Sogandhi by MujahidSaleem

Articles

سوگندھی

مجاہد سلیم

 آج ہی کی طرح وہ بھی ایک منحوس دن تھا ـ جب وہ اپنے بابو کا ہاتھ تھامے دوسرے گاؤں میں لگے میلے گئی ہوئی تھی ـ اسے اچھی طرح یاد ہے کھلونوں کی بے شمار دکانیں دیکھ کر وہ خوشی سے اچھل پڑی تھی ـ رنگ برنگ غبارے بڑے پیارے لگ رہے تھے ـ حلوائی کی دکان جہاں گرما گرم جلیبی اور امرتی بن رہی تھی، کافی بھیڑ تھی ـ اسکے بغل میں جوس کی دکان تھی ـ اس کے بعد ایک چپل کی دکان جہاں ایک عورت دکاندار سے الجھ گئی تھی اور راہ چلتے لوگ انہیں دیکھتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے ـ “موت کا کنواں” کے ٹکٹ والے کی آواز بہت تیزی سے گونج رہی تھی ـ آسمانی جھولے کے علاوہ بہت سارے چھوٹے بڑے جھولے تھے ـ ” پنّا لال” گدھے میاں کے شو کیلئے تو لائن لگی ہوئی تھی ـ آئینے والا پنڈال خالی پڑا تھا ـ
 بابو کے ساتھ جب وہ آسمانی جھولے پر بیٹھی اسے بہت ڈر لگ رہا تھا ـ جھولا جب نیچے آنے لگتا تو وہ آنکھیں بند کر کے بابو کو تیزی سے پکڑ لیتی ـ جب وہ جھولے سےاترے تو اسکی سماعت سے ایک آواز ٹکرائی
” ایک روپئے میں تاج محل ، قطب مینار ، لال قلعہ ، چار مینار دیکھو “
اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص سیربین  لے کر بیٹھا تھا ـ اس کا چہرہ بہت معصوم لگ رہا تھا ـ اس نے بابو سے دیکھنے کی فرمائش کی ـ بابو نے اس شخص کو ایک روپیہ دیا تو اس نے باری باری بہت سی تصویریں سیربین  میں دکھائیں ـ پھر ڈھیر سارے کھلونے اور مٹھائیاں خریدیں ـ اور آخر میں بابو نے اسکے سیدھے ہاتھ کی کلائی پر اسکا پیارا سا نام گدوایا ” سوگندھی “
درد کی شدت سے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے ـ
 اور جب وہ لوگ لوٹے تو گاؤں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا جا چکا تھا ـ ڈاکو سوگندھی کی ماں کو اٹھا لے گئے تھے ـ اس نے دیکھا بابو کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ـ اور وہ ہاتھ میں خنجر لئے گھر سے نکلے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے ـ اسکے بعد سوگندھی کی پرورش اسکے چاچا جی نے کی ـ
 اور آج کا منحوس دن ـــــ آج ڈاکو سوگندھی کو اٹھا لے گئے تھے ـ سوگندھی جو ڈاکوؤں کے چنگل سے چھوٹ کر اپنے ہمسفر رامو کے پاس لوٹ آئی تھی ـ رامو اسے کھو کر پاگل ہوا جا رہا تھا ـ سوگندھی کو دیکھ کر اسکی جان میں جان آئی ـ وہ گاؤں والوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بیساختہ ہی اس سے لپٹ گیا ـ
 سوگندھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ـ رامو نے اسکے آنسو پوچھے، چپ کرایا اور اپنے مکان کی طرف سوگندھی کا ہاتھ تھامے بڑھنے لگا ـ سوگندھی نے چلتے چلتے ایک نظر گاؤں والوں پر ڈالی ـ گاؤں والوں کی نظریں اسکے بدن کا جائزہ لے رہیں تھیں ـ عورتوں کی کھسر پسر اسکا کلیجہ کاٹے جا رہی تھی ـ اسے پتہ تھا کہ اس وقت لوگ اسکے بارے میں کیا سوچ رہے ہوں گے ـ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے رامو نے دروازہ بند کر دیا ـ سوگندھی رامو سے لپٹ گئی ـ
” رامو میرا یقین کرو “
سوگندھی کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر رامو نے کہا
” سوگندھی کچھ نہ کہو تم میرے لئے جو کل تھی آج بھی وہی ہو”
چار لڑکیوں میں سے سوگندھی ہی ایک تھی جو لوٹ آئی تھی ـ بقیہ مغویہ لڑکیوں کا کوئی پتہ نہیں تھا ـ تینوں لڑکیاں کنواری تھیں ـ ڈاکوؤں نے سوگندھی کی خوبصورتی دیکھی تو اسے بھی اٹھا لے گئے وہ تھی بھی بھرے پرے بدن والی ـ بالکل کمسن سی دکھائی دیتی تھی ـ رامو سے بیاہ ہوئے دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا ـ ان دو سالوں میں امید کی کوئی کرن نہیں جاگی تھی ـ رامو کسان تھا زمین چیر کر بیج بونا اسے اچھی طرح آتا تھا ـ اسے یقین تھا کہ وہ یہاں بھی بیج بونے میں ضرور کامیاب ہو جائے گا ـ
 اس منحوس دن سے دو تین دن پہلے سوگندھی کو لگا کہ وہ ماں بننے والی ہے ـ وہ رامو کو یہ خوشخبری سنانا تو چاہتی تھی پر اسکے دل میں ایک ڈر بھی تھا کہ اگر یہ بات غلط نکلی تو کہیں رامو کے حوصلے پست نہ پڑ جائیں ـ دل کی بات دل ہی میں رہ گئی ـ
 اور پھر گاؤں میں آگ اور خون کا کھیل کھیلا گیا اور گاؤں کی چار نہایت ہی حسین و جمیل لڑکیوں کا اغواء کر لیا گیا ـ ان ہی میں ایک سوگندھی بھی تھی جو لوٹ آئی ـ رامو سوگندھی کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے لگا تھا جیسے اسکا دکھ بانٹ رہا ہو ـ سوگندھی رامو سے جب بھی اس دن کے بارے میں بتانا چاہتی رامو اسے پیار سے کہتا
” سوگندھی تم پوتر ہو “
آج صبح ہی سے سوگندھی کی عجیب سی حالت تھی ـ رہ رہ کر اسکا جی متلا رہا تھا ـ اور پیٹ میں بھی ہلکا ہلکا درد سا تھا ـ جب درد کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا تو اس نے رامو سے یہ بات بتائی ـ رامو فورًا ہی وید کو لے آیا ـ وید نے سوگندھی کو دیکھ کر رامو سے کہا
” مبارک ہو تم باپ بننے والے ہو “
سوگندھی نے خوشی سے رامو کی طرف دیکھا ـ رامو کی آنکھوں میں پل بھر کیلئے چمک جاگی اور پھر غائب ہو گئی ـ اور چہرے پر اداسی چھا گئی ـ اور وہ گھر سےباہر نکل گیا ـاس کے ذہن میں ایک سوال گونج رہا تھا ـ
“کس کا ہے یہ بچہ؟ “
وہ سوچنے لگا
 سوگندھی کو جب ڈاکو اٹھا لے گئے تھے تو اس کے ساتھ وہ سب کچھ ہوا ہو گا جسے وہ اور گاؤں والے بھی اچھی طرح جانتے ہیں ـ
” تو کیا اسکے اندر ہی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ـ اگر گاؤں والوں کو یہ بات معلوم پڑ گئی تو….. ــــــــــــــــــــــ
 نہیں نہیں کسی کو کچھ بھی پتہ نہیں چلے گا ـ کیونکہ وہ اس بچے کو گرا دیگا ـ ہاں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری “
شام کو جب پرندے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹنے لگے وہ بھی ایک فیصلہ لئے لوٹ آیا ـ
” سوگندھی” اس نے دھیرے سے کہا
” ہاں ” سوگندھی نے رامو کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” مجھے یہ بچہ نہیں چاہئیے گرا دو اسے “
سوگندھی کیلئے یہ اسکا حکم تھا ـ
 سوگندھی رامو کی بات سن کر رو پڑی ـ رامو خاموش کھڑا رہا ـ سوگندھی نے آنسوؤں کو دوپٹے میں پوچھا اور سسکیاں لیتی ہوئی رامو سے مخاطب ہوئی ـ
” رامو تم چاہتے ہو نا کہ یہ بچہ گرا دیا جائے ٹھیک ہے مگر اس سے پہلے میری بات تو سن لو “
 ” کہو کیا کہنا ہے ـ “
رامو نے بے رخی سے کہا
 جانتے ہو رامو وہ لوگ مجھے اٹھا کر جس شخص کے پاس لے گئے تھے اس کا مانوس چہرہ دیکھ کر میں اسے دیکھے ہی جا رہی تھی ـ جس طرح عقاب کی نظر اپنے شکار پر ہوتی ہے اسی طرح اسکی نظر میرے جسم پر رینگتی ہوئی میری کلائی پر آ کر ٹک گئیں ـ اور وہ دھیرے سے کچھ بڑبڑایا ـ پھر وہ میرے قریب آنے لگا تو میں روپڑی اور اس سے رحم کی بھیک مانگنے لگی ـ اس نے میرے سیدھے ہاتھ کو اٹھا کر کلائی کی طرف دیکھا جہاں پر میرا نام لکھا تھا ” سوگندھی”
بے موسم بارش کی طرح اسکی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے ـ اس نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر ڈھیر ساری دعائیں دیں ـ اور میں سہمی ہوئی اسے دیکھتی رہی اس نے اپنے آدمیوں سے کہا
” جاؤ اسے اسکے گھر حفاظت کیساتھ چھوڑ آؤ “
رامو حیرت سے سوگندھی کی طرف دیکھتا رہا ـ
“لیکن وہ شخص تھا کون “
رامو نے سوال کیا
“وہ میرے بابو تھے ـ

Ishq Aur Siasat by Naeem Saleem

Articles

عشق اور سیاست

نعیم سلیم

کہتے ہیں عشق اور مشک چھپانے سے بھی نہیں چھپتے..نجانے کتنی ہی نسلیں گزر گئیں جنھوں نے یہ مقولہ پڑھا یا سنا مگر مشک کو اپنے  ماتھے کی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے…..اسلئے میں سوچتا ہوں کہ عشق اور سیاست چھپانے سے نہیں چھپتے اس طرح کرلیا جائے تو کیسا رہے گا؟ .کیونکہ مشک دیکھا ہی نہیں تو سونگھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.. بھلے سے عشق اور مشک میں جو بہناپا لگتا ہے وہ عشق اور سیاست میں سوتناپا (سوتن پن) محسوس ہو….خیر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.. اب گدھے اورزعفران یا بندر اور ادرک میں کیا مطابقت ہے.جو عشق اور مشک میں ہی ضروری ہو.عشق اور سیاست میں  نہیں..؟…
آپ خود غورفرمائیں ایک وقت ایسا بھی تھا کہ لوگ محض بدنامی کے ڈر سے عشق نہیں کرپاتے تھے.چند ہی گنے چنے عاشق و معشوق چھپ چھپا کر اپنا  عشق پروان چڑھاتے تھے…سیاست کا بھی یہی حال تھا بڑی مشکل سے کوئی سیاست میں آنا پسند کرتا تھا.عوام الناس کو عشق میں بدنام ہونے پر جو رسوائی کا ڈر تھا وہی ڈر سیاست میں داخل ہونے کا تھا اسلئے عشق اور سیاست خاص الخاص لوگ ہی کیا کرتے تھے………….جیسے جیسے زمانہ بدلا……ترقیاں ہوتی گئیں…لوگوں میں حوصلہ پیدا ہوا…اور….وہ عشق کے معاملات میں بیباکی سے کام لینے لگے….ادھر سیاست میں بھی کیرئیر بنانے کا رجحان بنتا گیا.کہتے ہیں جب فلم مغل اعظم ریلیز ہوئی تو اسکے مشہور زمانہ گیت” جب پیار کیا تو ڈرنا کیا “سے تحریک پاکر عشق کے بخار میں مبتلا سیکڑوں جوڑے گھروں سے  فرار ہوئے اور سماج کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا…تو دوسری طرف ایمرجنسی کے دور میں مختلف پارٹیوں کے ذمہ داران جیل میں ایک ساتھ قید ہوئے تو انہوں نے بھی سیاست میں انقلاب بر پا کردیا…اور غلامی کی سیاست سے پرے اپنا وجود منوانے لگے………
 گزرے دور میں سہولیات کا فقدان تھا اسلئے عشق  بھی واسطے سے ہوتا تھا..محبوب کی سہیلی یا کٹنی سے  قاصد کا کام لیا جاتا تھا…اسی طرح ایک پارٹی کے ذمہ داران دوسری پارٹیوں کے ابھرتے ہوئے لیڈران و ورکرس کو قاصد کے ذریعے اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دیتے تھے…….کبھی قاصد پیغام پہنچاتے پہنچاتے خود محبوب بن جاتا تھا.تو کبھی قاصد مخالف پارٹی کے لیڈر کو اپنی پارٹی میں لانے کیلئے نکلتا مگر خود  شکار ہوکر اُنکی پارٹی میں شامل ہوجاتا.
اس دھوکہ دھڑی سے عشق و سیاست کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا نتیجے میں قاصد بے اعتبار ہوگئے تو ان کا وجود بھی ختم ہوگیا.
عشق میں عاشق ومعشوق  اپنی جا ن دینا پسند کرتے تھے مگر ایکدوسرے  کی جدائی گوارانہ ہوتی..ادھر سیاست میں بھی ایسے ایسے لوگ آئے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ایک ہی پارٹی کی خدمت  میں لگادی مخالف پارٹیوں کے روپوں پیسوں  اور عہدوں کو ٹھو کر ماردیا خود برباد ہوگئے مگر پار ٹی تبدیل نہیں کی.
. پھر زمانے نے کروٹ بدلی تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی کا مزاج بنا تو عاشق ومعشو ق نے بھی ساتھ جینے مرنے کی قسموں کو توڑ دیا.قسمیں تو کھاتے رہے مگر ایک ہی جنم میں سات جنموں کا عشق الگ الگ معشوق کے ساتھ پروان چڑھتا رہا…ادھر سیاست میں بھی وفاداری کی جگہ  مصلحت اور دور اندیشی نے لے لی پارٹیاں بدلنا عیب نہیں سمجھا گیا.
.ایک وقت ایسا بھی آیا جب خواتین کے رسالوں میں چھپنے والی کہانیوں سے تحریک پاکر عشق اپنے خاندان میں ہی پنپنے  لگا.بعد میں اختلافات ہونے پر خاندانوں میں دراڑیں پڑیں.اسی طرح ایک ہی سیاسی پارٹی میں اتنی آپسی محبت بڑھی کہ پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنا پڑا کہ اگر دو نہ ہوئے تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے عوام بھی اور پارٹی بھی.
جب زمانہ اور ترقی پر آیا تو عشق کے نام پر ایسی ڈھٹائی ہونے لگی کہ آزاد خیال مردو خواتین عشق کو تھوڑا سائڈ میں کرکے فرینڈشپ کے نام پر آزادانہ میل ملاپ میں یقین کرنے لگے…اسی طرح سیاست میں بھی پارٹی اختلافات سے پرے لیڈران مختلف قومی معاملات میں مشترکہ مفادات کے نام پر ایک ساتھ اسٹیج شئر کرنے لگے…
اور آج….آج کے حالات تو مت پوچھئے کہ عشق اور سیاست کے نام پر کیا کچھ نہیں ہورہا ہے  جب تک عاشق ومعشوق ایکدوسرے سے بور نہیں ہوتے ساتھ رہتے ہیں پھر دونوں خود ایکدوسرے کے نئے پارٹنر کا انتظام کرکے کہتے ہیں..انجوائے یار…..
اِدھر سیاست میں جب تک ایکدوسرے سے فائدہ پہنچتے رہتا ہے تو ساتھ دیتے ہیں بور ہوجانے پر دوسری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں پھر کیا پوزیشن اور کیا اپوزیشن…..نہ عشق میں اصول نہ سیاست میں….کیا کریں زندگی ہے ہی  اتنی طویل کہ ایک کے ساتھ گزارا بہت کٹھن اور دشوار ہے…اور اتنی مختصر بھی ہے کہ اکثر لوگ اپنی خواھشات پوری کرتے کرتے موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں مگر ارمان پورا نہیں ہوپاتا…..

Bhagmati by Imran Jameel

Articles

بَھاگ مَتی

عمران جمیل

 

“امّاں اِی ہم سے نہ ہوے” بھاگمتی نے اپنا میلا کچیلا گھاگرا کمر میں اُڑس کر منہ بناتے ہوئے کہا۔ دھونکنی کے پاس گھنٹوں کالے دھوئیں اور تیز بُو کے درمیان بیٹھے رہنے سے اُسکا دماغ بھی انگارے پر رکھے تانبے کی طرح تپ رہا تھا۔ گردن کے پاس سے کمر تک رنگین کترنوں سے سِلی گئی کانچلی اُس پر ٹنکی چمکیلی ٹِکلیاں اور موتی کام پھیکے پڑنے بعد بھی کپڑے پر ایسے جمے ہوئے تھے جیسے وہ اُس کا ساتھ چھوڑنا نہیں چاہتے ہوں۔ بھاگمتی کے مرجھائے جواب سے اماں ٹھٹک گئیں۔ بھٹّی کی تپن سے جُھلستا ان کا گورارنگ گرم لوہے کی طرح انگارہ ہوگیا۔ امّاں کی بھرّائی آواز جب کانوں میں پڑتی تو ڈھولک کی تھاپ پر الاؤ کے گِرد رقص کرتی آوازوں کے لوک گیت یاد آجاتے۔ امّاں نے دنیا دیکھی تھی۔ کچھ سوچتے ہی اُن کی آنکھوں سے شرارے پھوٹ پڑے۔ بھاگمتی امّاں سے نظریں چار نہیں کرسکی اُسمیں ہمت ہی نہیں تھی کہ وہ اپنے جواب کو پھر سے دوہرا سکے۔ ٹھاکروں نے چمیلی سے بیاہ ہوتا دیکھ چھوٹے مالک اور چمیلی کو حویلی کے صدر دروازے پر جھولتا ڈال دیا تھا تاکہ قصبے کے لوگ کچھ دن اُس جوڑے کو بےجان لٹکتا دیکھ سکیں آخر اُن کی مریَادا کی بات جو تھی اُنہیں گاڈیا برادری کی کسی لڑکی کا حویلی کی ٹھاکرائن بننے کا خواب بالکل بھی نہ بھایا۔ اُس رات جس نے بھی اپنے سینے میں دل کو محسوس کرنا چاہا چمیلی اور چھوٹے مالک کو لوہے کے ہُک سے اُتارنا چاہا تو اُن کا بھی وہی انجام ہوا جس انجام سے چمیلی اور چھوٹے مالک اپنے پیروں سے ہمیشہ کے لئے زمین کھو بیٹھے تھے۔ بھاگمتی کو ہڈیوں میں اُترتی سرد رات کے وہ لمحے اب بھی یاد ہیں جب امّاں نے دلدوز چیخوں کے ساتھ جس میں ایک دہشت کی للکار تھی چمیلی کی رسی کو تیز چھرے سے کاٹا اُسے چھاتی سے چمٹائے بجلی کی طرح گرجی تھی۔ اُس دن  امّاں کی چینخ سے کچھ وقت تک اُسے کچھ بھی سنائی نہ دیا اُسے لگا کہ وہ ریت کے دریا میں اکیلی کھڑی ہے اور ریتیلے غبار کے جھکّڑوں سے اُسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ہے۔ امّاں کی چینخ کی گونج کے ساتھ ہی زبان نکالی ہوئی وحشتناک آنکھوں سے دیکھتی ہوئی ماتا کے سینکڑوں روپ اُسے اُس دن اماں کےآس پاس ہی محسوس ہوئے۔ لمبے تڑنگے، مونچھوں پر تاؤ دیتے، انگارہ برساتی آنکھوں والے رائفل سے نشانہ سادھے ہوئے ٹھاکر بھی اُس ٹھٹھرتی رات کو بوکھلائے ہوئے میمنے لگے۔ رائفل کی جگہ اُنکے ہاتھوں میں اُسے پشکر میلے کا تنتنا دکھائی پڑ رہا تھا۔ دوڑتے بھاگتے ملازم دُم دبائے کتّوں کی سی حرکت کرتے نظر آرہے تھے۔ نہ جانے کیا بات تھی امّاں کی آواز میں وہ کبھی لجاجت سے بھی پکارتیں  تو اُس میں بھی ہلکی سی دہاڑ کی جھلک صاف محسوس ہوتی۔ امّاں مسکراتی تو تھیں لیکن اُنکی چمکتی آنکھیں ویسی ہی سپاٹ نظر آتیں مانو کوئی بڑا سا محل اپنے مکینوں کے بناء اُجاڑ کھنڈر ہوگیا ہو۔ امّاں کی چبھتی نظروں کو اپنے وجود میں گڑتا دیکھ بھاگمتی کو لگا کہ اُس کے بیزاری بھرے روّیے میں اُس کا دخل نہیں تھا۔ اُسے وہم سا ہونے لگا کہ شاید اُس نےسوتے میں کچھ بڑبڑا دیا ہو۔ وہ زنانہ حصے کے پاس مٹکوں کے ڈھیر کے ایک جانب بُت بنی گنگ سی بیٹھی رہی۔ زنانہ حصے کو رنگین پتھروں اور چمکیلی ٹِکلیوں سے ٹانکے گئے پردے سے بانٹا گیا تھا۔ تیرتھ یاترا پر گئے بسواس کمار کے رکھے گئے مٹکوں سے اُن پر کی گئی گلکاریوں سے اُسے انسیت سی ہوگئی تھی۔ اکثر وہ اُن مٹکوں پر بناے گئے پھولوں کے سنگ خود کو تتلی جیسا اڑتا ہوا دیکھتی پھر کہیں سے کوئی کالا بھونرا آجاتا  اُسکے نازک پَر زخمی ہوجاتے اور وہ چونک پڑتی۔ آج بھی امّاں کی نظروں کی تپش سے بچنے کے لئے وہ مٹکوں کی آڑ میں سمٹ کر بیٹھ گئی۔ نظر پھر پھولوں پر جا پڑی بھونرے کا خیال آتے ہی اُسے اپنے نازک پَر چِھلے ہوئے محسوس ہونے لگے۔ مَٹ میلے گھاگرے کا بڑا سا حصہ اسکے پیچ و تاب کھاتے گورے ہاتھوں سے مَسلا جارہا تھا۔ دھونکنی بجھی ہوئی تھی پھر بھی اُس نے اپنے ماتھے کے ٹھنڈے قطروں کو زمین پر مٹی میں جذب ہوتے دیکھا۔ چھن کی آواز سے وہ بیٹھے بیٹھے چونک پڑی۔ وہ سوچنے لگی کہ اُس کے ہاتھوں میں تو تیز دھار کی چھریاں بھی نہیں تھیں نا ہی پاس میں رکھی پانی سے بھری کوئی ناند تھی۔ پھر یہ چھن کی آواز کیسی؟؟  ٹھیک ہے امّاں وہ منمنائی۔ لیکن وہاں امّاں موجود ہوتیں تو سنتیں۔ مٹی کو گھورتے اُسکی نظریں ایک جگہ مرکوز ہوگئیں۔ ریت سے چھوٹے چھوٹے دائرے بڑے ہوتے گئے اور اُسکے چہرے پر چھانے لگے۔ وہ وہیں بْت بنی بیٹھی رہ گئی۔
“تھارے ہاتھوں میں اِی لال چوڑیاں خوب جچے گی” حویلی کی جاگیر کے ایک کنارے دور ٹیکری کی اوٹ میں اُسکے زانووں پر سر رکھے مانو پرتاپ سنگھ نے اپنی گمبھیر آواز میں اُس سے کہا۔ بھاگمتی مانو سنگھ کی شرارت بھری نظروں کی تپش کو اپنے اندر اُترتا محسوس کررہی تھی وہ من ہی من میں اپنے اندر کی عورت کے وجود کو سکیڑنے لگی۔ سرسراتی ہوا کے خوشگوار جھونکوں سے اُسکے گھنگریالے اخروٹی رنگت کے بال رخساروں پر اٹھکیلیاں کررہے تھے۔ مچلتے دل کو سنبھالتے ہوئے وہ بول اُٹھی،
“دیکھ مانو یہ سب عسکیہ باتیں جانے دے پہلے یہ تو بتا کہ ہم سادی کیسے کرپا ویں گے حویلی کے لوگ تو…!” بھاگمتی اپنی بات پوری بھی نہیں کرپائی تھی کہ مانو نے تڑپ کر اُسکے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا رخساروں سے شرارت کرتی لٹوں کو ہٹاتے ہوئے وہ فوراً اُٹھ بیٹھا، پاس پڑے خنجر کو اُٹھا کر پٹکے میں اُڑَس لیا، کاندھے تک جھولتے اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا چرمی جوتوں میں اپنے پیروں کو ڈالا اور بھاگمتی کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ایک سمت چل پڑا۔ مانو کے ایسے پُراعتما برتاؤ سے وہ ہمیشہ کھل اُٹھتی۔ اسکی لوویں سرخ ہوجاتیں۔  دل  بے نام سی خوشیوں سے بھر اُٹھتا۔ چند برس پہلے بھاگمتی کا باپ چترنجن اپنے قبیلے کی بقا کے لئے ٹھاکروں سے بےجگری سے لڑتے ہوئے مارا گیا تھا۔ لڑائی کے تیسرے دن پَو پھٹتے ہی سورج آگ اگلنے لگا تھا۔ ریتیلی زمین اپنی تپن سے ڈھیٹ بنی تنہا لڑتے چترنجن کی گرمی سے لوہا لے رہی تھی۔ اَن گنت لاشوں کے ڈھیر پر مسکراتے ہوئے چترنجن نے اپنے پران دئیے۔ خون آلود دھول مٹی کے ساتھ قبیلے کے نازک ارمانوں کی چتا بھی ٹھاکروں کے غیض و غضب میں بھسم ہوتی گئی۔ اُس دن کچھ بھی تو نہ بچا تھا قبیلے میں، ہر طرف خون ہی خون، انسانی جسموں کے چیتھڑے، گھروں کے برتن، اوزار اور اُنکی عزتیں بکھری پڑی تھیں۔ پامالی کا جاں گسل احساس گاڈیا  قبیلے کی روح میں چھانے لگا۔ وہ امّاں ہی تو تھیں جنکے حوصلوں اور رعب دار برتاؤ سے قبیلے کی مرتی روح میں پھر سے جان پڑتی گئی۔ ریتیلی زمین پر رات کے الاؤ روشن ہونے لگے، رات رانیاں لہک لہک کر گیت گانے لگیں۔ اُسے آج بھی یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو امّاں نے بہت سمجھایا لیکن چمیلی اب سب سمجھانے بجھانے کے مرحلوں سے آگے بڑھ چکی تھی۔ دیویندر پرتاپ سنگھ اُسکی کل کائنات بن چکا تھا۔ پھر ہڈیوں میں خون جما دینے والی وہ رات بھی آئی جب حویلی کے صدر دروازے سے امّاں چنگھاڑتے ہوئے چمیلی کی لاش کو اپنے سینے سے چمٹا کر گھر لائی تھیں۔ بھاگمتی سب بھول جانا چاہتی تھی۔ بچپن سے ان سارے بھید بھاؤ سے وہ اوب چکی تھی۔
“کیا ہم لوہاروں کے کوئی سپنے نہیں..؟”
 “کیا ہم چاندی کی تھال میں پروسے گئے کھانے کبھی نہیں کھا سکتے؟” پھر اپنے قدموں سے زمین کھسک جانے کے خیال سے وہ فوراً اپنے سر کو جھٹکتی. چمیلی کا مسکراتا دمکتا چہرہ اسکی کھنکتی ہوئی ہنسی کی مسحور کن بازگشت سے وہ اکثر خیالوں کی اُن تہوں تک جاپہنچتی جہاں بھید بھاؤ کے زخموں کو مندمل کرنے میں چمیلی اور اُسکے بچپن کی خوبصورت یادیں تھیں۔ وہ دھونکنی کے پیٹ میں سانس بھرتے بھرتے اپنے کچے گھر کے دالان سے حویلی کے اونچے درو ویوار کو، مہنگی لکڑیوں سے بنے دروازوں، اُن دروازوں کے اوپر رنگین کانچ کے ٹکڑوں سے جَڑے محرابوں کو دیکھتی پھر کچھ سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا دیتی اُس کی مسکراہٹ کے پیچھے تمتماتے جذبوں کی کسی کو بھنک نہیں تھی۔
“ایسے گھور گھور کر زمین میں چھید کرے گی کیا” امّاں کی کرخت آواز اچانک اُسکے کانوں سے ٹکرائی دائرے چھوٹے ہوتے ہوئے نکتہ بن کر زمین میں کہیں مدغم ہوگئے۔ چمیلی کی یادیں  کبھی ریت گھڑی کے خالی ہوتے حصے کی طرح لگتی جیسے ہی اُسے یہ محسوس ہوتا اُسے لگتا  کہ پھولوں کے رنگ اُڑ چکے ہیں وہی پھول جنہیں چند گَملوں میں کبھی چمیلی نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔ وہ فوراً لپک کر ریت گھڑی کو اُلٹا رکھ کر یادوں کو پھر سے کشید کرنے لگتی۔ آج کے دن کا اُسے بے صبری سے انتظار تھا اُسے آج ٹیکری کے پیچھے مانو پرتاپ سے ملنا تھا۔ آج صبح سے اُسے موسم بہت بھلا لگ رہا تھا۔ آسمان میں اُڑتے پرندوں کی چہکار میں اُسے مدھم گیت کی لے سنائی دے رہی تھی۔ پھر امّاں کی چتاونی بھی جیسے ہی یاد آئی اُسکے بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی۔
 “نہیں نہیں اب اور انتظار نہیں” حویلی کی شادی میں وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ خوب جم کر ناچی تھی وہاں کی عورتوں کی سنہری ساڑیاں، اُنکے مہنگے رنگین زیورات سے اُس دن نظریں ہٹتی نہ تھی۔ ریتیلے قصبے میں یوں تو ہریالی بَس نام کی تھی لیکن حویلی کے لمبے صحن میں ہریالی سے سایے بنے ہوئے تھے۔ وہاں کے قیمتی فانوس، رنگین جگ مگ کرتے جھومر، سرخ دبیز قالین اور طرح طرح کے کھانے اُسکی نظروں سے ہٹتے نہ تھے۔
“آخر یہ سورج کب ڈھلے گا. جو بھی ہو مجھے آج جانا ہی ہے اب اور انتظار نہیں ہوتا” وہ بدبدائی۔ امّاں کے سونے والے حصے پراُس نے اُچٹتی نگاہ ڈالی دل زوروں سے دھک دھک کئے جارہا تھا امّاں چلم سے شغل کرکے ہلکے بدن کے ساتھ آسمان کی سیرپر جاچکی تھیں. وہ لپک کر اُٹھی ٹھنڈے پانی کے کئی چھپاکے منہ پر تیزی سے مارے، کپڑوں پر نظر دوڑائی، شیشے پر نظریں گاڑے بالوں کو کس کر باندھا۔ کاجل کی گاڑھی لیکر آنکھوں کے گرد پھیرا۔ نازک زنجیر سے بندھے رنگین پتھروں سے جَڑے ہوئے چھوٹے سے گولے کو مانگ سے گذار کر ماتھے پر لٹکایا۔ دونوں ہاتھوں کی بیچ کی انگلیوں سے سنہری زنجیر سے بندھے “ہاتھ پھول” کو پہنا۔  چمکتے “باجو بند” کو بازو میں کسا۔ بیچ کی انگلی میں آئینوں سے جَڑی آرسی پہنی۔ ماتھے اور ٹھڈّی پر پکے رنگ سے کچھ نقطے بنائے۔ سورج زردی مائل ہوکر پہاڑیوں کے پیچھے چھپنے کی تیاریوں میں تھا۔ ریشمی کپڑے، آرام و آسائش مہنگے زیور اُسکے خیالوں میں پھر گھومنے لگے ان خیالوں سے سر جھٹک کر ملگجی روشنی میں وہ تیز قدموں سے چلتی گئی۔ اُس کی سرمئی آنکھوں میں عجیب سا عزم جھلک رہا تھا۔ ٹھنڈے پسینے کے قطروں کے سنگ اُسکے چہرے پر ایک میٹھی سی مسکراہٹ رقصاں تھی۔ مانو کے پاس پہنچ کر ہی اُسکی سانسوں کا طوفان تھما۔ آسمان سیاہ ہوچکا تھا۔ تارے پوری آب وتاب سے چمک رہے تھے۔ اب رخصت کا وقت تھا مانو کو اُس نے اپنے سینے سے کس کر جکڑ رکھا تھا ایک بیخودی تھی یا کوئی باؤلا پن۔ دور الاؤ کے گرد رقص میں ڈوبیں رات رانیوں کے گیت تیز بہت تیز ہوتے جارہے تھے۔  مانو اچانک اُس کے بازووں میں جھول گیا۔ بھاگمتی نے بہت سکون سے اسے خود سے الگ کیا مانو کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا وہ دھڑام سے گرا اور ساکت ہوگیا۔

Fareeb A Short Story by Mohammad Ansar

Articles

فریب

محمد انصر

 

میں مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اترہی رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھ کر کچھ ٹھٹک سا گیا۔وہ عورت یہ دیکھتے ہی میرے پاس آگئی اور اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہنے لگی ،میں بہت بھوکی ہوں۔میں نے اس کی باتیں بے دھیانی میں سنیں اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ خیال آیا کہ سارے پیسے تو مسجد میں دے دیے ، میں نے کہا ..پیسے نہیں ہیں..یہ باتیں کہتے ہوئے میری نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں ،میں جب سے رکا تھااسے دیکھے جا رہا تھا،اس نے اس طرح دیکھنے پر فوراً کہا’میرے بیٹوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے‘میں نے جلدی سے کہا… اچھا… اچھا. .. اور پھر اپنی جیب دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔ لیکن اسے لگامیں بہانے کر رہا ہوں… وہ پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی…. میں تھوڑی دیر رک کر اسے دیکھتا رہا کہ اس بوڑھی عورت کی شکل ہو بہو میری ماں کی طرح ہے۔اس عورت نے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے میری طرف دوبارہ رخ کیااور پھر ہاتھ دراز کرتے ہوئے بولی.. میں رات سے بھوکی ہوں…. میں نے پھر کہا…. میرے پاس پیسے نہیں ہیں…. نہیں تو میں ضرور دیتا….وہ کسی دوسرے شخص کی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگی… . مجھے ایک عجیب سا خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا پتہ پوچھ لوں…. اسے دیکھنے کے بعد ماں کے چہرے کا کچھ عکس دیکھ لیا کروں گا …. میں اس کی طرف بڑھا تو وہ رک گئی…. میں نے کہا…. آپ کہاں رہتی ہیں…. اس نے بغیر کچھ کہے گھور کر دیکھا.. ..تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں…. میں نے جلدی سے کہنا چاہا کہ آپ کی شکل میری ماں سے…. ابھی جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ غصے سے دیکھتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی…. میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے…. اور پھر گھر کی طرف بڑھنے لگا…. گھر سے مسجد دور ہونے کی وجہ سے تنہا چلنا مشکل ہو رہا تھا…. ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ اس بوڑھی عورت کا چہرہ نظر کے سامنے گھومنے لگا ….اور میں سوچنے لگا.. ..میری ماں کے چہرے پر اتنی جھریاں نہیں تھیں ۔انہوں نے شروع میں کچھ پریشانیاں ضرور اٹھائی تھیں لیکن بعد کے دنوں میں ہم لوگوں نے انہیں خوب آرام دیا تھا…. اور ہاں…. اس بوڑھی عورت کے چہرے پر بے شمار جھریاں تھیں… اس کی پیشانی پر بل پڑتے پڑتے ایک نصف دائرہ سا بن گیا تھا.. ایسا لگ رہا ہے اس کے چہرے کی دونوں جانب نقش نگاری کی گئی ہو.. اس کی ٹھوڑی نیچے کی جانب لمبی نکلی ہوئی تھی.. شاید چمڑی لٹک گئی تھی اور پھر اس خیال پر بہت افسوس ہوا کہ میں اسے کچھ بھی نہ دے سکا.. ..تبھی پیچھے سے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ،میں نے چونک کر دیکھا تووہ میرا دوست شاداب تھا جس کی قصبے میں پرچون کی دوکان ہے،ابھی کچھ روز پہلے ہی اس کا دیپک سے جھگڑا ہو گیا تھا۔اس کی بھی پرچون کی ہی دوکان ہے چونکہ دیپک بھی میرا دوست ہے۔اس لیے بیچ بچائو کے لیے جانا ہوا تھا۔ شاداب مسکرا تے ہوئے کہنے لگا،کس خیال میں گم ہو دوست اور پھرکچھ گپ شپ کے بعد اپنی دوکان کی جانب جاتے ہوئے بولا… ارے بھئی…کیا بات ہے… آج کل داڑھی بہت لمبی ہو رہی ہے…ملا بن رہے ہو کیا،اور ہم دونوں نے ایک ساتھ ایک قہقہہ لگایا… میں دوکان سے کچھ دور نکلا ہی تھا کہ شور سنائی دیا،اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ سامنے کی گلی سے وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگا تے ہوئے آرہے ہیں،میں نے سوچا کوئی حکومت کے خلاف مظاہرہ ہوگا۔لیکن ان کے نعروں اور اسلحوں نے مجھے خوف زدہ کر دیا اورمیں نے راستے سے ہٹ کر انھیں راستہ دینا چاہا، تبھی ایک آواز آئی…ارے! یہ ملا بھی ساداب کا مِتر ہے۔اتنا کہنا تھا کہ دو لوگ دوڑتے ہوئے آئے ۔ایک کم عمر لڑکے نے داڑھی پکڑتے ہوئے کہا….وند ے ماترم کہو…میں یکایک ایسے حادثے سے گھبرا گیا اور میری گھگھی بندھ گئی۔تبھی میرے منھ پہ دو گھونسے یہ کہتے ہوئے پڑے کہ ملّے، آتنک وادی وندے ماترم نہیں کہے گا۔میں نے خوف سے چلاتے ہوئے کہا…وندے ماترم…اور پھر ایک سانس میں کئی بار کہا….لیکن ایسا لگا انھیں کسی بھی بہانے سے مجھے پیٹنا منظور ہے۔دو تین لڑکوں نے موٹی گالیوں کے ساتھ اتنا مارا کی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا….اورپھر نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔تھوڑی دیر کے بعد ایسا لگا مجھے کوئی اٹھا رہا ہے،میں نے ڈرکر چیختے ہوئے کہا …. وندے ماترم…بھارت ماتا کی….ابھی جملہ ادھورا ہی تھا کہ کسی نے قدرے دھکا دیتے ہوئے زوردار طمانچہ مارااور کہا….ایمان فروش …وندے ماترم کہتا ہے۔میں ہکا بکا..آنکھیں مل کر دیکھنے لگا،تب تک پولس کی گا ڑیوں کی آوازیں سنائی دیں۔میں نے اپنے حواس درست کیے اور ایک گلی کی جانب بھاگا کہ مجھے گواہ کے طور پر تھانے جانا پڑسکتا ہے۔ اس گلی سے چلتا ہوا سبزی منڈی کی طرف مڑا ہی تھا کہ وہی بوڑھی عورت دکھائی دی۔ وہ پاگلوں کی طرح کوڑے دان میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا لیکن نظر انداز کر دیا اور اپنے کام میں لگی رہی۔ میں چند قدم کے فاصلے پر ٹھہر گیا اور اس دوران وہ کچھ تربوز کے ٹکڑوں کو لیکر آگے بڑھی، اس پر لگی گندگی کو اپنے کپڑوں سے صاف کیا اور جلدی جلدی کھانے لگی۔یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔دوڑکر اس کے پاس پہنچا ،سوچا اسے روکوں، لیکن وہ ہوں..ں..ں کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ میں نے کہا‘ میرا گھر یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے،آپ میرے گھر چلیں میں پیٹ بھر کھانا کھلائوں گا ،لیکن اس نے چہرے کی چوٹ کو گھورکر دیکھا اور شیطان کی طرح کھانے لگی، میں نے قریب پہنچ کر کہا….آپ میری ماں…ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے غصے سے تربوز کے چھلکوں کو پھینکتے ہوئے کہا…تو میں کیا کروں؟ماں کہنے سے میرا پیٹ نہیں بھرتا،اس سے میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اور خدا کے لیے..تم میرا پیچھا چھوڑ دو..تم سے ڈر لگ رہا ہے۔بوڑھیا کی باتوں سے چونک کر میں نے آس پاس کے ماحول پر نظر ڈالی تو سب کچھ پہلے جیسا تھا، ابھی بھی بوڑھیا بھوکی تھی یعنی ’وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے ‘کے نعروں سے میرے ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہواتھا، بھارت ابھی بھی ترقی پذیر ملک تھا۔میں سوچ میں گم تھا کہ کسی آواز سے چونکا ‘اب بوڑھیا پیٹ دبائے رو رہی تھی، چہرہ آنسوئوں سے تر تھا اور درد کی شدت کی وجہ سے تمتما رہا تھا۔ مایوسی کے عالم میں اس کے چہرے کو دیکھا تو ایسا لگا کہ جھریاں کوئی نقش بنا رہی ہیں ،میں نے پاس جاکر غور سے دیکھا تو اس میں بھارت کا نقشہ نمایاں ہو رہا تھا۔

———————————–

Saleeb Par Latke Hue Log

Articles

صلیب پر لٹکے ہوئے لوگ

محمد فرقان سنبھلی

کیا یہی انصاف ہے اور انصاف کی مجھے امید بھی کیوں کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔انصاف ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی کس سے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں غلطی تو میری ہی ہے ۔۔میں نے اپنے باپ دادا کا کہا نہ مانا ۔۔۔۔۔۔باپ دادا ہی کیوں ۔۔۔ان سے بھی عظیم ہستیوں کے قول پر توجہ نہیں دی ۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ اس عظیم دوست کی بات بھی نہیں سنی جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے ۔ تو۔۔ ۔ ۔۔۔ پھر تو یہ ہونا ہی تھا ۔۔ لیکن کیا یہی میرا قصور ہے ؟
سوچتے سوچتے مسلم کا گلا رندھ گیا ۔۔۔۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔تبھی دروازہ پر ہو ئی دستک نے اسے چونکا دیا۔
’’کون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟تذبذب میں مبتلامسلم نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ دروازہ پر علاقہ کا مشہور غنڈہ سیم کھڑا تھا ۔
’’یہ میرے دروازہ پر ۔۔۔۔۔۔۔یا خدا ۔۔۔رحم کر۔‘‘
مسلم دل ہی دل میں ہول رہا تھا کہ سیم نے اسے گھورتے ہوئے کہا:
’’کیااندر آنے کو نہیں کہوگے میاں؟‘‘
’’جی ۔۔۔۔جی ۔۔۔۔کیوں نہیں ۔۔تشریف لائیے۔‘‘مسلم نے اپنی بیٹھک کے اندر پڑے بوسید ہ سے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔سیم پہلے تو بوسیدہ صوفے پر بیٹھنے میں جھجھکا پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا ۔
’’میں نے سنا ہے کہ تمہاری زمین کا جھگڑا چل رہا ہے ۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔تو یہ بات ہے ْ‘‘مسلم قدرے سنبھل کر بیٹھ گیا ۔ ’’اس جھگڑے کوشروع ہوئے تو زمانہ گزر گیا ۔۔۔۔۔کتنا خون بہہ چکا ۔۔اور آپ کو تو سب معلوم ہی ہوگا ۔‘‘
’’ہاں بھئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب یہ خون خرابہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جناب خون خرابہ تو آپ کا روز کا شغل ہے ۔ پھر آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم بڑے بے باک انداز میںگویا ہوا۔
’’مگر تمہارا شغل تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔اور پھر مجھے تم سے ہمدردی بھی ہے ۔‘‘
مسلم کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو گئی۔
’’اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم نے سوال کیا ۔
’’میں تم دونوں کے درمیان صلح کرا دیتا ہوں ۔‘‘
’’صلح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’ہاں تاکہ تم دونوں اچھے دوستوں کی طرح سکون سے زندگی گزار سکو۔‘‘
’’میں جانتا ہوں کہ آپ چاہیں گے تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا،لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا ؟‘‘سیم نے مسلم کے چہرے پر آنکھیں جما دیں ۔
’’بھروسہ تو ہو کہ انصاف ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم مجھ پر شک کر رہے ہو ۔‘‘سیم کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا ۔
مسلم نے سیم کے لا ل ہوتے چہرے کو دیکھ کر بات گھمانے کی کوشش کی ۔’’صلح کس شرط پر ہو گی ؟‘‘
’’شرط کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اگر تیار ہو جائو تو ہم تمھیں تمام دوسری سہولتیں بھی مہیا کرا ئیں گے ۔‘‘
’’کیسی سہولتیں؟‘‘مسلم نے حیرانی سے سیم کی طرف دیکھا ۔
’’جو تم چاہو‘‘سیم نے بائیں آنکھ دبا کر اوباش قسم کی ہنسی کے ساتھ کہا۔مسلم کو اس مخصوص اشارے سے گھبراہٹ محسوس ہوئی۔
’’ہم دونوں کے درمیان زمین تقسیم کیے دیتے ہیں کچھ حصہ پر تم قابض ہو جائو گے باقی اس کے پا س رہنے دینا ۔۔۔۔۔تم فکر نہ کرو اسے ہم تیار کر لیں گے۔ وہ ہماری بات نہیں ٹالے گا۔‘‘
’’اور ہماری قدیمی عبادت گاہ۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’تمہارے پا س تو نئی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ توسراسر۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بدلے میں ہم تم کو دولت ، خوبصورت حوریں ، ہتھیار یا جو تم چاہو تمہیں دیں گے۔‘‘سیم کی فریبی چال اب مسلم کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔
’’لیکن یہ ہماری پشتینی زمین ہے جس پر وہ زبردستی قابض ہوئے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ اس کی بھی تو پشتینی زمین ہے کہ اس کے پاک صحیفے میں اس زمین کا ذکر ہے ۔‘‘
’’لیکن جغرافیائی اعتبار سے یہ زمین ہماری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو آپ بھی جانتے ہیں ۔‘‘
’’بھول جائو ان باتوں کو ۔۔۔۔ان باتوں میں اب کچھ نہیں رکھا ۔۔ماضی نہیں حال اور مستقبل کی فکر کرو۔‘‘سیم کی آواز تیز ہونے لگی تھی ۔ مسلم کے بھی دانت بھنچ گئے ۔
’’تو کیا میں ان خونریزیوں کو بھی بھول جائوں جن کے سبب میرے عزیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں تمہیں بھولنا ہوگا۔‘‘سیم جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔’’سنو!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سوچ لو ۔ ۔۔۔۔۔ دو دن ۔۔۔۔چار دن ۔۔۔۔اس درمیان تمہارے گھروں پر آگ بھی نہیں برسے گی ۔۔۔۔۔۔اب یہ تمہارے فیصلے پر منحصر ہے کہ آگ برسنا ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے ۔ ‘‘
مسلم، سیم کی دھمکی سے سکتے کی حالت میں بیٹھا رہ گیا ۔ اس کا دماغ سن ہو چکا تھا ۔ سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت جیسے مائوف ہو گئی تھی ۔ مسلم نے اہل خانہ کو جمع کرکے سیم کی تجویز اور دھمکی بیان کی تو نوجوانوں کا خون کھول اٹھا مگر بزرگوں نے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔
مسلم کے بڑے بیٹے نے کہنا شروع کیا ۔ ’’یہ زمین محض پشتینی زمین ہی نہیں بلکہ عظیم تاریخ کا حصہ ہے ۔ ہمارے بزرگوں کی عظمتوں کی نشانی ہے ہم کسی بھی قیمت پر اس کا سودا نہیں کر سکتے ۔ ہماری لڑائی بر حق ہے اور یہ جاری رہے گی ۔ ‘‘
’’نہیں بڑے بھائی ۔۔۔۔۔بہت ہو چکا ۔۔۔۔۔۔۔کب تک ہم زمین کے اس ٹکڑے کو پاک بتا کر خون میں نہاتے رہیں گے ۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ خود ہمارے سامنے جھک کر آئے ہیں تو ہمیں بھی تقسیم کر لینی چاہیے۔ ہماری زندگیاں تو کٹ چکیں مگر ان نو نہالوں کو تو دیکھئے۔۔۔۔۔ان کے معصوم چہرے دہشت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ کب تک سہم سہم کر زندگی جینے کو مجبور رہیں گے ۔ ‘‘مسلم کے چھوٹے بیٹے کے ضبط کا باندھ ٹوٹ رہا تھا ۔ اس اختلاف پر مسلم چیخ اٹھا۔

فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔

’’ہماری صفوں میں اتحاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ہم آج مصیبتوں میں گھرے ہیں ۔ کاش کہ ہم متحد ہوتے !!!‘‘
’’اب منجھلے بیٹے نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ ’’ابا حضور ! اس وقت اگر تھوڑا حصہ لے کر اس پر قابض ہو جائیں تو بعد میں بقیہ زمین کی آزادی کے لیے بھی کوشش کر سکتے ہیں ۔ رہی بات معاہدہ کی ،وہ تو ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں ۔‘‘ مسلم بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر بیٹے سننے کو تیارہی نہیں تھے ۔
آخر کار چھوٹے نے سیم سے مل کر معاہدہ کر لیا جس کا غم مسلم اور اہل خانہ مناتے ہی رہ گئے ۔ چھوٹا کامیابی کا جشن مناتا اپنی منکوحہ گوری چٹی میم کے ہمراہ مسلم کے سامنے پہنچا تو مسلم کو بہت افسوس ہوا ۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا ۔ ’’افسوس کہ تم باطل کی فریبی چال نہ سمجھ سکے ۔ ‘‘
’’ہم مل کر باطل کو شکست دیں گے ابا حضور ۔‘‘ چھوٹے کی منکوحہ گولڈی نے پر عزم لہجے میں کہا۔
’’کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘مسلم نے ٹھنڈی آہ بھری ۔
شادی اور اقتدار کے سرور میں ڈوبے چھوٹے کو اچانک بقیہ زمین کو واپس حاصل کرنے کا مشن یاد آیا تو اس نے محاذ آرائی کا ارادہ گولڈی پر ظاہر کر دیا ۔ گولڈی سوچ میں ڈوب گئی اس نے چھوٹے کو اس کے مقصد سے غافل کرنے کی تمام تدبیریں کیں لیکن ناکام رہی ۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی ۔ ’’تمہیں تمہارا حصہ تو مل چکا ہے پھر کیوں جھگڑا کرنا چاہتے ہو ۔ وہ تمہیں مار ڈالیں گے ۔ ‘‘
’’حصہ۔۔۔۔۔کون سا حصہ مل گیا؟۔۔۔۔۔سیم نے مکمل خود مختاری کا وعدہ کیا تھا۔کیا ایسا ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ہم اب بھی مجبور کے مجبور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ جب چاہتے ہیں ہمیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔ایسے میں ان کا مقابلہ تو کرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنا حق چائیے۔ ‘‘چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر زبان سے بے حد مضبوطی کے ساتھ الفاظ ادا ہوئے تھے ۔
’’اف ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے خواہ تم سب قتل کر دیے جائو۔‘‘گولڈی کے جملے نے چھوٹے کو آگ بگولا کر دیا ۔
’’ہاں ہاں !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘
گولڈی چھوٹے کی دہکتی آنکھیں دیکھ کر خوفزدہ تو ہوئی مگر ہمت کرکے اس نے آخری حربہ استعمال کر ہی لیا ۔ ’’کیا تمہاری نظر میں اس عظیم المرتبت شہید کی مثال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ،جوانسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے خود اپنے حق سے دست بردار ہو گئے تھے ۔‘‘
گولڈی کی بات پر چھوٹا جھنجھلا گیا ۔ ’’نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ تم مجھے کمزور بنانے کی کوشش کر رہی ہو ۔ ‘‘چھوٹے کے لا شعور ی جملے سے گولڈی بری طرح بوکھلا گئی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو ۔
’’میں ۔۔۔۔نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا میں کیوں ؟‘‘
چھوٹے نے مسلم کے سامنے پہنچ کر اپنے ارادے ظاہر کیے تو مسلم نے اسے گلے لگا لیا ۔ دونوں محاذ آرائی کے لیے حکمت عملی تیار کرنے میں منہمک ہو گئے ۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اچانک ان کے گھروں پر آگ کی بارش شروع ہو گئی ۔ اس اچانک حملے سے مسلم اور اہل خانہ حیران و پریشان ہو گئے ۔ مشورہ کے بعد طے کیا گیا کہ فی الحال مقابلہ کرتے ہویے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوا جائے اور جب طاقت بڑھ جائے تب واپس لوٹ کرمقابلہ کیا جائے۔ برستی آگ اور گھپ اندھیرے میں مسلم کا قافلہ اونچے اونچے عجوبہ روزگار مقبروںوالی بستی کی طرف نکل پڑا۔دشمن برابر ان کا تعاقب کر رہا تھا ۔ تاریک راہوں کو پار کرتے ہوئے ایک زور دار چیخ سن کر قافلہ ٹھٹھک گیا ۔
’’چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم کی کانپتی آواز نے جیسے کافلہ پر بم پھوڑ دیا تھا ۔ مسلم نے چھوٹے کے جسم سے بہتے خون کو دیکھا اور اسے اپنے گھوڑے پر کھینچ لیا ۔
’’چلو تیزی سے چلو ۔۔۔۔دشمن قریب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔وقت برباد نہ کرو ۔۔۔۔۔آگے بڑھو۔‘‘
مسلم نے قافلے کو آگے بڑھنے کی ہدایت کی ۔مسلم کی آواز گونجی تو سبھی نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے ۔ دوڑتے دوڑتے اب وہ اس قدر دور نکل آئے تھے کہ دشمن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اب انھیں سنائی نہی دے رہی تھی ۔ دشمن نے یا تو ان کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا تھا یا پھر وہ بھٹک گئے تھے ۔ ممکن ہے کہ زمین پر دوبارہ قابض ہونے کے جشن میں ڈوب گئے ہوں ۔
مسلم نے آخری سانس لیتے چھوٹے کے بدبدانے کی آواز سنی۔’’گو۔۔۔۔۔۔۔۔لڈ۔۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔‘‘
تب مسلم نے قافلے کی طرف نگاہ دوڑائی ۔ اسے گولڈی کہیں دکھائی نہیں دی ۔ تو کیا وہ رات کی تاریکی میں ان سے الگ ہو گئی تھی ۔ کہیں وہ کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی جشن میں شریک ہونے تو نہیں چلی گئی ؟مسلم کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ بیٹے کو کیا جواب دے ۔ اسے یاد آرہا تھا کہ اس نے چھوٹے کو کتنا سمجھایا تھا کہ وہ دشمن کی چال میں نہ پھنسے ۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔

فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔

قافلہ اب ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا ۔ مسلم کے حکم پر یہیں خیمے نصب کر دیے گئے ۔ چھوٹے کی ہلاکت نے قافلے کو غم و غصے میں مبتلا کردیا تھا ۔ ان کی زمین ان سے چھینی جا چکی تھی ۔ انھیں بے گھر کیا جا چکا تھا ۔ یہاں تک کہ ان کے عزیزوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ۔ مسلم نے اہل خانہ کو رات کی تاریکی میں قندیلیں روشن کرتے دیکھا ۔ مسلم کو لگا کہ انھیں ابھی شکست نہیں ہوئی ہے ۔ قندیل کی روشنی میں اہل خانہ کے چہرے دمک رہے تھے ۔ اسے بڑی تقویت حاصل ہوئی ۔
مسلم نے ان کے درمیان پہنچ کر مشورہ طلب کیا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے ۔ دشمن نے ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کیا اور اس کا حشر سامنے تھا ۔ سیم کی غنڈہ گردی اور دشمن کی قبضے سے زمین کی آزادی کے لیے ، کیا حکمت عملی تیار کی جائے ۔وہ مسلسل غور و فکر کر رہے تھے لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ تبھی سہمے ہوئے نو نہالوں کے گروہ سے مسلم کے پوتے نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا ۔
’’وہ زمین ہمارا پشتینی حق ہے ہم نے اس کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں اور ہم اب بھی اس کے لیے ہر قربانی پیش کرنے کو تیار ہیں ۔ ‘‘

فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔

’’تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم تیار ہیں ۔‘‘تمام نو نہال ایک سر میں نعرے لگا رہے تھے دیکھتے دیکھتے سارا قافلہ ایک آواز میں بول اٹھا ۔ مسلم نے حکم دیا۔
’’ٹھیک ہے تو ہم واپس اپنی مٹی پر لوٹیں گے جہاں ہم پیدا ہوئے اور ہم ہی کیا ہمارے باپ دادا بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔‘‘قافلہ واپس لوٹ رہا تھا اور مسلم سوچ رہا تھا ۔ ’’تو دنیا گول ہے اور شاید ابھی تک ہم اس کے پیرا میٹر پر ہی رقص کر رہے ہیں لیکن ایک دن آئے گا جب کشش ثقل کی قوت ہمیں مرکز میں لے کر آئے گی ۔ اور وہ دن ضرورآئے گا۔‘‘

Majzoob A Short Story by Mubeen Nazeer

Articles

مجذوب

مبین نذیر

رٹائر مینٹ کے بعد  والد صاحب خود کو مصروف رکھنے کے لئے چھوٹا موٹا کاروبار کیا کرتے تھے..جو موسم کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا تھا… نومبر. دسمبر کا مہینہ چل رہا تھا سردی اپنے عروج پر تھی… اس کی مناسبت سے سردی کے لوازمات کی تجارت کا کام جاری تھا … میں بھی وقتاً فوقتاً دکان پر ڈیوٹی دیا کرتا تھا…
 دکان پر طرح طرح کے گاہکوں سے سابقہ پڑتا .. کوئی گاہک خوب مول بھاؤ کرنے کے بعد بھی سامان نہ خریدتا تو کوئی بغیر کسی لیت و لعل کے فوراً اپنی ضرورت کا سامان لے کر روانہ ہو جاتا… کبھی کوئی معذور آتا اپنی بپتا سناتا اور کم سے کم دام کا مطالبہ کرتا…. گداگر  بھی آتے، اپنی مجبوری کا اظہار کرتے اور اپنی پسند کا سامان مناسب داموں پر لے جاتے…
 ایک رات سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے میں دکان بند کرنے کی تیاری کر رہا تھا اسی وقت ایک لڑکی جو بوسیدہ نقاب لگائے، ہاتھ میں  چھڑی لیے پھرتی رہتی تھی ـ جسے لوگ نیم پاگل کہا کرتے تھے، گلی کوچوں میں اکثر گھومتی پھرتی نظر آتی تھی،  اکثر بچے اور نوعمر لڑکے تنگ کیا کرتے تھے، بلکہ کبھی کبھی تو بڑی عمر کے سمجھ دار افراد بھی ان میں شامل ہو جایا کرتے تھے لیکن وہ اللہ کی بندی کبھی کسی کو کچھ نہیں کہتی ـ لوگوں کی تلخ و تُرش باتوں کو خاموشی سے سنتی. ان کی شرارتوں پر کسی رد عمل کا اظہار کئے بغیر اپنی راہ لیتی….. اگر کوئی بہت زیادہ ہی تنگ کرتا تو اپنا ہی اپنا رو دھوکر خاموش ہوجاتی…. دکان پر وارد ہوئی.بوسیدہ نقاب .دبلی پتلی، بکھرے ہوئے بال، بے رونق مگر پُراسرار آنکھیں… جذبات سے عاری سپاٹ لیکن  شاداب  چہرہ.. کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن کی خاموشی بھی  بہت سارے مقررین کی لچھے دار تقاریر سے بہتر اور پراثر ہوتی ہے ـ
آج اس کے سر پر نقاب کے اوپر کی چھتری نہیں تھی ـ مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ آج چھتری شریر لڑکوں کی شرارت کی نذر ہوگئی ہے ـ اس لئے اس نے دوپٹے کا اپنے کانوں کو سردی سے بچانے کی ناکام کوشش کے طور پر استعمال کیا تھا ـ چونکہ میں جلدی میں تھا میں نے نہایت بے رخی سے پوچھا کیا بات ہے؟ تو اس نے کان پٹی کی طرف اشارہ کیا… میں نے سوچا کہ یہ بے چاری تو قیمت دینے سے رہی،، اس لئے اسے بلا قیمت ہی دینا پڑے گا ـ میں جب کان پٹی نکال کر سے دینے کے لئے مڑا تو اس کے  سپاٹ چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ رقص کررہی تھی  ـ جس میں ہزار طرح کے رنگ  تھےـ جسے میں کوئی نام نہ دے سکا ـ میرے ہاتھ سے اس نے سامان لیا، الٹ پلٹ کر دیکھا ـ  دوپٹے کے اوپر سے ہی کان پٹی لپیٹ لی ـ  پھر یہ کان پٹی اس کی شخصیت کا ایک جزو لاینفک بن گئی ـ برقعے میں ہونے کے بعد بھی چھتری کے اوپر سے کان پٹی باندھے رہتی تھی ـ اس نے دکان پر ایک نظر ڈالی گویا ساری دکان کا جائزہ لے رہی ہو ـ اس کے بعد  ٹیبل پر چند سکے رکھے اور کان پٹی لے کر چلی گئی.. میں نے ان سکوں کو گنا…  نہ نفع ہوا نہ نقصان….
 پندرہ دن کے بعد سردی مزید بڑھ گئی ،  کام اچھا چل رہا تھا… وہ دوبارہ آئی. وہی پہلے کی سی حالت…  سردی کی زیادتی کے اثرات اس کے  چہرے سے عیاں تھے..  شادابی ندارد. اس نے  موزوں کا مطالبہ کیا..کام کی زیادتی کے باوجود میں نے اسے مختلف موزے دکھائے… اس نے ایک موزہ پسند کیا.. کچھ دیر بیٹھی سوچتی رہی… جیب سے مٹھی بھر ریزگاری نکال کر میرے حوالے کی اور چلتی بنی… پچھلا واقعہ مجھے یاد تھا .. میں نے ریزگاری گنی.. نہ نفع نہ نقصان… میں سوچ میں پڑ گیا… پہلا واقعہ اتفاقی ہو سکتا ہے لیکن اس مرتبہ ؟؟ میں ہفتوں اس کے متعلق سوچتا رہا… غور و فکر کرتا رہا..  اور اس کا انتظار کرتا رہا… ذہن اس کی پر اسرار شخصیت کی گھتی سلجھانے میں لگا رہا جو مزید الجھتی جا رہی تھی….
 جاڑے کا موسم قریب الختم تھا…. اس لئے سردی عروج پر تھی جس طرح چراغ کی لو بجھنے سے پہلے زور سے بھڑکتی ہے سردی بھی  جاتے جاتے سب کو رلا رہی تھی… میں اس کا بہت شدت سے انتظار کر رہا تھا… ایک شام سردی  بہت تھی، ہر طرف کہرا چھایا ہوا تھا..  جس کی وجہ سے سڑک پر آمد ورفت بہت کم تھی. وہ دکان کے سامنے سے گزری… موزہ اور دستانہ ندارد.    میں نے نوکر کو بھیج کر اسے بلایا…. وہ سردی سے کانپ رہی تھی… پیروں میں چپل بھی نہیں تھے ـ میں نے دریافت کیا تو کہنے لگی کہ محلے کے جوانوں نے چپل چھپا دی… اور بچوں نے کان پٹی پھاڑ دی .. میں نے اسے سردی سے بچنے کے لوازمات دینا چاہے.. وہ انکار کرتی رہی… میرے اصرار پر اس نے تمام سامان لے لیے… میں منتظر تھا کہ آج وہ ان کی قیمت کے متعلق کیا اقدام کرتی ہے؟دیکھوں… اس نے معنی خیز نظروں سے میری جانب دیکھا گویا میرے دل کی بات جان گئی ہو… اور بغیر دام دیئے ، تمام چیزیں لے کر چل دی…میں نے اس کے  تمام سامان کی اصل قیمت کا دل ہی دل میں اندازہ کرلیا تھا … ارادہ تھا کہ جب وہ قیمت ادا کرے گی اس سے بات کروں گا… مگر اس مرتبہ وہ چکمہ دے گئی… میں نے قیمت اپنی ڈائری میں نوٹ کرلی….
میں بدظن ہو گیا… پچھلے تمام خیالات ذہن سے جھٹک دئیے کہ یہ بھی  عام سی پاگل لڑکی ہے ـ میں خواہ مخواہ اس کے پیچھے سر کھپاتا رہا…. جب بھی اس کے متعلق سوچتا ہنسی آجاتی….
زندگی کی رنگینیوں میں یہ واقعہ بھی کہیں کھو گیا اور میں اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث اس حماقت کو بھی بھول گیا …
ایک دن جب میں دکان پر پہنچا تو نوکر نے مجھے کچھ رقم دی… میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہی نیم پاگل لڑکی دے گئی ہے اور تاخیر کے لئے معذرت کر گئی ہے… میرا جذبہ اشتیاق عروج پر تھا میں نے رقم گنی… ڈائری نکال کر چیک کیا…. میری حیرت کی انتہا نہ رہی…اس مرتبہ بھی نفع و نقصان کا پلڑا برابر تھا….
———————————————————

Murcha A short Story by Mushtaq A Mushtaq

Articles

مورچہ

مشتاق احمد مشتاق

ٹرین محل نما بڑے سے اسٹیشن پر آکر رکی؛ مسافر تیزی سے اپنی اپنی بوگیوں سے نکلے، اورنکلتے ہی بھیڑ کا روپ دھار کر اسٹیشن کے باہری دروازے سے ہجوم در ہجوم ٹیکسی، بس اور آٹورکشا میں سوار ہوکرشہر کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے اس بے چہرہ بھیڑ میں وہ بھی تھا – رنگ گندمی اتنا گہرا کہ جلد سے خون کی لالی صاف جھلک رہی تھی، شباہت ایسی کہ مانو مغربی کہانی کا کوئی کردار ہو،ساتھ میں دو کیمرے جس میں سے ایک اس کے گلے میں جھول رہا تھا جس سے وہ مناظر کو تصویر کرنے کا کام لیتا اور دوسرا جو اس کی بیگ میں بند تھا اس سے وہ فلم بندی کا کام کرتا – بیگ اپنی پشت پر لادے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی ایک ٹیکسی میں جا بیٹھا، ٹیکسی تیر کی طرح اپنے ہدف کی طرف چل پڑی اور وہ اپنی بھوری بھوری آنکھوں سے شہر کو کسی دریا کی طرح بہتے ہوئے دیکھ رہا تھا – ٹیکسی بڑے سے پر شکوہ ہوٹل کے پارکینگ زون میں رکی اس نے پرس سے کچھ روپے نکال کر ڈرائیور کے ہاتھ میں تھمائے
اور تیزی سے گیٹ پر کھڑے آدمی کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کاونٹر پے بیٹھے مینجرکو اپنا شناختی کارڈ دیا مینجر نے کاغذی کاروائی کرتے ہوئے پوچھا
“کس سلسلے میں آئے ہو؟؟
“سیلانی آدمی ہوں سیرو سیاحت کی غرض سےآیا ہوں”اس نے جواب دیا،،؛ یہ یہاں اپنا نام ایڈریس اور موبائل نمبر لکھ دو؛ مینجر نے رجسٹر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا- نام ایڈریس اور موبائل نمبر رجسٹر پر درج کرنے کے بعد وہ ویٹر کے ہمراہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا-، کمرے میں پہنچ کر ویٹر کو کچھ روپے دیتے ہوئے چائے ناشتہ لانے کو کہا اور بڑی تیزی سے
باتھ روم میں داخل ہو گیا…….. کچھ دیر بعد وہ چائے کی چسکی لیتے ہوئے ویٹرسےکہہ رہا تھا،” مجھے ایک ایسا آدمی چاہیے جو کچھ دنوں کے لیے جب تک میں یہاں ہوں میرے ساتھ رہے اور مجھے یہاں کے جھگڑے دکھائے”جھگڑے دکھائے” ویٹرچونک سا گیا، “سر جھگڑا بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہے ارےممبئی آئے ہو تو گیٹ وے آف انڈیا دیکھو، چوپاٹی دیکھو، حاجی علی کی درگاہ، ممبادیوی کا مندر ، نئیں تو گورےگاوں جاو فلم انڈسٹری دیکھو”نہیں مجھےیہاں کےجھگڑےدیکھنا ہے، اس نے کرخت لہجے میں کہا، اور جھگڑوں کا سبب معلوم کرکےاسے اپنے کیمرے میں قید کرناہے”اچھا ڈاکومنٹری فلم بنانی ہے تمہیں “ویٹر نے چہکتے ہوئے کہا” ایسا بولونا سر- ٹھیک ہے ابھی تم آرام کرو، اپن ارینج کرتا ہے،جیسا تم بولتا ہے ویسیچ آدمی مارننگ میں ادھر تمھارے پاس ہویگا – جو تم کو اکھّا ممبئی کے جھگڑے دکھائے گا-
 “مینٹل ہے سالا ” ویٹر نے دبے لہجے میں کہا –
” چلو ابھی گڈبائے سر، سویرے-مورننگ میں ملتے ادھرچ،
ویٹر کے جا تے ہی اس نے بیگ سے لیپ ٹاپ نکال کرآن کیا، لیپ ٹاپ کی ڈارک اسکرین پر روشنی کے ساتھ کچھ رنگ ابھرے میل باکس اوپن ہوگیا اور پھر اس کی انگلیاں کی بورڈ پر کسی مشاق رقاصہ کی طرح تھرکنے لگیں ، انگلیوں کی حرکت سے اسکرین پر حرف ابھرے اورایک دوسرے سے جڑ کر تحریر ہونے لگے”میں پوری دنیا میں اپنے کام کو انجام دیتے ہوئے آخری سرے تک آگیا ہوں – یہ میرا آخری پڑاؤ ہے صرف دس دن اور کام فنیش گڈلک”سینڈ، کی، دبائی اور اسکرین، کو کی بورڈ پر تیزی سے جھکا دیا،دوسری صبح اس نے غسل کیا چائے ناشتہ کرنے کے بعد ایک طائرانہ نظر گھڑی کی جانب کی جو دس بجنے کا اعلان کر رہی تھی،
اس نے الماری میں رکھا بیگ اٹھایا اور اس میں سے ایک بڑا سا  فائے ڈی کیمرہ نکال کر اس میں بیٹری لگائی کیمرہ کو آن کیا اور کیمرے میں لگی اسکرین کو گھورنے لگا
اسی اثنا میں ڈور بیل کی آواز گونجی اس نے کیمرہ آف کیا اور دروازے کی طرف بڑھ کر دروازہ کھول دیا،سامنے ویٹر اس کےمطلوبہ شخص کے ساتھ موجود تھا؛-ویٹر نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا”یہ رہا وہ آدمی جو تمہیں اکھا ممبئی گھمائے گا اور تمہارے مطلب کا چیز، بولے تو،،، جھگڑا؛؛ جھگڑا دکھائے گا، سارے لفڑے بازوں کا کچا چٹھا ہے اس کی پاس  ہے ممبئی کے ہر سیانےکو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ھیکہ کون سا سیانا کب سیان پتی کرے گا،سیان پتی بولے تو جھگڑا؛؛ ویٹر جیسے ہی چپ ہوا اس نے فوراً اپنی جیب سے پاکٹ نکالا اور ہزار ہزار کے دس نوٹ ویٹر کو دیتے ہوئے کہا “تھینک یو اب تم جا سکتے ہو” ویٹر جوابی کلمات کہہ کر وہاں سے خوشی خوشی چلا گیا، ویٹر کے جاتے ہی اس نے گائیڈ سے استفہامیہ انداز میں کہا “میرے خیال سے؛ ویٹر نےتم کو سمجھا دیا ہوگا؛ کہ تمہیں کیا کرنا ہے” جی سر”تو پھر لے چلو، مجھے ایسی جگہوں پر جہاں جھگڑتے ہوتے ہوں- او کے سر گائیڈ نے پر جوش انداز میں کہا؛؛؛ اور کچھ ہی دیر میں ان کی ٹیکسی سڑک پر دندناتی ہوئی بھیڑ بھاڑ والے علاقے میں آکر رکی، گائیڈ اور وہ ٹیکسی سے اترے اس نے کیمرہ آن کیا اور دور تک پھیلے ہوئے مناظر قید کرنے لگا، دوکانیں قطار در قطار سڑک کے دونوں جانب دور تک دیوار کی طرح استادہ  تھیں جن میں زندگی گزارنے کے پورے لوازمات موجود تھے-وہ ایک اک منظر کو بڑی خوبی سے اپنے کیمرے میں قید کررہا تھا-کہ اچانک لوگ گھبرا کر بھاگنے لگے، دکانیں بند ہونے لگیں گائیڈ نے ایک آدمی سے بھاگنے کی وجہ دریافت کی؛ ارے کیوں بھاگ رہے ہو کیا، ہوا کیا ہے؟ ج جگگا؛؛؛ جگا دادا نے گلاب کانچیا کا مرڈر کر دیا؛ اتنا بول کر آدمی تیزی سے آگے بڑھا اور بھیڑ کا حصہ بن گیا-؛ ہنگامہ دیکھ کر وہ اور گائیڈ پاس کھڑی ٹیکسی میں بیٹھ گئے؛ یہ جگا اور گلاب کانچیہ کون ہیں ؟ اس نے گائیڈ سے پوچھا؛ اور یہ مرڈر کیوں ہوا-گائیڈ کچھ دیر تک کچھ سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا-جگا اور کانچیہ یہ دونوں بیس پچیس سال پہلے بہت گہرے دوست تھے گاؤں میں مکھیا کے لڑکے سے کسی بات پے جھگڑا ہوا اور یہ لوگ پولیس اور مکھیا کےڈر سے بھاگ کر شہر آگئے لوگوں سے کام مانگا مگر کسی نے کام نہ دیا بھوک جب برداشت سے باہر ہوئی تو قدم برائی کی طرف بڑھے، وقت گزرتا گیا اور ان کے قدموں کی رفتار بڑھتی گئی اور جب لہو بدن میں بجلی بن کر دوڑنے لگا تو ایک لڑکی دونوں کی زندگی میں آئی جس کو پانے کے لئے دونوں الگ ہوگئے؛؛؛؛ ؛؛؛؛
 ؛؛ گائیڈ چپ گیا، ایمبولینس سائرن بجاتی ہوئی گلاب کانچیا کی لاش لیکر گزری اور ایمبولینس کے پیچھے پولیس جیب جگا کو لیکر نکلی؛؛؛؛ اور آج دونوں ختم ہوگئے – – اس نے جیب کو فوکس کیا اور ژوم کرتے کیمرہ آف کردیابہت ؛ اینٹریسٹنگ اچھی کہانی ہے ویرینائس ویریگڈ؛ پیکپ؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛
 زمین اپنے مدار پر چکر لگاتی رہی؛ رات اور دن کے نام بدلتے رہے؛ اچانک کمرے میں روشنی ہوئی اور اس نے گائیڈ سے کہا؛ ابھی تک ہم نے جتنے بھی جھگڑے شوٹ کئے  سب کے معاملات ایک جیسے ہیں؛ ان میں ایک بھی جھگڑا ایسا نہیں ہے جو مجھے آیٹرک کر سکے یا جس کا سبب جان  کر میری آنکھوں میں خون اتر آئے اور میں اپنے مقصد کو پا سکوں،گائیڈ اس کی باتوں کو بڑے غور سے سن رہا تھا اور اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا،،،،،،،، کچھ دیر بعد وہ پھر گویا ہوا؛ ہر وہ شخص جیسے ہم نے جھگڑتے یا مرتے ہوئے دیکھا ہے سب کی لڑائی اپنے مفاد کیلئے تھی -ایسے جھگڑے تو جنگلوں میں جانوروں کے درمیان روز ہوتے ہیں، کل کا ہمارا لوکیثن کیا ہے – اس نے گائیڈ سے دریافت کیا؛؛گائیڈ نے جواب دیا؛؛ ایشیاء کی سب سے بڑی جھوپڑپٹی دھاراوی؛؛ اس نے سیگریٹ سلگاتے ہوئے کہا؛ او کے ہم کل ملتے ہیں گڈنائٹ؛؛؛ اور ڈھیر سارا دھواں کمرے میں بکھر گیا – سورج نارنجی دوشالہ اوڑھے اپنے افق سے ابھرا ہی تھا کہ اس کا کمرہ فون کی گھنٹی سے گونج اٹھا، اس نے موبائل اٹھا کر
اپنی نیند آلود آنکھوں سے موبائل اسکرین کو دکھا جس پر گائیڈ لکھا ہوا آ رہا تھا اس نے حیرت سے گھڑی کی جانب نظر ڈالی جس میں ساڑھے چھ بجے رہے تھے اس نے کال ریسیو کی کمرے میں گائیڈ کی پتلی آواز ابھری؛ سر آپ فوراً دھاراوی کے نہرو نگر پہنچو؛ اس نے او کے کہا اور تیزی سے بیڈ سے اٹھ گیا،؛ اب سورج سیمابی لبادہ پہنے
اپنے افق سے اوپر اٹھ چکا تھا؛ اور وہ ٹیکسی سے اتر کر
گائیڈ کے ہمراہ دھاراوی کی تنگ گلیوں سے گزرتا ہوا نہرو نگر کے بھگت سنگھ چوک میں جہاں لوگوں کی بھیڑ تماشائی بنی کھڑی تھی؛ وہ اور گائیڈ بھی ان میں شامل ہوگئے اس نے کیمرہ آن کیا اور اس منظر کو قید کرنے لگا جس میں ایک نوجوان پانچ لوگوں سے لڑ رہا تھا کچھ دیر بعد ان پانچوں میں سے چار اپنی جان سمیٹ کر وہاں سے فرار ہوگئےاورجو ایک بچاتھا
 اس کی گردن نوجوان کے مضبوط بازوں میں پھنسی ہوئی تھی نوجوان نے اسے دبوچے ہوئے چلا کر کہا اگر آج کے بعد تو نے یا تیرے آدمیوں نے اس گھر کی طرف دکھا تو تم میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا؛ اتنا کہہ کر اپنی گرفت میں پھنسے شخص کو چھوڑ دیا؛ گرفت سے چھوٹتے وہ شخص وہاں سے بھاگا اور بھیڑ چھٹ گئی،  نوجوان ایک جھوپڑے کے پاس بیٹھے ساٹھ سال کے بوڑھے اور اس کی بیوی کو دلاسا دینے لگا؛؛؛؛ اس نے کیمرہ بیگ میں رکھا اور گائیڈ سے کہا؛ یہ نوجوان ان لوگوں کو کیوں مار رہا تھا؛ وہ لوگ اس بوڑھیا اور بوڑھے کے گھر پر زبردستی قبضہ کرنا چاہتے تھے؛ اچھا تو وہ نوجوان ان کا لڑکا ہے؛؛ نہیں ان کا کوئی بھی نہیں ہے بس وہ ان پر ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکا اور انھیں مار بھگایا؛ اس کے علاوہ کوئی وجہ؛ اس نے پوچھا؛ نہیں اس کے علاوہ کوئی وجہ نہیں؛ گائیڈ نے اتنا کہا اور اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور اس نے اپنے کے گلے میں لٹک رہے کیمرے سے اس نوجوان کی تصویر کھینچی لی؛ گائیڈ اس کی خون آلود آنکھیں حیرت سے دیکھنے لگا  اس نے زور سے آواز لگائی پیکپ؛ ہوٹل پہنچ کر اس نے کمرے میں ہی کھانا منگوایا اور گائیڈ کے ساتھ  کھایا، کھانے سے فارغ ہو کر اس نے گائیڈ کے ہاتھ میں ایک پھولا ہوا لفافہ تھماتے ہوئے کہا تم نے اپنا کام بہت اچھے طریقے سے انجام دیا تم مجھے ہمیشہ یاد رہو گے گڈ بائے اب ہم کبھی نہیں ملیں گے اتنا کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا روم میں جاکر میل باکس کھول کر لکھا؛؛ میشن فینش ؛؛میری فلائٹ دو روز بعد ہے جلد ملاقات ہوگی ؛ دوسرے دن وہ ٹرین میں بیٹھا اخبار کی سرخی دیکھ رہا تھا ؛ دھاراوی کے نہرو نگر میں رہنے والے ایک نوجوان کا قتل لاش کھاڑی سے برآمد پانچ لوگ گرفتار؛؛مسکراتے ہوئے اس نےاخبار ایک طرف رکھا اور  چور چور کی آواز پر چونکا ایک دس گیارہ سال کا بچہ چور چور کی آواز لگاتے ہوئے اس کے پاس سے گزرا اس نے بچے سے پوچھا؛ تمہاری کوئی چیز چوری کی ہے اس نے ؛ لڑکے نے جواب دیا، نہیں  اس عورت کا پرس چوری کیا ہے؛وہ عورت تمہاری کون ہے؛ بچے نے معصومیت سے کہا؛؛؛ کوئی نہیں؛بچے کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا، اور ٹرین  گپھا سے نکل کر چنگھاڑ تی ہوئی شہر میں داخل ہوگئی-

AinoN Bhara Kamra A Short Stories by Afzal Ansari

Articles

آئینوں بھرا کمرہ

افضال انصاری

“ٹیکسی……”
اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی اور اس کے پیر کا دباؤ بریک پر بڑھ گیا، اس نے ٹیکسی روکی اور ونڈو سے باہر جھانکتے ہوئے پوچھا…
“کہاں جانا ہے؟ “
وہ تین نوجوان تھے، اسے دیکھتے ہی پہلے ان کے چہرے پر حیرت کے آثار نظر آئے اور پھر زیرِ لب مسکراہٹ… کیوں… کیونکہ اس کا نام شردّھا تھا اور وہ ایک عورت تھی..
دن بھر میں اس طرح کے دسیوں واقعات ہوتے تھے اور اب وہ ان نظروں اور چہروں کی عادی ہو چکی تھی – اس نے ان تینوں کو گلیکسی سنیما کے باہر اتارا اور آگے بڑھ گئی –
یہ آج کی اس کی آخری ٹرپ تھی، اب اسے سیدھا گھر جانا تھا، مگر کیسا گھر؟، اس دو کمرے کے فلیٹ کو گھر بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ گھر افراد سے بنتا ہے اور وہ فلیٹ  میں اکیلی تھی اور…. ہاں!!! یادوں کا ایک ہجوم بھی تھا جو بستر پر پہنچتے ہی اسے گھیر لیتا اور یوں کچھ دیر تنہائی کا احساس ختم ہوجاتا، مگر درد کا احساس بڑھ جاتا-
ایک چھوٹا سے قصبے میں دو کمروں اور بڑے سے آنگن کا ایک گھر تھا، ہاں وہ مکمل گھر تھا کیونکہ اس میں شردھا کے ماں باپ اور دو چھوٹے بھائی بہن رہتے تھے، سِکّوں کا سرمایہ کم، لیکن محبتوں کا سرمایہ بے پناہ تھا، شردّھا کے ماں باپ اپنے بچوں سے بے انتہا پیار کرتے تھے-
ایک دوپہر جب سخت چلچلاتی دھوپ کی وجہ سے گھر کے سارے افراد آرام کر رہے تھے شردّھاخاموشی سے باہر نکل آئی، کیونکہ آج سُرَیْنَا کے گھر کے آنگن میں اس نے سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کا پروگرام بنایا تھا –
کھیل کے دوران اچانک اسے محسوس ہوا کہ اس کے قدم لڑکھڑا رہےہیں اور پھر یہ ڈگمگانا اتنا بڑھا کہ شردّھا  زمین پر لڑھک گئی ، اس کی سہیلیوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں آ رہی تھیں-
اچانک وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی، گلا خشک ہو رہا تھا، اس خواب کو…. ہاں!!! شردّھاکے لیے وہ تو اب ایک ڈراؤنا خواب ہی بن کر رہ گیا تھا کیونکہ وہ ایک بھیانک زلزلہ تھا جس نے شردّھاکے پورے خاندان کو اس سے چھین لیا تھا، زمین کے ان جھٹکوں کو آج بھی شردّھا محسوس کرتی تھی – فریج سے پانی کی بوتل نکال کر شردّھانے منہ سے لگالی اور ایک ہی سانس میں نصف کے قریب بوتل خالی کر دی –
بستر پردوبارہ لیٹتے ہی ایک عمارت چشم تصور میں نظر آئی یہ ایک یتیم خانہ تھا جہاں شردّھانے زندگی کے دس برس گزارے اور انہی دس برسوں میں اسے یہ احساس ہوا کہ وہ نہایت ہی بدصورت ہے کیونکہ یہاں محبت سے دیکھنے والی وہ نظریں نہیں تھیں جو اپنوں کی ہر بدصورتی کو چھپا لیتی ہیں –
یتیم خانے کے دس برسوں نے شردّھا کو زندگی کے بہت سے تجربے دئیے، یہاں کے منتظمین کے ذریعے خوبصورت لڑکیوں کا مسلسل جسمانی و ذہنی استحصال ہوتا، لیکن شردھا ان سب سے بچی ہوئی تھی یا یوں کہہ لیں کہ شردھا کی بدصورتی نے اس یتیم خانے میں شردھا کی حفاظت کی-
یتیم خانے سے نکلنے کے بعد اس نے اسی شہر کے ایک غریب علاقے میں چھوٹا سا کمرہ کرائے سے لیا اور ایک جنرل اسٹور پر کام کے لیے لگ گئی – کھانے اور کرایہ کے علاوہ اس کا کوئی اور خرچ تو تھا نہیں اس لئے رقم پس انداز ہونا شروع ہوئی ویسے بھی خرچ کرتی تو کہاں؟؟
میک اپ، اچھے ملبوسات شردھا کے کسی کام کے نہیں تھے –
پانچ برس میں اس کے اکاؤنٹ میں ایک خطیر رقم جمع ہوچکی تھی – اس کے ذہن میں شروع سے ایک ٹیکسی لینے کا خیال جڑیں بنا رہا تھا –
رقم کے جمع ہوتے ہی اس نے ایک نئی ٹیکسی خریدی، جنرل اسٹور پر کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایک ڈرائیونگ سکول سے کار ڈرائیو کرنا سیکھ لیا تھا اور سیکھنے کے فوراً بعد ہی اسے لائسنس بھی مل گیا-
جس دن شردّھا نے پہلی بار اپنی ٹیکسی شہر کی سڑکوں پر نکالی، ہر اسٹاپ چوک چوراہوں پر لوگوں نے اسے بڑی حیرت بھری نظروں سے دیکھا، ایک صحافی کی نظر بھی اس پر پڑ گئی اور اس نے شردّھا کے فوٹو کے ساتھ دوسرے دن کے اخبار میں شردّھا  کو شہر کی اولین خاتون ٹیکسی ڈرائیور کا خطاب دے دیا اور یوں سارا شہر اسے جاننے لگا –
ابتدائی دنوں میں وہ ٹیکسی آٹھ گھنٹے چلانے کے بعد کھڑی کر دیتی تھی، مگر تنہائی کے سولہ گھنٹے اس کے لیے گزارنے مشکل ہو جاتے، ان سولہ گھنٹوں میں وہ بمشکل ایک آدھ گھنٹے سو پاتی-
مگر اب وہ اس وقت تک شہر کی سڑکیں ناپتی رہتی، جب تک تھک کے چور نہیں ہوجاتی- بیس گھنٹے ٹیکسی چلانے کے بعد وہ بستر پر لیٹتے ہی سو جاتی اور ماضی کی یادوں سے بچی رہتی –
ٹیکسی چلاتے ہوئے یہ شردھا کا دسواں سال تھا اور شردّھا  بھی عمر کے کئی میل طے کر چکی تھی، اس وقت اس کی عمرچونتیس سال تھی ، اس نے ایک اچھے سے علاقے میں ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے سے لے لیا تھا اور اسے خوب اچھی طرح سجایا مگر اس فلیٹ کو اس نے آئینوں سے خالی رکھا، وہ آئینوں کا کرتی بھی کیا، سیاہ رنگت پھولی ہوئی ناک اور فربہی مائل جسم، کوئی ایسی چیز نہیں جسے آئینے میں دیکھا جائے اور ویسے بھی دن بھر مسافروں کی طنزیہ نظریں اس کے لیے آئینے کا ہی کام کرتی تھیں –
معمول کے مطابق وہ صبح سات بجے اپنی ٹیکسی لے کر نکلی – اگلے ہی چوراہے پر اسے ایک نوجوان ہاتھوں میں دبے ہوئے اخبار کو لہراتا ہوا نظر آیا، اس نے ٹیکسی روک دی –
“کراس روڈ، شیتل کارپوریشن جانا ہے!!! “
” جی بیٹھ جائے… “کہتے ہوئے  شردّھانے میٹر ڈاؤن کیا اور وہ نوجوان ہلکی سی دلکش مسکراہٹ کے ساتھ تھینک یو بولتے ہوئے پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا – ٹیکسی چلاتے ہوئے ایک دو بار شردھا نے عقبی شیشے میں دیکھا تو اسے اپنی جانب ہی دیکھتا ہوا پایا – بہت ہی پیارا اور خوبصورت سا نوجوان تھا، شردھا کا بھی جی چاہا کہ اسی عقبی آئینے میں بار بار دیکھے مگر فطری حیا آڑے آجاتی –
دس منٹ میں ٹیکسی مطلوبہ مقام پر پہنچ گئی، اس نوجوان نے تھینکس کہتے ہوئے کرایے کی رقم اس کی جانب بڑھا دی اور عمارت کی جانب بڑھ گیا – اندر داخل ہونے سے پہلے وہ مڑا تو شردھا کو اپنی ہی جانب متوجہ پایا، چردھا نے فوراً گئیر بدلا اور گاڑی آگے بڑھا دی – آگے جانے کے بعد بھی شردھا کی نگاہیں بار بار عقبی شیشے کی جانب اٹھ جاتیں مگر وہ تو جا چکا تھا –
دوسرے دن شردھا نے ٹیکسی وقت سے پہلے نکال لی اور اسی چوراہے پر جا کر رک گئی – جیسے اسے امید تھی کہ وہ نوجوان پھر آئے گا اور ویسا ہی ہوا دس منٹ کے بعد ہی ہاتھوں میں اخبار دبائے اسے وہ آتا ہوا نظر آیا، اتفاق سے اس وقت وہاں صرف شردھا کی ہی ٹیکسی موجود تھی – وہ جلدی سے ٹیکسی کی جانب بڑھا – قریب آتے ہی وہ چونک گیا –
“ارے آپ!!! واہ کیا اتفاق ہے! “اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا –
” آپ روز صبح اسی روٹ سے گزرتی ہیں؟ “
اس نوجوان نے شائستگی سے پوچھا..
” جی “
شردھا نے گئیر بدلتے ہوئے جواب دیا
“ایک بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں، اگر آپ برا نہ مانیں تو…. “
اس نوجوان نے ہچکچاتے ہوئے مالتی سے کہا –
” جی کہیے، کیا بات؟ “
” وہ دراصل بات یہ ہے کہ اس علاقے میں ٹیکسی کا ملنا بڑا دشوار امر ہے، اکثر ٹیکسی کے انتظار میں، میں آفس کے لیے لیٹ ہو جاتا ہوں، مجھے لگتا ہے آپ کا یہاں سے قریب میں ہی کہیں مکان ہے اور آپ کے ٹیکسی نکالنے کا وقت بھی وہی ہے جو میرا آفس کے لیے نکلنے کا وقت ہے، میں چاہتا ہوں کہ اگر آپ روزانہ مجھے اس چوراہے سے پِک کر لیں تو میں بہت بڑی دشواری سے بچ جاؤں گا “
شردھا کو یوں لگا جیسے زندگی میں پہلی بار اوپر والے نے اس کے دل کی بات سن لی ہے اور وہ بھی اتنی جلد…
اس نے فوراً جواب دیا –
” ہاں، ہاں، کیوں نہیں، مجھے بھی روزانہ ایک طے شدہ کرایہ مل جایا کرے گا – “
” اوہ! بہت بہت شکریہ! آپ نے…. سوری کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں؟ “
” شردھا “
ہاں شردھا جی، آپ نے میری بہت بڑی مشکل حل کر دی، شکریہ آپ کا بہت بہت شکریہ”
“ارے نہیں شکریے کی کیا بات ہے، میرا اپنا بھی تو فائدہ ہوگا –
شردھا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا –
وہ نوجوان بھی ہنس پڑا –
“امر! ویسے میرا نام امر ہے، شردھا جی آپ سے دوبارہ مل کر بڑی خوشی ہوئی “
باتوں کے دوران ہی ٹیکسی شیتل کارپوریشن پہنچ گئی ، نوجوان نے اترتے ہوئے اس یاد دہانی کرائی، مگر اس یاد دہانی کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ  شردھا کو اب صرف اگلی صبح کا انتظار تھا، وہ امر کے آنے سے آدھا گھنٹہ پہلے اسٹاپ پر پہنچ جاتی اور بے چینی سے اس کا انتظار کرتے رہتی، کچھ ہی دنوں میں امر اس سے اتنا گھل مل گیا کہ اب شردھاسیدھا امر کے مکان سے اسے بٹھاتی اور امر کی واپسی بھی شردھاکے ساتھ ہی ہوتی –
آج شردھا نے مارکیٹ سے پہلا آئینہ خریدا اور اُسے لا کر اپنے ڈرائنگ روم میں لگا دیا اور اس کے سامنے کھڑی ہو گئی، آج شردھا کو اپنی بدصورتی اتنی زیادہ محسوس نہیں ہو رہی تھی –
وقت کے ساتھ ساتھ شردھا نے خود پر بھی خرچ کرنا شروع کر دیا اب وہ اچھے اسپرے استعمال کرتی، نئے فیشن کے لباس خریدتی، ساتھ ہی ساتھ اس کے فلیٹ میں آئینوں کی تعداد بھی بڑھ چکی تھی – گھر جانے کے بعد وہ گھنٹوں آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھتے رہتی – ہر بار اسے ایسا محسوس ہوتا کہ امر کی نگاہیں بھی اسے دیکھ رہی ہیں اور وہ شرما جاتی –
اس دن شردھا نے دوپہر دو بجے امر کو شیتل کارپوریشن سے بٹھایا اور کچھ ہی دور گئی ہوگی کہ ٹیکسی ایک جھٹکے سے رک گئی –
“ارے! کیا ہوا شردھا؟ ٹیکسی کیوں روک دی؟ “
” دیکھتی ہوں، شاید انجن میں کچھ خرابی ہوگئی ہے “کہتے ہوئے شردھا اتر گئی، بونٹ اٹھائے کافی دیر تک وہ پریشان رہی، تھوڑی دیر بعد اسے مانوس سی خوشبو کا احساس ہوا، امر اس کے بالکل بازو میں کھڑا تھا –
” کیا ہوا شردھا؟ “
” کچھ نہیں صاحب معمولی سی خرابی تھی، شاید دور ہوگئی ہے، میں اسٹارٹ کر کے دیکھتی ہوں –
شردھا نے ٹیکسی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی اور وہ پہلی ہی کوشش میں چل پڑی –
“آئیے امر جی! بیٹھ جائیں “
اوہ بھگوان کا شکر ہے ٹیکسی اسٹارٹ ہوگئی ورنہ اب دوسری ٹیکسی کی تو عادت ہی نہیں رہی”
امر نے ہنستے ہوئے کہا اور اسی وقت اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اٹھی –
“ہاں ٹینا ڈارلنگ … ارے کچھ نہیں وہ ٹیکسی راستے میں بگڑ گئی تھی اس وجہ سے تھوڑی دیر ہوگئی، نہیں نہیں میں بس پندرہ منٹ میں ریسٹورنٹ پہنچتا ہوں، اوہ سوری ٹینا… او کے… بائے “
کہتے ہوئے اس فون ڈسکنکٹ کیا اور شردھا کومخاطب کرتے ہوئے  کہنے لگا..
” شردھا آج تمہیں تھوڑی سی تکلیف دینا چاہوں گا “
” کہیے امر جی کیا کرنا ہے؟ “میرے مکان پر تھوڑی دیر کے لئے تمہیں رکنا ہے، میں چینج کر لوں پھر مجھے گرینڈ ریسٹورنٹ ڈراپ کر دینا”
“جی امر جی، جیسا آپ کہیں “
شردھا نے ٹیکسی امر کے گھر کے باہر روکی تھوڑی ہی دیر میں امر نہایت خوبصورت لباس میں باہر آیا اور ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے کہنے لگا –
” چلیں شردھا؟ تھوڑا فاسٹ…. “
شردھانے ٹیکسی آگے بڑھا دی اور تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے تھوڑی ہی دیر میں امر کو گرینڈ ریسٹورنٹ کے باہر اتار دیا – ہوٹل کے باہر ہی ایک دراز قامت خوبصورت لڑکی کھڑی ہوئی تھی، اس نے جیسے ہی امر کو دیکھا لپک کر قریب آئی اور امر کے گلےلگتے ہوئے کہنے لگی –
” اوہ امر، میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہی تھی “
” سوری، ڈارلنگ ویری ویری سوری، ٹیکسی میں خرابی کے باعث میں تھوڑا لیٹ ہوگیا، بٹ چلو اب اندر چلتے ہیں، تھینکس شردھا… “
امر نے شردھا کو دیکھا کر ہاتھ لہرایا اور ریسٹورنٹ میں داخل ہو گیا –
شردھا نے خاموشی سے ٹیکسی آگے بڑھا دی
——-
امر چوراہے پر کھڑا بے چینی سے ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا –
” شردھا آج آئی کیوں نہیں ابھی تک؟ اس سے پہلے تو ایسا کبھی نہیں ہوا… اوہ لگتا ہے ٹیکسی نے آج پھر ہاتھ بتا دیا ہوگا “
خود سے ہی سوال جواب کرتے ہوئے امر نے کھمبے سے ٹیک لگائی اور اخبار کھول لیا –
 اس کی نظریں ایک خبر پر رک گئیں –
خبر تھی کہ..” کولابار علاقے میں ایک فلیٹ سے شردھا نامی شہر کی اولین خاتون ٹیکسی ڈرائیور کی لاش ملی ہے، اندازہ ہے کہ اس نے خودکشی کی ہے – اس سارے واقعے میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کے فلیٹ میں درجنوں آئینے تھے لیکن سارے آئینے پولس کو ٹوٹے ہوئے ملے –
امر نے اخبار فولڈ کیا اور قریب سے گزرتی ہوئی ٹیکسی کو آواز دی…
“ٹیکسی”
                           —————–
علم والوں کی بستی اور دین والوں کے شہر مالیگاؤں کے  افضال انصاری نئی نسل کے ذہین افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں. درس و تدریس سے وابستہ ہیں. مطالعہ کے رسیا ہیں. قلمدان ادبی واٹس ایپ گروپ سے لکھنے کا آغاز کرنے والے افضال انصاری نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر جامعہ اردو علی گڑھ کے پلاٹینم جوبلی جشن میں افسانے کے نام پر شہر مالیگاؤں کی نمائندگی بھی کی ہے.
فیس بک کے ادبی فورمز اردو افسانہ فورم، عالمی افسانہ فورم اور حقائق پر لگنے والے تمام افسانوں کو پڑھنے اور ان پر بے لاگ تبصروں کے سبب بھی آپ محترم مانے جاتے ہیں. موصوف مستقبل قریب میں افسانوں کے مجموعہ کی اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں.
قلمکار :افضال انصاری
اسلام نگر، مالیگاؤں
موبائل :9226070707

Volcano A Short Story by Dr. Qamar Saleem

Articles

آتش فشاں

محمد قمر سلیم

راعین پہلی ایسی آئی اے ایس آفیسر تھی جو اتنی کم عمر میں ملک کے چیف سکریٹری ہوم کے عہدے پر فائز تھی ۔ اس نے ۲۲ سال کی عمر میں آئی اے ایس کا امتحان ٹاپ کیا تھا۔راعین چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے سب کی چہیتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ سب پر اس کا خوب رعب چلتا تھا۔ وہ بہت بولڈ آفیسر تھی۔اس کی شبیہ ایک ایمان دار بیوروکریٹ کی تھی۔کسی بھی غلط کام کو اس نے منظوری نہیں دی اسی لیے اس کے ہم منصبوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی بہت محتاط رہتی تھی۔ راعین کی شخصیت ایسی تھی کہ ملک کا ہر سیاست داں اورحکومت کے وزراء اور اہم اعلیٰ عہدے داران سب ہی اس پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔اس نے اپنی ذہانت کی بنا پرنہ جانے کتنے مواقعوں پر ملک اور قوم کو خطروں سے باہر نکالا تھا ۔ادھر کچھ مہینوں سے وہ بہت پریشان تھی کیوں کہ نئی حکومت جب سے آئی تھی اسے ہو م سکریٹری کے عہدے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن ڈرتی بھی تھی کہ اپوزیشن اور عوام حکومت کو چین سے نہیں رہنے دیں گے اس لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
راعین جب سے ہوم سکریٹری بنی تھی اذلان اس کے ڈرائیور کے فرائض انجام دے رہا تھا۔حکومت نے اذلان کا بھی ٹرانسفر کرنا چاہا جسے راعین نے رکوا دیا اور یہ کہہ کر قصّہ ختم کیا جب تک وہ ہوم ڈپارٹمنٹ میں ہے، اذلان ہی اس کا ڈرائیور رہے گا۔اذلان راعین کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ایک دن راعین نے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش بھی کی تو اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ سوپور کا رہنے والا ہے۔ اب دلی میں شفٹ ہو گیا ہے اور ایشور نگر میں رہتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن مائرہ بھی ہے جو کالج میں پڑھتی ہے اور وہیں ہاسٹل میں رہتی ہے۔ راعین اکثراذلان کے بارے میں سوچا کرتی تھی کہ وہ اتنا اداس کیوں رہتا ہے؟اذلان کتنا ہینڈسم ہے، کتنی اچھی انگلش بولتا ہے ، کتنا اچھا اس کا برتائو ہے ، پڑھا لکھا لگتا ہے پھر بھی وہ ڈرائیور کی نوکری کر رہا ہے؟نہ جانے کیوں، راعین کو اس کی آنکھوں سے درد جھلکتا سا نظر آتا تھا۔ کچھ تو ہے جس کو وہ چھپا رہا ہے۔کچھ تو ہے جسے وہ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا ر ہا ہے اس نے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن اذلان زیادہ تر خاموش ہی رہا ۔ وہ جتنا اس کے بارے میں سوچتی اتنا ہی اذلان اس کے وجود پر طاری ہو تا جا رہا تھا ۔ وہ کوشش کے باوجود اپنے آپ کو اذلان سے الگ نہیں کر پا رہی تھی۔ دھیرے دھیرے راعین اذلان کی طرف کھنچنے لگی۔ ایک انجانا سا خوف اس کو ستانے لگا کیوں کہ اس کے دل میں اذلان کے لیے ایک خاص مقام پیدا ہو گیا تھا۔ وہ اذلان کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہے۔ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی یکطرفہ دیوانگی کو کیا نام دے۔ کیا اس کے دل کے کسی گوشے میں محبت کا چراغ روشن ہے؟وہ اپنے ہی ڈپارٹمینٹ کے ادنیٰ سے ڈرائیور سے محبت کیسے کر سکتی ہے۔دنیا ، حکومت اور ملک کے عوام اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ مگر اس نے کبھی بھی اپنے فرائض سے کوتاہی تو نہیں کی ہے ۔ اس نے کبھی بھی حکومت کو اور عوام کو مایوس نہیں کیا ہے ۔ کیا اس کا یہ قدم سب کے لیے باعث شرم ہوگا ۔۔۔ مگر یہ تو اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔ تو کیا ہوا دنیا بھر کی نظریں تو اس کے اوپر ٹکی ہوئی ہیں۔ دنیا اسے اس کے ذاتی معاملے کے طور پر تو نہیں دیکھے گی ۔وہ عجب کشمکش میں تھی۔ وہ اپنے آپ بڑ بڑانے لگی ’مگر میں بھی تو انسان ہوں، کیا میرے جذبات نہیں ہیں ؟ کیا میرے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟ اور نہ جانے ایسے ہی کتنے سوالات اس کے ذہن میں ابھرتے رہے ۔ اس نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے دی، راعین! ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ بھی ایک عورت ہے جس کے سینے میں ایک حسّاس دل دھڑکتا ہے اور ہر عورت کی طرح اسے بھی اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کا حق ہے ۔ یہی سوچ کر اس نے سوچا اسے اذلان سے اپنی خواہش کا اظہار کر دینا چاہیے۔ لیکن کیسے ؟ ایک دن جب وہ گھر واپس جا رہی تھی ، اچانک اس نے اذلان سے کہا ، ’ اذلان ذرا کار روکیے۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے کے ساتھ کار روک دی ۔ کار رکتے ہی راعین آگے کی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ اذلان کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقہ تھا ۔راعین کے بیٹھنے کے بعد اذلان نے کار کو پھر سڑک پر دوڑانا شروع کر دیا۔ راعین نے اس سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ وہ اذلان سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔ اس کا گھر آگیا تھا۔ وہ اذلان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کار سے اتر گئی اور کار اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
تین دن ہو چکے تھے اسے آگے کی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے لیکن وہ اپنے دل کی بات اذلان سے نہیں کہہ سکی تھی ۔ آج وہ کچھ سوچ کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے جا ہی رہی تھی کہ اذلان نے اس سے کہا ، ’میڈم !کیا بات ہے آج آگے نہیں بیٹھیں گی۔‘ اسے جیسے کرنٹ لگا ہو اور وہ کچھ کہے بنا آگے جاکر بیٹھ گئی لیکن پھر وہی خاموشی۔اس نے ایک بار پھر اذلان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھنا
شروع کر دیا ۔ ـ’ ارے اذلان آپ اپنی بہن کو ہمارے گھر لے کر آیئے ‘ ’ جی میڈم ! ‘ اس کا مختصر سا جواب تھا۔’ اذلان آپ کی بہن کیا کر رہی ہے ؟ ‘ جی! وہ ڈینٹسٹ کا کورس کر رہی ہے۔ ‘ ’ ارے واہ ! بہت اچھا کیا جو اس کو آپ لوگ ڈینٹسٹ بنا رہے ہیں۔ یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ آج ہم مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔‘ کچھ دیر بعد اس نے اذلان کو مخاطب ہو کر پوچھا ، ’اذلان ! آپ اگر برا نہیں مانے تو پوچھ سکتی ہوں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل نہیں کی۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی شکر تھا کہ آگے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی حالانکہ اذلان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اذلان بولا، ’ نہیں میڈم ! ایسا نہیں ہے ۔ ‘ اور پھر اتنا کہہ کر اذلان تو جیسے پھٹ پڑا تھا۔ ’ میڈم! آپ اونچے عہدے پر بیٹھے لوگ کیا جانیں گے کشمیریوں کے بارے میں۔‘ اس نے بہت طنزیہ لہجے میں کہا، ’ کشمیری تو صرف دہشت گرد بن سکتا ہے ، اسے کیا لینا دینا پڑھائی سے ۔ آپ اعلیٰ تعلیم کی بات کر رہی ہیں ،۔کچھ وقفے کے بعد اذلان رندھی ہوئی آواز میں بولا، ’ کشمیر کا ہر بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کشمیری طالب علم کچھ بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ہر کشمیری نوجوان ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔میں جو بننا چاہتا تھا وہ نہیں بن سکا ، کیا ملا مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے۔‘
اس کی عجیب کیفیت تھی ۔کچھ توقف کے بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا ، ’ میڈم ! میں کشمیری ہوں اور ایک کشمیری کا درد صرف ایک عام کشمیری سمجھ سکتا ہے ، یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کشمیری بھی نہیں اور مرکز کی بات کرنا تو فضول ہے ۔ کون سے ماں باپ ہیں جو چاہیں گے کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر بندوق ہاتھ میں اٹھائے؟ کون سی ماں چاہے گی کہ اس کی کوکھ سونی ہو؟کس باپ نے خواب نہیں دیکھے؟ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارے دل ہندوستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔’سارے جہاں سا اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ہم کہتے نہیں تھکتے۔ اور ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم آزاد کشمیر بنا نہیں سکتے ، پاکستان کے ساتھ جا نہیں سکتے، اور ہندوستان ہمیں اپنانا نہیں چاہتا ۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ پتھر پکڑا دئے گئے سیاہی کی جگہ خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کے خواب ریت کے ٹیلوں کی طرح ہیں کہ کب طوفان آئے اور ان کے خوابوں کو چکنا چور کرکے چلا جائے۔ اب تو ہر کوکھ سوکھ گئی ہے اور پھر کوئی کیوں اپنی کوکھ ہری کرے ،کیا اس لیے کہ اس میں دہشت گرد بسیرا کرے ۔ بچے کا وہ حسین احساس ہر کشمیری عورت کے لیے خواب بن کر رہ گیاہے کیوں کہ وہ حقیقت بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ کشمیر کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں ماتم نہ ہوتا ہو، جہاں کوکھ سونی نہ ہوئی ہو۔وہاں ہر ماں روتی ہے، ہر باپ تڑپتا ہے، ہر بیٹی سسکتی ہے اور ہر بیٹے کا خون کھولتا ہے۔ ہر کشمیری ا من چاہتا ہے ، کشمیر کی ترقّی چاہتا ہے لیکن یہ سیاست داں پاکستان کا بہانہ لیکر کشمیریوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے کاروبار تباہ کر رہے ہیں ۔کشمیر ی سیاحت ختم کی جا رہی ہے۔ کشمیری بے روزگار ہو رہے ہیں۔کیا پھربھی کشمیری تشدد اپنائے گا ۔ ارے اس کے تو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ صبح کھاتا ہے تو شام کی فکر ستانے لگتی ہے۔ وہ تشدد کیوں کر کرے گا؟کیا ہر ماں بچے کو اسی لیے جنم دے رہی ہے کہ اسے تشدد کی نظر کر دے ۔ نہیں یہ صرف سیاست کا کھیل ہے جس میں عام کشمیری مارا جا رہا ہے ۔ سیاست داں نہیں چاہتے کہ کشمیر کا کوئی حل نکلے کیوں کہ جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس دن ان سیاست دانوں کی دوکانیں بند ہو جائیں گی ۔ ان سیاست داں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو تو صرف اقتدار چاہیے ہے ، سیاست کرنا ہے چاہے وہ انسانی لاشوں پر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے بچے نہیں مرتے ہیں۔ ان کے یہاں کوکھ سونی نہیں ہوتی، ان کے گھر نہیں اجڑتے ہیں ، ان کے خواب چکنا چور نہیں ہوتے ہیں، ان کے یہاں ماتم نہیں ہوتا ہے، ان کے بچوں کو پتھر نہیں ملتے، کتابیں ملتی ہیں کتابیں۔۔۔یہ کیا جانے درد کیا ہوتا ہے؟ یہ کیا جانے موت کیا ہوتی ہے؟ یہ دلوں کی تڑپ کیا جانے؟ یہ تو سب بیوپاری ہیں بیوپاری۔۔۔لاشوں کے بیوپاری ، جذبات کے بیوپاری، دلوں کے بیوپاری۔۔۔یہ کیا جانے دہشت کیا ہوتی ہے ؟گولی کی آواز اور دردناک چیخ کی آواز میں کیا فرق ہوتا ہے؟ پیلٹ گن سے ان کے بچے اندھے نہیں ہوتے ، ان کی اور ان کے اہل ِ خانہ کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں۔آپ کو کیا معلوم ہر ماں راستے میں نگاہیں بچھائے بیٹھی رہتی ہے ، وہ جب تک دروازے سے نہیں ہٹتی جب تک اس کا لال گھر نہ آجائے اور پھر وہ شکرانۂ رب بجا لاتی ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا لال خود واپس آئے گا، یا چار کاندھوں پر سوار ہو کر آئے گا یا پھراس کے لا پتا ہونے کی خبر آئے گی اور پھر اس کا انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھیں پتھرا جائیں گی۔یا پھر اس کے بیٹے کی لاش آئے گی اور پھر اس کے احتجاج میںاور لاشیں بچھ جائیں گی اور پھر نہ جانے کتنی گودیں سونی ہوجائیں گی۔کوئی نہیں سمجھ سکتا کشمیری کا درد کوئی نہیں۔ ۔۔کوئی ہمارے بارے میں کچھ نہیں سوچتا ۔نہ ہماری ریاست کے لوگ اور نہ ہمارے ملک کے لوگ ۔ ہمیں تو سب نے زخم دیے ہیں۔کیا ہمارے ہندوستانی آقا اورکیا ہمارے نام نہاد پاکستانی آقا ۔اور کیا دیا ہے ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیں؟ ہم اپنی جنگ خود ہی لڑ رہیں ہیں۔ ۲۰۔۲۵ کروڑ کی آبادی نے کب ہمارے لیے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ہم سے صرف اتنی محبت ہے کہ کبھی کبھار کسی اخبار میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کر دیا جاتا ہے ۔ یہی ہمارا وجود ہے، یہی ہماری داستان ہے۔‘
’ہاں میڈم ! آپ نے پوچھا تھا کہ میں کیوں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکا؟ میری بھی دنیا تھی میرے بھی حسین خواب تھے ایک جھٹکے میں سب چکنا چور ہوگئے۔میرے والد کشمیر کے بڑے بزنس مین تھے ۔ میں بھی آئی اے ایس آفیسر بننا چاہتا تھا۔ میرے والدین نے ہم سب بہن بھائیوں کو اچھے اسکول میں پڑھایا تھا۔ یہ اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔میں انٹر پاس کرکے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ساتھ ہی آئی اے ایس کی تیاری بھی چل رہی تھی۔ میرے چھوٹے بھائی روحان نے دسویں پاس کی تھی اور میری بہن زائرہ انٹر میں تھی وہ میڈیکل میں جانا چاہتی تھی ۔ مائرہ جو میرے ساتھ رہتی ہے نویں میں تھی ۔ تبھی دہشت گرد میری بہن زائرہ کو اٹھا کر لے گئے۔ زائرہ اور روحان بہت چیخے چلّائے لیکن گولیوںکی آوازوں کے بیچ ان کی چیخ پکار بے معنی تھی۔ روحان کسی طرح ان کے ٹرک میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ ان کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔ہم نے سارے جتن کرلیے۔پولس ، منسٹر، نیتاکسی کو نہیں چھوڑا۔ اپنے بچوں کو واپس لانے کے لیے میرے باپ نے سب کے آگے ہاتھ جوڑے۔وہ دن ہمارے گھر قیامتِ صغرا لیکر آیا تھا۔ گھر ماتم کدہ بن گیا۔ چولھے بجھ گئے تھے ، سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ زندگی ہم سے روٹھ گئی تھی ۔۔۔ما ں باپ کے آنسوئو ں کے بیچ لوگوں کی جھوٹی ہمدردیاں، فریبی وعدے۔ روتے رو تے ما ں کی آنکھوں کا پانی سوکھ گیا تھا۔ بابا کا سینا دھونکنی بنا ہوا تھا۔ مائرہ حیرانی کی مجسم تصویر تھی۔میں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر بس چکر کاٹ رہا تھا۔ہمارے ہنستے کھیلتے گھر کو نظر لگ گئی تھی ۔ میرے بابا کا بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا ۔انھوں نے زمین آسمان ایک کر دیا مگر ان کے بچوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔
تقریباً ۱۵ دن بعد ایک شام جے کے ایس اے کی گاڑی ہمارے گھر کے سامنے آکر رکی۔ انھوں روحان کی لاش کو باہر نکالا اور زائرہ، جو ایک سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی ، کو گاڑی سے اتارا۔ جے کے ایس اے کے جوانوں اور آفیسر ز نے مجھے اور میرے بابا کو دلاسا دیا اور کہا ، ’ ہماری اسپیشل ٹیم نے آپ کی بیٹی اور بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ہم آپ کے بیٹے کو نہیں بچا سکے ۔ زائرہ نے آفیسرز اور جوانوں کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن ناکام رہی۔ ایک جمِ غفیر امنڈ پڑا تھا ہمارے گھر پر ۔ہزاروں لوگوں نے روحان کی تدفین میں حصّہ لیا تھا۔ گھر میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ زائرہ نے بسترِ مرگ پکڑ لیا تھا۔امی بابا غم سے نڈھال تھے ،میں بھی ٹوٹ چکا تھا، ‘ اس کی آواز رندھ گئی تھی ۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ غصے سے پاگل ہو ئے جا رہا تھا۔راعین کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ پر چلا گیا تھا اذلان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کے چند قطرے اس کے ہاتھ پر گرے۔ راعین نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اذلان کو تسلی دی ۔ اذلان آگے کچھ کہنے والا تھا کہ راعین کا گھر آگیا۔اس نے سوچا کا ر کا رخ مڑوا دے لیکن کار اس کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ وہ کار سے اترکر لاچار و مجبوری کی تصویر بنی کھڑی تھی ۔
وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی نہ ہی اس نے رات میں کھانا ٹھیک طرح سے کھایا تھا وہ تو فقط اذلان کے خیالوں میں ہی گم تھی، اس کے بارے میں ہی سوچے جارہی تھی۔اس نے سچ ہی تو کہا تھا کہ کشمیریوں کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے ۔ صرف ان کو بہکے ہوئے نوجوان کہہ کر سب اپنا پلّہ جھاڑ لیتے ہیں۔ کتنی سچائی تھی اذلان کی باتوں میں ، کتنا درد چھپا تھا اس کے سینے میں۔ اتنے اونچے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی وہ بھی توکشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن یقیناً وہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں سوئی تھی۔ صبح نو بجے اذلان کا ر لیکر آ گیا تھا۔ پی ایم او سے ایک اہم کال آئی تھی اس لیے اس نے اذلان سے پی ایم او آفس چلنے کے لیے کہا تھا۔ وہ دونوں راستے بھر خاموش رہے۔ پی ایم او آفس میں اس نے پرائم منسٹر کے سکریٹری سے کچھ ضروری باتیں کی ۔دس منٹ بعد وہ وہاں سے نکلی لیکن کچھ پریشان سی تھی پی ایم او سے وہ سیدھی اپنے آفس آئی اور اب وہ اترپردیش کے تین دن کے دورے پر جارہی تھی۔ دوپہر میں اس کی ماں کا فون آیا تھا۔وہ اپنی ماں کو ’ آپا ‘ کہہ کر بلاتی تھی ۔ ’ جی آپا! بولیے ۔‘ ہاں بیٹا ، ارے بیٹا میں نے تجھے بتایا تھا نا رشتے کے بارے میں ۔وہ تیرے پاپا پوچھ رہے تھے۔‘ اس نے ماں سے بہت ہی جھنجھلا کر کہا تھا ’ ارے آپا! ایسی کیا جلدی ہے۔ ابھی تو میں لکھنئو جارہی ہوں وہاں سے آکر بات کرتی ہوں۔‘ ’اچھا‘ کہہ کر اس کی ماں نے فون رکھ دیا ۔ راعین کافی پریشان تھی کیوں کہ یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوگئے تھے جس میں کافی جانی مالی نقصان ہوا تھا۔حکومت کسی بھی قیمت پر
نہیں چاہتی تھی کہ صحیح بات میڈیا کے سامنے آئے اسی لیے راعین کو لکھنٔو میں پڑائو ڈالنا ہی تھا۔ حکومت کو یقین تھا کہ وہ معاملے کو سنبھال لے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ وہ حالات کو معمول پر لانے کے بعد دلی واپس آگئی تھی ۔ صبح جب وہ گھر سے نکل رہی تھی اس کی ماں نے وہی راگ الاپا اس کی شادی کا۔
و ہ شام کو گھر آنے کے بعد وہ اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھومنے لگی ۔ ماں نے اس سے کہا، ’ پہلے مجھے بتا تیرا کیا ارادہ ہے مجھے تیرے پاپا کو جواب دینا ہے۔‘ ’ ہاں، آپا! مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے۔‘ پھر اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی ماں سے کر دیا۔ ’بیٹا! اپنے پاپا اور بھائیوں کے سامنے یہ بات اپنی زبان پر بھی مت لانا، تیرے پاپا اور بھائی کبھی راضی نہیں ہوں گے، نہیں بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’آپا ! کیوں نہیں ہو سکتا ۔ آپا میں کہیں اور شادی نہیں کروں گی ۔کوئی کچھ سوچے کوئی کچھ سمجھے میں صرف اذلان سے ہی شادی کروں گی۔‘ ’بیٹا یہ کیسی ضد ہے۔‘ ’ نہیں ! آپا، یہ ضد نہیں ہے ۔ میں اذلان کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہوں۔‘ ’لیکن بیٹا! دنیا جہان کیا کہے گا۔ تیرے پاپا بھائی کسی کو منھ دکھانے لایق نہیں رہیں گے اور پھر لوگ تیرے بارے میں کیسی کیسی باتیں کریں گے۔ تیری ساکھ پے کتنا اثر پڑے گا۔ ‘
دھیرے دھیرے راعین نے اذلان کے دل میں جگہ بنا لی اور اب اذلان بھی راعین کی طرف راغب ہو رہا تھا ۔ راعین کے ارادے اب اور بھی مظبوط ہوگئے تھے ۔ اس نے اذلان کو شادی کے لیے بھی تیار کر لیا تھا ۔ اس نے اپنے پاپا اور بھائیوںکو بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود لیکن راعین اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہیں ہوئی اور ایک دن اذلان اور راعین نے کورٹ میرج کرلی۔ ان کی شادی ہوتے ہی اس کے والدین اور بھائیوں نے اس کا سرکاری بنگلہ چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنے آبائی مکان میں واپس چلے گئے تھے ۔ ادھر حکومت نے اذلان کا ٹرانسفر ہوم سے سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ میں کر دیا تھا۔
اس شادی کی وجہ سے اس کی زندگی میں بحران پیدا ہو گیا تھا ۔ اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ آفس کی زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی تھی۔نئی حکومت پہلے ہی سے اس کے اوپر اعتبار نہیں کر رہی تھی یہ سنہرا موقع اس کے ہاتھ آگیا تھا۔اب حکومت کے احکامات اس تک نہیں آتے تھے ۔ ایک طرح سے سارا کام کاج اس کا ڈپٹی سنبھال رہا تھا۔ہے۔ حکمران پارٹی کی طرف سے اس پر تنقیدیں بھی بہت ہو رہی تھیں۔گھر والے بھی اس سے خفا تھے ۔ اس گھڑی میں اگر کوئی اس کے ساتھ تھا تو اذلان اور اس کی ماں۔ ۔تبھی فون کی گھنٹی بجی ۔ اس کی ماں کا فون تھا۔ ’ جی آپا! ‘ بیٹا تو فکر نہ کر سب اچھا ہو جائے گا ۔ میں تیرے پاپا اور بھائیوں کو منا لوں گی ۔بیٹا ویسے تجھے سب مس کرتے ہیں ۔ بیٹا تو اپنا خیال رکھنا۔ تیری بہت یاد آرہی ہے۔‘ وہ خاموشی سے سنتی رہی ، اس کی ماں رورہی تھی۔پھر وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچنے لگی۔ کتنے دکھ اٹھائے ہیں میری ماں نے۔ میری خاطر اسنے اپنی پوری جوانی دائو پر لگا دی۔اس کی سب خواہشات، تمنائیں ، خاک میں مل گئیں ، اس کا ہر خواب چکنا چور ہوگیا۔ جوانی میں اس پر بڑھاپا آگیا۔ کیا نہیں کیا اس نے میرے لیے۔ میں تو بچپن سے ہی بیماررہتی تھی اور بیماری بھی ایسی جو زندگی بھر کا روگ تھی، روزانہ ہی تو کم سے کم ہر تین گھنٹے بعد میری تھریپی ہوتی تھی۔ڈاکٹرس بھی تو پر امید نہیں تھے ۔ وہ تو میری ماں کی انتھک محنت تھی جس کی وجہ سے آج میں یہا ں ہوں۔مجھے نہیں یاد ہے کہ میری ماں کبھی بھی تین گھنٹے سے زیادہ سوئی ہو۔اس نے میری نوکری لگنے کے بعد ہی تو سروس چھوڑی تھی۔صبح سے لیکر رات تک سب کے کام کرنا ۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں کم سے کم چھ مرتبہ میریی تھیریپی کرنا ۔اور رات میں سب کے سونے کے بعد میری تھریپی کرکے پھر سونا۔ اور وہ بھی جب کہ مجھے جنم دینے والی ماں تو مجھے دو سال کا ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ مجھے زندگی کے اصل معنی تو میری آپا نے بتائے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتاکیوں لوگ ماں کو سوتیلا اور حقیقی کے نام دیتے ہیں ، کیوں ماں کے ساتھ سابقے اور لاحقے لگائے جاتے ہیں۔ ماں تو ماں ہوتی، صرف ماں۔ اس کے منھ سے ایکدم نکلا، ’اے اللّہ! تو سب کو میری ماں جیسی ماں دینا۔‘

وہ اپنے پاپا کو بہت چاہتی تھی ۔ اس کے پاپا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ وہ روشن خیال ، سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے ۔ ہر چھوٹے بڑے سے بہت محبت کرتے تھے ۔ امیر غریب میں کبھی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ان کے نذدیک سب برابر تھے۔
وہ تو کہتے ہیں چھوٹے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں ان کی دلشکنی نہیں کرنا چاہیے اسی لیے اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے پاپا کے رویّے سے ہوا تھا۔ اس نے تو سوچا تھا کہ جب وہ اذلان سے شادی کی بات کہے گی تو اس کے پاپا اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ازلان گہری نیند سو رہاتھا۔ راعین خود سے باتیں کرنے لگی، ’ پاپا اذلان بہت اچھے ہیں ، وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ بہت پڑھے
لکھے ہیں ۔ پاپا میں جانتی ہوں آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے لیکن پاپا ایسا نہیں ہے۔ اذلان ہر لحاظ سے ہمارے خاندان سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔ سروس کرنے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا ہے۔ ا ذلان نے ایم ایس سی انجینیرنگ اور ایم بی اے کیا ہے۔پاپا آپ شاید نہیں جانتے کہ اتنا پڑھ لکھنے کے بعد اذلان کا ہوم منسٹری میں ڈرائیور کی پوسٹ پر کام کرنا مصلحت سے خالی نہیں تھا۔ اذلان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سینے میں آتش فشاں سلگ رہا تھا ۔ پاپا آپ کو تو اپنی بیٹی پر فخر کرنا چاہیے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کی بیٹی نے ایک آتش فشاں کو ٹھنڈا کر دیا ۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹ جاتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔پھر صرف کشمیر ہی نہیں جلتا پورا ملک اس کی لپٹوں میں جھلس جاتا ۔اور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوتا۔۔۔ پاپا ! مجھے وہ دن یاد ہے جب اذلان نے مجھے بتایا تھا۔۔۔اذلان نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر بہت جذباتی ہو کر کہا تھا، ’ روحان کے انتقال کے چند دنوں بعد ہی زائرہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ روحان اور زائرہ کی موت کے بعد امی بالکل خاموش ہوگئی تھیں۔ کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ صرف آسمان کی طرف دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر ان کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور ایک دن وہ بھی خاموشی سے ہم سب سے بہت دور چلی گئیں۔ میرے بابا اتنا زیادہ ڈر گئے تھے کہ مائرہ کو اپنی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں نے کسی مرد کی آنکھوں میں اتنا خوف نہیں دیکھا تھا۔ بابا تین مہینے تک صدمہ برداشت کرتے رہے پھر انھوں نے بھی زندگی سے ہار مان لی۔میں بھی بے بس تھا۔ دل تو چاہتا تھا سب کچھ جلا کر راکھ کر دوں لیکن بابا نے مائرہ کی ذمے داری میرے اوپر ڈال دی تھی۔ میں صرف ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہوں اور مائرہ تو بے جان پتھر ہے۔ اس نے ہنسنا رونا سب چھوڑ دیا ہے۔اسے دیکھ کر بہت ڈر لگتا ہے کہیں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اسی لیے میں اپنے غصے کو پی گیا ۔بابا نے ہی مرنے سے پہلے مجھ سے کہا تھا بیٹا مائرہ کو یہاں سے دلی لیکر چلے جائو ۔ یہاں یہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے اور مائرہ کا بھی وہ وہی حشر کریں گے جو انھوں نے زائرہ کا کیا تھا۔ بیٹا مائرہ یہاں محفوظ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی وہ کرو جو روحان نے کیا ۔ میں نہیں چاہتا میرے خاندان کا نام و نشان مٹ جائے۔اور پھر مرتے وقت انھوںنے کہا تھا بیٹا روحان کو دہشت گردوں نے نہیں جے کے ا یس اے نے مارا تھا اور انھوں نے ہی زائرہ کے ساتھ اتنے دن منھ کالا کیا۔بیٹا زائرہ نے اس وقت اشارے سے ان آفیسرز کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ہم نہیں سمجھ سکے۔مرتے وقت اس نے سب کچھ بتایا تھا وہی آفیسرز جو انھیں چھوڑنے آئے تھے انھوںنے ہی ان کے ساتھ ننگا ناچ کھیلا تھا اور الزام دہشت گردوں پر عائد کر دیا تھا۔‘ یہ کہہ کر اذلان خاموش ہوگیا تھا۔پاپا آپ کو یہی شکایت ہے نا کہ میں نے آپ کی مرضی سے شادی نہیں کی ۔پا پا سچ تو یہ ہے کہ جو رشتے
آرہے تھے انھیں مجھ میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ میرے عہدے سے دلچسپی تھی۔مجھے اذلان سے اچھا شوہر مل ہی نہیں سکتا تھا ، وہ سچی محبت کرنے والا انسان ہے۔ پاپا! اور پھر آپ کی اپاہج بیٹی کو کون حقیقت میں اپناتا۔۔۔ کوئی نہیں! صرف اور صرف اذلان ۔‘
راعین گھٹن محسوس کر رہی تھی ۔ اس نے اپنی آپا کو فون ملایا ۔’ہاں بیٹا ۔ اچھا ہوا تیرا فون آگیا ۔میں تجھے ہی فون کرنے والی تھی ۔کل ہم سب لوگ تیرے گھر آرہے ہیں ۔ہاں ہاں تیرے پاپا اور سب بھائی ۔میں نے کہا تھا نہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ اس کی آپا نے سب ایک سانس میں کہہ ڈالا۔راعین نے اذلان کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا ۔


ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
qamarsaleemin@yahoo.co.in

Saem A short Story by Waseem Aqeel Shah

Articles

صائم

وسیم عقیل شاہ

     رحمت علی اپنی بوسیدہ سی چپلیں ہاتھ میں لیے بڑے دروازے سے مسجد کے صحن میں داخل ہوئے۔ پسینے میں شرابور، بے حال سے وضو خانے کے قریب پہنچے اور اپنی بے ترتیب سانسوں کو درست کرنے لگے۔سامنے حوض کے وسط میں خوب صورت فوارہ چھوٹ رہا تھا اور حوض کے پانی میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں۔ حوض کے قریب پہنچتے ہی انھیں ٹھنڈی ہوا کے لطیف جھونکو ں نے بحال کردیا۔ سلیقہ مند قطرے چھن چھناتے ہوئے پانی کے اس محدود ذخیرے میں پڑرہے تھے۔ رحمت علی کا جی چاہا کہ سورج کی گرمی سے جھلسا ہوا روزہ دار بدن پانی کے ان فرحت بخش قطروں کے سپرد کردے۔
         ’’ظہر کا وقت ہے نا چاچا؟‘‘
         رحمت علی نے حوض کے کنارے دائیں طرف کی نششت پر بیٹھے بزرگ سے پوچھا جو مسواک کر رہے تھے۔
           ’’ہاں! ابھی ساڑھے تین ہی تو بجے ہیں،کافی وقت ہے۔‘‘
           باریش بزرگ نے بغیر نظریں اٹھائے جواب دیا۔
           رحمت علی کو وقت کے تاخیر سے گزرنے کا احساس ہوا۔ سچ مچھ دن طویل معلوم ہو رہا تھا اور آج واقعی وہ اپنی جان سے آدھے ہوگئے تھے۔شدت کی بھوک پیاس نے انھیں بے حال کر رکھا تھا اس پر مسجد کامپلیکس کی دکانوں سے تازہ مٹھائیوں اور لذت دار پکوانوں کی اڑتی مہک انھیں بے چین کرنے لگی۔
            وضو کرتے وقت ٹھنڈے پانی کے لمس نے ان کے روم روم میں رچی تشنگی کوجیسے سیراب کردیا۔ایمانی حلاوت سے سر شار رحمت علی نے انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی۔ دعا میں برسات کے خیال سے ان کے ہونٹ پھڑ پھڑا اٹھے تھے۔ ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد وہ صحن کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے جانے کتنی دیر نیم دراز حالت میں پڑے رہے مگر تھالوں اور رکابیوں کی کھڑکھڑاہٹ سے چونک کر سیدھے ہوگئے ۔اب کے مسجد کی پر سکون فضا میں سر سراہت سی دوڑ گئی۔ سوئے ہوئے روزے دار کروٹیں بدلنے لگے، کچھ اٹھ بیٹھے اور اپنی سفید داڑھیوں کو سنوارنے لگے۔ عصر کی اذان کا وقت قریب آگیا تھا اور مسجد میں افطار کی تیاریاں شروع ہوچکی تھیں، دستر خوان جھاڑے جا رہے تھے، برتن دھوئے جا رہے تھے تو ایک طرف بچے پھلوں کی قاشیں کاٹ کر ترتیب سے رکھ رہے تھے ۔ مسجد میں آنے والوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ بیشتر آنے والوں کے ہاتھوں میں پلاسٹک کی تھیلیاں تھیں اور کچھ لوگ طشتریوں اور خوانوں کو خوش رنگ کپڑوں سے ڈھانکے افطار کی سوغاتیں پیش کر رہے تھے ۔
          انہیں میں ایک شخص غالباً آٹھ سال کی بچی کو گود میں لئے مسجد میں داخل ہوا۔ بچی نے سرخ رنگ کا اسکارف اوڑھ رکھا تھااور گلے میں تازہ پھولوں کا ہار جو اس کے پیٹ تک لٹکا ہوا تھا اور جس کی مہک روزے کے احساس کو شدت پہنچا رہی تھی۔ اس کے کمھلائے ہوئے چہرے پر نور کا ایک ٹکڑا سا ٹھہرا معلوم ہو رہا تھا اور ہونٹ سوکھی انجیر کی مانند، جن پر مچلتی پیاس کو دیکھ کر صاف معلوم پڑتا تھا کہ وہ بھی روزے دار ہے۔بچی کو دیکھ کر رحمت علی کی آنکھوں میں اپنے بیٹے کا چہرہ اتر آیا۔ رضوان کے کمسنی میں رکھے گئے روزوں کی یادداشتیں ان کے ذہن میں آج بھی محفوظ ہیں۔ خاص کر اس کا پہلا روزہ انھیں خوب اچھے سے یاد ہے۔جب وہ آٹھ برس کا تھا اور انھوں نے اسے اپنی سائیکل پر بیٹھا کر گاؤں بھر میں اس وقت تک گھمایا تھا جب تک ہر خاص و عام نے اس کی بلائیں نہ لے لی تھیں۔
           اچانک مسجد کے صدر دروازے پر ایک شور سا اٹھا۔ رحمت علی نے گردن گھمائی تو دیکھا کہ چار پانچ خوش پوش اور مضبوط قدو قامت کے نوجوان قہقہے لگاتے ہوئے اندر داخل ہو رہے ہیں۔ مسجد کے احاطے میں آتے آتے ان کی آوازیں مدھم ہوکر سرگوشیوں میں کھو گئیں۔ لڑکوں نے واٹر فلٹر مشین سے بھر بھرگلاس پانی پیا اور طہارت خانے میں جا گھسے ۔ پھر کچھ دیر بعد وہ فلسفیانہ نگاہوں سے مسجد کے بے ترتیب مکینوں کو دیکھتے ہوئے بڑے دروازے کی طرف چل دیے۔
           رحمت علی نے اندازہ لگایا کہ وہ شاید دفتر کے ملازم تھے یا پھر مال اور دکانوں میں کام کرتے ہوں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سڑکوں پر دکانیں لگاتے ہوں۔ لیکن رمضان المبارک کے اس مقدس ماہ میں انھیں پانی پیتے دیکھ کر رحمت علی کو قطعی حیرت نہیں ہوئی۔ نہ اس وقت انھیں حیرت ہوئی تھی جب وہ ’وینکٹیش انّ بھنڈار‘ سے واپسی کرہے تھے اور پاس ہی کھانے کے معیاری ریستوران کے باہر رحمانیہ کالج کے چند طلبہ برگر، پیزا اور چاٹ جیسی کھانے کی مختلف چیزیں ہاتھوں میں لیے ادھم مستی مچا رہے تھے۔ بھلے ہی رحمت علی کو ان پر بھی حیرت نہ ہوئی ہو لیکن ان کی آنکھوں میں شرمندگی کا ایسا احساس تھا جو کسی لفظی تصویر میں نہ ڈھل سکے ۔
         عصر کے لئے موذّن نے صدا دی تو رحمت علی نے سر کا رومال ڈھیلا کیا اور وضو کے لیے حوض کی طرف بڑھے۔ نماز کے بعد انھوں نے ہمت جٹائی اور نہ چاہتے ہوئے مسجد کا صحن پار کیا۔
         باہر سورج مغربی ہو رہا تھا مگر آسمان پر ہلکی نیلی چادر ایسی صاف و شفاف تنی ہوئی تھی کہ جس پر بادل کا ایک دھبہ تک نہیں تھا۔سڑک کے دونوں کناروں پر سجی دکانوں پر آمد عید کی بہاریں، گویا کہ سیدھی اور ساکت کھڑی سڑک کو گدا گدا رہی تھیں۔
         رحمت علی نے اطراف کا سرسری جائزہ لیا اور جھک کر اپنے ٹھیلے کی دونوں مٹھیوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ پھر بسمہ اللہ پڑھی اور پورے بل سے اسے اوپر اٹھاکر کسی ستون کی طرح جم گئے۔ ان کے ہاتھوں کی نسیں تن کر پھڑ پھڑانے لگیں اور پورے جسم میں جیسے ایک ولولہ سا چھوٹ گیا۔ اگلے ہی لمحے چار کونٹل اناج سے لدا محمد علی روڈ کے ایک پچپن سالہ محنت کش حمال کا ٹھیلہ تیز رفتاری سے سڑک پر دوڑنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے بازار کی بے ہنگم بھیڑ میں گم ہو گیا۔
                             ختم شد۔۔۔۔۔۔۔