Gumshuda Shai A Arbic Short Story

Articles

گمشدہ شئے از جمال بنورہ عربی سے ترجمہ شمس الرب خان

جمال بنورہ

 

یا الہی… یہ سب کیسے ہو گیا.. کیا میں ختم ہو چکا ہوں؟…کیا یہ درست ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟.. یہ ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو..میں کسی دوسرے کو مورد الزام کیوں ٹھہراؤں؟ کسی بھی چیز کو بدلنا ممکن نہیں ہے. کسی چیز کی قیمت ہی کیا ہے؟.. نہیں..میں ایسا کیسے سوچ رہا ہوں؟ میں ایسا کیسے کہہ رہا ہوں؟ مایوسی مجھ پر اس حد تک طاری نہیں ہوسکتی. میں خود کو جانتا ہوں..میں خود کو ہمیشہ سے جانتا ہوں..میں جو بھی ہوں، جیسا بھی ہوں اپنی پسند و اختیار سے ہوں..اور مجھے اس کے نتائج کو بھگتنا ہوگا.

اس نے ایک نظر اپنے ارد گرد دوڑائی، وہ اس کے بغل میں سو رہی تھی. عورت کے بغل میں تو مرد ہی سوتا ہے نا..تو میں اس کے بغل میں کیسے سو رہا ہوں؟ یہ میں اس سے کیسے کہوں؟ ہم دونوں کے لیے دو علیحدہ بیڈ ہونے ہی چاہیے..بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ میں دوسرے کمرے میں سوؤں..جب تک میں اس کے ساتھ ایک ہی بستر میں…بلکہ ایک ہی کمرہ میں رہوں گا، میری آنکھوں کو نیند نصیب نہیں ہوگی..یا اللہ، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کی پوری آرزو نیند کے حصول میں سمٹ کر رہ جاۓ؟ کیا اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے جو تمنا کی زیادہ حقدار ہے؟ اور کسی چیز کی تمنا کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ میری  پوری زندگی عمل پر یقین سے عبارت ہے…میری حیات آزادی کے لیے جد و جہد کرتے ہوۓ اور ظلم سے لڑتے ہوۓ گزری. کوئی چیز بغیر اس کے لیے کام کیے ہوۓ صرف آرزو کے بل پر انجام نہیں پا سکتی.. وہ بھی تو میری آرزو ہی تھی..یہ آرزو بھی آسانی کے ساتھ پوری نہیں ہوئی تھی. اس تک پہونچنے کے لیے مجھے بہت ساری رکاوٹوں کو پار کرنا پڑا تھا.. اس نے بھی نہ نہیں کہا.. لوگوں نے اس سے کہا:

اس کی نظر تمہاری تنخواہ پر ہے..خود تو کچھ کرتا دھرتا ہے نہیں..کبھی جیل جانا تو کبھی جیل سے نکلنا، بس اس کا یہی کام رہ گیا ہے..تم سے عمر میں بھی بڑا ہے..

اس نے ان سے کہا: میں بھی چھوٹی نہیں ہوں.

پھر بھی، وہ تم سے بہت بڑا ہے.

وہ تکمیل مردانگی کی عمر میں ہے.

اس کے ساتھ تمہاری زندگی اجیرن ہو جاۓ گی.. پچھتاؤگی..

میں اس کے تعلق سے مطمئن ہوں..

میں نے اس سے کہا: مطمئن ہو جانا، تبھی مجھ سے شادی کرنا. میری یہی چاہت ہے.

اس نے کہا: کچھ امور کے تعلق سے میری راۓ تم سے مختلف ہے.. لیکن یہ ہماری آپسی سمجھ داری کی راہ میں روڑا نہیں.

کچھ افکار و خیالات..

اس نے میری بات کاٹتے ہوۓ کہا: تم اپنے افکار و خیالات کے سلسلے میں آزاد ہو.

تم سمجھ پاؤگی مجھے؟

میں بھی پڑھی لکھی ہوں. تعلیم کے میدان سے جڑی ہوئی ہوں، اس سے مجھے لوگوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے.

اس نے مزید کہا: میں تمہیں سمجھنے کی کوشش کروں گی.

تمہیں معلوم ہے کہ میری زندگی آسان نہیں ہے.

میں تمہیں تمہارے یقین کے مطابق عمل کرنے سے نہیں روکوں گی..

مجھے یقین تھا کہ اس کے ساتھ میری شادی سراپا نعمت تھی پھر یہ سراپا مصیبت کیوں بن گئی..وہ بہت زیادہ خوبصورت نہیں تھی، پھر بھی وہ میرے دل میں بس گئی.. آج وہ ضرورت سے زیادہ خوبصورت دکھائی دے رہی تھی..میرے سوا کسی اور کو یہ خوبصورتی دکھائی کیسے نہیں دی؟ کیسے وہ غیر شادی شدہ رہی یہانتک کہ میں اس کی زندگی میں آیا..؟ آج اسے دیکھ کر میری شہوت میں پہلے سے زیادہ بہت زیادہ ہیجان کیوں پیدا ہو رہا ہے؟ کیا اس لیے کہ مجھے اس کی عادت ہو گئی تھی اور آج اس سے محروم ہو گیا ہوں؟ کیوں وہ آج اتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہے کہ برداشت کی تاب نہیں؟ کیوں یہ احساس اس حد تک شدید ہے کہ مجھے کسی پل بھی قرار نہیں؟ میں وہ سپاہی ہوں جسے سالہا سال قید و بند کی صعوبتیں بھی توڑ نہیں پائیں. میں زندگی میں لمحہ بھر کے لیے بھی مایوس نہیں ہوا.. لیکن آج مایوسی کے بادل مجھے گھیر رہے ہیں.. میں وہ جیالا ہوں جس کے دل میں لمحہ بھر کے لیے بھی شک نے اپنا پیر نہیں پسارا.. لیکن اب میری زندگی شک اور عذاب کا جہنم بن چکی ہے…ایسا کہاں ہو رہا ہے؟ قید خانہ سے باہر..میں اتنا دل گرفتہ تو قید خانہ کے اندر بھی نہیں تھا.. کیا وہ مجھے توڑںے میں کامیاب ہو گۓ؟ ایسا نہیں ہو سکتا..کال کوٹھریوں میں بھی رہتے ہوۓ میری زندگی اتنی تاریک نہیں تھی..بلکہ مستقبل کی امیدوں سے روشن تھی.. میں ہمیشہ سے ایک پر امید شخص رہا ہوں، نا امیدی مجھے چھو کر بھی نہیں گزری..ملاقات کے ایام میری زندگی کے سب سے خوش کن ایام ہوتے تھے.. میں اسے صرف دیکھتا رہتا، مجھے دنیا کی کسی اور چیز کی ضرورت محسوس ہی نہیں ہوتی، میرا دل اطمینان کا مرقع بن جاتا.. اسے دیکھ کر ہی میرے من میں امید و استقامت کا سمندر ہلوریں مارنے لگتا..بغیر کوئی بات چیت کیے بھی.. اس کا چہرہ سب کچھ بول دیتا..جو کچھ بھی میں سننا چاہتا تھا..خلوص، محبت، اعتماد، امید سب کچھ.. اب وہ احساس مجھ سے روٹھ سا گیا ہے..مجھے کچھ کھویا کھویا سا لگ رہا ہے.. اس کے چہرے کے نقوش میں..اس کے ساتھ میرے رشتے میں.. پتہ نہیں کیوں..درحقیقت مجھے کسی چیز کا علم نہیں رہا..قید خانہ میں، کوئی چیز بھی میرے عزم و استحکام کو متزلزل نہ کر سکی.. ٹارچر روم سے نکلنے کے بعد، ہما یاران زنداں پوچھتے:

کیسا رہا؟

مجھے اپنا تکلیف ظاہر کرنے سے شرم آتی

یہ تو کچھ بھی نہیں تھا..

میں جانتا ہوں کہ یہاں بہت سے لوگ ہیں جو مجھ سے کہیں زیادہ عذاب اور سختیاں جھیل رہے ہیں.. ہر انسان اپنے اپنے عذاب میں مبتلا ہے، ہمیں یہ حق نہیں بنتا کہ ہم اپنے عذاب پر فخر کریں..کیا ہم نے خود ہی اس راہ کو نہیں چنا ہے؟ عذاب کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے برداشت نہ کیا جا سکے.. کچھ لوگ یقین نہیں کریں گے.. لیکن ایسا ممکن ہے اگر انسان ٹھان لے.

اب میرے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہے..کیا کسی مرد مجاہد کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ سوال کرے؟ میں خود کو بھی نہیں پہچانتا. میں نہیں جانتا کہ میں ان سب چیزوں پر نادم تھا یا نہیں. اگر میں نادم تھا، تو میری قربانی رائیگاں گئی. میرا پایا جانا ضروری نہیں تھا. نہیں، یہ درست نہیں ہے. میں نادم نہیں ہو سکتا.. مجھے حق ہی نہیں بنتا..میں نے ہر چیز پر غور و فکر کر لیا.. یہ موت سے بدتر نہیں ہے، اگرچہ میں اسے موت جیسا سمجھتا تھا.. میں حق زوجگی ادا کرنے کے  قابل نہ رہا.. لیکن میں اب بھی سرگرم عمل ہوں.. مصروف جد و جہد ہوں..میں مرا تو نہیں..اگرچہ انہوں نے میرے جسم کے ایک عضو کو ناکارہ بنا دیا ہے..میرے جسم کے باقی اجزاء تو کام کر رہے ہیں نا، ابھی بھی میں بہت کچھ کر سکتا ہوں..بہت سے لوگ ہیں جنہیں میری ضرورت ہے..

مجھے سوچ و فکر کے اس سلسلے کو منقطع کرنا پڑے گا..اس طرح تو نیند آنے سے رہی.. وہ اس کی جانب پھر مڑتا ہے..اس کے چہرے پر خود سپردگی سموۓ ہوۓ رنجیدگی کے دھاگے  لہرا رہے تھے، جس کی وجہ سے اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گۓ تھے..

حسرت اس کے دل کو بھنبھوڑ رہی ہے.. یہ حسن و جمال اس کی پہونچ میں ہو کر بھی اس کی گرفت سے باہر ہے. جب سے اس کی قوت نے اس کا ساتھ چھوڑا تھا، اس کے اندر اس جسم کو پانے، اسے خود میں سمو لینے کی خواہش مزید بڑھ گئی تھی. لحاف کے اوپر لپٹی ہوئی اس کی برہنہ ٹانگ دیکھ دیکھ کر اس کا دل کرب کی چکی میں پس رہا تھا.. اسے ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ وہ اب اس کی نہیں رہی، کسی اور کی ہو گئی.. نہیں.. یہ ممکن نہیں.. اسے لگا کہ اس کا سر پھٹ جاۓ گا..یہ خیالات اسے پاگل کر دیں گے.. اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا سر یوں تھام لیا گویا کہ اسے پھٹنے سے روکنا چاہتا ہو.

میں ان خیالات سے کب چھٹکارا پاؤں گا؟ ایک دن مجھے پتہ چلے گا کہ میں غلطی پر تھا. میں ہمیشہ معاملات کے تعلق سے درست اندازہ لگایا کرتا تھا.. پھر مجھے کیا ہو گیا؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مرد مجاہد غلطی نہیں کرتا.. ہم سب غلطی کرتے ہیں.. ایک دن مجھے پتہ چلے گا کہ میرے شکوک و شبہات بے محل تھے.. وہ میرے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتی..نہیں، بالکل نہیں..یہ سمجھ سے پرے ہے..میں نے اس کو پیشکش کی تھی کہ میں اس کے راستے سے ہٹ جاتا ہوں.. اس نے مضبوطی کے ساتھ کہا:

میرے لیے کوئی بھی چیز تمہارا بدل نہیں ہے.. مجھے تمہارے سوا کچھ نہیں چاہیے.

کیا وہ سچ کہہ رہی تھی؟

کبھی کبھی وہ اس کے سامنے اپنی ٹانگیں کھول کر بیٹھ جاتی، اس پر وہ اسے ڈانٹتا..

اس طرح مت بیٹھو.

تم میرے شوہر ہو.

خود فراموشی کے عالم میں لوگوں کے سامنے بھی ایسا کر سکتی ہو.

مجھ پر خود فراموشی صرف تمہارے ساتھ ہی طاری ہوتی ہے.

وہ اس سے قریب ہو جاتی ہے، اس کا کپڑا اس کے جسم سے مزید سرک جاتا ہے، وہ پرواہ نہیں کرتی ہے. وہ اپنا چہرہ پھیر لیتا ہے.

خفا ہو گۓ، مورے راجہ!

وہ اسے منانے کی کوشش کرتی ہے..اس کے گال پر چکوٹی کاٹتی ہے..وہ غصہ سے مغلوب ہو کر اس کو تھپڑ رسید کر دیتا ہے، گویا کہ اپنی قوت و طاقت کا اظہار کر کے اپنی بے بسی کا مداوا کرنا چاہتا تھا.. اسے اس کی شدید خواہش ہو رہی تھی..لیکن اسے خدشہ تھا کہ اسے اس کی بے بسی کا احساس ہو جاۓ گا.. وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سانحہ سے جتنا زیادہ ممکن ہو بعد میں واقف ہو..اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ اس کے بعد کیا کرے گی.. کیا اس کے ساتھ رہنے پر راضی ہو جاۓ گی؟ کیا وہ برداشت کر پاۓ گی؟ اسے یوں محسوس ہوا کہ اپنی بے بسی پر اسے سزا دے گر گویا وہ خود کو سزا دے رہا ہے..اسے خود سے کوفت ہو رہی تھی، لیکن اس کا غصہ وہ اس پر اتار رہا تھا جیسے کہ وہی اس کی وجہ ہو.. اسے یہ کر کے راحت نہیں ملی.. لیکن ذلت اور مردانگی کھونے کے احساس سے اس نے خود کو بچا لیا.

لیکن یہ زیادہ دنوں تک نہیں چلے گا. اس نے رنجیدگی اور وحشت کے عالم میں پوچھا:

تم نے ایسا کیوں کیا؟

میں پریشان ہوں..غمزدہ ہوں.

اس نے اپنے رخسار پر بہہ رہے آنسوؤں کو پونچھ کر کہا:

مجھے لگا ایسا.. تو چاہا کہ تمہارا غم غلط کروں.

مجھ سے دور ہو کر ایسا کر سکتی ہو.

اس سے دور جاتے ہوۓ وہ خاموشی کے ساتھ رو رہی تھی..

اگلے دن، وہ صلح سپاٹا کرنے کی غرض سے آئی.. اس نے اپنا چہرہ پھیر لیا:

کیا تم مجھ سے متنفر ہو گۓ ہو؟

نہیں..

تو آؤ، مان منول کر لیتے ہیں.

اس نے اسے اپنی بانہوں میں لیتے ہوۓ اور اپنے سینہ سے اس کا جسم دباتے ہوۓ کہا.

وہ اکتاہٹ بھرے لہجے میں چیخ پڑا:

کیا میں تمہارے لیے کافی نہ رہا؟

وہ ایکدم پیچھے ہٹ گئی، اس کی نگاہوں میں حیرت و استعجاب کا سمندر تھا.

میں نے ایسا نہیں سوچا.

پھر سوچ کیا رہی ہو تم؟

میں سوچ رہی ہوں کہ تمہیں کیسے خوش کروں..

خوشی مجھ سے کوسوں دور جا چکی ہے..

*****

جب تفتیش کار نے کہا کہ ” میں تمہیں عورتوں کے ساتھ سونے کے لائق ہی نہیں چھوڑوں گا”، تو میں سمجھا مذاق کر رہا ہے، بالکل نا معقول بات ہے.. لیکن اس کے بعد مجھ پر جو گزری..اسے دیکھتے ہوۓ یقین سا ہونے لگا.. قید خانہ میں تھا، تبھی شک ہونے لگا. مجھے لگا کہ میرے ساتھ کوئی غیر طبعی سی چیز ہو رہی ہے. میں نے اپنے جی میں سوچا ہو سکتا ہے کہ عورتوں سے دور رہنے کی وجہ سے ہو رہا ہو..اپنی بیوی سے دور ہوں، یہی وجہ ہو سکتی ہے.. پھر بھی میرا شک روز بروز بڑھتا جا رہا تھا..لیکن میں ماننے کو تیار نہیں تھا..بہت کوشش کی، نہیں ہو پایا، وہ اس کی چھیڑ خانیوں کا جواب دینا بند کر کے بولی:

تھک گۓ ہو.. رہنے دو، کسی دوسری رات کر لیں گے.

اپنی پوری زندگی میں اسے کبھی بھی اتنی ذلت کا احساس نہیں ہوا تھا جتنا اب اس کے سامنے ہو رہا تھا.

وہ اس کی معذوری محسوس کر رہی تھی، لیکن ظاہر کر رہی تھی کہ کچھ نہیں جانتی.. وہ اسے مزید تکلف نہیں دینا چاہتی تھی..وہ اپنا ہاتھ اس کے جسم پر شہوت کے انگارے لیے ہوۓ پھیر رہا تھا..اس کے اندر خواہشات کا آتش  فشاں دہک رہا تھا.. لیکن اس کا احساس جیسے مر چکا تھا..

اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے.. ہم ساتھ رہ سکتے ہیں.. اس کے بغیر بھی..

ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟

وہ چپ رہتی.. وہ جان جاتا.. وہ بھی سمجھ جاتی.. اس پر مایوسی طاری ہو چکی تھی.

وہ شکست خوردہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتا.. اس کا دل اب بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ معذور ہو چکا ہے.. اس کا خیال تھا کہ کچھ ہی دنوں کی بات ہے، سب ٹھیک ہو جاۓ گا.

ایک مرتبہ اس نے اس سے کہا:

آج ڈاکٹر کے پاس گئی تھی.

اس کے کان کھڑے ہوگۓ. اس نے پوچھا:

کیوں؟

اس نے شرما کر کہا:

اس بار ماہواری وقت پر نہیں آئی، میں نے سوچا پیٹ سے ہوں.

اس کے اندر کچھ ابلنے لگا، اس نے کہا:

لیکن ہمیں ملے تو ایک لمبا عرصہ ہو گیا.

دو مہینہ پہلے ایک مرتبہ ملے تھے.

مجھے بتاۓ بغیر کیوں گئی؟

وہ غیظ و غضب کے مارے پھٹ رہا تھا.

میں نے سوچا تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا.

اس کا غصہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوا. اس نے کہا:

مجھے یہ برداشت نہیں ہے کہ کوئی اپنا ہاتھ تمھارے جسم پر رکھے..

اس نے چیلنج بھرے لہجے میں کہا:

دعوی تو کرتے ہو ترقی پسند ہونے کا اور ان معاملات میں رجعت پسندانہ رویہ اپناتے ہو، یہ نہیں چلے گا، میں ڈاکٹر کے پاس گئی تھی، کسی عاشق کے پاس نہیں.

اس نے سخت سرد مہری سے کہا:

وہ جب تمہارے جسم کو چھوتا ہوگا، تو تمہیں لذت محسوس ہوتی ہوگی نا. شاید اسی لیے گئی تھی اس کے پاس، خاص طور پر جب کہ ہمارے درمیان اب کچھ ہوتا بھی نہیں ہے..

وہ غصہ سے بھڑک اٹھی:

تم پاگل ہو گۓ ہو.. میرے بارے میں تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟

میں خود کو اسے پھر مارنے سے روک نہیں پایا.. مجھے لگتا تھا کہ مجھے ایسا کرنے کی ضرورت ہے..

وہ مجھ پر پھٹ پڑی:

کیا تمہیں مجھے مارنے کی ضرورت اس لیے پڑتی ہے تاکہ تم اپنی مردانگی ثابت کر سکو؟

میں نے شرمندگی سے کہا:

تم ٹھیک کہہ رہی ہو.. پتہ نہیں کیوں مجھ سے ایسا ہو گیا..

میں بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا، مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے میرا بستر کانٹوں سے بھر گیا ہو اور میرا جسم چھلنی ہو رہا ہو..

میں نسوانیت سے لبریز اس کے جسم کو تاکتا، وہ سونے کا دکھاوا کرتی.. کیا یہ دہکتا جسم صبر کر سکتا ہے..؟ کیا اس جسم کی پیاس بجھانے کے لیے کسی دوسرے ہاتھ نے اسے نہیں چھوا ہوگا..؟ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں لوگوں کی نظر اس پر نہ پڑ جاۓ.. یہ خزانہ جس کا میں مالک تھا، مجھے ڈر تھا کہ کہیں دوسروں کے ہاتھ اس تک نہ پہونچ جائیں..

اس نے بلند آواز میں پوچھا:

اب تک نہیں سوۓ؟

نہیں.. اور تم؟

میں نہیں سو سکتی.

اسے لگا کہ جیسے کسی نے اس کے سینے میں خنجر گھونپ دیا ہو.

کیوں؟

پتہ نہیں کیوں.. شاید تمہاری وجہ سے.

میری وجہ سے.. کیوں؟

میں دیکھ رہی ہوں کہ تم حد درجہ اذیت میں مبتلا ہو..میرا دل پریشان ہے.

اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:

اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں.. میں مرد نہیں رہ گیا..

*****

اس نے سختی کے ساتھ نفی کی:

تم اس شئ کے بغیر بھی مرد ہو.. تمہارے سوا میرا کوئی نہیں ہے.. پھر بھی تم مایوس مت ہو..

اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ کہا.. ہم نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا. حالت ایسی نہیں ہے کہ مکمل طور پر مایوس ہوا جاۓ.. یہ عارضی حالت ہو سکتی ہے.. ڈاکٹروں کی کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی..

جب وہ لوگ اسے دھمکیاں دے رہے تھے، تو اس نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا:

تم قید خانہ میں اس وقت تک رہو گے جب تک کہ سڑ گل نہ جاؤ..

کیا اب میں اس کے بغیر جی پاؤں گا؟

وہ میرے لیے بہت اہم چیز نہیں تھی.. قید خانہ میں رہتے ہوۓ میں اس کے بغیر سالوں تک رہا. بھلے ہی یہ مجبوری میں تھا، میں برداشت کر سکتا تھا.. اس بارے میں اپنی سوچ پر بھی قابو کر سکتا تھا. بلکہ ایسا میں آخر عمر تک کر سکتا تھا.. اگر میری شادی نہ ہوئی ہوتی.. میری زندگی میں انتہائی اہم کام ہیں.. جن کے لیے میں نے خود کو وقف کر دیا ہے.. اصول کپڑے نہیں ہیں جنہیں جب چاہیں پہن لیں اور جب چاہیں اتار کر رکھ دیں..اصول ہمارے اندر گیرائیوں میں رہتے بستے ہیں..ہمارے ریشہ ریشہ کی گہرائیوں میں پیوست ہوتے ہیں.. جڑ پکڑ چکی ان گہرائیوں سے انہیں اکھاڑ پھینکنا آسان نہیں ہوتا.. اب راہیں تبدیل کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا ہے..جو فیصلہ ہونا تھا، ہو چکا.. واپس لوٹنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا.. اس کے باوجود کچھ لوگ واپسی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں.. جب حد ہو جاتی ہے..رہی بات میری، تو میں کسی حد میں یقین ہی نہیں کرتا.. یہ سب پر لاگو نہیں ہوتا.. لیکن، میرے لیے، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں.. وگرنہ جو ہوا، وہ نہیں ہوتا.. جب میں قید خانہ میں داخل ہوا، میں نے ایک کم عمر لڑکی سے شادی کی تھی.. اب میرے ایک سے زیادہ بیٹے تھے.. میری ہمیشہ سے یہی خواہش تھی.

اس نے کہا: ایک بیٹا کافی ہے.

میں نے کہا: لڑکی بھی ہو، چلے گا…لیکن اکلوتی نہیں ہونی چاہیے..

اس نے کہا: میں چاہتی ہوں بیٹا ہو..تمہاری خاطر..

خواہش اسی کی پوری ہوئی.. اب اس کی عمر پانچ سال ہے.

اب..مزید بیٹے طلب نہیں کر سکتا.. ممکن نہیں رہا.

وہ کہتی ہے:

سب لوگ ہمارے بھائی ہیں.. سبھی بچے ہمارے اپنے بچے ہیں.. میرے نزدیک کوئی فرق نہیں..

اور میں.. میری مردانگی جا چکی ہے..اس کی تلافی کیسے ہو پاۓ گی؟

تم میں سرے سے کوئی کمی ہی واقع نہیں ہوئی ہے.. تم میری نظروں میں ہمیشہ وہی مرد رہو گے جس سے مجھے محبت ہوئی تھی.. میرے پاس ہر وہ چیز ہے جس کی میں نے تمنا کی تھی.. میری زندگی میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں ہے..

یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں مرد ہی نہیں رہا؟!

میری سماعتوں میں تفتیش کار کی آواز گونجی:

ہم تمہیں بچے پیدا کرنے کے لائق ہی نہیں چھوڑیں گے تاکہ تخریب کار پیدا ہی نہ ہوں..

لیکن ان کی کوششیں ناکام ہو جائیں گی..

میری بیوی کہتی..

اپنے اردگرد دیکھ لو.. ہماری قوم تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے، یہ لوگ چاہے جتنا چیخ چلا لیں. یہ ہماری اپنی اولاد نہیں ہیں تو کیا ہوا..ہماری قوم کے افراد تو ہیں..اس طرح یہ ہمارے اپنے بیٹے بیٹیاں ہیں..

یہ لوگ ہمارے عضو تناسل کو نشانہ بناتے ہیں.. انہیں ہماری قوم کو پھلتا پھولتا دیکھ کر غصہ آتا ہے.. سب سے زیادہ انہیں ہمارا عضو تناسل پریشان کرتا ہے.. وہ اسے نشانہ بنا کر ہمیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم بچے پیدا نہ کر سکیں.. ابھی بھی عزت و مردانگی کے بارے میں ہمارا تصور دونوں رانوں کے درمیان پھنسا ہوا ہے.. کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی عورت کے لائق نہ رہتے ہوۓ بھی خود کو مرد سمجھے؟

میں تیرا خصیہ نکال کر تیرے ہاتھ میں دے دوں گا، حرامی کی اولاد.

مجھے یقین نہیں ہوا. یہ ایسا نہیں کر سکتا.

اس کے ہاتھ میں نیلے سیال مادہ سے بھری ہوئی ایک سرنج تھی. اس نے سوئی ایک خصیہ میں چبھوئی. مجھے نہیں معلوم اس میں کیا تھا. میرا پورا جسم جیسے کسی آتش زدہ مادہ کے زیر اثر آکر درد سے دہک اٹھا، ایسا لگا جیسے میرے جسم سے کرنٹ کا ننگا تار چھو گیا  ہو.

اس نے پھر کہا: اسی پر بس نہیں ہے..

اس نے ایک لمبے ڈنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا: یہ میں تیرے پچھواڑے میں گھسیڑوں گا..

اس نے اپنی دھمکی کو عملی جامہ بھی پہنا دیا..میں بیہوش ہو گیا..اس کے بعد کیا ہوا، یہ میں نہیں جانتا..

تفتیش کی دوسری نشست میں اس نے سوال کیا:

شادی شدہ ہے؟

ہاں..

اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے؟

میں نے سوچا یہ کیوں پوچھ رہا ہے.. میں نے جواب کی تلاش میں خود کو نہیں تھکایا.

اس کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ پھیل گئی، اس نے کہا:

عورتوں کے ساتھ سونا پسند ہے؟

میں نے بے پروائی سے کہا:

کون ہوگا جسے پسند نہیں؟

میں تجھے عورتوں کے ساتھ سونے کے لائق ہی نہیں چھوڑوں گا، اگر تم اپنی سرکشی پر یونہی برقرار رہے.

میں سخت اذیت کے باوجود ہنس پڑا.. میں نے اس کو تمسخرانہ اور اہانت آمیز نگاہوں سے دیکھا.

ہنس کیوں رہا ہے؟ سوچ رہا ہے مذاق کر رہا ہوں؟

میں نے چیلنج بھری آواز میں کہا:

تو ایسا نہیں کر سکتا.

ایسا ہی کروں گا.. تو بس دیکھ. یا اعتراف کر لے، اسی میں تیری بھلائی ہے.

تم لوگوں سے کوئی بھی چیز بعید نہیں ہے.

تمہیں سوچنے کی مہلت دیتا ہوں..

بیکار میں خود کو ہلکان مت کر.. جو کرنا ہے، ابھی کر..

اس نے سخت غصہ سے مجھے خوفناک نظروں سے جنونی انداز میں گھورا.

اس کے بعد، ہم تیری بیوی کو اٹھا کر یہاں لائیں گے.. اور اس کے ساتھ تیرے سامنے بدفعلی کریں گے.

میں نے اس کی جانب تمسخر آمیز نگاہوں سے دیکھا.. دل میں اٹھ رہے خدشات کو تھپکی دی..

سوچ کیا ہوگا..

اس نے مجھ سے کہا..

میرے ذہن میں سوچوں کا قافلہ تیزی کے ساتھ دوڑنے لگا..یہ لوگ ضرور مذاق کر رہے ہیں. میں نےسوچا..پھر اپنے سر کو حرکت دی.. اور اپنے دماغ سے خیال کو جھٹک دیا.. کچھ بھی ہو جاۓ.. یہ لوگ چاہے جو کرلیں، میرا موقف نہیں بدلنے والا..مجھے ہر چیز کے لیے تیار رہنا ہوگا..

تجھے کیسا لگے گا جب تو اسے اس حالت میں دیکھے گا..؟

میں نے مضبوطی کے ساتھ کہا:

اس کے لیے میری محبت میں اضافہ ہو جاۓ گا..

سمجھ داری سے کام لے.. کیا سہی میں تو یہ برداشت کر لے گا کہ ہم تیرے سامنے تیری بیوی کے ساتھ بدفعلی کریں؟ تو بھڑوا ہے، تجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا… کم از کم اپنی بیوی کا تو خیال کر.

میں نہ چاہتے ہوۓ بھی ہنس پڑا.. یہ تفتیش کار اپنی تمام تر حماقتوں کے باوجود نکتہ بیں ہے!! انسانی نفسیات کی پرکھ ہے اسے. اپنی خباثتوں کا ٹھیکرا مجھ پر پھوڑنا چاہتا ہے.. ایسا ہونا بعید نہیں تھا..کوئی کام ایسا نہیں ہے جسے یہ نہیں کر سکتے.. لیکن یہ لوگ میری سوچ سے زیادہ ‘انسانیت پرست’ نکلے.. انہوں نے میری بیوی کو بخش دیا..میرے ساتھ جو کیا تھا اسی پر اکتفا کیا..!!

اس نے دوبارہ اپنی بیوی پر نظر ڈالی جو سکون کے ساتھ سو رہی تھی..اس کی ننگی ٹانگ ابھی بھی لحاف کے اوپر  یوں دراز تھی، گویا اس کی بے بسی کا منہ چڑھا رہی تھی.. اس کا فرض  یاد دلا رہی تھی.. اس نے اپنا چہرہ پھیرنا چاہا، لیکن نہیں پھیر پایا.. اس نے تھوڑی دیر کے لیے دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھیں موند لیں..پھر ہاتھ ہٹا کر اسے یک ٹک دیر تک تاکتا رہا..اس کے اندر محبت کی سرکش موجیں تھپیڑیں مارنے لگیں.. اس طرح نہیں چل پاۓ گا.. اس نے اپنے لرزتے ہاتھ کو اس کی جانب بڑھایا.. اس کی ران کو چھوۓ بغیر اس کے نیچے دبے لحاف کو کھینچا..ابھی اس کی ننگی ٹانگ کو ڈھانپ ہی رہا تھا کہ اس کی آنکھ کھل گئی..اس نے بمشکل اپنی آنکھیں کھولیں گویا خود کو نیند کے جبڑے سے کھینچ کر نکال رہی ہو..اور خمار آلود آواز میں بولی:

کیا ہوگیا ہے تمہیں؟

خاموش رنجیدگی میں لپٹی ہوئی آواز آئی:

مجھے نیند نہیں آ رہی ہے.

اس نے اپنا ہاتھ بڑھاکر اسے پکڑنے کی کوشش کی:

پاس آؤ نا.

میں نے بھنچی بھنچی سی آواز میں کہا:

مجھے مت چھوؤ.. میں کچھ بھی نہیں رہا.. میرے وجود کا کوئی فائدہ نہ رہا.

وہ جھٹکے سے بستر سے اٹھی اور اس نے کہا:

تم غلط کہہ رہے ہو.

وہ اٹھ کھڑا ہوا، وہ بھی اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی.

غصہ مت ہو..بیٹھو..بات کرتے ہیں..

ہمارے درمیان بات جیسی کسی چیز کی گنجائش بچی ہی نہیں.. ہمارے لیے بس ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہم علیحدگی اختیار کر لیں.

اس نے نرمی کے ساتھ اس کا ہاتھ دباتے ہوۓ اسے بستر پر بٹھایا.

اور اگر میں نہ چاہوں، تو؟

میں تمہارے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہتا.

میں تمہارے ساتھ خوش ہوں..

وہ قریب قریب رو پڑا اور اسے سمجھاتے ہوۓ بولا:

میں مرد نہیں بن سکتا..

اس نے غیظ و غضب سے کہا:

مرد صرف بستر پر مرد نہیں ہوتا.

تمہیں میرے ساتھ زندگی بتا کر کیا ملےگا؟

میں نے تمہارے ساتھ شادی صرف جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں کی ہے.. شادی شدہ زندگی اس سے بڑھ کر ہوتی ہے.. میری زندگی کا مقصد اس سے بڑا ہے..ہم دونوں کا ایک مشترک خواب ہے نا کہ ہم دونوں مل کر اس دنیا کو زندگی گزارنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنائیں.. یہی ہماری زندگی کا محرک ہے نہ کہ ہمارے درمیان قائم ہونے والے دو پل کے جسمانی تعلقات

لیکن ہمارے درمیان کسی چیز کی کمی بنی رہے گی..

اس نے سرزنش کرتے ہوۓ کہا:

تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟ کیا تم ہر اس چیز کو فراموش کر چکے ہو جو ہمارے درمیان تھی؟ میں نے تم سے شادی اس لیے کی تاکہ میری زندگی تمہارے ساتھ کٹے..یہ زندگی مجھے مل گئی.. میرے پاس ایک گھر ہے، ایک بیٹا ہے، ایک شوہر ہے جسے میں ٹوٹ کر چاہتی ہوں.. میری زندگی تم سے اور ہمارے بیٹے سے ہوکر گزرتی ہے.. میرا خود کا کام بھی ہے..میرے پاس سب کچھ ہے.. ہر وہ چیز ہے جو ایک عورت چاہتی ہے.. کیا تمہیں یاد ہے وہ پل جب تم نے شادی سے پہلے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تم مطمئن ہو. پھر اب تمہیں ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ میں تمہارے ساتھ خوش نہیں ہوں؟ کیا تمہیں لگتا ہے کہ کوئی چیز تمہارے تعلق سے میرا رویہ تبدیل کردے گی؟

تم مجھے دلاسہ دے رہی ہو..

نہیں.. میں تمہیں دلاسہ نہیں دے رہی ہوں.. تم میرے مرد ہو.. تم جیسے تھے ویسے ہمیشہ رہو گے..تمہاری جگہ کوئی دوسرا مرد ہرگز نہیں لے سکتا..

میری ایک گزارش ہے..ہم علیحدہ کمروں میں سوئیں گے..

نہیں.. میں ہرگز اجازت نہیں دوں گی.. تمہاری جگہ یہاں ہے، میرے بغل میں.. تم میرے شوہر ہو.. اور ہمیشہ رہوگے.. میں تم سے دوری برداشت نہیں کرسکتی..

اس کی کوئی ضرورت نہیں.. مجھے اور عذاب نہ دو.

نا امید مت ہو… ہر چیز کا علاج ہے.

میں تمہیں دیکھ نہیں سکتا، تمہارے سامنے میں اپنی معذوری محسوس کرتا ہوں..

وقت کے ساتھ یہ احساس جاتا رہے گا.

کیا تمہیں ایسا لگتا ہے؟

اس کے بغیر بھی.. تمہاری قربت مجھے ہر چیز سے بے نیاز کر دیتی ہے. میں کسی بیوہ کے بالمقابل زیادہ خوش نصیب ہوں.

بیوہ ہوتی تو… میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ دوبارہ شادی کر سکتی ہے.

کیا تم نے ان بیوہ عورتوں کے بارے میں نہیں سنا جنہوں نے دوبارہ شادی کرنے سے انکار کر دیا.

اس نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوۓ کہا:

خوش قسمت ہے وہ شخص جس کی بیوی تم جیسی ہو.

میں تنہا ایسی نہیں ہوں.. تم لوگ عورتوں کو اچھے سے جانتے نہیں ہو.

میں بھی انہیں خوش نصیبوں میں سے ایک ہوں.

تم لوگ دوسری چیزوں کو اہمیت دیتے ہو.. تم لوگوں کے لیے عورت ایک کم اہم شئ ہے. تم لوگ اس کے بارے میں اتنا ہی سوچتے ہو جتنا وہ تمہیں تفریح فراہم کرتی ہے.. اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.

لیکن مجھے تمہارے افکار و احساسات کا خیال ہے.. اسی لیے میں اذیت میں مبتلا ہوں..

لیکن تم مجھے نہیں سمجھتے.. تمہاری اذیت کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے..

اس نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا:

کیا تمہیں معلوم ہے.. کہ میرے ذہن و دماغ میں شک کے سائے لہرانے لگے ہیں..؟

کیسا شک؟

میں تم سے سچ کہوں گا.. مجھے خود پر شرمندگی ہورہی ہے.

اس نے دہشت زدہ ہوکر کہا:

مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ تم مجھ پر شک کر رہے ہو، مجھ پر.. تمہاری عقل ٹھکانے تو ہے؟

اس نے کچھ دیر بعد کہا:

جب ہم چہل قدمی کے لیے نکلتے ہیں.. یا جب میں تمہیں صبح کے وقت آراستہ پیراستہ ہوتے اور زیب و زینت اختیار کرتے ہوۓ دیکھتا ہوں.. تو اپنے جی میں سوچتا ہوں.. کہ یہ سب کس کے لیے ہے؟

کیا مجھے اچھا نہیں دکھنا چاہیے؟

ہاں، بالکل، کیوں نہیں! لیکن میرے جی میں آتا ہے کہ ضرور کوئی ہوگا جو تمہیں دیکھتا ہوگا.. تمہاری خواہش رکھتا ہوگا.. کبھی تم پر بھی شہوت کا غلبہ ہوتا ہوگا..

اپنی دونوں ہتھیلیوں سے اپنے دونوں رخسار کو تھام کر، وہ اس کی آنکھوں میں بغور جھانکنے لگی:

جب تم نہیں رہتے ہو… تو کوئی شہوت بھی نہیں رہتی.. مجھے کسی دوسرے مرد میں رغبت پیدا ہی نہیں ہوسکتی.

اس نے متردد ہوکر کہا.. اس کے لہجے میں بے بسی تھی..

میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں کیا کروں؟

تم وہی کروگے جو ہمیشہ سے کرتے آۓ ہو.. اپنے کام، اپنی جد و جہد میں لگ جاؤ.. کبھی بھی مایوسی کے سامنے ہتھیار مت ڈالنا.. بہت سے لوگ ہیں جنہیں تمہاری ضرورت ہے.. اب تم رک نہیں سکتے.. تم کو حق نہیں بنتا کہ تم اپنے اس طریقہ زندگی پر شرمندہ ہو جسے تم نے خود اپنے لیے منتخب کیا ہے.

نہیں.. میں ہرگز شرمندہ نہیں ہوں گا.. چاہے جو جاۓ.. جب تک تم میرے ساتھ کھڑی ہو.. تم مجھے اعتماد اور امید بخشتی رہوگی.. تمہارے بغیر میں اپنا سفر جاری نہیں رکھ سکتا..

میرے بغیر بھی تمہیں اپنا سفر جاری رکھنا ہوگا.. اپنی خود اعتمادی ہمیشہ برقرار رکھنی ہوگی

اس نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوۓ کہا:

کیا اب نیند آرہی ہے؟ اگر بے چینی اب بھی برقرار ہو، تو میں تمہارے ساتھ صبح تک بیدار رہوں گی.

اس نے نرمی کے ساتھ اس کے ہونٹوں کو چھوتے ہوۓ کہا:

میں کوشش کروں گا.

اس نے اسے ایک بچے کی مانند خود سے چمٹا لیا.. اور خود جاگتے ہوۓ اس کے وجود کو سنبھالے رہی یہاں تک کہ وہ اس کے سینے پر ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا..

**********************

مترجم شمس الرب خان شعبہ عربی ، مہاراشٹر کالج، ممبئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انھوں نے یہ کہانی عربی زبان سے ترجمہ کی ہے۔

Tooba Shikan A Short Story by Banu Qudsia

Articles

توبہ شکن

بانو قدسیہ

بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔

“مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے، ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔”

بی بی کی آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہو جاتا۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان دنوں کو یاد کر رہی تھیں جب وہ ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہوا کرتیں اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن کٹواتے،انعامات تقسیم کرواتے۔

پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے “لیکن آخر بات کیا ہے بی بی ہوا کیا ہے وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے، صرف ان پرغلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف، مشین کا غلاف، تکیے کا غلاف۔ درخت کو ہمیشہ جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے! اگر اسے کرسمس ٹری کی طرح یونہی داب داب کر مٹی میں کھڑا کر دیں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالآخر تو گرے گا ہی۔

وہ اپنے پروفیسر میاں کو کیا بتاتی کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچی تھی اور جس وقت وہ ربڑ کی ہوائی چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہی تھی، تو کیا ہوا تھا؟

اس کے بوائی پھٹے پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں برتن مانجھ مانجھ کر کیچ جمی ہوئی تھی۔ سانس میں پیاز کے باسی لچھوں کی بو تھی۔ قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے اور دوپٹے کی لیس ادھڑی ہوئی تھی۔ اس ماندے حال میں جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑ ی تھی تو کیا ہوا تھا؟ یوں تو دن چڑھتے ہی روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا پر آج کا دن بھی خوب رہا۔ ادھر پچھلی بات بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کی ٹیس کم ہوتی تھی ادھر کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار میں ہوا وہ تو فقط فل سٹاپ کے طور پر تھا۔

صبح سویرے ہی سنتو جمعدارنی نے برآمدے میں گھستے ہی کام کرنے سے انکار کر دیا۔ رانڈ سے اتنا ہی تو کہا تھا کہ نالیاں صاف نہیں ہوتیں۔ ذرا دھیان سے کام کیا کر۔ بس جھاڑ و وہیں پٹخ کر بولی۔

“میرا حساب کر دیں جی”

کتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی۔ صبح سویرے تام چینی کے مگ میں ایک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوٹے چاول اور باسی سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہینے کی نوکری میں تین نائلون جالی کے دوپٹے۔ امی کے پرانے سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض لے گئی تھی۔ کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے جمعدارنی کہہ کر بلا لیتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کی سگی پھوپھی تھی۔ ایسی سفید چشم واقع ہوئی کہ فوراً حساب کر۔ جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی دھریہ جا وہ جا۔

بی بی کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر میں آ کر پاؤں پکڑے گی۔ معافی مانگے گی اور ساری عمر کی غلامی کا عہد کرے گی۔ بھلا ایسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ایسی دفان ہوئی کہ دوپہر کا کھانا پک کر تیار ہو گیا پر سنتو مہارانی نہ لوٹی۔

سارے گھر کی صفائیوں کے علاوہ غسلخانے بھی دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی پڑی۔ ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی ہی تھی کہ ایک مہمان بی بی آ گئیں۔ منے کی آنکھ مشکل سے لگی تھی۔ مہمان بی بی حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتی تھیں۔ منا اٹھ بیٹھا اور اٹھتے ہی کھانسنے لگا۔ کالی کھانسی کا بھی ہر علاج کر دیکھا تھا پر نہ تو ہومیوپیتھی سے آرام آیا نہ ڈاکٹری علاج سے۔ حکیموں کے کشتے اور معجون بھی رائیگاں گئے۔ بس ایک علاج رہ گیا تھا اور یہ علاج سنتو جمعدارنی بتایا کرتی تھی۔ بی بی! کسی کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کیا کھلائیں۔ جو کہے سو کھلا۔ دنوں میں آرام آجائے گا۔

لیکن بات تو مہمان بی بی کی ہو رہی تھی۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرمیوں کی دوپہر میں خورشید کو ایک بوتل لینے کے لئے بھگا دیا۔ ساتھ ہی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آگیا کہ پورے پانچ روپے دینے پڑے۔

خورشید پورے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی۔ جب آئی تھی تو بغیر دوپٹے کے کھوکھے تک چلی جاتی تھی اور اب وہ بالوں میں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگی تھی۔ چوری چوری پیروں کو کیوٹیکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بی پاؤڈر استعمال کرنے لگی تھی۔ جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالی سکوائش کی بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچی تو سڑکیں بے آباد سی ہو رہی تھیں، نقدی والے ٹین کی ٹرے میں دھرتی ہوئی خورشید بولی۔

“ایک بوتل مٹی کا تیل لا دودو سات سو سات کے صابنتین پان سادہچار میٹھےایک نلکی سفید دھاگے کیدو لولی پاپ اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی

روڑی کوٹنے والا انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار کے دو تین خالی ڈرم تازہ کوٹی ہوئی سڑک پر اوندھے پڑے تھے۔ سڑک پر سے حدت کی وجہ سے بھاپ سی اٹھتی نظر آتی تھی۔

دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤں یاد آگیا۔ دھلے میں اسی وضع قطع، اسی چال کی سیندوری سے رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتی تھی۔ انگریزی صابن سے منہ دھوتی تھی اور شاید خمیرۂ گاؤ زبان اور کشتۂ مروارید بمعہ شربت صندل کے اتنی مقدار میں پی چکی تھی کہ جہاں سے گزر جاتی سیب کے مربے کی خوشبو آنے لگتی۔ گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس خیال سے اس کی بیمار پرسی کرنے ضرور جاتا کہ شاید وہ اسے حکیم صاحب کے پاس دوا لینے کے لئے بھیج دے۔ جب کبھی ماں کے پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشی ہوتی۔ حکیم صاحب ہمیشہ اس نفخ کی مریضہ کے لئے دو پڑیاں دیا کرتے تھے۔ ایک خالی پڑیا گلاب کے عرق کے ساتھ پینا ہوتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف کے عرق کے ساتھ۔ حکیم صاحب کی بیٹی عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو دیا کرتی۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتنی دیر سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھی سیب کے مربے کی خوشبو آیا کرتی تھی۔

اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اوسارے میں سیب کا مربہ پھیلا ہوا تھا۔

پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھا کر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف دیکھا اور کھنکھار کر بولا”ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟” ایک بوتل مٹی کا تیلدو سات سو سات صابنتین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی بٹر فلائی والی سفید رنگ کی۔ایک بوتل سیون اپ کیجلدی کر، گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کر بولا۔

“یہ تو ہو گئی بول اور”

“بوتل کیوں کھولی تو نےاب بی بی جی ناراض ہو ں گی۔”

“میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے”

“میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے”

“اچھا اچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔ یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا ہوں تجھے”

جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر وہ مین بازار جانے کی بجائے الٹا چودھری کالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا۔

“بی بی! آپ یہاں بوتل کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل پی رہی ہے سٹرا لگا کر۔”

بھائی تو اخبار والے کے فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لئے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا۔

“اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔”

“بڑی بھیڑ تھی جی”

“سراج کے کھوکھے پراس وقت؟”

“بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے ہیںسب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے۔”

“جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔”

خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔

“کیا جانتی ہیں جی آپ”

“ابھی کھوکھے پر کھڑی توبوتل نہیں پی رہی تھی۔”

خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی۔

“وہ میرے پیسوں کی تھی جیآپ حساب کر دیں جی میرامجھ سے ایسی نوکری نہیں ہوتی”

بی بی تو حیران رہ گئی۔سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن مہمان بی بی پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔

آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی۔۔

جب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئی موجود تھا۔ اب کفگیر تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھی کالی کھانسی کا دورہ پڑتا تو رنگت بینگن کی سی ہو جاتی۔ آنکھیں سرخا سرخ نکل آتیں اور سانس یوں چلتا جیسے کٹی ہوئی پانی کی ٹیوب سے پانی رس رس کے نکلتا ہے۔

سارا دن وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر اس نے کونسا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں اس کی زندگی اتنی کٹھن ہے۔ اس کے ساتھ کالج میں پڑھنے والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم پر چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑ جائیں اور یہاں وہ کپڑے دھونے والے تھاپے کی طرح کرخت ہو چکی تھی۔ رات کو پلنگ پر لیٹتی تو جسم سے انگارے جھڑنے لگتے۔ بدبخت خورشید کے دل میں ترس آ جاتا تو دوچار منٹ دکھتی کمر میں مکیاں مار دیتی ورنہ اوئی آئی کرتے نیند آ جاتی اور صبح پھر وہی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور تندور میں لگی ہوئی روٹیوں کی سی سینک!

اس روز دن میں کئی مرتبہ بی بی نے دل میں کہا۔

“ہم سے اچھا گھرانہ نہیں ملے گا تو دیکھیں گے۔ ابھی کل برآمدے میں آئی بیٹھی ہوں گی۔ دونوں کالے منہ والیاں” پر اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب ٹوک کر نہ رہیں گی۔سارے گھرمیں نظر دوڑاتی تو چھت کے جالوں سے لے کر رکی ہوئی نالی تک اور ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والے نلکے تک عجیب کسمپرسی کا عالم تھا، ہر جگہ ایک آنچ کی کسر تھی۔ تین کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھیلی ڈوروں میں دھاری دار پردے پڑے تھے، عجیب سی زندگی کا سراغ دیتا تھا۔ نہ تو یہ دولت تھی اور نہ ہی یہ غریبی تھی۔ ردی کے اخبار کی طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔ جب تک ابا جی زندہ تھے اور بات تھی۔ کبھی کبھار مائیکہ جا کر کھلی ہوا کا احساس پیدا ہو جاتا۔ اب تو ابا جی کی وفات کے بعد امی، اظہر اور منی بھی اس کے پاس آ گئے تھے۔ امی زیادہ وقت پچھلی پوزیشن یاد کر کے رونے میں بسر کرتیں۔ جب رونے سے فراغت ہوتی تو وہ اڑوس پڑوس میں یہ بتانے کے لئے نکل جاتیں کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم تھیں اور حالات نے انہیں یہاں سمن آباد میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔منی کو مٹی کھانے کا عارضہ تھا۔ دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی کر دی تھیں۔ نا مراد سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نر م نرم انگلیوں سے کرید کر دھر دیتی۔ بہت مرچیں کھلائیں۔ کونین ملی مٹی سے ضیافت کی۔ ہونٹوں پر دہکتا ہوا کوئلہ رکھنے کی دھمکی دی پر وہ شیر کی بچی مٹی کو دیکھ کر بری طرح ریشہ خطمی ہوتی۔

اظہر جس کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا، جب اس کالج کے پرنسپل نے تھرڈ ڈویژن کے باعث انکار کر دیا تو دن رات ماں بیٹا مرحوم ڈی سی صاحب کو یاد کر کے روتے رہے۔ ان کے ایک فون سے وہ بات بن جاتی جو پروفیسر فخر کے کئی پھیروں سے نہ بنی۔ امی تو دبی زبان میں کئی بار یہاں تک کہہ چکی تھیں کہ ایسا داماد کس کام کا جس کی سفارش ہی شہر میں نہ چلے۔ نتیجے کے طور پر اظہر نے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر لیا۔ پروفیسر صاحب نے بہت سمجھایا پر اس کے پاس تو باپ کی نشانی ایک موٹر سائیکل تھا۔ چند ایک دوست تھے جو سول لائنز میں رہتے تھے وہ بھلا کیا کالج والج جاتا۔ اس سارے ماحول میں پروفیسر فخر کیچڑ کا کنول تھے۔لمبے قد کے دبلے پتلے پروفیسر سیاہ آنکھیں جن میں تجسس اور شفقت کا ملا جلا رنگ تھا۔ انہیں دیکھ کر خدا جانے کیوں ریگستان کے گلہ بان یاد آ جاتے۔ وہ ان لوگوں کی طرح تھے جن کے آدرش وقت کے ساتھ دھندلے نہیں پڑ جاتےجو اس لئے محکمہ تعلیم میں نہیں جاتے کہ ان سے سی ایس پی کا امتحان پاس نہیں ہو سکتا۔ وہ دولت کمانے کے کوئی بہتر گر نہیں جانتے۔ انہوں نے تو تعلیم و تدریس کا پیشہ اس لئے چنا تھا کہ انہیں نوجوانوں کی پر تجسس آنکھیں پسند تھیں۔ انہیں فسٹ ائیر کے وہ لڑکے بہت اچھے لگتے تھے جو گاؤں سے آتے تھے اور آہستہ آہستہ شہر کے رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ ان کے چہروں سے جو ذہانت ٹپکتی تھی، دھرتی کے قریب رہنے کی وجہ سے ان میں جو دو اور دو چار قسم کی عقل تھی۔پروفیسر فخر انہیں صیقل کرنے میں بڑا لطف حاصل کرتے تھے۔وہ تعلیم کا میلاد النبیﷺ کا فنکشن سمجھتے۔ جب گھر گھر دیے جلتے ہیں اور روشنی سے خوشی کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ان کے ساتھی پروفیسر جب سٹاف روم میں بیٹھ کر خالص Have-Notsکے انداز میں نو دولتی سوسائٹی پر تبصرہ کرتے تو وہ خاموش رہتے کیونکہ ان کا مسلک لوئی پاسچر کا مسلک تھا۔ کولمبس کا مسلک تھا۔ ان کے دوست جب فسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور سلیکشن گریڈ کی باتیں کرتے تو پروفیسر فخر منہ بند کئے اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جما لیتے۔ وہ تو اس زمانے کی نشانیوں میں سے رہ گئے تھے جب شاگرد اپنے استاد کے برابر بیٹھ نہ سکتا تھا۔ جب استاد کے آشیر باد کے بغیر شانتی کا تصور بھی گناہ تھا۔ جب استاد خود کبھی حصول دولت کے لئے نہیں نکلتا تھا لیکن تاجدار اس کے سامنے دو زانو آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ جب وہ شاہ جہانگیر کے دربار میں میاں میر صاحب کی طرح کہتا کہ: “اے شاہ! آج تو بلا لیا ہے پر اب شرط عنایت یہی ہے کہ پھر کبھی نہ بلانا۔”

جب استاد کہتا۔”اے حاکم وقت! سورج کی روشنی چھوڑ کر کھڑا ہو جا۔”

جب بی بی نے پہلی بار پروفیسر فخر کو دیکھا تھا تو فخر کی نظروں کا مجذوبانہ حسن شہد کی مکھیوں جیسا جذبۂ خدمت اور صوفیائے کرام جیسا اندازِ گفتگو اسے لے ڈوبا۔ بی بی ان لڑکیوں میں سے تھی جو درخت سے مشابہ ہوتی ہیں۔ درخت چاہے کیسا ہی آسمان چھونے لگے، بالآخر مٹی کے خزانوں کو نچوڑتا ہی رہتا ہے۔ وہ چاہے کتنے ہی چھتنار کیوں نہ ہو، بالآخر اس کی جڑوں میں نیچے اترتے رہنے کی ہوس باقی رہتی ہےاور پھر پروفیسر کا آدرش کوئی مانگے کا کپڑا تو تھا نہیں کہ مستعار لیا جاتا لیکن بی بی تو ہوا میں جھولنے والی ڈالیوں کی طرح یہی سوچتی رہی کہ اس کا دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہوا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ محبت ان کے لئے کافی ہے۔

تب ابا جی زندہ تھے اور ان کے پاس شیشوں والی کار تھی جس روز وہ بی اے کی ڈگری لے کر یونیورسٹی سے نکلی تو اس کے ابا جی ساتھ تھے۔ ان کی کار رش کی وجہ سے عجائب گھر کی طرف کھڑی تھی۔ مال کو کراس کر کے جب وہ دوسری جانب پہنچے تو فٹ پاتھ پر اس نے پروفیسر کو دیکھا۔ وہ جھکے ہوئے اپنی سائیکل کا پیڈل ٹھیک کر رہے تھے۔

“سر سلام علیکم!”

فخر نے سر اٹھایا اور ذہین آنکھوں میں مسکراہٹ آ گئی۔

“وعلیکم السلام۔ مبارک ہو آپ کو”

سیاہ گاؤن میں وہ اپنے آپ کو بہت معزز محسوس کر رہی تھی۔

“سر میں لے چلوں آپ کو”

بڑی سادگی سے فخر نے سوال کیا”آپ سائیکل چلانا جانتی ہیں؟”

“سائیکل پر نہیں جیمیرا مطلب ہے کار کھڑی ہے۔ جی میری۔”

فخر سیدھا کھڑا ہو گیا اور بی بی اس کے کندھے کے برابر نظر آنے لگی۔

دیکھیے مس استادوں کے لئے کاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد کاروں میں بیٹھ کر دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ استادوں کو دیکھ کر کار روکتے ہیں لیکن استاد شاگردوں کی کار میں کبھی نہیں بیٹھتا کیونکہ شاگرد سے اس کا رشتہ دنیاوی نہیں ہوتا۔ استاد کا آسائش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ مرگ چھالا پر سوتا ہے۔ بڑ کے درخت تلے بیٹھتا اور جو کی روٹی کھاتا ہے۔

بی بی کو تو جیسے ہونٹوں پر بھڑ ڈس گئی۔ابھی چند ثانیے پہلے وہ ہاتھوں میں ڈگری لے کر فل سائز فوٹو کھنچوانے کا پروگرام بنا رہی تھی اور اب یہ گاؤن، یہ اونچا جوڑا، یہ ڈگری، سب کچھ نفرت انگیز بن گیا۔ جب مال روڈ پر ایک فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کار روک کر اباجی نے کہا۔

“ایک تو فائز سائز تصویر کھنچوا لو اور ایک پورٹریٹ”

“ابھی نہیں ابا جی! میں پرسوں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر تصویر کھنچواؤں گی۔”

“صبح کی بات پر ناراض ہو ابھی تک؟” اباجی نے سوال کیا۔

“نہیں جی وہ بات نہیں ہے۔”

صبح جب وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی تو ابا جی نے دبی زبان میں کہا تھا کہ وہ کنووکیشن کے بعد اسے فوٹو گرافر کے پاس نہ لے جا سکیں گے کیونکہ انہیں کمشنر سے ملنا تھا۔ اس بات پر بی بی نے منہ تھ تھا لیا تھااور جب تک ابا جی نے وعدہ نہیں کر لیا تب تک وہ کار میں سوار نہ ہوئی تھی۔

اب کار فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کھڑی تھی۔ ابا جی اس کی طرف کا دروازہ کھولے کھڑے تھے لیکن تصویر کھنچوانے کی تمنا آپی آپ مر گئی۔

بی اے کرنے کے بعد کالج کا ماحول دور رہ گیا۔ یہ ملاقات بھی گرد آلود ہو گئی اور غالباً طاقِ نسیاں پر بھی دھری رہ جاتی اگر اچانک کتابوں کی دکان پر ایک دن اسے پروفیسر فخر نظر نہ آ جاتے۔ وہ حسب معمول سفید قمیض خاکی پتلون میں ملبوس تھے۔ رومن نوز پر عینک ٹکی ہوئی تھی اور وہ کسی کتاب کا غور سے مطالعہ کر رہے تھے۔ بی بی اپنی دو تین سہیلیوں کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی اسے ویمن اینڈ ہوم قسم کے رسالے درکار تھے۔ عید کارڈ اور سٹچ کرافٹ کے پمفلٹ خریدنے تھے۔ لو کیلری ڈائٹ قسم کی ایسی کتابوں کی تلاش تھی جو سالوں میں بڑھایا ہوا وزن ہفتوں میں گھٹا دینے کے مشورے جانتی ہیں لیکن اندر گھستے ہی گویا آئینے کا لشکارا پڑا۔

“سلام علیکم سر”

“وعلیکم السلام” مٹھ کے بھکشو نے جواب دیا۔

“آپ نے مجھے شاید پہچانا نہیں سرمیں آپ کی سٹوڈنٹ ہوں جی۔ ” قمر زبیری

اس نے دوستوں کی طرف خفت سے دیکھ کر کہا۔

“میں نے تمہیں پہچان لیا ہے قمر بی بیکیا کر رہی ہیں آپ ان دنوں؟”

“میں جیکچھ نہیں جی سر!”

ایک سہیلی نے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ دوسری نے کمر میں چٹکی کاٹی لیکن وہ تو اس طرح کھڑی تھی گویا کسی فلم سٹار کے آگے آٹو گراف لینے کھڑی ہو۔

“آپ ایم اے نہیں کر رہی ہیں پولیٹیکل سائنس میں؟”

“اس کی تو شادی ہو رہی ہے سر۔”

کھی کھی کر کے ساری کبوتر زادیاں ہنس دیں۔

بی بی نے قاتلانہ نظروں سے سب کو دیکھا اور بولی۔ “جھوٹ بولتی ہیں جیمیں تو جی ایم اے کروں گی۔

اب پروفیسر مکمل پروفیسر بن گیا جو ان چہرے پر متانت آ گئی۔

“دیکھئے۔ پڑھی لکھی لڑکیوں کا وہ رول نہیں ہے جو آج کل کی لڑکیاں ادا کر رہی ہیں۔ آپ کو شادی کے بعد یاد رکھنا چاہئے کہ تعلیم سونے کا زیور نہیں ہے جسے بنک کے لاکرز میں بند کر دیا جاتا ہے بلکہ یہ تو جادو کی وہ انگوٹھی ہے جسے جس قدر رگڑتے چلے جاؤ اسی قدر خوشیوں کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ آپ کو اس تعلیم کی زکوٰۃ دینا ہو گی۔ اسے دوسروں کے ساتھ Shareکرنا ہو گا۔”

بات بہت معمولی اور سادہ تھی۔ اس نوعیت کی باتیں عموماً عورتوں کے رسالوں میں چھپتی رہتی ہیںلیکن فخر کی آنکھوں میں، اس کی باتوں میں وہ حسن تھا جو ہمیشہ سچائی سے پیدا ہوتا ہے جب وہ پمفلٹ اور وزن گھٹانے کی تین کتابیں خرید کر کار میں آ بیٹھی تو اس کی نظروں میں وہی چہرہ تھا، وہ بھیگی بھیگی آواز تھی۔

پروفیسر فخر کو دیکھنے کی کوئی صورت باقی نہ تھی لیکن اس کی آواز کی لہریں اسے ہر لحظہ زیر آب کئے دیتی تھیں۔ اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے، وہی شکاری کتے جیسا ستا ہوا چہرہ، اندر کو دھنسی ہوئی چمکدار آنکھیں اور خشک ہونٹ نظروں کے آگے گھومنے لگے۔ پھر یہ چہرہ بھلائے نہ بھولتا اور وہ اندر ہی اندر بل کھائی رسی کی طرح مروڑی جاتی۔

ان ہی دنوں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرے گی۔ حالانکہ اس کے گھر والے ایک اچھے بر کی تلاش میں تھے۔ ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہو کر بھی اونچی نشست والی کرسی سے مشابہ ہوتا ہے۔ اباجی کے مال و متاع کو گو اندر سے گھن لگ چکا تھا لیکن حیثیتِ عرفی بہت تھی۔ نوکر چا کر کم ہو گئے تھے۔ سوشل لائف بھی پہلے سی نہ رہی تھی۔ فنکشنوں کے کارڈ بھی کم ہی آتے لیکن رشتے ڈی سی صاحب کی بیٹی کے چلے آ رہے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ آ رہے تھے۔ اس کی امی گو پڑھی لکھی عورت نہ تھی لیکن با اثر با رسوخ خواتین کی صحبت نے اسے خوب صیقل کر دیا تھا۔ اس میں ایک ایسی خوش اعتمادی اور پرکاری پیدا ہو گئی تھی کہ کالجوں کی پروفیسریں اس کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کمتر سمجھا کرتیں۔

جس وقت بی بی نے پولیٹیکل سائنس کرنے پر ضد کی تو امی نے زبردست مخالفت کی۔ ابا جی نے قدم قدم پر اڑچن پیدا کی کہ جو لڑکی ہمیشہ پولیٹیکل سائنس میں کمزور رہی ہے وہ اس مضمون میں ایم اے کیونکر کرے گی۔ کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد ابا جی اس بات پر رضامند ہو گئے کہ وہ پروفیسر سے ٹیوشن لے سکتی ہے۔

جس روز ریٹائرڈ ڈی سی صاحب کی کار سمن آباد گئی تو پروفیسر فخر گھر پر موجود نہ تھے۔ دوسری مرتبہ جب بی بی کی امی گئیں تو پروفیسر صاحب کسی سیمینار میں تشریف لے جا چکے تھے۔ ملاقات پھر نہ ہوئی۔ تیسری بار جب بی بی اور ابا جی ٹیوشن کا طے کرنے گئے تو پروفیسر صاحب مونڈھے پر بیٹھے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھے۔ باہر کے نلکے کے ساتھ نیلے رنگ کی پلاسٹک کی ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ ٹیوب ویل کا پانی سامنے کے تنگ احاطے میں اکٹھا ہو رہا تھا لیکن پروفیسر صاحب اس سے غافل مٹتی شفق میں حروف ٹٹول ٹٹول کر پڑھ رہے تھے۔

پہلے ابا جی نے ہارن بجایا۔ پھر خانساماں خانساماں کہہ کر آوازیں دیں۔ نہ تو اندر سے کوئی باورچی قسم کا آدمی نکلا اور نہ ہی پروفیسر صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ بالآخر ابا جی نے خفت کے باوجود دروازہ کھولا اور بی بی کو ساتھ لے کر برآمدے کے طرف چلے۔ ٹیوب غالباً دیر سے لگی ہوئی تھی اور مٹی کیچڑ میں بدل چکی تھی۔ بڑی احتیاط سے قدم دھرتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچے اور پھر کھنکار کر پروفیسر صاحب کو متوجہ کیا۔

پون گھنٹہ بیٹھنے رہنے کے باوجود نہ تو اندر سے کوکا کولا آیا نہ چائے کے برتنوں کا شور سنا ئی دیا۔ اس بے اعتنائی کے باوجود دونوں باپ بیٹی سہمے سے بیٹھے تھے۔ شام گہری ہو چلی تھی اور سمن آباد یے گھروں کے آگے چھڑکاؤ کرنے میں مشغول تھے۔ قطار صورت گھروں سے ہر سائز اور ہر عمر کا بچہ نکل کر اس چھڑکاؤ کو بطور ہولی استعمال کر رہا تھا۔ عورتیں نائیلون جالی کے دوپٹے اوڑھے آ جا رہی تھیں۔ ایک ایسے طبقے کی زندگی جاری تھی۔ جو نہ امیر تھا اور نہ ہی غریبدونوں کے درمیان کہیں مرغ بسمل کی طرح لٹک رہا تھا۔ جب بات پڑھانے تک جا پہنچی تو پروفیسر فخر بولے۔

“جی ہاں۔ میں انہیں پڑھا دوں گا۔ بخوشی”

اب پہلو بدل کر ریٹائرڈ ڈی سی صاحب نے کہامعاف کیجئے پروفیسر صاحب! لیکن بات پہلے ہی واضح ہو جانی چاہئےیعنی آپمیرا مطلب ہے آپ کی Remuneration کیا ہو گی؟”

ٹیوشن کی فیس کو خوبصورت سے انگریزی لفظ میں ڈھال کر گویا ڈی سی صاحب نے اس میں سے ذلت کی پھانس نکال دی۔

لیکن پروفیسر صاحب کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ مونڈھے کی پشت کو دیوار سے لگا کر بولے۔

“میںمجھےدراصل مجھے گورنمنٹ پڑھانے کا عوضانہ دیتی ہے سر۔ اس کے علاوہمیں ٹیوشن نہیں کرتاتعلیم دیتا ہوں۔ جو چاہے جب چاہے مجھ سے پڑھ سکتا ہے۔۔” “دیکھیے جنابمیں اس لئے پڑھاتا ہوں کہ مجھے پڑھانے کا شوق ہے۔ اگر میں تحصیلدار ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ اگر ضلع کا ڈی سی ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ کچھ لوگ پیدائشی میری طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر مہر ہوتی ہے پڑھانے کیان کے ہاتھوں پر لکیر ہوتی ہے پڑھانے کی۔”

بی بی کے حلق میں نمکین آنسو آ گئے۔ دو غیرتوں کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف ڈی سی صاحب کی وہ غیر ت تھی جسے ہر ضلع کے افسرو ں نے کلف لگائی تھی۔ دوسری جانب ایک Idealistic آدمی کی غیرت تھی جو گھونگے کی طرح اپنا سارا گھر اپنے ہی جسم پر لاد کر چلا کرتا ہے اور ذرا سی آہٹ پا کر اس گھونگے میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔

پروفیسر صاحب بڑی بھلی سی باتیں کئے جا رہے تھے اور اس کے ابا جی مونڈھے میں یو ں بیٹھے تھے جیسے بھاگ جانے کی تدبیریں سوچ رہے ہوں۔

“فائن آرٹس کا دولت کی ذخیرہ اندوزی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں میرا پروفیشن فائن آرٹس کا ایک شعبہ ہے۔ انسان میں کلچر کا شعور پیدا کرنے کی سعیانسان میں تحصیل علم کی خواہش بیدار کرناعام سطح سے اٹھ کر سوچنا اور سوچتے رہناایک صحیح استاد ان نعمتوں کو بیدار کرتا ہے۔ ایک تصویر، ایک گیت، ایک خوبصورت بت بھی یہی کچھ کر پاتے ہیں۔ ساز بجانے والے کو اگر آپ لاکھ روپیہ دیں اور اس پر پابندی لگائیں کہ وہ ساز کو ہاتھ نہ لگائے تو وہ غالباً وہاگر وہ Genuine ہے تو آپ کی پیشکش ٹھکرا دے گامیں ٹیچر ہوں۔ Genuine ٹیچرمیں Fake نہیں ہوں زبیری صاحب!”

ڈی سی صاحب اپنی بیٹی کے سامنے ہار ماننے والے نہیں تھے۔

“اور جو پیٹ میں کچھ نہ ہو تو غالباً سازندہ مان جائے گا۔”

“پھر وہ سازندہ Fake ہو گا۔ Passion کا اس کی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو گا بلکہ غالباً وہ اپنے آرٹ کو ایک تمغہ، ایک پاسپورٹ، ایک اشتہار کی طرح استعمال کرتا ہو گا۔”

“اچھا جی آپ پیسے نہ لیں لیکن بی بی کو پڑھا تو دیا کریں۔”

“جی ہاں۔ میں بخوشی پڑھا دوں گا۔”

“تو کب آیا کریں گے آپ؟میں کار بھجوا دیا کروں گا۔”

پروفیسر فخر کی آنکھیں تنگ ہو گئیں اور وہ ہچکچا کر بولے”میں تو کہیں نہیں جاتا شام کے وقت” “تو میرا تو میرا مطلب ہے کہ آپ اسے پڑھائیں گے کیسے؟”

“یہ چار پانچ کے درمیان کسی وقت آ جایا کریں۔ میں پڑھا دیا کروں گا۔”

بی بی کے پیروں تلے سے یوں زمین نکلی کہ اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک وہ اپنے پلنگ پر لیٹ کر کئی گھنٹے تک آنسوؤں سے اشنان نہ کرتی رہی۔

عورت کے لئے عموماً مرد کی کشش کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ بے نیازی، ذہانت اور فصاحت۔ یہ تینوں اوصاف پروفیسروں میں بقدر ضرورت ملتے ہیں۔ اسی لئے ایسے کالجوں میں جہاں مخلوط تعلیم ہو لڑکیاں عموماً اپنے پروفیسروں کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیںاس محبت کا چاہے کچھ نتیجہ نہ نکلے لیکن ہیروشپ کی طرح اس کا اثر ان کے ذہنوں میں ابدی ہوتا ہے جس طرح ملکیت ظاہر کرنے کے لئے پرانے زمانے میں گھوڑوں کو داغ دیا جاتا تھا اسی طرح اس رات بی بی کے دل پر مہرِ فخر لگ گئی۔

ابا جی ہر آنے جانے والے سے پروفیسر فخر کے احمق پن کی داستان یوں سنانے بیٹھ جاتے جیسے یہ بھی کوئی ویت نام کا مسئلہ ہو۔ ان کے ملنے والے پروفیسر فخر کی باتوں پر خوب ہنستے۔ بی بی کو شبہ ہو چلا تھا کہ انہوں نے بیٹی کو ٹیوشن کی اجازت نہ دی تھی پھر بھی اندر ہی اندر اباجی فخر کی شخصیت سے مرعوب ہو چکے تھے۔

ایک دن جب بی بی اپنی سہیلی سے ملنے سمن آباد گئی اور سامنے والی لائن میں اسے پروفیسر فخر کا مکان دکھائی دیا تو اچانک اس کے دل میں ایک زبردست خواہش اٹھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس وقت پروفیسر صاحب کالج جا چکے ہوں گے۔ پھر بھی وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ سارے کمرے کھلے پڑے تھے۔ لمبے کمرے میں ایک چارپائی بچھی تھی جس کا ایک پایہ غائب تھا اور اس کی جگہ اینٹوں کی تھٹی لگی ہوئی تھی۔ تینوں کمروں میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہر سائز، ہر پیپر اور ہر طرح کی پرنٹنگ والی کتابیں۔ ان کتابوں کو درستگی کے ساتھ آراستہ کرنے کی خواہش بڑی شدت کے ساتھ بی بی کے دل میں اٹھی۔ جستی ٹرنک پر پڑے ہوئے کپڑے، زرد رو چھپکلیاں جو بڑی آزادی سے چھت سے جھانک رہی تھیں اور کونوں میں لگے ہوئے جالے۔ ان چیزوں کا بی بی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ باورچی خانے سے کچھ جلنے کی خوشبو آ رہی تھی لیکن پکانے والا دیگچی سٹوو پر رکھ کر کہیں گیا ہوا تھا۔ بی بی نے تھوڑا سا پانی دیگچی میں ڈالا اور سہیلی سے ملے بغیر آ گئی۔

جس روز بی بی نے پروفیسر فخر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اسی روز جمالی ملک کا رشتہ بھی آگیا۔

جمالی ملک لاہور کے ایک نامی گرامی ہوٹل میں مینجر تھے۔ بڑی پریس کی ہوئی شخصیت تھی۔ اپنی پتلون کی کریز کی طرح۔ اپنے چمکدار بوٹوں کی طرح جگمگاتی ہوئی شخصیتوہ کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار نظر آتے تھے۔ صاف ستھرے دانتوں کی چمک ہمیشہ چہرے پر رہتی۔ جمالی ملک اپنے ہوٹل کی تنظیم، صفائی اور سروس کا سمبل تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ لابی میں پھرتے ہوئے، مدھم بتیوں والی بار میں سرپرائز وزٹ کرتے ہوئے لف کے بٹن دباتے ہوئے۔ ڈائننگ ہال میں وی آئی پیز کے ساتھ پر تکلف گفتگو کرتے ہوئے، ان کا وجود کٹ گلاس کے فانوس کی طرح خوبصورت اور چمکدار تھا۔

جس روز اس بڑے ہوٹل کے بڑے مینجر نے بی بی کے خاندان کو کھانے کی دعوت دی اسی روز ڈرائی کلینر سے واپسی پر بی بی کی مڈبھیڑ پروفیسر فخر کے ساتھ ہو گئی۔ وہ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں والی دکانوں کے سامنے کھڑے تھے اور ایک پرانا سا مسودہ دیکھ رہے تھے۔ ان سے پانچ قدم چھ قدم دور “ہر مال ملے آٹھ آنے” والا چیخ چیخ کر سب کو بلا رہا تھا۔ ذرا سا ہٹ کر وہ دکان تھی جس میں سرخ چونچوں والے ہریل طوطے، افریقہ کی سرخ چڑیاں اور خوبصورت لقے کبوتر غٹر غوں غٹر غوں کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب پر سارے بازار کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا اور وہ بڑے۔ انہماک سے پڑھنے میں مشغول تھے۔

کار پار ک کرنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ بالآخر محکمہ تعلیم کے دفتر میں جا کر پارک کروائی اور پیدل چلتی ہوئی پروفیسر فخر تک جا پہنچی۔ پرانی کتابیں بیچنے والے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ کرم خوردہ کتابوں کے ڈھیر تھے۔ ایسی کتابیں اور رسالے بھی تھے جنہیں امریکن وطن لوٹنے سے پہلے سیروں کے حساب سے بیچ گئے تھے اور جن کے صفحے بھی ابھی نہ کھلے تھے۔

“سلام علیکم سر!”

چونک کر سر نے پیچھے دیکھا تو بی بی شرمندہ ہو گئیاللہ! اس پروفیسر کی آنکھ میں کبھی تو پہچان کی کرن جاگے گی؟ ہر بار نئے سرے سے اپنا تعارف تو نہ کروانا پڑے گا۔

“آپ اتنی دھوپ میں کھڑے ہیں سر”

پروفیسر نے جیب سے ایک بوسیدہ اور گندہ رومال نکال کر ماتھا صاف کیا اور آہستہ سے بولے “ان کتابوں کے پاس آ کر گرمی کا احساس باقی نہیں رہتا۔”

بی بی کو عجیب شرمندگی سی محسوس ہوئی کیونکہ جب کبھی وہ پڑھنے بیٹھتی تو ہمیشہ گردن پر پیسنے کی نمی سی آ جاتی اور اسے پڑھنے سے الجھن ہونے لگتی۔

“آپ کو کہیں جانا ہو تو جی میں چھوڑ آؤں آپ کو۔”

“نہیں میرا سائیکل ہے ساتھشکریہ!”

بات کچھ بھی نہ تھی۔ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کی دکان کے سامنے ایک بے نیاز چھوڑے پروفیسر کے ساتھ جس کے کالر پر میل کا نشان تھا، ایک سرسری ملاقات تھی چند ثانیے بھر کی۔ لیکن اس ملاقات کا بی بی پر تو عجیب اثر ہوا۔ سارا وجود تحلیل ہو کر ہوا میں مل گیا۔ کندھوں پر سر نہ رہا اور پاؤں میں ہلنے کی سکت نہ رہی تھی۔ حالانکہ پروفیسر فخر نے اس سے ایک بات بھی ایسی نہ کی جو بظاہر توجہ طلب ہوتی۔ پر بی بی کے تو ماتھے پر جیسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے چندن کا ٹیکہ لگا دیا۔ کھوئی کھوئی سی گھر آئی اور غائب سی بڑے ہوٹل پہنچ گئی۔ جب وہ شمعوز کی ساڑھی پہنے آئینہ خانے سے لابی میں پہنچی تو دراصل وہ آکسیجن کی طرح ایک ایسی چیز بن چکی تھی جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جمالی ملک صاحب شارک سکن کے سوٹ میں ملبوس، کالر میں کارنیشن کا پھول لگائے گھٹنوں پر کلف شدہ سرویٹ سرکھے اتنے ٹھوس نظر آ رہے تھے کہ سامنے میز پر کہنیاں ٹکائے جھینگے کا پلاؤ اور چوپ سوٹی کھانے والی لڑکی پر انہیں شبہ تک نہ ہو سکا اور وہ جان ہی نہ سکے کہ مسلسل باتیں کرنے والی لڑکی دراصل ہوٹل میں موجود ہی نہیں ہے۔ اگر بی بی کی شادی جمالی ملک سے ہو جاتی تو کہانی آئسنگ لگے کیک کی طرح دلآویز ہوتی۔ لفٹ کی طرح اوپر کی منزلوں کو چڑھنے والی۔ سوئمنگ پول کے اس تختے کی طرح جس پر چڑ ھ کر ہر تیرنے والا سمرسولٹ کرنے سے پہلے کئی فٹ اوپر چلا جایا کرتا ہے۔ لیکن شادی تو بی بی کی پروفیسر فخر سے ہو گئی۔

ڈی سی صاحب کی بیٹی کا بیاہ اس کی پسند کا ہوا اور اس شادی کی دعوت ہوٹل میں دی گئی جس کے مینجر جمالی صاحب تھے۔ دلہن کے گھر والوں نے چار ڈی لکس قسم کے کمرے دو دن پہلے سے بک کر رکھے تھے اور بڑے ہال میں جہاں رات کا آکسٹرا بجا کرتا ہے، وہیں دولہا دلہن کے اعزاز میں بہت بڑی دعوت رہی۔ نکاح بھی ہوٹل میں ہی ہوا اور رخصتی بھی ہوٹل ہی سے ہوئی۔ ساری شادی کا ہنگامہ مفقود تھا۔ ایک ٹھنڈ کا، ایک خاموشی کا احساس مہمانوں پر طاری تھا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے ہال میں یخ بستہ کولڈ ڈرنکز پیتے ہوئے سرد مہر سے مہمانوں سے مل کر بی بی اپنے میاں کے ساتھ سمن آباد چلی گئی۔

لیکن اس رخصتی سے پہلے ایک اور بھی چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ نکاح سے پہلے جب دلہن تیار کی جا رہی تھی اور اسے زیور پہنایا جا رہا تھا، اس وقت بجلی اچانک فیوز ہو گئی۔ پہلے بتیاں گئیں پھر ائیر کنڈیشنر کی آواز بند ہو گئی۔ چند ثانئے تو کانوں کو سکون سا محسوس ہوا لیکن پھر لڑکیوں کا گروہ کچھ تو گرمی کے مارے اور کچھ موم بتیوں کی تلاش میں باہر چلا گیا۔ اندھیرے کمرے میں ایک آراستہ دلہن رہ گئی۔ ارد گرد خوشبو کا احساس باقی رہا اور باقی سب کچھ غائب ہو گیا۔

بتیاں پورے آدھے گھنٹے بعد آئیں۔اب خدا جانے یہ جمالی ملک کی سکیم تھی یا واپڈا والوں کی سازش تھی۔ بجلی چلے جانے کے کوئی دس منٹ بعد بی بی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈری ہوئی آواز میں بی بی نے جواب دیا۔

“کم ان”

ہاتھ میں شمعدان لئے جمالی ملک داخل ہوا۔اس نے آدھی رات جیسا گہرا نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ کالر میں کارنیشن کا پھول تھا اور اس کے آتے ہی تمباکو ملی کوئی تیز سی خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔ بی بی کا دل زور زور سے بجنے لگا۔

“میں یہ بتانے آیا تھا کہ ہمارا جنریٹر خراب ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں بجلی آجائے گیکسی چیز کی ضرورت تو نہیں آپ کو؟”\ وہ خاموش رہی۔

“میں یہ کینڈل سٹینڈ آپ کے پاس رکھ دوں؟”

اثبات میں بی بی نے سر ہلا دیا۔

جمالی ملک نے شمعدان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔ جب پانچ موم بتیوں کا عکس بی بی کے چہرے پر پڑا اور کنکھیوں سے اس نے آئینے کی طرح دیکھا تو لمحہ بھر کو تو اپنی صورت دیکھ کر وہ خود حیران سی رہ گئی۔

“آپ کی سہیلیاں کدھر گئیں؟”۔

“وہ نیچے چلی گئی ہیں شاید”

“اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو تو میں یہاں بیٹھ جاؤں چند منٹ۔”

بی بی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

وہ اپالو کی طرح وجیہہ تھا۔ جب اس نے ایک گھٹنے پر دوسرا گھٹنا رکھ کر سر کو صوفے کی پشت سے لگایا تو بی بی کو عجیب قسم کی کشش محسوس ہوئی۔ جمالی ملک کے ہاتھ میں سارے ہوٹل کی ماسٹر چابیاں تھیں اور اس کی بڑی سی انگوٹھی نیم روشنی میں چمک رہی تھی۔ اس خاموش خوبصورت آدمی کو بی بی نے اپنے نکاح سے آدھ گھنٹہ پہلے پہلی بار دیکھا اور اس کی ایک نظر نے اسے اپنے اندر اس طرح جذب کر لیا جسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کرتا ہے۔

“میں آپ کو مبارکباد پیش کر سکتا ہوں؟” اس نے مضطرب نظروں سے بی بی کو دیکھ کر پوچھا۔

وہ بالکل چپ رہی۔

“لڑکیاںخاص کر آپ جیسی لڑکیوں کو ایک بڑا زعم ہوتا ہے اور اسی ایک زعم کے ہاتھوں وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھتی ہیں۔”

نقلی پلکوں والے بوجھل پپوٹے اٹھا کر بی بی نے پوچھا”کیسی غلطی؟”

“کچھ لڑکیاں محض رشی سادھوؤں کی تپسیا توڑنے کو خوشی کی معراج سمجھتی ہیں” وہ سمجھتی ہیں کہ کسی کی بے نیازی کی ڈھال میں سوراخ کر کے وہ سکون معراج کو پالیں گی۔ کسی کے تقویٰ کو برباد کرنا خوشی کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے زہد کو عجز و انکساری میں بدل دینا کچھ اپنی راحت کا باعث نہیںہاں دوسروں کے لئے احساسِ شکست کا باعث ہو سکتی ہے یہ بات

چابیاں ہاتھ میں گھوم پھر رہی تھیں۔ ذہانت اور فصاحت کا دریا رواں تھا۔

“یہ زعمعورتوں میں، لڑکیوں میں کب ختم ہو گا؟میرا خیال تھا آپ ذہین ہیں لیکن آپ بھی وہی غلطی کر بیٹھی ہیں جو عام لڑکی کرتی ہے۔ آپ بھی توبہ شکن بننا چاہتی ہیں۔”

“مجھےمجھے پروفیسر فخر سے محبت ہے۔”

“محبت؟ آپ پروفیسر فخر کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اندر سے وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ اپنے تمام آئیڈیلز کے باوجود وہ بھی کھانا کھاتے ہیں۔ سوتے ہیںاور محبت کرتے ہیںان کا کوٹ آف آرمر اتنا سخت نہیں جس قدر وہ سمجھتے ہیں۔”

وہ چاہتی تھی کہ جمالی ملک سے کہے کہ تم کون ہوتے ہو مجھے پروفیسر فخر کے متعلق کچھ کہنے والے! تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ یہاں لیدر کے صوفے سے پشت لگا کر سارے ہوٹل کے ماسٹر چابیاں ہاتھ میں لے کر اتنے بڑے آدمی پر تبصرہ کرولیکن وہ بے بس سنے جا رہی تھی اور کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔

“میں پروفیسر صاحب سے واقف نہیں ہوں لیکن جو کچھ سنا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ وہ اگر مجرد رہتے تو بہتر ہوتاعورت تو خواہ مخواہ توقعات سے وابستہ کر لینے والی شے ہےوہ بھلا اس صنف کو کیا سمجھ پائیں گے؟”

“جمالی صاحب!اس نے التجا کی۔

“آپ سی لڑکیاں اپنے رفیق حیات کو اس طرح چنتی ہیں جس طرح مینو میں سے کوئی اجنبی نام کی ڈش آرڈر کر دی جائے محض تجربے کی خاطرمحض تجسس کے لئے۔ وہ پھر بھی چپ رہی۔ “اتنے سارے حسن کا پروفیسر صاحب کو کیا فائدہ ہو گا بھلامنی پلاٹ پانی کے بغیر سوکھ جاتا ہے۔ عورت کا حسن پرستش اور ستائش کے بغیر مرجھا جا تا ہے کسی ذہین مرد کو بھلا کسی خوبصورت عورت کی کب ضرورت ہوتی ہے؟ اس کے لئے تو کتابوں کا حسن بہت کافی ہے۔”

شمعدان اپنی پانچ موم بتیوں سمیت دم سادھے جل رہا تھا اور وہ کیوٹیکس لگے ہاتھوں کو بغور دیکھ رہی تھی۔

“مجھ سے بہتر قصیدہ گو آپ کو کبھی نہیں مل سکتا قمرمجھ سا گھر آپ کو نہیں مل سکتا کیونکہ میرا گھر اس ہوٹل میں ہے اور ہوٹل سروس سے بہتر کوئی سروس نہیں ہوتی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری باتوں پر آپ کو اس وقت یقین آئے گا جب آپ کے چہرے پر چھائیاں پڑ جائیں گی۔ ہاتھ کیکر کی چھال جیسے ہو جائیں گے اور پیٹ چھاگل میں بدل جائے گامیں تو چاہتا تھامیری تو تمنا تھی کہ جب ہم اس ہوٹل کی لابی میں اکٹھے پہنچتےجب اس کی بار میں ہم دونوں کا گزر ہوتا۔ جب اس کی گیلریوں میں ہم چلتے نظر آتے تو امریکن ٹورسٹ سے لے کر پاکستانی پیٹی بورژوا تک سب، ہماری خوش نصیبی پر رشک کرتے لیکن آپ آئیڈیلسٹ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ حسن کے لئے گڑھا ہے بربادی کا۔”

ساون کی رات جیسا گہر ا نیلا سوٹ، کارنیشن کا سرخ پھول اور آفٹر شیولوشن سے بسا ہوا چہرہ بالآخر دروازے کی طرف بڑھا اور بڑھے ہوئے بولا۔

“کسی سے آئیڈیلز مستعار لے کر زندگی بسر نہیں ہو سکتی محترمہآدرش جب تک اپنے ذاتی نہ ہوں ہمیشہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کا پودا ریگستان میں نہیں لگا کرتا۔”

اس میں تو اتنا حوصلہ بھی نہ رہا تھا کہ آخری نظر جمالی ملک پر ہی ڈال لیتی۔ دروازے کے مدور ہینڈل پر ہاتھ ڈال کر جمالی ملک نے تھوڑا سا پٹ کھول دیا۔ گیلری سے لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔

“میں بھی کس قدر احمق ہوں۔ اس سے اپنا کیس pleadکر رہا ہوں جو کبھی کا فیصلہ کر چکی ہےاچھا جی مبارک ہو آپ کو”

دروازہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔جاتے ہوئے وجیہہ مینجر کو ایک نظر بی بی نے دیکھا اور اپنے آپ پر لعنت بھیجتی ہوئی اس نے نظریں جھکا لیں۔چند لمحوں بعد دروازہ پھر کھلا اور ادھ کھلے پٹ سے جمالی ملک نے چہرہ اندر کر کے دیکھا۔ اس کی ہلکی براؤن آنکھوں میں نمی اور شراب کی ملی جلی چمک تھی جیسے گلابی شیشے پر آہوں کی بھاپ اکٹھی ہو گئی ہو۔

“مجھ سے بہتر آدمی تو آپ کو مل رہا ہےلیکن مجھ سے بہتر گھر نہ ملے گا آپ کو مغربی پاکستان میں۔”

اسی طرح سنتو جمعدارنی کے جانے پر بی بی نے سوچا تھا۔ ہم سے بہتر گھر کہاں ملے گا کلموہی کو۔ اسی طرح خورشید کے چلے جانے پر وہ دل کو سمجھاتی تھی کہ اس بد بخت کو اس سے اچھا گھر کہاں ملے گا اور ساتھ ساتھ بی بی یہ بھی جانتی تھی کہ اس سے بہتر گھر چاہے نہ ملے وہ لوٹ کر آنے والیوں میں سے نہیں تھیں۔ اتنے برس گزرنے کے بعد ایک پل تعمیر ہو گیا۔ آپی آپ ماضی سے جوڑنے والا۔ وہ دل برداشتہ انار کلی چلی گئیاس کا خیال تھا کہ وہ چار گھٹنے کی غیر موجودگی میں سب کچھ ٹھیک کر دے گی۔ سنتو جمعدارنی اور خورشید تک کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ لیکن ہوا یوں کہ جب وہ اپنے اکلوتے دس روپے کے نوٹ کو ہاتھ میں لئے بانو بازار میں کھڑ ی تھی اور سامنے ربڑ کی چپلوں والے سے بھاؤ کر رہی تھی اور نہ چپلوں والے پونے تین سے نیچے اترتا تھا اور نہ وہ ڈھائی روپے سے اوپر چڑھتی تھی، عین اس وقت ایک سیاہ کار اس کے پاس آ کر رکی۔ اپنے بوائی پھٹے پیروں کو نئی چپل میں پھنساتے ہوئے اس نے ایک نظر کار والے پر ڈالی۔

وہ اپالو کے بت کی طرح وجیہہ تھا۔

کنپٹیوں کے قریب پہلے چند سفید بالوں نے اس کی وجاہت پر رعبِ حسن کی مہر بھی لگا دی تھی۔ وقت نے اس سینٹ کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ وہ اسی طرح محفوظ تھا جیسے ابھی کولڈ سٹوریج سے نکلا ہو۔

بی بی نے اپنے کیکر کے چھال جیسے ہاتھ دیکھےپیٹ پر نظر ڈالی جو چھاگل میں بدل چکا تھا اور ان نظروں کو جھکا لیا جن میں اب کتیرہ گوند کی بجھی بجھی سی چمک تھی۔

جمالی ملک اس کے پاس سے گزرا لیکن اس کی نظروں میں پہچان کی گرمی نہ سلگی۔ واپسی پر وہ پروفیسر صاحب سے آنکھیں چرا کر بستر پر لیٹ گئی اور آنسوؤں کا رکا ہوا سیلاب اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔

پروفیسر صاحب نے بہت پوچھا لیکن وہ انہیں کیا بتاتی کہ درخت چاہے کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو جائے اس کی جڑیں ہمیشہ زمین کو ہوس سے کریدتی رہتی ہیں۔ وہ انہیں کیا سمجھاتی کہ آئیڈیلز کچھ مانگے کا کپڑا نہیں جو پہن لیا جائے۔ وہ انہیں کیا کہتی کہ عورت کیسے توقعات وابستہ کرتی ہے

اور

یہ توقعات کا محل کیونکہ ٹوٹتا ہے؟

وہ غریب پروفیسر صاحب کو کیا سمجھاتی!

ایسی باتیں تو غالباً جمالی ملک بھی بھول چکا تھا۔
—————————————————————-
(بشکریہ ریختہ ڈارٹ آرگ)

Ye Dhuwan Sa by Salam Bin Razzak

Articles

یہ دھواں سا

سلام بن رزّاق

جب اس کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہورہی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ بغل میں بیوی بے خبر سورہی تھی بلکہ ہلکے ہلکے خراٹے بھی لے رہی تھی۔ وہ مسکرایا، بیوی اکثر اس کے خرّاٹوں کا ذکر کیا کرتی ہے مگر اب وہ خود خرّاٹے لے رہی تھی اور اپنے خرّاٹوں سے بے خبر تھی۔ یہ خرّاٹے بھی عجیب چیز ہیں۔ خرّاٹے لینے والاتو گہری نیند کے مزے لے رہا ہوتا ہے اور اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ دوسروں کو کس قدر ڈسٹرب کررہا ہے۔ وہ پلنگ سے اُترا واش روم سے فارغ ہوا۔ وضو کیا اور الماری سے مصلّٰی نکال کر فجر کی نماز ادا کی۔ مصلّٰی لپیٹ کر دوبارہ الماری میں رکھ دیا۔ بیوی اسی طرح خرّاٹے لے رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈروم سے باہر نکلا۔ پورا گھر سنّاٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیٹے بہو کے کمرے کی طرف دیکھا۔ دروازہ بند تھا۔ بہو عموماً اس وقت اُٹھ جاتی تھی۔ شاید آج اس کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ اس کے لیے سیر پر جانے سے پہلے صبح کی چائے بہو ہی بناتی تھی۔ بیوی گٹھیا کی پرانی مریضہ تھی عرصہ ہوا اس نے اسے صبح جگانا چھوڑ دیا تھا۔
 اس نے سوچا خود ہی ایک کپ چائے بنالے مگر برتنوں کی کھٹر پٹر سے خواہ مخواہ سب کے آرام میں خلل پڑنے کے خیال سے ارادہ ترک کردیا۔ سوچا آج باہر ہی کسی ٹپری پر چائے پی لے گا۔ شال کاندھے پر ڈالی، جوتے پہنے اور آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔سپیدۂ صبح نمودار ہوچکی تھی۔ آسمان کا رنگ ہلکا پڑگیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ سڑک سنسان تھی، سڑک کے کنارے درختوں پر چڑیاں چہچہانے لگی تھیں۔ ایک طرف دو کتّے خوش فغلیوں میں مصروف تھے۔ اس کے قدم جو گرس پارک کی طرف اٹھ رہے تھے۔ وہ آج اپنے آپ کونسبتاً بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ عموماً صبح اُٹھنے کے بعد تھوڑی دیر تک جو کسلمندی کا احساس ہوتا تھا وہ آج ندارد تھا، گٹھیا کی شکایت تو اسے بھی تھی مگر روزانہ صبح کی سیر سے کافی افاقہ تھا، ایک زمانے میں وہ فٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ ریاستی سطح پر اس نے کئی میچوں میں حصہ لیا تھا اور کئی میڈل بھی جیتے تھے مگر آگے چل کر گھریلو ذمہ داریوں اور بڑھتی عمر کے ساتھ دھیرے دھیرے فٹ بال کا شوق ماند پڑتا چلا گیا۔ تِس پر گٹھیا کے مرض نے تو بالکل لاچار کردیا۔ اب فٹ بال صرف اس کی یادوں میں زندہ تھا۔ آج بھی کہیں فٹ بال کا میچ ہورہا ہو تو وہ بڑے شوق سے دیکھنے جاتا ہے۔ ٹی وی پر تو روزانہ وہ اسپورٹس چینل پر صرف فٹ بال کا میچ ہی دیکھتا ہے۔ فٹ بال کے خیال کے ساتھ اس کی ایک سنہری یاد بھی جڑی ہوئی تھی۔
پونے میں ریاست کا فائنل میچ تھا۔ مقابل ٹیم برابر کی ٹکّر دے رہی تھی۔ دونوں کے چار چار گول ہوچکے تھے۔ آخری پانچ منٹ باقی تھے۔ دونوں ٹیم کہ کھلاڑی جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ وہ بھی پورے فارم میں تھا۔ ٹیم کے چار گول میں سے دو گول اس نے بنائے تھے۔ گیند دھیرے دھیرے مقابل ٹیم کے گول پوسٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میدان میں تماشائیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ٹیم کا ایک کھلاڑی ڈربلنگ Dribbling کرتا ہوا اس کی طرف آرہا ہے۔ وہ چوکنّا ہوگیا کھلاڑی نے گیند اسے پاس کی وہ نیٹ کے قریب تھا۔ جوں ہی گیند آئی اس نے سرعت سے کک لگائی۔ گیند گول کیپر کے سر پر سے ہوتی ہوئی سیدھے گول پوسٹ کے اندر چلی گئی۔ آخری گول ہوگیا۔ ان کی ٹیم جیت گئی۔ میدان خوشی کے نعروں سے گونجنے لگا، ساتھی کھلاڑی اس پر ٹوٹ پڑے وہ ان کی گرفت سے نکل کر پویلین کی طرف دوڑنے لگا۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ تماشائیوں میں ایک سیاہ فام لڑکی بیریئر پھلانگ کر دوڑتی ہوئی اس کی طرف آرہی ہے۔ اس نے پیلے رنگ کی شارٹ اسکرٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی نصف سے زیادہ چمکدار رانیں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ وہ غالباً افریقہ کے کسی علاقے کی باشندہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سر پر سیاہ گھنگرویالے بالوں کو دیکھ کر شہد کے بڑے سے چھتّے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ سیدھے اس کی پاس آئی اور گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے گرم گرم گداز ہونٹ اس کے ہونٹوں پر پیوست کردیے۔ یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ سٹ پٹا گیا۔ لمحہ بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ البتہ اس کے دونوں ہاتھ اضطراری طور پر اس کی کمر کے گردحمائل ہوگئے، اور اس نے بھی پوری گرم جوشی کے ساتھ اسے بھینج لیا۔ ہنسی، قہقہوں اور نعروں سے میدان گویا ہوا میں اڑا جارہا تھا۔ اتنے میں گراؤنڈ کے سیکوریٹی گارڈز ان کی طرف دوڑے مگر اس سے پہلے کہ وہ اُن تک پہنچتے وہ اس سے چھٹک کر بجلی کی سرعت کے ساتھ ایک طرف بھاگ گئی۔ گارڈز اس کے پیچھے لپکے مگر وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی تماش بینوں کی بھیڑ میں گم ہوگئی۔ اس کے ساتھی کھلاڑی اسے کاندھے پر اٹھائے پویلین کی طرف جارہے تھے۔ مگر وہ مڑ مڑ کر اسی طرف دیکھتا رہا جہاں لڑکی تماشائیوں کے درمیان غائب ہوئی تھی۔
یہ واقعہ اس کے ذہن پر ایسا نقش ہوا کہ اس کے بعد جب بھی وہ میدان میں اترتا اس کی متجسس نگاہیں تماشائیوں میں اسے تلاش کرنے لگتیں اور ہر سیاہ فام لڑکی پر اس کا گمان گزرتا مگر وہ لڑکی اسے پھر کبھی نظر نہیں آئی۔ البتہ اس کے بوسے کی تپش کو وہ تا عمر محسوس کرتا رہا۔ اس کی شادی ہوگئی۔ سہاگ رات پر جب اس نے بیوی کا پہلا بوسہ لیا تو ایک دم اسے اس لڑکی کے سرخ گداز اور گرم ہونٹ یاد آگئے۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیوی کے ہزاروں بوسے لیے ہوں گے مگر اس سیاہ فام لڑکی کے آتشیں بوسے کی حرارت کو وہ کبھی فراموش نہیں کرسکا۔
وہ سوچنے لگا بعض اوقات معمول واقعات بھی زندگی کے کینواس پر کیسا گہرا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس نے ایک اچھی اور اطمینان بخش زندگی گزاری تھی۔ سلیقہ مند، خوبصورت بیوی، ہونہار بیٹا، خدمت گزار بہو، ہیرے جیسے دوپیارے پیارے پوتے، پنشن کے علاوہ کئی لاکھ کی فکس ڈپازٹ، بیٹا ایک بڑی فرم میں منیجر، موٹی تنخواہ، بہو ٹیچر، گھر میں روپیوں کی ریل پیل، کسی چیز کی کمی نہیں، کوئی حسرت نہیں، چار سال قبل میاں بیوی حج سے بھی سرفراز ہوچکے تھے۔ پچھلے سال پوری فیملی عمرہ بھی کر آئی۔ اسے مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا مگر ریٹائرمینٹ کے بعد فجر اور مغرب کی نمازیں پڑھ لیا کرتا، البتہ جمعہ کی نماز کبھی ناغہ نہ کرتا۔ رمضان میں کبھی کبھی گنڈے دار روزے بھی رکھ لیا کرتا۔
وہ ایک سیدھا سادہ عام سا شخص تھا۔ کلرک تھا تب اپنے باس کا احترام کرتا اور اس کے احکامات کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ جب خود آفیسر بنا تو اپنے ماتحتین سے نرم روی اور کشادہ قلبی سے پیش آتا، وہ اپنے اسٹاف میں کافی ہر دلعزیز تھا۔ جب وہ ریٹائر ہوا تو اس کے اسٹاف نے اسے ایک شاندار سینڈ آف پارٹی دی اور بطور گفٹ قیمتی سونے کی گھڑی پیش کی۔
ریٹائرمینٹ کے بعد چند ماہ میں ہی اس کا وزن بڑھنے لگا۔ فیملی ڈاکٹر نے بتایا کہ بڑھاپے میں وزن بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھو اور روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ واک کرو۔ گھر سے ذرا فاصلے پر جوگرس پارک تھا اس نے پہلی فرصت میں جوگرس پارک کی ممبرشپ لے لی اور روزانہ صبح واک کرنا اپنا معمول بنا لیا۔
چلتے چلتے اچانک اسے ٹھوکر لگی۔ وہ گرتے گرتے بچا۔ ایک روڑا جوتے کی نیچے آگیا تھا۔ اس نے ہلکی سی ٹھوکر کے ساتھ روڑے کو ایک طرف ہٹا دیا۔ ایک موٹر سائیکل پھٹ پھٹاتی ہوئی اس کے قریب سے نکل گئی۔ اس نے ارد گرد نگاہ ڈالی۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ بے خیالی میں کسی اور طرف نکل آیا ہے۔ جوگرس پارک کا راستہ تو پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اسے کوفت بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ ایسا کیسے ہوا؟ روزانہ کا دیکھا بھالا راستہ وہ کیسے بھول گیا۔ وہ کافی دُور نکل آیا تھا مگر واپس مڑنے کی بجائے وہ آگے بڑھتا رہا۔ سوچااگلے کسی موڑ پر جوگرس پارک کی طرف مڑ جائے گا۔ سورج نکل آیا تھا اور کنکنی دھوپ میں تمازت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے شال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیا۔ جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ اسے تھکن محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا سامنے ایک بس اسٹاپ نظر آرہا تھا مگر وہاں کوئی مسافر دکھائی نہیں دیا۔ اس نے سوچا بس اسٹاپ پر تھوڑا سُستا لینا چاہئے۔ وہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچا۔ بس اسٹا پ کی پیشانی پر کینسل لکھا ہوا تھا اور اس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ وہ بس اسٹاپ کی شکستہ نشست پر بیٹھ گیا۔ کافی دن نکل آیا تھا۔ اس نے سوچا اب جوگرس پارک جانا بیکار ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا سُستا کر وہ واپس گھر چلا جائے گا۔ سڑک پر اکّا دکّا سواری آجارہی تھی۔ اس نے نشست کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کرلیں۔ اسے بڑی راحت ملی۔ اس پر ہلکی سے غنودگی طاری ہونے لگی۔ پھر اسے پتا نہیں وہ کتنی دیر تک اسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے مچ مچاتی آنکھوں سے اپنے ارد گرد دیکھا۔ چاروں طرف ایک غبار آلود سنّاٹا پھیلا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ عینک اتار کر شیشے صاف کئے اور دوبارہ عینک لگا کر اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ یہ تو قبرستان ہے۔ وہ قبرستان میں بچھی ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا یہ تو وہی قبرستان ہے جو جوگرس پارک سے ذرا سے فاصلے پر واقع تھا اور وہ کئی بار مختلف جنازوں کے ساتھ یہاں آچکا تھا۔
 اسے یاد آیا کہ بس اسٹاپ پرسُستاتے وقت اس کی آنکھ جھپک گئی تھی۔ تو کیا وہ غنودگی کے عالم میں چلتا ہوا جوگرس پارک کی بجائے قبرستان آگیا تھا۔ مگر اسے کبھی نیند میں چلنے کا مرض تو نہیں تھا۔ اس نے سوچا یہ تو بڑی تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹر سے مشورہ لینا پڑے گا۔ وہ کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا اور قبروں کے درمیان بنی ہوئی روش پر چلتا ہوا گیٹ کی طرف بڑھا۔ چند قدم چلا تھا کہ سامنے گیٹ سے ایک جنازہ داخل ہوتا نظر آیا۔ لوگ سفید گول ٹوپیاں اوڑھے یا سروں پر رومال باندھے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ وہ چلتے چلتے رک گیا۔ جنازے کو پیٹھ دکھانا مناسب نہیں تھا، اسے جنازے میں کچھ شناسا چہرے بھی نظر آئے۔ اسے تشویش ہوئی۔ کس کا جنازہ ہے؟ لوگ جنازہ لئے ایک تازہ کُھدی ہوئی قبر کے پاس پہنچ گئے۔ جنازے کو اتار کر زمین پر رکھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا بھیڑ کے قریب پہنچا۔ ایک شناسا چہرے والے سے پوچھا ’’کون تھا؟‘‘ وہ کوئی جواب دیئے بغیر آگے بڑھ گیا۔ شاید اس نے اس کا سوال ہی نہیں سنا۔
جنازے میں شریک لوگ قبرستان میں اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔ کچھ قبرستان میں بچھی بینچوں میں بیٹھ گئے۔ بعض چار چار پانچ پانچ کی ٹکڑیوں میں بٹے دھیمے دھیمے بتیا رہے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا۔ سایے لمبے ہوتے جارہے تھے۔ اسے ایک بار پھر حیرت نے آگھیرا۔ پورا دِن گزر گیا اور اسے پتا بھی نہیں چلا۔ اتنے میں کسی نے آواز دی۔ ’’میّت کے رشتے دار آخری دیدار کرلیں‘‘ اس نے سوچا کسی سے کچھ پوچھنے کی بجائے خود چل کی دیکھ لینا چاہئے کہ میّت کس کی ہے؟
لوگ قبر کو گھیرے کھڑے تھے وہ لوگوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا قبر کے کنارے پہنچ گیا۔ قبر میں جھانک کر دیکھا۔ میّت کو قبر میں لٹا دیا گیا تھا۔ کوئی شخص قبر میں ہی کھڑا تھا۔ ارے یہ تو غوث محمد تھا۔ جو اکثر محلے والوں کی موت مٹّی یا شادی بیاہ میں پیش پیش رہتا تھا۔ مولوی صاحب کی آواز آئی
’’چہرہ دکھاؤ۔‘‘
غوث محمد نے جھک کر میّت کے چہرے سے کفن ہٹایا۔ اس نے میّت کو غور سے دیکھا۔ اسے جھٹکا سا لگا۔ میت کی شکل اس سے ملتی جلتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے سیدھے گال پر بڑا سا مسا بھی صاف نظر آرہا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے گال پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے گال پر بھی ویسا ہی مسّا موجود تھا۔ اس نے گھبرا کر اطراف کے لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ بیشتر اس کے عزیز رشتے دا ر تھے۔ چھوٹا بھائی اختر، اس کا بیٹا اکرم، غفور چچا، اس کا دوست امین مرزا، اس نے دیکھا اکرم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ منہ پر رومال رکھے اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔
چھوٹے بھائی کا بھی تقریباً وہی حال تھا۔ غوث محمد نے جھک کر میّت کا چہرہ کفن سے ڈھک دیا اور جلدی جلدی قبر میں برگے لگانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اس نے بیٹے کو آواز دی۔ ’’اکرم!‘‘ پھر چھوٹے بھائی کو پکارا ۔۔۔ ’’اختر!‘‘ مگر اس کی آواز کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ غوث محمد برگے لگانے کے بعد اچک کر قبر کے باہر آگیا۔ مولوی صاحب نے آواز لگائی۔
’’قل کی مٹّی دیجئے۔۔۔‘‘ لوگ مٹھیاں بھر بھر کر قبر میں مٹّی ڈالنے لگے۔ غوث محمد اور گورکن پھاوڑوں کے ذریعے تیزی سے قبر میں مٹّی سرکانے لگے۔ اس نے ایک چیخ ماری۔
’’ارے سنو! آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کسے گاڑ رہے ہیں۔ میری طرف دیکھو۔ میں زندہ ہوں۔ کیا تم سب لوگ اندھے بہرے ہوگئے ہو؟ کیا تمہیں میں دکھائی نہیں دے رہا ہوں؟ کیا تمہیں میری چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہے؟‘‘
بھر بھر ۔۔۔ بھر بھر ۔۔۔ قبر مٹّی سے بھرتی جارہی تھی۔ وہ چیختا، روتا، بلبلاتا، وہیں قبر کے سرہانے اُکڑوں بیٹھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر مٹّی سے بھر دی گئی۔ غفور چچا نے اگربتّیوں کا بنڈل نکالا اور ایک ساتھ دس پندرہ اگربتّیاں سُلگائیں اور انہیں قبر کی مٹّی میں کھبو دیا۔ وہ اُسی طرح قبر کے سرہانے اکڑوں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اب اس میں رونے کی سکت بھی باقی نہیں تھی۔ مولوی صاحب نے فاتحہ پڑھی اور لوگوں کی بھیڑ چھٹنے لگی۔ اس کا بیٹا، بھائی چچا اور دوست رشتہ دار سب ایک ایک کرکے قبرستان سے باہر نکل گئے۔ وہ اس طرح گم سم قبر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ اگر بتیاں سلگ رہی تھیں اور ان کا دھواں بل کھاتا ہوا، ہوا میں تحلیل ہوتا جارہا تھا۔ اگربتیوں کی راکھ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ اب اس کا وجود بھی اگر بتیوں کی راکھ کی طرح جھڑ جھڑ ۔۔۔ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا پورا وجود ریزہ ریزہ ہوکر مٹی میں مٹی ہوگیا، اور آخر میں اس کے ہونے کا احساس بھی دھوئیں کی طرح دھیرے دھیرے فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے گم ہوگیا۔

Jo Saiun ki wadi mein Chale by Qurratul ain Hyder

Articles

جو سایوں کی وادی میں چلے از قرۃ العین حیدر

تلاش و تحقیق : سید وسیم اللہ

بہت ٹھنڈا چاند ہے ۔ بہت ویران ہوائیں اندھیرے کمروں اور طویل لا متناہی، غیر ضروری گیلریوں میں سرسراتی پھر رہی ہیں۔ زینے تاریک ہیں اور سرد ، اور ایک نا معلوم خوف دل میں چیختا جارہا ہے مجھے یہیں چھوڑ دو بھائ ۔ چاند سیاہ پڑگیا ہے ۔ اور اجالوں کی پھواروں کے ایسے سرخ ذرے اس کے چاروں طرف منڈلاتے جاتے ہیں ۔گیلریاں سنسان ہیں اور تاریکی میں رینگ رہی ہیں ۔ ابھی وہ سب یہاں آئیں گے۔ اور روشنیاں جلیں گی۔ اور پانی پر سے موسیقی اٹھے گی ۔ پھر سب مرجائیں گے ۔

یہ سب اتنا نا قابلِ برداشت ہے ۔ اور اس نے کہا۔ دیکھو ادھر آؤ ۔ میرے پاس بیٹھو ۔ اور میری آواز سنو ۔ میں نے اکتا کر چاروں اور دیکھا اور اس کی آواز سنی ۔ اور میں نے دیکھا کہ یہ سب اتنا غیر ضروری تھا ۔ اور میں نے کہا سنو۔ زندگی کی روحیں وجود کے کرب سے بچنے کی کوشش میں تاریک خلاؤں میں گھوم رہی ہیں اور اس وقت چاند سرخ اور سیاہ ہوتے ہوۓ بالکل انگارے کی طرح جلتا جلتا نیچے گر پڑا ۔ اس کو میں نے چھوا ۔ لیکن وہ اتنا گرم تھا کہ مجھے باکل تکلیف محسوس نہ ہوئ۔ اور ہوائیں اندھری غلام گردشوں میں شور مچاتی رہیں ۔ اور پانی سیاہ محیط گھوں گھوں کرتا چاندکی طرف اٹھ رہا تھا۔

کیوں اس قدر اٹھلا اٹھلا کے باتیں کرتی ہو ۔ ہم مار دیں گے ۔ اللہ قسم ، میں نے پوکس سے کہا ۔ رات جب وہ نرگس کے پھولوں میں منہہ چھپاۓ ہنس رہی تھی ۔ رات میں نے دیکھا تھا کہ میں زرد گلابوں کے باغیچوں والے ان آنگنوں میں پہنچ گئ ہوں جن کے ٹھنڈے پتھروں پر پہاڑی نالوں کا خنک پانی بہتا ہے ۔ اور جہاں گلیوں کے دروازے پراسرار طریقے سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں ۔ اور میں نے پوکس سے کہا ۔ کیا تم جانتی ہو پوکس ڈارلنگ کہ میں اس طرف سے آئ ہوں جہاں ہوائیں روتی ہیں اور آدھی رات کے زینوں پر کہرا منڈلاتا ہے اور پوکس نے آنکھیں جھپکا کر چاروں طرف غور سے دیکھا اور پھر وہ چپ ہوگئ اور مدھم تکلیف دہ چاندنی میں چوڑی ، بھیگی ، سرد سیڑھیوں پر کہرہ منڈلاتا رہا ۔ کتنی ٹھنڈ ہے کتنی ٹھنڈ ہے ۔ میں نے بیوقوفوں کی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی مٹھی بنا کر چپکے سے دہرایا کتنی ٹھنڈ ہے ۔ خدا کی پناہ دیکھو بھائ راحیل —– وہ کہہ رہا تھا —- یہ وجود کی بیوقوفی اسے تم پہچانتی ہو — ؟ ارے جاؤ بھی میں نے اکتاکر کہا ۔ کتنی ٹھنڈ ہے ۔ خدا کی پناہ ۔ میں نے پھر دھرایا ۔ اور چاند بالکل سرد ہوگیا ۔ اور بد مزاج کالی رات چیختے چیختے تھک کر خاموش ہوگئ ۔

اور ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ وہاں پر اندھیرا نہیں تھا اور چاروں طرف پھول کھلے تھے ۔ اور ندی شور مچاتی تھی ۔ اور ہوا میں بہار کے نۓ شگوفوں کا رنگ اڑتا تھا ۔ دنیا اس قدر خوبصورت تھی کہ اس کا اندازہ مشکل ہے ۔تاریکی وجود کی سرد، بے رحم ، بیحس تاریکی سب ختم ہوچکی تھی ۔ سورج بادلوں میں سے جھانکتا تھا اور کریسینتھیمم کے گچھے بارش کی پھواروں میں نہاتے تھے ۔

اور اب ہم ساکت ، خاموش نیلگوں پانی کے کنارے کنارے ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے اہستہ آہستہ چل رہے ہیں اور کناروں کے پتوں کا عکس پانی میں تیر رہا ہے ۔ اور اب کچھ یاد نہیں آتا اور جو یاد آتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے ۔ یہ نہیں تھا یہ نہیں تھا محض جنگوں ، لڑائیوں اور طوفانوں ہی سے انسان زخمی نہیں ہوتے ۔ زندگی کا کرب ہر جگہ ہر وقت ہر حالت میں موجود ہے ۔ سنو پوکس ڈئیر ، یہ تار ، لمبے الجھے ہوۓ تار اور ان میں انسانوں کے ٹکڑے اور خون ۔ اور کیچڑ ۔ اور بارش موسلا دھار بارش ، ہوا کے زور سے دروازہ کھل گیا ہے اور بارش کی تیز پھوار سے ہال کا سارا چمکدار فرش بھیگ گیا ہے اور اس پر چاند کی دھندلی کرنیں پھیل گئ ہیں اور اب دروازے بند کۓ جارہے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے جیسے پرشور طوفانوں سے گھر محفوظ ہوگیا ہے ۔ گھر جہاں آتش داں میں آگ جلتی ہے اور قالینوں پر بلیاں اونگھتی ہیں اور باہر بارش کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکراتی ہے اور اندھیرے باغ میں دیودار کی ٹہنیاں ٹوٹ ٹوٹ کر روشوں پر گرتی ہیں۔ گھر — گھر –ارے ہاۓ -اب یہ یوں ہوگا ۔ گھر جو اتنے سینکڑوں ہزاروں میل پیچھے رہ گیا ۔ اور بیوقوف گدھے چٹانوں پر بیٹھے تصویریں بناۓ جارہے ہیں ۔ جو نمائشوں میں رکھی جائیں گی ، سمندر ، ماہی گیروں کی کشتیاں ، چٹانیں اتنی بہت ساری بھوری چٹانیں کہ دیکھو تو باؤلے ہوجاؤ بھائ ۔

اور اتنے غیر ضروری مرد اور اتنی غیر ضروری عورتیں ۔ اور وہی ہیں سب کی ایک ہی سی باتیں ۔ یہ سب لوگ جو اپنے آپ کو جانے کتنا اہم سمجھتے ہوں گے ۔

میں نے چمپا کے پھولوں کی ایک ریتھ بنائ تاکہ تم جب کسی ایسی ہی کاہل سی موسمِ گرما کی شام کو نیلوفر کے ان راستوں پر سے گزرو ۔ تو ان احمق زمانوں کو یاد کرو جب وہ سب ایک سوتے ہوۓ سے خوابیدہ و بے حس پہلے چاند کے نیچے ان پگڈنڈیوں پر گھومتے تھے اور جنگل کے پرے ان سرخ چھتوں والے گھروں میں کنول جلتے تھے اور شفاف نیلگوں پروں والے چھوٹے چھوٹے پری زاد نیلوفر کی ڈالیوں پر بیٹھتے اور اتوار کے دن گزارنے آتے تھے ۔

لیکن موسمِ گرما بھی گزر رہا ہے جیسے اور سب موسم گزرتے جاتے ہیں اور میں آنکھیں کھول کر زندگی کی اس تیز جھلملاتی ہوئ روشنی کو نہیں دیکھ سکتی ۔

اور اگر یوں ہو کہ ہم وجود کے اس بے پایاں کرب میں خاموشی سے تحلیل ہوجائیں یہاں تک کہ وقت اپنی جگہ ٹہر جاۓ ۔ اور پھر کچھ نہ ہو ۔ وجود کا یہ کرب ۔ ابدی ۔ لازوال ۔ انمٹ ۔ لیکن یوں نہیں ہے اور وہ روشنیاں اور آدھی روشنیاں پھیل گئ ہیں جنہیں میں نے پکڑنا چاہا تھا اور موسمِ گرما گزرتا جارہا ہے اور سب چیزیں ویسی ہی ہیں ۔ اور کسی چیز میں کوئ تغیر نہ ہؤا ۔

(اس کی آنکھوں میں شدت کی اکتاہٹ تھی اس وقت اسے صرف دو چیزوں کا خیال تھا سگریٹ اور نیا فوکس ٹیرئیر) تم نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا– ؟ اس نے مڑ کر پوچھا اور پھر لمبے لمبے قدم رکھتا اس طرف چلاگیا جدھر کریسینتھیمم کے پھول تھے زرد ، اودے ، ہلکے نیلے اور پیازی ۔ جو اگسٹ کے مدھم آفتاب کو دیکھ رہے تھے ۔ اور باغ کی مٹی نم آلود تھی ۔ اور وطن کی خوشبوؤں کی یاد دلاتی تھی۔ اس خوشبو کو پہچانو (اس نے کریسنتھیمم کے پھولوں پر سے چلٗا کر کہا ۔ گویا اسے دفعتاً کوئ بیحد ضروری بات یاد آگئ ہے ) ۔ یہ ہر سنگھار ہے اور ہر سنگھار تمہیں یاد آنا چاہیۓ راحیل کہ وطن کی اکیلی سبزے سے گھری ہوئ ندیوں کے کنارے اگا کرتا تھا — وطن — وہ پورب دیس جو ہم نے ہمیشہ کے لۓ چھوڑ دیا اور یہاں چلے آۓ ۔ کیونکہ ہمارے سامنے ایک نئ دنیا تھی اور ایڈونچر ۔ اور نئ کائناتوں کی تخلیق کاپراسرار جذبہ ۔ لیکن اپنے اس دیس کی یادیں اس طرح نہیں چھٹ سکتیں ۔ گرمیوں کی شبنم آلود صبحیں آگسٹ کی بارشیں۔ ہر سنگھار کی مہک (اس کی کالی آنکھیں بھیگ گئیں اور بارش ہوتی رہی ۔ اندر برآمدے میں لوگ شطرنج کھیل رہے تھے ) ہاں ان خوشبوؤں کی یاد دل سے نہیں نکل سکتی ۔ ۔ اس نے آہستہ سے پھر دہرایا اور پھر وہ ہنس پڑا ۔ یہ سب کس قدر بیکار اور حماقت زدہ ہے ۔ غیر ممکن کی خواہش ۔ بھول جانے کی کوشش ۔ اس نے کہا ۔ اور خاموشی سے جیسے مذاق اڑاتا ہوا وہ واپس چلا گیا ۔ جدھر کریسینتھیمم کے پھول تھے ۔ اندر کوئ اس وقت پیانو پر ایک پرانی دھن بجا رہا تھا ( اس بہت پرانے پیانو پر جو والد ایک مرتبہ فرانس سے لاۓ تھے ) اور ہوائیں چنار اورپپیتے کے جھنڈ میں سیٹیاں بجارہی تھی ۔ اور اس نے لاپرواہی سے ایک جماہی لیکر ‘ نوستالجیا کی اس اچانک اور غیر متوقع لہر سے نجات پانے کی کوشش کی ۔ وہ خوش تھا ۔ اور مون سون کے بھولے بھٹکے بادل جو صحرا کی طرف آ نکلے تھے شام کے آسماں پر امڈتے رہے اور ہوائیں بیچینی سے ڈولتی گئیں ۔

اور تب میں نے سوچا کہ کیا یہ بہت اچھا ہوا کہ میں نے اسے اپنی شام کی دعاؤں میں شامل کیا ۔ اتنی مدتوں تک خداوند خدا سے اس کی باتیں کی ۔ اور کہا کہ ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ اے خداوند کہ ابدیت کے دھارے میں تیرتی ہوئ حیات کی رو سے تو نے ہماری زندگی کی تخلیق کی اور ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لۓ تیرا شکر ادا کرتے ہیں جو اتنی حقیر اور بے وقعت ہیں کہ ان کے وجود کا تجھ پر کوئ احساں نہیں ۔ پھول حماقت زدہ لطیفے جنہیں ایک دوسرے کو سناکر وہ خوش ہوتے تھے وہ لمحات جب ہم ریلنگ پر جھک کر سمندر میں سورج کو غروب ہوتے ہوۓ دیکھتے تھے اور اندھیرا بتدریج نیچے گرتا آتا تھا ۔ اور زندگی اچھی تھی ۔

پھر میں اس معبد میں گئ جہاں اونچی اونچی موم بتیاں جلتی تھیں اور وہاں وہ خوبصورت ڈچ راہب تھا جو ہنس رہا تھا ۔ اور وہاں محض دعائیں تھیں اور پھول تھے ۔ اور میں نے آہستہ سے کہنا چاہا کہ کیوں زندگی کا مذاق اڑاتے ہو ۔ بھائ خوبصورت راہب ۔ تم جو ایک عورت کے مجسمے کی پرستش کرتے کرتے اس اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیرے میں چلے جاؤگے ۔ اور تمہارے مزار پر بھی اسی طرح کے دوسرے مجسمے اور بربط والے فرشتے سجادۓ جائیں گے ۔ شب بخیر ہوئ اور میں نے اسے خدا حافظ کہا ۔ اور واپس چلی آئ ۔ شب بخیر اس نے جواب دیا اور اسی بے تعلقی سے ہنستا ہوا مقدس دیوداروں کے جھنڈ کی طرف چلا گیا جہاں وہ خدا کی ماں کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ ڈچ راہب جو اپنی شمعوں ، اور سیاہ پوش ہیکل کے پردوں اور سینٹ پال اور جینیوا کی کیتھرین کی کتابوں کے انبار کے درمیان محفوظ تھا جس کے حسن کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا تھا ۔ جس کے حسن کو دیکھ کراطمینان ہوتا تھا کہ زندگی میں ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔

پھر میں نے سرخ پہاڑوں کی طرف دیکھا سرخ اور نیلی پہاڑیاں جن کے چاروں طرف سخت کالے راستے پھیلے ہوۓ تھے اور ناگ پھنی جھاڑیاں آہستہ آہستہ آسمان کی طرف بڑہ رہی تھیں اور راستے کے چاروں سمت شدید تکلیف دہ وسعتیں تھیں ۔ جہاں پر کچھ نہ تھا

پھر ہوائیں چاروں طرف پھیلنے لگیں اور شمال کی سمت بڑہیں اور سائرن چیخنے لگے ۔ تو میں نے چپکے سے پوچھا ، میں نے پوچھا یہ آبشار کیوں آے خداوند خدا نے اپنے ازلی گناہ کو کس طرح پہچانا ۔ اور طوفان کیسے گرجتے رہے ۔ لیکن مجھے اس نے کوئ جواب نہ دیا ۔ اور وقت لڑھکتا گیا۔ اور طوفان میرے پاس سے گزرگۓ جبکہ میں سورہی تھی ۔ پھر میں نے اسے پہاڑوں سے اترتے دیکھا ۔ اس کے نغمے کی آواز قریب آتی گئ اور پھر دفعتاً وہ آواز بھی دور چلی گئ ۔ اور میں نے کہا میں اس کے ساتھ چل سکتی تھی ۔ کائنات کے عظیم ترین ویرانوں تک اس کے ساتھ جاسکتی تھی لیکن یہاں پر محض یہ ہوائیں بہتی ہیں۔ اور سب مرچکے ہیں ۔ جب یہاں پریاں ہنستی تھیں اور گرما کے گھومتے ہوۓ چاندوں کے نیچے وہ ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہتے تھے — وہ آرہا ہے ۔ وہ خوابوں کا انسان آرہا ہے ۔ جو ہمیں نیلی پہاڑیوں کی طرف لے جاۓ گا ۔ وہ ہنستے رہے اور آسمان یک لخت سیاہ پڑگیا (اور وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ، وادی کے پار ، پکاسو اور اوڈن کی باتیں کر رہا تھا ) اور پھر آسمان نیچے گر پڑے۔ بہت ٹھنڈ ہے ۔ بہپت ٹھنڈ ہے ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا ، چلو یہاں سے چلیں انہوں نے طۓ کیا اور وادی کی طرف واپس چلے گۓ جہاں سفارتی ضیافتیں ہوتی تھیں اور معزز خواتین ناک کی نوک کو میکس فیکٹر سے ٹھیک کرکے ایک دوسرے سے پوچھتی تھیں۔ ازنٹ اٹ کیوٹ ڈارلنگ ؟

اور رات کے چاند تیزی سے گھومنے لگے اور شیطان چیخنے ۔ اور پریاں ایک کے بعد ایک مرگئیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ نیلی پہاڑیوں تک پہنچ سکتیں ۔ خداوندِ خدا نے زندگی کتنی عظیم کتنی مقدس کتنی قیمتی تخلیق کی ہے ۔ کہ جوجب ختم ہوجاتی ہے ۔ تو اس کے لۓ کوئ روتا ہی نہیں ۔

ایسی باتیں نہ کرو۔ ورنہ خداوندِ عالم تم پر اپنا عتاب نازل کرے گا ۔ نورانی داڑھیوں والے عالموں نے کہا ۔ جب کہ روحیں کائنات کے ویرانوں میں اپنا ابدی گھر تلاش کرتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ انسانوں کی دعاؤں کے ذخیرے ختم ہوگۓ ۔ اور جتنی سانسیں انہیں زمین کے اوپر عطا کی گئیں تھی وہ پوری ہوگئیں ۔ تب مکمل سناٹا چھا گیا ۔ اور سب خاموش ہو گۓ ۔

میں نے یہ سب کچھ دیکھا ۔ جس وقت میں ٹھنڈی گھاس پر بیٹھی تھی ۔ اور میں نے فرشتوں کی آواز سنی جو میری گمشدہ روح کی نجات کے لۓ مصروفِ عبادت تھے ۔ تم جو کچھ سوچتی ہو ۔ اس کے لۓ تمہیں زیادہ محتاط رہنا چاہیۓ۔ ورنہ ابدی گھر کے دروازے تم پر بند ہوجائیں گے ۔ نورانی داڑھیوں والے عالموں نے دھرایا ۔ چناںچہ میں نے بھی فرمانبرداری کے ساتھ اچھے اچھے خیالات جمع کرنے شروع کۓ ۔ گلاب کے پھول ایرانی جانمازیں سفید نورانی کپڑے ۔ لیکن یہ اور بھی زیادہ بوریت تھی ۔

آخر اس شور و غل میں وجود کے طوفاں کی خاموش ساکت گرج کو میں نے پہچانا ۔ اور میں نے دیکھا کہ مٹیالے شب و روز چاروں جانب پھیلتے جا رہے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اور خالی آسمانوں کی عظیم تنہائ میں روح القدس بلا کسی مقصد کے منڈلاتی پھر رہی ہے ۔ اور پھر پانیوں پر سے موسیقی اٹھی ۔ اور اس نے کہا میں یہاں ہوں ۔ اور میں مرچکا ہوں ۔ ( وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ، وادی کے پار ، پکاسو اور اوڈن کی باتیں کر رہا تھا ) وہ مرگیا ۔ جس وقت کہ وہ ریلنگ پر جھکا کھڑا تھا ۔ اور غروبِ آفتاب کی روشنی میں اس کے بال سرخ نظر آرہے تھے ۔

اور زندگی کے اس ابدی اندھیرے میں اسے دفن کردیا گیا ۔ اور ہواؤں میں شیطان چیختے رہے ۔ اور زندگی کی قبروں کی لا متناہی تاریکی میں فاسفورس کی سی روشنی جھلملاتی رہی ۔ اور دریا کے طویل سیاہ پل پر سے کسی انڈر ٹیکر کی کالی گاڑی کھڑ کھڑاتی ہوئ دھیرے دھیرے گزر رہی تھی ۔ اور ہوائیں اپنے سرخ گرم آنسوؤن کو ضبط کر کے سکون سے بہنے لگیں ۔ اور چاند قبرستان کی سیاہ رنگ کی دیمک خوردہ صلیبوں پر لٹک گیا ۔

چنانچہ آج کی رات ، مارچ کے مہینے کی اس معمولی رات ، وہ ختم ہوگیا ۔ وہ اس دوسری ، روشنی کی زندگی میں پہنچ گیا جو اس کی اپنی زندگی ہے ۔ جہاں اس کا اپنا گھر ہے ۔ (اس کا گھر جس کی آرائش اور جس کے باغ کے پھول اسے اتنے پسند ہیں کہ وہ پہروں ان کے متعلق آپ سے باتیں کر سکتا ہے ) اس کا اپنا مستقبل ۔ ان گنت دن ۔ ان گنت راتیں ۔ ستاروں کی روشنی ۔ ہر سنگھار کی خوشبوئیں ۔ شور مچانے والے خوش باش دوست ، ضیافتیں خاموشی کے مکمل لمحات ۔ یہ سب کچھ اس کا اپنا ہوگا ۔ اپنا اور دلچسپ ۔

ایسا ہوتا ہے کہ روح القدس اندھیرے میں آگے بڑھ رہی تھی

یہ یسوع کی دلہن بن گئ ۔ اور یسوع اپنی اسی ہزار دلہنوں کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہے — خوبصورت ڈچ راہب نے آہستہ سے کہا ۔ کوائر کے نیلی آنکھوں والے لڑکوں نے اس کی بات دہرائ ۔ جب کہ ایک سنہری بالوں والی لڑکی بال منڈوا کے صلیب کی بیٹیوں کے مقدس سلسلے میں داخل کی جارہی تھی ۔ ( تم نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا — ؟ وادی کے پرے اپنے ڈرائنگ روم میں ، اوڈن پر باتیں کرتے کرتے مڑ کر اس نے پوچھا ۔ صوفے پر سے اٹھ کر ایٹ ہوم کے چند اور مہمانوں سے کچھ تکلف کے الفاظ کہے اور پھربیٹھ گیا ) اور زماں و مکاں کے اس بلوریں قید خانے میں خیالوں کے ٹوٹے پھوٹے ستون چاروں جانب بکھرے پڑے تھے ۔

اور اتنے برسوں پہلے جامنوں کے ساے میں سے جو کشتی چلی تھی ۔ وہ خداوندِ خدا کے تخت کے نیچے جو کالی ندی بہہ رہی ہے ۔ اس تک پہنچ گئ ہے ۔ وقت کا آبشار تیزی سے نیچے گر رہا ہے اور اس سے سینکڑوں ہزاروں میل پرے ۔ پورب دیس کے ہمارے گھر میں آنگن کے پیپل کے نیچے مالی کی بہو نے بھوانی کا چبوترہ سجایا ہوگا اور ندیوں کے کنارے ہر سنگھار کی مہک اڑتی ہوگی ۔ کتنا عبرتناک انجام ہے ان سب چیزوں کا اے مومنو ! اور گزرتی صدیوں کی راکھ ہوا میں بکھرتی جارہی ہے ۔ اور کچھ یاد نہیں آتا ۔ لیکن اگلی پیدائش پہلی پادائش سے بہتر ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک — یہاں تک کہ اگلے آنے والے زمانوں میں وقت کے صحراؤں میں گھومتے ہوۓ میں اسے دوبارہ دیکھ پاؤں گی ۔ جس طرح پچھلی صدیوں میں میں نے اسے دیکھا تھا ۔ جیسے اس زمانے ، اس دنیا کے ایک مخصوص چکر میں دن و رات کے ان حلقوں میں اسے پہچانا تھا ۔ اس وقت تک جب کہ مارچ کی ایک شام کو وہ ختم ہوگیا۔ اور اس سمے ، دوپہر کے سناٹے میں روحیں دور دور تک تیرتی پھر رہی ہیں اور وہ سارے رنگ جو دھنک اور پھولوں اور بادلوں کے لۓ تخلیق کۓ گۓ تھے اس اکیلی لرزاں روشنی میں تحلیل ہوگۓ ہیں۔ اور اس روشنی میں خدا اپنی سنہری آنکھیں بند کرکے ابدی آنند کی نندیا میں کھو گیا ہے۔ خلاۓ بیکراں کا یہ صحرا دور تک موسیقی کی لہروں کی طرح پھیلا ہوا ہے اور چاند کنول کے اکیلے پھول کی طرح ڈنٹھل سے جدا ہو کے نور کی اس ندی میں گر چکا ہے ۔ اور یہاں اس روشنی میں آخری دعا سنی جاتی ہے ۔ اور اس بھری دوپہر ، یا اس آدھی رات کی گہرائ میں مجھے اپنے وجود کے مکمل پن کا احساس ہوتا ہے ۔ دوپہر کی لہریں چاروں طرف تیر رہی ہیں اور سونے کے رنگ کا پانی کھنڈرات پت برستا جا رہا ہے ۔ دیوانے انسانو ۔ کیا تم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ اس پانی میں جنم جنم کا سارا نا مکمل پن ، ساری بے اطمینانی ، ساری کشمکش ہمیشہ کے لۓ بہہ جاۓ گی ۔ دیکھو کہ صحرا کا آسمان کتنا تنہا ہے ۔ یکتا خوبصورت کتنا عظیم اور وقت اپنی جگہ ٹہر گیا ہے اور حیات کی رو روح القدس میں داخل ہو کر آگے جارہی ہے

یہ لمحہ کتنی دیر ٹہر سکے — کتنی دیر ؟

اور تب میں نے پوکس سے کہا آؤ پوکس ڈارلنگ چل کر چاء پئیں ۔ پھر میں تمہیں چند نۓ پارٹی گیم بتاؤں گی ۔

( ارے اے بھئ اللہ میاں ) ۔

Pital Ka Ghantta A Short Story by Qazi Abdussattar

Articles

قاضی عبد الستار کا افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘

مسافروں نے لاری کو دھکا دیا اور ڈھکیلتے ہوئے خاصی دور تک چلے گئے لیکن انجن گنگناتا تک نہیں۔ڈرائیور گردن ہلاتا ہوا اتر پڑا۔کنڈکٹر سڑک کے کنارے ایک درخت کی جڑ پر بیٹھ کر بیڑی سلگانے لگا۔مسافروں کی نظریں گالیاں دینے لگیں اور ہونٹ بڑبڑانے لگے میں بھی سڑک کے کنارے سوچتے ہوئے دوسرے پیڑ کی جڑ پر بیٹھ کر سگریٹ بنانے لگا۔ایک بار نگاہ اٹھی تو سامنے دو درختوں کی چوٹیوں پر مسجد کے مینار کھڑے تھے۔میں ابھی سگریٹ سلگا ہی رہا تھا کہ ایک مضبوط کھردرے دیہاتی ہاتھ نے میری چٹکیوں سے آدھی جلی ہوئی تیلی نکال لی۔میں اس کی بے تکلفی پر ناگواری کے ساتھ چونک پڑا۔مگر وہ اطمینان سے اپنی بیڑی جلا رہا تھا وہ میرے پاس ہی بیٹھ کر بیڑی پینے لگا یا بیڑی کھانے لگا۔
’’یہ کون گاؤں ہے؟‘‘میں نے مینار کی طرف اشارہ کر کے پوچھا۔
’’یو _______ یوبھسول ہے۔‘‘
بھسول کا نام سنتے ہی مجھے اپنی شادی یاد آ گئی ۔میں اندر سلام کرنے جا رہا تھا کہ ایک بزرگ نے ٹوک کر روک دیا۔وہ کلاسکی کاٹ کی بانات کی اچکن اور پورے پائچے کا پاجامہ اور فرکی ٹوپی پہنے میرے سامنے کھڑے تھے۔میں نے سر اٹھا کر ان کی سفید پوری مونچھیں اور حکومت سے سینچی ہوئی آنکھیں دیکھیں۔انہوں نے سامنے کھڑے ہوئے خدمت گاروں کے ہاتھوں سے پھولوں کی بدھیا لے لیں اور مجھے پہنانے لگے۔میں نے بل کھا کر اپنی بنارسی زری پوت کی جھلملاتی ہوئی شیروانی کی طرف اشارہ کر کے تلخی سے کہا۔’’کیا یہ کافی نہیں تھی؟‘‘_____وہ میری بات پی گئے۔بدھیا برابر کیں۔پھرمیرے ننگے سر پر ہاتھ پھیرا اور مسکرا کر کہا’’_____اب تشریف لے جایئے۔میں نے ڈیوڑھی پر کسی سے پوچھا کہ یہ کون بزرگ تھے۔بتایا گیا کہ یہ بھسول کے قاضی انعام حسین ہیں۔
بھسول کے قاضی انعام حسین ،جن کی حکومت اور دولت کے افسانے میں اپنے گھرمیں سن چکا تھا۔میرے بزرگوں سے ان کے جو مراسم تھے مجھے معلوم تھے۔میں اپنی گستاخ نگاہوں پر شرمندہ تھا۔میں نے اندر سے آکر کئی بار موقع ڈھونڈھ کر ان کی چھوٹی موٹی خدمتیں انجام دیں۔جب میں چلنے لگا تو انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دی،مجھے بھسول آنے کی دعوت دیاور کہا کہ اس رشتے سے پہلے بھی تم میرے بہت کچھ تھے لیکن اب تو داماد ہو گئے ہو۔اس قسم کے رسمی جملے سبھی کہتے ہیں لیکن اس وقت ان کے لہجے میں خلوص کی ایسی گرمی تھی کہ کسی نے یہ جملے میرے دل پر لکھ دیے۔
میں تھوڑی دیر کھڑا بگڑی ’’بس‘‘کو دیکھتے رہا ۔پھر اپنا بیگ جھلاتا ہوا جتے ہوئے کھیتوں میں اٹھلاتی ہوئی پگڈنڈی پر چلنے لگا۔سامنے وہ شاندار مسجد کھڑی تھی ،جسے قاضی انعام حسین نے اپنی جوانی میں بنوایا تھا۔مسجد کے سامنے میدان کے دونوں طرف ٹوٹے پھوٹے مکان کا سلسلہ تھا،جن میں شاید کبھی بھسول کے جانور رہتے ہونگے،ڈیوڑھی کے بالکل سامنے دو اونچے آم کے درخت ٹرانک کے سپاہی کی طرح چھتری لگائے کھڑے تھے۔ان کے تنے جل گئے تھے۔جگہ جگہ مٹی بھری تھی۔ڈیوڑھی کے دونوں طرف عمارتوں کے بجائے عمارتوں کا ملبہ پڑا تھا۔دن کے تین بجے تھے۔وہاں اس وقت نہ کوئی آدم تھا نہ آدم زاد کہ ڈیوڑھی سے قاضی صاحب نکلے۔لمبے قد کے جھکے ہوئے،ڈوریے کی قمیض،میلا پائجامہ اور موٹر ٹائر کے تلوؤں کا پرانا پمپ پہنے ہوئے،ماتھے پر ہتھیلی کا چھجہ بنائے مجھے گھور رہے تھے میں نے سلام کیا ۔جواب دینے کے بجائے وہ میرے قریب آئے اور جیسے ایک دم کھل گئے ۔میرے ہاتھ سے میرا بیگ چھین لیا اور میرا ہاتھ پکڑے ہوئے ڈیوڑھی میں گھس گئے۔
ہم اس چکر دار ڈیوڑھی سے گزر رہے تھے جس کی اندھیری چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی تھی ۔دھنیوں کو گھنے ہوئے بد صورت شہتیر رو کے ہوئے تھے ۔
وہ ڈیوڑھی سے چلائے ۔’’ارے سنتی ہو______’’دیکھ تو کون آیا ہے ۔میں نے کہا اگر صندوق وندوق کھولی بیٹھی ہو تو بند کر لوجلدی سے۔‘‘لیکن دادی تو سامنے ہی کھڑی تھیں ،دھلے ہوئے گھڑوں گھڑونچی کے پاس دادا ان کو دیکھ کر سٹپٹا گئے ۔وہ بھی شرمندہ کھڑی تھیں پھر انہوں نے لپک کر الگنی پر پڑی مارکین کی دھلی چادر گھسیٹ لی اور ڈوپٹہ کی طرح اوڑھ لی۔چادر کے ایک سرے کو اتنا لمبا کر دیا کہ کرتے کے دامن میں لگا دوسرے کپڑے کا چمکتا پیوند چھپ جائے۔
اس اہتمام کے بعد وہ میرے پاس آئیں ۔کانپتے ہاتھوں سے بلائیں لیں ۔سکھ اور دکھ کی گنگا جمنی آواز میں دعائیں دیں دادی کانون سے میری بات سن رہی تھیں لیکن ہاتھوں سے جن کی جھریاں بھری کھال جھول گئی گئی تھی دالان کے اکلوتے ثابت پلنگ کو صاف کر رہیں تھیں ۔جس پر میلے کپڑے ،کتھے چونے کی کلیاں اور پان کی ڈلیاں ڈھیر تھیں اور آنکھوں سے کچھ اور سوچ رہی تھیں ۔مجھے پلنگ پر بٹھا کر دوسرے جھولا جیسی پلنگ کے نیچے سے وہ پنکھا اٹھا لائیں جس کے چاروں طرف کالے کپڑوں کی گوٹ لگی تھی اور کھڑی ہوئی میرے اس وقت تک جھلتی رہیں جب تک میں نے چھین نہ لیا۔پھر وہ باورچی خانے میں چلی گئیں ۔وہ ایک تین دروں کا دالان تھا ۔بیچ میں مٹی کا چولہا بنا تھا ۔المونیم کی چند میلی پتیلیاں کچھ پیپے اور کچھ ڈبے کچھ شیشے بوتل اور دو چار اسی قسم کی چھوٹی موٹی چیزوں کے علاوہ وہاں کچھ بھی نہ تھا۔وہ میری طرف پیٹھ کئے چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں ۔دادا نے کونے میں کھڑے ہوئے پرانے حقہ سے بے رنگ چلم اتاری اور باورچی خانہ میں گھس گئے ۔میں ان دونوں کی گھن گھن شرگوشیاں سنتا رہا۔ دادا کئی بار جلدی جلدی باہر گئے اور آئے ۔میں نے اپنی شیروانی اتاری ۔ادھر ادھر دیکھ کر چھ دروزوں والے کمروں کے کواڑ پر پر ٹانگ دی۔نقشیں کواڑ کو دیمک چاٹ گئی تھی۔ ایک جگہ لوہے کی پتی لگی تھی لیکن بیچوں بیچ گول دائرے میں ہاتھی دانت کا کام ،کتھے اور تیل کے دھبوں میں جگمگا رہا تھا۔بیگ کھول کر میں نے چپل نکالے اور اور جب تک میں دوڑوں دادا گھڑونچی سے گھڑا اٹھا کر اس لمبے کمرے میں رکھ آئے جس میں ایک بھی کیواڑ نہ تھا ۔صرف گھیرے لگے کھڑے تھے۔جب میں نہانے گیا تو دادا المونیم کا لوٹا میرے ہاتھوں میں پکڑا کر مجرم کی طرح بولے۔’’تم بیٹے اطمینان سے نہاؤ۔ادھر کوئی نہیں آئے گا۔پردے تو میں ڈال دوں لیکن اندھیرا ہوتے ہی چمگادڑ گھس آئے گی اور تم کو دق کرے گی۔
میں گھڑے کو ایک کونے میں اٹھا لے گیا۔وہاں دیوار سے لگا ،اچھی خاصی سینی کے برابر پیتل کا گھنٹہ کھڑا تھا۔میں نے جھک کر دیکھا ۔گھنٹے میں مونگریوں کی مار سے داغ پڑ گئے تھے۔دو انگل کا حاشیہ چھوڑ کر جو سووراخ تھا اس میں سوت کی کالی رسی بندھی تھی۔اس سوراخ کے برابر ایک بڑا سا چاند تھا اس کے اوپر سات پہل کا ستارہ تھا۔میں نے تولیہ کے کونے سے جھاڑ کر دیکھا تو وہ چاند تارا بھسول اسٹیٹ کا مونو گرام تھا۔عربی رسم الخط میں ’’قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ‘‘کھدا ہوا تھا۔یہی وہ گھنٹہ تھاجو بھسول کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پرتقریباً ایک صدی سے بجتا چلا آ رہا تھا۔میں نے اسے روشنی میں دیکھنے کے لئے اٹھا نا چاہالیکن ایک ہاتھ سے نہ اٹھ سکا۔دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر دیکھتا رہا۔میں دیر تک نہاتا رہا ۔جب باہر نکلا تو آنگن میں قاضی انعام حسین پلنگ بچھا رہے تھے۔قاضی انعام حسین جن کی گدی نشینی ہوئی تھی۔جن کے لئے بندوقوں کا لائسنس لینا ضروری نہیں تھا۔جنہیں ہر عدالت طلب نہیں کر سکتی تھی ۔دونوں ہاتھوں پر خدمت گاروں کی طرح طباق اٹھائے ہوئے آئے۔جس میں الگ الگ رنگوں کی دو پیالیاں ’’لب سوز‘‘چائے سے لبریز رکھی تھیں ایک بڑی سی پلیٹ میں دو ابلے ہوئے انڈے کاٹ کر پھیلا دئے گئے تھے ۔شروع اکتوبر کی خوشگوار ہواکے جھونکوں میں ہم لوگ بیٹھے نمک پڑی ہوئی چائے کی چسکیاں لے رہے تھے کہ دروازے پر کسی بوڑھی نے ہانک لگائی۔
’’مالک‘‘
’’کون‘‘
’’مہتر ہے آپ کا _______ صاحب جی کا بلابے آئے ہے۔‘‘
دادا نے گھبرا کر احتیاط سے اپنی پیالی طباق میں رکھ دی اور جوتے پہنتے ہوئے باہر چلے گئے ۔اپنے بھلے دنوں میں اس طرح شاید وہ کمشنر کے آنے کی خبر سن کر بھی نہ نکلے ہونگے ۔
میں ایک لمبی ٹہل لگا کر جب واپس آیا تو ڈیوڑھی میں مٹی کے تیل کی ڈبیا جل رہی تھی ۔دادا باورچی خانے میں بیٹھے چولھے کی روشنی میں لالٹین کی چمنی جوڑ رہے تھے میں ڈیوڑھی سے ڈبیااٹھا لایا اور اصرار کرکے ان سے چمنی لے کر جوڑنے لگا ۔
ہاتھ بھر لمبی لالٹین کی تیز گلابی روشنی میں ہم لوگ دیر تک بیٹھے باتیں کرتے رہے۔دادا میرے بزرگوں سے اپنے تعلقات بتاتے رہے۔اپنی جوانی کے قصے سناتے رہے۔کوئی آدھی رات کے قریب دادای نے زمین پر چٹائی بچھائی اور دستر خوان لگایا۔بہت سی ان میل بے جوڑ اصلی چینی کی پلیٹوں میں بہت سی قسموں کا کھانا چنا تھا ۔شاید میں نے آج تک اتنا نفیس کھانا نہیں کھا یا۔صبح میں دیر سے اٹھا۔ یہاں سے وہاں تک پلنگ پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ دادی نے رات بھر ناشتہ پکایا ہے۔_____جب میں اپنا جوتا پہننے لگا تو رات کی طرح اس وقت بھی دادای نے مجھے آنسو بھری آواز سے روکا ۔مین معافی مانگتا رہا دادی خاموش کھڑی رہیں ۔جب میں شیروانی پہن چکا دروازے پر یکہ آگیا ،تب دادی نے کانپتے ہاتھوں سے میرے بازو پر امام ضامن باندھا،ان کے چہرے پر چونا پتا ہوا تھا۔آنکھیں آنسوؤں سے چھلک رہی تھیں ۔انہوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا’’یہ اکاون روپے تمہاری مٹھائی کے ہیں اور دس کرائے کے۔‘‘
’’ارے ______ارے دادی ______آپ کیا کر رہی ہیں !‘‘اپنی جیب میں جاتے ہوئے روپیوں کو میں نے پکڑ لیے۔
چپ رہو تم _________تمہاری دادی سے اچھے تو ایسے ویسے لوگ ہیں جو جس کا حق ہوتا ہے وہ دے تو دیتے ہیں _غضب خدا کا تم زندگی میں پہلی بار میرے گھر آؤ میں تم کو جوڑے کے نام پر ایک چٹ بھی نہ دے سکوں _______ میں ________بھیا _______تیری دادی تو بھکارن ہو گئی۔
معلوم نہیں کہاں کہاں کا زخم کھل گیا ۔وہ دھاروں دھاروں رو رہی تھیں ۔دادا میری طرف پشت کئے کھڑے تھے اور جلدی جلدی حقہ پی رہے تھے ۔مجھے رخصت کرنے دادی ڈیوڑھی تک آئیں لیکن منھ سے کچھ نہ بولیں ۔میری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر اور گردن ہلا کر رخصت کر دیا۔
دادا قاضی انعام حسین تعلقدار بھسول تھوڑی دیر تک یکہ کے ساتھ چلتے رہے لیکن نہ مجھ سے آنکھ ملائی نہ مجھ سے خدا حافظ کہا ایک بار نگاہ اٹھا کر دیکھا اور میرے سلام کے جواب میں گردن ہلا دی۔
سدھولی جہاں سے سیتا پور کے لئے مجھے بس ملتی ابھی دور تھا۔میں اپنے خیالوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ میرے یکہ کو سڑک پر کھڑی ہوئی سواری نے روک لیا۔جب میں ہوش میںآیا تو میرا یکہ والا ہاتھ جوڑے مجھ سے کہہ رہا تھا _______میاں ______الی شاہ بھسول کے ساہوکار ہیں ان کے یکہ کا بم ٹوٹ گیا ہے،آپ برا نہ مانو تو الی شاہ بیٹھ جائیں ۔
میری اجازت پا کر اس نے شاہ جی کو آواز دی ۔شاہ جی ریشمی کرتا اور مہین دھوتی پہنے آئے اور میرے برابر بیٹھ گئے اور یکہ والے نے میرے اور ان کے سامنے ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر رکھ دیا۔گھنٹے کے پیٹ میں مونگری کی چوٹ کا داغ بنا تھا۔دو انگل کے حاشئے پر سوراخ میں سوت کی رسی پڑی تھی۔اس کے سامنے قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ کا چاند اور ستارے کا مونو گرام بنا ہوا تھا ۔میں اسے دیکھ رہا تھا اور شاہ جی مجھے دیکھ رہے تھے اور یکے والا ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔یکے والے سے رہا نہ گیا ۔اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’کا شاہ جی گھنٹہ بھی خرید لایو؟‘‘
’’ہاں کل شام معلوم نائی کاوقت پڑا ہے میاں پر کہ گھنٹہ دے دین بلائے کے ای ‘‘
ہاں وقت وقت کی بات ہے ________ شاہ جی ناہیں تو ای گھنٹہ_______
’’اے گھوڑے کی دم راستہ دیکھ کے چل ‘‘ ________یہ کہ کر اس نے چابک جھاڑا۔
میں ________میاں کا برا وقت ________چوروں کی طرح بیٹھا ہوا تھا ________
مجھے معلوم ہوا کہ یہ چابک گھوڑے کے نہیں میری پیٹھ پر پڑا ہے۔
=============================================
قاضی عبد الستار کے سوانحی کوائف
اردو فکشن کے اہم ستون پروفیسر قاضی عبدالستار  ۹؍فروی  ۱۹۳۲ کو لکھنؤ سے متصل ضلع سیتاپور کے ایک گائوں مچھر یٹہ کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام قاضی عبدالعلی عرف بڑے بھیا اور والدہ کا نام عالمہ خاتون تھا۔ انھوں نے جب آنکھیں کھولیں تو تعلقداری اور زمینداری کا طمطراق پورے شباب پر تھا۔ ایسے ماحول میں ان کی پرورش ناز و نعم سے ہوئی ان کی تعلیم و تربیت ان کے ماموں قاضی جمیل الدین ایڈوکیٹ اور چچا محمود علی رئیس مچھر یٹہ کے زیر سایہ ہوئی۔ بچپن سے ہی ان کی ذہانت اور فطانت  کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کرکے  ۱۹۴۸ میں ہائی اسکول اور ۱۹۵۰ میں انٹرمیڈیٹ کے امتحانات آر۔جی۔ڈی کالج سیتا پور سے پاس کیا۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آبائی وطن کو خیر باد کیا اور لکھنو ٔپہنچے۔ وہاں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور  ۱۹۵۲ میں بی اے (آنرز) اوّل درجہ میں پاس کیے۔انھوں نے اسی یونیورسٹی سے  ۱۹۵۴ میں ایم۔اے (اردو) فرسٹ ڈویثرن اور فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا۔ اس بنا پر وہ شنکر دیال شاد گولڈ میڈل کے مستحق ہوئے۔ اس وقت لکھنؤ یونیورسٹی میں ان کے اساتذہ پروفیسر احتشام حسین پروفیسر آل سرور اور پروفیسر محمدحسن جیسی اردو ادب کی نامی گرامی ہستیاں تھیں۔ قاضی صاحب نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ۱۹۵۷ میں’’ اردو شاعری میں قنوطیت‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالہ کے نگراں اردو کے معتبر ادیب پروفیسر رشید احمد صدیقی تھے۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری ملنے سے پیشتر ہی وہ ۱۹۵۶میں عارضی طور پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو سے بہ حیثیت لیکچرر منسلک ہو گئے اور وہ  ۱۹۶۱میں پرما ننٹ ہوئے۔ اسی شعبہ میں وہ ۱۹۶۷ میں ریڈر اور  ۱۹۸۱ میں پروفیسر ہوئے۔ ۱۹۸۸ میں وہ صدر شعبۂ اردو کے پر وقار عہدے پر فائز ہوئے۔ ۳۷؍سال تک شعبئہ ا ردو کی قابل قدر خدمات انجام دے کر وہ ۱۴؍جولائی  ۱۹۹۳ کو اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ درس و تدریس کے دوران انھوں نے اپنی معیاری تحریروں اور بصیرت افروز تقریروں سے جو شہرت حاصل کی وہ بہت کم اساتذہ کو نصیب ہوتاہے۔  افسانوی ادب میں قاضی صاحب کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔                                                                                       قاضی عبدالستار  نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز اسی وقت سے کردیا تھا جب کہ وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے  ۔انھوں نے ۱۹۴۶میں اپنا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘ لکھا جو لکھنو ٔسے شائع ہونے والے جریدے ’’جواب‘‘ میں شائع ہوا۔ اس وقت ان کی عمر تیرہ سال کی تھی ۔ یہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ رسالہ ’’مضراب‘‘ میں بھی چھپی۔ اس وقت وہ شاعری میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ صہباؔ  ان کا تخلص تھا۔ وہ بابو گر چرن لال شیداؔ نبی نگری سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کا کلام  ۱۹۵۷ تک ہندو پاک کے رسالوں میں شائع ہوتا رہا۔  ۱۹۵۴کا زمانہ ان کی زندگی کا اہم موڑ ہے۔ اسی سال انھوں نے ایم۔ اے۔( اردو) امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اسی سال ان کا پہلا ناول ’’شکست کی آواز‘‘ منظر عام پر آیا اور اسی سال ان کی ایک نظم ’’گومتی کی آواز‘‘ رسالہ شاہراہ میں شائع ہوئی۔ وہ قاضی صاحب کا تشکیلی دور تھا۔ اس وقت وہ اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ آیا وہ شاعری کے میدان میں آگے بڑھیں یا فکشن میں  لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھوں نے شاعری کو ترک کیا اور نثر کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا اور اسی راستے پرآگے بڑھتے گئے۔ وہ تنقیدو تحقیق کی طرف بھی راغب ہوئے ۔تحقیقی مقالہ کے علاوہ انھوں نے ’’جمالیات اور ہندوستانی جمالیات‘‘ کے موضوع پر معرکتہ الآرا تنقیدی مقالہ لکھا اس کے بعد ان کا تخلیقی سفر برق رفتاری سے آگے بڑھتا گیا ۔ناول نگاری کے میدان کو انھوں نے اپنے لیے مختص کیا اسی میدان میں انھوں نے اپنے قلم کا جوہر دکھایا اور ان کے ایک کے بعدایک ناول تواتر سے منظر عام پر آنے لگے۔ ’’شب گزیدہ، مجو بھیاّ، صلاح الدین ایوبی، بادل، غبار شب، دار شکوہ، غالب، حضرت جان، خالد بن ولید، تاجم سلطان اور تاج پور جیسے ناول لکھ کر انھوں نے تاریخی ناول نویسی میں بھی بلند مقام حاصل کیا۔ اس میدان میں ان کی بڑی قدر افزائی ہوئی۔ ناول کی بہ نسبت انھوں نے افسانے کم لکھے لیکن جو کچھ بھی لکھا ہے۔ وہ معیاری اور ادبی شاہکار ہیں۔ ان کی مقبولیت اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں یکساں ہے۔ان کے ادبی کارنامے کا اعتراف ارباب ادب نے کیا ہے اور انھیں قومی اور عالمی سطح پر پدم شری، غالب ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ،عالمی اردو ایوارڈ، یو۔ پی اردو اکادمی ایوارڈ، اقبال سمان جیسے اعزازات سے نوازاگیا ہے۔
======================================
افسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ : تشریح و تجزیہافسانہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ : تشریح و تجزیہ
قاضی عبدالستار ایک مشہور اور مقبول افسانہ نگار ہیں وہ اپنے منفرد موضوع اور سحر آفریں اسلوب سے اردو افسانہ نگاری کو توانا اور تونگر بنا رہے ہیں۔ اردو کے ممتاز نا قد شمس الرحمن فاروقی نےان کے فکر و فن پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے:                                                                        ’’قاضی عبدالستار  Paradoxes کے بادشاہ ہیں ان کا فن  ایڈ گرایلن پو کی یاد دلاتا ہے۔ ان کے قلم میں گذشتہ عظمتوں اور کھوئے ہوئے ماحول کو دوبارہ زندہ کرنے کی حیرت انگیر قوت ہے۔ ان کی سب سے بڑی قوت حاضراتی صلاحیت ہے جو دو جملوں میں کسی مکمل صورت حال کو زندہ کر دیتی ہے۔ ایڈگرایلن پو  کی طرح اس سے انتہائی مختلف سیاق و سباق میں وہ نفسیات کو اجاگر کرنے کے بادشاہ ہیں‘‘۔        قاضی عبدالستارنے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے اس وقت کیا جب وہ مڈل اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے اپنا پہلا افسانہ ’’اندھا‘‘لکھا جو معروف رسالے میں شائع ہوا۔ اس سے انھیں بحیثیت افسانہ نگار بڑی شہرت ملی لیکن اس کے بعد انھوں نے کافی عرصے تک کوئی افسانہ نہیں لکھا اس اثنا میں انھوں نے کئی یاد گار ناول لکھے، برسوں بعد انھوں نے۱۹۶۴میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ افسانہ لکھا  جسے ادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے کئی یاد گار افسانے تخلیق کئے اور اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ اس مجموعہ میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کے علاوہ مالکن رضو باجی، ٹھاکر وارہ، گرم لہو میں غلطاں اور مجریٰ جیسے اہم افسانے شامل ہیں۔ قاضی صاحب کے عزیز شاگرد پروفیسر محمد غیاث الدین نے ۲۸؍ منتخب افسانوں کا مجموعہ ’’آئینہ ایام‘‘  ۱۹۹۵میں شائع کیا ہے۔ جس کی بڑی پذیرائی ہوئی ہے۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ کہانی کا تعلق قاضی انعام حسین آف بھسول اسٹیٹ اودھ سے ہے۔ آزادی سے پہلے بھسول اسٹیٹ کی جاہ وحشمت اور شان و شوکت قرب و جوار میں مشہور تھی اس اسٹیٹ کے مالکوں کی گدی نشینی ہوتی تھی۔ جن کی عالیشان حویلی تھی، باغات تھے، ہاتھی گھوڑے تھے سپاہی اور نوکر چاکر تھے۔ انھوں نے ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ ان کی زمینداری کئی گائوں میں تھی ان کے یہاں کچہری لگتی تھی اور وہ خود مقدمہ کا فیصلہ کرتے تھے۔ ارباب اِقتدار میں ان کی بڑی عزت تھی لیکن آزادی کے بعد خاتمہ زمینداری اور تعلقداری کا اعلان ہوا تو دھیرے دھیرے ان کی خوشحالی بد حالی میں تبدیل ہوتی گئی۔ عالیشان عمارت کھنڈر میں تبدیل ہوگئی۔ جہاں اہل کاروں اور رشتہ داروں کا ہجوم رہتا تھا اب وہاں آدم نہ آدم زاد فقط دو نفر بوڑھے قاضی انعام حسین اور ان کی بوڑھی بیوی کسمپرسی کے عالم میں زندگی کے باقی دن کاٹ رہے ہیں ایک زمانہ تھا جب کہ عزیز و اقارب کی خاطر داری بڑے اہتمام سے ہوتی تھی۔ اَن گنت نوکر چاکر، غریب، یتیم، مسکین دولت خانہ سے پرورش پاتے تھے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ مقرب مہمانوں کی میز بانی گراں گزرتی ہے آمدنی اس قدر قلیل ہے کہ میز بانی کے اہتمام میں گھر کے اثاثے بیچنے پڑتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ برسوں بعد جب ان کا داماد ان کے گھر آتا ہے تو اس کی آئو بھگت میں ان کا پیتل کا وہ گھنٹہ بک جاتا ہے جو ان کی ڈیوڑھی پر اعلان ریاست کے طور پر تقریباََ ایک صدی سے بجتا چلا آرہا تھا۔ یہ المیہ اس کہانی کا مرکزی خیال ہے یہ رودادمفلسی فقط انعام حسین کی نہیں ہے بلکہ خاتمہ زمینداری کے بعد اس کہانی میںاودھ کے سارے جاگیردار اور تعلقدار نظر آتے ہیں۔ اس حقیقت کو قاضی عبدالستار نے اپنے زور ِقلم سے افسانہ بنا دیا ہے جو منشی پریم چند کے افسانہ ’’کفن‘‘ کی طرح لازوال ہوگیا۔ ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ مشکل سے چھ صفحات پر مشتمل ایک مختصر سی مگر موثر کہانی ہے۔ اس کہانی کا موضوع آزادی کے بعد زمینداروں اور تعلقداروں کی معاشی اور سماجی بحران ہے۔ جسے فنکار نے بڑی ہنر مندی سے ایک کہانی کی شکل میں پیش کیا ہے اس کہانی میں اس قدر پختگی اور گہرائی ہے کہ ہر لفظ علامت اور ہر جملہ ایک کہانی ہے۔ غرض یہ کہ اس کی کہانی مشاعرانہ لوازمات اور وسائل پوری طرح جلوہ گر ہیں۔ اس طرح کی کہانی وہی فنکار لکھ سکتا ہے جس کا مطالعہ اور مشاہدہ عمیق ہو، زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہو اور افسانہ کے فن و تکنیک سے کماحقہ واقف ہو۔         قاضی صاحب اپنے افسانوں کا تانا بانا آس پاس کے ماحول اور اپنی ذاتی زندگی سے بنتے ہیں جس میں حقیقت نگاری کا رنگ نمایاں ہوتا ہے۔ وہ اپنے افسانوں میں تجربات اور مشاہدات کا رنگ بڑی چابکدستی سے بھرتے ہیں اور اپنی دلکش زبان سے اسے پر لطف بنا دیتے ہیں۔ خاتمہء زمینداری کے بعد طرز معاشرت میںبڑی تبدیلی آئی زمیندا راور تعلقدار زبوں حالی کا شکار ہوئے اس کی زد میں قاضی صاحب بھی آئے۔ اس سماجی اور معاشی تبدیلی کو انھوںبڑی دیانت داری کے ساتھ اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے۔ پہلی جنگ آزادی کے پس منظر میں انھوں نے ’’نیا قانون‘‘ کہانی تحریر کی ہے اس میں انھوں نے اودھ کی سیاست میں انگریزوں کی مداخلت سے جو تبدیلی ہوئی ہے اسے ایک مورخ کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس افسانے میںایک محب وطن فنکار کا دل دھڑکتا ہے۔  قاضی صاحب سے پہلے منشی پریم چند نے دیہی زندگی کو اپنے افسانوں کا خاص موضوع بنایا ہے۔ جس میں زمینداروں کو ظالم اور جابر بتایا ہے ۔قاضی صاحب نے بھی گائوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے مگر ان کے یہاں گائوں کی کیفیت پریم چند کے گائوں سے مختلف ہے۔ زمانہ کافی تبدیل ہوچکا ہے آزادی کے بعداب زمیندار قابلِ رحم ہے ۔اس کی عزت دائوپر ہے پھر بھی اپنی رواداری اور وضع داری کو نبھارہا ہے ۔ بھلے ہی وہ اثاثہ اور جائیداد سے محروم ہورہا ہے انھیں کی دولت سے ایک دوسرا طبقہ سرمایہ دار بن رہا ہے اور سیاست میں حصہ لے رہا ہے۔ پنچایت اور گائوں کی پردھانی اس کے ہاتھ میں ہے جو نئی نئی سازشوں کا مرتکب ہے۔ عدالت کا بھی کام اطمینان بخش نہیں ہے کمزور انصاف سے دور اور طاقتور غاصب ہے۔ رگھو چمارکا استغاثہ مہتو کی طاقت کے سامنے خارج ہوجاتا ہے۔ قاضی صاحب کے افسانے موجودہ دیہی سیاست کا آئینہ ہیں۔ ہندی کے مشہور ادیب بابا ناگاا رجن نے سچ کہا ہے:  ’’قاضی عبدالستار اردو کے دوسرے پریم چند ہیں‘‘ جس طرح سے قاضی صاحب کے موضوعات متنوّع ہیں اسی طرح سے ان کی کردار نگاری بھی ہے ۔ وہ مو ضوعات کے اعتبارسے کردار تخلیق کرتے ہیںان کے افسانوں میں ہر طرح کے کردار مل جائیں گے۔ اعلیٰ طبقے سے متعلق بادشاہ شہزادی کنیز، تعلقدار، زمیندار کے ساتھ پس ماندہ طبقے کے کردار بندھوا مزدور میکو اور گھیسو چمار بھی ہیںغرض کہ ان کے افسانے تنگ داماتی کا شکار نہیں ہیں۔ ان کے زیادہ تر کردار اودھ کی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس افسانہ میں ایک تعلقدار کی زبوں حالی کو تشبیہاتی اور استعاراتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، مثلاََ عمارتوں کاملبہ، چھت کمان کی طرح جھکی ہوئی، دھنیوں کے گھنے ہوئے بدصورت شہیتر اسی طرح ملبوسات اور گھر کے اثاثے کی حالت ہے۔ قاضی صاحب کی ڈوری کی قمیض میلا پائجامہ، بیوی کے دامن میں لگے ہوئے پیوند جسے چادر سے چھپانے کی نا کام کوشش اکلوتا پلنگ جس پر میلے کپڑے۔ المونیم کی چند میلی پتیلیاں پرانہ حقہ، بے رنگ چلم الگ الگ رنگوں کی دو چائے کی پیالیاں، لالٹین کی ٹوٹی ہوئی چمنی، یہ سب اشیاء زبانِ حال سے مفلسی کا اعلان کرتی ہیں۔ اتحاد، اختصار ربط و آہنگ اور عصری آگہی ایک اچھے افسانہ کے محاسن ہیں۔ مختصر افسانہ کے ان اوصاف کے آئینہ میں ’’پیتل کا گھنٹہ‘‘ ایک مکمل اور موثر افسانہ ہے۔ یہ بیانیہ افسانہ واحد متکلم کے انداز میں لکھا گیا ہے۔ حسب ضرورت مکالمے کے استعمال سے افسانے میں جان پیدا ہوگئی ہے۔ زبان سلیس اور عام فہم ہے اودھی بولی کے برمحل استعمال سے افسانہ دلکش ہوگیا ہے۔اس افسانہ میں الفاظ اور جملے اس قدر مربوط اور ہم آہنگ ہیں کہ ان میں ایک لفظ نہ تو نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ادھر ادھر کیا جا سکتا ہے غرض یہ کہ زبان و بیان اور فن و تکنیک ہر اعتبار سے یہ افسانہ معیاری اور پر وقار ہے۔
=======================================

Nafrat A Short Story by Mumtaz Mufti

Articles

ممتاز مفتی کا افسانہ ’’ نفرت‘‘

ممتاز مفتی

عجیب واقعات تو دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں مگر ایک معمولی سا واقعہ نازلی کی طبیعت کو یک لخت قطعی طور پر بدل دے، یہ میرے لئے بے حد حیران کن بات ہے۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لئے معمہ ہے۔ چونکہ اس واقعہ سے پہلے مجھے یقین تھا کہ اس کی طبیعت کو بدلنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لئے اب میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ نازلی وہ نازلی ہی نہیں رہی جو بچپن سے اب تک میری سہیلی تھی۔ جیسے اس کی اس تبدیلی میں انسان کی روح کی حقیقت کا بھید چھپا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا یعنی کسی بھدے سے بدنما آدمی سے خدا واسطے کا بغض محسوس کرنا…. کتنی عام سی بات ہے۔  عجیب واقعات تو دنیا میں ہوتے ہی رہتے ہیں مگر ایک معمولی سا واقعہ نازلی کی طبیعت کو یک لخت قطعی طور پر بدل دے، یہ میرے لئے بے حد حیران کن بات ہے۔ اس کی یہ تبدیلی میرے لئے معمہ ہے۔ چونکہ اس واقعہ سے پہلے مجھے یقین تھا کہ اس کی طبیعت کو بدلنا قطعی ناممکن ہے۔ اس لئے اب میں یہ محسوس کر رہی ہوں کہ نازلی وہ نازلی ہی نہیں رہی جو بچپن سے اب تک میری سہیلی تھی۔ جیسے اس کی اس تبدیلی میں انسان کی روح کی حقیقت کا بھید چھپا ہے۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ وہ ایک بہت ہی معمولی واقعہ تھا یعنی کسی بھدے سے بدنما آدمی سے خدا واسطے کا بغض محسوس کرنا…. کتنی عام سی بات ہے۔
سہیلی کے علاوہ وہ میری بھابی تھی۔ کیونکہ اس کی شادی بھائی مظفر سے ہو چکی تھی۔ اس بات کو تقریباً دو سال گزر چکے تھے۔ مظفر میرے ماموں زاد بھائی ہیں اور جالندھر میں وکالت کرتے ہیں۔
یہ واقعہ لاہور اسٹیشن پر ہوا۔ اس روز میں اور نازلی دونوں لائل پور سے جالندھر کو آ رہی تھیں۔ ایک چھوٹے سے درمیانے درجے کے ڈبے میں ہم دونوں اکیلی بیٹھی تھیں۔ نازلی پردے کی سخت مخالف تھی۔ برقعے کا بوجھ اٹھانا اس سے دوبھر ہو جاتا تھا۔ اس لئے گاڑی میں داخل ہوتے ہی اس نے برقع اتار کر لپیٹا اور سیٹ پر رکھ دیا۔ اس روز اس نے زرد رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس میں طلائی حاشیہ تھا۔ زرد رنگ اسے بہت پسند تھا اور اس کے گورے گورے جسم میں گلابی جھلک پیدا کر دیتا تھا۔ اس کی یہ بے پردگی اور بے باکی مجھے پسند نہ تھی۔ مگر اس بات پر اسے کچھ کہنا بیکار تھا۔ آتے جاتے لوگ اس کی طرف گھور گھور کر دیکھتے مگر وہ اپنے خیالات میں یوں مگن تھی جیسے جنگل میں تن تنہا بیٹھی ہو۔ دو تین گھنٹے تو یونہی گزر گئے مگر لاہور کے قریب جانے کون سا اسٹیشن تھا، جہاں سے دو نوجوان لڑکے سوار ہوئے۔ مجھے تو کسی کالج کے طالب علم نظر آتے تھے۔ ان لڑکوں نے ہر اسٹیشن پر گاڑی سے اتر کر ہمیں تاڑنا شروع کر دیا۔ ہمارے ڈبے کے سامنے آ کھڑے ہوتے اور متبسم نظروں سے ہماری طرف دیکھتے۔ پھر آپس میں باتیں کرتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں مسکراتے۔ نازلی ویسے ہی بے باکی سے کھڑکی میں بیٹھی رہی بلکہ میرا خیال ہے کہ اسے اتنا بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ نوجوان اسے دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت وہ ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ میرے لئے اس کی یہ بے نیازی بے حد پریشان کن تھی۔ میں کچھ شرم اور کچھ غصہ محسوس کر رہی تھی۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے کہا۔ ’’نازلی برقع پہن لو۔ دیکھو لڑکے کب سے تمہیں تاڑ رہے ہیں۔ ‘‘ ’’کہاں ہیں ؟‘‘ اس نے چونک کر کہا، پھر مسکرا دی۔ ’’دیکھنے دو۔ ہمارا کیا لیتے ہیں۔ آپ ہی اکتا جائیں گے…. بے چارے۔ ‘‘ ’’مگر برقع اوڑھ لینے میں کیا حرج ہے؟‘‘ ’’اگر برقع اوڑھنے سے لوگ یوں گھورنا چھوڑ دیں تو شاید عورتیں برقع اوڑھنا ترک کر دیں۔ برقع پہن لوں تو یہی ہو گا کہ سامنے کھڑے ہونے کی بجائے ادھر ادھر منڈلاتے پھریں گے۔ ‘‘ ’’تم بھی حد کرتی ہو۔ ‘‘ ’’میں کہتی ہوں نجمی ایمان سے کہنا۔ کیا تم اپنے آپ کو چھپانے کے لئے برقع پہنتی ہو؟‘‘ وہ مجھے نجمی کہا کرتی تھی۔ چونکہ اس کے خیال کے مطابق نجم النساء گنگنا نام تھا۔ وہ بے اختیار ہنس دی۔ ’’اچھا مان لیا کہ تم واقعی اپنے آپ کو چھپانے کے لئے برقع پہنتی ہو۔ چلو مان لیا برقع پہن کر تم لوگوں پر یہ ظاہر کرتی ہو کہ اس برقعے میں چھپانے کے قابل چیز ہے۔ یعنی ایک خوبصورت لڑکی ہے۔ یقین نہ ہو تو خود دیکھ لیجئے اور یہ برقع تو دیکھو۔ ‘‘ اس نے میرے برقع کو ہاتھ میں مسلتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ریشمی بوسکی فیتے۔ جھالر یہ تو برقع بذات خود خوبصورت ہے اور برقع والی کیا ہو گی۔ اندازہ کر لیجئے۔ واہ کیا خوب پردہ ہے۔ ‘‘ ’’تم خوامخواہ بگڑتی ہو۔ ‘‘ میں نے تنک کر کہا۔ ’’بگڑنا تو خیر ہو گا…. مجھے تمہاری طرح بننا نہیں آتا۔ ‘‘ ’’پگلی کبھی عورت بھی پردے میں رہ سکتی ہے۔ دیکھتی نہیں ہو۔ عورتوں نے پردے کو بھی زیبائش بنا دیا ہے۔ آخر جو بات ہے اسے ماننے میں کیا حرج ہے؟‘‘ یہ کہہ کر وہ ہنس پڑی…. ’’تمہیں تو ہر وقت مذاق سوجھتا ہے۔ ‘‘ میں نے بگڑ کر کہا۔ ’’لو اور سنو۔ جو ہم کہیں ، وہ تو ہوا مذاق اور جو آپ کہیں ، وہ حقیقت ہے۔ ‘‘ ’’اچھا بابا معاف کرو۔ بھول ہوئی۔ اب برقعہ تو اٹھا لو کیا ان درختوں سے بھی پردہ کرو گی؟‘‘ ’’تمہارے خیالات بہت عجیب ہیں۔ ‘‘ میں نے برقعہ اتارتے ہوئے کہا۔ اسٹیشن بہت دور رہ گیا تھا اور گاڑی ایک وسیع میدان سے گزر رہی تھی۔ ’’عجیب…. ہاں عجیب ہیں۔ اس لئے کہ وہ میرے اپنے ہیں۔ اگر میں بھی تمہاری طرح سنی سنائی باتیں شروع کر دوں تو تم مجھ سے کبھی ناراض نہ ہو۔ ‘‘ ’’سنی سنائی….؟‘‘ ’’ہاں سنی سنائی، اس لئے کہ یہ باتیں ظہیر صاحب کو بہت پسند ہیں اور تم چاہتی ہو کہ وہ تمہیں چاہیں۔ تمہارے میاں جو ہوئے۔ یہ سنہری چوڑیاں ہی دیکھو۔ یاد ہے تم سنہری چوڑیوں کو کیسی نفرت کی نظر سے دیکھا کرتی تھیں ؟ مگر یہ انہیں پسند ہیں نا۔ اس لئے یہ بوجھ اٹھائے پھرتی ہو۔ ان کی محبت کی محتاج جو ٹھہریں۔ ایمان سے کہنا۔ کیا یہ غلط ہے؟ مجھے تو ایسی محتاجی گوارا نہیں۔ تم ہی نے تو مردوں کا مزاج بگاڑ رکھا ہے۔ ورنہ وہ بے چارے۔ ‘‘ ’’تمہیں بھی تو زرد رنگ پیارا ہے نا؟‘‘ ’’ہاں ہے اور رہے گا۔ میری اپنی پسند ہے۔ میں اپنے میاں کے ہاتھ کی کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتی کہ جیسا جی چاہیں ، نچا لیں۔ میں نے ان سے بیاہ کیا ہے۔ ان کے پاس اپنی روح گردی نہیں رکھی اور تم…. تمہاری تو مرضی ہے ہی نہیں۔ تم تو ہوا کے رخ میں اڑنا چاہتی ہو۔ ‘‘ دفعتاً گاڑی نے جھٹکا کھایا اور وہ لڑھک کر مجھ پر آ گری۔ ’’یہ جھوٹ بولنے کی سزا ہے۔ ‘‘ میں نے اسے چھیڑنے کو کہا اور ہم دونوں ہنس پڑیں۔ گاڑی اسٹیشن پر رک گئی۔ دونوں جوان گاڑی سے اتر کر ہمارے سامنے آ کھڑے ہوئے اور نازلی کو توڑنے لگے۔ اس نے دو ایک مرتبہ ان کی طرف دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر نفرت بھرا تمسخر کھیل رہا تھا۔ ’’بے چارے۔ ‘‘ اس نے دبی آواز میں کہا۔ ’’مجھے تو ان پر ترس آتا ہے۔ ‘‘ اور وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ نہ جانے اس کی بے باکی اور بے پروائی دیکھ کر یا کسی اور وجہ سے اور وہ بھی دلیر ہو گئے۔ پہلے تو آپس میں باتیں کرتے رہے۔ پھر ان میں سے جو زیادہ دلیر معلوم ہوتا تھا، ہمارے ڈبے کی طرف بڑھا۔ مگر نازلی کے انداز کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ کچھ دیر کے لئے وہ رک گیا۔ ہاتھ سے اپنی نکٹائی سنواری۔ بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ رومال نکالا اور پھر کھڑکی کی طرف بڑھا۔ کھڑکی کے قریب پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا اور آخر ہمت کر کے نازلی کے قریب آ کھڑا ہوا اور گھبرائی ہوئی آواز میں کہنے لگا۔ ’’کسی چیز کی ضرورت ہو تو….‘‘ میں تو ڈر کے مارے پسینہ پسینہ ہو گئی۔ مگر نازلی ویسے ہی بیٹھی رہی اور نہایت سنجیدگی سے کہنے لگی۔ ’’ہاں صرف اتنی مہربانی فرمائیے کہ یوں سامنے کھڑے ہو کر ہمیں گھورئیے نہیں۔ شکریہ۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ پھیر لیا۔ اس وقت نازلی کی سنجیدگی کو دیکھ کر میں حیران ہو رہی تھی۔ اس میں کتنی ہمت تھی۔ خیر نوجوان کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ کھسیانا ہو کر واپس چلا گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ہمیں کہیں نظر نہ آئے۔ ان دنوں نازلی کی طبیعت بے حد شوخ تھی مگر شوخی کے باوجود کبھی کبھی ایسی سنجیدگی سے کوئی بات کہہ دیتی کہ سننے والا پریشان ہو جاتا۔ ایسے وقت مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اس نسوانی جسم کی تہہ میں کوئی مردانہ روح جی رہی ہو۔ مگر اس کے باوجود مردوں سے دلچسپی نہ تھی۔ یقینی وہ مردوں کی طرف آنکھیں چمکا چمکا کر دیکھنے والی عورت نہ تھی۔ اس کے علاوہ اسے جذبہ محبت کے خلاف بغض تھا۔ مظفر بھائی دو سال کے عرصہ میں بھی اسے سمجھ نہ سکے تھے۔ شاید اسی لئے وہ اسے سمجھنے سے قاصر تھے۔ نازلی انہیں اس قدر پیاری تھی۔ حالانکہ وہ ان کے روبرو ایسی باتیں کہہ دینے سے کبھی نہ جھجکتی تھی جو کسی عام خاوند کو سننا گوارا نہیں ہوتیں مگر وہ نازلی کی باتیں سن کر ہنسی میں ٹال دیتے تھے۔ لاہور پہنچنے تک میں نے منت سماجت کر کے اسے برقع پہننے کے لئے منا لیا۔ رات کو آٹھ بجے کے قریب ہم لاہور پہنچ گئے۔ وہاں ہمیں ڈیڑھ گھنٹہ جالندھر جانے والی گاڑی کا انتظار کرنا تھا۔ ہم اس پلیٹ فارم پر جا بیٹھے جہاں سے ہماری گاڑی کو چلنا تھا۔ پلیٹ فارم خالی پڑا تھا۔ یہاں وہاں کہیں کہیں کوئی مسافر بیٹھا اونگھ رہا تھا یا کبھی کبھار کوئی وردی پوش بابو یا قلی تیزی سے ادھر سے ادھر گزر جاتا۔ مقابل کے پلیٹ فارم پر ایک مسافر گاڑی کھڑی تھی اور لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے۔ ہم دونوں چپ چاپ بیٹھی رہیں۔ ’’لاحول ولا قوة‘‘ میں نے نازلی کو کہتے سنا۔ دیکھا تو اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے انگلی سے ساتھ والے بنچ کی طرف اشارہ کیا۔ بنچ پر بجلی بتی کے نیچے دو جوان بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ’’توبہ….! جانگلی معلوم ہوتے ہیں۔ ‘‘ نازلی نے کہا۔ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کی ہیئت واقعی عجیب تھی جیسے گوشت کا بڑا سا لوتھڑا ہو۔ سوجا ہوا چہرہ، سانولا رنگ، تنگ پیشانی پر دو بھدی اور گھنی بھنویں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کے نیچے دو اندر دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی سانپ کی سی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ چھاتی اور کندھے بے تحاشہ چوڑے اور جن پر سیاہ لمبا کوٹ یوں پھنسا ہوا تھا جیسے پھٹا جا رہا ہو۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے تنگ جسم میں بہت سی جسمانی قوت ٹھونس رکھی ہو۔ چہرے پر بے زاری چھائی ہوئی تھی۔ اس کی حرکات بھدی اور مکروہ تھیں۔ ’’دیکھو تو….‘‘ نازلی بولی۔ ’’اس کے اعضاء کس قدر بھدے ہیں ؟ انگلیاں تو دیکھو۔ ‘‘ اس نے جھرجھری لی اور اپنا منہ پھیر لیا۔ ’’تم کیوں خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔ جانگلی ہے تو پڑا ہو۔ ‘‘ میں نے کہا۔ کچھ دیر تک وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر اس کی نگاہیں بھٹک کر اسی شخص پر جا پڑیں جیسے وہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو۔ ’’اسے کھاتے ہوئے دیکھنا…. توبہ ہے۔ ‘‘ نازلی نے یوں کہا جیسے اپنے آپ سے کہہ رہی ہو۔ ’’صرف ایک گھنٹہ باقی ہے۔ ‘‘ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تاکہ اس کا دھیان کسی اور طرف لگ جائے مگر اس نے میری بات نہ سنی اور ویسے ہی گم صم بیٹھی رہی۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد ہو رہا تھا۔ ہونٹ نفرت سے بھنچے ہوئے تھے۔ میں نے اسے کبھی ایسی حالت میں نہ دیکھا تھا۔ اس کے برعکس کئی بار جب مظفر بھائی کسی دہشت ناک قتل کی تفصیلات سناتے اور ہم سب ڈر اور شوق کے مارے چپ چاپ بیٹھے سن رہے ہوتے اس وقت نازلی بے زاری سے اٹھ بیٹھتی اور جمائی لے کر کمرے سے باہر چلی جاتی۔ مگر اس روز اس کا ایک اجنبی کی انگلیوں اور کھانے کے انداز کو یوں غور سے دیکھنا میرے لئے باعث تعجب تھا اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس کی شکل دیکھ کر مجھے خود ڈر محسوس ہو رہا تھا۔ ’’دیکھا نا؟‘‘ میں نے بات بدلنے کی غرض سے کہا۔ ’’تم جو بھائی مظفر کی انگلیوں پر ہنسا کرتی ہو۔ یاد ہے تم کہا کرتی تھیں ، یہ انگلیاں تو سوئی کا کام کرنے کے لئے بنی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یاد ہے نا؟‘‘ ’’توبہ ہے۔ ‘‘ نازلی نے نحیف آواز میں کہا۔ ’’اس کا بس چلے تو سب کو کچا ہی کھا جائے۔ کوئی مردم خور معلوم ہوتا ہے۔ ‘‘ وہ اپنی ہی دھن میں بیٹھی کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی جیسے اس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ اس کے بعد میں نے اس سے کچھ کہنے کا خیال چھوڑ دیا۔ دیر تک میں ادھر ادھر دیکھتی رہی حتیٰ کہ میں نے اپنے بازو پر اس کے ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔ ’’نجمی چلو کہیں دور جا بیٹھیں۔ ضرور یہ کوئی مجرم ہے۔ ‘‘ ’’پگلی۔ ‘‘ میں نے مسکرانے کی کوشش کی مگر جانگلی کو دیکھتے ہی مسکراہٹ خشک ہو گئی۔ جانگلی اپنے دھیان میں بیٹھا ہاتھ دھو رہا تھا۔ واقعی اس کی انگلیاں سلاخوں کی طرح موٹی اور بے تکی تھیں۔ میرے دل پر نامعلوم خوف چھا رہا تھا۔ پلیٹ فارم میری آنکھوں میں دھندلا دکھائی دینے لگا۔ پھر دونوں نے آپس میں باتیں کرنا شروع کر دی۔ ’’شادی؟‘‘ جانگلی نے کہا اور اس کی آواز یوں گونجی جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔ نازلی نے جھرجھری لی اور سرک کر میرے قریب ہو بیٹھی۔ مگر اس کی نگاہیں اس شخص پر یوں گڑی ہوئی تھیں جیسے جنبش کی طاقت سلب ہو چکی ہو۔ ’’کچھ حالات ہی ایسے ہو گئے کہ شادی کے متعلق سوچنا میرے لئے نہایت ناخوشگوار ہو چکا ہے۔ میری شادی ہوتے ہوتے رک گئی۔ اسی بات نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ ‘‘ ’’آخر کیا بات تھی؟‘‘ ہم بھی سنیں۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’کچھ بھی نہیں۔ بس میری اپنی بے ہنگم طبیعت۔ ‘‘ وہ ہنس پڑا۔ اس کی ہنسی بہت بھونڈی تھی۔ نازلی سرک کر میرے قریب ہو گئی۔ ’’میں اپنی طبیعت سے مجبور ہوں۔ ‘‘ جانگلی نے کہا۔ ’’تمام جھگڑا میری طبیعت کی وجہ سے ہی تھا۔ میری منگیتر میرے دوست ظہیرالدین صاحب کی لڑکی تھی۔ ظہیرالدین ہماری فرم کے منیجر تھے اور ان کا تمام کام میں ہی کیا کرتا تھا۔ چونکہ ان کے مجھ پر بہت سے احسانات تھے، میں نے ان کی بات کو رد کرنا مناسب نہ سمجھا حالانکہ میرے حالات کچھ اس قدر بگڑے ہوئے تھے کہ شادی کا بکھیڑا میرے لئے چنداں مفید نہ تھا۔ خیر میں نے سنا تھا کہ لڑکی بہت خوبصورت ہے اور سچ پوچھو تو خوب صورت لڑکی سے شادی کرنا میں قطعی ناپسند کرتا ہوں۔ ‘‘ ’’عجیب انسان ہو۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’عجیب ہی سہی مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں کسی بدصورت لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ نہیں یہ بات نہیں۔ مگر کسی حسین لڑکی کو بیاہ لانا مجھے پسند نہیں۔ ‘‘ ’’اوہ بڑا گھمنڈ ہے انہیں۔ ‘‘ نازلی نے میرے کان میں کہا۔ ’’خیر۔ ‘‘ جانگلی نے بات جاری رکھی۔ ’’ایک دن کی بات ہے کہ مجھے بے موقع ظہیرالدین کے مکان پر جانا پڑا۔ یاد نہیں کہ کیا بات تھی۔ مجھے صرف اتنا ہی یاد ہے کہ کوئی ضروری کام تھا۔ چونکہ عام طور پر میں ان کے مکان میں جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ بہرحال ایک چھوٹی سی لڑکی باہر آئی اور کہنے لگی، آپ اندر چل کر بیٹھئے۔ وہ ابھی آتے ہیں۔ خیر میں ملاقاتی کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ دفعتاً دروازہ آپ ہی کھل گیا اور کچھ دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کھلے منہ دروازے میں آ کھڑی ہوئی۔ پہلے تو وہ یوں کھڑی رہی گویا اس نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر میری طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جیسے لڑکیاں مردوں کی طرف دیکھ کر مسکرایا کرتی ہیں۔ پھر میز پر سے ایک کتاب اٹھا کر چلی گئی۔ میں اس کی بے باکی اور بناؤ سنگھار کو دیکھ کر غصے سے کھول رہا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھی۔ مجھے اب بھی وہ منظر یاد آتا ہے تو جی چاہتا ہے کہ کسی کو….‘‘ اس نے گھونسا لہراتے ہوئے کہا۔ پھر وہ ہنس پڑا۔ نازلی نے اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر چیخ سی ماری۔ مگر ڈر یا نقاہت سے اس کی آواز ان دونوں تک نہ پہنچ سکی۔ ورنہ خدا جانے وہ کیا سمجھتے۔ جانگلی نے بات پھر شروع کی۔ بولا۔ ’’وہ یوں بن سنور کر وہاں کھڑی تھی گویا اپنی قیمت چکانے آئی ہو۔ ایک زرد رنگ کار سے کی طرح بل کھایا ہوا دوپٹہ اس کے شانوں پر لٹک رہا تھا۔ سر ننگا۔ اف….! تمہیں کیا بتاؤں۔ اس کے بعد میں نے ظہیرالدین صاحب سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ یعنی میں نے رشتے سے انکار کر دیا۔ اس بات پر وہ بہت بگڑے اور مجھے کوئی اور نوکری تلاش کرنی پڑی۔ مہینوں بغیر نوکری کے رہا۔ کہاں کہاں بھٹکتا پھرا۔ راجپوتانے میں نوکری آسانی سے نہیں مل سکتی۔ ‘‘ ’’مگر اس میں انکار کی کیا بات تھی؟‘‘ اس کے ساتھی نے کہا۔ ’’آخر منگیتر تھی۔ ‘‘ ’’بس یہی کہ مجھے بے پردگی سے بے حد نفرت ہے اور آج کل کا بناؤ سنگھار مجھے پسند نہیں۔ ہاں ایک بات اور ہے۔ کوئی لڑکی جو زرد دوپٹہ پہن سکتی ہے۔ میں اسے اپنی بیوی نہیں بنا سکتا۔ مجھے زرد رنگ سے چڑ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ گھر کے کام کاج کو عار سمجھتی تھی۔ یہ آج کا فیشن ہے۔ تم جانتے ہو کہ آج کل لڑکیاں سمجھتی ہیں کہ بن سنور کر مردوں کو لبھانے کے سوا ان کا اور کوئی کام ہی نہیں اور برتن مانجھنے سے ہاتھ میلے ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہاتھ دکھلاوے کی چیز ہوں۔ یہیں دیکھ لو، کتنی بے پردگی ہے۔ عورتیں یوں برقعے اٹھائے پھرتی ہیں جیسے جنگل میں شکاری بندوقیں اٹھائے پھرتے ہیں۔ ‘‘ اس کا ساتھی ہنس پڑا اور پھر ہنستے ہنستے کہنے لگا۔ ’’یار! تم تو راجپوتانے میں رہ کر بالکل بدل گئے ہو۔ ‘‘ ’’اونہہ ہوں …. یہ بات نہیں۔ ‘‘ جانگلی نے کہا۔ ’’پردے کا تو میں بچپن سے ہی بہت قائل تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ گھر میں دو عورتیں مہمان آئیں۔ ایک تو خیر ابھی بچی تھی۔ دوسری یہی کوئی پچیس سال کی ہو گی۔ ان دنوں میں خود آٹھ نو سال کا تھا۔ خیر وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ ‘‘ وہ رک گیا۔ پھر آپ ہی بولا۔ ’’مجھے اس بات پر بے حد غصہ آتا تھا۔ اس لئے میں اکثر باہر مردانے میں ہی بیٹھا رہتا، یعنی میں نے ان کے روبرو جانا بند کر دیا۔ ایک دن ابا نے مجھے بلایا اور کہا کہ یہ پیغام اندر لے جاؤ۔ خدا جانے کیا پیغام تھا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ انہوں نے مجھے کوئی زیور دیا تھا کہ انہیں دکھا دوں۔ شاید ان مہمانوں نے وہ زیور دیکھنے کے لئے منگوایا ہو۔ میں نے ڈیوڑھی سے جھانک کر دیکھا تو وہ عورت صحن میں اماں کے پاس بیٹھی تھی۔ اماں کہنے لگی۔ حمید اندر چلے آؤ۔ اے ہے تم اندر کیوں نہیں آتے؟ تم سے کوئی پردہ ہے؟ میں یہ سن کر ابا کے پاس واپس چلا آیا۔ میں نے کہا، ابا جی میں نہیں جاؤں گا۔ وہ مجھ سے پردہ نہیں کرتی۔ یہ بات میں نے اس قدر جوش اور غصے میں کہی کہ ابا بے اختیار ہنس پڑے۔ اس کے بعد دیر تک گھر والے میری اس بات پر مجھے چھیڑتے رہے۔ البتہ زرد رنگ سے مجھے ان دنوں نفرت نہ تھی۔ طبیعت بھی عجیب چیز ہے۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری طبیعت تو ایسی ہے جیسے مداری کا تھیلا۔ ‘‘ اس کے ساتھی نے ہنستے ہوئے کہا اور وہ دونوں دیر تک ہنستے رہے۔ پھر وہ اٹھ بیٹھے۔ اس وقت پہلی مرتبہ جانگلی کی نگاہ نازلی پر پڑی جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے ماتھے پر شکن پڑ گئی اور آنکھیں نفرت یا خدا جانے کس جذبے سے سرخ ہو گئیں۔ نازلی کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس کی نگاہیں جانگلی پر جمی ہوئی تھیں جیسے وہ انہیں وہاں سے ہٹانا چاہتی ہو مگر ہٹا نہ سکتی ہو اور تمام بدن کانپ رہا تھا۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا جیسے نازلی میں ہلنے جلنے کی ساکت نہ رہی ہو۔ یک لخت جانگلی مڑا اور وہ دونوں وہاں سے چلے گئے۔ اس وقت نازلی عجیب بے بسی کے ساتھ مجھ سے لگی بیٹھی تھی۔ گویا اس میں بالکل جان نہ ہو۔ کچھ دیر کے بعد جب اسے ہوش آیا۔ عین اس کے قریب سے ایک قلی گزرا۔ وہ ٹھٹک گئی اور اس نے اپنا برقعہ منہ پر ڈال لیا۔ ’’اگر مجھے ایک خون معاف کر دیا جائے تو میں اسے یہیں گولی مار دوں۔ ‘‘ نازلی نے کہا۔ ’’کسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کتنا بنتا ہے۔ ‘‘ ’’اوہ! تمہارا مطلب اس شخص سے ہے مگر تم خواہ مخواہ اس سے چڑ رہی ہو۔ اپنی اپنی طبیعت ہے۔ اپنے اپنے خیالات ہیں۔ تمہیں اپنے خیالات پیارے ہیں ، اسے اپنے۔ ‘‘ ’’بڑی طرف داری کر رہی ہو۔ ‘‘ وہ بولی۔ ’’اس میں طرف داری کی کیا بات ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’تمہیں تو آپ سنی سنائی باتوں سے نفرت ہے۔ اس کے خیالات بھی مانگے کے نہیں۔ باقی رہی شکل، وہ تو اللہ میاں کی دین ہے…. ایمان کی بات پوچھو تو مجھے تو تم دونوں میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ ‘‘ ’’جی ہاں ! تمہارا بس چلے تو ابھی میری بانہہ پکڑ کر اس کے ہاتھ میں دے دو۔ ‘‘ ’’لا حول ولا….‘‘ میں نے کہا۔ ’’لا حول ولا کی اس میں کیا بات ہے….؟ میں کہتی ہوں اس کی بیوی اس کے ساتھ کیسے رہ سکے گی؟‘‘ گاڑی پلیٹ فارم پر آ کھڑی ہوئی۔ ہم دونوں اندر بیٹھے۔ ہم نے انٹر کا ایک چھوٹا سا زنانہ ڈبہ تلاش کیا اور اس میں جا بیٹھے۔ نازلی نے برقعہ اتار کر لپیٹ کر بنچ پر رکھ دیا اور خود کونے میں بیٹھ گئی۔ حالانکہ ڈبے میں بہت گرمی محسوس ہو رہی تھی۔ پھر بھی اس نے کھڑکی کا تختہ چڑھا دیا۔ میں دوسرے پلیٹ فارم پر ہجوم دیکھنے میں محو ہو گئی۔ میرا خیال ہے ہم بہت دیر تک یونہی خاموشی سے بیٹھے رہے۔ ’’توبہ ہے۔ ‘‘ نازلی کی آواز سن کر میں چونک پڑی۔ دیکھا تو میرے پاس ہی وہ جانگلی ہاتھ میں سوٹ کیس لئے کھڑا تھا۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔ اسی لمحے میں نازلی نے آنکھیں اوپر اٹھائیں۔ سامنے اسے دیکھ کر نہ جانے کیا ہوا۔ بس مجھے اتنا معلوم ہے کہ اس نے لپٹ کر دوپٹہ میرے سر سے کھینچ لیا اور ایک آن میں خود کو اس میں لپیٹ کر گٹھڑی سی بن کر پڑ گئی۔ ’’لاحول ولا قوة‘‘ جانگلی کی بھدی آواز سنائی دی اور وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا۔ میرا خیال ہے کہ وہ غلطی سے ہمارے ڈبے میں چلا آیا تھا۔ جب اس نے ہمیں دیکھا تو اپنی غلطی کو جان کر واپس چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک نازلی اسی طرح منہ سر لپیٹے پڑی رہی۔ میرے دل میں عجیب عجیب ہول اٹھنے لگے۔ میرا خیال تھا کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو گا۔ خدا جانے کیا ہونے والا ہے۔ ضرور کچھ ہونے والا ہے۔ خیر جوں توں ہم خیریت سے جالندھر پہنچ گئے۔ اگلے دن دوپہر کے قریب مظفر بھائی میرے کمرے میں آئے۔ ان کے چہرے پر تشویش اور پریشانی کے آثار تھے۔ کہنے لگے۔ ’’نجمہ! نازلی کو کیا ہو گیا ہے؟ کہیں مجھ سے ناراض تو نہیں ؟‘‘ ’’مجھے تو معلوم نہیں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘ ’’خدا جانے کیا بات ہے؟ اس میں وہ پہلی سی بات ہی نہیں۔ آج صبح سے ہر بات کے جواب میں جی ہاں۔ جی ہاں۔ نازلی اور جی ہاں ؟ میں سمجھا، شاید مجھ سے ناراض ہے۔ ‘‘ ’’نہیں ویسے ہی اس کی طبیعت ناساز ہے۔ ‘‘ ’’طبیعت ناساز ہے؟‘‘ انہوں نے حیرانی سے کہا۔ ’’اگر طبیعت ناساز ہوتی تو کیا وہ بیٹھی باورچی خانے کا کام کرتی۔ وہ تو صبح سے حشمت کے پاس باورچی خانے میں بیٹھی ہے۔ کہتی ہے، میں کھانا پکانا سیکھوں گی۔ منہ ہاتھ تک نہیں دھویا۔ عجیب معاملہ ہے۔ ‘‘ ’’وہم نہ کیجئے۔ آپ ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ ‘‘ میں نے بات ٹالنے کے لئے کہا۔ ’’وہم کی اس میں کیا بات ہے۔ تم جانتی ہو اس کی طبیعت خراب ہو تو اس گھر میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے اور باورچی خانے کے کام سے تو اسے چڑ ہے۔ آج تک وہ کبھی باورچی خانے میں داخل نہیں ہوئی تھی۔ خدا جانے کیا بھید ہے۔ ‘‘ ’’وہ دو قدم چل کر لوٹ آئے۔ ’’اور مزے کی بات بتانا تو میں بھول ہی گیا۔ جانتی ہو نا کہ اسے زرد رنگ کتنا پیارا ہے۔ اس نے اس مرتبہ ایک نہایت خوبصورت زرد دوپٹہ اس کے لئے خریدا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ زرد دوپٹہ دیکھ کر خوشی سے ناچے گی۔ مگر اس نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ وہیں کھونٹی سے لٹک رہا ہے۔ جب میں نے اصرار کیا تو کہنے لگی۔ ’’اچھا ہے۔ آپ کی مہربانی ہے۔ ‘‘ نازلی کے منہ سے یہ بات نکلے۔ سوچو تو…. عجیب معاملہ ہے کہ نہیں۔ ‘‘ وہ بولے۔ نازلی کی مکمل اور فوری تبدیلی پر ہم سب حیران تھے۔ مگر وہ خود بالکل خاموش تھی۔ اسی طرح ایک دن گزر گیا۔ اسی شام بھائی مظفر تار ہاتھ میں لیے باورچی خانے میں آئے۔ ہم دونوں وہیں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے۔ ’’جانتی ہو یہ کس کا تار ہے۔ خالہ فرید کا بڑا لڑکا حمید تھا نا…. جو پندرہ سال کی عمر میں راجپوتانے بھاگ گیا تھا؟ وہ واپس آ گیا ہے۔ اب وہ بہن کو ملنے دہلی جا رہا ہے۔ یہ تار اس کا ہے۔ کل صبح نو بجے یہاں پہنچے گا۔ چند ایک گھنٹوں کے لئے یہاں ٹھہرے گا۔ ‘‘ ’’کون حمید؟‘‘ ’’تم کو یاد ہو گا۔ میں اور حمید اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ ‘‘ نازلی کے ہونٹ ہلے اور اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد پڑ گیا۔ ہاتھ سے پیالی گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ اگلے دن نو بجے کے قریب میں اور نازلی باورچی خانے میں بیٹھے تھے۔ وہ چائے کے لئے پانی گرم کر رہی تھی مگر یوں بیٹھی تھی جیسے اسے کسی بات کا دھیان ہی نہ ہو۔ پاس ہی کھونٹی پر اس کا زرد دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ بھائی مظفر نے زبردستی اسے وہ دوپٹہ لینے پر مجبور کر دیا تو اس نے لے لیا لیکن پہننے کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور کپڑے میلے تھے۔ اس وقت وہ میری طرف پیٹھ کئے بیٹھی تھی۔ باہر برآمدے میں بھائی صاحب کسی سے کہہ رہے تھے۔ ’’تم یہیں بیٹھو۔ میں اسے بلاتا ہوں۔ نہایت ادب سے بھابھی کو سلام کرنا۔ ‘‘ ’’اچھا تمہاری مرضی۔ ‘‘ کسی نے بھدی آواز میں کہا جیسے کوئی گھڑے میں منہ ڈال کر بول رہا ہو۔ ’’وہی۔ ‘‘ میرے دل میں کسی نے کہا اور جانگلی کی شکل میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ میں اسے دیکھنے کے لئے دبے پاؤں اٹھی۔ باورچی خانے کا دروازہ بند تھا۔ میں نے دروازہ کھولا تو اسی وقت بھائی صاحب حمید سے کہہ رہے تھے۔ ’’آؤ تم بھی میرے ساتھ آؤ۔ ‘‘ میں نے دروازہ زور سے بند کر دیا۔ نازلی نے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ وہ دیوانہ وار اٹھی۔ کھونٹی سے لپک کر دوپٹہ اتار لیا۔ پھر میرے دیکھتے دیکھتے اسے چولہے کی طرف پھینک دیا جیسے کوئی بچھو ہو اور دوڑ کر حشمت کی چادر کو پکڑ لیا جو دوسرے دروازے کی پٹ پر لٹک رہی تھی اور اپنے آپ کو اس میں لپیٹ لیا۔ زرد دوپٹہ چولہے میں جلنے لگا۔ اسی وقت بھائی صاحب اندر داخل ہوئے مگر وہ اکیلے ہی تھے۔ انہوں نے حیرانی سے ہمیں دیکھا۔ کچھ دیر ہم تینوں خاموش ہی کھڑے رہے۔ آخر انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ نازلی کہاں ہے؟ میں نے نازلی کی طرف اشارہ کیا جو منہ لپیٹ کر کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ’’نازلی….!‘‘ انہوں نے حیرانی سے دہرایا۔ وہ نازلی کے قریب گئے۔ ’’یہ کیا حماقت ہے؟ چلو…. باہر حمید انتظار کر رہا ہے۔ ‘‘ وہ خاموش بیٹھی رہی۔ پھر نحیف آواز میں کہنے لگی۔ ’’نہیں۔ میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘ ’’کیوں ؟‘‘ وہ بولے۔ اتفاقاً بھائی جان کی نظر جلتے ہوئے دوپٹے پر پڑی۔ ’’نازلی….!‘‘ انہوں نے دوپٹے کی طرف دیکھ کر حیرانی سے کہا۔ نازلی نے سر ہلا دیا اور چمٹے سے دوپٹے کو پوری طرح چولہے میں ڈال دیا۔ بھائی نازلی کی اس تبدیلی پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نازلی کی طبیعت بہت سنور گئی ہے۔ بات ہے بھی درست۔ چونکہ اس کی طبیعت میں وہ ضد اور بے باک شوخی نہیں رہی، مگر کبھی کسی وقت انہیں اکٹھے دیکھ کر میں محسوس کرتی ہوں۔ گویا وہ نازلی کو ہمیشہ کے لئے کھو چکے ہیں۔

13 August 1980 A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

تیرہ اگست 1980

علی امام نقوی

گنگاجمنی اینٹوں سے چنا ہوا مکان پوری طرف خوف و ہراس اور گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ صحن میں دستی نل کی ہودی سے قدرے ہٹ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے کو کمر پر لپیٹنے کے بعد اس کے دونوں سروں میں گرہ لگا رہی ہے۔ گرہ لگانے کے بعد خالی خالی نظروں سے اس نے مقابل کھڑی بڑی بیٹی کو دیکھا وہ اپنی شلوار کو نیفے میں اُڑاس کر اونچا کر رہی تھی۔ادھیڑ عمر عورت نے جھک کر چوڑی دار پائجامے کو ٹخنوں سے اوپر چڑھایا۔ قریب پڑے پھاوڑے کے دستے کو پکڑ تے ہوئے اس نے دالان پر نگاہ ڈالی۔ گنگاجمنی اینٹوں سے چنا ہوا مکان پوری طرف خوف و ہراس اور گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ صحن میں دستی نل کی ہودی سے قدرے ہٹ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے کو کمر پر لپیٹنے کے بعد اس کے دونوں سروں میں گرہ لگا رہی ہے۔ گرہ لگانے کے بعد خالی خالی نظروں سے اس نے مقابل کھڑی بڑی بیٹی کو دیکھا وہ اپنی شلوار کو نیفے میں اُڑاس کر اونچا کر رہی تھی۔ادھیڑ عمر عورت نے جھک کر چوڑی دار پائجامے کو ٹخنوں سے اوپر چڑھایا۔ قریب پڑے پھاوڑے کے دستے کو پکڑ تے ہوئے اس نے دالان پر نگاہ ڈالی۔ دالان میں اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کھبی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی،کبھی اپنی اپیا کواور کبھی زمین پر پڑی اپنے ابّو اور جوان بھائی کی لاشوں کو۔ ایک کے سینے پر گولی لگی تھی اور دوسرے کے سر میں ۔ دونوں کے سفید کرتے خون میں سنے ہوئے تھے اور اب تو خون کی رنگت بھی بدل چکی تھی۔ ماںنے اپنی نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔ بڑی بیٹی کو دیکھا ، آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں نے کچھ طئے کیا، پھاوڑے والا ہاتھ بلند ہوا اور پوری قوّت سے زمین کی چھاتی میں پھاوڑ ا دھنس گیا۔دھپ کی آواز ، دالان میں بیٹھی تینوں بہنوں نے سنی، تینوں ہی نے سہم کر ایک دوسرے کو دیکھا۔چھوٹی نے اضطرار کے عالم میںباپ کے لاشے کی پنڈلی تھام لی، سہمی سہمی نگاہ اس نے ماں پہ ڈالی ، جس کا پورا وجود ایک بار پشت کی طرف جھکا ، دونوں ہاتھ بلند ہوئے ، پھاوڑا نیم کی شاخوں تک پہنچا اور دھپ کی آواز کے ساتھ ہی دور کہیں گولی چلنے کی آواز تینوں نے سنی۔ گولی چلنے کی آواز کااثر گڑھا کھودنے والی ماں اور بیٹی پر نہیں ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے کان قوّت سماعت سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں کے حلقوں میں اب ڈھیلے بھی نہیں رہے۔ بس انہیں یاد تھا تو اتنا کہ دالان میں بچیوں کے پاس دو لاشیں پڑی ہیں اور شہر میں بے مدت کرفیو لگا ہے۔ اگر لاشیں یوں ہی پڑی رہ گئیں تو تعفن کے مارے گھر میں بیٹھا نہ جاسکے گا اور گھر سے باہر نکلنے کی پاداش میںدائیں ،بائیں یا کسی اونچے مکان کی چھت سے گولی چلے گی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھاوڑے اور بیلچے نے زمین کی تہیںکھولنی شروع کر دی تھیں ، پھاوڑے کی ہر ضرب خوف ناک سناٹے کی چادر کو تانتی چلی جا رہی تھی، ماں اور بیٹی بلارکے گڑھا کھود رہی تھیں۔انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ رات نے کرفیو زدہ شہر پر کب سیاہی پھیری ۔ دالان میں بیٹھی تلے اوپر کی تین بہنوں میں سے ایک نے صحن میں پھیلتے اندھیرے کو محسوس کیا تو اٹھ کے اس نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ چند لمحوں بعد وہ ڈھبری جلارہی تھی۔دوسرے ہی پل گہرا زردی مائل اجالا دالان اور صحن میں پھیلنے لگا۔ لمحے بھر کی خاطر گڑھا کھودنے والی ماں اور بیٹی کے ہاتھ رکے ، چہرے گھومے ، دونوں نے قمیضوں کی آستینوں سے چہرے کا پسینہ پونچھاٹھیک اسی وقت دالان میں بیٹھی دونوں بہنوں نے ڈر کے مارے سر جھکالئے، یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری اپیا تو نہیں۔ یہ امّی تو ہر گز نہیں ہیں۔ انہوں نے سوچا۔ تو کسی اور دنیا کی عورتیں ہیں۔امّی اور اپیا کا چہرہ اتنا دہشت ناک تو نہ تھا۔ٍ اپیا کی مٹھیوں میں دبا بیلچہ زمین میں دھنسا ، مٹی کی تہہ نل کی ہودی کی طرف ڈھیر ہوئی اور ماں کا پھاوڑہ پوری قوّت سے زمین کی چھاتی پر پڑا۔ بس ۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اپیا کی اپنی چھاتی میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی۔ اس نے ماں کا پھاوڑہ زمین میں دھنسا دیکھا ۔ شاید وہ کچھ اور بھی سوچتی پر بے گور کفن باپ اور بھائی کی لاش کا خیال آتے ہی وہ چونکی۔بیلچے کی کھچ کھچ اور پھاوڑے کی بھد بھد کے بیچ ہی ایک تیسری آواز بھی کافی دیر سے سنائی دے رہی تھی۔دالان کی مشترکہ دیوار میں موجود کھڑکی کی کنڈی مسلسل مگر احتیاط سے بج رہی تھی۔لیکن ماں بیٹی کے ہاتھوں کی مصروفیت اور ماحول پر مسلط خوف کی وجہ سے دالان میں بیٹھی بہنوں نے اس پر توجہ ہی نہ دی۔ اب کی مرتبہ کنڈی قدرے زور سے بجائی گئی ، تب اس لڑکی نے جو کچھ دیر پہلے ڈھبری جلا چکی تھی، پہلے گڑھے کو، پھر فرش پہ پڑی لاشوں کو دیکھااور صحن میں گڑھا کھودنے میں مصروف ماں اور اپیا کو۔گویا اسے ان کی اجازت مطلوب ہو۔لیکن انہیں اپنے کام میں منہمک پا کر اس نے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ، کھڑکی کے قریب پہنچی۔اور چٹخنی گرادی۔ کھڑکی کے اس پار ماسی کھڑی تھیں۔اپنا غم زدہ چہرہ لیے۔ دونوں کی نظریں ملیں، ماسی نے شفقت بھرا ہاتھ بچّی کے سر پر رکھا۔داہنا پیر اٹھا کر کھڑکی کی راہ وہ پڑوس میں چلی آئیں۔ پھر بائیں ہاتھ سے سانکل پکڑے وہ جھکیں اور اپنی اور سے تشا اٹھا کر تیزی سے صحن کی طرف بڑھ گئیں۔ دالان میں بیٹھی سب سے چھوٹی بچی نے سامنے کی دیوار پر صحن کی طرف بڑھتی ہوئی ماسی کا سایہ دیکھا تو ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔وہ کافی دیر سے ڈھبری کی زرد روشنی میں اپنے ہی سائے کو عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ بس ، چند لمحوں کی خاطر بیلچے اور پھاوڑے نے زمین کی پرتیں ادھیڑنی چھوڑ دی تھیں ۔ماں اور بیٹی نے پڑوسن کو دیکھا دونوں کے دل پھڑ پھڑائے، اس سے پہلے کہ دونوںکے دل سے بخارات اٹھ کر آنکھوں کی راہ بہہ نکلتے ماں نے پھاوڑہ سر سے بلند کیا،دھپ کی آواز آئی۔کافی مٹی پھاوڑے پر آگئی تھی فوراََ ہی پڑوسن نے تشا آگے بڑھا دیا۔ اب کام بٹ گیاتھا۔ان کی ہمتیں بلند ہو گئی تھی۔پر اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔چھے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔۔ ڈھبری کی زرد روشنی میں ان تینوں کے سائے غسل خانے کی دیوار پر پڑ رہے تھے۔چھوٹی بچی کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو چلی تھیں۔اس کی پلکیں موندھتی ہی چلی جارہی تھیں کہ ماحول کے سکوت نے اس کے ذہن کو بیدار کر دیا۔آنکھیں کھول کر اس نے دیکھا۔ امّی اپیااور ماسی کے ہاتھ رکے ہوئے ہیں۔ ماں کے ہاتھ میں ایک ہڈّی ہے اور ایک ادھوری انسانی کھوپڑی مٹی کے ڈھیر پر پڑی ہوئی ہے۔ ایک گھٹی گھٹی سی چیخ اس کے اندر سے ابھری مگر حلقوم تک آتے آتے دم توڑ گئی، کچھ لمحے بعد بچی کی پلکوں کے کواڑ پھر بند ہونے لگے۔ یکبارگی دروازہ دھڑ دھڑا کر کھل گیا۔ ڈر کے مارے سب کی چیخیں بلند ہو گئیں ۔ پڑوسی شرما جی کے لڑکے انیل نے بھیا کو کندھے پر اٹھا رکھا ہے اور ابّو نڈھال سے زمین پر تڑپ رہے ہیں۔ ’’اپیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئو۔۔۔بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنبھالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔عید گاہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے گولی لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچا انہیں اٹھائے بھاگ رہے تھے۔اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔گلی کے موڑ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤاپیا ۔جلدی آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح ساڑھے سات بجے دونوں باپ بیٹے سفید کرتے پائجامے پہن کر عید گاہ گئے تھے اور اب انیل نے اس کے ویراکو کندھے پر سہاررکھا تھا۔اس کے ابو خون میں لت پت پڑے تھے۔سانسیں اکھڑ چلی تھیں ، اپیا اور امی بولا کر ان کی طرف بڑھیں ، جیسے تیسے انہوں نے ان دونوں کو دالان میں پہنچایا۔دروازے سے دالان تک پہنچے میں ابو نے آنکھیں بند کر لیں۔انیل بجھے دل کے ساتھ سر جھکائے مکان سے نکلااور ٹھیک اسی وقت گولی چلنے کی آواز ان لوگوں نے سنی ۔ کئی چیخیں انہوں نے سنیں۔پر ایک چیخ ان سب سے بلند تھی۔ اپیا نے دروازہ بند کرتے ہوئے گلی میں تڑپتے انیل کو دیکھ لیا تھا۔دور کہیں لائوڈ اسپیکر پر پولس والے بے مدت کرفیو کا اعلان کر رہے تھے اور پھر ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔ گھبرا کر وہ جاگ اٹھی ۔ محراب کے کھولے سے لگے لگے اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔وہ اس کی اپیا کی چیخ تھی۔ جو کرفیو زدہ رات کا سینہ چیرنے کے بعد خاموشی کا ایک حصّہ بن گئی۔ اس نے نندا سی آنکھوں سے دیکھا، اپیا، امّی، ماسی، ابو اور بھیّا، کی لاشیں گڑھے میں اتر چکی ہیں۔ دونوں لاشیں برابر لٹانے کے بعد امّی نے کمر پر بندھا دو پٹہ کھولا ہے اور لاشوں پر ڈال دیا ہے۔ اپیا نے گھڑونچی پر رکھا اپنا دوپٹہ اٹھایا۔ ماسی کی مدد سے اسے پھیلایا اور میّتیں ڈھک دیں۔ ایک مرتبہ پھر بیلچہ اور پھاوڑا مصروف ہوا۔ادھر ادھر پھیلی مٹی سے گڑھا بھرا گیا۔اپیانے ، پھر آستین سے پسینہ پونچھا گھڑونچی کے قریب پہنچیں ۔بالٹی اٹھائی اور نل کی طرف بڑھنے لگی۔ایک بچّی دوڑ کرنل کے قریب پہنچی اور ہتھّی چلانے لگی۔ بالٹی بھر جانے کے بعد اپیا نے باپ اور بھائی کی مشترکہ قبر پر پانی چھڑکا ۔ا مّی نے غور سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور نڈھال سی دالان کی طرف بڑھیں ۔ لیکن وہ چند ہی قدم چلی تھیںکہ چکر اگر گر پڑیں ۔ ماسی دوڑیں ۔چلوّمیں پانی لے کر ان کے منھ پر چھینٹے دیئے۔امّی نے آنکھیں کھول کر ماسی کو دیکھا ۔ اک ذرا سا ہاتھ اٹھا کے انہیں اطمینان دلایا۔تب ماسی نے گھٹنوں پر ہتھیلیوں کا دبائو ڈالا ۔ اٹھیں ، اپنا تشا اٹھا کر اپیا کو حسرت بھرے انداز میں دیکھااور پھاوڑے کی طرف بڑھادیا۔ اپیا اپنی اجڑی آنکھوں سے ماسی کو دیکھ رہی تھی۔اس نے دیکھا ماسی کی آنکھوںسے آنسو رواں تھے اور وہ تھکے قدموں سے دالان کی مشترکہ کھڑکی کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ پل بھر میں اپیا نے ایک فیصلہ کیا۔اپنا بیلچہ اٹھا کر وہ بھی ماسی کے پیچھے چل پڑی ۔ محراب کے کھولے سے لگی بچی نے اپیا کو دوسری طرف جاتے ہوئے دیکھا ۔ کچھ دیر بعد برابر کے مکان سے کھچ کھچ اور دھپ دھپ کی آواز آرہی تھیں ۔ بچّی کی پلکوں کے پٹ پھر بھڑنے لگے تھے۔اور مندتی ہوئی پلکوں کی جھری سے وہ دیوار پر پڑتے سائے کو دیکھ رہی تھی ۔ اپنے ہی سائے کو۔ جو کبھی ایک جگہ تھم جاتا۔کبھی لہراتا اور کبھی طوفانی انداز میں اپنے ہی جیسے دوسرے سایوں پر حملہ کر بیٹھتا تھا۔دور کہیں پھر گولی چلی تھی اور ایک چیخ بھی بلندہوئی تھی۔

Gende ke Phool A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

گیندے کے پھول

علی امام نقوی

بھارت ٹرانسپورٹ کے مالک کھر بندہ صاحب میرٹھ ، بمبئی لائن پہ ٹرک چلانے والے ایمان دارجفا کش ڈرائیور افتخار کے گھر رسمی طور سے اس کی عیادت کرنے گئے تھے۔ پر اُسے دیکھتے ہی ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، دو تین مہینے پہلے ، جب افتخار مال بھر کے بمبئی گیا تھا تو کیسا ہٹّاکٹّاتھا۔ بھارت ٹرانسپورٹ کے مالک کھر بندہ صاحب میرٹھ ، بمبئی لائن پہ ٹرک چلانے والے ایمان دارجفا کش ڈرائیور افتخار کے گھر رسمی طور سے اس کی عیادت کرنے گئے تھے۔ پر اُسے دیکھتے ہی ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، دو تین مہینے پہلے ، جب افتخار مال بھر کے بمبئی گیا تھا تو کیسا ہٹّاکٹّاتھا۔ٍ اور اب جھلنگی چار پائی پر جو شخص انہیں دکھائی دے رہا تھا ، وہ تو کوئی دوسرا ہی بندہ تھا۔ رسمی طور پر دو چار جملے ادا کرنے کے بعد وہ باہر نکلے ، ایک کیمسٹ کی دوکان سے دفتر فون کیا۔ دوسری طرف سے رابطہ قائم ہونے پر وہ بولے۔ ــ’’ویرا میں ہوں۔سریش۔لال کرنی افتخار کے گھر ڈرائیور کے ہاتھ میری گاڑی بھیج۔ اوئے گل نہ پوچھ۔ اُسے دلّی لے جاتی ہوں۔ اسپتال میں داخل کرنے۔ٍٍ تقریباََ بیس منٹوں بعد ماروتی وین میں ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر وہ بیٹھے تھے، پچھلی سیٹ پر سکڑا،سمٹا افتخار اپنی بیوی شاکرہ کی گود میںسر رکھّے پڑا ہوا تھا۔ شاکرہ، حال اور مستقبل کے خدشات میں گھڑی بیٹھی تھی۔گھر میں کمانے والا، تنہا اس کا میاں تھا ۔سال دو سال کی چھوٹ بڑائی لئے تین بچیّ اور ایک بوڑھی ساس ۔ اس کے ذہن میں پچھلے دو ڈھائی مہینوں میں ہزاروں وسوسوں نے جنم لیا تھا، لیکن افتخار کی صرف ایک تھکی ماندی مسکراہٹ نے ان وسوسات کا کام تمام کرنے میں نمایں کردار ادا کیا تھا۔شاکرہ سوچ رہی تھی کہ اب تو ان کے چہرے سے وہ مسکراہٹ ہی غائب ہوگئی جو دماغ میں پنپتے تشویش کے  کیڑوں کو رسان سے کچل دیا کرتی تھی۔ طوفانی رفتار سے دوڑتی ماروتی وین ڈیڑھ گھنٹہ بعد اَ رون اسپتال کے پورچ میں رکی۔کھر بندہ صاحب کے اشارے پر وارڈ بوائز اسٹریچر اٹھا کر وین کی طرف بڑھے۔دو منٹ بعد ہی ڈاکٹر نے افتخار کا معائنہ کیا،میرٹھ میں جن ڈاکٹروں نے ا ن کی رپورٹیں Case Paperکے ساتھ نتھی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے افتخار کو جنرل وارڈ میں داخل کرنے کی ہدایت کی اور جب وارڈ بوئے مریض کا اسٹریچر Casulaty Wardسے لے کر نکل گئے تب او۔پی۔ڈی انچارج نے کھرہ بندہ صاحب کو اطمینان دلایا۔ ’’اُس کی بیوی بھی ساتھ آئی ہے کیا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ـ’’سوری۔ جنرل وارڈ میں ، وہ بھی مَردانے وارڈ میں اس کی ذمّہ داری ہم نہیں لے سکتے ۔ٍٍ ڈاکٹر نے جذبات سے عاری لہجے میں معذرت چاہی تو کھربندہ صاحب یہ کہتے ہوئے کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ میں ہفتہ پندرہ روز میں چکر لگایا کروںگا۔بائی دی وے ایمر جنسی کی حالت میں آپ نے میرا پتہ اور فون نمبر تو لکھ ہی لیا ہے۔ چوبی سال خورہ بینچ پر ہونّق بیٹھی شاکرہ نے انہیں دیکھا تو ایک دم سے کھڑی ہوگئی ، اس کے قریب، پہنچ کے بولے۔ ــ’’افتخار کے پاس تیرے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔تو، میرٹھ چل سب ٹھیک ہوجاے گا۔ ـــ’’نا ۔جی۔میں تو اِنگے ہی رہوں گی۔ اپنے میاں کے دھورے بچّوں کو ماں کنے چھوڑیائی۔بس آپ تو ان کی خبر گیری کرتے رہیٔو۔ ـ’’پرتو، یہاں کیسے رہے گی؟ ’’اجی یہیںتو مارا پپہرے گا۔ چتلی قرپہ۔ ــ’’تب تو ٹھیک ہے۔ اور سن ! اسپتال میں اپنا فون نمبر لکھوا دیا ہے میں نے۔ ضرورت پڑے تو بلوا لینا مجھے اور ہاںاب تو چتلی قبر ، اپنے میکے چلی جا۔ شام سمندھیوں کے ساتھ آجانا۔ ’’جی!۔‘‘ٍ ’’تو میں چلوں؟‘‘ کھربندہ صاحب نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دو تین ہزار روپے اس کی طرف بڑھائے اور پھراس سے مخاطب ہوئے ۔ ’’افتخار، اپنا بہت پرانا ڈرائیور ہے۔ اس کی ضرورت پڑے گی۔ کھر بندہ صاحب کے چہرے پر ممنونیت کی ایک بھر پور نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر روپئے لیے۔اور ٹھیک جب اس لمحہ جب نوٹ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہورہے تھے۔ شاکرہ رونے لگی۔ فوراََہی کھر بندہ صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے۔ ــ’’روتی ہے پگلی۔ اب رونے کی نہیں ، رب سے دعا مانگنے کی ضرورت ہے۔رب کو یاد کر ۔ وہ چنگا ہو جائے گا۔ دوسرے دن دس بجے کے آس پاس افتخار پھر ڈاکٹروںکے درمیان گھرا ہوا تھا ۔اکیلی نحیف ونزا ر جان تھی اور کئی ڈاکٹروں کے سوالات ۔ ’’کیاکرتے ہو؟ ’’ڈرائیونگ! ’’کار چلاتے ہو؟ ـ’’نا۔ جی۔ ٹرک پہ چلوں ہوں۔ میرٹھ سے دلّی ہوتا ہوا بمبئی جایا کروں تھا۔ٍ ’’پہلی مرتبہ بخار آیا تھا؟ٍٍ ’’دو ڈھائی مہینے ہوگئے۔ سورا، اترکے ہی نہ دیوے۔ ’’شراب پیتے ہو؟ ’’توبہ کروں اُس سے۔ ’’سگریٹ ؟ ــ’’ اجی وہ کبھی کبھار پی لیا کروں ہوں۔ ’’اجی یہ جو حلق کے نلّے ہیں گے۔سورّے اینٹھیں ہیں گے۔بدن میں جان ہی نہیں لگے۔ وزٹ کرنے والے ایم۔ ڈی ڈاکٹرنے ایک لمبی ہنکاری بھری اور جونئیر زمعا لجین کو مخاطب کیا: ’’خون ، پیشاب ،ٹٹّی اورتھوک ، سب چیک کرائیں۔ ــ’’ سر! وہ سب تومریض کے کیس پیپر میں اٹیچ ہیں۔ اس نے میرٹھ کے پیارے لال شرمامیں بھی علاج کروایا تھا۔ ’’آپ پھر چیک کریں۔‘‘ بڑے ڈاکٹر کے لبوں کی مسکراہٹ دیگر ڈاکٹروں کو بہت کچھ سمجھا گئی تھی۔اُدھر افتخار جب اپنے بستر پر لٹا دیا گیاتو سوچنے لگا۔ کیسے کیسے سوال کریں ہیں سورے ڈاکٹر ۔سبھی کچھ ہم بتا دیں اور جواب میں جھولوپیٹے دوائی کی پرچی پکڑادیویں۔کھائے جائوسسری دوائیں اور سوکھتے جائو۔پر ایسا کون روگ لگ گیا جو پیچھا ہی چھوڑنے کے نہ دیوے ہے گااب پھر خون ، پیشاب ، ٹٹی چیک ہوگی۔ دیکھیں۔ اب یہ کیا کہیوں گے۔ شام کو چتلی قبر سے شاکرہ چلی آئی تو اس نے اس سے بھی یہی باتیں دہرائیں۔وہ اللہ میاں کی گائے، میاں کو حسرت بھرے انداز میں دیکھتی رہی ، پھر اُس نے میکے کا ذکر چھیڑدیا۔کھر بندہ صاحب کی تعریفوںکے پل باندھے ، افتخار نے ساری بات خاموشی سے سنی۔ پھر آہستہ سے بولا۔ ’’اِدھر کو آئیو۔ وہ اُس کے قریب جھکی تو اس نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ ’’وس سسرنے ٹول کو انگے مارے سر ہانے کھینچ لے، ایک بات کہنی ہے تجھ سے۔ ’’اچّھے ہو جائو، پھر بتا دیجیؤ۔ دماغ پر زور نہ ڈالو۔ وہ جو ڈاکٹر صاحب ہے نہ۔ وے بتا دیں تھے کہ تم سوچا کروہو۔ ’’سچ ہی کہا انھوں نے ۔ سوچوں تو ہوںپر کچھ نا سوجھے ۔ایک بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بات کم بخت ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی روزسے تجھ سے کہنا چاہوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’کہانا چنگے ہونے پہ کہہ دیجیٔو۔ ’’مجھ سے وعدہ کر۔ افتخارکی لرز تی ہوئی آواز شاکرہ نے سنی تو فوراََ اس پر جھگ گئی۔ افتخار نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ ہلائے اور پھر سر کو بائیں طرف دال دیا۔شاکرہ نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔تکیہ پر ایک گیلا دائرہ پھیلتا ہی جارہا تھا۔ ’’ائے جی!  میں کہوں۔ ہمت سے کام لو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔وے سب ٹھیک کرے گا۔ لیکن افتخار پر رحمت کے دروازے بند ہو چکے تھے۔تیسرے دن پھر جب ایم۔ڈی نے وزٹ کی اور تمام رپوٹیں پڑھیں تو اپنے جونیئر زسے کہاImmediately shift him to special ward.   ’’کیوں سر؟ ایک ساتھ کئی آوازیں سوال بن گئیں۔ He has got AIDS’’اوہ۔ پھر ایک مشترکہ گونج سے کمرہ بھر گیا۔دوسرے ہی پل ڈاکٹروں نے ترحم آمیز نگاہ افتخار پر ڈالی۔ ’’ریڈ لائٹ ایریے میں گئے ہو؟ وزٹ کرنے والے ڈاکٹر نے سوال کیا۔۔’’وہ کیاہوئے ہے جی؟ ’’ مطلب یہ کہ رنڈی بازی کا شوق ہے؟‘‘ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا جی۔ سینئراور تمام جونیئر ز ڈاکٹر اس کے جواب سے مطمئن نہیں تھے۔ اسے جب جنرل وارڈ سے اسپیشل وارڈ میں منتقل کیا جانے لگاتو خود اس کی اپنی سوچ اُس ٹرک سے بھی تیز دوڑ رہی تھی جسے ہائے وے پر وہ بے خطر چلایا کرتا تھا۔میرٹھ میں لال کرتی کا علاقہ، سائیکل رکشہ سے باغپت اڈّے کا سفر ، دلّی ، متھرا ، احمد آباد ہوتا ہوا بمبئی تک کا تھکا دینے والا سفر، دن میں آرام اور رات کے سنّاٹے میں گونجتے ٹائروں کی چرمراہٹ ، سفر ،سفر،سفر۔ دم لینے کو تھے تو کچھ مخصوص پٹرول پمپ یا ان سے ملحق ڈھابے یہی تو رین بسیرے تھے میرے۔ پر نہیں۔ سوچ کو ایک دم سے ایمر جنسی بریک لگااور سب کچھ ہل کے رہ گیا۔ٍ جنرل وارڈ سے کافی دور ، اسپتال کے ایک ویران سے گوشہ میں ایک منزلہ اسپیشل وارڈتھا۔ جہاں اُسی کی مانند آٹھ دس لاغر مریض پڑے ہوئے تھے۔ان سب نے نو وارد مریض کو بہ حسرت ویاس دیکھااور سوچا۔کیا سب ہی بُری عورتوں کی سنگت میں پڑنے کے بعد یہاں آئے ہیں؟ نہیں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ۔ کیا کیہویںہیں ویسے؟ تشخیص ۔ ہاں مجھے تو لگے ان کی تشخیص غلط ہے گی۔ٍٍ مگر بستر پر لیٹتے ہی ذہن پہ چھائی دھند چھٹی ، اور اس کے حافظے کی ایک گرہ خود بخود کھل گئی۔وہ بمبئی کی ایک سرد شام تھی۔اس کے ساتھیوں نے سونے سے پہلے دارو پی تھی۔پھر ان میں سے چند ایک نے اُسے زبردستیاپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھا لیا تھااور ٹیکسی تھمی تو اس نے دیکھا کہ وہ بازارِحسن تھا۔مگر حسن کہاں تھا؟ یاروں کے کھدیڑنے پر وہ ایک عمارت کی دوسری منزل پر پہنچا تھا۔بڑی عجیب عجیب سی لونڈیاں تھیں۔چپٹی ناک ،چوندھی آنکھیں۔چھوٹے سے دہانے۔ اٹکھیلیاں شروع ہو گئیں۔ایک چھوٹی سی نیپالن اس کی گود میں آ بیٹھی۔ اسے ایک دم سے شاکرہ یا دآئی، ملائم ملائم وجود کا پیکر، اور یہ جو گود میں ڈھے گئی ہے۔کیسے ٹھکے ہوئے جسم کی لگائی ہے یہ۔نہیں ۔ہاں۔ہاں۔نہیں ۔نہیں ۔ہاں۔ہاں۔آخر اس کی رال ٹپک ہی گئی۔ واپسی بھی ٹیکسی سے ہی ہوئی۔مگر یاروں کی بہ نسبت وہ چپ چاپ ساتھا۔گاڑی میں سونے سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ سب کیسے اور کیوں کر ہوا۔دو بول کے بدلے آخری سانسوں تک ساتھ دینے والی شاکرہ اور دس روپلّی میں خریدی اس لگائی میں کیا فرق تھا یہی نا کہ دال وہ بھی تھی اور یہ بھی، پر بگھار بازاری دال میں کچھ سوا تھالیکن۔ایک کمی تھی اس بگھار والی دال میں نمک کم تھا۔ تو کیا۔میں نے دس روپیے میں اپنی موت خریدی۔ دس روز شاید یہی بات میں شاکرہ سے کہنا چاہوں تھا۔ پر کہہ نہ سکا۔ بیسیوں بار اس کے سامنے کپڑے اتارے ہیں گے میں نے ۔ لیکن اگر اس سے اس بار ے میں کہہ دیا تو پورم پور ننگا ہوجائوں گا۔دس کی نگاہوں میں۔ دوسرے دن شاکرہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر صبح ہی جنرل وارڈ میں پہنچی تو افتخار کے پلنگ پر کوئی دوسرا مریض لیٹا کھانس رہا تھاوارڈ بوائز سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسپیشل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔اس نے نرسوں کو تلاش کرنے کے خاطر اِدھر اُدھرنگاہ دوڑائی ۔جنرل وارڈ کے کونے میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا جھمگٹا نظر آیا تو دونوں بھائی بہن وہاں پہنچے۔کچھ ڈرتے جھجکتے اس نے ایک نرس سے اپنے میاں کے متعلق پوچھا۔بڑے ڈاکٹر نے مریض کامعائنہ کرتے ہوئے کنکھیوں اسے دیکھا۔اس کی بات سنی اور جس مریض کو دیکھ رہا تھا اسے چھوڑ کر شاکرہ کے قریب پہنچا۔شاکرہ کے حلق کے ابھرتے نلوں پہ نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے اپنے جونیئر ز ڈاکٹروں سے کہا۔ ’’اسے بھی داخل کیجئے۔ خون ، تھوک ، ٹٹّی اور پیشاب سب کچھ چیک ہوگا۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ۔۔۔

Bazgasht A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

باز گشت

علی امام نقوی

آگ کے شعلوں سے بستی روشن ہوئی تو اس نے معنی خیز انداز میں اپنے جوان بیٹوں کے چہروں پر موجود پریشانیوں کے سائے کچھ بڑھتے ہوئے دیکھے۔ کنکھیوں سے بچوںکے باپ ہزار سنگھ کے چہرے پر نظر ڈالی جو کسی گہرے تفکر میں ڈوبا ہوا تھا، دوسرے ہی پل میں اس کی نگاہوں کا زاویہ تبدیل ہو کر سولہ برس کی بیٹی کے چہرے کو اپنے حصار میں لے آیا۔وہ مکان کے سب سے پو تر حصے میں گروجی کی بیڑ کے سامنے ہاتھ جوڑے من ہی من میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ سب کو ہراساں دیکھ دل ہی دل میں وہ مسکرائی، پھر کچھ سوچ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تے ہوئے زینوں کی طرف بڑھ گئی۔ہزار سنگھ نے تفکر کے کنویں سے سر ابھار کر اسے دیکھا اور اپنے اور اپنے بڑے بیٹے سے بولا۔ آگ کے شعلوں سے بستی روشن ہوئی تو اس نے معنی خیز انداز میں اپنے جوان بیٹوں کے چہروں پر موجود پریشانیوں کے سائے کچھ بڑھتے ہوئے دیکھے۔ کنکھیوں سے بچوںکے باپ ہزار سنگھ کے چہرے پر نظر ڈالی جو کسی گہرے تفکر میں ڈوبا ہوا تھا، دوسرے ہی پل میں اس کی نگاہوں کا زاویہ تبدیل ہو کر سولہ برس کی بیٹی کے چہرے کو اپنے حصار میں لے آیا۔وہ مکان کے سب سے پو تر حصے میں گروجی کی بیڑ کے سامنے ہاتھ جوڑے من ہی من میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ سب کو ہراساں دیکھ دل ہی دل میں وہ مسکرائی، پھر کچھ سوچ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تے ہوئے زینوں کی طرف بڑھ گئی۔ہزار سنگھ نے تفکر کے کنویں سے سر ابھار کر اسے دیکھا اور اپنے اور اپنے بڑے بیٹے سے بولا۔ ’’ہُن کدا ای انصاف دی گل نئی اے ۔ اک بندے دی سزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’تسی بھول رئے ہو بائو جی۔‘‘ بیٹے نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں جواب دیا تو ہزار ہ اپنے بیٹے کیہر کو گھور کر رہ گیا۔باپ اور بیٹے کے درمیان دو جملوں کی گفتگو اس نے بھی سنی ۔ ان کے اضطراب نے اس کے اپنے دل کادریچہ کھول دیاتھا۔دل میں قید مسکراہٹ چھلانگ لگا کر اس کے ہونٹوں پر براج گئی۔وہ مکان کی چھت پرپہنچ چکی تھی اوراطمینان سے اِدھر ُادھر سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلوں کا رقص دیکھ رہی تھی ۔ قرب وجوار سے ابھرنے والی امدادی صدائیں جوں ہی اس کی سماعت سے ٹکرائیں تو اس کے ہونٹوں پہ براجی مسکراہٹ کچھ پھیل گئی۔ٹھیک اسی وقت ہوا کا جھوکا اپنے دامن میں چلتے جسموں کی چراند کا بھبکا لیے اس کے نتھنوں سے ٹکرایااور اس کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوگئی۔ ’’بی جی۔تسی کتھے ہو۔‘‘ سولہ برس کے ہر جیت کو رکو مخاطب کرنے پر اس نے پلٹ کر اس کے سراپے کو دیکھا۔ہر جیت کے پورے وجود پہ کپکپی طاری تھی اور اس کی آنکھوں میں خون کنڈلی رمالے بیٹھا تھا۔ٍٍ ’’بی جی۔۔۔۔۔۔۔تسی کتھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارے پا سے آگ لگی ہے۔‘‘ ’’ہوں‘‘ ’’ہوںکی بی جی؟‘‘ ’’تھکی تھکی۔ نڈھال سی سنیتیں برسوں کے بن باس لوٹتے ہوئے ہی تو دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو نیچے جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھائیوں کے پاس۔ ’’تو جا ہر جیت۔‘‘ اس کے تحکمانہ لہجے کی کرختگی محسوس کرتے ہی ہر جیت زینوں کی طرف بڑھ گئی۔اس نے اپنے جسم کے بالائی حصے کو اک ذرا سا جھکانے کے بعد نیچے صحن میں سر جوڑے بیٹوں اور ہزار سنگھ کو دیکھا پھر زینے اترتی ہر جیت کو جو مسرت اور بے چارگی سے اسے دیکھتے ہوئے بے دلی سے زینے طئے کر رہی تھی۔اس نے اپنے خمیدہ وجود کو سیدھا کیا اور پھر ایک مرتبہ جلتے ہوئے مکانوں کو دیکھنے لگی۔فضا، آہوںکراہوں اور چیخوں سے اٹی پڑی تھی۔ رینگتی ہوئی ٹرین ایک جھٹکے سے رُکی تو کمپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے مردوں کے ذہنوں میں موجود تشویش نے جھنجلاہٹ اختیار کرلی تھی۔جو ا ن گاڑی کے رکتے ہی مستعد ہوگئے ان میں سے بیشتر نے پل بھر کی خاطر کمپارٹمنٹ کے بند دروازوں کو دیکھا اور دوسرے ہی پل اپنے عزیزوں کو ۔ یکایک وہ سب ہی چونک پڑے تھے۔ایک دم سے بہت سی آوازوں نے کمپارٹمنٹ کے دروازوں اور کھڑکیوں پر حملہ کردیا تھا۔کمپارٹمنٹ میں ٹھسا ٹھس بھرے مسافروں نے اپنی اپنی خوف زدہ نظروں سے کھڑکیوں کے اس پار چمکتی ہوئی کر پانوں کو دیکھا۔بوڑھی اورادھیڑ عورتوں نے کم سن اور جوان ہوتی ہوئی بچیوں کو اپنی چھاتیوں سے لپٹالیا۔اس اضطراری فعل سے وہ اپنے دلوں کے خوف پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں یا بچیوں کی ڈھارس بند ھا رہی تھیں۔ادھر دروازہ پیٹا جا رہا تھا پر تھپ تھپاہٹ کی ضرب وہ اپنے دلوں پر محسوس کر رہی تھیں۔ دفعتاََ ایک فائر ہوا ۔ سب نے چونک کر دیکھا ۔ ایک جوان نے اپنی خوبصورت بہن کی چھاتی میں گولی داغ دی تھی اور وہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے رہا تھا کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا۔گولیاں چلیں اور وہ جوان تیورا کر گرا جس کے ہاتھ میں ریوالور موجود تھا۔عورتوں کی چیخیںبلند ہونے لگیں۔ گرتے گرتے بھی اس جوان نے اپنا ریوالور حملہ آوروں پرخالی کر دیاتھاادھر بھی تین چار گرے تھے اور دوسرے ہی پل نیزوں کی انیاں جوانوں کے سینوں کو بر مانے لگیں۔کر پانوں نے مردوں کے گلے کاٹے۔ ان کے پیٹ چاک کئے۔ایک کے بعد ایک دل خراش چیخ ابھرتی ، اور کسی نئی چیخ میں معدوم ہو جاتی۔عورتیں جبراََ اتاری جانے لگیں ، جن عورتوں نے اپنی بچیوں کے تحفظ کے خاطر کمر کسی انھیں نہر کر دیا گیا۔ان کے بعد ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو، جنھوں نے اپنی چھوٹی بہنوں کی مدافعت کی رتی بھر بھی کوشش کی خود اس کی اپنی بہن بھی اس کے سامنے دیوار بنے کھڑی تھی اور اس کے سامنے ایک جوان ہاتھوں سنگین لگی بندوق تھا مے کھڑا تھا۔ موت۔ دونوں بہنوں کے سامنے تھی اور جوان کے رو برو تھر تھر کانپتی دو بے یار مددگار لڑکیاں۔ ’’باجی‘‘۔ اس کی لرزتی ہوئی آواز بھری ۔ بہن نے جرأت کا ذرا سا مظاہرہ کیا اور جواب میں اس کی باجی کی دل خراش چیخ ابھر کر رہ گئی۔اس کے اور حملہ آور جوان کے درمیان موجود دیوار گر چکی تھی۔ ’’کی سوچ میں گم اے ہزار۔‘‘ ’’دیکھ ۔کی چیزہے۔ماں دے خصم اے نوں اُتھے لے جا رئے ہوندے۔‘‘ ’’توڈا کی وچار ائے۔‘‘ ’’اے نوں میں گھر لے جاویں گا۔‘‘ ’’مسلی نوں۔‘‘ ’’آہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ تسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کڑی نئیں مٹھے دا گلاس اے۔‘‘ ’’پھینٹ پھانٹ اور ختم کراے نوں۔‘‘ ’’اوے۔کی گل کرداائے۔‘‘ ہزار ہ واقعی اسے اٹھا کر لے گیا تھا۔ ساتھیوں کے منع کرنے کے با وجود بھی۔گھر پہنچ کر اس نے بار بار اس کی عزت لوٹی ۔پھر تو اس کی آبرو ہزارہ کی خواہش کی پابند ہوتی چلی گئی۔سارا ہنگامہ ختم ہو چکا تھا۔جنون کا دریا اتر جانے کے بعد ہزارہ نے اس کا دل جیتنے کی بھی کوششیں کی تھیں لیکن اس نے تو اپنے ہونٹ سی لئے تھے۔ اکثر ہزارہ اس سے پوچھتا۔ ’’تواناںنو کدوں بھلا دینگی؟‘‘ مگراس کے پاس ہزارہ کے سوال کا ایک ہی جواب تھا۔ خاموشی ۔ بس ۔گہری خاموشی ۔ شروع شروع ناشتہ پانی کا انتظام ہزارہ نے ہی کیا تھا۔پھر چولہا چوکا خود اس نے سنبھال لیا۔اپنے پر گزر جانے والی قیامت کے اعصاب شکن احساسات کے اثر ات زائل کرنے کی خاطر ہی اس نے مصروفیت کا سہارا لیاتھا۔اسی قیامت کے عذاب کو بھلانے کی خاطر اس کی کوکھ نے بھی تین جانیں اگل دی تھیں۔بڑا کیہر سنگھ،چھوٹا کرم جیت سنگھ اور ایک بیٹی ہرجیت کور۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ہزارہ کے بچے بڑے ہونے لگے۔تب اسے خیال آیا کہ گائوں کی زندگی اس کے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم نہ کر سکے گی۔اپنی زمین فروخت کرنے کے بعد وہ دہلی منتقل ہو گیا۔راجدھانی پہنچ کر اس نے پر چون کی دکان کھولی۔کاروبار کے ترقی پاتے ہی دکان بڑے بیٹے اور ملازم کے سپرد کرکے اس نے موٹر سائیکل کے پرزوں کی ایجنسی لے لی۔ترقی نے یہاں بھی اس کے قدم چومے اور۔۔۔۔۔۔آج ہزارہ کی بچی ہرجیت اسی دہلیز پہ کھڑی تھی جہاں سے خود اس کی اپنی زندگی میں انقلاب آیا تھا۔ جلتے ہوئے مکانوں کی آگ کی روشنی اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی اور نیچے صحن میں کھڑا ہزارہ اس سے مخاطب تھا۔ اوئے تسی تھلے آجا۔۔۔۔۔۔۔ائے کی کرائی اے۔ چھت کی کگاریر ہتھیلیاں ٹیک کر اس نے سر جھکا کر نیچے دیکھا۔پھر بچوں کو۔اس سے پہلے کہ وہ ہزارہ کی بات کا جواب دیتی۔بلوائیوںنے مکان پر دھاوا بول دیا۔ہرجیت ڈر کے مارے کمرے میں بھاگی۔پل بھر میں ہزارہ ، کیہر اور کرم جیت نے ایک دوسرے کو دیکھا۔پھر کھونٹیوں پہ ٹنگی ہوئی کرپانوں کو۔آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ فیصلے ہوئے اور اس سے پہلے کہ وہ کرپانوں کی طرف بڑھتے دروازہ ٹوٹ کر صحن میں آن گرا۔ ایک دم سے کئی جوان ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں، لاٹھیاں اور بندوقیں لیے صحن میں گھس آئے۔ ایک نے آگے بڑھ کر چھوٹے کے کھیس پکڑے دوسرا ہزارہ کی طرف بڑھا۔ کیہر کرم جیت کی طرف بڑھا تو ایک بلوائی نے اپنا ریوالور اس کے سینے پر رکھ دیااور ٹریگر پر انگلی کا دبائو بڑھاتے ہوئے گالی دینے لگا۔ کرم جیت دہشت زدہ اب بھی ان کی گرفت میں تھا ایک نے اس کا کام بھی تمام کردیا  تب کسی نے چیخ کر سب کو مخاطب کیا۔ ’’ایک عورت اور ایک لونڈیاں اور ہے گی اس مکان میں۔‘‘ وہ سنبھل گئی۔ اس نے اپنے سارے وجود سے ہمتیں بٹوریں اور چھت پر سے صحن میں کود گئی۔چند ثانیوں کے لیے تمام حملہ آوروں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اٹھ کر اس نے کولہے جھاڑے ایک نگاہ بلوائیوں پہ ڈالی۔ پھر کیہر کرم جیت اور ہزارہ کی لاشوں کو دیکھتے ہوئے الٹے قدموں کمرے کی طرف بڑھی۔ ’’ سوچو کیا ہو۔ ختم کرو۔‘‘ ’’اور لونڈیاں کو اٹھالو۔‘‘  ’’بی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ہر جیت کی کانپتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت دور سے خود اپنی آواز بھی اس نے سنی۔ ’’بی۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر جیت نے اسے پھر پکارا۔ ’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود اپنی ہی آواز۔ اب اس نے بہت قریب سی سنی۔‘‘ ’’بی ۔۔۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہرجیت ہڑبڑا کر کمرے سے نکل آنے کی حماقت کر بیٹھی۔ ’’سوچوکیا ہو۔ ٹھکانے لگا اسے۔ اور اٹھالو۔ لونڈیا کو۔‘‘ اس نے دیکھا ایک بندوق بردار اس کا نشانہ لے رہا تھا ۔ پل بھر میںا س نے ایک فیصلہ کیا۔ سرعت سے مڑ کر اس نے ہر جیت کو اپنے سے الگ کیا۔ لپک کر کرپان نکالی اور آن واحد میں وہ کرپان ہرجیت کے پیٹ میں اتار دی۔ وہ نشانہ لے رہا تھا۔ بندوق اس کے ہاتھوں میں لرز کر رہ گئی۔ اٹھی ہوئی لاٹھیاں جھک گئیں۔مشعلوں میں روشن آگ کچھ اور تیز ہو چلی تھی۔فرش پر ہر جیت آخری سانسیں لیتے ہوئے تڑپ رہی تھی اور مشعلوں کی روشنی میں ماں اور بیٹی دونوں کا چہرہ تمتمارہا تھا۔

Nadi A Short Story by Salam Bin Razzaq

Articles

ندی سلام بن رزاق

سلام بن رزاق

ندی بہت بڑی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا پاٹ کافی چوڑا رہا ہوگا۔ مگر اب تو بے چاری سوکھ ساکھ کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے دونوں کناروں پر تاڑ اور ناریل کے آسمان گیر درخت اگے ہوئے تھے جن کے گھنے سائے ندی کے گہرے، شانت اور شفاف پانی میں یوں ایستادہ نظر آتے جیسے کسی پر جلال بادشاہ کے دربار میں مصاحب سرنیوڑ ھائے کھڑے ہوں۔ مگر اب درختوں کی ساری شادابی لُٹ چکی تھی اور ان کے ٹُنڈ مُنڈ خشک صورت تنے کسی قحط زدہ علاقے کے بھوکے کنگال لوگوں کی طرح بے رونق اور نادار لگ رہے تھے۔
ندی بہت بڑی تھی اور اس کا پاٹ اب بھی گزری ہوئی عظمت اور وسعت کی غمازی کرتا نظر آتا۔ مگر اب اس طرح خشک ہوگئی تھی کہ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے بے ڈھگے ٹاپو ابھر آئے تھے۔ حدِّ نظر تک چھوٹے بڑے بے شمار ٹاپو۔
اب ان ٹاپوئوں پر کہیں کہیں خودرو گھاس اور جنگلی جھاڑیاں بھی اُگ آئی تھیں، جن میں ہزاروں لاکھوں ٹڈے اور جھینگر شب وروز پُھدکتے رہتے۔ گھاس کے نیچے کیچڑ میں لاکھوں کیڑے رینگتے کلبلاتے رہتے اور جب دوپہر کی تپا دینے والی دھوپ میں کم کم گدلا بدبودار پانی تپنے لگتا تو ندی کی مچھلیاں اس طرح ادھر اُدھر منہ چھپاتی پھرتیں جیسے کسی پردہ دار گھرانے کی بہو بیٹیاں بھرے بازار میں بے نقاب کردی گئی ہوں۔ مچھلیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی تھی اور ٹڈے، جھینگر،کیڑے مکوڑوں اور مینڈکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ دوپہر ڈھلے ندی کے نیم گرم، گدلے پانی سے چھوٹے بڑے بے شمار مینڈک نکلتے اور ان ٹاپوئوں پر بیٹھ کر ٹراتے رہتے۔ ہر ٹاپو پر ایک بڑے مینڈک کا قبضہ تھا اور ہر ایک کے چھوٹے چھوٹے سیکڑوں معتقد یا حلقہ بگوش تھے۔ جو ہر دم اس کی ٹراہٹ کی تائید میں خود بھی ٹراتے رہتے۔
’’میں اس ندی کا وارث ہوں۔‘‘ بڑا مینڈک۔
’’ہاں! آپ اس ندی کے وارث ہیں۔‘‘ چھوٹے مینڈک۔
’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر میرا اختیار ہے۔‘‘
’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر آپ کا اختیار ہے۔‘‘
’’میں… میں… چاہوں تو ……‘‘
بڑا مینڈک مناسب دعوے کے لیے آنکھیں مٹکا مٹکا کر ادھر ادھر دیکھتا اور ذرا سے توقف کے بعد کہتا۔
’’میں چاہوں تو ایک جست میں اس چمکتے سورج کو آسمان سے نوچ کر پاتال میں پھینک دوں۔‘‘
’’آپ چاہیں تو…‘‘ چھوٹے مینڈک دھوپ سے اپنی آنکھوں کو مچماتے ہوئے حسبِ عادت بڑے مینڈک کی تائید کرتے کہ بڑے مینڈک کی خوشنودی ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔
پھر پاس ہی کے کسی ٹاپو سے ایک موٹے پیٹ اور پتلی ٹانگوں والا کوئی مینڈک گمبھیر آواز میں اپنے معتقد سے پوچھتا۔
’’کون ہے یہ؟ کون ہے یہ احمق؟‘‘
ایک طراّر مینڈک پُھدک کر کہتا۔
ـ’’وہی ہمارا ذلیل پڑوسی ہے۔ جس کے اجداد حضور کے کفش برداررہ چکے ہیں۔‘‘
’’اوہو، اس نمک حرام سے کہو کہ سورج پر کمند ڈالنے سے پہلے ہمارے قدم چومے کہ خورشید ہمارے نقشِ کف پاکے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اس کی لن ترانی کے جواب میں کسی تیسرے ٹاپو سے آواز آتی۔
’’یہ کون گستاخ ہے۔ اسے آگاہ کردو، اپنی زبان کو قابو میں رکھے کہ ہم زبان دروازوں کی زبانیں یوں کھینچ لیتے ہیں جیسے ملک الموت جسم سے روح۔‘‘
’’خاموش، خاموش، اس ندی کا ایک ایک ٹاپو ہماری زد میں ہے۔‘‘
اس کے بعد ہر ٹاپو سے ایک نئی آواز بلند ہونے لگتی۔ ہر آواز پہلی آواز سے زیادہ تیز ہر دعویٰ پہلے دعوے سے زیادہ بلند ورافع۔ ایسا شور مچتا کہ بے چاری مچھلیاں خوفزدہ ہوکر چہ بچوں کی تہوں میں جا چھپتیں۔ درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرند پھڑ پھڑا کر اڑتے اور جدھر جس کا سینگ سماتا چلا جاتا ٹرّا ٹراّ کر مینڈکوں کے گلے رُندھ جاتے، پھول پھول کر پیٹ پھٹ جاتے اور بیسوں مینڈک اپنے ہی بلند بانگ دعووںکے وزن تلے دب دب کر کچل جاتے۔ اور پھر دھیرے دھیرے تمام ٹاپوئوں پر ایک خوفناک سکوت طاری ہوجاتا نہ کسی مینڈک کی ٹرٹرنہ کسی جھینگرکی جھائیں جھائیں۔ مگر یہ سکوت ایک مختصر سے وقفے کے لیے ہوتا۔ دوسرے دن پھر مینڈک اپنے اپنے ٹاپوئوںپر جمع ہوتے اور پھر وہی لاف گزاف۔ ایک دن اسی طرح بڑے چھوٹے مینڈک اپنے اپنے ٹاپوئوں سے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ذلیل کر رہے تھے، گالیاں بک رہے تھے۔ مچھلیاں چھوٹے چھوٹے چہ بچوں میں اوپری سطح پر تیرتی اس لڑائی کو خوف اور حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے گھاس اور پودوں کی جڑوں میں دبک گئے تھے۔ ندی کے کنارے پھدکتی چڑیاں دم بخود اس بحث کو سن رہی تھیں۔
تبھی ندی کے ایک گوشے میں کچھ ہلچل سی ہوئی۔ پہلے تو سطح آب پر بڑے بڑے بلبلے پیدا ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئی پانی کی سطح پر نمودار ہوا۔ یہ ایک بے حد بوڑھا مگر مچھ تھا۔ اتنا بوڑھا کہ اس کی کیچلیاں جھڑ چکی تھیں۔ دُم کے دانتے کندے پڑگئے تھے اور اس کی پشت پر باریک باریک سبزہ اگ آیا تھا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے دُم کو اس کیچڑ آلود پانی کی سطح پر دے مارا۔ ایک زور کا چھپا کا ہوا اور پانی کے چھینٹے اڑ کر دور دور تک پہنچے۔ مختلف ٹاپوئوں پر شور مچاتے مینڈک یک بیک چپ ہوگئے۔ سب اپنی پچھلی ٹانگوں پر اچک اچک کر اس آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ آخر سبوں نے بوڑھے مگر مچھ کو دیکھ لیا۔ سبھی مینڈک بوڑھے مگرمچھ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ بعض اس سے خوف زدہ بھی رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے آباواجداد کے مطابق بوڑھا مگر مچھ اس ندی کی بدلتی ہوئی تاریخ کا چشم دید گواہ تھا۔
اس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی ہستی صدیوں کے دوش پر قرنوں کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ تمام مینڈکوں نے ٹراّ ٹرا کر بوڑھے مگرمچھ کی جے جے کار کی۔ بوڑھے مگرمچھ نے اپنی بھاری دُم پٹک کر اور اپنا لمبا چوڑا جبڑا کھول کر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر رینگتا ہوا ایک اونچی چٹان پر چڑھ گیا۔ چٹان پر پہنچ کر اس نے ندی کے اطراف نگاہ ڈالی… اب ندی… ندی کہاں تھی؟ وہ تو بس چند ٹاپوئوں اور چہ بچوں کا مجموعہ ہوکر رہ گئی تھی۔ جگہ جگہ ریت کے خشک تو دے ابھر آئے تھے۔ کہیں کہیں گڈھوںمیں پانی کے بجائے صرف کیچڑ تھا۔ ندی کے دونوں کناروں پر خود روگھاس ضرور اگی ہوئی تھی مگر پانی کی کمی کے کارن گھاس کا رنگ بھی زرد پڑتا جارہا تھا۔ ناریل، سپاری اور تاڑ کے درخت بانس کے جنگل کی طرح خشک اور ویران لگ رہے تھے۔ ندی کی اس بدلی ہوئی کیفیت کو دیکھ کر مگرمچھ کا دل بھر آیا۔ قریب تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کے جھرنے بہہ نکلتے۔ اس نے کمالِ ضبط سے ان آنسوئوں کو روکا۔ مباداندی کے یہ بے ضمیر باسی انھیں حسبِ روایت مگرمچھ کے آنسو کہہ کر ان کی تضحیک نہ کریں پھر اس نے اپنے دیدے گھما کر ادھر ادھر ٹاپوئوں پر بیٹھے مینڈکوں کو دیکھا۔ سارے مینڈک دم سادھے بیٹھے تھے۔ مگرمچھ نے پھنکار کر گلا صاف کیا، پھر بھرائی آواز میں بولا:
’’اے ندی کے باسیو! کبھی تم نے اس بلند چٹان سے ندی کو دیکھا ہے؟‘‘
تمام مینڈک ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر سبوں نے بیک زبان اعتراف کیا۔
’’نہیں… ہم نے اس بلند چٹان سے کبھی ندی کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’دیکھو! یہاں سے ندی کو دیکھو تو تم پر تمہارے بے بضاعت ٹاپوئوں کی حقیقت آشکار ہوجائے گی۔‘‘
’’مگر ہم وہاں سے ندی کو کیوں دیکھیں کہ ندی تو ہمارے لہو میں جاری و ساری ہے۔‘‘
’’عریاں حقیقتوں کو سیمابی لفظوں کا لباس نہ پہنائو کہ الفاظ جذبے کے اظہار کا بہت ادنیٰ ذریعہ ہیں۔ خود تسلّی، عارضی اطمینان کی سبیل ضرور ہے مگر یہی اطمینان مکمل تباہی کا پہلا بگل بھی ہے۔‘‘
تبھی ایک کونے سے ایک پستہ قد زرد فام مینڈک نے ٹرا کر کہا:
’’میں دیکھ سکتا ہوں۔ بلندی سے میں ندی کا نظارہ کر سکتا ہوں۔‘‘
تمام مینڈک اس زرد فام مینڈک کی طرف مڑے۔ وہ پندرہ بیس مینڈکوں کے کاندھوں پر چڑھا سینہ پھلائے نہایت حقارت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے مگرمچھ سے مخاطب ہوکر کہا:
’’اے دانائے راز! کیا میں ان تمام سفالی ہستیوں سے سر بلند نہیں ہوں کہ یہ ندی کراں تا کراں میری نگاہ کی زد میں ہے۔‘‘
ابھی اس کے الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ مینڈکوںکا اہرام لرزا اور ایک دوسرے کے کاندھوں پر چڑھے ہوئے مینڈک دھپ دھپ نیچے لڑھک گئے۔ دو چار کمزور مینڈکوں کی تو آنتیں نکل آئیں۔ بعض وہیں ڈھیر ہوگئے۔ ارد گرد کے ٹاپوئوں کے مینڈک بے تحاشا قہقہے لگانے لگے۔ ہنسی قہقہے، فقرے بازی اور شور و غوغا سے تھوڑی دیر تک کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔
آخر مگرمچھ کو مداخلت کرنی پڑی۔
’’خاموش، خاموش اے ندی کے باسیو! خاموش، یہ جائے مسرت نہیں مقام عبرت ہے کہ تمہاری چھوٹی چھوٹی نفرتوںنے تمہارے قد گھٹا دیے ہیں اور تم… تم سب اپنی ہی لاشوں پر قہقہے لگانے کے لیے زندہ ہو۔‘‘
’’اے صاحب عقل و دانش! کیا ہمیں اپنے دشمن کی مات پر خوش ہونے کا حق نہیں۔ یہ فتنۂ حرام عرصۂ دراز سے دوسروں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہمیں دھمکاتا رہتا تھا۔‘‘
’’دشمن!‘‘ مگرمچھ نے ایک گہری سانس کھینچی۔
’’تم نہیں جانتے کہ بعض اوقات دشمنی بھی تمہارے ظرف کا پیمانہ بن جاتی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو مرنے والے کی صورت میں تمہیں اپنی صورت دکھائی دے گی۔ کان کھول کر سنو۔ اس کی آواز میں تمہیں اپنی آواز سنائی دے گی۔ دشمن کی شناخت مشکل ہے اس لیے کہ دوست کی شناخت مشکل ہے۔‘‘
’’اے مدّبر وقت! تو ہی ہمیں کوئی تدبیر بتا کہ ہمارے دل نفرتوں کے غبار سے دُھل جائیں اور ہمارے سینے محبتوں کے نور سے معمور ہوجائیں۔ تجھے ہم عقل و فہم کا پتلا اور تجربات کا مرقع جانتے ہیں۔‘‘
’’اگر ماحول ساز گارنہ ہوتو تدّبر تضحیک کا نشانہ اور تجربہ تہمت کا بہانہ بن جاتا ہے یاد رکھو گھورے پر کبھی گلاب نہیں کھلتے۔ تم نے نفرت بوئی تھی نفرت ہی کاٹو گے……‘‘
’’مگر تیرے سوا کون ہماری رہنمائی کر سکتا ہے کہ ہم بالاتفاق رائے تجھے اپنا مرّبی سمجھتے ہیں۔‘‘
ایک چتکبرا مینڈک پھدک کر مگرمچھ کے قریب ہوتا ہوا مکھن چپڑے لہجے میں بولا۔ اور پھر اس انداز سے چاروں طرف دیدے گھمائے جیسے اپنے ہم جلیسوں سے کہہ رہا ہو۔ میرا کاٹا کبھی بھولے سے نہ پانی مانگے۔
بوڑھا مگرمچھ اس چالاک مینڈک کی نیت بھانپ گیا۔ ایک نگاہ غلط انداز اس پر ڈالی اور پھر دوسرے مینڈکوںسے مخاطب ہوا۔
’’مرّبی ایک ایسے بد طینت شخص کو کہتے ہیں جو زیر دستوں کی دست گیری محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ تاحیات اس کی غلامی کا دم بھرتے رہیں۔‘‘
مگرمچھ کے اس کرارے جواب نے مختلف ٹاپوئوں میں ایک غلغلہ ڈال دیا۔ دیر تک مینڈک ٹراتے اور قہقہے لگاتے رہے اور وہ چت کبرا مینڈک غصے اور ندامت سے پیچ و تاب کھانے لگا۔ جب شور ذراکم ہوا تو چت کبرا مینڈک ہوا میں قلابازی کھاتا ہوا چیخا۔
’’اَنا… اے ناصح نامہربان، تیری تلخ نوائی نے میری انا کو لہو لہان کر دیا۔ اپنی انا کی حفاظت میری زندگی کا مقصد اعلیٰ ہے۔ میں تلوار کا گھائوسہہ سکتا ہوں۔ اپنی انا پر ضرب نہیں سہہ سکتا۔‘‘
’’اَنا‘‘…… مگرمچھ نے اس چھوٹے سے مینڈک کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے حقارت سے کہا۔
’’چیونٹی اپنے منہ میں شکر کا دانہ لیے چلتی ہے تو اپنی دانست میں سات پہاڑوں کا بوجھ اس پر لدا ہوتا ہے۔ تم اپنی ڈیڑھ انچ کی انانیت کو آخر اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہو جو پانی کے ایک ریلے سے بہہ جاتی ہے، ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے اڑجاتی ہے۔ جب تک تمہاری انانیت تمہارے وجود کا حصہ نہیں بنتی، وہ چھپکلی کی کٹی دُم کی مانند بے حقیقت اور حقیر ہے۔ تمہاری مشکل یہ ہے کہ تم سب چھوٹے چھوٹے جزیروں میںبٹے ہو اور ہر کوئی اپنے جزیرے کو کرّہ ارض کے برابر سمجھتا ہے۔‘‘
مگرمچھ کا یہ وار بہت صاف اور تیکھا تھا۔ شدید تکلیف سے ان کے لہو میں گرہیں پڑ گئیں۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ غصہ ذلّت اور ندامت نے ان کی عجیب کیفیت کردی تھی۔ انھیں لگ رہا تھا کوئی انھیں رسّی کی طرح بٹتا جارہا ہے۔ مگر وہ کیا کر سکتے تھے کہ ان کے پاس نہ سانپ کا سا پھن تھا، نہ بچھو کا ساڈنک۔ البتہ وہ چیخ سکتے تھے کہ اب ان کی چیخ ہی ان کے وجود کی گواہی بن سکتی تھی۔ لہذا ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ بیک زبان ٹرّانے لگے۔ اپنی ہستی کی انتہائی بنیادوں سے ٹرّانے لگے۔ مگرمچھ ضبط و تحمل سے ان کی ٹراہٹ سنتا رہا۔ اور خاموشی سے ان کے گلوں کی پھولتی پچکتی جھلیوں کو دیکھتا رہا۔ جب ٹراتے ٹراتے ان کی گردنوں کی جھلیاں لٹک گئیں، پیٹ پچک گئے۔ تب مگرمچھ نے آہستہ سے گردن اٹھائی۔ یہاں سے وہاں تک بکھرے ہوئے مینڈکوں پر ایک متاسفانہ نگاہ ڈالی، چھوٹے بڑے، نیلے پیلے، کالے، سفید، دبلے پتلے، موٹے تگڑے۔ سارے کے سارے مینڈک منہ کھولے، گردنیں ڈالے گہری گہری سانسیں لے رہے تھے۔ اب ان کی آخری چیخ بھی ان کے سینے کی لحد میں سوچکی تھی۔ آخر ایک طویل وقفے کے بعد مگرمچھ گویا ہوا۔
’’اے ندی کے باسیو! تم میں سے ہر کوئی خود غرضی کے محور پر پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے۔ تمہاری نظروں میں سارے رنگ یوں گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ اب رنگوں کی تمیز ممکن نہیں۔ لہذا اب میرے پاس تم سب کے لیے ایک سفّاک دعا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں دعا مانگتا ہوں۔ دعا کے اختتام پر بآوازِ بلند ’آمین‘ کہنا۔ یہی تمہاری نجات کا آخری حیلہ ہے۔‘‘
مینڈکوں نے مگرمچھ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ ٹُکر ٹُکر اسے گھورتے رہے۔ اب اجالے کے پر سمٹنے لگے تھے۔ سورج ایک کیکرکے دوشاخے میں پھنسا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کے خون کی لالی قطرہ قطرہ ندی کے چہ بچوں میں سونا گھول رہی تھی۔ فضا میں ایک عجب سی دل کو مسوس دینے والی اداسی بس گئی تھی۔ تبھی مگرمچھ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا۔ آنکھیں بند کرلیں اور دعا مانگنے لگا۔
’’اے بحروبر کے مالک! اے خشکی کو تری اور تری کو خشکی میں بدلنے والے… زمانہ بیت گیا یہ ندی سوکھتی جارہی ہے اور ہم کہ جنھیں ایک ہی ندی کے باسی کہلانا تھا، الگ الگ ٹاپوئوں میں بٹ گئے ہیں۔ اے قطرے سے دریا بہانے والے اور ندیوں کو سمندر سے ملانے والے ہمارے رب! ہماری اس سوکھی ندی میں کسی صورت باڑھ کا سامان پیدا کر، تاکہ ہم جوان چھوٹے چھوٹے ٹاپوئوں میں تقسیم ہوگئے ہیں پھر اسی ندی میں گھل مل جائیں۔ اور اس کے وسیع دامن میں جذب ہوکر اسی کا ایک حصہ بن جائیں!
سیلاب! صرف ایک تندو تیز سیلاب!!‘‘
مگرمچھ دعا ختم کرکے تھوڑی دیر تک آنکھیں موندے مینڈکوں کے ’آمین‘ کہنے کا منتظر رہا۔ مگر جب کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی کہیں سے ’آمین‘ کی صدا نہیں آئی تب اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ارد گرد کے ٹاپو خالی پڑے تھے۔ تمام مینڈک ندی کے کم کم، گدلے اور بدبودار پانی میں ڈبکیاں لگا چکے تھے……
٭٭٭