Sogandhi by MujahidSaleem
Articles
سوگندھی
مجاہد سلیم
Ishq Aur Siasat by Naeem Saleem
Articles
عشق اور سیاست
نعیم سلیم
Bhagmati by Imran Jameel
Articles
بَھاگ مَتی
عمران جمیل
Fareeb A Short Story by Mohammad Ansar
Articles
فریب
محمد انصر
میں مسجد کی سیڑھیوں سے نیچے اترہی رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھ کر کچھ ٹھٹک سا گیا۔وہ عورت یہ دیکھتے ہی میرے پاس آگئی اور اپنا ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہنے لگی ،میں بہت بھوکی ہوں۔میں نے اس کی باتیں بے دھیانی میں سنیں اور جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے یہ خیال آیا کہ سارے پیسے تو مسجد میں دے دیے ، میں نے کہا ..پیسے نہیں ہیں..یہ باتیں کہتے ہوئے میری نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں ،میں جب سے رکا تھااسے دیکھے جا رہا تھا،اس نے اس طرح دیکھنے پر فوراً کہا’میرے بیٹوں نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے‘میں نے جلدی سے کہا… اچھا… اچھا. .. اور پھر اپنی جیب دکھاتے ہوئے کہنے لگا کہ میرے پاس ایک بھی پیسہ نہیں ہے۔ لیکن اسے لگامیں بہانے کر رہا ہوں… وہ پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگی…. میں تھوڑی دیر رک کر اسے دیکھتا رہا کہ اس بوڑھی عورت کی شکل ہو بہو میری ماں کی طرح ہے۔اس عورت نے نہ جانے کیا سوچتے ہوئے میری طرف دوبارہ رخ کیااور پھر ہاتھ دراز کرتے ہوئے بولی.. میں رات سے بھوکی ہوں…. میں نے پھر کہا…. میرے پاس پیسے نہیں ہیں…. نہیں تو میں ضرور دیتا….وہ کسی دوسرے شخص کی طرف تیز قدموں سے بڑھنے لگی… . مجھے ایک عجیب سا خیال آیا کہ کیوں نہ اس کا پتہ پوچھ لوں…. اسے دیکھنے کے بعد ماں کے چہرے کا کچھ عکس دیکھ لیا کروں گا …. میں اس کی طرف بڑھا تو وہ رک گئی…. میں نے کہا…. آپ کہاں رہتی ہیں…. اس نے بغیر کچھ کہے گھور کر دیکھا.. ..تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہوں…. میں نے جلدی سے کہنا چاہا کہ آپ کی شکل میری ماں سے…. ابھی جملہ پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ غصے سے دیکھتے ہوئے تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی…. میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا ہے…. اور پھر گھر کی طرف بڑھنے لگا…. گھر سے مسجد دور ہونے کی وجہ سے تنہا چلنا مشکل ہو رہا تھا…. ابھی کچھ دور ہی چلا تھا کہ اس بوڑھی عورت کا چہرہ نظر کے سامنے گھومنے لگا ….اور میں سوچنے لگا.. ..میری ماں کے چہرے پر اتنی جھریاں نہیں تھیں ۔انہوں نے شروع میں کچھ پریشانیاں ضرور اٹھائی تھیں لیکن بعد کے دنوں میں ہم لوگوں نے انہیں خوب آرام دیا تھا…. اور ہاں…. اس بوڑھی عورت کے چہرے پر بے شمار جھریاں تھیں… اس کی پیشانی پر بل پڑتے پڑتے ایک نصف دائرہ سا بن گیا تھا.. ایسا لگ رہا ہے اس کے چہرے کی دونوں جانب نقش نگاری کی گئی ہو.. اس کی ٹھوڑی نیچے کی جانب لمبی نکلی ہوئی تھی.. شاید چمڑی لٹک گئی تھی اور پھر اس خیال پر بہت افسوس ہوا کہ میں اسے کچھ بھی نہ دے سکا.. ..تبھی پیچھے سے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ،میں نے چونک کر دیکھا تووہ میرا دوست شاداب تھا جس کی قصبے میں پرچون کی دوکان ہے،ابھی کچھ روز پہلے ہی اس کا دیپک سے جھگڑا ہو گیا تھا۔اس کی بھی پرچون کی ہی دوکان ہے چونکہ دیپک بھی میرا دوست ہے۔اس لیے بیچ بچائو کے لیے جانا ہوا تھا۔ شاداب مسکرا تے ہوئے کہنے لگا،کس خیال میں گم ہو دوست اور پھرکچھ گپ شپ کے بعد اپنی دوکان کی جانب جاتے ہوئے بولا… ارے بھئی…کیا بات ہے… آج کل داڑھی بہت لمبی ہو رہی ہے…ملا بن رہے ہو کیا،اور ہم دونوں نے ایک ساتھ ایک قہقہہ لگایا… میں دوکان سے کچھ دور نکلا ہی تھا کہ شور سنائی دیا،اور پھر کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ سامنے کی گلی سے وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے کے نعرے لگا تے ہوئے آرہے ہیں،میں نے سوچا کوئی حکومت کے خلاف مظاہرہ ہوگا۔لیکن ان کے نعروں اور اسلحوں نے مجھے خوف زدہ کر دیا اورمیں نے راستے سے ہٹ کر انھیں راستہ دینا چاہا، تبھی ایک آواز آئی…ارے! یہ ملا بھی ساداب کا مِتر ہے۔اتنا کہنا تھا کہ دو لوگ دوڑتے ہوئے آئے ۔ایک کم عمر لڑکے نے داڑھی پکڑتے ہوئے کہا….وند ے ماترم کہو…میں یکایک ایسے حادثے سے گھبرا گیا اور میری گھگھی بندھ گئی۔تبھی میرے منھ پہ دو گھونسے یہ کہتے ہوئے پڑے کہ ملّے، آتنک وادی وندے ماترم نہیں کہے گا۔میں نے خوف سے چلاتے ہوئے کہا…وندے ماترم…اور پھر ایک سانس میں کئی بار کہا….لیکن ایسا لگا انھیں کسی بھی بہانے سے مجھے پیٹنا منظور ہے۔دو تین لڑکوں نے موٹی گالیوں کے ساتھ اتنا مارا کی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا….اورپھر نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔تھوڑی دیر کے بعد ایسا لگا مجھے کوئی اٹھا رہا ہے،میں نے ڈرکر چیختے ہوئے کہا …. وندے ماترم…بھارت ماتا کی….ابھی جملہ ادھورا ہی تھا کہ کسی نے قدرے دھکا دیتے ہوئے زوردار طمانچہ مارااور کہا….ایمان فروش …وندے ماترم کہتا ہے۔میں ہکا بکا..آنکھیں مل کر دیکھنے لگا،تب تک پولس کی گا ڑیوں کی آوازیں سنائی دیں۔میں نے اپنے حواس درست کیے اور ایک گلی کی جانب بھاگا کہ مجھے گواہ کے طور پر تھانے جانا پڑسکتا ہے۔ اس گلی سے چلتا ہوا سبزی منڈی کی طرف مڑا ہی تھا کہ وہی بوڑھی عورت دکھائی دی۔ وہ پاگلوں کی طرح کوڑے دان میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔ اس نے مجھے دیکھا لیکن نظر انداز کر دیا اور اپنے کام میں لگی رہی۔ میں چند قدم کے فاصلے پر ٹھہر گیا اور اس دوران وہ کچھ تربوز کے ٹکڑوں کو لیکر آگے بڑھی، اس پر لگی گندگی کو اپنے کپڑوں سے صاف کیا اور جلدی جلدی کھانے لگی۔یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔دوڑکر اس کے پاس پہنچا ،سوچا اسے روکوں، لیکن وہ ہوں..ں..ں کہتے ہوئے کھڑی ہو گئی۔ میں نے کہا‘ میرا گھر یہاں سے کچھ فاصلے پر ہے،آپ میرے گھر چلیں میں پیٹ بھر کھانا کھلائوں گا ،لیکن اس نے چہرے کی چوٹ کو گھورکر دیکھا اور شیطان کی طرح کھانے لگی، میں نے قریب پہنچ کر کہا….آپ میری ماں…ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے غصے سے تربوز کے چھلکوں کو پھینکتے ہوئے کہا…تو میں کیا کروں؟ماں کہنے سے میرا پیٹ نہیں بھرتا،اس سے میرا کوئی فائدہ نہیں ہے اور خدا کے لیے..تم میرا پیچھا چھوڑ دو..تم سے ڈر لگ رہا ہے۔بوڑھیا کی باتوں سے چونک کر میں نے آس پاس کے ماحول پر نظر ڈالی تو سب کچھ پہلے جیسا تھا، ابھی بھی بوڑھیا بھوکی تھی یعنی ’وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جئے ‘کے نعروں سے میرے ملک کا کوئی فائدہ نہیں ہواتھا، بھارت ابھی بھی ترقی پذیر ملک تھا۔میں سوچ میں گم تھا کہ کسی آواز سے چونکا ‘اب بوڑھیا پیٹ دبائے رو رہی تھی، چہرہ آنسوئوں سے تر تھا اور درد کی شدت کی وجہ سے تمتما رہا تھا۔ مایوسی کے عالم میں اس کے چہرے کو دیکھا تو ایسا لگا کہ جھریاں کوئی نقش بنا رہی ہیں ،میں نے پاس جاکر غور سے دیکھا تو اس میں بھارت کا نقشہ نمایاں ہو رہا تھا۔
———————————–
Saleeb Par Latke Hue Log
Articles
صلیب پر لٹکے ہوئے لوگ
محمد فرقان سنبھلی
کیا یہی انصاف ہے اور انصاف کی مجھے امید بھی کیوں کرنی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔۔انصاف ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی کس سے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں غلطی تو میری ہی ہے ۔۔میں نے اپنے باپ دادا کا کہا نہ مانا ۔۔۔۔۔۔باپ دادا ہی کیوں ۔۔۔ان سے بھی عظیم ہستیوں کے قول پر توجہ نہیں دی ۔۔۔۔۔۔یہاں تک کہ اس عظیم دوست کی بات بھی نہیں سنی جو سب کچھ کرنے پر قادر ہے ۔ تو۔۔ ۔ ۔۔۔ پھر تو یہ ہونا ہی تھا ۔۔ لیکن کیا یہی میرا قصور ہے ؟
سوچتے سوچتے مسلم کا گلا رندھ گیا ۔۔۔۔اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں ۔تبھی دروازہ پر ہو ئی دستک نے اسے چونکا دیا۔
’’کون ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟تذبذب میں مبتلامسلم نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا کہ دروازہ پر علاقہ کا مشہور غنڈہ سیم کھڑا تھا ۔
’’یہ میرے دروازہ پر ۔۔۔۔۔۔۔یا خدا ۔۔۔رحم کر۔‘‘
مسلم دل ہی دل میں ہول رہا تھا کہ سیم نے اسے گھورتے ہوئے کہا:
’’کیااندر آنے کو نہیں کہوگے میاں؟‘‘
’’جی ۔۔۔۔جی ۔۔۔۔کیوں نہیں ۔۔تشریف لائیے۔‘‘مسلم نے اپنی بیٹھک کے اندر پڑے بوسید ہ سے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔سیم پہلے تو بوسیدہ صوفے پر بیٹھنے میں جھجھکا پھر کچھ سوچ کر بیٹھ گیا ۔
’’میں نے سنا ہے کہ تمہاری زمین کا جھگڑا چل رہا ہے ۔‘‘
’’اوہ۔۔۔۔تو یہ بات ہے ْ‘‘مسلم قدرے سنبھل کر بیٹھ گیا ۔ ’’اس جھگڑے کوشروع ہوئے تو زمانہ گزر گیا ۔۔۔۔۔کتنا خون بہہ چکا ۔۔اور آپ کو تو سب معلوم ہی ہوگا ۔‘‘
’’ہاں بھئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب یہ خون خرابہ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’جناب خون خرابہ تو آپ کا روز کا شغل ہے ۔ پھر آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم بڑے بے باک انداز میںگویا ہوا۔
’’مگر تمہارا شغل تو نہیں ہے ۔۔۔۔۔اور پھر مجھے تم سے ہمدردی بھی ہے ۔‘‘
مسلم کے چہرے پر زہریلی مسکراہٹ ابھر کر معدوم ہو گئی۔
’’اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم نے سوال کیا ۔
’’میں تم دونوں کے درمیان صلح کرا دیتا ہوں ۔‘‘
’’صلح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’ہاں تاکہ تم دونوں اچھے دوستوں کی طرح سکون سے زندگی گزار سکو۔‘‘
’’میں جانتا ہوں کہ آپ چاہیں گے تو مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل ہی آئے گا،لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا ؟‘‘سیم نے مسلم کے چہرے پر آنکھیں جما دیں ۔
’’بھروسہ تو ہو کہ انصاف ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم مجھ پر شک کر رہے ہو ۔‘‘سیم کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا ۔
مسلم نے سیم کے لا ل ہوتے چہرے کو دیکھ کر بات گھمانے کی کوشش کی ۔’’صلح کس شرط پر ہو گی ؟‘‘
’’شرط کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اگر تیار ہو جائو تو ہم تمھیں تمام دوسری سہولتیں بھی مہیا کرا ئیں گے ۔‘‘
’’کیسی سہولتیں؟‘‘مسلم نے حیرانی سے سیم کی طرف دیکھا ۔
’’جو تم چاہو‘‘سیم نے بائیں آنکھ دبا کر اوباش قسم کی ہنسی کے ساتھ کہا۔مسلم کو اس مخصوص اشارے سے گھبراہٹ محسوس ہوئی۔
’’ہم دونوں کے درمیان زمین تقسیم کیے دیتے ہیں کچھ حصہ پر تم قابض ہو جائو گے باقی اس کے پا س رہنے دینا ۔۔۔۔۔تم فکر نہ کرو اسے ہم تیار کر لیں گے۔ وہ ہماری بات نہیں ٹالے گا۔‘‘
’’اور ہماری قدیمی عبادت گاہ۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’تمہارے پا س تو نئی موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ توسراسر۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بدلے میں ہم تم کو دولت ، خوبصورت حوریں ، ہتھیار یا جو تم چاہو تمہیں دیں گے۔‘‘سیم کی فریبی چال اب مسلم کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔
’’لیکن یہ ہماری پشتینی زمین ہے جس پر وہ زبردستی قابض ہوئے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ اس کی بھی تو پشتینی زمین ہے کہ اس کے پاک صحیفے میں اس زمین کا ذکر ہے ۔‘‘
’’لیکن جغرافیائی اعتبار سے یہ زمین ہماری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو آپ بھی جانتے ہیں ۔‘‘
’’بھول جائو ان باتوں کو ۔۔۔۔ان باتوں میں اب کچھ نہیں رکھا ۔۔ماضی نہیں حال اور مستقبل کی فکر کرو۔‘‘سیم کی آواز تیز ہونے لگی تھی ۔ مسلم کے بھی دانت بھنچ گئے ۔
’’تو کیا میں ان خونریزیوں کو بھی بھول جائوں جن کے سبب میرے عزیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں تمہیں بھولنا ہوگا۔‘‘سیم جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا اور جاتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگا۔’’سنو!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم سوچ لو ۔ ۔۔۔۔۔ دو دن ۔۔۔۔چار دن ۔۔۔۔اس درمیان تمہارے گھروں پر آگ بھی نہیں برسے گی ۔۔۔۔۔۔اب یہ تمہارے فیصلے پر منحصر ہے کہ آگ برسنا ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے ۔ ‘‘
مسلم، سیم کی دھمکی سے سکتے کی حالت میں بیٹھا رہ گیا ۔ اس کا دماغ سن ہو چکا تھا ۔ سوچنے سمجھنے کی ساری طاقت جیسے مائوف ہو گئی تھی ۔ مسلم نے اہل خانہ کو جمع کرکے سیم کی تجویز اور دھمکی بیان کی تو نوجوانوں کا خون کھول اٹھا مگر بزرگوں نے معاملے کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔
مسلم کے بڑے بیٹے نے کہنا شروع کیا ۔ ’’یہ زمین محض پشتینی زمین ہی نہیں بلکہ عظیم تاریخ کا حصہ ہے ۔ ہمارے بزرگوں کی عظمتوں کی نشانی ہے ہم کسی بھی قیمت پر اس کا سودا نہیں کر سکتے ۔ ہماری لڑائی بر حق ہے اور یہ جاری رہے گی ۔ ‘‘
’’نہیں بڑے بھائی ۔۔۔۔۔بہت ہو چکا ۔۔۔۔۔۔۔کب تک ہم زمین کے اس ٹکڑے کو پاک بتا کر خون میں نہاتے رہیں گے ۔ اب اور نہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ خود ہمارے سامنے جھک کر آئے ہیں تو ہمیں بھی تقسیم کر لینی چاہیے۔ ہماری زندگیاں تو کٹ چکیں مگر ان نو نہالوں کو تو دیکھئے۔۔۔۔۔ان کے معصوم چہرے دہشت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ کب تک سہم سہم کر زندگی جینے کو مجبور رہیں گے ۔ ‘‘مسلم کے چھوٹے بیٹے کے ضبط کا باندھ ٹوٹ رہا تھا ۔ اس اختلاف پر مسلم چیخ اٹھا۔
فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔
’’ہماری صفوں میں اتحاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیے ہم آج مصیبتوں میں گھرے ہیں ۔ کاش کہ ہم متحد ہوتے !!!‘‘
’’اب منجھلے بیٹے نے باپ کو سمجھانے کی کوشش کی ۔ ’’ابا حضور ! اس وقت اگر تھوڑا حصہ لے کر اس پر قابض ہو جائیں تو بعد میں بقیہ زمین کی آزادی کے لیے بھی کوشش کر سکتے ہیں ۔ رہی بات معاہدہ کی ،وہ تو ہوتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں ۔‘‘ مسلم بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر بیٹے سننے کو تیارہی نہیں تھے ۔
آخر کار چھوٹے نے سیم سے مل کر معاہدہ کر لیا جس کا غم مسلم اور اہل خانہ مناتے ہی رہ گئے ۔ چھوٹا کامیابی کا جشن مناتا اپنی منکوحہ گوری چٹی میم کے ہمراہ مسلم کے سامنے پہنچا تو مسلم کو بہت افسوس ہوا ۔ وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا ۔ ’’افسوس کہ تم باطل کی فریبی چال نہ سمجھ سکے ۔ ‘‘
’’ہم مل کر باطل کو شکست دیں گے ابا حضور ۔‘‘ چھوٹے کی منکوحہ گولڈی نے پر عزم لہجے میں کہا۔
’’کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!‘‘مسلم نے ٹھنڈی آہ بھری ۔
شادی اور اقتدار کے سرور میں ڈوبے چھوٹے کو اچانک بقیہ زمین کو واپس حاصل کرنے کا مشن یاد آیا تو اس نے محاذ آرائی کا ارادہ گولڈی پر ظاہر کر دیا ۔ گولڈی سوچ میں ڈوب گئی اس نے چھوٹے کو اس کے مقصد سے غافل کرنے کی تمام تدبیریں کیں لیکن ناکام رہی ۔ وہ اسے سمجھا رہی تھی ۔ ’’تمہیں تمہارا حصہ تو مل چکا ہے پھر کیوں جھگڑا کرنا چاہتے ہو ۔ وہ تمہیں مار ڈالیں گے ۔ ‘‘
’’حصہ۔۔۔۔۔کون سا حصہ مل گیا؟۔۔۔۔۔سیم نے مکمل خود مختاری کا وعدہ کیا تھا۔کیا ایسا ہوا؟ ۔۔۔۔۔۔۔ہم اب بھی مجبور کے مجبور ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ جب چاہتے ہیں ہمیں اپنا شکار بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔ایسے میں ان کا مقابلہ تو کرنا ہی ہوگا ۔۔۔۔۔۔ہمیں اپنا حق چائیے۔ ‘‘چھوٹے کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر زبان سے بے حد مضبوطی کے ساتھ الفاظ ادا ہوئے تھے ۔
’’اف ! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے خواہ تم سب قتل کر دیے جائو۔‘‘گولڈی کے جملے نے چھوٹے کو آگ بگولا کر دیا ۔
’’ہاں ہاں !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتے ۔ ‘‘
گولڈی چھوٹے کی دہکتی آنکھیں دیکھ کر خوفزدہ تو ہوئی مگر ہمت کرکے اس نے آخری حربہ استعمال کر ہی لیا ۔ ’’کیا تمہاری نظر میں اس عظیم المرتبت شہید کی مثال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ،جوانسانی زندگیوں کے تحفظ کے لیے خود اپنے حق سے دست بردار ہو گئے تھے ۔‘‘
گولڈی کی بات پر چھوٹا جھنجھلا گیا ۔ ’’نہ جانے کیوں مجھے لگ رہا ہے کہ تم مجھے کمزور بنانے کی کوشش کر رہی ہو ۔ ‘‘چھوٹے کے لا شعور ی جملے سے گولڈی بری طرح بوکھلا گئی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو ۔
’’میں ۔۔۔۔نہیں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا میں کیوں ؟‘‘
چھوٹے نے مسلم کے سامنے پہنچ کر اپنے ارادے ظاہر کیے تو مسلم نے اسے گلے لگا لیا ۔ دونوں محاذ آرائی کے لیے حکمت عملی تیار کرنے میں منہمک ہو گئے ۔ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اچانک ان کے گھروں پر آگ کی بارش شروع ہو گئی ۔ اس اچانک حملے سے مسلم اور اہل خانہ حیران و پریشان ہو گئے ۔ مشورہ کے بعد طے کیا گیا کہ فی الحال مقابلہ کرتے ہویے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوا جائے اور جب طاقت بڑھ جائے تب واپس لوٹ کرمقابلہ کیا جائے۔ برستی آگ اور گھپ اندھیرے میں مسلم کا قافلہ اونچے اونچے عجوبہ روزگار مقبروںوالی بستی کی طرف نکل پڑا۔دشمن برابر ان کا تعاقب کر رہا تھا ۔ تاریک راہوں کو پار کرتے ہوئے ایک زور دار چیخ سن کر قافلہ ٹھٹھک گیا ۔
’’چھوٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘مسلم کی کانپتی آواز نے جیسے کافلہ پر بم پھوڑ دیا تھا ۔ مسلم نے چھوٹے کے جسم سے بہتے خون کو دیکھا اور اسے اپنے گھوڑے پر کھینچ لیا ۔
’’چلو تیزی سے چلو ۔۔۔۔دشمن قریب ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔وقت برباد نہ کرو ۔۔۔۔۔آگے بڑھو۔‘‘
مسلم نے قافلے کو آگے بڑھنے کی ہدایت کی ۔مسلم کی آواز گونجی تو سبھی نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگے ۔ دوڑتے دوڑتے اب وہ اس قدر دور نکل آئے تھے کہ دشمن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز اب انھیں سنائی نہی دے رہی تھی ۔ دشمن نے یا تو ان کا تعاقب کرنا چھوڑ دیا تھا یا پھر وہ بھٹک گئے تھے ۔ ممکن ہے کہ زمین پر دوبارہ قابض ہونے کے جشن میں ڈوب گئے ہوں ۔
مسلم نے آخری سانس لیتے چھوٹے کے بدبدانے کی آواز سنی۔’’گو۔۔۔۔۔۔۔۔لڈ۔۔۔۔۔۔۔ی۔۔۔۔۔۔‘‘
تب مسلم نے قافلے کی طرف نگاہ دوڑائی ۔ اسے گولڈی کہیں دکھائی نہیں دی ۔ تو کیا وہ رات کی تاریکی میں ان سے الگ ہو گئی تھی ۔ کہیں وہ کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی جشن میں شریک ہونے تو نہیں چلی گئی ؟مسلم کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ بیٹے کو کیا جواب دے ۔ اسے یاد آرہا تھا کہ اس نے چھوٹے کو کتنا سمجھایا تھا کہ وہ دشمن کی چال میں نہ پھنسے ۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر اب کیا ہو سکتا تھا ۔
فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔
قافلہ اب ایک پہاڑی پر پہنچ چکا تھا ۔ مسلم کے حکم پر یہیں خیمے نصب کر دیے گئے ۔ چھوٹے کی ہلاکت نے قافلے کو غم و غصے میں مبتلا کردیا تھا ۔ ان کی زمین ان سے چھینی جا چکی تھی ۔ انھیں بے گھر کیا جا چکا تھا ۔ یہاں تک کہ ان کے عزیزوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی ۔ مسلم نے اہل خانہ کو رات کی تاریکی میں قندیلیں روشن کرتے دیکھا ۔ مسلم کو لگا کہ انھیں ابھی شکست نہیں ہوئی ہے ۔ قندیل کی روشنی میں اہل خانہ کے چہرے دمک رہے تھے ۔ اسے بڑی تقویت حاصل ہوئی ۔
مسلم نے ان کے درمیان پہنچ کر مشورہ طلب کیا کہ اب آگے کیا کرنا چاہیے ۔ دشمن نے ان کی صفوں میں اختلاف پیدا کیا اور اس کا حشر سامنے تھا ۔ سیم کی غنڈہ گردی اور دشمن کی قبضے سے زمین کی آزادی کے لیے ، کیا حکمت عملی تیار کی جائے ۔وہ مسلسل غور و فکر کر رہے تھے لیکن ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا ۔ تبھی سہمے ہوئے نو نہالوں کے گروہ سے مسلم کے پوتے نے کھڑے ہو کر کہنا شروع کیا ۔
’’وہ زمین ہمارا پشتینی حق ہے ہم نے اس کے لیے بڑی قربانیاں پیش کی ہیں اور ہم اب بھی اس کے لیے ہر قربانی پیش کرنے کو تیار ہیں ۔ ‘‘
فرقان سنبھلی کا یہ افسانہ آپ اردو چینل ڈاٹ اِن پر پڑھ رہے ہیں۔
’’تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم تیار ہیں ۔‘‘تمام نو نہال ایک سر میں نعرے لگا رہے تھے دیکھتے دیکھتے سارا قافلہ ایک آواز میں بول اٹھا ۔ مسلم نے حکم دیا۔
’’ٹھیک ہے تو ہم واپس اپنی مٹی پر لوٹیں گے جہاں ہم پیدا ہوئے اور ہم ہی کیا ہمارے باپ دادا بھی وہیں پیدا ہوئے تھے۔‘‘قافلہ واپس لوٹ رہا تھا اور مسلم سوچ رہا تھا ۔ ’’تو دنیا گول ہے اور شاید ابھی تک ہم اس کے پیرا میٹر پر ہی رقص کر رہے ہیں لیکن ایک دن آئے گا جب کشش ثقل کی قوت ہمیں مرکز میں لے کر آئے گی ۔ اور وہ دن ضرورآئے گا۔‘‘
Majzoob A Short Story by Mubeen Nazeer
Articles
مجذوب
مبین نذیر
Murcha A short Story by Mushtaq A Mushtaq
Articles
مورچہ
مشتاق احمد مشتاق
AinoN Bhara Kamra A Short Stories by Afzal Ansari
Articles
آئینوں بھرا کمرہ
افضال انصاری
Volcano A Short Story by Dr. Qamar Saleem
Articles
آتش فشاں
محمد قمر سلیم
راعین پہلی ایسی آئی اے ایس آفیسر تھی جو اتنی کم عمر میں ملک کے چیف سکریٹری ہوم کے عہدے پر فائز تھی ۔ اس نے ۲۲ سال کی عمر میں آئی اے ایس کا امتحان ٹاپ کیا تھا۔راعین چار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے سب کی چہیتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ سب پر اس کا خوب رعب چلتا تھا۔ وہ بہت بولڈ آفیسر تھی۔اس کی شبیہ ایک ایمان دار بیوروکریٹ کی تھی۔کسی بھی غلط کام کو اس نے منظوری نہیں دی اسی لیے اس کے ہم منصبوں کے ساتھ ساتھ حکومت بھی بہت محتاط رہتی تھی۔ راعین کی شخصیت ایسی تھی کہ ملک کا ہر سیاست داں اورحکومت کے وزراء اور اہم اعلیٰ عہدے داران سب ہی اس پر بہت بھروسہ کرتے تھے۔اس نے اپنی ذہانت کی بنا پرنہ جانے کتنے مواقعوں پر ملک اور قوم کو خطروں سے باہر نکالا تھا ۔ادھر کچھ مہینوں سے وہ بہت پریشان تھی کیوں کہ نئی حکومت جب سے آئی تھی اسے ہو م سکریٹری کے عہدے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن ڈرتی بھی تھی کہ اپوزیشن اور عوام حکومت کو چین سے نہیں رہنے دیں گے اس لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہی تھی۔
راعین جب سے ہوم سکریٹری بنی تھی اذلان اس کے ڈرائیور کے فرائض انجام دے رہا تھا۔حکومت نے اذلان کا بھی ٹرانسفر کرنا چاہا جسے راعین نے رکوا دیا اور یہ کہہ کر قصّہ ختم کیا جب تک وہ ہوم ڈپارٹمنٹ میں ہے، اذلان ہی اس کا ڈرائیور رہے گا۔اذلان راعین کا بہت خیال رکھتا تھا۔ ایک دن راعین نے اس سے اس کے بارے میں پوچھنے کی کوشش بھی کی تو اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ سوپور کا رہنے والا ہے۔ اب دلی میں شفٹ ہو گیا ہے اور ایشور نگر میں رہتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن مائرہ بھی ہے جو کالج میں پڑھتی ہے اور وہیں ہاسٹل میں رہتی ہے۔ راعین اکثراذلان کے بارے میں سوچا کرتی تھی کہ وہ اتنا اداس کیوں رہتا ہے؟اذلان کتنا ہینڈسم ہے، کتنی اچھی انگلش بولتا ہے ، کتنا اچھا اس کا برتائو ہے ، پڑھا لکھا لگتا ہے پھر بھی وہ ڈرائیور کی نوکری کر رہا ہے؟نہ جانے کیوں، راعین کو اس کی آنکھوں سے درد جھلکتا سا نظر آتا تھا۔ کچھ تو ہے جس کو وہ چھپا رہا ہے۔کچھ تو ہے جسے وہ کہنا چاہتا ہے لیکن کہہ نہیں پا ر ہا ہے اس نے کئی بار پوچھنے کی کوشش کی لیکن اذلان زیادہ تر خاموش ہی رہا ۔ وہ جتنا اس کے بارے میں سوچتی اتنا ہی اذلان اس کے وجود پر طاری ہو تا جا رہا تھا ۔ وہ کوشش کے باوجود اپنے آپ کو اذلان سے الگ نہیں کر پا رہی تھی۔ دھیرے دھیرے راعین اذلان کی طرف کھنچنے لگی۔ ایک انجانا سا خوف اس کو ستانے لگا کیوں کہ اس کے دل میں اذلان کے لیے ایک خاص مقام پیدا ہو گیا تھا۔ وہ اذلان کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہے۔ اس کا جواب اس کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ اپنی یکطرفہ دیوانگی کو کیا نام دے۔ کیا اس کے دل کے کسی گوشے میں محبت کا چراغ روشن ہے؟وہ اپنے ہی ڈپارٹمینٹ کے ادنیٰ سے ڈرائیور سے محبت کیسے کر سکتی ہے۔دنیا ، حکومت اور ملک کے عوام اس کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ مگر اس نے کبھی بھی اپنے فرائض سے کوتاہی تو نہیں کی ہے ۔ اس نے کبھی بھی حکومت کو اور عوام کو مایوس نہیں کیا ہے ۔ کیا اس کا یہ قدم سب کے لیے باعث شرم ہوگا ۔۔۔ مگر یہ تو اس کا ذاتی معاملہ ہے ۔ تو کیا ہوا دنیا بھر کی نظریں تو اس کے اوپر ٹکی ہوئی ہیں۔ دنیا اسے اس کے ذاتی معاملے کے طور پر تو نہیں دیکھے گی ۔وہ عجب کشمکش میں تھی۔ وہ اپنے آپ بڑ بڑانے لگی ’مگر میں بھی تو انسان ہوں، کیا میرے جذبات نہیں ہیں ؟ کیا میرے سینے میں دل نہیں دھڑکتا؟ اور نہ جانے ایسے ہی کتنے سوالات اس کے ذہن میں ابھرتے رہے ۔ اس نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دے دی، راعین! ہر سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ وہ تو صرف اتنا جانتی تھی کہ وہ بھی ایک عورت ہے جس کے سینے میں ایک حسّاس دل دھڑکتا ہے اور ہر عورت کی طرح اسے بھی اپنے جذبات کی عکاسی کرنے کا حق ہے ۔ یہی سوچ کر اس نے سوچا اسے اذلان سے اپنی خواہش کا اظہار کر دینا چاہیے۔ لیکن کیسے ؟ ایک دن جب وہ گھر واپس جا رہی تھی ، اچانک اس نے اذلان سے کہا ، ’ اذلان ذرا کار روکیے۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے کے ساتھ کار روک دی ۔ کار رکتے ہی راعین آگے کی سیٹ پر آکر بیٹھ گئی۔ اذلان کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقہ تھا ۔راعین کے بیٹھنے کے بعد اذلان نے کار کو پھر سڑک پر دوڑانا شروع کر دیا۔ راعین نے اس سے کچھ کہنا چاہا لیکن اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی ۔ وہ اذلان سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی ۔ اس کا گھر آگیا تھا۔ وہ اذلان کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی کار سے اتر گئی اور کار اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
تین دن ہو چکے تھے اسے آگے کی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے لیکن وہ اپنے دل کی بات اذلان سے نہیں کہہ سکی تھی ۔ آج وہ کچھ سوچ کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے جا ہی رہی تھی کہ اذلان نے اس سے کہا ، ’میڈم !کیا بات ہے آج آگے نہیں بیٹھیں گی۔‘ اسے جیسے کرنٹ لگا ہو اور وہ کچھ کہے بنا آگے جاکر بیٹھ گئی لیکن پھر وہی خاموشی۔اس نے ایک بار پھر اذلان کی ذاتی زندگی کے بارے میں پوچھنا
شروع کر دیا ۔ ـ’ ارے اذلان آپ اپنی بہن کو ہمارے گھر لے کر آیئے ‘ ’ جی میڈم ! ‘ اس کا مختصر سا جواب تھا۔’ اذلان آپ کی بہن کیا کر رہی ہے ؟ ‘ جی! وہ ڈینٹسٹ کا کورس کر رہی ہے۔ ‘ ’ ارے واہ ! بہت اچھا کیا جو اس کو آپ لوگ ڈینٹسٹ بنا رہے ہیں۔ یہ کتنی خوش آئند بات ہے کہ آج ہم مسلم لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔‘ کچھ دیر بعد اس نے اذلان کو مخاطب ہو کر پوچھا ، ’اذلان ! آپ اگر برا نہیں مانے تو پوچھ سکتی ہوں کہ آپ نے اعلیٰ تعلیم کیوں حاصل نہیں کی۔ ‘ اذلان نے ایک جھٹکے سے گاڑی روک دی شکر تھا کہ آگے پیچھے کوئی گاڑی نہیں تھی حالانکہ اذلان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اذلان بولا، ’ نہیں میڈم ! ایسا نہیں ہے ۔ ‘ اور پھر اتنا کہہ کر اذلان تو جیسے پھٹ پڑا تھا۔ ’ میڈم! آپ اونچے عہدے پر بیٹھے لوگ کیا جانیں گے کشمیریوں کے بارے میں۔‘ اس نے بہت طنزیہ لہجے میں کہا، ’ کشمیری تو صرف دہشت گرد بن سکتا ہے ، اسے کیا لینا دینا پڑھائی سے ۔ آپ اعلیٰ تعلیم کی بات کر رہی ہیں ،۔کچھ وقفے کے بعد اذلان رندھی ہوئی آواز میں بولا، ’ کشمیر کا ہر بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ ہر کشمیری طالب علم کچھ بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ہر کشمیری نوجوان ملک کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے۔میں جو بننا چاہتا تھا وہ نہیں بن سکا ، کیا ملا مجھے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے۔‘
اس کی عجیب کیفیت تھی ۔کچھ توقف کے بعد اس نے پھر کہنا شروع کیا ، ’ میڈم ! میں کشمیری ہوں اور ایک کشمیری کا درد صرف ایک عام کشمیری سمجھ سکتا ہے ، یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز کشمیری بھی نہیں اور مرکز کی بات کرنا تو فضول ہے ۔ کون سے ماں باپ ہیں جو چاہیں گے کہ ان کا بچہ بڑا ہوکر بندوق ہاتھ میں اٹھائے؟ کون سی ماں چاہے گی کہ اس کی کوکھ سونی ہو؟کس باپ نے خواب نہیں دیکھے؟ہمارا قصور یہ ہے کہ ہمارے دل ہندوستان کے لیے دھڑکتے ہیں۔’سارے جہاں سا اچھا ہندوستاں ہمارا ‘ ہم کہتے نہیں تھکتے۔ اور ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم آزاد کشمیر بنا نہیں سکتے ، پاکستان کے ساتھ جا نہیں سکتے، اور ہندوستان ہمیں اپنانا نہیں چاہتا ۔ ہم کریں تو کیا کریں؟ ہمارے بچے پڑھنا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاتھوں میں کتابوں کی جگہ پتھر پکڑا دئے گئے سیاہی کی جگہ خون سے ان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ ان کے خواب ریت کے ٹیلوں کی طرح ہیں کہ کب طوفان آئے اور ان کے خوابوں کو چکنا چور کرکے چلا جائے۔ اب تو ہر کوکھ سوکھ گئی ہے اور پھر کوئی کیوں اپنی کوکھ ہری کرے ،کیا اس لیے کہ اس میں دہشت گرد بسیرا کرے ۔ بچے کا وہ حسین احساس ہر کشمیری عورت کے لیے خواب بن کر رہ گیاہے کیوں کہ وہ حقیقت بننے سے پہلے ہی چکنا چور ہوجاتا ہے۔ کشمیر کا کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں ماتم نہ ہوتا ہو، جہاں کوکھ سونی نہ ہوئی ہو۔وہاں ہر ماں روتی ہے، ہر باپ تڑپتا ہے، ہر بیٹی سسکتی ہے اور ہر بیٹے کا خون کھولتا ہے۔ ہر کشمیری ا من چاہتا ہے ، کشمیر کی ترقّی چاہتا ہے لیکن یہ سیاست داں پاکستان کا بہانہ لیکر کشمیریوں کو غلام بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کشمیریوں کے کاروبار تباہ کر رہے ہیں ۔کشمیر ی سیاحت ختم کی جا رہی ہے۔ کشمیری بے روزگار ہو رہے ہیں۔کیا پھربھی کشمیری تشدد اپنائے گا ۔ ارے اس کے تو دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ صبح کھاتا ہے تو شام کی فکر ستانے لگتی ہے۔ وہ تشدد کیوں کر کرے گا؟کیا ہر ماں بچے کو اسی لیے جنم دے رہی ہے کہ اسے تشدد کی نظر کر دے ۔ نہیں یہ صرف سیاست کا کھیل ہے جس میں عام کشمیری مارا جا رہا ہے ۔ سیاست داں نہیں چاہتے کہ کشمیر کا کوئی حل نکلے کیوں کہ جس دن کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا اس دن ان سیاست دانوں کی دوکانیں بند ہو جائیں گی ۔ ان سیاست داں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو تو صرف اقتدار چاہیے ہے ، سیاست کرنا ہے چاہے وہ انسانی لاشوں پر ہی کیوں نہ ہو۔ ان کے بچے نہیں مرتے ہیں۔ ان کے یہاں کوکھ سونی نہیں ہوتی، ان کے گھر نہیں اجڑتے ہیں ، ان کے خواب چکنا چور نہیں ہوتے ہیں، ان کے یہاں ماتم نہیں ہوتا ہے، ان کے بچوں کو پتھر نہیں ملتے، کتابیں ملتی ہیں کتابیں۔۔۔یہ کیا جانے درد کیا ہوتا ہے؟ یہ کیا جانے موت کیا ہوتی ہے؟ یہ دلوں کی تڑپ کیا جانے؟ یہ تو سب بیوپاری ہیں بیوپاری۔۔۔لاشوں کے بیوپاری ، جذبات کے بیوپاری، دلوں کے بیوپاری۔۔۔یہ کیا جانے دہشت کیا ہوتی ہے ؟گولی کی آواز اور دردناک چیخ کی آواز میں کیا فرق ہوتا ہے؟ پیلٹ گن سے ان کے بچے اندھے نہیں ہوتے ، ان کی اور ان کے اہل ِ خانہ کی زندگیاں برباد نہیں ہوتیں۔آپ کو کیا معلوم ہر ماں راستے میں نگاہیں بچھائے بیٹھی رہتی ہے ، وہ جب تک دروازے سے نہیں ہٹتی جب تک اس کا لال گھر نہ آجائے اور پھر وہ شکرانۂ رب بجا لاتی ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کا لال خود واپس آئے گا، یا چار کاندھوں پر سوار ہو کر آئے گا یا پھراس کے لا پتا ہونے کی خبر آئے گی اور پھر اس کا انتظار کرتے کرتے اس کی آنکھیں پتھرا جائیں گی۔یا پھر اس کے بیٹے کی لاش آئے گی اور پھر اس کے احتجاج میںاور لاشیں بچھ جائیں گی اور پھر نہ جانے کتنی گودیں سونی ہوجائیں گی۔کوئی نہیں سمجھ سکتا کشمیری کا درد کوئی نہیں۔ ۔۔کوئی ہمارے بارے میں کچھ نہیں سوچتا ۔نہ ہماری ریاست کے لوگ اور نہ ہمارے ملک کے لوگ ۔ ہمیں تو سب نے زخم دیے ہیں۔کیا ہمارے ہندوستانی آقا اورکیا ہمارے نام نہاد پاکستانی آقا ۔اور کیا دیا ہے ہندوستانی مسلمانوں نے ہمیں؟ ہم اپنی جنگ خود ہی لڑ رہیں ہیں۔ ۲۰۔۲۵ کروڑ کی آبادی نے کب ہمارے لیے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ہم سے صرف اتنی محبت ہے کہ کبھی کبھار کسی اخبار میں ہم سے ہمدردی کا اظہار کر دیا جاتا ہے ۔ یہی ہمارا وجود ہے، یہی ہماری داستان ہے۔‘
’ہاں میڈم ! آپ نے پوچھا تھا کہ میں کیوں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکا؟ میری بھی دنیا تھی میرے بھی حسین خواب تھے ایک جھٹکے میں سب چکنا چور ہوگئے۔میرے والد کشمیر کے بڑے بزنس مین تھے ۔ میں بھی آئی اے ایس آفیسر بننا چاہتا تھا۔ میرے والدین نے ہم سب بہن بھائیوں کو اچھے اسکول میں پڑھایا تھا۔ یہ اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے ۔میں انٹر پاس کرکے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا ساتھ ہی آئی اے ایس کی تیاری بھی چل رہی تھی۔ میرے چھوٹے بھائی روحان نے دسویں پاس کی تھی اور میری بہن زائرہ انٹر میں تھی وہ میڈیکل میں جانا چاہتی تھی ۔ مائرہ جو میرے ساتھ رہتی ہے نویں میں تھی ۔ تبھی دہشت گرد میری بہن زائرہ کو اٹھا کر لے گئے۔ زائرہ اور روحان بہت چیخے چلّائے لیکن گولیوںکی آوازوں کے بیچ ان کی چیخ پکار بے معنی تھی۔ روحان کسی طرح ان کے ٹرک میں چھپ کر بیٹھ گیا تھا۔ ان کا کچھ پتہ نہیں چلا ۔ہم نے سارے جتن کرلیے۔پولس ، منسٹر، نیتاکسی کو نہیں چھوڑا۔ اپنے بچوں کو واپس لانے کے لیے میرے باپ نے سب کے آگے ہاتھ جوڑے۔وہ دن ہمارے گھر قیامتِ صغرا لیکر آیا تھا۔ گھر ماتم کدہ بن گیا۔ چولھے بجھ گئے تھے ، سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا۔ زندگی ہم سے روٹھ گئی تھی ۔۔۔ما ں باپ کے آنسوئو ں کے بیچ لوگوں کی جھوٹی ہمدردیاں، فریبی وعدے۔ روتے رو تے ما ں کی آنکھوں کا پانی سوکھ گیا تھا۔ بابا کا سینا دھونکنی بنا ہوا تھا۔ مائرہ حیرانی کی مجسم تصویر تھی۔میں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر بس چکر کاٹ رہا تھا۔ہمارے ہنستے کھیلتے گھر کو نظر لگ گئی تھی ۔ میرے بابا کا بڑے بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا تھا ۔انھوں نے زمین آسمان ایک کر دیا مگر ان کے بچوں کا کچھ پتا نہیں چلا۔
تقریباً ۱۵ دن بعد ایک شام جے کے ایس اے کی گاڑی ہمارے گھر کے سامنے آکر رکی۔ انھوں روحان کی لاش کو باہر نکالا اور زائرہ، جو ایک سفید چادر میں لپٹی ہوئی تھی ، کو گاڑی سے اتارا۔ جے کے ایس اے کے جوانوں اور آفیسر ز نے مجھے اور میرے بابا کو دلاسا دیا اور کہا ، ’ ہماری اسپیشل ٹیم نے آپ کی بیٹی اور بیٹے کو بچانے کی پوری کوشش کی لیکن ہم آپ کے بیٹے کو نہیں بچا سکے ۔ زائرہ نے آفیسرز اور جوانوں کی طرف اشارہ کرکے کچھ کہنا چاہا لیکن ناکام رہی۔ ایک جمِ غفیر امنڈ پڑا تھا ہمارے گھر پر ۔ہزاروں لوگوں نے روحان کی تدفین میں حصّہ لیا تھا۔ گھر میں قبرستان جیسی خاموشی تھی۔ زائرہ نے بسترِ مرگ پکڑ لیا تھا۔امی بابا غم سے نڈھال تھے ،میں بھی ٹوٹ چکا تھا، ‘ اس کی آواز رندھ گئی تھی ۔ اس کا چہرہ تمتما رہا تھا اور وہ غصے سے پاگل ہو ئے جا رہا تھا۔راعین کا ہاتھ غیر ارادی طور پر اس کے ہاتھ پر چلا گیا تھا اذلان کی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں کے چند قطرے اس کے ہاتھ پر گرے۔ راعین نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اذلان کو تسلی دی ۔ اذلان آگے کچھ کہنے والا تھا کہ راعین کا گھر آگیا۔اس نے سوچا کا ر کا رخ مڑوا دے لیکن کار اس کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ وہ کار سے اترکر لاچار و مجبوری کی تصویر بنی کھڑی تھی ۔
وہ رات بھر سو نہیں سکی تھی نہ ہی اس نے رات میں کھانا ٹھیک طرح سے کھایا تھا وہ تو فقط اذلان کے خیالوں میں ہی گم تھی، اس کے بارے میں ہی سوچے جارہی تھی۔اس نے سچ ہی تو کہا تھا کہ کشمیریوں کے لیے کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے ۔ صرف ان کو بہکے ہوئے نوجوان کہہ کر سب اپنا پلّہ جھاڑ لیتے ہیں۔ کتنی سچائی تھی اذلان کی باتوں میں ، کتنا درد چھپا تھا اس کے سینے میں۔ اتنے اونچے عہدے پر فائز ہونے کے بعد بھی وہ بھی توکشمیریوں کے لیے کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔اسی ادھیڑ بن میں نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن یقیناً وہ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں سوئی تھی۔ صبح نو بجے اذلان کا ر لیکر آ گیا تھا۔ پی ایم او سے ایک اہم کال آئی تھی اس لیے اس نے اذلان سے پی ایم او آفس چلنے کے لیے کہا تھا۔ وہ دونوں راستے بھر خاموش رہے۔ پی ایم او آفس میں اس نے پرائم منسٹر کے سکریٹری سے کچھ ضروری باتیں کی ۔دس منٹ بعد وہ وہاں سے نکلی لیکن کچھ پریشان سی تھی پی ایم او سے وہ سیدھی اپنے آفس آئی اور اب وہ اترپردیش کے تین دن کے دورے پر جارہی تھی۔ دوپہر میں اس کی ماں کا فون آیا تھا۔وہ اپنی ماں کو ’ آپا ‘ کہہ کر بلاتی تھی ۔ ’ جی آپا! بولیے ۔‘ ہاں بیٹا ، ارے بیٹا میں نے تجھے بتایا تھا نا رشتے کے بارے میں ۔وہ تیرے پاپا پوچھ رہے تھے۔‘ اس نے ماں سے بہت ہی جھنجھلا کر کہا تھا ’ ارے آپا! ایسی کیا جلدی ہے۔ ابھی تو میں لکھنئو جارہی ہوں وہاں سے آکر بات کرتی ہوں۔‘ ’اچھا‘ کہہ کر اس کی ماں نے فون رکھ دیا ۔ راعین کافی پریشان تھی کیوں کہ یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات ہوگئے تھے جس میں کافی جانی مالی نقصان ہوا تھا۔حکومت کسی بھی قیمت پر
نہیں چاہتی تھی کہ صحیح بات میڈیا کے سامنے آئے اسی لیے راعین کو لکھنٔو میں پڑائو ڈالنا ہی تھا۔ حکومت کو یقین تھا کہ وہ معاملے کو سنبھال لے گی۔ اور ہوا بھی ایسا ہی ۔ وہ حالات کو معمول پر لانے کے بعد دلی واپس آگئی تھی ۔ صبح جب وہ گھر سے نکل رہی تھی اس کی ماں نے وہی راگ الاپا اس کی شادی کا۔
و ہ شام کو گھر آنے کے بعد وہ اپنی ماں کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھومنے لگی ۔ ماں نے اس سے کہا، ’ پہلے مجھے بتا تیرا کیا ارادہ ہے مجھے تیرے پاپا کو جواب دینا ہے۔‘ ’ ہاں، آپا! مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے۔‘ پھر اس نے اپنی خواہش کا اظہار اپنی ماں سے کر دیا۔ ’بیٹا! اپنے پاپا اور بھائیوں کے سامنے یہ بات اپنی زبان پر بھی مت لانا، تیرے پاپا اور بھائی کبھی راضی نہیں ہوں گے، نہیں بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا‘ اس نے زور دیتے ہوئے کہا۔ ’آپا ! کیوں نہیں ہو سکتا ۔ آپا میں کہیں اور شادی نہیں کروں گی ۔کوئی کچھ سوچے کوئی کچھ سمجھے میں صرف اذلان سے ہی شادی کروں گی۔‘ ’بیٹا یہ کیسی ضد ہے۔‘ ’ نہیں ! آپا، یہ ضد نہیں ہے ۔ میں اذلان کے ساتھ ہی خوش رہ سکتی ہوں۔‘ ’لیکن بیٹا! دنیا جہان کیا کہے گا۔ تیرے پاپا بھائی کسی کو منھ دکھانے لایق نہیں رہیں گے اور پھر لوگ تیرے بارے میں کیسی کیسی باتیں کریں گے۔ تیری ساکھ پے کتنا اثر پڑے گا۔ ‘
دھیرے دھیرے راعین نے اذلان کے دل میں جگہ بنا لی اور اب اذلان بھی راعین کی طرف راغب ہو رہا تھا ۔ راعین کے ارادے اب اور بھی مظبوط ہوگئے تھے ۔ اس نے اذلان کو شادی کے لیے بھی تیار کر لیا تھا ۔ اس نے اپنے پاپا اور بھائیوںکو بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن سب بے سود لیکن راعین اپنے ارادے سے ٹس سے مس نہیں ہوئی اور ایک دن اذلان اور راعین نے کورٹ میرج کرلی۔ ان کی شادی ہوتے ہی اس کے والدین اور بھائیوں نے اس کا سرکاری بنگلہ چھوڑ دیا تھا اور وہ اپنے آبائی مکان میں واپس چلے گئے تھے ۔ ادھر حکومت نے اذلان کا ٹرانسفر ہوم سے سوشل ویلفیر ڈپارٹمنٹ میں کر دیا تھا۔
اس شادی کی وجہ سے اس کی زندگی میں بحران پیدا ہو گیا تھا ۔ اس کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ آفس کی زندگی میں بھی ہلچل مچ گئی تھی۔نئی حکومت پہلے ہی سے اس کے اوپر اعتبار نہیں کر رہی تھی یہ سنہرا موقع اس کے ہاتھ آگیا تھا۔اب حکومت کے احکامات اس تک نہیں آتے تھے ۔ ایک طرح سے سارا کام کاج اس کا ڈپٹی سنبھال رہا تھا۔ہے۔ حکمران پارٹی کی طرف سے اس پر تنقیدیں بھی بہت ہو رہی تھیں۔گھر والے بھی اس سے خفا تھے ۔ اس گھڑی میں اگر کوئی اس کے ساتھ تھا تو اذلان اور اس کی ماں۔ ۔تبھی فون کی گھنٹی بجی ۔ اس کی ماں کا فون تھا۔ ’ جی آپا! ‘ بیٹا تو فکر نہ کر سب اچھا ہو جائے گا ۔ میں تیرے پاپا اور بھائیوں کو منا لوں گی ۔بیٹا ویسے تجھے سب مس کرتے ہیں ۔ بیٹا تو اپنا خیال رکھنا۔ تیری بہت یاد آرہی ہے۔‘ وہ خاموشی سے سنتی رہی ، اس کی ماں رورہی تھی۔پھر وہ اپنی ماں کے بارے میں سوچنے لگی۔ کتنے دکھ اٹھائے ہیں میری ماں نے۔ میری خاطر اسنے اپنی پوری جوانی دائو پر لگا دی۔اس کی سب خواہشات، تمنائیں ، خاک میں مل گئیں ، اس کا ہر خواب چکنا چور ہوگیا۔ جوانی میں اس پر بڑھاپا آگیا۔ کیا نہیں کیا اس نے میرے لیے۔ میں تو بچپن سے ہی بیماررہتی تھی اور بیماری بھی ایسی جو زندگی بھر کا روگ تھی، روزانہ ہی تو کم سے کم ہر تین گھنٹے بعد میری تھریپی ہوتی تھی۔ڈاکٹرس بھی تو پر امید نہیں تھے ۔ وہ تو میری ماں کی انتھک محنت تھی جس کی وجہ سے آج میں یہا ں ہوں۔مجھے نہیں یاد ہے کہ میری ماں کبھی بھی تین گھنٹے سے زیادہ سوئی ہو۔اس نے میری نوکری لگنے کے بعد ہی تو سروس چھوڑی تھی۔صبح سے لیکر رات تک سب کے کام کرنا ۔ پورے ۲۴ گھنٹوں میں کم سے کم چھ مرتبہ میریی تھیریپی کرنا ۔اور رات میں سب کے سونے کے بعد میری تھریپی کرکے پھر سونا۔ اور وہ بھی جب کہ مجھے جنم دینے والی ماں تو مجھے دو سال کا ہی چھوڑ کر چلی گئی تھی ۔ مجھے زندگی کے اصل معنی تو میری آپا نے بتائے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتاکیوں لوگ ماں کو سوتیلا اور حقیقی کے نام دیتے ہیں ، کیوں ماں کے ساتھ سابقے اور لاحقے لگائے جاتے ہیں۔ ماں تو ماں ہوتی، صرف ماں۔ اس کے منھ سے ایکدم نکلا، ’اے اللّہ! تو سب کو میری ماں جیسی ماں دینا۔‘
وہ اپنے پاپا کو بہت چاہتی تھی ۔ اس کے پاپا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ وہ روشن خیال ، سلجھے ہوئے ذہن کے مالک تھے ۔ ہر چھوٹے بڑے سے بہت محبت کرتے تھے ۔ امیر غریب میں کبھی فرق نہیں کرتے تھے ۔ ان کے نذدیک سب برابر تھے۔
وہ تو کہتے ہیں چھوٹے لوگ بہت حساس ہوتے ہیں ان کی دلشکنی نہیں کرنا چاہیے اسی لیے اسے سب سے زیادہ دکھ اپنے پاپا کے رویّے سے ہوا تھا۔ اس نے تو سوچا تھا کہ جب وہ اذلان سے شادی کی بات کہے گی تو اس کے پاپا اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ازلان گہری نیند سو رہاتھا۔ راعین خود سے باتیں کرنے لگی، ’ پاپا اذلان بہت اچھے ہیں ، وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ وہ بہت پڑھے
لکھے ہیں ۔ پاپا میں جانتی ہوں آپ کی انا کو ٹھیس پہنچی ہے لیکن پاپا ایسا نہیں ہے۔ اذلان ہر لحاظ سے ہمارے خاندان سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں ۔ سروس کرنے سے کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہو جاتا ہے۔ ا ذلان نے ایم ایس سی انجینیرنگ اور ایم بی اے کیا ہے۔پاپا آپ شاید نہیں جانتے کہ اتنا پڑھ لکھنے کے بعد اذلان کا ہوم منسٹری میں ڈرائیور کی پوسٹ پر کام کرنا مصلحت سے خالی نہیں تھا۔ اذلان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ وہ بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سینے میں آتش فشاں سلگ رہا تھا ۔ پاپا آپ کو تو اپنی بیٹی پر فخر کرنا چاہیے۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کی بیٹی نے ایک آتش فشاں کو ٹھنڈا کر دیا ۔ اگر یہ آتش فشاں پھٹ جاتا تو قیامت برپا ہو جاتی۔پھر صرف کشمیر ہی نہیں جلتا پورا ملک اس کی لپٹوں میں جھلس جاتا ۔اور اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو ہی ہوتا۔۔۔ پاپا ! مجھے وہ دن یاد ہے جب اذلان نے مجھے بتایا تھا۔۔۔اذلان نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر بہت جذباتی ہو کر کہا تھا، ’ روحان کے انتقال کے چند دنوں بعد ہی زائرہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ روحان اور زائرہ کی موت کے بعد امی بالکل خاموش ہوگئی تھیں۔ کسی سے کچھ نہیں کہتی تھیں۔ صرف آسمان کی طرف دیکھتی رہتی تھیں۔ پھر ان کے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا اور ایک دن وہ بھی خاموشی سے ہم سب سے بہت دور چلی گئیں۔ میرے بابا اتنا زیادہ ڈر گئے تھے کہ مائرہ کو اپنی نظروں سے ایک پل کے لیے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں نے کسی مرد کی آنکھوں میں اتنا خوف نہیں دیکھا تھا۔ بابا تین مہینے تک صدمہ برداشت کرتے رہے پھر انھوں نے بھی زندگی سے ہار مان لی۔میں بھی بے بس تھا۔ دل تو چاہتا تھا سب کچھ جلا کر راکھ کر دوں لیکن بابا نے مائرہ کی ذمے داری میرے اوپر ڈال دی تھی۔ میں صرف ایک خاموش تماشائی بن کر رہ گیا ہوں اور مائرہ تو بے جان پتھر ہے۔ اس نے ہنسنا رونا سب چھوڑ دیا ہے۔اسے دیکھ کر بہت ڈر لگتا ہے کہیں کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اسی لیے میں اپنے غصے کو پی گیا ۔بابا نے ہی مرنے سے پہلے مجھ سے کہا تھا بیٹا مائرہ کو یہاں سے دلی لیکر چلے جائو ۔ یہاں یہ تمہیں بھی نہیں چھوڑیں گے اور مائرہ کا بھی وہ وہی حشر کریں گے جو انھوں نے زائرہ کا کیا تھا۔ بیٹا مائرہ یہاں محفوظ نہیں ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم بھی وہ کرو جو روحان نے کیا ۔ میں نہیں چاہتا میرے خاندان کا نام و نشان مٹ جائے۔اور پھر مرتے وقت انھوںنے کہا تھا بیٹا روحان کو دہشت گردوں نے نہیں جے کے ا یس اے نے مارا تھا اور انھوں نے ہی زائرہ کے ساتھ اتنے دن منھ کالا کیا۔بیٹا زائرہ نے اس وقت اشارے سے ان آفیسرز کے بارے میں بتانے کی کوشش بھی کی تھی لیکن ہم نہیں سمجھ سکے۔مرتے وقت اس نے سب کچھ بتایا تھا وہی آفیسرز جو انھیں چھوڑنے آئے تھے انھوںنے ہی ان کے ساتھ ننگا ناچ کھیلا تھا اور الزام دہشت گردوں پر عائد کر دیا تھا۔‘ یہ کہہ کر اذلان خاموش ہوگیا تھا۔پاپا آپ کو یہی شکایت ہے نا کہ میں نے آپ کی مرضی سے شادی نہیں کی ۔پا پا سچ تو یہ ہے کہ جو رشتے
آرہے تھے انھیں مجھ میں دلچسپی نہیں تھی بلکہ میرے عہدے سے دلچسپی تھی۔مجھے اذلان سے اچھا شوہر مل ہی نہیں سکتا تھا ، وہ سچی محبت کرنے والا انسان ہے۔ پاپا! اور پھر آپ کی اپاہج بیٹی کو کون حقیقت میں اپناتا۔۔۔ کوئی نہیں! صرف اور صرف اذلان ۔‘
راعین گھٹن محسوس کر رہی تھی ۔ اس نے اپنی آپا کو فون ملایا ۔’ہاں بیٹا ۔ اچھا ہوا تیرا فون آگیا ۔میں تجھے ہی فون کرنے والی تھی ۔کل ہم سب لوگ تیرے گھر آرہے ہیں ۔ہاں ہاں تیرے پاپا اور سب بھائی ۔میں نے کہا تھا نہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘ اس کی آپا نے سب ایک سانس میں کہہ ڈالا۔راعین نے اذلان کے سینے پر اپنا سر رکھ دیا ۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر
انجمنِ اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف ایجوکیشن
واشی ، نوی ممبئی
موبائل۔09322645061
qamarsaleemin@yahoo.co.in
Saem A short Story by Waseem Aqeel Shah
Articles
صائم

وسیم عقیل شاہ