اردو ممبئی یونی ورسٹی میں ایم۔اے فائنل کے طلبا کی استقبالیہ تقریب
9؍دسمبر 2020 بروزبدھ کو ایم- اے فائنل کے طلبا نے ایک پرتکلف تقریب کا اہتمام کیا۔ اس سال لاک ڈاؤن کے سبب آن لائن سالانہ امتحان دینے والے ، شعبۂ اردو ممبئی یونی ورسٹی کے طلبا کی امتیازی نمبروں سے کامیابی پرطلبا اور اساتذہ میں مسرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لاک ڈاؤن میں کلاسیں اور لائبریریاںبند ہونے کے سبب جامعات کے طلبا کوبڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکچر نہ ہونا اور کتابوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے اعلیٰ جماعت کے طالب علموں میں ایک طرح کی بے چینی پائی جارہی تھی۔ فائنل امتحان سے متعلق طلبا خوف زدہ تھے۔ ایسے میں صدرشعبۂ اردو ڈاکٹر عبداللہ امتیازاحمد نے نصابی کتابوں کی پی ڈی ایف کاپی مہیا کرائی تاکہ طلبا گھر بیٹھے سکون سے پڑھائی ، اور امتحان کی تیاری کرسکیں۔ اس حکمتِ عملی اور کوششوں کا نتیجہ ، طلبا کی نمائندہ کامیابی کی شکل میں برآمد ہوا۔ طلبا کے ہردل عزیز استاد ڈاکٹر عبداللہ امتیاز تعلیم کے سلسلے میں ہمیشہ سنجیدہ رہے ہیں اور ان کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی کہ تعلیم کے معاملے میں جتنا بھی ممکن ہوسکے طلبا کی مدد کی جائے۔ انھیں کتابوں کے تعلق سے ہرممکن سہولیات مہیا کی جائیں۔اس تقریب کی دوسری وجہ یہ تھی کہ لاک ڈاؤن میں طلبا یونی ورسٹی نہیں آپا رہے تھےاور ڈاکٹر عبداللہ اس درمیان صدرِ شعبہ کی حیثیت سے مسند نشین ہوئے اس لیے طلبا کے لیے یہ موقع دوہری خوشی کا تھا، مبارک باد کے ساتھ ساتھ شکریہ بھی اداہوگیا۔طلباسے ان کی نمائندہ کامیابی کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے اپنی کامیابی کا سہرااپنے ہردل عزیز استاد، ڈاکٹر عبداللہ امتیاز کے سر باندھا۔ اس تہنیتی تقریب میں سید نکہت جبین، سعدیہ انصاری، مدحت، ثمر ین بانو،شائستہ پروین، ندا، بسمہ،شفیق انصاری اور افضل کے علاوہ کئی طلبانے شرکت کی۔شعبۂ اردو ، ایم۔اے فائنل کے کامیاب تمام طلبا کو ان کی کامیابی بہت بہت مبارک ہو
Well come Programe
Articles
شعبہ اردو ممبئی یونی ورسٹی میں ایم۔اے فائنل کے طلبا کی استقبالیہ تقریب
رپورٹ : احرار اعظمی
Urdu Aam Aadmi ki Zindagi ka Atoot Hissa Hai
Articles
اردو عام آدمی کی زندگی کا اٹوٹ حصہ :سسودیا
محمد ہارون
اردواکادمی ،دہلی میںقمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم کی تجدیدوتزئین اوراردوخواندگی مراکزکانائب وزیراعلی کے ہاتھوںافتتاح
نئی دہلی:اردواکادمی ،دہلی کے زیراہتمام قمر رئیس سلورجبلی آڈیٹوریم کی تجدید وتزئین اوراردو خواندگی مراکز کاافتتاح دہلی کے نائب وزیراعلیٰ اوراردو اکادمی کے چیئرمین منیش سسودیا کے ہاتھوںعمل میں آیا۔اس موقع پراردو اکادمی ،دہلی کے وائس چیرمین پروفیسر شہپررسول اور اردو اکادمی کے سکریٹری ایس ایم علی نے نائب وزیراعلی کو گلدستے پیش کرکے ان کا استقبال کیا۔اپنی استقبالیہ تقریرمیںپروفیسر شہپررسول ،وائس چیئرمین اردواکادمی،دہلی نے کہا کہ اس ہال میں آپ آتے رہے ہیں لیکن اس ہال کی خوبصورتی اوراسٹرکچر نائب وزیراعلیٰ اور دہلی حکومت کی خصوصی توجہ کی وجہ سے ہے،آج اردو لٹریسی مراکز کا بھی افتتاح ہے،اس بار۱۵۶ لٹریسی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں، ان مراکز کا مقصد ناخواندہ لوگوں کو خواندہ بنانا ہے ،ان مراکز کے معاملات میں بھی دہلی حکومت کی خصوصی توجہ ہوتی ہے۔ آج نائب وزیراعلیٰ عزت مآب منیش سسودیا جی اردو خواندگی مراکزکے انسٹرکٹرزحضرات کو اسٹیشنری دیں گے ۔بہت سے ایسے کام جو کئی برسوں سے نہیں ہوئے تھے اس سال ہم نے کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اردو اکادمی کے تمام پروگراموں کو چلانے میں دہلی حکومت کا مکمل تعاون ہوتا ہے بالخصوص نائب وزیر اعلیٰ کا۔
اس موقع پرنائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا نے کہا کہ یقینا اس ہال پر بہت محنت کی گئی ہے۔ دراصل ہال کی تزئین میں اچھی نیت کو بڑا دخل ہے۔ اردو اکادمی اور اس کے ذمہ داران کی نیت بہت اچھی ہے،اسی لیے ہال میں آج ہم بیٹھ کر بڑا سکون محسوس کررہے ہیں ۔مجھے امید ہے کہ اردو کا فروغ ہوتا رہے گا اور اردو کو کسی طرح کا کوئی ڈراورخطرہ نہیں ہے۔ اردو کے فروغ کی ذمہ داری کو دہلی حکومت ہمیشہ یقینی بناتی رہے گی ۔ ہماری حکومت عام آدمی کی سیاست کرتی ہے اور کرتی رہے گی ۔ ہم ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کو ساتھ لے کرچلنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کیجریوال جی نے دوسو یونٹ تک کا بجلی بل معاف کردیا ہے ۔ دہلی کے 75 فیصد گھروں میں دوسو یونٹ تک ہی بجلی جلتی ہے ۔یقینا آپ سب اس فیصلے سے خوش ہوں گے ۔اردو عام آدمی کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے ۔ہندوستان کا کوئی بھی بندہ خالص ہندی یا انگریزی میں نہیں سوچ سکتا ،وہ کچھ بھی سوچنا چاہتا ہے تو اسے اردو کا سہارا لینا ہی پڑے گا۔ اردو زندگی جینے کا سلیقہ اوررویہ ہے ۔ان مراکز کے ذریعہ ہم اردو ٹیچروں کی کمی کو بھی پورا کررہے ہیں ۔ سرکاری فائلوں میں نام کچھ بھی رکھ لیاجائے اصل تو یہ ہے کہ اردو کا فروغ ہومیری کوشش یہی رہتی ہے ۔ آپ سب کو بہت بہت مبارک باد خدا کرے آپ سب کے سینٹرز اسی طرح روشنی پھیلاتے رہیں ۔
اردو اکادمی کے سکریٹری ایس۔ ایم۔ علی نے کہا کہ اس ہال میں جو کچھ نظر آرہاہے وہ سب دہلی حکومت اور نائب وزیراعلیٰ کی خصوصی دلچسپیوں کا نتیجہ ہے ۔ یہ حکومت کی طرف سے اردو اکادمی کو بہت بڑا تحفہ ہے ۔نائب وزیراعلیٰ منیش سسودیا جی کو جب بھی ہم زحمت دیتے ہیں ، اردو اکادمی تشریف لاتے ہیںاوراردوکے تمام پروگراموں میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں ۔اکادمی کے پروگراموں کو ہم اتنا کامیاب نہیں بناسکتے اگر نائب وزیراعلیٰ اور دہلی حکومت کاتعاون ہمارے ساتھ نہ ہو۔ ہم آپ سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ سب نے شرکت کی اور پروگرام کوکامیاب بنایا ۔میں بالخصوص نائب وزیراعلیٰ کا شکریہ اداکرتاہوں۔
اس پروگرام کے بعدموسیقار سیف علی نے غزلیں پیش کیں۔غزل گائیکی کے پروگرام سے سامعین لطف اندوز ہوئے۔
Sahifa E Muhabbat Ka Ijra
Articles
ناسک میں صحیفہء محبت کا اجرائے ثانی
وسیم عقیل شاہ
ناسک 21 جولائی : بھتڑا فاؤنڈیشن ،ناسک کی جانب سے بھساول سے جاری ہونے والے ادبی رسالہ صحیفہء محبت کی تقریب اجرائے ثانی ہمسفر،چوپڑا لان، ناسک میں نہایت ہی شاندار طریقے سے منعقد ہوئی ـ یہ تقریب دو سیشن پر مشتمل رہی اور دونوں ہی سیشن کی صدارت ناسک کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس (SP) جناب سنیل کڑاسنے نے فرمائی ـ اس موقع پر جاوید انصاری نے انٹرنیٹ کے اس دور میں علمی ادبی رسائل و جرائد کی اہمیت سے روشناس کرایا ـ آپ نے مطالعے کو روح کی غذا ثابت کرتے ہوئے موجودہ حالات ہی سے اس کی راہیں نکالنے کی بات کی ـ آپ نے کہا کہ انٹرنیٹ، واٹس ایپ، فیسبک وغیرہ پر فضولیات سے پرے انھی کی توسط دنیا جہان کی علمی و ادبی کتابوں سے بہت ہی سہولت اور آسانی کے ساتھ رابطہ استوار کیا جا سکتا ہے ـ یوں انھی حوالوں سے ہم اپنے ذوق مطالعے کی آبیاری بھی کر سکتے ہیں اور ان سارے میڈیم کو اپنے لیے صحیح مصرف ثابت کر سکتے ہیں ـ اقبال برکی اور وسیم عقیل شاہ نے اپنے تاثرات میں رسالہ صحیفہء محبت کے معیاری مشمولات کو سراہا اور امید کی کہ مستقبل میں بھی یہ رسالہ اسی معیار کو قائم رکھے گا اور پابندی وقت کے ساتھ شائع ہوتا رہے گا ـ خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے محترم سنیل کڑاسنے نے اردو کو اپنی پسندیدہ بلکہ اولین پسندیدہ زبان بتائی ـ آپ نے صاف اور سلیس اردو زبان میں اپنا اظہاریہ دیا جس میں انھوں نے اردو کو محبت کی زبان کہا نیز اس کی ادبی و سماجی اہمیت پر روشنی ڈالی ـ ساتھ ہی ساتھ رسالہ صحیفہء محبت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعی یہ رسالہ محبت کا پیغام دے رہا ہے اور اس وقت ملک و سماج کو سب سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے ـ پروگرام کے دوسرے سیشن میں ایک شعری نشست کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ضیا باغپتی، شکیل حسرت ، احد امجد، مشتاق ساحل ، زبیر علی تابش، ناصر شکیب ندیم مرزا اور افسر خان افسر نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ـ اس ادبی پروگرام کے دونوں سیشن میں نظامت کے فرائض ہارون عثمانی نے بہ حسن و خوبی انجام دیے اور رسم شکریہ نند کشور بھتڑا نے ادا کی ـ اس نشست میں محبان اردو برادران وطن کے ساتھ ہی اردو داں حلقے نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ
زیر نظر تصویر میں دائیں سے اقبال برکی، شکیل حسرت ،سنیل کڑاسنے ، پاروتا بائی بھتڑا ،انیل اگروال، نند کشور بھتڑا اور ضیا باغپتی ـ
Rafiuddin Faqeeh High School, Bhiwandi
Articles
انجمن فروغ تعلیم بھیونڈی کی جانب سے رفیع الدین فقیہ بوائز ہائی اسکول کے اساتذہ اور طلبہ کی پذیرائی
محمد احمد شاہ
۱۴ جولائی ۲۰۱۹ بروز اتوار الحاج محمد خان ہال،دھوبی تالاب اسٹیڈیم ،بھیونڈی میں انجمن فروغ تعلیم کی جانب سے ایس ایس سی اور ایچ ایس سی امتحان مارچ۲۰۱۹ میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ اوران امتحانوں میں بہتر نتائج دینے والے اساتذہ ،اسکول اور ہیڈماسٹر کی پذیرائی کے لیے ایک شاندار پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ۔بڑی خوشی کا مقام ہے کہ شہر بھیونڈی کے اردو میڈیم اسکولوں میںایس ایس سی امتحان مارچ ۲۰۱۹ کے مضمون اردو میں نمایاں نمبرات (۹۰/۱۰۰)حاصل کرنے والے جماعت دہم (الف )کے دوطالب علم انصاری محمدرافع عبدالصمد اور خان عامر عبارت اور ان کے اردو مضمون کے معلم اور اسکول ہذاکے معاون ہیڈ ماسٹر شفیع عاصم پٹیل کو بھی مومینٹو ،سرٹیفکٹ، میڈل اور دیگر تحا ئف سے نوازا گیا ۔ شفیع پٹیل سر کی خاطر اس انعام کو شمشاد انصاری نے حاصل کیا ۔اس پر مسرت موقع پر اسکول کے ہیڈماسٹر محمد شبیر فاروقی ، سپر وائزر فہیم پٹیل ، جملہ اسٹاف چئرمین اسکول کمیٹی اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے مبارکباد پیش کی گئی۔
Woman’s day at Iqra College, Jalgaon
Articles
اقرا تھیم کالج میں عالمی یوم خواتین منایا گیا
ڈاکٹر وقار
آج ۸,نومبر کواقرا تھیم کالج کے سیمینار ہال میں عالمی یوم خواتین منایا گیا.جس کی صدارت ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے فرمائی.اس پروگرام کا آغاز جیجاؤفاؤنڈیشن کی صدر پچتا پاٹل نے شمع جلاکر کیا.مہمان خصوصی کے طور پر کالج کمیٹی کے چیئرمن ڈاکٹر اقبال شاہ ,مراٹھا سیواسنگھ کے رکن ٹی وی آرٹسٹ شری شمبھو پاٹل ,حاجی عبدالمجید زکریا,ڈاکٹر طاہر شیخ,پرنسپل ڈاکٹر سید شجاعت,عبدالرشید خان اور دیگر موجود تھے.پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ اس موقع پر پانچ خواتین کو مختلف ایوارڈ سے نوازا گیا.رحیمہ بی مرحوم شیخ رحیم کو فاطمہ بی بی ایوارڈ, اندوبائی پنڈلک پاٹل کو بہینا بائی چودھری ایوارڈ, منگلارمیش ناگرکر کو ساوتری بائی پھلے ایوارڈ, اناسیا بائی کاشی ناتھ شندے کو جیجا بائی ایوارڈ اور آشا بائی سبھاش لوہار کو رانی لکشمی بائی ایوارڈ دیکر ان کی حوصلہ افزائی کی گئی.پروگرام کی غرض و غایت ڈاکٹر فردوس میڈم نے پیش کی.شری شمبھو پاٹل نے کہا کہ دنیا میں مذہب اسلام نے سب سے پہلے عورتوں کو برابری کا حق دیا.سید شجاعت سر نے عورتوں کی عظمت اور انکی تعلیم پر توجہ دینے کی بات کی.ڈاکٹرعبدالکریم سالار نے اپنے صرارتی خطبہ میں موجودہ دور میں عورتوں کا استحصال کس طریقہ سے کیا جارہا ہے اس پر مفصل روشنی ڈالی.سماج میں آج عورتوں کے تحفظ کے لیے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کی مہم چلائی جارہی ہے جبکہ چودہ سو برس پہلے ہمارے نبی نے انھیں بچایا بھی اور پڑھنے کا حکم بھی دیا.وراثت میں حصہ اور ماں کے قدموں میں جنت رکھ کر عورتوں کو عظمت عطا کی.پروگرام کی نظامت پروفیسر مزمل نے کی.ایوارڈکی تقسیم ک نظامت پروفیسرڈاکٹر وقار شیخ نے کی اور رسم شکریہ پروفیسر دیوکر میڈم نے ادا کیا.
Bichraon mein Mushaira
Articles
حضرت قاضی برہان الدین فائونڈیشن (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام بچھرائوں میں مشاعرے کا انعقاد
پریس ریلیز
بچھرائوں،حضرت قاضی برہان الدین فائونڈیشن (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام برہان العارفین لنگرِ فقراء حضرت قاضی برہان الدینؒ اور حضرت شاہ محمد اعظمؒ کے عرس مبارک کے موقع پر ہر سال کی طرح امسال بھی ایک باوقار محفل شعر وسخن کا انعقاد کیا گیا اس محفل میں بڑی تعداد میں شاعری کے شوقین سنجیدہ سامعین نے شرکت کی اس محفل شعر و سخن میں مقامی شعرا کے علاوہ دہلی اور دیگر مقامات سے آئے شعرائے کرام نے شرکت کی۔ یہ محفل شب ایک بجے اختتام پذیر ہوئی۔ مشاعرے کی صدارت قاری فضل الرحمن انجم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض عالمی شہرت یافتہ ناظم معین شاداب نے انجام دیے۔آخر میں مشاعرے کے کنوینر اور فائونڈیشن کے چیئرمین رئوف رامش نے حاضرین اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔قارئین کی خدمت میں منتخب اشعار پیش ہیں۔بچھرائوں،حضرت قاضی برہان الدین فائونڈیشن (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام برہان العارفین لنگرِ فقراء حضرت قاضی برہان الدینؒ اور حضرت شاہ محمد اعظمؒ کے عرس مبارک کے موقع پر ہر سال کی طرح امسال بھی ایک باوقار محفل شعر وسخن کا انعقاد کیا گیا اس محفل میں بڑی تعداد میں شاعری کے شوقین سنجیدہ سامعین نے شرکت کی اس محفل شعر و سخن میں مقامی شعرا کے علاوہ دہلی اور دیگر مقامات سے آئے شعرائے کرام نے شرکت کی۔ یہ محفل شب ایک بجے اختتام پذیر ہوئی۔ مشاعرے کی صدارت قاری فضل الرحمن انجم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض عالمی شہرت یافتہ ناظم معین شاداب نے انجام دیے۔آخر میں مشاعرے کے کنوینر اور فائونڈیشن کے چیئرمین رئوف رامش نے حاضرین اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔قارئین کی خدمت میں منتخب اشعار پیش ہیں۔بربادی کے الزام کو اغیار پہ رکھ کر
نادانیاں ہر موڑ پہ ہم کرتے رہیں گے
قاری فضل الرحمن انجم
ابھی نہ روک یہ بارانِ سنگ جاری رکھ
شکستہ جاں ہی سہی میں ابھی سلامت ہوں
اسلم سحروارثی
کوئی تذلیل کرتا ہے تو اُس سے دکھ تو ہوتا ہے
مگر اک فائدہ بھی ہے تکبر ٹوٹ جاتا ہے معین شاداب
خامشی کھنڈر پکارے ہے
منھ نہ پھیروں محل رہا ہوں میں
فرمان چودھری
سناٹوں کو نوچ کے آہیں کہتیں ہیں
کم ظرفوں کو تاج حکومت مت دینا
ارشد ندیم
پہلے تو سر قلم کر دیے گئے
بدنام اُس کے بعد میں ہم کر دیے گئے
نسیم دھامپوری
ہزاروں بار ولولے دل کے نکالے ہیں
یہ جتنے حسن والے ہیں ہمارے دیکھے بھالے ہیں
ظہیر احمد اثر
اُلفت کے دِل فریب مناظر سے پیار ہے
شیدا ہے جس پہ دل وہ دل کا قرار ہے
مناظرالدین مناظر
رو برو جب بھی تو ہوگیا
آئینہ سرخرو ہوگیا
رئوف رامش
Faiz Pur mein Maulana Aazad ko Yaad Kiya Gaya
Articles
فیض پور میں مولانا آزاد کو یاد کیا گیا
وسیم عقیل شاہ
فیض پور 11 نومبر : خدمت ملت گروپ کے زیر اہتمام ہر سال کی طرح اس سال بھی ہندوستان کے اولین وزیر تعلیم، محب اردو اور بھارت رتن *مولانا ابوالکلام آزاد* کے یوم پیدائش کے پیش نظر ایک تعزیتی جلسے کا انعقاد نہایت ہی تزک و احتشام کے ساتھ عمل میں آیا ـ واضح رہے اس تقریب کی صدارت علاقہ خاندیش کے مشہور سیاست دان، سماجی خدمت گار اور ریاست مہاراشٹر کے سابق ایم ایل اے شریش چودھری نے انجام دی ـ اس موقع پر شریف ملک نے مولانا آزاد کی سماجی نظریات کو واضح کیا تو رویندر نارکھیڑے نے مولانا آزاد کے سیکولر کردار پر روشنی ڈالی ـ اسی طرح وسیم عقیل شاہ نے مولانا کے تعلیمی تصورات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ـ خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے سابق ایم ایل اے سریش چودھری نے اس طرح کے پروگرام کا انعقاد کرنے پر خدمت ملت گروپ کے اراکین کو مبارکباد دی اور مولانا آزاد کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں پر روشنی ڈالی ـ انھوں نے مولانا کے سیاسی کردار کو سامعین کے روبرو اجاگر کیا نیز مولانا کے تعلیمی خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ـ اس جلسے میں نے بطور مہمانان خصوصی کلیم خان (صدر بدلیہ ) ،کیتن کرنگے، رویندر ہولے شرکت فرما تھے ـ ساتھ ہی شہر فیض پور کے کوثر علی (شہر صدر کانگریس ) آصف شیخ ، ریاض ممبر، وحید سر، شہباز خان گرو سر، شیخ عرفان اور رئیس مومن جیسے علمی، سماجی و سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کر کے اپنی سماجی و تعلیمی ذمہ داری کا ثبوت فراہم کیا ـ پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں خدمت ملت گروپ کے صدر مدثر نظر، نائب صدر سید فاروق، رکن عمران خان، شیخ شفیق، اختر شیخ اور ناظم شیخ کا خاص تعاون حاصل رہا ـ نظامت کے فرائض مدثر نظر نے بہ حسن و خوبی انجام دیے جبکہ رسم شکریہ عمران خان نے پیش کی ـ
Two day National Seminar in BHU
Articles
دو روزہ قومی سیمیناربعنوان ’’ نذیر بنارسی: حیات اور کارنامے‘‘
پریس ریلیز
شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقادبتاریخ۲۹-۲۸؍ نومبر 2018 کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ بنارس کا شمار قدیم و ترین مذہبی شہروں میں ہوتا ہے ، زمانۂ قدیم سے یہ شہر علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ سنسکرت اور ہندی کے علاوہ اردو شعر و ادب کے فروغ میں یہاں کے قلم کاروں اور دانشوروں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ۔ یوں تو سرزمیں بنارس سے اردو ادب میں کئی شخصیتں ابھریں لیکن جو شہرت نذیر بنارسی کو ملی وہ کسی کو نصیب نہ ہو سکی۔ نذیر بنیادی طور پر زمینی حقیقتوں کے شاعر ہیں جن کے یہاں قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا جذبہ ایک قدر اعلی کی حیثیت رکھتا ہے۔ شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقادبتاریخ۲۹-۲۸؍ نومبر ۲۰۱۸ء کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ بنارس کا شمار قدیم و ترین مذہبی شہروں میں ہوتا ہے ، زمانۂ قدیم سے یہ شہر علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ سنسکرت اور ہندی کے علاوہ اردو شعر و ادب کے فروغ میں یہاں کے قلم کاروں اور دانشوروں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ۔ یوں تو سرزمیں بنارس سے اردو ادب میں کئی شخصیتں ابھریں لیکن جو شہرت نذیر بنارسی کو ملی وہ کسی کو نصیب نہ ہو سکی۔ نذیر بنیادی طور پر زمینی حقیقتوں کے شاعر ہیں جن کے یہاں قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا جذبہ ایک قدر اعلی کی حیثیت رکھتا ہے۔ متذکرہ خیالات کا اظہار، صدر شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی آفتاب احمد آفاقی نے نمائندہ سے’ نذیر بنارسی حیات اور کارنامے‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے دو روزہ قومی سیمینار کی اہمیت کی بابت گفتگو کے دوران کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب شعبۂ اردو کے زیر اہتمام اس شہر کے ممتاز شاعر اور ملک گیر پیمانے پر مشاعروں میں اپنی آواز اور کلام کی دھاک بیٹھانے والے نذیر بنارسی کی شخصیت اور فن پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ نذیر بنارسی کی اہمیت موجودہ دور میں اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ انھوں نے اپنی تخلیقی نگارشات کے وسیلے سے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو نہ صرف فروغ دیا ہے بلکہ وہ زندگی بھر ملک میں امن و شانتی ، اخوت و محبت ، بھائی چارا اور جنگ آزادی کے شہداء اور مجاہدین کو خراج عقدیت پیش کرتے رہے۔ نذیر بنارسی کے شعری مجموعوں مثلاًگنگ وجمن ، جواہر سے لال تک، غلامی سے آزادی تک، اور راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے میں شامل نظموں کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نذیر کی جملہ تخلیقات سے گنگا جمنی تہذیب ، انسانیت اور وطن دوستی کی خوشبو پھیلتی ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ انھوں نے جو کار ہائے نمایا انجام دیے ہیں اس سے نئی نسل کو واقف کرایا جائے تاکہ نذیر کی عظمت کا احساس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہواور ان کے فن و شخصیت کی افہام و تفہیم کی نئی راہیں وا ہو سکیں۔
Prof. Qazi Abdus Sattar ke Sath Urdu Duniya mein aik Style ka Khaatma
Articles
قاضی عبدالستار کے ساتھ اردو ادب اور اردو دنیا میں ایک اسٹائل کا خاتمہ ہوا ہے
پریس ریلیز
Ghalib Academy mein Prof. Naser Ahmad Khan ka Izhar E Kheyal
Articles
غالب اکیڈمی میں ماہانہ ادبی نشست میں پروفیسر نصیر احمد خاں اظہار خیال
پریس ریلیز
گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔جس کی صدارت جناب ڈاکٹر جی آر کنول نے فرمائی۔ نشست میں اردو کے مشہور فکشن نگار قاضی عبد الستار کے انتقال پرملال پر تعزیت کا اظہار کیا گیا اس موقع پر پروفیسر نصیر احمد خاں نے اپنے تعلقات کے حوالے سے قاضی عبد الستار کی زندگی اور خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر قاضی عبدالستار اردو اور ہندی دونوں زبانوں سے جڑے ہوئے تھے وہ اردو نثر کے ایک مخصوص طرز کے قصر کا چوتھا ستون تھے۔ رجب علی بیگ سرور،محمد حسین آزاد،ابولکلام آزاد اور قاضی عبدالستار کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔وہ اپنے طرز بیان سے قاری کو باربار پڑھنے پر مجبور کرتے تھے۔وہ نستعلیق قسم کے آدمی تھے اپنی زندگی خوب جئے۔فن میں یکتا تھے اس لیے شہرت اور عزت بھی خوب ملی۔ قاضی عبدالستار نے افسانوں کے علاوہ بہت سے تاریخی ناول لکھے۔ ان کی ناولوں میں ہمارے تاریخ کے سو مناظر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔انھوں نے نثر میں رزم کی روایت قائم کی۔ ان کا رخصت ہونا ہندی اردو کا بہت بڑا نقصان ہے۔حاضرین نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے تعزیت کا اظہار کیا۔ نشست میں چشمہ فاروقی نے اپنا افسانہ فریب مسلسل پڑ ھ کرسنایا اور محمد خلیل نے سائنسی کہانی سردیوں میں جانوروں کی لمبی نیند سنائی اور شعرائے کرام نے اپنے اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا۔ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں
بتاؤں کیا کسی کو اپنا مذہب جب مرے دل میں
کہیں کعبہ منور ہے ، کہیں میخانہ روشن ہے
جی آر کنول
ہم کو تو خیر آپ نے برباد کردیا
اب اس کے بعد کہیے ارادہ کدھر کا ہے
ظہیر احمد برنی
ہے درد مرے دل میں نہاں دونوں جہاں کا
ہے فکر رسا میری ادھر اور ادھر بھی
متین امروہوی
راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے
یہ منزل مراد تو بس درد درد ہے
اسد رضا
خوب صورت جو بھی ہوگا مجھ کو دیکھے گا ضرور
آئینے سا میں لگا بیٹھا ہوں اک دیوار سے
سیماب سلطان پوری
یاد اپنوں کی مجھے آئی بہت
کررہا تھا میں غم دل کا حساب
سمیر وششٹھ
پہچان ہوئی اپنے پرائے کی تجھی سے
اے گردش دوراں ترے احسان بہت ہیں
اسرار رازی
شب سیاہ کے منظر ہیں شش جہت میں ابھی
وہ تاب ناک سی لیکن سحر ضروری ہے
عزم سہریاوی
آل نبی کے خشک لبوں تک نہ جاسکا
روئے نہ اپنے آپ پہ آبِ فرات کیوں
درد دہلوی
میں وہ شاعر ہوں جسے ہے گل و رخسار سے بیر
میں فقط شہر کے حالات لکھا کرتا ہوں
فروغ الاسلام
روز و شب خوابوں میں پھر چھپ چھپ کے وہ آنا تیرا
وہ شب فر قت میں ارضِ وصل فرمانا تیرا
دریا جین
وقت مرہم ہے ہر زخم کا، تجربہ ہے بڑوں کا جگر
درد دل سے جدا کیا ہوا،زندگی ٹمٹمانے لگی
شاہد انور
پرندے بھی چہکنا بھول بیٹھے
چمن سہما ہوا ہے باغباں سے
قلم بجنوری
گلستاں جس کو کہا اقبال نے
کیا وہ کوئی اور ہندستاں ہے
ظفر کانپوری
بجزہر اضطرابِ جاں شکایت ختم کرنی ہے
مجھے بے معنی تیرا حلقۂ زنجیر کرنا ہے
حبیب سیفی
مداوا نے درد جگر ڈھونڈتا ہوں
میں صحرا میں کوئی شجر ڈھونڈتا ہوں
سید مسعود الحسن مسعود
زمانے کی حقیقت کیسے اس کو کر گئی گم سم
وہ بچہ سہما بیٹھا ہے ہنسا کے دیکھ لیتے ہیں
نزاکت امروہوی
نشست میں نسیم عباسی، عزیزہ مرزا، طلعت سروہہ،منوج شاشوت نے اپنے کلام پیش کئے۔