Mommad Bhai Ashort Story by Saadat Hasan Manto

Articles

ممد بھائی

سعادت حسن منٹو

فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔

ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر’’ پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے۔’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں۔۔۔۔۔۔فسٹ کلاس کھیل۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں!‘‘

بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔’’پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔‘‘

یہ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔

فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔۔۔۔۔۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔

یہودی، پنجابی، مرہٹی،کشمیری،گجراتی،بنگالی،اینگلوانڈین،فرانسیسی،چینی،جاپانی غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ عورتیں کیسی ہو تی ہیں۔۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیے۔۔۔۔۔۔ بس عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔

اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیا۔۔۔۔۔۔

اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کررہا ہوں، اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔

اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔

آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مررہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اس کا نام ممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت،گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔

میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا ۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اس پر ٹوٹ پڑیں تووہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کردیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔

اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی۔۔۔۔۔۔صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھی، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورد سال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔

مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جُتا ہوتا تھا، اس کووہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔۔۔۔۔۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا یاکسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔

میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کردیے اور ان سے کہا’’دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا۔’’منٹو صاحب!ممد بھائی فرشتہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتہ۔۔۔۔۔۔ جب اس نے ڈا کٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔

ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔

ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہر حال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔ اس قسم کا آدمی جوہر کولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔

میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اوررات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہوکرواپس آکر فوراًسو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کرممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔

ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوائنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی،اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جارہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔

میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہواکرتی۔مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی قسم کا بخار تھا۔ انفلوائنزا تھا، ملیریاتھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔

دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔۔۔۔۔۔ آنا بھی کسے تھا۔۔۔۔۔۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔۔۔۔۔۔ دو تین یا چار۔۔۔۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی مرے یا جیے۔۔۔۔۔۔ ان کی بلا سے۔۔۔۔۔۔

میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔۔۔۔۔۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔

میں نے خیال کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہوگا۔بڑی مریل آواز میں کہا۔’’آجاؤ!‘‘

دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔

اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔

وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔

قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کردی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا۔’’ آپ کون ہیں؟‘‘

اس نے مختصر سا جواب دیا۔’’ممد بھائی!‘‘

میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔توآپ ممد بھائی بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔مشہور د ادا!‘‘

میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا۔’’ہاں ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ میں ممد ہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کا مشہوردادا۔۔۔۔۔۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو۔۔۔۔۔۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے، جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘

میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا’’ارے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے تیرا۔۔۔۔۔۔جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک دم جلدی آ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘

ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا، وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔۔۔ ۔۔۔لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم ونازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں یہ سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔

کھولی میں کرسی نہیں ۔ میں نے ممد بھائی سے کہا وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے۔ مگر اس نے انکار کردیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘

پھر اس نے ٹہلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔

اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے۔۔۔۔۔۔نیفے میں۔۔۔۔۔۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘

ممد نے خنجرسے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیزہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟‘‘

چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔

ڈاکٹر آگیا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو۔۔۔۔۔۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچیئن انداز میں سلام کیا اورپوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔جو معاملہ تھا، وہ ممد بھائی نے بیان کردیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔

ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔۔۔۔۔۔سٹیتھو سکوپ لگا میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا۔’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ملیریا ہے۔۔۔۔۔۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔‘‘

ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا۔’’میں کچھ نہیں جانتا۔ انجکشن دینا ہے تو دے، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔‘‘

ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا۔’’نہیں ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا۔’’تو ٹھیک ہے۔‘‘

’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔۔۔۔۔۔

’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔‘‘

ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھی دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا۔’’کیوں؟‘‘

’’بس۔۔۔۔۔۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔

ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن کا لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا’’دس روپے!‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔

ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کودیکھا اور گرج کر کہا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

میں نے کہا۔’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘

ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا۔’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘

ڈاکٹر پنٹو بوکھلا ہوگیا۔’’ میں کب لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ دے رہے تھے!‘‘

’’سالا۔۔۔۔۔۔ہم سے فیس لیتے ہو۔۔۔۔۔۔ واپس کرو یہ نوٹ!‘‘ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔

ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کردیا اور بیگ بند کرکے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔

ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔۔۔۔۔۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔۔۔۔۔۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘

تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘

ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں۔’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے۔۔۔۔۔۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت ہے، کون بری حالت میں۔۔۔۔۔۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘

میں نے ازراہ تفنن پوچھا۔’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘

سالا۔۔۔۔۔۔ہم کیا نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ کشمیری ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے سے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘

میں پانی پانی ہوگیا۔

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کہا۔’’ومٹو بھائی!کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار! اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘

میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی۔۔۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ سکا۔’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے۔۔۔۔۔۔ تم خوش رہو۔‘‘

ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔

ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔’’نہیں، مسٹر منٹو!ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘

میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کررہا ہے۔

بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔

پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانھیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب کے گلی نے بتایا تھا۔

اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں، اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میںیہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔

لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔

میں جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘

ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا’’ومٹو بھائی! بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انھیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ۔۔۔۔۔۔ اس میں کیا مزا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ چیز۔۔۔۔۔۔یہ خنجر۔۔۔۔۔۔ یہ چھری۔۔۔۔۔۔یہ چاقو۔۔۔۔۔۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ آرٹ۔۔۔۔۔۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان۔۔۔۔۔۔ جس کوچاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے۔۔۔۔۔۔ کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر دیکھو۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔۔۔۔۔۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو۔۔۔۔۔۔بندوق، پستول سب بکواس ہے۔‘‘

ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن جب میں اس کا ذکر کیا کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔

جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھاجو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔

وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیںآتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔

اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔

میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔۔۔۔۔۔ یا اس خنجر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔۔۔۔۔۔

ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتاتھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھی۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔

میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے، جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے، اس کو کل ایک آدمی نے خراب کردیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کردی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔‘‘ ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا۔’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ اس نے کہا’’ میں چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘

ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا۔’’جا۔۔۔۔۔۔تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘

اور اس کا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔

ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پررہا کردیا گیا۔

دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی،انسپکٹر، سب انسپکٹرسب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کرباہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طورپر اوپرکو اٹھی ہوتی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔

چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔۔۔۔۔۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا۔۔۔۔۔۔لیکن مر گیا۔۔۔۔۔۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘

آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔

مقدمہ چلنا تھا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق نہیں وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا نہیں تھا۔

وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا۔’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا پرکورٹ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘

عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انھوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کرسکتی ہیں۔

جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔

اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔

آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔۔۔۔۔۔مجسٹریٹ تم کو اندر کردے گا۔‘‘

اور وہ سوچتا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کوقتل کیا ہے یا اس نے۔۔۔۔۔۔لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشناہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔یہ کیا؟‘‘

’’کچھ نہیں ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔۔۔۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کروہ ضرور تم کو سزا دے گا۔۔۔۔۔۔ اب بولو، میں کیا کروں؟‘‘

میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا۔’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔۔۔۔۔۔سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہار خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘

’’تو میں منڈوادوں؟‘‘ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری۔۔۔۔۔۔

میں نے اس سے پوچھا۔’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘

’’میرا خیال ہے جو کچھ بھی ہو، وہ تم نہ پوچھو۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انھیں منڈوا دوں تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوادوں ومٹو بھائی؟‘‘

میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا۔’’ہاں، اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوادو۔۔۔۔۔۔ عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘

دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں۔۔۔۔۔۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔ لیکن صرف دوسرے کے مشورے پر۔۔۔۔۔۔

مسٹر ایف، ایچ، ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد بھائی بھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کردیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کرکے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔

عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔

شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تواس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔

اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا۔’’ کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘

اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا۔’’سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘

مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جکا ہے۔’’کوئی بات نہیں ممد بھائی!۔۔۔۔۔۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی!‘‘

اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں۔’’سالا۔۔۔۔۔۔ اپن کو یہ غم نہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘

پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا۔’’سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘

مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا۔’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو۔۔۔۔۔۔ ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ ہمیں پھانسی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔۔۔۔۔۔ آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔۔۔۔۔۔سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دوہتر اپنے منہ پرمارا۔’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر۔۔۔۔۔۔سالا۔۔۔۔۔۔اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔۔۔۔۔۔ اب جا اپنی ماں کے۔۔۔۔۔۔‘‘

اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔

————–

Kucha E Badnam ki Masjid by Naguib Mahfouz

Articles

کوچۂ بدنام کی مسجد

نجیب محفوظ


عصر کے درس کا وقت قریب ہوچلا تھا، لیکن مسجد میں صرف ایک ہی سامع تھا ۔ امامِ مسجد شیخ عبد ربہ کےلیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ جب سے اس مسجد میں آئے تھے ، صرف ایک ہی سامع ان کے درس میں حاضر ہوتا تھا۔ یہ سامع چچا حسنین تھے جو گنے کا جوس بیچتے تھے۔ مسجد کے مؤذن اور خادم بھی درس میں شامل ہوجاتےتھے تاکہ درس کااحترام برقرار رہے اور امام صاحب کی دلجوئی بھی ہوجائے۔ شیخ عبد ربہ کو بجا طور پر یہ اچھا نہیں لگتا تھا ، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ اس کے عادی ہوگئے تھے۔ وہ دن ان کی زندگی کا بد بخت ترین دن تھا جب ان کی منتقلی کوچۂ بدنام کی اس مسجد میں طے پائی تھی۔ اس دن وہ سخت غضبناک ہوئے تھے اور اس منتقلی کو رکوانے یا تبدیل کرانے کی پوری کوشش کی تھی۔ لیکن آخر کار مجبورا انہیں یہ منتقلی تسلیم کرنی پڑی۔ رقیبوں نے کھِلّی اڑائی، تو دوستوں نے مزا لیا۔ اسے اپنے درس کے لیے سامع کہاں ملیں گے؟ مسجد دو اڈوں کے سنگم پر واقع تھی۔ ایک طرف طوائفوں کا کوٹھا تھا، تو دوسری طرف دلالوں اور نشیڑیوں کا جمگٹھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پورے محلے میں سوائے چچا حسنین کے کوئی بھی نیک یا سنجیدہ آدمی نہیں تھا۔ ان کی نظر جب بھی اِس کوٹھے یا اُس اڈے پر پڑتی تو وہ سہم سے جاتے۔ گویا کہ انہیں ڈرتھا کہ کہیں شرم وحیا باختگی کے جراثیم ان کےسانس لینے کے ساتھ ہی ان کے سینے میں نہ گھس جائیں۔ اس کےباوجود ، وہ پابندی کے ساتھ درس دیتے رہے اور چچا حسنین پابندی کے ساتھ درس سننے آتے رہے ، یہاں تک کہ امام صاحب نے ایک دن چچا حسنین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا:
– اتنی محنت کررہے ہیں آپ ! اتنی محنت کے ساتھ تو آپ جلد ہی خود امام ومرجع بن جائیں گے!
بوڑھے چچا شرماکر ہنسے اور بولے!
– اللہ کے علم کی کوئی حد نہیں ہے۔۔
آج کا درس نفس کی پاکیزگی پر تھا۔ امام صاحب کہہ رہے تھے کہ نفس کی پاکیزگی پر ہی اخلاص کی بنیاد ہے، یہ لوگوں کے درمیان اچھےبرتاؤ اور تعلقات کی ضامن ہے، یہ سب سے اچھی چیز ہے جس کے ذریعہ انسان اپنے دن کی شروعات کرتا ہے ، چچا حسنین نے اپنی عادت کے مطابق کمال توجہ کے ساتھ درس سنا ۔ وہ بہت کم ہی سوال کرتے تھے، صرف کبھی کبھی کسی آیت کے معنی اور کسی فریضہ کے بارے میں پوچھ لیاکرتے تھے۔
سنگینیٔ اتفاق دیکھو کہ عصر کے وقت ہی کوٹھے میں چہل پہل شروع ہوجاتی تھی۔ پورا کوٹھا مسجد کے سامنے والی کھڑکی سے دکھائی دیتا تھا، ایک تنگ پٹی کی شکل میں ، کہیں کہیں ٹیڑھا میڑھا تھا، لیکن دور تک چلا گیا تھا، اس کے دونوں کناروں پر بوسیدہ گھروں اور قہوہ خانوں کے دروازے تھے۔ ایک عجیب قسم کا شہوت انگیز منظرتھا۔
عصر کے وقت، کوٹھے میں تیاری کی لہر دوڑ جاتی ہے، ایسا لگتا کہ کوٹھا ابھی نیند سے بیدار ہوکر چلنا ہی چاہتا ہے۔ زمین پر پانی کا چھڑکاؤ ہوتاہے، دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور ان پر عجیب وغریب قسم کے دستک دئے جاتےہیں ۔ قہوہ خانوں کی کرسیاں ترتیب سے لگادی جاتی ہیں، کھڑکیوں میں عورتیں بن سنور کر کھڑی ہوجاتی ہیں اور بات چیت کرتی ہیں ۔ فضا میں حیا سوز ہنسی گونج جاتی ہے، راہداری میں خوشبو جلادی جاتی ہے، اسی دوران کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے ، لیکن بائی فوراً ہی اسے چپ کراتی ہے مبادا مرنے والی کے ساتھ ان کی روزی بھی نہ چلی جائے۔
ایک دوسری عورت ہسٹیریائی انداز میں ہنستی ہے اپنی اس سہیلی کو یادکرکے جو اس کے بغل میں بیٹھے بیٹھے ہی مرگئی تھی۔
فحش اور سوقیانہ گانوں کی مشق کرتی ہوئی کچھ آوازیں سنائی دیتی ہیں ، کوٹھے کے آخری حصہ میں چہل پہل شروع ہوتی ہے، جو کرسیاں ترتیب دینے کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ کوٹھے کی مالکن نکلتی ہے اور پہلے گھر کے دروازے کے سامنے بیٹھ جاتی ہے، پہلا فانوس جلا دیاجاتا ہے اور سب جان لیتے ہیں کہ عنقریب ہی کوٹھا آباد ہوجائے گا۔
ایک دن شیخ عبدہ کو کال آیا ، انہیں مذہبی امور کے نگرانِ اعلی سے ملاقات کے لیے بلایا گیا تھا، ان سے یہ بھی کہا گیا کہ تمام اماموں کو بلایا گیا ہے۔ یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی ، خاص طور پر موجودہ حالات کو دیکھ کر تویہ بالکل بھی کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ اس کے باوجود شیخ عبدہ فکرمند ہوگئے اور لوگوں سے اس بلاوے کے اسباب کے تعلق سے پوچھ تاچھ کی۔ نگرانِ اعلی کی با اثر شخصیت دیکھتے ہوئے ان کا پوچھ تاچھ کرنا بجا تھا۔ یہ نگرانِ اعلی ایک بہت بڑے عہدیدار کا قریبی تھا، یہ عہدیدار لوگوں کے درمیان بری شہرت کا مالک تھا، اس کی پہچان ایک ایسے عہدیدار کے طور پر تھی جو کنگ میکر کی حیثیت رکھتا تھااور تمام قومی مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کرتاتھا۔ عنقریب ہی وہ سب ہی اس کے سامنے بربادی کے نمائندوں کے طور پر کھڑے ہوں گے اور ادنی سی لغزش سرزد ہوتے ہی غصہ کی آندھی انہیں لےاڑے گی۔
بہر حال شیخ نے بسم اللہ کیا اور بہترین انداز میں میٹنگ کے لیے تیار ہوئے۔ کالے رنگ کا جبہ زیب تن کیا، نیا سا کاخان پہنا، عمامہ سرپر رکھا اور اللہ پر بھروسہ کرکے چل نکلے۔ نگرانِ اعلی کےدفتر کے سامنے شدید ازدحام تھا، شیخ عبدہ کے مطابق بالکل حشر کے دن جیسی بھیڑ تھی۔ تمام امام میٹنگ کے تعلق سے چہ میگوئیاں کررہے تھے۔ اسی دوران بڑا دروازہ کھلا اور انہیں داخل ہونے کو کہا گیا۔ سب امام فوراً ہی کشادہ کمرہ میں داخل ہوئے یہاں تک کہ کمرہ کھچاکھچ بھر گیا۔ نگرانِ اعلی ان کی جانب پروقار اور بارعب لہجہ میں متوجہ ہوا۔ کچھ اماموں نے اس کی تعریف میں مدحیہ شاعری کہی جسے اس نے ایسے سنا جیسے کہ وہ اسے پسند نہ ہوں ، اس دوران اس کے ہونٹوں پر ایک پراسرار مسکراہٹ دراز تھی۔ پھر سناٹا چھا گیا، اس نے حاضرین پر ایک نگاہ دوڑائی اور انہیں مختصر سا سلام کیا ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اسے یقین ہے کہ وہ اس کی امیدوں پر کھرا اتریں گے، پھر اس نے اپنے سرکے اوپر لٹکی ہوئی تصویر کی جانب اشارہ کرکے کہا:
-اِن کے اور اِن کے خاندان کے تئیں ہمارا فرض ہی اس میٹنگ کا سبب ہے۔
بہت سارے حاضرین کی پیشانیاں شکن آلود ہوگئیں ۔ نگرانِ اعلی کی نگاہیں بدستور ان کے چہرے پر مرکوز تھیں ، اس نے کہا:
– آپ لوگ اِن کے ساتھ جس مضبوط رشتہ سے بندھے ہوئے ہیں ، اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہے، آپسی محبت کی ایک تاریخ رہی ہے۔
دل کی سوزش کم کرنے کے لیے لوگوں نے خوش مزاجی کے ساتھ تائید کی ۔۔اس نے مزید کہا:
– یہ حالیہ بحران جس سے ملک دوچار ہے، آپ لوگوں سے پرخلوص عمل کا تقاضا کرتاہے۔
دلوں کے نہاں خانوں میں اضطراب بڑھ گیا:
لوگوں کو حقائق سے آگاہ کریں ! دجالوں اور شر انگیزوں کو بے نقاب کردیں تاکہ حقدار کا حق پختہ ہوجائے۔
نگرانِ اعلی اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور ٹہلتے ہوئے پوچھا کہ کوئی سوال ہے؟ موجودین پر خاموشی طاری ہوگئی یہاں تک کہ ایک بے خوف امام کھڑا ہوا اور کہا کہ جناب نگرانِ اعلی نے ہمارے دل کی بات کہہ دی ہے ، اگر ہدایات کی خلاف ورزی کا خوف نہ ہوتا تو وہ خودہی بڑھ کر یہ فرض نبھاتے۔ نگرانِ اعلی کے بات شروع کرتے ہی شیخ عبد ربہ کی پریشانی ختم ہوگئی تھی انہیں فورا ہی معلوم ہوگیا تھا کہ انہیں کسی قسم کے محاسبہ یا تفتیش کے لیے نہیں بلایا گیا ہے بلکہ اس مرتبہ حکومت ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشاں ہے ۔ کسے معلوم ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد ان کی حالت کی بہتری کے لیے اقدامات کئےجائیں اور ان کی تنخواہوں اور بھتوں میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن جلد ہی وہ پھر پریشان ہوگئے جیسے صاف ستھرے ریتیلے ساحل پر پھیلی ہوئی موج تھوڑی دیر بعد ہی جھاگ میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔ انہیں بخوبی پتہ چل گیا تھا کہ حکومت ان سے کیا چاہتی ہے؟
عنقریب ہی انہیں جمعہ کے خطبہ میں وہ سب کہنا پڑ ےگا جو ان کے ضمیر کے خلاف اور لوگوں کی شدید ناراضگی کا باعث ہوگا۔انہیں اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ انہیں جیسے بہت سے ہیں جو ان کے جذبات میں ساجھی ہیں او ر اسی بحران کے شکار ہیں۔ لیکن ایسا لگتاتھا کہ سب کے لیے بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ نئے فکر میں غلطاں وپیچاں مسجد لوٹ آئے۔
٭ ٭ ٭

یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
علاقہ کا مشہور غنڈہ شلضم اپنے گینگ کے ساتھ مسجد سے کچھ ہی دوری پر واقع شراب خانہ ’’ اھلا وسھلا‘‘ میں بیٹھا ہواتھا، وہ انتہائی غضبناک تھا اور شراب کے ہر پیگ کے ساتھ اس کا غصہ مزید بھڑک جاتا ۔ وہ گرجدار آوازمیں بولا:
-یہ پاگل لڑکی ’’نبویۃ‘‘ اس حسان نامی لونڈے سے محبت کرتی ہے، مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
ایک ساتھی نے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا:
– ہوسکتا ہے کہ صرف گاہک ہو ، صرف گاہک نہ کم ، نہ زیادہ !
شلضم نےاپنا فولادی ہاتھ میز پر پٹخا، میز پر رکھے ہوئے برتن اور مونگ پھلی کے ٹکڑے اِدھر اُدھر بکھر گئے، وہ وحشتناک آواز میں چیخا:
– نہیں ۔۔ وہ لیتا ہے ، دیتا کچھ نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں ، میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میرا خنجر ہی اس کا کام تمام کرے گا، وہ پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیتا لیکن مختلف شکلوں میں خوب تحفے وصول کرتاہے!
چہروں پر نفرت و حقارت چھاگئی، خمار آلودنگاہوں نے تابعداری کا اعلان کیا ، وہ بولا:
-وہ لونڈا عموما اس وقت آتا ہے جب وہ ناگن ناچتی ہے، اس کے آنے کا انتظار کرو، پھر کسی طرح بھڑجاؤ، باقی لوگ۔۔۔
انہوں نے باقی ماندہ پیگ چڑھایا، ان کی آنکھوں سے انکے برے ارادے منعکس ہورہے تھے۔
٭ ٭ ٭
نماز عشاء کے بعد ، شیخ عبد ربہ نے اپنے دو ہم جماعت اماموں سے ملاقات کی، ایک کا نام خالد اور دوسرے کا نام مبارک تھا۔ وہ دونوں اس کے پہلو میں منہ لٹکائے ہوئے بیٹھے تھے۔انہوں نے کہا کہ کچھ اماموں کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اس پروپیگنڈہ کا حصہ بننے سے منع کردیا تھا۔ خالد نے شکایت بھر ے انداز میں کہا:
-عبادت گاہیں سیاسی دھینگا مشتیوں اور ڈکٹیٹروں کی تائید کے لیے نہیں بنائی گئی ہیں !
شیخ عبد ربہ کو لگا کہ ان کا دوست ان کے زخم پر نمک چھڑک رہا ہے اور انہوں نے سوال کیا:
-کیا بھوکے مرنا چاہتے ہو؟
ایک بوجھل سناٹا پسر گیا شیخ نے اپنی شکست تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور ان دونوں کے سامنے اپنی ناک بچانے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ وہ اطمینان کے ساتھ یہ کام کریں گے، وہ گویا ہوئے:
-جسے کچھ لوگ دھینگا مشتی سمجھتے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہی عین حق ہو۔
شیخ کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ کر خالد دنگ رہ گیا اور بات چیت کرنے سے کترانے لگا، رہا مبارک ، تو اس نے غصہ کے ساتھ کہا:
-ہم ایک اسلامی اصول کو قتل کردیں گے ، جس کا نام امر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔
عبد ربہ اس پر غصہ ہوگئے، وہ اندر ہی اندر اپنے ضمیر پر بھی غصہ تھے جو انہیں اذیتیں دے رہا تھا۔ وہ بولے:
– بلکہ ہم ایک اسلامی اصول کو زندہ کریں گے جس کا نام ہے ۔ اللہ ، اس کے رسول اور أولی الأمر کی اطاعت کی دعوت دینا۔
مبارک نے اس پر سخت نفرت بھرے انداز میں سوال کیا:
-کیا تم اِنہیں أولی الأمر سمجھتے ہو؟!
عبد ربہ نے چیلنج بھر ے انداز میں اسی سے سوال کیا:
-یہ بتا خطبہ دینے سے انکار کردے گا؟
مبارک ناراض ہوکر اٹھ کھڑا ہوا، پھر وہاں سے چلا گیا، تھوڑی دیر میں خالد بھی وہاں سے چلاگیا۔ شیخ نے دونوں کو کوسا اور بغاوت پر آمادہ اپنے دل کو بھی برا بھلا کہا۔
٭ ٭ ٭
آدھی رات سے تھوڑا پہلے، داہنی طرف سے ساتویں کوٹھے کا صحن نشیڑیوں سے بھر گیا ۔ وہ ایک ریتیلی زمین کے ارد گرد دائرہ کی شکل میں لگی لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ اس ریتیلی زمین پر روشنی کا فوکس تھا ۔ نبویۃ گلابی رنگ کا سلیپنگ ڈریس پہنے ناچ رہی تھی۔ تالیاں بج رہی تھیں ، خمار آلود زبانوں سے وحشیانہ چیخیں بلند ہورہی تھیں اور شلضم کی نگاہیں کوٹھے کے دروازے پر مرکوز تھیں۔ اچانک حسان ترتیب سے سنوارے ہوئے بالوں اور دمکتے چہرے کے ساتھ داخل ہوا۔ شلضم کی دہکتی نگاہوں نے اس کا تعاقب کیا ۔ حسان کھڑا نبویۃ کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ اس کو اس کی آمد کا پتہ چل گیا۔ نبویۃ نے دراز مسکراہٹ ، رقص کناں پیٹ کی الھڑ حرکت اور آنکھوں کے اشارے سے اپنے محبوب کو خوش آمدید کہا۔
حسان اکڑ کر آگے بڑھتاہے اور ایک خالی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ شلضم کا خون کھول اٹھتا ہے اور وہ سیٹی کی ہلکی سی آواز نکالتا ہے۔ اس کے گینگ کے دولڑکے آپس ہی میں بھِڑ جاتےہیں، دوسرے لوگ بیچ بچاؤ کے لیے آتے ہیں، لڑائی مزید سخت ہوجاتی ہے یہاں تک کہ نشہ میں دھت لوگ دروازے کی طرف بھاگنے لگتےہیں ایک کرسی فانوس پر آکر لگتی ہے ، فانوس ٹوٹ جاتا ہے اور چاروں طرف سخت تاریکی پھیل جاتی ہے۔ پیروں کی دھمک کے ساتھ چیخ کی آواز خلط ملط ہوجاتی ہے ۔ آوازیں بلند ہوجاتی ہیں ، کسی عورت کی چیخ فضا میں بلند ہوتی ہے، اس کے فورا بعد کوئی آدمی بری طرح کراہتا ہے ۔ جلد ہی غبار آلود صحن لوگوں سے خالی ہوجاتاہے، وہاں باقی بچتی ہیں تو دو لاشیں جو پڑی پڑی خاموش تاریکی کو آبادکئے ہوتی ہیں۔
اگلا دن جمعہ کا تھا ۔ نماز کے وقت دیگر دنوں کے برعکس مسجد نمازیوں سے بھر گئی ، کیونکہ جمعہ کی نماز کے لیے دور دراز علاقوں جیسے خازند ار اور عتبۃ سے بھی لوگ آتے تھے ۔ قرآن کی تلاوت کی گئی ، پھر شیخ عبد ربہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے ، ایسا لگا کہ سیاسی خطبہ سن کر نمازیوں کو دھچکا لگا ، انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ سب سننے کو مل سکتا ہے، اطاعت اور وفاداری کے وجوب پر مقفع مسجع عبارتیں سن کر وہ شک اور شدید غضب کے شکار ہوگئے۔ جیسے ہی خطبہ میں ان لوگوں کو برا بھلا کہاگیا ’’جوقوم کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنے ذاتی مفادات کے لیے لوگوں کو بغاوت پر ابھارتے ہیں ‘‘، مسجد میں واویلا مچ گیا ، چاروں طرف احتجاج و ناراضگی کی صدا بلند ہوئی، کچھ لوگوں نے بآواز بلند اعتراض کیا ، کچھ دوسرے لوگوں نے امام کو گالیاں دیں، اسی وقت نمازیوں کے درمیان موجود جاسوس اٹھے اور احتجاج وغصہ کے طوفانی شور وشرابہ کے درمیان بہت زیادہ مخالفت کرنے والوں کو کھینچ کر باہر لے گئے۔
بہت سے لوگ مسجد چھوڑکر چلے گئے۔ لیکن امام نے باقی لوگوں کو نماز کے لیے بلایا، بڑی غمناک اور رنجور نماز تھی۔
٭ ٭ ٭
اسی دوران ، بائیں جانب سے دوسرے کوٹھے کے ایک کمرہ میں ایک طوائف اور ایک گاہک موجود تھے، طوائف بیڈ کے کنارے نیم برہنہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیالہ تھا جو آدھا پانی سے بھر اہوا تھا اور اس میں کھیر ا تھا، وہ وہی کھیرا کھا رہی تھی۔ بستر کے سامنے ایک کرسی پر گاہک بیٹھا ہوا تھا، وہ اپنی جیکٹ نکال رہا تھا اور برانڈی کی چسکیاں لے رہا تھا۔ اس کی نگاہوں نے سرسری طور پر کمرے کا جائزہ لیا، پھر آکر طوائف پر ٹھہر گئیں، اس نے جام اس کے ہونٹوں سے قریب کیا، اس نے ایک گھونٹ پی، اس نے جام پھر اس کے ہونٹوں سے لگایا، مسجد سے آنے والی تلاوت کی آواز ان کے کانوں پر پڑی، اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی نادیدہ مسکراہٹ مرتسم ہوگئی ، اس نے اس کی طرف دیکھا اور غصہ سے بڑ بڑایا:
-یہ لوگ اس جگہ مسجد کیوں بناتے ہیں؟ پوری دنیا میں انہیں کوئی اور جگہ نہیں ملی ؟
طوائف نے بغیر کھیرا کھانا بند کئےہوئے کہا :
– یہ جگہ بھی دوسری جگہوں کی طرح ہی ہے۔
اس نے دوپیگ چڑھائی اور تیز نگاہوں سے اس کے چہرہ کو ٹٹولتے ہوئے کہا:
– کیا تو اللہ سے نہیں ڈرتی؟
-ہمارا رب ہمیں معاف کردے گا۔۔۔
اس کے حلق سے ایک طوفانی قہقہہ بلند ہوا، اس نے کھیرا طوائف کے ہاتھوں سےلے کر اپنے منہ میں ٹھونس لیا، اس لمحہ امام عبد ربہ اپنا خطبہ دے رہے تھے، وہ سر جھکائے ان کی باتیں سنتا رہا، پھر استہزائیہ انداز میں مسکرا کر بولا:
-منافق !۔۔ سنو تو یہ منافق کیا کہہ رہا ہے!
اس نے اپنی نگاہیں کمرہ میں دوڑائیں ۔ اس کی نظر سعد زغلول کی ایک تصویر پر آکر رک گئی جو پرانی ہونے کی وجہ سے دھند لاگئی تھی ، اس نے تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:
– انہیں پہچانتی ہو؟
-انہیں کون نہیں پہچانے گا؟
اس نے جام میں بچی کھچی شراب اپنے پیٹ میں انڈیل لی اور بوجھل زبان میں کہا :
– طوائف محب وطن اور شیخ منافق!
اس نے کراہتے ہوئے کہا:
-ہائے رے قسمت ! وہ دولفظ بول کر خزانہ لوٹ لیتا ہے اور ہمیں دو آنہ اس وقت تک نہیں ملتاجب تک کہ ہم اپنے پورے جسم کا پسینہ نہ بہادیں۔۔
اس نے مزید چٹکی لیتے ہوئے کہا:
– یہاں بہت سے عزت دار لوگ ہیں جو تمہاری اس بات سے ذرہ برابر بھی اختلاف نہیں رکھتے، لیکن ایسا کہنے کی ہمت کون جٹائے ؟
-نبویۃ کے قاتل کے بارے میں سب کو معلوم ہے ، لیکن اس کے خلاف گواہی دینے کی ہمت کون جٹائے ؟
اس نے اپنا سر افسوس کے ساتھ ہلایا اور بولا:
– نبویۃ!۔۔۔۔ بیچاری ! ۔۔۔۔ اس کا قاتل کون ہے؟
-شلضم ، اللہ اسے واصل جہنم کرے۔۔۔
-اے ساتر، اے رب، رب اس کا گواہ ہے، اچھا ہے کہ اس ملک میں صرف ہم ہی گناہ گار نہیں ہیں۔۔۔
اس نے اسے ڈانٹ کر کہا:
-لیکن تم بات کرنے میں وقت برباد کردیتے ہو۔۔!
٭ ٭ ٭

یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
شیخ عبد ربہ نے مسجد میں وقوع پذیر ہونے والے حادثہ کا استعمال اپنے مفاد کے لیے کرنے کا عزم کیا ، انہوں نےوزارت کو ایک شکایت نامہ بھیجا جس میں انہوں نے لکھا کہ انہیں اپنے قوم پرست خطبہ کی وجہ سے پریشانیوں اور دست درازیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نےاس واقعہ کوبطور خاص ان کی دفاع کے لیے پولیس والوں کی دخل اندازی اور حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے معاملہ کو بعض اخباروں میں مبالغہ آمیز شکل میں شائع کروانے کی کوشش کی ، انہیں قوی امید تھی کہ وزارت ان کی حالت بہتر کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے گی۔ لیکن عصر کے وقت انہیں ایک نئی صورتحال کا سامنا تھا ۔ عصر کے درس کے وقت آج کوئی سامع نہیں تھا، انہوں نے دروازہ سے جوس کی دکان کی طرف نظر دوڑائی ، جوس والا اپنے کام میں منہمک تھا ، انہیں لگا کہ وہ درس بھول گیا ہے، وہ دروازے کے قریب آئے اور اس کا نام لےکر پکارا:
– چچا حسنین ، درس۔
چچا حسنین نےآواز پر بلا ارادہ اپنا سر گھمایا ، لیکن جلد ہی سختی کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رخ پھیر لیا۔شیخ عبد ربہ خجل ہوگئے ، اسے پکارنے پر پچھتائے اور اسے کوستے ہوئے لوٹ گئے۔
فجر کی اذان کا وقت تھا ، رات کا سناٹا پسرا ہواتھا، ہوا میں ٹھنڈک تھی اور چاند آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ مؤذن اذان گاہ پر چڑھا اور فضا میں ’’اللہ اکبر ‘‘ کی آواز بلند ہوگئی ۔ ابھی وہ اذان کے کلمات دہرانا چاہتا ہی تھا کہ فضا میں بمباری شروع ہونے کا خوفناک الارم بلند ہوا، اس کا دل بڑے زور سے دھڑکا اس نے اللہ کی پناہ مانگی ، اپنے اعصاب پر قابو پایا اور دوبارہ اذان کےکلمات جاری رکھنے کوتیار ہوا۔ الارم بند ہوگیا تھا۔ بمباری کا الارم تقریباً ہر رات کا معمول بن گیا تھاجو صحیح سلامت گزر جاتاتھا۔ یہ اس وقت سے جاری تھا جب سے اٹلی نے اتحادیوں کے خلاف جنگ کا اعلان کیاتھا۔ وہ پوری قوت کے ساتھ بولا : لا إلہ الااللہ اور اس میں غنائیت لانے کی کوشش کی۔ اچانک ایک خوفناک دھماکہ ہوا جس سے زمین دہل گئی۔ اس کی آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔ وہ جہاں تھا وہیں ساکت و جامد کھڑا رہ گیا۔ اس کے پہلولرز رہے تھے اور اس کی آنکھیں دور افق پر ٹھہری ہوئی تھیں جہاں سرخ شعلہ دکھائی دے رہاتھا۔ وہ دروازے کی جانب بھاگا اور لرزتے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ وہ مسجد کے فرش پر پہونچتے ہی امام اور خادم کی جانب بھاگا اور لرزاں آواز میں کہا:
-پھر سے حملہ ہوا ہے۔۔کیا کریں؟
امام نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
-پناہ گاہ دور ہے۔ اب تک لوگوں سے بھر چکی ہوگی۔ مسجد کی عمارت بہت مضبوط ہے ، فی الحال یہی سب سے بہتر پناہ گاہ ہے۔
وہ سب ایک کونے میں بیٹھ گئے اور تلاوت کرنے لگے۔ باہر کی طرف سے مختلف آوازیں آنے لگیں ۔۔۔ تیز قدموں کی چاپ ، چیخ وپکار، فکرمند تبصرے، دروازوں کے کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں۔ ایک بار پھر زمین یکے بعد دیگرے بمباری سے دہل اٹھی، اعصاب پر خوف سوار ہوگیا اور دلوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ مسجد کا خادم چلایا:
-بال بچے گھر میں ہیں ، گھر پراناہے، امام صاحب!
امام نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا:
– اللہ موجود ہے ۔۔۔اپنی جگہ سے ہلنا مت۔۔
لوگوں کی ایک بھیڑ مسجد میں آئی ، کچھ لوگوں نے کہا:
– یہ محفوظ جگہ ہے۔۔
ایک کھردری آواز آئی:
– یہ حقیقی حملہ لگتاہے ، بیتی راتوں سے الگ۔۔
امام آواز سن کردل گرفتہ ہوگیا۔ یہ جانور نما آدمی ، اس کا یہاں پایا جانا کسی بری خبر کا پیش خیمہ لگتا ہے ۔ کچھ اور لوگ آئے ، اب کی بار پہلے سے زیادہ تھے۔ کچھ زنانہ آوازیں آئیں جن سے امام کے کان نا مانوس نہیں تھے۔ ایک آواز آئی:
-میرا سارا نشہ ہرن ہوگیا ہے۔۔
امام ہتھے سے اکھڑ گیا اور پوری قوت کے ساتھ چلایا :
– پناہ گاہ جاؤ ، اللہ کے گھروں کا احترام کرو، سب نکلو یہاں سے۔
ایک آدمی چیخا :
-چپ رہئے جناب ۔
ایک تمسخر آمیز ہنسی کی آواز آئی پھر شدید دھماکہ کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی ۔ مسجد چیخ کی آوازوں سے گونج اٹھا۔ امام پر رعب طاری ہوگیا اور وہ گویا بموں کو مخاطب کرتے ہوئے جنونی انداز میں چیخا:
-نکل جاؤ یہاں سے ۔اللہ کے گھروں کو گندا مت کرو۔
ایک عورت بولی:
– شرم کرو۔
امام پھر چیخا :
– نکل جاؤ، تم پر اللہ کی لعنت ہو۔
عورت نے ترکی بہ ترکی جواب دیا:
– یہ اللہ کا گھر ہے ، تیرے باپ کا نہیں !
ایک کھر دری آواز آئی :
-چپ ہوجائیں ، جناب! ورنہ میں آپ کی سانس کی ڈور کاٹ دوں گا۔
سخت تبصرے ہونے لگے ، تمسخر آمیز الفاظ کا تبادلہ ہونے لگا۔ مؤذن نے امام کے کان میں کہا:
– خدا کے لیے چپ ہوجائیں۔
عبد ربہ نے رک رک کر کہا گویا انہیں بولنے میں پریشانی ہورہی تھی۔
-تم چاہتے ہو کہ مسجد میں یہ لوگ رکیں؟
مؤذن نے گڑ بڑاتے ہوئے کہا:
-ان کے پاس اس کے سوا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ بھول گئے آپ کہ محلہ پرانا ہے، گھروں پر مکےبھی برسادیں تو گر جائیں گے، بم کی بات ہی چھوڑ دیں ۔
امام نے اپنے ایک ہاتھ سے دوسری ہتھیلی پر مکا مارا اور کہا:
– میرا دل ان بدمعاشوں کے ساتھ ایک ہی جگہ اکٹھا ہونے پر مطمئن نہیں ہے۔ان کے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونے میں ضرور اللہ کا کوئی حکم پوشیدہ ہے۔
ایک بم اورپھٹا ، ان سب کو لگا کہ بم میدانِ خازندار میں پھٹا ہے۔ مسجد کے صحن میں ایک بجلی چمکی جس کی روشنی میں لرزتے سائے دکھائی دئے، پھر تاریکی چھاگئی۔ حلق سے پریشان آوازیں نکلیں ۔ عورتوں نے ہاہا کار کی اور شیخ عبد ربہ کی بھی چیخ نکل گئی ۔ شیخ عبد ربہ سر اسیمہ ہوکر مسجد کے دروازہ کی جانب سرپٹ بھاگے۔ مسجد کا خادم ان کے پیچھے انہیں روکنے کے لیے دوڑا ، لیکن انہوں نے اسے پوری قوت کے ساتھ دھکیل دیا اور کہا:
– مرنے سے پہلے تم دونوں بھی میرے پیچھے ہو لو۔۔۔
وہ دروازے سے لرزتی ہوئی آواز میں یہ کہتے ہوئے نکل گئے:
-ان سب کے ایک ہی جگہ پر اکٹھا ہونے میں ضرو ر اللہ کا کوئی حکم پوشیدہ ہے۔
اور دوڑتے ہوئے سخت تاریکی کا حصہ بن گئے۔ اس کے بعد بمباری دس منٹ تک جاری رہی اور اس دوران چار بم گرے ۔ شہر پر مزید پندرہ منٹ تک سکوت طاری رہا پھر بمباری بند ہونے کا الارم بجا۔
دھیرے دھیرے رات کی تاریکی چھٹتی گئی ۔۔۔ پھر صبح نجات کے آثار نمودار ہوئے۔
لیکن شیخ عبد ربہ کی لاش سورج نکلنے پر ہی مل پائی۔
٭ ٭ ٭

اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے نجیب محفوظ کی اس کہانی کا ترجمہ جناب شمس الرب نے عربی سے کیا ہے۔ جملہ حقوق بحقِ مترجم محفوظ ہیں
جناب شمس الرب شعبہ عربی ، مہاراشٹر کالج ، ممبئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ حال ہی میں انھوں نے اردو چینل کے لیے فلسطینی افسانوں کا ترجمہ کیا تھا جو اردو دنیا میں بہت مقبول ہوا تھا۔ شمس الرب عربی ، اردو اور انگریزی زبان پر اچھی قدرت رکھتے ہیں۔

Second Life A Short Story by Searl. S. Buck

Articles

دوسری زندگی

پرل ایس بک

پیر کی صبح ڈریک فاریسٹر معمول سے بھی زیادہ بے دلی کے ساتھ سوکر اٹھا۔سنیچر اور اتوار کے روز اس کے ایجنٹ کا دفتر بند رہتا تھا،اس لیے دودنوں تک وہ نہ تو کوئی سوال کرسکا اور نہ ہی جواب سن سکا۔سوال ہمیشہ وہی رہتاور جواب بھی۔’’کچھ پتہ چلا نِک؟‘‘
’’نہیں ڈریک،سوری،اب تک تونہیں۔میں نے چارہ تو کئی جگہ رکھاہے،تمہیں بتایا ہی تھا، مگر کوئی مچھلی نہیں پھنسی۔‘‘
’’نہیں پھنسی؟‘‘اگلے دو جملے بھی ہمیشہ وہی رہے۔
’’شکریہ نِک۔اگر تھوڑی سی بھی امید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!‘‘
’’مجھے پتہ ہے اولڈ مین۔میں پانچ منٹ میں تمہارے دروازے پر رہوں گا۔‘‘اگلے الفاظ جھجھکتے ہوئے بولے بھی جاسکتے تھے ،نہیں بھی۔’’کیا میں تمہیں بتادوں میں کہاں رہوں گا؟‘‘
’’نہیں،نہیں،ابھی ایسا موقع نہیں ملاہے اولڈمین۔‘‘وہ ایک تیسرے درجے کی عمارت میں اپنے ایک کمرے کے فلیٹ سے کہیں باہر نہیں جاتاتھا۔بس کبھی گھومنے یا کسی سستے سے ریستوراں میں کھانا کھانے باہر جاتا تھا۔وہ ختم ہوچکا تھا، بالکل ختم،شروعات کی امید بجھ چکی تھی۔وہ سارے کردار جو اس نے نبھائے تھے،آخری ڈرامے میں قریب قریب ہیروتک،اسے کہیں نہیں پہنچاسکے۔وہ ا بھی عمر دراز نہیں تھا۔مشکل سے پینتالیس کا، لیکن کامیابی کی سنہرا موقع کبھی نہیں آیا۔اسے جو مواقع ملے تھے اس نے اس سے فائدہ تو اٹھایا،مگر وہ بطورِ ہیرو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ ڈرامہ نگار اس کی عمر کے کرداروں میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے تھے۔ وہ جوان، مضبوط،طاقتور کرداروں کو لے کر ڈرامے قلمبندکررہے تھے۔وہ ایسا نہیں تھا اور ہوبھی نہیں سکتا تھا۔وہ اپنے وقت کے باہر پیداہوا تھا،اپنے وقت سے بہت پہلے یا بہت بعد میں۔پرانی دنیا کی تہذیب ختم ہوچکی تھی اور نئی امریکی تہذیب کی ابتداء نہیں ہوئی تھی۔وہ یہی سب کچھ سوچ کر خود کو بری کرتا تھا۔اس کے لے کوئی جگہ نہیں تھی۔
خوش قسمتی سے اس نے شادی نہیں کی تھی،وہ اور سارہ انتظار کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔ پھر سارہ نے کسی اور سے شادی کرلی جسے وہ نہیں جانتا تھا۔وہ اسے کوئی الزام نہیں دیتا۔پانچ سال بے حد طویل وقت ہوتا ہے اور اس کے بعدبھی سارہ کو کیا ملتا؟برسوں پہلے تھا یہ سب،بارہ برس، تین مہینے، دو دن پہلے۔اس نے سارہ کی تصویر بھی اخبارات میں نہیں دیکھی تھی،اس کے شوہر کے انتقال کے بعد، دوسال، چار مہینے،چھ دن۔اس نے اسے کوئی چٹھی بھی نہیں لکھی۔
وہ بے دلی سے اٹھااور اخبار لینے کے لیے دروازے تک آیا۔فی الوقت یہی لمحات اس کے لیے آرام کے ہوتے تھے جب وہ اخبار لے کراپنے گرم بستر میں گھس جاتا تھا۔آج اس کا بستر خاص آرام دہ تھا۔ٹھنڈی بسنتی ہوا آرہی تھی۔کھڑکی بند کرتے ہوئے اس نے دیکھا بارش ہورہی تھی۔ کم از کم اس کے پاس اس کمرے،اس بستر کاتوسہاراتھااور وہ اتنا ہوشیار توتھا کہ بھوکوں مرنے کی نوبت نہ آئے۔ایک وقت کھانا اور کرایہ طے تھا۔اس طرح احتیاط میں کوئی خوشی تو نہیں تھی مگر خراب موسم میں باہر نکلنے کی کوئی مجبوری بھی نہیں تھی۔اس نے بتی کی طرف والی دیوار کے پاس اخبار پھیلایااور تھیٹروالاصفحہ پلٹ کر اسے غور سے پڑھا۔کوئی خبر نہیں تھی۔اس موسم کے سبھی ناٹک جم چکے تھے اور اب گرمی کے تھیٹر میں ہی کچھ توقعات تھی۔اسے اس بارے میں نِک پرزور دے کر بات کرنا ہوگی۔نِک لاپرواہ ہوتا جارہا تھا، دوستی اور پرانی کامیابی کے روابط ڈھیلے پڑتے جارہے تھے۔پھربھی و ہ کسی اورایجنٹ کے پاس جانے کی ہمت نہیں جُٹا سکتاتھا،اگر کوئی اور اسے لے لیگاتب بھی۔نِک کم از کم اسے جانتا تو تھا۔اسے یہ نہیں بتانا پڑتا کہ وہ کیا کام کرسکتا ہے۔
اسی پل پلستر کی ہوئی دیوار پر پہلے سے بے ترتیب بتی گر پڑی۔اس نے غصے میں اخبار پھینک دیا اور پھر سمیٹنے اٹھاہی تھاکہ پھیلے ہوئے صفحات سے اسے اپنانام جھانکتا نظر آیا۔
’’ڈریک فاریسٹر اپنے گھر میں مردہ پائے گئے۔‘‘
یہ آخری صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی تھی۔وہ اسے کھڑکی کے پاس لے گیا اور اپنی ہی موت کی خبر پڑھنے لگا۔’’ڈریک فاریسٹر،اداکار اپنے بستر پر مردہ پائے گئے۔انہیں لفٹ مین نے دیکھا جو اخبار پہنچانے آیا تھا۔مسٹر فاریسٹر نے ابتدا میں مشہور براڈوے ڈراموں میں کام کیاتھا۔ انہیں ہالی ووڈ سے بھی کئی باربلاوا آیا،مگر انہوں نے اسٹیج کوہی فوقیت دی اور ہالی ووڈ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔حالیہ برسوں میں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔‘‘اخبار اس کے ہاتھ سے گرپڑا۔وہ نِک کو فون کرنے دوڑا۔اس خبر کی تردید کرنا ضرور تھا۔ نِک کو پریس میں خبرکرنی ہوگی،وہ اخبار والے کو نوٹس بھیجے گا۔ادھر سے ہلکی سی آواز آئی،’’نکولس جین سین ایجنسی۔‘‘
’’اوہ،ہاں!‘‘اس نے ہمیشہ کی طرح پریشانی میں ہکلاتے ہوئے کہا،’’کیا مسٹر جین سن ہیں؟‘‘
’’مسٹر جین سن آج نہیں آئیں گے۔‘‘
’’اوہ،کیا آپ کو پتہ ہے کہ وہ کہاں ہوں گے؟‘‘
’’وہ یہاں نہیں ہیں۔وہ ایک اہم کلائنٹ کے ساتھ ویک اینڈ منانے گئے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘وہ ہچکچایا۔اس ٹھنڈی آواز کے آگے کیا کہا جائے،یہ نہ سمجھ پاتے ہوئے اس نے فون رکھ دیا۔ایک پل بعد وہ بستر میں تھااور اس نے آنکھوں تک چارد اوڑھ لی تھی۔ اخبار زمین پر گرپڑااور تنہائی میں ڈوب گیا۔کسے فکر تھی کہ یہ خبر سچ ہے یا نہیں؟طویل عرصے سے کسی نے اس کی کھوج خبر نہیں لی۔ اس کی بہن کی برسوں سے کوئی خبر نہیں تھی۔وہ شادی کے لیے ٹیکساس میں بس گئی تھی۔اس کے والدین بیس سال قبل ہی چل بسے تھے۔خدا کا شکر ہے تب یہ بھرم تھا کہ ان کا بیٹا بہت نامی گرامی انسان بننے والاہے۔تھیٹرسماجی زندگی تباہ کردیتا ہے۔اس کے باہر آپ کی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ اس لیے رشتہ دار، دوست احباب ایک ایک کرکے چھوٹ گئے۔وہ مر ہی تو گیا تھا۔
یہ مُردوں سی زندگی گزارنا بھی عجیب سا احساس پیدا کرتا تھا۔حالانکہ وہ اپنے کمرے میں زندہ تھا،سانس لے رہاتھا،مگر وہ مرچکا تھا۔اس کا ڈرامائی دماغ کام کررہا تھا۔اس نے کہانیاں پڑھی تھیں۔اس موضوع پر ایک ڈرامہ بھی دیکھا تھا جب ایک شخص کے مرنے کا اعلان کردیا گیا مگر اس نے ایک نئی اور مکمل آزادزندگی شروع کی تھی،سارے قرض معاف ہوگئے تھے۔ساری ناکامیاں دور ہوگئی تھیں۔وہ بھی چاہے تو اپنی آزادی کا خیر مقدم کرسکتا ہے،وہ بالکل نیا کچھ کرسکتا ہے۔نیا نام رکھ کر سب جان پہچان والوں سے دور جاسکتاہے۔اس نے خود کو دنیا بھر میں گھومتے دیکھا، ہر شہر میں ایک الگ انسان کی طرح،لندن،پیرس،وینس یا شکاگو اور سان فرانسسکو۔کوئی مشکل درپیش نہیں تھی۔ وہ تھیٹر کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا چاہتاتھا۔چاہے وہ کچھ بھی کرے،خاتمہ یہی ہوگا،اکیلے کمرے میں، ایجنٹ کام کھوجنے کی کوشش میں لگا ہوا۔اور کیا کوئی ایجنٹ بنا کسی پہچان والے آدمی کے لیے کام تلاش کرے گا؟کم از کم ڈریک فاریسٹر کبھی کچھ تھاتو!ایک یاد توتھی۔طویل عرصے سے وہ رویا نہیں تھا مگر آج اسے رونا آگیا۔چند آنسوئوں کے قطرے گرے وہ بھی خود کے لیے نہیں بلکہ اس جیسے ہر کسی شخص کے لیے۔وہ اکیلاتو نہیں ایسی حالت میں۔خود کو بھرم میں رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔اس کے پاس تھوڑاسا ہنر تھا،تھوڑی سی صلاحیت،اچھا بدن اور خوبصورتی۔ہاں،وہ خوبصورت تھا،اب بھی ہے۔یہ سب چیزیں مل کر اسے اوسط سے کچھ اوپر لے آئے تھے۔مگر یہ کافی نہیں تھااور اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لیے اتناکافی نہیں ہوگا۔
بہتر ہے کہ مرہی جائوں؟یہ آسان ہوگا۔اس نے اس بارے میں سوچاتھا۔ایک اکیلے اور ناکام شخص کی طرح۔کبھی اس طرح کا قدم اٹھانے کے بارے میں طے نہیں کیاتھا۔ مگر پھر بھی امکان تھا۔روزانہ رات کو نیند کی گولیاں نگلتے وقت وہ سوچتا کہ موت اس کی ہتھیلیوں پر ہے۔سفید سفید چھوٹی گولیاں دیکھتے ہوئے وہ اپنی معمولی صلاحیت کے ساتھ سوچتا۔اگر وہ چاہے تو ایسا کرسکتا ہے۔
اب کسی اور نے اس کے لیے یہ سب کردیا تھا۔اس کے ہم نام شخص نے۔اس نے اخبار اٹھایا اور دوبارہ پڑھا۔اس کی موت کا کوئی سبب نہیں دیاگیاتھا۔بس خبر دی گئی تھی اس کی کچھ کامیابیوں اور آہستہ آہستہ اسٹیج سے دور ہونے کی وضاحت کی گئی تھی،یہ سب قابلِ افتخارلگ رہا تھا۔اگر ابھی وہ سچ مچ مرگیاتو اس کے اثرات ختم ہوجائیں گے۔یہ گندہ سا کمرہ،نِک کے پیچھے مسلسل لگے رہنا،پھٹی پرانی قمیض اور پاجامے،یہ سب چھوٹی چھوٹی اور بیکار باتیں جو وہ زندہ رہ کر تو چھپاسکتا تھا مگر موت کے بعد یہ سب کچھ ظاہر ہوجائے گا۔اسے تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ کوئی اس کی جگہ اتنی اچھی طرح مرگیا ہے۔ انہوں نے پتہ صحیح دیا تھا،یہی عمارت،یہی سڑک۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیل گئی۔اور اچانک اسے بھوک کا احساس ہوا۔ وہ اٹھے گا، کافی اورٹوسٹ بنائے گااورنِک کو کبھی فون نہیں کرے گا۔وہ یہاں سے چلا جائے گا،کبھی مغربی سمت نکل جائے گا۔پھریوں ہی ہالی ووڈ میں کوئی کام تلاش کرلے گا،سیٹ کے آس پاس۔دیکھ بھال کرنے والے کا کام بھی۔کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔کیوں کہ اس کا نام مرچکاتھا۔
بستر کے پاس کی میز پر وہ کافی پی رہا تھا کہ فون بج اٹھا۔وہ اٹھا اور کریڈل کان سے لگایا۔ ایک اجنبی آواز،کسی خاتون نے کہا،’’کون بول رہا ہے،پلیز؟‘‘اپنانام اس کی زبان تک آیا،لیکن اس نے قدرے توقف کے بعد کہا،’’آپ کو کون چاہیے؟‘‘
’’میں نے ابھی ابھی اخبار میں دیکھا۔میں ڈریک فاریسٹر کو جانتی تھی،چند سال پہلے۔ ہم نے ایک ڈرامے میں ایک ساتھ کام کیا تھا۔وہ بہترین اداکار تھا،میں اکثر سوچتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوراب وہ نہیں رہا۔‘‘وہ ہچکچایا اور پھر اسی بھاری آواز میں بول اٹھا،’’سوری میڈم،آپ کے پاس غلط نمبر ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون رکھ دیااور بستر پر بیٹھ گیا۔لیکن یہ حیرت انگیز تھاواقعی۔وہ خالی دیوار کو گھورتا آواز کو پہچاننے کی کوشش کرتا ہوا بیٹھارہا۔لیکن آواز یاد نہیں کرپایا۔چلو کسی نے تو یاد رکھا۔اسے خوشی ہوئی اور اس نے بارش کا حال دیکھنے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھا۔موسم خوشگوار ہونے پر وہ گھومنے نکل جاتا۔مگر اب بھی بارش ہورہی تھی۔وہ واپس بستر میں داخل ہواہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔وہ پھر اٹھااور دروازہ کھولا۔عمارت کا پہریدار پھولوں کا چھوٹا سا باکس لیے کھڑاتھا۔
’’اوہ،شکریہ۔‘‘ڈریک نے کہا۔’’ایک منٹ رکو۔‘‘اس نے کرسی پر رکھی پینٹ کی جیب سے ایک ڈائم نکالا اور اسے دیا۔’’شکریہ۔‘‘پہریدار نے کہا۔
دروازہ بند کرکے اس نے باکس کھولا۔سفید گلاب اور اسنیپ ڈریگن تھے، ہرے فرن کے ساتھ۔کارڈ پر تحریرتھا،بہترین وفات کی یاد میں،اور نیچے سات نام درج تھے۔اسے وہ لوگ یاد تھے۔ ’دریڈسرکل‘ڈرامے میں ان لوگوں نے چھوٹے چھوٹے کردار ادا کیے تھے۔اس سال یہ ڈرامہ ہٹ ثابت ہوا تھا۔یہ تھریلرتھااور وہ قتل کی گئی ہیروئن کاشوہر بنا تھا۔مگر اس ڈرامے کا ہیرو عاشق تھا،شوہر نہیں۔پھر بھی اچھا چلا تھاڈرامہ اور اس نے وہ پیسے سارہ سے شادی کرنے کے لیے جمع کیے تھے۔لیکن اسی سال سارہ نے ہیریسن بیچ سے شادی کرلی تھی۔اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اگر وہ کامیاب ہوتا تو اس نے بھی کسی سے شادی کرلی ہوتی۔
اس نے پھولوں کو ٹن کی ٹوکری میں ڈالا اور پانی بھرکر کھڑکی میں رکھ دیا۔اس نے پھر سونے کی بجائے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔یہ اپریل تھااور آسمان صاف ہورہا تھا۔اس نے شاور لیااور سلیقے سے کپڑے زیب تن کیے۔جب تک سڑک پر آیا بادل چھٹ رہے تھے اور نیلاآسمان بیچ بیچ سے جھانک رہا تھا۔وہ ہمیشہ کی طرح چھ بلاک گھومااور چونکہ کوئی اسے نام سے نہیں جانتا تھا،اس لیے کوئی حیرت زدہ بھی نہیں ہوا۔اس نے ایک ڈرامے سے متعلق میگزین خریدا۔اور سوچا کہ پارک میں بیٹھنے کے لیے موسم ٹھنڈا ہے یا نہیں۔اس نے محسوس کیا کہ موسم زیادہ سر دہے اس لیے وہ واپس کمرے میں چلا آیا۔نِک کوفون نہیں کرنے سے اس کے پاس کام نہیں تھا مگر اس نے فون نہ کرنے کا ارادہ کرلیا۔جب وقت آئے گا سوچا جائے گا کہ کہاں جاناہے،یا پھر وہ کہیں نہیں جائے گا۔جب وہ کمرے میں آیاتو دروازے میں ایک لفافہ اٹکاہواتھا۔یہ نِک کا تار تھا،’’خدا کے لیے مجھے فون کرو۔گھنٹوں سے تمہیں فون کررہا ہوں۔شہر کے لیے پہلی ہی ٹرین سے لوٹ آیا ہوں۔‘‘
وہ بیٹھ گیا۔ہیٹ اب بھی اس کے سر پر تھا۔اس کا کیا مطلب تھا،نِک کو اس کے مرنے کا یقین تھا یانہیں؟شاید اس نے خبر دیکھی ہواور بھروسہ نہ کیا ہو۔یا پھرنِک کو لگا کہ اس کے ساتھ کوئی رہتا ہوگا۔اس نے نِک کو کبھی اپنے رہنے کے ڈھنگ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔نِک کو لگتا تھا کہ اس کی کوئی محبوبہ اس کے ساتھ رہتی ہے۔اسی نے تار بغل میں پھولوں کے گلدان کے پاس رکھ دیااور باہر چلاگیا۔پارک کی بینچ پر اس نے پورا میگزین پڑھ ڈالا۔پھر وہ دوسرے لوگوں کو دیکھتا ،کچھ سوچتا بیٹھارہا۔کچھ لوگوں کو اس نے پہچانا۔اسے لگا کہ وہ لوگ بھی اسے پہچان رہے ہوں گے۔لیکن ان کی کبھی بات چیت نہیں ہوئی تھی۔دوپہر کاوقت ہورہا تھااور اس نے کسی آٹومیٹ میںکھانا کھانے کا ارادہ کیا۔پھر واپس جاکر کمرے میں سونا۔وہ اپنے ہی احساسات کی بے ترتیبی سے تھک گیا تھا۔مرجانا بھی ایک قسم کا تجربہ ہے،وہ مسکرایا۔
پرانی عمارت میں داخل ہوتے وقت پہریدار باہر نکلا،’’آپ کی سالگرہ وغیرہ ہے کیا؟‘‘ اس نے کہا۔’’آپ باہر تھے تو دوگل دستے اورتین تارآئے ہیں۔‘‘
’’آج میری برسی ہے۔‘‘ڈریک نے کہااور دوسرا ڈائم نکال کر پہریدار کودیا۔گل دستے اٹھائے ہوئے اس نے تار جیب میں رکھے اور اوپر چڑھ گیا۔یہ سب عجیب ساہوتا جارہا تھا، اس کا کمرہ پھولوں سے بھرگیااور اتنے تار۔یہ تو واپس تھیٹرکے ڈریسنگ روم میں ہونے جیسا تھا۔موت کی خبر پڑھ کر وہ خوش ہی ہوا تھا۔اس نے خود کو پوری طرح بھلادیاگیاسمجھاتھا۔اسے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔اس نے پھولوں کو گلدان میں رکھ دیا۔پیلے گلاب اور سفیدا سائریا۔اس کے پہلے ڈرامے کے ہدایت کارکی طرف سے۔تار اس کے دوسرے ڈراموں کے اداکاروں نے روانہ کیے تھے اور ایک تار نِک کے آفس میں کام کرنے والی لڑکی کا تھا۔ڈریک کو معلوم تھا کہ وہ اس کے خواب دیکھتی ہے مگر اِن دنوں وہ سارہ کی بے وفائی سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کررہا تھا۔کارڈ ہاتھ سے لکھا تھا ،’پیاری و خوشنمایادیں‘لوئیس۔وہ اسے ہمیشہ مِس سلورسٹین پکارا کرتاتھا۔
کمرہ اچھا لگنے لگاتھا۔اس نے بستر نہیں بجھایا۔اکثر وہ اسے ایسے ہی چھوڑدیتا تھا اور واپس لیٹ جاتا تھا۔مگر آج اس نے اچھی طرح بستر سمیٹا۔ایک پرانے رومال سے میز،الماری اور کھڑکی جھاڑی۔کچھ سوچنے کے بعد اس نے پیلے گلاب اور اسپائریانکال کر ایک دودھ کی بوتل میں الماری پر رکھ دیئے۔
پھر فون بجنے لگااور اتنا بجا کہ یا تو اسے باہر جانا پڑتا یا اٹھانا پڑتا۔اس نے اطمینان سے فون اٹھایاآواز بدل کربولا،’’ہیلو‘‘مگر یہ نِک نہیں تھا،یہ کسی خاتون کی آواز تھی جو بے حد نرم و سریلی تھی۔’’ہیلو،کیا ڈریک فاریسٹر یہیں رہتے تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘اس نے جواب دیا۔پھر اس نے آواز پہچان لی ۔اس کا دل بری طرح دھڑکا۔ یہ سارہ تھی۔اس کی آواز آج تک سنی ان سنی آوازو ں میں سب سے پیاری تھی۔
’’میں نے ابھی ابھی یہ دکھ بھری خبرپڑھی۔‘‘سریلی آواز آئی۔’’کیا آپ بتاسکتے ہیں اس کی سروسیس کہاں ہوں گی؟میں اسے برسوں پہلے جانتی تھی۔میں اسے بہت پیار کرتی تھی۔ اب بھی کرتی ہوں،مگر اب میں اسے کبھی نہیں بتاسکوں گی۔‘‘
وہ کچھ کہہ نہیں سکا۔کہتا بھی کیا؟پھر بے وقوفوں کی طرح چند الفاظ اس کے منہ سے نکلے، ’’آپ نے اسے بتایاکیوں نہیں؟‘‘
ادھر سارہ حیرت زدہ تھی،’’کیاآپ اس کے دوست ہیں؟‘‘
’’ایک طرح سے دوست ہی ہوں۔اس نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔‘‘
’’اوہ،سچ مچ! تو وہ مجھے بھولا نہیں تھا؟‘‘
’’کبھی نہیں۔‘‘
وہ ان واقعات سے حیرت زدہ تھا۔کیایہ نیا جال تھاجس میں وہ خود ہی پھنستا جارہا تھا۔
’’اوہ،کیا آپ آکر مجھے اس کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘اس نے درخواست کی۔
’’آپ کہاں ہیں؟‘‘
سارہ نے کافی دوردراز سڑک کا نمبر بتایا۔جہاں وہ تھا وہاں سے بڑی دوری پر۔’’مجھے پتہ نہیں کب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے شروع کیا۔
’’نہیں،آپ ابھی آئیے۔‘‘سارہ نے پھر درخواست کی،’’مجھے اس کے بارے میں سب کچھ جاننے کا تجسس ہے۔تب میں آپ کو بتاسکوں گی کہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دراصل میں نے اسے کھودیا۔جب میرے شوہر نہیں رہے تو مجھے پتہ نہیں چلا،میں اسے کہاں تلاش کروں؟اخباروں میں بھی اس کا نام نہیں آتاتھا۔آج میں نے خبر پڑھی تو مجھے لگا کہ میں ہمیشہ سے اسے تلاش کرنا چاہتی تھی۔مجھے لگتا ہے میں بس سوچتی رہ گئی۔‘‘
’’میں آئوں گا۔‘‘اس نے وعد ہ کیا۔اس نے فون رکھ دیا۔پتہ نہیں یہ وعدہ پورا کرے گا یا توڑدے گا۔مگر اسے اب سارہ کا ٹھکانہ مل گیا تھا تو آج نہیں توکل،اسے معلوم تھا کہ وہ اس کی دہلیز پر کھڑاہوگا۔گھنٹی بجاتے ہوئے،اپنی شناخت کا انتظار کرتے ہوئے۔وہ دوبارہ زندہ ہوگیاتھا۔
فون پھر بج اٹھااور پھر سے سارہ کے ہونے کی امید میں اس نے فون کا ریسیور اٹھالیا اور پکڑاگیا،’’ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘اس نے بڑی بے تابی سے کہا۔
یہ نِک تھا،حیران پریشان۔’’یہ کیا بے وقوفوں سی حرکت ہے۔کہاں ہو تم صبح سے؟ مجھے معلوم ہے تم زندہ ہو؟‘‘
’’تمہیں کیسے معلوم تھا؟‘‘اس نے جاننا چاہا۔اسے کچھ برا لگا۔کیانِک کو لگا کہ اس میں اتنی ہمت نہیں،’’تھوڑی دیر کے لیے مجھے لگایہ سب سچ ہے،جھوٹے کہیں کے!‘‘نِک نے کہا،’’پھر میں نے خبر دوبارہ پڑھی اور دیکھا کہ وہ تم نہیں ہو۔وہ تمہیں پینسٹھ سال کا بتا رہے تھے۔تم نے دیکھا نہیں؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ڈریک نے کہا۔
’’تمہیں کبھی تاریخیں یاد نہیں رہتیں۔‘‘نِک نے جلدی سے کہا،’’انہوں نے تمہاری تاریخ پیدائش ۱۸۸۷ء؁ لکھی ہے۔مجھے معلوم تھا کہ یہ سچ نہیں ہے۔میں نے تمہارے لیے اتنی تشہیر کا کام کیا ہے۔اخبار اسے کل درست کردے گا۔میں صبح سے ہی بے حدمصروف رہا ہوں۔لگتا ہے ورجینیا میں کوئی اور تمہارا ہم نام بھی تھا۔اخبار والوں نے سب خلط ملط کردیا ہے۔اس سے سب گڑ بڑ ہوگئی ہے۔خیر اس سے تمہیں فائدہ ہی ہوا ہے۔تمہیں ایک کردار مل گیا ہے۔‘‘
’’کردار؟‘‘
’’ہاں،اچھا خاصہ کردار۔ویسے کوئی اسٹار والا رول تو نہیں ہے مگر ڈرامہ اچھا ہے۔’سا ئوتھ سائڈ آف دمون‘پہلے گرمیوں میں پھر براڈوے۔پروڈیوسر نے کہا کہ وہ تمہیں جانتا تھا۔اس نے مجھے فون کیا تھا اور کہا کہ اگر اسے اتاپتہ معلوم ہوتا تو وہ تمہیں ضرور کام دیتا۔میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ وقت دو۔تم سیدھے یہاں چلے آئو،ڈریک!اور میں کنٹریکٹ تیار رکھوں گا۔ ہم سب کچھ درست کرلیں گے۔اب میں پھر چیزوں پر دھول جمنے نہیں دوں گا۔‘‘
ڈریک طے نہیں کرپارہا تھا۔وہ ایک ساتھ دو جگہوں پر نہیں جاسکتا تھا۔یا تو وہ پہلے سارہ کے پاس جاتا یا نِک کے پاس۔اس کاڈرامائی تخئیل پھر سے زندہ ہوگیاتھا۔اس نے خود کو سارہ کے ہال میں یا پھر دیوان خانے میں انتظار کرتے ہوئے دیکھا۔پھر سیڑھیوں سے اترتی ہوئی سارہ، ہمیشہ سے ہی خوبصورت۔وہ بالکل خاموش کھڑارہے گا۔انتظار کرتے ہوئے،پھر وہ چلائے گی،’’اوہ، ڈریک ڈارلنگ۔لیکن یہ سب کیسے؟‘‘
’’کوئی اور مرا ہے سارہ،میں نہیں۔‘‘
اس نے بوسہ لینے کے لیے آنکھیں موندیں اور نازک لب یاد کیے۔سارہ بے حد نازک تھی۔ شہد بھرے لب تھے اس کے۔
’’اے،تم سوگئے ہوکیا؟‘‘نِک اس کے کان میں چلایا۔
’’میں ابھی نہیں آسکتا نِک۔مجھے بہت ضروری کام ہے۔‘‘
’’کیا کام ہے؟‘‘نِک نے چیختے ہوئے کہا۔’’کنٹریکٹ سے زیادہ کیا ضروری ہے؟‘‘
’’ہے کام،بے حد ضروری۔‘‘ڈریک نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا،’’لیکن کنٹریکٹ بنا کر رکھونِک۔میں وہاں آئوں گا کسی بھی وقت۔آج،کل یا کسی اور دن۔‘‘اس نے فون رکھ دیا اور کھویا سا کھڑارہا۔وہ آج وہاں جائے گا۔جب وہ اور سارہ صوفے پر بیٹھ جائیں گے اور ایک دوسر ے کا بوسہ لیں گے۔کھانا کھائیں گے اور ایک دوسرے کو جب ساری باتیں بتادیں گے تب وہ گھڑی کی جانب دیکھے گا اور چلائے گا۔
’’اوہ خدا،ڈارلنگ،مجھے آج کسی سے ملنا ہے۔میں بھول ہی گیاتھا۔ تمہاری وجہ سے میں سب کچھ بھول جائوں گا۔‘‘
’’کوئی ڈرامہ ہے ڈریک؟‘‘
’’ہاں،سائوتھ سائڈ آف دَ مون۔نیا ہے،اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’جلدی آنا۔‘‘وہ یہی کہے گی۔’’مجھے تم پر فخر ہے ڈریک۔‘‘یہی کہے گی وہ۔
’’میں جلدی آجائوں گا۔‘‘وہ وعدہ کرے گا۔’’ہم ساتھ ہی کھانا کھائیں گے۔اچھا؟ پھر ہم بیٹھ کر کچھ سوچیں گے۔‘‘
’’میں تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘یہی کہے گی وہ ،اپنی میٹھی آواز میں۔یہ آواز پہلے سے بھی زیادہ شہد بھری تھی۔وہ تیار ہونے کے لیے کمرے میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا۔اس کے پاس ایک نئی قمیض تھی۔وہ ہمیشہ ایک نئی قمیض رکھتا تھا۔کیا پتہ کسی ہدایت کار سے اسے ملاقات کرنی پڑے۔ پھراس نے شاور لیااور داڑھی بنائی۔پھر نئی قمیض اور اچھا سا سوٹ۔وہ ہمیشہ ایک اچھا سا سوٹ رکھتا تھا۔پھر اس نے کچھ سوچا۔اس کے لیے کچھ لے جانا چاہیے۔اس نے کمرے کے چاروں طرف دیکھا۔ شاید کوئی کام کی چیز ،کتاب یا کچھ اورتلاش کرنے لگا تاکہ بطورِ نشانی دی جاسکے۔پھر وہ چٹکی بجاتے ہوئے بولا، ’’ پھو ل اورکیا؟‘‘اس نے سارے پھول سمیٹے۔ایک باکس نکالا۔سارے پھول اس میں ڈالے اور بڑی احتیاط سے ڈوری باندھی۔پھر اس نے الماری کھولی اور گھڑی نکالی پتلی بید کی چھڑی جس کے اوپر نقلی ہاتھی دانت کی نقاشی تھی۔یہ چھڑی اس نے اس ڈرامے کے لیے خریدی تھی جس میں وہ شوہر بنا تھا۔
شیشے کے پاس رکتے ہوئے اس نے ایسا شخص دیکھا جسے اس نے ایک طویل عرصے سے نہیں دیکھاتھا،درازقد،دبلا پتلا شخص۔جس کا زرد چہرہ زندگی سے معمور تھا،چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔جس کی گہری آنکھیں چمک رہی تھیں۔معصوم سا شخص۔وہ اپنا عکس دیکھ کر مسکرایا۔اس دوسرے جنم پر بے حدخوش۔وہ جس قدر پہلے مرچکا تھا اس کے مقابلے یہ برا نہیں تھا۔’نیک خواہشات ‘ اس نے خوشی و انبساط سے دمکتے چہرے سے کہااور ہیٹ سر پر رکھتے ہوئے اسے ذرا ترچھا کیااور کمرے سے باہرنکل گیا۔
٭٭٭

پرل ایس بک 1882میں امریکہ میں پیدا ہوئیں اور1972میں انتقال فرمایا۔وہ امریکہ کی پہلی مصنفہ ہیں جنہیں’’دَ گڈ ارتھ‘‘کے لیے 1938میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بچپن سے ہی انہیں ادب سے لگائو تھا۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ چین میں بیتاتھا۔کیوں کہ ان کے والدین مشنری سے وابستہ تھے اور چین میں رہتے تھے۔ان کی شادی جان لاسنگ بک سے ہوئی تھی۔ان کی تخلیقات میں چینی کسانوں کی زندگی کا عکس نظر آتا ہے۔ان کی تصانیف میں سنس،دَبنگ ریوولیو شنِسٹ،دَمدر،دِزپرائڈ ہرٹ،دَ پیئریاٹ،اَدر گاڈز وغیرہ شامل ہیں۔

٭٭٭
پرل ایس بک کی اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
کاپی رائٹ بحقِ مترجم محفوظ ہیں

 

Murderer A Short Story by Jean Paul Sartre

Articles

قاتل

ژاں پال سارتر

لندن کی عدالت میں کل ایک غیر معمولی مقدمہ پیش ہونے والا ہے۔ مجرم کے جرم کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور ساتھ ہی وہ مقدمہ جیت جائے گا، اس میں بھی شبہ نہیں۔ مختصراً یہ کہ اس غیر معمولی واردات کا خلاصہ اس طرح ہے۔
۲۰؍مئی کی بات ہے۔ لندن کے مشہور معروف ڈاکٹر ہیلیڈن جو کہ پھیپھڑوں کے ماہر ہیں۔کے دو بڑے ہال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر مریض کے ہاتھ میں ایک کارڈ ہے۔ جس پر نمبر لکھا ہوا ہے۔ بھیڑ تو ہر روز ایسی ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ سینکڑوں تپِ دق کے مریضوں کو اس مرض سے ڈاکٹر ہیلیڈن ہِل نے شفا یاب کیا ہے۔
ہال کے چاروں طرف شیشے کی کھڑکیوں اوردروازے پر چینی رشیم کا لہراتا ہوا پردہ ہے۔ اندرونی دیوار سے لگے ہوئے بڑے بڑے جاپانی گملے ہیں جن میں مختلف ممالک میں پیدا ہونے والے رنگ برنگی موسمی پھولوں کے بڑے بڑے پودے قرینے سے لگے ہوئے ہیں اور ان سب کے درمیان میں ایک بڑی سی میز کے سامنے ابھی ڈاکٹر ہیلیڈن ہل آکر بیٹھے ہیں۔ چہرہ اطمینان و سکون سے دمک رہا ہے۔ آنکھوں میں زندگی کی چمک ہے۔ سامنے ان کا اسسٹنٹ بیٹھا ہے۔ جو آنے والے مریضوں کا مختصر تعارف ڈاکٹر کے حکم کے مطابق شارٹ ہینڈ میں تحریر کردیتا ہے۔ داخلی دروازے پر ، زینے کے اوپر ، ڈاکٹر کا اردلی لال مخمل کی وردی زیب تن کیے ، چمکدار پٹہ، بلے والی ٹوپی اور دائیں ہاتھ کی دونوں انگلیوں میںسونے کی انگوٹھیاں پہنے کھڑا ہے۔ اس کی دونوں کلائیوں میں سے ایک میں عیسیٰ مسیح اور دوسری کلائی میں ایک برہنہ پری گدے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کے بولنے کے ساتھ ہی کمزور تپ دق کے مریضوں کو جن کا ٹیسٹ ہوچکا ہے۔ اپنے مضبوط وتوانا ہاتھوں کا سہارادے کر باہر لے جانااور وہاں سے ایک خاص قسم کی ریسٹ چیئر پر بٹھا کر لفٹ کی مدد سے انھیں نیچے پہنچا دینااس کی ڈیوٹی ہے۔
مریض آتے ہیں۔ کمزور ، لاغر ، خوفزدہ ، آنکھیں اور سینہ اندر کو دھنسا ہوا اور ایک ہاتھ میں اتارے ہوئے کپڑے لیے۔ ان کے آتے ہی ڈاکٹر ہِل ، پلے کی میٹر اور چھوٹی نلی کے ذریعے ان کی چھاتی اور پیٹھ کامعائنہ کرتے ہیں۔ ٹھک ، ٹھک ، ٹھک ۔۔۔۔۔سانس لیجئے ۔ ہاں ! ذرا اور زور سے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے دو سکنڈ بعد ہی نسخہ تحریر کرتے ہیں اور چند سکینڈ ہی میں لکھ لیتے ہیں۔ ہاں، اس کے بعد کس کا نمبر ہے؟ گذشتہ تین برسوں سے یہی عمل جاری ہے۔ اسی طرح ہر روز صبح نو بجے سے بارہ بجے تک تپِ دِق کے مریضوں کا قافلہ ایک ایک کرکے آتا ہے اور اپنی اپنی زندگی و موت کا نسخہ لیے لوٹ جاتا ہے ۔ پھر آتا ہے ، پھر لوٹ جاتا ہے۔
اس عمل کے چلتے ہوئے ایک روز بیس مئی کو ٹھیک نو بجے ایک مریض ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوا۔ دراز قد ، نیم برہنہ اور دیکھنے میں ہڈّیوں کا چلتا پھرتا ڈھانچہ۔ اس کی آنکھوں کی پُتلیاں بے جان سی نظر آرہی تھیں۔ گال دھنس کر اندر چلے گئے تھے اور سینہ کھلا ہوا تھا، جیسے چمڑے سے ڈھکا ہوا ہڈّیوں کا پنجر۔ گوشت سے عاری اس کے بائیں بازو کی چمڑی نیلی پڑگئی تھی۔ وہ لمبے لمبے پائوں سے کانپتے ہوئے آیا، گملے میں لگے ہوئے ایک جاپانی پھولدار پودے کی مضبوط شاخ کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔ کھانسنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا سینہ اٹھنے بیٹھنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب مرا یا تب مرا۔ کھانسی کا دورہ پل بھر کو رُکا تو اردلی نے اسے لاکر ڈاکٹر کے سامنے بٹھادیا۔
حسبِ معمول مختصراً جانچ کرکے ڈاکٹر نے ناامیدی کے لہجے میں کہا۔’’ نا ۔۔۔۔۔۔۔۔نا ! کوئی امید نہیں ہے۔ پورا بایاں پھیپھڑا بے کار ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور، دائیں کی بھی وہی حالت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مریض نے تشکیک اور خوفزدہ ہوکر لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ ڈاکٹر ، کوئی امید۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ اس کے لہجے سے لگ رہا تھا جیسے اسے اس دنیا میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور صرف زندہ رہنے سے ہی وہ ممکن ہے۔
ان کے بعد کس کا نمبر ہے؟ یہ سنتے ہی اردلی آکر مریض کو لے جانے والا ہی تھا کہ مریض کے خوفزدہ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ سے سہلایا ، پھر مٹھی بنا کر ٹھہوکا دیتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔’’ زندہ رہنے کی بڑی چاہ ہے۔۔۔۔۔۔ کیا آپ بہت دولت مند ہیں؟‘‘
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
مریض کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں کو بڑی کوشش کے بعد پھیلایا اور رُندھے ہوئے لہجے میں کہا’’ہاں ، ڈاکٹر میں کروڑ پتی ہوں۔ دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’تب تو آپ ایک کام کیجئے۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر نے کرسی سے ذرا اٹھنے کا تاثر دیتے ہوئے کہا۔’’ آپ اسی ایمبولینس گاڑی سے سیدھااسٹیشن چلے جائیے۔ وہاں سے گیارہ بجے والی ایکسپریس سے ’ڈوور‘جائیے اور وہاں سے بذریعہ جہاز ’کیلیس‘ پھر ’مارسائی‘۔ وہاں سے گرم سلیپنگ کار میں ’نائیس ‘جائیے ۔ بس وہیں آپ رہیے اور چھ مہینے تک روٹی، شراب ، گوشت وغیرہ کچھ نہیں صرف ’واٹر کریش‘ لیجئے۔ ایک دن کے گیپ سے چمچہ بھر برساتی پانی میں دوچار بوند آیوڈین ملاکر پیاکیجئے۔ دیکھئے واٹر کریش کے سوا کچھ نہیں۔ اچھی طرح سے اسے چھان کر۔۔۔۔۔ ہاں، میں آپ کو زیادہ پُرامید تو نہیں کرسکتا، صرف ایک موقع سمجھ لیجئے۔ اس مفروضی طریقۂ علاج کے بارے میں ، میں نے بہت سُنا ہے۔ مگر اس سے اچھا ہونا ، بیماری سے نجات پانا مجھے نا ممکن ہی لگتا ہے۔ پھر بھی آپ سے کہہ رہا ہوں، جاکر دیکھئے۔ آگے قسمت ، اگر اچھے ہوگئے تو ٹھیک ہے نہیں تو اور کیا۔۔۔۔۔۔۔ آزمائیے۔ دنیا میں کئی بار ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ اچھا ، اب دوسرا نمبر کس کا ہے؟ ‘‘
مریض کو امید کی کرن نظر آئی۔ ڈاکٹر کا بار بار شکریہ اداکرتے ہوئے وہ اردلی کے ساتھ باہر چلاگیا۔ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد دسمبر کی تیسری تاریخ کو ٹھیک نو بجے قیمتی فر کالباس زیب تن کیے ہوئے ایک قوی الحبثہ آدمی بنا نمبر کارڈ لیے سیدھے ڈاکٹر ہِل کے کمرے میں حاضر ہوا۔ بھرے بازو،بڑی بڑی بھوری آنکھیں، چوڑی چکلی چھاتی اور مضبوط قدم ۔ لگتا تھا، پریوں کی کہانیوں کا کوئی راکشش آپہنچا ہو۔
ڈاکٹر صاحب ابھی ابھی آکر کمرے میں بیٹھے تھے اور لبادہ نما کالا اونی کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ صبح کی ہلکی گلابی سردی سے ان کا بدن کپکپاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس دراز قد آدمی نے آتے ہی اپنی مضبوط بانہوں میں کسی بچّے کی طرح ڈاکٹر کو اٹھا لیااور بھیگی ہوئی پلکوں کے ساتھ بغل گیر ہوکر انھیں آرام کرسی پر بٹھادیا۔ ڈاکٹر ہِل کی حالت اس وقت بالکل عجیب سی ہورہی تھی۔ ایسا لگ رہاتھا کہ ان کی سانس ہی اُکھڑ جائے گی۔
اس دراز قد آدمی نے ڈاکٹر کو اپنی جانب حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اونچی آواز میں درخواست کی ۔’’ کتنا چاہیے آپ کو؟ بیس لاکھ ؟ تیس لاکھ؟‘‘
ڈاکٹر خاموش ہی رہے، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ آدمی کہتا رہا۔’’ میں آپ کی ہی وجہ سے آج سانس لے رہا ہوں۔ آج آپ ہی کی وجہ سے میں دوبارہ اس قابل ہوا ہوں کہ اس دنیا کی ساری خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹ سکوں۔ ڈاکٹر، میں اپنی زندگی کے لیے آپ کا قرض دار ہوں۔ آپ نے مجھے نئی زندگی عطاکی ہے۔۔۔۔۔کہئے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ بلا جھجھک مانگیئے ۔ میرے پاس دولت کی کمی نہیں۔۔۔۔۔۔ اپنا سب کچھ دے کر بھی میں آپ کا احسان نہیں چکا سکتا۔ پھر بھی جو ہوسکے، وہ کرنے کے لیے میرا دل بے چین ہے۔ ڈاکٹر حکم دیجئے۔ آپ جو بھی چاہیں؟‘‘
چند لمحوں کے بعد خود پر قابو پاتے پاتے ڈاکٹر نے اردلی کی جانب مخاطب ہوکر کہا۔’’ یہ کون پاگل آپہنچا ہے؟ اسے باہر نکالو۔‘‘
’’ارے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ، نہیں۔۔۔۔۔‘‘ کہہ کر اس آدمی نے کسی بے پناہ طاقتور آدمی کی طرح اس قدر زور سے میز پر مکّا مارا کہ اردلی اپنی جگہ پر ہی ٹھہر گیا اور خوفزدہ ہوکراسے دیکھنے لگا۔
اس نے پھر سے کہنا شروع کیا۔ ’’ڈاکٹر، آپ نے مجھے اب تک شاید پہچانا نہیں ہے؟ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ دراصل آپ میری زندگی کے محافظ ہیں۔ آپ ہی نے مجھے موت کے منہ سے باہر نکالا ہے۔ میں وہی آدمی ہوں، جسے آپ نے ’نائیس ‘بھیجا تھا اور صرف ’واٹر کریش‘ استعمال کرنے کا حکم دیاتھا۔ میں وہی بد قسمت ہڈّیوں کا ڈھانچا ہوں جسے آپ نے کہاتھا کہ دونوں پھیپھڑے بے کار ہوچکے ہیں۔ ’نائیس‘ میں واٹر کریش اور صرف واٹر کریش کے سہارے میںاتنے دن رہا ہوں۔ اسی کے سبب آج مجھے آپ اس روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب آپ کے سُجھائے ہوئے طریقۂ علاج کا اثر ہے اور یقین نہ ہوتو یہ دیکھئے۔
یہ کہہ کر اس نے اپنے سینے پر زور زور سے مکّے مارنا شروع کردیا۔ یقینی طور سے اِن مکّوں کی برسات سے کسی کی بھی حالت غیر ہوسکتی تھی، مگر اس کے چوڑے چکلے سینے پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ کچھ لمحوں تک ڈاکٹر حیرت سے دیکھتے رہے۔ پھر اس کی طرف دھیان سے دیکھ کر اچانک تعجب سے کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔’’ کیا آپ سچ مچ وہی کروڑ پتی ہیں، جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ، ڈاکٹر! میں وہی ۔۔۔۔۔۔ وہی ہوں۔‘‘ اس نے بلند آواز سے کہا۔ ’’ کل ہی میں جہاز سے اترا۔ اترتے ہی سب سے پہلے آپ کے ایک قدِّ آدم مجسمے کا آرڈر دے آیا اور اب ویسٹ مِنسٹر میں آپ کی قبر کا انتظام کررہا ہو۔‘‘
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
اتنا کہہ کر وہ تپاک سے ایک بڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے سے صوفے کے اسپرنگ چرمرائے کچھ منٹ تک ڈاکٹر اس کی طرف تحقیقی نقطۂ نظر سے دیکھ کر کچھ تلاش کرتے رہے، پھر سیکریٹری اور اردلی کو حکم دیا ۔ وہ دونوں باہر چلے گئے۔ ڈاکٹر اُس آدمی کی طرف اداس نظروں سے دیکھتے رہے اور فوراً سنجیدگی سے انھوں نے اپنی نظر گڑاتے ہوئے کہا۔’’آپ کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھی ہے، اسے اُڑادوں؟‘‘
اتنا کہہ کر ڈاکٹر جھکے اور اپنی جیب سے ریوالور نکالی اور مسلسل تین فائر کردیئے۔ لمحہ بھر میں ہی سر سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور وہ آدمی وہیں صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔ کچھ دیراُس نے ہاتھ پیر جھٹکے اور پھر ساکت ہوگیا۔ ڈاکٹر یہ سب بڑے تجسس سے دیکھتے رہے۔ ان کے چہرے پر کئی تاثرات ابھرے اور مٹ گئے۔ مگر تجسس قائم رہا۔ اس کے فوراً بعدانھوں نے اپنا سب سے تیز نشتر نکالا اور اس کا سینہ چیر ڈلا اور پھیپھڑے نکال کر اپنی میز پر رکھ کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد جب پولیس ، ڈاکٹر کو اپنے ساتھ چلنے کا وارنٹ لے کر آئی ، اُس وقت وہ اپنی تجربہ گاہ میں خون سے لتھڑے ہوئے پھیپھڑوں پر ’واٹر کریش‘ کے اثرات کا تجربہ کررہے تھے۔
پولیس انسپکٹر نے جب ان کے پاس جاکر اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی تو ڈاکٹر نے خاموشی سے اٹھ کر اسے دیکھا اور کہا ۔’’ میں نے اس آدمی کاقتل جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ بنا اس کا سینہ چیرکر دیکھے یہ جاننا ناممکن تھا کہ تپِ دِق جیسے مرض سے جو پھیپھڑے بالکل ناکارہ ہوگئے تھے وہ دوبارہ کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میں بلا خوف و خطر یہ اقرار کرتا ہوں کہ دنیا اور بنی نوع انسان کے مفاد کی خاطر ، ایک عظیم فرض کی ادائیگی کے لیے میں نے ایک معمولی انسانی جان کو قربان کرنا بہتر سمجھا ، اور اسے مارڈالا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ڈاکٹر ہِل ذاتی ضمانت پر حوالات سے رہائی حاصل کرچکے ہیں، کیونکہ ان کی رہائی انسانیت کے لیے سود مند ہے۔ اس مقدمے کی پیشی کل عدالت میں ہوگی۔ جلد ہی اس مقدمے کی دھوم یورپ اور ساری دنیا میں مچ جائے گی۔
جہاں تک ہمارا یقین ہے، اس چھوٹے سے جرم کے لیے اس انسانیت نواز عظیم ڈاکٹر ہِل کو نیوگیٹ کے پھانسی کے تختے پر چڑھنا نہیں ہوگا۔ آنے والے کل کی خاطر انسان سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اس کی خاطر آج ایک حقیر سے آدمی کا قتل کرنے والے ، ڈاکٹر ہِل کو زندہ رکھنے کے لیے اس دنیا کے عظیم سائنس داں اپنی جانب سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔

٭٭٭

ژاں پال سارتر : فرانسیسی ادب میں ژاں پال سارتر کا مقام بہت بلند ہے۔ وہ نمائندہ فکشن اور ڈراما نگار مانے جاتے ہیں۔ 21؍ جون 1908ء کو پیرس میں پیدا ہوئے۔ ان کی تخلیقات کے اثرات بیسویں صدی کے ادب پر گہرے مرتب ہوئے۔ جب وہ ’سوربان‘ میں تحقیق کررہے تھے تب ان کا رابطہ سیمون دی بوار سے ہوا ۔ وہ دونوں تاحیات ہم سفر بن کرجیتے رہے۔
سارتر نے کئی ڈرامے تحریر کیے۔ جن کے دوررس اثرات سماج و معاشرے پر ہوئے۔ 1964ء میں سارتر کو نوبل انعام دینے کا اعلان کیا گیا۔ مگر انھوں نے یہ کہہ کر اسے قبول کرنے سے انکار کردیا کہ اس کی قیمت ان کی نظر میں ایک بورا آلو سے زیادہ نہیں ہے۔ 15؍ اپریل 1980ء کو پیرس میں ہی سارتر کا انتقال ہوا۔

٭٭٭
سارتر کی اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
کاپی رائٹ بحقِ مترجم محفوظ ہیں

Three Dolls A Persian Folk Tale

Articles

فارسی لوک کہانی ’تین گڑیاں‘

انگریزی سے ترجمہ: حیدر شمسی

فارس کا سلطان بڑا دانا مشہور تھا۔ اسے مسئلے سلجھانے کرنے، پہلیاں بجھانے اور معمّے حل کرنے کابھی شوق تھا ۔ ایک دن اسے کسی کا بھیجا ہوا تحفہ ملا۔ بھیجنے والا سلطان کے لیے اجنبی تھا ۔سلطان نے تحفے کو کھولا اُس میں سے ایک ڈبہ نکلا ۔ڈبے کے اندر لکڑی کی تین خوبصورت گڑیاں نظر آئیں جنہیں بڑے سلیقے سے تراشاگیا تھا ۔اس نے ایک ایک کر کے تینوں گڑیوں کو اٹھایا اور ہر ایک کی کاریگری کی خوب تعریف کی ۔ اس کا دھیان ڈبہ پر گیا جہاں ایک جملہ تحریر تھا: ’’ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتائیے۔‘‘ ان تینوں گڑیوں کے درمیان فرق بتانا سلطان کے لیے ایک چیلنج تھا ۔اس نے پہلی گڑیا کو اٹھایا اور اس کا مشاہدہ کرنے لگا ۔گڑیا کا چہرہ خوبصورت تھا اوروہ ریشم کے چمکیلے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ پھر اس نے دوسری گڑیا کو اٹھا یا ۔ وہ بھی پہلی گڑیا جیسی ہی تھی اور تیسری بھی ویسی ہی تھی ۔
پھر سلطان نے گڑیا کا نئے سرے سے مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔ وہ سب ظاہراََ یکساں تھیں ۔لیکن سلطان نے سوچا شاید تینوں میں سے آنے والی بو یکساں نہ ہو۔چنانچہ اس نے تینوں گڑیوں کو باری باری سونگھا ۔تینوں میں سے صندل کی خوشبو آرہی تھی جس سے اس کے نتھنے معطّر ہوگئے۔صندل کی لکڑی سے انھیں بڑی نفاست سے بنایا گیا تھا۔اس نے سوچا شاید یہ اندر سے کھوکھلی ہوں ۔ انھیں کان کے پاس لے جا کر ہلانا شروع کیا لیکن تینوں گڑیاں ٹھوس تھیں اور تینوں ہم وزن بھی تھیں۔سلطان نے دربار بلایا۔دربار میں سلطان بڑا ہی متذبذب نظر آرہا تھا ۔ لوگ اسے دیکھ کر حیران تھے ۔ اس نے دربار کے سامنے اعلان کیا کہ جو تم میں سے جو دانا ہو وہ آگے آئے ،جس نے اپنی زندگی کا بیش تر حصّہ لائبریریوں میں صرف کیا ہووہ بھی آگے آئے۔
ایک اسکالر اور ایک قصّہ گوآگے آئے ۔سب سے پہلے اسکالر نے گڑیوں کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔اس نے انھیں سونگھا ، ان کا وزن کیا اور انھیں ہلا جلاکر دیکھا لیکن وہ کسی طور بھی کوئی فرق نہ پاسکا ۔وہ دروازے کے پاس گیا اور الگ الگ زاویوں سے انھیں دیکھنا شروع کیا ۔ پھر اس نے گڑیوں کو ہاتھ میں اٹھایا اور ان پر جادو ٹونے کی طرح ہاتھ ہلانے لگا۔ہاں!ہاں ! تھوڑی دیر بعد وہ خود اپنے فعل سے اکتا گیااورانھیں میز پر رکھ کر وہاں سے ہٹ گیا۔
بہر کیف اسکالر گڑیوں میں امتیاز نہ کر سکا ۔ اس نے قصّہ گو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا’’کیا تم گڑیوں کے درمیانی فرق کی شناخت کر سکتے ہو!‘‘
قصّہ گو نے پہلی گڑیا اٹھائی اور بڑی احتیاط سے اس گڑیا کا مشاہدہ کرنا شروع کیا ۔پھر اچانک اسے نہ جانے کیا خیال آیا۔ وہ آگے کی طرف بڑھا اور سلطان کی داڑھی کا ایک بال نوچ لیا ۔ اس بال کو اس نے گڑیا کے کان میں ڈالا ۔وہ بال گڑیاکے کان میں چلا گیا اور غائب ہو گیا ۔قصّہ گو نے کہا’’ یہ گڑیا اسکالر کی طرح ہے جو سب کچھ سنتا ہے اور اپنے اندر رکھ لیتا ہے ۔‘‘ اس سے پہلے کے سلطان اسے روکتا پھر قصّہ گو نے آگے بڑھ کراس کی داڑھی کا دوسرا بال نوچ لیا ۔اس نے دوسری گڑیا کے کان میں بال ڈالا۔دھیرے دھیرے بال اس کے کان میں چلا گیا اور دوسرے کان سے نکلا۔سلطان یہ منظر دیکھ کرحیران رہ گیا۔
’’کیوں‘‘ قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا احمق جیسی ہے جو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا ہے ۔‘‘
اس سے پہلے کے سلطان اسے روک پاتا ۔اس نے سلطان کی ٹھوڑی سے تیسرا بال توڑ لیا۔پھر اس نے داڑھی کے بال کو تیسری گڑیا کے کان میں ڈالا۔بال اندر چلا گیا ۔سلطان غور سے دیکھنے لگا کہ اس بار بال کہاں سے باہر آئے گا ۔ بال گڑیاکے منھ سے باہر آیا ۔ لیکن جب بال باہر آیا تو وہ کافی مڑا ہو اتھا۔
’’کیوں‘‘قصّہ گو نے کہا ’’یہ گڑیا قصّہ گو کی طرح ہے ۔وہ جو کچھ سنتا ہے اسے وہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ سنا دیتا ہے ۔ ہر قصّہ گو کہانی میں تھوڑی سی تبدیلی اس لیے کرتا ہے تا کہ وہ اس کااپنا شاہکارلگے۔‘‘

Sunboshi A japanse Folktale 

Articles

جاپانی لوک کہانی۔۔۔سن بوشی

جاپانی لوک کہانی

​جاپان میں کسی جگہ ایک میاں بیوی بڑی خوش حال زندگی بسر کررہے تھے، لیکن بدقسمتی سے ان کی کوئی اولاد نہ تھی۔ ایک روز وہ عبادت گاہ میں گئے اور گڑگڑا کر دعا کی۔ ’’اے اللہ، اپنی رحمتوں سے ہمیں ایک بچہ عطا فرما، چاہیے انگلی کے ایک پور کے برابر ہو۔‘‘ کچھ عرصے بعد ان کے ہاں ایک خوب صورت لڑکا پیدا ہوا۔ لیکن اس کا قد بالغ انسان کی اُنگلی سے بھی کم تھا، اس کے باوجود اس کے والدین نے اسے ناز و نعم سے پالا جیسے وہ ان کی آنکھ کا تارا ہو۔ لڑکا انتہائی ذہین اور اچھے اخلاق کا تھا… مگر اس کے قد میں اضافہ نہ ہوا۔ اڑوس پڑوس کے لوگ بھی اس سے محبت پیار سے پیش آتے اور اُسے سن بوشی کے نام سے پکارتے ’’سن‘‘ ایک پیمانہ ہے تقریباً تین سینٹی میٹر کے برابر اور ’’بوشی‘‘ کے معنی پروہت کے ہیں۔ پُرانے زمانے میں بچوں کے سر پرہیتوں کے مانند منڈے ہوئے ہوتے تھے جنہیں ’’پروہت‘‘ کہا جاتا۔ آہستہ آہستہ یہ بچوں کا معروف نام بن گیا۔ ایک روز سن بوشی نے شاہی دارالحکومت کیا ٹو جانے کا ارادہ کیا تاکہ وہ زندگی میں کوئی اُونچا مقام حاصل کرسکے۔ اس نے والدین سے کہا ’’پیارے امی ابا، میں دارالحکومت جانا چاہتا ہوں۔ وہاں پڑھوں لکھوں گا اور بڑا آدمی بن جائوں گا۔ مجھے جانے کی اجازت دیجیے۔‘‘ پہلے تو والدین کسی قدر ہچکچائے لیکن انہیں اپنے بیٹے کی ذہانت پر اعتماد تھا، اس لیے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ انہوں نے ایک سوئی کی تلوار بنائی اور تنکے کی نیام میں ڈال کر سن بوشی کے پہلو میں لٹکادی۔ اس کے علاوہ ایک پیالہ اور ہاتھی دانت سے تیار کردی تیلی بھی دی۔ سن بوشی نے ماں باپ کو خیر باد کہا اور سفر پر نکل کھڑا ہوا۔ دارالحکومت کو ایک دریا جاتا تھا۔ اُس نے پیالے سے کشتی کا کام لیا اور ہاتھی دانت کی تیلی سے چپو کا، اور کئی دن تک دریا کے بہائو کے ساتھ ساتھ کشتی کھیلتا رہا، آخر کار دارالحکومت پہنچ گیا۔ شہر میں داخل ہوا، تو اسے ایک وسیع وعریض شان دار محل دکھائی دیا یہ ایک بااثر وزیر کی رہائش تھی۔ دروازے پر سن بوشی چلانے لگا: ہیلو، ہیلو…‘‘ اندر سے ایک نوکر بھاگتا ہوا آیا، لیکن اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔ آواز دوبارہ سنائی دی۔ اس نے غور سے دیکھا، تو دروازے کی اوٹ میں بونے سن بوشی پر نظر ڈالی۔ ’’میرانام سن بوشی ہے، میں یہاں پڑھنے کے لیے آیا ہو‘ مہربانی کرکے مجھے وزیر کے خادموں میں رکھ لو۔‘‘ نوکر نے اسے پکڑ کر ہتھیلی پر بٹھالیا اور وزیر کے سامنے لے گیا۔ سن بوشی نے احترام سے سرجھکا یا اور کورنش بجالایا۔ وزیر اور اس کے مصاحب بہت متاثر ہوئے، اسے محل میں ملازمت اور رہائش کی اجازت مل گئی۔ اگرچہ کوتاہ قد تھا۔ لیکن انتہائی ذہین ہونے کی بناء پر ہر کام بڑے سلیقے سے انجام دیتا۔ اُس کی سب سے اعلیٰ صفت یہ تھی کہ وہ ہر ایک کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتا ۔ اسی بناء پر لوگ اُسے بہت چاہتے۔ خصوصاً وزیر زادی کا دل اُس نے موہ لیا اور وہ ہر وقت اُسے ساتھ رکھتی۔ ایک روز وزیرزادی کینن (رحم کی دیوی) کی عبادت گاہ میں گئی۔ سن بوشی بھی ہم راہ تھا۔ واپسی پر دو چڑیلوں نے اچانک ان پر حملہ کردیا… اور وزیرزادی کو اُچک لے جانے کی کوشش کی۔ سن بوشی جو اُس کی آستین میں چھپا ہوا تھا، جست لگا کر باہر نکلا اور تلوار سونت کر کہنے لگا: ’’جانتی ہو میں کون ہوں؟ میں وزیر زادی کا محافظ ہوں۔‘‘ ایک چڑیل نے بڑے مزے سے اُسے نگل لیا۔ سن بوشی اس قدر چھوٹا تھا کہ آسانی سے چڑیل کے معدے میں چل پھر سکتا تھا۔ اُس نے اپنی تلوار سے معدے میں کچھوکے لگانے شروع کردیے۔ تنگ آکر چڑیل نے اُبکائی کے ذریعے اُسے باہر اُگل دیا۔ اس پر دوسری چڑیل سن بوشی کی طرف بڑھی، لیکن بونے نے اچھل کر تلوار کی نوک اُس کے آنکھ میں گھونپ دی۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہ پائی تھی کہ دوسری آنکھ بھی پھوڑ دی۔ درد سے کراہتی ہوئی دونوں چڑیلیں سر پٹ بھاگ کھڑی ہوئیں۔ جب وہ وزیر زادی کے ساتھ گھر کی طرف چلنے لگا، تو اس کی نگاہ ایک چھڑی پر پڑی جو چڑیلیں چھوڑ گئی تھیں۔ یہ چڑیلوں کا خزانہ یعنی جادو کی چھڑی تھی۔ اسے ہوا میں لہرانے سے ہر شے حاصل کی جاسکتی تھی۔ وزیر زادی چھڑی دیکھ کر بولی: ’’پیارے سن بوشی، یہ جادو کی چھڑی ہے، تم جو جی چاہے حاصل کرسکتے ہو۔‘‘ ’’نہ مجھے دولت کی ضرورت ہے نہ گندم اور چاول کی‘‘ سن بوشی نے کہا۔ ’’میری خواہش یہ ہے کہ میرا قد لمبا ہوجائے۔‘‘ وزیر زادی نے چھڑی ہوا میں لہراتے ہوئے کہا: ’’سن بوشی کا قد بڑھادے، بڑھادے۔‘‘ ساتھ ہی سن بوشی کا قد بڑھنے لگا یہاں تک کہ وہ ایک خوب صورت جوان بن گیا۔ اس کے بعد سن بوشی کی شادی وزیر زادی سے ہوگئی اور وہ اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگا۔

A Norwegian Folktale “Scissors and Sickle”

Articles

نارویجین لوک کہانی ۔۔۔۔ قینچی اور درانتی

نارویجین لوک کہانی

بہت عرصے کی بات ہے۔ ایک گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ یوں تو وہ ہر لحاظ سے خوش حال رہتا تھا کیونکہ اس کا کھیت وسیع تھا اور فصل ہمیشہ عمدہ ہوتی تھی لیکن بیوی کی وجہ سے اس کا ناک میں دم رہتا تھا۔ وہ بہت ہی ضدی اور ہٹ دھرم تھی اور ہمیشہ الٹی بات سوچتی تھی۔ اسی لیے گائوں کے سب ملنے جلنے والوں نے اس کا نام ” الٹی کھوپڑی“ رکھ دیا تھا۔
جب وہ گھر سے باہر نکلتی تو بچے اسی نام سے پکار کر اسے پکارتے اور جب وہ مارنے کے لیے دوڑتی تو دور بھاگ جاتے تھے۔ وہ کھیت میں کام کرتی تو ایک جھاڑی سے آواز آتی ”ارے بہن الٹی کھوپڑی کیا کررہی ہو۔“ وہ جل کر اس جھاڑی کی طرف لپکتی تو فوراً دوسری جھاڑی سے ویسی ہی آواز آتی۔ وہ رک جاتی اور پلٹ کر دوسری طرف جاتی کہ اتنے میں ایک اور آواز تیسری جھاڑی سے آتی۔ یہ سب کچھ ہوتا لیکن وہ اپنی بری عادت نہیں چھوڑتی تھی۔
پڑوس کی عورتیں بھی اس سے تنگ آگئی تھیں جب وہ بولتیں کہ کنویں پر چلیں، پانی لے آئیں تو وہ کہتی کہ نہیں پانی تو ندی سے لانا چاہیے۔ جب وہ کہتیں کہ آئواپلے پہاڑی پر تھاپ دیں تو وہ کہتی کہ نہیں پہاڑی کے دامن میں مناسب رہیں گے۔ جب مچھلی والا اس کے گھر کے قریب آواز لگاتا ”بام مچھلی لے لو، بام مچھلی۔“ تو وہ کہتی کہ تم سرمئی یا سنگھاڑا کیوں نہیں لائے اور جب سرمئی یا سنگھاڑا مچھلی ہوتی تو بام مانگتی۔ کسان کہتا کہ آج آلو پکا لو تو وہ کہتی کہ نہیں آج تو دال پکے گی۔ خاوند کہتا کہ میری قمیض پھٹ گئی ہے۔ ذرا اس کوسی دو، تو وہ کہتی کہ نہیں پاجامہ درست کرالو، حالاں کہ وہ پہلے ہی ٹھیک ہوتا تھا۔ وہ اپنے خاوند کو سخت جاڑے میں ٹھنڈا شربت پلا کر بیمار کر دیتی اور کہتی کہ گرمی کے موسم میں صرف گرم چائے پی جاتی ہے۔ اسی لیے سب کو یقین تھا کہ اس کی کھوپڑی الٹی لگی ہوئی ہے۔
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
پڑوسی آکر کسان سے شکایت کرتے کہ تمہاری بیوی ہمیشہ ہم سے الجھتی رہتی ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کرکے کہتا ”بھائیو! اسے غنیمت سمجھو کہ وہ تمہاری بیوی نہیں ہے۔ وہ باہر نکل کر صرف چند لمحے کے لیے تم سے الجھتی ہے۔ میرا اس کا ہر وقت کا ساتھ ہے۔ وہ اپنی الٹی کھوپڑی سے میرا دماغ بھی الٹ کر رکھ دیتی ہے۔ میں رات کو تھکا ہارا چت لیٹتا ہوں تو وہ ٹہوکا دے کر کہتی ہے کہ کروٹ سے کیوں نہیں لیٹتے۔ جب میں کام پر جلدی جانے کے خیال سے روٹی کے نوالے تیز تیز کھاتا ہوں، تو وہ روک کر کہتی ہے کہ اتنی جلدی کیوں ہے، ابھی بہت دقت ہے اور جب میں آہستہ آہستہ اطمینان سے روٹی کھاتا ہوں تو وہ کہتی ہے کہ جلدی کرو، کام کاہرج ہو رہا ہے۔ کھانا ساتھ لے جائو۔ راستے میں چلتے چلتے کھا لینا، حالاں کہ اس روز کھیت پر جلدی جانے کا کوئی سوال نہیں ہوتا۔ اس لیے میرے بھائیو! میں تو خود بھی اس سے تنگ آگیا ہوں، بتائو تمہاری شکایات کس طرح دور کروں؟“
فصل پک جانے کا زمانہ تھا۔ ایک روز دونوں میاں بیوی صبح ہی صبح اپنے کھیت دیکھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوئے۔ کسان نے خیال ظاہر کیا، ” منگل تک فصل کاٹنے کی نوبت آئے گی“ بیوی بولی ”نہیں بدھ سے پہلے یہ کام ہر گز شروع نہ کیا جائے۔“
خاوند نے کہا ” بہت اچھا ۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنے دو بھائیوں کو بلوا لوں تاکہ وہ ہمارا ہاتھ بٹا سکیں۔“ بیوی بولی۔ ” نہیں میرے دو بھائیوں کو بلوائو، وہ زیادہ پھرتی سے کام کرتے ہیں۔“
خاوند نے یہ بات بھی مان لی اور کہا ” کل صبح سے پانچ بجے اٹھنا پڑے گا تاکہ سورج ڈھلنے تک روزانہ بہت سا کام ہوجایا کرے۔“ بیوی نے کہا ” نہیں، چھ بجے سے پہلے اٹھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم دوپہر کو صرف آدھ گھنٹے آرام کیا کریں گے۔“ خاوند نے کہا ” چلو، یوں ہی سہی۔ موسم تو خوشگوار ہے۔ دوپہر کو آرام نہ بھی کیا تو کوئی مضائقہ نہیں۔“ بیوی بولی۔
”موسم خوشگوار کب ہے۔ سخت گرمی ہے اور خاک بھی اڑاتی ہے آرام کرنا ضروری ہوگا۔“
خاوند نے بات مان لی اور کہا ” آج ہی درانتیاں تیز کرالینی چاہئیں، تاکہ فصل اچھی طرح کٹ سکے۔“ بیوی بولی ۔
” واہ کیا خوب! درانتیاں نہیں قینچیاں کہو۔ اس سال ہم درانتی کے بجائے قینچیاں استعمال کریں گے۔“
اب خاوند سے نہ رہا گیا۔ وہ جھلا کر بولا ” واقعی الٹی کھوپڑی کی عورت ہو تم۔ رائی کی فصل کہیں قینچی سے کٹتی ہے۔ تمہاری عقل تو خراب نہیں ہو گئی۔“
بیوی نے بگڑ کر کہا ” عقل خراب ہوگی تمہاری ۔ ہم تو فصل قینچی سے ہی کاٹیں گے۔“
خاوند بولا ” پاگل نہ بنو۔ میں قینچی کو قریب بھی لانے نہ دوں گا۔“
” اور میں درانتی کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دوں گی۔“ بیوی نے تڑک کر کہا۔
”نہیں قینچی ہر گز نہیں۔“
”نہیں ، درانتی ہر گز نہیں۔“
” لوگ رائی کی فصل قینچی سے کاٹتے دیکھیں گے تو ہم پر ہنسیں گے۔“
” نہیں وہ درانتی دیکھ کر ہمارا مذاق اڑائیں گے۔“
”تم نہیں جانتیں ۔ اس موقع کے لیے درانتی ہی زیادہ مناسب ہے۔“
” کون کہتا ہے۔ قینچی سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔“
” کچھ بھی ہو، میں کہتا ہوں کہ درانتی چلے گی۔“
” اور میں کہتی ہوں کہ قینچی چلے گی۔“
یہ بحث کرتے ہوئے دونوں میاں بیوی ندی پر بنی ہوئی پلیا پر سے گزررہے تھے۔ بیوی غصے سے اس درجہ بے تاب تھی کہ اسے یہ خیال بھی نہ رہا کہ پلیا کے دونوں طرف منڈیر نہیں ہے۔ آخری بار جو اس نے غصے میں پلٹ کر جواب دیا تو پائوں کنارے سے باہر جا پڑااور وہ سنبھل نہ سکی۔ دھڑام سے ندی میں گرگئی۔ پانی اس جگہ خاصا گہرا تھا اور اسے زیادہ تیرنا نہیں آتا تھا۔
وہ ڈبکیاں کھانے لگی ۔ پہلی ڈبکی پر جب وہ ابھری تو اس کا سانس چڑھا ہوا تھا۔ وہ مدد کے لیے نہیں چلائی بلکہ چیخ کر بولی ”قینچی، صرف قینچی۔“
کچھ خاوند کو بھی اس روز ضد ہو گئی تھی۔ اس نے فورا ً چلا کر کہا ”نہیں درانتی۔“ اور بیوی کو پانی سے باہر نکالنے کی ترکیب پر غور نہیں کیا۔
بیوی اپنے خاوند کا جواب سن نہیں سکی۔ وہ پھر پانی کے نیچے پہنچ چکی تھی اور جب وہ دوبارا ابھری تو پھر چیخ کر کہنے لگی۔ ” قینچی صرف قینچی“
اب اس کا سانس زیادہ اکھڑ چلا تھا۔ خاوند تنگ آگیااور اسے بیوی پر ذرا بھی ترس نہ آیا۔ اس نے فوراً کہا ”صرف درانتی۔“
اب بیوی نے جلدی جلدی غوطے کھانے شروع کر دیئے۔ لیکن وہ جتنی بار پانی سے ابھری، اس نے صرف ایک ہی لفظ کہا ”قینچی۔“ اور خاوند نے بھی جواب ہٹ دھرمی پر اتر آیا تھا ۔”درانتی“ کہنے کے سوا اپنا فیصلہ نہ بدلا۔
پھر بہت دیر تک عورت پانی میں غائب رہی۔ آخری بار جب وہ ابھری تو نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی۔ اس کی زبان بند ہو چکی تھی کیونکہ بولنے کی قوت جواب دے گئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنا ایک ہاتھ پانی کی سطح سے اونچا کیا اور قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں دو انگلیاں مٹکا کر گویا اشارے سے ظاہر کیا کہ فصل قینچی سے کٹے گی۔
مرد بھی اپنی ضد سے باز نہ آیا۔ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لیے اپنا ہاتھ بھی اس طرح لہرایا جیسے فصل کاٹنے وقت درانتی گھمائی جاتی ہے۔
اس کے بعد عورت کا سر پانی کی سطح پر بالکل نظر نہیں آیا۔ خاوند کچھ دیر تک لہروں پر نظر جمائے گھورتا رہا۔ پھر اس نے چیخنا چلانا شروع کیا ” ارے لوگو! دوڑو۔ الٹی کھوپڑی پانی میں ڈوب گئی۔ اسے بچائو ، جلدی بچائو۔“
آس پاس کے سب کسان بھاگے آئے۔ تقریباً سبھی تیرنا جانتے تھے۔ انہوں نے لنگر لنگوٹے کس لیے اور فوراً ندی میں کود پڑے۔ وہ اسی جگہ پانی میں ڈبکیاں لگاتے چاروں طرف ہاتھ پائوں مارتے رہے۔ پھر پانی کے بہائو کی طرف چلنے لگے لیکن کسان نے فوراً للکار کر کہا ” نہیں بھائی نہیں، تم اس الٹی کھوپڑی والی عورت کو اچھی طرح جانتے ہو اور پھر بھی پانی کے بہائو کی طرف اسے ڈھونڈنا چاہتے ہو۔ وہ ضرور چڑھائو کی طرف گئی ہوگی۔“
یہ کہانی آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں
یہ بات لوگوں کی سمجھ میں آگئی۔ وہ کوشش کرکے چڑھائو کی طرف تیرنے لگے اور بہت جلد عورت پانی کے اندر اگنے والی ایک جھاڑی میں پھنسی ہوئی مل گئی۔ اس کے ایک ہاتھ کی دو انگلیاں قینچی کے دو پھلوں کے انداز میں کھلی ہوئی تھیں حالانکہ وہ مر چکی تھی مگر اس طرح اپنا خاموش فیصلہ دے رہی تھی۔
کسان روتا دھوتا بیوی کا جنازہ اپنے گھر لے گیا۔ شام کو اس کی تجہیز و تکفین کر دی گئی اور خاوند نے یادگار کے طور پر اس کی قبر کے سرہانے ایک درانتی گاڑ دی۔جو آج تک گڑی ہوئی ہے۔
——————————————————

Bengali Folk Tale

Articles

برہمن جو بھگوان کو نگل گیا

بنگلہ لوک کہانی

ایک بار بدھاتا نے جو ہر کسی کے ماتھے پر چاہے وہ بچہ ہو یا بچی ، پیدائش کے وقت اس کی قسمت لکھ دیتا ہے ، کسی غریب برہمن کی قسمت میں کچھ عجیب سی تباہی لکھ دی۔ کبھی جی بھر کے نہ کھانا اس کا مقدر بن گیا۔ جب بھی وہ اپنا آدھا بھات کھا چکتا تو ہمیشہ ایسی کوئی نہ کوئی رکاوٹ آجاتی کہ وہ اور نہ کھاپاتا۔
ایک دن ایسا ہوا کہ اس کے پاس راجہ کے گھر سے بلاوا آیا۔ وہ بہت ہی خو ش ہوا اور اپنی بیوی سے بولا۔’’ میں تو بس اپنا آدھا بھات ہی کھا سکتا ہوں۔ اپنی ساری زندگی میں ایک بار بھی تو میں اپنی بھوک پوری طرح نہ مٹاپایا۔ آج نہ جانے کیسے قسمت جاگی ہے کہ راجہ کے گھر جانے کا بلاوا آیا ہے، لیکن میں جائوں تو کیسے جائوں؟ میرے کپڑے پھٹے ہوئے اور گندے ہیں اور اگر میں اس طرح چلاگیا تو اندیشہ ہے کہ چوکیدار مجھے واپس لوٹا دے گا۔‘‘ اس کی بیوی بولی۔ ’’ ارے میں تمہارے کپڑے سی کر دھو دوں گی۔ تب تو تم جاسکتے ہو۔‘‘ اور بیوی نے اسے اچھے ڈھنگ کے کپڑے مہیا کردیئے اور وہ راجہ کے گھر روانہ ہوگیا۔
اگرچہ شام ہوچکی تھی اور وہ دیر سے وہاں پہنچا تھا، لیکن اس کا شاہانہ خیر مقدم ہوا۔ جب وہ اپنے آگے رکھے گئے طرح طرح کے کھانوں کا جائزہ لے رہاتھا تو بوڑھا برہمن بے حد خوش ہوا۔ اس نے سوچا۔’’ چاہے جو بھی ہو آج تو میں جی بھر کے کھائوں گا۔‘‘ اب ایسا ہوا کہ مٹّی کی ایک چھوٹی سی ہانڈی جو چھت کی شہتیر سے لٹک رہی تھی ، جیسے ہی برہمن کا کھانا آدھا ختم ہوا ٹوٹ گئی اور اس کے ٹکڑے برہمن کے کھانے میں جاگرے۔ اس نے فوراً ہاتھ روک لیا۔ کھانا ختم کرتے ہوئے اس نے پانی کا ایک گھونٹ لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ہاتھ منہ دھوکر راجہ کے پاس گیا۔ راجہ نے بڑی عزت سے اس کا سواگت کیا اور پوچھا۔ ’’ ٹھاکر! کیا آپ پوری طرح مطمئن ہیں؟‘‘ برہمن نے جواب دیا ۔ ’’ مہاراج آپ کے نوکروں نے میرے ساتھ بڑا اچھا برتائو کیا ، میں نے جو مانگا لاکر دیا۔ یہ میری اپنی قسمت کا پھیر ہے کہ میں پیٹ نہ بھر سکا‘‘۔ ’’کیوں؟‘‘ راجہ نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہوگئی؟‘‘ ۔’’مہاراج جب میں کھانا کھا رہا تھا تو مٹّی کی چھوٹی سی ہانڈی نے چھت سے گر کر میرا بھات خراب کردیا۔ ‘‘ جب راجہ نے یہ سنا تو بڑا ناراض ہوا اور اس نے نوکروں خوب ڈانٹا۔پھر اس نے برہمن سے کہا۔’’ٹھاکر! آج رات آپ میرے یہاں ٹھہرجایئے ۔ کل میں تازہ کھانا بنوا کر اپنے ہاتھوں سے آپ کے آگے پیش کروں گا۔ تو برہمن اس رات راجہ کے گھر ٹھہر گیا۔
اگلے دن ، راجہ نے کھانا پکتے ہوئے نگرانی کی۔ بلکہ ایک دو چیزیں خود اپنے ہاتھوں سے بنائیں اور برہمن کو کھانا پیش کیا۔ راجہ کی خاطر داری سے برہمن بڑا خوش تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا اور کھانے بیٹھ گیا۔ لیکن جب وہ آدھا کھانا کھاچکا تو بدھاتا نے دیکھا کہ اب اسے روکنا ہی پڑے گا، لیکن اسے اس کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا بس وہ خود ہی جلدی سے ایک سنہرے مینڈک میں تبدیل ہوگیا اور برہمن کے کیلے کے پتّے کے قریب پھدک کر آیا اور اس کے کھانے کے اندر لڑھک گیا۔
اس شام گھر لوٹتے ہوئے راستے میں جب وہ ایک جنگل سے گزر رہا تھا ۔اسے اچانک ایک آواز سنائی دی۔ ’’برہمن ، مجھے جانے دو! برہمن ، مجھے جانے دو!!‘‘ برہمن نے چاروں طرف نظر دوڑائی ، لیکن اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے پھر آواز سنی۔’’ برہمن مجھے جانے دو!‘‘ تب اُس نے کہا ۔’’ تم کون ہو؟‘‘ جواب ملا۔’’ میں بدھاتا ہوں!‘‘برہمن نے پوچھا۔’’ تم آخر ہو کہاں؟‘‘ بدھاتا نے جواب دیا ۔ ’’تمہارے پیٹ میں تم نے مجھے گھونٹ لیا ہے۔‘‘ ،’’ناممکن!‘‘ برہمن بولا ’’ہاں‘‘۔ بدھاتا نے کہا۔’’ میں ایک مینڈک بن کر تمھارے کھانے میں لڑھک گیا تھا اور تم مجھے کھا گئے‘‘۔’’ ارے اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے! یہ تو بڑا ہی اچھا ہوا۔‘‘ برہمن نے جواب دیا۔ ’’ساری زندگی تم نے مجھے پریشان کیا ہے۔ بہتر ہوگا میں اپنی حلق بند کرلوں۔‘‘ برہمن جلدی جلدی گھر کی طرف چلا اور جب وہ وہاں پہنچ گیا تو اس نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’بیوی مجھے حقہ سلگا دے اور تو ہاتھ میں ایک ڈنڈا لے کر تیار ہوجا۔ ‘‘ اس کی بیوی نے فوراً اس کے کہنے پر عمل کیا اور برہمن بیٹھ کر حقہ پینے لگا۔ وہ بڑے آرام سے دیر تک حقہ گڑگڑاتا رہا اور اس بات کا پورا دھیان رکھا کہ کہیں بدھاتا آزاد نہ ہوجائے۔ دھوئیں سے بھگوان کا دم اور بھی زیادہ گھٹا، لیکن برہمن نے مدد کے لیے ان کے چلّانے کی کوئی پرواہ نہیں کی۔
اِس دوران تینوں دنیائوں میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ بغیربدھاتا کے ، معاملات کو نظام کے تحت نہ چلائے جانے سے دنیا تباہی کے دہانے پر تھی۔ چنانچہ سارے بھگوانوں کی کونسل بیٹھی اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان میں سے کسی ایک کو برہمن کے پاس بھیجنا ہوگا۔ لیکن کسے؟ سب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ دیوی لکشمی کا انتخاب سب سے ٹھیک رہے گا۔ وہ بولیں۔ ’’اگر میں اس برہمن کے پاس جائوں گی تو کبھی واپس نہ آسکوں گی۔‘‘ لیکن سبھی نے بہت خوشامد کی تو پھر وہ راضی ہوگئیں اور برہمن کے گھر گئیں۔ جب برہمن کو پتہ چلا کہ اس کے دروازے پر دولت اور خوش قسمتی کی دیوی لکشمی آئی ہیں تو اس نے اوپر کا اپنا کپڑا ان کی تعظیم کے طور پر اپنی گردن کے گرد لپیٹ لیا۔ انھیں بیٹھنے کی جگہ دی اور پوچھا کہ’’ آخر کون سی بات انھیں ایک غریب آدمی کے دروازے پر لائی ہے‘‘؟’’ ٹھاکر! ‘‘ دیوی نے کہا۔’’ آپ نے بدھاتا کو بندی بنا رکھا ہے۔ اس سے جانے دیجئے ، ورنہ دنیا برباد ہوجائے گی‘‘۔ ’’ ذرا مجھے ڈنڈا تو دے دینا۔‘‘ برہمن نے اپنی بیوی سے کہا۔ ’’اور میں تمھیں دکھائوں گا کہ خوش قسمتی اور دولت کی اس دیوی کے بارے میں میں کیا سوچتا ہوں۔ جس دن سے میں پیدا ہوا ہوں یہ مجھ سے کتراتی رہی ہے۔ میرے پا س بدقسمتی کے سوا کچھ نہیں تھا اور اب وہ یہاں میرے گھر آئی ہے ۔ یہ لکشمی۔‘‘ جب دیوی نے یہ سنا تو خوف سے کانپنے لگی اور غائب ہوگئی۔ کسی نے اُس سے اس سے پہلے کسی زمانے میں بھی یوں بات نہ کی تھی۔ اس نے تمام بھگوانوں کو بتایا کہ کیا ہوا تھا اور دوسری بار سر جوڑ کر بیٹھنے کے بعد تمام بھگوانوں نے علم کی دیوی سرسوتی کو برہمن کے پاس بھیجا۔
جب دیوی سر سوتی اس کے گھر پہنچیں اور آواز لگائی کہ ’’ برہمن کیا تم اندر ہو؟‘‘ تو برہمن نے بڑی تعظیم کے ساتھ انھیں پرنام کیا اور بولا۔’’ ماتا، عظیم دیوی آپ ایک غریب آدمی کے گھر سے کیا چاہتی ہیں؟‘‘ ۔’’ ٹھاکر ! دنیا تیزی سے ٹکڑے ٹکڑے ہورہی ہے۔ بدھاتا کو جانے دیجئے‘‘۔ ’’ ارے ، بیوی ذرا ڈنڈا تو دینا ، میں اس علم کی دیوی کو ذرا سکھائوں ۔ اس نے مجھے حرفِ تہجی کے پہلے حرفوں تک کی بھی پہچان نہیں کرائی اور اب یہ میرے گھر آئی ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی دیوی جلدی سے اٹھیں اور ٹھوکریں کھاتی ہوئی بھاگیں۔
آخر کار بھگوان شیو نے کام اپنے ہاتھ میں لیا۔ یہ برہمن شیوجی کا زبردست بھگت۔ ایسا بھگت کہ شیو کی پوجا کے بغیر پانی تک نہیں چھوتا تھا۔ چنانچہ جوں ہی شیوجی وہاں پہنچے، برہمن اور اس کی بیوی نے انھیں پیر دھونے کے لیے پانی دیا اور بیل کی پتّیاں ، پوِتر گھاس ، پھول ، چاول اور صندل کی لکڑی پیش کی اور ان کی پوجا کی۔ تب شیوجی بیٹھ گئے اور انھوں نے برہمن سے کہا۔ ’’برہمن ! بدھاتا کو جانے دو۔‘‘ برہمن بولا۔’’ او، عظیم شیوجی چونکہ آپ خود آئے ہیں ، مجھے اسے جانے دینا چاہیے لیکن میں کروں تو کیا کروں؟ اس بدھاتا کی بدولت ہی تو میں جس دن سے پیدا ہوا مصیبتیں جھیل رہا ہوں۔ وہی اس کی جڑ ہے۔‘‘ تب بھوان شیونے کہا۔’’ تم پریشان مت ہو، میں تمھارے جسم اور روح دونوں کو سورگ میں لے جائوں گا۔‘‘ یہ سُن کر برہمن نے اپنی حلق کو ڈھیلا چھوڑ دیا اور منہ کھول دیا۔ بس بدھاتا نکل بھاگے۔ شیوجی برہمن اور اس کی بیوی کو ساتھ لے کر اپنی خاص جنت میں چلے گئے۔
٭٭٭

 

Matri ki Kahani A Persian Folk Tale

Articles

مٹری کی کہانی

ایرانی لوک کہانی

بہت پرانے وقتوں کی یہ بات ہے کہ ایک بہت شاداب سے گاؤں میں دو میاں بیوی رہتے تھے جن کا کوئی بچہ نہ تھا۔ وہ ہر وقت خدا سے یہی دعا کرتے رہتے کہ خدا انہیں اولاد دے۔
ایک دن کیا ہوا کہ وہ عورت شوربے کی پیالی ہاتھ میں لیے جا رہی تھی کہ پیالی میں سے مٹر کا ایک دانہ اچھلا اور تندور میں جا گرا۔ تندور میں گرتے ہی وہ مٹر کا دانہ ایک خوبصورت اور نٹ کھٹ سی بچی بن گیا۔
اسی اثنا میں اس کی ایک پڑوسن جو ہر وقت اس کا دماغ کھاتی رہتی تھی، اس نے دیوار سے سر اوپر کر کے کہا: “اری بہن! میری بیٹیاں جنگل میں پھل پھول چننے جانے لگی ہیں۔ اپنی بیٹی کو بھی ان کے ساتھ بھیج دو جنگل میں پھل پھول چننے”۔
 وہ اس بات پر بہت غمگین ہوئی اور ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے رونے لگی۔ مٹر نے رونے کی آواز سنی اور باتیں کرنے لگا، اس نے تندور کے اندر سے آواز سنی: “پیاری اماں! مجھے باہر نکالو اور ان لڑکیوں کے ساتھ جنگل بھیجو!”
عورت حیران اور پریشان سی ہو گئی اور سمجھی کہ وہ خواب دیکھ رہی ہے۔ اسی وقت اس کے کانوں پر آواز پڑی اور اسے اندازہ ہوا کہ آواز تندور سے ہی آ رہی ہے۔ وہ جلدی سے آگے بڑھی اور تندور کے اندر جھانکا اور ایک ننھی منی سی پیاری سی، بالکل ایک مٹر کے دانے جیسی چھوٹی سی بچی تندور میں پڑی ہے۔ وہ بہت خوش ہوئی اور اسے تندور سے باہر نکالا۔ اس نے اسے نہلایا دھلایا، اسے اچھے سے کپڑے پہنائے۔ اس کی بالوں میں مانگ کھینچی۔ اور اس کا نام رکھا مٹری۔ پھر اس نے پڑوسن کے بچوں کے ساتھ جنگل کی طرف بھیج دیا۔
مٹری پڑوسن کے بچوں کے ساتھ سورج ڈوبنے تک پھل پھول چنتی رہی۔ سورج پہاڑ کے پیچھے کہیں چھپ گیا اور سب بچوں نے کہا: “اب ہم گھر لوٹتے ہیں”۔
مٹری نے کہا: “ابھی بہت جلدی ہے۔ تھوڑی دیر اور چن لیں”۔
سب بچوں نے مٹری کی بات مان لی اور سبھی پھر سے جنگل میں پھل پھول چننے لگے۔ اندھیرے میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی، اور سبھی بچے اپنا کام ختم کر کے اپنے گھروں کی طرف چل دیے۔ اچانک ایک دیو اندھیرے سے نکل کر باہر آ گیا۔
دیو نے کہا: “بچو بچو، چاند سے بچو! یہ راستہ کہاں اور تم کہاں! یہاں سے آگے جاؤ گے کہاں؟”
مٹری نے کہا: “ہم یہاں سے گھر کی طرف جا رہے ہیں”۔
دیو نے کہا: “چاروں طرف چھایا ہے اندھیرا۔۔ یہاں سے آگے ہے بھیڑیے کا ڈیرا۔۔ وہ آ نکلا بچے، تو کیا بنے گا تیرا!!۔۔ اگر تم مانو، ایک مشورہ ہے میرا۔۔”
بچوں نے پوچھا: “کہیے، ہم کیا کریں اب؟”
دیو نے کہا: ” گھروں کو نکلنا صبح سویرے۔۔ آج کی رات رہو گھر میرے۔۔”
مٹری نے کہا: “ٹھیک ہے، ہمیں قبول ہے”۔
اور وہ سبھی دیو کے ساتھ اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔ دیو نے انہیں سونے کے کپڑے پہنائے اور جونہی وہ سو گئے اس نے اپنے آپ سے کہا: “آہا! کیسا ان کو میں نے الو بنایا۔۔ بھیڑیے سے ڈرا کے گھر لے آیا۔۔ کچھ دن ان کو کھلاؤں گا، پلاؤں گا۔۔۔ ان کو خوب موٹا تازہ بناؤں گا۔۔ جب ٹھیک سے پل جائے گا ایک ایک بچہ۔۔ مزے سے ان کو چباؤں گا کچا۔۔”
تھوڑی دیر گزری تو دیو نے اونچے سے کہا: “کون کون سوتا ہے، کون کون جاگتا ہے؟”
مٹری نے جواب دیا: “میں جاگ رہی ہوں”۔
دیو نے پوچھا: “آدھی ہے رات ، سوتی ہے خدائی۔۔ پر تم کو نیند ابتک نہ آئی۔۔۔ کیوں بچے؟”
مٹری نے کہا: “مجھے اس طرح نیند نہیں آتی۔۔”
دیو نے کہا: “جھولا جھلاؤں کہ لوری سناؤں۔۔۔ بتاؤ بچی، تمہیں کیسے سلاؤں؟”
مٹری نے جواب دیا: “جب میں گھر میں ہوتی ہوں تو میری اماں سونے سے پہلے حلوا بناتی ہیں اور تلے ہوئے انڈے کے ساتھ مجھے کھلاتی ہیں۔
دیو گیا ، حلوہ اور تلا ہوا انڈہ بنا کر لایا اور لا کر مٹری کے آگے رکھ دیا۔ مٹری نے باقی سب لڑکیوں کو جگایا اور کہا: “اٹھو اور حلوہ اور تلا ہوا انڈہ کھاؤ”۔
سبھی لڑکیوں نے جی بھر کے حلوہ اور تلا ہوا انڈہ کھایا اور پھر جا کر سو گئیں۔
کچھ دیر گزری تو دیو نے اونچی آواز میں پوچھا: “کون کون سوتا ہے، کون کون جاگتا ہے؟”
مٹری نے جواب دیا: “سبھی سو رہے ہیں، صرف میں جاگ رہی ہوں”۔
دیو نے پوچھا: “تم کیوں جاگتی ہو؟”
مٹری نے کہا: “جب میں اپنے گھر میں ہوتی ہوں تو میری ماں ہمیشہ شام پڑنے کے بعد کوہ بلور کی طرف جاتی ہے اور چھلنی سے نُور نَدی کا پانی چھان کر لاتی ہے اور مجھے پلاتی ہے”۔
دیو ایک چھلنی ہاتھ میں لیے کوہ بلور اور نور ندی کی طرف چل دیا۔ وہ چلتا رہا، چلتا رہا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔مٹری اور باقی سبھی لڑکیاں نیند سے جاگیں اور انہوں نے دیو کے گھر سے جو چیز پسند آئی، اٹھا لی اور گھر کو چل دیں۔ وہ آدھے راستے تک پہنچی تھیں کہ مٹری کو یاد آیا کہ ایک بہت خوبصورت سونے کا چمچ دیو کے گھر پڑا رہ گیا ہے۔ وہ واپس پلٹ گئی کہ جا کر وہ چمچ اٹھا لے۔ جونہی وہ دیو کے گھر پہنچی، اس نے دیکھا کہ دیو گھر واپس آ گیا پہنچ آیا ہے۔ وہ اپنی جگہ لیٹ گئی اور سونے کا چمچ اٹھانے کے لیے  رینگنے لگی۔ اس کوشش میں برتنوں کے ٹکرانے سے کھٹ کھٹ کی آواز پیدا ہوئی جو دیو نے سن لی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر مٹری کو پکڑ لیا۔ اس نے اسے پکڑ کر ایک بوری میں بند کر دیا اور بوری کے منہ کو باندھ دیا اور جنگل چلا گیا تاکہ مٹری کو پیٹنے کے لیے انار کی لکڑی سے ڈنڈا بنا لائے۔
مٹری نے جیسے تیسے، زور لگا کر بوری کی گرہ کھول لی اور باہر نکل آئی۔ اس نے دیو کے پالے ہوئے میمنے کو پکڑ کر بوری میں ڈال دیا اور گرہ دے کر ایک کونے میں چھپ کر کھڑی ہو گئی۔
دیو بغل میں چھڑی دبائے واپس آیا اور اس کے ساتھ زور زور سے اپنے میمنے کو پیٹنے لگا۔ میمنا مارے درد کے زور سے ممیاتا اور چلاتا، اور دیو اسے اور زور سے مارتا جاتا اور کہتا: “پہلے مجھے الو بناتی ہو!۔۔ پھر میرے گھر کی سبھی چیزیں اٹھا لے جاتی ہو۔۔۔ اب میمنے کی طرح ممیاتی ہو!”
جب میمنے نے ممیانا اور تڑپنا بند کر دیا تو دیو نے بوری کو کھولا۔ کیا دیکھتا ہے کہ اس کا لاڈلا میمنا اسی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ وہ غصے سے پاگل ہو گیا اور دائیں بائیں سونگھنے لگا۔ گھر کے ہر کونے کھدرے سے ڈھونڈنے کے بعد آخر اس نے مٹری کو ڈھونڈ لیا اور اسے پکڑ کر اونچی آواز میں چلایا: “میں تیری تکا بوٹی نہیں بناؤں گا۔۔ میں تمہیں زندہ ہی کھاؤں گا۔۔۔اور تیری شرارتوں سے جان چھڑاؤں گا۔۔”
مٹری نے کہا: “اگر تو مجھے زندہ کھائے گا تو میں تیرے اندر جا کر تیرا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی اور باہر نکل آؤں گی”۔
دیو ڈر گیا اور سوچا کہ یہ سچ مچ میری انتڑیاں توڑ ڈالے گی اور میرا پیٹ پھاڑ دے گی۔ اس نے پوچھا: “تجھے ایسے نہ کھاؤں۔۔ تو پھر کیسے کھاؤں؟”
مٹری نے کہا: “پہلے روٹیاں پکاؤ۔ پھر میرے کباب بھوننا اور مجھے روٹی کے ساتھ مزے لے لے کر کھانا۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ روٹی اور کباب کیسے مزے کا کھانا ہے”۔
یہ بات سنتے ہیں دیو کے منہ میں پانی بھر آیا اور جھاگ بن کر اس کی باچھوں سے نکلنے لگا۔ اس کا دل گرما گرم کباب اور تازہ روٹی کے لیےبے چین ہو گیا۔ وہ تیزی سے تندور کی طرف گیا اور اس میں آگ جلائی۔ جونہی وہ روٹی پٹخنے کو تندور میں جھکا، مٹری اس کی بغل سے پیچھے کود گئی۔ اس نے دیو کو ایک زور دار دھکا دیا جس سے وہ جلتے ہوئے تندور کے اندر جا گرا۔ مٹری سونے کا چمچ اٹھا کر واپس اپنے گھر اپنے ماں باپ کے پاس جا پہنچی اور ان کے ساتھ ہنسی خوشی رہنے لگی۔
———————————————————————

Jackal and Bear A Nepali Folk Tale

Articles

گیدڑ اور بھالو

انگریزی سے ترجمہ: حیدر شمسی

 

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ اور بھالو کی ملاقات گائوں کے میلے میں آسمانی جھولے میں ہوئی ۔انھوں نے جھولے کا بھر پور مزہ لیا۔پوری رات انھوں نے شراب پینے ، قمار بازی اور لطیفہ گوئی میں صرف کر دی۔دوسرے دن صبح تک وہ دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب سے وہ دونوں ساتھ ساتھ رہین گے، ساتھ کمائیں گے اور ساتھ کھائیں گے ۔
گیدڑ نے کہا ’’میرے دوست ہم بھائی جیسے ہیں ہم الگ نہیں ہیں۔ ہم نے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کا فیصلہ کیاہے کیوں نہ ہم ساتھ مل کر کھیتی باڑی شروع کریں۔‘‘
بھالو نے سوچا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تب دونوں گھر کی تلاش میں نکلے۔ گائوں سے تھوڑے ہی دور جنگل میں جہاں لوگ لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے انھیں وہاں ایک چرواہے کا جھونپڑا نظر آیا جو کئی سالوں سے ویران تھا ۔انھوں نے بامبو سے چھت بنائی اور جھونپڑے کو اچھی طرح سے صاف کیا۔پھر انھوں نے جوئے میں جیتے ہوئے پیسوں سے ایک سانڈ خریدااور زمین جوتنا شروع کردی۔
بھالو کا سلوک گیدڑ کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ بہت محنتی بھی تھالیکن بے وقوف تھا ۔دوسری طرف گیدڑ بہت چالاک تھا لیکن اسے کام سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی۔انھوں نے مل کر اپنی پہلی بھنٹے کی فصل تیار کرلی ۔گیدڑ کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بھالو کے ساتھ زندگی بطور کسان نہیں گذار سکتا۔
دوسرے دن صبح گیڈر نے کہادوست میں کھیت میں کام کرتا ہوں اور تم جائو سانڈ کو چرا لائو۔اس طرح ہم باری باری کرینگے جس سے ہمارے کام کا بوجھ ہلکا ہو جائیگا ۔
یہ طریقہ بھالو کو بہت پسند آیا وہ روزانہ صبح اٹھتا ناشتہ کرتا اور سانڈ کو چرانے نکل جاتا اور سانڈ کو چرانے چھوڑ کر اونچی جگہ جا کر بیٹھ جاتا اور دن بھر اس پہ نظر رکھتا ۔اس طرح سانڈ گھم ہو جانے اور شیر کی خوراک بننے سے بچا رہتا۔اسی دوران گیدڑ کھیت میں درخت کے سائے میں دن بھر لیٹا رہتا اس طرح فصل بڑھتی گئی۔
جب فصل کی کٹائی کا وقت آیا تب گیدڑ نے کہا’’میرے دوست تم نے بہت محنت کی ہے اورکئی دنوں سے سانڈ کو چرا رہے ہو ۔ سانڈ بھی بہت صحت مند ہو گیا ہے ۔اب میری باری ہے اسے چرانے کی اب تم کھیت میں کام کرو۔
بھالو اپنی تعریف سنتے ہی راضی ہو گیا۔وہ فصل کی کٹائی کرنے لگااور گیدڑ سانڈ کو چرانے چلا گیا۔
بھالو مسلسل پورا دن کام کرتا رہتا ۔گیڈر کم محنتی تھا۔اسے گھنے جنگل میں اندر تک جانا بھی بھاری پڑتا تھا جہاں سانڈ کے لیے اچھی غذا تھی۔اسے اونچی جگہ پر چڑھنا اور سانڈ پہ نظر رکھنا بھی بھاری پڑتا تھا ۔ اور وہ دن بھر سانڈ کے ساتھ رہتا کہ کہیں گھم نہ جائے یا وہ شیر کی خوراک نہ بن جائے۔وہ میدانی علاقے میں سانڈ کو چرا تا رہتا یہ اس کے لیے آسان تھا اسے اس چیز کی پرواہ نہ تھی کہ وہاں چھوٹی چھوٹی گھاس ہے۔وہ بیری کے درخت کے نیچے لیٹا رہتا اور اسے دیکھتا رہتا۔اسے نہ ہی اٹھنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی سانڈ کے پیچھے پیچھے بھاگنے کی۔شام میں تاخیر سے وہ گھر جاتا تاکہ اسے بھالو کے ساتھ فصل کی کٹا ئی میں مدد نہ کرنا پڑے۔
چند دنوں بعد سانڈ دبلا پڑ گیا۔اگر چہ بھالو بے وقوف تھا مگر اندھا نہیں تھا۔
اس نے ایک شام کو گیدڑ سے کہا’’دوست ہمارا سانڈ اتنا دبلا کیوں ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
گیدڑ کے پاس جواب تیار تھا۔
’’ اس معاملہ میں ہم دونوں برابرنہیں ہیں دوست تم مجھ سے زیادہ اچھا چراتے ہو‘‘۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’جہاں کہیں میں اسے لے جا تا ہووہاں مجھ سے پہلے لوگ پہنچ جاتے ہیں اس لیے اسے کھانے کے لیے کم مل پاتا ہے۔لیکن آج میں نے ایک ایسی جگہ دریافت کرلی ہے جہاں گھاس سانڈ کے گھٹنوں تک اگی ہوئی ہے۔کل میں اسے وہاں لے جائوں گا اور اسے پیٹ بھر کھلائوں گا۔‘‘
بھالو کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ گیدڑ اچھا چرواہا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسرے دن صبح جب گیدڑ سانڈ کو لے جانے کے لیے اس کی رسی کھول رہا تھا تب اس نے دیکھا کہ فصل کی کٹائی تقریباََ ہو چکی ہے ۔ اسی دن کا اس کو انتظار تھا ۔وہ گیڈر کو جنگل میں لے گیا مگر اسے گھنی جھاڑی میں نہیں لے گیا بلکہ بنجر ٹیلہ پر لے گیا جہاں گھاس کا نام و نشان نہ تھا۔جب سانڈ نے چرنے کے لیے اپنے سر کو جھکایا تب گیڈر نے اسے دھکا دے دیا اور وہ ٹیلہ سے نیچے گر گیا۔پھر گیدڑ بھاگتا ہوا ٹیلے سے نیچے اترا اور سانڈ کے مردہ جسم کو کھسکا کرٹیلے کے سائے میں لے آیا تا کہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
صبح کا ناشتہ گیدڑ نے سانڈ کے گوشت سے کیا۔جب اس کا پیٹ بھر گیا تب اس نے سانڈ کے بچے ہوئے جسم کو پہاڑ کی غار میں چھپا دیا اور غار کے راستے کو پتھروں سے بند کردیا صرف اتنی جگہ چھوڑ دی کہ وہ خود اندر داخل ہو سکے اور سانڈ کی پونچھ سوراخ سے لٹکا کر باہر چھوڑ دی۔جب سب کام ختم ہو گیا تب اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر آرام کر لیا جائے ۔وہ گھر شام کو دیر سے جانا چاہتا تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ فصل کاٹنے میں آج بھالو کو دیر ہو جائے گی۔
گیدڑ کو دور سے اکیلا آتا دیکھ بھالو نے گیدڑ سے کہا’’سانڈ کہاں ہیں؟‘‘
گیدڑ روتے ہوئے کہنے لگا ’’ دوست آج بہت برا ہوا سانڈ غار کے دہانے میں پھنس گیا میں نے اسے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اسے نکال نہ سکا کیوں کہ میں بہت کمزرور تھا ۔میرے دوست تم بہت طاقتور ہو ۔ کل تم میرے ساتھ چلو مجھے یقین ہے کہ تم اسے نکال لو گے۔
بھا لو تعریف سن کر نرم پڑ گیااور وہ اپنے دوست کی بات ٹال نہ سکا۔
دوسرے دن صبح گیدڑ بھالو کو لے کر غار کے پاس پہنچا ۔گیدڑ نے بھالو سے کہا تم بہت موٹے ہو تم اندر نہیں جا سکتے میں اندر جاتا ہوں اور سانڈ کو ڈھکیلتا ہوں تم باہر رہو اورباہر کی طرف کھینچو۔لیکن جب تک مت کھینچنا جب تک میں نہ کہوں۔جب میں کہوںتب تم دونوں ہاتھوں سے پوری طاقت لگا کر کھینچنا ۔
بھالو راضی ہو گیا اور گیدڑ غار کے اندر چلا گیا۔اور اند رجا کر اس نے سانڈ کو باہر ڈھکیلنے کی پوری تیاری کرلی۔پھر آواز لگائی’’دوست کھینچو!‘‘
بھالو نے دونوں ہاتھوں سے پونچھ کو پکڑا اور اپنا پیر سہارے کے لیے غار پر رکھ کرپوری طاقت سے کھینچنے لگا۔جب گیدڑ کو لگا کے بھالو پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے تب اس نے سانڈ کو باہر کی طرف ڈھکیل دیا ۔بھالو سانڈ کے وزن کو سنبھا ل نہ سکا اور لڑکھڑا کر پہاڑسے نیچے ندی میں گر گیا۔
سانڈ ہاتھ مل کر مسکرانے لگا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔فصل پوری کٹ چکی تھی۔سانڈ کو بھی اب چرانے کی ضرورت نہیں تھی اور اب بھالو بھی نہیں تھا جو اسے غلط کام پر بولتا۔دھوکہ باز گیدڑ نے سوچا’’اب جیسا میں چاہوں ویسا کر سکتا ہوں کوئی بولنے والا نہیں ہے۔‘‘
وہ بھاگتا ہواگھر آیا ۔کلہاڑی اور باسکٹ لے کر پھر پہاڑی پر گیا تاکہ سانڈ کا بچا ہوا گوشت کھا سکے اورجو بچے اسے کاٹ کر گھر لا سکے۔گیدڑ نے گھر سے دلیابھی ساتھ لے لیا تا کہ دوپہر کا کھانا مکمل ہو جائے۔اور وہ یہ ساری چیزیں لے کر پہاڑی پر پہنچا ۔
پہنچتے ہی وہ ششدر رہ گیا۔ غار کے سامنے بھالوہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا۔
’’ ارے دوست ‘‘گیدڑ کو دیکھ کر بھالو نے کہا۔’’سانڈ کا کیا ہوا؟‘‘
’’تم نے زیادہ زور سے کھینچ دیا ‘‘ گیدڑ نے برجستہ جواب دیا۔’’ تمہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں رہا ۔ تمہارے ساتھ ہی سانڈ بھی دریا میں گر گیا اور ڈوب گیا۔وہ دریا میں بہت زور سے گرا تھا پانی بھی بہت اوپر تک اچھلا تھا۔‘‘
’’میرے پیارے دوست‘‘بھالوبڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا’’اب ہم اس سے کبھی نہیں مل سکتے ۔ اس کے ساتھ میری بھی زندگی ختم ہوگئی !‘‘ پھراس نے گیدڑ کی طرف دیکھ کر کہا’’تم کلہاڑی اور باسکٹ اپنے ساتھ کیوں لائے ہو؟‘‘
’’میں نے سوچا کہ میں جنگل میں جا کر کچھ لکڑیاں کاٹ لائوں گا۔مجھے معلوم تھا کہ تم دریا سے بچ کر نکل جائوں گے اور تمہیں سردی پکڑ لے گی اور تم کام نہیں کر پائوں گے۔میں تم سے کہنے ہی والا تھا کہ تم گھر جا کر تھوڑا آرام کرلو۔‘‘
تمہیں اپنے آپ پر رشک کرنا چاہئے کہ تمہارے بارے میں اتنا سوچنے والا تمہیں بھائی جیسادوست ملا۔پھر بھالو نے کھچڑی کی طرف دیکھ کر کہا ’’تم دلیا کیوں اپنے ساتھ لائے؟‘‘
’’میں نے سوچا کہ تم تیرتے تیرتے بہت تھک گئے ہوگے اور تمہیں بہت بھوک لگی ہو گی اس لیے میں گھر جاکر تمہارے لیے کھچڑی لے کر آیا۔‘‘
بھالو کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ خوش نظر آنے لگا۔
’’میرے دوست تم لاکھوں میں ایک ہو‘‘ اس نے چلا کر کہا اور گیدڑ کو گلے سے لگا لیا۔
گیڈر نے بھی ہنسنا شروع کر دیا ۔وہ دونوں ہنسی خوشی پہاڑ سے نیچے اتر گئے۔جب دونوں ہنستے ہنستے نڈھال ہوگئے تب انھوں نے ساتھ مل کردلیا کھایا۔پھر جنگل جاکر لکڑیاں کاٹ کر دونوں ساتھ لائے ۔
دونوں ایک دوسرے کے اب تک دوست تھے ۔حالانکہ کسی کوبھی یقین نہیں آتا تھا کہ بے وقوف ،سخت محنتی بھالو چالاک اور کام چور گیدڑ کا دوست کیسے ہے۔
٭٭٭
یہ نیپالی لوک کہانی اردو چینل ڈاٹ اِن کے لیے حیدر شمسی نے انگریزی سے اردو میں ترجمہ کی ہے۔