Son of The Hunter A Greek Folk Tale

Articles

یونانی لوک کہانی [شکاری کا بیٹا]

یونانی لوک کہانی

برسوں پہلے یونان میں ایک شکاری رہتا تھا۔اس کا ایک بیٹا تھا۔جب شکاری مرنے لگا تو اس نے اپنی بیوی کو بلایااور کہاکہ’’ شکار بہت مشکل کام ہے،اس کام میں میری ساری عمر گزر گئی ہے۔میری زندگی بڑی تکلیفوں میں گزری ہے،تمہارے بیٹے کو شکار کا بہت شوق ہے،وہ میرے ساتھ کئی بار شکار پر گیا ہے اور شکار بھی کھیلا ہے، یہ چونکہ بہت مشکل کام ہے،اسی لئے اسے کسی اور کام کا شوق دلانا۔‘‘
چند روز بعد شکاری مر گیا۔وقت بہت تیزی کے ساتھ گزرتا رہا۔شکاری کا بیٹا اب جوان ہو گیاتھا۔ایک دن وہ اپنی ماں سے پوچھنے لگا’’ابا جان کی رائفل کہاں ہے؟‘‘
ماں نے جواب دیا’’تمہارے اباجان کی دلی آرزو تھی کہ تم شکاری نہ بنو،کوئی اور کام سیکھو۔شکاری کی جان کو ہر وقت خطرہ رہتا ہے،میری مانو تو کوئی اچھا سا کام کر لو‘‘۔
لڑکے نے کہا’’اباجان شکاری کی زندگی سے خوش کیوں نہیں تھے۔مجھے تو شکار کھیلنے کا بہت شو ق ہے،اس میں آدمی بہادر بنتا ہے۔جان جوکھوں میں ڈال کر اپنا نام پیدا کرتا ہے۔اباجان نے بھی شکاری زندگی میں نام پیدا کیا ہے۔سب انکی بہادری کے گن گاتے ہیں۔حکومت کی طرف سے انہیں خوفناک جانوروں کو ہلاک کرنے پر انعام بھی ملا تھا۔وہ بہت بہادر اور نڈر انسان تھے اور میں بھی ان کا بیٹا ہوں اور مجھے بھی شکار کا بہت شوق ہے۔اب میں کوئی بچہ نہیں ہوں،رائفل چلانا جانتا ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے باپ کی رائفل اٹھائی اور چپ چاپ جنگل کی طرف نکل پڑا۔جنگل میں دیر تک شکار ڈھونڈنے کے بعد ایک ہرن پر اس کی نظر پڑی۔اس نے رائفل سے ہرن کا شکار کیا اور اسے اپنے کاندھے پر ڈال کر بیچنے کے لئے شہر لے آیا۔وہ بازار میں بیچنے کے لئے بیٹھا تھا کہ اتنے میں بادشاہ کاایک وزیروہاںآ پہنچا اور اس نے پوچھا: ’’ یہ ہرن کتنے میں بیچو گے؟‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا: ’’آپ کیا دام دیں گے؟‘‘
’’بیس روپے وزیر نے کہا‘‘۔
’’یہ تو بہت کم ہیں میں نہیں بیچوں گا‘‘شکاری کے بیٹے نے کہا۔وزیر کو یہ سن کر بہت غصہ آیا۔وہ سیدھا بادشاہ کے پاس پہنچا اور بادشاہ سے کہا:’’حضور والا ایک شخص بازار میں بیٹھا ہرن بیچ رہا ہے،آپ ضرور خریدیں۔بہت اچھا گوشت ہے مگر دس روپے سے زیادہ قیمت نہ دیجئے۔‘‘
بادشاہ نے شکاری کے بیٹے کو بلوایا۔وہ ہرن لئے آپہنچا تو اس نے پوچھا’’کیا لوگے اس ہرن کا مناسب دام بتاؤ،ہم اسے خریدنا چاہتے ہیں۔‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’جناب آپ بہتر جانتے ہیں کہ اس کی قیمت کیا ہونی چاہیے‘‘۔
’’دس روپے کافی ہیں۔‘‘بادشاہ نے کہا۔
کسی کی مجال تھی کہ بادشاہ سے تکرار کرے۔وہ اپنے شکار کے بہت کم دام سن کر چپ ہو رہا۔بادشاہ سے بحث فضول تھی۔وہ انکار بھی تو نہیں کر رہاتھا۔غنیمت یہی تھا کہ جو کچھ بادشاہ ہرن کے دے رہا ہے،وہ قبول کر لے۔شکاری کا بیٹا دس روپے میں بادشاہ کوہرن دے کر گھر چلا گیا۔
دوسرے دن بادشاہ نے شکاری کے بیٹے کو بلوایا اور کہا:’’ہم اپنے لئے ہاتھی دانت کا ایک محل بنوانا چاہتے ہیں۔تم شکاری ہو اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ جنگل میں جا کر ہاتھیوں کا شکار کرو اور ان کے دانت جمع کر کے ہمارے لئے محل تیار کرو۔‘‘
شکاری کا بیٹا خاموش کھڑا رہا۔تھوڑی دیر بعد بادشاہ نے کہا’’چپ چاپ کیوں کھڑے ہو۔بتاؤ تم یہ کام کر سکتے ہو یا نہیں۔اور اگر تم ہاتھیوں کا شکار کرکے ہمارے لئے محل بنا دوتو جان کی سلامتی ہے ورنہ تمہیں جان سے ما ر دیا جائے گا۔‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’جناب یہ کام ضرور کروں گا‘‘یہ کہہ کر وہ گھر گیا۔گھر جا کر اس نے اپنی ماں سے کہا۔’’اب میرا زندہ رہنا واقعی بہت مشکل ہے۔ باد شاہ نے اپنے لئے ہاتھی دانت کا محل بنانے کا حکم دیا ہے۔یہ کام مجھ سے نہ ہو سکے گااور بادشاہ ضرور مجھے مار ڈالے گا۔مجھے ایک تھیلا اور تھوڑی سی روٹی دے دو،میں کہیں بھاگ نکلوں تاکہ بادشاہ کے آدمی مجھے گرفتار نہ کر سکیں۔‘‘
اس کی ماں نے کہا’’تمہارے ابا نے واقعی ٹھیک کہا تھاکہ بیٹے کوکسی اور کام کا شوق دلانا۔اب اپنے آپ کو مصیبت میں پھنسا لیا ہے توگھبراؤ مت۔بہادر بنو اور اپنے باپ کا نام روشن کرنے کی کوشش کرو۔تمہارے ابا کہا کرتے تھے’’بڑے پہاڑ پر جو پانی کا چشمہ ہے،وہاں بہت سے ہاتھی ہفتے میں ایک دن پانی پینے آتے ہیں۔اگر بادشاہ نے ہماری مدد کی تو ہم ان کے دانت نکال سکتے ہیں۔ہم چشمے کا پانی نکال کر اس میں شراب بھر دیں گے۔جب ہاتھی یہ شراب پئیں گے تو انہیں نشہ آجائے گا اور وہ سو جائیں گے،ہم آسانی سے ان کے دانت نکال لیں گے۔‘‘
یہ سن کر شکاری کا بیٹا بہت خوش ہوا۔دوسرے دن وہ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوااور عرض کی ’’جناب اگر مجھے شراب کے پچاس پیپے اور چند آدمی مل جائیں تو میں ہاتھی دانت جمع کرکے آپ کے لئے محل بنوا سکتاہوں۔
بادشاہ نے اسے پچاس پیپے شراب اور چند آدمی دے دیئے۔وہ سب چیزیں ساتھ لیکر بڑے پہاڑ پر پہنچا اور چشمے کا پانی نکال کر اس میں شراب بھر دی۔پھر وہ خود اور اس کے ساتھی جنگل میں چھپ گئے،ہاتھی آئے اواور پانی میں شراب ملی ہوئے پی کر لڑ کھڑا نے لگے اور سب کے سب وہیں گر کر بے ہوش ہو گئے۔شکاری کا بیٹا اور اس کے ساتھی جنگل سے نکلے اورآسانی سے انہوں نے ہاتھیوں کے دانت نکال لئے اور ہاتھی دانت لے کر انہوں نے بادشاہ کے لئے محل تیار کر دیا۔وزیر نے جو دیکھا کہ شکاری کا بیٹا اس میں بھی کامیاب رہا ہے تو جل گیا۔اب اس نے دل میں ٹھان لی کہ شکاری کے بیٹے کو مار کر ہی دم لوں گا۔
یہ سوچ کر وہ بادشاہ کے پاس گیا اور کہا ’’حضوراتر کی طرف پہاڑوں میں سات بھائی رہتے ہیں،ان کی ایک بہن ہے ، بڑی خوبصورت۔آپ اسے اپنی ملکہ بنائیں اور اپنے محل میں رکھیں تو آپ بہت خوش رہیں گے۔شکاری کے بیٹے کو بھیجئے،اس کو لے آئے گا۔‘‘بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔اس نے شکاری کے بیٹے کو بلایااور حکم دیا کہ جاؤ اور پہاڑ سے اس لڑکی کو لے آؤ۔
شکاری کے بیٹے کو یقین ہو گیا کہ یہ وہ کام وہ نہیں کر سکتا،گھر پہنچا ،کچھ روٹی اور تھیلا لیا اور شمال کی طرف چل دیا۔اسے کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے اور نہ یہ خبر تھی کہ پھر کبھی لوٹ کر آئے گا بھی یا نہیں ۔چلتے چلتے وہ ایک دن دریا کے کنارے پہنچا۔اس نے دیکھا کہ ایک آدمی وہاں بیٹھا پانی پی رہا تھا۔وہ آدمی پانی پیتا جاتا تھا اور کہتا جا رہا تھا’’اف میری پیاس ہی نہیں بجھی۔‘‘اور یہ کہتے کہتے اس نے اتنا پانی پیا کہ دریا سوکھ گیا۔شکاری کا بیٹا یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا اور اس نے آدمی سے پوچھا:
’’بھئی یہ کیسی پیاس ہے جو بجھتی ہی نہیں؟‘‘
اس آدمی نے کہا:’’ہاں میاں میری پیاس کبھی نہیں بجھتی اور پھر مصیبت یہ ہے کہ میں اکیلا ہوں۔اس سفر میں میرا کوئی ساتھی نہیں ہے۔‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’چلو میرے ساتھی بن جاؤ‘‘ اور پھر دونوں مل کے چلنے لگے۔تھوڑی دور گئے تو انہیں ایک آدمی ملا۔جس نے آگ جلا رکھی تھی۔وہ آگ تاپتا چلا جاتا تھا اورکہتا چلا جاتا تھا’’اف کتنی سردی ہے‘‘۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی اسی طرح ساتھ لے لیا۔اب تینوں مل کر چلنے لگے۔تھوڑی دور گئے تھے کہ ایک آدمی ملا جو کھانا کھا رہا تھا۔یہ آدمی سیروں کھانا چٹ کئے جاتا تھااور کہتا جاتا ’’اف پیٹ نہیں بھرتا‘‘۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی ساتھ لے لیا۔چاروں مل کر آگے بڑھے تو ان کو ایک آدمی اور ملا۔یہ آدمی زمین سے کان لگائے لیٹا تھا۔اس نے بتایا کہ وہ اس طرح زمین سے کان لگا کر ساری دنیا کی باتیں سن سکتا ہے۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی اپنا ساتھی بنا لیا۔پانچوں مل کر آگے بڑھے تو انہیں ایک آدمی اور ملا۔یہ آدمی لمبی لمبی چھلانگیں لگاتااور دونوں ہاتھوں میں دو بڑے بڑے پتھر اٹھا لیتا تھا۔انہیں زور سے پیچھے کی طرف پھینکتااور اسی زور سے آگے کی طرف چھلانگ لگاتا۔شکاری کے بیٹے نے اسے بھی اپنا ساتھی بنا لیا۔اب یہ چھ کے چھ ساتھی روانہ ہو گئے۔تھوڑی دور گئے تو انہیں ایک اور آدمی ملا۔یہ آدمی جب چاہتا تھا زمین کو ہلادیتا تھااور زلزلہ پیدا کر دیا تھا۔یہ بھی شکاری کے بیٹے کے ساتھ ہو گیااور ساتوں مل کر آگے چلے۔چلتے چلتے یہ ساتوں اس بڑے پہاڑ پر پہنچے جہاں وہ سات بھائی اپنی بہن کے ساتھ رہتے تھے۔شکاری کے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کو دیکھ کر ساتوں بھائی نکلے کہ انہیں مار ڈالیں مگر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ساتوں بھی طاقت ور ہیں تو لڑائی کا ارادہ ترک کر دیااور ان سے پوچھا:’’تم لوگ یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
شکاری کے بیٹے نے کہا:’’ہم تمہاری بہن کا پیام لیکر آئے ہیں۔ہمارا بادشاہ اس سے شادی کرنا چاہتا ہے۔بادشاہ تمہاری بہن کو ہاتھی دانت کے محل میں رکھے گا۔‘‘
ساتوں بھائی یہ سن کر گھر میں چلے گئے۔شکاری کے بیٹے نے اپنے اس ساتھی سے جو زمین سے کان لگا کر سب کچھ سن لیتا تھا کہا’’ذرا سنو تو کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘
اس آدمی نے زمین سے کان لگا کر سننے کے بعد کہا کہ پہلے وہ ہمیں کھانے سے بھرے ہوئے سات بڑے بڑے خوان دیں گے۔اگر ہم نے سارا کھانا کھا لیا تو وہ اپنی بہن کو ہمارے ساتھ بھیج دیں گے ورنہ نہیں۔
شکاری کا بیٹا یہ سن کر گھبرا گیا اور کہنے لگا مگر ہم اتنا کھانا کیسے کھائیں گے؟
اس کے ساتھ نے جو ہمیشہ بھوکا رہتا تھا’’میں جو ہوں تم گھبراتے کیوں ہو‘‘تھوڑی دیر بعد ساتوں بھائی گھر سے باہر آئے اور ان ساتوں کو اپنے ساتھ گھر لے گئے۔وہاں انہوں نے کھانے سے بھرے ہوئے سات خو ان ان کے سامنے رکھ دئیے۔ساتوں نے مل کرکھانا شروع کر دیا۔تھوڑی دیر میں چھ کا پیٹ بھر گیا اور وہ چپ چاپ بیٹھ گئے مگر ساتویں نے وہ سارا کھانا صاف کر دیا۔مگر اس پر بھی سات بھائی اپنی بہن کوان کے حوالے کرنے کو تیار نہ ہوئے۔انہوں نے اور ترکیبیں انہیں ہرانے کی نکالیں۔پانی کے سات بڑے بڑے مٹکے لے آئے اور کہا کہ یہ سارا پانی پی لوتوہم اپنی بہن تمہارے حوالے کر دیں گے۔شکاری کے بیٹے کے ساتھی نے جو ہمیشہ پیاسا رہتا تھا،ساتوں مٹکوں کا پانی پی لیااور پانی پی کر کہنے لگا ’’مجھے تھوڑا سا پانی اور پلاؤ،میں ابھی پیاسا ہوں‘‘ہماراایک گرم حمام ہے۔تم میں سے کوئی ایک اس کے اندر جا کرتھوڑی دیر بیٹھے تو ہم تمہاری بات مان لیں گے۔شکاری کے بیٹے کے اس ساتھی نے جسے ہمیشہ سردی لگتی رہتی تھی،کہا’’میں جاؤں گا اس حمام میں،میں تو سردی سے اکڑا جا رہا ہوں۔‘‘
لڑکی کے بھائیوں نے حمام کو اس قدر گرم کردیا تھا کہ کوئی بھی اس میں جاے تو جھلس کر مر جائے۔وہ آدمی اندر چلا گیا تو تھوڑی دیر تک سب اسکی واپسی کا انتظار کرتے رہے مگر وہ نہ نکلا،نہ اس کی آواز آئی۔انہوں نے حمام کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تووہ چلایا،دروازہ بند کرو مجھے سردی لگ جائے گی۔میرا پہلے ہی برا حال ہے۔
جب وہ باہر آیا تو لڑکی کے بھائیوں نے کہا کہ تم لوگوں نے ہماری ساری شرطیں پوری کر دیں مگر ابھی ایک شرط باقی ہے۔اگلے پہاڑ پر ایک چشمہ ہے۔تم میں سے کوئی شخص وہاں سے تھوڑا سا پانی لے آئے ہماری بہن بھی جا کر پانی لائے گی۔اگر تمہارا آدمی ہماری بہن سے پہلے پانی لے آیا تو ہم ہارے اور تم جیتے۔
شکارے کے بیٹے کا وہ ساتھی جو چھلانگیں لگاتا تھا،تیار ہو گیا۔اس نے دو بڑے بڑے پتھر اٹھا کر نیچے کی طرف پھینکے اور ایک ہی چلانگ میں اس پہاڑ پر جا پہنچا۔چشمے سے پانی لے کر وہ معمولی چال سے واپس آنے لگا۔راستے میں اسے وہ لڑکی مل گئی۔وہ ابھی چشمے کی طرف جا رہی تھی۔اس آدمی نے لڑکی سے کہاہم جیت گئے اور تمہارے بھائی ہار گئے ہیں۔آؤ جانے سے پہلے تھوڑی دیر باتیں کر لیں۔لڑکی اس کے پاس بیٹھ گئی مگر اس آدمی کوباتیں کرتے کرتے نیند آگئی۔وہ سو گیا تو لڑکی نے اس کی بوتل کا پانی اپنی بوتل میں انڈیل لیا اور گھر کی طرف واپس ہونے لگی۔
جب اس کے ساتھی کو گئے ہوئے بہت دیر ہو گئی تو شکاری کے بیٹے کو فکر ہونے لگی۔اس نے اپنے ساتھی سے زمین پر کان لگا کر سننے کے لئے کہا۔اس نے کہا کہ’’ہمارا ساتھی تو سو رہا ہے،ہم ہار جائیں گے۔‘‘
شکاری کے بیٹے کا ساتھی جو زمیں ہلا سکتا تھا ، اس نے کہا کہ ’’ٹھہرو! میں زمین کو ہلاتا ہوں اور اسے جگاتاہوں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے زور سے زمین کو ہلایاتو وہ جاگ پڑا اوردیکھا کہ لڑکی اس کا پانی لے کے چلی گئی ہے۔اس نے وہیں سے ایک چھلانگ لگائی اور لڑکی کو راستے میں جا لیا۔اس نے پانی چھین کر پھر ایک چھلانگ لگائی اور اپنے ساتھیوں سے آملا۔
شکاری کا بیٹا اور اس کے ساتھی ساری شرطیں جیت چکے تھے۔اس لئے ساتوں بھائیوں نے اپنی بہن ان کے حوالے کر دی اور شکاری کا بیٹا اس لڑکی اور اپنے ساتھیوں کو لے کر بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔
باد شاہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا مگر وزیراور بھی جل گیا۔لڑکی نے پہلے بادشاہ کو پھر وزیر کواور پھر ہاتھی دانت کے محل کو غور سے دیکھا اور بادشاہ سے پوچھا:
’’اس محل کے لئے ہاتھی دانت کون لایا تھا؟‘‘
’’شکاری کا بیٹا‘‘بادشاہ نے کہا۔
’’اور محل کس نے بنایا؟‘‘لڑکی نے پوچھا۔
’’شکاری کے بیٹے نے ‘‘بادشاہ نے کہا۔
’’اور مجھے پہاڑوں سے اتنا لمبا سفر کرکے کون لایا؟‘‘لڑکی نے پوچھا۔
’’شکاری کا بیٹا‘‘بادشاہ نے کہا۔
لڑکی نے پوچھا:’’جب شکاری کے بیٹے نے سب کچھ کیا ہے تو میں تم سے شادی کیوں کروں؟‘‘اور پھر اس نے کہا ’’تمہارا وزیر بری عادت کی سزا میں چوہا بن جائے اور تم بلی بن کر اس کے پیچھے دوڑتے رہو۔‘‘لڑکی کا یہ کہنا تھا کہ وزیر چوہا بن گیا اور بادشاہ بلی بن کر اسے پکڑنے کے لئے دوڑنے لگا۔شہر کے لوگوں نے شکاری کے بیٹے کو اپنابادشاہ بنا لیا۔وہ بادشاہ سے پہلے بھی نالاں تھے اور وزیر انہیں تنگ کرتا رہتا تھا۔
شکاری کے بیٹے نے اس لڑکی سے شادی کر لی اور دونوں مل کر ہاتھی دانت کے محل میں خوشی خوشی رہنے لگے۔وہ اب اپنی ماں کو بھی محل میں لے آیا تھا۔ماں لڑکی سے مل کر بہت خوش ہوئی۔شکاری کا بیٹا ملک کا بادشاہ بن کر راج کرنے لگا.
———————————————————

“Katba” A Short Story by Ghulam Abbas

Articles

کتبہ

غلام عباس

شہر سے کوئی ڈیڑھ دو میل کے فاصلے پر پُر فضا باغوں اور پھلواریوں میں گھر ی ہوئی قریب قریب ایک ہی وضع کی بنی ہوئی عمارتوں کا ایک سلسلہ ہے جو دُور تک پھیلتا چلا گیا ہے ۔ عمارتوں میں کئی چھوٹے بڑے دفتر ہیں جن میں کم و بیش چار ہزار آدمی کام کرتے ہیں۔دن کے وقت اس علاقے کی چہل پہل اور گہما گہمی عموماً کمروں کی چار دیواریوں ہی میں محدود رہتی ہے۔ مگر صبح کو ساڑھے دس بجے سے پہلے اور سہ پہر کو ساڑھے چار بجے کے بعد وہ سیدھی اور چوڑی چکلی سڑک جو شہر کے بڑے دروازے سے اس علاقے تک جاتی ہے، ایک ایسے دریا کا روپ دھار لیتی ہے جو پہاڑوں پرسے آیا ہوا، اور اپنے ساتھ بہت ساخس و خاشاک بہا لا یا ہو۔

گرمی کا زمانہ، سہ پہر کا وقت ، سڑکوں پر درختوں کے سائے لمبے ہونے شروع ہو گئے تھے مگر ابھی تک زمین کی تپش کا یہ حال تھا کہ جُوتوں کے اندر تلوے جُھلسے جاتے تھے۔ ابھی ابھی ایک چھڑکاؤ گاڑی گزری تھی۔ سڑک پر جہاں جہاں پانی پڑا تھا بخارات اُٹھ رہے تھے۔

شریف حسین کلرک درجہ دوم، معمول سے کچھ سویرے دفتر سے نکلا اور اس بڑے پھاٹک کے باہر آ کر کھڑا ہو گیا جہاں سے تانگے والے شہر کی سواریاں لے جایا کرتے تھے۔

گھر لوٹتے ہوئے آدھے راستے تک تانگے میں سوار ہو کر جانا ایک ایسا لُطف تھا جو اسے مہینے کے شروع کے صرف چار پانچ روز ہی ملا کرتا تھا اور آج کا دن بھی انہی مبارک دنوں میں سے ایک تھا۔ آج خلافِ معمول تنخواہ کے آٹھ روز بعد اس کی جیب میں پانچ روپے کا نوٹ اور کچھ آنے پیسے پڑے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ اس کی بیوی مہینے کے شروع ہی میں بچوں کو لے کر میکے چلی گئی تھی اور گھر میں وہ اکیلا رہ گیا تھا۔ دن میں دفتر کے حلوائی سے دو چار پوریاں لے کر کھا لی تھیں اور اوپر سے پانی پی کر پیٹ بھر لیا تھا۔ رات کو شہر کے کسی سستے سے ہوٹل میں جانے کی ٹھہرائی تھی۔ بس بے فکری ہی بے فکری تھی۔ گھر میں کچھ ایسا اثاثہ تھا نہیں جس کی رکھوالی کرنی پڑتی۔ اس لیے وہ آزاد تھا کہ جب چاہے گھر جائے اور چاہے تو ساری رات سڑکوں پر گھومتا رہے۔

تھوڑی دیر میں دفتروں سے کلرکوں کی ٹولیاں نکلنی شرو ع ہوئیں اور ان میں ٹائپسٹ ریکارڈ کیپر، ڈسپیچر، اکاؤنٹنٹ ، ہیڈ کلرک، سپرنٹنڈنٹ غرض ادنیٰ و اعلیٰ ہر درجہ اور حیثیت کے کلرک تھے اور اسی لحاظ سے ان کی وضع قطع بھی ایک دوسرے سے جُدا تھی۔ مگر بعض ٹائپ خاص طور پر نمایاں تھے۔ سائیکل سوار آدھی آستینوں کی قمیص ، خاکی زین کے نیکر اور چپل پہنے، سرپر سولا ہیٹ رکھے، کلائی پر گھڑی باندھے، رنگدار چشمہ لگائے، بڑی بڑی توندوں والے بابو چھاتا کھولے، منہ میں بیڑی، بغلوں میں فائلوں کے گٹھے دبائے۔ ان فائلوں کو وہ قریب قریب ہر روز اس امید میں ساتھ لے جاتے کہ جو گُتھیاں وہ دفتر کے غل غپاڑے میں نہیں سُلجھا سکے۔ ممکن ہے گھر کی یکسوئی میں ان کا کوئی حل سُوجھ جائے مگر گھر پہنچتے ہی وہ گرہستی کاموں میں ایسے الجھ جاتے کہ انہیں دیکھنے تک کا موقع نہ ملتا اور اگلے روز انہیں یہ مفت کا بوجھ جوں کا توں واپس لے آنا پڑتا۔

بعض منچلے تانگے، سائیکل اور چھاتے سے بے نیاز ، ٹوپی ہاتھ میں ، کوٹ کاندھے پر، گریبان کُھلا ہوا جسے بٹن ٹوٹ جانے پر انہوں نے سیفٹی پن سے بند کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کے نیچے سے چھاتی کے گھنے بال پسینے میں تتر بتر نظر آتے تھے۔ نئے رنگروٹ سستے، سلے سلائے ڈھیلے ڈھالے بد قطع سوٹ پہنے اس گرمی کے عالم میں واسکٹ اور نکٹائی کالر تک سے لیس ، کوٹ کی بالائی جیب میں دو دو تین تین فونٹین پن اور پنسلیں لگائے خراماں خراماں چلے آرہے تھے۔

گو ان میں سے زیادہ تر کلرکوں کی مادری زبان ایک ہی تھی مگر وہ لہجہ بگاڑ بگاڑ کر غیر زبان میں باتیں کرنے پر تلے ہوئے تھے ۔اس کی وجہ و ہ طمانیت نہ تھی جو کسی غیر زبان پر قدرت حاصل ہونے پر اس میں باتیں کرنے پر اکساتی ہے بلکہ یہ کہ انہیں دفتر میں دن بھر اپنے افسروں سے اسی غیر زبان میں بولنا پڑتا تھا اور اس وقت وہ باہم بات چیت کر  کے اس کی مشق بہم پہنچا رہے تھے۔

ان کلرکوں میں ہر عمر کے لوگ تھے ۔ ایسے کم عمر بھولے بھالے نا تجربہ کار بھی جن کی ابھی مسیں بھی پوری نہیں بھیگی تھیں اور جنہیں ابھی سکول سے نکلے تین مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اور ایسے عمر رسیدہ جہاں دیدہ گھاگ بھی جن کی ناک پر سالہا سال عینک کے استعمال کے باعث گہرا نشان پڑ گیا تھا اور جنہیں اس سڑک کے اتار چڑھاؤ دیکھتے دیکھتے پچیس پچیس ،تیس تیس برس ہو چکے تھے ۔ بیشتر کارکنوں کی پیٹھ میں گدّی میں ذرا نیچے خم سا آگیا تھا اور کُندا ُستروں سے متواتر داڑھی مونڈھتے رہنے کے باعث ان کے گالوں اور ٹھوڑی پر بالوں میں جڑیں پھوٹ نکلی تھیں جنہوں نے بے شمار ننھی پھنسیوں کی شکل اختیار کر لی تھی۔

پیدل چلنے والوں میں بہتیرے لوگ بخوبی جانتے تھے کہ دفتر سے ان کے گھر کو جتنے راستے جاتے ہیں ان کا فاصلہ کتنے ہزار قدم ہے ۔ ہر شخص افسروں کو چڑچڑے پن یا ماتحتوں کی نالائقی پر نالاں نظر آتا تھا۔

ایک تانگے کی سواریوں میں ایک کی کمی دیکھ کر شریف حسین لپک کر اس میں سوار ہو گیا۔ تانگہ چلا اور تھوڑی دیر میں شہر کے دروازے کے قریب پہنچ کر رک گیا ۔ شریف حسین نے اکّنی نکال کر کوچوان کو دی اور گھر کے بجائے شہر کی جامع مسجد کی طرف چل پڑا، جس کی سیڑھیوں کے گردا گرد ہر روز شام کو کہنہ فروشوں اور سستا مال بیچنے والوں کی دکانیں سجا کر تی تھیں اور میلہ سالگا کرتا تھا ۔ دنیا بھر کی چیزیں اور ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ یہاں ملتے تھے ۔ اگر مقصد خرید و فروخت نہ ہو تو بھی یہاں اور لوگوں کو چیزیں خریدتے، مول تول کرتے دیکھنا بجائے خود ایک پُر لطف تماشا تھا۔

شریف حسین لیکچر باز حکیموں، سینا سیوں ، تعویذ گنڈے بیچنے والے سیانوں اور کھڑے کھڑے تصویر اتار دینے والے فوٹوگرافروں کے جمگھٹوں کے پاس ایک ایک دو دو منٹ رکتا، سیر دیکھتا اس طرف جا نکلا جہاں کباڑیوں کی دکانیں تھیں۔ یہاں اسے مختلف قسم کی بے شمار چیزیں نظر آئیں۔ ان میں سے بعض ایسی تھیں جو اپنی اصلی حالت میں بلاشبہ صنعت کا اعلیٰ نمونہ ہوں گی مگر ان کباڑیوں کے ہاتھ پڑتے پڑتے یا تو ان کی صورت اس قدر مسخ ہو گئی تھی کہ پہچانی ہی نہ جاتی تھی یا ان کا کوئی حصہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہوتا جس سے وہ بے کار ہو گئی تھیں۔ چینی کے ظروف اور گلدان، ٹیبل لیمپ، گھڑیاں ، جلی ہوئی بیٹریاں ، چوکٹھے ، گراموفون کے کل پُرزے ، جراحی کے آلات، ستار، بھس بھرا ہرن، پیتل کے لم ڈھینگ ، بدھ کا نیم قد مجسمہ……..

ایک دکان پر اس کی نظر سنگِ مر مر کے ایک ٹکڑے پر پڑی جو معلوم ہوتا تھا کہ مغل بادشاہوں کے کسی مقبرے یا بارہ دری سے اکھاڑا گیا ہے ۔ اس کا طول کوئی سوا فٹ تھا اور عرض ایک فٹ ۔ شریف حسین نے اس ٹکڑے کو اُٹھا کر دیکھا۔ یہ ٹکڑا ایسی نفاست سے تراشا گیا تھا کہ اس نے محض یہ دیکھنے کے لیے بھلا کباڑی اس کے کیا دام بتائے گا، قیمت دریافت کی۔

” تین روپے !” کباڑی نے اس کے دام کچھ زیادہ نہیں بتائے تھے مگر آخر اسے اس کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اس نے ٹکڑا رکھ دیا اور چلنے گا۔

” کیوں حضرت چل دیے؟ آپ بتائیے کیا دیجئے گا!”۔

وہ رُک گیا ۔ اسے یہ ظاہر کرتے ہوئے شرم سی آئی کہ اسے اس چیز کی ضرورت نہ تھی اور اس نے محض اپنے شوقِ تحقیق کو پورا کرنے کے لیے قیمت پوچھی تھی۔ اس نے سودا، دام اس قدر کم بتاؤ کہ جو کباڑی کو منظور نہ ہوں۔ کم از کم وہ اپنے دل میں یہ تو نہ کہے کہ یہ کوئی کنگلا ہے جو دکانداروں کا وقت ضائع اور اپنی حرص پوری کرنے آیا ہے۔

” ہم تو ایک روپیہ دیں گے” ۔ یہ کہہ کر شریف حسین نے چاہا کہ جلد جلد قدم اٹھاتا ہو کباڑی کی نظروں سے اوجھل ہو جائے مگر اُس نے اس کی مہلت ہی نہ دی۔

” اجی سنیے تو ، کچھ زیادہ نہیں دیں گے؟ سو ا روپیہ بھی نہیں…….. اچھالے جائیے”۔

شریف حسین کو اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے بارہ آنے کیوں نہ کہے۔ اب لوٹنے کے سوا کوئی چارہ ہی کیا تھا۔ قیمت ادا کرنے سے پہلے اس نے اس مرمریں ٹکڑے کو اُٹھا کر دوبارہ دیکھا بھالا کہ اگر ذرا سا بھی نقص نظر آئے تو اس سودے کو منسوخ کر دے۔ مگر وہ ٹکڑا بے عیب تھا۔ نہ جانے کباڑی نے اسے اس قدر سستا کیوں بیچنا قبول کیا تھا۔

رات کو جب وہ کھلے آسمان کے نیچے اپنے گھر کی چھت پر اکیلا بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا تو اس سنگِ مر مر کے ٹکڑے کا ایک مصرف اس کے ذہن میں آیا ۔ خدا کے کارخانے عجیب ہیں۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے ۔ کیا عجب اس کے دن پھر جائیں۔ وہ کلرک درجہ دوم سے ترقی کر کے سپرنٹنڈنٹ بن جائے اور اس کی تنخواہ چالیس سے بڑھ کر چار سو ہو جائے…….. یہ نہیں تو کم سے کم ہیڈ کلرک ہی سہی۔ پھر اسے ساجھے کے مکان میں رہنے کی ضرورت نہ رہے بلکہ وہ کوئی چھوٹا سا مکان لے لے اور اس مرمریں ٹکڑے پر اپنا نام کندہ کرا کے دروازے کے باہر نصب کر دے۔

مستقبل کی یہ خیالی تصویر اس کے ذہن پر کچھ اس طرح چھا گئی کہ یا تو وہ اس مرمریں ٹکڑے کو بالکل بے مصرف سمجھتا تھا یا اب اسے ایسا محسوس ہونے لگا گویا وہ ایک عرصے سے اس قسم کے ٹکڑے کی تلاش میں تھا اور اگر اسے نہ خریدتا تو بڑی بھُول ہوتی۔

شروع شروع میں جب وہ ملازم ہوا تھا تو اس کا کام کرنے کو جوش اور ترقی کا ولولہ انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ مگر دو سال کی سعی لا حاصل کے بعد رفتہ رفتہ اس کا یہ جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور مزاج میں سکون آ چلا تھا۔ مگر سنگِ مر مر کے ٹکڑے نے پھر اس کے خیالوں میں ہلچل ڈال دی۔مستقبل کے متعلق طرح طرح کے خوش آئندہ خیالات ہر روز اس کے دماغ میں چکر لگانے لگے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، دفتر جاتے ، دفتر سے آتے، کوٹھیوں کے باہر لوگوں کے نام کے بورڈ دیکھ کر ۔ یہاں تک کہ جب مہینہ ختم ہوا اور اسے تنخواہ ملی تو اس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سنگِ مرمر کے ٹکڑے کو شہر کے ایک مشہور سنگ تراش کے پاس لے گیا جس نے بہت چابکدستی سے اس پر اس کا نام کندہ کر کے کونوں میں چھوٹی چھوٹی خوشنما بیلیں بنا دیں۔

اس سنگِ مرمر کے ٹکڑے پر اپنا نام کُھدا ہوا دیکھ کر اسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی۔ زندگی میں شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس نے اپنا نام اس قدر جلی حروف میں لکھا ہوا دیکھا ہو۔

سنگ تراش کی دکان سے روانہ ہوا تو بازار میں کئی مرتبہ اس کا جی چاہا کہ کتبہ پر سے اس اخبار کو اتار ڈالے جس میں سنگ تراش نے اسے لپیٹ دیا تھا اور اس پر ایک نظر اور ڈال لے مگر ہر بار ایک نامعلوم حجاب جیسے اس کے ہاتھ پکڑ لیتا۔شاید وہ راہ چلتوں کی نگاہوں سے ڈرتا کہ کہیں وہ اس کتبہ کو دیکھ کر اس کے ان خیالات کو نہ بھانپ جائیں جو پچھلے کئی دنوں سے دماغ پر مسلط تھے۔

گھر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی اس نے اخبار اتار پھینکا اور نظریں کتبہ کی دلکش تحریر پر گاڑے دھیرے دھیرے سیڑھیاں چڑھنے لگا ۔ بالائی منزل میں اپنے مکان کے دروازے کے سامنے پہنچ کر رُک گیا۔ جیب سے چابی نکالی، قفل کھولنے لگا۔ پچھلے دو برس میں آج پہلی مرتبہ اس پر یہ انکشاف ہوا کہ اس کے مکان کے باہر ایسی کوئی جگہ ہی نہیں کہ اس پر کوئی بورڈ لگایا جا سکے۔ اگر جگہ ہوتی بھی تو اس قسم کے کتبے وہاں تھوڑا ہی لگائے جاتے ہیں۔ ان کے لیے تو بڑا سامکان چاہیے جس کے پھاٹک کے باہر لگایا جائے تو آتے جاتے کی نظر بھی پڑے……..

قفل کھول کر مکان کے اندر پہنچا اور سوچنے لگا کہ فی الحال اس کتبہ کو کہاں رکھوں، اس کے ایک حصہ مَکان میں دو کوٹھریاں ، ایک غسل خانہ اور ایک باورچی خانہ تھا۔ الماری صرف ایک ہی کوٹھڑی میں تھی مگر اس کے کواڑ نہیں تھے بالآخر اس نے کتبہ کو اس بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔

ہر روز شام کو جب وہ دفتر سے تھکا ہارا واپس آتا تو سب سے پہلے اس کی نظر اس کتبہ ہی پر پڑتی۔ امیدیں اسے سبز باغ دکھاتیں اور دفتر کی مشقت کی تکان کسی قدر کم ہو جاتی۔ دفتر میں جب کبھی اس کا کوئی ساتھی کسی معاملے میں اس کی رہنمائی کا جویا ہوتا تو اپنی برتری کے احساس سے اس کی آنکھیں چمک اٹھتیں جب کبھی کسی ساتھی کی ترقی کی خبر سنتا، آرزوئیں اس کے سینے میں ہیجان پیدا کر دیتیں ۔ افسر کی ایک ایک نگاہ لطف و کرم کا نشہ اسے آٹھ آٹھ دن رہتا۔

جب تک اس کی بیوی بچے نہیں آئے وہ اپنے خیالوں ہی میں مگن رہا۔ نہ دوستوں سے ملتا نہ کھیل تماشوں میں حصہ لیتا، رات کو جلد ہی ہوٹل سے کھانا کھا کر گھر آ جاتا اور سونے سے پہلے گھنٹوں عجیب عجیب خیالی دنیاؤں میں رہتا، مگر ان کے آنے کی دیر تھی کہ نہ تو وہ فراغت ہی رہی اور نہ وہ سکون ہی ملا۔ ایک بار پھر گرہستی کے فکروں نے اسے ایسا گھیر لیا کہ مستقبل کی یہ سہانی تصویریں رفتہ رفتہ دھُندلی پڑ گئیں۔

کتبہ سال بھر تک اسی بے کواڑ کی الماری میں پڑا رہا۔ اس عرصے میں اس نے نہایت محنت سے کام کیا۔ اپنے افسروں کو خوش رکھنے کی انتہائی کوشش کی مگر اس کی حالت میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔

اب اس کے بیٹے کی عمر چار برس کی ہو گئی تھی اور اس کا ہاتھ اس بے کواڑ کی الماری تک بخوبی پہنچ جاتا تھا۔ شریف حسین نے اس خیال سے کہ کہیں اس کا بیٹا کتبہ کو گرانہ دے اسے وہاں سے اٹھا لیا اور اپنے صندوق میں کپڑوں کے نیچے رکھ دیا۔

ساری سردیاں یہ کتبہ اس صندوق ہی میں پڑا رہا۔ جب گرمی کا موسم آیا تو اس کی بیوی کو اس کے صندوق سے فالتو چیزوں کو نکالنا پڑا۔ چنانچہ دوسری چیزوں کے ساتھ بیوی نے کتبہ بھی نکال کر کاٹھ کے اس پرانے بکس میں ڈال دیا جس میں ٹوٹے ہوئے چوکھٹے بے بال کے برش، بیکار صابن دانیاں، ٹوٹے ہوئے کھلونے اور ایسی ہی اور دوسری چیزیں پڑی رہتی تھی۔

شریف حسین نے اپنے مستقبل کے متعلق زیادہ سوچنا شروع کر دیاتھا۔ دفتروں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر وہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ ترقی لطیفہ غیبی سے نصیب ہوتی ہے، کڑی محنت جھیلنے اور جان کھپانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔اس کی تنخوا ہ میں ہر دوسرے برس تین روپے کا اضافہ ہو جاتا جس سے بچوں کی تعلیم وغیرہ کا خرچ نکل آتا اور اسے زیادہ تنگی نہ اٹھانی پڑتی، پے درپے مایوسیوں کے بعد جب اس کو ملازمت کرتے بارہ برس ہو چکے تھے اور اس کے دل سے رفتہ رفتہ ترقی کے تمام ولولے نکل چکے تھے اور کتبہ کی یاد تک ذہن سے محو ہو چکی تھی تو اس کے افسروں نے اس کی دیانت داری اور پرانی کار گزاری کا خیال کر کے اسے تین مہینے کے لیے عارضی طور پر درجہ اوّل کے ایک کلرک کی جگہ دے دی جوچھُٹی پر جانا چاہتا تھا۔

جس روز اسے یہ عہدہ ملا اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس نے تانگے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا پیدل ہی بیوی کو یہ مژدہ سنانے چل دیا۔ شاید تانگہ اسے کچھ زیادہ جلدی گھر نہ پہنچا سکتا!

اگلے مہینے اس نے نیلام گھر سے ایک سستی سی لکھنے کی میز اور ایک گھومنے والی کرسی خریدی، میز کے آتے ہی اسے پھر کتبہ کی یاد آئی اور اس کے ساتھ ہی اس کی سوئی ہوئی امنگیں جاگ اٹھیں ۔اس نے ڈھونڈ ڈھانڈ کے کاٹھ کی پیٹی میں سے کتبہ نکالا، صابن سے دھویا پونجھا اور دیوار کے سہارے میز پر ٹکا دیا۔

یہ زمانہ اس کے لیے بہت کٹھن تھا کیونکہ وہ اپنے افسروں کو اپنی برتر کار گزاری دکھانے کے لیے چُھٹی پر گئے ہوئے کلرک سے دُگنا کام کرتا۔اپنے ما تحتوں کو خوش رکھنے کے لیے بہت ساان کا کام بھی کر دیتا ۔گھر پر آدھی رات تک فائلوں میں غرق رہتا ۔پھر بھی وہ خوش تھا۔ ہاں جب کبھی اسے اس کلر ک کی واپسی کا خیال آتا تو اس کے دل بجھ سا جاتا کبھی کبھی وہ سوچتا، ممکن ہے وہ اپنی چُھٹی کی میعاد بڑھوا لے……..ممکن ہے وہ بیمار پڑ جائے…….. ممکن ہے وہ کبھی نہ آئے ……..

مگر جب تین مہینے گزرے تو نہ اس کلرک نے چُھٹی کی میعاد ہی بڑھوائی اور نہ بیماری پڑا ، البتہ شریف حسین کو اپنی جگہ پر آ جانا پڑا۔

اس کے بعد جو دن گزرے ،وہ اس کے لیے بڑی مایوسی اور افسردگی کے تھے۔ تھوڑی سی خوشحالی کی جھلک دیکھ لینے کے بعد اب اسے اپنی حالت پہلے سے بھی زیادہ ابتر معلوم ہونے لگی تھی۔ ا س کا جی کام میں مطلق نہ لگتا تھا۔ مزاج میں آلکس اور حرکات میں سُستی سی پیدا ہونے لگی، ہر وقت بیزار بیزار سا رہتا۔ نہ کبھی ہنستا ، نہ کسی سے بولتا چالتا مگر یہ کیفیت چند دن سے زیادہ نہ رہی۔ افسروں کے تیور جلد ہی اسے راہِ راست پر لے آئے۔

اب اس کا بڑا لڑکا چھٹی میں پڑھتا تھا اور چھوٹا چوتھی میں اور منجھلی لڑکی ماں سے قرآن مجید پڑھتی، سینا پرونا سیکھتی اور گھر کے کام کاج میں اس کا ہاتھ بٹاتی۔ باپ کی میز کرسی پر بڑے لڑکے نے قبضہ جما لیا۔ وہاں بیٹھ کر وہ اسکول کا کام کیا کرتا۔ چونکہ میز کے ہلنے سے کتبہ گر جانے کا خدشہ رہتا تھا اور پھر اس نے میز کی بہت سی جگہ بھی گھیر رکھی تھی۔ اس لیے اس لڑکے نے اسے اٹھا کر پھر اسی بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا۔

سال پر سال گزرتے گئے۔ اس عرصہ میں کتبہ نے کئی جگہیں بدلیں ، کبھی بے کواڑ کی الماری میں تو کبھی میز پر۔ کبھی صندوقوں کے اوپر تو کبھی چار پائی کے نیچے۔ کبھی بوری میں تو کبھی کاٹھ کے بکس میں۔ ایک دفعہ کسی نے اٹھا کر باورچی خانے کے اس بڑے طاق میں رکھ دیا جس میں روزمرہ کے استعمال کے برتن رکھے رہتے تھے۔ شریف حسین کی نظر پڑ گئی، دیکھا تو دھوئیں سے اس کا سفید رنگ پیلا پڑ جاتا تھا ، اٹھا کر دھویا پونچھا اور پھر بے کواڑ کی الماری میں رکھ دیا مگر چند ہی روز میں اسے پھر غائب کر دیا گیا اور اس کی جگہ وہاں کاغذی پھولوں کے بڑے بڑے گملے رکھ دیے گئے جو شریف حسین کے بڑے بیٹے کے کسی دوست نے اسے تحفے میں دیے تھے۔رنگ پیلا پڑ جانے سے کتبہ الماری میں رکھا ہوا بدنما معلوم ہوتا تھا مگر اب کاغذی پھولوں کے سرخ سرخ رنگوں سے الماری میں جیسے جان پڑ گئی تھی اور ساری کوٹھڑی دہک اٹھی تھی۔

اب شریف حسین کو ملازم ہوئے پورے بیس سال گزر چکے تھے۔اس کے سر کے بال نصف سے زیادہ سفید ہو چکے تھے اور پیٹھ میں گدّی سے ذرا نیچے خم آگیا تھا ۔ اب بھی کبھی کبھی اس کے دماغ میں خوشحالی و فارغ البالی کے خیالات چکر لگاتے مگر اب ان کی کیفیت پہلے کی سی نہ تھی کہ خواہ وہ کوئی کام کر رہا ہو۔ تصورات کو اُڑا لے جاتی اور پھر بیٹی کی شادی، لڑکوں کی تعلیم، اس کے بڑھتے ہوئے اخراجات ، پھر ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے نوکریوں کی تلاش ……..یہ ایسی فکریں نہ تھیں کہ پَل بھر کو بھی اس خیال کو کسی اور طرف بھٹکنے دیتیں۔

پچپن برس کی عمر میں اسے پنشن مل گئی۔ اب اس کا بیٹا ریل کے مال گودام میں کام کرتا تھا۔ چھوٹا کسی دفتر میں ٹائپسٹ تھا اور اس سے چھوٹا انٹرنس میں پڑھتا تھا۔ اپنی پنشن اور لڑکوں کی تنخواہیں سب مل ملا کے کوئی ڈیڑھ سو روپے ماہوار کے لگ بھگ آمدنی ہو جاتی تھی جس میں بخوبی گزر ہونے لگی۔ علاوہ ازیں اس کا ارادہ کوئی چھوٹا موٹا بیوپار شروع کرنے کا بھی تھا مگر مندے کے ڈرسے ابھی پورا نہ ہو سکا تھا۔

اپنی کفایت شعاری اور بیوی کی سلیقہ مندی کی بدولت اس نے بڑے بیٹے اور بیٹی کی شادیاں خاصی دھوم دھام سے کر دی تھیں۔ ان ضروری کاموں سے نمٹ کر اس کے جی میں آئی کہ حج کر آئے مگر اس کی توفیق نہ ہو سکی۔ البتہ کچھ دنوں مسجدوں کی رونق خوب بڑھائی مگر پھر جلد ہی بڑھاپے کی کمزوریوں اور بیماریوں نے دبانا شروع کر دیا اور زیادہ تر چار پائی ہی پر پڑا رہنے لگا۔

جب اسے پنشن وصول کرتے تین سال گزر گئے تو جاڑے کی ایک رات کو وہ کسی کام سے بستر سے اٹھا۔ گرم گرم لحاف سے نکلا تھا۔ پچھلے پہر کی سردا ور تند ہوا تیر کی طرح اس کے سینے میں لگی اور اسے نمونیا ہو گیا۔ بیٹوں نے اس کے بہتیرے علاج معالجے کرائے۔ اس کی بیوی اور بہو دن رات اس کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں مگر افاقہ نہ ہوا وہ کوئی چار دن بستر پر پڑے رہنے کے بعد مر گیا۔

اس کی موت کے بعد اس کا بڑا بیٹا مکان کی صفائی کرا رہا تھا کہ پرانے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے ایک بوری میں اسے یہ کتبہ مل گیا ۔بیٹے کو باپ سے بے حد محبت تھی، کتبہ پر باپ کا نام دیکھ کر اس کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو بھر آئے اور وہ دیر تک ایک محویت کے عالم میں اس کی خطاطی اور نقش و نگار کو دیکھتا رہا۔ اچانک اسے ایک بات سوجھی جس نے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا کر دی۔

اگلے روز وہ کتبہ کو ایک سنگ تراش کے پاس لے گیا اور اس سے کتبہ کی عبارت میں تھوڑی سی ترمیم کرائی اور پھر اسی شام اسے اپنے باپ کی قبر پر نصب کر دیا۔

٭٭٭

“Marked by the Moon” A Persian Folk Tale

Articles

فارسی لوک کہانی ’’ نشانِ قمر‘‘

مترجم : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

ایک مرتبہ کا ذکر ہے۔ بہت پہلے، بہت بہت پہلے۔دنیا کے بالکل کنارے کسی ایسی جگہ پر جو نہ بہت دور اور نہ ہی بہت قریب تھی ایک لڑکی رہا کرتی تھی جس کا نام چاند پری تھا۔چاند پری بہت مددگار اور رحم دل تھی۔لیکن اس پر مایوسیوں اور اداسیوں کا بوجھ بھی تھا۔پوری دنیا میں اس کا اپنا گھر اور اس کے اپنے دوست نہیں تھے۔وہ بالکل اکیلی تھی۔وہ بی بی خانم کے یہاں رہا کرتی تھی۔بی بی خانم کی ایک لڑکی تھی جس کا نام گلاب تن تھا۔وہ بھی خوبصورت تھی لیکن رحمدل نہیں تھی۔وہ ہر ایک کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔اگرچہ چاند پری کے پاس نہ خوبصورت لباس تھے، نہ اس کا اپنا گھر یا خاندان تھااور نہ ہی اس کے اپنے دوست تھے، اس کے باوجود بھی گلاب تن اس سے حسد کیا کرتی تھی۔
گھر کا تمام کام چاندپری کو ہی کرنا پڑتا تھا۔وہ صبح صادق سے لے کر آدھی رات تک گھر کا کام کیا کرتی تھی۔مختلف کمروں میں جھاڑو دینا، کپڑے دھونا، کھانا بنانا، کپڑے سینا اور اسی طرح کے تمام چھوٹے بڑے کام چاند پری کے ذمّہ تھے۔چاند پری ان تمام کاموں سے بہت زیادہ تھک جاتی تھی۔اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اتنے زیادہ برتن اور کپڑے دھونے کی طاقت نہ تھی اور نہ ہی وہ تمام کمروں میں جھاڑو لگا سکتی تھی۔کبھی کبھی تنہائی اور اکیلے پن کے احساس سے اس کا دل بھر آتا تھا۔تب وہ گھر کے پیچھے جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر رویا کرتی تھی۔اسے روتے دیکھ کر تتلیاں اس کے اطراف میں منڈلاتیں اور اس کے سر پر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔پھول اپنا سر جھکا کر اپنی خوشبو اس پر چھڑکا کرتے تھے۔اگر رات کا وقت ہوتا تب ستارے رات بھر اس کے لیے جھلملایا کرتے تھے۔
ایک دن، گزرے ہوئے تمام دنوں کی طرح، ماضی کے تمام دنوں کی طرح چاند پری، بی بی خانم اور گلاب تن کے میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے باہر گئی۔گھر کے پیچھے دو کنویں تھے۔ایک کنواں بہت پہلے ہی سوکھ چکا تھا۔لیکن دوسرا کنواں پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔چاندپری ایک ایک بالٹی پانی نکال کر کپڑے دھوتی رہی۔ان تمام کپڑوں کو دھونا اس کے لیے بہت مشکل کام تھا۔اس کی انگلیاں زخمی ہو چکی تھیں۔پیٹھ میں درد شروع ہو چکا تھا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسے ابھی بہت سارے کپڑے دھونے تھے۔
اس نے تمام کپڑے دھو لیے ، انہیں سکھانے کے لیے ایک رسی پر پھیلادیااور ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئی۔اس کی آنکھ لگ گئی اور چاندپری کو بالکل احساس نہیں ہوپایا کہ وہ کتنی دیر سے سوتی رہی ہے۔ اچانک تیز آوازسے وہ چونک کر بیدار ہوگئی۔شدید آندھی چل رہی تھی۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو۔درخت جھومنے لگے ،خوفناک آوازیں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ آندھی ان تمام کپڑوں کو اڑالے گئی جسے چاندپری نے ابھی ابھی دھویا تھا۔چاندپری کپڑوں کو پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑتی رہی۔انہیں یکجا کرنے کے لیے وہ ادھر سے اُدھر دوڑتی رہی۔ پھر اس نے اپنے اطراف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ کچھ کپڑے کنویں کے کنارے پر پڑے ہوئے ہیں۔ جب اس نے انہیں جمع کرنا شروع کیا تب ایک کپڑا کنویں میں گر گیا۔ چاندپری بہت گھبرا گئی۔وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی،’’اگر بی بی خانم کو اس بات کا پتہ چل گیا تو میں مصیبت میں آجائوں گی۔ یقینا وہ مجھے ڈانٹے گی۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے، گھر سے ہی نکال دے۔‘‘
چاندپری آہستہ آہستہ پورے احتیاط سے کنویں میں اترنے لگی۔ اس نے سوچ لیا کہ چاہے جو ہوجائے وہ کپڑا باہر نکال کر ہی رہے گی۔ ابھی وہ زیادہ نیچے نہیں اتری تھی کہ اس کا پیر پھسل گیااور وہ نیچے گر گئی۔جب اسے ہوش آیا،اس نے اپنے اطراف دیکھا، بادل، زمین، آسمان،یہاں تک کہ درختوں اور پھولوں کے رنگ بھی مختلف تھے۔وہ بہت زیادہ خوبصورت اور دیدہ زیب تھے۔اس نے اپنی آنکھوں کو ملنا شروع کیا۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔چاندپری نے بی بی خانم کا لباس تلاش کرنا شروع کیا۔ اسے تھوڑے فاصلے پر ایک جھونپڑی نظر آئی۔خاموشی سے وہ جھونپڑی کے قریب پہنچی اور اس نے دروازے پر دستک دی۔ اسے اندر سے آواز آئی کہ تم جو بھی ہو، جہاں سے بھی آئی ہو اندر آجائو۔دروازہ کھلا ہوا ہے۔چاندپری دروازہ کھول کرآہستہ سے اندر داخل ہوگئی۔اسے جھونپڑی مکمل طور پر درھم برہم نظر آرہی تھی۔ ہر چیز ادھر اُدھر بکھری ہوئی تھی۔اس پریشانی میں چاندپری کسی کو دیکھ نہیں سکی۔اسی آواز نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’میں یہاں ہوں، کھڑکی کی طرف دیکھو، میں یہاں بیٹھی ہوں۔‘‘
چاند پری نے اپنا سر گھمایا اور دیکھا، وہ ڈر کر کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ایک چڑیل کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے چاند پری کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا:’’لوگ مجھے آنٹی گھولی کہتے ہیں۔تمہارا نام کیا ہے؟‘‘چاندپری نے اچھی طرح اس کی جانب دیکھا۔آنٹی گھولی کی مسکراہٹ خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھوں سے رحمدلی جھانک رہی تھی۔ان چیزوں کو دیکھ کر اس کا ڈر کچھ حد تک کم ہوگیا۔وہ اور قریب ہوگئی اور اپنا نام بتایا۔اسی لمحے اسے بی بی خانم کا لباس آنٹی گھولی کے ہاتھ میں نظر آیا۔چاندپری نے مسکراتے ہوئے کہا:’’یہ بی بی خانم کا ڈریس ہے اور میں اسے ہی تلاش کرتے ہوئے یہاں تک آئی ہوں۔‘‘
آنٹی گھولی نے لباس کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑلیا اور کہا،’’اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دوگی تب میں یہ لباس تمہیں لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر جانے کا راستہ بھی بتا دوں گی۔‘‘چاندپری ہنسنے لگی، وہ آنٹی گھولی کی بغل میں بیٹھ گئی،اس کے پیروں پر ہاتھ رکھا اور کہا،’’اپنے سوال پوچھو لیکن یہ بھی خیال رکھو کہ سوال زیادہ مشکل نہیں ہونے چاہیے۔‘‘
آنٹی گھولی نے اپنے خیالات یکجا کرتے ہوئے پوچھا،’’کیا میرا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے؟‘‘چاندپری نے اپنے اطراف دیکھا،ہرچیز بکھری پڑی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے آنٹی گھولی نے کئی سالوں سے اپنے کمرے کی صاف صفائی نہ کی ہو۔چاندپری نے اپنا سر ہلایا اور کہا،’’یہ گھر خوبصورت ہے لیکن بی بی خانم کا گھر اس سے زیادہ صاف ستھرا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چین محسوس ہونے لگی۔ممکن تھا کہ وہ رودیتی لیکن چاندپری نے اس سے کہا، ’’آئو ہم دونوں ایک ساتھ کمرے کی صفائی کرتے ہیں۔‘‘فوراً اس نے خود سے کام کرنا شروع کردیا،سب سے پہلے اس نے کھڑکیاں کھولیں،اس کے بعد کمرے میں جھاڑو لگایا،ہر چیز کو اپنی صحیح جگہ پر رکھا،جتنی چیزوں کو دھونا ضروری تھا اسے دھویا،آنٹی گھولی بھی کام میں اس کی مدد کرتی رہی۔کچھ ہی وقت میں کمرہ صاف و شفاف نظر آنے لگا۔کام ختم کرنے کے بعد چاند پری نے کہا،’’اب تمہارا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ صاف اور خوبصورت ہو گیا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کمرے کی طرف دیکھا،وہ خود بھی یقین نہیں کرسکی کہ کمرہ اتنا زیادہ صاف ہوگیا۔ وہ اتنی زیادہ خوش ہوئی کہ اسے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرنا ہے۔چاندپری بھی مسکرانے لگی۔ اسے یاد تھا کہ اسے یہاں سے جانا ہے اس لیے اس نے آنٹی گھولی سے کہا کہ وہ اب اپنا دوسرا سوال کرے۔آنٹی گھولی نے اپنا اسکارف درست کیا،اپنے ڈریس پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا،’’کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
چاندپری نے آنٹی گھولی کو بغور دیکھا،اس کا چہرہ انتہائی گندہ اور گرد آلود تھا،اس نے اچھی طرح سے اپنے ہاتھ اور منہ بھی نہیں دھویا تھا۔کافی عرصے سے بالوں میں کنگھی بھی نہیں کی تھی۔چاند پری نے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’مجھے آپ پر ترس آتا ہے، بی بی خانم آپ سے زیادہ خوبصورت اور نفاست پسند ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے دوبارہ بے چینی محسوس کی لیکن چاندپری نے کہا،’’آئو، کھڑے رہو اور پہلے اپنا ہاتھ منہ دھو لو۔‘‘چاندپری نے منہ ہاتھ دھونے میں آنٹی گھولی کی مدد کی۔اس کے بعد وہ نیچے بیٹھ گئی اور آنٹی گھولی کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔اس نے اس کے سر پر صاف اسکارف بھی رکھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’اب آپ زیادہ نفاست پسند اور پرکشش نظر آرہی ہیں۔‘‘آنٹی گھولی نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا،وہ اپنا سر ادھر اُدھراور اوپر نیچے کرنے لگی۔پھر وہ چاندپری کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جبکہ چاندپری کا چہرہ آنٹی گھولی کے شانوں پر تھا، آنٹی گھولی چاند پری کا سر سہلانے لگی۔چاند پری کو اپنی ماں یاد آگئی۔اس نے آنٹی گھولی سے کہا،’’آپ بہت مہربان ہیں، آپ میری ماں کی طرح ہے۔‘‘اتنا سنتے ہی آنٹی گھولی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔اس نے چاند پری کا چہرہ اوپر اٹھایا اور کہا،’’میری پیاری بیٹی، اب تم چلی جائو، کافی دیر ہو رہی ہے۔‘‘
چاند پری نے کہا، ’’کیا آپ بھول گئیں، آپ نے ابھی تیسرا سوال نہیں پوچھا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کہا ،’’تم نے خود ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔میں یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ ’’کون زیادہ مہربان ہے؟ میں یا بی بی خانم؟اور تم نے کہہ دیا کہ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں۔‘‘ آنٹی گھولی نے چاندپری کو لباس لوٹا دیا اور کہا،’’کاش کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکتیں!کاش کہ تم میری دوست اور ساتھی ہوتیں!لیکن تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’جھونپڑی کے پاس میں ایک ندی ہے، یہ دھنک ندی ہے،جب اس کا پانی نیلا ہوجائے تب تم اپنا چہرہ دھو لینا۔‘‘آنٹی گھولی نے اسے ایک پھول بھی دیااور کہا کہ ’’اسے’ گلِ آرزو ‘کہتے ہیں۔یہ تمہاری ایک خواہش پوری کرسکتاہے۔‘‘چاند پری بہت خوش ہوئی۔اس نے’ گلِ آرزو ‘اپنی جیب میں رکھا،آنٹی گھولی کا بوسہ لیا اور وہاں سے نکل پڑی۔جھونپڑی کے بازومیں اسے دھنک ندی دکھائی دی،اس نے پانی کا رنگ نیلا ہونے تک انتظار کیا،جس لمحے وہ ندی کے پانی میں اپنا چہرہ دھو رہی تھی تب اس پر مدہوشی طاری ہونے لگی،اسے محسوس ہورہا تھا جیسے دنیا اس کے سامنے گردش کر رہی ہے۔اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ بھی نہیں یاد رہا۔
جب چاندپری کی آنکھ کھلی تب اسے محسوس ہوا کہ وہ سوکھے ہوئے کنویں کے پاس پڑی ہے۔چاند پری نے اطراف میں دیکھا اور اپنے تمام کپڑے بالٹی میں یکجا کیے۔گھر جانے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ دھونا چاہتی تھی۔اس نے کنویں میں بالٹی ڈالی،تب اچانک اسے محسوس ہوا کہ کنویں میں کوئی چیز چمک رہی ہے۔چاندپری اسے بغور دیکھنے لگی۔ایسا لگتا تھا جیسے کنویں میں کوئی ستارہ اتر آیا ہو۔اسے بہت تعجب ہوا۔اس نے عجلت میں پانی کی بالٹی اوپر کھینچی۔چاند پری بہت گھبرا گئی تھی۔وہ فوراً اپنے ہاتھ دھو لینا چاہتی تھی۔لیکن اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ستارہ اس کی بالٹی میں چمک رہا ہو۔چاندپری نے اسے اور قریب سے دیکھا۔وہ چمک اس کے چہرے پر تھی۔وہ ہلالِ عید کی طرح اک چھوٹا اور خوبصورت چاند تھا جو چاندپری کی پیشانی پر جگمگارہا تھا۔
چاندپری نے اپنی پیشانی کو چھو کردیکھا،اس نے چاند نکالنے کی کوشش کی،لیکن کسی بھی طرح سے چاند اس کی پیشانی سے الگ نہیں ہوسکا۔اچانک نرم نازک ہو ا ا س کے چہرے کو چھو تے ہوئے گزرنے لگی۔پھول اسے دیکھ کر سر جھکانے لگے۔ پنکھڑیاں ٹوٹ کر اس کے پیروں پر گرنے لگی اور اسے چندا، چندا کہہ کر مخاطب کرنے لگیں۔تتلیاں اس کے اطراف منڈلاتے ہوئے اس کے کانوں کے قریب جاکر اسے چندا، چندا پکارتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ تم کتنی خوبصورت ہوگئی ہو!تتلیاں درخت اور ہوائیں اسے چاند پری کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔دھیرے دھیرے اس نے گھر کا رخ کیا۔ اس نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ لیا تاکہ بی بی خانم اس کی پیشانی پر وہ چاند نہ دیکھ سکے۔ لیکن بی بی خانم نے اسے دیکھ ہی لیا۔ حیرت کی وجہ سے وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر رہی۔ چاند پری کا چہرہ کسی چاند کی طرح روشن تھا۔ بی بی خانم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے گئی۔ اسے اوپر سے نیچے تک دیکھنے کے بعد سوال کیاکہ کیا ہوا؟ یہ چاند کہاں سے آیا؟اورتم نے کیا کیا؟
چاند پری بہت ڈر گئی اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔اس نے کہا ’’میں نہیں جانتی ، شاید آنٹی گھولی نے ایسا کیا ہو۔‘‘
بی بی خانم نے حیرت سے دریافت کیا،’’آنٹی گھولی ! یہ آنٹی گھولی کون ہے؟‘‘پھر اس نے چاند پری کے بال کھینچتے ہوئے کہا،’’تم مجھے ضرور بتائو گی کہ تم نے کیا کیا،تم کہاں گئی تھیں؟ اور تم گلاب تن کو بھی سکھائو گی کہ تم نے ایسا کس طرح کیا۔‘‘
چاند پری خوفزدہ ہوگئی اس نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا،’’ٹھیک ہے میں گلاب تن سے کہہ دوں گی کہ میں نے کیا کیا اور میں کہاں گئی تھی۔‘‘
اگلی صبح گلاب تن بھی بالٹی میں کپڑے بھر کر سوکھے کنویں کے قریب پہنچی،اس نے ایک لباس کنویں میں پھینک دیااور خود سے کنویں میں اترنے لگی،ابھی وہ تہہ تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ اس کا پیر پھسل گیا۔
جب گلاب تن کو ہوش آیا تووہ جلدی جلدی اس سمت دوڑنے لگی جس کا ذکرچاند پری نے کیا تھا۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے آنٹی گھولی کی جھونپڑی نظر آگئی۔دروازے پر دستک دیے بغیر وہ اندر داخل ہوگئی۔ اس نے سلام تک نہیں کیا۔وہ سیدھے اندر داخل ہوئی اور ایک کنارے پر جا کر بیٹھ گئی۔ آنٹی گھولی نے اسے دیکھا اور دریافت کیا،’’تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئی ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
گلاب تن نے نہ ہی اپنا نام بتایا اور نہ ہی یہ کہا کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔اس نے صرف اتنا کہا کہ میں نے اپنا لباس گم کردیا ہے، مجھے میرا لباس دے دو اور میری پیشانی پر نشانِ قمر بنا دو۔
آنٹی گھولی نے اس سے کہا میں تم سے تین سوالات پوچھوں گی، اگر تم نے ان کے جوابات دے دیئے تو میں تمہیں تمہارا ڈریس لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر کا راستہ بھی بتا دوں گی۔ اس نے اس کمرے کی طرف اشارہ کیا جسے چاند پری کی مدد سے اس نے صاف کیا تھا اور دریافت کیا کہ’’مجھے بتائو کیا میرا گھر بی۔بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے۔‘‘
اطراف میں دیکھے بغیر گلاب تن نے جواب دیا۔’’ تمہارا یہ گھر کسی اصطبل کی طرح بدنما ہے۔ ہمارا گھر اس سے زیادہ صاف و شفاف اور خوبصورت ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چینی محسوس کرنے لگی، اس نے سوچا شاید گلاب تن گھر کی صاف صفائی میں اس کی مدد کرے گی۔لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔
آنٹی گھولی نے دوسرا سوال کیا،’’مجھے بتائو کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
اس کے الفاظ سنتے ہی گلاب تن کھڑی ہو گئی اور کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ میری ماں زیادہ خوبصورت ہے۔میری یاداشت کے مطابق تم بد صورت ترین عورت ہو۔‘‘
آنٹی گھولی دوبارہ بے چینی محسوس کرنے لگی اور بہت اداس ہوگئی، اس نے سوچا شاید گلاب تن اسے خوبصورت بنانے میں مدد کرے گی۔ لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔لہٰذا آنٹی گھولی نے اس سے تیسرا سوال نہیں کیا۔ اس نے سمجھ لیاکہ گلاب تن کا دل تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آنٹی گھولی نے اسے گھر کا راستہ بتاتے ہوئے کہا،’’ندی کے کنارے سے جائو اور جب ندی کا پانی سفید ہوجائے تو اپنا چہرہ دھو لینا۔ ‘‘
آنٹی گھولی ندی کے سفید پانی سے گلاب تن کی تمام برائیاں دھونا چاہتی تھیں۔گلاب تن تیزی سے باہر نکلی اور ندی کے کنارے انتظار کرنے لگی۔ ندی مختلف رنگوں میں تبدیل ہوتی رہی، اس کے بعد ندی سفید ہوگئی لیکن گلاب تن نے اپنا چہرہ نہیں دھویا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا ’’سفید پانی اتنا خوبصورت نہیں ہے،مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ندی کو اور رنگوں میں تبدیل ہونے کا انتظار کیا،جب پانی سرخ ہوگیا تب گلاب تن بہت خوش ہوئی اور اس نے اپنا چہرہ دھولیا۔
جب گلاب تن نے اپنی آنکھیں کھولی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے بستر پر پڑی ہوئی ہے اور بی بی خانم اس کے بازو میں بیٹھی ہوئی ہے۔ گلاب تن اٹھ بیٹھی اور دریافت کیا’’کیا میری پیشانی پر بھی نشانِ قمر موجود ہے؟‘‘
بی بی خانم رونے لگی، گلاب تن نے قریب ہی موجود پانی سے بھرے ہوئے پیالے میں اپنا عکس دیکھا، چیختے ہوئے اس نے وہ پیالہ دور پھینک دیا۔ اس کی پیشانی پر ایک لال رنگ کا بڑا سا بدنماداغ ابھر آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے خون سے بھرا ہوا پھوڑا ابھر آیا ہو۔
گلاب تن خوفزدہ ہو کر چیخنے لگی، چاند پری دوڑتے ہوئے اس کے کمرے میں پہنچی، اس کے چہرے پر موجود چاند کی وجہ سے پورا کمرہ روشن ہوگیا۔وہ خاموشی سے گلاب تن کے قریب گئی اور اس بدنما داغ کو دیکھا۔
گلاب تن نے چاند پری کو تمام واقعات کی تفصیل بتائی، اور اس کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی۔ چونکہ گلاب پری خود بھی اپنی زندگی میں بہت رو چکی تھی لہٰذا کسی کو روتے دیکھنا چاند پری کو بالکل پسند نہیں تھا۔وہ گلاب تن کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
اچانک اسے ’گلِ آرزو‘یاد آگیا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے اسکرٹ کی جیب میں ڈالا۔ ’گلِ آرزو‘ اب بھی وہاں موجود تھا۔ اگرچہ کہ اس کی اپنی بہت ساری آرزوئیں اور خواہشات تھیں لیکن اس نے انہیں پرے رکھتے ہوئے ’گلِ آرزو‘کو باہر نکالا۔ چاند پری نے اس کی پنکھڑیوں کو رگڑتے ہوئے کہا، ’’اے ’گلِ آرزو‘ اس دنیا میں میری بھی بہت ساری آرزوئیں اور تمنائیں ہیں لیکن میں کسی کو اداس اور غمگین نہیں دیکھ سکتی۔ اگر تم واقعی ’گلِ آرزو‘ہو تو ایسا کچھ کرو کہ گلاب تن پھر کبھی رو نہ سکے۔‘‘
ابھی چاند پری کے الفاظ ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ گلاب تن کی پیشانی پر موجود لال بدنما داغ زائل ہونا شروع ہوااور پھر دھیرے دھیرے اس طرح سے غائب ہوگیا جیسے پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔ بی بی خانم اتنا خوش ہوئی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ گلاب تن بھی بہت خوش تھی۔ چاند پری ’گلِ آرزو‘ لے کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ صحن میں بیٹھ کر سوچنے لگی، اس نے سوچا کہ اگلے دن اسے بی بی خانم اور گلاب تن کے لیے بہت سارا کام کرنا پڑے گا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ بی بی خانم اور گلاب تن اب بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دھنک ندی کے سفید پانی نے ان لوگوں کے کالے دلوں کو دھو دیا ہو۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ’گلِ آرزو‘ نے بی بی خانم اور گلاب تن کی ساری برائیوں کو زائل کردیا ہو۔
٭٭٭
یہ لوک کہانی زارا ہوشمند نے فارسی سے انگریزی میں ترجمہ کی تھی۔ ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے’اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے اسے انگریزی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔

The Great Lord Pabori

Articles

خدائے پابوری

مترجم : حیدر شمسی

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ کھانے کی تلاش میں شہر میں داخل ہوگیا۔ایک طرف سے آنے والی مرغیوں کی آوازکو اس نے سنا۔اندھیری رات میں آنے والی اس آواز کی طرف وہ بڑھتا چلا گیا اور اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی کتّا اسے دیکھ نہ لے۔اسی راستے میں ایک نیل سے بھرا دھوبی گھاٹ بھی تھا۔ مرغیوں کی آواز نے اسے اپنی گرفت میں لے رکھا تھاجس کی وجہ سے گیدڑ نے گھاٹ کو نہیں دیکھااور سر کے بل اس میں گرگیا۔
پانی کے چھینٹوں کی آوا ز سن کر کتّوں کے کا ن کھڑے ہوگئے۔لیکن جب تک وہ وہاں پہنچتے گیدڑ نے گڑھے سے باہر چھلانگ لگائی اور وہاں سے بھاگ نکلا ۔ اس نے اپنے پیروں پر خوب زور لگایا اور سیدھا جنگل کے کنارے جا کر رکا۔وہاں پہنچ کر اس نے چاروں طرف دیکھا اور اطمینان کی سانس لی کہ کوئی کتا وہاں پر نہیں ہے۔سکون پا لینے کے بعد اس نے اپنے بدن کو دیکھا جو پوری طرح نیلا ہو چکا تھا۔ تھوڑا سا سوچنے کے بعد اسے ایک خیال آیااور وہ جنگل میں چلا گیا۔
تھوڑی دیر یہاں وہاں گھومنے کے بعد اس نے شیر کے غار پر اپنی قسمت آزمانا چاہی۔وہ غار کے باہر جا کر بیٹھ گیا۔اس نے دیکھا کہ اندر شیرنی موجود ہے اسے دیکھ کرگیدڑنے اپنے بالوں کو کھڑا کرلیا اور زور دار آواز میں پوچھا ’’ تم کون ہو؟‘‘ شیرنی نے جواب دیا’’ہم شیر ہیں جنگل کے بادشاہ، تم کون ہو جو اپنی جان گنوا نے کے لیے ہماری غار کے پاس آکربیٹھے ہو؟ اگر تمھیں اپنی جان کی ذرا بھی فکر ہے تو یہاں سے چلے جائوورنہ میرے شوہر کے آنے کے بعد تم اس کے منہ کا نوالا بن جائو گے۔‘‘ گیدڑ نے ڈرائونی آواز میں کہا ’’ میں خدائے پابوری ہوں ،جس کی ایک وقت کی خوراک سات شیروں کابھونا ہوا گوشت ہے!‘‘ آنے دو تمہارے شوہر کو میں اسے بھی بہترین سبق سکھائوں گا!‘‘
ٍ یہ سنتے ہی شیرنی کے دل کی دھڑکن تھم گئی اور وہ ڈر کے مارے غار سے نکل کر گیدڑ سے تھوڑے فاصلے پر سر جھکا کر بیٹھ گئی۔اسی وقت شیر غار پر پہنچا۔شیر نے اپنی پونچھ کو زمین پرزور سے مارا اور گرج دار آواز میں دھاڑا۔ ظالم شیر کو دیکھ کر گیدڑ کی ساری ہمت ختم ہوگئی اور وہ بھاگنے لگا۔
گیدڑ کو بھاگتا ہوا دیکھ کر شیرنی نے کہا’’او ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدائے پابوری اتنی جلدی میں کہاں جارہے ہو۔ رکو ذرا ہماری مہمان نوازی کا مزہ بھی چکھتے جائو۔‘‘
گیدڑ کو بھاگتا دیکھ کر شیر اس کے تعاقب میں لگ گیا۔دونوں بھاگ رہے تھے ۔ گیدڑ آگے آگے اور شیر پیچھے پیچھے۔ شیر نے اپنی رفتار بڑھا دی ۔فاصلہ بہت کم رہ گیا تھا یہ دیکھ کر گیدڑ نے ڈر سے راستہ چھوڑ کر جھاڑیوں کا رُخ کر لیا۔اس نے مورپنکھی کے درخت کے اوپر سے چھلانگ لگائی اور سیل ورٹ کی جھاڑیوں میں جاکرچھپ گیا۔ شیر مسلسل اس کے تعاقب میں لگا رہا۔شیر سے ڈر کر آخر کار گیدڑ نے بندر کی طرح ایک سوکھے ہوئے درخت پر چھلانگ لگائی اور اس کی سوکھی ہوئی ٹہنی پر جاکر بیٹھ گیا۔ شیراب تک اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ شیر نے اپنی جسامت کی پرواہ نہیں کی اور پیڑ پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک نوکیلی شاخ کا سرا شیرکولگا جس سے اس کا پیٹ شق ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کر گیدڑ بہت خوش ہوا۔وہ شیرنی کے پاس پہنچا اور کہا’’او ۔۔۔بیوہ شیرنی جائو اور جاکر دیکھو تمہارے شوہر کا کیا حال ہوا ہے۔تو مجھے چڑاتی تھی اور میرا مذاق اڑاتی تھی کہ’’خدائے پابوری، ہماری مہمان نوازی کا بھی مزہ چکھ کے جائو ۔آج سے میں تیرا شوہر ہوں اور تم میری بیوی ۔اگر تجھے کوئی اعتراض ہے تو تیرا و ہی حشر کروں گا جو تیرے شوہر کا کیا ہے۔‘‘ شیر کی موت کی خبر سن کر وہ بھاگتے ہوئے شیر کی لاش کے پاس پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ شیر پیڑ کی شاخ پر لٹکا ہوا ہے اورشیر کے خون سے سوکھا ہوادرخت مکمل لال ہوچکا ہے۔وہ یہ منظر دیکھ کر سہم گئی اور واپس لوٹ آئی اور گیدڑ کی بات کو مان لیا اور کہا ’’جناب ۔۔۔۔آج سے آپ میرے شوہر ہیں اور میں آپ کی بیوی ہوں۔آپ جہاں کہیں مجھے لے جانا پسند کریں گے میں وہاں چلوں گی۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا’’ ہم دونوں ایک ساتھ ایک ہی جگہ زندگی بسر نہیـں کرسکتے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ میں خدائے پابوری ہوں تمام وحشی جانوروں کا خدا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ مجھے شیر کا شکار کرنا بہت پسند ہے۔جدھر بھی مجھے شیر ملتا ہے میں اسے مار کر اپنے منھ کا نوالا بنا لیتا ہوں۔‘‘
شیرنی نے کہا’’او خدائے پابوری آپ مجھ سے جیسا کہو گے میں ویسا ہی کروں گی۔‘‘ لیکن یہ اچھا ہو گا کہ ہم اپنا گھر بسائیں اور ایک ساتھ زندگی بسر کریں۔تھوڑی سی بحث کے بعد گیدڑ نے شیرنی کی بات مان لی اور وہ راضی ہوگیا ۔ دونوں چلے گئے اور جنگل کے پاس انھوں نے ایک غار تلاش کیا اور اسے اپنا گھر بنا لیا۔پھر اس کے بعد گیڈر جب کبھی گھر سے باہر جاتا تو شیرنی کو بھی ساتھ لے جاتا تھا ۔شیرنی ہمیشہ شکار کرتی اور دونوں ساتھ مل کر اپنے شکار کو کھاتے۔
ایک دن شیرنی نے گیدڑ سے کہا ’’میری طبیعت آج ٹھیک نہیں ہے، آج تم اکیلے شکار کر کے لائو۔‘‘ گیدڑ نے جواب دیا’’ جیسی تمہاری مرضی!‘‘ اورسیدھا جنگل کی طرف چلاگیا۔ لیکن اس کا دل گھبرا رہا تھا کہ وہ کس طرح اکیلے شکار کرے۔ جس دوران وہ یہ سوچھ رہا تھا اسے اونٹنی کا ایک غول نظر آیا۔ جیسے ہی گیدڑ نے انھیں دیکھا اسے ایک ترکیب سوجھی اور وہ خوش ہوگیا۔نالے کے پاس جا کر اس نے پیشاب کردیااور اپنی پونچھ سے رگڑ کر وہاں کی زمین کو چکنا بنا دیا۔پھر اس کے بعد وہ اونٹنی کے غول کے پاس بھاگتا ہواگیا اور انھیں ڈرا دیا۔ تمام اونٹنیاں ڈر کے مارے نالے کے سمت بھاگنے لگیں۔ایک کو چھوڑ کرسبھوں نے نالے کو پار کرلیا۔ایک بوڑھی اونٹنی کا پیر چکنی زمین پر پڑا اور وہ سیدھا نالے میں گر گئی۔گیدڑ نے موقع کا فائدہ اُٹھا تے ہوئے فوراََاس پر حملہ کیا اور اپنے دانتوں سے اس کا پیٹ شق کردیا۔اونٹنی تڑپ تڑپ کر مر گئی۔ گیدڑ اونٹنی کے پاس بیٹھ گیا اور سوچنے لگاکہ اتنی بڑھی اونٹنی کو میں کھینچ کر اپنے گھر کیسے لے جائوں۔
شیرنی غار میں اس کا انتظار کر رہی تھی اس نے بڑ بڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا ’’کیا بات ہوئی ہوگی گیدڑ کے ساتھ جو بے وقوف ابھی تک نہیں آیا؟ــ‘‘ وہ بھی اس کی تلاش میں نکل پڑی اور نالے کے پاس پہنچ گئی۔اس نے دیکھا کہ گیدڑ مری ہوئی اونٹنی کے پاس بیٹھا ہوا ہے۔یہ منظر دیکھ کر شیرنی نے سوچا واقعی گیدڑ بہت بڑا درندہ ہے جس نے اکیلے اتنے بڑے جانور کو مار گرایاہے۔
اس نے گیدڑ سے کہا’’ اب ہمیں اپنے شکار کو گھر لے جانا چاہے۔‘‘ گیدڑ نے کہا ’’بہت اچھا! اب تم آہی گئی ہو تو چلو اپنے شکارکو اٹھا کر گھرلے چلتے ہیں۔‘‘ شیرنی نے اونٹنی کو گھسیٹنا شروع کیا اور اس کے اندر کی انتڑیاں گیدڑ کو اٹھا نے کے لیے چھوڑ دیں۔شیرنی کے جانے کے بعد انتڑیاں اٹھا نے کی اس نے بڑی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا۔ جب وہ اسے کھینچنے اور اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا وہ تمام اس کے اوپر گر گئی اور وہ اس کے نیچے دب گیا۔
جب بہت وقت بیت گیا اور گیدڑ گھر نہیں پہنچا تو شیرنی واپس اسی جگہ آئی اور اس نے گیدڑ کو تلاش کیا مگر وہ نظر نہیں آیا۔اس کی نظر انتڑیوں پر پڑی اور اس نے اسے ہٹایا اوراس کے اندر سے گیدڑ کود کر باہرنکلااور غصّے سے بولا’’ او بے وقوف عورت کیا تجھے معلوم نہیں کہ میں یہاں کوّں کا شکار کرنے کے لیے چھپ کر بیٹھا ہوا تھا؟ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ آج ہم پرندوں کی دعوت کریں گے۔تم نے انھیں اڑا دیا، وہ ڈر گئے اور اب وہ نہیں آئیں گے ۔ لہٰذا سزا کہ طور پر تمھیں یہ انتڑیاں بھی گھر تک لے جانا ہوں گی۔ مجھے جب آنا ہوگا میں گھر آجائوں گا۔‘‘ شیرنی اسے بھی کھینچ کر گھر لے گئی اور فریبی گیدڑ یہاں وہاں گھومتا رہا اور اپنے وقت پر گھر پہنچا۔
ایک دن معمول کے مطابق شیرنی اور گیدڑ گھر سے جنگل کی طرف نکلے، انھوں نے شیروں کے دھاڑنے کی آواز سنی ۔شیرنی نے کہا’’ شیر جشن منارہے ہیں اور ناچ گا رہے ہیں۔‘‘
جب گیدڑ نے سنا تو خوف سے کپکپانے لگا ۔شیرنی نے اس سے پوچھا’’ خدائے پابوری کیا ہوا؟ تم کیوں کپکپا رہے ہو؟ گیدڑ نے یہ سن کرجواب دیاــ’’جب کبھی میں شیر کی دھاڑنے کی آواز سنتا ہوں یا کوئی شیر میرے قبضہ میں آجاتا ہے تو فوراَ َ میرا خون کھول جاتا ہے اورمیں کپکپانے لگتا ہوں۔ یہ تمہارے لیے اچھا ہوگا کہ تم آگے آگے چلواور یہ کہتی رہو۔
’’ تم ناچتے ہو تو تھوڑا فاصلہ برقرار رکھو۔
نہیں تو تم اس کے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
گیدڑ کے کہنے پر شیرنی آٹھ دس قدم آگے چلی گئی اور جیسا گیدڑ نے کہا تھا کہنے لگی۔جب وہ شیر کے سامنے آئی تب بھی وہ کہہ رہی تھی کہ:
’’ تم ناچتے ہو تو تھوڑا فاصلہ برقرار رکھو۔
نہیں تو تم اس کے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
شیر وں نے شیرنی سے کہا’’تم کون ہو محترمہ ،جو ہمارے جشن کے بیچ میں مداخلت کر رہی ہو۔‘‘
شیرنی نے کہا’’اپنی زبان کو لگام دو! اور دیکھو اس ٹیلے پر جو مخلوق بیٹھی ہے۔‘‘
شیروں نے پوچھا ’’کون ہے وہ؟‘‘
شیرنی نے جوب دیا’’ وہ جو بیٹھا ہے وہ خدائے پابوری ہے۔جس کا ایک وقت کا کھانا سات بھونے ہوئے شیر ہیں۔ میں تمھیں مشورہ دیتی ہوں کہ تم لوگ اپنی جان بچا کر بھاگو یہاں سے ورنہ وہ تم لوگوں کو وہ قتل کر کے پیڑ پر لٹکا دے گا۔اگرتمھیں یقین نہیں آتا تو چلو میرے ساتھ میں تمھیں دکھاتی ہوں۔ـ‘‘ وہ ان لوگوں کو مرے ہوئے شیر کی لاش کے پاس لے گئی۔تمام شیر اس منظر کو دیکھ کر ڈر گئے اور خدائے پابوری کا ڈر ان کے دل میں بیٹھ گیا۔
وہ لوگ گیدڑ سے محفوظ فاصلے پر آکر بیٹھ گئے او راپنے سروں کو جھکا لیااور کہا’’ او، خدائے پابوری ہمیں بخش دو ۔ ہم آپ کے بچوں جیسے ہیں ۔ ہم شادی کی تقریب کا جشن منا رہے تھے۔ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آیئے اور ہمارے جشن میں شامل ہو جائیے ۔ ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں بخش دیں گے اور اپنے بچوں کی طرف سے دی گئی دعوت کو قبول کریں گے ۔پھر اس کے بعدچاہے جو کرنا ہو آپ ہمارے ساتھ وہ کر سکتے ہیں۔سب کے دلوں کی دھڑکن تھم گئی۔ گیدڑ ساکت بیٹھا ہوا تھا اس نے شیر کی دعوت کو قبول کرلیا اور دوڑتا ہوا آیا اور شیر کے جھنڈ کے درمیان میں بیٹھ گیا۔ تمام شیر خوف زدہ ہوگئے اوراپنے گھیرے کو اور وسیع کرلیا اس ڈر سے کہ گیدڑ انھیں مار نہ ڈالے۔
شیروں نے پوچھا’’او خدائے پابوری اگر آپ اجازت دیں توہم گانا بجانا واپس شروع کریں ۔‘‘
گیدڑ نے کہا’’ٹھیک ہے لیکن مجھ سے دور ہو کر ناچنا نہیں تو تم میرے پنجو ں کے نیچے آجائوگے۔‘‘
شیروں نے ناچ دوبارہ شروع کر دیا شیرنی اور گیدڑ بیچ میں بیٹھے دیکھتے رہے۔
گیدڑ ڈرسے سانس بھی نہیں لے پا رہاتھا اور مسلسل چاروں طرف گھور رہا تھا کہ کہیں وہ شیروں کے پنجو ں کے نیچے نہ آجائے۔
ناچتے ناچتے سارے شیرتھک گئے تب انھوں نے گانا شروع کردیا۔ گانا ختم کرنے کے بعد سارے شیر گیدڑ کے پاس گئے اور انھوں نے کہا’’یہ ہمارا رواج ہے کہ ہم شادی کی تقریب میں اپنے مہمان کو بھی اپنے ساتھ ناچ گانے میں شامل کرتے ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی ہمارے ساتھ تھوڑاسا ناچ گا لیجئے۔‘‘
گیدڑ نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا’’ اب تو میرا کھیل ختم ،جب میں گائوں گاتب دوسرے گیدڑ بھی میری آواز پر یہاں تک آجائیں گے اور میری شامت آجائے گی۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے اس نے شیروں سے کہا ’’ مجھے گاناگانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن میری آواز میں اتنی شدّت اور طاقت ہے کہ یہ سارے درخت اور جھاڑیاں چھوٹے اور بڑے سب کپکپانے لگ جائیں گے اور جڑ سے اکھڑ جائیں گے۔میں مشورہ دوں گا کہ چلو کسی اونچی جگہ یاپہاڑ پر چلتے ہیں تاکہ میں تمہارے خواہش پر عمل کر سکوں۔‘‘
گیدڑ اور تمام شیر پہاڑ پر چڑھ گئے ۔ گیدڑ نے تمام شیروں کو اپنے سے دور ایک جگہ کھڑے ہونے کوکہا اور خود اور اونچائی پر چلا گیا۔وہاں پہنچنے کے بعد اس نے شیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میں اب گاناگانے جارہا ہوں۔ آپ سب لوگ اپنی آنکھیں بند کر لیجئے اور درخت کے تنے کو پکڑ کر کھڑے ہو جایئے۔
جیسے ہی شیروں نے اپنی آنکھیں بند کیں اور تنے کو پکڑ کر کھڑے ہوئے انھوں نے گیدڑ کی آواز سنی۔ان لوگوں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور اُس فریبی کو دیکھا واقعی وہ گیدڑ تھاجو پہاڑ کی اونچائی پر گا رہا تھا۔سب کو غصّہ آیا کہ ان کے ساتھ ایسا مذاق کیا گیا۔گیڈر نے ان کی خواہش کو پورا کیا اور وہاں سے بھاگ نکلا اور اس نے جھیل میں چھلانگ لگادی ۔اس نے اپنا نیلا رنگ صاف کیاپھر اس نے کبھی کوئی نئی ترکیب نہیں سوچی۔
٭٭٭

اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے اس سندھی لوک کہانی کا حیدر شمسی نے انگریزی سےترجمہ کیا ہے۔

“In The Country of Butterflies” A Short Story by Pearl S. Buck

Articles

تتلیوں کے دیس میں

پرل۔ایس۔بک

مترجم قاسم ندیم

آج میں آپ کو اپنی ماں کے بارے میں بتاﺅں گا۔چین کی پرانی تہذیب نے ماں کو بڑی اہمیت دی ہے۔جب چین کے گاﺅں دیہاتوں سے فوج ،جوان لڑکوں کو زبردستی پکڑ کر لے جاتی تھی، تب وہ کسی اور کو نہیں، ماں کو پکارتے تھے۔یا نگسی ندی کے کنارے ہمارا گاﺅں تھا۔گھر ایسے تھے جیسے وہ بنائے نہ گئے ہوں صرف ان کاڈھیر لگادیا گیاہو۔ہمارا گھر جیسا بھی تھا گاﺅں کا سب سے اچھا گھر تھا۔کیوں کہ ہم کھاتے پیتے لوگ تھے۔ہمارے پاس کم ازکم بیس ایکڑ زمین تھی۔ میرے والد کی دھاک صرف زمین کی وجہ سے نہیں تھی،بلکہ ان کی بہت ہی خوبصورت داشتہ کے سبب بھی تھی، جو میری ماں تھی۔
میرا ایک بڑا بھائی بھی تھاجو پانچ سا ل کی عمر میں ہی مرگیاتھا۔میری پیدائش اس کے بعد ہوئی ۔مجھے ہمیشہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ میری ماں مجھ سے زیادہ اسے پیار کرتی تھی۔شاید اس لیے کہ وہ بیٹا اس کی جوانی کا خواب تھا اور میری پیدائش کے وقت میری ماں کی عمر ڈھل چکی تھی۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجھ سے بالکل بے خبر تھی،بلکہ وہ ہمیشہ میرے زمیندار باپ کو تاکید کرتی تھی وہ میرا بھی اتنا ہی خیال رکھے،جتنا کہ وہ اپنے قانونی بچوں کا رکھتا ہے۔اس لیے میں اپنی ماں کا احسان مند ہوں۔
پھر وقت نے کروٹ لی۔نئے خیالا ت کے لوگوں نے میرے باپ کو حراست میں لے لیا۔ صرف اس لیے کہ وہ زمیندار تھا۔ زمینداروں پر کسانوں نے الزامات لگائے تھے۔وہ بھول گئے تھے کہ میرا باپ ان کے آڑ ے وقتوں میں مدد کرتا تھا۔فصل کی کٹائی کے موقع پر وہ اپنا حصہ چھوڑدیتا تھا،ان کے لڑائی جھگڑے نپٹاتا تھا اور اپنی جیب سے بھی ان کی مدد کرتا تھا۔لیکن شاید ان کی زیادہ غلطی نہیں تھی،کیوں کہ اگر وہ الزام عائد نہ کرتے تو نئے خیالات کے لوگوں کے ہاتھوں سے خود سزاپاتے۔
سبھی زمینداروں کو مرجانا چاہیے تاکہ نئے سماج کی بنیاد مضبوط ہوسکے۔ہمارے اپنے باغیچے میں ہی ایک اونچے پیڑ کے ساتھ میرے والد کو الٹا باندھ دیاگیاتھااورا س کی جیتے جی کھال اتاری گئی تھی۔ہمیں زبردستی سامنے کھڑاکرکے سب دکھایا گیاتھا۔
پھر میری سوتیلی ماں اور اس کے بچوں کو کہاں روانہ کردیاگیا،مجھے پتہ نہیں چلا۔ میں، میری بیوی اور میری ماں ایک کمرے میں بند کردیئے گئے۔اس کمرے میں جہاں پہلے ہمارا چوکیدار رہتا تھا۔ مجھے ایک کوآپریٹیو دکان میں بہی کھاتا سنبھالنے کاکام دیاگیا ،کیوں کہ میں کچھ پڑھا لکھا تھا۔ اس کے علاوہ ندی کے کنارے بنیادوں کی کھدائی کے لیے بھی مجھے کئی گھنٹے کام کرناپڑتا تھا۔ہمیں بتایا گیا کہ وہاں ایک پُل تعمیر ہوگا۔کنارے کی مٹی ایسی تھی کہ گرمی میں سوکھ کر پتھر بن گئی تھی۔ میری بیوی کو بھی اس کام کے لیے میرے ساتھ لگادیاگیاتھا۔ہم جب رات کوگھر لوٹتے تھے تو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کی طاقت بھی ہمارے بدن میں نہ ہوتی۔
ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ روٹی کا تھا۔میری بوڑھی ماں سارا دن گھر میں رہتی۔ میرے باپ کی بھیانک موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اس کا دماغی توازن بگڑگیاتھا۔اس لیے وہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں تھی۔اسی لیے اسے راشن نہیں ملتا تھا۔میں اورمیری بیوی اپنا راشن اس کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
اس لیے تینوں ہی ہر روز بھوکے رہتے تھے۔یہ راشن کا بھیدصرف ہمیں ہی پتہ تھا۔مگر ماں ہر روز حیرت کرتی کہ گھر میں پیٹ بھر کھانے کو کیوں نہیں ملتا۔پہلے اس کے کھانے میں ہر روز سور کا گوشت اور مچھلی ہوتی تھی۔اب اسے حیرت تھی کہ ہم گوشت کیوں نہیں پکاتے۔راشن کے مطابق ہمیں ایک بار مہینے میں گوشت ملتا۔وہ بھی اتنا کم کہ صرف ایک انسان کھاسکے، اس لیے ہم ماں کو کھلادیتے۔
ہمیں پوری مزدوری کبھی نہیں ملتی تھی۔بتایا جاتا تھا کہ اس کا کچھ حصہ ہمارے نام جمع ہورہا ہے۔ مگر وہ حصہ کیوں اور کہاں جمع ہوتاتھا،ہمیں کچھ نہیں پتہ تھا۔ہم سب صرف یہ جانتے تھے کہ ہمیں انسان کے روپ میں نہیں بلکہ ایک عظیم ہجوم کے روپ میں زندہ رہنا ہے۔میں بہت چاق و چوبند رہتا تھا لیکن ماں کئی بار ہمیں مشکل میں ڈال دیتی تھی۔
ایک بار تو بہت بڑی مشکل کھڑی ہوگئی۔بات یہ ہوئی کہ میں اورمیری بیوی کام پر گئے ہوئے تھے ،ہماری غیر موجودگی میں ہمارے گھر کسی جاسوس کو بھیجا گیا۔بیچاری ماں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ بہت دنوں کے بعد کوئی گھر میں آیاتھا۔
ماں نے اپنی عادت کے مطابق اس کا خیرمقدم کیا۔اس کے لیے چائے بنائی تو پورے چار گرام چائے کی پتی خرچ کردی۔میری بیوی نے کچھ چاول سنبھال کررکھے تھے(ہماری پوری ایک دن کی خوراک)مگر ماں نے اس کا پلاﺅ بناکر مہمان کو کھلادیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم پر جمع خوری کا الزام لگایاگیاکمیون کے کامگار آئے اور ہمارے برتن اٹھاکر لے گئے۔ہم سے کہاگیا کہ گھر میں کھانے کے بجائے ہم مشترکہ رسوئی گھر میں کھانا کھائیں۔ میری بیوی کو وہاں روٹی پکانے پر معمورکردیاگیا۔لیکن میری ماں چونکہ کوئی کام نہیں کرتی تھی، اس لیے اس کے کھانے کے لیے کوئی رسید نہیں ملی تھی۔
یہ بہت بڑامسئلہ تھا۔میں کمانڈر سے ملا۔لیکن اس نے کہا کہ میری ماں کو اس حالت میں کھانے کی اجازت نہیں مل سکتی۔میں نے اسے بتایا کہ میری ماں کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔اس لیے وہ کوئی کام نہیں کرسکتی۔
تب کمانڈر نے اسے بچوں کی ایک نرسری میں کچھ دیکھ بھال کرنے کا مشورہ دیا۔ میں نے ماں کواس کام پر بھیج دیا۔کھانے کی اجازت مل گئی۔لیکن عجیب مصیبتیں شروع ہوگئیں۔یہ شاید نہ ہوتیں، اگر وہ نرسری ہمارے ہی پرانے مکان میں نہ بنتی۔ماں کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ پھر بھی بیٹھے بیٹھے اسے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نے یہ مکان کبھی نہ کبھی دیکھا ہے۔
مکان کی شکل بدل چکی تھی۔باغیچہ تباہ ہوچکاتھا۔پہلے اس میں پارٹی کا ہیڈکوارٹرتھا پھر ٹوکریوں کا کارخانہ شروع کردیا گیا۔فوجیوں کے بیرک بھی بنائے گئے تھے اور اب وہاں نرسری شروع کی گئی تھی۔ماں کی دماغی حالت نے،تصور میں اس کا نیا روپ اپنالیاتھا۔چوں کہ زمیندار کی بیوی ہونے کی بجائے وہ اس کی داشتہ تھی۔اس لیے اسے بہتر جگہ نہیں دی گئی تھی۔نرسری کے سارے بچے زمینداروں کے بچے تھے۔ایک دن اس نے نرسری کی دیکھ بھال کے لیے تعینات عورت سے کہہ دیا کہ اس کے ساتھ نوکروں جیسا برتاﺅ نہ کیا جائے۔وہ مالکن ہے اور وہ باہر باغیچے میں کرسی لگاکر بیٹھے گی۔
اس عورت کے مزاج میں پختگی نہیں تھی۔بات بہت آگے تک بڑھ جاتی،مگر میں نے کسی طرح اس کی منتیں کرکے اسے اطمینان دلایا۔بات آئی گئی ہوگئی۔لیکن کچھ ہی دن بیتے تھے کہ نرسری میں پانچ سال کا ایک پیارا سا بچہ لایا گیا۔
میری ماں نے جیسے ہی اسے دیکھا،اسے لگاکہ یہ وہی بچہ ہے جو پانچ سال پہلے اس کے پاس سے  کھوگیاتھا۔میری ماں کو اس بچے سے پیار ہوگیا۔
وہ بہت بڑا جرم تھا،کیوں کہ ہمیں تعلیم دی گئی تھی کہ ہم بچوں سے پیارنہ کریں۔پیار ومحبت سے بچے کمزور ہوجاتے ہیں اور اس کے احساس میں وہ ایک انسان کا تصور کرتے ہیں جوا نہیں پیارکرتا ہے۔
انہیں کسی ایک انسان کے بارے میں نہیں بلکہ ایک ہجوم کے بارے میں سوچنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ چھوٹے بچے جب ماں کو بہت یاد کرتے تھے تو انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔اس کا ایک ہی علاج اپنایا جاتا کہ ان سے بہت زیادہ کام کروایا جائے۔جھاڑو لگانے کا،کوڑاکرکٹ پھینکنے کا،گھاس کھودنے کا مگر وہ بچہ بہت ہی کمزور تھا۔ہر وقت روتا رہتا۔ایسے بچوں کے لیے کام کا بوجھ بڑھایاجاتا تھا۔
جب اسے بھاری کام سے لگایا جاتا تو ماں سے دیکھا نہ جاتا۔ماں اس کے سارے کام کردیتی۔اس لیے ماں کو دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اسے نرسری کے کام سے ہٹاکر کسی دوسرے مقام پر بھیج دیاجائے گا، لیکن ماں وہاں سے کہیں جانے کے لیے تیار نہیں تھی۔وہ بچے کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کرسکتی تھی۔بہت سمجھانے پر وہ دن میں بچے سے دور رہتی،مگر رات ہوتے ہی بچے کو سینے سے لگالیتی۔ ماں نے بچے کو اپنا بیٹا سمجھ لیاتھا۔
ماں ایک دن فرش صاف کررہی تھی کہ اس کی یادداشت لوٹ آئی۔ زمینداری کے دنوں میں کچھ ہیرے اس کے پاس تھے،جو اس نے افراتفری کے دنوں میں ایک کمرے میں دبا دیئے تھے۔ اب اس کمرے کا فرش دھوتے ہوئے جیسے نیند میں چلتی ہوئی،وہ اس کونے کوکھودنے لگی جہاں ہیرے دبائے گئے تھے۔ہیروں کا کیا ہوا؟اس نے کہاں پھینکے ،مجھے کچھ پتہ نہیں۔ان میں ایک چاندی کی تتلی بھی تھی،جس پر مینا کاری کاکام کیا گیاتھا۔جس میں چھوٹے چھوٹے ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔اس دن جب میری ماں کو عدالت میں پیش کیاگیا۔
شروع میں ماں نے اس تتلی کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا،اسے کہیں چھپادیا ۔ اگلے دن ماں کے لاڈلے اس بچے کے ہاتھ میں چوٹ لگ گئی۔بچے کو گھاس کھودنے کے لیے ایک تیز کھرپی دی گئی تھی۔
وہی بچے کے ہاتھ میں لگ گئی تھی۔اسے ہسپتال لے جایاگیا تو ماں بھی کسی طرح وہاں پہنچ گئی۔ بچہ کسی بھی چیز سے بہل نہیں رہا تھا۔ماں نے اسے اٹھایااور ایک کونے میں لے گئی۔اسے بہلانے کے لیے اس نے وہ تتلی نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھ دی۔بچہ اس دن بہل گیا۔بعد میں وہ ماں سے تتلی مانگ لیتا اور کھیلتا رہتا۔
ایک دن بچے نے وہ تتلی اپنے ایک ہم عمر لڑکے کو دکھادی۔اس لڑکے نے نرسری کی آفیسر کو اس کی خبر دی۔
ایسی کوئی خبر دینے والے بچوں کو شکر کی ایک چٹکی انعام کے طور پر دی جاتی تھی۔ بات آگے تک پہنچ گئی۔ بچے کی بہت پٹائی ہوئی اوراسے بتایاگیا کہ کسی بچے کے پاس ایسی چیز کاہونا،جو سب کے پاس نہ ہو، جرم ہے۔
ماں کو گرفتار کرلیا گیا۔ایسے جرم کی سزا موت ہونی چاہیے تھی،مگر کمیون نے ترس کھاکر صرف یہ سزا سنائی کہ اگلے دن ماں کو سرعام بے عزت کیاجائے گا۔
اگلے دن بھیڑ میں میں بھی تھا۔مجھے ضرور ہونا چاہیے تھا۔ماں کو مجمع میں لایا گیا۔اس کے ہاتھ پیٹھ کے پیچھے بندھے ہوئے تھے۔پھر ہمیں حکم دیاگیا کہ وہ جس وقت ہمارے سامنے سے گزاری جائے،ہر ایک آدمی اسے تھپڑ مارے اور یہ کہے کہ وہ سب سے زیادہ خراب عورت ہے۔ ایک ساتھ مکے اور تھپڑ برس پڑے۔ماں زمین پر گرپڑی۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب اسے لاتوں سے مارنے کا وقت آگیاتھا۔
میری باری بھی آئی میرے پیر کپکپانے یا نہ اٹھانے کا جرم کرنے کا حق نہیں رکھتے تھے۔
میری بیوی اس گناہ سے یہ کہہ کربچ گئی کہ روٹی پکانے کے لیے اس کا اجتماعی رسوئی گھر میں رہنا ضروری تھا۔سب کو رات کا کھانا کھلا کر وہ چھپتی چھپاتی نرسری میں گئی تب تک ماں کو ادھ مری حالت میں پہنچا دیاگیاتھا۔اس دن اس بچے کو بھی مارمارکر انہوں نے زخمی کردیاتھا۔ماں نے وہاں پہنچتے ہی اس بچے کو آنچل میں بھرلیاپھر ایک چٹائی پر لیٹ کرکراہتے ہوئے بچے سے باتیں کرتی رہی۔
میری بیوی کے کانوں میں اس کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ پڑتے رہے۔وہ بچے سے کہہ رہی تھی،”آج میں اپنے بیٹے کے لیے پرائی ہوگئی۔ماں کا رشتہ ختم ہوگیااس نے مجھے لات ماری تو چھوٹا ہے ،تو کچھ نہیں سمجھتاچل ہم کہیں دور چلیں یہاں سے!“
بچہ کراہتے ہوئے اس چاندی کی تتلی کے بارے میں پوچھتا تھا۔
ماں اس سے کہہ رہی تھی،”چل!ہم ندی کے کنارے کی طرف چلیں۔وہاں جنگل میں ہم تتلیاں تلاش کریں گے۔“
میری بیوی نے دیکھا کہ ماں بچے کو لے کر گرتی پڑتی چل دی۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔اس نے دیکھا کہ بچہ میری ماں کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔
سامنے ندی تھی۔ماں چلتی جارہی تھی۔
پانی اس کے ٹخنوں تک گھٹنوں تک ہوتا ہوا اس کے کندھوں تک آگیا تھا اور پھر سر سے اونچاہوگیاتھا۔
میری بیوی دوڑکر اسے بچاسکتی تھی،لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔اس نے میرے علاوہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔اس دن مجھے احساس ہوا کہ جتنا میں سمجھتا ہوں اس سے کہیں زیادہ میری بیوی رحم دل ہے !!
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

————————————————————————————-
پرل ایس بک 1882ءمیں امریکہ میں پیدا ہوئیں اور 1973ءمیں انتقال فرمایا۔وہ امریکہ کی پہلی مصنفہ ہیں جنہیں”دَ گڈ ارتھ“کے لیے 1938ءمیں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بچپن سے ہی انہیں ادب سے لگاﺅ تھا۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ چین میں بیتاتھا۔کیوں کہ ان کے والدین مشنری سے وابستہ تھے اور چین میں رہتے تھے۔ان کی شادی جان لاسنگ بک سے ہوئی تھی۔ان کی تخلیقات میں چینی کسانوں کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ان کی تصانیف میں سنس،دَبنگ ریوولیو شنِسٹ،دَمدر،دِزپرائڈ ہرٹ،دَ پیئریاٹ،اَدر گاڈز وغیرہ شامل ہیں۔

 

“The Tailor” A Short Story by Hijab Imtiaz Ali

Articles

درزی

حجاب امتیاز علی

رات کے پون بجے جب شبی نے مجھے کسی درزی کی دکان پر چلنے پر اصرار کیا تو میں حیران ہو کر بولی ’’مگر اس وقت؟‘‘
’’ہاں ہاں اسی وقت روحی… عید کی مصروفیت کی وجہ سے آج کل دن کے وقت درزی نہیں ملتا۔ تم جلدی سے اپنی کار نکالو۔‘‘ شبی نے اصرار کیا۔
’’اچھا…‘‘ میں بادل نخواستہ مان گئی اور گیراج سے اپنی کار باہر نکال لائی۔
شبی گھبراہٹ اور پریشانی کے عالم میں اپنے کپڑوں کا بنڈل ہاتھ میں لیے کار میں میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
کچھ دیر بعد کار چلاتے چلاتے میں نے پوچھا ’’میں اتنی رات گئے صرف تمہاری ضد پر نکلی ہوں۔ لاہور اتنا بھی محفوظ شہر نہیں ہے۔ تمہیں اپنے کپڑے لینے ہیں یا کسی درزی کی تلاش ہے؟‘‘
’’ارے بھئی درزی کی تلاش ہے۔ موزوں درزی نہیں مل رہا۔ عید کا زمانہ ہے، چلو جلدی چلو۔‘‘ اس نے کہا۔

جب ہم گھر سے نکلے تو باہر لوگوں کا ہجوم اُبلتے سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ عید کی خریداری کرنے لوگ یوں دیوانہ وار بازاروں کی طرف رواں دواں تھے جیسے عید پر پھر کبھی نہیں آئے گی۔ میں اور شبی درزی کی تلاش میں بڑی تیزی سے شہر کی طرف جا رہی تھیں۔ شاید کوئی ’خالی درزی‘ مل جائے تو شبی بھی اپنا لباس سلوا لے۔
شبی بڑبڑا رہی تھی ’’دیکھو تو روحی، آج کل انسان کس طرح انسان ہی کے درپے آزار ہے۔ گاہکوں کو درزی نہیں ملتے اور لباس پہننے کی تاریخ سر پر آ جاتی ہے۔‘‘
میں ہنس پڑی اور بولی ’’یہ دنیا کا کوئی اتنا اہم مسئلہ نہیں شبی۔ جب میں سوچتی ہوں تو انسان کے سبھی مسائل مجھے ادھورے ہی نظر آتے ہیں اور تم ایک درزی کے مسئلے کو اتنی اہمیت دے رہی ہو!‘‘
کپڑوں کی تھیلی پچھلی نشست پر پھینکتے ہوئے شبی کہنے لگی ’’ہر انسان کے لیے اپنا مسئلہ اہم ہوتا ہے روحی۔ تم جانتی ہو، دو دن سے میں درزیوں کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی ہوں کہ خدا کے لیے مرا لباس سی دو۔ مجھے پرسوں پہننا ہے مگر کسی نے ہامی نہ بھری۔ کہنے لگے، چھ چھ مہینوں سے عید کے کپڑے سل رہے ہیں، اب نیا کپڑا نہیں لیا جا سکتا۔‘‘
میں نے کہا ’’ٹھیک تو کہتے ہیں۔ دیکھو اب تو عید سر پر آ گئی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ لباس تو مجھے عید سے پہلے پہننا ہے۔‘‘
’’عید سے پہلے؟‘‘ میں نے ذرا تعجب سے پوچھا۔
’’ہاں…‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ پاکستان میں عید کی تیاریاں تمام رات بلکہ سحر کی اذان تک ہوتی رہتی ہیں۔ درزی بے چارے نمازِ سحر کے وقت دو گھڑی کے لیے دکان بند کرتے اور پھر اپنے کام پر لگ جاتے ہیں۔ اب تم عید کے بعد ہی اپنا جوڑا سلوانا۔‘‘
وہ بھونچکا ہو کر مجھے دیکھنے لگی ’’عجیب باتیں کرتی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر چپ ہوگئی۔ شہر کے درزیوں سے مایوس ہو کر اب ہم گلبرگ واپس جا رہی تھے۔ شہر کا یہ حصہ نسبتاً پرسکون تھا۔ رات کا سناٹا اور تاریکی بڑھتی جا رہی تھی۔ میں کسی انجانے خوف اور شبی درزی نہ ملنے سے سہمی ہوئی گھر کی طرف لوٹ رہی تھیں۔

اچانک سڑک کنارے کھڑے ایک بڑے تناور درخت پر سے ہولناک ’قوقو‘ کی صدا بلند ہوئی۔ اسے سن کر اسٹیرنگ پر میرے ہاتھ کانپ گئے۔
شبی کو بھی اس کا احساس ہو گیا۔ پریشان ہو کر کہنے لگی ’’سنا تم نے؟ رات کا پرندہ اچانک چیخ اُٹھا۔ خدا کی پناہ۔‘‘
میں بے حد خوف ہو کر کہنے لگی ’’شکر ہے پرندہ تھا، انسان نہیں۔ میں انسانوں سے کتراتی ہوں، پرندوں سے نہیں کہ یہ ظالم نہیں ہوتے۔‘‘
شبی کہنے لگی ’’اس قسم کے پرندے تو ایشیائی گرم راتوں میں چیختے رہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے لرزاں آواز میں کہا ’’لیکن مجھ میں دوبارہ رات کے اس پرندے کی قوقو سننے کی ہمت نہیں۔ شبی! کچھ مخصوص سی آواز تھی۔‘‘
شبی کہنے لگی ’’روحی! کیا حرج ہے ذرا لبرٹی مارکیٹ کے درزیوں سے بھی پوچھ لیں۔‘‘
میں نے کار لبرٹی مارکیٹ کے آخری حصے کی طرف موڑ لی جہاں چند درزیوں کی دکانیں تھیں۔ جب کسی نے بھی ہامی نہ بھری تو ہم مایوس ہو کر لبرٹی مارکیٹ سے ملحق چھوٹے راستے سے گھر کی طرف چل پڑے۔ ہم ہسپتال کے سامنے سے گزر ہی رہی تھے کہ وہ مری کار کے آگے آ گیا۔ شاید وہ سڑک پار کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں بڑی ہوش مندی سے بریک نہ لگاتی تو اس کا قیمہ ہو جاتا، مجھے بےحد غصہ آیا۔ کار ٹھہراتے ہوئے میں نے چیخ کر کہا ’’تم ہوش میں ہو؟‘‘
آدمی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی بغل میں ایک پوٹلی تھی جس سے کچھ سفید رنگ کے کپڑے باہر لٹک رہے تھے۔
شبی چیخ پڑی۔ ’’ٹھہرو روحی، ٹھہرو۔ شاید درزی ہو، اس کی بغل میں کپڑے ہیں۔‘‘
میں نے پھر کار سے گردن باہر نکال کر پوچھا ’’تم درزی ہو؟‘‘
’’ہاں…‘‘ اس نے اقرار کیا۔ مگر اس کی آواز میں پھنکار سی تھی، جیسے کوئی گلے کا مریض آہ بھر رہا ہو۔
شبی بے حد خوش ہوگئی، کہنے لگی ’’میں تمہاری بغل میں کپڑوں کا بنڈل دیکھ کر سمجھ گئی تھی۔‘‘
اب میری نظر دوبارہ درزی کے ادھ کھلے بنڈل پڑی۔ کچھ کپڑے باہر لٹک رہے تھے، وہ سفید رنگ کے عجیب بے ڈھنگے سے لمبے لمبے کپڑے تھے۔ انہیں دیکھ کر مجھے جھرجھری محسوس ہونے لگی۔
شبی درزی سے کہہ رہی تھی۔ ’’میرا ایک لباس سی دو گے؟‘‘
درزی نے پہلی دفعہ نظر اُٹھا کر ہم دونوں کو دیکھا۔ شاید سوچ رہا تھا کہ ضرورت مند کون ہے۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ درزی کا رنگ دودھ کی طرح سفید ہے۔ وہ میانہ قد اور ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ غور سے دیکھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ بھی سفید ہے، سیاہی کہیں نام کو نظر نہ آئی۔ یا شاید مدھم روشنی میں آنکھ کی سیاہی چھپ گئی۔
بہرحال مجھے وہ اپنی سفید رنگت اور سفید آنکھوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک لگا، لیکن میں شبی سے اس کے متعلق کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ وہ اس وقت خلاف توقع درزی دستیاب ہونے پر بےحد خوش نظر آ رہی تھی۔ اس نے غالباً درزی کو غور سے دیکھا ہی نہیں۔ درزی کا لباس بھی مجھے اچھا نہ لگا۔ اس نے سفید رنگ کی عبا پہن رکھی تھی جو رات کی پراسرار ہواؤں میں متحرک تھی۔
شبی کہنے لگی ’’مگر یہ مقام تو کپڑے دکھانے اور ناپ دینے کا نہیں، میرے گھر آ جاؤ۔‘‘
’’ہاں… مجھے آنا ہی پڑے گا۔‘‘ درزی نے اپنی پست آواز میں کہا۔
جانے کیوں مجھے اس کے یہ الفاظ اور آواز بھی مایوس اور ناگوار لگی۔ بھلا اسے کیا مجبوری تھی کہ اسے آنا ہی پڑے گا؟ یہ کوئی چور ڈاکو یا جاسوس تو نہیں؟ میں سوچنے لگی۔ لیکن شبی یہ ساری باتیں نظرانداز کر رہی تھی اور خوش تھی کیونکہ اسے بمشکل ایک درزی دستیاب ہوا تھا۔
’’گھر کا پتا لکھ دوں؟‘‘ وہ اپنا دستی بٹوا کھولنے لگی تاکہ کاغذ اور پنسل نکال سکے۔
’’اس کی ضرورت نہیں۔‘‘ درزی کی آواز بہت مدھم پڑ گئی تھی۔ یہ جواب سن کر میں اور بھی بدگمان ہوگئی کہ ضرور یہ کوئی مشکوک آدمی ہے۔
شبی کو بھی شاید کچھ تعجب ہوا، پوچھنے لگی ’’تو پھر پہنچو گے کیسے؟‘‘
’’جہاں مجھے پہنچنا ہو، پہنچ جاتا ہوں۔‘‘ درزی کا یہ جواب بھی مجھے بڑا عجیب لگا۔ میرے شبہات یقین کے درجے پر جا پہنچے۔
’’کب آؤ گے؟‘‘ شبی نے سوال کیا۔
’’کل۔‘‘
’’کس وقت؟‘‘
’’اسی وقت۔‘‘
شبی حیران ہو کر کہنے لگی ’’اس وقت؟… مگر اس وقت تو رات کے دو بج رہے ہیں۔‘‘
’’اس سے پہلے مجھے فرصت نہیں اور یہی وقت ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ یو سی ایچ کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔

میں پریشان ہو کر بولی ’’تم نے اچھا نہ کیا شبی، جانے یہ کون تھا!‘‘
’’درزی تھا اور کون ہوتا؟‘‘ شبی چیں بجیں ہو کر بولی۔ پھر کہنے لگی ’’اس کی بغل میں کپڑوں کی گٹھڑی دیکھتے ہی میں سمجھ گئی تھی کہ درزی ہے۔‘‘
’’لیکن تم نے وہ کپڑے بھی دیکھے جو گٹھڑی کے باہر لٹک رہے تھے؟‘‘ میں نے کار چلاتے چلاتے پوچھا۔
’’نہیں تو… کیوں ان میں کیا خاص بات تھی؟‘‘ وہ پوچھنے لگی۔
’’سفید رنگ کے لمبے لمبے سے تھے اور اندھیری رات میں مجھے سفید کپڑا برا لگتا ہے شبی۔‘‘ میں نے کہا۔
وہ ذرا برا مان کر کہنے لگی ’’توبہ روحی، تمہاری نازک مزاجی نے آفت ڈھا رکھی ہے۔ تمہیں تو متاثر ہونے کا بہانہ چاہیے۔ موسیقی، شعر، رنگ کے سوا تمہیں کوئی چیز پسند نہیں آتی۔‘‘
’’اتنا مبالغہ نہ کرو شبی، مجھے اس کائنات کا سارا حسن پسند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں چپ ہو گئی۔
اچانک کسی درخت پر رات کا ایشیائی پرندہ بول پڑا۔ ’’قو۔قو۔قو۔‘‘ ساتھ ہی میں نے کار کی رفتار تیز کر دی۔ رات کے سناٹے میں میرے لیے اس کی نامانوس پکار ناقابل برداشت تھی۔

وہ بے حد ویران اور اندھیری رات تھی۔ اندرون شہر، آنے والی عید کی تیاریاں اور ہنگامے جاری تھے، مگر شہر سے باہر گلبرگ حسب معمول خاموش اور کچھ زیادہ ہی پرسکون تھا۔ آسمان پر تارے بھی مجھے دم بخود معلوم ہو رہے تھے۔ ہوا بھی تھم کر چل رہی تھی۔ ہم گھر کی طرف رواں دواں تھیں۔ مجھے جیسے سانپ سونگھ گیا تھا، بالکل خاموش تھی۔
’’اب اتنی چپ کیوں ہو گئی ہو روحی؟ تمہیں تو ہر موضوع پر بات کرنے یا کوئی شعر سنانے کا مرض ہے۔ خدا کے لیے کوئی بات کرو، ہول آ رہا ہے تمہاری خاموشی اور رات کے سناٹے سے!‘‘ شبی نے بیزار بلکہ قدرے خفا ہو کر کہا۔
میں بولی۔ ’’ایک بات کہوں شبی؟‘‘
’’کہو کہو۔‘‘ شبی نے کہا۔
’’جو تمہارا درزی تھا نا… اس کی آنکھیں دودھ کی طرح سفید تھیں۔ مجھے تو اس کی آنکھوں پر سیاہی کہیں نظر نہیں آئی۔ وہ تمہارے کپڑے کیونکر سیے گا؟‘‘
شبی ذرا پریشان ہو گئی، کہنے لگی ’’کیا واقعی؟ میں نے غور ہی نہیں کیا۔ خیر کپڑے سینا اس کی ذمہ داری ہے۔‘‘
’’مگر اس کی آنکھیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
شبی اچانک خوفزدہ ہو کر کہنے لگی۔ ’’کیا واقعی اس کی آنکھیں ایسی تھیں جیسے تم کہہ رہی ہو؟‘‘
’’ہاں…‘‘ میں نے کہا ’’کم از کم میں نے سیاہی نہیں دیکھی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے مجھ پر ذہنی انتشار طاری ہو گیا۔ ویسے بھی میں ایک بزدل عورت ہوں۔ جس چیز سے ڈرنا چاہیے، اس سے نہیں ڈرتی، جس سے نہیں ڈرنا چاہیے، اس سے خوف زدہ ہو جاتی ہوں۔

گھر پہنچتے ہی میری بوڑھی حبشن خادمہ حسب عادت ناخوش لہجے میں بولی ’’رات گزر چکی ہے خاتون روحی، اور آپ دونوں درزی کی تلاش میں نکلی نکلی اب گھر پہنچی ہیں۔ کافی پئیں گی کہ چائے؟‘‘
’’کافی…‘‘ میں نے کہا
’’درزی مل گیا تھا خاتون شبی؟‘‘ خادمہ نے پوچھا۔
’’ہاں مل گیا تھا زوناش۔‘‘ شبی نے خوش ہو کر کہا۔ پھر کہنے لگی ’’دیکھو وہ کل رات دو بجے آئے گا‘ خیال رکھنا۔‘‘
زوناش یہ سن کر متوحش ہوگئی۔ ویسے بھی بات بات پر دعائیہ انداز میں آیات پڑھنا اس کی عادت تھی۔ ایک عربی دعا پڑھتے ہوئے وہ پوچھنے لگی:
’’دو بجے رات بی بی؟‘‘
’’ہاں ہاں کل دو بجے رات۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی دروازہ کھول دینا۔‘‘ شبی نے تاکید کی۔
زوناش خوف زدہ ہوگئی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔
دوسرا دن نکل آیا اور اپنے وقت پر ختم ہو گیا۔ سورج حسب معمول اُفق تلے جا چھپا اور اندھیری رات بیتنے لگی۔
رات کے کوئی ڈیڑھ بجے شبی نے اچانک اپنی خواب گاہ کا دروازہ کھولا اور آواز دی:
’’زوناش زوناش! میرے سر میں درد ہو رہا ہے ’ایسپرو‘ کی گولی لے آؤ۔ پھر ذرا میرے پاس آ بیٹھو اور سر دبا دو۔‘‘
’’بہت اچھا بی بی۔‘‘ کہتے ہوئے خادمہ شبی کے کمرے میں چلی گئی۔ ذرا دیر بعد اس نے میری خواب گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بدحواس ہو رہی تھی۔ کہنے لگی ’’خاتون شبی کے سر میں شدید درد ہے۔ مجھے تو ان کی حالت…‘‘
گھڑیال ٹن ٹن دو بجانے لگا۔ اچانک باہر کے صدر دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے جا کر دروازہ کھول دیا۔ باہر سفید لباس میں ملبوس وہی پراسرار آدمی کھڑا تھا، مجھے دیکھتے ہی بول اُٹھا:
’’میں کفن سینے آ گیا ہوں۔

٭٭٭

بیسویں صدی کے اوائل میں اردو فکشن میں رومانیت ایک رجحان کے طو رپر ابھری جسے سرسید کے عقلیت پسند تحریک کی ضدماناجاتا ہے اس رومانی دورمیں کئی آفاق گیرادبی شخصیتیں منظرِعام پر آئیں۔جن میں ایک نمایا ں نام حجاب امتیاز کا ہے۔
مدراس کے ضلع آرکاٹ (وانم باڑی) میں 1907ءمیں پیدا ہوئیں ۔ والد محمد اسماعیل مدراس کے معزز و معروف شخصیتوں میں سے تھے۔ او روالدہ عباسی بیگم ایک ادیبہ تھیں۔ ابتدائی تعلیم گھر پر والد کی زیر نگرانی ہوئی اورحیدر آباد کے ایک مشن اسکول میں ا نگریزی کی تعلیم حاصل کی ۔والدہ چوں کہ اردوکی پر وردہ تھیں۔ اس لئے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا۔1930ءمیں اردوکے مشہور ڈرامہ نگارامتیاز علی تاج سے بلہاری میں شادی ہوئی جس کے بعد لاہور کو اپنا گھر بنایا ۔جہاں پر خانگی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ تہذیب نسواں کی ادارت کی ذمہ داری بھی نبھانے لگیں ۔
حجاب نے کافی کم عمری میں لکھنا شروع کیا ۔ساڑھے گیارہ سال کی تھیں جب ا نہوں نے اپنا پہلا افسانہ”میری ناتمام محبت“ تحریر کیا۔جو بعد میں نیر نگِ خیال میں شائع ہوا۔ نابالغ ذہن کے تراش شدہ اسی بت کی ساخت میں کئی جگہ بت تراش کی نوعمری او رجذ بات کی ولولہ انگریز ناہموار یاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ لیکن زبان وبیان ،فکر و فن ایک عمدہ افسانہ نگار کی آمد کا پتہ دیتے ہیں۔
ان کا دوسرا افسانہ ” ظالم محبت “تھا جو 1940ءمیں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی افسانے اورناول لکھے۔ جیسے”صنوبر کے سائے“٬ ”نغمات محبت“ ٬ ”لاش‘‘وغیرہ جو اُن دنوں تہذیب نسواں، عالم گیر ، اور نیر نگِ خیال وغیرہ میں شائع ہوئے۔
حجاب نے زیادہ ترافسانے ہی لکھے ہیں ۔مگر اپنے کینو یس اورکردار وں کے دائرہ عمل کے اعتبار سے یہ افسانے ناول ناولٹ کے ذیل میں آتے ہیں ۔ہلکے پھلکے ان رومانی سماجی ناولوں کی بنیاد ان کے عہد کا معاشرہ او ر اس کے مسائل ہیں۔ جس میں محبت عام اخلاقی اصول و اقدار اور سماجی قوانین سے ٹکراتی ہے او ر اسی ٹکرا و میں محبت کی شکست ہو تی ہے ۔سجاد حیدر یلدرم کے زیر اثر انہو ں نے ایسی تخیلی دنیا آباد کی جو مشرق وسطیٰ او ریو رو پین طرز ِمعاشرت کا حسین امتزاج نظر آتی ہے جس میں امرا اور رؤسا ، جو اہرات اور موتیوں میں کھیلتے ہیں اور جن کی خدمت کے لئے بے شمار گل رخ کنینر یں ادھر اُدھر بھا گتی پھر تی ہیں ۔ پوری فضا داستانی رنگ لئے ہوئے ہے جس میں سب کچھ اتفاقی ہے یہا ں تک کہ مسرت اور غم بھی جو ”یاد “بن کر مسرت کا ہی منبع لگتا ہے۔
ان کی کردار نگار ی بھی تخیلی سطح پر کی گئی ہے شاعرانہ اندازمیں پیش کر دہ ان کے کردار اکثرتیسری نسل سے ہیں جن کا واسطہ ماضی کی دونسلوں سے ہے ۔ ان کے اعمال مشرقی معاشرہ کا حصّہ ہیں مگر مغربی تعلیم کے زیرِ اثریہ فرد پچھلی نسلوں سے خود کو علاحدہ کر نے کی جدوجہد کر تے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک قصہ کی تکنیک کا سوال ہے ان کی اکثر کہانیاں ”روحی “ بیان کر تی ہے جو کبھی کہانی کااہم کرداربن کرتوکبھی ثانوی کردار کی حیثیت سے دوسروں کی کہا نی پیش کرتی ہے مثلاً ’ ’ میری ناتمام محبت“ کے آغاز میں قبرستان کی پُر اسرار فضا میں” روحی“ اپنی ناکام محبت کو یاد کرکے اس کا افسانہ سنا تی ہے۔
زبان واسلوب کا انتخاب بھی حجاب نے موضوع کی مناسبت سے کیا ہے۔ حسن وعشق چوں کہ ان کا موضوع تھا اس لئے ان کی زبان نہایت لطیف وشیریں اور اسلوب شاعرانہ ہے۔ جہاں تک مکالموں کا تعلق ہے وہ نہایت ہی دلچسپ اور بر محل ہو تے ہیں۔جوکہانی کے ارتقامیں معاون ثابت ہو تے ہیں اور ساتھ ہی کردار وں کے مزاج او رکیفیات کی ترجمانی کر تے ہیں۔
تجزیۂ نفسی کی دلدادہ حجاب نے رومانی ناولوں کے علاوہ کئی نفسیا تی مضامین اور ناول بھی لکھے جو رسالہ ساقی ”میں شائع ہو ا کر تے تھے۔”اندھیرا خوب “ان کا مشہور نفسیاتی ناول ماناجاتا ہے اس کے علاوہ تہذیب نسواں میں” لیل ونہار “ کےعنوان سے انہوں نے روزنامچے بھی لکھے جوان کی ذاتی زندگی کی ترجمانی کرتے تھے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے:
”شام کو گھر پر رہی اور آسمان کو تکتی رہی، رات کو کھانے کے بعد سا ڑھے نو بجے ”ت“ اور مَیں گورنمنٹ کالج کے ڈرامہ میں چلے گئے ۔ یاسمین نے پہلی دفعہ اسٹیج دیکھا اورخوش ہوئی“….
اپنی ذاتی زندگی میں بے نیاز رہنے والی حجاب کسی اور دنیا کی مخلوق لگتی تھیں۔ ان کے جینے کا انداز اور طرزِ گفتگو وہی تھا جواُن کے افسانوں میں نظرآتا تھا ۔وہ اپنے افسانوں کا خود بھی ایک پیکر تھیں ۔ان کی مختصر دنیا میں صرف تین افراد تھے وہ ،ان کی بیٹی یاسمین،اوران کے رفیق حیات اورساتھ ہی کئی درجن بلیاں ،طوطےوغیرہ بھی ان کے عجائب خانہ کا حصّہ تھے۔
حجاب کو ہو ابازی کابھی شوق تھا۔ وہ ہندوستان کی پہلی مسلمان خاتون ہوا بازتھیں۔ انہوں نے1936ءمیں نارون لاہور فلائنگ کلب سے پائلٹ کا لائیسنس حاصل کیا تھا۔اپنے آخری ایام میں وہ ادبی دنیا سے علاحد گی اختیارکر کے اپنی فیملی کے ساتھ ایک پُرسکون زندگی بسر کر نے لگیں۔ 1999ءکووہ اس دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئی اورلاہور میں مدفون ہوئیں۔
اُردو ادب میں انہیں ایک منفرد مقام حاصل ہے ان کی کئی تخلیقات کو شاہکار مانا جاتا ہے مگر جن مطبوعات کوغیر معمولی شہرت نصیب ہوئیں ان میں” لاش“، ”صنوبر کے سائے“، ” میری ناتمام محبت “، ”ظالم محبت “، ” الیاس کی موت “، ” موت کا راگ“، ”آپ بیتی۔تصویر بتاں“ وغیرہ شامل ہیں۔(حجاب امتیاز علی کا یہ تفصیلی تعارف اسما ارم کا تحریر کردہ ہے)

 

 

 

“The Wall” A Short Story by Jean Paul Sartre

Articles

دیوار

ژاں پال سارتر

انہوں نے ہمیں چونے سے پتے ایک سفید ہال میں دھکیل دیا۔میری آنکھیں چندھیانے لگیں۔وہاں کی تیز روشنی میں میری آنکھوں میں تکلیف شروع ہوگئی ۔تبھی میں نے ٹیبل کے نیچے چارسو یلین کو ایک کاغذ پرجھکا ہوا دیکھا۔انہوں نے پیچھے دوسرے قیدیوں کو ایک قطار میں کھڑاکررکھا تھا۔ ان کے پاس پہنچنے کے لیے ہمیں پورا ہال پار کرناپڑا۔قیدیوں میں سے میں کئی لوگوں کو جانتا تھا۔ ان میں کچھ غیر ملکی بھی تھے۔میرے سامنے کھڑے دونوں افسر گورے چٹے اور گول سر والے تھے۔میرے انداز سے وہ فرانسیسی ،ان میں ناٹے قد والا باربار اپنی پینٹ کو اوپر کھینچ کر اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔سنتری،قیدیوں کو یکے بعد دیگرے ٹیبل کے پاس لے جانے لگے۔افسروں نے ہر ایک سے ان کانام اور پتہ پوچھا۔زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کی۔زیادہ سے زیادہ اِدھراُدھر کا ایک آدھ سوال پوچھ لیا۔جواب وہ دھیان سے نہیں سن رہے تھے۔خاموشی سے سامنے دیکھتے ہوئے کاغذات پر لکھنا شروع کردیتے تھے۔انہوں نے ٹام سے جاننا چاہا کہ کیا وہ انٹرنیشنل بریگیڈ کا ممبر ہے؟ ٹام اپنی جیب سے برآمد ہونے والے کاغذات کی وجہ سے انکار نہ کرسکا۔زوان سے انہوں نے کچھ نہیں پوچھا۔ صرف اس کا نام جاننے کے بعد دیر تک کاغذوں پر کچھ لکھتے رہے۔
’’میرا بھائی جوز باغی ہے۔‘‘زوان نے کہنا شروع کیا۔’’آپ جانتے ہیں کہ وہ یہاں سے فرار ہوچکا ہے؟میں کسی پارٹی کا ممبر نہیں ہوں نہ ہی سیاست سے کوئی تعلق رکھتا ہوں۔ میں کسی دوسرے کے کیے کی سزا بھگتنے کو تیار نہیں۔‘‘زوان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ایک سنتری اسے پکڑ کر باہر لے گیا۔ اس کے بعد میری باری تھی۔’’تمہارا نام پابلوا بیتیا؟‘‘ایک افسر نے پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
اس نے کاغذات دیکھ کر پوچھا۔’’رامن گریس کہاں ہے؟‘‘
’’مجھے پتہ نہیں۔‘‘وہ ایک منٹ تک کچھ لکھتا رہا۔اس کے بعد سنتری وہاں سے مجھے باہر لے آیا۔برآمدے میں ٹام اور زوان انتظار کررہے تھے۔
’’اس کا مطلب؟‘‘ٹا م نے ایک پہرے دار سے پوچھا۔
’’مطلب کا کیا مطلب؟‘‘پہرے دار نے جواب دینے کی بجائے سوال کیا۔
’’یہ جرح تھی یا سزا؟‘‘
’’سزا۔‘‘پہرے دار نے کہا۔’’وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟‘‘
’’تمہاری سزا تمہاری کوٹھری میں سنائی جائے گی۔‘‘ہماری کوٹھری ایک اسپتال کا تہہ خانہ تھی۔سیلن کی وجہ سے بے حد ٹھنڈی ۔ہم اس میں ساری رات کانپتے رہے۔
’’کیا ہم مارے جائیں گے؟‘‘ایک طویل خاموشی کے بعد ٹام نے کہا۔
’’میرا بھی ایسا ہی خیال ہے۔لیکن وہ لڑکے کو کچھ نہیں کہیں گے۔‘‘
’’اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں۔یہ ایک فوجی کا بھائی ہے ،بس۔‘‘ٹام نے کہا۔
بس زوان کی جانب دیکھا۔مجھے لگا کہ وہ کچھ بھی نہیں سن رہا ہے۔’’تمہیں پتہ ہے یہ لوگ سرگوسا میں کون سا طریقہ اپناتے ہیں؟‘‘ٹام نے کہنا جاری رکھا،’’وہاں قیدیوں کو سڑک کے اوپر لٹاکر اوپر سے ٹرک دوڑاتے ہیں۔یہ اطلاع مجھے مراقش کے رہنے والے ایک شخص سے ملی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ گولیاں بچانے کے لیے یہ طریقہ اپناتے ہیں۔‘‘
’’اس سے گیس کی بچت تو ہوتی نہیں ہوگی؟‘‘میں نے طیش میں آکر کہا۔مجھے ٹام پر غصہ آرہا تھا۔اسے ایسی بات کہنا نہیں چاہیے تھی۔
ٹام پھر سے بتاتا گیا،’’پھر افسران وہاں ٹہلتے ہوئے آتے ہیں۔مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالے سگریٹ پیتے رہتے ہیں۔تم کیا سوچتے ہو وہ قیدیوں کو ایک دم سے ختم کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں!وہ انہیں چیختے ہوئے چھوڑدیتے ہیں۔‘‘
’’میں یقین نہیں کرتا کہ ہمارے ساتھ ایسا ہوگا؟‘‘میں نے کہا۔چاروں دیواروں کے روشن دانوں اور چھت کے درمیان گول کٹائو سے ہوکر جس سے آسمان صاف دکھائی دیتا تھا نیا دن داخل ہورہا تھا۔میں ایک دم ’سُن‘ نہیں تھا۔پھر بھی اپنے کندھے اور بازوئوں کو محسوس نہیں کررہا تھا۔بیچ بیچ میں خیال آتا جیسے کوئی چیز کھوگئی ہو۔پھر اچانک یاد آیا انہوں نے میرا کوٹ تو واپس کیا ہی نہیں۔دن کیسے اور کب گزرگیا اس کا پتہ ہی نہیں چلا۔رات میں آٹھ بجے دو پہرے داروں کے ساتھ ایک میجراندر آیا۔میجر کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا۔’’ان تینوں کے نام کیا ہیں؟‘‘اس نے پہرے دار سے دریافت کیا۔’’اسٹین واک،ابیتیااور مربل۔‘‘اس نے جواب دیا۔
میجر آنکھوں پر چشمہ چڑھا کر فہرست دیکھنے لگا۔اسٹین واک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسٹین واک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ٹھیک ہے۔تمہیں موت کی سزا دی گئی ہے۔صبح تمہیں گولی سے اڑا دیا جائے گا۔‘‘
’’باقی لوگوں کو بھی؟‘‘ٹام نے پوچھا۔میجر نے اپنے کندھے ہلائے۔ٹام اور میری طرف مڑکر بولا،’’تم میں سے کوئی واسک ہے؟‘‘
’’ہم میں سے کوئی واسک نہیں۔‘‘ہمارے جواب سے میجر ناراض ہوگیا۔ مجھے بتایاگیاتھا کہ یہاں تین واسک ہیں؟لیکن میں ان کی کھوج میں وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا۔میں جانتا ہوں کہ تمہیں پادری کی ضرورت تونہیں ہوگی۔‘‘ہم نے کوئی جواب نہیں دیا۔’’ایک بیلجین ڈاکٹر یہاں جلد آئے گا۔‘‘میجر نے آگے کہا،’’اسے تم لوگوں کے ساتھ رات بتانے کو کہا گیا ہے۔‘‘اس کے ساتھ ہی فوجی سلام ٹھوک کر وہ باہر چلاگیا۔’’میں نے پہلے ہی کہا تھا۔ہم مار دیئے جائیں گے۔‘‘ٹام بولا۔
’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’اس لڑکے کے لیے بہت برا ہوا۔‘‘یہ بات میں نے ہمدردی جتانے کے لیے کہی تھی۔یوں تو میں زوان کو پسند نہیں کرتا تھا۔اس کا چہرہ پچکا ہوا تھا اور ذہنی تنائو کی وجہ سے اس کے سارے نقوش گھل مل کر بد صورتی میں بدل گئے تھے۔تین دن پہلے وہ ایک چست نوجوان تھا۔تب وہ زیادہ برادکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن اب وہ ایک بوڑھی عورت جیسا نظر آرہا تھا۔مجھے محسوس ہورہا تھا کہ اگر وہ اسے چھوڑ بھی دیںتو وہ دوبارہ کبھی جوان نہیں ہوگا۔
میرے دل میں اس کے لیے رحم دلی ہونی چاہیے تھی۔لیکن اب رحم دلی سے مجھے چڑ بلکہ وحشت سی ہوتی تھی۔تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔روشن دان سے ہلکی سی روشنی چھن کر اڑرہی تھی۔کوئلے کا ڈھیر آسمان کے ٹکڑے کے نیچے ایک کالے دھبے کی طرح نظر آرہا تھا۔اچانک تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔دوپہرے داروں کے درمیان ایک گورے چٹے آدمی نے جو کتھئی وردی میں تھااندر داخل ہوا اس نے ہمیں سلام کیا اور بولا،’’میں ڈاکٹر ہوں۔مجھے ان تکلیف بھرے لمحات میں آپ کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘اس کی آواز وہاں کے لوگوں سے الگ اور پراعتماد لگ رہی تھی۔
’’تم یہاں کیا کرنا چاہوگے؟‘‘میں نے اس سے پوچھا۔’’میں آپ کی مرضی کے مطابق کام کروں گا۔آپ کے آخری لمحات کو آسان بنانے میں میں آپ کی مدد کروں گا۔‘‘
’’تم یہاں کیوں آئے؟جبکہ اور بھی بہت مجرم ہیں؟سارا اسپتال ان سے بھرا پڑا ہے۔‘‘
’’مجھے بطور خاص یہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘اس نے گول مول جواب دیا۔اس نے ہمیں انگلش سگریٹ دینے کی کوشش کی۔ہم نے انکار کردیا۔میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔وہ حیرت زدہ تھا۔’’تمہیں یہاں دیانت داری دکھانے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے۔‘‘میں نے کہا،’’اس کے علاوہ میں تمہیں جانتا ہوں۔اپنی گرفتاری کے دن میں نے تمہیں بیرکوں کے احاطے میں فاشسٹوں کے ساتھ دیکھا تھا۔‘‘میں نے اپنا بیان جاری رکھا۔مگر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا؟ڈاکٹر نے میری دلچسپی ایک دم ختم کردی ۔میں نے جسم کو ایک جھٹکا دیا اور اس طرف سے نظریں پھیرلیں۔
میں نے دونوں ساتھیوں کی جانب دیکھا۔ٹام نے ہتھیلیوں میں چہرہ چھپالیا تھا۔چھوٹے سے زوان کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی۔اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔نتھنے کانپ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے قریب جاکر تسلی کے لیے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔لیکن زوان کی آنکھیں جذبات سے عاری تھیں۔دوغلا !ڈاکٹرکے بار ے میں میں نے غصے سے سوچا اگر یہ میرے پاس نبض دیکھنے آیا تو اس کا حلیہ بگاڑدوں گا۔وہ میرے پاس نہیں آیا۔لیکن وہ مجھے گھور رہا تھا۔میں نے سر اٹھاکر اسی کی طرف دیکھا۔ ’’تمہیں یہاں سردی نہیں لگتی؟‘‘اس نے اپنائیت سے پوچھا وہ خود بھی سردی کا مارا لگ رہا تھا۔
’’مجھے نہیں لگتی۔‘‘ میں نے کہا۔
اس نے پھر بھی اپنی نظریں میرے چہرے سے نہیں ہٹائیں۔میرے ہاتھ خود بہ خود اپنے چہرے پر چلے گئے۔میں پسینے میں شرابور تھا۔میں نے رومال سے اپنی گردن کو پوچھنا شروع کیا۔ رومال بھیگ گیا لیکن پسینہ نکلتا ہی جارہا تھا۔میری پینٹ بینچ سے چپک گئی تھی۔
اسی وقت زوان بولا،’’تم ڈاکٹر ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ڈاکٹر نے جواب دیا۔
’’کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تکلیف ہوتی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کافی دیر تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہوں ! کب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ارے نہیں ، قطعی نہیں ۔ سب کچھ بہت جلد ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے اس طرح کہاجیسے نقد سودا لینے والے کسی گاہک کو پھسلارہا ہو۔
’’لیکن وہ کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی کبھی انہیں دوبارہ گولی چلانا پڑتی ہے؟‘‘
’’کبھی کبھی۔‘‘ڈاکٹر نے اس بات کی حمایت میں سر ہلایا،’’ اس حالت میں جب گولی نازک حصے تک نہیں پہنچتی۔‘‘
’’تب انہیں پھر سے بندوق لوڈکرنا پڑتی ہوگی۔دوبارہ نشانہ لگانا پڑتا ہوگا؟‘‘ ایک لمحہ سوچنے کے بعد پھر گویا ہوااس میں وقت لگتا ہوگا!‘‘
اسے تکلیف سے ڈر لگتا تھا۔اپنی کم عمری کی وجہ سے وہ صرف اسی کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔میں نے تکلیف کے بارے میں نہیں سوچا۔پسینہ آنے کا یہ سبب نہیں تھا کہ میںڈرا ہوا تھا۔ میں اٹھااور ٹہلتا ہوا کوئلے کے ڈھیر تک جاپہنچا ۔ٹام اچک کر کھڑا ہوگیا اور مجھے نفرت سے دیکھنے لگا۔ میرے جوتوں کی آواز نے اسے ناراض کردیا تھا۔وہ دھیمی آواز میں بڑبڑانے لگا۔بنا بولے اُسے آرام نہیں آتا تھا۔
’’تم کچھ سمجھ رہے ہو؟میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔‘‘اس نے کہا۔
میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ڈاکٹر نے کہا۔
’’میرے ساتھ کچھ ہونے والا ہے؟جسے میں بالکل سمجھ نہیں پاتا۔‘‘ٹام نے کہا۔اس کے بدن سے عجیب طرح کی بو کا بھبھکااٹھ رہا تھا۔
’’کچھ دیر بعد تمہاری سمجھ میں سب کچھ آجائے گا۔‘‘میں نے دانت بھیجتے ہوئے کہا۔
مجھے محسوس ہوا کہ عام دنوں کی بہ نسبت میں اس وقت بو کو بہت زیادہ محسوس کررہا تھا۔ ’’بات واضح نہیں ہوئی۔‘‘اس نے ضد سے کہا۔’’میں نڈر ہونا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے ہر بات سمجھ لینا چاہتا ہوں۔سنو پہلے وہ ہمیں احاطے میں لے جائیں گے۔ٹھیک! ہمارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے۔ان کی تعداد کتنی ہوگی؟‘‘
’’پتہ نہیں ۔پانچ یا آٹھ اس سے زیادہ نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔وہ آٹھ ہوں گے۔کوئی چلاکر کہے گا۔نشانہ لگائواور میں اور بندقو ں کو اپنی طرف تنا ہوا دیکھوں گا۔تب شاید میں دیوار میں سماجانا چاہوں گامیں اپنی پیٹھ سے دیوار کو دھکا دوں گا۔ اپنی طاقت کی آخری بو ند سے۔لیکن دیوار اپنی جگہ رہے گی۔کسی بھیانک خواب کی طرح۔میں اس حالت کا تصور کرسکتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘میں نے کہا،’’میں بھی تصور کرسکتا ہوں۔ لیکن میں اس بات کو اہمیت نہیں دینا چاہتا۔‘‘
مجھ سے مایوس ہوکر ٹام اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا۔لگتا تھا ڈاکٹر کچھ نہیں سن رہا۔ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ہم کیا سوچتے ہیں۔وہ ہمارے جسموں کی نگرانی کرنے کے لیے آیا تھا۔ اجسام جو دھیر ے دھیرے مردہ ہوتے جارہے تھے۔
’’ایک بھیانک خواب کی طرح لگتا ہے۔‘‘ٹام کہہ رہا تھا،’’میں پاگل نہیں ہورہا ہوں لیکن کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔مجھے اپنی لاش دکھائی دیتی ہے۔‘‘وہ لفظوں کو چبا چباکر بول رہا تھا۔یقینی طور پر وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا۔اسی لیے اپنے آپ سے باتیں کررہاتھا اس سے بڑے ہوئے مریض جیسی بدبو اٹھ رہی تھی۔
’’سور،تو پینٹ میں پیشاب کررہا ہے۔‘‘میں نے کڑھ کر کہا۔
’’نہیں،نہیں!‘‘اس نے بے چین ہوکر کہا۔’’یہ بات نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹرنے قریب آکر مصنوعی انداز میں اس سے پوچھا،’’کیا آپ بے چینی محسوس کررہے ہیں؟‘‘
’’لیکن میں خوف زدہ نہیں ہوں۔میں قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ قطعی خوف زدہ نہیں ہوں میں۔‘‘ٹام نے کہا ڈاکٹر نے کوئی جواب نہیں دیا۔ٹام کونے میں پیشاب کرنے چلاگیا۔وہاں سے لوٹا اور خاموش ہوکر بیٹھ گیا۔ہم تینوں بغور ڈاکٹر کو دیکھنے لگے کیوں کہ وہ زندہ آدمی کی طرح فکر مند لگ رہاتھا۔تہہ خانے کی سردی میں وہ اس طرح کانپ رہا تھاجیسے ایک زندہ آدمی کو کانپنا چاہیے۔ آخر میں وہ زوان کے پاس آیا۔وہ اس کی گردن کی جانچ کرنا چاہتاتھا۔زوان نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔لیکن اس کی آنکھیں ڈاکٹر پر مرکوز تھیں۔اس نے ہاتھ کو منہ سے کاٹنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور لڑکھڑاکر دیوار سے جاٹکرایا۔پل بھر وہ ہماری طرف گھبرائے ہوئے انداز میں دیکھنے لگا۔پھر اس کی سمجھ میں آگیا۔ہم اس کی طرح انسان نہیں رہ گئے تھے۔میں ہنسنے لگا۔ میں نے اپنے اندر ایک ساتھ راحت اور بے چینی محسوس کی۔میں صبح یا موت کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتاتھا۔ جیسے ہی میں کسی چیز کے بارے میں سوچنا شروع کرتا،مجھے اپنی طرف تنی ہوئی بندوق کی نالیاں دکھائی دینے لگتی تھیں۔میں اپنی زندگی کی ڈور کے آخری سرے پرتھا۔میں اپنی زندگی کے کچھ گھنٹے بے کار گنوانا نہیں چاہتا تھا۔وہ صبح مجھے جگانے آئیں گے۔میں نیند کی کیفیت میں ا ن کے پیچھے اور بنا اُف کیے ختم ہوجائوں گا۔میں نے سوچا۔
میں ٹہلتا ہوابیتی زندگی کے بارے میں سوچنے لگا۔یادوں کی بے ترتیب بھیڑ ذہن میں داخل ہوگئی۔اچھی اور بری دونوں قسم کی یادیں میں نے ایک ناٹے قد والے آدمی کا چہرہ دیکھا ۔جسے مار ڈالا گیاتھا۔اپنے چاچا اور رامن گریس کا چہرہ دیکھا۔اپنی پوری زندگی دیکھی۔کس طرح میں تین مہینے بے روزگار رہا اور بھوک سے مرتے مرتے بچا۔مجھے گرینڈا میں ایک بینچ پر گزاری ہوئی ر ات کا خیال آیا۔تب میں تین دن کا بھوکا تھا۔میں غصے میں تھااور مرنے سے نفرت کرتا تھا۔اس رات کے خیال سے مجھے ہنسی آگئی۔کس پاگل پن کے ساتھ خوشی،عورتوں اور آزادی کے پیچھے دوڑتا رہا۔ کس لیے؟ میں اسپین کوآزاد کرانا چاہتا تھا۔میں مارگل کا معتقد تھا۔میں بغاوت میں شامل ہوا۔میں نے جلسوں میں تقاریر کیں۔میں نے ہر بات کوا یسی سنجیدگی سے لیاجیسے مجھے کبھی مرنا ہی نہ ہو۔
مجھے لگ رہا تھا جیسے میری پوری زندگی میرے سامنے کھڑی ہواور محسوس کیا کہ یہ ایک شرم ناک جھوٹ ہے۔ اس کی کوئی حقیقت نہیں کیوں کہ اب یہ ختم ہونے والی ہے۔مجھے حیرت ہورہی تھی کہ میں کیسے لڑکیوں کے ساتھ ہنس بول لیتا تھا۔اگر مجھے پتہ ہوتا کہ مجھے اس طرح ختم ہونا ہے تو میں چھوٹی انگلی کے برابر بھی حرکت نہ کرپاتا۔میری زندگی ایک بند بورے کی طرح میرے روبرو تھی۔ ایک لمحہ پہلے میں نے اُسے پرکھنے کی کوشش کی تھی۔خود سے کہنا چاہتا تھا یہ ایک خوبصورت زندگی ہے؟ لیکن اس پر کوئی فیصلہ نہ دے سکا۔یہ صرف ایک نقشہ تھا۔میں نے حیاتِ جاویداں کا سوانگ بھرتے ہوئے اپنا وقت خرچ کیا اور کچھ بھی حاصل نہ کرسکا۔میں بہت سی چیزوں کی قربانی دے سکتا تھا۔جسے مینگنل کا ذائقہ،شدید گرمی میں کیڈل کے پاس چھوٹے سے مجسمے میں غسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن موت نے سب بدذائقہ کردیا تھا۔
اچانک ڈاکٹر کے دماغ میں ایک نایاب خیال آیا۔اس نے کہا،’’دوستو،اگر فوجی حکومت نے اجازت دی تو میں آپ کے عزیز و اقارب کے پاس آپ کی خبر یا نشانی بھیجنے کا انتظام کرسکتا ہوں۔‘‘
’’میرا تو کوئی نہیں!‘‘ٹام غرایا۔
میں چپ رہا ۔پل بھر انتظار کرنے کے بعد ٹام نے میری طرف حیرت سے دیکھا۔ ’’تمہیں کونچا کے پاس کوئی پیغام نہیں بھیجنا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘میں نے کہا۔
مجھے اس طرح کی جذباتی ہمدردیوں سے قربت تھی۔اس میں میری غلطی تھی۔پچھلی بار میں نے اس سے کونچا کا ذکر کیا تھا۔مجھے اپنے آپ پر قابو رکھنا چاہیے تھا۔میں کونچا کے ساتھ ایک سال رہا۔لیکن اب اسے دیکھنے یا اس سے بات کرنے کی مجھے حسرت نہیں تھی۔یہاں تک کہ اسے اپنی بانہوں میں بھرنے کی آرزو بھی نہیں تھی۔میں جانتا تھا ،میرے مرنے کی خبر سن کر وہ چلاچلا کر روئے گی۔مہینوں تک اسے اپنی زندگی بے کار لگے گی۔لیکن اس کے باوجود مجھے مرنا تو تھا ہی۔
ٹام بھی بالکل تنہا تھا۔لیکن دوسری طرح سے۔وہ حیرت سے مسکراتا ہوا بینچ کی طرف دیکھ رہا تھا۔اس نے احتیاط سے مکڑی کو چھوااور فوراً ہاتھ کھینچ لیا۔جیسے صرف چھونے سے ہی وہ ٹوٹ جائے گی۔اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو بینچ چھونے کی حرکت نہ کرتا۔میں نے محسوس کیا کہ میری پینٹ گیلی ہورہی ہے میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ پیشاب ہے یا پسینہ۔پھر بھی احتیاط کے طور پر میں پیشاب کرنے کے لیے کوئلے کے ڈھیر کے پاس چلاگیا۔
تبھی بیلجین ڈاکٹر نے جیب گھڑی نکال کر دیکھی،بولا،’’ساڑھے تین بج گئے۔‘‘
’’دوغلا۔‘‘میں نے دل ہی دل میں کہا۔اس نے یہ بات ضرور کسی مقصد سے کہی تھی،ٹام اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ہم بھول چکے تھے کہ وقت گزر رہا ہے۔معصوم زوان چیخنے لگا۔’’میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘پھر پورے تہہ خانے میں ہوا میں ہاتھ گھماتاہوا دوڑنے لگا۔پھر روتا ہواچٹائی پر ڈھیر ہوگیا۔
ٹام اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا۔ایسا لگ رہا تھا جیسے زوان کو حوصلہ دینے کی اس کے دل میں تمنا نہیں رہی۔شاید ایسی حالت میں ہمدردی بھی فضول ہوچکی تھی۔زوان رورہا تھااور اپنے اوپر ترس کھارہا تھاایک سیکنڈ،صرف ایک سیکنڈ کے لیے میرا بھی دل چاہا کہ رولوں۔دل نے چاہا کہ میں بھی اپنی حالت پر چیخوں چلائوں،لیکن ہوا الٹا۔جیسے ہی اس کے کانپتے ہوئے کمزورکندھوں پر میری نظر گئی میں نہ خود پر ترس کھاسکتا تھانہ دوسروں پر۔میں نے اپنے آپ دہرایا۔’’میں ایک صاف ستھری موت مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
ٹام اٹھ بیٹھا اور چھت کے روشن دان کے نیچے کھڑا دن کی روشنی کا انتظار کرنے لگا۔میں نے صاف ستھری موت کا عہد کرلیا تھااور اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔لیکن اس پل سے جب ڈاکٹر نے گھڑی دیکھ کر وقت بتایا مجھے لگ رہا تھا جیسے وقت اڑا جارہا ہے۔بوند بوند کرکے تیزی کے ساتھ رس رہاہو۔اس وقت اندھیرا ہی تھاجب میں نے ٹام کی آواز سنی۔
’’تم نے وہ آہٹیں سنیں؟‘‘ٹام نے پوچھا۔
’’باہریارڈ میں کچھ لوگ مارچ کررہے تھے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’وہ کیاکررہے ہوں گے۔وہ اندھیرے میں تو گولی چلا نہیں سکتے۔‘‘
تبھی وہ آہٹیں بند ہوگئیں۔
’’وہ پچھواڑے والے یارڈ میں ہوں گے۔‘‘میں نے کہا۔
ٹام نے ڈاکٹر سے ایک سگریٹ مانگی۔پھر مجھ سے پوچھا،’’تم کچھ اندازہ لگاسکتے ہو کہ باہر کیا ہورہا ہے؟‘‘وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتاتھاکہ دروازے پر آہٹ ہوئی۔اگلے ہی پل تہہ خانے کا دروازہ کھلا۔ایک لفٹیننٹ دو سپاہیوں کے ساتھ اندر آیا۔ٹام کے ہاتھ سے سگریٹ چھوٹ گئی۔
’’اسٹین واک۔‘‘
ٹام نے کوئی جواب نہیں دیا۔لیکن پیڈرو نے اس کی جانب اشارہ کردیا۔
’’زوان ہربل۔‘‘
’’وہاں،چٹائی پر۔‘‘
زوان اپنی جگہ سے نہ ہلا۔دونوں سپاہیوں نے اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑاکیا۔ جیسے ہی انہوں نے اسے چھوڑاوہ پھر گرپڑا۔سپاہی جھجکے۔’’یہ بیمار نہیں ہے اسے اٹھاکر لے چلو۔ وہیں دیکھیں گے۔‘‘کہتا ہوا لفٹیننٹ ٹام کی جانب مڑا،’’اسے لے چلو۔‘‘
ٹام سپاہیوں کے درمیان چل پڑا۔دونوں کندھوں پر زوان کو ٹانگے سپاہی چل پڑے۔ زوان کے ہوش و حواس گم نہیں ہوئے تھے۔اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے۔میں ان کے ساتھ چلنے کو ہوا تو لفٹیننٹ نے روک دیا۔’’تم ابیتیا ہو؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’یہیں ٹھہرو۔تمہارے لیے بعد میں آئیں گے۔‘‘
وہ چلے گئے ،ڈاکٹر بھی۔میں تنہا رہ گیا۔میں نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ پھر بھی چاہ رہا تھا کہ جو بھی ہونا ہو،صحیح ڈھنگ سے ہوجائے ۔قریب قریب مجھے بندوقوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ہر آواز پر میں کانپ جاتا۔میں چیخ کر اپنے بال نوچنا چاہتا تھا۔میں نے دانت بھینچے اور دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ٹھونس لیے۔میں ایک اچھی موت مرنا چاہتا تھا۔
ایک گھنٹے کے بعد وہ پھر آئے۔وہ مجھے پہلی منزل پر بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔جو بے حد گرم اور سگریٹ کے دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔دو افسر سگریٹ پیتے ہوئے آرام کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
’’تم ابیتیا ہو؟‘‘ایک نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’رامن گریس کہاں ہے؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم؟‘‘
سوال کرنے والا افسر چھوٹے قد کااور موٹاتھا۔چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ہوئی اس کی آنکھیں بے حد ظالم لگ رہی تھیں۔اس نے حکم دیا،’’یہاں آئو۔‘‘
میں اس کے پاس پہنچا۔اس نے میرے کندھے پکڑلیے اور ایسے دیکھنے لگا جیسے میں زمین میں دھنس جائوں گا۔اس کے علاوہ میرے بازوئوں کو پوری قوت کے ساتھ بھینچنے لگا۔یہ کام مجھے تکلیف دینے کے لیے نہیں تھا ایک کھیل جیسا تھا۔وہ مجھے اپنی طاقت سے توڑنا چاہتے تھے۔وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے لیے میرے چہرے پراپنی بدبودار سانسیں بھی چھوڑنی چاہیے۔ایک پل ہم دونوں اسی حالت میں کھڑے رہے۔میرا دل چاہا کہ میں ہنس دوں۔مرتے ہوئے آدمی کوڈرانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔اس کا طریقہ کامیاب نہیں ہوا۔مجھے زور کا دھکا دینے کے بعد وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’تمہاری یا اس کی زندگی میں سے کسی ایک کا سوال ہے۔تم ہمیںبتادو کہ وہ کہاں ہے؟ تو تمہاری زندگی بچ سکتی ہے۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور سوچنے لگا اپنی وردی میں چست درست یہ لوگ بھی کبھی نہ کبھی مریں گے۔چاہے کچھ وقت کے بعد۔میں نے اپنے آپ سے کہا،’’یہ لوگ مڑے ہوئے کاغذات میں ناموں کو تلاش کرتے ہیں۔لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں اور ظلم کرنے کے لیے بھاگتے ہیں۔ اسپین کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں یہ بھی کبھی نہ کبھی تومریں گے ہی۔‘‘
اب مجھے ان کی معمولی سے معمولی حرکتیں بھی ڈرامائی نظر آنے لگی۔مجھے اس پر کچھ افسوس ہوا۔مجھے لگا یہ لوگ خطرناک ہوچکے ہیں۔چھوٹے قد والا افسر ہاتھ کی چھڑی سے جوتوں کو ٹھونکتا ہوا اب مجھے گھور رہا تھا۔اس کا گھورنا کسی خونخوار جنگلی جانور جیسا اثر ڈالنے کے مترادف تھا۔
’’تو تمہاری سمجھ میں کچھ آیا؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ گریس کہاں ہے۔میرے خیال میں اسے میڈرڈ میں ہی کہیں ہونا چاہیے۔‘‘میں نے کہا۔
’’تمہیں غوروفکر کے لیے پندرہ منٹ دیئے جاتے ہیں۔‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔’’اسے لانڈری میں لے جائو۔پندرہ منٹ بعد واپس لے آنا۔اس کے بعد بھی اگر یہ انکار کرے تو اسے یہیں گولی سے اڑادیا جائے گا۔‘‘
انہیں پتہ تھا ۔وہ کیا کررہے ہیں۔میں نے ساری رات انتظار میں گزاری تھی۔آدھے گھنٹے سے کیا فرق پڑنے والا تھا۔
انہوں نے مجھے ایک گھنٹہ تہہ خانے میں رکھا تھا۔اس دوران ٹام اور زوان کو گولیوں سے اڑادیا گیاتھا اور اب وہ مجھے لانڈری میں لے جارہے تھے۔میں نے سوچا انہوں نے پچھلی رات ہی سب طے کرلیا ہوگا۔شاید انہیں اعتماد تھا کہ اس طرح آدمی ٹوٹ جاتا ہے۔اسی طریقے سے وہ مجھے بھی توڑنے کی کوشش میں تھے۔لیکن وہ غلط تھے۔لانڈری میں پہنچ کر میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا۔میں کافی کمزوری محسوس کررہا تھا۔مجھے پتہ تھا گریس شہر سے چارکلومیٹر کے فاصلے پر اپنے چچا زاد بھائیوں کے پاس روپوش ہے۔میں جانتا تھا کہ ایذا پہنچائے جانے کے بعد میں اس کا پتہ بتا دوں گا۔ مگر لگتا تھا وہ مجھے ایذا دینا نہیں چاہتے تھے۔ان کے سارے کام منصوبہ بند طریقے سے انجام پاتے تھے۔جس میں میری کوئی دلچسپی نہیں تھی۔اچانک میرے دل میں ایک خیال ابھرا کیا میں گریس کا پتہ بتانے کی بجائے مرنا پسند کروں ؟لیکن کس لیے؟طلوعِ آفتاب سے پہلے ہی میرے دل میں سے اس کے لیے دوستی ختم ہوچکی تھی۔اس کے ساتھ ہی کونچا کے لیے پیار بھی۔صرف اتنا ہی نہیں۔خود کو زندہ رکھنے کی چاہت بھی ختم ہوگئی تھی۔ویسے تو گریس کے لیے میرے دل میں احترام کا جذبہ تھا۔ وہ ایک مضبوط ارادے والا شخص تھا۔لیکن اب اس کی زندگی میرے لیے اپنی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں تھی۔ ان لوگوں کو کسی ایک آدمی کی ضرورت تھی جسے وہ دیوار سے لگاکرا س کی آخری سانس تک گولیاں چلاتے رہیں۔یا تو وہ گریس ہوسکتا ہے یا پھر میں!اس سے ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑتاتھا۔مجھے احساس تھاکہ اسپین کو میرے مقابلے گریس کی زیادہ ضرورت ہے۔مگر میں اپنے خیالوں میں اسپین کی بغاوت کو بھی بھاڑ میں جھونکنے کو تیارتھا۔اس وقت میرے لیے دنیا کی ہر چیز واہیات ہوگئی تھی۔ پھر بھی یہ بات عجیب تھی کہ میں گریس کا پتہ نہ دے کر اپنی جان گنوانے جارہا تھا۔یہ بات مجھے دلچسپ لگی۔ میں نے سوچا اس وقت مجھے سخت ہونے کی ضرورت ہے۔
پندرہ منٹ بیت جانے کے بعد وہ پھر آئے اور مجھے دونوں افسروں کے سامنے لے گئے۔ میرے پائوں کے قریب سے ایک چوہا بھاگ نکلا۔یہ دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔میں نے مذاق سے ایک سپاہی سے پوچھا،’’کیا تم نے اس چوہے کو دیکھا۔‘‘اس نے جواب نہیں دیا۔اسی طرح سنجیدہ چہرہ بنائے رہا۔ میں نے زور سے ہنسنا چاہا،مگر اپنے آپ کو روک لیا۔میں جانتا تھا کہ ایک بار ہنسنا شروع کردوں گا تو روکنا مشکل ہوجائے گا۔میں نے سپاہی کی مونچھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’تمہیں اپنی مونچھیں منڈوالینی چاہیے۔‘‘مجھے یہ سوچ کر مزہ آرہا تھا کہ بنا مونچھ کے اس کا چہرہ کتنا عجیب لگے گا۔
’’اچھا ،تم نے اچھی طرح سوچ لیا؟‘‘موٹے افسر نے پوچھا۔
’’وہ قبرستان میں چھپاہے۔کسی قبر میں یا قبر کھودنے والے کی جھونپڑی میں۔‘‘میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں۔
لیکن یہ میر اوہم تھا۔میں انہیں فوراً کھڑا ہوتے ،بیلٹ کستے اور حکم دیتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا،یہی ہوا۔وہ اچھل کر کھڑے ہوگئے۔’’ہمیں چلنا چاہیے۔مولس تم پندرہ سپاہی لے کر جائو۔‘‘یہ کہنے کے بعد افسر مجھ سے مخاطب ہوا۔’’اگر تمہاری بات سچ ہے تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ لیکن اگر تم ہمیں بے وقوف بنا رہے ہو تو اس کی بھرپور قیمت تمہیں چکانی پڑے گی۔‘‘وہ بڑبڑاتا ہوا نکل گیا۔ میں سپاہیوں کی نگرانی میں اطمینان سے انتطار کرنے لگا۔ان کی حالت کا تصور کرکے مجھے ہنسی آرہی تھی۔
تصور میں میں نے انہیں قبروں کے پتھر اٹھاتے اور ایک جھونپڑی کی تلاشی لیتے ہوئے دیکھا پھر میں نے دیکھا کہ بڑی مونچھوں اوروردی والے سپاہی مجھے پکڑنے کے لیے میرے پیچھے حکم دینے کے لیے آیا ہے۔آدھے گھنٹے بعد موٹا افسر واپس آیا۔مجھے لگا مجھے گولی مارنے کا حکم دینے آیا ہے۔ وہ بے حد چست دکھائی دے رہا تھا۔اس نے میری طرف دھیان سے دیکھا اور بولا،’’اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ یارڈ میں لے جائو۔فوجی کاروائی کے بعد عدالت فیصلہ کرے گی کہ اس کا کیا کیا جائے۔‘‘
’’تو مجھے گولی سے نہیں اڑایا جائے گا؟‘‘میں نے پوچھا۔
افسر نے کندھے اچکائے ،سپاہی مجھے باہر لے آئے۔یارڈ میں تقریباً چار سو قیدی تھے۔ ان میں عورتیں بچے ،بوڑھے سبھی تھے۔
دوپہر کو انہوں نے ہمیں میس کے ہال میں کھانا کھلایا۔دو تین لوگوں نے مجھ سے کچھ سوالات کیے۔جن کا میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔شام کے دھندلکے میںوہ مزید دس قیدیوں کو اندر دھکیل گئے۔ میں نے بسکٹ فروخت کرنے والی گارسیا کو پہچان لیا۔’’تمہاری قسمت اچھی ہے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ تمہیں زندہ دیکھوں گی۔‘‘اس نے کہا۔
’’مجھے موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ بعد میں انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیوں؟‘‘
’’انہوں نے مجھے دو بجے گرفتار کیا؟‘‘گارسیا نے کہا۔
’’کس جرم میں؟‘‘
’’پتہ نہیں،وہ ہر اس آدمی کو گرفتار کرلیتے ہیں جو ان کی طرح نہیں سوچتا۔انہوں نے رامن گریس کو بھی گرفتار کرلیا۔‘‘
’’کب؟‘‘میں کانپنے لگا۔
’’آج صبح ،لیکن ساری غلطی گریس کی تھی۔ منگل کو اس نے چچا زاد بھائیوں کا گھرچھوڑ دیا۔ان سے کسی بات پر بحث ہوگئی تھی۔بہت سے لوگ ا س کی مدد کو تیار تھے۔لیکن اس نے کسی کا احسان لینا قبول نہیں کیا۔اس کا کہنا تھا کہ میں ابیتیا کے گھر چھپ سکتا تھا لیکن اسے پکڑ لیاگیا۔ اس لیے اب میں قبرستان میں جاکر چھپ جائوں گا۔‘‘
’’قبرستان میں؟‘‘
’’انہوں نے اسے قبرکھودنے والے کی جھونپڑی سے گرفتار کرلیا۔ گریس نے ان پر گولیاں چلائیں مگر وہ پکڑلیا گیا۔‘‘
مجھے اپنے آس پاس کی ہر چیز گھومتی ہوئی لگ رہی تھی۔میں زمین پر بیٹھ گیا۔ پھر خود بہ خود قہقہہ لگانے لگا۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

ژاں پال سارتر ۱۹۰۵ء میں فرانس میں پیدا ہوئے اور ۱۹۸۰ء میں انتقال فرمایا۔ان کو ۱۹۶۴ء میں نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا مگر انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔سارتر کی تخلیقات کی اساس وجود ہے۔ سوئیڈش اکادمی نے انعام کا اعلان کرتے وقت کہا تھا، ’’سارتر کی فکر انگیز تخلیقات کے لیے،جنھوں نے اپنی آزادی کی لے اور حقیقی ہونے کے سبب عصرِ حاضر پر بے حد اثر ڈالا ہے۔‘‘سارتر نے انعام نہ قبول کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا،’’میں نے ہمیشہ سے ہی سرکاری اعزاز قبول نہیں کیا۔ادیب کو آزادرہنا چاہئے۔سرکاری اعزازسے اس کے فن پر اثر پڑتا ہے اور ذہنی انتشار بڑھتا ہے جو کہ مناسب نہیں ہے۔‘‘ان کی تصانیف میں سائیکولاجی اینڈ ایموزنیشن، ٹرانسنڈس آف دَ ایگو،بیئنگ اینڈ نتھنگ،نوسیا،دَ وال اینڈ اَدراسٹوریز،دَ ایج آف ریزن،دَ ریپریو وغیرہ شامل ہیں۔

 

“One Day” A short Story by Anatole France

Articles

ایک دن

اناتولے فرانسس


میں اندر داخل ہوا تو پائولن دے لوزیؔ نے ہاتھ ہلاکر میرا استقبال کیا۔پھر چند لمحات تک خاموشی طاری رہی۔ا سکارف اور تولیوں کا بنا ٹوپ آرام کرسی پر بے ترتیب پڑے تھے۔
’’مادام!‘‘میں نے اپنی بات ذرا کھل کر کہی،’’کیا آپ کو یاد ہے ٹھیک دو سال قبل،آج ہی کے دن ،پہاڑ کے دامن میں بہتی ندی کے کنارے،وہیں جہاں آپ کی آنکھیں اس وقت دیکھ رہی ہیں،آپ نے کیا کہا تھا؟کیا آپ کو یادہے کہ کسی فرشتے کی طرح اپناہاتھ ہلاتے ہوئے آپ میرے قریب آئی تھیں۔میرے عشق کے اقرار کو آپ نے میرے لبوں کے اندر ہی روک دیا تھا اور مجھے انصاف و آزادی کی خاطر جینے اور لڑنے کے لیے چھوڑدیا تھا۔مادام،آپ کے جس ہاتھ کو میں بوسہ دیتے ہوئے اپنے آنسوئوں سے بھگودینا چاہتاتھا،اسی سے آپ نے مجھے باہر کا راستہ دکھایا اور میں بنا کچھ کہے لوٹ گیا تھا۔میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی۔دو سال سے میں بے وقوف کنگالوں کے ساتھ رہتا آیا ہوں،جن کے لیے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عدم دلچسپی ہی ہوتی ہے۔ جو دکھاوے کی ہمدردی کے پر تشددمظاہروں سے لوگوں کو ورغلاتے ہیں اور جو چڑھتے سورج کو ہی سلام کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
اپنے ہاتھ کے ایک اشارے سے اس نے مجھے خاموش کردیااور پھر اشارہ کیا کہ اس کی بات سنوں۔پھر باغیچے سے اس خوشبودار کمرے میں پرندوں کی چہچہاہٹ کے درمیان دورسے چیخیں سنائی دیں۔’’مارو!ان شریف زادوں کو پھانسی پر چڑھادو۔ان کی گردنیں اتاردو۔‘‘
اس کا چہرہ زرد پڑگیا۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘میں نے کہا،’’کسی کمینے کو سبق سکھایا جارہا ہوگا۔یہ لوگ چوبیس گھنٹے پیرس میں گھرگھر جاکر گرفتاریاں کررہے ہیں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ یہاں داخل ہوجائیں۔تب میں کچھ نہیں کرپائوں گا۔حالانکہ پھر بھی میں اب ایک خطرناک مہمان ہوتا جارہا ہوں۔‘‘
دوسری مرتبہ چیخوں نے شام کی خاموش ہوا کو چیرا۔پھر ایک چیخ ابھری،’’راستے بند کردو، وہ بدمعاش بھاگنے نہ پائے۔‘‘
خطرہ جس قدر قریب آگیاتھا،اس کا تصور کرکے مادام دے لوزی کچھ زیادہ ہی پرسکون دکھائی دے رہی تھی۔
’’آئو دوسرے منزلے پر چلتے ہیں۔‘‘اس نے کہا۔ڈرتے ہوئے ہم نے دروازہ کھولاتو سامنے سے ایک شخص نیم برہنہ حالت میں بھاگتا ہوا دکھائی دیا۔اس کے چہرے پر دہشت بُری طرح پھیلی ہوئی تھی۔اس کے دانت بھنچے ہوئے تھے اور گھٹنے آپس میں ٹکرارہے تھے۔گھٹی گھٹی آواز میں وہ چیخ رہا تھا،’’مجھے بچالو!کہیں چھپالو!وہ وہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انھوں نے میرا دروازہ توڑدیا ہے، باغیچہ اجاڑدیاہے۔اب وہ میرے پیچھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مادام دے لوزی نے اس شخص کو پہچان لیاتھا۔وہ پلانچو ؔتھا،ایک بوڑھا شخص،جو پڑوس میں ہی رہتا تھا۔مادام نے سرگوشی والے اندازمیں کہا،’’کہیں میری نوکرانی کی نظر تم پر تونہیں پڑگئی؟ وہ بھی جیکو بِن ہے۔‘‘
’’نہیں،مجھے کسی نے نہیں دیکھا۔‘‘
’’سب خدا کی مہربانی ہے۔‘‘
وہ اسے اپنے بیڈروم میں لے گئی۔میں ان دونوں کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ صلاح مشورہ ضروری ہوگیاتھا۔چھپنے کی کوئی ایسی جگہ ڈھونڈنی ہی پڑے گی،جہاں پلانچو کو کچھ دن نہیں تو کچھ گھنٹوں کے لیے ہی چھپایا جاسکے۔
انتظار کے لمحات میں وہ خود کو کھڑا نہ رکھ سکا۔دہشت سے اسے جیسے لقوہ مارگیاتھا۔
وہ ہمیں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ اس پر ماسیودے کجوتؔ کے ساتھ مل کر قانون کے خلاف بغاوت کرنے کا الزام ہے۔ساتھ ہی دس اگست کو اس نے پادری اور بادشاہ کے دشمن کو بچانے کے لیے ایک تنظیم بنائی۔یہ سب الزامات سراسر غلط تھے۔سچائی یہ تھی کہ لیوبِنؔ اپنی منافرت کا اظہار کررہا تھا۔لیوبِن ایک قصائی تھا،جسے وہ ہمیشہ ٹھیک تولنے کے لیے کہتا رہا۔کل کاوہ دکاندار آج اس گروہ کا سربراہ ہے۔
اور تبھی سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آوازیں آنے لگیں۔مادام دے لوزی نے جلدی سے چٹخنی چڑھائی اور اس بوڑھے کو پیچھے دھکیل دیا۔دروازے پر مسلسل دستک سے اور آواز سے پائولن نے پہچان لیا کہ وہ اس کی نوکرانی ہے،وہ دروازہ کھولنے کے لیے کہہ رہی تھی اور بتارہی تھی کہ باہر گیٹ پر بلدیہ کے افسران نیشنل گارڈس کے ساتھ آئے ہیںاور احاطے کا معائنہ کرنا چاہتے ہیں۔
’’وہ کہتے ہیں۔‘‘وہ عورت بتارہی تھی،’’پلانچو اس گھر کے اندر ہے۔میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ وہ یہاں نہیں ہے،میں جانتی ہوں کہ آپ ایسے بدمعاش کو پناہ نہیں دیں گی،مگر یہ لوگ میرا یقین نہیں کرتے۔‘‘
’’ٹھیک ہے،انھیں اندر آنے دو۔‘‘دروازہ کھولے بنامادام د ے لوزی نے کہا،’’اور گھر کا ایک ایک گوشہ دکھا دو۔‘‘
یہ بات سنتے ہی بزدل پلانچوپردے کے پیچھے ہی بے ہوش ہوکر گرپڑا۔اسے ہوش میں لانے میں کافی دقت ہوئی۔اس کے چہرے پر پانی چھڑکا،تب کہیں جاکر اس نے آنکھیں کھولیں۔
جب وہ ہوش میں آگیا تو وہ عورت اپنے بوڑھے پڑوسی کے کانوں میں سرگوشی والے انداز میں بولی،’’دوست مجھ پر بھروسہ رکھو،یہ مت بھولو کہ عورت بڑی پہنچی ہوئی ہستی ہوتی ہے۔‘‘
پھر اس نے بڑے اطمینان سے جیسے وہ معمول کے مطابق گھر کا کام کررہی ہو، پلنگ کو تھوڑا سا کھسکایااور تین گادیوں کو اس طرح رکھاکہ بیچ میں ایک آدمی کی جگہ بن جائے۔
جب وہ یہ سارے انتظامات کررہی تھی،سیڑھیوں پر سے جوتوں اور بندونوں کی کھٹ کھٹ کی آوازیں سنائی دیں۔ہم تینوں کے لیے یہ خطرناک لمحات تھے۔اور پھر وہی شور اوپر چڑھتا ہوا ہلکا ہوگیا۔وہ اوپر کی منزل پر گئے تھے۔ہم جان گئے کہ جیکوبن نوکرانی کی رہنمائی سے پہلے ہی وہ اٹاری کو چھان ماریں گے۔چھت چرمرائی۔خوفناک قہقہے گونج اٹھے تھے،جوتوں اور سنگینوں کی ضرب کی آوازیں ہم تک آرہی تھیں۔ہم نے راحت کی سانس لی۔لیکن ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے ایک بھی لمحہ نہیں تھا۔میں نے پلانچو کو گادیوں کے درمیان خالی جگہ پر گھسنے میںمدد کی۔
ہمیں یہ کرتے دیکھ مادام دے لوزی نے انکارمیں سر ہلایا۔بستر اس طرح سے بے ترتیب ہوگیاتھا کہ کوئی بھی شک کرسکتا تھا۔اس نے خود جاکر ٹھیک کرنا چاہا مگر بے کار۔وہ فطری نہیں لگ رہا تھا۔’’مجھے خود ہی بستر پر لیٹنا پڑے گا۔‘‘اس نے کہا۔چند لمحات تک وہ سوچتی رہی پھر بڑے اطمینان سے اور شاہانہ لاپرواہی سے اس نے میرے سامنے ہی اپنے کپڑے اتارے اور بستر پر لیٹ گئی۔ پھر اس نے مجھ سے بھی اپنے جوتے اور ٹائی اتارنے کے لیے کہا۔
’’کوئی خاص بات نہیں ہے،بس تمہیں میرے عاشق کاکردار ادا کرنا ہوگا۔اس طرح ہم انھیں دھوکا دے سکتے ہیں۔‘‘ہمارا انتظام مکمل ہوگیا تھا اور ان لوگوں کے نیچے اترنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔وہ چیخ رہے تھے،’’ڈرپوک!چوہا!‘‘
بدقسمت پلانچو کو جیسے لقوا مارگیاہو۔وہ اس قدر بری طرح کانپ رہا تھا کہ پورا بستر ہل رہا تھا۔اس کی سانسیں اتنی زور سے چل رہی تھیں کہ باہر سے کوئی بھی آدمی سن سکتا تھا۔’’کتنی دکھ کی بات ہے۔‘‘مادام دے لوزی نے آہستگی سے کہا،’’اپنی تھوڑی سی چالاکی سے میں سمجھتی تھی کہ کام بن جائے گا۔پھر بھی کوئی بات نہیں۔ہمت تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔خدا ہماری حفاظت کرے۔‘‘
کسی نے دروازے پر زور سے گھونسا مارا۔
’’کون ہے؟‘‘پائولن نے پوچھا۔
’’اس ملک کے نمائندے۔‘‘
’’کیا کچھ دیر تک رک نہیں سکتے؟‘‘
’’جلدی کھولو۔نہیں تو ہم دروازہ توڑڈالیں گے۔‘‘
’’جائو دوست،دروازہ کھولو۔‘‘
اچانک ایک جادوسا ہوا۔پلانچو نے کانپنا اور لمبی سانسیں لینا بند کردیا۔
سب سے پہلے لیوبن اندرآیا۔وہ رومال باندھے ہوئے تھا۔اس کے پیچھے پیچھے تقریباً ایک درجن لوگ ہتھیار اور برچھے لیے اندر داخل ہوگئے۔پہلے مادام دے لوزی اور پھر مجھے گھورتے ہوئے وہ زور سے چیخے۔’’اُف!لگتا ہے ہم عاشقوں کی تنہائی میں مخل ہوگئے ہیں۔خوبصورت لڑکی ہمیں معاف کردینا۔‘‘پھر وہ بستر پر آکر بیٹھ گیااور پیار سے اس اونچی نسل کی عورت کا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے بولا،’’یہ تو صاف ظاہرہے کہ اتنا خوبصورت چہرہ رات دن خدا کی عبادت کے لیے نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا تو کس قدر دکھ کی بات ہوتی۔لیکن پہلے اپنے مادرِوطن کا کام،باقی کام بعد میں۔ابھی تو ہم وطن کے غدار پلانچو کو ڈھونڈ رہے ہیں۔وہ یہیں ہے،یہ میں ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکتا ہوں۔ میں اسے ڈھونڈ کر رہوں گا۔میں اسے پھانسی پرچڑھادوں گا۔ا س سے میری قسمت سنور جائے گی۔‘‘
’’تو پھراسے ڈھونڈو۔‘‘
انھوں نے میزوں اور کرسیوں کے نیچے جھانکا۔پلنگ کے نیچے اپنے برچھے چلائے اور گادیوں میں سنگینیں گھونپیں۔میں انھیں تہہ خانے میں لے گیا۔وہاں انھوں نے لکڑی کے ڈھیر کو بکھیر دیا اور شراب کی کئی خالی بوتلیں خالی کردیں۔کافی دیر تک شراب پیتے رہے اور اودھم مچاتے رہے۔جب وہ پیتے پیتے تھک گئے تو باقی بچی شراب کی بوتلوں کوبندوق کے دستوں سے توڑتے ہوئے لیوبن نے تہہ خانے میںشراب کی ندیاں بہادیں۔ان کے باہر نکلتے ہی میں نے لپک کر گیٹ بند کردیا۔پھر میںدوڑتا ہوا مادام دے لوزی کے پاس آیا اور اسے بتایا کہ خطر ہ ٹل گیا ہے۔
یہ سنتے ہی اس نے گادی کو پلٹا اور پکارا،’’موسیو پلانچو،موسیوپلانچو!‘‘جواب میں ایک ہلکی سی سسکی سنائی دی۔’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘وہ چیخ اٹھی، ’’موسیوپلانچو،میں تو سمجھی کہ آپ مرگئے۔‘‘
پھر میری جانب مڑکر بولی۔’’دیکھو دوست،تم ہمیشہ یہ کہہ کر خوش ہوتے ہوکہ تمہیں مجھ سے محبت ہے،مگر آئندہ تم ایسا قطعی نہیں کہوگے۔‘‘
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

—————————————

اناتولے فرانس۱۸۴۴ء میں،فرانس کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۴ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’تھایا‘‘ناول کے لیے ۱۹۲۱ء میں نوبل سے نوازا گیاتھا۔انہوں نے اسی سالہ طویل زندگی میں ادب کو کئی بہترین تخلیقات سے مالا مال کیاہے۔انہوں نے ناول کے علاوہ سوانح حیات،مضامین،تاریخی کتب وغیرہ تخلیقات قلمبند کی ہیں۔ان کی تصانیف میں دی کرائم آف سِلویستر ونارڈ،دی گاڈس آر آتھرسٹ،لائف آف جان آرک وغیرہ شامل ہیں۔

 

The Father A Short Story by Bjornstjerne Bjonson

Articles

والد

بیورنسِٹے بیورنسن

وہ اس علاقے کا سب سے زیادہ بااثر آدمی تھا۔ایک دن وہ درازقد آدمی پادری کی لائبریری میں بے حد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا کہ اس کے یہاں لڑکا تولد ہوا ہے اور وہ اس کا بپتسمہ کروانا چاہتا ہے۔
’’اس کا نام کیا ہوگا؟‘‘پادری نے پوچھا۔’’فِنّا،میرے باپ کے نام پر۔‘‘
’’او رمذہب،والدین؟‘‘
’’ان کا انتخاب کرلیا گیا ہے۔وہ ہمارے گائوں کے قابلِ احترام میاں بیوی ہیں۔ ان کا تعلق میرے خاندان سے ہے۔‘‘
’’کچھ اور؟‘‘پادری نے آنکھیں اٹھاکر اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔کسان کچھ لمحے خاموش رہا اورپھربولا،’’میں اپنے بیٹے کا اپنی مرضی سے بپتسمہ کروانا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اس ہفتے میں کسی بھی دن؟‘‘
’’آئندہ سنیچر بارہ بجے۔‘‘
’’اور کچھ؟‘‘پادری نے پوچھا۔’’کچھ نہیں۔‘‘کسان نے اپنی ٹوپی ٹھیک کرلی۔اس سے ظاہر ہوا کہ وہ جانے والاہے۔اسی وقت پادری اٹھا۔’’بس!یہ کچھ۔‘‘کہتے ہوئے پادری تھورد کے پاس گیا۔اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے او راس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا،’’خدا کرے یہ بچہ تمہارے لیے خوش بخت ثابت ہو۔‘‘ٹھیک سولہ سال بعد تھورد پھر پادری کے کمرے میں موجود تھا۔’’تھورد،تم تو ویسے ہی ہشاش بشاش نظرآرہے ہو۔‘‘پادری نے کہا۔اسے تھورد میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔’’مجھے کسی بات کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیا۔
پادری خاموش رہا۔پھر چند لمحوں کے بعد پوچھا،’’آج اِدھر کیسے؟‘‘
’’آج میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ کل میرے لڑکے کا ’کنفرمیشن‘ہے۔‘‘
’’وہ ایک ہونہار لڑکا ہے۔‘‘
’’میں پادری کو اس وقت تک کچھ نہیں دینا چاہتا تھا ،جب تک کہ یہ پتہ نہ چلے کہ اسے رسم میں کون سا مقام ملا ہے؟‘‘
’’وہ اول مقام پر ہے!‘‘پادری نے کہا۔’’میں یہ جان کر بے حد خوش ہوں۔لیجیے یہ دس ڈالر پادری کے لیے ہیں۔‘‘
’’کیا اور کچھ؟‘‘پادری نے پوچھا۔اس کے بعد مزیدآٹھ سال بیت گئے۔ایک بار پھر پادری کے کمرے میں ہلچل ہوئی۔ اس مرتبہ تھورد کے ساتھ بہت سے لوگ آئے تھے۔پرلسٹ نے دیکھتے ہی اسے پہچان لیا۔’’آج تم بہت سے لوگوں کے ساتھ آئے ہو!‘‘
’’میں اپنے بیٹے کی شادی کا اعلان اس چرچ سے کروانا چاہتا ہوں۔ اسے گُڈ منڈ کی لڑکی کارین استور لبدن سے شادی کرنی ہے۔وہ بھی یہاں آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’اور وہ اس علاقے کی سب سے امیر لڑکی ہے۔‘‘پادری نے کہا۔
’’آپ کا کہنا درست ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیااور ایک ہاتھ سے اپنے بال ٹھیک کیے۔
پادری چند لمحوں تک خاموشی سے سوچتا رہا۔بولا کچھ نہیں۔اس نے ناموں کا اندراج کرلیا اور لوگوں کے دستخط کروالیے۔تھورد نے تین ڈالر میز پر رکھ دیے۔
’’میں صرف ایک ڈالر لوں گا۔‘‘پادری نے کہا۔
’’میں جانتا ہوں،مگر میرا اکلوتا لڑکا ہے۔میں اس کے نام سے کچھ بھلائی کے کام کرنا چاہتا ہوں۔‘‘پادری نے تین ڈالر قبول کرلیے۔’’تھورد،تم اپنے لڑکے کے لیے یہاں تیسری بار آئے ہو۔‘‘
’’یہ آخری بار ہے۔‘‘تھورد نے کہا۔اس نے اپنی ڈائری بند کرکے اپنی جیب میں رکھ لی اور پادری سے اجازت لے کر چل پڑا۔دھیرے دھیرے لوگ بھی اس کے پیچھے ہولیے۔اس کے ٹھیک چودہ روز بعد باپ بیٹے،ایک سہانے دن،کشتی پر سوار ہوکر لبدن سے شادی کے متعلق بات چیت کرنے جارہے تھے۔’’میری سیٹ ہل رہی ہے۔‘‘کشتی میں بیٹھے بیٹھے بیٹے نے کہا اور کہتے ہی وہ سیٹ کو ٹھیک کرنے کے لیے کھڑاہوا۔اس وقت لکڑی کا وہ تختہ پھسل گیا،جس پر وہ کھڑا تھا۔توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں اپنے ہاتھ پھیلائے،چیختے ہوئے وہ پانی میں جاگرا۔’’چپوئوں کو پکڑو!‘‘باپ چلایا۔اس نے کھڑے ہوکر جلدی چپوں نکالا۔لڑکا کچھ دور تک تیرتا رہا پھر بھنور میں پھنس گیا۔’’ٹھہرو!‘‘باپ پھر چلایا۔اس نے چپوئوں کوتیزتیز چلایا۔لڑکا پھر اپنی پیٹھ کے بل اوپر نیچے ہوا۔اپنے باپ کی جانب دیکھا اور پھر ڈوب گیا۔تھورد کو یقین نہیں آیا۔کشتی کو مضبوطی سے پکڑکر وہ اس جگہ کو اس امید سے گھورتا رہا کہ شاید اس کا لڑکا پھر سے اوپرآجائے!
مگر وہاں کچھ بلبلے اٹھے،پھر کچھ اور۔آخر میں ایک بڑا سا بلبلہ پھٹا اور بس!پانی پر سکوت طاری ہوگیا۔لوگوں نے دیکھا باپ تین دن اور تین راتیں بنا کچھ کھائے پیئے،بنا پلک جھپکائے اس جگہ لگاتار نائو چلاتا رہا،جہاں اس کا لڑکا ڈوباتھا۔اس نے تلاش جاری رکھی کہ شاید اس کا لڑکا اوپر آجائے۔ تیسرے دن کی صبح اس کا بیٹا مل گیا۔بیٹے کو اٹھائے وہ اس پہاڑی پرگیا جہاں اس کا گھر تھا۔
اس کے تقریباًڈیڑھ سال بعد پت جھڑکی ایک شام کو پادری نے اپنے دروازے پر دستک سنی۔باہر کوئی بڑی احتیاط سے کنڈی ٹٹول رہا تھا۔پادری نے دروازہ کھولا۔تو دیکھا کہ ایک دراز قد،کمزور، جھکی ہوئی کمر اور سفید بالوں والا انسان اندر داخل ہورہا ہے۔پادری کو اسے پہچاننے میں وقت لگا۔وہ تھوردہی تھا۔’’تم!اس وقت!‘‘پادری نے پوچھا اور پھر سامنے کھڑاہوگیا۔
’’او،ہاں۔اس وقت آنا پڑا۔‘‘تھورد نے جواب دیااور بیٹھ گیا۔پادری بھی وہیں بیٹھ گیا۔بڑی دیر تک خاموشی کی دبیز چادر تنی رہی۔پھر تھورد نے بتایا اس نے جو دولت کمائی ہے اسے وہ غریبوں میں تقسیم کردینا چاہتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑاہوااور اس نے ڈھیر سارے روپے میز پر رکھ دیئے اور پھر بیٹھ گیا۔پادری نے روپے گنے۔’’یہ تو بہت بڑی رقم ہے!‘‘وہ بولا۔
’’میرا ایک فارم ہائوس تھا،جسے میں نے آج ہی فروخت کیا ہے۔‘‘تھورد نے بتایا۔ پادری بڑی دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔آخر خاموشی کو توڑتے ہوئے سوال کیا،’’اب کیا کروگے؟‘‘
’’اس سے کچھ اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ دونوں بیٹھے رہے،تھورد زمین پر نظریں جھکائے اور پادری اس پر نظریں جمائے۔پھر آہستگی سے پادری نے کہا،’’تمہارا بیٹا تمہارے لیے آخرت کا ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘تھورد نے جواب دیا۔’’ہاں،میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اوپر دیکھا اور غم کے آنسوئوں کے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

بیو رنسٹنے بیورنسن ۱۸۳۲ء میں ناورے میں پیدا ہوئے اور ۱۹۱۰ء میں انتقال فرماگئے۔انہوں نے نارویجین ادب کو نیا روپ عطا کیا۔وہ شاعر،ناول نگار،ناقد،ڈرامہ نگار کے علاوہ اپنے زمانے کے مشہور و معروف سیاسی رہنما بھی رہے۔انہیں شاعری کے لیے ۱۹۰۳ء میں نوبل سے نوازا گیا۔ ان کی تصانیف میں سنووے سولواکین،آرنے،اے ہیپی بوائے،بِروین دَ بیٹلز،دَ گریٹ ٹرولوجی،سیگرڈ دَ بیٹرڈ وغیرہ شامل ہیں۔

 

Old Waiter A Short Story by Ernest Hemingway

Articles

بوڑھا ویٹر

ارنسیٹ ہیمنگوے

رات کافی بیت چکی تھی اور سب لوگ کیفے سے چلے گئے تھے مگر وہ بوڑھا بجلی کے کھمبے کے ساتھ کھڑے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا۔دن میں وہ جگہ گردغبار سے اٹی رہتی تھی،مگر رات میں اوس گرنے کے سبب گروغبار بیٹھ جاتا تھا۔بوڑھے کو یہاں بیٹھنا پسند تھا،کیوں کہ وہ بہرہ تھا اور رات کے پرسکون سناٹے میں اسے یہاں کا ماحول اچھا لگتا تھا۔کیفے میں بیٹھے دونوں ویٹر جانتے تھے کہ بوڑھا ہلکے نشے میں ہے۔پھر بھی انھیں معلوم تھا کہ بوڑھا ایک اچھا گاہک ہے،مگر انھیں یہ بھی معلوم تھا کہ اگر اسے نشہ چڑھ گیاتو وہ پیسے ادا کیے بنا ہی چلاجائے گا۔اس لیے وہ اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
’’پچھلے ہفتے اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی۔‘‘ایک ویٹرنے کہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’وہ بے حد دکھی تھا۔‘‘
’’اس کے پاس بہت دولت ہے۔‘‘
وہ دونوں کیفے کے پاس والی دیوار سے لگی میز پر بیٹھے تھے اور چھجے کی طرف دیکھ رہے تھے، جہاں ایک کے علاوہ ساری میزیں خالی تھیں۔ہوا سے ہلتی ہوئی پتیوں کی چھائوں میں وہ بوڑھا اب بھی وہاں بیٹھا ہوا تھا۔باہر گلی میں ایک سپاہی ایک لڑکی کے ساتھ جارہا تھا۔
’’اسے گارڈ پکڑلیں گے۔‘‘ایک ویٹر نے کہا۔
’’جو یہ چاہتا ہے،وہ مل جانے پر بھی اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’اسے گلی میں سے چلے جانا چاہیے۔نہیں تو اسے گارڈ پکڑلیں گے۔ابھی پانچ منٹ قبل ہی وہ یہاں سے گئے ہیں۔‘‘پیڑکے نیچے بیٹھے بوڑھے نے اپنے گلاس سے پلیٹ کو بجاکر آواز کی۔ نوجوان ویٹر اس کے پاس گیا،’’کیا چاہیے؟‘‘
بوڑھے نے اس کی جانب دیکھا۔
’’ایک اور برانڈی!‘‘اس نے کہا۔
’’تم پر نشہ طاری ہوجائے گا۔‘‘ویٹر نے کہا۔
بوڑھے نے جواب نہیں دیااور اس کی جانب دیکھا۔
’’وہ آج ساری رات یہیں رہے گا۔‘‘اس نے اپنے ساتھی سے کہا۔
’’لیکن مجھے نیند آرہی ہے۔مجھے کبھی تین بجے سے قبل سونا نصیب نہیں ہوتا۔اسے پچھلے ہفتے خودکشی کرلینی چاہیے تھی۔‘‘ویٹر نے کائونٹر سے برانڈی کی بوتل اور ایک پلیٹ اٹھائی اور اس بوڑھے کی طرف چل دیا۔پلیٹ نیچے رکھ کر اس نے گلاس کو برانڈی سے بھردیا۔
’’تمہیں پچھلے ہفتے خودکشی کرلینی چاہیے تھی۔‘‘
بوڑھے نے اپنی انگلی ہلائی اور کہا،’’تھوڑی سی اور !‘‘ویٹر نے تھوڑی سی برانڈی انڈیلی۔ وہ بہہ کر نیچے والی پلیٹ میں گرنے لگی۔ویٹراپنے ساتھی کے ساتھ میز پر آبیٹھا۔
’’اب وہ نشے میں ہے۔‘‘اس نے کہا۔
’’یہ تو ہر رات نشے میں ہوتا ہے۔‘‘
’’خودکشی کیوں کرنا چاہتا ہے؟‘‘
’’مجھے کیا معلوم؟‘‘
’’کیسی کوشش کی تھی اس نے؟‘‘
’’خود کو رسی سے لٹکالیاتھا۔‘‘
’’اس کی رسی کس نے کاٹی؟‘‘
’’اس کی بھانجی نے۔‘‘
’’مگر اس نے ایساکیوں کیا؟‘‘
’’شاید اپنی خود کشی کے ڈر سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اس کے پاس کتنا پیسہ ہے؟‘‘
’’کافی ہے۔‘‘
’’وہ اسی سال کا تو ضرور ہوگا؟‘‘
’’میں چاہتاہوںکہ اب وہ گھر چلا جائے۔میں کبھی تین بجے سے قبل نہیں سوتا۔یہ بھی سونے کا وقت ہے۔‘‘
’’وہ بیٹھا رہتا ہے۔اسے یہ جگہ پسند ہے۔‘‘
’’وہ اکیلا ہے ۔مگر میں تو اکیلا نہیں ہوں۔میری بیوی انتظار کررہی ہے۔‘‘
’’اس کی بھی بیوی ہے؟‘‘
’’ہاں،مگراس کی بھانجی ہی اس کی دیکھ بھال کرتی ہے۔‘‘
’’میں جانتا ہوں تم نے کہاتھا،اسی نے رسی کاٹی تھی۔میں کبھی اتنا بوڑھا نہیں ہونا چاہوں گا۔ بڑھاپا منحوس ہوتاہے۔‘‘
’’میں اسے نہیں دیکھنا چاہتا۔وہ گھر چلا جائے تو اچھا۔‘‘بوڑھے نے گلاس سے سر اٹھاکر پہلے باہر دیکھا،پھر ویٹروں کی طرف۔’’ایک اور برانڈی!‘‘اس نے گلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔جس ویٹر کو جلدی تھی،وہ اس کے پاس آیا۔
’’ختم!‘‘اس نے مدہوشی کے عالم میں کہا۔
’’آج رات اور نہیں!اب بند۔‘‘
’’ایک اور!‘‘بوڑھے نے کہا۔
’’نہیں،ختم!‘‘ویٹر نے میز کاکونا صاف کرتے ہوئے کہا۔
دھیرے دھیرے پلیٹیں گنتے ہوئے بوڑھا اٹھ کھڑاہوا۔پھر اس نے پرس نکالا اورپیسے دے دیئے۔آدھا پیسہ ٹِپ چھوڑدی۔دیٹر نے اسے جاتے ہوئے دیکھا۔بوڑھے کی چال غیر متوازن مگر رعب دار تھی۔
’’تم نے اسے بیٹھنے اور پینے کیوں نہیں دیا؟‘‘نوجوان ویٹر نے پوچھا،’’اسے جلدی نہیں تھی۔ابھی تو ڈھائی بھی نہیں بجے ہیں۔‘‘
’’میں سونے کے لے گھر جاتا ہوں۔‘‘
’’ایک گھنٹے سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘
’’میرے لیے کافی فرق پڑتا ہے۔‘‘
’’مگر ایک گھنٹہ تو ایک گھنٹہ ہے۔‘‘
’’تم بذاتِ خود ایک بوڑھے کی طرح بات کررہے ہو۔وہ بوتل خرید کر گھر میں پی سکتا ہے۔‘‘
’’گھر میں پینے سے وہ مزہ نہیں آتا۔‘‘
’’ہاں،وہ مزہ نہیں آتا۔‘‘شادی شدہ ویٹر نے کہا۔
’’اور تم ؟تمہیں جلدی گھر جانے سے ڈر تو نہیں لگتا؟‘‘
’’تم میری بے عزتی کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’نہیں،میں تو مذاق کررہا تھا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘شٹر گراتے ہوئے اس ویٹر نے کہا،جسے جلدی تھی،پھر وہ اس سے بولا۔’’مجھے اپنے آپ پر بھروسہ ہے۔‘‘
’’تمہارے پاس سب کچھ ہے۔‘‘
’’تمہارے پاس کیا کمی ہے؟‘‘
’’نوکری کے علاوہ سبھی چیزوں کی۔‘‘
’’تمہارے پاس وہ سب کچھ ہے جو میرے پاس ہے۔‘‘
’’نہیں،اعتماد تو مجھ میں کبھی رہا نہیں اور اب تو میںجوان بھی نہیں ہوں۔‘‘
’’چھوڑو یہ بکواس۔لاک کرو۔‘‘
’’میں ان لوگوں میں سے ہوں،جو رات دیر تک کیفے میں رہنا چاہتے ہیں،ان سب لوگوں کے ساتھ،جنھیں رات میں روشنی درکار ہوتی ہے۔‘‘
’’میں توگھر جاکر سونا چاہتاہوں۔‘‘
’’ہر رات کو میں کیفے بند کرتے وقت ہچکچاتا ہوں،کیوں کہ شاید کوئی ایسا آدمی ہو، جسے اس کیفے کی ضرورت ہو۔‘‘
’’بہت سی شراب کی دکانیں رات بھر کھلی رہتی ہیں۔‘‘
’’تم نہیں سمجھتے ،یہ ایک صاف ستھرا کیفے ہے۔یہاں روشنی بھی مناسب ہے۔ساتھ ہی درختوں کے سایے بھی ہیں۔‘‘
وہ بتیاں بجھاتا رہااور خود سے ہی بات چیت کرتا رہا۔’’روشنی ضروری ہے۔مگر ساتھ ہی جگہ بھی صاف ستھری اور اچھی ہونا چاہیے۔موسیقی بے شک نہ ہو۔موسیقی کی ضرورت تو بالکل نہیں ہے اور بار کے سامنے تو کوئی بھی عزت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوسکتا۔حالانکہ رات کے ان اوقات میں یہاں بارکھلے ہوتے ہیں۔اسے ڈر کس بات کا تھا؟ یہ ڈرتو نہیں تھا۔یہ تو ایک خالی پن کاا حساس تھا، جسے وہ اچھی طرح محسوس کرسکتا تھا۔ضرورت صرف روشنی او رتھوڑی سی صفائی کی تھی۔ کچھ لوگ تو محسوس کیے بنا ہی خالی پن کے ساتھ زندگی جیتے ہیں،مگر اسے احساس تھا کہ یہ صرف خالی پن کی بنا پر ہے۔
ہمیں ہمارا خالی پن،ہر روز کا خالی پن دے دو! کیوں کہ ہم اپنے خالی پن کو محسوس کرتے ہیں۔مگر ہمیں اس خالی پن سے نجات دلادو ۔اے خالی پن،تمہارا خیر مقدم ہے،کیوں کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘
ایک اُجلے سے کافی بار کے سامنے وہ کھڑا ہوگیا۔’’کیا چاہیے؟‘‘بار والے نے پوچھا۔
’’خالی پن!‘‘
’’ایک چھوٹا کپ،‘‘بار والے نے کہا۔
’’ایک چھوٹا کپ۔‘‘ویٹر نے کہا۔
’’روشنی تو چمکدار اور اچھی ہے،مگر بار صاف ستھرا نہیں ہے۔‘‘ویٹر نے کہا۔
’’تمہیں ایک اور کوپیرا چاہیے؟‘‘
’’نہیں،تھینک یو!‘‘ویٹر نے کہااور باہر چلاگیا۔اسے بار اور شراب خانوں سے نفرت تھی مگر ایک صاف ستھرے اور روشنی سے بھرپور کیفے کی بات ہی کچھ اور ہے۔اب وہ مزید کچھ سوچے بغیر اپنے گھر،اپنے روم میںچلا جائے گا۔اپنے بستر میں لیٹا رہے گا اور طلوع آفتاب کے ساتھ ہی سوجائے گا۔یہ شاید نیند نہ آنے والی بیماری ہے۔بہت سے لوگ اس کا شکار ہوں گے،اس نے سوچا۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

ارنیسٹ ہیمنگوے ۱۸۹۹ء میں امریکہ میں پیدا ہوئے اور ۱۹۶۱ء میں انتقال فرمایا۔انہیں ۱۹۵۴ء میں ’’دَ اولڈ مین اینڈ دَ سی‘‘ناول کے لیے نوبل انعام پیش کیا گیا۔انہوں نے عالمی ادب کو بے شمار بہترین کہانیاں اور ناول دیئے ہیں۔اپنی تخلیقات میں ہیمنگوے نے اپنی زندگی کے تجربات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔کچھ عرصے تک نامہ نگاری کے علاوہ ماہی گیری بھی کی اور ان سے حاصل کردہ تجربات کو انہوں نے نوبل انعام یافتہ ناول میں پھولوں کی طرح پرودیاہے۔ان کی تصانیف میں اِن آدر ٹائم،دَ سن آلسو رائزیز،مین ودائوٹ ویمن،اے فیئرویل ٹو آرمس،ڈیتھ اِن دَ آفٹرنون،وِنر ٹیک نتھنگ،گرین ہِلس آف افریقہ وغیرہ شامل ہیں۔