Intekhab e Kalam Jaun Elia

Articles

انتخاب ِ کلام جون ایلیا

جون ایلیا

 

 

ایک گماں کا حال ہے اور فقط گماں میں ہے
کس نے عذابِ جاں سہا، کون عذابِ جاں میں ہے

لمحہ بہ لمحہ دم بہ دم آن بہ آن رم بہ رم
میں بھی گزشتگاں میں ہوں تو بھی گزشتگاں میں ہے

آدم و ذاتِ کبریا کرب میں ہیں جدا جدا
کیا کہوں ان کا ماجرا جو بھی ہے امتحاں میں ہے

شاخ سے اڑ گیا پرند ہے دلِ شام درد مند
صحن میں ہے ملال سا حزن سا آسماں میں ہے

خود میں بھی بے اماں ہوں میں، تجھ میں بھی بے اماں ہوں میں
کون سہے گا اس کا غم وہ جو مری اماں میں ہے

کیسا حساب کیا حساب حالتِ حال ہے عذاب
زخم نفس نفس میں ہے زہر زماں زماں میں ہے

اس کا فراق بھی زیاں اس کا وصال بھی زیاں
ایک عجیب کشمکش حلقۂ بے دلاں میں ہے

بود و نبود کا حساب میں نہیں جانتا مگر
سارے وجود کی نہیں میرے عدم کی ہاں میں ہے
—————-

تشنگی نے سراب ہی لکھا
خواب دیکھا تھا خواب ہی لکھا

ہم نے لکھا نصابِ تیرہ شبی
اور بہ صد آب و تاب ہی لکھا

منشیانِ شہود نے تاحال
ذکرِ غیب و حجاب ہی لکھا

نہ رکھا ہم نے بیش و کم کا خیال
شوق کو بے حساب ہی لکھا

دوستو ، ہم نے اپنا حال اسے
جب بھی لکھا خراب ہی لکھا

نہ لکھا اس نے کوئی بھی مکتوب
پھر بھی ہم نے جواب ہی لکھا

ہم نے اس شہر دین و دولت میں
مسخروں کو جناب ہی لکھا
——————–

خواب کے رنگ دل و جاں میں سجائے بھی گئے
پھر وہی رنگ بہ صد طور جلائے بھی گئے

انہیں شہروں کو شتابی سے لپیٹا بھی گیا
جو عجب شوق فراخی سے بچھائے بھی گئے

بزم ِ شوخی کا کسی کی کہیں کیا حال جہاں
دل جلائے بھی گئے اور بجھائے بھی گئے

پشت مٹی سے لگی جس میں ہماری لوگو
اسی دنگل میں ہمیں داؤ سکھائے بھی گئے

یادِ ایام کہ اک محفل جاں تھی کہ جہاں
ہاتھ کھینچے بھی گئے اور ملائے بھی گئے

ہم کہ جس شہر میں تھے سوگ نشین ِ احوال
روز ہم اس شہر میں دھوم مچائے بھی گئے

یاد مت رکھیو روداد ہمار ی ہرگز
ہم تھے وہ تاج محل جون ؔجو ڈھائے بھی گئے
————-

وہ اہل ِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بے خبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سر خوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصل رنگ و بو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے
———–

بے انتہائی شیوہ ہمارا سدا سے ہے
اک دم سے بھولنا اسے پھر ابتدا سے ہے

یہ شام جانے کتنے ہی رشتوں کی شام ہو
اک حزن دل میں نکہت موج صبا سے ہے

دست شجر کی تحفہ رسانی ہے تابہ دل
اس دم ہے جو بھی دل میں مرے وہ ہوا سے ہے

جیسے کوئی چلا بھی گیا ہو اور آئے بھی
احساس مجھ کو کچھ یہی ہوتا فضا سے ہے

دل کی سہولتیں ہیں عجب ، مشکلیں عجب
نا آشنائی سی عجب اک آشنا سے ہے

اس میں کوئی گلہ ہی روا ہے نہ گفتگو
جو بھی یہاں کسی کا سخن ہے وہ جا سے ہے

آئے وہ کس ہنر سے لبوں پر کہ مجھ میں جونؔ
اک خامشی ہے جو مرے شور نوا سے ہے
———————-

Intekhab e Kalam Ahmad Mushtaq

Articles

انتخابِ کلام احمد مشتاق

احمد مشتاق

احمد مشتاق

غزلیں

وہ لڑکپن کے دن وہ پیار کی دھوپ
چھائوں لگتی تھی رہگذار کی دھوپ

وہ کھلی کھڑکیاں مکانوں کی
دو پہر میں وہ کوے یار کی دھوپ

کنج سورج مکھی کے پھولوں کے
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ سبزہ زار کی دھوپ

یہ بھی اک منظر زمینی ہے
خوف کے سائے گیر و دار کی دھوپ

برف چاروں طرف ہے اور دل میں
گل آئندہ اور بہار کی دھوپ

————–

شامِ غم یاد ہے کب شمع جلی یاد نہیں
کب وہ رخصت ہوئے کب رات ڈھلی یاد نہیں

دل سے بہتے ہوئے پانی کی صدا گذری تھی
کب دھندلکا ہوا کب شام ڈھلی یاد نہیں

ٹھنڈے موسم میں پکارا کوئی ہم آتے ہیں
جس میں ہم کھیل رہے تھے وہ گلی یاد نہیں

ان مضافات میں چھپ چھپ کے ہوا چلتی ہے
کیسے کھلتی تھی محبت کی کلی یاد نہیں

جسم و جاں ڈوب گئے خواب فراموشی میں
اب کوئی بات بری ہو کہ بھلی یاد نہیں

———————

دہلیز پہ چاندنی کھڑی ہے
یہ رات کی کونسی گھڑی ہے

جگ بیت گئے مگر وہی شام
اب تک مری یاد میں گڑی ہے

کچھ بھی نہ ستم گروں نے چھوڑا
ہر چیز ملی دلی پڑی ہے

اس زلف سے سلسلہ ہمارا
زنجیر کی آخری کڑی ہے

میں گاوِ زمانہ و زمیں ہوں
دنیا مرے سینگ پر کھڑی ہے

XXX

اسی جزیرۂ جنت نشان ہی میں رہے
ہم اس جہان کے تھے اس جہان ہی میں رہے

زمینیوں کے تھے اپنے مہہ و نجوم بہت
جو آسمان کے تھے آسمان ہی میں رہے

نئی جگہ میں تو سب کچھ سما نہ سکتا تھا
وہ صبح و شام پرانے مکان ہی میں رہے

نہ جانے کون کشش تھی ہوا کی گلیوں میں
کہ نو نیاز پرندے اُڑان ہی میں رہے

جو چار حرف بمشکل زباں تک آئے تھے
تمام عمر امید بیان ہی میں رہے

XXX

بدن نزار ہوا دل ہوا نڈھال مرا
اس آرزو نے تو بھر کس دیا نکال مرا

پلٹ کے بھی نہیں دیکھا پکار بھی نہ سنی
رہا جواب سے محروم ہر سوال مرا

جہاں اٹھانے ہیں سو رنج ایک یہ بھی سہی
سنبھال خود کو مرے دل نہ کر خیال مرا

وہ زلف باد صبا بھی تھی جس کی باج گزار
اسی کے قرض میں جکڑا ہے بال بال مرا

خزاں میں بھی وہی رونق ہے جو بہار میں تھی
نہیں نشاط سے کم مرتبہ ملال مرا

XXX

منہ سوئے فلک ہے بھونکتا ہوں
آوازِ سگانِ بے نوا ہوں

یاروں کو ضیافتیں مبارک
میں ایسی غذا پہ تھوکتا ہوں

پروانہ بھی آپ شمع بھی آپ
اور بزم سے دور جل رہا ہوں

مجھ سے نہ الجھ ہوائے دنیا
میں دل کی زمین سے اُگا ہوں

دنیا سے بھی ہے دلی تعلق
دل کا بھی مزاج آشنا ہوں

ہاتھوں پہ اٹھائے چاند کی لاش
تاروں کے غروب تک گیا ہوں

ہیں ابروِ ہوا گواہ میرے
سورج کے پڑوس میں رہا ہوں

صحرائے طلب کے ساربانو
خوابوں سے لدا ہوا کھڑا ہوں

بس موجِ خیال یار تھم جا
ساحل کے قریب آگیا ہوں

XXX

لفظوں کے سراب سے نکل جا
کاغذ کے عذاب سے نکل جا

افسانۂ حسن ختم پر ہے
افسونِ شباب سے نکل جا

میں دل کی طرف پلٹ رہا ہوں
دنیا مرے خواب سے نکل جا

مت ریجھ فریب کار دل پر
اس شہرِ خراب سے نکل جا

اے رمز شناس مہر و مہتاب
اس آب و تراب کے نکل جا

XXX

دل میں کہیں سراغِ نشاط و الم نہیں
گو شور بھی بہت ہے خموشی بھی کم نہیں

جو اک سوال تھا مرے لب پر کہاں گیا
مجھ کو تر ے جواب نہ دینے کا غم نہیں

اپنائیت تو وہ کہ محبت بھی ہو نثار
بے گانگی تو یہ کہ مروّت بہم نہیں
میلے لگے ہوئے تھے اسی دل کے آس پاس
اب دور دور تک کوئی نقش قدم نہیں

XXX

مرے اندر کوئی شئے مائل فریاد رہتی ہے
مقیّد ہے مگر ہر بند سے آزاد رہتی ہے

جہاں دل تھا کبھی سایا نظر آتا ہے اب دل کا
جہاں آنسو رہے اب آنسووں کی یاد رہتی ہے

مرے نا کام دل اک عمر ہوتی ہے تمنا کی
نہ پھر وہ شوق رہتا ہے نہ استعداد رہتی ہے

XXX

کیا شب ہجر تھی سویر لگی
چاند کو ڈوبنے میں دیر لگی

XXX

 

INTEKHAB E KALAM IRFAN JAFRI

Articles

انتخابِ کلام عرفان جعفری

عرفان جعفری

انتخابِ کلام عرفان جعفری

غزلیں
ہوئی جو ہم پہ عنایت سنبھال رکھی ہے
بڑے جتن سے یہ تہمت سنبھال رکھی ہے
ہمیں غریب نہ سمجھو بہت امیر ہیں ہم
تمہارے درد کی دولت سنبھال رکھی ہے
کوئی ملال نہ شکوہ دعائیں سب کے لیے
یہ خاندانی روایت سنبھال رکھی ہے
مرا یہ جسم تو ہے سرکشی پہ آمادہ
فصیلِ جاں نے بغاوت سنبھال رکھی ہے
تری کشش ترے گیسو ترے لب و رخسار
ہمیں نے ایسی قیامت سنبھال رکھی ہے
کبھی جو سرد سا موسم بہت ستائے تو
ترے بدن کی حرارت سنبھال رکھی ہے
٭٭٭
ہری فصل کیسے جھلس گئی کہاں کاشتکار چلے گئے
یہ ندی بھی خود میں سمٹ گئی سبھی آبشار چلے گئے
یہ تو جگنوﺅں کا نصیب تھا کوئی فیض ان کو نہ مل سکا
جو سجانے آئے تھے رہگزر وہ پسِ غبار چلے گئے
وہ تھی شاہزدے کی منتظر یہی خواب اس کی سزا ہوا
اسے پھینک کر کسی دشت میں سبھی شہہ سوار چلے گئے
مجھے خاص کوئی شغف نہیں کہیں میکدہ جو قریب ہو
بھلا یہ بھی کوئی خطا ہوئی جو کبھی کبھار چلے گئے
مرا عیب تھا کہ نصیب تھا کہ یہ دوستوں کا فریب تھا
مری التجا بھی نہیں سنی مرے غم گسار چلے گئے
نہ میں قید ہوں نہ رہا ہوا مری سلطنت مری جیل ہے
میں ظفر کے ایسا ہوں تاج ور سبھی اختیار چلے گئے
وہ جو مختصر سی کتاب تھی جنھیں یاد تھی وہ ورق ورق
اسے پانیوں میں ہی پھینک کر وہ ندی کے پار چلے گئے
٭٭٭
ہونے تھے جتنے کھیل مقدر کے ہوگئے
ہم ٹوٹی ناﺅ لے کے سمندر کے ہوگئے
آوارگی سمٹ کے در و بام بن گئی
لو ہم بھی شہر چھوڑ کے اب گھر کے ہوگئے
اب کون آکے مجھ سے کھلونوں کی ضد کرے
بچے جواں ہوئے تو برابر کے ہوگئے
خوشبو ہمارے ہاتھ کو چھو کر گزر گئی
ہم سب کو پھول بانٹ کے پتھر کے ہوگئے
٭٭٭
جب سے ترے مزاج میں چاہت نہیں رہی
ہم کو بھی تیرے در کی ضرورت نہیں رہی
پتھراﺅ جسم و جان پہ حد سے گزر گیا
پھر یوں ہوا کہ درد میں شدت نہیں رہی
تم نے بھی اپنے آپ کو محدود کرلیا
ہم کو بھی انتظار کی عادت نہیں رہی
دل کی شکستگی کو زمانہ گزر گیا
اس حادثے پہ اب کوئی حیرت نہیں رہی
اچھا ہوا جو تم سے تعلق نہیں رہا
دن رات سوچنے کی اذیت نہیں رہی
دن کی تھکان رات کو بستر پہ لے گئی
تم کو بھی یاد کرنے کی فرصت نہیں رہی
٭٭٭
یہ رہگزارِ شوق بھی کتنی طویل ہے
گھر سے چلے تھے سوچ کے دوچار میل ہے
اب اور غم ملے نہ ملے کوئی غم نہیں
اس میکدے میں تشنہ لبی خود کفیل ہے
ظلم و ستم نے مصر پہ قبضہ جمالیا
موسیٰ کے انتظار میں دریائے نیل ہے
اتنا نہ خرچ کیجئے رکھئے سنبھال کر
آنکھوں میں آنسوﺅں کا ذخیرہ قلیل ہے
مرغابیوں کی ڈار نے یہ تو بتا دیا
جنگل میں آس پاس ہی گہری سی جھیل ہے
مجھ کو لگا کہ درد کی بارش کرے گا وہ
اک زخم دے کے رہ گیا کیسا بخیل ہے
٭٭٭
ترا خیال ہے یا روشنی کی بوچھاریں
تمام رات چمکتی ہیں گھر کی دیواریں
بس ایک پل کے لیے تجھ کو میں نے سوچا تھا
مرے وجود سے آنے لگی ہیں مہکاریں
ہرایک سانس کا جزیہ چکا دیا ہم نے
کوئی بتائے کہ اب زندگی پہ کیا واریں
کچھ اس طرح سرِ مقتل کیا ہے رقصِ جنوں
ہمارے بعد بھی گونجا کریں گی جھنکاریں
یہ رات ٹوٹ کے جب تک بکھر نہیں جاتی
نئی سحر پر لٹکتی رہیں گی تلواریں
یہ زندگی ہے کہ عرفان جنگلوں کا سفر
دعا کرو کہ مسافر نہ حوصلہ ہاریں
٭٭٭
نظمیں

اورنگ زیب کے مزار پر ایک لمحہ

تم جو اک سطوتِ شاہانہ کے مالک تھے کبھی
ابھی دلی تو ابھی ارضِ دکن
رات دن گھوڑے پہ سرگرمِ سفر رہتے تھے
تپتے صحراﺅں میں خیموں میں بسر کرتے تھے
ایک فرمان سے قسمت پہ لگاتے تھے مہر
پھر بھی شاہی میں فقیرانہ ادا رکھتے تھے
تم کو اپنے لیے ہوسِ جاہ نہ تھی
مسندِ شاہی کو
دولت کی کوئی چاہ نہ تھی
تم تو وہ تھے جو گزارے کے لیے
نانِ جویں کی خاطر
ٹوپیاں سی کے ، صحیفے کی کتابت کرکے
پس انداز کیا کرتے تھے
شکر ادا کرتے تھے
تم تو وہ تھے کہ جہاں اپنے قدم رکھتے تھے
بس وہیں فتح کے نقارے بجا کرتے تھے
آج یہ حال ہے
تمہاری قبر ہے
جس پر نہیں ہے چھت یا سائبان کوئی
قریب اس کے وہیں
مرشد کی خانقاہ بھی ہے
اور تمہاری قبر کے ماتھے پہ
رکھا ہے
لکڑی کا مقفل ڈبہ
جس میں ڈالے گئے سکوں کی کھنک
دور تلک جاتی ہے
جس کو سنتے ہیں جب
ہم جیسی سماعت والے
دکھ کی اک لہر سی رگ رگ میں ابھر آتی ہے
روح کا کرب چھلک اٹھتا ہے
اور اسی کرب کی گہرائی سے
ایک پرچھائیں ابھر آتی ہے
اور کہتی ہے کہ :”یہ لکڑی کا مقفل ڈبہ
وقفہ¿ شب کی طرح حائل ہے
یہ میری قوم کا ماضی ہے،
نہ مستقبل ہے
یہ جو ہٹ جائے اگر
نورِ سحر
نورِ سحر
نورِ سحر ہے آگے“
٭٭٭

خمیازہ

دن کے لمحے چکھو
اور تھوک دو
رات میں ذائقوں کے سپنے بنو
پھیکے پھیکے پلوں
میں جیتے رہو
شکایت مت کرو
لذتیں ڈھونڈتے رہو
کہاں سے آئیں گی؟
جو تھوڑی سی چینی تھی
کہیں گر گئی
جو تھوڑا سا نمک تھا بچ گیا تھا
بارش میں بہہ گیا
٭٭٭

یومِ پیدائش

میں
جسم لیے پھرتا تھا
لیکن اس میں جان نہ تھی
میری پیاری پیاری بیٹی
جس دن تم نے جنم لیا تھا
مجھ میں روح سمائی تھی
اس کے بعد کسی سے اپنی
اتنی عمر بتاتا ہوں
جتنے برس کی تم ہوتی ہو
سننے والے ہنستے ہیں
چہرہ میرا دیکھ دیکھ کے
حیرت سے سب تکتے ہیں
سب کو میں ان دیکھا کرکے
چپکے سے مسکاتا ہوں
٭٭٭

INTEKHAB E KALAM KHWAJA MEER DAR’D

Articles

انتخابِ کلام خواجہ میر درد

خواجہ میر درد

انتخابِ کلام خواجہ میر درد

مقدور ہمیں کب ترے وصفوں کے رقم کا
حقّا کہ خدا وند ہے تو لوح و قلم کا
اُس مسندِ عزت پہ کہ تو جلوہ نما ہے
کیا تاب گزر ہووے تعقل کے قدم کا
بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن
آباد ہے تجھ سے ہی تو گھر دیرو حرم کا
ہے خوف اگر جی میں تو ہے تیرے غضب سے
اور دل میں بھروسا ہے تو ہے تیرے کرم کا
مانند حباب آنکھ تو اے درد کھلی تھی
کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم کا
٭٭٭
اگر یوں ہی دل یہ ستاتا رہے گا
تو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا
جفا سے غرض امتحانِ وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا
قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سناتا رہے گا
اگر تجھ کو چلنا ہے چل ساتھ میرے
یہ کب تک تو باتیں بناتا رہے گا
خفا ہوکے اے درد مر تو چلا ہے
کہاں تک غم اپنا چھپاتا رہے گا
٭٭٭
تجھی کو جو یاں جلوہ فرما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا
مرا غنچہ دل ہے وہ دل گرفتہ
کہ جس کو کسو نے کبھو وا نہ دیکھا
یگانہ ہے تو آہ بے گانگی میں
کوئی دوسرا آہ ایسا نہ دیکھا
اذیّت، مصیبت، ملامت، بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
کیا مجھ کو داغوں نے سروِ چراغاں
کبھی تونے آکر تماشا نہ دیکھا
تغافل نے تیرے یہ کچھ دن دکھائے
ایدھر تونے لیکن نہ دیکھا نہ دیکھا
حجابِ رخِ یار تھے آپ ہم ہی
کھلی آنکھ جب کوئی پردا نہ دیکھا
شب و روز اے درد در پر ہوں اس کے
کسو نے جسے یاں نہ سمجھا نہ دیکھا
٭٭٭
کچھ لائے نہ تھے کہ کھو گئے ہم
تھے آپ ہی ایک سو گئے ہم
جوں آئینہ جس پہ یاں نظر کی
ساتھ اپنے دوچار ہوگئے ہم
ماتم کدہ دہر میں جوں ابر
اپنے تئیں آپ رو گئے ہم
ہستی نے تو ٹک جگا دیا تھا
پھر کھلتے ہی آنکھ سو گئے ہم
یاروں ہی سے درد ہے یہ چرچا
پھر کوئی نہیں ہے جو گئے ہم
٭٭٭
ہم تجھ سے کس ہوس کی فلک جستجو کریں
دل ہی نہیں رہا ہے جو کچھ آرزو کریں
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
مٹ جائیں ایک دم میں یہ کثرت نمائیاں
گر آئینے کے سامنے ہم آکے ہو کریں
سر تا قدم زبان ہیں جوں شمع گو کہ ہم
پر یہ کہاں مجال کہ جو کچھ گفتگو کریں
ہر چند آئنہ ہوں پر اتنا ہوں نا قبول
منہ پھیر لیں وہ جس کے مجھے رو برو کریں
نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمنِ ہوسِ رنگِ و بو کریں
ہے اپنی یہ صلاح کہ سب زاہدانِ شہر
اے درد آکے بیعتِ دستِ سبو کریں
٭٭٭
اہلِ فنا کو نام سے ہستی کے ننگ ہے
لوحِ مزار بھی مری چھاتی پہ سنگ ہے
فارغ ہو بیٹھ فکر سے دونوں جہان کی
خطرہ جو ہے سو آئینہ¿ دل پہ زنگ ہے
حیرت زندہ نہیں ہے فقط تو ہی آئینہ
یاںٹُک بھی جس کی آنکھ کھلی ہے سو دنگ ہے
اِس ہستیِ خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشّہِ ظہور یہ تیری ترنگ ہے
گل گیر منہ پسار نہ تو شمع کی طرح
اُس کی زبان ہی اسے کامِ نہنگ ہے
کب ہے دماغِ عشق بتانِ فرنگ کا
مجھ کو تو اپنی ہستی ہی قیدِ فرنگ ہے
عالم سے اختیار کی ہرچند صلحِ کل
پر اپنے ساتھ مجھ کو شب و روز جنگ ہے
میں کیا کہوں تجھے نظر آیا نہیں ہے کیا
اِس گردشِ جہان کا جو کچھ کہ ڈھنگ ہے
غنچہ شگفتہ ہووے ہی ہووے کہ اس میں درد
دیکھا چمن میں جاکے تو کچھ اور ہی رنگ ہے
٭٭٭
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
میں رہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اُس کے پیام دل کے سوا کون لا سکے
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زنہار
اپنے تئیں بھلا دے اگر تو بھلا سکے
یارب یہ کیسا ظلم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جاسکے
گو بحث کرکے بات بٹھائی تو کیا حصول
دل سے اٹھا خلاف اگر تو اٹھا سکے
اطفائے نارِ عشق نہ ہو آب اشک سے
یہ آگ وہ نہیں جسے پانی بجھا سکے
مستِ شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے درد چاہے لائے بخود پھر نہ لا سکے
٭٭٭

Intekhab e kalam Shahid Lateef

Articles

انتخابِ کلام شاہد لطیف

شاہد لطیف

انتخابِ کلام شاہد لطیف

غزلیں
یہ جو ربط رو بہ زوال ہے ، یہ سوال ہے
مجھے اس کا کتنا ملال ہے ؟ یہ سوال ہے
یہ جو سر پہ میرے وبال ہے ، یہ سوال ہے
یہ جو گرد و پیش کا حال ہے ، یہ سوال ہے
مجھے کیا غرض مرے دشمنوں کا ہدف ہے کیا
مرے پاس کون سی ڈھال ہے ؟ یہ سوال ہے
مرے سارے خواب ہیں معتبر ، میں ہوں در بہ در
یہ عروج ہے کہ زوال ہے ؟ یہ سوال ہے
مرے ہاتھ شل ، مرے پائوں شل ، مری عقل گم
کوئی اور اتنا نڈھال ہے ؟ یہ سوال ہے
مرا ماضی کتنا امیر تھا ، میں غریب ہوں
کوئی یہ بھی ماضی و حال ہے ؟ یہ سوال ہے
کوئی ہے جو مجھ سا عظیم ہو ، جو فہیم ہو؟
یہ سوال کوئی سوال ہے ؟ یہ سوال ہے
نئے عہد کی یہ ترقیاں ، یہ تجلیاں
کوئی اس میں میرا کمال ہے ؟ یہ سوال ہے
وہ صدا نہ تھی وہ تو جذب تھا ، وہ تو عشق تھا
مری صف میں کوئی بلالؓ ہے ؟ یہ سوال ہے
٭٭٭
سوچ اندھی ہے ابھی تک علم و فن کے باوجود
ہم برہنہ تن پھرے ہیں پیرہن کے باوجود
روز و شب کی الجھنوں میں اک خیالِ دل نشیں
تازہ دم ہے زندگی ذہنی تھکن کے باوجود
موت اک زندہ حقیقت ، طے شدہ اک حادثہ
زندگی بے دست و پا لاکھوں جتن کے باوجود
ناکشادہ ذہن و دل ، ہاتھوں کے خالی پن کے ساتھ
ہم ادھورے ہی رہے پورے بدن کے باوجود
سب سے ملنا لازمی ہے دوستی کے جرم میں
خوش کلامی شرط ہے دل کی جلن کے باجود
پھول کی سانسوں میں شاہد اپنی سانسیں جوڑ کر
تازگی محسوس کرتے ہیں گھٹن کے باوجود
٭٭٭
ایک اک موج کو سونے کی قبا دیتی ہے
شام سورج کو سمندر میں چھپا دیتی ہے
ایک چہرہ مجھے روزانہ سکوں دیتا ہے
ایک تصویر مجھے روز رُلا دیتی ہے
عیب شہرت میں نہیں اس کا نشہ قاتل ہے
یہ ہوا کتنے چراغوں کو بجھا دیتی ہے
لوگ آتے ہیں ، ٹھہرتے ہیں ، گذر جاتے ہیں
یہ زمیں خود ہی گذرگاہ بنا دیتی ہے
کسی چہرے میں نظر آتا ہے کوئی چہرا
کوئی صورت کسی صورت کا پتہ دیتی ہے
نیل میں راستہ بننا تو ہے دشوار مگر
میری غیرت مرے ہاتھوں میں عصا دیتی ہے
٭٭٭
کوئی لہجہ ، کوئی جملہ ، کوئی چہرا نکل آیا
پرانے طاق کے سامان سے کیا کیا نکل آیا
بظاہر اجنبی بستی سے جب کچھ دیر باتیں کیں
یہاں کی ایک ایک شے سے مرا رشتا نکل آیا
مرے آنسو ہوئے تھے جذب جس مٹی میں ، اب اُس پر
کہیں پودا ، کہیں سبزہ ، کہیں چشما نکل آیا
خدا نے ایک ہی مٹی سے گوندھا سب کو اک جیسا
مگر ہم میں کوئی ادنیٰ ، کوئی اعلیٰ نکل آیا
سبھی سے فاصلہ رکھنے کی عادت تھی ، سو اب بھی ہے
پرایا کون تھا جو شہر میں اپنا نکل آیا
نئے ماحول نے پہچان ہی مشکوک کر ڈالی
جو بے چہرا تھا کل تک اس کے بھی چہرا نکل آیا
٭٭٭

اک عذاب ہوتا ہے روز جی کا کھونا بھی
رو کے مسکرانا بھی ، مسکرا کے رونا بھی
رونقیں تھی شہروں میں ، برکتیں محلوں میں
اب کہاں میسر ہے گھر میں گھر کا ہونا بھی
دل کے کھیل میں ہردم احتیاط لازم ہے
ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے ورنہ یہ کھلونا بھی
دیدنی ہے ساحل پر یہ غروب کا منظر
بہہ رہا ہے پانی میں آسماں کا سونا بھی
رات ہی کے دامن میں چاند بھی ہیں تارے بھی
رات ہی کی قسمت ہے بے چراغ ہونا بھی
وقت آپڑا ایسا ، وقت ہی نہیں ملتا
چھٹ گیا ہے برسوں سے اپنا رونا دھونا بھی
٭٭٭
لوگ حیران ہیں ہم کیوں یہ کیا کرتے ہیں
زخم کو بھول کے مرہم کا گلا کرتے ہیں
کبھی خوشبو ، کبھی جگنو ، کبھی سبزہ ، کبھی چاند
ایک تیرے لیے کس کس کو خفا کرتے ہیں
ہم تو ڈوبے بھی ، نکل آئے بھی ، پھر ڈوبے بھی
لوگ دریا کو کنارے سے تکا کرتے ہیں
ہیں تو میرے ہی قبیلے کے یہ سب لوگ مگر
میری ہی راہ کو دُشوار کیا کرتے ہیں
ہم چراغ ایسے کہ امید ہی لَو ہے جن کی
روز بجھتے ہیں مگر روز جلا کرتے ہیں
وہ ہمارا در و دیوار سے مل کر رونا
چند ہمسائے تو اب تک بھی ہنسا کرتے ہیں
٭٭٭
کہیں پہ ٹھنڈی ہوائیں ہوں گی کہیں کوئی آبشار ہوگا
کبھی جو ہمراہ چل سکو تو سفر بہت خوشگوار ہوگا
میں شام ہوتے ہی اپنی ساری اُداسیوں کو سمیٹتا ہوں
یہ جانتا ہوں کہ کوئی لمحہ مرے لیے بے قرار ہوگا
عروج کیا ہے زوال کیا ہے ، یہ جان لوگے تو دیکھ لینا
زمانہ آئے گا جب زمانہ قدم قدم پر نثار ہوگا
محبتوں کی ہزار صبحیں ، رفاقتوں کی ہزار شامیں
تمہاری راہوں میں بجھ گئی ہیں ، تمہیں کہاں اعتبار ہوگا

Intekhab e kalam Shahryar

Articles

انتخابِ کلام شہریار

شہریار

انتخابِ کلام شہریار

غزلیں
شمع دل ، شمع تمنا نہ جلا مان بھی جا
تیز آندھی ہے مخالف ہے ہوا مان بھی جا
ایسی دنیا میں جنوں ، ایسے زمانے میں وفا
اس طرح خود کو تماشا نہ بنا مان بھی جا
کب تلک ساتھ ترا دیں گے یہ دھندلے سائے
دیکھ نادان نہ بن میرا کہا مان بھی جا
زندگی میں ابھی خوشیاں بھی ہیں رعنائی بھی
زندگی سے ابھی دامن نہ چھڑا مان بھی جا
شہر پھر شہر ہے یاں جی تو بہل جاتاہے
شہرسے بھاگ کے صحراکو نہ جا مان بھی جا
پھر نہ کچھ ہوگا اگر بعد میں پچھتایا تو
وقت ہے اب بھی ذراہوش میں آ مان بھی جا
٭٭٭
کس کس طرح سے مجھ کو نہ رسواکیاگیا
غیروں کا نام میرے لہو سے لکھا گیا
نکلا تھا میں صدائے جرس کی تلاش میں
دھوکے سے اس سکوت کے صحرا میں آگیا
کیوں آج اس کا ذکرمجھے خوش نہ کرسکا
کیوں آج اس کا نام مرا دل دکھا گیا
میں جسم کے حصار میں محصور ہوں ابھی
وہ روح کی حدوں سے بھی آگے چلا گیا
اس حادثے کو سن کے کرے گا یقیں کوئی
سورج کو ایک جھونکا ہوا کا بجھا گیا
٭٭٭
دل میں رکھتاہے نہ پلکوں پہ بٹھاتاہے مجھے
پھربھی اس شخص میں کیاکیا نظرآتاہے مجھے
ساری آوازوںکو سناٹے نگل جائیں گے
کب سے رہ رہ کے یہی خوف ستاتاہے مجھے
یہ الگ بات کہ د ن میں مجھے رکھتاہے نڈھال
رات کی زد سے تو سورج ہی بچاتاہے مجھے
اک نئے قہر کے امکان سے بوجھل ہے فضا
آسماں دھند میں لپٹا نظر آتا ہے مجھے
تذکرہ اتنا ہوا روح کی آلودگی کا
جسم صد چاک بھی آئینہ دکھاتا ہے مجھے
٭٭٭
زخموں کو رفو کرلیں دل شاد کریں پھرسے
خوابوں کی نئی دنیا آباد کریں پھرسے
مدت ہوئی جینے کا احساس نہیں ہوتا
دل ان سے تقاضا کر بیداد کریں پھرسے
مجرم کے کٹہرے میں پھرہم کو کھڑا کردو
ہو رسمِ کہن تازہ فریاد کریں پھرسے
اے اہل جنوںدیکھو زنجیر ہوئے سائے
ہم کیسے انہیں، سوچو، آزاد کریں پھرسے
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھرسے
٭٭٭
وحشتِ دل تھی کہاں کم کہ بڑھانے آئے
کس لیے یادہمیں بیتے زمانے آئے
دشت خالی ہوئے زنجیر ہوئے دیوانے
تھی خطا اتنی کہ کیوںخاک اڑانے آئے
کیاعجب رسم ہے ، دستوربھی کیاخوب ہے یہ
آگ بھڑکائے کوئی ، کوئی بجھانے آئے
وقت کی بات ہے یہ بھی کہ مکاںخوابوںکا
جس نے تعمیرکیاہو وہی ڈھانے آئے
کوئی آسان نہیں ترکِ تعلق کرنا
بزمِ اغیارمیں یاروںکو بھلانے آئے
نقش کچھ اب بھی سرجادۂ دل باقی ہیں
تیزآندھی سے کہو ان کومٹانے آئے
٭٭٭
بند دروازوںکوجب جب دستکیں سہلائیں گی
بھولی بسری ساری باتیں دیرتک یادآئیں گی
نائو کاغذکی بنانے میںہیں بچے منہمک
پانیوںسے یہ ڈھکی سڑکیں کہاںتک جائیں گی
کون ان کے واسطے روشن کرے گا راستے
ہم سے بچھڑیں گی تو یہ پرچھائیاں پچھتائیں گی
عکس اک ٹھہرا ہوا ہے کب سے سطحِ آب پر
تیزطوفانی ہوائیں کب ادھر کوآئیں گی
٭٭٭

ہم کو جس دن نہ زمانے سے شکایت ہوگی
خود سے شرم آئے گی یا تجھ سے ندامت ہوگی
ایک دن آئے گا جب آنکھیںہی آنکھیں ہوںگی
اورہرآنکھ میں بیداری کی لذت ہوگی
کس کی دستک ہے کہ دروازے کوسہلاتی ہے
اورکون آئے گا یاں، ہجرکی ساعت ہوگی
وہ ادھر اوس کی اک بوند نظر آتی ہے
جانے کس شخص کی پلکوںکی امانت ہوگی
مٹھیاںریت سے بھرلوکہ سمندرمیں تمھیں
اک نہ اک روز جزیروں کی ضرورت ہوگی
٭٭٭
شدید پیاس تھی پھربھی چھوانہ پانی کو
میں دیکھتارہا دریاتری روانی کو
سیاہ رات نے بے حال کردیا مجھ کو
کہ طول دے نہیں پایاکسی کہانی کو
بجائے میرے کسی اور کا تقرر ہو
قبول جو کرے خوابوں کی پاسبانی کو
اماں کی جا ، مجھے اے شہر، تونے، دی توہے
بھلا نہ پائوں گا صحرا کی بیکرانی کو
جو چاہتا ہے کہ اقبال ہو سوا تیرا
تو سب میں بانٹ برابر سے شادمانی کو
٭٭٭
دیکھتے ہی دیکھتے ہر شئے یہاں فانی ہوئی
لمحۂ آیندہ کو کتنی پشیمانی ہوئی
لوگ کہتے ہیں کہ کل یہ شہر بھی آباد تھے
حکمراں کب اور کیسے ان پہ ویرانی ہوئی
معجزو ں کی منتظر آنکھیں رہیں شام وسحر
اس زمانے میںہمیں سے بس یہ نادانی ہوئی
تم کو اس بے بادباں کشتی پہ کتنا ناز ہے
وہ اُدھر دیکھو ندی کچھ اور طوفانی ہوئی
ہر قدم پر موڑ تھے، ہر موڑ پر منظر نئے
عمر کی اک ایک ساعت صرفِ حیرانی ہوئی
٭٭٭
جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے
اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے
سب کا احوال وہی ہے جو ہمارا ہے آج
یہ الگ بات کہ شکوہ کیا تنہا ہم نے
خود پشیمان ہوئے اس کو پشیماں نہ کیا
عشق کی وضع کو کیا خوب نبھایا ہم نے
عمر بھر سچ ہی کہا ، سچ کے سوا کچھ نہ کہا
اجر کیا اس کا ملے گا یہ نہ سوچا ہم نے
کو ن سا قہر یہ آنکھوں پہ ہوا ہے نازل
ایک مدت سے کوئی خواب نہ دیکھا ہم نے

نظمیں

نیند سے آگے کی منزل

خواب کب ٹوٹتے ہیں
آنکھیں کسی خوف کی تاریکی سے
کیوں چمک اٹھتی ہیں
دل کی دھڑکن میں تسلسل نہیں باقی رہتا
ایسی باتوں کو سمجھنا نہیں آساں کوئی
نیند سے آگے کی منزل نہیں دیکھی تم نے

 

شب بیداری کی حمایت میں

اے ہم نفسوکچھ سوچو
آنکھیں کھولو اور دیکھو
یہ بنجر رات تمھارے
سب خوابوں کی دشمن ہے
تم اپنی شب بیداری
اس کے ہاتھوں مت بیچوں

Intekhab e Kalam Yas Yagana Changezi

Articles

انتخابِ کلام یگانہ چنگیزی

یگانہ چنگیزی

انتخابِ کلام یگانہ چنگیزی

غزلیں
ادب نے دل کے تقاضے اٹھائے ہیں کیا کیا؟
ہوس نے شوق کے پہلو دبائے ہیں کیا کیا؟
نہ جانے سہوِ قلم ہے کہ شاہکارِ قلم
بلائے حسن نے فتنے اٹھائے ہیں کیاکیا؟
نگاہ ڈالی دی جس پر، وہ ہوگیا اندھا
نظر نے رنگِ تصرّف دکھائے ہیں کیا کیا؟
پیامِ مرگ سے کیا کم ہے مژدۂ ناگاہ
اسیر چونکتے ہیں تلملائے ہیں کیاکیا؟
پہاڑ کاٹنے والے ، زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا؟
بلند ہو کے کُھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیاکیا؟
خدا ہی جانے یگانہؔ! میں کون ہوں کیا ہوں؟
خود اپنی ذات پہ، شک دل میں آئے ہیں کیا کیا؟
٭٭٭
کون جانے وعدۂ فردا وفا ہوجائے گا
آج سے کل تک خدا معلوم کیا ہو جائے گا
بڑھتے بڑھتے اپنی حد سے بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا ہوجائے گا
ہے ذرا سی ٹھیس کا مہماں حبابِ جاں بہ لب
اک اشارے میں ہوا کے دم فنا ہو جائے گا
سانس لیتا ہوں تو آتی ہے صدائے بازگشت
کون دن ہوگا کہ اک نالہ رسا ہوجائے گا
کیا سمجھتے تھے یگانہؔ محرمِ رازِ فنا
غرق ہوکر آپ اپنا ناخدا ہوجائے گا
٭٭٭
قفس میں بوئے مستانہ بھی آئی دردِ سر ہوکر
نویدِ ناگہاں پہنچی ہے مرگِ منتظر ہو کر
زمانے کی ہوا بدلی نگاہِ آشیاں بدلی
اٹھے محفل سے سب بیگانۂ شمعِ سحر ہوکر
کہاں پر نارسائی کی ہے پروانوں کی قسمت نے
پڑے ہیں منزلِ فانوس پر بے بال وپر ہوکر
خدا معلوم اس آغاز کا انجام کیا ہوگا
چھڑا ہے سازِ ہستی مبتدائے بے خبر ہوکر
مبارک نام ِ آزادی ،سلامت دامِ آزادی
دعائیں دوں کسے یارب اسیرِ بال و پر ہوکر
نگاہِ یاس ؔکا عالم جو آگے تھا سو اب بھی
ہزاروں گل کھلے بازیچۂ شام و سحر ہوکر
٭٭٭
دل لگانے کی جگہ عالمِ ایجاد نہیں
خواب آنکھوں نے بہت دیکھے مگر یاد نہیں
تلملانے کا مزہ کچھ نہ تڑپنے کا مزہ
ہیچ ہے دل میں اگر دردِ خداداد نہیں
سر شوریدہ سلامت ہے مگر کیا کہیے
دستِ فرہاد نہیں تیشۂ فرہاد نہیں
نکہتِ گل کی ہے رفتار ،ہوا کی پابند
روح قالب سے نکلنے پہ بھی آزاد نہیں
فکرِ امروز نہ اندیشۂ فردا کی خلش
زندگی اس کی جسے موت کا دن یاد نہیں
٭٭٭
ہے جان کے ساتھ اور ایمان کا ڈر بھی
وہ شوخ کہیں دیکھ نہ لے مڑکے ادھر بھی
وہ کشمکشِ غم ہے کہ میں کہہ نہیں سکتا
آغاز کا افسوس اور انجام کا ڈر بھی
دیکھے کوئی جاتی ہوئی دنیا کا تماشا
بیمار بھی سر دھنتا ہے اور شمع سحر بھی
صحرا کی ہوا کھینچے لیے جاتی ہے مجھ کو
کہتا ہے وطن دیکھ ذرا پھر کے ادھر بھی
کیا وعدۂ دیدار کو سچ جانتے ہو یاسؔ
لو فرض کرو آئی قیامت کی سحر بھی
٭٭٭
انوکھی معرفت اندھوں کو حاصل ہوتی جاتی ہے
حقیقت تھی جو کل تک آج باطل ہوتی جاتی ہے
بلندی کیا ہے پستی کیا، ہوا کی کار فرمائی
سراسر موجِ دریا غرقِ ساحل ہوتی جاتی ہے
کہاں لے جائے گی یہ وسعتِ آفاق کیا جانے
مکان و لا مکاں سے دور منزل ہوتی جاتی ہے
مجھے دیکھو تو سمجھو حسن کے معنیِ وجدانی
وہ معنی جس سے روشن خلوت ِ دل ہوتی جاتی ہے
یگانہؔ لکھنؤ کی سیر کر آتے تو اچھا تھا
طبیعت سان پر چڑھنے کے قابل ہوتی جاتی ہے
٭٭٭
جان پیاری ہے حیاتِ جاوداں پیاری نہیں
زندگی کیا موت کی جب گرم بازاری نہیں
صبر کہتا ہے کہ رفتہ رفتہ مٹ جائے گا داغ
دل یہ کہتا ہے کہ بجھنے کی یہ چنگاری نہیں
جلوہ گر رہنے لگا چشمِ تصور میں کوئی
حضرتِ دل بے سبب راتوں کی بیداری نہیں
چھوڑ کر جائیں کہاں اب اپنے ویرانے کو ہم
کون سی جا ہے جہاں حکمِ خزاں جاری نہیں
جھیل لیں گے ہجر کے مارے قیامت کا بھی دن
آج کی شب تو کٹے پھر کوئی دشواری نہیں
٭٭٭
ازل سے سخت جاں آمادۂ صد امتحاں آئے
عذابِ چند روزہ یا عذابِ جاوداں آئے
بہارستانِ عبرت میں یہ گل کیا خار کیا خس کیا
سراپا سب کے سب آلودۂ رنگِ خزاں آئے
حق اپنی دھن کا پکّا باطل اپنے زعم میں پورا
الہیٰ گفتگوئے صلح کیوں کر درمیاں آئے
خیالِ خام ہے یا معنیِ موہوم کیا جانیں
سمجھ میں رازِ فردا کیوں نصیبِ دشمناں آئے
حریمِ ناز کیا ہے جلوہ گاہِ بے تماشا ہے
نگاہِ یاسؔ کہتی ہے کدھر آئے کہاں آئے
رباعیات

دل کیا ہے اک آگ ہے دہکنے کے لیے
دنیا کی ہوا کھاکے بھڑکنے کے لیے
یا غنچۂ سربستہ چٹکنے کے لیے
یا خار ہے پہلو میں کھٹکنے کے لیے
٭٭٭
منزل کا پتہ ہے نہ ٹھکانا معلوم
جب تک نہ ہو گم ، راہ پہ آنا معلوم
کھولیتا ہے انسان تو کچھ پاتا ہے
کھویا ہی نہیں تونے تو پانا معلوم
٭٭٭
کیوں مطلبِ ہستی و عدم کھُل جاتا
کیوں رازِ طلسمِ کیف و کم کھُل جاتا
کانوں نے جو سن لیا وہی کیا کم ہے
آنکھیں کھلتیں تو سب بھرم کھُل جاتا
٭٭٭
صیّادِ ازل کی شعبدہ کاری ہے
آزادی کیا ، عین گرفتاری ہے
اسرارِ طلسمِ زندگی کیا کہیے
یہ رات کٹی تو کل کا دن بھاری ہے
٭٭٭
چارہ نہیں جلتے رہنے کے سوا
سانچے میں فنا کے ڈھلتے رہنے کے سوا
اے شمع تری حیاتِ فانی کیا ہے
جھونکا کھانے سنبھلتے رہنے کے سوا
٭٭٭
تھمنے کا نہیں قافلۂ موجِ سراب
کٹنے کا نہیں مرحلۂ موجِ سراب
آغاز ہی آغاز ہے انجام کجا
عالم ہے عجب سلسلۂ موجِ سراب
٭٭٭
ہوں صید کبھی اور کبھی صیاد ہوں میں
کچھ بھی نہیں بازیچۂ اضداد ہوں میں
مختار مگر اپنی حدوں میں محدود
ہاں وسعتِ زنجیر تک آزاد ہوں میں
٭٭٭
ہر رنگ کو کہتا ہے فریبِ نظری
ہر بو کو ہوائے منزلِ بے خبری
ہر حسن کو فلسفی کی آنکھوں سے نہ دیکھ
دشمن کو مبارک ہو یہ بالغ نظری
٭٭٭
یارانِ چمن یہ رنگ و بو مجھ سے ہے
تم سے کیا ہوگا لکھنؤ مجھ سے ہے
میں جانِ سخن ہوں بلکہ ایمانِ سخن
دنیائے ادب کی آبرو مجھ سے ہے

Shahper Rasool Ki Muntakhab Ghazlen

Articles

شہپر رسول کی منتخب غزلیں

شہپر رسول

(۱)
بد دعا اس نے مجھے دی تھی دعا دی میں نے
اس نے دیوار اٹھائی تھی گرا دی میں نے

خانۂ خواب سے نکلا تھا مگر وحشت میں
پھر سے زنجیرِ درِ خواب ہلا دی میں نے

شہر سے میرے تعلق کا سبب پوچھا گیا
سادگی میں تری تصویر بنا دی میں نے

چاندنی آئے اسے نور میں نہلا ڈالے
پھر دریچے میں کوئی یاد سجا دی میں نے

اس نے سیلاب کی تصویر بنا بھیجی تھی
اسی کاغذ سے مگر ناؤ بنا دی میں نے
٭٭٭

(۲)
پھیلتا خموشی میں نقطۂ صدا پایا
اک سفید صفحے سے لفظ کا پتا پایا

تم سا اس زمانے میں کس نے معجزہ پایا
شکل بھی بھلی پائی دل بھی آئینہ پایا

فکر تھی بلند اپنی اور قدم خلا میں تھے
جب زمیں پر آئے تب ہم نے راستہ پایا

بس شکایتوں پر ہی دوستی رہی قائم
وہ بھی کتنا آ پائے میں بھی کتنا جا پایا

شوق اور خواہش کا امتیاز تو دیکھو
اک رکا ہے منزل پر اک نے راستہ پایا

یہ تضاد بھی شہپرؔ زندگی نے دیکھا ہے
چال میں انا دیکھی سر جھکا ہوا پایا
٭٭٭

(۳)
دل میں شعلہ تھا سو آنکھوں میں نمی بنتا گیا
یاد کا بے نام جگنو روشنی بنتا گیا

ایک آنسو اجنبیت کا ندی بنتا گیا
ایک لمحہ تھا تکلف کا صدی بنتا گیا

کیا لبا لب روز و شب تھے اور کیا وحشی تھا میں
زندگی سے دور ہوکر آدمی بنتا گیا

کب جنو ں میں کھنچ گئی پیروں سے ارض اعتدال
اور اک یوں ہی سا جذبہ عاشقی بنتا گیا

زندگی نے کیسے رازوں کی پٹاری کھول دی
آگہی کا ہر تیقن گمرہی بنتا گیا

شہر کا چہرہ سمجھ کر دیکھتے تھے سب اُسے
اور وہ خود سے بھی شہپرؔ اجنبی بنتا گیا
٭٭٭

(۴)
نہ آنکھ اُٹّھی کسی لفظِ بے ضرر کی طرف
نہ سنگ آئے کبھی شاخِ بے ثمر کی طرف

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے، قدم سفر کی طرف

اِس ایک وہم میں چُپ چُپ ہیں سوکھتی شاخیں
طیور لوٹ نہ آئیں کہیں شجر کی طرف

چلی ہی آئی بالآخر کئی ارادوں سے
خبر حصار لیے مجھ سے بے خبر کی طرف

یہ معجزہ ہے کہ سنیے میں تیر بیٹھ گیا
اگرچہ اُس کا نشانہ تھا میرے سر کی طرف
٭٭٭

(۵)
خوش یقینی میں یوں خلل آیا
کچھ نکلنا تھا کچھ نکل آیا

میں نے بھی دیکھنے کی حد کر دی
وہ بھی تصویر سے نکل آیا

آج کل آج کل میں ڈھلتے رہے
آج آیا نہ کوئی کل آیا

خود سے لڑتے رہے الجھتے رہے
صبر آیا کہ حل نکل آیا

مجھ کو تسخیر کرنا تھا شہپرؔ
مجھ سے آگے وہ کیوں نکل آیا
٭٭٭

(۶)
میری نظر کا مدعا اُس کے سوا کچھ بھی نہیں
اُس نے کہا کیا بات ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں

ہر ذہن کو سودا ہوا ہر آنکھ نے کچھ پڑھ لیا
لیکن سرِقرطاسِ جاں میں نے لکھا کچھ بھی نہیں

دیوارِ شہرِ عصر پر کیا قامتیں چسپاں ہوئیں
کوشش تو کچھ میں نے بھی کی لیکن بنا کچھ بھی نہیں

جس سے نہ کہنا تھا کبھی جس سے چھپانا تھا سبھی
سب کچھ اُسی سے کہہ دیا مجھ سے کہا کچھ بھی نہیں

چلنا ہے راہِ زیست میں اپنے ہی ساتھ اک عمر تک
کہنے کو ہے اک واقعہ اور واقعہ کچھ بھی نہیں

اب کے بھی اک آندھی چلی اب کے بھی سب کچھ اُڑ گیا
اب کے بھی سب باتیں ہوئیں لیکن ہُوا کچھ بھی نہیں

دل کو بچانے کے لیے جاں کو سپر کرتے رہے
لوگوں سے آخر کیا کہیں شہپر بچا کچھ بھی نہیں
٭٭٭

(۷)
کہاں کوئی جو زباں بھی جگر بھی رکھتا ہو
پھر اپنے ہاتھ بھی گردن بھی سر بھی رکھتا ہو

خموش ہونٹ بھی عرضِ ہنر بھی رکھتا ہو
تغیرات پہ گہری نظر بھی رکھتا ہو

کئی امیدیں بجھاتا ہو ایک جنبش میں
کئی چراغ سرِ رہگزر بھی رکھتا ہو

لہو میں پلتی ہوں آزادیاں بھی اس کے، مگر
قفس میں خوش بھی ہو اور بال و پَر بھی رکھتا ہو

کبھی تو ہجر کے محور میں قید ہو جائے
کبھی وصال کا لمبا سفر بھی رکھتا ہو

سفر کا شوق بھی رکھتا ہو اپنے سینے میں
عذابِ ہمسفری سے مفر بھی رکھتا ہو
٭٭٭

(۸)
پھر سے وہی حالات ہیں، امکاں بھی وہی ہے
ہم بھی ہیں وہی، مسئلۂ جاں بھی وہی ہے

کچھ بھی نہیں بدلا ہے یہاں، کچھ نہیں بدلا
آنکھیں بھی وہی، خوابِ پریشاں بھی وہی ہے

یہ جال بھی اُس نے ہی بچھایا تھا، اُسی نے
خوش خوش بھی وہی شخص تھا، حیراں بھی وہی ہے

اے وقت! کہیں اور نظر ڈال، یہ کیا ہے
مدّت کے وہی ہاتھ، گریباں بھی وہی ہے

ہر تیر اُسی کا ہے، ہر اک زخم اُسی کا
ہر زخم پہ انگشت بدنداں بھی وہی ہے

کل شام جو آنکھوں سے چھلک آیا تھا میری
تم خوش ہو کہ اِس شام کا عنواں بھی وہی ہے

شہپرؔ وہی بھولا ہوا قصّہ ، وہی پھر سے
اچّھا ہے تری شان کے شایاں بھی وہی ہے

Ghazals by Akhtar Muslami

Articles

اختر مسلمی کی منتخبہ غزلیں

اختر مسلمی

(۱)
ہر شب تارِ خزاں صبح بہاراں کردیں
خارِ بے جاں کو بھی رشک چمنستاں کردیں

کر کے رنگیں در و دیوار لہو سے اپنے
ہم اگر چاہیں تو زنداں کو گُلستاں کردیں

عیش میں اپنے نہ ہو جن کو غریبوں کا خیال
اُن کے ہر عیش کا شیرازہ پریشاں کردیں

چیخ چیخ اُٹھتے ہیں جس درد کی بیتابی سے
دلِ مظلوم کے اس درد کا درماں کردیں

کر کے باطل کے خدائوں کی خدائی نابود
دوستو آئو علاجِ غمِ دوراں کردیں

ہر طرف بغض و عداوت کی گھٹا چھائی ہے
دہر میں شمعِ محبت کو فروزاں کردیں

ہے اخوّت کا اثر جن کے دلوں سے مفقود
ان درندہ صفت انسانوں کو انساں کردیں

ظلمتِ شب میں بھٹکتا ہے زمانہ اخترؔ
آئو ہر ذرّے کو خورشید درخشاں کردیں
———

(۲)
غم کی خلش بھی رہتی ہے شاید خوشی کے ساتھ
آنکھوں سے اشک بہتے ہیں اکثر ہنسی کے ساتھ

ظاہر ہے التفاتِ نظر بے رُخی کے ساتھ
لہجے میں ان کے پیار بھی ہے برہمی کے ساتھ

یہ بارگاہِ حُسن ہے اے چشمِ شوق دیکھ
لازم ہے احترام بھی وارفتگی کے ساتھ
آیا کبھی نہ رازِ محبت زبان تک
اتنا ہے مجھ کو ہوش بھی دیوانگی کے ساتھ

غنچے جو ہیں اُداس تو بے رنگ پھول ہیں
رخصت ہوئی بہار بھی شاید کسی کے ساتھ

طے ہوتے مرحلے نہ کبھی راہِ شوق کے
دیوانگی نہ ہوتی اگر آگہی کے ساتھ

ہر گام رہزنوں سے پڑا سابقہ مجھے
جب راستہ چلا ہوں کبھی راستی کے ساتھ

اخترؔ کہوں نہ شعر تو گُھٹ جائے دم مرا
وابستہ زندگی ہے مری شاعری کے ساتھ
———-
(۳)
میں گلہ اگر کروں گا اسے ناروا کہو گے
جو ستم سے مر گیا تو مجھے بے وفا کہو گے

مجھے تم سے ہے جو نسبت اسے اور کیا کہو گے
کرم آشنا نہیں تو ستم آ شنا کہو گے

مرے دل کی اُلجھنوں کو مری چشمِ نم سے پوچھو
میں زباں سے کچھ کہوں گا تو اُسے گلہ کہو گے

یہ نہ جانے کون گذرا ابھی جادئہ نظر سے
وہ عجیب نقش پا ہے کہ تم آئینہ کہو گے

میں تو پوجتا ہوں ناصح کسی بُت کو بُت سمجھ کر
تمہیں سابقہ پڑے گا تو اُسے خدا کہو گے

میں بتا ہی دوں نہ اختر ؔتمہیں رازِ نیک نامی
وہ بُرا نہیں کہے گا جسے تم بھلا کہو گے
———-
(۴)
تری جفا پہ گمانِ وفا کیا میں نے
گناہِ عشق کی یوں جھیل لی سزا میں نے

رہِ وفا میں لٹا کر متاعِ قلب و جگر
کیا ہے تیری محبت کا حق ادا میں نے

ہجومِ غم میں نکل آئی ہے جو آہ کبھی
توکی ہے بے اثری کی بھی پھر دعا میں نے

وفا ہو یا کہ جفا جو بھی مل گیا تم سے
ہر اک کو سینے سے اپنے لگا لیا میں نے

جلا کے دل میں تری شمعِ آرزو اے دوست
ہر اک چراغ تمنّا بجھا دیا میں نے

کسی کی چشم ندامت سے پالیا اخترؔ
تمام حسرت ناکام کا صلہ میں نے
———-

(۵)
رہا نہ ضبطِ غمِ دل اگر تو کیا ہوگا
نہ آہ کا بھی ہوا کچھ اثر تو کیا ہوگا

نہ دیکھ یوں نگہ التفات سے اے دوست
یہ کر گئی جو کہیں دل میں گھر تو کیا ہوگا

یہ تارِ اشکِ مسلسل یہ آہ نیم شبی!
کسی کو ہوگئی اس کی خبر تو کیا ہوگا

متاعِ قلب و نظر جھک کے لوٹ لی اس نے
جو اُٹھ گئی نگہہ فتنہ گر تو کیا ہوگا

مرا نہیں نہ سہی تیرا اختیار تو ہے
رہا نہ دل پہ ترا بھی اثر تو کیا ہوگا

یہ تیری یاد کی محویّتیں ارے توبہ
تو آئے، پھر بھی رہوں بے خبر تو کیا ہوگا

ابھی تو ہیں مہ و انجم ہی زد میں انساں کی
یہ بے خبر، جو ہوا باخبر تو کیا ہوگا

سجی ہے گوہرِ فن سے مری غزل اخترؔ
نہ دے گا داد کوئی کم نظر تو کیا ہوگا
——

Ghazals by Irtiza Nishaat

Articles

ارتضیٰ نشاط کی غزلیں

ارتضیٰ نشاط

ارتضیٰ نشاط کی غزلیں

1

مجھے چند باتیں بتا دی گئیں
سمجھ میں نہ آئیں تو لادی گئیں

مسائل کی تہہ تک نہ پہنچا گیا
مصائب کی فصلیں اُگا دی گئیں

بڑا شور گونجا ، بڑا شر اُٹھا
رگیں دکھ رہی تھیں ہلا دی گئیں

سہولت سے مہمان کھیلیں شکار
درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں

سفر واپسی کا بھی ہے ناگزیر
تو پابندیاں کیوں لگا دی گئیں

کڑی دھوپ میں دوپہر کی نشاط
درختوں کی شاخیں جلا دی گیں
———

2

کیا رات کوئی کاٹ سکے رات کی طرح
گھر میں بھرے ہیں لوگ حوالات کی طرح

یہ زندگی کہ جس کا کوئی اُور ہے نہ چھور
ہم سب میں بٹ گئی ہے کرامات کی طرح

یہ دور ، شکر ہے کہ بڑی مدتوں کے بعد
الجھا ہوا ہے میرے خیالات کی طرح

ارمان یوں تو دل کے نکلتے ہیں دوستو
لیکن کسی غریب کی بارات کی طرح

میرے ہی شعر مجھ کو لگے ہیں بصد خلوص
کچھ بے تکے عجیب سوالات کی طرح

مرنے کے بعد خواب میں آتے ہیں کس لیے
ماں باپ بد نصیب علامات کی طرح

حیرت ہے اپنے گھر کے بھی حالات ارتضیٰ
نازک بہت ہیں ، ملک کے حالات کی طرح
———

3

اردو ادب کے ساتھ رہیں پستیاں بہت
ساحر کی اک کتاب بکی تلخیاں بہت

اے دوست بتاﺅ کہ مقصد ہے اس سے کیا
تم ہال میں بچھا تو چکے کرسیاں بہت

میں سو گیا تو خواب میں پیچھا کیا مرا
کل رات مجھ پہ چھائی رہیں مستیاں بہت

رسّی خدا کی ہم بھی پکڑ لیں کہ ان دنوں
بٹنے لگے ہیں لوگ نئی رسّیاں بہت

اس احتمال سے کہ مبادا غلط چلوں
چلتی ہیں میرے ساتھ پریشانیاں بہت

روداد کیا ہے میرے سفر کی ابھی نہ پوچھ
دیکھی نہیں ہیں میں نے ابھی بستیاں بہت

تنگ آکے کینسر نے کہا بند کر نشاط
جب لے چکا شراب کی میں چُسکیاں بہت
———-

4

زندگی ڈوبتی نبضوں کی صدا لگتی ہے
کوئی رد کی ہوئی مخصوص دعا لگتی ہے

پیٹ کی آگ بھی لگتی ہے تو کیا لگتی ہے
نیند بھی سو کے جو اٹھتا ہوں غذا لگتی ہے

جیسے ہر شخص کوئی جرم کیے بیٹھا ہو
گھر میں گھستے ہی عجب گھر کی فضا لگتی ہے

سب سے دلچسپ یہی غم ہے مری بستی کا
موت پسماندہ علاقے میں دوا لگتی ہے

آئیے آج اسی سوچ کو پختہ کرلیں
بے حسی حد سے گزرتی ہے تو کیا لگتی ہے
———-

5

اچانک یوں کوئی بھولا ہوا سا خواب ملتا ہے
سمندر میں سفینہ جس طرح غرقاب ملتا ہے

نہ جانے کیوں تمھارے در پہ آجاتا ہوں میں ورنہ
جہاں میں ہوں ، سکوں میرے لیے بے تاب ملتا ہے

بڑی تیزی سے کشتی ، جس طرف بہتی چلی جائے
ہمیشہ یاد رکھنا اس طرف گرداب ملتا ہے

ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم کھدّر پہنتے ہیں
اسی قیمت پہ لینے جائیں تو کمخواب ملتا ہے

ہمیشہ کے لیے اے کاش یہ لمحے ٹھہر جائیں
کہ میری نیند سے اِس وقت اس کا خواب ملتا ہے

محبت میں ہمیشہ مرتبے نیچے اترتے ہیں
صدف سے ابرِ گوہر بار زیرِ آب ملتا ہے

حقیقت ارتضیٰ کی آم کے پھل کی طرح سمجھو
بہت بکتا ہے لیکن پھر بہت نایاب ملتا ہے
————

6

ایک سے ایک ہے رستم کے گھرانے والا
ہے کوئی قبلہ¿ اول کو چھڑانے والا

قہر آلود نگاہیں ، نہ بڑے دانت مگر
چہرہ چہرہ نظر آتا ہے ڈرانے والا

دھوپ سے آبلے پتھر میں پڑے جاتے ہیں
کون ہے ، کون ہے دنیا کو چلانے والا

میرے چہرے پہ ندامت کی کہانی لکھ کر
آئینہ دیکھنے لگتا ہے دکھانے والا

اپنے سوکھے ہوئے ہونٹوں پہ زباں پھیر چکا
پیاس اک عمر زمانے کی بجھانے والا

خوف کی ایک لہر ریڑھ کی ہڈی میں مری
اور ایک سانپ مرے سر میں خزانے والا

آپ بھی ساتھ اگر ہوں تو مزا آجائے
رات کے ساتھ اندھیرا بھی ہے آنے والا
————-

7

مری زندگی کا عجب بھاﺅ ہے
خدا کی طرح سب کا برتاﺅ ہے

کٹی ہیں پتنگیں تو لوٹی ہے ڈور
نہ جوجھو بہت اس میں الجھاﺅ ہے

بڑی تلخ ہوتی ہے سرکار کی
گلے سے کلیجے تلک گھاﺅ ہے

نہ سوچو کسی میں محبت نہیں
دلوں میں اترتے چلے جاﺅ ، ہے

سمندر میں منجھدار کی راز دار
کنارے پہ ٹوٹی ہوئی ناﺅ ہے

اجل کے ہوئے دستخط اور پھر
نمک ہے نہ زخموں پہ چھڑکاﺅ ہے

سنادی غزل ، خوب تھی ارتضیٰ
مگر اب یہ مونچھوں پہ کیوں تاﺅ ہے
———-

8

نظروں سے گرے دل سے اتر کیوں نہیں جاتے
حد ہوگئی ہم حد سے گزر کیوں نہیں جاتے

وہ قبر نئی کس کی بنی ہے یہ بتا دو ! !
کیا بات ہے دانستہ اُدھر کیوں نہیں جاتے

اُکساتے ہو کیوں غوطہ لگانے پہ ہمیں تم
موتی ہو تو ساحل پہ بکھر کیوں نہیں جاتے

صحرا میں روانی سے گزرنا نہیں ممکن
اے اہل جنوں خاک بسر کیوں نہیں جاتے

محرومی کا اپنی یہ سبب ہے کہ ابھی تک
سوچا ہی نہیں ہم نے کہ مر کیوں نہیں جاتے

ساغر کو مرے موت کے زہراب سے بھر دو
میخانے میں کہتے ہو کہ گھر کیوں نہیں جاتے

اللہ کا ڈر ارتضیٰ جب دل سے نکالا
ہم اپنے ہی پھر سائے سے ڈر کیوں نہیں جاتے
———

9

دیکھئے اور ابھی سامنے آتا کیا ہے
آئینہ دیکھنے والوں کو دکھاتا کیا ہے

ہم کو معلوم ہے پانی پہ کھڑی ہے دنیا
ڈوبنا سب کا مقدر ہے ڈراتا کیا ہے

کیا عجب ہے کہ سفر تیرا سفارت بن جائے
لوٹ کے آنے کی امید میں جاتا کیا ہے

بیل بوٹے سے کوئی راہ میں کاڑھے جیسے
ہر قدم پھول کھلاتا ہے وہ آتا کیا ہے

یاد میری نہ مٹا ، نام مٹا دے میرا
نقش مٹتا ہے تو دیوار گراتا کیا ہے

شاعری ہے کوئی نوشاد کا میوزک تو نہیں
شعر اچھا ہے تو پھر گا کے سناتا کیا ہے

میں تو آدھا نہ رہا ارتضیٰ دے دے کے ادھار
دیکھ لے میری طرف ہاتھ بڑھاتا کیا ہے
———-

10

مجھے بات آگے بڑھانی نہیں ہے
سمندر میں پینے کا پانی نہیں ہے

اٹھوں منہ اندھیرے چلوں سیر کو بھی
مری صبح اتنی سہانی نہیں ہے

بڑا معجزانہ تھا انداز اُن کا
کسی دور میں کوئی ثانی نہیں ہے

خدا کی ہے ، گھر کی ہے ، کچھ دوستو کی
ہماری تو یہ زندگانی نہیں ہے

ضروری سمجھتا ہے تردید ، کردے
حقیقت ہے کوئی کہانی نہیں ہے

ہواﺅں کا رُخ موڑ سکتے ہیں یوں بھی
ہمارا ہنر بادبانی نہیں ہے

قیامت زبردست ہتھیار ہوگا
خدا نے مری بات مانی نہیں ہے

تخلص نشاط اس لیے رکھ لیا ہے
کہ تقدیر میں شادمانی نہیں ہے
——-