہنی ایمان داری کے ساتھ وہ بے مثال غنائیت بھی ملتی ہے جو پڑھنے والے کو محض متاثر ہی نہیں کرتی بلکہ جس کے سحر سے وہ تا دیر آزاد نہیں ہو سکتا ۔ ان اشعار میں پایا جانے والا غیر رسمی اور مدھم بہاؤ ایک الگ ہی کیفیت رکھتا ہے ۔
منقولہ بالا سبھی اشعار جذبی کی قادرالکلامی اور شعری تکنیک پر ان کی مضبوط گرفت کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔ میں نے اوپر جو شعر نقل کیے ہیں ان کے مطالعے سے ہم جو نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں وہ یہ کہ جذبی نے کمال چابکدستی سے ہر شعر میں ( بلکہ پوری کی پور ی غزلوں میں ) لفظوں ، فقروں اور آوازوں کو کچھ اس طرح تقسیم کر دیا ہے کہ ان میں ایک عجیب و غریب اور نشاط افزوں معنوی ہم آہنگی پیدا ہو گئی ہے ۔ کیونکہ یہ ساری غنائی اکائیاں ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہیں اس لیے ان میں شدت تاثر اور وحدت ِ تاثر دونوں کا پیدا ہو جانا ایک فطری امر ہے ۔
جذبی نے ایک جگہ اپنے شاعرانہ نظریے کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہــ’’ ایک شاعر کی حیثیت ہمارے کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں ، لیکن کوئی تجربہ اس وقت تک موضوعِ سخن نہیں بنتا جب تک اس میں شاعر ہونے کے جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہو جائے ۔‘‘
جذبیؔ کی بیشتر شاعری میں یہ دونوں خصوصیتیں پوری توانائی کے ساتھ اجاگر ہوئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مجروح جذبات ،ذہنی تناؤ، احساساتی کشمکش اور ہجر و وصال کی کیفیات ہی نہیں بلکہ اجتماعی، سیاسی اور معاشرتی مسائل بھی معصومیت اور شعریت کی تجسیم بن کر ابھرتے ہیں ۔ ان کا نفیس سلیقہ مند شعری لہجہ نا زک ترین احساسات و جذبات کے تحفظ کا فرض بھی ادا کرتا ہے اور ان کی از سر نو تخلیق کا محرک بھی بن جاتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں جذبی کو بھی اپنے ترقی پسند ہم عصروں کی طرح سنجیدہ سماجی اور سیاسی مسائل سے گہری دلچسپی ہے لیکن چونکہ ان کی شعری جمالیات بنیادی طور سے انفرادی احساسات و تجربات کی پروردہ ہے ، اس لیے ان کے یہاں سیاسی اور سماجی مسائل کا اظہار بھی وسیع تر شعری تناظر میں ہو تا ہے ۔ مثال کے طور پر ان کا یہ مشہور شعر:
اے موجِ بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
بہ ظاہر ہنگامی سیاسی حالات کا رد عمل ہے ۔ لیکن ذرا گہرائی میں جا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا مجموعی تناظر کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ 1943ء میں لکھنے جانے والے اس شعر میں در اصل اس دور کی پوری تاریخ سمٹ آئی ہے ۔ اس شعر میں ہمیں واضح طور پر دو زمانے نظر آتے ہیں ۔ ایک تو وہ ’ حال‘ ہے جو موجود ہے ، لیکن جس کے وجود سے ہم بے خبر ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ طوفان میں گھرے ہوئے لوگ بھی طوفان کی شدت اور اس کے دور رس مضر نتائج سے بے خبری کے المیے کا شکار ہیں ۔
دوسرے زمانے کا تعلق مستقبل سے ہے ۔ جب تک ان بے حس اور بے خبر لوگوں کو شدید قسم کا جھٹکا نہ لگے ، نہ تو انھیں لمحۂ موجود کی المناکیوں کا احساس ہوسکتا ہے اور نہ ہی یہ مستقبل کی پہنائیوں کو شناخت کر سکتے ہیں ۔ طوفانی ’’ تھپیڑے‘‘ ہی انھیں خواب اور بے عملی کی دنیا سے نکال کر حقائق سے دوچار کر سکتے ہیں ۔ مختصر یہ کہ اس شعر کی سطح پر جتنا نظر آتا ہے اس سے کہیں زیادہ بین السطور میں پوشیدہ ہے ۔ ان دو مصرعوں کو اگر ہم دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی سیاق و سباق میں دیکھیں تو بہت زیادہ بامعنی اور واضح ہو جاتی ہے ۔
جذبی نے حالات اور ماحول کے تعلق سے جا بہ جا اپنی بے اطمینانی اور نا راضگی کا اظہار کیا ہے ۔ لیکن ان کے اشعار میں احتجاجی لَے نظر نہیں آتی ۔ انھوں نے ہمیشہ احتجاج پر تحمل ، برد باری اور درد مندی کو ترجیح دی ہے ۔ واضح رہے کہ بسا اوقات احساس محرومی اور شدید مایوسی کا براہ راست رد عمل ہوتا ہے جبکہ بردباری اور درد مندی امید اور یقین کے توانا مظاہر ہیں ۔ جذبی کی شاعر ی میں جو داخلی توانائی ملتی ہے وہ ان کی اسی درد مندی کا نتیجہ ہے ۔
اب جذبی کی ایک خاص مشہور و مقبول غزل کے یہ تین اشعار ملا حظہ ہوں ۔جن کے توسط سے ان کی ایک اور اہم فن کارانہ خصوصیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے:
بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
ڈھونڈیں کہاں وہ نالۂ شب تاب کا جمال
آہِ سحر گہی کی صباحت کہاں سے لائیں
افسردگیِ ضبطِ الم آج بھی سہی
لیکن نشاطِ ضبطِ مسرت کہاں سے لائیں
گیارہ اشعار پر مشتمل اس غز ل میں پہلے مصرعے سے لے کر آخری مصرعے تک موضوعات کے تنوع کے باوجودایک خاص طرح کے داخلی تسلسل کا احساس نا گزیر ہے ۔ جذبی ؔ کی ایک درجن سے زیادہ ہی کچھ اور غزلیں مل جاتی ہیں جن میں یہی تسلسل پایا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ جن شاعروں کے یہاں بھی احساسات و جذبات کا کوئی با قاعدہ نظام ہوتا ہے اور جو شعوری طور پر خوردہ فروشی سے احتراز کرتے ہیں ۔ ان کے یہاں اس طرح کا تسلسل خود بہ خود پیدا ہوجاتا ہے ۔ یہ ایک سوچا سمجھا شعری عمل ہے اور اسے متعلقہ شاعر کی محض قادر الکلامی پر محمول نہیں کیا جا سکتا ۔
مندرجہ بالا اشعار کی پہلی قرأت سے ہی بات صاف ہو جاتی ہے کہ شاعر نہ صرف اپنے تجربات کا براہ راست لیکن تخلیقی اظہار کر رہا ہے بلکہ وہ شعر کے میڈیم سے اپنے ماضی کی بازیافت بھی کر رہا ہے ۔ شاعر کا مقصد مہ و سال کی گرد میں گم ہو جانے والی ان حقیقتوں کو از سر نو دریافت کرنا ہے جن کا تعلق اس کی زندگی اور اس کے ماحول سے ہے اور جو اس کی کئی دہائیوں پر محیط زندگی کے تجربات کا حاصل ہیں۔ ’ نالۂ شب تاب کاجمال‘اور آہِ سحر گہی کی صباحت جیسے بصری پیکر اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کے ذہن میں ماضی کا وہ زندہ تصور پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے جس کے بغیر حال اور مستقبل مکمل نہیں ہو سکتے ۔ ردیف’ کہاں سے لائیں ‘ کا انتخاب بھی بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے ۔یہاں تمام اشعار نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ بس اتنا کہنا کافی ہو گا کہ ان سبھی اشعار کا تعلق تخلیق کار کی زندگی سے بھی ہے اور اجتماعی مسائل سے بھی ۔ شاعر یکے بعد دیگرے مختلف اشعار میں ایسے سوالات قائم کرتا ہے جن کا حل اس کے پاس نہیں ہے یا یہ کہ غزل کی رمزیت واضح جواب کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ اس طرح پوری غزل میں ماضی اور حال کے درمیان جذباتی ہی نہیں ، ایک طرح کی ثقافتی کشمکش بھی پیدا ہو گئی ہے ۔ آخری شعر :
سب کچھ نصیب بھی ہو تو اے شورشِ حیات
تجھ سے نظر چرانے کی عادت کہاں سے لائیں
میں جذبیؔبڑی نرمی اور سادگی کے ساتھ پورے ماحول کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ایک طرف اگر ان اشعار کا خود سوانحی اسلوب ذاتی یادوں کی باز یافت کا سبب بن جاتا ہے تو دوسری طرف ان کے ذریعے عصری زندگی کی تضادات کو بھی نمایاں کردیا گیا ہے ۔ پوری غزل کا جو لب و لہجہ ہے اس کی وجہ سے مونو لاگ والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔ شاعر نے ان اشعار میں جا بہ جا اپنی ذاتی اذیتوں کو اجتماعی مسائل سے جوڑ دیا ہے وہ اس کی فن کارانہ قوت کا ثبوت ہے ۔ اس طرح ایسے اشعار وہی شخص لکھ سکتا ہے جو شخصی واقعات کو غیر شخصی انداز میں بیان کرنے کی جرأت اور صلاحیت رکھتا ہو ۔ جذبی زمانے اور حالات کی مناسبت سے نظر نہیں چراتے لیکن ان کے اظہار میں اس احتیاط سے ضرور کام لیتے ہیں جس کے بغیر شعر اور غیر شعر کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں رہ جاتا ۔ وہ انسانی وجود اور اس کے متعلقات کے درد کو محسوس تو بڑی شدت کے ساتھ کرتے ہیں لیکن انھیں بیان کرتے وقت نرمی اور دانشورانہ معروضیت سے کام لیتے ہیں ۔
کلام جذبی کے مطالعے سے ایک اور اہم نکتہ جو سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی شاعری پر کلاسیکی، رومانوی یا ترقی پسندی ، غرض کوئی لیبل تنہا اور پوری طرح چسپاں نہیں ہو تا ۔ در حقیقت ان کی شاعری کلاسکیت، رومانویت اور ترقی پسندیت تینوں کا ایک قابل قدر اور منفرد امتزاج ہے ۔ کلاسیکیت نے انھیں وسیع تر پیمانے پر عام انسانوں سے محبت کرنا سکھایا ہے ۔ اس محبت میں نہ تو مذہب و ملت کی کوئی تخصیص ہے نہ طبقات کی اور نہ ہی مر د و عورت کی ۔ اس اعتبار سے جذبی دوسرے ترقی پسندوں سے مختلف ہیں ۔ کیونکہ مرکزی دھارے والی ترقی پسند شاعری میں عام انسانوں سے نہیں بلکہ صرف مخصوص طبقوں سے محبت اور انسیت کا اظہار ملتا ہے ۔ جذبی نے اجتماعیت میں انفرادیت کی تلاش کا گُر بھی کلاسیکی اقدار سے ہی سیکھا ہے ۔
رومانویت کا تقاضہ یہ ہے کہ شاعر اپنی بیشتر توجہ اپنی ذات پر مبذول اور صرف کر دے جو شاعر رومانویت کے متاثر ہونے کے بجائے ’’ رومانویت زدہ ‘‘ ہو جاتے ہیں ان کے یہاں فطری طور پر خود ترحمی کا جذبہ در آتا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ جذبی نے کسی دور میں اور کسی بھی موڑ پر اپنے آپ کو خود ترحمی کا شکار نہیں ہونے دیا ۔ ترقی پسندی کے بارے میں صرف ایک جملے میں یہاں یہ کہہ دینا کافی ہوگا کہ اس کا بنیادی پیغام غریبوں اور مظلوموں کی حمایت اور ان کے جابرانہ استحصال کے خلاف آواز بلند کرنا تھا ۔ جذبی ؔ کے یہاں یہ تینوں رویے ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر بلکہ یوں سمجھئے کہ شیر و شکر ہو کر ایک اکائی بن گئے ہیں ۔ جذبی کی شاعری میں کلاسیکی بلوغت بھی ہے جو انھیں حیات و کا ئنات کا معروضی اور ہمدردانہ مطالعہ کرنے کی دعوت دیتی ہے ۔ احساسات کی وہ شدت بھی ہے جو رومانویت کی دین ہے اور لمحاتی نوعیت والے وہ اشعار بھی ہیں جو ان کے عصری شعور کا مظہر ہیں ، لیکن جنھیں ان کے شعری شعور اور انفرادی فکر نے عصریت سے آگے کی چیز بنا دیا ہے ۔ کسی شعوری کوشش کے بغیر اس طرح کے براہ راست ، لیکن نازک اور دلوں میں اتر جانے والے شعر کہنا جذبی کی خلاقانہ قدرت اور تکنیکی مہارت کا ثبوت ہیں :
عذابِ درد پہ نازاں ہیں اہلِ درد مگر
نشاطِ درد میسر نہیں تو کچھ بھی نہیں

یہ دل شکستہ سہی،بے نوا سہی پھر بھی
حریفِ چنگ و جوابِ رباب ہے کہ نہیں

زندگی ہے تو بہر حال بسر بھی ہو گی
شام آئی ہے تو آنے دو سحر بھی ہو گی
یہ اور ایسے بہت سے اچھے اور کامیاب شعر کہنے کے باوجود جذبی نے اپنی شہرت اور عظمت کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا ۔یہ شعر:
مجھے کمال کا دعویٰ نہیں ہے اے جذبیؔ
کہ میں ہوں گردِ رہِ کاروانِ اہلِ کمال
وہی شاعر کہہ سکتا ہے جسے اپنے کمال کا احساس بھی ہو ، اپنے آپ پر اعتماد بھی۔ لیکن جو فن کارانہ منکسر المزاجی کا دامن بھی ہاتھ سے نہ جانے دے۔

 

Moen Ahsan Jazbi by Sharib Rudaulvi

Articles

ایک کم سخن، کم گو، کم آمیز شاعر

پروفیسر شارب ردولوی

جذبیؔ اپنے ہم عصراردو شعرا میں سب سے کم سخن ، کم گو اور کم آمیز شاعر ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی سب سے الگ نظر آئے ۔ دنیاوی اعتبار سے اپنی کم آمیزی کی وجہ سے جتنے بھی نقصان ہو سکتے تھے وہ انھوں نے برداشت کیے لیکن کبھی شکایت نہیں کی ، سوائے ا یک طنزیہ قصیدے کے ۔ سب میں رہنے کے با وجود وہ کبھی کھلے نہیں ۔ کم ایسے دروںبیں ہوں گے جوخود سے بھی نہیں کھلتے۔ ان کے یہاں احتیاط کی ایک عجیب تہذیب ہے ۔ یہ تہذیب ان کی زندگی اور شاعری دونوں پر ہمیشہ چھائی رہی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بارے میں بھی اظہار سے ہچکچاتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پارہ ہائے قلب و جگر وہ پھول ہیں کہ جو کبھی مر جھانے والے نہیں ہیں ۔ لیکن تہذیب احتیاط انھیں کہنے نہیں دیتی کہ کہیں یہ تعلّی نہ ہو جائے، کہیں لو گ اسے خود ستائی نہ سمجھ لیں ۔ کوئی اسے ادّعا نہ قرار دے اس لیے یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں : جذبیؔ اپنے ہم عصراردو شعرا میں سب سے کم سخن ، کم گو اور کم آمیز شاعر ہیں۔ وہ ہمیشہ ہی سب سے الگ نظر آئے ۔ دنیاوی اعتبار سے اپنی کم آمیزی کی وجہ سے جتنے بھی نقصان ہو سکتے تھے وہ انھوں نے برداشت کیے لیکن کبھی شکایت نہیں کی ، سوائے ا یک طنزیہ قصیدے کے ۔ سب میں رہنے کے با وجود وہ کبھی کھلے نہیں ۔ کم ایسے دروںبیں ہوں گے جوخود سے بھی نہیں کھلتے۔ ان کے یہاں احتیاط کی ایک عجیب تہذیب ہے ۔ یہ تہذیب ان کی زندگی اور شاعری دونوں پر ہمیشہ چھائی رہی ۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بارے میں بھی اظہار سے ہچکچاتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ پر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے پارہ ہائے قلب و جگر وہ پھول ہیں کہ جو کبھی مر جھانے والے نہیں ہیں ۔ لیکن تہذیب احتیاط انھیں کہنے نہیں دیتی کہ کہیں یہ تعلّی نہ ہو جائے، کہیں لو گ اسے خود ستائی نہ سمجھ لیں ۔ کوئی اسے ادّعا نہ قرار دے اس لیے یہ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں :
چمن کی نذر ہیں یہ پارہ ہائے قلب و جگر
یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مرجھائیں
کم گو اتنے کہ کوئی سال مشکل سے ہی ہو گا جس میں چار چھ سے زیادہ غزلیں کہی ہوں ۔ ’’گدازِ شب‘‘ میں بعض سال ایسے بھی ہیں جس کی کو ئی غزل ہی شامل نہیں ہے ۔
جذبیؔ ؔ کو سمجھنے کے لیے ان کے اس مزاج اور اس تہذیب احتیاط کو اچھی طرح سمجھے بغیر ان کی شاعری کے بارے میں کسی نتیجے پر پہنچنا مشکل ہے ۔ جذبیؔؔ ایک ترقی پسند شاعر اور اردو کے ایک منفرد غزل گو کی حیثیت سے مشہور ہیں ۔ لیکن ان کے یہاں زبان و بیان ، اظہار اور موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں ایسا محتاط رویہ ملتا ہے جو ان کے ہم عصر شاعروں میں بہت کم ہے ۔ دوسرے الفاظ میں وہ اپنے تہذیبی روایت سے اسی طرح وابستہ رہے ہیں کہ ترقی پسندی کے اس عہد میں بھی جس میں الفاظ کی گھن گرج اور موضوعات کی بلند آہنگی اپنے عروج پر تھی ، ان کے لب و لہجے کی متانت اور سنجیدگی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا ۔
جذبیؔ ؔ کی شاعری اس عہد کی نصف صدی سے زائد کو محیط ہے ۔ گداز شب کی پہلی غزل 1929ء کی ہے ۔ اس طرح ان کا ۶۵ سال کا یہ شعری سفر کافی اہم ہے ۔ یہ 65 سال ہندوستان کی ادبی ، تہذیبی اور سیاسی زندگی کے اہم ترین سال ہیں ۔ جنگِ عظیم کے اثرات اور ان کے ر د عمل کے علاوہ بیشتر بڑی سماجی ، سیاسی اور ادبی تحریکات اسی عہد میں پروان چڑھیں ۔ اکتوبر انقلاب سے لے کر آزادی اور تقسیم ملک تک اس نصف صدی میں نہ جانے کتنے نشیب وفراز دیکھے ۔ ادبی افق پر ترقی پسندی کا عروج بھی دیکھا۔ فرائڈ کی دروں بینی کی مقبولیت بھی دیکھی اور فرانسیسی علامت نگاری کے ساتھ رومانیت اور جدیدیت کا فروغ بھی ۔یہ عہد صرف اردو ہی نہیں ، پورے ہندوستانی ادب میں زبردست تبدیلیوں کا عہد رہا ہے ۔ یہ تبدیلیاں موضوع، مواد ، اظہار، بیان، الفاظ ، زبان ہر چیز میں آئیں ۔
جذبیؔؔ کی شاعری کا ابتدائی زمانہ فانی، جگر اور اصغر کا زمانہ تھا ۔ جس میں جگر کی طوطی اردو شاعری میں 1960ء تک بولتا رہااور ان کی غنائیت، رومانویت اور نغمگی کا اثر ان کے بعد بھی بہت عرصے تک باقی رہا ۔ فانیؔ کی یاسیت اور حرماں نصیبی انسان کو مایوسی کا شکار بنانے والی ذاتی شکستوں اور نا کامیوں کے باوجود تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا زیادہ دنوں ساتھ نہیں دے سکی اور انسان نے جینے کے لیے نئی آرزوؤں اور امنگوں کو سہارا بنایا ۔ اصغرؔ بھی جگرؔ کی نغمگی کے سامنے بہت دور تک نہیں چل سکے ۔ اس زمانے پر سب سے گہرا رنگ انھیں تین شاعروں کا نظر آتاہے۔ اقبال اور جوش ؔ کا ذکر اس جگہ اس لیے مناسب نہیں تھا کہ وہ اردو شاعری کی دو الگ آوازیں ہیں اور ان کا حلقہ اثر بالکل مختلف ہے ۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جذبیؔ کی شاعری پر فانی ؔ کا اثر ہے ، لیکن یہ درست نہیں۔ ان کی 1929ء اور1930ء کی غزلوں میں حزن انگیزی یا غم و یاس کی ایسی کیفیت نہیں ہے جسے فانیؔ کا اثر قرار دیا جا سکے ۔ یوں تو غم کی نفسیات یہ ہے کہ وہ دوسرے جذبات کے مقابلے میں زیادہ زود اثر اور پر اثر ہوتا ہے۔ لیکن جذبیؔؔ نے غم و افسردگی کا اس طرح اظہار اس زمانے میں بھی نہیں کیا جب وہ فانیؔ سے قریب تھے۔ ان کی اس وقت کی غزلوں کے چند اشعار دیکھئے :
ہو نہ ہو دل کو  ترے حسن سے کچھ نسبت ہے
جب اٹھا درد  تو کیوں میںنے  تجھے یاد کیا (۱۹۲۹ء)
سکوں نہیں ،نہ سہی درد انتظار تو ہے
ہزار  شکر کو ئی دل کا غم گسار تو ہے (۱۹۳۰ء)
مزے ناکامیوں کے اس سے پوچھو
جسے کہتے ہیں  سب گم  کردہ منزل (۱۹۲۹ء)
تر ے جلوؤں کی حد ملی تو کب
ہو گئی جب  نظر  بھی لا محدود (۱۹۲۹ء)
طالبِ تسکین و ہمدردی تھے بیزارانِ زیست
ہم فریبِ جوشِ الفت یاد کر کے ہنس دئے        (۱۹۳۰ء)

چاک ہی کرنا ہے  تو دامانِ  وحشت چاک کر
ورنہ کیا ہے دامنوں میں ، کیا گریبانوںمیں ہے (۱۹۳۰ء)
اس زمانے کی غزلوں کے یہ چند اشعار ، اس کے باوجود کہ ان میں دردِ ناکامی بھی ہے اور دردِ انتظار بھی۔ فانیؔ کی تہذیبِ غم سے کوئی تعلق نہیں رکھتے ۔ سوائے اس ایک غزل کے جو 1933ء کی چار اشعار کی غزل ہے :
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو یقینا اس طرح فانیؔ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہے کہ اگر مقطع بدل کر فانیؔ کے کلام میں شامل کر دیا جائے تو پڑھنے والوں کو اندازہ کرنا مشکل ہو جائے کہ وہ فانیؔ کی غزل نہیں ہے ۔ جذبیؔؔ کا درد وہ درد ہے جو ہر محبت کرنے والا محسوس کرتا ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ جذبیؔؔ کی یہ غزلیں روایتی غزلیں ہیں ۔ ان کے بعض اشعار میں روایتی شکوہ و شکایت کا انداز بھی موجود ہے ۔ لیکن انھیں اشعار سے جذبیؔؔ کی انفرادیت اور شائستگی ِ جنوں کا احساس بھی ہوتاہے ۔ ان غزلوں میں اس عہد کی مخصوص رومانویت ہے، لیکن اس میں جذبیؔؔ کا لب و لہجہ ان کے ہم عصر شعراسے مختلف ہے ۔
ڈاکٹر محمد حسن نے جذبیؔؔ کو ’’ سلگتی ہو ئی آتشِ رفتہ‘‘ کا شاعر کہا ہے ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ انھوں نے ’’ آتشِ رفتہ‘‘ کی ترکیب کیوں وضع کی ۔ صرف سلگتی ہو ئی آتش کا شاعر کیوں نہیںکہا ۔ حالانکہ ان کی ساری شاعری سلگتی ہوئی آتش بھی نہیں ہے ۔ ان کے یہاں تو زندگی سانس لیتی ہوئی محسوس ہو تی ہے اور زندگی کبھی یکساں نہیں رہتی ۔ وہ کبھی شبنم کی طرح خنک، شفافTransparantہے۔ کبھی کہر کی طرح دھندلی اور کبھی سلگتی ہو ئی آتش جیسے جذبیؔؔ کی تہذیب شعلہ نہیں بننے دیتی :
یوںبڑھی ساعت بہ ساعت لذّتِ دردِ فراق
رفتہ رفتہ میں نے خود کو دشمنِ جاں کردیا
کھنیچ کر اک آہ زیر لب کسی کی بزم میں
مختصر افسانۂ شب ہائے ہجراں کردیا

یہی زندگی مصیبت یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت یہی زندگی فسانہ

مرے قہقہوں کی ز د پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی زد میں کبھی تلخیِ زمانہ
جذبیؔؔ غزل کے شاعر ہیں ۔ انھوں نے نظمیں ضرور کہی ہیں ۔ لیکن ان کی نظموںمیںبھی غزل کی سی نغمگی اور حلاوت ہے ۔ اسی لیے ان کی بیشتر نظموں پر مسلسل غزل کا گمان ہوتا ہے کیونکہ وہ غزل کی غنائیت ، نرمی اور کیفیت میں ڈوبی ہوئی ہیں ۔
جذبیؔؔ اپنی ابتدائی شاعری یا یوں کہئے کہ1936ء اور 1937ء کی شاعری تک اصغرؔ اور جگرؔ کی شعری روایت کے شاعر نظر آتے ہیں ، لیکن ترقی پسند تحریک کی ابتدا کے بعد رفتہ رفتہ وہ اس سے قریب ہوتے گئے ۔ ترقی پسند مصنفین سے وابستگی کے بعد ان کی فکر اور لب و لہجے میں فرق ضرور آیا لیکن ان دنوں ترقی پسندی کی جو شناخت تھی ، اس لب ولہجے کو انھو ںنے کبھی نہیں اپنایا۔یوں بھی اگر دیکھا جائے تو ترقی پسند مصنفین میں دو طرح کے ادیب تھے ۔ ایک وہ جنھوں نے سیاسی لب و لہجہ اپنایا اور ادب کو سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا ۔ چونکہ یہ اندازاس وقت بہت مقبول تھا ۔ اس لیے اس زمانے کی شاعری میں بعض ایسے لوگوں کے یہاں سیاسی بلند آہنگی ملے گی جن کا کوئی تعلق ترقی پسند تحریک سے نہیں تھا اور وہ پھر اس بات کے دعویدار ہوتے تھے کہ ان کے کلام میں بھی حالات حاضرہ کا حوالہ ملتا ہے ۔ یہاں تک کہ خود جگر ؔ صاحب نے کہہ دیا :
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
دوسرے وہ شعرا اور ادیب تھے جو ترقی پسند مصنفین سے واضح نظریاتی وابستگی رکھنے کے با وجود سیاسی بلند آہنگی سے دور رہے ۔ فیض، مجاز،جاں نثار،اختر الایمان، جذبیؔ ؔ ان میں سر فہرست ہیں ۔ شعر و ادب میں سیاسی بلند آہنگی کے خلاف سجاد ظہیر نے بار بار ٹو کا اور اپنے مضامین میں صاف طور پر لکھاکہ :
’’ انقلاب کے اس خونی تصور میں رومانیت جھلکتی ہے ۔ یہ ایک طرح ادبی دہشت انگیزی ہے۔ یہ ایک ذہنی اور جذباتی بلوہ ہے ۔‘‘
اس سے زیادہ سخت بات اور کیا کہی جا سکتی تھی ۔ در اصل یہ رویہ ان لوگوں کا تھا جو Party Activistتھے اور ان کے پہلو بہ پہلو وہ لوگ تھے جنھیں نو ترقی پسند کہہ سکتے ہیں ۔ جن کے متشددانہ رویے سے بعض بہت اچھے ادیب تحریک سے بد دل ہو گئے ۔ سجاد ظہیر نے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ انقلاب کو اگر سمجھنا ہو تو اس کے لیے بہت سی اچھی کتابیں ہیں ___شاعری کا کام انقلاب کو سمجھانا یا وعظ دینا نہیں ہے۔ انھو ں نے لکھا تھا :
’’ شاعر کا پہلا کام شاعری ہے ۔ وعظ دینا نہیں ہے ۔ اشتراکیت و انقلاب کے اصول کو سمجھانا نہیں۔ اصول سمجھنے کے لیے کتابیں موجود ہیں ۔ اس کے لیے ہم کو نظمیں نہیں چاہئیں ۔ شاعر کا تعلق جذبات کی دنیا سے ہے ۔ اگر وہ اپنے تمام ساز و سامان ، تمام رنگ و بو، تمام ترنم و موسیقی کو پوری طرح کام میں نہیں لا ئے گا ۔ اگر فن کے اعتبار سے اس میں بھونڈا پن ہو گا ۔ اگر وہ ہمارے احساسات کو لطافت کے ساتھ بیدار کرنے سے قاصر ہو گا تو اچھے سے اچھے خیال کا وہی حشر ہو گا جو دانے کا بنجر میں ہو تا ہے ۔‘‘
ظاہر ہے کہ شاعر کی پہلی دنیا اس کے جذبات اور محسوسات کی دنیا ہے اور دوسری دنیا خارج کی دنیا ہے ۔ ان دونوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ اس لیے کہ سماج، روایت ، ماحول ، تجربے اور مشاہدے کا تعلق خارجی دنیا سے ہے اور یہ فن کار کے جذباتی رد عمل کو متاثر کرتے ہیں ۔ جذبیؔؔ اس راز سے بہت اچھی طرح واقف ہیں بلکہ جذبیؔؔ اس تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں جو رسم عاشقی کی تہذیب ہے ۔ جہاں سکوت ،سخن سے زیادہ بہتر ہے اور جہاں گلابی کو بھی خونِ دل میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔ اسی لیے1943ء میں شائع ہونے والے اپنے مجموعے’ فروزاں‘ کے دیباچے میں جو کہ ان کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ، جن نکات سے بحث کی گئی ہے وہ بہت اہم ہیں ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ :
’’ ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں ۔ لیکن کو ئی تجربہ اس وقت تک مو ضوع سخن نہیں بن سکتا جب تک اس میں شاعر کے جذبے کی شدت او ر احساس کی تازگی یا یقین نہ ہو جائے ۔‘‘( فروزاں )
اس مقدمے کی روشنی میں جذبیؔؔ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ جذبیؔ کی شاعری کی تعریف دو چیزوں یعنی جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی میں پوشیدہ ہے ۔ جذبیؔ کی پوری شاعری جذبے کی شدت اور احساس کی تازگی کی شاعری ہے ۔ شاید اسی لیے جذبیؔ کم گو ہیں ۔ اس لیے کہ کوئی بھی تجربہ، مشاہدہ ، یہاں تک کہ حادثہ جب تک جذبے کی شدت میں نہیں ڈھل جاتا اسے نظم نہیں کرتے ۔
جذبی نے ایسی بہت سی نظمیں لکھی ہیں جو وقتی موضوعات پر ہیں ۔ کسی دوست کے بارے میں یا کسی دوست کے انتقال پر، اور یہ وہ شخصیتیں اور موضوعات ہیں جن پر اس عہد کے بیشتر شعرا نے نظمیں لکھیں ۔ سب سے پہلے مجازؔ پر ان کی نظم دیکھئے ۔ مجاؔز جذبی کے ہم جماعت تھے ۔ ایک عرصے تک ساتھ رہے تھے اور دوست تھے۔ دوسرے مجاز ؔ اس زمانے کے بڑے محبوب شاعر تھے اور ان کے انتقال پر بہت سے لوگوں نے نظمیں لکھیں ۔ لیکن جذبی نے مجازؔ سے اتنی قربت اور محبت کے با وجود فوراً نظم نہیں لکھی ۔ مجازؔ کا انتقال1955ء میں ہوا اور جذبی نے تین سال بعد نظم لکھی ۔ اگر وہ اسی وقت نظم لکھتے تو شاید ا س میں جذباتی شدت زیادہ ہوتی ، لیکن جذبی ؔ اپنے شدت جذبات کو مرثیہ یا نوحہ نہیں بنانا چاہتے تھے ۔ وہ اس کے احساس کی تازگی میں ڈھل جانے اور ان آنسوؤں کے گلابی رنگ میں تبدیل ہو جانے کا انتظار کرتے رہے۔ اس پوری نظم میں کہیں مجازؔ کا نام نہیں آیا ہے اور نہ مجازؔ کی موت اور ان سماجی حالات کا ذکر ہے ، جس کا مجازؔ کے انتقال کے بعد مضامین، تقاریر، اور نظموں میں بہت ذکر رہا ۔ مجازؔ پر جذبی کی نظم صحیح معنوں میں ایک نازک احساس ہے :
آج اک جادۂ پُر پیچ کا راہی گم ہے
ایک حریفِ المِ لامتناہی گم ہے
اک دہکتا ہوا شعلہ نہیں میخانے میں
اک مہکتی ہوئی سرشار نگاہی گم ہے
حسن والوں کی جبینوں کا اجالا اوجھل
عشق والوں کے نصیبوں کی سیاہی گم ہے
اس نظم کے پہلے حصے کے ہر مصرعے میں کسی چیز کے گم ہو جانے کا ذکر ہے اور اس خوبصورتی سے کہ ہر استعارہ مجازؔ کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ کھوئی ہوئی چیز کا تلاش کرنا انسانی فطرت ہے اور اگر وہ کوئی قیمتی چیزہے تو ہر اس جگہ اس کی تلاش کی جا تی ہے جہاں ملنے کا امکان ہو ۔ نظم کے دوسرے حصے میں جذبیؔ اس شاعرِ گم شدہ کو تلاش کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اس کا احسا س دلاتے ہیں کہ مجازؔ ان چیزوں میں اب بھی زندہ ہے :
جن کے سینوں میں ہے تابانیِ صد ماہ تمام
ظلمتِ دہر ذرا ایسے ہلالوں میں تو دیکھ
پوجے جاتے ہیں کہاں حسن و وفا کے اصنام
اے مرے شیخِ حرم اپنے شوالوں میں تو دیکھ
دلِ صد پارۂ مظلوم کی آہوں میں تو ڈھونڈ
شہریاروں کے غضب ناک خیالوں میں تو ڈھونڈ
ناخنِ عقل و جنوں آج بھی عاجز جن سے
ایسے عقدوں سے تو پوچھ ایسے سوالوں میں تو دیکھ
اسی طرح کی ایک نظم’ جرمِ بے گناہی‘ ہے ۔ یہ نظم بھی ایک ایسے حادثے سے متعلق ہے جس پر بہت سی نظمیں لکھی گئیں اور ان سیاسی و سماجی حالات اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف نظموں میں خوب شعلہ بیانی کی گئی ۔ یہ وہ موقع تھا جب راولپنڈی سازش کیس کے تحت سجاد ظہیر اور فیض کو سزا دی گئی ۔ اس موقع پر بھی جذبی نے پوری نظم میں صرف استعارے اور علامت سے کام لیا ہے ۔ نہ کہیں نعرۂ انقلاب ہے نہ فغاں و زاری ۔ نظم کا ہر مصرع ایک خوبصورت اشارہ اور ایک پر کشش تصویر ہے :
شمیم گل سے پریشاں ہے باغباں کا دماغ
یہی خطا ہے مگر بادِ صبح گاہی کی
اور اس شعر کا تو جواب نہیں ہے ۔ اسے جتنی دیر پڑھا جائے اس کی تہہ داری، معنویت ایک نیا لطف دیتی ہے :
نفس میں رندوں کے اتنی ہے بوئے بادۂ شوق
کہ محتسب کو نہیں فکر اب گواہی کی
اسی طرح تقسیم، فیض و سجاد کی گرفتاری پر، نیا سورج وغیرہ ایک خاص موقع یا واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی گئی نظمیں ہیں ، لیکن ان میں ہر نظم واقعہ کے بیان کے بجائے جذبے کا ایک نیا احساس اور نئی کیفیت بن کر سامنے آتی ہے اور یہی جذبی کی انفرادیت ہے ۔
جذبی ؔ کی نظم ہو یا غزل اس کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا گہرا اور لطیف تاثر ہے جو جذبے کی اوپری سطح کے بجائے اندرونی سطح میں ایسا لطیف ارتعا ش پیدا کرتا ہے جس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے ، بیان کرنا مشکل ہے ۔ اس لیے کہ وہ براہ راست کوئی بات نہیں کرتے بلکہ ان مقامات کو چھو کر گزر جاتے ہیں ، جو لطیف احساسات کو بیدار کرتے ہیں اور ایک اچھی غزل کی یہی خصوصیت بھی ہے کہ وہ اشارہ کرتی ہے ، تفصیل بیان نہیں کرتی ۔ اشارہ جتنا بلیغ ہوگا شعر میں اتنی ہی معنوی وسعت و تہہ داری ہوگی ۔ ان کی غزلوں کے یہ چند شعر ملاحظہ کیجئے :
ان بجلیوں کی چشمک۔ِ باہم تو دیکھ لیں
جن بجلیوں سے اپنا نشیمن قریب ہے

یہ دل کا داغ جو چمکے تو کیسی تاریکی
اسی گھٹا میں چلیں ہم اسی گہن میں چلیں

غمِ حیات بجا ہے مگر غمِ جاناں
غمِ حیات سے بڑھ کر نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ حرف جسے ہے منصور و دار کو نسبت
لبِ جنوں پہ مکرر نہیں تو کچھ بھی نہیں

کہیں عذابِ جفا ہے کہیں نشاطِ وفا
یہیں کہیں سے تماشائے روز گار کریں

بنتی نہیں ہے بات مگر صاحبانِ عقل
پھرتے ہیں ہم سے اہل ِ جنوں کا چلن لیے

اس افق کو کیا کہئے نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی بارہا غبار آیا

آؤ نہ دل کے داغ جلالیں کہ صبح ہو
اختر شماریِ شبِ آلام کیا کریں

کوئی تو قاتلِ نادید کا پتہ دے گا
ہم اپنا زخم زمانے کو لاؤ دکھلائیں
جذبیؔ کے یہاں جس تہذیب درد کا ذکر شروع میں کیا گیا تھا ، ان اشعار میں اس تہذیبِ درد کے تغزل اور جذبے کے احساس میں تبدیل ہونے کی کیفیت کو محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ یہ اشعار مختلف کیفیتوں کو پیش کرتے ہیں ۔ ان میں بعض اشارے زندگی کے حادثات اور حالات سے متعلق بھی ہیں ۔ لیکن جذبی نے انھیں بڑی فن کاری سے پیش کیا ہے ۔ اسی لیے وہ محدود یا یک رخے مطالب کے اشعار نہیں ہیں بلکہ اس میں معنی کی کئی سطحیں پوشیدہ ہیں ۔
یہ اشعار ارد و غزل میں اپنے عہد کی ایک نئی آواز اور نئے لب و لہجے کا پتہ دیتے ہیں۔ حالانکہ ان میں جن اصطلاحات ، علامات اور استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے ۔ وہ سب اردو غزل میں بہت عام ہیں ۔ بجلی، نشیمن، گھٹا، غمِ حیات، غمِ جاناں ، منصور و دار، اہلِ جنوں ، داغِ دل، قاتل ،زخم وغیرہ کا ذکر غزل میں بار بار ہو تا رہا ہے ۔ لیکن ان روایتی اصطلاحات اور علامتوں کو جذبی نے ایسی معنویت اور تہہ داری دی ہے کہ ان پر جتنا غور کرتے جائیں ، شعر کی تہیں کھلتی جاتی ہیں ۔ یہی جذبیؔ کا فن ہے ۔

Moen Ahsan Jazbi’s Poetry by Prof. S.R. Kidwai

Articles

دیکھو تو وہ حریف ِ شبِ تار کیا ہوئے

پروفیسرصدیق الرحمن قدوائی

گذشتہ نصف صدی کی اردو شاعری کی تاریخ پر جن لوگوں کا نقش ثبت ہو چکا ہے ، ان میں جذبیؔ صاحب کا نام نمایاں ہے ۔ میری عمر کے لوگوں کے کان جب شاعری کے آہنگ سے آشنا ہو ئے تو وہ جذبیؔ اور مجاز کا عہد تھا ۔ رسالوں اور مشاعروں نے ان کی مقبولیت کو عروج تک پہنچا دیا تھا ۔ فیض، اخترالایمان، سردار جعفری، کیفی ابھی اتنے نمایاں نہیں تھے گو کہ ان سے بھی اہلِ ذوق واقف تھے ۔ کسی عہد کو کسی شاعر کے نام سے منسوب کرنا ، بڑی ذمہ داری اپنے سر لینا ہے ۔ جس عہد میں فانی، اصغر، یگانہ، حسرت او ر جگر سے لے کر جوش ؔو فراقؔ تک موجود ہوں اسے جذبیؔ کا عہد کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ___ دراصل وہ جو ترقی پسندی کا عہد قرار پایا اس کی آمد آمد کی آہٹیں سب سے یادہ نمایاں اور با شوکت اس زمانے میں اگر پہلے پہل ملتی ہیں تو وہ جذبیؔؔ اور مجازؔ ہیں اور پھر اردو شاعری میں ترقی پسندی کے آغاز اس کے عروج اور اس کے نشیب و فراز کی ساری صفا ت بھی ان کے یہاں ملتی ہے ۔ گذشتہ نصف صدی کی اردو شاعری کی تاریخ پر جن لوگوں کا نقش ثبت ہو چکا ہے ، ان میں جذبیؔ صاحب کا نام نمایاں ہے ۔ میری عمر کے لوگوں کے کان جب شاعری کے آہنگ سے آشنا ہو ئے تو وہ جذبیؔ اور مجاز کا عہد تھا ۔ رسالوں اور مشاعروں نے ان کی مقبولیت کو عروج تک پہنچا دیا تھا ۔ فیض، اخترالایمان، سردار جعفری، کیفی ابھی اتنے نمایاں نہیں تھے گو کہ ان سے بھی اہلِ ذوق واقف تھے ۔ کسی عہد کو کسی شاعر کے نام سے منسوب کرنا ، بڑی ذمہ داری اپنے سر لینا ہے ۔ جس عہد میں فانی، اصغر، یگانہ، حسرت او ر جگر سے لے کر جوش ؔو فراقؔ تک موجود ہوں اسے جذبیؔ کا عہد کیوں کر قرار دیا جا سکتا ہے ___ دراصل وہ جو ترقی پسندی کا عہد قرار پایا اس کی آمد آمد کی آہٹیں سب سے یادہ نمایاں اور با شوکت اس زمانے میں اگر پہلے پہل ملتی ہیں تو وہ جذبیؔؔ اور مجازؔ ہیں اور پھر اردو شاعری میں ترقی پسندی کے آغاز اس کے عروج اور اس کے نشیب و فراز کی ساری صفا ت بھی ان کے یہاں ملتی ہے ۔
جذبیؔ کے شاعری کے پورے دور پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بالکل ابتدا میں یعنی 1932ء سے 1933ء تک انھوں نے روایت کے مطابق اساتذہ کے رنگ میں غزلیں کہیں ۔ ان میں ان کی کو ئی انفرادیت نہیں ملتی مگر چونکہ غزلیں نک سک سے درست تھیں اور اس اہتمام اور ان آداب کے مطابق کہی گئی تھیں جن سے کلاسیکیت عبارت ہے اور ساتھ ہی ساتھ غمِ ہجر، آرزوئے وصل،مستی مئے، معصومیِ عشق ، شوخیِ حسن کے قصے، مترنم زمینوں اور خوش آہنگ قافیوں میں ڈھل کر آتے تھے ، اس لیے بہر حال اپنا جادو جگاتے تھے ۔ اور اس بنا پر ابتدا ہی سے انھیں عام طور ے سراہا گیا ۔ شروع شروع کی ان کی غزلوں میں کوئی فکری جہت، جذباتی گہرائی وغیرہ تو نہیں پھر بھی ان میں سے ایک ایسے شخص کا مزاج جھلکتا ہے جو ٹھہر ٹھہر کر، سوچ سوچ کر محتاط آواز میں کہتا ہے ۔ وہ شہرت کی جلد بازی کا شکار نہیں بلکہ شاعری ا س کی شخصیت کا تقاضا ہے اور وہ اپنے آپ کو تلاش کرنے اور اپنی آواز کو پہچاننے کی کو شش کر رہا ہے ۔ یہ دور جذبیؔ کے یہاں خود شناسی کی خواہش کے فروغ کا دور ہے اور اس خواہش نے نہ صرف جذبیؔ سے غزل کے اچھے شعر کہلوائے بلکہ کچھ ایسے مبہم سے نقش بھی بنائے جو آگے چل کر واضح ہوتے چلے گئے ۔ مثلاً’ منزل‘ کا لفظ ان کے یہاں شرو ع ہی سے ملتا ہے اور آخر تک بار بار آتا ہے ۔ ابتدا میں خود شاعر منزل سے آشنا نہیں ۔ مگر کسی نہ کسی منزل کی چاہت ضرور رکھتا ہے ۔ یہ منزلِ بے نام وصلِ محبوب سے لے کر بہتر زندگی کے خواب تک کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ غزل میں ابہا م کی گنجائش ہر شاعر کو راس آتی ہے ۔ چنانچہ یہاں جذبیؔ بھی اس کا سہارا لیتے ہیں ۔ جس منزل کا نشان خود ان کی نظروں میں صاف نہیں ، اسے فی الحال مبہم ہی رہنا تھا ، مگر منزل کی تمنا ہے کہ پھر بھی بڑھتی جاتی ہے اور ناکامی و نا مرادی کا اندیشہ بھی دامن پکڑے ہوئے ہے کہ اس منزلِ موہوم کا سفر بھی شروع ہو چکا ہے :
مزے ناکامیوں کے اس سے پوچھو
جسے کہتے ہیں سب گم کردہ منزل
مگر اس دور میں بھی آثارِ منزل دھندلے ہی سے سہی ، کبھی کبھی نظر ضرور آتے ہیں :
دلِ ناکام تھک کے بیٹھ گیا
جب نظر آئی منزل مقصود
تھی حقیقت میں وہی منزل مقصود جذبیؔؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا
چنانچہ منزل کی دھن میں سفر جا ری ہے ۔ وہ اس جستجو کی راہ میں بیگانہ و بے زار کبھی نہیں ہوئے ۔ شاید یہی وجہ ہے ان کی سرشت کو بعد کے دور میں ترقی پسندی کی رجائیت راس آتی ہے :
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
گرا پڑتا ہوں کیوں ہر ہر قدم پر
الٰہی آگئی کیا پاس منزل
’ منزل‘ ہی کی طرح درد و غم اور اس کے تلازمات ان کے ہاں شروع سے آخر تک ملتے ہیں :
دنیا لرز گئی دلِ ایذا پسند کی
نا آشنائے درد جو درد آشنا ہوا
ساقیا شیشوں میں تیرے ہے نہ پیمانوں میں ہے
وہ خمارِ تشنگی جو دل کے ارمانوں میں ہے
اپنی ہستی کی حقیقت کیا میں دنیا پھونک دوں
کا ش مل جائے وہ سوزِغم جو پروانوں میں ہے
کیا کیا تم نے کہ دردِ دل کا درماں کر دیا
میری خود داری کا شیرازہ پریشاں کردیا
یہاں غم محض غم نہیں بلکہ ایک ’’ قدر‘‘ بن گیا ہے جس سے شاعرایک لگاؤ محسوس کرتا ہے ۔ پروانوں کا سا سوزِ غم پانے کی تمنّا ، دردِ دل کے درماں سے خوداری کا شیرازہ پریشاں ہونا ۔ شراب سے زیادہ خمار ِ تشنگی جو دل کے ارمانوں کی بدولت ہے ۔ یہ وہ غم نہیں ہو سکتا جس سے کوئی جان چھڑانے کی کوشش کرے بلکہ ایک حرکی جذبہ ہے جوشاعر کو اپنی ہستی کی محرومیوں سے بہت آگے لے جاتا ہے ۔ غم کے اس عنصر کو بھی آگے چل کر ترقی پسندی نے جلا بخشی اور اسے ایک جہت ملی ۔ مگر اس سے پہلے کے اشعار جذبیؔ کے تخلیقی سفر کے تسلسل کی نشان دہی کرتے ہیں :
مختصر یہ ہے کہ ہمدم ہم نے فرطِ شوق میں
اپنی ہستی کو بھی وقفِ دردِ پنہاں کردیا
عیش سے کیوں خو ش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کئے
زندگی کیا جانے کیا تھی اور کیا سمجھا کئے
مگر اس دور میں ان کے یہاں ایسے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں عشق کی سرمستیاں بھی ہیں اور ایک گہری سوچ میں کھڑے ہو ئے مگر سر گرم ذہن کی کار فرمائیاں بھی ۔ یہی کیفیت یہاں آرزو اور تمنا جیسے الفاظ میں ڈھل کر آتی ہے :
اس طرح ہو گئی ہے تکمیل جستجو کی
ہر سمت دیکھتا ہوں تصویر آرزو کی
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
غرض کہ جذبیؔ کے اس مشق سخن کے دور نے انھیں خود ان کی آواز سے آشنا کیا اور انھیں ایسے الفاظ و تلازمات دیئے جس سے ان کے اظہار کو ایک جہت ملی اور ان کے لہجے کا گداز و ترنم لفظوں کی خوش آہنگی بڑھتے بڑھتے ان کی پہچان بن گئی اور جذبیؔ کا نام اس عہد کی غز ل سے منسوب ہوتا چلا گیا ۔
1934ء کے آس پاس جذبیؔ نظم کی طر ف آئے ان کی شروع کی نظموں کی رومانی فضا اس عہد کے دوسرے نو جوان شعرا کی طرح زمانے اور ذہن کی تبدیلی کا پتہ دیتی ہے ۔ یہی تبدیلی ان سب لوگوں کے یہاں نظر آتی ہے ، جو ترقی پسند تحریک کی طرف مائل ہوئے ۔ ایک بہتر زندگی کے خواب انھیں سر مست و سرشار رکھتے ہیں ۔ مگر گرد و پیش کی حقیقتیں ان کے احساس کو گھائل بھی کرتی رہتی ہیں ۔ اب جذبیؔ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ :
رنگ صہبا اور ہے صہبا کی مستی اور ہے
ذکرِ پستی اور ہے احساسِ پستی ہے
خوابِ ہستی اور ہے تعبیر ہستی اور ہے
بھول جا اے دوست وہ رنگیں زمانے بھول جا
ان کی اس زمانے کی مشہور نظم ہے ’’ فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘‘ جس سے پتہ چلتا ہے کہ اب ترقی پسند تحریک نے ان کی وہ منزل بھی متعین کر دی ہے ، جس کی تلاش انھیں پریشان رکھتی تھی اور وہ غم جو پہلے مبہم سا تھا جسے نا کامیِ عشق یا ہجر یار اور سوزِ پروانہ سے دنیا کو پھونک دینے کی تمنا نے اور نہ جانے کن کن باتوں نے جنم دیا ہو گااسے اب ترقی پسندی کا نظریہ اپنی سمت لے چلتاہے ۔ ان کی مذکورہ نظم کا آخری شعر ایک زمانے میں بہتوں کی زبان پر تھا ، اردو نظموں کے ان اشعار میں سے ایک ہے جو بھلائے نہیں جا سکے :
جب جیب میں پیسے بجتے ہیں جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے
اس وقت یہ ذرہ ہیرا ہے اس وقت یہ شبنم ہوتی ہے
ان کی اس زمانے کی ایک اور نظم جسے مجاز ؔ کی آوارہ کی طرح اردو نظم کے پورے خزانے میں ایک اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے اور مدتوں یاد رکھی جائے گی وہ ہے ’موت ‘ عام طور سے موت کا تصور آتے ہی بیزاری ہزار سمتوں سے دل و دماغ پر وار کرنے لگتی ہے ۔ مگر جذبیؔ کی اس نظم میں موت اپنے سارے بھیانک پن اور زندگی کے سارے سلسلوں کے انقطاع کے ساتھ ظہور کرنے کے باوجود زندگی سے چشمک کرتی ہے اور ہار ہار جاتی ہے۔ موت کے تصور کے ساتھ جذبیؔ کے احساس کا یہ کھیل بڑا دلکش ہے ۔ موت ٹلنے والی نہیں ۔ وہ زندگی کا راستہ روکے کھڑی ہے ۔ مگر زندگی اپنی ساری تلخیوں اور غموں کے ساتھ ا س کا سامنا کرتی ہے ۔ وہ اپنے غم خانے میں دھوم مچانے، ایک اور جامِ مئے تلخ چڑھانے ، خود کو سنبھالنے ، آنکھ مل لینے اور ہوش میں آنے پر جب اصرار کرتی ہے تو زندگی کی خوش گواریاں ایک توانائی کے ساتھ ’موت‘ کے سامنے آتی ہیں :
وہ مر ا سحر،  وہ اعجاز، کہاںہے ۔لانا
میری کھوئی ہوئی آواز کہاں ہے لانا
وہ  مرا ٹوٹا ہوا ۔ساز کہاں ۔ہے۔ لانا
اک ذرا گیت بھی اس سا ز پہ گا لوں تو چلوں
’’ کھوئی ہوئی آواز‘‘ اور ’’ ٹوٹا ہوا ساز‘‘ اپنے جلو میں ایک دنیا لیے ہوئے ہے جو خواہ کتنی خراب و خستہ کیوں نہ ہو ، بے معنی و بے کار نہیں ۔ پھر اس بے مثال نظم کے یہ بند :
میں تھکا ہارا  تھا اتنے  میں جوآئے بادل
کسی متوالے نے چپکے سے بڑھا دی بوتل
اف وہ رنگین ۔پر اسرار  خیالوں  کے محل
ایسے  دو چار محل اور بنا لوں  تو چلوں
میری آنکھوں میں ابھی تک ہے  محبت کا غرور
میرے ہونٹوں پہ ابھی تک ہے صداقت کا غرور
میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے  شرافت کا غرور
ایسے وہموںسے ذرا خود کو نکالوں تو چلوں
رنگین و پر اسرا رخیالوں کے محل کچھ تو بن چکے اور کچھ ابھی بنانے ہیں ۔ محبت کا، صداقت کا اور شرافت کا غرور ابھی تک ختم نہیں ہوا بلکہ ایسے نہ جانے کتنے وہم ہیں جن سے ابھی نکلنا ہے ۔ ابھی دامن جھٹک کر الگ ہونے کی گھڑی نہیں آئی کہ موت آکر کھڑی ہو گئی ۔ یہ نظم جذبیؔ کے کمال فن کی سب سے اچھی مثال ہے ۔ جب بھی پڑھی جائے ، ایک نیا اور بالکل الگ تاثر چھوڑتی ہے ، جو ایک اعلیٰ تخلیق کی صفت ہوتی ہے ۔ وہ زمانہ جو اردو شاعری میں بلند آہنگ، چیختی چنگھاڑتی نظموں کا ہے ، پس جذبیؔ کے آس پاس سے ہو کر گزر جاتا ہے ۔ ان کی سانس زیادہ پھولتی ہوئی نہیں ملتی اور وہ نظمیں بھی جو خالص نجی تجربات و تاثرات کی بنا پر کہی گئی ہیں ، جذبیؔ کی شخصیت کو پورے وقار اور خلوص کے ساتھ جلو ہ گر کرتی ہیں ۔ مجاز ؔ’ جرم بے گناہی ‘ ، آل احمد سرور کے نام ، میرا ما حول، فیض اور سجاد ظہیر کی سزا کے فیصلے کو سن کرلکھی گئی نظمیں نظر انداز نہیں کی جا سکتیں ۔ ان نظموں کے بعض حصے دہرائے جانے کے لائق ہیں :
راہ ادب کے مسافر کا ہم سفر ہو کون
بجز خلوص و صداقت بجز جنون و وفا
بجز سلاسل و زنداں بجز عذاب و سزا
یہ راہِ غم مرے مخدوم سے کوئی پوچھے
یہ فیضؔ کے لبِ معصوم سے کوئی پوچھے    ( آل احمد سرور کے نام )
یا  زمانہ سازی کے انداز سیکھ لو جذبیؔؔ
یہاں خلوص گدازِ ہنر کی قیمت کیا ( میرا ماحول)
اور پھر مجاز ؔ سے متعلق نظم جو اس شعر سے شرو ع ہو کر :
آج اک جادۂ پر پیچ کا راہی گُم ہے
اک  حریفِ المِ لا متناہی۔ گُم ہے
یہاں ختم ہوئی ہے :
اے شبِ تیر ہ و تاریک کے مارے جذبیؔؔ
صبح نا پید کے  موہوم اجالوں میں تو دیکھ
یہ اپنے ہم عصر اور دوست کی مو ت پر مخلصانہ خراج عقیدت ہی نہیں ، اردو کی ان بہت اچھی نظموں میں ہے جو ایسے موقعوں پر کہی گئی ہیں ، مجازؔ سے جذبیؔ کے تعلق کو سب ہی جانتے ہیں ۔ ایسے میں غم کی اضطراری کیفیات کا حاوی ہونا کو ئی غیر معمولی با ت نہ ہوئی ۔ مگر یہاں جذبیؔ کی تخلیقی شخصیت تجربے کی الم ناکی کو جس طرح تحلیل کرنے کے بعد ان کے مزاج سے ہم آہنگ ہو کر فن پارے کو ظہور میں لاتی ہے  اسے اپنے تخلیقی عمل کے بارے میں جذبیؔ کے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہے کہ:
’’ تجربہ تخلیق کی منزل تک پہنچنے کے لیے صرف تحلیل و تجزیے کے مراحل سے نہیں گزرتا بلکہ شاعر کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہوتا ہے ۔‘‘( پیش گفتار : انور صدیقی ’ گذار شب‘)
ایک مدت تک جذبیؔ غزل سے زیادہ نظم کے ہی شاعر رہے اور اس زمانے میں وہ اپنی نظموں کی وجہ سے ہی مقبول رہے ۔ سچ پوچھئے تو اس دور کی غزلوں میں بھی فنی اعتبار سے نظم کا انداز حاوی ہے اور بعض غزلوں کو تو نظم ہی سمجھنا پڑتا ہے ۔ مثلاً وہ غزل جس کا مطلع ہے :
ابھی زمین حسیں ہے نہ آسمان حسیں
ابھی بنی ہی کہاں ہے مری بہشتِ بریں
اور دوسرا شعر:
ابھی ہے ذوق جنوں اپنا مصلحت آگیں
ادھر بھی ایک نظر اے نگارِ خطۂ چیں
یہ نظمیں ترقی پسند ادبی نقطۂ نظر کی منھ بولتی مثالیں ہیں ۔ یہ جذبیؔ کے فن کے ارتقا کی ایک اہم منزل ہے۔ اب نظم کی تکنیک ان کو بہت راس آتی ہے ۔ کیونکہ اب احساس ، نقطۂ نظر اوررویہ سب چند موضوعات پر مرتکز ہو جاتے ہیں ۔ جن سے و ہ کچھ عرصے تک تجاو ز نہیں کر سکے ۔’’ جاگ اے نسیم‘خندۂ گلشن قریب ہے ‘‘ ’’ چلو تلا شِ گل و لالہ وسمن کو چلیں ‘‘ اور ان کے علاوہ بھی کئی غزلیں ہیں جو اس عہد کی یاد گار ہیں ۔ بعد کے دور میں لفظ کے مقابلے میں لہجہ زیادہ قابل غور ہے ۔ دیوانگی، شوق، تیشہ،سنگ ِ گراں، ریگِ بیاباں ، سموم، نسیمِ چمن غزل کے مانوس استعارے ہیں ۔ جن کے ذریعے جذبیؔ اپنی سیاسی و سماجی فکر کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہاں معانی کا نیا پن اگر ہے تو صرف لہجے کے سبب ۔ سموم کا نسیم سے ہار ماننا اور معرکہ ہا ئے چمن لہجے کے ذریعے جس خیال کو پیش کیا گیا ہے وہ ترقی پسندوں سے پہلے نہیں تھا ۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کے بعد خصوصاً 1951-52ء کے قریب ترقی پسند شعرا غزل پر زیادہ سے زیادہ بھروسہ کرنے لگتے ہیں ۔ اشتراکی سیاست اور اندرونی نظریاتی اختلافات اور ہندو پاک کے حالات کچھ ایسا رخ اختیار کرتے ہیں کہ پہلے کی طرح سوالات اور ان کے جوابات واضح نہیں رہ جاتے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فضا دھندلی دھندلی نظر آنے لگتی ہے ۔ شاعری میں اس کے اظہار کے لیے غزل کا ابہام کام آتاہے ۔ اب نجی غم جو پہلے قربان کر دیا گیا تھا ، کبھی کبھی ابھرنے لگتا ہے ۔ سیاست اور سماج کے پیدا کیے ہوئے حالات کا غم بھی نجی غم بن کر نئے گل کھلاتا ہے ۔ غز ل اس عہد انتشار میں ترقی پسندوں کی سب سے زیادہ محفوظ اور سائے دار پناہ گاہ بن جاتی ہے ۔ اب عقیدوں کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنے کے باوجود آس نراس بہ یک وقت نظر آتے ہیں ۔ غم اب پہلے سے زیادہ جانکاہ ہے کیونکہ آزادی اور جد و جہد کے امکانات سے متعلق سارے مفروضات برہم ہونے لگتے ہیں ۔ اس زمانے میں فنی اعتبار سے جذبیؔ نے بہت اچھی غزلیں کہیں ۔ ان میں پہلے سے زیادہ پختگی ہے ۔ سوچتے ہوئے ذہن کا محتاط رد عمل اور ماضی کا احتساب ہے ۔ اہلِ کارواں سے گلے شکوے ہیں ۔ خواب سحر اور روشنی کی تمنامیں تاریکیوں سے ہر لمحے بر سر پیکار رہنے کے بجائے طرح طرح کے سوالات ہیں :
بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں
افسردگیِ ضبطِ الم آج بھی سہی
لیکن نشاطِ ضبطِ مسرت کہاں سے لائیں
ہر لحظہ تازہ تازہ بلاؤں کا سامنا
نا آزمودہ کار کی جرأت کہاں سے لائیں
سب کچھ نصیب ہو بھی تو اے شورشِ حیات
تجھ سے نظر چرانے کی عادت کہاں سے لائیں

کوچۂ یار میں اب جانے گذر ہو کہ نہ ہو
وہی وحشت وہی سودا وہی سر ہو کہ نہ ہو
ہجر کی رات تھی امکانِ سحر سے روشن
جانے اب اس میں وہ امکان ِ سحر ہو کہ نہ ہو
اب غزل میں نظم اورمسلسل غزل کا انداز نہیں بلکہ اشعار میں غزل کی روایت کے مطابق تنوع ہے ۔ لہجہ بہت سنبھلا ہوا مگر اس پورے گداز کے ساتھ جس میں المیے کا حزن حاوی نہیں بلکہ وہ ایک غرور و تمکنت سے ہم کنار ہے :
دانائے  غم نہ۔ محرمِ  رازِ حیات ہم
دھڑ کا رہے ہیں پھر بھی دلِ کائنات ہم
بیمِ خزاں  سے کس کو  مفر۔ تھا  مگر نسیم
کرتے رہے گلوں سے نکھرنے کی بات ہم
ڈھونڈا کئے ہیں راہِ ہوس رہروانِ شوق
دیکھا  کئے ہیں ۔لغزشِ پائے ثبات ہم
’’ منزل‘‘ جو ایسا لگتا تھا کہ مل گئی ہے ۔ اب جلوۂ محبوب کی طرح تڑپاتی ہے، ترساتی ہے۔مگر اس طرف جانے والی راہیں مو ہوم ہیں :
ہم گمرہانِ شوق کا عالم نہ پوچھئے
منزل سے دور بھی سرِ منزل رہے ہیں ہم
کیسے بتائیں کون سی منزل نظر میں ہے
آوارگانِ جادۂ بے نام کیا کریں
اور اب جذبیؔ کے اشعار میں کہاں، کیوں، کیسے، کدھر جیسے الفاظ زیادہ آنے لگتے ہیں ۔ سوالات کی ہر طر ف سے بوچھار ہے ۔ سیاست، انقلاب، آزادی کا حشر جوبھی ہوا ہو ، شاعر کی زبان گنگ نہیں ہو تی:
گستاخیِ نگاہِ تمنا کدھر گئی
تعزیر درد کے وہ سزا وار کیا ہوئے

ڈھونڈو تو کچھ ستارے ابھی ہوں گے عرش پر
دیکھو تو وہ حریفِ شبِ تار کیا ہو ئے

کوئی تو قاتلِ نا دیدہ کا پتہ دے گا
ہم اپنے زخم زمانے کو لا ؤ دکھلائیں

اداسیوں کے سوا دل کی زندگی کیا ہے
کسے بتائیں کہ خوابوں کی بر ہمی کیا ہے

خاموش ہیں کیوں نالہ کشانِ شبِ ہجراں یہ تیرہ شبی آج بھی کچھ کم تو نہیں ہے
جذبیؔ ؔ کا کلام مقدار کے اعتبار سے تو کم ہے مگر معیار کے اعتبار سے کم نہیں ۔ اس پر ان کے عہد اور ان کی شخصیت کی مہریں بہت صاف نظر آتی ہیں ۔ ان کا یہ کہنا مبالغہ نہیں :
گلشن میں جوشِ گل تو بگولے ہیں دشت میں
اہلِ جنوں جہاں بھی رہے آن سے رہے

Rahnuma E Nizamat o Khitabat

Articles

رہنمائے نظامت و خطابت

نعمت اللہ حمیدی بستوی / ممتاز احمد بستوی