Intekhab E Kalam Fani Badauni

Articles

انتخابِ کلام فانی بدایونی

فانی بدایونی

 

1

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا

ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری

ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں

آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں

راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے

ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ

آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی

یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں

سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا

ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں

لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق

دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا

چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ

دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں

کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا

ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں

کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں

دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ

آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ

زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا


2

اے اجل اے جان فانیؔ تو نے یہ کیا کر دیا

مار ڈالا مرنے والے کو کہ اچھا کر دیا

جب ترا ذکر آ گیا ہم دفعتاً چپ ہو گئے

وہ چھپایا راز دل ہم نے کہ افشا کر دیا

کس قدر بے زار تھا دل مجھ سے ضبط شوق پر

جب کہا دل کا کیا ظالم نے رسوا کر دیا

یوں چرائیں اس نے آنکھیں سادگی تو دیکھیے

بزم میں گویا مری جانب اشارا کر دیا

دردمندان ازل پر عشق کا احساں نہیں

درد یاں دل سے گیا کب تھا کہ پیدا کر دیا

دل کو پہلو سے نکل جانے کی پھر رٹ لگ گئی

پھر کسی نے آنکھوں آنکھوں میں تقاضا کر دیا

رنج پایا دل دیا سچ ہے مگر یہ تو کہو

کیا کسی نے دے کے پایا کس نے کیا پا کر دیا

بچ رہا تھا ایک آنسودار و گیر ضبط سے

جوشش غم نے پھر اس قطرے کو دریا کر دیا

فانیؔ مہجور تھا آج آرزو مند اجل

آپ نے آ کر پشیمان تمنا کر دیا


3

لے اعتبار وعدۂ فردا نہیں رہا

اب یہ بھی زندگی کا سہارا نہیں رہا

تم مجھ سے کیا پھرے کہ قیامت سی آ گئی

یہ کیا ہوا کہ کوئی کسی کا نہیں رہا

کیا کیا گلے نہ تھے کہ ادھر دیکھتے نہیں

دیکھا تو کوئی دیکھنے والا نہیں رہا

آہیں ہجوم یاس میں کچھ ایسی کھو گئیں

دل آشنائے درد ہی گویا نہیں رہا

اللہ رے چشم ہوش کی کثرت پرستیاں

ذرے ہی رہ گئے کوئی صحرا نہیں رہا

دے ان پہ جان جس کو غرض ہو کہ دل کے بعد

ان کی نگاہ کا وہ تقاضا نہیں رہا

تم دو گھڑی کو آئے نہ بیمار کے قریب

بیمار دو گھڑی کو بھی اچھا نہیں رہا

فانیؔ بس اب خدا کے لیے ذکر دل نہ چھیڑ

جانے بھی دے بلا سے رہا یا نہیں رہا


4

سوال دید پہ تیوری چڑھائی جاتی ہے

مجال دید پہ بجلی گرائی جاتی ہے

خدا بخیر کرے ضبط شوق کا انجام

نقاب میری نظر سے اٹھائی جاتی ہے

اسی کو جلوۂ ایمان عشق کہتے ہیں

ہجوم یاس میں بھی آس پائی جاتی ہے

اب آ گئے ہو تو اور اک ذرا ٹھہر جاؤ

ابھی ابھی مری میت اٹھائی جاتی ہے

مرے قیاس کو اپنی تلاش میں کھو کر

مرے حواس کو دنیا دکھائی جاتی ہے


5

ہر گھڑی انقلاب میں گزری

زندگی کس عذاب میں گزری

شوق تھا مانع تجلی دوست

ان کی شوخی حجاب میں گزری

کرم بے حساب چاہا تھا

ستم بے حساب میں گزری

ورنہ دشوار تھا سکون حیات

خیر سے اضطراب میں گزری

راز ہستی کی جستجو میں رہے

رات تعبیر خواب میں گزری

کچھ کٹی ہمت سوال میں عمر

کچھ امید جواب میں گزری

کس خرابی سے زندگی فانیؔ

اس جہان خراب میں گزری

Intekhab E Kalam Raes Amrohvai

Articles

رئیس امروہوی کا منتخب کلام

رئیس امروہوی

 

ستمبر 1914ء اردو کے نامور اور منفرد لب ولہجہ کے شاعرو ادیب رئیس امروہوی صاحب کی تاریخ پیدائش ہے۔
رئیس امروہوی کا اصل نام سید محمد مہدی تھا اور وہ امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ سید شفیق حسن ایلیا بھی ایک خوش گو شاعر اور عالم انسان تھے۔ رئیس امروہوی کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل وہ امروہہ اور مراد آباد سے نکلنے والے کئی رسالوں سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی اور روزنامہ جنگ کراچی سے بطور قطعہ نگار اور کالم نگار وابستہ ہوگئے، اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی تا عمر جاری رہی۔
رئیس امروہوی کے شعری مجموعوں میں الف، پس غبار، حکایت نے، لالہ صحرا، ملبوس بہار، آثار اور قطعات کے چار مجموعے شامل ہیں جبکہ نفسیات اور مابعدالطبیعات کے موضوعات پر ان کی نثری تصانیف کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہے۔
22 ستمبر 1988ء کو رئیس امروہوی ایک نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔رئیس امروہوی کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

 

رئیس امروہوی کا منتخب کلام

 

میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا

ایک سایہ مرے عقب میں چلا

صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی

میں اکیلا سوادِ شب میں چلا

جب گھنے جنگلوں کی صف آئی

ایک تارا مرے عقب میں چلا

آگے آگے کوئی بگولا سا

عالمِ مستی و طرب میں چلا

میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا

اور کبھی شدتِ غضب میں چلا

نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں

اور کس شخص کی طلب میں چلا

ایک انجان ذات کی جانب

الغرض میں بڑے تعب میں چلا

———————————

2

صبحِ نَو ہم تو ترے ساتھ نمایاں ہوں گے

اور ہوں گے جو ہلاکِ شبِ ہجراں ہوں گے

میری وحشت میں ابھی اور ترقی ہو گی

تیرے گیسو تو ابھی اور پریشاں ہوں گے

آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات

ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے

عاشقی اور مراحل سے ابھی گزرے گی

امتحاں اور محبت کے مری جاں ہوں گے

قلب پاکیزہ نہاد و دلِ صافی دے کر

آئینہ ہم کو بنایا ہے تو حیراں ہوں گے

صدقۂ تیرگیِ شب سے گلہ سنج نہ ہو

کہ نئے چاند اسی شب سے فروزاں ہوں گے

آج ہے جبر و تشدد کی حکومت ہم پر

کل ہمیں بیخ کنِ قیصر و خاقاں ہوں گے

وہ کہ اوہام و خرافات کے ہیں صیدِ زبوں

آخر اس دامِ غلامی سے گریزاں ہوں گے

صرف تاریخ کی رفتار بدل جائے گی

نئی تاریخ کے وارث یہی انساں ہوں گے

صدمۂ زیست کے شکوے نہ کر اے جانِ رئیسؔ

بخدا یہ نہ ترے درد کا داماں ہوں گے


 

3

سیاہ ہے دلِ گیتی سیاہ تر ہو جائے

خدا کرے کہ ہر اک شام بے سحر ہو جائے

کچھ اس روش سے چلے بادِ برگ ریز خزاں

کہ دور تک صفِ اشجار بے ثمر ہو جائے

بجائے رنگ رگِ غنچہ سے لہو ٹپکے

کھلے جو پھول تو ہر برگِ گل شرر ہو جائے

زمانہ پی تو رہا ہے شرابِ دانش کو

خدا کرے کہ یہی زہر کارگر ہو جائے

کوئی قدم نہ اٹھے سوئے منزل مقصود

دعا کرو کہ ہر اک راہ پُر خطر ہو جائے

یہ لوگ رہگزرِ زیست سے بھٹک جائیں

اجل قوافلِ ہستی کی ہم سفر ہو جائے

بہ قدرِ یک دو نفس بھی گراں ہے زحمتِ زیست

حیاتِ نوعِ بشر اور مختصر ہو جائے


 

4

خاموش زندگی جو بسر کر رہے ہیں ہم

گہرے سمندروں میں سفر کر رہے ہیں ہم

صدیوں تک اہتمامِ شبِ ہجر میں رہے

صدیوں سے انتظارِ سحر کر رہے ہیں ہم

ذرے کے زخم دل پہ توجہ کیے بغیر

درمانِ درد شمس و قمر کر رہے ہیں ہم

ہر چند نازِ حسن پہ غالب نہ آ سکے

کچھ اور معرکے ہیں جو سر کر رہے ہیں ہم

صبحِ ازل سے شام ابد تک ہے ایک دن

یہ دن تڑپ تڑپ کے بسر کر رہے ہیں ہم

کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھ

تخلیقِ کائناتِ دگر کر رہے ہم

اے عرصۂ طلب کے سبک سیر قافلو

ٹھہرو کہ نظم راہ گزر کر رہے ہیں ہم

لکھ لکھ کے اشک و خوں سے حکایاتِ زندگی

آرائشِ کتابِ بشر کر رہے ہیں ہم

تخمینۂ حوادثِ طوفاں کے ساتھ ساتھ

بطنِ صدف میں وزنِ گہر کر رہے ہیں ہم

ہم اپنی زندگی تو بسر کر چکے رئیسؔ

یہ کس کی زیست ہے جو بسر کر رہے ہیں ہم


 

5

چل اے دل!سوئے شہرِ جانانہ چل

بصد شب رَوی ہائے مستانہ چل

یہی ہے تمنائے خواب و خمار

سوئے ارضِ افسون و افسانہ چل

یہی ہے تقاضائے شعر و شباب

سوئے شہرِ مہتاب و مے خانہ چل

بہ تعمیلِ منشورِ مے خانہ اُٹھ

بہ تجدیدِ پیمان و پیمانہ چل

مبارز طلب ہیں حوادث تو کیا؟

رجز پڑھ کے تُو رزم خواہانہ چل

مصائب ہیں ہنگامہ آرا تو ہوں

عَلَم کھول کر فتح مندانہ چل

جو مقصودِ خاطر ہے تنہا روی

تو آزاد و تنہا و یگانہ چل

جو تنہا روی کا سلیقہ نہ ہو

تو انجان راہوں میں تنہا نہ چل

اُٹھا دلق و کشکول و کاسہ اُٹھا

قلندر صفت چَل فقیرانہ چل

دف و چنگ و طاؤس و طنبور و نَے

بہ قانونِ شہرود و شاہانہ چل

شُتر بانِ لیلیٰ کو زحمت نہ دے

رہِ شوق میں بے حجابانہ چل

ابھی منزلیں منزلوں تک نہیں

ابھی دُور ہے شہرِ جانانہ چل

ابھی حُسن کی خیمہ گاہیں کہاں ؟

ابھی اور ویرانہ ویرانہ چل

ابھی شہرِ جاناں کی راہیں کہاں

ابھی اور بیگانہ بیگانہ چل

جَبل در جَبل دَشت در دَشت ابھی

جواں مردِ کہسار! مردانہ چل

وہ بنتِ قبیلہ نہ ہو منتظر

ذرا تیز اے عزمِ مستانہ چل

وہ سلمائے صحرا نہ ہو مضطرب

رَہِ دوست میں عذر خواہانہ چل

حریفوں کی چالوں سے غافل نہ ہو

کٹھن وادیوں میں حریفانہ چل

غزالوں کی آبادیاں ہیں قریب

غزل خوانیاں کر غزالانہ چل

بہت اجنبیت ہے اس شہر میں

چل اے دل! سوئے شہرِ جانانہ چل

——————————-

Intekhab E Kalam Jigar Muradabadi

Articles

انتخابِ کلام جگر مراد آبادی

جگر مراد آبادی

1

نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم اُن میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
شروعِ راہِ محبت، ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں، مسکرائے جاتے ہیں
مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں، دامن چھڑائے جاتے ہیں
جو دل سے اُٹھتے ہیں شعلے وہ رنگ بن بن کر
تمام منظر فطرت پہ چھائے جاتے ہیں
میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں
رواں رواں لئے جاتی ہے آرزوئے وصال
کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں
کہاں منازلِ ہستی، کہاں ہم اہلِ فنا
ابھی کچھ اور یہ تہمت اُٹھائے جاتے ہیں
مری طلب بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اُٹھتے نہیں ہیں اُٹھائے جاتے ہیں
الہٰی ترکِ محبت بھی کیا محبت ہے
بھلاتے ہیں انہیں، وہ یاد آئے جاتے ہیں
سنائے تھے لب ِ نے سے کسی نے جو نغمے
لبِ جگر سے مکرر سنائے جاتے ہیں


 

2

 

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد


 

3

یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پئے سرشار ہو جائے
دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہو جائے
ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہو جائے
جنوں کی رُوحِ خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اُسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے ، نہ توہین جمالِ یار ہو جائے
حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو ؟
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے ؟
معاذ اللہ ، اس کی وارداتِ غم ، معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو ، اور چمن بیزار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اُٹھے
نظر تلوار بن جائے ، نفس جھنکار ہو جائے
یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے


 

4

 

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرا کے پی گیا
زاہد، یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم، بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا


 

5

 

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے، آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت؟
اپنے ہی جلوے، اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت
روح اگر تسکین نہ پائے
کارِ زمانہ جتنا جتنا
بنتا جائے، بگڑتا جائے
ضبط محبت، شرطِ محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے
راہِ جنوں آسان ہوئی ہے
زلف و مژہ کے سائے سائے


 

6

 

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنوارتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے


 

7

 

دل میں کِسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کِتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں
دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں
صرفِ نگاہ و آہ کیے جا رہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جا رہا ہوں میں
ایسی بھی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عِشق کی عظمت کو چار چاند
خود حُسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنیِ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں ، جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغِ راہ کیے جا رہا ہوں میں
معصومیِ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
تنقیدِ حسنِ مصلحت ِ خاصِ عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے رو برو
نادیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گُلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نِباہ کیے جا رہا ہوں میں
یُوں زندگی گزار رہا ہوں میں تیرے بغیر!
جیسے کوئی گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے اَدا ہوا ہے جگر جستجو کا حق
ہر ذرّے کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں


 

8

 

ہم کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں ، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی ، میری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے ، لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں، کوئی نقشِ قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم، روزگار میں! !
تیرا کرم بھی خود جو شریک ِ سفر نہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں


 

9

 

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح زمانہ
یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خُسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے؟
مرا عشق بھی کہانی، ترا حسن بھی فسانہ
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہئیے بہانہ
ترے عشق کی کرامت، یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ
تری دُوری و حضوری کا عجیب ہے یہ عالم
ابھی زندگی حقیقت، ابھی زندگی فسانہ
مرے ہم صفیر بلبل، مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیرِ دشت و دریا، تو اسیرِ آشیانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں ، ہے جو فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا ، مرا غم غمِ زمانہ
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا!
تجھے اے جگر! مبارک یہ شکستِ فاتحانہ


 

10

 

لالہ و گل کو دیکھتے کیا یہ بہار دیکھ کر
رہ گئے بےخودی میں ہم صورتِ یار دیکھ کر
ہائے، وہ جوش ربط و ضبط، ہائے، یہ لاتعلقی!
اشک بھر آئے آنکھ میں کوچۂ یار دیکھ کر
یاد کسی کی آہ، کیا کہہ گئی آ کے کان میں
زورِ جنوں سوا ہوا جوشِ بہار دیکھ کر
شوق نے چٹکیاں سی لیں،حسرتِ دل مچل گئی
میری طرف بڑھا ہوا دامنِ یار دیکھ کر
ان سے بھی ہو سکا نہ ضبط، ان کو بھی رحم آ گیا
پائے برہنہ دیکھ کر، جسمِ فگار دیکھ کر
تھی یہ ہوس کہ دیکھتے خال و خط بہارِ حسن
آنکھیں ہی چوندھیا گئیں جلوۂ یار دیکھ کر

————————

Intekhab E Kalam Saleem Ahmad

Articles

انتخابِ کلام سلیم احمد

سلیم احمد

 

دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں

جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں

غنیم وقت کے حملے کا مجھ کو خوف رہتا ہے
میں کاغذ کے سپاہی کاٹ کر لشکر بناتا ہوں

پرانی کشتیاں ہیں میرے ملاحوں کی قسمت میں
میں ان کے بادباں سیتا ہوں اور لنگر بناتا ہوں

یہ دھرتی میری ماں ہے اس کی عزت مجھ کو پیاری ہے
میں اِس کا سر چھپانے کے لیے چادر بناتا ہوں

یہ سوچا ہے کہ اب خانہ بدوشی کر کے دیکھوں گا
کوئی آفت ہی آ تی ہے اگر میں گھر بناتا ہوں

میرے خوابوں پے جب تِیرہ شبی یلغار کرتی ہے
میں کِرنیں گوندھ کر چاند سے پیکر بناتا ہوں


2

جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے

ہم سے وہ یارِطرحدار نہ سمجھا جائے

اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے

تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے

اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ

شوق کو درخورِ اظہار نہ سمجھا جائے

نالہ بلبل کا جو سنتا ہے تو کھل اُٹھتا ہے گل

عشق کو مفت کی بیگار نہ سمجھا جائے

عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے

حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے

بڑھ چلا آج بہت حد سے جنونِ گستاخ

اب کہیں اس سے سرِ دار نہ سمجھا جائے

دل کے لینے سے سلیمؔ اُس کو نہیں ہے انکار

لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے

—————-
3

ترک ان سے رسم و راہِ ملاقات ہو گئی

یوں مل گئے کہیں تو کوئی بات ہو گئی

دل تھا اُداس عالمِ غربت کی شام تھی

کیا وقت تھا کہ تجھ سے ملاقات ہو گئی

رسمِ جہاں نہ چھوٹ سکی ترکِ عشق سے

جب مل گئے تو پُرسشِ حالات ہو گئی

خو بُو رہی سہی تھی جو تجھ میں خلوص کی

اب وہ بھی نذرِ رسمِ عنایات ہو گئی

وہ دشتِ ہول خیز وہ منزل کی دھن وہ شوق

یہ بھی خبر نہیں کہ کہاں رات ہو گئی

کیوں اضطراب دل پہ تجھے آ گیا یقیں

اے بدگمانِ شوق یہ کیا بات ہو گئی

دلچسپ ہے سلیمؔ حکایت تری مگر

اب سو بھی جا کہ یار بہت رات ہو گئی

——————————-
4

ہر چند ہم نے اپنی زباں سے کہا نہیں

وہ حال کون سا ہے جو تونے سنا نہیں

ایسا بھی اب نہیں ہے کہ نازِ صبا اُٹھائیں

محفل میں دیکھتا ہے تو پہچانتا نہیں

یوں بھی ہزار روگ ہیں دل کو لگے ہوئے

پھر اس پہ یہ ملال کہ وہ پوچھتا نہیں

کتنا دیارِ درد کا موسم بدل گیا

تجھ کو نگاہِ ناز ابھی کچھ پتہ نہیں

تو بدگماں سہی پہ کبھی مل سلیمؔ سے

یہ امرِ واقعہ ہے کہ دل کا بُرا نہیں

———————————
5

جنابِ دل کی بھی خوش فہمیاں بلا کی ہیں

اسی سے داد کے طالب ہیں جس سے شاکی ہیں

جو چپ رہے ہیں کبھی لب بنازِ خوش گوئی

تو اس نگاہ نے ہزار ہا باتیں کی ہیں

خبر تو زُلف کی کچھ دے تری گلی کی ہوا

کہ الجھنیں تو وہی جانِ مبتلا کی ہیں

تمہارے حسن کی باتیں بھی لغزشیں ٹھہریں

تو لغزشیں یہ محبت میں با رہا کی ہیں

Intekhab – e- Kalam Firaq Gorakhpuri

Articles

انتخابِ کلام فراق گورکھپوری

فراق گورکھپوری

1

زیر و بم سے سازِ خلقت کے جہاں بنتا گیا

یہ زمیں بنتی گئی یہ آسماں بنتا گیا

داستانِ جور بے حد خوں سے لکھتا ہی رہا

قطرہ قطرہ اشکِ غم کا بے کراں بنتا گیا

عشقِ تنہا سے ہوئیں آباد کتنی منزلیں

اک مسافر کارواں در کارواں بنتا گیا

میں ترے جس غم کو اپنا جانتا تھا وہ بھی تو

زیبِ عنوانِ حدیثِ دیگراں بنتا گیا

بات نکلے بات سے جیسے وہ تھا تیرا بیاں

نام تیرا داستاں در داستاں بنتا گیا

ہم کو ہے معلوم سب رودادِ علمِ و فلسفہ

ہاں ہر ایمان و یقیں وہم و گماں بنتا گیا

میں کتاب دل میں اپنا حالِ غم لکھتا رہا

ہر ورق اک بابِ تاریخِ جہاں بنتا گیا

بس اسی کی ترجمانی ہے مرے اشعار میں

جو سکوتِ راز رنگیں داستاں بنتا گیا

میں نے سونپا تھا تجھے اک کام ساری عمر میں

وہ بگڑتا ہی گیا اے دل کہاں بنتا گیا

وارداتِ دل کو دل ہی میں جگہ دیتے رہے

ہر حسابِ غم حسابِ دوستاں بنتا گیا

میری گھٹی میں پڑی تھی ہو کے حل اردو زباں

جو بھی میں کہتا گیا حسنِ بیاں بنتا گیا

وقت کے ہاتھوں یہاں کیا کیا خزانے لٹ گئے

ایک تیرا غم کہ گنجِ شائگاں بنتا گیا

سر زمینِ ہند پر اقوامِ عالم کے فراقؔ

قافلے بستے گئے، ہندوستاں بنتا گیا

2

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا

حجاب اہلِ محبت کو آئے ہیں کیا کیا

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلوئوں کی

چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

دو چار برقِ تجلی سے رہنے والوں نے

فریب نرم نگاہی کے کھائے ہیں کیا کیا

دلوں پہ کرتے ہوئے آج آتی جاتی چوٹ

تری نگاہ نے پہلو بچائے ہیں کیا کیا

نثار نرگس میگوں کہ آج پیمانے

لبوں تک آئے ہوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا

وہ اک ذرا سی جھلک برق کم نگاہی کی

جگر کے زخم نہاں مسکرائے ہیں کیا کیا

چراغ طور جلے آئینہ در آئینہ

حجاب برق ادا نے اٹھائے ہیں کیا کیا

بقدرِ ذوق نظر دید حسن کیا ہو مگر

نگاہِ شوق میں جلوے سمائے ہیں کیا کیا

کہیں چراغ، کہیں گل، کہیں دل برباد

خرامِ ناز نے فتنے اٹھائے ہیں کیا کیا

تغافل اور بڑھا اس غزال رعنا کا

فسونِ غم نے بھی جادو جگائے ہیں کیا کیا

ہزار فتنۂ بیدار خواب رنگیں میں

چمن میں غُنچہ گل رنگ لائے ہیں کیا کیا

ترے خلوص نہاں کا تو آہ کیا کہنا

سلوک اُچٹے بھی دل میں سمائے ہیں کیا کیا

نظر بچا کے ترے عشوہ ہائے پنہاں نے

دلوں میں درد محبت اٹھائے ہیں کیا کیا

پیام حسن، پیام جنوں، پیام فنا

تری نگہ نے فسانے سنائے ہیں کیا کیا

تمام حسن کے جلوے تمام محرومی

بھرم نگاہ نے اپنے گنوائے ہیں کیا کیا

فراقؔ راہ و فا میں سُبک روی تیری

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

3

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

مری نظریں بھی ایسے کافروں کی جان و ایماں ہیں

نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں

جسے کہتی ہے دنیا کامیابی وائے نادانی

اسے کن قیمتوں پر کامیاب انسان لیتے ہیں

نگاہِ بادہ گوں یوں تو تری باتوں کا کیا کہنا

تری ہر بات لیکن احتیاطاً چھان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان راتوں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا

اسے بھی کیسے کر گزریں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

حیاتِ عشق کااک اک نفس جامِ شہادت ہے

وہ جانِ ناز برداراں کوئی آسان لیتے ہیں

ہم آہنگی میں بھی اک چاشنی ہے اختلافوں کی

مری باتیں بہ عنوانِ دگر، وہ مان لیتے ہیں

تری مقبولیت کی وجہ واحد تیری رمزیت

کہ اس کو مانتے ہی کب ہیں جس کو جان لیتے ہیں

اب اس کو کفر مانیں یا بلندیِ نظر جانیں

خدائے دوجہاں کو دے کے ہم انسان لیتے ہیں

جسے صورت بتاتے ہیں پتہ دیتی ہے سیرت کا

عبارت دیکھ کر جس طرح معنی جان لیتے ہیں

تجھے گھاٹا نہ ہونے دیں گے کاروبارِ الفت میں

ہم اپنے سر ترا اے دوست ہر نقصان لیتے ہیں

ہماری ہر نظر تجھ سے نئی سوگند کھاتی ہے

تو تیری ہر نظر سے ہم نیا پیمان لیتے ہیں

رفیقِ زندگی تھی اب انیسِ وقتِ آخر ہے

ترا اے موت ہم یہ دوسرا احسان لیتے ہیں

زمانہ وارداتِ قلب سننے کو ترستا ہے

اسی سے تو سر آنکھوں پر مرا دیوان لیتے ہیں

فراقؔ اکثر بدل کر بھیس ملتا ہے کوئی کافر

کبھی ہم جان لیتے ہیں کبھی پہچان لیتے ہیں

4

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اِس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں

لیکن اس جلوہ گہِ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

شکوۂ جَور کرے کیا کوئی اُس شوخ سے جو

صاف قائل بھی نہیں صاف مکرتا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ اب مجھ سے تری رنجش بیجا بھی نہیں

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

آج غفلت بھی اُن آنکھوں میں ہے پہلے سے سوا

آج ہی خاطِرِ بیمار شکیبا بھی نہیں

بات یہ ہے کہ سکونِ دل وحشی کا مقام

کنج زنداں بھی نہیں وسعت صحرا بھی نہیں

’’ارے صیاد ہمیں گل ہیں ہمیں بلبل ہیں‘‘

تونے کچھ آہ سنا بھی نہیں دیکھا بھی نہیں

آہ یہ مجمع احباب یہ بزمِ خاموش

آج محفل میں فراقِؔ سخن آرا بھی نہیں

5

نرم فضا کی کروٹیں دل کو دکھا کے رہ گئیں

ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں

شام بھی تھی دھواں دھواں حُسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں

مجھ کو خراب کر گئیں نیم نگاہیاں تری

مجھ سے حیات و موت بھی آنکھیں چرا کے رہ گئیں

حسنِ نظر فریب میں کس کو کلام تھا مگر

تیری ادائیں آج تو دل میں سما کے رہ گئیں

تب کہیں کچھ پتہ چلا صدق و خلوص حُسن کا

جب وہ نگاہیں عشق سے باتیں بنا کے رہ گئیں

تیرے خرامِ ناز سے آج وہاں چمن کھِلے

فصلیں بہار کی جہاں خاک اُڑا کے رہ گئیں

پوچھ نہ اُن نگاہوں کی طرفہ کرشمہ سازیاں

فتنے سلا کے رہ گئیں فتنے جگا کے رہ گئیں

تاروں کی آنکھ بھی بھر آئی میری صدائے درد پر

اُن کی نگاہیں بھی ترا نام بتا کے رہ گئیں

اُف یہ زمیں کی گردشیں، آہ یہ غم کی ٹھوکریں

یہ بھی تو بختِ خفتہ کے شانے ہلا کے رہ گئیں

اور تو اہلِ درد کو، کون سنبھالتا، بھلا

ہاں، تیری شادمانیاں اُن کو رُلا کے رہ گئیں

یاد کچھ آئیں اس طرح بھولی ہوئی کہانیاں

کھوئے ہوئے دلوں میں آج درد اُٹھا کے رہ گئیں

سازِ نشاطِ زندگی آج لرز لرز اُٹھا

کس کی نگاہیں عشق کا درد سُنا کے رہ گئیں

تم نہیں آئے اور رات رہ گئی راہ دیکھتی

تاروں کی محفلیں بھی آج آنکھیں بچھا کے رہ گئیں

جھوم کے پھر چلیں ہوائیں وجد میں آئیں پھر فضائیں

پھر تری یاد کی گھٹائیں سینوں پہ چھا کے رہ گئیں

قلب و نگاہ کی یہ عید ، اُف یہ مآلِ قرب و دید

چرخ کی گردشیں تجھے مجھ سے چھپا کے رہ گئیں

پھر ہیں وہی اُداسیاں پھر وہی سونی کائنات

اہلِ طرب کی محفلیں رنگ جما کے رہ گئیں

کون سکون دے سکا، غم زدگانِ عشق کو

بھیگتی راتیں بھی فراقؔ آگ لگا کے رہ گئیں

6

شامِ غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

یہ سکوتِ ناز یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکستِ ساز کی باتیں کرو

نکہت زلفِ پریشاں داستانِ شام غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

ہر رگِ دل و جد میں آتی رہے دکھتی رہے

یونہی اس کے جا و بیجا ناز کی باتیں کرو

جو عدم کی جان ہے جو ہے پیام زندگی

اُس سکوتِ راز اس آواز کی باتیں کرو

عشق رسوا ہو چلا بے کیف سا بیزار سا

آج اس کی نرگس غماّز کی باتیں کرو

نام بھی لینا ہے جس کا اک جہانِ رنگ و بو

دوستو! اس نو بہارِ ناز کی باتیں کرو

کس لئے عذرِ تغافل کس لئے الزامِ عشق

آج چرخِ تفرقہ پرواز کی باتیں کرو

کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نو رسا

کچھ فضا کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو

جو حیاتِ جاوداں ہے جو ہے مرگِ ناگہاں

آج کچھ اُس ناز اس انداز کی باتیں کرو

عشق بے پروا بھی اب کچھ ناشکیبا ہو چلا

شوخیِ حسنِ کرشمہ ساز کی باتیں کرو

جس کی فرقت نے پلٹ دی عشق کی کایا فراقؔ

آج اس عیسیٰ نفس دم ساز کی باتیں کرو

7

رُکی رُکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی

وہ پو پھٹی وہ نئی زندگی نظر آئی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی، نہ ساتھ

مسافروں سے کہو اُس کی رہ گزر آئی

فضا تبسّمِ صبحِ بہار تھی لیکن

پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی

کہیں زمان و مکاں میں ہے نام کو بھی سکوں

مگر یہ بات محبت کی بات پر آئی

کسی کی بزمِ طرب میں حیات بٹتی تھی

امید واروں میں کل موت بھی نظر آئی

کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا

کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

دلوں میں آج تیری یاد مدّتوں کے بعد

بہ چہرۂ متبسّم، بہ چشمِ تر آئی

نیا نہیں ہے مجھے مرگِ ناگہاں کا پیام

ہزار رنگ سے اپنی مجھے خبر آئی

فضا کو جیسے کوئی راگ چیرتا جائے

تری نگاہ دلوں میں یوں ہی اُتر آئی

ذرا وصال کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی نکھر آئی

تیرا ہی عکس سرشکِ غمِ زمانہ تھا

نگاہ میں تری تصویر سی اُتر آئی

عجب نہیں کہ چمن در چمن بنے ہر پھول

کلی کلی کی صبا جاکے گود بھر آئی

شبِ فراقؔ اُٹھے دل میں اور بھی کچھ درد

کہوں یہ کیسے تیری یاد رات بھر آئی

8

بحثیں چھڑی ہوئی ہیں حیات و ممات کی

سو بات بن گئی ہے فراقؔ ایک بات کی

سازِ نوائے درد حجاباتِ دہر ہیں

کتنی دُکھی ہوئی ہیں رگیں کائنات کی

رکھ لی جنھوں نے کشمکشِ زندگی کی لاج

بیدر دیاں نہ پوچھئے ان سے حیات کی

یوں فرطِ بیخودی سے محبت میں جان دے

تجھ کو بھی کچھ خبر نہ ہو اس واردات کی

ہے عشق اِس تبسّمِ جاں بخش کا شہید

رنگیناں لئے ہے جو صبحِ حیات کی

چھیڑا ہے دردِ عشق نے تارِ رگِ عدم

صورت پکڑ چلی ہیں نوائیں حیات کی

شامِ ابد کو جلوۂ صبحِ بہار دے

روداد چھیڑ زندگیِ بے ثبات کی

اس بزمِ بیخودی میں وجود و عدم کہاں

چلتی نہیں ہے سانس حیات و ممات کی

سو درد اک تبسّمِ پنہاں میں بند ہیں

تصویر ہوں فراقؔ نشاطِ حیات کی

9

رسم و راہِ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو

ٹوٹ جاتی ہے ہر اک زنجیر وحشت بھی تو ہو

زندگی کیا، موت کیا، دو کروٹیں ہیں عشق کی

سونے والے چونک اٹھیں گے قیامت بھی تو ہو

’’ہر چہ باداباد‘‘کے نعروںسے دنیا کانپ اٹھی

عشق کے اتنا کوئی برگشتہ قسمت بھی تو ہو

کار زارِ دہر میں ہر کیف ہر مستی بجا

کچھ شریک بیخودی رندانہ جرأت بھی تو ہو

کم نہیں اہلِ ہوس کی بھی خیال آرائیاں

یہ فناکی حد سے بھی بڑھ جائیں ہمت بھی تو ہو

کچھ اشاراتِ نہاں ہوں تو نگاہ ناز کے

بھانپ لیں گے ہم یہ محفل رشکِ خلوت بھی تو ہو

اب توکچھ اہل رضا بھی ہو چلے مایوس سے

ہر جفائے ناروا کی کچھ نہایت بھی تو ہو

ہرنفس سے آئے بوئے آتشِ سیالِ عشق

آگ وہ دل میں لہومیں وہ حرارت بھی تو ہو

یہ ترے جلوے یہ چشمِ شوق کی حیرانیاں

برقِ حسنِ یار نظارے کی فرصت بھی تو ہو

گردشِ دوراں میں اک دن آرہے گا ہوش بھی !

ختم اے چشم سیہ یہ دور غفلت بھی تو ہو

ہر دلِ افسردہ سے چنگاریاں اڑ جائیں گی

کچھ تری معصوم آنکھوںمیں شرارت بھی تو ہو

اب وہ اتنا بھی نہیں بیگانہ وجہ ملال

پرسش غم اس کو آتی ہے ضرورت بھی تو ہو

ایک سی ہیں اب تو حسن وعشق کی مجبوریاں

ہم ہوں یا تم ہو وہ عہدِ بافراغت بھی تو ہو

دیکھ کر رنگِ مزاج یار کیا کہیے فراقؔ

اس میں کچھ گنجائشِ شکر و شکایت بھی تو ہو

10

آئی ہے کچھ نہ پوچھ قیامت کہاں کہاں

اُف لے گئی ہے مجھ کو محبت کہاں کہاں

بیتابی و سکوں کی ہوئیں منزلیں تمام

بہلائے تجھ سے چھُٹ کے طبیعت کہاں کہاں

فرقت ہو یا وصال وہی اضطراب ہے

تیرا اثر ہے اے غمِ فرقت کہاں کہاں

ہر جنبشِ نگاہ میں صد کیفِ بیخودی

بھرتی پھرے گی حسن کی نیت کہاں کہاں

راہِ طلب میں چھوڑ دیا دل کا ساتھ بھی

پھرتے لیے ہوئے یہ مصیبت کہاں کہاں

دل کے اُفق تک اب تو ہیں پرچھائیاں تری

لے جائے اب تو دیکھ یہ وحشت کہاں کہاں

اے نرگسِ سیاہ بتا دے ترے نثار

کس کس کو ہے یہ ہوش یہ غفلت کہاں کہاں؟

نیرنگِ عشق کی ہے کوئی انتہا کہ یہ

یہ غم کہاں کہاں یہ مسرت کہاں کہاں

بیگانگی پر اس کی زمانے سے احتراز

در پردہ اس ادا کی شکایت کہاں کہاں

فرق آ گیا تھا دورِ حیات و ممات میں

آئی ہے آج یاد وہ صورت کہاں کہاں

جیسے فنا بقا میںبھی کوئی کمی سی ہو

مجھ کو پڑی ہے تیری ضرورت کہاں کہاں

دنیا سے اے دل اتنی طبیعت بھری نہ تھی

تیرے لئے اُٹھائی ندامت کہاں کہاں!

اب امتیازِ عشق و ہوس بھی نہیں رہا

ہوتی ہے تیری چشمِ عنایت کہاں کہاں

ہر گام پر طریق محبت میں موت تھی

اس راہ میں کھلے درِ رحمت کہاں کہاں

ہوش و جنوں بھی اب تو بس اک بات ہیں فراقؔ

ہوتی ہے اس نظر کی شرارت کہاں کہاں

Intekhab – e – Kalam Qabil Ajmeri

Articles

انتخابِ کلا م قابل اجمیری

قابل اجمیری

 

1
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے

کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیَامت ہے

میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گِر صداقت ہے

جی رہا ہوں اس اعتماد کے سَاتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے

حُسن ہی حُسن جلوے ہی جَلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے

اُس کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و بام سے ندامت ہے

اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے

راستہ کٹ ہی جائے گا قابل
شوقِ منزل اگر سَلامت ہے

2
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے

نامرادی اپنی قسمت ، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے

ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے

اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آ گئے

زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے

رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبہ خاموشِ عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے

خود تمہیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاو¿ ہم جہاں تک آ گئے

آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہ سود و زیاں تک آ گئے

3
آسودگی شوق کا سَاماں نہ کر سکے
جلوے مِری نگاہ پہ احساں نہ کر سکے

تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیئے
لیکن علاجِ تنگئی داماں نہ کر سکے

آنکھوں سے ٹوٹتے رہے تارے تمام رات
لیکن کسی کو زینتِ داماں نہ کر سکے

شائستہِ نشاطِ ملامت کہاں تھے ہم
اچھا ہوا کہ چاک گریباں نہ کر سکے

اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیازِ ساحل و طوفاں نہ کر سکے

ہم جانِ رنگ و بو ہیں گلستاں ہمیں سے ہے
یہ اور بات خود کو نمایاں نہ کر سکے

کچھ اس طرح گزر گیا طوفانِ رنگ و بو
غنچے بہار سے کوئی پیماں نہ کر سکے

ہر صبح جاگتا ہوں نئی آرزو کے سَاتھ
غم مجھ کو زندگی سے گریزاں نہ کر سکے

قابل فراقِ دوست میں دل بجھ کے رہ گیا
جینے کے حوصلے بھی فروزاں نہ کر سکے

4
بہاروں کا فسوں ٹوٹا گلستانوں کی نیند آئی
خزاں آئی کہ تیرے چاک دامانوں کو نیند آئی

سُنے کوئی تو سَاحل کا سکوت اب بھی سناتا ہے
ہمیں خاموش کر کے کتنے طوفانوں کو نیند آئی

تِرے ہی حسن کی تابانیوں میں آنکھ کھولی تھی
تِری ہی زلف کے سائے میں ارمانوں کو نیند آئی

یہ اہل بزم کیا خود شمع بھی محروم ہے اس سے
سکونِ دل کے جس عالم میں پروانوں کو نیند آئی

جنوں محوِ تجسس ہے خرد آواز دیتی ہے
نہ جانے کون سے عالم میں دیوانوں کو نیند آئی

ہمارے ساتھ ساری بزم بے آرام ہے سَاقی
صراحی کو سکوں آیا نہ پیمانوں کو نیند آئی

زمانہ دیکھ لے گا اور تھوڑی دیر باقی ہے
ہمیں نیند آ گئی قابل کے طوفانوں کو نیند آئی

5
نئے چراغ لئے شامِ بیکسی آئی
کہ دل بجھا تو ستاروں میں روشنی آئی

جنونِ شوق نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
نگاہِ دوست بھی اکثر تھکی تھکی آئی

ہمارے پاس کہاں آنسو¿وں کی سوغاتیں
کسی کو اپنا بنا کے بڑی ہنسی آئی

جہانِ دار و رسن ہو کہ بزمِ شعر و شراب±
ہمَارے سَامنے اپنی ہی زندگی آئی

تمہَاری یاد کو آرامِ جاں بنایا تھا
تمہَاری یاد بھی لیکن کبھی کبھی آئی

ہزار رنگ دیئے جس نے زندگانی کو
اُسی نظر سے محبت میں سَادگی آئی

مِرے خلوص کا عَالم نہ پوچھئے قابل
شکستِ جَام سے آوازِ زندگی آئی

6
اعتبار نگاہ کر بیٹھے
کتنے جلوے تباہ کر بیٹھے

آپ کا سنگِ در نہیں چمکا
ہم جبینیں سیاہ کر بیٹھے

موت پر مسکرانے آئے تھے
زندگانی تبَاہ کر بیٹھے

شمعِ امید کے اُجالے میں
کتنی راتیں سیاہ کر بیٹھے

صرف عذرِ گناہ ہو نہ سکا
ورنہ سارے گناہ کر بیٹھے

کِس توقع پہ اہل دل قابل
زندگی سے نباہ کر بیٹھے

7
ہم تِری رہگزر میں رہتے ہیں
دونوں عَالم نظر میں رہتے ہیں

تیرے در کا طواف کر کے بھی
فکرِ شام و سحر میں رہتے ہیں

زندگانی کے سب نشیب و فراز
حلقہ چشمِ تر میں رَہتے ہیں

کتنے شعلے سکونِ جَاں بن کر
نرگسِ بے خبَر میں رہتے ہیں

ڈھونڈنے پر کہَاں ملیں گے ہم
راہرو ہیں سفَر میں رہتے ہیں

لاکھ ہم خانماں خراب سہی
حادثوں کی نظرَ میں رہتے ہیں

ایک دن پوچھتی پھرے گی حَیات
اہلِ دل کِس نگر میں رہتے ہیں!

منزلِ زیست کی کشش مت پوچھ
راستے بھی سفر میں رہتے ہیں

صاحبِ درد ہو کے ہم قابل
کوچہ چارہ گر میں رہتے ہیں

8
آپ اپنے رقیب ہوتے ہیں
اہلِ دل بھی عجیب ہوتے ہیں

ہجر کی پُرخلوص راتوں میں
آپ کتنے قرَیب ہوتے ہیں

راحتوں سے گریز ، غم سے فَرار
بعض لمحے عجیب ہوتے ہیں

تم جنہیں عُمر بھر نہیں ملتے
وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں

اہلِ دانش کے قافلے گمُ راہ
منزلوں کے قریب ہوتے ہیں

گردشیں رک گئیں زمَانے کی
آج دو دل قریب ہوتے ہیں

اُس کے طرزِ کلام سے قابل
کتنے وحشی ادیب ہوتے ہیں

9
وہی اضطراب فراق ہے وہی اشتیاقِ وصال ہے
تری جستجو میں جو حال تھا تجھے پا کے بھی وہی حال ہے

نہ مآلِ زیست کی فکر ہے نہ تباہیوں کا خیَال ہے
مجھے صرف اس کا ملال ہے کہ تمہیں بھی میرا ملال ہے

تری آرزو ہی کا فیض ہے تیری یاد ہی کا کمال ہے
کبھی مجھ کو تیرا خیال تھا مگر آج اپنا خیال ہے

نہیں کوئی راہ نما تو کیا ہے خلاف ساری فضا تو کیا
مجھے فکرِ سو دو زیاں ہو کیوں تری یاد شاملِ حال ہے

ہے جنونِ شوق عجب جنوں نہ خلش خلش نہ سکوں سکوں
کبھی خار وجہِ نشاط ہے کبھی پھول وجہِ ملال ہے

مرا حال آج زبوں ہے کیوں مرا درد آج فزوں ہے کیوں
مرے مہرباں مرے چارہ گر تیری آبرو کا سوال ہے

10
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے

مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لئے بھی سوچا میں یاد آیا تو کیا کرو گے

کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاو¿ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے

تمہارے جلووں کی روشنی میں نظر کی حیرانیاں مُسلّم
مگر کسی نے نظر کے بدلے دل آزمایا تو کیا کرو گے

اتر تو سکتے ہو پار لیکن مآل پر بھی نگاہ کر لو
خدا نہ کردہ سکونِ ساحِل نہ راس آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے

ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو ، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے

11
ترے دیار میں ہم سر جھکائے پھرتے ہیں
نگاہِ ناز کے احساں اٹھائے پھرتے ہیں

کسی کی زلف پریشاں کسی کا دامن چاک
جنوں کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں

خیالِ منزل جاناں تری دہائی ہے
ابھی نگاہ میں اپنے پرائے پھرتے ہیں

قدم قدم پہ لیا انتقام دنیا نے!
تجھی کو جیسے گلے سے لگائے پھرتے ہیں

تمہیں خبر بھی ہے یارو کہ دشتِ غربت میں
ہم آپ اپنا جنازہ اٹھائے پھرتے ہیں

نئی سحر کے اجالے بھی اجنبی نکلے!
نگاہِ شوق سے دامن بچائے پھرتے ہیں

جہاں میں آج اندھیروں کا بول بالا ہے
ہم آستیں میں ستارے چھپائے پھرتے ہیں

فراقِ دوست سلامت کہ اہل دِل قابل
نفس نفس کو زمانہ بنائے پھرتے ہیں

12
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی آج ترا قرض چُکا دیتے ہیں

حادثے زیست کی توقیر بڑھا دیتے ہیں
اے غمِ یار تجھے ہم تو دعا دیتے ہیں

کوئے محبوب سے چپ چاپ گزرنے وَالے
عرصہ زیست میں اِک حشر اٹھا دیتے ہیں

تیرے اخلاص کے افسوں ترے وعدوں کے طلسم
ٹوٹ جاتے ہیں تو کچھ اور مزہ دیتے ہیں

ہاں یہی خاک بسر سوختہ ساماں اے دوست
تیرے قدموں میں ستاروں کو جھکا دیتے ہیں

سینہ چاکانِ محبت کو خبر ہے کہ نہیں
شہرِ خوباں کے در و بام صدا دیتے ہیں

ہم نے اُس کے لب و رخسار کو چھو کر دیکھَا
حوصلے آگ کو گلزار بنا دیتے ہیں

13
ٹوٹا نہیں ہے بند قبائے سحر ابھی
نامحرمِ جمال ہے اہلِ نظر ابھی

شاید پھر اس قدر بھی تعلّق نہیں رہے
کچھ لوگ ڈھونڈتے ہیں ترا سنگ در ابھی

کتنی حقیقتیں ہیں توجہ کی منتظر
منزل سے بے نیاز ہے ذوقِ سفر ابھی

خُوشبو روش روش ہے اُجالا ہے شاخ شاخ
گذری ہے گلستاں سے نسیمِ سحر ابھی

احباب کے فریب مُسلسل کے باوجود
کھنچتا ہے دل خلوص کی آواز پر ابھی

کچھ حُسن آ چلا تھا شبِ انتظار میں
کاش اور تھوڑی دیر نہ ہوتی سحر ابھی

انگڑائی لے رہی ہے بہاریں خیال میں
مہکی ہوئی ہے نگہتِ رخ سے نظر ابھی

دل میں مچل رہی ہے مسیحا کی آرزو
قابل نشاطِ درد نہیں معتبر ابھی

14
ازل سے مائلِ پرواز ہوں میں
تری انگڑائیوں ، کا راز ہوں میں

بڑا دلچسپ ہے انجام میرا
غرورِ دوست کا آغاز ہوں میں

ابھی مشکل سے سمجھے گا زمَانہ
نیا نغمَہ نئی آواز ہوں میں

مجھ ہی پر ختم ہیں سَارے ترانے
شکستِ ساز کی آواز ہوں میں

غمِ خود آگہی میں کھو گیَا ہوں
تمنائے نگاہِ ناز ہوں میں !

مجھے کیوں ہو غمِ انجام قابل
خراب عشرتِ آغاز ہوں میں
———————————-

مشمولہ ’’اردو چینل‘‘ شمارہ ۲۸ ۔اس شمارے کی پی ڈی ایف فائل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔

Zauq ki Kuch GhazleN

Articles

انتخابِ کلام ذوق

شیخ محمد ابراہیم ذوق

کسی بے کس کو اے بیداد گر مارا تو کیا مارا​​

جو آپ ہی مر رہا ہو اس کو گر مارا تو کیا مارا​

نہ مارا آپ کو جو خاک ہو اکسیر بن جاتا ​

اگر پارے کو اے اکسیر گر ! مارا تو کیا مار ​

بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا ​

نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا​

خطا تو دل کی تھی قابل ، بہت سی مار کھانے کی ​

تری زلفوں نے مشکیں باندھ کر مارا تو کیا مارا​

نہیں وہ قول کا سچا ، ہمیشہ قول دے دے کر​

جو اس نے ہاتھ میرے ہاتھ پر مارا تو کیا مارا​

تفنگ و تیر تو ظاہر نہ تھے کچھ پاس قاتل کے ​

الٰہی اس نے دل کو تاک کر مارا تو کیا مارا​

ہنسی کے ساتھ یاں رونا ہے مثل قلقل مینا​

کسی نے قہقہہ ،اے بے خبر مارا تو کیا مارا​

مرے آنسو ہمیشہ ہیں برنگ لعل غرق خوں​

جو غوطہ آب میں تو نے گہر مارا تو کیا مارا

جگر دل دونوں پہلو میں ہیں زخمی اس نے کیا جانے​

اِدھر مارا تو کیا مارا ا دھر مارا تو کیا مارا​

گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں​

اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا​

دل سنگینِ خسرو پر بھی ضرب اے کوہکن پہنچی​

اگر تیشہ سرِ کہسار مارا تو کیا مارا​

دل بد خواہ میں تھا مارنا یا چشم ِ بد بیں میں​

فلک پر ذوق تیر ِ آہ گر مارا تو کیا مارا​

……………………………….

لائی حيات آئے ، قضا لے چلي چلے
اپني خوشي نہ آئے نہ اپني خوشي چلے

ہم عمر خضر بھي تو ہو معلوم وقت مرگ
ہم کيا رھے يہاں ابھي آئے ابھي چلے

ہم سے بھي اس بساط پہ کم ہوں گے بد وقمار
جو چال ہم چلے سو نہايت بري چلے

ليلي کا ناقہ دشت ميں تاثير عشق سے
سن کر فغانِ قيس بجائے حدي چلے

نازاں نہ ہو خرد پہ جوہونا ھے ہو وہي
دانش تيري نہ کچھ مري دانش وري چلے

دنيا نے کس کا راہ ميں ديا ہے ساتھ
تم بھي چلے چلو يونہي جب تک چلي چلے

—————————-

 

معلوم جو ہوتا ہميں انجامِ محبت
ليتے نہ کبھي بھول کے ہم نامِ محبت

مانند کباب آگ پہ گرتے ہيں ہميشہ
دل سوز ترے بستر آرامِ محبت

کي جس سے رہ و سم محبت اسے مارا
پيغام قضا ہے ترا پيغامِ محبت

نے زہد سے ھے کام نہ زاہد سے کہ ہم تو
ہيں بادہ کش عشق و مئے جام محبت

ايمان کو غرورکہ کے نہ يوں کفر کو لے مول
کافر نہو گرويدہ اسلام محبت

معراج سمجھ ذوق تو قاتل کي سناں کو
چڑھ سر کے بل سے زينے پہ تا بام محبت

——————————

اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے
مر کے بھي چين نہ پايا تو کدھر جائيں گے

تم نے ٹھرائي اگر غير کے گہر جانے کي
تو ارادے يہاں کچھ اور ٹھر جائيں گے

خالي اے چارہ گر ہوں گے بہت مرہم داں
پر مرے زخم نہيں ايسے کہ بھر جائيں گے

پہنچيں گے رہ گزر يار تلک کيوں کر ہم
پہلے جب تک دو عالم سے گزر جائيں گے

ہم ہيں وہ جو کريں خون کا دعوي تجھ پر
بلکہ پوچہے گا خدا بھي تو مکر جائيں گے

آگ دوزخ کي بھي ہو جائے گي پاني پاني
جب يہ عاصي عرق شرم سے تر جائيں گے

ذوق جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہيں ملا
ان کو مے خانے ميں لے آئو سنور جائيں گے​​​

Intekhab e Kalam Waheed Akhtar

Articles

وحید اختر کا منتخب کلام

وحید اختر

 

 

تم گئے ساتھ اجالوں کا بھی جھوٹا ٹھہرا

روز و شب اپنا مقدر ہی اندھیرا ٹھہرا

 

یاد کرتے نہیں اتنا تو دلِ خانہ خراب

بھولا بھٹکا کوئی دو روز اگر آ ٹھہرا

 

کوئی الزام نسیمِ سحری پر نہ گیا

 پھول ہنسنے پر سزاوار اکیلا ٹھہرا

 

پتیاں رہ گئیں ‘ بُو لے اُڑی آوارہ صبا

قافلہ موجِ صبا کا بس اتنا ٹھہرا

 

روز نظروں سے گذرتے ہیں ہزاروں چہرے

سامنے دل کے مگر ایک ہی چہرہ ٹھہرا

 

وقت بھی سعیِ مداوائے الم کر نہ سکا

جب سے تم بچھڑے ہو خود وقت ہے ٹھہرا ٹھہرا

 

دل ہے وہ موم ‘ ملا ہے جسے شمعوں کا گذار

اب کوئی دیکھے نہ دیکھے یونہی جلنا ٹھہرا

 

تم نے جو شمع جلائی تھی نہ بجھنے پائے

اب تو لے دے کے یہی کام ہمارا ٹھہرا

 

گنگنا لیں گے غزل آج وحید اختر کی

نام لینا ہی جو درپردہ تمہارا ٹھہرا

٭

 

برسی نہیں نغموں کی گھٹائیں کئی دن سے

 سنکی نہیں مدماتی ھوائیں کئی دن سے

 

 لب بستہ ہیں جینے کی دعائیں کئی دن سے

 ناکردہ ہیں معصوم خطائیں کئی دن سے

 

وہ حبس ہے آواز کا دم ٹوٹ رھا ھے

ھر گیت کا ھر ساز کا دم ٹوٹ رھا ھے

٭

 

 

 

نغمہ زنجیر

 

قیدخانے کی دیواریں اونچی تھیں

 در اور دریچے نہ تھے

 روزنوں سے ہوا ‘ روشنی ‘ دھوپ آتی تھی ہزاروں جتن سے

بیڑیاں پیر میں تھیں

 گلے میں تھا طوق گراں

ہاتھ تھے رسیوں سے بندھے

 جسم جکڑا ہوا آہنی زنجیر سے

ہم نے اک عمر اسیری زندان و زنجیر میں کاٹ دی

 

سالہا سال تک

 دھوپ اور روشنی اور ہوا کی اک اک بوند ہم نے سمیٹی

اور اس دولتِ بے بہا سے

 اک مدھم سا شعلہ بنایا

 اسے برسوں اپنے لہو میں تپایا ‘ جلایا

 اسی اک بوند بھر روشنی ہی سے خورشید ڈھالا

اسی اک بوند بھر دھوپ کو شعلگی دی

 اسی اک قطرہ  ہوا کو

 خود اپنے ہی انفاس کی گرمی و تندی و تیزگامی عطا کی

قید خانے میں اتنے ہی ھتھیار آئے میسر ہمیں

 

اور اک روز دیکھا

 شب و روز کی قطرہ قطرہ ٹپکتی ہوئی کاوشِ مستقل نے

 وہ طوق و رسن اور زنجیریں سب کاٹ دیں

 جسم سے خون کا طوفان اٹھا اور دیواریں زندان کی ڈھے گئیں

 سالہا سال زندان میں رھنے کے بعد تیز دھوپ اور تازہ ہوا

 اور اک بے کرن روشنی میں ہم آزاد تھے

 

ہم نے اپنی تئیں اک نئے ہی  سفر کا کیا عزم

 اور ہم جس جگہ بھی گئے

 ایک بے قید و زنجیر دنیا بسائی وہاں

 سالہا سال تک ہم نے تازہ جہانوں کی ڈالی بنا

ہاتھ دیواریں ڈھاتے رہیں

 شعلہ پائے رفتار سے زنجیریں کٹتی ‘ بکھرتی رہیں

 

اور اب تھک کے بیٹھے ہیں جو چند پل کیلئے

دیکھتے ہیں ہمارے ہی اطراف دیواریں پھر سے کھڑی ہو گئیں

جسم پھر سے گرفتارِ زنجیر ہے

 اور پھر دھوپ اور روشنی اور ہوا کی بس ایک بوند اپنے مقدر میں ہے

جسم میں خون کا طوفان سمٹا ھوا

 اور زندان کی خاموشی میں بس اک نوحہ شورِ زنجیر ھے

 

اور اس نغمہ شورِ زنجیر میں ایک آواز کہتی ہے یہ

قید خانے کی دیوار ہے خود تمہارا وجود

یہ گراں بار زنجیر و طوق و رسن ہیں تمہارے ہی انفاس کے سلسلے

 

توڑ دو ساری دیواریں زنجیریں اطراف کی

 اور اپنی تئیں یہ سمجھ لو کہ آزاد ہو پھر بھی آزاد ہو کر جہاں جاؤ گے

 اپنی دیواریں زنجیریں تم ساتھ لے جاؤ گے

تم خود اپنے صیاد بھی ‘ صید بھی

 تم خود ھی اپنی زنجیر بھی اور دیوار بھی

—————

Intekhab e Kalam Saqi Farooqui

Articles

انتخابِ کلام ساقی فاروقی

ساقی فاروقی

 

غزلیں

مجھے خبر تھی مرا انتظار گھر میں رہا
یہ حادثہ تھا کہ میں عمر بھر سفر میں رہا
میں رقص کرتا رہا ساری عمر وحشت میں
ہزار حلقۂ زنجیرِ بام و در میں رہا
ترے فراق کی قیمت ہمارے پاس نہ تھی
ترے وصال کا سودا ہمارے سر میں رہا
یہ آگ ساتھ نہ ہوتی تو راکھ ہوجاتے
عجیب رنگ ترے نام سے ہنر میں رہا
اب ایک وادیِ نسیاں میں چھُپتا جاتا ہے
وہ ایک سایہ کہ یادوں کی رہگزر میں رہا

———-

ریت کی صورت جاں پیاسی تھی آنکھ ہماری نم نہ ہوئی
تیری درد گساری سے بھی روح کی الجھن کم نہ ہوئی
شاخ سے ٹوٹ کے بے حرمت ہیں ویسے بھی بے حرمت تھے
ہم گرتے پتّوں پہ ملامت کب موسم موسم نہ ہوئی
ناگ پھنی سا شعلہ ہے جو آنکھوں میں لہراتا ہے
رات کبھی ہمدم نہ بنی اور نیند کبھی مرہم نہ ہوئی
اب یادوں کی دھوپ چھائوں میں پرچھائیں سا پھرتا ہوں
میں نے بچھڑ کر دیکھ لیا ہے دنیا نرم قدم نہ ہوئی
میری صحرا زاد محبت ابرِ سیہ کو ڈھونڈتی ہے
ایک جنم کی پیاسی تھی اک بوند سے تازہ دم نہ ہوئی

—————–

خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
یہ جدائی ہے کہ نسیاں کا جہنم کوئی
راکھ ہوجائے نہ یادوں کا ذخیرہ اپنا
ان ہوائوں میں یہ سسکی کی صدا کیسی ہے
بین کرتا ہے کوئی درد پرانا اپنا
آگ کی طرح رہے ، آگ سے منسوب رہے
جب اسے چھوڑ دیا خاک تھا شعلہ اپنا
ہم اسے بھول گئے تو بھی نہ پوچھا اس نے
ہم سے کافر سے بھی جزیہ نہیں مانگا اپنا

————

یہ کیا کہ زہرِ سبز کا نشّہ نہ جانیے
اب کے بہار میں ہمیں افسانہ جانیے
جل جل کے لوگ خاک ہوئے نارِ خوف سے
یہ زندگی سراب ہے دریا نہ جانیے
یہ خواب نائے درد ہمیں چشمۂ حیات
ہم لوگ سیر چشم ہیں پیاسا نہ جانیے
اپنے قدم کے ساتھ ہیں آسیب کے قدم
یہ کوچۂ حبیب ہے صحرا نہ جانیے
وہ سحرِ گورکن ہے ، بدن بدحواس ہیں
ہو پُتلیوں میں جان تو مردہ نہ جانیے

—————-

یہ لوگ خواب میں بھی برہنہ نہیں ہوئے
یہ بدنصیب تو کبھی تنہا نہیں ہوئے
یہ کیا کہ اپنی ذات سے بے پردگی نہ ہو
یہ کیا کہ اپنے آپ پر افشا نہیں ہوئے
ہم وہ صدائے آب کہ مٹّی میں جذب ہیں
خوش ہیں کہ آبشار کا نغمہ نہیں ہوئے
وہ سنگ دل پہاڑ کہ پگھلے نہ اپنی برف
یہ رنج ہے کہ رازقِ دریا نہیں ہوئے
تیرے بدن کی آگ سے آنکھوں میں ہے دھنک
اپنے لہو سے رنگ یہ پیدا نہیں ہوئے

——————

دامن میں آنسوئوں کا ذخیرہ نہ کر ابھی
یہ صبر کا مقام ہے ، گریہ نہ کر ابھی
جس کی سخاوتوں کی زمانے میں دھوم ہے
وہ ہاتھ سو گیا ہے ، تقاضا نہ کر ابھی
نظریں جلا کے دیکھ مناظر کی آگ میں
اسرارِ کائنات سے پردا نہ کر ابھی
یہ خاموشی کا زہر نسوں میں اتر نہ جائے
آواز کی شکست گوارا نہ کر ابھی
دنیا پہ اپنے علم کی پرچھائیاں نہ ڈال
اے روشنی فروش اندھیرا نہ کر ابھی

——————-

خاک نیند آئے اگر دیدۂ بیدار ملے
اس خرابے میں کہاں خواب کے آثار ملے
اُس کے لہجے میں قیامت کی فسوں کاری تھی
لوگ آواز کی لذت میں گرفتار ملے
اُس کی آنکھوں میں محبت کے دیے جلتے رہیں
اور پندار میں انکار کی دیوار ملے
میرے اندر اسے کھونے کی تمنا کیوں ہے
جس کے ملنے سے مری ذات کو اظہار ملے
روح میں رینگتی رہتی ہے گنہہ کی خواہش
اس امر بیل کو اک دن کوئی دیوار ملے

———–

ہم تنگ نائے ہجر سے باہر نہیں گئے
تجھ سے بچھڑ کے زندہ رہے ، مر نہیں گئے
آج اپنے گھر میں قید ہیں ، ان سے حجاب ہے
جو گھر سے بے نیاز ہوئے ، گھر نہیں گئے
اپنے لہو میں جاگ رہی تھی نمو کی آگ
آنکھوں سے اس بہار کے منظر نہیں گئے
اُس پر نہ اپنے درد کی بے قامتی کھلے
ہم اس دراز قد کے برابر نہیں گئے
ساقیؔ اس رات کی بے حرمتی کے بعد
اچھا ہوا کہ سوئے ستم گر نہیں گئے

———-

پام کے پیڑ سے گفتگو

مجھے سبز حیرت سے کیوں دیکھتے ہو
وہی تتلیاں جمع کرنے کی ہابی
اِدھر کھینچ لائی
مگر تتلیاں اتنی زیرک ہیں
ہجرت کے ٹوٹے پروں پر
ہوا کے دو شالے میں لپٹی
مرے خوف سے اجنبی جنگلوں میں کہیں
کہیں جا چھپیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور تھک ہار کرواپسی میں
سرکتے ہوئے ایک پتھر سے بچتے ہوئے
اس طرف میں نے دیکھا
تو ایسا لگا
یہ پہاڑی کسی دیو ہیکل فرشتے کا جوتا ہے
تم کتھئی چھال کے موزے میں
ایک پیر ڈالے
یہ جوتا پہننے کی کوشش میں لنگڑا رہے ہو ۔۔۔۔۔
دوسری ٹانگ شاید
کسی عالمی جنگ میں اڑ گئی ہے

مرا جال خالی
مگر دل مسرت کے احساس سے بھرگیا
تم اسی بانکپن سے
اسی طرح
گنجی پہاڑی پر
اپنی ہری وگ لگائے کھڑے ہو
یہ ہیئت کذائی جو بھائی
تو نزدیک سے دیکھنے آگیا ہوں

ذرا اپنے پنکھے ہلا دو
مجھے اپنے دامن کی ٹھنڈی ہوا دو
بہت تھک گیا ہوں

—————

ہمزاد

شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں
یاد نگر میں سائے پھرتے ہیں
تنہائی سسکاری بھرتی ہے
اپنی دنیا تاریکی میں ڈوب چلی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔باہر چل کر مہتاب دیکھتے ہیں
شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں
ہم سے پہلے کون کون سے لوگ ہوئے
جو ساحل پر کھڑے رہے
جن کی نظریں
پانی سے ٹکرا ٹکرا کر
ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر گئی ہیں
بکھر گئی ہیں اور پانی کا سبزہ ہیں
اس سبزے کے پیچھے کیا ہے
آج عَقب میں
چھپے ہوئے گرداب دیکھتے ہیں
شیخ زَمَن شادانی
آئو
خواب دیکھتے ہیں

———————-

موت کی خوشبو

جدائی
محبت کے دریائے خوں کی معاون ندی ہے
وفا
یاد کی شاخِ مرجاں سے
لپٹی ہوئی ہے
دل آرام و عشاق سب
خوف کے دائرے میں کھڑے ہیں
ہوائوں میں بوسوں کی باسی مہک ہے
نگاہوں میں خوابوں کے ٹوٹے ہوئے آئینے ہیں
دلوں کے جزیروں میں
اشکوں کے نیلم چھپے ہیں
رگوں میں کوئی رودِ غم بہہ رہا ہے

مگر درد کے بیج پڑتے رہیں گے
مگر لوگ ملتے بچھڑتے رہیں گے
یہ سب غم پرانے
یہ ملنے بچھڑنے کے موسم پرانے
پُرانے غموں سے
نئے غم الجھنے چلے ہیں
لبوں پر نئے نیِل
دل میں نئے پیچ پڑنے لگے ہیں
غنیم آسمانوں میں
دشمن جہازوں کی سرگوشیاں ہیں
ستاروں کی جلتی ہوئی بستیاں ہیں
اور آنکھوں کے رادار پر
صرف تاریک پرچھائیاں ہیں

ہمیں موت کی تیز خوشبو نے پاگل کیا ہے
امیدوں کے سرخ آبدوزوں میں سہمے
تباہی کے کالے سمندر میں
بہتے چلے جارہے ہیں

کراں تا کراں
ایک گاڑھا کسیلا دھواں ہے
زمیں تیری مٹی کا جادو کہاں ہے

——————–

شاہ صاحب اینڈ سنز

شاہ صاحب خوش نظر تھے
خوش ادا تھے
اور روزی کے اندھیرے راستوں پر
صبر کی ٹوٹی ہوئی چپل پہن کر
اک للک اک طنطنے کے ساتھ سرگرمِ سفر تھے
اور جینے کے مرض میں مبتلا تھے
جو غذائیں دسترس میں تھیں
عجب بے نور تھیں
ان میں نمو کاری نہ تھی
وہ جو موتی کی سی آب آنکھوں میں تھی
جاتی رہی
پُتلیوں میں خون
کائی کی طرح جمنے لگا
رفتہ رفتہ
موتیا بند ان کے دیدوں پر
زمرّد کی طرح اترا
عجب پردا پڑا
سارے زمانے سے حجاب آنے لگا

مضطرب آنکھوں کے ڈھیلے
خشک پتھرائے ہوئے
اتنے بے مصرف کہ بس
اک سبز دروازے کے پیچھے
بند سیپی کی طرح
چھپ کے واویلا کریں
اور اندھیرے آئینہ دکھلائیں، استنجا کریں

صرف دشمن روشنی کا انتظار
زندگانی غزوۂ خندق ہوئی
اس قدر دیکھا کہ نابینا ہوئے

۔۔۔۔۔۔اور جب رازق نگاہوں میں
سیاہی کی سَلائی پھر گئی
چھتنار آنکھوں سے
تجلّی کی سنہری پتیاں گرنے لگیں
تو شاہ صاحب اور بے سایہ ہوئے
ان کی اندھی منتقم آنکھوں میں دنیا
ایک قاتل کی طرح سے جم گئی
جیسے مرتے سانپ کی آنکھوں میں
اپنے اجنبی دشمن کا عکس
یوں سراسیمہ ہوئے
یوں ذات کے سنسان صحرائوں میں افسردہ پھرے
جیسے جیتے جاگتے لوگوں کو دیکھا ہی نہ ہو
جوشبیہیں دھیان میں محفوظ تھیں
ان سے رشتہ ہی نہ ہو

جگمگاتی بے قرار آنکھیں
کسی سہمے ہوئے گھونگھے کے ہاتھوں کی طرح
دیکھتی تھیں، سونگھتی تھیں، لمس کرتی تھیں
وہی جاتی رہیں تو زندگی سے رابطہ جاتا رہا
ہمدمی کا سلسلہ جاتا رہا
وہ جو اک گہرا تعلق
اک امر سمبندھ سا
چاروں طرف بکھری ہوئی چیزوں سے تھا
ہنستے ہوئے ، روتے ہوئے لوگوں سے تھا
اس طرح ٹوٹا کہ جیسے شیر کی اک جست سے
زیبرے کے ریڑھ کی ہڈی چٹخ جاتی ہے ۔۔۔۔۔
برسوں بے طرح بے کل رہے
ایک دن آنکھوں میں صحرا جل اٹھا
وہ خیال آیا کہ چہرہ جل اٹھا
اپنے بیٹوں کو کلیجوں سے لگایا
جی بھرا تھا ابر کی مانند روئے
روچکے تو ایک مہلک آتشیں تیزاب کے
شعلۂ سفاک سے
ان کی فاقہ سنج آنکھوں کو جلایا
اور سجدے میں گرے
جیسے گہری نیند میں ہوں
جیسے اک سکتے میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

مدتوں سے ان بیاباں راستوں پر
چار اندھے دوستوں کا ایک کورس گونجتا ہے:
’’اے سخی شہرِ سخاوت میں گزر اوقات کر
اے نظر والے نظر خیرات کر‘‘

———-

نوحہ

یہ کیسی سازش ہے جو ہوائوں میں بہہ رہی ہے
میں تیری یادوں کی شمعیں بجھا کے خوابوں میں چل رہا ہوں
تری محبت مجھے ندامت سے دیکھتی ہے
وہ آبگینہ ہوں خواہشوں کا کہ دھیرے دھیرے پگھل رہا ہوں
یہ میری آنکھوں میں کیسا صحرا ابھر رہا ہے
میں با ل رُوموں میں بجھ رہا ہوں ، شراب خانوں میں جل رہا ہوں
جو میرے اندر دھڑک رہا تھا وہ مر رہا ہے

—————–

انہدام

اے ہوائے خوش خبر ، اب نویدِ سنگ دے
میری جیب و آستیں میرے خوں سے رنگ دے
میری عمرِ کج روش مجھ سے کہہ رہی ہے ’’تو،
اک طلسم ہے تجھے ٹوٹنا ضرور ہے
تیری بد سرشت فکر تیرا قیمتی لہو
کھردری زبان سے چاٹتی چلی گئی
تو کنارِ بحر کی وہ چٹان ہے جسے
تند و تیز موجِ درد ، کاٹتی چلی گئی
اِس حریص جسم کا انہدام ہی سہی
ایک خون کی لکیر تیرے نام ہی سہی‘‘

—————–

سرخ گلاب اور بدرِ مُنیر

اے دل پہلے بھی تنہا تھے ، اے دل ہم تنہا آج بھی ہیں
اور ان زخموں اور داغوں سے اب اپنی باتیں ہوتی ہیں
جو زخم کہ سُرخ گلاب ہوئے ، جو داغ کہ بدرِ مُنیر ہوئے
اس طرح سے کب تک جینا ہے، میں ہار گیا اس جینے سے

کوئی ابر اُڑے کسی قلزم سے رَس برسے مرے ویرانے پر
کوئی جاگتا ہو ، کوئی کُڑھتا ہو،مرے دیر سے واپس آنے پر
کوئی سانس بھرے مرے پہلو میں کوئی ہاتھ دھرے مرے شانے پر

اور دبے دبے لہجے میں کہے تم نے اب تک بڑے درد سہے
تم تنہا تنہا جلتے رہے ، تم تنہا تنہا چلتے رہے
سنو تنہا چلنا کھیل نہیں ، چلو آئو مرے ہمراہ چلو
چلو نئے سفر پر چلتے ہیں ، چلو مجھے بنا کے گواہ چلو

 

Intekhab e Kalam Khalilur Rahman Azmi

Articles

خلیل الرحمن اعظمی کا منتخب کلام

خلیل الرحمن اعظمی

 

 

سوتے سوتے چونک پڑے ہم، خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈھ رہا ہو، ایسا اک رستا دیکھا

دور سے اک پرچھائیں دیکھی اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرا دیکھا

سونا لینے جب نکلے تو ہر ہر ڈھیر میں مٹی تھی
جب مٹی کی کھوج میں نکلے، سونا ہی سونا دیکھا

سوکھی دھرتی سن لیتی ہے پانی کی آوازوں کو
پیاسی آنکھیں بول اٹھتی ہیں ہم نے اک دریا دیکھا

چاندی کے سے جن کے بدن تھے، سورج جیسے مکھڑے تھے
کچھ اندھی گلیوں میں ہم نے ان کا بھی سایا دیکھا

رات وہی پھر بات ہوئی نا۔۔۔ ہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سنّاٹے سے شور سا اک اٹھتا دیکھا

بنے بنائے سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا دیکھا


 

رخ پہ گردِ ملال تھی، کیا تھی
حاصلِ ماہ و سال تھی، کیا تھی

ایک صورت سی یاد ہے اب بھی
آپ اپنی مثال تھی، کیا تھی

میری جانب اُٹھی تھی کوئی نگہ
ایک مبہم سوال تھی، کیا تھی

اس کو پا کر بھی اس کو پا نہ سکا
جستجوئے جمال تھی، کیا تھی

صبح تک خود سے ہم کلام رہا
یہ شبِ جذب و حال تھی، کیا تھی

دل میں تھی، پر لبوں تک آ نہ سکی
آرزوئے وصال تھی، کیا تھی

اپنے زخموں پہ اک فسردہ ہنسی
کوششِ اندمال تھی، کیا تھی

عمر بھر میں بس ایک بار آئی
ساعتِ لا زوال تھی، کیا تھی

خوں کی پیاسی تھی پر زمینِ وطن
ایک شہرِ خیال تھی، کیا تھی

باعثِ رنجشِ عزیزاں تھی
خوئے کسبِ کمال تھی، کیا تھی

اک جھلک لمحۂ فراغت کی
ایک امرِ محال تھی، کیا تھی

کوئی خواہاں نہ تھا کہ جنسِ ہنر
ایک مفلس کا مال تھی، کیا تھی


 

نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا

ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا، کوئی ہمسایۂ خدا نکلا

ہزار طرح کی مے پی، ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی، نہ حوصلہ نکلا

ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا

اب اپنے آپ کو ڈھونڈھیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقشِ پا نکلا


 

مری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے

میں اپنے گھرکو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مری دہلیز پر اتار مجھے

ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آئے گی یہ صبحِ زر نگار مجھے

کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے

وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوبِ روزگار مجھے

 


میں گوتم نہیں ہوں

میں گوتم نہیں ہوں
مگر جب بھی گھر سے نکلا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے آپ کو
ڈھونڈھنے جا رہا ہوں
کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اک دن مجھے بھی کوئی گیان ہوگا
مگر
جسم کی آگ جو گھر سے لے کر چلا تھا
سلگتی رہی
گھر کے باہر ہوا تیز تھی
اور بھی یہ بھڑکتی رہی
ایک اک پیڑ جل کر ہوا راکھ
میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں
جہاں میں ہی میں ہوں
جہاں میرا سایہ ہے
سائے کا سایہ ہے
اور دور تک
بس خلا ہی خلا ہے


میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں

میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں

سونا ہوں، کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں

لے مجھ کو سنبھال گردشِ وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں

یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
در اصل میں غم سے آشنا ہوں

صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں

دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں

کیوں آبِ حیات کو میں ترسوں
میں زہرِ حیات پی چکا ہوں!!

ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں