After You

Articles

تمھارے بعد

عبید اعظم اعظمی

After You 

Sonet

Obaid Azam Azmi


For how long (I’ve to) disregard the intensity of pain
For how long the tear is to be retained on the eyelashes
For how long no pity be felt on eyes bereft of colour
For how far the borrowed spirit be kept as companion

How intense be the passion of expression if desire is aroused
How much be the freshness of aroma, what colour of flowers
How much be the melody in environment, what manner be of zephyr
What course be of the day, what pace be of the night

In case there are ideas and dreams what should be their expanse
If there is writing on the face how much should it be meaningful
How much be the joy and exhilaration, how swift be the heartbeat
How ample be the space, how extensive be the roof of the sky

Circumstances are strange; the heart is encircled by ambivalence all the time
It is difficult to take any decision after you

Translation : Zaheer Ali

( सोनेट )
तुम्हारे बाद

– ओबैद आज़म आज़मी

नज़र अंदाज़ कब तक दर्द की शिद्दत को करना है
किसी आँसू को कितनी देर तक रखना है पलकों पर
तरस खाना नहीं है कब तलक बेरंग आँखों पर
कहाँ तक हमसफ़र मांगी हुई हिम्मत को करना है

तलब बेदार हो तो शिददत-ए-इज़हार कितनी हो
महक में ताज़गी कितनी गुलों का रंग हो कैसा
फ़िज़ा में नग़मगी कितनी सबा का ढंग हो कैसा
हो दिन का दौर कैसा , रात की रफ़्तार कितनी हो

अगर हो तो ख़याल-ओ-ख़्वाब  की वुसअत कहाँ तक हो
इबारत जो हो चेहरे पर वो मानी-ख़ेज़ हो कितनी
सुरूर-ओ-कैफ़ कितना दिल की धड़कन तेज़ हो कितनी
ख़ला कितना रखा जाये फ़लक की छत कहाँ तक हो

अजब हालात हैं, हर पल तज़बज़ुब में घिरा दिल है
तुम्हारे बाद कोई फ़ैसला कर पाना मुश्किल है

٭٭٭

(سانیٹ)
تمھارے بعد
عبیدؔ اعظم اعظمی

نظر انداز کب تک درد کی شدت کو کرنا ہے
کسی آنسو کو کتنی دیر تک رکھنا ہے پلکوں پر
ترس کھانا نہیں ہے کب تلک بے رنگ آنکھوں پر
کہاں تک ہم سفر مانگی ہوئی ہمت کو کرنا ہے

طلب بیدار ہو تو شدت اظہار کتنی ہو
مہک میں تازگی کتنی گلوں کا رنگ ہو کیسا
فضا میں نغمگی کتنی صبا کا ڈھنگ ہو کیسا
ہو دن کا دور کیسا ، رات کی رفتار کتنی ہو

اگر ہو تو خیال و خواب کی وسعت کہاں تک ہو
عبارت جو ہو چہرے پر وہ معنی خیز ہو کتنی
سُرور و کیف کتنا دل کی دھڑکن تیز ہو کتنی
خلا کتنا رکھا جائے فلک کی چھت کہاں تک ہو

عجب حالات ہیں، ہر پل تذبذب میں گھرا دل ہے
تمھارے بعد کوئی فیصلہ کرپانا مشکل ہے
٭٭٭



Intekhab E Kalam Moin Ahsan Jazbi

Articles

انتخابِ کلام معین احسن جذبی

معین احسن جذبی

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں آہوں میں اشارا کرتے ہیں

کیا تجھ کو پتا کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکل گیتی ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں

کیا جانیے کب یہ پاپ کٹے کیا جانیے وہ دن کب آئے
جس دن کے لیے ہم اے جذبیؔ کیا کچھ نہ گوارا کرتے ہیں

 

۲

مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے

جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے

جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے

دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

۳

بیتے ہوئے دنوں کی حلاوت کہاں سے لائیں
اک میٹھے میٹھے درد کی راحت کہاں سے لائیں

ڈھونڈیں کہاں وہ نالۂ شب تاب کا جمال
آہ سحر گہی کی صباحت کہاں سے لائیں

سمجھائیں کیسے دل کی نزاکت کا ماجرا
خاموشی نظر کی خطابت کہاں سے لائیں

ترک تعلقات کا ہو جس سے احتمال
بیباکیوں میں اتنی صداقت کہاں سے لائیں

افسردگی ضبط الم آج بھی سہی
لیکن نشاط ضبط مسرت کہاں سے لائیں

ہر فتح کے غرور میں بے وجہ بے سبب
احساس انفعال ہزیمت کہاں سے لائیں

آسودگی لطف و عنایت کے ساتھ ساتھ
دل میں دبی دبی سی قیامت کہاں سے لائیں

وہ جوش اضطراب پہ کچھ سوچنے کے بعد
حیرت کہاں سے لائیں ندامت کہاں سے لائیں

ہر لحظہ تازہ تازہ بلاؤں کا سامنا
ناآزمودہ کار کی جرأت کہاں سے لائیں

ہے آج بھی نگاہ محبت کی آرزو
پر ایسی اک نگاہ کی قیمت کہاں سے لائیں

سب کچھ نصیب ہو بھی تو اے شورش حیات
تجھ سے نظر چرانے کی عادت کہاں سے لائیں

۴

جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا

حسن و عشق دونوں تھے بے کراں و بے پایاں
دل وہاں بھی کچھ لمحے جانے کب گزار آیا

اس افق کو کیا کہیے نور بھی دھندلکا بھی
بارہا کرن پھوٹی بارہا غبار آیا

ہم نے غم کے ماروں کی محفلیں بھی دیکھیں ہیں
ایک غم گسار اٹھا ایک غم گسار آیا

آرزوئے ساحل سے ہم کنارا کیا کرتے
جس طرف قدم اٹھے بحر بے کنار آیا

یوں تو سیکڑوں غم تھے پر غم جہاں جذبیؔ
بعد ایک مدت کے دل کو سازگار آیا

۵

عیش سے کیوں خوش ہوئے کیوں غم سے گھبرایا کیے
زندگی کیا جانے کیا تھی اور کیا سمجھا کیے

نالۂ بے تاب لب تک آتے آتے رہ گیا
جانے کیا شرمیلی نظروں سے وہ فرمایا کیے

عشق کی معصومیوں کا یہ بھی اک انداز تھا
ہم نگاہ لطف جاناں سے بھی شرمایا کیے

ناخدا بے خود فضا خاموش ساکت موج آب
اور ہم ساحل سے تھوڑی دور پر ڈوبا کیے

وہ ہوائیں وہ گھٹائیں وہ فضا وہ اس کی یاد
ہم بھی مضراب الم سے ساز دل چھیڑا کیے

مختصر یہ ہے ہماری داستان زندگی
اک سکون دل کی خاطر عمر بھر تڑپا کیے

کاٹ دی یوں ہم نے جذبیؔ راہ منزل کاٹ دی
گر پڑے ہر گام پر ہر گام پر سنبھلا کیے

Irfan Siddiqui : Collection of Poetry

Articles

انتخاب کلام عرفان صدیقی

عرفان صدیقی

شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی

اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

جب سے جانا ہے کہ میں جان سمجھتا ہوں اسے

وہ ہرن چھوڑ کے جانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

سیر بھی جسم کے صحرا کی خوش آتی ہے مگر

دیر تک خاک اڑانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

کیسے اس شخص سے تعبیر پہ اصرار کریں

جو ہمیں خواب دکھانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں

ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا

دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے

 

2

 

شہاب چہرہ کوئی گم شدہ ستارہ کوئی

ہوا طلوع افق پر مرے دوبارہ کوئی

 

امید واروں پہ کھلتا نہیں وہ باب وصال

اور اس کے شہر سے کرتا نہیں کنارہ کوئی

 

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

 

کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ

چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی

 

بس اپنے دل کی صدا پر نکل چلیں اس بار

کہ سب کو غیب سے ملتا نہیں اشارہ کوئی

 

گماں نہ کر کہ ہوا ختم کار دل زدگاں

عجب نہیں کہ ہو اس راکھ میں شرارہ کوئی

 

اگر نصیب نہ ہو اس قمر کی ہم سفری

تو کیوں نہ خاک گزر پر کرے گزارہ کوئی

 

3

 

اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا

ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا

 

شاید خبر نہیں ہے غزالان شہر کو

اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا

 

اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں

کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا

 

اب ڈھونڈ اور قدر شناسان رنگ و بو

ہم نے یہ کام اے گل تر بند کر دیا

 

اک اسم جاں پہ ڈال کے خاک فرامشی

اندھے صدف میں ہم نے گہر بند کر دیا

 

4

 

حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا

تو نے کہا تھا تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

 

جب حشر اسی زمیں پہ اٹھائے گئے تو پھر

برپا یہیں پہ روز جزا کیوں نہیں ہوا

 

وہ شمع بجھ گئی تھی تو کہرام تھا تمام

دل بجھ گئے تو شور عزا کیوں نہیں ہوا

 

واماندگاں پہ تنگ ہوئی کیوں تری زمیں

دروازہ آسمان کا وا کیوں نہیں ہوا

 

وہ شعلہ ساز بھی اسی بستی کے لوگ تھے

ان کی گلی میں رقص ہوا کیوں نہیں ہوا

 

آخر اسی خرابے میں زندہ ہیں اور سب

یوں خاک کوئی میرے سوا کیوں نہیں ہوا

 

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

 

جب وہ بھی تھے گلوئے بریدہ سے نالہ زن

پھر کشتگاں کا حرف رسا کیوں نہیں ہوا

 

کرتا رہا میں تیرے لیے دوستوں سے جنگ

تو میرے دشمنوں سے خفا کیوں نہیں ہوا

 

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

Safi Lakhnawi : Collection of Ghazals

Articles

انتخابِ کلام صفی لکھنوی

صفی لکھنوی

1

غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا

قفس لے اڑوں میں، ہوا اب جو سنکے
مدد اتنی اے بال و پرواز دینا

نہ خاموش رہنا مرے ہم صفیرو
جب آواز دوں ، تم بھی آواز دینا

کوئی سیکھ لے دل کی بے تابیوں کو
ہر انجام میں رنگِ آغاز دینا

دلیلِ گراں باریِ سنگِ غم سے
صفی ٹوٹ کر دل کا آواز دینا

 

2

جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر
خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر

یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں
رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر

دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل
ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر

دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری
خبر دیتا ہے مجھ کو طرفِ خالی پُر صدا ہو کر

نہ سُلجھی ایک بھی گُتّھی ہزاروں ٹھوکریں کھائیں
رہے بیکار زندہ ناخنِ انگشتِ پا ہو کر

نظر حوروں پہ ہے اے زاہدِ مسجد نشیں تیری
ارے کمبخت یہ شاہد پرستی پارسا ہو کر

چلے جاؤ اسی جانب صفیؔ گر خلد جانا ہے
گیا ہے راستہ جنّت کو سیدھا کربلا ہو کر ​

 

3

جگہ پیدا دلوں میں کی بتوں نے بے وفا ہو کر
خدا کو بھی ہوئی یہ بات کب حاصل خدا ہو کر

یہ چشمِ فتنہ گر کے نیچی نظروں سے اشارے ہیں
رہے کیوں کر نگاہِ شوخ پابندِ حیا ہو کر

دکھایا کیا اثر خونِ شہیدِ ناز نے قاتل
ہوا ہاتھوں سے ظاہر شوخیِ رنگِ حنا ہو کر

دلالت کرتی ہے بے مایگی پر ہرزہ گفتاری
خبر دیتا ہے مجھ کو طرفِ خالی پُر صدا ہو کر

نہ سُلجھی ایک بھی گُتّھی ہزاروں ٹھوکریں کھائیں
رہے بیکار زندہ ناخنِ انگشتِ پا ہو کر

نظر حوروں پہ ہے اے زاہدِ مسجد نشیں تیری
ارے کمبخت یہ شاہد پرستی پارسا ہو کر

چلے جاؤ اسی جانب صفیؔ گر خلد جانا ہے
گیا ہے راستہ جنّت کو سیدھا کربلا ہو کر ​

 

4

سنتا ہوں ذکر تنگیِ کنجِ مزار کا
کیونکر نبھے کا ساتھ دلِ بے قرار کا

ہے موسمِ خزاں میں بھی عالم بہار کا
گلدستہ ہے لحد میں دلِ داغدار کا

کہہ دو ذرا فلک سے کہ دامن سمیٹ لے
کرتا ہوں امتحاں نفسِ شعلہ بار کا

ہم بیکسوں کی قبر کہاں برگِ گل کہاں
صدقہ ہے سب یہ فیضِ نسیمِ بہار کا

آنکھیں کئے ہوں بند پسِ مرگ اس لئے
سرمہ کھٹک رہا ہے شبِ انتظار کا

تا فرش بزمِ دوست رسائی جو ہے صفیؔ
ہے عرش پر دماغ ہمارے غبار کا​

 

5

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے

شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے

الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے

نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے

قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ

تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے

شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ہے

ذرا دیکھو تو کیوں کر غم زدوں کا دم نکلتا ہے

نگاہ التفات مہر اور انداز دل جوئی

مگر اک پہلوئے بے تابئ شبنم نکلتا ہے

صفیؔ کشتہ ہوں نا‌ پرسانیوں کا اہل عالم کی

یہ دیکھوں کون میرا صاحب ماتم نکلتا ہے

Intekhab E Kalam Ali Sardar Jafri

Articles

انتخابِ کلام علی سردار جعفری

علی سردار جعفری

 

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق

ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا

ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو

لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار

کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا

2

میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ

میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ

پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی

ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ

حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح

میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ

تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام

تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ

پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم

مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ

لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں

اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ

چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو

پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ

اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار

شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ

3

ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے

داد نہیں فریاد نہیں ہے

قتل ہوئے ہیں اب تک کتنے

کوئے ستم کو یاد نہیں ہے

آخر روئیں کس کو کس کو

کون ہے جو برباد نہیں ہے

قید چمن بھی بن جاتا ہے

مرغ چمن آزاد نہیں ہے

لطف ہی کیا گر اپنے مقابل

سطوت برق‌ و باد نہیں ہے

سب ہوں شاداں سب ہوں خنداں

تنہا کوئی شاد نہیں ہے

دعوت رنگ و نکہت ہے یہ

خندۂ گل برباد نہیں ہے

4

آئے ہم غالبؔ‌ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد

مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد

اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے

بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد

نار نمرود یہی اور یہی گلزار خلیل

کوئی آتش نہیں آتش کدۂ ذات کے بعد

رام و گوتم کی زمیں حرمت انساں کی امیں

بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد

تشنگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی سردارؔ

بڑھ گئی کوثر و تسنیم کی سوغات کے بعد

5

ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں

رنگ‌ بر دوش گلستاں بہ کنار آتے ہیں

چاک دل چاک جگر چاک گریباں والے

مثل گل آتے ہیں مانند بہار آتے ہیں

کوئی معشوق سزا وار غزل ہے شاید

ہم غزل لے کے سوئے شہر نگار آتے ہیں

کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں

جا کے ہم کوچۂ قاتل میں پکار آتے ہیں

قافلے شوق کے رکتے نہیں دیواروں سے

سینکڑوں مجس و زنداں کے دیار آتے ہیں

منزلیں دوڑ کے رہرو کے قدم لیتی ہیں

بوسۂ پا کے لیے راہ گزار آتے ہیں

خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر

پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں

کم ہو کیوں ابروئے قاتل کی کمانوں کا کھنچاؤ

جب سر تیر ستم آپ شکار آتے ہیں

Ummid Fazli : Selected Ghazals

Articles

انتخابِ کلام امید فاضلی

امید فاضلی

1

ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے

یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے

نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے

ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر گئے ہوتے

ہمی نے زخمِ دل و جاں چُھپا لیے، ورنہ
نہ جانے کتنوں کے چہرے اُتر گئے ہوتے

سکون ِ دِل کو نہ اِس طرح بھی ترستے ہم
تِرے کَرَم سے سے جو بچ کر، گُزر گئے ہوتے

جو تِیر، اندھی ہَوا نے چلائے تھے کل رات!
نہ ہوتے ہم ، تو نجانے کِدھر گئے ہوتے

ہَمَیں بھی دُکھ تو بہت ہے، مگر یہ جھوٹ نہیں
بُھلا نہ دیتے اُسے ہم، تو مر گئے ہوتے

جو ہم بھی اُس سے زمانے کی طرح ملتےاُمیدؔ
ہمارے شام و سحر بھی سنور گئے ہوتے

 

2

ہائے اک شخص جسے ہم نے بھلایا بھی نہیں

یاد آنے کی طرح یاد وہ آیا بھی نہیں

جانے کس موڑ پہ لے آئی ہمیں تیری طلب

سر پہ سورج بھی نہیں راہ میں سایا بھی نہیں

وجہ رسوائی احساس ہوا ہے کیا کیا

ہائے وہ لفظ جو لب تک مرے آیا بھی نہیں

اے محبت یہ ستم کیا کہ جدا ہوں خود سے

کوئی ایسا مرے نزدیک تو آیا بھی نہیں

یا ہمیں زلف کے سائے ہی میں نیند آتی تھی

یا میسر کسی دیوار کا سایا بھی نہیں

بارہا دل تری قربت سے دھڑک اٹھا ہے

گو ابھی وقت محبت میں وہ آیا بھی نہیں

آپ اس شخص کو کیا کہیے کہ جس نے امیدؔ

غم دیا غم کو دل آزار بنایا بھی نہیں

3

اپنی فضا سے اپنے زمانوں سے کٹ گیا
پتھر خدا بنا تو چٹانوں سے کٹ گیا

پھینکا تھکن نے جال تو کیوں کر کٹے گی رات
دن تو بلندیوں میں اُڑانوں سے کٹ گیا

وہ سر کہ جس میں عشق کا سودا تھا کل تلک
اب سوچتا ہوں کیا مرے شانوں سے کٹ گیا

پھرتے ہیں پَھن اُٹھائے ہُوئے اب ہوس کے ناگ
شاید زمیں کا ربط خزانوں سے کٹ گیا

ڈوبا ہُوا ملا ہے مکینوں کے خون سے
وہ راستہ جو اپنے مکانوں سے کٹ گیا

مل کر جدا ہوا تھا کوئی اور اُس کے بعد
ہر ایک لمحہ اپنے زمانوں سے کٹ گیا

4

سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے
تیشہ کیا کیا نظر چراتا ہے

سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بجھاتا ہے

ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال آتا ہے

سن رہا ہوں خرام عمر کی چاپ
عکس آواز بتا جاتا ہے

وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آکر
فاصلہ دور تک بچھاتا ہے

گھر تو ایسا کہاں تھا لیکن
در بدر ہیں تو یاد آتا ہے

5

جانے یہ کیسا زہر دلوں میں اتر گیا

پرچھائیں زندہ رہ گئی انسان مر گیا

بربادیاں تو میرا مقدر ہی تھیں مگر

چہروں سے دوستوں کے ملمع اتر گیا

اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں

دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا

اس شہر میں فراش طلب ہے ہر ایک راہ

وہ خوش نصیب تھا جو سلیقے سے مر گیا

کیا کیا نہ اس کو زعم مسیحائی تھا امیدؔ

ہم نے دکھائے زخم تو چہرہ اتر گیا

6

نظر نہ آئے تو کیا وہ مرے قیاس میں ہے

وہ ایک جھوٹ جو سچائی کے لباس میں ہے

عمل سے میرے خیالوں کا منہ چڑھاتا ہے

وہ ایک شخص کہ پنہاں مرے لباس میں ہے

ابھی جراحت سر ہی علاج ٹھہرا ہے

کہ نبض سنگ کسی دست بے قیاس میں ہے

شجر سے سایہ جدا ہے تو دھوپ سورج سے

سفر حیات کا کس دشت بے قیاس میں ہے

ذرا جو تلخ ہو لہجہ تو کوئی بات بنے

غریب شہر مگر قید التماس میں ہے

تجھے خبر بھی ہے خود تیری کم نگاہی کا

اک اعتراف ترے حرف نا سپاس میں ہے

7

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی

کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی

مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی

وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی

جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے

کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی

نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں

چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی

نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے

کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی

دیار‌ حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو

کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی

سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ

لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی

Ummid Fazli, Urdu Ghazal, Modern Urdu Ghazal

Sahir Ludhianvi A Shor Collection

Articles

ساحر لدھیانوی کے کلام کا انتخاب

ساحر لدھیانوی

تاج محل

تاج، تیرے لئے اک مظہرِ اُلفت ہی سہی
تُجھ کو اس وادئ رنگیں‌سے عقیدت ہی سہی

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے
بزمِ شاہی میں غریبوں کا گزر کیا معنی؟
ثبت جس راہ پہ ہوں سطوتِ شاہی کے نشاں
اس پہ الفت بھری روحوں کا سفر کیا معنی؟

مری محبوب پسِ پردہِ تشہیر وفا
تو نے سطوت کے نشانوں کے مقابر سے بہلنے والی
مُردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی
اپنے تاریک مکانوں کو تو دیکھا ہوتا

ان گنت لوگوں نے دنیا میں محبت کی ہے
کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے
لیکن ان کے لئے تشہیر کا ساماں نہیں
کیونکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

یہ عمارات و مقابر، یہ فصیلیں، یہ حصار
مطلق الحکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں
سینہ دہر کے ناسور ہیں کہنہ ناسور
جذب ہے ان میں ترے اور مرے اجداد کا خوں

میری محبوب! انہیں بھی تو محبت ہوگی
جن کی صنائی نے بخشی ہے اسے شکلِ جمیل
ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود
آج تک ان پہ چلائی نہ کسی نے قندیل

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ یہ محل
یہ منقش درودیوار، یہ محراب، یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میری محبوب! کہیں اور ملا کر مجھ سے

 

کبھی کبھی

کبھی کبھی مرے دل میں‌یہ خیال آتا ہے

کہ زندگی تری زلفوں کی نرم چھاؤں میں
گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی
یہ تیری جو مری زیست کا مقدر ہے
تری نظر کی شعاعوں میں کھو بھی سکتی تھی

عجب نہ تھا کہ میں بیگانہ الم رہ کر
ترے جمال کی رعنائیوں میں‌کھو رہتا
ترا گداز بدن، تیری نیم باز آنکھیں
انہی حسین فسانوں‌ میں‌ محو ہو رہتا

پکارتیں مجھے جب تلخیاں زمانے کی!
ترے لبوں‌سے حلاوت کے گھونٹ پی لیتا
حیات چیختی پھرتی برہنہ سر اور میں
گھنیری زلفوں‌کے سائے میں چھپ کے جی لیتا

مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے
کہ تو نہیں، ترا غم، تیری جستجو بھی نہیں
گزر رہی ہے کچھ اس طرح زندگی جیسے
اسے کسی کے سہارے کی آرزو بھی نہیں

زمانے بھر کے دکھوں‌کو لگا چکا ہوں‌گلے
گزر رہا ہوں کچھ انجانی راہگزاروں سے
مہیب سائے مری سمت بڑھتے چلے آتے ہیں
حیات و موت کے پر ہول خارزاروں سے

نہ کوئی جادہ، نہ منزل، نہ روشنی کا سراغ
بھٹک رہی ہے خلاؤں میں زندگی میری
انہی خلاؤں میں‌رہ جاؤں گا کبھی کھو کر
میں جانتا ہوں‌مری ہم نفس مگر یونہی

کبھی کبھی مرے دل میں‌ خیال آتا ہے

 

فن کار

میں نے جو گیت ترے پیار کی خاطر لکھے
آج ان گیتوں کو بازار میں لے آیا ہوں

آج دُکان پہ نیلام اٹھے گا ان کا
تو نے جن گیتوں پہ رکھی تھی محبت کی اساس

آج چاندی کے ترازو میں تُلے گی ہر چیز
میرے افکار، مری شاعری، میرا احساس

جو تری ذات سے منسوب تھے ان گیتوں‌کو
مفلسی جنس بنانے پر اتر آئی ہے

بھوک، تیرے رُخِ رنگیں کے فسانوں‌ کے عوض
چند اشیائے ضرورت کی تمنا ہے

دیکھ اس عرصہ گہِ محنت وہ سرمایہ ہیں
میرے نغمے بھی مرے پاس نہیں‌ رہ سکتے

تیرے جلوے کسی زردار کی میراث سہی
تیرے خاکے بھی مرے پاس نہیں رہ سکتے

آج ان گیتوں‌کو بازار میں لے آیا ہوں
میں نے جو گیت تیرے پیار کی خاطر لکھے​

 

غزلیں
1

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو
کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں
بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست
سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

 

2
میں زندگی کا ساتھ نبھاتا چلا گیا
ہر فکر کو دھوئیں میں اڑاتا چلا گیا

بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

جو مل گیا اسی کو مقدر سمجھ لیا
جو کھو گیا میں اس کو بھلاتا چلا گیا

غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا

 

3

تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم

مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم

لو آج ہم نے توڑ دیا رشتۂ امید
لو اب کبھی گلہ نہ کریں گے کسی سے ہم

ابھریں گے ایک بار ابھی دل کے ولولے
گو دب گئے ہیں بار غم زندگی سے ہم

گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم

اللہ رے فریب مشیت کہ آج تک
دنیا کے ظلم سہتے رہے خامشی سے ہم

Intekhab E Kalam Kumar Pashi

Articles

کمار پاشی کا منتخب کلام

کمار پاشی

۱
یہ کیسی آگ برستی ہے آسمانوں سے
پرندے لوٹ کے آنے لگے اڑانوں سے

کوئی تو ڈھونڈ کے مجھ کو کہیں سے لے آئے
کہ خود کو دیکھا نہیں ہے بہت زمانوں سے

پلک جھپکتے میں میرے اڑان بھرتے ہی
ہزاروں تیر نکل آئیں گے کمانوں سے

ہوئی ہیں دیر و حرم میں یہ سازشیں کیسی
دھواں سا اٹھنے لگا شہر کے مکانوں سے

شکار کرنا تھا جن کو شکار کر کے گئے
شکاریو اتر آؤ تم اب مچانوں سے

روایتوں کو کہاں تک اٹھائے گھومو گے
یہ بوجھ اتار دو پاشیؔ تم اپنے شانوں سے

۲

لوگ جب جشن بہاروں کا منانے نکلے
ہم بیابانوں میں تب خاک اڑانے نکلے

کھل گیا دفتر صد رنگ ملاقاتوں کا
حسن کے ذکر پہ کیا کیا نہ فسانے نکلے

عشق کا روگ کہ دونوں سے چھپایا نہ گیا
ہم تھے سودائی تو کچھ وہ بھی دوانے نکلے

جب کھلے پھول چمن میں تو تری یاد آئی
چند آنسو بھی مسرت کے بہانے نکلے

شہر والے سبھی بے چہرہ ہوئے ہیں پاشیؔ
ہم یہ کن لوگوں کو آئینہ دکھانے نکلے

 

 

۳

تیری یاد کا ہر منظر پس منظر لکھتا رہتا ہوں
دل کو ورق بناتا ہوں اور شب بھر لکھتا رہتا ہوں

بھری دوپہری سائے بناتا رہتا ہوں میں لفظوں سے
تاریکی میں بیٹھ کے ماہ منور لکھتا رہتا ہوں

خواب سجاتا رہتا ہوں میں بجھی بجھی سی آنکھوں میں
جس سے سب محروم ہیں اسے میسر لکھتا رہتا ہوں

چھانو نہ بانٹے پیڑ تو اپنی آتش میں جل جاتا ہے

صرف یہی اک بات میں اسے برابر لکھتا رہتا ہوں
کیا بتلاؤں پاشیؔ تم کو سنگ دلوں کی بستی میں
موتی سوچتا رہتا ہوں میں گوہر لکھتا رہتا ہوں
————————————————————————————————————

کمار پاشی کی منتخب نظمیں

ایودھیا! آ رہا ہوں میں

ایودھیا! آ رہا ہوں میں
میں تیری کوکھ سے جنما
تری گودی کا پالا ہوں
تری صدیوں پرانی سانولی مٹی میں کھیلا ہوں
مجھے معلوم ہے تو مجھ سے روٹھی ہے
مگر اب دور تجھ سے رہ نہیں سکتا
پرائے دیش میں گزری ہے جو مجھ پر
وہ خود سے بھی کبھی میں کہہ نہیں سکتا
ذرا سر تو اٹھا اور دیکھ
کتنی دور سے تجھ کو منانے آ رہا ہوں میں
تجھے تیرے ہی کچھ قصے سنانے آ رہا ہوں میں
ایودھیا! جانتا ہوں تیری مٹی میں اداسی ہے
نہ جانے کتنی صدیوں سے
مری بھی روح پیاسی ہے
کہ ہم دونوں کی قسمت میں خوشی تو بس ذرا سی ہے
بہت دن ہو گئے ہیں مجھ کو تیرے آسماں دیکھے
سنہری دھوپ دیکھے چمچاتی کہکشاں دیکھے
تری گلیاں ترے بازار اور تیرے مکاں دیکھے
وہ دن جو تجھ میں روشن تھے وہ برسوں سے کہاں دیکھے
بچھڑ کر تجھ سے جو منظر بھی دیکھے رائیگاں دیکھے
مگر ہاں یاد آیا
ایک منظر اور بھی محفوظ ہے مجھ میں
حویلی ایک چھوٹی سی اور اس میں نیم کے سائے
کہ جس میں آج بھی زندہ ہیں شاید میرے ماں جائے
اسی منظر کے پیچھے اور بھی دھندلے سے منظر ہیں
پرانی گم شدہ تہذیب کے گھر ہیں
جہاں خوابوں کی دنیا ہیں
جہاں یادوں کے دفتر ہیں
اندھیرے روبرو میرے
ستارے میرے اندر ہیں
کہیں رادھا کہیں سیتا کہیں بیاکل سی میرا ہے
کہیں پر کربلا ہے اور کہیں پر رام لیلا ہے
ترا میرا تو ان گنت جنموں کا قصہ ہے
کہ مجھ میں دور
صدیوں دور
گوتم اب بھی زندہ ہے
ہوا رک رک کے آتی ہے
جو گونجی تھیں ہزاروں سال پہلے
وہ صدائیں ساتھ لاتی ہے
مرے اندر جو میرے روپ ہیں
مجھ کو دکھاتی ہے
ایودھیا! میں ترے مرگھٹ کا باسی ہوں
مجھے تو جانتی ہوگی
مجھے معلوم ہے مجھ کو
مرے ہر نام سے پہچانتی ہوگی
اجڑ کر رہ گیا جو میں وہ میلہ ہوں
بھرا سنسار ہے پھر بھی اکیلا ہوں
تری مٹی سے جاگا ہوں
تری مٹی میں کھیلا ہوں
تری مٹی کو پہنا ہے
تری مٹی کو اوڑھا ہے
بہت جی چاہتا ہے اب تری مٹی میں کھو جاؤں
کئی صدیوں کا جاگا ہوں
تری مٹی میں سو جاؤں
ایودھیا! میرا باہر کربلا ہے
اندروں میرا کپل وستو ہے، مکہ ہے مدینہ ہے
مجھے تیرے پرانے اور روشن دن میں جینا ہے
بدن پر ہے ترا بخشا ہوا یہ کیسری بانا
ہے بھکشا پتر ہاتھوں میں
سفر میرا ہے اب تاریک راتوں میں
ایودھیا! سر اٹھا
اور دیکھ لے مجھ کو
تھکے قدموں سے اب تیری ہی جانب آ رہا ہوں میں
سفر تاریک ہے
پگ پگ پہ ٹھوکر کھا رہا ہوں میں
مجھے آواز دے گھبرا رہا ہوں میں
تری خاطر جو برسوں سے چھپا رکھا ہے دل میں
وہ اجالا لا رہا ہوں میں
ایودھیا!
آ رہا ہوں میں
——————————————————————————

یہ گرتا ہوا شہر میرا نہیں

یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں
ہوا سے الجھتا ہوا میں چلا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں
رات کے دشت میں تیرے میرے مکاں
دور ہوتے چلے جا رہے ہیں
لہو کے اجالے بھی معدوم ہیں
اور تاریک گنبد میں معصوم روحوں کے کہرام میں
بے صدا آسماں کی طرف
خوں میں لتھڑے ہوئے ہاتھ اٹھتے ہیں تحلیل ہو جاتے ہیں
اور کہیں دور اپنی فصیلوں کے اندر بکھرتی ہوئی
نامرادوں کی بستی کے اوپر
ہوا سے الجھتا ہوا میں اڑا جا رہا ہوں اندھیرا ہے گہرا گھنا بے اماں
میں بلاتا ہوں آواز دیتا ہوں اب اس حسیں شہر کو
جو پرانی زمینوں کے نیچے کہیں دفن ہے
کوئی آواز کانوں میں آتی نہیں ہے
میں شاید پرانی زمینوں کے نیچے بہت دور نیچے کہیں دفن ہوں
خوں میں لتھڑے ہوئے ہاتھ
تاریک گنبد
یہ اندھی ہوا
پھڑپھڑاتا ہوا ایک زخمی پرندہ
کہیں دور اپنی فصیلوں کے اندر بکھرتی ہوئی
نامرادوں کی بستی کے اوپر
میں جلتے پروں سے اڑا جا رہا ہوں
یہ آگ اور خوں کے سمندر میں گرتا ہوا شہر میرا نہیں ہے
———————————

 

Selected Poetry of Ghulam Rabbani Taban`

Articles

انتخاب کلام غلام ربانی تاباں

غلام ربانی تاباں

کمال بے خبری کو خبر سمجھتے ہیں
تری نگاہ کو جو معتبر سمجھتے ہیں

فروغ طور کی یوں تو ہزار تاویلیں
ہم اک چراغ سر رہ گزر سمجھتے ہیں

لب نگار کو زحمت نہ دو خدا کے لیے
ہم اہل شوق زبان نظر سمجھتے ہیں

جناب شیخ سمجھتے ہیں خوب رندوں کو
جناب شیخ کو ہم بھی مگر سمجھتے ہیں

وہ خاک سمجھیں گے راز گل و سمن تاباںؔ
جو رنگ و بو کو فریب نظر سمجھتے ہیں


 

گلوں کے ساتھ اجل کے پیام بھی آئے
بہار آئی تو گلشن میں دام بھی آئے

ہمیں نہ کر سکے تجدید آرزو ورنہ
ہزار بار کسی کے پیام بھی آئے

چلا نہ کام اگرچہ بہ زعم راہبری
جناب خضر علیہ السلام بھی آئے

جو تشنہ کام ازل تھے وہ تشنہ کام رہے
ہزار دور میں مینا و جام بھی آئے

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا گئے تاباںؔ
رہ حیات میں ایسے مقام بھی آئے


 

ہر موڑ کو چراغ سر رہ گزر کہو
بیتے ہوئے دنوں کو غبار سفر کہو

خوں گشتہ آرزو کو کہو شام میکدہ
دل کی جراحتوں کو چمن کی سحر کہو

ہر رہ گزر پہ کرتا ہوں زنجیر کا قیاس
چاہو تو تم اسے بھی جنوں کا اثر کہو

میری متاع درد یہی زندگی تو ہے
نا معتبر کہو کہ اسے معتبر کہو

یہ بھی عروج رنگ کا اک معجزہ سہی
پھولوں کی تازگی کو فروغ شرر کہو

دانش‌ وران حال کا تاباںؔ ہے مشورہ
ہر منظر جہاں کو فریب نظر کہو


 

بستی میں کمی کس چیز کی ہے پتھر بھی بہت شیشے بھی بہت
اس مہر و جفا کی نگری سے دل کے ہیں مگر رشتے بھی بہت

اب کون بتائے وحشت میں کیا کھونا ہے کیا پایا ہے
ہاتھوں کا ہوا شہرہ بھی بہت دامن نے سہے صدمے بھی بہت

اک جہد و طلب کے راہی پر بے راہروی کی تہمت کیوں
سمتوں کا فسوں جب ٹوٹ گیا آوارہ ہوئے رستے بھی بہت

موسم کی ہوائیں گلشن میں جادو کا عمل کر جاتی ہیں
روداد بہاراں کیا کہئے شبنم بھی بہت شعلے بھی بہت

ہے یوں کہ طرب کے ساماں بھی ارزاں ہیں جنوں کی راہوں میں
تلووں کے لیے چھالے بھی بہت چھالوں کے لیے کانٹے بھی بہت

کہتے ہیں جسے جینے کا ہنر آسان بھی ہے دشوار بھی ہے
خوابوں سے ملی تسکیں بھی بہت خوابوں کے اڑے پرزے بھی بہت

رسوائی کہ شہرت کچھ جانو حرمت کہ ملامت کچھ سمجھو
تاباںؔ ہوں کسی عنوان سہی ہوتے ہیں مرے چرچے بھی بہت

—————————————-

Selected Poetry of Faiz Ahmad Faiz

Articles

انتخابِ کلام فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

آج بازار میں پا بہ جولاں چلو

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہر جاناں چلو
حاکم شہر بھی مجمع عام بھی
تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب با صفا کون ہے
دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے

رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

——————————————————————–

شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں

موتی ہو کہ شیشہ جام کہ در
جو ٹوٹ گیا سو ٹوٹ گیا
کب اشکوں سے جڑ سکتا ہے
جو ٹوٹ گیا سو چھوٹ گیا

تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

شاید کہ انہیں ٹکڑوں میں کہیں
وہ ساغر دل ہے جس میں کبھی
صد ناز سے اترا کرتی تھی
صہبائے غم جاناں کی پری

پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ ساغر لے کر پھوڑ دیا
جو مے تھی بہا دی مٹی میں
مہمان کا شہپر توڑ دیا

یہ رنگیں ریزے ہیں شاید
ان شوخ بلوریں سپنوں کے
تم مست جوانی میں جن سے
خلوت کو سجایا کرتے تھے

ناداری دفتر بھوک اور غم
ان سپنوں سے ٹکراتے رہے
بے رحم تھا چومکھ پتھراؤ
یہ کانچ کے ڈھانچے کیا کرتے

یا شاید ان ذروں میں کہیں
موتی ہے تمہاری عزت کا
وہ جس سے تمہارے عجز پہ بھی
شمشاد قدوں نے رشک کیا

اس مال کی دھن میں پھرتے تھے
تاجر بھی بہت رہزن بھی کئی
ہے چور نگر یاں مفلس کی
گر جان بچی تو آن گئی

یہ ساغر شیشے لعل و گہر
سالم ہوں تو قیمت پاتے ہیں
یوں ٹکڑے ٹکڑے ہوں تو فقط
چبھتے ہیں لہو رلواتے ہیں

تم ناحق شیشے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو

یادوں کے گریبانوں کے رفو
پر دل کی گزر کب ہوتی ہے
اک بخیہ ادھیڑا ایک سیا
یوں عمر بسر کب ہوتی ہے

اس کار گہ ہستی میں جہاں
یہ ساغر شیشے ڈھلتے ہیں
ہر شے کا بدل مل سکتا ہے
سب دامن پر ہو سکتے ہیں

جو ہاتھ بڑھے یاور ہے یہاں
جو آنکھ اٹھے وہ بختاور
یاں دھن دولت کا انت نہیں
ہوں گھات میں ڈاکو لاکھ مگر

کب لوٹ جھپٹ سے ہستی کی
دوکانیں خالی ہوتی ہیں
یاں پربت پربت ہیرے ہیں
یاں ساگر ساگر موتی ہیں

کچھ لوگ ہیں جو اس دولت پر
پردے لٹکاتے پھرتے ہیں
ہر پربت کو ہر ساگر کو
نیلام چڑھاتے پھرتے ہیں

کچھ وہ بھی ہیں جو لڑ بھڑ کر
یہ پردے نوچ گراتے ہیں
ہستی کے اٹھائی گیروں کی
ہر چال الجھائے جاتے ہیں

ان دونوں میں رن پڑتا ہے
نت بستی بستی نگر نگر
ہر بستے گھر کے سینے میں
ہر چلتی راہ کے ماتھے پر

یہ کالک بھرتے پھرتے ہیں
وہ جوت جگاتے رہتے ہیں
یہ آگ لگاتے پھرتے ہیں
وہ آگ بجھاتے رہتے ہیں

سب ساغر شیشے لعل و گہر
اس بازی میں بد جاتے ہیں
اٹھو سب خالی ہاتھوں کو
اس رن سے بلاوے آتے ہیں

———————————————————————

صبح آزادی (اگست 47)
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رکے گا سفینۂ غم دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں بدن بلاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن رخ سحر کی لگن
بہت قریں تھا حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کی آگ نظر کی امنگ دل کی جلن
کسی پہ چارۂ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئی نگار صبا کدھر کو گئی
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

———————————————————————

ایرانی طلبا کے نام
یہ کون سخی ہیں
جن کے لہو کی
اشرفیاں چھن چھن، چھن چھن،
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں
کشکول کو بھرتی ہیں
یہ کون جواں ہیں ارض عجم
یہ لکھ لٹ
جن کے جسموں کی
بھرپور جوانی کا کندن
یوں خاک میں ریزہ ریزہ ہے
یوں کوچہ کوچہ بکھرا ہے
اے ارض عجم، اے ارض عجم!
کیوں نوچ کے ہنس ہنس پھینک دئے
ان آنکھوں نے اپنے نیلم
ان ہونٹوں نے اپنے مرجاں
ان ہاتھوں کی بے کل چاندی
کس کام آئی کس ہاتھ لگی
اے پوچھنے والے پردیسی
یہ طفل و جواں
اس نور کے نو رس موتی ہیں
اس آگ کی کچی کلیاں ہیں
جس میٹھے نور اور کڑوی آگ
سے ظلم کی اندھی رات میں پھوٹا
صبح بغاوت کا گلشن
اور صبح ہوئی من من، تن تن،
ان جسموں کا چاندی سونا
ان چہروں کے نیلم، مرجاں،
جگ مگ جگ مگ، رخشاں رخشاں
جو دیکھنا چاہے پردیسی
پاس آئے دیکھے جی بھر کر
یہ زیست کی رانی کا جھومر
یہ امن کی دیوی کا کنگن!

——————————————————————-