کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ ہم دونوں خود اپنے ساتھ فریب کر رہے ہیں؟ آخر اس خود فریبی میں مبتلا ہو کر ہم کس حقیقت سے فرار چاہ رہے ہیں۔ زندگی فرار کانام تو نہیں ہے؟ زندگی تو خود سپردگی کا نام ہے۔
تو پھر اپنے آپ کو چھلنے کی یہ خواہش اپنے ہی ساتھ کی جانے والی سازش تو نہیں؟
اب دیکھو نا۔۔۔ بیس سال پرانا لمحہ تمہاری چھت پر زندگی کی صورت نظر آیا۔ یہ تم تھی۔ مجھے لگا وہی بیس سال والی وہ لڑکی ہے ،جو مجھے دیکھنے اور خود کو دکھانے کی تمنا میں دھوپ کی شدت کی پرواہ کئے بغیر چھت پر کھڑی ہے۔
لیکن آج دھوپ کب تھی؟ وہ تو ڈھل چکی تھی۔
اب نہ وہ شدت نہ وہ تمازت۔۔۔ ڈھلان پر رکے قدم جیسے۔۔۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، لیکن دونوں نے اپنے آپ کو فریب میں مبتلا رکھا۔ میں تمہیں دیکھ کر دیکھتا نہیں رہا بلکہ انجان بن کر تمہارے گھر کی جانب بڑھتا رہا، یہ سوچتا ہوا کہ تم دیکھ رہی ہوگی۔ اب چھت سے نیچے آؤ گی۔ میرے بل کا انتظار کرتی ہوئی جھٹ دروازہ کھول دو گی اور شرماتی ہوئی دریافت کرو گی:
’’آپ کب آئے؟‘‘
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
میری ہی طرح تم بھی دیکھ لیے جانے اور دیکھنے کی خواہش کے درمیان خود کو چھلتی رہی اپنے آپ کو یہ کہہ کر بہلاتی رہی کہ تم نے مجھے دیکھا ہی نہیں، میں نے بل بجایا، لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ عقب کی کھڑکی سے آواز آئی:
’’کب آئے؟ کہو تو دروازہ کھول دوں؟‘‘
یہ تمہارے شوہر کی آواز تھی۔ میرا اچھا دوست رہا ہے۔ مکتب اور اسکول کا ساتھی۔
’’اگر چاہو تو باہر سے ہی لوٹ جاؤں؟‘‘
میں نے جواب دیا اور وہ مسکراتا ہوا دروازہ کھول کر مجھے اندر لے گیا، لیکن میری ساری توجہ تو چھت پر تھی جہاں دھوپ کی شدت نہیں تھی، کیوں کہ دھوپ کے پاؤں تو ڈھلان پر تھے۔ میں تمہارے شوہر سے گفتگو کرتا رہا ،لیکن میرا سارا دھیان تمہارے قدموں کی چاپ پر لگا ہوا تھا اور تم چھت پر انجان بنی اپنے آپ کو چھلنے میں مصروف تھی۔ اچانک تمہاری بچی سامنے آگئی۔ میں تو چونک ہی گیا۔
’’ارے دھوپ کی یہ شدت کہاں تھی؟‘‘
ہو بہو بیس سال پرانی تمہاری اپنی تصویر۔۔۔
بیس سال بہت ہوتے ہیں۔
دو زمانوں کی دوریاں کم نہیں ہوتیں۔
لیکن مجھے ایسا کہاں لگتا ہے۔
مجھے تو آج بھی درمیانی دوری نظر نہیں آتی۔۔۔
تم جب سامنے ہوتی ہو تو یہ ساری دوریاں کہاں چلی جاتی ہیں؟
لیکن تم سامنے کب ہو؟
وہ لمحہ تو چھت پر ٹھہر گیا ہے۔
میں بھی کتنا ضدی تھا ۔مجھے ضدی بھی تو تم نے ہی بنایا تھا۔ میری ہر بات ماننے کی تمہاری وہ ادا اور تمہاری ہر ادا پر قربان ہونے کی میری خواہش۔۔۔
کیسے کیسے لمحے درمیان سے گزر گئے۔
وہ زمانہ بھی خوب تھا۔ نہ جانے کس بات پر ناراض تھا میں۔ کئی دنوں تک تم سے ملنے نہیں گیا تھا۔ کئی دن اس زمانے میں زمانوں پر بھاری ہوا کرتے تھے۔ تمہاری معافی قبول ہوئی اور شرط یہ ٹھہری کہ بارہ بجے دن میں چھت پر کھڑی ہو کر میرا انتظار کرو۔ مابدولت سامنے کی سڑک سے گزریں گے۔
وقت سے قبل تم آئی۔۔۔وقت گزار کر میں گیا۔
گھنٹہ دوگھنٹہ کھلی چھت پر مئی کی دوپہر میں بغیر کسی وجہ کے کھڑا رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے،لیکن تم وہاں تھی۔میرے من پسند لباس میں تمہاری لمبی زلفیں تمہارے وجود پر سایہ فگن تھیں ،جنہیں دیکھ کر میں اکثر کہا کرتا تھا:
’’ان زلفوں کوکھلی مت رکھنا۔ بہت سے مسافر اپنے گھر کاراستہ بھول جائیں گے۔‘‘
جواب میں تم نے مسکراتے ہوئے کہاتھا:
’’جسے راستہ بھولنا تھا وہ بھول چکا اب تو سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔‘‘
تمہاری لمبی زلفیں تمہیں پریشان کر رہی تھیں، ہوا کے جھونکے بار بار انہیں چھیڑ رہے تھے۔ میں نے تمہیں چھت پر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ نہ جانے وہ لمحہ اچانک ساکت کیوں ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو گیا ہو۔ سڑک پر ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر دیدار یار کرنا ممکن بھی نہ تھا، اس لیے نہ جانے کتنی بار اس سڑک پر ادھر سے ادھر آتا جاتا رہا ،یہ یاد نہیں۔ یاد تو صرف تم ہو۔ کتنی شدت تھی ، کتنی بے قراری تھی اور کتنی تڑپ تھی دونوں طرف۔ ایک دوسرے کو دیکھنے اور دکھانے کی تمنا۔۔۔ آس پاس سے بے خبر دھوپ بھی خود پشیماں کہ اس کی شدت سے زیادہ شدت ہے اس جذبے میں۔
لیکن آج وہ سب کہاں تھا؟
جذبے تو شاید تھے، لیکن وہ شدت کہاں تھی؟
ہم فریب کیوں دے رہے تھے خود کو؟
چاہ تو آج بھی تھی کہ دیکھوں۔۔۔ جی بھر کے دیکھوں اور دیکھوں اور دیکھتا ہی رہوں، لیکن اندر ہی اندر اس جذبے کا گلا کیوں گھونٹ رہا تھا میں؟
تم بھی تو ویسا ہی کر رہی تھی۔ تمہیں معلوم تھاکہ میں شدت سے چھت کے نیچے، تمہارے قدموں کی چاپ سننے کا منتظر ہوں،لیکن تم انجان بنتی رہی کہ چھت کے اوپر تمہیں کچھ نہیں معلوم، حالانکہ اندر ہی اندر تم بھی اسی طرح تڑپ رہی تھی، جس طرح کہ میں ۔۔۔ لیکن یہ انجاناا حتیاط خود کو جان بوجھ کر چھلنے کی خواہش۔۔۔
بہت دیر بعد تمہارے قدموں کی آہٹ میں نے پہچان لی۔سراٹھایا ،تم سامنے تھی۔نگاہیں جھک گئیں جیسے چوری کررہا ہوں تم نے بھی بس رسمی طور پر پوچھا:
’’کب آئے آپ؟‘‘
جی میں آیا کہہ دوں:’’میں گیا ہی کب تھا۔‘‘
لیکن تمہارے جواب میں تمہیں کیسے بتاتا کہ صدیاں بیت گئیں تمہارا انتظار کرتے کرتے۔
تمہاری ساری توجہ اپنے شوہر پر مرکوز ہو گئیں ۔ تم نے اپنے شوہر پر اپنی محبت قربان کرتے ہوئے کہا:
’’آپ سوئٹر کیوں نہیں پہن لیتے۔ سردی لگ جائے گی۔‘‘
میں بھی تو اندر ہی اندر بہت سرد ہو چکا ہوں۔
میرے اندر کی گرمی سوئٹر سے واپس آسکے گی کیا؟
پھر۔۔۔پھر۔۔۔
لوگ کہتے ہیں کہ یگ کے ساتھ سب بدل جاتا ہے۔
یہاں تو پورے دویگ بیت گئے۔
لیکن بدلاؤکہاں آیا۔۔۔؟
نہیں۔۔۔ شاید نہیں۔۔۔بدلاؤ تو آیا ہے۔
دویگ قبل تم جس چھت پر کھڑی ہوا کرتی تھی اس کے نیچے ایک ہی منزل تھی آج تم جس چھت پر کھڑی تھی اس کے نیچے دو منزل تھی۔ سامنے کامیدان صرف فٹ بال گراؤنڈ ہوا کرتا تھا اور اب ایک اسٹیڈیم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میدان کے بغل میں جو خستہ حال ڈاک بنگلہ تھا وہ اب ایک سرکٹ ہاؤس کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ گھر کے پاس والا سنیما ہال دوسری جگہ منتقل ہو گیا تھا اور اس کی جگہ ایک خوبصورت مارکیٹ نے لے لی تھی۔
بدلاؤ تو ہوا تھا۔۔۔سب کچھ بدل گیا تھا۔۔۔
میں بھی بدلا ۔۔۔تم بھی بدل گئی۔۔۔
لیکن وہ جذبہ جوں کا توں تھا۔
چھت پر دھوپ جیسے ٹھہر گئی تھی۔
لیکن وہ جذبہ صادق نہیں رہا تھا۔ ایک مجرمانہ کیفیت اس میں شامل ہو گئی تھی۔خلوص کی جگہ فرض نے لے لی تھی۔ بے قراری اور تڑپ کی جگہ بے بسی اور مجبوری آگئی تھی۔
میں وہی۔۔۔ وہی۔۔۔ تم ۔۔۔ درمیان کی ساری چیزیں بدل گئیں۔
ایسا ہوتا ہے۔۔۔ اکثر ہوتا ہے۔۔۔
’’کہاں ٹھہرے ہو، رات کہاں گزاروگے؟‘‘
تمہارے شوہر کی رسمی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
’’سرکٹ ہاؤس میں ہی ٹھہرا ہوں ۔ساری سہولت ہے وہاں۔‘‘
’’سہولتیں یہاں بھی مل سکتی ہیں، چاہو تو یہیں ٹھہر جاؤ۔‘‘
میں انکار کر دیتا ہوں۔۔۔ خواہشوں پر جبر کیسے کیا جاتا ہے اب پتہ چلا۔
میں اسے یہ کیسے بتا پاؤں گا کہ قریب کے سرکٹ ہاؤس میں بھی میں رات بھر سونہیں پاؤں گا۔ ہزاروں گزرے لمحے مجھے پریشان کریں گے۔ میں ان لمحوں میں کھو کر شاید خودکو ہی گم کردوں گا۔۔۔اور اگر اس چھت کے نیچے سوگیا تو لمحے انگارے ہو جائیں گے۔ میرا کیا ہوگا۔۔۔ اور تم بھی سوپاؤگی کیا؟
پھر وہی ہوگا۔۔۔ سارے لوگ تو آرام کی نیند سورہے ہوں گے ،لیکن دوروحیں بے قرار ہوں گی۔ جاگ کر بھی رات بھر سونے کا ڈھونگ کریں گے۔ پاس کے کمروں سے گاہے بگاہے کھانس کر گلا صاف کرنے کے بہانے ، یا پھر چوڑیوں کی کھنک کے سہارے ایک دوسرے کو یہ احساس کراتے رہیں گے کہ ہم دونوں سو کر بھی جاگ رہے ہیں۔
لیکن جب سامنے ہوتے ہیں تو پھر جاگ کر بھی سونے کا بہانہ کیوں کرتے ہیں؟
یہ کیسی وفا داریاں ہیں؟
ہم اندر ہی اندر سمندر کی طرح بے چین ہوتے ہیں اور باہر سے پر سکون ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔ ہماری اس بے چینی میں کتنا سکون ہوتا ہے اسے کوئی کیسے محسوس کر سکتا ہے؟
ایک بار میں بچوں کے ساتھ گوا کے سفر پر گیا تھا۔ ہوٹل گو ون ہیری ٹیج بالکل سمندر کے کنارے تھا۔ شام اپنی بیگم کے ساتھ بیچ پر ٹہل رہا تھا ۔ماحول بالکل پر سکون تھا، لیکن چاروں طرف سمندر کی چنگھاڑتی لہروں کا شور تھا۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ سمندر کی چاندی جیسی لہروں پر شفق کا سونا بکھر ا ہوا تھا۔ میں وہاں کے ماحول میں گم تھا۔ شاید وہاں ہو کر بھی کہیں اور تھا۔ چاروں طرف سمندر کا شور۔۔۔ وسعت نگاہ تک چاندی پر پھیلی سونے کی پرت۔ میں نے بیگم سے کہا:
’’دیکھو تو اس شور میں کتنا سکون ہے۔‘‘
’’شور ہے تو سکون کیسے ہوگا؟‘‘ میری بیگم نے الٹے ہی سوال داغا:
پروفیسر وں کے ساتھ یہی بیماری ہے۔ وہ ہر سوال سے سوال پیدا کریں گے۔
’’شور تو ہے، لیکن اس شور بھرے ماحول میں تمہیں سکون کا احساس نہیں ہوتا؟‘‘
’’شور میں اگر سکون کا احساس ہونے لگے تو پھر آدمی شہر کے شور سے بھاگے ہی کیوں؟‘‘
’’تو پھر تم مئی کی شدت بھری دوپہرمیں دھوپ کی تمازت میں بھی سکون محسوس نہیں کر سکو گی؟‘‘
نہ جانے میری زبان سے یہ سوال کس طرح پھسل گیا۔ اس نے تضحیک بھری ہنسی سے سوال کیا:
’’دھوپ کی تمازت میں سکون۔۔۔ اور وہ بھی مئی میں۔۔۔‘‘
اس کا سوال درست تھا۔
اور میرا تجربہ بھی درست تھا۔
دونوں اپنی اپنی بھوگی ہوئی سچائی جھیل رہے تھے۔
ایک دن سمندر میں غسل کر رہا تھا ۔کچھ سمندر ی گھونگھے اور سیپ پاؤں کے نیچے آکر اپنی موجود گی کا احساس کرانے لگے۔ ہاتھوں میں لے کر دیکھا ان کی خوبصورتی نے متاثر کیا اور جیب بھر کر ہوٹل کے کمرے میں لے آیا۔ سمینار میں جانے سے قبل انہیں زندہ رکھنے کی تگ ودو میں پانی بھرے گلاس میں انہیں ڈال کر باہر نکل آیا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد واپس آنے پر دیکھا وہ ساری خوبصورت سمندری مخلوق مردہ پڑی تھی۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ بہت سوچنے پر خیال آیا کہ سمندر کا پانی چونکہ کا فی کھارا ہوتا ہے اور میں نے انہیں میٹھے پانی میں رکھ دیا تھا۔
اپنی دنیا سے نکل کر وہ دوسری دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔
ہم دونوں بھی تو اپنی اپنی دنیا سے نکلے ہوئے ہیں۔
تو پھر زندہ کیوں ہیں؟
ایک صبح سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ لہریں موج میں تھیں۔۔۔ بہت تیزی سے ہماری جانب آتیں،پاؤں چومتی ہوئی آگے نکل جاتیں۔ ایک عجیب سی مسرت کا احساس ہوتا ،لیکن یہ کیا لہروں کا پانی واپسی میں پاؤں کے نیچے کی زمین کھسکا جاتا۔ یہ ایک عجیب تجربہ تھا میرے لیے۔
ہم دونوں بھی تو اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے قدم جمائے کھڑے تھے، لیکن نہ جانے کب حالات کے سمندر سے ایک تیز لہر آئی اور ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرکا گئی۔
کچھ باتیں دوسروں کو نہیں سمجھائی جا سکتیں۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے دھوپ کی شدت میں سکون حاصل کرنے کی کلا سیکھنی ہو گی۔
ہم دونوں ہی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ تم اپنے شوہر کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتی ہو۔ میرے سامنے تو تم اور بھی وفادار ی کا ثبوت پیش کرتی ہو۔ جانتی ہو؟ یہ سب تمہارے اندر کا ڈر کرواتا ہے۔ یا پھر تم جتانا چاہتی ہوکہ تم اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہو، لیکن سچ کا عکس اگر اپنے دل کے آئینے میں دیکھو گی تو ڈر جاؤ گی ۔
میں بھی اپنی بیگم کے لیے ایک آئیڈیل شوہر ہوں۔ اس کے لیے تو لاکھوں میں ایک۔ میں نے اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔
لیکن کیا اس طرح ہم ایک دوسرے سے انتقام لے رہے ہیں؟
لیکن کس بات کاانتقام ۔۔۔ کہیں یہ خود سے ہی انتقام تو نہیں۔۔۔؟
تم سمندر ی گھونگھے کی طرح گلاس کے میٹھے پانی میں مری نہیں، بلکہ زندہ ہو اور حالات کے سمندر کی لہریں بار بار میرے پاؤں کے نیچے کی زمین سر کاتی رہیں۔ پھر بھی میں کھڑا ہوں۔
یہ دویگ گزار کر۔۔۔ ہم ادھورے نہیں لگتے؟
سرکٹ ہاؤس کا کمرہ بہت شانت ہے۔ ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہواؤں میں بھی میں سکون محسوس نہیں کر پارہا ہوں۔ نرم و ملائم بستر بھی مجھے راحت نہیں دے پا رہا ہے۔ میری نگاہیں چھت پر ٹکی ہیں۔ اس چھت پر میرا کھویا ہوا لمحہ ٹھہر گیا ہے اور اس چھت پر بے شمار گزرے ہوئے لمحے متحرک ہو گئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا عکس میری نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔ اچانک ایک عکس منجمد ہو گیا ہے۔
میں ٹیبل پر بیٹھا ہوں۔ پانی کا گلاس چھلک گیا ہے۔ ایک ٹیوٹر ٹیوشن پڑھانے کے بعد اپنے اندر کی آگ ٹھنڈے پانی سے بجھانے کی تمنا میں گلاس بھرنے کے بعد بھی پانی انڈیلنے لگتا ہے ۔ٹیبل پر پانی پھیل گیا ہے۔ میری انگلی پانی پر جاتی ہے اور پھر ٹیبل پر لکیروں کا جال بننے لگتا ہے۔ میں اس جال میں گم ہونے لگتا ہوں، تم پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیتی ہو اور دھیمے لہجے میں کہتی ہو:
’’ان لکیروں میں زندگی تلاش کر رہے ہیں یا پھر خود کو گم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
تمہارے ہاتھوں کے سبک دباؤ نے سارے زمانے کو وہیں ٹھہر جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ میری انگلی ساکت ہو گئی ہے۔ نگاہیں ٹیبل پر پتھرا گئی ہیں۔ سر کے پیچھے سے کئی روشن دان کھل جاتے ہیں اور ہر روشن دان سے تم جھانکنے لگتی ہو۔ میں پیچھے نہیں مڑتا ،لیکن تمہارا پورا سراپا میرے سامنے ہوتا ہے۔
تمہاری انگلیاں میرے الجھے بالوں میں رینگ جاتی ہیں۔ میرے پورے بدن میں ایک عجیب سی سہرن کا احساس پیدا ہوتا ہے، پھر اچانک تم اپنی ٹھڈی میرے سر سے ٹکا تی ہوئی پھسپھساتی ہو:
’’ان لکیروں کی طرح خود کو دن بدن کیوں الجھاتے جارہے ہیں؟‘‘
میرے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ سامنے صرف لکیروں کا جال ہے اور اسی جال کے درمیان سے راستہ تلاش کرنا میری مجبوری ہے۔ یہ زندگی کی ایک پہیلی ہے۔ میں جال بھرے راستے کے اس جانب ہو ں اور تم دوسری جانب ہو۔ جال کے درمیان سے راستہ تلاش کرکے تم تک پہنچنا ہے، میں جس راستے کو بھی پکڑتا ہوں وہ آگے جا کر بند ملتا ہے۔ دوسرا۔۔۔ تیسرا۔۔۔ چوتھا۔۔۔ سارے راستے ایک ہی جیسے ہیں۔ بڑھنے کا راستہ تو دیتے ہیں پھر اچانک بند ہو جاتے ہیں۔
’’ان بند دروازوں سے گزرنا آسان ہے کیا؟‘‘
’’مجھ تک پہنچنے کے لیے انہیں بند دروازوں سے گزرنا ہوگا۔‘‘
تمہارا جواب میری پریشانی بڑھا دیتا ہے۔
’’ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس جانب سے دروازہ تلاش کرتی ہوئی مجھ تک پہنچ جاؤ؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔ اس پہیلی کو تو آپ کو ہی حل کرنا ہے۔ میں تو دیواروں میں چنی ہوئی ہوں۔ میرا اپنا آپ تو ان لکیروں میں گم ہے۔آپ کو ہی راستہ تلاش کرنا ہے اور اس دیوار کو بھی گرانا ہے۔‘‘
’’اور تم کچھ نہیں کرو گی میری شہزادی؟‘‘
’’کروں گی، ضرور کروں گی، میں آپ کا انتظار کروں گی۔‘‘
میرے سامنے لوک کتھا کی وہ شہزادی تھی ،جس کے پورے جسم میں کانٹے پیوست تھے۔ جو یہ کانٹے نکال دیتا شہزادی اس کی ہو جاتی۔
شہزادوں کی کمی نہیں تھی، لیکن ایک غریب لکڑہارا بھی اس دوڑ میں شامل رہا۔ وہ تن من سے کانٹے نکالتا رہا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ صرف آنکھ کا کانٹا نکالنا باقی رہ گیا ۔ جسے اس نے دوسرے دن پر چھوڑ دیا اور جب دوسرے دن اس نے آنکھوں سے کانٹا نکالنا چاہا تو شہزادی نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
کون ہو تم۔۔۔ اور کیا کرنے آئے ہو؟ ‘‘ شہزادی نے چونک کر پوچھا۔
’’میں۔۔۔؟‘‘ اس نے پورے اعتماد سے کہا۔
’’میں وہی ہوں شہزادی، جو ایک یگ سے تمہارے جسم سے کانٹے نکالتا رہا ہے اور جس نے ہر کانٹے کی چبھن اپنی روح پر محسوس کی ہے۔‘‘
’’لیکن تم تو وہ نہیں ہو جس نے میری آنکھ سے کانٹا نکالا تھا؟‘‘ وہ تذبذب کے عالم میں گویا ہوئی۔
’’وہ تو کوئی اور تھا اور اس نے بھی یہی دعوا کیا تھا، میں تمہاری باتوں پر کس طرح یقین کر لوں؟‘‘
وہ حیران و پریشان کھڑا ہے۔ اس کے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ اس کے اندر سے آواز آتی ہے:
’’شہزادی ۔۔۔ تم ایک دن اور انتظار نہیں کر سکتی تھی؟‘‘
میں چونک پڑتا ہوں۔
سامنے لکیروں کا کوئی جال نہیں ہے۔ سارے راستے اب میری دسترس میں ہیں، لیکن اس جانب دیواروں کے درمیان کوئی نہیں ہے۔ دیوار کی اونچائی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے اور اس پر ایک مضبوط چھت بھی ہے۔ چھت پر بڑی شدت کی دھوپ ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ ڈھل چکی ہے اورچاروں طرف شام کی سیاہی پھیلتی جا رہی ہے۔
———————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Chat Par Tahri Dhoop a Short Story Mushtaq Ahmad Noori
Articles
چھت پر ٹھہری دھوپ

مشتاق احمد نوری
Kuch Bologe Nahi a Short Story by Anwar Mirza
Articles
کچھ بولو گے نہیں!
انور مِرزا
صبح آنکھ کھُلتی. ..تو بس اِسی فِکر کےساتھ
کہ گیارہ بجے سے پہلے آفس پہنچنا ہے
یعنی وقت کے مقابلے انسان کی وہی دوڑ…
جو صدیوں سے چل رہی ہے…
زندگی کی سڑک پر
وقت ہمیشہ آگے بھاگتا نظر آتا ہے …
اورانسان تو بس، پیچھے سے لپکتا ہوا آ کر…
وقت کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے …
میَں بھی اِسی کوشش میں صبح بِستر سے نکلتا…
آنکھوں کے فریم میں …پہلی تصویر فیڈ اِن ہوتی،بیوی کی…
ڈرتے ڈرتےاُس کے چہرے پر زوم اِن کرتا…
اندازہ لگانے کی کوشش کرتا… کہ آج آفس جا سکتا ہوں…یا
اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی نوبت آئے گی…
فیس ریڈنگ کے میرے ہُنر سے بیوی واقف تھی…
میرے ڈر سے بھی انجان نہیں تھی…مُسکرا پڑتی…
جیسے جتانا چاہتی ہوکہ…میَں ٹھیک ہوں! تم جاؤ…
در اصل ،فیس ریڈنگ میں وہ مجھ سے زیادہ ماہر تھی…
میَں اپنی ہوشیاری میں رہتا تھا… اور وہ اپنی کلاکاری میں…
مگر یہ خود فریبی اب میری ضرورت بن چکی تھی…
میَں بظاہر مطمئن ہو کر کمپیوٹر آن کردیتا…
وہ سمجھ جاتی کہ اب آفس کیلئے نکلنے سے پہلے…
میَں اُ س سے کوئی بات نہیں کروں گا…
میرے فریش ہونے تک چائے آجاتی…
وہ نہیں جانتی تھی کہ میَں چائے اور بریڈ، بٹر کے ذائقے سے بھی
اندازہ لگا سکتا ہوں… کہ اُس کی طبیعت کتنی اچھّی یا کتنی خراب ہے!
چائے پیتے ہوئے میَں آن لائن انگریزی اخبار پڑھ لیتا…
وہ بھی خاموشی سے چائے پیتے ہوئے میرا چہرہ پڑھتی رہتی…
جیسے انگریزی اخبار کا اُردو ٹرانسلیشن
میرے چہرے پر لکھا ہوانظر آ رہا ہو…!
جب میَں ہر طرح سے تیار ہو جاتا …
تو وہ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لا کر دیتی…
میَں بوتل اپنے شولڈر بیگ میں رکھتا…
یہ وہ لمحہ ہوتا…جب وہ بہت پُر امید ہوتی…
کہ شاید اب میَں اُس سے کچھ کہوں گا…
پتہ نہیں کیا، شاید کچھ بھی…بے معنی سا کوئی جملہ…
یا شاید صرف میری آواز…میَں کبھی سمجھ نہیں سکا…
کہ عارضی جدائی کے اِن لمحوں میں…وہ کیا سُننا چاہتی تھی…
شاید کچھ برسوں سے…یا شاید صدیوں سے…
اُس کی ایک ایک حرکت سے ایسا لگتا…
جیسے خاموشی کی زبان سےپوچھ رہی ہو…
کچھ بولوگے نہیں…!
اور میَں بس اتنا ہی بولتا…’ آتا ہوں… آفس جا کر… ‘
اُس لمحے کی, اُس کی آخری اُمّید بھی دم توڑ دیتی…
مگر اُس کی مسکراہٹ کہتی… میَں انتظار کروں گی…
پھر محض چند سیکنڈز کیلئے ہم ایسے بغل گیرہوتے…
کہ درمیان میں ایک محتاط فاصلہ رہتا…
دروازے پر پہنچ کر میَں اُس کا چہرہ…
نظروں کے فریم میں ایڈجسٹ کرتا… اور باہر نکل جاتا…
مگر اُس دن… اخبار پڑھنے کے بعد…
میَں جلدی جلدی ایک اسکرپٹ فائنل کرنے لگا…
تاکہ کل تک اکاؤنٹ میں کچھ پیسے آجائیں…
اِس درمیان انتظار کرتے کرتے…
وہ پلنگ پر دراز ہوئی… اور اُس کی آنکھ لگ گئی…
جب میَں آفس جانے کیلئے اُٹھا…
تو اُسے سوتا دیکھ کر تذبذب میں پڑ گیا…
اُسے جگاؤں… یا نہ جگاؤں… ؟
جب تک وہ سوتی رہتی… تب تک بیمار نہیں لگتی تھی…
ایک بار تو جی میں آیاکہ اُس کی راحت میں خلل نہ ڈالوں…
لیکن پھر خیال آیا کہ آنکھ کھُلنے پر…
میری غیر موجود گی سے وہ بہت افسردہ ہوگی…
میَں نے اُسے جگانے کیلئے بہت آہستگی سے…
اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا…
اُس نے فوراً ایسے آنکھیں کھول دیں…
جیسے اِسی انتظار میں تھی… اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی…
میَں نے منع کیا… وہ مان گئی…
میَں نے اُس کا چہرہ اپنی آنکھوں میں کمپوز کیا… اور…
’آتا ہوں!‘ … کہہ کر آفس کیلئے نکل گیا…
آٹو رکشہ… ٹرین… اور بس نے مجھے آفس پہنچایا…
دو چار نئے گانے… آڈیو… ویڈیو… یوٹیوب…
ایڈیٹنگ…مِکسِنگ… اپ لوڈنگ… لنچ ٹائم…
گھرسے اُس کا فون آیا… پوچھنے لگی…
کیا کمپیوٹر پر تمہاری کوئی فلم ڈاؤن لوڈ ہو رہی ہے؟
میَں نے کہا نہیں! لیکن ڈِش ٹی وی پر لائیو کرکٹ ریکارڈ ہوگا…
اُس نے چند لمحوں انتظار کیا… کہ شاید میَں کوئی اور بات کروں…
آخرپھر خود ہی ’اچھا‘ کہہ کر فون رکھ دیا…
میَں نے لنچ ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے سوچا…
کم از کم مجھے اتنا تو پوچھ ہی لیناچاہئیے تھا …
کہ اُس نے کھانا کھا لیا یا نہیں… !
دو گھنٹے بعد پھر فون آیا… مگر یہ فون اُس کا نہیں تھا…
اُس کےبارے میں تھا…
بچّوں نے مجھے فوراً گھر آنے کیلئے کہا…
پتہ نہیں بچّوں کی آواز میں میَں نے ایسا کون سا منظر دیکھ لیا…
کہ کسی سے کچھ کہے بِنا آفس سے نِکل گیا…
میَں فاسٹ فارورڈ میں گھر پہنچ جانا چاہتا تھا…
لیکن اِس دوران پھر بچّوں کا فون آگیا…
اب مجھے گھر نہیں… اسپتال پہنچنا تھا… مجھے جلدی تھی…
مگر آٹو رکشہ جیسے سلو موشن میں اسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا…
ذہن میں زندگی کا فلیش بیک چلنے لگا…
وہ آج پہلی بار اسپتال نہیں گئى ہے…
وہ ٹی بی کو شکست دے چکی ہے…
استھما کو حیرت زدہ کر چکی ہے…
آج بھی واپس آ جائے گی… اور آج…ہاں! آج…
آج… میں اُس سے پوچھ ہی لُوں گا
کہ وہ مجھ سے کیا کہنا…یا کیا سننا چاہتی ہے…
اور اچانک’ فلیش کٹ ‘ میں شادی کی پہلی سالگرہ کی
ایک بات یاد کرکے مجھے اور آٹو رکشہ کو ایک ساتھ جھٹکا لگا…
میرے اسپتال پہنچتے ہی…بچے مجھ سے لپٹ کر رونے لگے…
’کچھ نہیں ہوگا!…میَں ہوں نا…‘میں دِلاسہ دے کر آگے بڑھا…
وہ بیڈ پر اُسی طرح لیٹی تھی…جیسے آج صبح گھر پر…
میَں نے اُسے جگانے کیلئے بہت آہستگی سے…
اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا…
لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں…
میں نے اسے آواز دی…
ایک بار…دو بار…تین بار…
’’اٹھو…! دیکھو…!! میں آگیا ہوں…‘‘
’’چلو گھر چلو…! مجھے یاد آگیا ہے…
کہ تم برسوں سے کیاسننا چاہ رہی ہو…‘‘
’’ہاں…میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتاہوں…‘‘
’’بہت پیار کرتا ہوں تم سے…‘‘
’’بہت محبت کرتاہوں…آئی لو یو…!‘‘
بچے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے…پھر مجھ سے لپٹ گئے …
ڈاکٹر نے وہ ایک لفظ کہہ دیا…
جس کے بعد ہر امید دم توڑ دیتی ہے…
وہ جا چکی تھی…!
میَں نے اُس کا بے جان چہرہ غور سے دیکھا…
زندگی میں پہلی بار احساس ہوا …
کہ چہرے کا نُور کِسے کہتے ہیں…
وہ ڈائی بیٹیز کی گرفت میں تھی…
خالی پیٹ کے سبب اسٹروک آگیاتھا…
ایک اسٹروک میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا…
کم از کم مجھے اتنا تو پوچھ ہی لیناچاہئیے تھا …
کہ اُس نے کھانا کھا لیا یا نہیں… !
اگر پوچھ لیتا …تو… شاید…شاید!
میری نم آنکھوں میں اُس کا بھیگا ہواچہرہ کمپوز ہوا…
’کچھ بولو گے نہیں…!‘
——————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Khalid ka Khatna a Short Story by Ghazanfar
Articles
خالد کا ختنہ

غضنفر
جو تقریب ٹلتی آ رہی تھی، طے پا گئی تھی۔ تاریخ بھی سب کو سوٹ کر گئی تھی۔ پاکستان والے خالو اور خالہ بھی آ گئے تھے اور عرب والے ماموں ممانی بھی۔ مہمانوں سے گھر بھر گیا تھا۔
بھرا ہوا گھر جگمگا رہا تھا۔ در و دیوار پر نئے رنگ و روغن روشن تھے۔ چھتیں چمکے لیے کاغذ کے پھول پتوں سے گلشن بن گئی تھیں۔ کمروں کے فرش آئینہ ہو گئے تھے۔ آنگن میں چمچماتی ہوئی چاندنی تن گئی تھی۔ چاندنی کے نیچے صاف ستھری جازم بچھ چکی تھی۔
باہر کے برآمدے میں بڑی بڑی دیگیں چڑھ چکی تھیں۔ باس متی چاولوں کی بریانی سے خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔ قورمے کی دیگوں سے گرم مصالحوں کی لپٹیں ہواؤں سے لپٹ کر دُور دُور تک پھیل رہی تھیں۔
دھیرے دھیرے محلّہ پڑوس کی عورتیں بھی آنگن میں جمع ہو گئیں۔ بچّوں کی ریل پیل بڑھ گئی۔
رنگ برنگ کے لباس فضا میں رنگ گھولنے لگے۔ سونے چاندی کے گہنے کھن کھن چھن چھن بولنے لگے۔ پرفیوم کے جھونکے چلنے لگے۔ دل و دماغ میں خوشبوئیں بسنے لگیں۔ میک اپ جلوہ دکھانے لگا۔ چہروں سے رنگین شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ ابرق سے آراستہ آنکھوں کی جھلملاہٹیں جھلمل کرنے لگیں۔ سرخ سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں کھلکھلا پڑیں۔ ماحول میں رنگ نور، نگہت تینوں رچ بس گئے۔ جگمگاتا ہوا گھر اور جگمگا اُٹھا۔
ابو امّی بے حد خوش تھے کہ خوشیاں سمٹ کران کے قدموں میں آ پڑی تھیں۔ دلوں میں بے پناہ جوش و خروش تھا کہ جوش ایمانی اور پرُ جوش ہونے والا تھا۔ آنکھیں پر نور تھیں کہ نور نظر سنّت ابراہیمی سے سرفراز ہونے جا رہا تھا۔ چہرے پرتاب و تب تھی کہ لختِ جگر کی مسلمانی کو تاب و توانائی ملنے والی تھی۔ سانسیں مشک بار تھیں کہ تمنّاؤں کے چمن میں بہار آ گئی تھی۔
تقریب کا آخری مرحلے شروع ہوا۔
مہمان برآمدوں اور کمروں سے نکل کر آنگن میں آ گئے۔ چاندنی کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے ——فرش کے وسط میں اوکھلی آ پڑی۔ اوکھلی پر پھول دار چادر بچھ گئی۔ خوان تازہ پھولوں کے سہرے سے سج گیا۔ ململ کا کڑھا ہوا کرتا پیکٹ سے باہر نکل آیا۔
بزرگ نائی نے اپنی بغچی کھول لی۔ استراباہر آ گیا۔ کمانی تن گئی۔ راکھ کی پڑیا کھل گئی۔
خالد کو پکارا گیا مگر خالد موجود نہ تھا۔ بچّوں سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ سب نے نفی میں سرہلا دیا۔ ابو امّی کی تشویش بڑھ گئی۔ تلاش جاری ہوئی۔ ابو اور میں ڈھونڈتے ہوئے کباڑ والی اندھیری کوٹھری میں پہنچے۔ ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو خالد ایک کونے میں دیر تک کسی دوڑائے گئے مرغ کی طرح دُبکا پڑا تھا۔
’’خالد بیٹے ! تم یہاں ہو اور لوگ ادھر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ آؤ، چلو! تمہاری ممی پریشان ہو رہی ہیں۔ ‘‘
’’نہیں ابو !میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ ‘‘خالد منہ بسورتے ہوئے بولا۔
خالد سے ختنے کی بات چھپائی گئی تھی مگر شاید کچھ دیر پہلے کسی نے اسے بتا دی تھی۔
’’ٹھیک ہے، مت کرانا۔ مگر باہر تو آ جاؤ۔ !ابو نے بڑے پیارسے یقین دلایا۔ مگر خالد دیوارسے اس طرح چمٹ کر بیٹھا تھاجیسے دیوار نے کسی طاقت ور مقناطیس کی طرح اسے جکڑ لیا ہو۔ ہم نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچنے کی کوشش کی مگر اس کا دوسرا ہاتھ دیوارسے اس طرح چپک گیا تھاجیسے وہ کوئی سانپ ہو جس کا اگلا حصہ کسی بل میں جا چکا ہو اور دم ہمارے ہاتھ میں۔ نہ جانے کہاں سے اس چھوٹے سے بچّے میں اتنی طاقت آ گئی تھی۔ بڑی زور آوری کے بعد مشکل سے اسے کوٹھری سے باہر لایا گیا۔
’’امّی!امّی! میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’اچھّی بات ہے۔ نہ کرانا لیکن یہ نیا کرتا تو پہن لو۔ دیکھو نا سارے بچّے نئے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اور یہ دیکھو!یہ سہراکتنا اچھّا ہے۔ تمہارے سرپربہت سجے گا۔ لو، اسے باندھ کر دولھا بن جاؤ۔ یہ سب لوگ تمھیں دولہا بنانے آئے ہیں۔ تمہاری شادی بھی تو ہو گی نا!
’’امّی!آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ میں سب جانتا ہوں ‘‘میں کرتا نہیں پہنوں گا۔ میں سہرانہیں باندھوں گا۔ ‘‘
’’یہ دیکھو!تمہارے لیے کتنے سارے روپیے لایا ہوں !ابو نے کڑکڑاتے ہوئے دس دس کے ڈھیرسارے نوٹ خالد کے آگے بچھا دیئے۔
آس پاس کھڑے بچّوں کی آنکھیں چمک انھیں۔
’’اچھّا!یہ دیکھو! تمہارے لیے میں کیا لایا ہوں ؟پاکستان والے خالو نے امپورٹیڈ ٹافیوں کا ڈبہ کھول دیا۔
بچّوں کی زبانیں ہونٹوں پر پھرنے لگیں۔
عرب والے ماموں آگے بڑھ کر بولے۔
’’دیکھو خالد! یہ کار تمہارے لیے ہے۔ بغیر چابی کے چلتی ہے۔ یوں ——‘‘تالی کی آواز پر کار اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔
مگر خالد کی آنکھیں کچھ نہ دیکھ سکیں۔ اس کی نظریں کسی صیّاد دیدہ جانور کی طرح پتلی میں سہمی ہوئی ساکت پڑی رہیں۔
ابو، امّی، خالو، ماموں، پیار، پیسہ، ٹافی، کارسب کچھ دے کر تھک گئے۔ خالد ٹس سے مس نہ ہوا۔
جھنجھلا کرابوزبردستی پر اُتر آئے۔ خالد کی پینٹ کھول کر نیچے کھسکانے لگے مگر خالد نے کھلی ہوئی پینٹ کے سروں کو دونوں ہاتھوں سے کس کر پکر لیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے ساتھ لبوں سے رونے کی آوازیں بھی نکلنے لگیں۔ خالد کے آنسوؤں نے امّی کی آنکھوں کو گیلا کر دیا۔ ’’مت روؤ میرے لال! مت روؤ!تم نہیں چاہتے توہم زبردستی نہیں کریں گے۔ تمہارا ختنہ نہیں کرائیں گے۔ ‘‘ امّی نے روندھی ہوئی آواز میں خالد کو دلاسادیا اور اپنے آنچل میں اس کے آنسو جذب کر لیے۔ کچھ دیر تک امّی خاموش رہیں۔ پھر خالد کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ ’’پچھلے سال تو پھوپھی کے گھر کامران کے ختنے کے وقت تم خود ضد کرتے رہے کہ امّی آپ میرا بھی ختنہ کرا دیجیے مگر آج تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟تم اتنے ڈرپوک کیوں بن گئے ؟تم تو بڑے بہادر بچّے ہو۔ تم نے اپنے زخم کا آپریشن بھی ہنستے ہنستے کرا لیا تھا۔ اس میں تو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘
’’امّی !میں ختنہ کرانے سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘
’’تو؟‘‘
’’ابو!آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے بدمعاش انہیں جان سے مار دیتے ہیں۔ ‘‘
خالد کا جملہ ابو کے ساتھ ساتھ سب کے سروں پر فالج کی طرح گر پڑا۔ سب کی زبانیں اینٹھ گئیں۔ چہکتا ہوا ماحول چپ ہو گیا۔ جگمگاہٹیں بجھ گئیں۔ مسکراہٹیں مرجھا گئیں۔ بچّوں کی اُنگلیاں اپنے پاجاموں میں پہنچ گئیں۔
تلاشیوں کا گھناؤنا منظر اُبھر گیا۔ جسم ننگے ہو گئے۔ چاقو سینے میں اُترنے لگے۔ ماحول کا رنگ اُڑ گیا۔ نور پر دھندکا غبار چڑھ گیا۔ خوشبو بکھر گئی۔
نائی کا استرابھی کند پڑ گیا۔ راکھ پر پانی پھر گیا۔
پاکستان والے خالو نے ماحول کے بوجھل پن کو توڑتے ہوئے خالد کو مخاطب کیا۔
’’خالد بیٹے !اگر تم ختنہ نہیں کراؤ گے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟تمہارا ختنہ نہ دیکھ کر تمھیں ختنہ والے بدمعاش مار ڈالیں گے۔ ‘‘
’’سچ ابو ؟‘‘خالد سرسے پاؤں تک لرز گیا۔
’’ہاں، بیٹے !تمہارے خالوسچ کہہ رہے ہیں۔ ‘‘
’’تو ٹھیک ہے میرا ختنہ کر دیجیے۔ ‘‘جھٹ اس کے ہاتھوں سے کھلی ہوئی پینٹ کے سرے چھوٹ گئے۔ پینٹ کولھے سے نیچے سرک آئی۔ خالد ختنے کے لیے تیار تھا۔ مگراس کی رضا مندی کے باوجود کسی نے بھی اس کے سرپرسہرا نہیں باندھا۔ کوئی بھی ہاتھ کرتا پہنانے آگے نہیں بڑھا۔
اذیت ناک سکوت جب ناقابل برداشت ہو گیا تو پاکستان والے خالو نے آگے بڑھ کر خالد کو اسی حلیے میں اوکھلی کے اوپر بٹھا دیا۔
تقریب کا آغاز ہو گیا مگر نائی کے تھال میں پیسے نہیں گرے۔ نائی نے مطالبہ بھی نہیں کیا۔
خاموشی سے اس نے مسلمانی میں راکھ بھری۔ کمانی فٹ کی۔ چمٹے میں چمڑے کوکسا اور اس پر لرزتا ہوا استرارکھ دیا۔ جیسے ختنہ نہیں، گردن کاٹنے جا رہا ہو۔
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Sang Taraash a Short Story by Ishrat Naheed
Articles
سنگ تراش

عشرت ناہید
وہ ایک ماہر سنگ تراش تھاا ´ور اپنی صناعانہ صفتوں سے معمور انگلیوں سے جب بھی کوئی بت تراشتا تو ایسا لگتا کہ یہ مورت بس ابھی بول پڑیگی اور اس خوبی کا راز صرف یہ تھا کہ وہ مجسمہ سازی کرتے وقت اپنی روح کا کچھ حصہ اس مجسمہ میں منتقل کر دیتا تھا ۔ وہ روح جو کہ بہت پاکیزہ تھی اور سنگ تراش کے جسم پر قبا کی مانند لپٹی ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی اس کے ہنر کے فسوں میں گرفتار ہو جاتا ۔اس کے مجسموں کو دیکھنے اور خریدنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے اور منہ مانگی قیمت ادا کرتے ۔ اس کا فن اس کا جنون بن چکا تھا دراصل اس جنون کے پیچھے اس کا عشق تھا وہ جو دل کے نہاں خانوں میں چھپا ہوا تھا جو کہ عرصہ ہوا اپنے معشوق حقیقی کے قرب کی تمنا میں اسے چھوڑ تنہائی کا درد بخش گیا تھا اس کی جدائی نے اسے ایک نئے سوز سے ہمکنار کر دیا تھا ۔ سنگ تراش اپنی ا س لافانی محبت کو ایک مجسمہ کی طرح دل میں بسا کر اس کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف تھا اور اس کا فن اپنے نکھار کے عروج کی طرف گامزن ۔
آہستہ آہستہ اس کا فن مقدس عبادت میں بدلتا جا رہا تھا اور وہ خود ایک تپسوی کی طرح اس کی ارچنا کر رہاتھا، وہ لین تھاہوگیا
سادھنا میں ، وہ یہ بھول گیا تھا کہ تپسیا جب آخری مرحلے پر پہنچنے کو ہوتی ہے تو دیوتا بھی حسد کا شکار ہو اٹھتے ہیں اور برہما سے وشوامتر کا ملن ناممکن ہوجاتا ہے ۔مینکا رقص کا سہارا لے کر تپسیا بھنگ بھی کر دیتی ہے ۔ان تمام خدشات سے پرے وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنے کا م میں منہمک رہتاصرف اور صرف پتھر اس کے سامنے ہوتے اور وہ اپنی چھوٹی بڑی ہتھوڑیوں سے انہیں تراشتا رہتا ۔لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے بت سازی کے عمل میں مشغول ہوتا ،بے قیمت پتھر اس کی انگلیوں کی جنبش سے ا نمو ل بن رہے ہوتے ، زندگی نمو پارہی ہوتی کہ کوئی پتھر آکر اس کی ذات کے خاموش سمندر میں تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کرتا وہ چونک اٹھتا لہروں کا ارتعاش کچھ لمحوں کے لیے اسے بے چین ضرور کرتا مگر وہ جلد ہی لہروں کو سکوت کے لیے تہہ آب بھیج دیتا اور پھر محو ہوجاتا اپنی عبادت میں، لیکن جب ایسا بار بار ہونے لگا تو اس نے اپنی قبا کو سمیٹ کر اپنی ذات کو ایک مجسمے میں ڈھال دیا کہ کوئی اسے ڈھونڈ نہ پائے ۔ور آخر کار وہ ایک نایاب مجسمہ تر اشنے میں کامیاب ہوگیا
اس نے ایک انتہائی حسین شہزادی کا عکس پتھر پر کچھ یوں اکیرا کہ دیکھ کر لگتا تھا کہ سنگ تراش کی روح شہزادی میں تحلیل کرگئی ہو یا پھر جیتی جاگتی سی شہزادی اس مجسمہ میں سما گئی ہو ،من و تو کا فرق مٹ چکا تھا گو کہ ایسا کرتے وقت اس کا وجود لہو لہان ہوتا رہا ۔ اس کی انگلیوں سے خون رستا رہا مگر وہ دیوانہ وار ضرب لگاتا رہا ا ۔ شہزادی کی آنکھیں دیکھ کر نیلگوں سمندر کا گمان ہوتا اس کے تراشیدہ ہونٹ سرخی مائل محسوس ہوتے ۔ شہزادی کی مخمور آنکھوں میں کرب کا سمندر سا ہلکورے لے رہا تھا اس کے رسیلے ہونٹوں میں ایک تشنگی چھپی ہوئی تھی ۔ جن میں صدیوں کی ان بجھی پیاس تھی ایک درد بھری روح تھی جو شہزادی کی قبا اوڑھے قلو پطرہ کے حسن کو مات دیتی مونا لیزا کی مسکراہٹ بکھیر رہی تھی ۔یہی دو اعضاءایسے تھے جو دیدہ بینا پر سنگ تراش کا راز کھول سکتے تھے اور دیدہ نابینا کے لیے تو وہ محض ایک نادر مجسمہ تھا جس سے وہ صرف رومانیت کا حظ اٹھا سکتا تھا ۔
لیکن نگاہ زرقا ءشہزادی کے درون کا سفر طے کر چکی تھی ۔ایک مینکا اس کی تپسیا بھنگ کرنے کا قصد کر بیٹھی تھی ، لیکن اس بار مینکا نے رقاصہ کا روپ نہیں دھارا تھا بلکہ نقرئی گھنگھروﺅں والی آواز میں ڈھل گئی تھی ۔اس کی نگاہوں میں نہیں لہجے میں بنگال کا جادو تھا وہ بات کرنے کے ہنر ہی سے نہیں موسیقی کے تمام سروں سے بھی واقف تھی ،اسے معلوم تھا کہ کہاں اور کس لفظ کی ادائیگی کیسے کرنا ہے ۔کس سُر پر زور دینا ہے کسے ہلکے سے ادا کردینے سے دل ِسخت مانند ِموم پگھل جاتا ہے ۔ الفاظ کی شمع کس طرح پروانے کو خاکستر کر دیتی ہے
وہ جس کا تعارف صرف ایک آواز تھا ۔
اس کا وجود محض الفاظ کا ذخیرہ تھا ۔
لہجہ کا زیر و بم تھا ۔۔۔۔
لفظوں کا جادو تھا ۔۔۔
حروف کامعنی خیز سلسلہ تھا۔۔۔
جو کبھی خمار میں ڈوبا ہوتا تو کبھی ایک سرور میں ۔
افف وہ
مدھ بھری آواز ۔۔۔
اسے اپنی آواز پر بلا کا اعتماد تھا کہ وہ سنگ تراش کے خود ساختہ مجسمے کو اسی کی بدولت پاش پاش کر دینے کا ہنر رکھتی ہے ۔
سنگ ترا ش حیران تھا کہ کوئی بھلا کیسے اس کی ردا کو ہٹا کر اس کے اصل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ؟
وہ مصر تھی اسے اس قید سے آزاد کرنے کے لیے جب کہ سنگ تراش بضد تھا باہر نہ آنے کے لیے ۔
سنگ ترا ش اپنے فن پر مغرور
تو مینکا اپنے سروں پر مسرور
دونوں کو یہ اعتماد کہ جیت اسی کا مقدر
ویسے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل تھا جسے گرانے کی خواہش دونوں طرف سے کبھی نہ ہوئی رشتہ صرف آواز کا تھا ۔نہ کبھی سنگ تراش کے دل میں اسے دیکھنے کی خواہش ہوئی نہ ہی کبھی اس نے سامنے آنا چاہا ۔ عجیب تعلق تھا یہ آوازوں کا۔
وہ جو محض سنگتراش کے فن سے متاثر ہوکر اس سے دوستی کرنے کی غرض سے آگے بڑھی تھی ،اب اسے بھی اس رشتے میں ایک انجانی کشش محسوس ہونے لگی تھی ،لیکن سنگتراش کے اعتماد نے اس پیارے سے جذبے کو ضد کا ایک تناور درخت بنا دیا تھا ۔
اب بات جیت اور ہار میں بدل چکی تھی
خمار اور سرور کے ساتھ جب سنگ تراش کو مسحور کردینے والی یہ آواز محبت کا مفہوم سمجھاتی تب سنگ تراش پر ایک مد ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی
وہ کہتی ” محبت ایک پیارا سا موسیقی کا ردھم ہے جو دل کے تاروں کو ہولے سے چھیڑ کر کہے ’ مجھے تم سے محبت ہے۔‘ اور پھر دوسرے کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہو جائیں اور مسکراہٹیں لبیک کہہ دیں وہی محبت ہے بت ساز “
اس کی آواز کی جھنکار سچ میں اس کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کرنے لگتی ۔
وہ اس کے سحر میں گرفتار ہونے لگتا مجسمہ کی قبا ہلکی سی چاک ہونے لگتی لیکن وہ جلد ہی ہوش میں آکر شاطرانہ طریقے سے چاک قبا کو درست کر لیتا مگر نگاہ زرقاءسے اس کا یہ عمل چھپ نہ پاتا ۔ وہ اکثر خود کو سمجھاتا کہ میرے پاس تو میری محبت ہے جو صدیوں سے میرے اندر ڈیرہ ڈالے میری ہمنوا بنی ہوئی ہے بھلا کوئی اور کیسے نقب لگا سکتا ہے ؟
” نہیں سنگ تراش وہ مکین نہیں وہ تو ایک چھلاوہ ہے جب تمہارا یہ خود ساختہ بت پاش پاش ہوگا تب ہی تو تم محبت کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو پاﺅ گے تمہیں اس خول سے باہر نکلنا ہوگا اپنے وجود کو اس کی اصل پہچان دینا ہی ہوگی ۔“ اس کے لہجے میں شہد اتر آتا
” نہیں نہیں ، میری محبت کا حصار بہت مضبوط ہے ، وہ میرے نہاں خانے کی مکین ہے جو مجھے سرشار کیے ہوئے ہے “
سنگ تراش بہت معصوم ہو تم ،یہ سرشاری دیکھو درد بن کر آنکھوں سے چھلک رہی ہے ،
دیکھو دیکھو سنگ تراش شہزادی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں ایک تشنگی ہے ۔“
”نہیں نہیں دیکھو وہ مسرور ہے ، وہ بہت شاد ہے میری محبت میں “ وہ چیخ پڑتا
وہ اپنے لفظوں میں حلاوت گھولتے ہوئے کہتی
”نہیں سنگ تراش تم اس طرح خود کو بہلا رہے ہو جسے تم محبت کا نام دے رہے ہووہ تو تمہاری روح کا درد ہے ۔جس دن یہ مجسمہ چور چور ہوگا اس دن تمہیں اپنے وجود کا احساس ہوگا تمہیں خود کو پانے کے لیے ایک دن اس خول سے باہر آنا ہوگا ۔“
اس کی آواز میں ایک الگ طرح کا خمار ہوتا مگر لہجہ تحکمانہ سا ہو جاتا
” نہیں نہیں یہ سب جھوٹ ہے “وہ بے بسی سے چیخ پڑتا
” اس نہیں میں ہی تو ’ ہاں پوشیدہ ہے سنگ تراش ’ لا ہی تو ہونے کا ثبوت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہاری زبان سے ’ نہیں ‘ لفظ ادا نہیں ہوتا ۔تم اپنے آپ کو اتنا جھٹلاتے کیوں ہو ؟“
وہ جھنجھلانے لگتی۔
” دیکھو دیکھو تمہارے مجسمے میں شگاف پڑنے لگا ۔ “
وہ حیران پریشان مجسمے پر ہاتھ پھیرتا اسے ہر طرف سے دیکھتا اسے تو کوئی شگاف نظر نہیں آتا
” نہیں یہ ممکن نہیں “
” ایسا ہی ہے “
فضا میں اس کی نقرئی گھنگھرو سی ہنسی بکھر جاتی
” ایک دن تمہارا یہ بھرم ٹوٹے گا سنگ تراش “
اس کا یقین سنگ تراش کے دل کی دھڑکنوں کو پھر منتشر کرنے لگتا
” ہاں مگر یہ عین ممکن ہے کہ تم اعتراف نہ کر پاﺅ کیونکہ تم ڈرپوک جو ہو ازل سے ۔لیکن آج تم مجھ سے ایک وعدہ کرو سنگ تراش کہ جس دن تمہیں کسی سے محبت ہو جائے تم اس کا اعتراف اور اظہار ضرور کروگے “
” نہیں میری روح مجھ سے روٹھ جائیگی “وہ بے بس سا نظر آنے لگتا
” روٹھ جانے دو اسے ۔سچ کو سامنے آنے د و “ وہ کمال ہشیاری سے قائل کرتی
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اب وہ آہستہ آہستہ ، دن بہ دن اس کی آواز کے سرور میں کھونے لگا تھا ا اس کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ میں ایک الگ طرح کا نشہ ہوتاتھا جس کی بازگشت چاروں طرف تھی جس سے وہ نجات پانا چاہتا تھا لیکن وہ جتنی کوشش کرتا تھا اتنا ہی وہ اس کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جا رہا تھا اور آخر ایک دن وہ چیخ ہی پڑا ۔
” ہاں۔۔۔ہاں مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے محبت ہو گئی ہے “
اور اسی لمحہ اسے محسوس ہوا کہ وہ تو دور بہت دور تھی اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی بت میں شگاف پڑ چکا تھا مجسمہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگا تھا روح نے پوری قوت سے اسے ایک بار پھر سمیٹنے کی کوشش کی مگر وہ بھر بھری مٹی اس کے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتی چلی گئی۔ پھسلتی چلی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Name Plate a Short Story by Tariq Chattari
Articles
نیم پلیٹ

طارق چھتاری
’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدار ناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹا کر پھینک دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’ یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہو گا کچھ نام وام نہیں یاد آتا تو کیا کروں ، لیکن نام تو یاد آنا ہی چاہئے۔آخر وہ میری بیوی تھی ، میری دھرم پتنی۔‘‘انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔
’’ سر لا کی ماں ……….’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔
’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نام بھی تھا اس کا۔ کیا نام تھا؟ اس کے نام کا پہلا اکچھر ……….ہاں کچھ کچھ یاد آ رہا ہے …………‘‘ انھوں نے پیر پلنگ کے نیچے لٹکا دیے اور وہ لائٹ آن کرنے کے لئے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔
’’ اس کے نام کا پہلا اکچھر …………..’’کے ‘‘ نہیں نہیں۔ہاں ہاں یاد آ گیا۔‘‘
ان کا جھریوں سے بھرا پوپلا منھ مسکرانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگا اور پھر بھول گئے کہ وہ اکچھر کیا تھا۔
کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔
’’ ڈھائی بجنے کو ہیں۔‘‘ ان کی نظر ٹائم پیس پر پڑ گئی۔
ٹائم پیس ………….؟ ہاں …………..ٹا…………..نہیں ، پیس…..’’سا‘‘ ارے ہاں ___
’’ سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلا اکچھر۔‘‘
’’ سا‘‘ ؟ نہیں یہ تو سرلا کی ماں۔آخر نام بھی تو کچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔
’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘
وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو گھور رہے ہیں۔پلنگ، میز، کرسی اور الماری، کتابیں ……….الماری کتابوں سے بھری پڑی ہو گی ، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھر الماری کی طرف مڑ گئے۔ دروازہ کھولا الماری خالی تھی __نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔‘‘ ارے اس میں تو پچھلی دیوار بھی نہیں ہے۔‘‘
وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی __سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔
سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔
’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔
’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘ اور وہ چھڑی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انھیں کہاں جانا ہے ؟ پتہ نہیں۔پھر بھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔
یہ علاقہ کون سا ہے ؟ کیلاش نگر ؟ ہاں شاید وہی ہے۔ آگے دائیں طرف ان کے دوست شرما جی کی کوٹھی ہے۔ باہر گیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔’’ ست پرکاش شرما۔‘‘ وہ ان کے دفتر کے ساتھی تھے۔ گذرے ہوئے کئی برس ہو گئے۔
اچانک کیدار ناتھ ٹھٹھکے اور رک گئے۔’’ ارے یہی تو ہے شرما جی کی کوٹھی ، ہاں باکل یہی ہے۔ وہ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘ کیدار ناتھ کو کمرے کی دھندلی فضا میں ایک تختی نظر آئی۔
’’ شرما ……….‘‘ انھوں نے پڑھا۔ ’’ رام پرکاش شرما۔‘‘
’’رام پرکاش ………..؟.نہیں ان کا نام تو ست پرکاش تھا۔ پھر غور سے دیکھا۔
’’ رام پرکاش شرما (ایڈوکیٹ)۔‘‘ صاف صاف لکھا تھا۔
انھیں یاد آیا کہ ایک روز شرما جی نے کہا تھا۔’’ میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہو گیا ہے۔‘‘
’’ اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر…………‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔ انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔
وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی …………….یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔
سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔
سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ………..کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔
’’ پاروتی دیوی…….‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔
’’ پاروتی دیوی کی جے ………………‘‘ بچپن میں وہ اپنے با با کے ساتھ بیٹھے پوجا کر رہے تھے۔’’ بابا …………..اماں کا نام بھی تو پاروتی دیوی ہے۔‘‘ ’’ ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیں جن کے نام پر تمہاری ماں کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘ اور اس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں تو بھگوان کا روپ ہوتی ہے ، پھر بھلا سرلا کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی۔ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیما پن آ گیا مگر وہ اپنے بوڑھے جسم کو ڈھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے __!!
’’ بابو جی آج اتنے سویرے آپ ادھر………؟ ‘‘ سرلا نے کسی سوچ میں ڈوبے کیدار ناتھ کو چائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا۔ بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔ کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔
نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ……………’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیری رات…………..کہرے سے بھری ہو ئی سرد رات ………………..بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ، کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔وہ کتوں سے بچنے کے لئے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ملٹن پارک؟ اب تو اس کا نام گاندھی پارک ہو گیا ہے۔ گاندھی پارک ہو یا ملٹن پارک ، ہے تو یہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دو دن بعد اسے لے کر آئے تھے۔پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔’’ آؤ یہاں بیٹھو ………کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘ وہ دونوں سنگ مر مر کے ستون سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ دنیا سے بے خبر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔مہینوں …………برسوں …………………کہ اچانک ان کی بیٹی سر لا نے انھیں چونکا دیا۔
’’ بابو جی آپ چپ کیوں ہیں ؟ کیا سوچ رہے ہیں ؟
’’ کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے …………..اصل میں ، میں نے سوچا جو گیندر کے دفتر جانے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو اچھا ہے۔‘‘
’’ بابو جی آج تو اتوار ہے۔‘‘
’’ اوہ ، ہاں آج تو اتوار ہے۔ کیا کروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یاد ہی نہیں رہتے۔‘‘
وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔’’ دن تاریخ کیا اب تو بہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘
اتنے میں جو گیندر بھی آنکھیں ملتے ہوئے آئے اور کیدار ناتھ کو پرنام کر کے صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’ با بو جی اتنے سویرے ؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’ میرے جلد ی آنے پر یہ لوگ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں۔ ضرور میرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہوں گے۔ مجھے چلے جانا چاہئے ، ابھی…………‘‘
کیدار ناتھ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی۔’’ ارے بابو جی تو بھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
آج اتوار ہے اور میں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلا آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کا کوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے …………‘‘
’’ہفتے میں چھٹی اک ایک ہی دن تو ملتا ہے ان لوگوں کو۔مگر میں بھی تو روز روز نہیں آتا ، گھر سے چل پڑا تھا ، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آ گیا تو سوچا، ملتا چلوں ، کیا یہ لوگ آج میرے لئے اپنے پروگرام نہیں چھوڑ سکتے ؟‘‘
کیدار ناتھ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ہیں۔
’’ کمبخت بڑھاپے میں آنسو بھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں۔‘‘ وہ آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سرلا نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔’’ یہ اس طرح کیا دیکھ رہی ہے ؟ کہیں سب کچھ سمجھ تو نہیں گئی۔‘‘
’’ کیا سمجھے گی ؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہوں اور رات بھر جاگتا رہا ہوں یا یہ کہ میں رو رہا ہوں۔‘‘
’’ بیٹی آج مجھے جو گیندر سے کچھ کام تھا ………..‘‘
’’ بابو جی مجھ سے ؟‘‘ جو گیندر نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
’’ہاں یوں ہی ، کوئی خاص بات نہیں تھی_‘‘ پھر وہ لان کی رف جھانکنے لگے۔
’’ آج بہت سردی ہے۔تمہارے لان میں تو سویرے ہی دھوپ آ جاتی ہے۔‘‘ سرلا نے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
’’ہاں بابوجی ، ابھی تو دھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اور اوس بھی بہت ہے ، پورا لان گیلا……….‘‘
وہ کہہ رہی تھی کہ جو گیندر بیچ میں بول پڑے۔
’’ بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے ……..‘‘
’’ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتا کر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔‘‘ کیدار ناتھ کھانسنے لگے اور کافی دیر تک کھانستے رہے۔ وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جا رہے تھے کہ اب کیا کہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے _
’’ بیٹے تمہیں نام یاد رہتے ہیں ؟‘‘
’’ کیسے نام بابوجی؟ ویسے میں ہمیشہ نام یاد رکھنے میں کمزور رہا ہوں ، اسی لئے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘
’’ اب کیا پوچھوں ؟ کیا سرلا سے یہی سوال کروں ؟مگر یہ تو بڑی بے تکی بات ہو گی۔ اگر سرلا خود ہی بول پڑے کہ بابو جی مجھے نام یاد رہتے ہیں ، تو جلدی سے پوچھ لوں کہ بتاؤ تمہاری ماں کا کیا نام تھا _‘‘
کیدار ناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلا کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی _
سورج چڑھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ دھوپ میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔لان کی ہری گھاس پر جمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھو چکے تھے۔ کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔
دوپہر کا کھانا تیار تھا۔ لیکن ابھی تک سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھنے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔ سرلا صبح سے کھانا تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدار ناتھ باہر دھوپ میں جا کر بیٹھتے تو کبھی اندر آ کر برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ کبھی جو گیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلا آتی تو اس تلاش میں رہتے کہ ذرا جو گیندر اٹھ کر جائیں اور وہ اکیلے میں سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ لیں۔
’’اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ کھانے پر بات میں بات نکلے گی ، تب تو پاچھ ہی لوں گا۔‘‘ انھوں نے سوچا اور مطمئن ہو گئے۔
کھانے کی میز سج چکی ہے۔ سرلا نے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں _کھانا بہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھوں کا کھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کا کھاتے کھاتے ان کا دل بھر گیا تھا۔سرلا کی ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تو اب انھیں یاد بھی نہیں۔ اس کا نام بھی تو یاد نہیں __ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔
’’ بیٹی تمہاری ماں کا کیا نام تھا۔‘‘
’’ ارے یہ کیا۔ اگر اس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیں گے۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں گے __‘‘ کیدار ناتھ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کر یہ سوال ان کے منھ سے نہ نکل پڑے _‘‘ کس سے پوچھوں ؟ کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آ جائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے ؟‘‘ انھوں نے بھویں سکوڑیں ، پیشانی پر بے شمار بل پڑ گئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے جھوجھنے لگے۔’’ آج سرلا کا بیٹا نظر نہیں آ رہا ہے شاید اسے اپنی نانی کا نام یاد ہو_باتوں باتوں میں اس سے تو پوچھ ہی لوں گا _‘‘’’ سرلا آج تمہارا بیٹا ……؟‘‘
’’ہاں پتا جی میں تو بتانا بھول ہی گئی۔ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کر دی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دو دن پہلے ہی دلی چلا گیا ہے __‘‘ ’’ او…….اچھا…………تو گھر پر نہیں ہے۔‘‘کیدار ناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانا ختم ہو گیا اور کیدار ناتھ کو اپنی بیوی کا نام یاد نہیں آیا۔ کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔ کیدار ناتھ بغیر نام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔ گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔ ہر ایک شخص کو دیکھ کر انھیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کا نام معلوم ہو گا۔ وہ ہر ایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر کوئی شخص نہ تو ان کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی کچھ پوچھنے کے لئے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفر جاری رہا اور پھر اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور اترنے کے لئے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔
کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے۔ وہ بغیر روشنی کئے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔ انھوں نے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں جلن ہو نے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھر گیا تھا۔’’ اٹھ کر لائٹ جلا دی جائے۔‘‘ انھوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انھیں نیند ہی نہیں آتی۔ اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔ اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔آگ کی لپٹیں بہت تیز ہو گئی ہیں ، سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے ، روشنی بہت تیز ہے او انھیں نیند نہیں آ رہی ہے۔تو پھر آنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں __؟جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے۔ وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں ادھر سے شدید درد کی لہر اٹھتی ہے۔ ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پر جا پڑی۔کیدار ناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے۔لائٹ جلائی اور الماری کھول کر تمام کتابیں فرش پر بکھیر دیں۔ایک ایک کر کے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اور پرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں پھر دیوانوں کی طرح انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے __کسی کاغذ کو پڑھتے ، کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کو تہہ کر کے رکھ لیتے۔’’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تو نہیں مل رہی ہے۔‘‘ اب کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں ، کاغذوں اور فائلوں کو نوچ کر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ہاتھ بالکل شل ہو چکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے۔ انھوں نے گھبرا کر گلے میں بندھے مفلر کا بل کھولنا چاہا کہ پتہ نہیں کیسے گرفت اور تنگ ہو گئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔’’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں ___یاد کرنا بھی بیکار ہے ، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کا کیا نام تھا۔
شانتی………………….؟
نہیں ___
سروجنی____
نہیں …………..نہیں …….
سرشٹھا………….؟
اف یہ بھی نہیں __
ہزاروں نام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے۔ پھر وہ بھول گئے کہ وہ کیا یاد کر رہے تھے۔
آج کون سا دن ہے ؟
اتوار___
نہیں اتوار تو کل تھا۔
کل؟
اتوار تو اس دن تھا جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اور سرلا کے گھر گئے ہوئے اب صدیاں گذر چکی ہیں۔
ان کی آنکھوں سے زرد روشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ، کاغذات اور فائلیں __کچھ دھندلے دھندلے حروف نظر آئے۔
’’ شرما۔ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘‘
’’ پورا نام کیا تھا ان کا؟۔‘‘
’’ یہ بھی بھول گیا؟۔‘‘
’’ اور ان کے بیٹے کا؟۔‘‘
’’نہیں ، اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘‘
پارک___
’’کون سا پارک‘‘؟
’’ہاں وہی پارک جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘
’’ لیکن اب تو اس پارک کا نام بھی بدل گیا ہے۔‘‘
’’ کیا ہے اس کا نیا نام؟‘‘
’’ نیا ہی کیا اب تو پرانا بھی یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھولتا جا رہا ہوں۔‘‘
’’ میری بیٹی __‘‘
’’ اف اس کا نام بھی نہیں یاد آ رہا ہے۔‘‘
’’ اس کے شوہر کا نام ؟‘‘
’’ہے بھگوان مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘
کیا صرف بیوی کے نام کے لئے وہ اتنے پریشان ہیں۔
نہیں ، کوئی اور چیز بھی ہے جسے وہ بھول گئے ہیں۔
’’ کیا چیز ہے وہ؟‘‘
وہ نیم پلیٹ جو بار بار ان کے ذہن سے نکل کر گر پڑتی ہے ! کیا لکھا ہے اس میں ؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ مٹ چکا ہے ___
دیواریں ، چھت، دروازے اور فرش ……………….کچھ بھی نہیں ہے۔دور تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا میدان ہے۔زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سور ج کا گولا پھیل کر اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ پورا آسمان اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک اور کوئی بہت چھوٹی سی چیز نظر آئی۔
’’ کیا ہے وہ ؟‘‘
’’ کوئی انسان ہے جو اپنے چاروں طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ، وہ تنہا ہے ، بالکل تنہا۔‘‘
’’ ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے ، اور اب میری آنکھوں کے اتنا قریب آ گیا کہ اس کے پیچھے سارا میدان ، آسمان اور سورج کا پھیلا ہوا گولا بھی چھپ گیا ہے۔‘‘
’’ کون ہے یہ شخص؟‘‘
’’میں ؟‘‘اور ان کی آنکھوں کے سامنے خود ان کی اپنی ذات اندھیرا بن کے چھانے لگی۔
’’ مگر میں کون ہوں ؟کیا نام ہے میرا؟‘‘
’’ایں ……………….اب تو میں اپنا نام بھی بھول گیا۔‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے۔ انھیں لگا وہ کئی گز زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ ان کا دم گھٹ رہا ہے۔سر بری طرح چکرانے لگا اور آنکھوں میں نیلے پیلے بادل امڈ آئے۔ ہاتھ پاؤں سن پڑچکے ہیں اور گلا رندھ گیا ہے ، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔ کانپتا ہوا ہاتھ انھوں نے گردن پر رکھ لیا اور کھنکھارنا چاہا مگر انھیں لگا کہ کھنکھارتے ہی ہچکی آ جائے گی اور وہ مر جائیں گے۔
’’ نہیں ……….‘‘ وہ بہت زور سے چیخے۔ ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہو گئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔
’’کے …………….کے …………..‘‘ اف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زبان کٹ کر دور جا گرے گی۔ انھوں نے غور سے دیکھا، حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔’’کیدا ا ا……………..‘‘
اور پھر انھوں نے پڑھ لیا۔’’ کیدار ناتھ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ دل بہت زور سے دھڑکا، پورے بدن میں گد گدی سی ہونے لگی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔
’’ کیدار ناتھ، کیدار ناتھ__‘‘ وہ زور زور سے کہنے لگے جیسے اب انھیں سب کچھ یاد آ گیا ہو۔
اپنی بیٹی کا، دوست کا، اس پارک کا اور اپنی بیوی کا نام _ کیدار ناتھ !محسوس ہوا کہ ساری دنیا کا نام کیدار ناتھ ہے۔
پھر آہستہ سے اٹھے ، لائٹ بجھائی اور کیدار ناتھ، کیدار ناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔
صبح ہوئی تو انھوں نے خود کو بہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی۔!!
———————————————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Tanhai a Short Story by Iqbal Niyazi
Articles
تنہائی

اقبال نیازی
بہت عجیب بات ہو گئی……….
فلموں کے سینیر رأیٹر ساحل صاحب اچانک لاک ڈاؤن سے گھبرا کر،بڑبڑاتے ہوے کپڑے پہننے لگےتو نوجوان نوکر نے حیرت سے پوچھا
” صاحب کہاں جا رہے ہیں؟؟ باہر سب بند ہے.”
ساحل صاحب نےایک موٹی گالی دے کر کہا ” جوہو جا رہا ہوں , میری نئ فلم کی پارٹی ملنے آرہی ہے”
“ارے صاحب! لاک ڈاؤن ہے, باہر سب بند ہے. جانے کا کوئی سادھن نہیں ہےاور ایسے میں کون سی پارٹی آےگی, سب گھروں میں بند ہیں”
“چپ بے……” ایک اور موٹی گالی ان کی زبان نے ایسے ُاگلی جیسے سنّاٹے میں زِپ سے کوئ بائیک نکلتی ہے.
” تو چل تیار ہو….میرے ساتھ چل….” ساحل صاحب نے نوکر کے شانے دبائے.
لڑکا منع کرتا رہا, دُہائی دیتا رہااور ساحل صاحب اسے لے کر باندرہ کے کارٹر روڈ کے اپنے فلیٹ سے باہر آ گئے. ابھی مین روڈ تک ہی پہنچے تھے کہ پولِس جیپ نے انہیں روکا… ایک تھری اسٹار باہر نکلا,
” ارے انکل! کہاں نکلے ہو؟ دیکھ نہیں رہےلاک ڈاءون ہے.”
” دیکھئے میں فلم رأیٹر ہوں, میں نے فلاں, فلاں, فلاں فلمیں لکھی ہیں” ساحل صاحب نے مرعوب کرنے کی کوشش کی, ” اور میری ایک نئی فلم کی آج سِٹنگ ہے.”
” ارے انکل آپ اتنے بزرگ ہو گئے ہیں اس لئے بچ گئے…. ورنہ ابھی ڈنڈے پڑنے شروع ہوتے پچھواڑے پر..” انسپکٹر نے ساحل صاحب کی مشہور فلموں سے مرعوب ہوئے بغیر کہا, ” چلئے جائیے گھر پر….ایسی کنڈیشن میں کوئ سِٹنگ وِٹنگ نہیں ہوتی…چلئے… اے لڑکے ! لے جا ان کو گھر پر، ورنہ تیری سوُج جائیگی… سمجھا!!!” انسپکٹر نے ڈنڈا بتا کر نوکر لڑکے سے کہا.
ساحل صاحب بڑبڑاتے ہوئے گھر کی طرف لوٹنے لگے. راستے بھر ان کو جتنی گالیاں یاد تھیں, سب پولِس والوں کو ارپن کرتے رہے.
نوکر نے مسکرا کر گھر کا دروازہ کھولا… ساحل صاحب نے آواز لگائی,
” ارے بیوی ! او بیوی…ذرا ایک ڈرنک بنا دو… اجی بیگم….سنو!!! اور یہ تمہارا لاڈلا کہاں ہے؟؟ ابھی تک سو رہا ہے؟؟ اس کو اُٹھاؤ, بولو باپ کو جوہو تک اپنی کار میں چھوڑ آئے..اور سنو بیگم ! ہماری بٹیا کالج گئی کیا؟؟”
نوکر لڑکا حیرت سے ساحل صاحب کو دیکھ رہا تھا….وہ بہت گمبھیرتا سے اپنےبیوی بچوں کو آواز دے رہے تھے جن کا وجود ہی نہیں تھا.
ساحل صاحب نے تو شادی ہی نہیں کی تھی, پھر یہ بیوی بچے…؟؟؟ وہ سوچ میں پڑ گیا.
ایک بھدّی گالی اس کے کانوں میں پڑی ” ابے کھڑا کیا ہے.. تیری مالکن کو بول ایک وہسکی کا لارج بنا دے میرے لئے…. سالا پیاس ہی نہیں بجھ رہی..”
نوکر نے اندر روم میں جاکر ساحل صاحب کی بھتیجی کو فون لگایا.. سارا حال سنایا…دوسری طرف سے ہنسی کی آواز أئی اور فون کٹ گیا.
بھتیجی نے کانفرنس کال پر اپنے بڑے بھائی اور ایک بہن کو لیا… اپنے چاچا کا حال سن کر سب ہنسے. بھتیجے نے کہا,” بہنوں تیار رہو…کارٹر روڈ کے فلیٹ کے اب 9 کروڑ ملنے والے ہیں…. بہت جلد !!!!
——————————————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Gunga Boolna Chahta Hai a Short Story by Husain ul Haq
Articles
گونگا بولنا چاہتا ہے

حسین الحق
گونگے نے بڑی بے چینی سے پہلو بدلا۔
دوسروں نے شاید اس کی بے چینی محسوس نہیں کی یا اس کی بے چینی شاید قابل توجہ ہی نہیں تھی۔ جو بھی ہو مگر وہاں موجود لوگوں پر اس کی بےتابی کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ معاملہ ہی اتنا اہم تھا کہ اس کے سامنے ایک گونگے کی بے چینی کیا معنی رکھتی۔
جنوری کی انتہائی سرد رات، تقریباً 9 بجے کا عمل، محلے کے بیچوں بیچ “ماشاءاللہ” ہوٹل میں بالکل کنارے، ایک گول میز پر جس کے چاروں طرف آٹھ دس کرسیاں ۔۔۔ ایک پر پھدو مستری، دوسری پر جلیل خان ٹھیکیدار، تیسری پر بیچو ٹیلر، چوتھی پر محلے کی مسجد کا موذن عید محمد، پانچویں پر حبو جراح، چھٹی پر ہارہوا وارڈ کمشنر کھدر پوش پہلوان نما سوشل ورکر عبد الرؤف ، ساتویں پر قوالوں اور رمضان میں “قافلہ” والوں کو “سحری” لکھ کر دینے والا دو چار محلے میں مشہور شاعر جمال غوغائی، آٹھویں پر چراغ دین بیٹری ساز ۔۔۔۔۔۔ اور نویں پر بےچینی سے پہلو بدلنے والا گونگا!
گونگا بےچینی سے پہلو بدل رہا تھا مگر گونگا جو ٹہرا، بولتا کیا، البتہ اس کی اپنی مصیبت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ بول نہیں سکتا تھا مگر سن سکتا تھا اور سمجھ سکتا تھا۔ یہ کیسے ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔
تب تو بس ایک ہی مسئلہ سامنے تھا کہ امریکہ کیسے ہارے گا؟
جب سے عراق نے کویت کو بادشاہت سے آزادی دلائی ، اس وقت سے جنگ شروع ہونے اور خطرناک ہو جانے تک تقریباً پانچ چھ مہینے کی مدت تو ضرور گزری، ان پانچ چھ مہینوں کے درمیان ماشاء اللہ ہوٹل کی گول میز کبھی خالی نہیں رہی۔ ہوٹل کھلنے سے بند ہونے تک باری باری سے گروپ پر گروپ آتا رہتا اور ایک پیالی چائے میں امریکہ کے اسکڈ میزائیل بیڑے ، ہوائی جہاز اور ٹینک ڈبوتا رہتا۔ شروع شروع میں تو ہوٹل کا مالک رمضان علی خاں خاصا چیں بچیں ہوا :
“سالے ایک پیالی چائے پئیں گے اور ایک گھنٹہ تک بقراطی جھاڑیں گے”۔ اس نے بڑے بڑے حرفوں میں لکھوا کر چاروں طرف دیواروں پر چسپاں کر دیا:
“سیاست پر گفتگو منع ہے”۔
مگر ہر دن اور ہر وقت وہی بات ، وہی موضوع ، تنگ آ کر ایک گروپ کو ٹوک دیا: “بھائی د یکھتے نہیں؟ سیاست پر گفتگو منع ہے”۔
تو ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا: “اجی سیاست پر گفتگو کون کر رہا ہے؟ یہاں تو جنگ پر بات ہو رہی ہے”۔
رمضان علی گڑ بڑا کر رہ گئے۔۔۔ “سیاست اور جنگ کے فرق کا مسئلہ!”
دوسرے گروپ سے انہوں نے دو ٹوک کہا: “ہوٹل کھانے پینے کی جگہ ہے، خوش گپی کی نہیں”۔ اس پر ایک من چل بول اٹھا: “رمضان بھائی ! کربلا اور نجف پر بمباری کے تذکرے کو آپ خوش گپی کہتے ہیں؟”
رمضان علی کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں رہ گیا مگر وہ کاؤنٹر پر بیٹھے مسلسل کھولتے رہتے اور کبھی آہستہ کبھی زور سے بگڑتے رہتے۔ تب ایک دن ان کے بیٹے نے انہیں سمجھایا:
“ابا! اگر دس آدمی ایک پیالی چائے پر ایک گھنٹہ بیٹھتے ہیں تو گویا ایک گھنٹے میں دو پیالی۔ ہوٹل صبح سات بجے سے رات دس بجے تک کھلا رہتا ہے یعنی 15 گھنٹے ۔۔۔ اس طرح ایک دن کی صرف چائے کی کمائی 75 روپئے ہوتی ہے تو پھر بحث سے ہمارا کیا نقصان ہو رہا ہے؟
یہ نکتہ رمضان علی کی سمجھ میں آ گیا اور بحث جاری رہی۔
اس رات بھی بحث جاری تھی اور ایک ہی مسئلہ سامنے تھا کہ امریکہ کیسے ہارے گا۔ کچھ دیر پہلے ریڈیو خبر نشر کر چکا تھا کہ امریکی فوجیوں نے بغداد کے ایک بنکر پر ایسا حملہ کیا کہ اس کے اندر چھپے ہوئے ہزاروں افراد پل بھر میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس خبر سے کچھ دیر کے لئے سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ مانو سب کو سانپ سونگھ گیا، کوئی کچھ بول نہیں پا رہا تھا، چاروں طرف ایک عجیب سی ہے بس خموشی پسری تھی۔ پھر ٹیبل پر پسری خموشی کے سینے میں جیسے چاقو سا کھب گیا۔۔۔۔ شاعر جمال غوغائی کی آواز گونجی:
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔
جمال غونائی کی آواز پر جیسے عبدالرؤف چونک اٹھا اور ٹیبل پر ایک زور دار مکا مار کر چیخا: “ایک مردہ لوممبا ایک زنده لوممبا سے زیادہ طاقت ور ہے”۔
اس پر عید محمد موذن بہت بھاری اور گمبھیر آواز میں بولا:
“بھائی ! یہ ساری خبریں تو اسی شیطان اعظم امریکہ کی دی ہوئی ہیں۔ عراق کی خبریں کہاں آ پا رہی ہیں جو ہم یقین کر لیں کہ واقعی اتنے لوگ مارے گئے”۔
یہ سنتے ہی چراغ دین بیٹری ساز کچھ اس طرح اسٹارٹ ہو گیا جیسے کسی فلیتے کو آگ دکھا دی ہو :
“ارے عراقیوں نے تو ان کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ اسرائیل کو کیا مار رہا ہے ۔۔۔ دے ٹھس پر ٹھس ۔۔۔۔ اور اسرائیل امریکہ کی مجال نہیں ہو رہی ہے کہ عراقیوں کو چھوویں ، اور وہ سالا، نجدی کی اولاد الگ بلبلاتا پھر رہا ہے، کبھی دہران سے بھاگ رہا ہے کبھی ریاض سے، اور یہ شیطان بش کہتا ہے کہ ہم نے ہزاروں کو مار ڈالا ۔۔۔ جھوٹا لاغی ۔۔۔”
ٹھیک اس وقت جمال غوغائی کا بیٹا ہوٹل میں داخل ہوا: “بابا۔ بایو کو پھر دورہ پڑ گیا ہے۔ اماں بلا رہی ہیں”
“ارے تو اماں سے کہہ کہ او دوا دے دے جو طاق پر رکھی ہے”۔ جمال غوغائی کے لہجے سے اکتاہٹ ٹپک رہی تھی۔
“او دوا تو دے دیہن”۔
“اچھا تیں چل۔ ہم آویں ہیں”
“جمال بھائی۔ شادی بھی سالی مصیبت ہے”۔ پھدو مستری بولا۔
“یار مصیبت میں مجا بھی تو ہے” بیچو درزی کھی کھی کر کے ہنسا۔ اس کے سارے دانت پیلے ہو رہے تھے۔
“ہنسو مت” عبدالرؤف چیخا۔ “یہ ہنسنے کا وقت نہیں ہے۔ فیصلے کی گھڑی ہے۔ تم کو یاد نہیں ، خلافت کے زمانے میں کیا ہوا تھا۔۔۔ بولیں اماں محمد علی کی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ پھر جان دینے کی باری آئی ہے”۔
“مگر یار عبدالرؤف” جمال غوغائی بہت مدہم آواز میں بولا: “خلافت پر جان دے کر ملا کیا؟”
عبدالرؤف آنکھیں نکال کر غرایا: “تم شاعر لوگ کی یہی بہت خراب عادت ہے۔ عمل کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہو”۔
“نہیں یار۔ پیچھے ہٹنے کی کیا بات ہے؟ اور میرے آگے رہنے سے بھی کیا ہو جائے گا۔ میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا”۔
جمال غوغائی اتنا بول کر چپ ہو گیا، گونگا پہلو پر پہلو بدلتا رہا اور ماشاء اللہ ہوٹل میں بھانت بھانت کی آوازیں گونجتی رہیں۔۔۔
“صدام تو مرد مجاہد ہے۔ پھر ایک نئی کربلا درپیش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کے صدام بیت المقدس کو آزاد کرا کے دم لے گا۔ مگر کویت پر اسے قبضہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کویت اور سعودی کے حکمراں تو ایک نمبر کے عیاش ہیں ، صدام نے اپنی دولت کا صحیح استعمال کیا ۔۔۔”
عین اس وقت کسی اسٹیشن سے خبریں آنے لگیں۔۔۔
“بنکر پر حملہ اتنا شدید تھا کہ بم آٹھ فٹ موٹی چھت پھاڑ کر اندر گھس گیا۔ اندازے کے مطابق اس بنکر میں سترہ سو (1700) اشخاص نے پناہ لے رکھی تھی۔
اطلاعات مظہر یہ ہیں کہ پناہ لینے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ امریکہ نے اس بنکر کو فوجی تنصیب کیا ہے”۔
اسی وقت عید محمد موذن جلیل خاں کو بتا رہا تھا کہ میری مسجد کا جو صدر ہے وہ بہت جھوٹ بولتا ہے مگر مقامی تبلیغی جماعت کا امیر ہے اور محلے میں تبلیغی جماعت کا اثر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس لئے اس کی حمایت کو بھی لوگ مل جاتے ہیں۔
عراق پر امریکی حملہ جاری تھا۔
گونگے نے بےچینی سے پہلو بدلا ، ٹھنڈ کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ اس نے اپنے بیٹے کی، کلکتہ سے بھیجی گئی کمبل اپنے اردگرد کس کر لپیٹ لی اور جمال غوغائی کو گھر جانے کا اشارہ کیا جس کے بیٹے پر کھانسی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔
جمال غوغائی نے گونگے کے اشاروں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس وقت تو وہ وہاں موجود لوگوں کو کل کے مظاہرے میں پڑھی جانے والی نظم سنا رہا تھا۔
“ہم مردِ مجاہد ہیں / ہم عدل کا ساماں ہیں / ہم عزم کا عنواں ہیں / ہم نے ہی زمانے کو / اخلاق سکھایا ہے / ہم جب بھی اٹھے / تب تب / ہر فتح ہماری ہے / ہر ملک ہمارا ہے / ہم مردِ مجاہد ہیں۔۔۔۔۔”
گونگے کو پھر وہ بچہ یاد آیا۔۔
آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے لوگ اٹھتے گئے۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ٹھنڈ اور پڑھ گئی تھی۔ عید محمد موذن کا سب سے برا حال تھا، ایک ہاف سوئٹر اور اس پر ایک سوتی چادر۔ جمال غوغائی کے بدن پر پرانی ہی سہی مگر گرم چادر تو تھی۔ پھدو مستری پرانا فل سوئٹر پہنے تھا اور کمبل اوڑھے ہوئے تھا۔ سرد ہوا سب کے بدن چیرتی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی چلی جا رہی تھی۔ بس جنگ کی باتیں کچھ گرمی پیدا کر سکتی تھیں مگرخبریں بھی تو نہیں آ پا رہی تھیں!
“لوگوں پر بم گرتا ہوگا تو کیسا تڑپ کر دم توڑتے ہوں گے؟” جمال غوغائی بدبدایا۔
گونگے نے چھٹپٹا کر اسے دیکھا۔۔۔ “یہ اب تک گھر نہیں گیا۔ اس کا بیٹا بیمار ہے”۔
“بھائی اللہ کی مرضی میں کس کا دخل؟” پھدو مستری نے ٹھنڈا سانس لیا اور اچانک ایسا لگا جیسے سردی دوگنی ہو گئی۔
“برف گرنے لگی”۔ گونگے نے آسمان کی طرف دیکھ کر سوچا۔۔۔۔ آسمان بالکل صاف تھا مگر گونگے کو ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان گدلا گیا ہے۔ گاڑھا مث میلا دھواں۔۔۔۔ اسے لگا اس کا دم گھٹ جائے گا۔
“دیکھو، یاد رکھنا کل جلسے میں سب لوگ آنا”۔ جمال غوغائی نے یاد دلایا۔
“ہاں بھائی کل ہمارے شاعر کو خوب داد ملنی چاہیئے”۔ عبدالرؤف ہنسا۔ پھر سب آہستہ آہستہ کسی نہ کسی موڑ مڑتے گئے۔
جمال غوغائی جب اپنے گھر پہنچا تو ساڑھے دس بج چکے تھے۔ سب بچے سو گئے تھے۔ صرف بیوی بیمار بچے کو لئے جاگ رہی تھی۔ دروازه اسی نے کھولا مگر کچھ بولی نہیں۔ جمال غوغائی اس کا چہرہ دیکھ کر جھینپ گئے۔ “ذرا دیر ہو گئی، بابو کیسا ہے؟”
بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گود میں لئے بچے کے منہ پر سے آنچل ہٹا دیا۔ ہڈیوں کا پنجر ، ستا ہوا بےجان چہرہ جیسے کسی نے کپڑے کو کس کر نچوڑ دیا ہو۔ کمزوری کے سبب آنکھ پوری طرح نہ کھل رہی تھی نہ بند ہو رہی تھی۔ پیاس کے غلبے کے سبب منہ کھلا ہوا۔۔۔ خشکی سے زبان کانٹے کی طرح کھدکھدی!
“کھانسی رک گئی ہے نا؟”
“پندرہ منٹ سے تو رکی ہوئی ہے”۔
اچانک جمال غوغائی چونکے۔ “بی بی سی کا وقت ہو رہا ہے”۔
بی بی سی سے خبریں نشر ہونے لگیں۔
“دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا ہوائی حملہ!”
بچے پر پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔
“ہم آخری دم تک جنگ کریں گے”۔
بچے کا بدن اینٹھنے لگا۔
“ہم مردِ مجاہد ہیں”۔ جمال غوغائی نے اپنی نظم یاد کی اور کل کے جلسے کے بارے میں سوچا۔
بیوی بچے کی تکلیف دیکھ کر رونے لگی۔
“عراق کا آسمان امریکی طیاروں سے بھرا ہوا ہے”۔ خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔
“اللہ کی مرضی میں کس کا دخل؟” پھدو مستری کا حملہ یاد آیا۔
“بیوقوف عورت کیوں روتی ہے؟ اللہ چاہے گا تو بابو کو کچھ نہیں ہوگا”۔ جمال غوغائی نے بیوی کو ڈانٹا۔
“نئی دنیا” کا تازہ شمارہ سامنے پڑا تھا۔۔۔
نوسٹریڈمس کی پیش گوئی ۔۔۔!
“امریکہ کی کامیاب جنگی حکمت عملی کے سبب جنگ کا پلڑا امریکہ کے حق میں جھک چکا ہے”۔ مبصر اپنی رائے پیش کر رہا تھا۔
بچہ کھانستے کھانستے دم توڑنے کی منزل میں آ گیا مگر مرا نہیں۔
عراق اور امریکہ کی جنگ جاری تھی۔ اللہ کی مرضی میں کسی کا دخل؟
جمال غوغائی کے بصری اور بی بی سی کے صوتی منظر نامے میں گونگا کہیں فٹ نہیں ہوتا ۔۔۔ اس لئے نظر بھی نہیں آتا۔ مگر وہ کہیں تو ہوگا۔ اور جہاں ہوگا وہاں پہلو پر پہلو بدل رہا ہوگا۔ بولنے کی خواہش رکھنے والے گونگے کا یہی تو اصل مسئلہ ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں سمجھ لیتا ہے مگر دوسرے اس کی بات نہیں سمجھ پاتے۔۔۔!!
ماخوذ از کتاب:
نیو کی اینٹ (افسانوی مجموعہ)
مصنف : حسین الحق
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ (سن اشاعت اول: 2010)
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
The Guest a Short Story by Khan Hasnain Aaqib
Articles
مہمان

خان حسنین عاقبؔ
ممبئی اپنی رنگارنگیوں کی وجہ سے عالم میں انتخاب شہر ہے۔ لیکن جن سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے کبھی کھوے سے کھوا چھِلتا تھا، اب انھی سڑکوں پر ہو کا عالم ہے۔ ہر طرف سناٹا پسرا ہوا ہے۔ تھوڑی بہت ہلچل اگر کہیں نظر آتی ہے تو وہ مضافاتی علاقوں اور جھگی جھونپڑیوں میں۔ اسی ممبئی شہر کے علاقے وِلے پارلے کے مشرق میں آدھا کلومیٹر پیدل چلیں تو بائیں جانب لکشمی چال ہے۔ یہ چال نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی گلیوں کا ایسا جال ہے کہ اگر کوئی نیا بندہ ایک مرتبہ کسی ایک گلی میں گھس جائے تو گھنٹوں باہر نہ نکل پائے۔ یہ گلیاں نہیں بھول بھلیاں ہے۔ ان دنوں سارے ممبئی شہر میں MHADA کی بلڈنگیں بن رہی ہیں۔بیٹھی چال کی جگہ کثیر منزلہ بلڈنگیں لے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک نئی تعمیر شدہ بلڈنگ کی نویں منزل پر اکرم قریشی کا گھر ہے۔ گھر کیا ہے، بس ایک چھوٹی سی جگہ ہے جسے دیواروں سے گھیر دیا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے فلیٹ کہتے ہیں۔ اس فلیٹ میں ایک چھوٹا سا ہال، اس سے بھی چھوٹا بیڈروم، کچن کے نام پر چولہے کے سامنے چار لوگوں کے کھڑے رہنے کی جگہ اور ماچس کی ڈبیا جتنے باتھ روم اور ٹوائلٹ۔ اس پوری بلڈنگ میں ایسے چار سو پینسٹھ فلیٹ ہیں۔ گھر میں اکرم قریشی، ان کی بیوی سلمہ، چار بیٹے رہتے ہیں۔ ملک میں لاک ڈاؤن کیا شروع ہوا، حالات ہی بدل گئے۔ صورتِ حال مخدوش سے مخدوش تر ہوتی چلی گئی۔ آج پچیسواں دن آن پہنچا تھا لاک ڈاؤن کا۔
اکرم قریشی کے اس فلیٹ میں گجرات کے مشہور شہر سورت سے ان کی سالی صادقہ اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کے ساتھ گزشتہ پچیس سالوں میں پہلی مرتبہ ان کے گھر آئی تھی۔وہ آئی تو تھی تین دنوں کے لیے لیکن لاک ڈاؤن اچانک نافذ ہوگیا اور پھر شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلاگیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اکرم میاں کی بیٹی جس کی دو مہینے قبل ہی شادی ہوئی تھی، شادی کے بعد پہلی مرتبہ میکے آئی اور لاک ڈاؤن کا شکار ہوکر یہیں اٹک کر رہ گئی۔ یعنی اب گھر میں چھ ریگولر افراد کے علاوہ چار اضافی افراد بھی موجود تھے۔ صادقہ کے لیے تو معاملہ ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ کا ہوگیا تھا۔
ایسی وباء جس کا نام کورونا تھا اور جو بیک وقت ساری دنیا پر مسلط کردی گئی تھی، انسانی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی کانوں نے اس کے بارے میں پہلے کبھی سنا تھا۔
اکرم میاں میں جو بہت ساری خوبیاں تھیں ان میں ایک تو یہ تھی کہ وہ بہت گرم مزاج تھے اور دوسری خوبی یہ تھی کہ ان کی زبان پر مغلظات کی کثافت کی تہہ نہایت دبیز تھی اور عمر کے ساٹھویں برس میں اس کی دبازت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔
مہمان تین دن کا ٹھیک! اکرم میاں کا ایمان تین دن کی مہمانداری پر راسخ تھا۔ اس سے زیادہ کے وہ قائل نہ تھے۔ چوتھے دن وہ زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن اس کے باوجود مہمان بغیر کچھ کہے سب کچھ سمجھ جاتا۔ صادقہ، اس کی بیٹی حامدہ اور بیٹا فراز بھی بہت کچھ سمجھ رہے تھے۔ وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن نے اس چھوٹے سے فلیٹ کی چار دیواروں کو ایسے سکیڑ دیا ہے جیسے کسی الاسٹک کو کھینچ کر چھوڑدیا جائے۔
اتنے سارے افراد اتنے سے گھر میں مقید، محصور و معذورہوکررہ گئے۔ مہمان مہمان نہ رہا اور میزبان بھی میزبان نہ رہا۔ تکلفات کے سارے پردے درمیان سے اٹھ گئے تھے۔ صادقہ سینکڑوں کلومیڑ کی مسافت طے کرکے اپنی شادی کے بعد پہلی مرتبہ ممبئی آئی تھی اور یہاں آکر یہ سب کچھ ہوگیا۔ وہ اپنے پیچھے عمر کی سنچری مکمل کرتی ساس، اپنے سرکاری ملازم شوہر، ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو چھوڑ آئی تھی جو روز اسے فون کرکے یاد دلاتے کہ ’امّاں (صادقہ کی ساس) آپ کو بہت یاد کررہی ہیں۔‘
گزشتہ پچیس دنوں میں اس فلیٹ کا ماحول نہایت بوجھل ہوگیا تھا۔ ایک تو یوں بھی اکرم میاں کسی کو نچلا بیٹھے دیکھ نہیں سکتے تھے اور پھر مہمان! خدا کی پناہ! روبینہ تو خیر ان کی اپنی بیٹی تھی جو شادی کے پہلے بھی اسی فلیٹ میں رہتی تھی لیکن۔۔۔
صادقہ، حامدہ اور فراز، روز دعائیں مانگتے کہ اللہ! ٹرین کم از کم ایک روز کے لیے ہی کھول دے۔ یا کم از کم واپس گھر جانے کا کوئی ذریعہ بنادے۔ مگر ہر مرتبہ اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبولیت والے خانے سے باہر ہی رکھا تھا۔
دن گزررہے تھے۔ گزر کیا رہے تھے بلکہ گزارے جارہے تھے کہ اچانک ایک روز کہیں سے گھومتے گھامتے یہ خبر گھر میں پہنچی کہ سرکار کی جانب سے لاک ڈاؤن میں دو دن کی رعایت دی جارہی ہے. لیکن یہ بات ضرور ہے کہ خبر سنانے والی زبان اکرم میاں کی تھی. اب یہ تو خدا ہی جانے کہ یہ خبر تھی یا محض افواہ! لیکن اسے سنتے ہی صادقہ سورت واپس جانے کے لیے بے چین ہوگئی. اس نے اکرم میاں کی منت سماجت کی کہ کسی بھی قیمت پر اس کے واپس جانے کا انتظام کردیں.
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں!
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا یا بلی نے خود ہی چھینکا توڑلیا تھا، یہ تو اکرم میاں جانتے تھے یا ان کا خدا.
اکرم میاں کے چہرے کی تازگی واپس آگئی اور انھوں نے اپنی پوری طاقت، صلاحیت اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پانچ گنا کرائے پر ایک بھروسے مند ٹیکسی والے کو تیار کرہی لیا۔
صادقہ ایک گھنٹے میں تیار ہوگئی اور رات ہوتے ہوتے حامدہ اور فراز کو ساتھ لیے ٹیکسی میں بیٹھ کر نکل بھی گئی۔
فلیٹ میں کھلی سانسوں کے لیے جگہ فارغ ہوتے ہی اکرم میاں نے سکون کی سینکڑوں سانسیں ایک ساتھ لے ڈالیں۔ رات میں انھیں اپنی ٹانگیں تھوڑی زیاہ پھیلانے کی جگہ بھی مل گئی تھی۔
رات کا ایک بجا ہوگا کہ اچانک سلمیٰ کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے دیکھا تو موبائل کے اسکرین پر صادقہ کا نمبر جگمگارہا تھا۔ وہ فون اکرم میاں کے پاس لے آئی اور انھیں جگاکر بتایا کہ صادقہ کا فون ہے۔ اکرم میاں کوچونکہ کئی دنوں میں پہلی مرتبہ گہری نیند آئی تھی اس لیے جاگنے میں تھوڑ ا وقت لگا۔ کچھ دیر آنکھیں ملتے رہے اور پھر بولے،’ایسا کرو! فون سوئچ آف کردو۔ ابھی کال رسیو کرکے کوئی خطرہ مول لینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ پہلے وہ گھر پہنچ جائے پھر اس سے بات کریں گے۔‘
دونوں میاں بیوی نے فوراً اپنے اپنے سیل فون سوئچ آف کیے اور سوگئے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے بچوں کے سیل فون سوئچ آف کرنا نہیں بھولے تھے۔
City a Short Story by Hermann Hesse
Articles
شہر
ہرمن ہیسے (اردو ترجمہ : قاسم ندیم)
لگتا ہے اب ہم کہیں پہنچ رہے ہیں انجنیئر نے بلند آواز سے کہا۔کوئلہ اوزار اشیائے خوردنوش اور مسافروں سے بھری ہوئی ٹرین اس نئے علاقہ میں پہنچی جہاں کل ہی ریل کی پٹریاں بچھائی گئی تھیں۔اس وسیع و عریض علاقے میں چاروں طرف ہریالی تھی جس پر سورج کی سنہری کرنیں چمک رہی تھیں۔دور آسمان کو چھوتے ہوئے پیڑوں سے بھرے پہاڑ نیلے کہرے میں نہا رہے تھے۔ہرے بھرے میدانی علاقے میں کوئلہ، راکھ، کاغذ، اور لوہا اتارا جارہاتھا جس سے شور و غل ہو رہا تھا۔جنگلی کتے اور سانڈ یہ سب دیکھ رہے تھے۔آرا مشین کی آواز دور تک جنگلوں کو چیرتی ہوئی چلی جارہی تھی۔بندوق کی پہلی آواز کی گونج بادلوں کی گڑگڑاہٹ کی طرح پہاڑوں پر تیر گئی،لوہے پر بھاری ہتھو ڑے کی پہلی ضرب سے گھن کی آواز ہوئی، ٹین کے پتروں سے ایک جھونپڑی تیار ہوئی، دوسرے دن لکڑی کا ایک گھر پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے مکانات نظر آنے لگے۔جنگلی کتے اور سانڈ اس علاقے سے دوری قائم رکھنے لگے۔زمین کو جوتا گیا۔ہل چلایا گیا اور اس میں فصل آئی۔پہلے ہی بہار کے موسم میں زمیں ہری بھری فصلوں سے بھر گئی۔وہاں کھیت اصطبل اور انا ج کے گودام بنائے گئے۔زمین کو تراش خراش کر سڑکیں بنائی گئیں۔ ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوا اور اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔اس کے فوراََ بعد ایک سرکاری عمارت تیار ہوئی پھر ایک بینک۔تھوڑے ہی فاصلہ پر کچھ ہی مہینوں بعد اور بھی شہر بسائے گئے۔دور دراز کے علاقوں سے وہاں مزدور آنے لگے۔کسان اور شہری، بیوپاری اور وکیل آئے۔اساتذہ اور فلسفی آئے۔کچھ دنوں میں وہاں ایک اسکول،تین عبادت گاہیں اور دو اخبار شروع ہوئے۔مغربی سمت کے علاقے میں تیل کا ذخیرہ دستیاب ہوا۔نئے شہر کی ترقی ہونے لگی۔ایک سال بعد ہی وہاں پاکٹ مار، چور، اچکے،بدمعاش،شراب کی دکان،پیرس کا درزی اور بیئر پینے کے ہال وغیرہ وارد ہوئے۔قریبی شہروں کی مقابلہ آرائی سے مزید حوصلہ ملا اب کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ انتخابی پرورگنڈہ سے لے کر ہڑتال تک سنیما گھروں سے غوروفکر کے مراکز تک سب کچھ تھا۔فرانسسی شراب، ناروجن مچھلی، اطالوی ساسیز، برطانوی اون اور روسی جیکیٹ بھی موجود تھے دوسرے درجے کے گلوکاروں رقاصاؤں اور موسیقاروں کے گروپ بھی وہاں پروگرام کے لیے آنے لگے۔ آہستہ آہستہ وہاں تہذیب و ثقافت کا ارتقابھی ہوا۔وہ شہر جو ایک جھونپڑی سے شروع ہوا تھا اب ایک مستقل رہائش میں تبدیل ہو گیا۔ ملنے جلنے اور خیر مقدم کے طریقوں میں دوسرے شہروں سے پیچھے نہیں تھا۔جن لوگوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی وہ بے حد مشہور و معروف و قابل احترام ہوگئے تھے۔ وہ یہاں کے مخصوص لوگوں کا اہم حصہ تصور کیے جاتے ہیں ایک نئی پیڑھی آگئی جس کے لیے وہ شہر اس کا پرانا گھر تھا۔وہ دن جب اس کی بنیاد رکھی گئی پہلا قتل ہوا،پہلی مرتبہ عبادت کی گئی یا پہلا اخبار شائع ہوا تھا اب قصصہ کہانی کی طرح لگنے لگا تھا۔ یہ شہر اب آس پاس کے قصبوں چھوٹے شہروں پر اپنا دبدبہ رکھتا تھا جہاں پہلے راکھ کے ڈھیریوں کے ساتھ جھونپڑیاں کھڑی ہوئی تھی وہاں اب بڑی اور کھلی کھلی چوڑی سڑکیں اور ان کے کنارے بنکوں، دفتروں، تھیٹروں اور عبادت گاہوں کی قطاریں تھیں۔ راستوں پر طلبہ دکھائی دیتے جو یونیورسٹی یا لائبریری جاتے۔ ایمبولینس دوڑتی کسی، سیاست داں کی لیموزین تیز رفتاری سے گزرتی اور لوگوں اسے حیرت و استعجاب سے دیکھتے پتھروں اور لوہے سے تعمیر کردہ بیسوں اسکولوں میں ہر سال شہر کی بنیاد والے دن کو یادگار دن کے طور پر منایا جاتا اس میں گیت اور تقاریر کی جاتی شہر میں جو کھلی جگہیں موجود تھیں وہاں اب کھیل کے میدان،کارخانہ اور درجنوں ریلوے لائنیں موجود تھیں۔ ریلوے لائنوں کی وجہ سے پہاڑ اب قریب آگئے تھے۔پہاڑ کے دامن میں اور دور دراز سمندر کے کنارے رئیسوں اور مالدار لوگوں نے تعطیلات گرما کے لیے اپنے گھر تعمیر کروالیے تھے۔ تقریباََ سو سال بعد شہر ایک بڑے زلزلے کی زد میں آگیا اور پوری طرح تہس نہس ہوگیا۔اس بار پتھروں کے مکانات کی جگہ لکڑی نے اور بڑی بڑی عمارتوں کی جگہ چھوٹے مکانوں نے لے لی۔تنگ راستوں کی جگہ چوڑے راستہ بنائے گئے۔ اس کا ریلوے اسٹیشن اور اسٹاک ایکسچینج پورے ملک میں سب سے بڑا تھا۔ دوبارہ تعمیر شدہ شہر کو انجینئر وں فنکاروں اور کلاکاروں نے مختلف پارک، باغات، فواروں اور مجسموں سے سجایا۔نئی صدی میں شہر ملک کا سب سے دولت مند اور خوبصورت شہر مانا جانے لگا۔ساری دنیا سے سیاست داں انجینئر اور میئر یہاں کی تعمیرات پانی کا انتظام اور نظم و نسق کے مطالعہ کے لیے تشریف لائے۔ شہر کے نئے ٹاؤن ہال کے تعمیر کے ابتدا ہوئی جو دنیا میں سب سے بڑا اور شاندار تھا۔ ترقی اور علاقائی افتخار بڑھنے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی نفاست میں اضافہ ہوا اور مزید ترقی کرتا ہوا یہ شہر خوبصورتی کے کرشمے میں تبدیل ہوگیا۔شہر کے درمیان کا حصہ جہاں کی عمارتیں ایک خاص ہلکے رنگ کے پتھروں سے تعمیر کی گئی تھیں،چاروں طرف سے بے حد خوبصورت باغات سے گھرا ہوا تھا۔ اس کے بعد کشادہ سڑکیں جن کے کنارے گھروں کی قطاریں تھیں جو دور دیہاتوں تک جاکر کھو جاتی تھیں، خوب سرہا جانے والا میوزیم تھا۔ جہاں ہمیشہ اسے دیکھنے کے لیے لوگ آتے رہتے تھے۔ اس میں سینکڑوں کمرے ہال اور برآمدے تھے جن میں شہر کی تاریخی نوادرات کو بڑے جتن سے رکھا گیا تھا۔ ایک بڑے حصہ میں شہر کی پہلی جھونپڑی، راستے وغیرہ کے ماڈل، جنگلی جانوروں اور میدان کے ساتھ موجود تھے۔ میوزیم کا مشاہدہ کرنے والے نوجوان خیموں اور جھونپڑیوں اور اوبڑکھابڑ پٹریوں سے آج جگمگاتے ہوئے شہر تک کے اپنے ارتقا پر غوروفکر کرتے، اپنے اساتذہ و رہنماؤں کے ذریعے انھوں نے اپنی ترقی اور فروغ کے عظیم اصولوں کو سمجھ اور سیکھا کیسے تخریب سے تعمیر،بربریت سے انسانیت،جہالت سے تہذیب اور غربت سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ شہر کی ترقی بڑی تیزی سے ہوئی۔ اس میں تمام سہولیت میسر تھیں۔ اس وجہ سے اگلی صدی میں وہ انتہا پر پہنچ گیا مگر اسی وقت دبے کچلے طبقہ نے آواز بلند کی اور خونی انقلاب نے اس کی ترقی کا خاتمہ کر دیا۔ لوگوں کے جم غفیر نے تیل کے کنووؤں میں آگ لگا دی۔ کارخانوں،کھیتوں اور گاؤں سمیت اس علاقے کے بڑے حصے میں آتش زنی کی وارداتیں ہوئیں۔جس سے بربادی ہوئی۔قتل و غارت گیری کے باوجود شہر بچ گیا۔برسوں بعد یہ مصیبتوں سے ضرور نکلا مگر پہلے جیسی ترقی نہ ہوئی پھر کوئی نئی عمارت نہیں تعمیر ہوئی۔ ان مشکل حالات کے دوران سمندر پار کسی جگہ تیزی سے ترقی ہونے لگی وہاں کی زمین اناج،لوہا،چاندی اور کئی نعمتوں سے مالا مال تھی اس لیے نئی زمین کی طرف سبھی راغب ہوئے۔ پرانی زمین سے جڑے لوگ نئی امیدیں نئی صلاحتیں لیے وہاں جانے لگے۔راتوں رات اس نئی زمین پر نئے شہر جلوہ گر ہونے لگے۔ جنگل غائب ہوگئے پانی کے ذخیروں کو مرضی کے مطابق نئی سمت دی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ پرانا خوبصورت شہر غریب ہونے لگا۔وہ ایک معاشرہ کا دل و دماغ اور کئی ممالک کا اسٹاک ایکسچینج نہیں رہا۔نئے دور کی اتھل پتھل میں وہ صرف کھڑا رہا۔ اپنی ثقافت کی وجہ سے کچھ ٹوٹے تار باقی رکھ سکا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس شہر کے رہنے والے اسے چھوڑ کر نئے شہر میں گئے۔ وہاں کچھ نیا نہیں بنا سکے، تجارت میں ٹھہراؤ آگیا تھا اور دولت کمانے کے مواقع بہت کم رہ گئے تھے مگر اب اس پرانی ثقافت والی سر زمین پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ اس مرتے ہوئے شہر میں عالم اور فنکار مصور اور شاعر پیدا ہونے لگے جنھوں نے پہلے کبھی اس سر زمین پر مکان بنائے تھے ان کے وارث اب یہاں دیر سے جاگے اور فنکارانہ ماحول کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ انھوں نے کائی سے بھرے ہوئے باغات کی تصاویر بنائیں جن میں ٹوٹی پھوٹی مورتیاں اور ہرے تالاب تھے یا پھر وہ پرانے زمانے میں ہونے والی اتھل پتھل اور جنگ کے دوران جان بازی کے واقعات اور پرانے محلوں میں موجود تھکے ماندے لوگوں کے خوابوں کے بارے میں احساسات سے بھر پور شاعری کرتے رہے۔ ایک بار پھراس شہر کا نام دور دور تک مشہور ہونے لگا۔چاہے باہر کی دنیا جنگوں سے لرزتی رہے اور بڑے بڑے منصوبوں پر عمل آوری میں مصروف رہے۔ یہاں کے باشندے پر سکون تنہائی اور اجداد کے کارناموں کو سینے سے لگائے جی سکتے تھے۔ یہاں کی ویران سڑکیں پھیلی ہوئی ڈالیوں سے بھری تھیں۔ موسم کی مار جھیلتے ہوئے مکان کی خاموشی سے چوراہوں کو دیکھتے رہتے اور کائی زدہ فوارے اپنا راگ سناتے رہتے۔ ایک یا دو صدی تک دنیا کے لوگ اس پرانے خوابیدہ شہر کو احترام سے دیکھتے رہے۔شاعروں اور سیاحوں نے بھی اسے خوب سراہا مگر زندگی کا رخ دوسرے ممالک کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ خود اس شہر میں پرانے باشندوں کی اگلی پیڑھیاں معدوم ہوتی جارہی تھیں۔ تہذیبی تغیرات کا دور بھی بہت پہلے ختم ہو چکا تھا اور اب اس کے سڑے گلے باقیات ہی بچے تھے۔ اس کے آس پاس کے چھوٹے چھوٹے شہر ویران اور کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ شاذ و نادر ہی دوسرے ممالک کے مصور اور سیاح یہاں آتے اور موقع با موقع وہاں مجرموں کا بسیرا رہنے لگا۔ شہر سے تھوڑی دور زلزلہ آیا جس نے ندی کا بہاؤ تبدیل کر دیا وہاں کی زمین کا ایک حصہ دلدل میں اور باقی ریگستان میں تبدیل ہوگیا۔ دھیرے دھیرے پہاڑ سے پرانا جنگل نیچے اترنے لگا وسیع و عریض علاقہ کو ویران دیکھ کر جنگل نے اسے ٹکڑے ٹکڑے اپنی گرفت میں لینا شروع کیا۔دلدلی علاقہ میں ہر یالی چھانے لگی اور کھنڈروں پر بڑے بڑے پیڑ اگ آئے۔ آخرکار شہر کے باشندے اٹھ گئے جو باقی رہا وہ ایک قسم کا کھنڈر،عجیب و غریب قسم کے جنگلی جاندار ان کھنڈروں میں دکھائی دیتے۔ دلدلی علاقوں میں تبدیل ہونے کے بعد طوفان کا ایک دور گزرا جس میں اس طرح کی آبادی بھی وبائی امراض سے ختم ہوگئی آخرمیں سب کچھ ویران ہوگیا۔ بوسیدہ ٹاؤن ہال جو اپنے وقت میں قابل افتخار تھا ٹوٹا پھوٹا لیکن اب بھی سیدھا کھڑا تھا۔دنیا بھر کے گیتوں میں اب بھی اس کا ذکر ہوتا تھا اور قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں کے بیچ اس کے بارے میں بے شمار کہانیاں موجود تھیں۔ اب قریبی شہر بھی معدوم ہونے لگے تھے ان کی تہذیب و ثقافت کا بھی خاتمہ ہورہا تھا اس شہر سے جڑے ناموں اور پرانی عظمت کا ذکر بچوں کے لیے لکھی جانے والی آسیبی کہانیوں میں ہونے لگا تھا اور کبھی کبھار دور دراز کے ملکوں سے محقق یہاں تحقیق کرنے آتے، اس شہر کے بارے میں جو راز پوشیدہ تھے اس پر بحث و مباحثہ کرتے، ٹھوس سونے کے دروازوں اور جواہرات کے گنبدوں کی بات ہوتی۔کہا جاتا ہے کہ اس خطہ کے خانہ بدوش آدی باسیوں کے پاس اب بھی بہت سی چیزیں محفوظ ہیں۔ لیکن جنگل اور نیچے آتے گئے پہاڑوں سے میدانوں تک جھرنوں اور ندیوں کا بہاؤ جاری رہا۔جنگل مزید گھنے ہوگئے، دھیرے دھیرے اس نے پرانی دیواروں،محلوں، عبادت گاہوں اور میوزیم پر اپنی چادر پھیلا دی۔لومڑی، نیولے،بھیڑیے اور بھالوؤں نے ہر طرف قبضہ کر لیا۔ ایک ٹوٹے محل کے کھنڈر میں ایک نیاچیڑ کا درخت بڑھنے لگا۔صرف ایک ہی سال پہلے اس نے جنگل کے قریب آنے کی اطلاع دی تھی مگر جب اس نے آس پاس دیکھ تو دور دور تک چھوٹے چھوٹے پیڑ اپنی جڑیں جماتے جارہے تھے۔ لگتا ہے اب ہم لوگ کہیں پہنچ رہے ہیں ایک پرندے نے خوشی سے آواز لگائی جو ایک ڈال پر چوٹ کرتا جارہا تھا اور خوشی سے اس بڑھتے ہوئے جنگل کو دیکھ رہا تھا جس کی شاندار ہریالی ساری زمین پر پھیلتی جا رہی تھی۔
٭٭٭
100 Rupees A Short Story
Articles
مختصر افسانہ: ”سو روپیہ“
شاہدحسین (اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور )
شہر کے سب سے مہنگے مال کے سامنے نو بیاہتاشردھا اور شہرون کی چم چماتی گاڑی رکی۔شہرون آج شردھا کو ایک سرپرائز گفٹ دینے والا تھا۔اس لیے شردھا کو گاڑی میں بیٹھ کے اندازے لگانے تھےکہ سرپرائز کیا ہو گا۔گاڑی کے رکتے ہی ایک نو دس سال کی لڑکی نے جو شکل سے کوئی بھکارن نہ لگتی تھی ۔لباس بھی اچھا خاصا تھا لیکن میلا ہو چکا تھا۔بال کچھ سلجھے اور کچھ بکھرے کھچڑی نما تھے۔چہرے کی پیلاہٹ کسی اچانک آدھمکنے والی آفت کی داستاں سنا رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی امید کی ایک چمک اس کی آنکھوں میں تھی وہ شہرون (جو گاڑی سے باہر نکل چکا تھا )کے پاس آئی ”صاحب اپنے اور بھائی کے لیے کھانا لینا ہے سو روپے کی مدد کردیں “شہرون جو بیگم کی محبت میں سر شار تھا اسے نظر انداز کرتے ہوۓ آگے بڑھا تو وہ اس کے پیچھے پیچھے کوئی دس قدم بھاگی پھر رک کے واپس پلٹی تو شردھا کو وہ مایوسی کا وہ مینار لگی جس کی ساری شمعیں گل ہو چکی ہوں اور گرنے کو تیار ہو۔اور پھر ایسا ہی ہوا کہ وہ تھکن سے چور ان کی گاڑی کی اوٹ میں بیٹھ گئی۔شردھاابھی یہ سب کچھ دیکھ ہی رہی تھی کہ گاڑی کے پارکنگ لان میں ایک ڈوم نے اپنا سازینہ رکھا اس کے ساتھی بھی شامل ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں لوگوں کا جم غفیر وارد ہو گیا۔۔ڈھولک کی تاپ پہ ایک ڈومنی نے ناچنا شروع کر دیا۔شردھا نے سن رکھا تھا کہ آج کل یہ پیشہ ور لوگ ناچنے گانے کا کام بیچ چوراہوں پہ ہی کرنے لگے ہیں مگر اس وقت اور یوں اچانک یہ سب ہو جائے گا یہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔وہ گاڑی سے باہر نکل آئی۔تو وہ لڑکی جو گاڑی کے ٹائر سے لگ کے بیٹھی تھی وہ بھی ڈر کے مارے اٹھ کے کھڑی ہو گئ ۔موسیقی اور رقص کا حسین سنگم اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔جیسے جیسے جیالوں کی فرمائش بڑھتی جاتی ویسے ویسے نوٹوں کی برسات میں رقاصہ کے کپڑے کم ہوتے جاتےاور اس کےبدن کی تھرتھراہٹ بڑھتی جاتی۔من چلے اس کی برہنہ کمر میں ہاتھ ڈالتے تو وہ بجلی کی سی مچل کے نکل جاتی کہ جیسے مچھلی بہ لبِ تالاب پھسل کے گم ہو جائے۔ ہائے۔۔ہائے کی آواز گونجتی اور پھر پاس بلانے کو نوٹ دکھائے جاتے۔اسی وقت شردھا کی نظر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے شہرون پہ پڑی جس نےاُسے گاڑی سے باہر کھڑے اس ناچتے گاتےطائفہ سے محظوظ ہوتے دیکھ لیا تھا۔اس نے پیار بھری نظروں سے اسے دیکھا اور جیب میں ہاتھ ڈال کے اس ناچنے والی کی طرف سو سو کی ایک گڈی ایسے ہوا میں اڑا دی جیسے اپنی دلہن کا صدقہ اتار رہا ہو۔ڈومنی کو نیا تماش بیں ملا تو اسے اپنی برہنہ کمر کے اور نظارے دکھانے لگی۔شہرون نے شردھا کی طرف دیکھتے ہوئے چند اور نوٹ پھینکے اور اس کی طرف بڑھ آیا۔شردھا واپس گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔شہرون لمبے ڈگ بھرتے ہوۓ سٹیرنگ سائیڈ پہ آ بیٹھا۔اس نے ایک خوبصورت ڈبہ اسے تھمانے کو ہاتھ آگے کیا ہی تھا کہ گاڑی کے شیشہ پہ دستک ہوئی۔شہرون نے شیشہ نیچے کیا تو شردھا کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئ۔اس کا جی کرے کہ ابھی کے ابھی زمیں پھٹ جائے اور وہ اس میں غرق ہو جائے۔شہرون آنکھیں پھاڑے باہر کی طرف دیکھ رہا تھا اور ”وہی لڑکی اپنی قمیص اتار کے کھڑی سو روپے کا سوال کر رہی تھی“