Jashn E Wirst E Urdu 2018 organized by Delhi Urdu Academy

Articles

جشن وراثت اردو میں فنکاروں کا رنگا رنگ تہذیبی وثقافتی مظاہرہ

پریس ریلیز

نئی دہلی۔11؍نومبر
دہلی ہمیشہ ہی سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ یہ سلسہ اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے۔دہلی جہاں اپنی دوسری وجوہات سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ، وہیں اردو اکامی،دہلی اپنے تہذیبی وثقافتی اور علمی پروگرام کی وجہ سے پوری اردو دنیا میں معروف ہے۔ جشن وراثت اردو اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس جشن میں جہاں فنکاروں نے اپنے فن سے ناظرین و سامعین کو محظوظ کیا، وہیں نئے اور پرانے فنکاروں کو ایک ایسا اسٹیج فراہم ہوا، جہاں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔
جشن وراثت اردو کے دوسرے دن اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے سامعین و ناظرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ دہلی سرکار کی یہ کوشش ہے کہ شہر دہلی کی سماجی اور تہذیبی وراثت کا تحفظ اور فروغ ہوتا رہے ۔ اسی لیے اکادمی کی جانب سے جشن وراثت اردو کا انعقاد پچھلے کئی برسوں سے عمل میں آرہا ہے۔اس جشن میں اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے مختلف قسم کے اسٹال بھی لگائے گئے ہیں، تاکہ اردو زبان وادب کے تمام پہلوؤں کی ترجمانی ممکن ہوسکے۔
صبح دس بجے اس پروگرام کے دوسرے دن کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے اسکولی طلبا کے لیے امنگ پینٹنگ مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مقابلے کو تین زمروں(سینئر سیکنڈری، مڈل اسکول اور پرائمری زمرہ)میں منقسم کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں دہلی کے مختلف اسکولوں سے ایک سو پچاس سے زائد طلبہ و طالبات نے شر کت کی۔ جج کے فرائض سیمیں مرتضی اورشاہ فیض الحسن(فائن آرٹس، جامعہ ملیہ اسلامیہ)نے انجام دیے ۔ نتیجے کے اعلان سے پہلے جج صاحبان نے آرٹس کے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ اس مقابلے میں شریک طلبہ و طالبات کی پینٹنگ پر اطمینان کا اظہار کیا۔سینئر سیکنڈری زمرے سے کل چودہ طلبہ و طالبات کو انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ جن میں جویریہ جاوید اور ضویا عالم کو پہلا انعام دیا گیا، جبکہ زارا احمد، یسریٰ اور جیوتی کو دوسرے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ تیسرے انعام کے لیے اقصی، فوزیہ ، قاسم مہدی اور زینب کو منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ کل پانچ طلبہ و طالبات(رحمت، اریبہ، سامعہ گلزار،سیدہ سمیرہ اور نورین فیض) کو حوصلہ افزائی کا انعام دیا گیا۔ مڈل زمرے میں پہلے انعام کا مستحق مدیحہ کو قرار دیا گیا، جبکہ دوسرا انعام عاتکہ سلطانہ، چشتیہ نازاور تیسرا انعام طوبی، کومل اور شفا کو دیا گیا۔اس زمرے سے حوصلہ افزائی کا انعام مہک، بشری شمس، گل افشاں، محمد عاطف، حماد حسن اور ہبہ کو دیا گیا جب کہ اور پرائمری زمرے میں پہلا انعام انورہ ناز کو، دوسرا انعا م شاہین پروین، صاحبہ فاطمہ اور تیسرا انعام حسن خالد، محمد افنان، رمشا رضا کودیا گیا۔ حوصلہ افزائی انعام اقرا، محمد ریحان، طرفیہ علی، محمد مصیب اور ارمان ملک کو دیا گیا۔
اس انعامی مقابلے کے بعدقصہ’’قصہ بلی کی تک بندی کا‘‘ کا پروگرام منعقد کیا گیا۔ جسے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا۔ اس گروپ میں ننھے ننھے بچوں نے ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔ محفل قوالی نظامی چشتی برادرس(دہلی)نے پیش کی۔ سامعین نے اپنی فرمائش سے اس محفل کو اور بھی چار چاند لگایا۔ محفل غزل کے تحت شہاب خان نے متعدد کلاسیکل غزلیں پیش کیں۔ داستان گوئی کے تحت ونگس کلچرل سوسائٹی، دہلی نے ’’ٹوپی کی داستان ‘‘ پیش کی۔ انڈین اوپیرا فیوژن کے تحت صوفی گلوکار کابکی کھنہ نے امیر خسرو کے کلام کے ساتھ ساتھ داستان بھی پیش کیں۔ صوفی محفل میں اندرا نائک نے اپنے فن کا جوہر دکھایا۔ منور معصوم نے قوالی سے اتوارکی شام کو اور بھی پر نور بنا دیا۔ اس موقع پر ادب وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے کثیر تعداد میں موجود تھے۔
آج کے تمام پروگراموں کی نظامت کے فرائض ریشما فاروقی اور اطہر سعید نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔آخر میں شکریہ کی رسم اکادمی کے اسسٹنٹ سکریٹری مستحسن احمد نے ادا کی۔
۱۔ ۰۱؍نومبر کومعروف غزل گلوکار سریش واڈیکر غزل پیش کرتے ہوئے۔
۲۔ اسکول کے طلبا و طالبات پینٹنگ کرتے ہوئے۔
۳۔ ٹیلنٹ گروپ کے بچے قصہ گوئی کرتے ہوئے۔
۴۔ نظامی برادرس قوالی پیش کرتے ہوئے۔
۵۔ شہاب خان غزل پیش کرتے ہوئے۔
۶۔ وِنگ کلچر سوسائٹی کے ارکان ٹوپی کی داستان پیش کرتے ہوئے۔
۷۔ کابکی کھنہ انڈین اوپیرا پیش کرتے ہوئے۔
۸۔ معروف گلوکار اندرا نائک صوفیانہ کلام پیش کرتے ہوئے۔
۹۔ سامعین/ناظرین کا جم غفیر

Yaum E Iqbal par Jalgaon mein Mushaira

Articles

علامہ اقبال کی یوم پیدائش پر جلگاؤں میں مشاعرے کا انعقاد

وسیم عقیل شاہ

جلگاؤں 9 نومبر : مہاراشٹر ضلع پریشد اقلیتی ملازمین/ افسران تنظیم، شاخ جلگاؤں کے زیر اہتمام شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک شاندار مشاعرے کا انعقاد اقراء کالج آف ایجوکیشن (اقرا نگر، جلگاؤں ) کے سیمنار ہال میں کیا گیا ـ مشتاق ساحل نے تلاوت قرآن پاک سے محفل کا آغاز کیا تو حافظ شفیق رحمانی نے نذرانہ نعت نبی ( ص) پیش کر کے محفل کو پر نور کر دیا ـ صدارت ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے فرمائی جبکہ رسم شمع فروزی بدست الحاج عبدالغفار ملک انجام پائی ـ اس محفل مشاعرہ میں خطیب مارولوی، شکیل میواتی، مشتاق ساحل، مجید آتش، اخلاق نظامی، عادل حسین عادل، وقار صدیقی، انیس کیفی، انظر مصطفی آبادی، اقبال اثر، حافظ شفیق رحمانی، قاضی رفیق راہی، صابر آفاق، اظہرالدین ظاہر اور فہیم کوثر جیسے معروف شعرائے کرام نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ـ بطور مہمانان خصوصی مجید میمن، افتخار غلام رسول، ڈاکٹر انیس شیخ اور وسیم فراز شریک رہے ـ نیز اس تقریب میں شہر جلگاؤں کے بالخصوص اساتذہ کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے ادبی بیداری کا ثبوت فراہم کیا ـ پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ناظم علی شاہ، غلام دستگیر خان، ندیم مرزا، شیخ خلیل احمد اور سلیم رمضان پٹیل نے خاص تعاون پیش کیا ـ  نظامت کے فرائض سجاد حیدر نے بہ حسن و خوبی انجام دیے جبکہ رسم شکریہ ندیم مرزا نے پیش کی ـ

Drama “Allama Iqbal” ki Tareekhsaz Kamiyabi

Articles

ڈرامہ "علامہ اقبال"تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار

وسیم عقیل شاہ

۹ نومبر ، حکیم الامّت اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے یومِ پیدائش پر آئیڈیا گروپ نے شکنتلم اسٹوڈیو اندھیری میں قاضی مشتاق صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ  “علامہ اقبال”مجیب خان کی ہدایت میں کامیابی کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا۔ اس ڈرامے میں مشہور و معروف نوجوان شاعر ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے علامہ اقبال کا کردار ناظرین کے سامنے انتہائی شاندار طریقے سے پیش کیا اور عوام الناس سے داد و تحسین حاصل کی۔ڈرامہ  “علامہ اقبال”شاعرِ مشرق کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس ڈرامے میں علامہ اقبال کے بچپن سے لیکر انتقال تک کے واقعات انتہائی خوبصورتی اور ایمانداری کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ علامہ کا سفرِ انگلستان ، قیام ممبئی، انجمن کی عمارت دیکھ کر ممبئی کے مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کے تئیں متاثر ہوجانا جیسے بے شمار واقعات پر مبنی یہ ڈرامہ ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی طرح اس ڈرامے کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی کہ علامہ کے والد کا ذریعۂ روزگار کیا تھا، والدہ نے کس طرح ان کی تربیت کی، آپ کے بھائی آپ کی تعلیم کے تعلق سے کس قدر فکرمند رہا کرتے تھے، مولانا میر حسن کی تربیت نے اقبال پر کیا نقوش چھوڑے، علامہ کی ذاتی زندگی کے حالات، استاد فتنہ کی فتنہ پروری، چودھری الفت علی کی سازشیں، سر کا خطاب، مولانا میر حسن کے لیے شمس العلما کے خطاب کی سفارش، سرزمینِ حجاز پر مسلمانوں کے چندے سے شفاخانہ تعمیر کرنے کی انگریز ی حکومت کی چالیںاور علامہ اقبال کی مخالفت، نظم شکوہٰ پر عوام کی جانب سے مخالفتیں اور اس کے جواب میں اقبال کی جانب نظم جواب شکوہٰ، علامہ کا انتقال اور تعزیتی قرارداد۔ ۹ نومبر ، حکیم الامّت اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے یومِ پیدائش پر آئیڈیا گروپ نے شکنتلم اسٹوڈیو اندھیری میں قاضی مشتاق صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ  “علامہ اقبال”مجیب خان کی ہدایت میں کامیابی کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا۔ اس ڈرامے میں مشہور و معروف نوجوان شاعر ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے علامہ اقبال کا کردار ناظرین کے سامنے انتہائی شاندار طریقے سے پیش کیا اور عوام الناس سے داد و تحسین حاصل کی۔ڈرامہ  “علامہ اقبال”شاعرِ مشرق کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس ڈرامے میں علامہ اقبال کے بچپن سے لیکر انتقال تک کے واقعات انتہائی خوبصورتی اور ایمانداری کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ علامہ کا سفرِ انگلستان ، قیام ممبئی، انجمن کی عمارت دیکھ کر ممبئی کے مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کے تئیں متاثر ہوجانا جیسے بے شمار واقعات پر مبنی یہ ڈرامہ ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی طرح اس ڈرامے کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی کہ علامہ کے والد کا ذریعۂ روزگار کیا تھا، والدہ نے کس طرح ان کی تربیت کی، آپ کے بھائی آپ کی تعلیم کے تعلق سے کس قدر فکرمند رہا کرتے تھے، مولانا میر حسن کی تربیت نے اقبال پر کیا نقوش چھوڑے، علامہ کی ذاتی زندگی کے حالات، استاد فتنہ کی فتنہ پروری، چودھری الفت علی کی سازشیں، سر کا خطاب، مولانا میر حسن کے لیے شمس العلما کے خطاب کی سفارش، سرزمینِ حجاز پر مسلمانوں کے چندے سے شفاخانہ تعمیر کرنے کی انگریز ی حکومت کی چالیںاور علامہ اقبال کی مخالفت، نظم شکوہٰ پر عوام کی جانب سے مخالفتیں اور اس کے جواب میں اقبال کی جانب نظم جواب شکوہٰ، علامہ کا انتقال اور تعزیتی قرارداد۔  اس ڈرامہ میں ڈاکٹر ذاکر خان نے علامہ اقبال کی شاعری اور زندگی کے حقیقی واقعات انتہائی مہارت کے ساتھ ناظرین کے سامنے پیش کیا۔اسی طرح علامہ اقبال کے والد کا کردار، والدہ کا کردا،مولانا میرحسن، استاد فتنہ، انگریز آفیسر، چودھری الفت علی اور انعام اللہ جیسے کرداروں کو ادا کرنے والے اداکاران نے اس ڈارمے میں جان ڈال دی۔یقیناً یہ ڈرامہ علامہ اقبال کی حیات و شاعری پر مبنی ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجیب خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ آپ نے اس ڈارمے کو ایسے اداکاران کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اقبال کے مرکزی کردار کو چھوڑ کر باقی تمام اداکاران اردو سے نابلد ہیں لیکن پورے ڈرامے میں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ غیر اردو داں طبقے کے اداکاران ایک خوبصورت اردو ڈرامہ پیش کررہے ہیں۔علامہ اقبال کی یومِ پیدائش اور یومِ اردو پر علامہ اقبال کے لیے اس سے بڑا خراجِ عقیدت اور کیا ہوسکتا ہے۔ علامہ اقبال کے مرکزی کردار کو ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے نبھایا جبکہ سلوچنا کڈوانی نے علامہ کی والدہ ، محمد شارق نے والد اور ونائیک سنگھ نے علامہ کے بچپن اور استاد فتنہ کا رول ادا کیا۔ اسی طرح ساحل کمارمولانا میر حسن اور انگریز ی حکومت کے کارندے انعام اللہ کے رول میں نظر آئے، ونئے کمار نے برٹش آفیسر کا کردار ادا کیا، اسیت پاترا الفت علی جاگیردار بنے، علقمہ نے الفت علی جاگیر دار کے نوکر کا کردار ادا کیا۔ مشہور فلمی میک اپ آرٹسٹ پرشانت چوہان نے میک اپ مین کے فرائض انجام دیے۔

Bhusawal mein shaeri Nashist

Articles

*بھساول میں 'پرورش لوح و قلم' کے عنوان سے شاندار طرحی نشست کا کامیاب انعقاد

وسیم عقیل شاہ

*روایت سے انحراف کر کے معیاری شاعری کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی : احمد

بھساول 27 اکتوبر : عنیق فاؤنڈیشن بھساول اور خاندیش اردو رائٹرز فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ضلعی سطح پر ایک طرحی نشست کا انعقاد 27 اکتوبر کو بھساول کے عکاشہ فرنیچرز میں بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ کیا گیا ـ حافظ مشتاق ساحل نے تلاوت کلام پاک سے تقریب کا آغاز کیا تو رئیس فیضپوری نے نعت رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محفل کو پر نور کر دیا ـ سلیم خان فیضپوری نے تحریک صدارت پیش کی اور تالیوں کی گونج میں احمد کلیم فیضپوری کی صدارت کی تائید کی گئی ـ خاندیش اردو رائٹرز فاؤنڈیشن کے روح رواں صغیر احمد نے اس تقریب کے مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ ہذا کی جانب سے یہ چوتھا ادبی جلسہ ہے جو حسب معمول علاقہ خاندیش میں اردو زبان و ادب کی اشاعت و ترویج کے مقاصد لیے ہوئے ہے ـ صغیر احمد کے مطابق ادارہ “خاندیش اردو رائٹرز فاؤنڈیشن” کا دائرہ کار پورے خاندیش پر محیط ہے لہٰذا ادارے کی جانب سے صرف جلگاؤں، بھساول ہی نہیں بلکہ خاندیش کے مختلف علاقوں میں بھی ادبی سرگرمیاں منعقد کی جاتی رہیں گی ـ بعد ازاں اس طرحی مصرع پر کہ *’رگوں میں خون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے ‘* رئیس فیضپوری ،شکیل حسرت، ساحر نصرت، ساعد جیلانی، حفیظ مینا نگری، رحیم رضا، ڈاکٹر قاضی رفیق راہی، شکیل انجم مینا نگری، اخلاق نظامی، وقار صدیقی، حافظ مشتاق ساحل، اقبال اثر، رفیق پٹوے اور اشراق راویری جیسے شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ـ بطور مبصر ڈاکٹر غیاث عثمانی، قیوم اثر اور شکیل میواتی نے خاندیش کے موجودہ شعری منظر نامے پر گفتگو کی اور پیش کیے گئے شعراء کے کلام کے معنی و ابعاد کی نئی پرتیں سامعین کے سامنے رکھیں ـ فنی اعتبار سے بھی تینوں ہی مبصرین نے اپنے خیالات کا اظہار نہایت ہی جامع اور پر تاثر انداز میں کیا ـ اپنے خطبہ صدارت میں احمد کلیم فیضپوری نے ادبی نشستوں کے متواتر انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی اور ایسی محفلوں کو وقت کی اشد ضرورت بتاتے ہوئے اس نشست کو یادگار نشست قرار دیا ـ علاوہ ازیں موصوف نے شاعری میں روایت کی اہمیت پر خاص زور دیا ـ آپ نے مزید کہا کہ بلا شبہ خاندیش نے اردو کو بہت اچھے شاعر دیے ہیں جن کے چند اشعار آج بھی زبان زد ہیں ـ اسی حوالے سے آپ نے خاندیش کے سابقہ نمائندہ شاعر ایمان بیاولی، قمر بھساولی، سیف بھساولی اور مرزا مصطفی آبادی کو خصوصیت سے یاد کیا ـ اس تقریب میں عبدالرشید قاسمی،مشتاق کریمی، حنیف خان اسماعیل عرف ملو سیٹھ، حاجی انصار اور ندیم مرزا کے علاوہ ضلع بھر سے ادب دوست سامعین نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ رسم شکریہ عنیق فاؤنڈیشن کے صدر شکیل حسرت نے جبکہ نظامت کے فرائض مشہور ناظم مشاعرہ ہارون عثمانی نے بحسن و خوبی انجام دیے ـوے)

Jalgaon mein Nawjawan Afsana Nigaron ka Ajaz

Articles

جلگاؤں میں نوجوان افسانہ نگاروں کے لیے اعزازی نشست

وسیم عقیل شاہ

جلگاؤں 30 ستمبر : مشرقی خاندیش کے نوجوان قلم کاروں کی تخلیقی کاوشوں کو سراہتے ہوئے آئیڈیل ملٹی پرپز سوسائٹی اور خاندیش اردو رائٹر فاؤنڈیشن کے اشتراک سے تقریب بہ عنوان “نئی فکر نیا قلم” کا انعقاد شاہو نگر جلگاؤں میں نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ عمل آیا ـ تلاوت کلام پاک حافظ جنید نے پیش کی ـ اس پروگرام کی اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے صغیر احمد نے کہا کہ ضلع جلگاؤں کی موجودہ ادبی صورت حال کو نظر میں رکھ کر گزشتہ مہینوں دو ادبی مذاکرے بھساول اور جلگاؤں میں منعقد کیے گئے تھے ـ جس میں ضلع کے تقریباً تمام ہی ادبا نے شرکت کی، جہاں  اجتماعی طور پر اس بات کی ضرورت شدت محسوس کی گئی کہ ضلعی سطح پر ایک ایسی ادبی انجمن تشکیل پائے جو مہینہ دیڑھ مہینہ میں ادبی نشستوں کے علاوہ دیگر سرگرمیوں کا اہتمام پابندی سے کریں ـ یہ پروگرام اسی فکری سلسلے کی پہلی کڑی ہے ـ علاوہ ازیں موصوف نے یہ بھی کہا کہ درحقیقت خاندیش میں نوجوانوں کا قلم خاصہ رواں ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ضلعی سطح پر انھیں خاص نمائندگی نہیں مل پاتی ـ اس موقع پر خاندیش کے نوجوان قلم کار وسیم عقیل شاہ، زبیر علی تابش، انیس کیفی، الطاف علی رہنما، صدام اشرف اور ایم صدام نے اپنی تخلیقات پیش کیں ـ ان افسانوں پر علی انجم رضوی نے اپنی طویل تجزیاتی تقریر پیش کی تو بھساول سے تشریف فرما شکیل حسرت نے منظوم تہنیت سخن کو بروئے کار لایا ـ نیز مشتاق کریمی نے بھی پڑھے گئے افسانوں کو بڑی نباضی سے پرکھا ـ خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے سید ذاکر علی نے منتظمین کو مبارک باد دیتے ہوئے افسانوں میں زبان کے برتاؤ پر روشنی ڈالی اور لسانیات کے پوشیدہ پہلوؤں کو سلیس انداز میں واضح کیا ـ
اس ادبی پروگرام میں رشید قاسمی،قیوم اثر، ڈاکٹر قاضی رفیق راہی، ساحر نصرت، سید ذاکر حسین، سجاد حیدر، ڈاکٹر انیس الدین اور عثمان جوہری جیسے شاعر و ادیب نے خصوصی شرکت کی ـ ان کے علاوہ شہر و اطراف کے با ذوق سامعین نے کثیر تعداد میں شریک ہو کر ادبی بیداری کا ثبوت فراہم کیا ـ پروگرام کو کامیاب بنانے میں ـ نظامت جاوید انصاری نے اور رسم شکریہ محمود شیخ نے پیش کی ـ

Urdu Zaban ki Taraqqi

Articles

اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں ایک اور پیش قدمی

وسیم عقیل شاہ

جلگاؤں 2 ستمبر 2018 : آئیڈیل ملٹی پرپز سوسائٹی، جلگاؤں کے زیر انصرام تقریب بہ عنوان ” اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے عملی اقدامات” کا انعقاد ادارہ ہذا کے دفتر میں انتہائی تزک و احتشام کے ساتھ عمل میں آیا ـ حافظ جنید صاحب نے تلاوت کلام پاک سے محفل کا آغاز کیا ـ ادارے کے صدر محمود بھائی نے ابتدائی کلمات ادا کیے اور شہر میں سابقہ طرز پر ماہانہ نشستوں کے اہتمام کی یقین دہانی کرائی ـ  اس پروگرام کے روح رواں صغیر احمد صاحب نے پروگرام کے اغراض و مقاصد پیش کیے ـ ضلعی سطح پر اردو زبان و ادب کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر منعقد اس جلسے میں بطور مہمانِ خاص تشریف فرما اردو کے معروف افسانہ نگار رشید قاسمی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مطالعہ کی افادیت سے روشناس کرایا اور اردو کی ترویج کے لیے منظم اور با مقصد نشستوں کے پابندی سے جاری رکھنے کی بات کہی ـ اس موقع پر آل انڈیا ریڈیو آکاش وانی سے منسلک جاوید انصاری صاحب نے دو ٹوک انداز میں ادبی بد عنوانیوں کی طرف اشارہ کیا اور ادب میں شفافیت لانے کے لیے بنیادی مسائل کے حل تلاش کرنے پر زور دیا ـ بھساول سے تشریف فرما حاجی انصار نے عصری ادب کے ساتھ ہی عصری تعلیم کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کیے ـ اس پروگرام کی صدارت فرما رہے ڈاکٹر قاضی رفیق راہی (ڈپٹی رجسٹرار، نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی) نے اپنے خطبہ صدارت میں زبان و ادب کے متنوع موضوعات کو سمیٹا اور ادب کے بیشتر مگر پوشیدہ پہلوؤں کو واضح کرنے کی کوشش کی ـ قاضی صاحب نے یہ بھی کہا کہ اس وقت ادب کی ترویج و ترقی میں حائل دشواریوں کا سامنا ہمیں پوری اجتماعیت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ـ اس موقع پر ڈاکٹر قاضی رفیق راہی کے نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی میں ڈپٹی رجسٹرار کے عہدے پر فائز ہونے کی خوشی میں آئڈیل ملٹی پرپز سوسائٹی کی جانب سے موصوف کا شال اور گل کے ذریعے خصوصی استقبال کیا گیا ـ اس ادبی پروگرام میں مقیم سر اور معین الدین عثمانی صاحب کے علاوہ مقامی لوگوں نے بھی خاصی تعداد میں شرکت کی ـ پروگرام کی نظامت وسیم عقیل شاہ نے جبکہ رسم شکریہ اسلم سر نے ادا کیا ـ

Importance of Non Fiction in Urdu

Articles

اردو میں غیر افسانوی اصناف کی اہمیت مسلم ھے ـ

وسیم عقیل شاہ

جلگاؤں 7 جنوری 2018 ۔ “دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی حقیقتوں اور انسانی زندگی کے معاملات اور رویوں کو قصہ کہانی کے بر عکس جس نثر میں پیش کیا جاتا ھے اسے غیر افسانوی نثر کہا جاتا ھے۔ایک عرصہ تک اردو میں افسانوی اور غیر افسانوی نثر کا تصور نہیں تھا۔ مگر اب مطلع صاف ہوگیا ہے اور غیر افسانوی نثری اصناف کا تصور واضح ہو کر مسلم ہوگیا ہے ـ “مذکورہ بالا خیالات کا اظہار معروف نقاد سلیم شہزاد نے ادارہ شاہین لائبریری جلگاؤں اور قومی کونسل (نئی دہلی ) کے اشتراک سے منعقدہ ادبی سیمینار بعنوان “اردو میں غیر افسانوی نثری اصناف” کے موقع پر اپنے صدارتی خطبے میں کیا ۔ شاہین لائبریری نے اپنی سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے امسال بھی ایک ادبی سیمنار کا انعقاد اینگلو اردو ہائی اسکول (جلگاؤں ) کے وسیع ہال میں کیا ـ تقریب کا آغاز رفیق پٹوے نے تلاوتِ کلام پاک سے کیا بعد ازاں یاسر عظیم نے حضور اکرم (ص) کی خدمت عالیہ میں نعت کا نذرانہ پیش کیا ۔الحاج عبدالغفار ملک نے شمع فروزی کے ذریعہ سیمینار کا باقاعدہ افتتاح کیا ۔ مبین احمد نے مہمانان کا تعارف و گل پیشی کی رسم ادا کی ۔ دو سیشن پر مشتمل اس سیمنار کے پہلے اجلاس میں ڈاکٹر اسراراللہ انصاری نے “تذکرہ نویسی”، ایم مبین نے “سفر نامہ نگاری”، ڈاکٹر عظیم راہی نے “مکتوب  نگاری” تو اجلاس دوم میں خورشید حیات نے “تبصرہ نویسی”، نور  الحسنین نے “خاکہ نگاری” اور معین الدین عثمانی نے “انشائیہ نگاری” جیسے موضوعات پر پُر مغز مقالات پیش کیے ۔سید ذاکر حسین نے سوالات کے ذریعہ مکالمہ قائم کیا ۔ شرکاء نے بھی اس سیمنار کی ادبی فضا کو اپنے سوالات کے ذریعے سازگار بنایا ـ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر اقبال شاہ، ڈاکٹر ہارون، بشیر پروفیسر  غیاث عثمانی، ایڈوکیٹ ستیش پوار اور اشوک کوتوال بطور مہمانان خصوصی موجود تھے ۔ مشتاق کریمی نے نظامت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیے جبکہ رسم شکریہ مقیم احمد نے ادا کیا ۔پروگرام میں شہر و اطراف کے باذوق سامعین نے کثیر تعداد میں شرکت کر کے اپنی ادبی بیداری کا ثبوت دیا ۔

Sham E Aitbar 

Articles

شام آفاق بنام اعتبار

وسیم عقیل شاہ

✨”شام آفاق بنام اعتبار “✨
( گوونڈی میں شعری و اعزازی نشست )
گوونڈی 8 دسمبر 17 : شعبہ درس و تدریس بی ایم سی کے سرگرم معلم اور معمار کے اہم رکن مقصود آفاق کو ان کے شعری مجموعہ “اعتبار” کے لیے امسال مہاراشٹر اردو ساہتہ اکیڈمی کے ذریعے انعام سے نوازا گیا ہے ـ لہذا اس سلسلے میں معمار فاؤنڈیشن، ممبئی نے موصوف شاعر کے اعزاز میں ایک شعری و اعزازی نشست کا اہتمام بعنوان “شام آفاق بنام اعتبار “، گوونڈی (ممبئی ) میں کیا ـ عرفان سر تلاوت کلام پاک سے اس بزم آغاز کیا، وسیم شیخ نے اغراض و مقاصد پیش کیے اور پروگرام کو دو سیشن پر مشتمل کرنے کا اعلان کیا ـ پہلے سیشن میں بطور مہمان خاص تشریف فرما عارفہ شیخ سلیم (بی او ایم وارڈ ) نے اپنے تاثرات میں مقصود آفاق کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اپنی علمی و ادبی صلاحیتوں کو اپنے طلبا میں اتارنا بھی فن کے اہم مقاصد میں شامل ہے نیز یہ کہ علم و ادب میں سرگرم اشخاص کی خدمات کا اعتراف کرنا ایک بڑا کام ہے ایسی کاوشوں کے لیے وہ ہر طور معمار فاؤنڈیشن اور ان جیسے دیگر اداروں کے ساتھ ہیں جو اس طرز پر قائم ہیں ـ معروف شاعر و مترجم قاسم ندیم نے اپنے مقالے کے ذریعے شاعرِ ‘اعتبار’ کے فن کے تفہیمی پہلوؤں کو وا کیا تو نوجوان شاعر و ناقد محسن ساحل نے مقصود آفاق کے فن اور شخصیت پر اپنا مضمون پڑھا ـ عابد شیخ نے بطور ناشر اپنا مختصر مضمون پیش کیا جس میں انھوں نے مقصود آفاق کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی شخصیت کا بھی مکمل احاطہ کیا ـ اس پروگرام کی صدارت فرما رہے ڈاکٹر قمر صدیقی نے شاعری کی روایتی روش، صالح اقدار، رجحانات، فن اور تخیلی شعور پر بھر پور روشنی ڈالی نیز مقصود آفاق کی شاعری سے متعلق کہا کہ مقصود کے حیطہ اظہار میں ہر طرح کا رنگ شامل ہے اگرچہ کہ حسن و جمال، عشق و رومان ، ہجر و وفا کے رنگ ان کی شاعری میں غالب رہے ہیں ـ

دوسرے سیشن میں ایک مختصر مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس میں صاحب اعزاز کے ساتھ ہی قمر صدیقی ، محسن ساحل ، اسماعیل راز، ارشاد راغب، علیم سر اور ذیشان ساحر جیسے شعراء نے اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کیا ـ نظامت کے فرائض فروز قریشی اور محسن ساحل نے مشترکہ طور پر انجام دیے جبکہ اظہار تشکر وسیم شیخ نے پیش کیا ـ اس پروقار تقریب میں بی ایم سی کے اساتذہ نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ

Allama Iqbal by Qazi Jamal Husain

Articles

علامہ اقبال مغرب کے نہیں مادہ پرستی کے مخالف تھے

پروفیسر قاضی جمال حسین

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئ دہلی میں حکیم عبدالحمید یاد گاری لیکچر کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر پروفیسر قاضی جمال حسین نے اقبال اور دانش مغرب کے عنوان سے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ آج دنیا مادہ پرستی میں گرفتار ہے ۔علامہ اقبال کا پورازور مادہ پرستی کے خلاف ہے ۔علامہ اقبال کی ساری کوشش اسی کے لیے ہے کہ کس طریقہ سے مادہ پرستی کو زر پرستی کو کیسے روکا جائے ۔وہ یوروپ گئے وہاں زندگی گزاری وہاں کے رنگ ڈھنگ کو دیکھا وہاں کے مفکرین سے ملے وہاں کی اچھائیوں کے ساتھ وہاں کی برائیوں پر بھی نظر ڈالی ۔علامہ اقبال کا کائناتی وژن تھا۔وہ مغربی تعلیم کے خلاف نہیں تھے لارڈ میکالے کے نظریۂ تعلیم کے خلاف تھے ۔تعلیم کا مقصد حصولِ زر نہیں تسکینِ روح ہونا چاہیے ۔آج تعلیم کے لئے ان مضامین کا انتخاب کیا جاتا ہے جن سے زیادہ پیسہ حاصل کیا جا سکے۔علامہ اقبال ترقی کے خلاف نہیں تھے۔مغرب کی شاطرانہ چالوں کے خلاف تھے ۔انہوں نے کہا کہ اقبال انسان کے اندر پیاس پیدا کرنا چاہتے تھے۔کھوئ ہوئ چیزوں کی یاد دلانا چاہتے تھے۔آرزو پیدا کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے مغرب ساتھ ہی ساتھ مشرق کی بھی مخالفت کی ۔وہ رجعت پسندی کے خلاف تھے تن آسانی کے خلاف تھے۔ان کی شاعری انسان کو متحرک کرتی ہے ۔پروفیسر قاضی جمال نے اقبال کی فارسی اور اردو نظموں اور غزلوں کے حوالے بھی پیشِ کئے ۔انھوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری کی معنویت ہے اس لیے ان کی ضرورت ہمیشہ رہےگی ۔ان کی شاعری ہمت طاقت پیدا کرنے کی شاعری ہے ۔ان کی شاعری کی بنیاد نفس کی پاکیزگی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اقبال کی شاعری اور حکیم عبدالحمید کی شخصیت کا مشترک پہلو متحرک ہونا ہے ۔
اس موقع پر پروفیسر شریف حسین قاسمی نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ حکیم صاحب کے کام جو دہلی میں ہیں وہ سب کے سامنے ہیں دہلی سے باہر برہان پور میں بھی طبیہ کالج اور اسپتال قائم کیا ۔پروفیسرشمیم حنفی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہاکہ مغرب کا مسئلہ بہت الجھا ہوا ہے بہت سی چیزوں کو ذہن سے نکالنے کا جی چاہتا ہے مغرب کا سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ہمیں اپنا محاسبہ کرنےکی ضرورت ہے اقبال کے یہاں مشرق سے و مغرب کا امتزاج ہے ۔ آخر میں عقیل احمد نے شکریہ ادا کیا ۔ اس موقع پر بڑی تعداد میں اساتذہ ،طلباء اور شائقینِ علم و ادب موجود تھے جن میں پروفیسر وہاج الدين علوی،پروفیسر جینا بڑے ،جی آر کنول ،حناآفرین،حکیم خالد صدیقی،انورخاں غوری،سہیل انور،ظہیربرنی،نگار عظیم ،چشمہ فاروقی،جاوید نسیم،پروفیسر معظم ،محمد خلیل کے اسمائے گرامی شامل ہیں ۔
—————————————————-

Research makes the Evolution of Language and Literature

Articles

تحقیق زبان و ادب کے ارتقا کی راہ ہموار کرتی ہے

تصویر میں دائیں سے قاضی مشتاق احمد، پروفیسر نسیم احمد اور پروفیسر صاحب علی

ممبئی،۱۵؍نومبر: شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی کی اردو ریسرچ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام منعقدہ ادبی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے بنارس ہندو یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ ٔ اردو پروفیسر نسیم احمد نے کہا کہ تحقیق کا عمل گرچہ محنت طلب ہے لیکن زبان و ادب کے ارتقا کے لیے اس عمل سے گزرنا لازمی ہوتا ہے۔انھوں نے کہا کہ تحقیق کے ذریعہ ادب کے تخلیقی رجحانات و میلانات کے مابین امتیازات کی نشاندہی ہوتی ہے اور کسی ادیب و شاعر تخلیقی محرکات و فنی اوصاف دریافت کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔پروفیسر نسیم احمد نے شعبہ ٔ اردو ممبئی یونیورسٹی کی علمی وا دبی سرگرمیوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ صدر شعبہ پروفیسر صاحب علی کی سنجیدہ اور مخلصانہ کوششوں کے ذریعہ نہ صرف تدریسی سطح پر اردو زبان وادب کی ترقی کی راہ ہموار ہوئی بلکہ شعبہ کی جانب سے منعقد ہونے والی علمی وادبی تقریبات نے اس زبان کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔انھوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحت ہونے والی تحقیق پر اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بہت کم یونیورسٹیوں میں ایسے وقیع اور اہم موضوعات پر تحقیقی کام ہورہا ہے جو زبان و ادب کے ارتقا میں معاون ہو سکے اور اس لحاظ سے ممبئی یونیورسٹی کا شعبہ ٔ اردو اپنی علاحدہ شناخت رکھتا ہے ۔
اس تقریب میں اردو کے معروف فکشن نگار قاضی مشتاق احمد نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردو ریسرچ ایسوسی ایشن کے ذریعہ منعقد ہونے والی ادبی تقاریب طلبہ کے اندر ذوق علم کو بڑھاوا دیں گی اور ساتھ ہی ادب کی تفہیم کے عمل کو بھی ان کے لیے آسان بنائیں گی ۔انھوں نے ایسویسی ایشن کی فعالیت کے لیے پروفیسر صاحب علی اور شعبہ کے سبھی اساتذہ اور طلبہ کو مبارک باد دی اور کہا کہ اردو کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہم علمی و عملی طور پر سرگرم رہیں اور اس زبان میں شائع ہونے والے اخبارات ، رسائل اور کتابوں کو خرید کر پڑھنے کا طریقہ اختیار کریں ۔تقریب کے آغاز میں پروفیسر صاحب علی نے مہمانان کا استقبال کیا اور ایسوسی ایشن کے قیام کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد طلبہ کو ایسا پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جو ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو جلا بخشے اور ان کے اندر زبان و ادب کی تفہیم کے شعور کو پختگی عطا کر ے۔ انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ایسی ادبی تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں پی ایچ ڈی یا ایم فل کا کوئی طالب علم زبان و ادب سے متعلق کسی موضوع پر تحقیقی مقالہ پیش کرتا ہے اور تقریب کے شرکا اس پر اپنے خیالات و تاثرات کا اظہار کرتے ہیں۔ ایم فل کے طالب علم ندیم احمد انصاری نے پاکستان کی مشہور ادبی و مذہبی شخصیت تقی عثمانی کی نثری و شعری خدمات پر تحقیقی مقالہ پیش کیا ۔اس مقالے میں تقی عثمانی کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف پیش کرتے ہوئے ان کی شاعری اور سفرناموں پر خصوصی اظہار خیا ل کیا گیا تھا ۔ پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر عبداللہ امتیاز نے شرکا اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا اور شعبہ کے اساتذہ ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر مزمل سرکھوت، محترمہ روشنی خان کے علاوہ ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبا نے شرکت کی۔