Anjuman E Islam

Articles

انجمن اسلام بین المدارس مقابلے برائے اساتذہ

ادارہ

انجمن اسلام بین المدارس مقابلے برائے اساتذہ

انجمن اسلام انتظامیہ کے زیرِ سرپرستی پری پرائمری، پرائمری، سکنڈری اسکولوں اور جونیئر کالجوں کے اساتذہ میں تخلیقی و تدریسی صلاحیتوں اور خود اعتمادی کے فروغ کے لیے انجمن اسلام بین المدارس مقابلے برائے اساتذہ منعقد کیے گئے۔ یہ مقابلے انجمن اسلام اور بدر الدین طیب جی سیکنڈری اسکول کے احاطے میں بیک وقت منعقد کیے گئے۔ اردو، انگریزی، مراٹھی اور ہندی زبانوں میں خوش خطی و مضمون نویسی کے علاوہ مباحثہ، تدریسی لوازمات اور الفاظ کی تشکیل کے مقابلے ہوئے۔ ان مقابلوں میں سیکنڈری اسکولوں اور جونیئر کالجوں کے تقریباً تین سو جبکہ پری پرائمری اور پرائمری کے تقریباً دو سو اساتذہ نے حصہ لیا۔انجمن اسلام گرلز بورڈ کی چیئرپرسن بیگم ریحانہ احمد، نائب صدر محمد حسین پٹیل اور سی ای او شبیہہ احمد نے مقابلوں کا مشاہدہ کیااور اساتذہ کی حوصلہ افزائی کی۔
بعد ازاں کریمی لائبریری میں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد کی گئی۔ اس تقریب کی صدارت ، انجمن اسلام کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی نے فرمائی جبکہ انجمن اسلام کے نائب صدر ڈاکٹر شیخ عبد اللہ، سیکریٹری معین الحق چودھری، بوائز بورڈ کے چیئر مین اظہار قاضی اور کلچرل بورڈ کے چیئر مین اختر رنگون والا بھی اس تقریب میں موجود تھے۔
ڈاکٹر ظہیر قاضی نے اپنے صدارتی خطبہ میں اساتذہ کی کاوشوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ ان مقابلوں کا مقصد اپنے اساتذہ کو تدریس کی نئی جہتوں کی طرف راغب کے کرنے علاوہ انھیں اس لائق بنانا بھی ہے کہ وہ قومی سطح کے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ کے حقدار بن سکیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ نئے زمانے کے لحاظ سے تدریس لازمی ہے ۔ہمارے انداز فکر میں تبدیلی نہ آئی تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
اسی تقریب میں اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن واشی کے ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر قمر سلیم کی تصنیف Nurturing Learner Autonomyکا اجرا صدر انجمن کے ہاتھوں عمل میں آیا۔ ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن سلمیٰ لوکھنڈ والانے تعارف پیش کیا اور ہیڈ مسٹریس شرمین سیّد نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ خدیجہ شیخ، پرنسپل شبیہ زویری اور جملہ اسٹاف نے تمام انتظامات بحسن خوبی انجام دیئے۔

Feminism in Urdu Literature

Articles

ادب کی ثروت مندی میں خواتین کی خدمات کا اعتراف ناگزیر ہے

اردو ادب میں خواتین کا حصہ

 

ادب کی ثروت مندی میں خواتین کی خدمات کا اعتراف ناگزیر ہے: پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی

ممبئی،۲۱؍ستمبر: شعبۂ اردو ،ممبئی یونیورسٹی اور مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی کے باہمی اشتراک سے ’اردو ادب میں خواتین کا حصہ‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک روزہ قومی سمینار میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے اردو کی معروف اسکالر اور شاعرہ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے کہا کہ اردو ادب کو وقیع اور ثروت مند بنانے میں خواتین کی خدمات دو صورتوں میں نظر آتی ہیں ایک تو یہ کہ بحیثیت تخلیق کار انھوں نے نظم و نثر کے مختلف اصناف کو نئی تخلیقی جہتوں سے روشناس کیا اور دوسرے یہ کہ شعر و ادب میں ان کے مسائل و معاملات کو موضوع بنا کر ایسے ادب پارے تخلیق کیے گیے جن میں خواتین کی خانگی نیز سماجی زندگی کا عکس تہذیبی روایت، معاشی مسائل اور جذباتی تصادم کے آئینہ میں نظر آتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تخلیقیت کو کسی صنفی دائرے میں محدود نہیں کیا جا سکتا یہی سبب ہے کہ عہد قدیم سے ہی اردو ادب میں شاعرات اور نثر نگار خواتین کی روایت نظر آتی ہے جنھوں نے اپنے معاصر حالات کے تناظر میں طبقۂ نسواں سے وابستہ مسائل کی ترجمانی کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بیسویں صدی میں اس کی لے کچھ زیادہ تیز رہی ہے جس میں کچھ تو ترقی پسند تحریک کے اثرات شامل رہے اور کچھ سماجی و معاشی سطح پر حقوق نسواں کے لیے چلائی جانے والی عالمگیرتحریکوں کا اثر بھی رہا۔پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے کہا کہ عورت کے بغیر ادب کی تخلیق کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتااور اس اعتبار سے خواتین کی خدمات کے اعتراف کے طور پر شعبہ ٔ اردو ،ممبئی یونیورسٹی کی جانب سے قومی سمینار کا انعقاد ایک بہترین اور کار آمد ادبی پہل ہے۔تھیئٹر اور فلموں کی دنیا کی معروف و ممتاز شخصیت نادرہ ظہیر ببر نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ یہ زمانہ سماج میں حقوق نسواں کے تحفظ اور سماجی و تہذیبی سطح پر ان کی خدمات کے اعتراف کا زمانہ ہے اور یہ سمینار اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ا نھوں نے کہا کہ گر چہ عالمی سطح پرعورت آج بھی بعض ان مسائل کا شکا ر ہے جو ان کے شخصیت کے ارتقا کے لیے مضر ہیں لیکن اس صنف نازک کے اندر اتنی جرات بہر حال پیدا ہو گئی ہے کہ وہ حق و صداقت کی حمایت اور اپنے مسائل کے تصفیہ کے لیے مردوں کے شانہ بہ شانہ چل رہی ہے۔نادرہ ببر نے کہا کہ خواتین کو یہ حوصلہ عطا کرنے میں ان ادبی تخلیقات کا اہم رول ہے جن میں ان کے مسائل کی ترجمانی کی گئی ہے ۔نادرہ ببر نے کہا کہ اس مرد اساس معاشرہ میں بیجا ظلم و جور کے خلاف احتجاج اور بغاوت کا جذبہ پیدا کرنے میں اردو کی خواتین قلمکاروں کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔انھوں نے اپنے والدین سجاد ظہیر اور رضیہ سجاد ظہیر سے وابستہ یادوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ سماج میں مساوات اور اتحاد کا مقصد اس مشن میں عورت کی شمولیت کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا اور مجھے امید ہے کہ سمینار کے مختلف اجلاس میں مقالے پڑھے جائیں گے ان میں ان نکات پر بھی گفتگو ہو گی۔
افتتاحی اجلاس کا آغاز پروفیسر صاحب علی کے استقبالیہ کلمات کے ساتھ ہوا۔انھوں نے اس قومی سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرز کے پروگرام تحقیق و تنقید میں نئے مباحث قایم کرنے میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔انھوں نے انیسویں صدی سے لے کر عصر حاضر تک خواتین قلمکاروں کامختصر مگر معلوماتی تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاعری، فکشن، نان فکشن، تحقیق و تنقید کے شعبوں میں خواتین قلمکاروں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیںاور ان خدمات کی پذیرائی بھی ہوتی رہی ہے تاہم بعض خواتین قلمکاروں کی کاوشیں پردۂ خفا میں ہیں جن کو سامنے لانا ایک اہم ادبی کام ہوگا۔پروفیسر صاحب علی نے زیب النسا، مہ لقا بائی چندا،نذر سجاد حیدر،رشیدۃالنسا، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، صفیہ اختر، صالحہ عابد حسین،ممتاز شیریں، پروفیسر سیدہ جعفر، زاہدہ زیدی، پروین شاکر، رفیعہ شبنم عابدی، زاہدہ حنا، کشور ناہید ، ترنم ریاض اور دیگر کئی خواتین قلمکاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا اردو کا تخلیقی اور غیر تخلیقی ادبی سرمایہ خواتین کی خدمات کے اعتراف کے بغیر ناقص ٹھہرتا ہے۔انھوں نے شہر اور بیرون شہر سے تشریف لانے والی خواتین مقالہ نگاروں، معزز مہمانان اور سامعین کا شکریہ اد ا کرتے ہوئے کہا کہ اس سمینار کی کامیابی کا تصور ان تمام کی شراکت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔اعظم کیمپس پونہ کے روح رواں اور مسلمانوں  کی تعلیمی اور تہذیبی بہبودی کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والے منور پیر بھائی نے بھی اس اجلاس میں اپنے خیالات کااظہار کیا اور کہا کہ دنیا کی ہر بڑی زبان کے ادب میں خواتین کی خدمات کے نقوش ونشان نظر آتے ہیں اور اردو ادب بھی اس سے الگ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ممبئی یونیورسٹی کا شعبہ ٔ اردو اپنی علمی و ادبی فعالیت کے لیے بین الاقوامی شناخت حاصل کر چکا ہے اور اس کے لیے پروفیسر صاحب علی اور ان کے رفقائے کار مبارک باد کے مستحق ہیں۔
افتتاحی اجلاس کے بعد پر تکلف ظہرانہ کا اہتمام کیا گیا جس کے بعد مقالہ خوانی کے تین اجلاس ہوئے جن کی صدارت بالترتیب پروفیسر رفعت النسا بیگم (میسور)، ڈاکٹر افسر فاروقی اور ڈاکٹر مسرت صاحب علی ( ممبئی) نے کی ۔ ان اجلاس میں محترمہ ڈاکٹرممتاز منور پیر بھائی(پونہ)، ڈاکٹر صادقہ نواب سحر (کھپولی)،ڈاکٹر شرف النہار ( اورنگ آباد)،ڈاکٹر ناظمہ انصاری ( احمد آباد) ڈاکٹر انیسہ چوراڈ والا(پونہ)،سمیہ باغبان(سولا پور) محترمہ رونق رئیس( بھیونڈی) اور ممبئی سے ڈاکٹر شاداب سید(رضوی کالج) ، ڈاکٹر سکینہ خان( صدر شعبہ ٔ فارسی ، ممبئی یونیورسٹی)نے سیمنار کے مرکزی موضوع کے حوالے سے اردو ادب میں خواتین کی خدمات پر مختلف عنوانات کے تحت مقالے پیش کیے۔اس سمینارکو کامیاب بنانے میں مہاراشٹر اردو اکیڈمی کے اراکین فرید خان، فاروق سید، رفیق شیخ ،قمر النسا سعیدنےمخلصانہ تعاون پیش کیا۔ شہر کی مقتدر ادبی شخصیات ڈاکٹر ریحانہ احمد، فیروزہ بانو، اسلم پرویز، شاہد ندیم، فیروز اشرف،ڈاکٹر جمشید احمد ندوی (صدر شعبۂ عربی، ممبئی یونیورسٹی)جناب عبید اعظم اعظمی، جناب اظفر خان، ریاض رحیم ،ڈاکٹر ذاکر خان کے علاوہ شعبہ ٔ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر عبداللہ امیتاز، ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر مزمل سرکھوت، ڈاکٹر رشید اشرف خان اور شعبہ ٔ اردو کے طلبا نے کثیر تعداد میں شرکت کر سمینار کو کامیاب بنایا۔

Nayyar Masood Aur Zafar Gorakhpuri

Articles

نیّر مسعود اور ظفر گورکھپوری کے لئے تعزیتی نشست

ممبرا(پریس ریلیز) پندرہ اگست کی شب نو بجے ممبرا میں یونیک ایجوکیشن سوسائٹی کے زیر اہتمام اور اردو لٹریری فورم کی جانب سے اسد اللہ خان انگلش ہائی اسکول و جونئیر کالج کے نعمان امام آڈیو ٹوریم میں معروف افسانہ نگار نیّر مسعود اور مشہور شاعر ظفر گورکھپوری کے لئے تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس کی صدارت سینئر صحافی عالِم نقوی نے کی۔ نشست کا افتتاح شعیب ندوی کے تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ صدر تقریب اور تجربہ کار صحافی عالِم نقوی نے اپنے مضمون سچی کہانی سنانے والا نیّر مسعود میں کہا کہ نیر مسعود کہانی سننے اور سنانے کی اس روایت کے امین تھے جو  بقول گوپی چند نارنگ’’  ہماری  تہذیبی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔

انہوں نے فیاض رفعت کے مضمون کے کچھ حصے کو اپنے مضمون میں شامل  کرتے ہوئے لکھا کہ نیر مسعود کے افسانے اپنے جمالیاتی انبساط اور تہذیبی ہمہ گیری کے لیے تا دیر یاد رکھے جائیں گے کہ اُن کا رشتہ ہمارے تہذیبی وجدان کی اعلیٰ سطحوں سے ہم آہنگ اور اُستُوار ہے ۔انکے افسانوں کا مرکزی استعارہ ’’فنا‘‘ ہے کہ فنا ہی اصل حیات کی جستجو اور تلاش کے جذبے سے معمور ہے ۔اسی طرح ’نوری اور ناری‘ کی کشمکش بھی زیریں لہر کی طرح ان کے افسانوں میں ہنگامے کی صورت پیدا کرتی رہتی ہے۔ان کے افسانے پڑھ کر تزکیہ نفس کا احساس ہوتا ہے اور ہمارے بطون میں حزن و ملال کی چادر سی پھیل جاتی ہے ۔قول محال کے بر وقت استعمال سے وہ اپنے افسانوں کو معنی کی ایک سے زائد جہت عطا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ۔الف لیلیٰ کے وقتوں کی طرح ایک کہانی میں کئی ذیلی قصوں کی موجودگی انہیں دیگر ہم عصر افسانہ نگاروں سے ممیز ثابت کرتی،  اور ممتاز بناتی ہے۔ نیو کلائی سائنس داں اور بیشتر کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سلیم خان نے نیّر مسعود اور ظفرگورکھپوری پر لکھے اپنے مضمون آسماں دیکھ قضا کن کو لئے جاتی ہے میں کہا کہ دونوں صاحبان کی شخصیات اور فن میں بہت کچھ مشترک تھا اس کی ایک وجہ ان کا مشترک زمانہ ہے۔وہ دونوں یکساں تبدیلیوں کے شاہد تھے جو ان کے ادب اور شخصیت پر اثرانداز ہورہی تھیں. انہوں نے کہا کہ عام فنکار  ہوا کے رخ پر بہنے میں عافیت محسوس کرتا ہے مگر کچھ خاص لوگ پیش آمدہ انقلاب کو بھانپ کر اپنے آپ کو اس سے ہم آہنگ کرلیتے ہیں ۔  ہوا کے ساتھ چلنے والوں کو انقلابِ زمانہ جیتے جی بھلا دیتا ہے مگر مستقبل کو اپنے فن میں سمو لینے والے بعد ازممات بھی یاد کئے جاتے ہیں ۔ ظفر صاحب اور نیر صاحب انہیں لوگوں میں سے تھے اس لیے جہانِ فانی سےکوچ کر جانے کے بعد بھی  ان کا تخلیق کردہ ادب زندہ و تابندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ظفر گورکھپوری اور نیّر مسعود کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنی داخلی تڑپ کو خواہش ذات سے نکال کر کائنات میں پھیلا دیتے ہیں اور ایک نیا ادبی رجحان عالم وجود میں آ جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ  گورکھپوری اور نیر مسعود دونوں ہمہ جہت فنکار تھے ۔ ایک نے شاعری کی اور بچوں کا ادب تخلیق کیا دوسرے نے افسانے لکھے اور تحقیق کے شمع جلائی. صحافی اور مصنف ندیم صدیقی نے اپنی تقریر میں کہا کہ نیّر مسعود اپنے دور میں ہمارے افسانے کا ایک ایسا کردار تھے کہ جس کے جسد میں لکھنئوی فسوں سانس کا کام کر رہا تھا۔ ان کے افسانے نہیں بلکہ ان کی تحریروں میں لکھنؤ جیتا جاگتا محسوس ہوتا ہے۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیّر مسعود مسعود حسن رضوی ادیب کے صرف فرزند نہیں تھے بلکہ مسعود حسن ادیب کے تمام علم و ادب اور کمالات کے سچے وارث تھے اور اس پر کمال یہ بھی ہوا کہ انہوں نے اس وراثت کو جامد نہیں رکھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر نیّر مسعود اب نہیں رہے مگر وہ تو اپنی تحریر میں روح کی طرح سمائے ہوئے ہیں. اردو چینل کے مدیر قمر صدیقی نے اپنے تفصیلی مضمون جادوئی حقیقتوں کا قصہ گو میں کہا کہ نیّر مسعود نے افسانہ نگاری کے علاوہ تحقیق و تشریح کے میدان میں بھی اپنی فتوحات درج کی ہیں مگر ان کی اصل شہرت افسانہ نگاری کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی کہانیوں میں سرّیت اور تجریدیت کی فضا کے بین بین علامتوں کے سہارے حقیقت اور معنویت کی فضا بھی برقرار رہتی ہے جو افسانے کے آہنگ کو ذاتی یا مابعد الطبیعاتی ہونے سے بچاکر اس کو ایک کائناتی یا آفاقی احساس میں بدل دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیّر مسعود شاید ہمارے پہلے افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوں میں رئیلزم اور میجک ریئلزم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نیّر مسعود کے افسانے علائم اور ابہام سے مزین ہیں۔ ان کے یہاں علائم کا استعمال برجستہ ہوتا ہے۔ شاعر عرفان جعفری نے کہا کہ یہ کہنا تو بہت آسان لگتا ہے کہ موت برحق ہے اور سب کو آنی ہے مگر جن کے اپنے چلے جاتے ہیں وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔ انہوں نے کہا کہ قلمکار کا رشتہ ان کے عزیز و اقارب سے تو ہوتا ہی ہے مگر ساتھ ساتھ جو اس کی تخلیق کو پسند کرتے ہیں ایک رشتہ ان سے بھی ہوتا ہے اور جب وہ قلمکار دنیا سے کوچ کرتا ہے کسی حد تک وہ بھی مغموم ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظفر صاحب کی خصوصیت تھی کہ ساٹھ سال کی عمر میں آٹھ سال کے بچے کی نفسیات پر پہونچ کر نظم کہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ظفر صاحب میں ایک مجذوب موجود تھا اور اسی وجہ سے وہ بہترین دوہے کہہ پاتے تھے۔ انہوں نے اس ضرورت پر زور دیا کہ ہمیں اپنے بڑوں چھوٹوں سے ملتے رہنا چاہئیے۔ ظفر گورکھپوری کے صاحبزادے ایاز گورکھپوری نے کہا کہ ان کے والد ہمیشہ پر اعتماد اور با حوصلہ رہے اور آخری ایام میں بھی انہوں نے زندگی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔انہوں نے کہا کہ ان کی ہمت نو جوان نسل کے لئے ہی نہیں عمر رسیدہ افراد کے لئے بھی تمثیلی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے مگر انہوں نے ہمیشہ ہمت کا مظاہرہ کیا اور کبھی مایوس نہیں ہوئے. تقریب میں دیگر معززین کے علاوہ بزرگ شاعر جمیل مرصع پوری بھی موجود تھے۔ تقریب کی نظامت سید زاہد علی نے کی جبکہ احمد اظہار نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا.
عالم نقوی صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے

Aik Shaam Yume Azadi ke Naam

Articles

ممبئی یونیورسٹی میں یوم آزادی ِ ہند کی مناسبت سے شعری نشست

ممبئی، 14 اگست: شعبہ اردو ،ممبئی یونیورسٹی اور سرسید اکیڈمی ممبئی کے باہمی اشتراک سے ایک شعری نشست کا انعقاد یوم آزادی ہند کی مناسبت سے کیا گیا۔ اس شعری نشست کی صدارت شعبہ اردو کے صدر پروفیسر صاحب علی نے کی اور ممبئی بی جے پی کے نائب صدر شری حید ر اعظم نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی۔ پروگرام کے آغا ز میں پروفیسر صاحب علی نے کہا کہ شعبہ اردو ممبئی یونیورسٹی نے ہرسال یوم آزادی اور یوم جمہوریہ سے ایک دن قبل اس طرح کی شعری نشست کے انعقادکا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے کاآغاز آج کی اس نشست سے ہورہا ہے۔انھوں نے علمی ، ادبی اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد میں شعبہ اردوکی فعالیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ کی جانب سے مختلف علمی و ادبی موضوعات پرقومی اور بین الاقوامی سطح کے سیمینار، کانفرنس ،ورکشاپ اور مذاکرات کے انعقاد کے علاوہ ایسے ثقافتی پروگراموں کا انعقاد بھی وقتاً فوقتاً کیا جاتا رہا ہے جو ہماری تہذیبی و ثقافتی روایتوں کی تجدید میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔پروفیسر صاحب علی نے اس شعری نشست میں شرکت کرنے والے تمام شعرا اور خصوصاً حیدر اعظم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ موصوف اقلیتی طبقہ کے مسائل و مفاد کے لیے ہمہ وقت جس طرح سرگرم ہیں وہ لائق ستائش ہے اور اس پروگرام میں ان کی شرکت بھی اقلیتی طبقہ سے ان کے والہانہ لگاو کا ایک ثبوت ہے۔
اس شعری نشست کے مہمان خصوصی حیدر اعظم نے شعبہ  اردو اور پروفیسر صاحب علی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ ایسے باوقار پروگرام میں شرکت کا موقع ملا جہاں شہر کے معروف و معتبر شعرا کے کلام سے محظوظ ہونے کے ساتھ ہی شعبہ  اردو کی مختلف النوع علمی و ادبی سرگرمیوں سے بھی واقفیت حاصل ہوئی ۔انھوں نے کہا کہ اس وقت اردو زبان کے محدود ہوتے دائرے کو وسعت عطا کرنے میں اس طرح کی کاوشیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور شعرا اپنے کلام کے ذریعہ نہ صرف زبان کی مقبولیت میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ اپنے سامعین کو عصری فہم و شعور بھی فراہم کر سکتے ہیں۔ حید ر اعظم نے کہا کہ شاعروں کو نہ صرف ماضی اور حال کی بات کرنی چاہیے بلکہ انھیں مستقبل کے ان امکانات کا بھی سراغ لگانے کی کوشش کرنی چاہیے جو معاشرہ میں خوشحالی اور ترقی کا باعث بن سکے۔
اس شعری نشست کو ڈاکٹر فیضان شہپر نے اپنی دلچسپ اور متاثر کن نظامت کے ذریعہ پروقار بنایا اور جن شعرا نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ان کے اسما ہیں ، عبدالاحد ساز، عرفان جعفری، قاسم امام، حامد اقبال صدیقی،عبید اعظم اعظمی، بھاگیہ شری ورما،فیضان شہپر، قمر صدیقی، سعید اختر، ذاکر خان اور رشید اشرف خان۔ ان کے علاوہ لندن میں اردو کی تدریس سے وابستہ عقیل دانش نے بھی اشعار سنائے۔ان شعرا نے غزلوں، نظموں، قطعات اور متفرق اشعار کے ذریعہ مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کیا اور عصری حالات کے تناظر میں مختلف انشانی جذبات کا اظہار دلکش پیرایہ میں کیا۔
اس پروگرام میں محمد الیاس خان (پروپرائٹرسرفیس انفرا اسٹرکچر پرائیویٹ لمیٹیڈ )اورادبی و شعری ذوق رکھنے والی شہر کی مقتدر شخصیات اور شعبہ  اردو کے اساتذہ ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر مزمل سرکھوت اور روشنی خان کے علاوہ ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور پروگرام کو کامیاب بنایا۔

تصویر میں مائک پر پروفیسر صاحب علی بائیں سے دائیں: حیدر اعظم ، محمد الیاس خان اور فیضان شہپر

 

تعلیمی ، تہذیبی اور ادبی پروگراموں کی رپورٹ اردو چینل ڈاٹ نیٹ پر شائع کرنے کے لیے ہمیں ارسال کریں۔

admin@urduchannel.in  or urduchannel@gmail.com