Question beyond general knowledge by Syed Mohammad Ashraf

Articles

جنرل نالج سے باہر کا سوال

سید محمد اشرف

گول چبوترے پرکھڑے ہوکر چاروں راستےصاف نظرآتے ہیں، جن پر راہ گیر سواریاں اورخوانچے والے چلتے رہتے ہیں۔ چبوترے پرجو بوڑھا آدمی لیٹا ہے، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹےہیں۔ کہیں کہیں پیوند بھی لگے ہیں۔ اس کی داڑھی بےتریب ہے اورچہرے پرلاتعداد شکنیں ہیں۔ آنکھوں کی روشنی مدھم ہوچکی ہے۔ وہ راستے پرچلنے والے ہرفرد کوبہت حسرت سے دیکھتاہے۔ جب کوئی خوش خوش اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ دور تک اوردیر تک اسے دیکھتا رہتا ہے۔

کسی طرف سے ایک دس گیارہ برس کی بچی آئی۔ وہ اسکول کی پوشاک پہنے ہوئے ہے، بستہ کندھے پرلٹکا ہے۔ ناشتہ کاڈبہ ہاتھ میں دباہے۔ لڑکی کے بال سنہری ہیں۔ چہرہ گلابی ہے، اورآنکھوں میں ایک سادہ سی چمک ہے۔ بے فکری ، خوشحالی اور بچپن جب ایک جگہ جمع ہو جائیں توآنکھوں میں ایسی ہی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔

اسے آتے دیکھ کر بوڑھے کی آنکھو ں میں کچھ چمکا۔ جب وہ پاس سے گزری تو بوڑھے نے ہاتھ بڑھا کر اس کے پیرچھوئے۔ بچی جھجک کرکھڑی ہوگئی۔ ایک لمحہ تک بوڑھے کودیکھتی رہی۔پھر اس کی آنکھوں میں خوف چمکا۔گھرکی نصیحتیں ذہن میں کلبلائیں، لیکن بوڑھے کے چہرے پر اس نے جانے کیا دیکھا کہ آنکھوں کاخوف مدھم پڑگیا اور بھولا بھالا چہرہ دردمندی کے جذبے سے سرشار ہوگیا۔ اس نے بہت اپنائیت سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے بابا۔ بھوک لگی ہے؟‘‘

بوڑھا دھیمے سے مسکرایا۔

’’ہاں۔ لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘

لڑکی کی آنکھوں میں حیرت جاگی، اس نے بوڑھے کاہاتھ اپنے پیروں پر سے آہستگی کے ساتھ ہٹایا اورچبوترے پراس کے پاس بیٹھ کرپوچھا، ’’میرے پاس پچاس کاسکہ ہے۔ تم لوگے؟ تمہیں ضرورت ہے؟‘‘

’’ہاں ضرورت ہے، لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘

لڑکی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’پھر تم نے مجھے کاہے کو روکا بابا؟‘‘

بوڑھے نے بہت نخیف آواز میں اس سے کہا، ’’منی! بڑا احسان ہوگا اگر تم میرا ایک کام کر دو۔‘‘

بچی نے اپنا بستہ اتارکر چبوترے پر رکھا اور بوڑھے کے قریب کھسک کربہت اپنے پن کے ساتھ کہا، ’’بتاؤ کیا کام ہے تمہارا۔ میرے کرنے کا ہوگا تو میں کردوں گی۔ نہیں تو پاپا سے کہہ کرکرادوں گی۔ وہ بہت اچھے ہیں۔ سب کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس دفعہ سردیوں میں انہوں نے پڑوس کے گھر میں دوکمبل دیے تھے۔ جمیلہ کی اماں اور اس کے بھائی کوبہت سردی لگتی تھی۔‘‘ بوڑھے نے یہ سب باتیں بہت لاتعلقی سے سنیں اور کہا، ’’تم میراایک کام کر دو۔ مجھے ایک بات بتادو۔‘‘

’’کیا بات ہے۔ پوچھو۔ معلوم ہے جنرل نالج میں سب سے زیادہ نمبر میرے آئےہیں کلاس میں۔‘‘

’’کس چیز میں منی ؟‘‘

’’یہ۔۔۔ یہ ایک چیزہوتی ہے۔ مطلب ایک سجبیکٹ ہوتا ہے۔ اس میں ساری باتیں آجاتی ہیں۔ جیسے کون سا پہاڑ سب سے اونچا ہے؟ کون سی ندی سب سے بڑی ہے اور بہت ساری باتیں۔ تم مجھ سے کوئی بھی سوال پوچھ کر دیکھ لو مگرجلدی سے پوچھ لو۔ دیر ہوجائے گی توممی ڈانٹیں گی اورتمہارے پاس بیٹھا دیکھ لیا تو پاپا تو پٹائی ہی کردیں گے۔ اب جلدی سے پوچھ لو۔‘‘

’’منی۔‘‘ بوڑھے نے نیم درازہوکر بہت رازداری کے لہجے میں قریب آکر، اتنے قریب کہ بچی نے اس کے چہرے کی ساری شکنیں گن لیں، کہا، ’’مجھے یہ بتادو کہ میری عمر کتنی ہے اورمیں کب مروں گا؟‘‘

بچی کا ہاتھ بستہ پرجہاں رکھا تھا وہیں رکھا رہ گیا۔ اس کی نگاہیں بوڑھے کےچہرے پرجم کر رہ گئیں۔ پھر اچانک وہ کھلکھلا کر ہنسی، ’’واہ، یہ ہمیں کیا معلوم۔ یہ تو تمہارے ابا کومعلوم ہوگا کہ تمہاری کتنی عمر ہے۔ اور تم کب مروگے یہ اللہ میاں کو معلوم ہے۔‘‘

کئی راہ گیر ان کے پاس آکر جمع ہوگیے۔ بوڑھے نے ان کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’کوئی مجھے بتادے کہ میری عمرکتنی ہے اورمیں کب مروں گا۔ یہ بچی نہیں بتا پا رہی۔ تم بتا دو بیٹے۔‘‘ اس نے ایک نوعمر لڑکے سے کہا جس کےہاتھوں میں کرکٹ کا بلا تھا۔ وہ لڑکا آگے بڑھا، اس کے چہرے پرذہانت جگ مگ جگ مگ کر رہی تھی۔

’’بابا۔ جب آپ پیدا ہوئے۔۔۔ نہیں نہیں ۔جب آپ چھوٹے تھے، تب کی کوئی بات یاد ہے؟ کوئی بہت ہی خاص بات اگر آپ بتادیں توہم آپ کی عمر بتا دیں گے۔‘‘

’’ہاں مجھے یاد ہے۔ اس وقت سب لوگ لڑرہے تھے۔ کچھ لوگ ہارگیے تھے۔‘‘ بوڑھے نے سوچ کر کہا۔

’’تو آپ پہلی جنگ عظیم کے وقت پیدا ہوئے ہوں گے۔ مگر آپ کی عمرتو سو سال سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ آپ شاید کسی اورجنگ کی بات کررہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے حساب سے تو آپ ساٹھ پینسٹھ سال کے ہوں گے صرف۔‘‘ لڑکے نے اپنا بلا چبوترے پررکھ دیا اور وہیں بیٹھ گیا۔

’’نہیں بیٹے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’پہلی جنگ عظیم توکل کی بات ہے۔‘‘

بھیڑمیں سے ایک جوان شخص آگے نکلا اور حساب لگاکر بتایا، ’’آپ کی عمر تقریباً ایک سوپچیس سال ہے1857ء کے واقعہ کو لگ بھگ اتنا ہی وقت بیت چکا ہے۔‘‘

بوڑھے کے مٹیالے سے ہونٹ آہستہ سے کھلے۔ اس سے کچھ بولا نہیں گیا۔ پھر اس نے بہت دقت کے ساتھ کہا۔

’’۱۸۵۷ء کی جنگ توابھی کا واقعہ ہے۔‘‘

بھیڑمیں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ لیکن بوڑھے کے چہرے پر پھیلی ہوئی سنجیدگی نے سب کومجبور کیاکہ کوئی اس پرشک نہ کرے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اتنے میں بچی نے تاریخ کی کتاب کا ایک سبق یاد کیا اوراچھل کربولی۔

’’تم پورے ۲۲۳سال کے ہو۔ پانی پت کی تیسری لڑائی ۱۷۶۱ میں ہوئی تھی۔‘‘ بوڑھے نے اپنا سرانکار میں ہلایا۔ بھیڑمیں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ شام بڑھ رہی تھی اورساے پھیلنے لگے تھے۔ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سب نے اپنی اپنی معلومات کوکھنگالا۔ ایک ۳۵۔۴۰ برس کے آدمی نے بڑھ کرکہا، ’’با با ، آپ کی عمر ۴۲۸ برس ہے۔ اکبرنے ہیمو کو پانی پت کی دوسری جنگ میں ۱۵۵۶ میں ہرایا تھا۔‘‘

بوڑھے نے بہت مایوسی کے ساتھ اپنا سرنفی میں ہلایا۔ لوگ جنگوں کو یاد کرتے رہے اور حساب لگاتے رہے اوربوڑھے کواس کی عمر بتاتے رہے۔ اور وہ اپناسرنفی میں ہلاتا رہا۔ اتنے میں بھیڑ کو چیرتا ہوا بچی کو ڈھونڈتا ہوا اس کا باپ آگیا۔ اس نے بچی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ بچی خوف زدہ نظرآرہی تھی، لیکن ہمت کرکے اس نے اپنے باپ سے کہا ’’پاپا ، ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان کے سوال کا جواب دیں گے ورنہ اپنے پاپا سے کہیں گے۔ اب آپ آگیے ہیں۔ آپ ہی بتا دیجئے کہ ان کی عمر کیا ہوگی اوریہ کب مریں گے ؟‘‘

بچی کے شفیق باپ نے بچی کاہاتھ چھوڑا۔ اب تک جوبیتا تھا ، وہ لوگوں سے سنا اور بوڑھے بابا کوغور سے دیکھ کرکچھ سوچا اورپھر بوڑھے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ تب بوڑھے نے پیوند لگے لبادے سے اپنے گھٹنے چھپائے۔ اتنے میں بھیڑ کے اندر سے ایک شخص نہایت اعتماد کے ساتھ باہرنکلا اوربولا،’’ہونہ ہویہ آدمی سکندراعظم کے وقت میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

اس دفعہ بوڑھے سے پہلے بچی کے باپ نے نفی میں سر ہلایا اور دوزانو ہوکر بوڑھے کے پاس بیٹھ گیا۔ اوپر سے نیچے تک بوڑھے کو دیرتک دیکھا اورپھر سرآگے کرکے اعتماد کے ساتھ آہستگی کے لہجے میں بوڑھے سے مخاطب ہو کرکہا، ’’بابا میں تمہاری عمربتادوں اور یہ بتادوں کہ تم کب مروگے؟‘‘

بھیڑمیں سب کے چہرے چمکنے لگے۔ بچی کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ سب بہت اشتیاق کے ساتھ بچی کے باپ کودیکھنے لگے۔ بچی کے باپ نے بہت محبت سے بوڑھے کے گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کپڑوں پر نہیں بوڑھے کے ننگے گھٹنوں پرہیں۔ تب اس نے بھیڑ کے افراد کو فرداً فرداً دیکھا، چوراہے کو دیکھا، چاروں سمتوں میں جاتے ہوئے راستوں کو دیکھا، ہر طرف پھیلی ہوئی آبادی کو دیکھا اورسفاک آسمان کو دیکھا۔

’’با با۔‘‘ بچی کے باپ نے بہت واضح الفاظ میں کہنا شروع کیا، ’’بابا! تم ہمیشہ سے ہواوراس دنیا میں کبھی نہیں مرپاؤگے۔‘‘

ننھی بچی، نوعمرلڑکا، جوان آدمی اوربھیڑ کا ہرفرد حیران ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اس بار بوڑھے کا سراثبات میں ہلاتھا۔
—————————————

Ram Lila Garden a Short Story by Rehan Kausar

Articles

رام لیلا میدان

ریحان کوثر

آج اتوار کا دن تھا لیکن آم گاؤں کا رام لیلا میدان بالکل خالی تھا۔ چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ گھروں میں اپنی اپنی کاہلی اور سستی کے غلاف میں دبکے بیٹھے تھے۔ کچھ ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور کچھ لوگ نیند کے قید خانے میں مقید تھے۔
سردی کی خوبصورت صبح اور میدان میں کوئی نہیں ؟ بڑا عجیب معلوم ہو رہا تھا۔نرم و ملائم دھوپ میدان کے چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ دوسرے گاؤں سے الگ یہاں کا رام لیلا میدان، نہایت ہی سر سبز و شاداب تھا۔ اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے کیونکہ زمین کے آ دھے حصے میں عید کی نمازِ ادا کی جاتی اور صفیں میدان کے درمیان سے شروع ہوتیں ۔بقیہ آ دھے حصے میں عید کا میلا لگتا۔
دراصل یہ کھیل کود کا میدان تھا، ایک چھوٹا گارڈن بھی اور ساتھ ہی رام لیلا کا میدان بھی۔ یہیں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر نمازیں بھی ادا کی جاتی تھیں ،اسی لیے یہ جگہ گاؤں کی مسلم آبادی میں عید گاہ کے طور پر مشہور تھی۔ میدان کے تینوں طرف کی دیواریں بالکل سالم تھیں ،صرف پیچھے کی ایک دیوار تھوڑی سی ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے مین گیٹ کے علاوہ ایک اور راستہ وجود میں آچکا تھا۔
عبدل چاچا کے کبوتر خانے کے تقریباً سبھی دروازے کھل چکے تھے۔ میدان میں ایک طرف جہاں جہاں عبدل چاچا نے دانے اور پانی کی کٹوریاں رکھی تھی وہاں گٹرگوں کا کیرتن کرتے ہوئے سبھی کبوتر اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مگن تھے۔ برجو کاکا کی مرغیاں بھی میدان میں چہل قدمی کرتے ہوئے گشت کر رہی تھیں ۔کاکا کا مرغاصبح کی اذان کا فریضہ ادا کر کے ٹہل رہا تھا۔ بانو بی کی بکریاں اپنے میمنوں کے ہمراہ میدان کی دوسری جانب اپنی خوراک کی تلاش میں مصروف تھیں ۔
ادھر میدان کے سب سے قریبی مکان کی چھت پر شویتا ابھی ابھی چارپائی پر چادر بچھا کر چاول اور مونگ دال کے پاپڑ ڈال کر صبح کا ناشتہ بنانے اندر جا چکی تھیں ۔ اسی طرف رام پرساد اپنی چھت پر لگے ڈش ٹی وی کے تاروں کو جوڑنے کی تگ و دو میں صبح سے پریشان تھے۔ یہاں سے دیکھنے پر ہر چھت پر ڈش ہی ڈش اور باقی جگہوں پر الیکٹرک اور کیبل کے تاروں کا جال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بڑے بڑے بینر ہورڈنگ اور موبائل ٹاورز بھی چاروں طرف نظر آتے ہیں ۔
گاؤں تو بس نام ہی کا تھا ۔ شکل و صورت سے کسی مصروف شہر سے کم نہ تھا۔ آس پاس رام پرساد کا وہ واحد مکان تھا جہاں سے سارا میدان دکھائی دیتا ہے۔ پڑوس کی سلمیٰ ابھی ابھی اپنی چھت پر لگی رسیوں پر گیلے کپڑے ڈال کر نیچے اتری تھی۔ ایک تو دن چھوٹا اس پر صرف تین سے چار گھنٹے ہی دھوپ سلمیٰ کی چھت کو میسر تھی۔ باقی دھوپ سورج کے زاویے بدلتے ہی سامنے والے رام پرساد کی دو منزلہ عمارت کھا جایا کرتی تھی۔ یہ تمام مکان میدان کے ایک طرف تھے اور میدان کے باقی تینوں جانب سڑکیں تھیں جہاں مسلسل کار، موٹر سائیکل اور اسکوٹی پر لوگ آتے جاتے نظر آرہے تھے۔
صبح کے تقریباً نو بج چکے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیوں اور آنے جانے والوں کی تعداد مسلسل بڑھنے لگی تھی۔ میدان کے سامنے کی رِنگ روڈ پر اب بڑے بڑے ٹرک اور بسیں تیزی سے دھول اڑاتی ہوئی دوڑ رہی تھیں ۔ لیکن اب تک میدان بالکل خالی تھا۔ دور دور تک مرغیوں ، کبوتروں اور بکریوں کے سوا کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔۔۔!
تبھی گیٹ پر رام کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ ایک ہاتھ سے مسلسل گیٹ کے ایک حصے کو آگے پیچھے کر رہا تھا۔۔۔ دروازے سے نکلنے والی چوں چوں کی آوازیں شاید اس کے کانوں کے پردے تک تو پہنچ رہیں تھیں لیکن اس کی سوچ و فکر میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔ اس نے دور تک پھیلے ہوئے میدان پر ایک نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے آ گے بڑھنے لگا۔
رام کے ہاتھ میں کرکٹ کے بلے جیسا کچھ نظر آ رہا تھا مگر اس کی لمبائی کرکٹ کے بلے سے کچھ کم تھی۔ وہ بلا نہیں تھا،وہ تو کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہونے والی پیٹنی تھی۔
لیکن اس پیٹنی کا میدان میں کیا کام؟ آخر رام اس پیٹنی کے ساتھ یہاں اس میدان میں کیا کر رہا تھا؟ مالی اعتبار سے رام کا تعلق اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے اور وہ ایک عمدہ قسم کا بلا تو خرید ہی سکتا تھا۔اگر خرید بھی لیتا تو کرکٹ آ خر کس کے ساتھ کھیلتا؟ اس کے علاوہ میدان میں تو کوئی اور تھا ہی نہیں ۔ رام اب بالکل وہاں کھڑا تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ رام چاروں طرف دیکھنے لگا کہ کوئی آئے تو کرکٹ کا کھیل شروع کیا جائے۔ یہ تو اس کھیل کی ریت ہے کہ بلے بازی کرنے کے لیے گیند باز کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ وہ بے چین نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور یہ بھی سوچتا رہا کہ آخر دنیا میں وہ کون کون سے کھیل ہیں جو بغیر مخالفین کے کھیلے جاتے ہیں ۔
’’کاش کوئی آئے۔۔۔ اور وہ گیند بازی کے لیے بھی تیار ہو جائے۔۔۔ تو بڑا مزا آئے۔۔۔‘‘
رام بڑبڑاتا ہوا دوبارہ چاروں طرف دیکھنے لگا، لیکن اب تک وہ میدان میں تنہا ہی کھڑا تھا۔
تبھی پیچھے ٹوٹی دیوار والے راستے سے رحیم بھی میدان میں داخل ہوا۔ رام نے جیسے ہی رحیم کو دیکھا، مسکرا اٹھا۔۔۔
’’ارے واہ یہ رحیم تو بڑے وقت پر آیا ہے۔ آج پھر سے اسے ہی راضی کرتا ہوں گیند بازی کے لیے۔۔۔‘‘
وہ رحیم کو پیٹنی دکھاتے ہوئے زور سے چلایا، ’’اوے رحیم چل آجا کرکٹ کھیلتے ہیں ۔۔۔‘‘
رحیم زور سے چلایا، ’’ارے واہ ‘‘ اور دوڑتے ہوئے رام کے قریب میدان کے درمیان پہنچ گیا۔ رام بلائے اور رحیم نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔!! آخر دونوں کی دوستی کے قصے سارے گاؤں میں یوں ہی مشہور نہ تھے۔
’’چل لا بیٹ دے رام‘‘ رحیم نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’نا منا نا۔۔۔ آج تو ہم بلے بازی کریں گے اور تم گیند بازی کرنا۔‘‘
’’لیکن گیند ہے کہاں ؟‘‘ رحیم نے حیرت سے پوچھا۔
’’ارے ہاں گیند تو ہے ہی نہیں ، رکو میں ابھی لاتا ہوں ۔۔۔‘‘ رام نے بیٹ بغل میں دباتے ہوئے کہا۔
’’ارے بیوقوف اب گیند لانے اپنے گھر جاؤ گے؟ ایک کام کرتے ہیں وہ دیکھو جھاڑ پر پتنگ اور مانجھا نظر آ رہا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر رحیم نے کچھ دیر کی مشقت کے بعدمانجھا حاصل کر لیا۔ تب رام نے آس پاس سے بہت سارے کاغذ اور کپڑوں کے ٹکڑے ڈھونڈھ کر جمع کر لیے۔ میدان کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے رحیم نے ایک اینٹ نکال کر اسے زور سے زمین پر پٹکا۔ اس کے ردعمل سے حاصل شدہ اینٹ کے چند ٹکڑوں کو کاغذ اور کپڑے میں لپیٹ کر دونوں پتنگ کے مانجھے اس پر لپٹنے لگے۔ سارا مانجھا ختم ہونے پر اب رحیم کے ہاتھوں میں ایک اچھی خاصی گیند موجود تھی۔
میدان کے درمیان جہاں گھانس نہیں تھی وہاں لکڑی کی مدد سے پچ کا نقشہ کریدنے لگے تھوڑی ہی دیر میں میدان کے درمیان ایک پچ موجود تھی۔ اب اسٹمپ کی ضرورت تھی۔ اسٹمپ کا انتظام کچھ دشوار نہ تھا میدان کے دو طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں ۔ دونوں نے بڑی پھرتی سے بالکل سیدھی سیدھی چھ لکڑیاں توڑ کر جمع کر لیں اور خوشی خوشی دونوں تین تین لکڑیاں پچ کے دونوں طرف گاڑنے لگے۔
اب دونوں بالکل تیار تھے۔ مقابلہ شروع ہونے والا تھا۔ رام نے بیٹ اور رحیم نے گیند سنبھال لی۔ رام اب کریز پر بیٹ لیے ڈٹ گیا۔ ادھر رحیم نے گیند پھینکنے کے لیے جیسے ہی دوڑ شروع کی رام نے چیخ کر کہا،’’ارے یار! فیلڈر تو ایک بھی نہیں ؟ میں گیند ادھر اْدھر جہاں کہیں بھی ماروں تو اسے لائے گا کون؟‘‘
’’ہاں یار بات تو بالکل ٹھیک کہی تم نے اور ہمیں ایک وکٹ کیپر بھی درکار ہے۔۔۔‘‘ رحیم نے کہا۔
اب دونوں پچ کے درمیان سر کھجاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ میدان کے چاروں طرف نظریں گھمائیں کہ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نظر آئے تو اس سے منت سماجت کرکے اسے فیلڈنگ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ کافی دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد رام نے زور دار طریقے سے قہقہے لگاتے ہوئے بانو بی کی بکروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’وہ رہے ہمارے فیلڈر!‘‘
رحیم نے کبوتر اور مرغیوں کی سمت دوڑتے ہوئے کہا، ’’انھیں میں پکڑتا ہوں یہ بھی آج فیلڈنگ کریں گے۔۔۔‘‘
اور دونوں ہی ان بے زبان جانوروں کو پکڑنے لگے۔۔۔
ان دونوں کے قہقہوں اور بکریوں ، مرغیوں اور کبوتروں کے شور سے سارا میدان گونج اٹھا۔۔۔ ایسا شور برپا ہوا کہ چھت پر ڈش کی تار جوڑنے میں مصروف رام پرساد دوڑتا ہوا چھت کی منڈیر پر آ پہنچا۔۔۔ اور زور زور سے چلانے لگا۔’’ پکڑو پکڑو۔۔۔ دیکھو رام اور رحیم کو پھر سے دورے شروع ہوگئے۔۔ پکڑو۔۔ روکو!‘‘
رام پرساد کی آوازیں سن کر سلمیٰ اور شویتا دونوں ہی اپنی اپنی چھتوں پر آ گئیں اور وہ دونوں بھی زور زور سے چلانے لگیں ۔۔۔!بیچ بیچ میں دونوں اپنے اپنے شوہروں کو یعنی سلمیٰ آصف کو اور شویتا روہت کو پکارنے لگیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں سارا محلہ میدان میں اکھٹا ہو گیا۔ رام کو روہت نے اور رحیم کو آصف نے دبوچ لیا۔
روہت رام کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چلایا،
’’پاپا یہ کیا بچپنا ہے؟‘‘
رام بالکل سہم گیا۔ رام اپنے بیٹے روہت کی آنکھوں میں غصہ اور میدان میں موجود تماشائیوں کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر سہم گیا اور بولا،’’ بیٹا ہم لوگ ان کو بھی اپنے ساتھ کھلا رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لیے فیلڈنگ کریں گے۔‘‘
تبھی مجمع میں سے کسی نے کہا، ’’ اور امپائرنگ کرنے کے لیے جنگل سے شیر کو بلوا لیں کیا چاچا؟‘‘سارے لوگ بے تحاشہ ہنسنے لگے۔۔۔
’’ آپ سمجھتے کیوں نہیں ؟ کیا چاہتے ہیں آپ؟ آپ یہ بھی نہیں سوچتے کہ آپ کے پوتے پوتیوں پر کیا اثرات ہوں گے ان حرکتوں کے۔۔۔؟ روہت نے شرمندگی سے کہا۔
ادھر آصف نے رحیم کے ہاتھوں سے کبوتروں کو آزاد کیا اور بولا، ’’ابو بس کرو۔۔۔ بند کرو یہ پاگل پن آپ کو آپ کے پوتے پوتیوں کی قسم۔۔۔ آپ کو اپنی عمر کا اب بالکل لحاظ نہیں ؟‘‘
رام پرساد نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’سنو روہت اور آصف اب وقت آ گیا ہے کہ ان دونوں کو پاگل خانے بھیج دیا جائے۔۔۔ ورنہ ایسے تو یہ پتہ نہیں ، کل کو اور کون سا کارنامہ انجام دے دیں ؟‘‘
بانو بی نے اپنی ساڑھی کا پلو کمر میں کھونستے ہوئے کہا، ’’وہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں ۔۔۔ آج ان بے زبان جانوروں کو پکڑ رہے ہیں کل کو اگر ہمارے بچوں کو پکڑ کر کچھ الٹا سیدھا کر دیا تو پھر کیا کروگے۔۔۔؟‘‘
تبھی رام چیخ کر بول اٹھا، ’’نہیں بہن بچے تو ہماری جان ہے۔۔۔ یہ بچے تو ہماری آنکھوں کا نور ہے۔۔۔ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔‘‘
’’بیٹا آصف اب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا؟ ہم کس کو پکڑیں گے۔۔ کوئی بچہ نہیں آتا۔۔۔ ہم کیوں پکڑیں گے۔۔۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے سارے بچے موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں ہی لگے رہتے ہیں ۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ سب مصروف ہیں ۔۔۔ سب مصروف ہیں !‘‘ یہ سب کہتے ہوئے رحیم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں ۔
سلمیٰ نے کہا، ’’ اب یہ دونوں برداشت کے باہر ہو چکے ہیں ۔۔۔ آپ لوگ ابھی کے ابھی فون لگاؤ اور پاگل خانے کی گاڑی بلاؤ۔۔۔ ورنہ میں تو چلی مائیکے۔۔۔‘‘
’’میں بھی ایک سیکنڈ اب یہاں نہیں رک سکتی ۔۔۔ میں بھی چلی مائکے۔۔۔‘‘ شویتا نے سلمیٰ کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
فون کرتے ہی تھوڑی دیر میں پاگل خانے کی گاڑی رام لیلا میدان کے بالکل درمیان میں کھڑی تھی۔ رام اور رحیم کو کسی طرح رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔ گاڑی آتے ہی انھیں گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا۔ اب گاڑی کی جالیوں سے چار پتھرائی ہوئی آنکھیں باہر جھانک رہی تھی۔
گاؤں کے تمام ہی بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں اس منظر کو اپنے اپنے موبائل میں قید کرتے رہے جب تک کہ پاگل خانے کی یہ گاڑی رام لیلا میدان کے گیٹ کو پار نہ کر گئی۔۔۔!!
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Virus a Short Story by Shahnaz Rahman

Articles

جراثیم

شہناز رحمن

یونیورسٹی میں داخلہ کے ہفتہ دس روز بعدوہ ایک عجیب طرح کی حیرانی کا شکار ہو گئی۔سلیقہ سے بال سنوارے ہوئے، دیدہ زیب کپڑوں میں ملبوس لڑکے اور لڑکیوں کے چہرے وحشت ناک لگ رہے تھے۔وہ پریشان تھی کہ یہ بات صرف وہ محسوس کر رہی ہے یا دو سرے کلاس میٹ کو بھی اندازہ ہو رہا ہے۔
اچانک ایک روز اس نے شیبا کو کہتے ہوئے سنا۔۔۔
وہ کلاس میں بیٹھی ان چہروں کے بدلتے رنگوں پر غور کرتی۔رفتہ رفتہ اسے ادراک ہوا کہ یہ کسی بڑی مصیبت کا اعلامیہ ہو سکتا ہے۔اسی کشاکش میں ایم۔اے مکمل ہو گیا اور وحشت ناک تاثرات والے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو تا رہا۔ اس پورے دوسال کے عرصے میں اس کی تعلیمی لیاقت میں کافی اضافہ ہوا۔ ذہین تو وہ تھی ہی صرف طبیعت میں ذرا لا ابالی پن تھا لیکن یونیورسٹی کی فضا نے یکایک اسے سنجیدہ بنا دیا تھا۔اس کی ذہانت کی وجہ سے کئی اساتذہ اسے اہمیت دیتے تھے۔حسب عادت دوستوں میں رشک و حسد کی کیفیت چلتی رہتی تھی۔ایم۔اے کے بعد وہ ریسرچ کی تیاری میں مصرو ف ہوگئی۔جب چار مہینے بعد وہ گھر سے واپس آئی تو اس نے اندازہ لگایا کہ یہاں پر کئی لڑکے اور لڑکیا ں اس بیماری کا شکار ہیں جس کا ذکر اس کے والد کیا کرتے تھے۔۔۔
ایک دن اسے ایک قریبی دوست میں اس بیماری کے آثار نظر آئے۔گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رات بھر سونہ سکی۔ لیکن خاموشی کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارا بھی نہیں تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے پوری طرح بیماری نے اسے گھیر لیا۔ ایک دو دفعہ اس نے علاج تجویز کرنی چاہی مگراس دوست کو برا لگا اوروہ اس سے بے رخی برتنے لگی۔
وحشت ناک چہرے والے طلباء میں اضافہ ہو تا رہا اور اس بیماری کے جراثیم ان کی رگ و پے میں سرایت کر گئے۔حیا پہلے سے زیادہ محنت اور لگن سے اپنی تعلیم پر توجہ دینے لگی لائبریری ہی اس کی مکمل دنیا تھی۔اس دنیا سے چونک کر اس وقت باہر آئی جب پی،ایچ۔ڈی داخلہ کے نتائج کا اعلان ہوا۔پوری فہرست مدقوق اور وحشت ناک چہرے والے ناموں سے بھری ہوئی تھی اور حیا کا نام دور دور تک نہیں تھا۔ لیکن حیا مایوس نہ ہوئی اس نے دوبارہ تیاری شروع کی دوسری دفعہ وہ بھی خوش نصیبوں کی فہرست میں تھی۔بہت ہی کم عرصے میں حیا اپنی محنت اور کچھ اساتذہ کی رہنمائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔
ایک دن شیبا نے دبے دبے لہجے میں کسی سے کہا ”حیا میں اس بیماری کے جراثیم پید ا ہو رہے ہیں“۔اتفاق سے حیا تک یہ بات پہنچ گئی۔سننا تھاکہ حیا کے ہوش اڑ گئے اس نے نہ کھایا نہ پیا اور مستقل بالکنی میں مضطرب ٹہلتی رہی۔ کئی روز تک وہ اپنامحاسبہ کرتی رہی کہ واقعی شیبا کی بات صحیح ہے؟
اس نے اپنا محاسبہ اس لیے کیا کہ اس کے والد ایک سیا سی کارکن تھے۔ وہ اکثر سنا کرتی تھی کہ فلاں سیات دان اس بیماری کا شکار ہو گیاہے۔وہ سوچتی یہ کیسی بلا ہے؟؟ جو آئے دن سیاست دانوں کو اپنے زد میں لے لیتی ہے۔پھر اس کے والد نے بتایا کہ یہ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں کسی بھی پیشے اور کسی بھی فرد کو اپنے گرفت میں لے سکتی ہے۔ بیمار شخص کو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے یہ بیماری کب لگ گئی۔ یہ بیماری عام انسانی بیماریوں سے قدرے مختلف ہے۔جیسے جیسے اس بیماری کے جراثیم پھیلتے ہیں انسان خود کو توانا اور طاقتور گمان کرنے لگتا ہے۔
ایک بار حیا نے اپنے والد کو ٹوک دیا ”ابا آپ تو بالکل الٹی بات کہہ رہے ہیں۔کوئی بیمار شخص ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔میں نے تو اپنے ارد گرد اس قسم کے بیمار لوگوں کے چہرے پر مردنی دیکھی ہے۔
انھوں نے کہا ”بیٹا یہ صرف تمہاری نظر کا دھوکہ ہے۔تم ان سے کچھ دیر گفتگو کر کے دیکھو۔ان کے لہجے اوران کی باتوں میں طاقت کا غرور نظر آئے گا“۔
حیا نے کہا ”تو یہ ان کا وہم ہو گا۔جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس بیماری سے زیادہ ہولناک انجام دنیا کی کسی بیماری کا نہیں ہوتا۔
شیبا کو محسوس ہوا کہ اس کی بات حیا کے دل کو لگی ہے۔ اس لیے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے لگی ہے۔جبکہ وہ ایک لاپروا لڑکی تھی زمانہ جو کہتا ہے کہتا رہے وہ کبھی کان نہیں دھرتی تھی۔
یونیورسٹی کے ہر شعبہ میں وحشت زدہ چہرے اور مہلک مر ض کے شکار افراد موجود تھے۔اس کے دوست عامرکو اس مرض نے اس بری طرح آگھیرا تھا کہ اسے ارد گرد کی کوئی خبر نہ تھی۔محنت کرنے والے طلباء مایوسی کی ردا اوڑھے در در بھٹکتے نظر آتے لیکن عامر ان الجھنوں سے آزاد گھو متا پھر تا۔کئی بار حیا نے اسے ٹو کا بھی۔مگر اس نے کہا ”اپنی فکر کرو،میری تو یوں ہی گزر جائے گی“۔
عامر کی بات سن کر حیا کو اپنے والد کی بات بڑی حد تک صحیح معلوم ہونے لگی۔
عامر کی حر کتیں دیکھ کر حیا نے ایک دن کہہ دیا کہ ”عامرتمہاری صحت خراب ہورہی ہے“۔
تمہارا مطلب کیا ہے؟
میرا مطلب یہ ہے کہ تم یہ جو خوشامد کرتے پھرتے ہو، تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔
ہونہہ!!! یہ تم دیکھتی جاؤ۔بدلتا ہے رنگ آسماں آسماں کیسے کیسے۔اور ہاں!ہم اگر خوشامد کرتے ہیں توتم لڑکیا ں بھی اپنے مخصوص حربے استعمال کرنے سے باز کہاں آتی ہو۔
حیا نے محسوس کیا کہ اس کی ترقی ان جراثیم زدہ لوگوں سے دیکھی نہیں جا رہی ہے اس لیے انھوں نے یو نیورسٹی میں پھیلی ہو ئی دوسری بیماریاں اس سے منسوب کر دیں۔شعبہ کے ہر کمرے میں یہ جراثیم پائے جانے لگے جو حیا کے لیے مضر تھے۔ہر شخص حیا کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا تھا طلباء ہی نہیں اساتذہ بھی اسے۔۔۔۔حیا کو اپنی دادی جان یاد آئیں جو کہا کرتی تھیں ”بٹیا!عورت کے لیے سب سے کمزوراور مضبوط پہلو اس کی عزت و عصمت ہے۔جب ظالم سماج کو اس کے خلاف کچھ ہاتھ نہیں آتا وہ بڑی آسانی سے اس کی عزت اچھال دیتا ہے۔“
محنت کرنے کے با وجود حیا کو وہ ساری کامیابیاں نہیں مل رہی تھیں جو وحشت زدہ چہرے والوں کو حاصل تھیں۔ایک دفعہ تو صبر کا دامن حیا کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔اسے اپنے والد کی بات یاد آگئی۔وہ کہا کرتے تھے کہ ”اس بیماری کے شکار لوگ”وفا دار کتے“کی مانند ہوتے ہیں۔اگر موقع پڑے تو اپنے آقاکی پیروی میں معصوم پرندوں کے پر تک نوچ کر کھا جائیں۔اپنی انا اوراپنا ضمیر تک داؤ پر لگا سکتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جنگلی کتوں کے جون میں آجاتے ہیں۔“
حیا سب کے ناقدانہ تیور برداشت کرتی رہی اور اپنا کام کرتی رہی۔یہاں تک کہ اسے کئی دفعہ سازشی ذہنوں کی وجہ سے مایوس ہونا پڑا پھر بھی اس نے ہار نہیں مانی۔
ایک مرحلہ و ہ بھی آیا جب شیبا روتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ”حیا!میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ میں ”سر کی بات“مان لوں۔حیا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
شیبا زار و قطار روتے ہوئے بتانے لگی کہ ”تمہاری ترقی دیکھ کر شعبہ کے لوگ بشمول میرے یہ کہنے لگے کہ تم بھی۔۔۔۔۔“لیکن میں کیا کروں۔سر نے مجھے راضی کرنے کے لیے تمہاری مثال دیتے ہوئے کہا تھاکہ ”دن بدن حیا کی ترقی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،تم نے کبھی غور کیا ترقی کا زینہ کون ہے؟۔میرے پوچھنے پر انھوں نے عزیز سر کا نام لیا تھا۔عامر کے ساتھ لڑکوں کا پورا گروپ تمہیں اسی نظر سے دیکھتا ہے۔
شیبا کی بات سن کر حیا حیران و ششدر رہ گئی۔
لیکن پھر بھی اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ”عورت کی کردار کشی کے قصے تو بچپن سے سنتی آئی ہوں۔سیتا اور مائی عائشہ تک کو لوگوں نے جب نہیں بخشا۔ہم اورتم تو خیر عام لڑکیا ں ہیں۔
لیکن حیا اس زمانے کے لوگ غیر تعلیم یافتہ تھے۔
ہاں!یہی تو میں حیران ہوں کہ معتبر اداروں کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنیت اتنی پست کیسے ہو سکتی ہے۔اور ایس۔این کمار جیسی بارعب شخصیت کے حاشیہ خیال میں ایسی بات کیسے آسکتی ہے۔
لاحول پڑھو!
اس گھٹیا انسان کو بارعب تو کہو ہی مت۔مجھے تو وہ نالی کا کیڑا لگتا ہے۔اورحیا تم کچھ زیادہ ہی بھولی ہو۔یہاں کئی ایس۔این کمار موجود ہیں۔مجھے تو یہاں داخلہ لینے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ بلندی کی خواہش کرنا آسان نہیں ہے۔اس کے مر احل طے کرتے کرتے عزت نفس تو ختم کرنی ہی پڑتی ہے۔
رفتہ رفتہ وحشت ناک چہرے والوں کے چہرے مسخ ہونے لگے۔ناموں کے بجائے ان کی مجہول شخصیت ان کی شناخت بننے لگی۔محفلوں میں ان کا ذکر ہوتا تو لوگ پہچاننے سے اس وقت تک قاصر رہتے جب تک کسی مخصوص عضو کا ذکر نہ کیا جائے۔صورت حال دیکھ کر حیرت ہونے لگی تھی کہ ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کا ذکر شاہی پالتو جانوروں کی طرح کیوں ہوتا ہے۔تعلیم تو انفرادیت عطا کرتی ہے لیکن اعلی دانش گاہوں کے تعلیم یافتہ فرد کے لیے ایسے تیسرے درجہ کی شناختی نشانات کیوں متعین ہیں۔
فائنل ہونے کے بعد حیا نے دوبارہ یو نیورسٹی کا رخ نہیں کیا۔ڈاکٹر عزیز کی نگرانی میں کام کرکے اگرچہ حیا کو کوئی علمی مدد نہ مل سکی تھی مگر ان کی تربیت نے اسے قناعت پسند ضرور بنا دیا تھا۔اسی لیے اس نے یو نیورسٹی کے بجائے کالج کی نوکری کو ترجیح دی۔ اکثر کالج سے واپس ہوتے ہوئے مسخ چہروں کو پہچا ننے کی کوشش کرتی۔کبھی سبزی فروش کی دکان پر،کبھی بینک،کبھی پرچون کی دکان پر ان لوگوں کو قطار میں دیکھ کرطمانیت کی سانس لیتی توکبھی تاسف سے آہ بھر تی۔۔۔
٭٭٭

Dakhma a Short Story by Baig Ahsas

Articles

"دخمہ"

بیگ احساس

سامنے سہرا ب کی نعش تھی اور اس کے پیچھے دو دو پارسی سفید لباس پہنے ہاتھ میں پیوند کا کنارہ پکڑے خاموشی سے چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہم لوگ تھے۔ ’’دُخمہ‘‘ کی گیٹ پر ہم لوگ رک گیے۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
میں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلا میری بہن کا گھر بھی !! لیکن اس گھر میں اب میرا کوئی نہیں رہتا تھا۔ میری بہن اور بہنوائی کا انتقال ہوئے ایک عرصہ ہوچکا تھا۔ میری بھانجی اسی شہر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اسکول کی چھٹیاں ہوتے ہی میں ا پنی بہن کے پاس دوڑا چلا آتا۔ وہ میری سب سے بڑی بہن تھیں درمیان میں چھ اور بہنیں اور ان کے بعد سب سے چھوٹا میں۔ اکلوتا بھائی۔ میری بھانجی مجھ سے صرف دو برس چھوٹی تھی۔ ہم دونوں خوب کھیلا کرتے۔

وہ گھر مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ چٹان پر بنا ہوا خوب صورت مکان اسٹیشن کے اس پار۔ پلاننگ کے ساتھ بنائے ہوئے بنگلے۔ درمیان میں سیدھی تار کول کی سڑکیں۔ کافی چڑھاؤ اور اتار تھے۔ ایک زمانے میں اس جڑواں شہر میں صرف تانگے چلتے تھے۔سائکل رکشاؤں کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری بہن کے گھر پہنچتے پہنچتے گھوڑا ہانپنے لگتا۔ چڑھائی پر گھوڑے کے پیر جمتے نہ تھے۔جب ہم تانگے سے اترنے لگتے تو تانگے والا خاص انداز میں توازن بنائے رکھتا۔ مشرقی جانب واٹرریز روائر تھا۔ مغرب میں جہاں سڑک مسطح ہوجاتی ہے سینٹ فلومینا چرچ تھا۔ چرچ میں مشنری اسکول بھی تھا۔کھلی ٹانگوں والے یونیفارم کے اسکول کو کم ہی مسلمان لڑکیاں جاتی تھیں۔میری بھانجی بھی اسلامیہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ لیکن ہم لوگوں نے چرچ کا چپہ چپہ دیکھا تھا۔ کیوں کہ بچوں کو کوئی نہیں روکتا تھا۔ اتوار کے دن اطراف کے کرسچن prayer کے لیے آجاتے فضا میں گھنٹے گونجنے لگتے تو بڑا اچھا لگتا ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ گھنٹے کون بجاتاہے۔مسجد کافی فاصلے پر تھی جہاں چھوٹے چھوٹے بے ترتیب مکان تھے۔
گھر کے مقابل اونچی چٹان بلکہ پہاڑ پر ایک دائرہ نما عمارت بنی ہوئی تھی۔ کئی ایکر پر پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ بہت بڑی باؤنڈری تھی۔ نیچے بڑا سا گیٹ تھا۔ لوگ اس کو پارسی گٹہ کہتے تھے۔ احاطہ میں ایک چھوٹا سا مکان بناہوا تھا۔ جس میں چوکیدار‘ اس کی بیوی اور ایک کتا رہتے۔ عجیب سا پر اسرار کتا !! محلے کے اکثر گھروں میں السیشن تھے یہ کتا ان سے مختلف تھا۔دور سے ایسا لگتا جیسے اس کی چار آنکھیں ہوں۔
میری بہن پارسی گٹہ جانے سے منع کرتی تھیں۔ کہتی تھیں بچوں کو وہاں نہیں جانا چاہیے۔
ایک دن ہم نے دیکھا پارسی گٹّہ کا گیٹ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور چوکیدار صاحب بے حد مصروف ہیں۔۱۱ بجے دھوپ میں سفید کپڑوں میں ملبوس دو دو پارسی ایک رومال کے دو مختلف سرے پکڑے ہوئے ایک قطار میں چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے دوپارسی تھے۔ درمیان میں ایک گاڑی۔۔۔ پھر پارسیوں کی قطار ۔۔۔!! تقریباً ایک بجے تک وہ لوگ مصروف رہے پھر واپس ہوگئے۔ شام ہونے سے پہلے گدھوں کے جھنڈ آنا شروع ہوا۔ وہ سب اس دائرہ نما عمارت کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ شام ہوتے ہوتے سارے گدھ اڑگئے میں نے ایک ساتھ اتنے سارے گدھ پہلی بار دیکھے تھے شام تک وہ مصروف رہے۔
میں نے اپنی بہن سے پوچھا کہ’’ اتنے گدھ اس عمارت پر کیوں جمع ہوگئے تھے؟‘‘ بہن نے بتایا پارسی گٹہ اصل میں پارسیوں کا قبرستان ہے۔ پارسی مرنے والے کی نعش کو چھت پر رکھ دیتے ہیں تاکہ گدھ اس نعش کو نوچ کھائیں یہ سارے گدھ اسی لیے آئے تھے۔
’’یہ کیسا طریقہ ہے آپی؟ ‘‘ میں نے جھر جھری سی لے کر کہا۔
’’بیٹا اپنا اپنا عقیدہ ہے۔ کوئی دفن کرتا ہے۔ کوئی جلادیتا ہے یہ لوگ پرندوں کوکھلادیتے ہیں اور اسی کو ثواب سمجھتے ہیں۔‘‘ اندھیرا ہونے سے قبل سارے گدھ لوٹ گئے ۔ اس کے باوجود ہم اس روز چھت پر نہیں سوئے ۔ میں اور میری بھانجی دونوں ڈرکے مارے نیچے کمرے میں ہی سوگئے کیا پتہ کوئی گدھ ہمیں مردہ سمجھ کر۔۔۔۔
بیدار ہوتے ہی ہم دونوں پارسی گٹہ گئے۔ کتا ہمیں دیکھ کر بھونکنے لگا۔
’’ارے بیٹا تم لوگ؟‘‘
’’چا چا کل کسی کا انتقال ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں بیٹا‘‘
’’دو دو آدمی کیوں قطار بناکر چلتے ہیں؟‘‘
’’یہی طریقہ ہے۔ تنہا کوئی نہیں چلتا۔‘‘
’’انہوں نے رومال کیوں پکڑ رکھا تھا؟‘‘
’’وہ رومال نہیں اسے پیوند کہتے ہیں‘‘
’’اور یہ گول عمارت ؟‘‘
’’یہ ‘‘ دخمہ ‘‘ہے۔ اس کی چھت درمیان سے اونچی ہوتی ہے چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔ مرد کی نعش بیرونی دائرے میں ‘ عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی نعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تاکہ ان پر تیز دھوپ پڑے اور گدھوں کو دور سے نظر آجائے۔‘‘
’’چا چا یہ کُتّا اتنا عجیب کیوں ہے ؟‘‘ میری بھانجی نے پوچھا
’’ اسے ’’سگ دید ‘‘کہتے ہیں۔ چار آنکھوں والا کتا۔۔۔ اس کی چار آنکھیں نہیں ہیں لیکن آنکھوں پر ایسے نشان ہیں جس سے اس کی چار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہ ’’سگ دید‘‘ ہی آدمی کے نیک و بد ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔‘‘
’’کیسے چاچا‘‘
’’جب بڑے ہوجاؤ گے تو خود ہی پتہ چل جائے گا‘‘ چا چا نے ہمارے سوالات سے اکتا کر کہا
’’ اور چا چا یہ گدھ کہاں سے آجاتے ہیں ؟‘‘
’’ اگر فرش پر چینی گرجائے تو چیونٹیاں کہا ں سے آتی ہیں ؟‘‘ چا چا نے سوال کیا اور اندر چلے گئے۔ اس روز بھی ہم چھت پر نہیں سوئے۔
(سہراب بھی ان تمام مراحل سے گزر رہا ہوگا۔)

(۲)

سہراب کا ’’میکدہ ‘‘ شہر کے مصروف علاقے میں تھا۔ ممکن ہے جس وقت اس کے اجداد نے ’’مئے کدنہ‘‘ کھولا ہوگا یہ مصروف ترین علاقہ نہ رہا ہو۔ کیوں کہ سامنے راجہ صاحب کی بہت بڑی حویلی تھی۔۔۔ بغل میں بھی ایک بہت بڑی حویلی تھی ۔۔۔ دائیں جانب ڈراما تھیٹر تھا ۔ اور بائیں جانب بہت آگے انگریزوں کی ریزیڈنسی تھی۔ مقابل میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی مسجد سے لگ کر جو گلی تھی وہ ’’مجرد گاہ‘‘ تک جاتی تھی۔ مجرد گاہ ادیبوں ‘شاعروں اور فن کاروں کا میٹنگ پوائنٹ تھا۔ اس میں فائن آرٹس اکیڈمی بھی تھی اور رسالے کا دفتر بھی۔ہم لوگ ادیبوں‘ شاعروں اور فن کاروں کو دیکھنے آجاتے تھے۔ ان دنوں بعض ادیبوں و شاعروں کی شہرت فلمی اداکاروں سے کم نہ تھی۔ بیچلر کوارٹرس کے مقابل ایک بڑا شراب خانہ بھی تھا جہاں سستی شراب فروخت ہوتی۔ اکثر فن کار وہاں چلے جاتے۔ جیب گرم ہوتی تو اکثر ادیب و شاعر مۂ کدہ کا رخ کرتے شہر کا یہ سب سے قدیم شراب خانہ تھا!! ایک تو سہراب خالص شراب بیچتا تھا۔ دوسرے وہ ادیبوں و شاعروں کے مزاج سے اچھی طرح واقف بھی تھا۔ کسی اچھے شعر پر داد بھی دے دیا کرتا۔ پارسی ویسے بھی خوش اخلاق اور مہذب ہوتے ہیں ۔ پھر سہراب صرف شراب اور سوڈے کی اصل قیمت لیتا تھا۔ پانی اور گلاسس وہ خود فراہم کرتا۔ اندر ٹیبل اور کرسیاں بھی تھیں ۔ گزگ کا کوئی انتظام نہ تھا۔لڑکے ٹوکریوں میں گرین پیس‘ بھنی ہوئی مونگ پھلّی‘ چڑوا لیے گھومتے۔ لوگ حسبِ ضرورت ان سے چیزیں خرید لیتے۔ دوسرے بارس کے مقابلے میں ’’مئے کدہ ‘‘ نسبتاً کم خرچ تھا۔
ہم نے جس وقت ’’مئے کدہ‘‘ جانا شروع کیا۔ شہر کئی انقلابات سے گزر چکا تھا۔ کمیونسٹوں کی شاہی کے خلاف جدوجہد‘ تلنگانہ تحریک کامیاب تو ہوئی لیکن شاہی کا خاتمہ کانگریس کی نئی حکومت نے کیا تھا۔ پولس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کردیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حدبندیاں کی گئیں۔ریاست کے تین ٹکڑے کردیے گئے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی دوسری ریاستوں سے جڑے یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصّے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حدبندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دو مختلف کلچر۔!! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب ایک مستحکم حکومت کا دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہوگئے۔ ایک طرف بڑی بڑی حویلیاں حصے بخرے کرکے فروخت کردی گئیں ۔ زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا ۔ شرما شرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کردی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑ پتی بن گئے۔ نئے علاقوں کو خوب ترقی دی۔
کسی کوٹھی میں صدر ٹپہ خانہ آگیا‘ کسی حویلی میں انجنیرنگ کا آفس‘ کسی حویلی میں اے۔جی آفس تو کسی حویلی بڑی ہوٹل کھل گیا۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی ۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہوگیا ۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دواخانہ آگیا ۔ جیل کی عمارت منہدم کرکے دواخانہ بنادیا گیا ۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیٹر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ حویلیوں ‘ باغات ‘ جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیساشہر ابھر رہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی ۔
چند برسوں میں سب کچھ بدل گیا ۔ جو تہذیب کے نمائندے تھے جو تہذیب کو بچا سکتے تھے ان میں سے کچھ اپنی زمینوں کو چھوڑ کرسرحد کے اس پار جابسے تھے اور کچھ مغربی ممالک میں آباد ہوگئے ۔ ولی عہد نے ایک مغربی ملک کو اپنا مسکن بنالیا۔ رعایہ کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ اس شہر کو آتے تواس طرح خوشی سے پاگل ہونے لگتے تھے جیسے کوئی فاتح اپنی سلطنت کو لوٹا ہو۔ نہ شاہی خاندان کے افراد کو تہذیب کی فکر تھی ۔ نہ امرا کو اور نہ عوام کو ۔! ’’مۂ کدہ‘ ‘کے اطراف کا ماحول بھی تبدیل ہوگیا ۔ راجہ جی کی حویلی میں سرکاری دواخانہ آگیا ۔ سامنے کی کوٹھی میں بینک کا مین آفس ‘ ریذیڈنسی میں ویمنس کا لج‘ ڈراما تھیٹر فلمی تھیٹر میں تبدیل ہوگیا۔ شہر کا نقشہ تیزی سے بدلتا جارہا تھا ۔ تیلگو فلم انڈسٹری مدراس سے یہاں منتقل ہوگئی تھی ۔ شہر کی چمک دمک بڑھ گئی ۔ فلمی اسٹیڈیوز ‘ 70 ایم ایم تھیٹرز‘ بڑے بڑے مالس‘ کپڑوں اور زیورات کی دکانیں ۔ سب ان کا تھا ۔ سب پر ان کی چھاپ نمایاں ہورہی تھی ۔ ان کی غذاوں کے ہوٹل آگئے تھے جہاں متوسط طبقے کا آدمی پیٹ بھر کھانا کھاسکتا تھا۔’’فُل مِیل‘‘ (full meal)ملتا تھا۔ وہ آخر میں بڑے انہماک کے ساتھ چاول میں دہی ملاکر کھانے لگتے تو اکثر دہی بہہ کر کہنیوں تک آجاتا۔ سڑکوں اور کالجس میں سانولے اور سیاہ فام لڑکے لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ بڑی بڑی کاجل بھری آنکھیں۔۔ نمکین چہرے ۔ ۔پشت پر بلاوز دور تک کھلا ہوا۔۔۔ پتہ نہیں انھیں پیٹھ کی نمائش کا شوق کیوں تھا؟ مقامی لوگ لینڈ گرابرس کی فروخت کی ہوئی خشک تالابوں کی زمین پر مکانات بنانے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ ہر بارش قیامت بن کر آتی ۔ مسلسل فسادات نے پرانے شہر کی ساکھ کو بہت متاثر کیا تھا۔ ہفتوں کرفیو لگا رہتا ۔ ہر تہوار و عید پر لوگ سہم جاتے ۔ اس صورت حال سے تنگ آکر جو پرانا شہر چھوڑ سکتے تھے۔ وہ نئے علاقوں میں جابسے ۔ ساری رونق ‘ بڑی بڑی سڑکیں ‘ فلائی اوور‘ ہائی ٹیک سٹی سب کچھ نئے شہر میں تھے ۔ تمام دفاتر نئے شہر کو منتقل کردیے گئے تھے ۔ پرانے شہر میں کچھ تاریخی عمارتیں رہ گئی تھیں ۔ مشہور زمانہ چوڑیوں کا لاڈبازار تھا۔ پتھر سے تعمیر کی گئی مار کٹ پتھر گٹی تھی۔ عیدوں پر ساری رات یہ بازار جگمگایا کرتے۔ دو تہذیبوں نے الگ الگ جزیرے بنالیے تھے۔ جب بھی ریاست کے مقامی افراد کو محرومی کا احساس بہت ستا تا تو وہ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے لگتے ۔ الیکشن کے زمانے میں کوئی باغی لیڈراس مسئلے کو گرما دیتا ۔ کچھ مہینوں خوب ہماہمی رہتی پھر جذبات سرد پڑجاتے ۔
’’مۂ کدہ‘‘ کا علاقہ بھی اب ڈاون ٹاون بنتا جارہا تھا۔ پرانے شہر سے نئے علاقے کو منتقل ہونے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔ ( ’’دخمہ‘‘ میں پارسی ابھی تک مصروف تھے ۔ کوئی باہر نہیں آیا تھا۔)
ان دنوں ادیبوں کا کوئی میٹنگ پوائنٹ نہیں تھا۔ سب بکھر گئے تھے۔ ہمارے دور کو انتشار کا عہد مان لیا گیا تھا ۔ فرد کو مشین قرار دے دیا گیا تھا اور تنہائی کو ہمارا مقدر ۔!! یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ تاریخی‘ تہذیبی‘ قومی ‘ معاشرتی ‘ جذباتی و ذہنی ہم آہنگی کی ساری روایتیں منہدم ہوچکی ہیں ۔ پورا ادب درونِ ذات کے کرب میں مبتلا تھا ۔ اس لیے اب ضروری نہیں تھا کہ سب کسی ایک ہی بار یا ہوٹل میں ملیں ۔ شہر بہت پھیل گیا تھا۔ جگہ جگہ وائن شاپس کھل گئے تھے ۔ ہم کسی دوست کے گھر جمع ہوجاتے ۔ کسی قریبی دکان سے شراب منگوا لی جاتی ۔ فون کرنے پر ہوٹل سے ’’ گزگ‘‘ بھی پہنچ جاتی ۔ ہوم ڈیلیوری کا رواج ہوگیا تھا ۔ اب ’’مئے کدہ ‘‘ جانا ہی نہیں ہوتا تھا۔
لیکن وہ کیوں سوچ رہا ہے شہر کی تہذیب کے بارے میں شہرکے بارے میں؟ شاید اس لیے کہ ’’مئے کدہ‘‘ کو بند دیکھ کر اسے بڑا شاک لگا تھا ۔ جیسے تہذیب کا ایک حصہ مرگیا ہو۔
میرا دوست مشیرجو بہتر زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ بیس برس بعد امریکہ سے آیا ۔ اپنا شہر چھوڑ کر باہر بس جانے والے ایک تو ناسٹالجک ہوجاتے ہیں دوسرے چیارٹی کرنے کے لیے اتاولے ہوتے ہیں ۔ وہ ایسی ہر جگہ جانا چاہتا تھا جہاں بیس برس قبل ہم جا یا کرتے تھے۔ ہرجگہ ساتھ چلتا بہت چیزوں کی تبدیلی پر اداس ہوجاتا ۔ ظاہر ہے شہر بہت تیزی سے بدلا تھا اور اس پر گلوبلائزیشن کی پرچھائیاں صاف نظر آرہی تھیں۔ اسے اس لیے بھی مایوسی ہورہی تھی کہ جو چیزیں وہاں ترقی یافتہ شکل میں دیکھ کر آیا ہے یہاں اسی کی نقل کی جارہی ہے۔ شہروں کی شناخت تیزی سے ختم ہورہی ہے ۔ سب شہر ایک جیسے ہورہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ پرانی باقیات میں صرف ’’مۂ کدہ‘‘ بچا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی عمارت‘ وہی انتظام‘ ویسے ہی کاونٹر‘ وہی مستقل گاہگ۔۔۔جو بوتل خرید کر حسب ضرورت پیتے ہیں اور بچی ہوئی شراب کی بوتل محفوظ کروا دیتے ہیں۔ اس بوتل سے ایک قطرہ بھی کم نہ ہوتا۔ ۔ دیانت داری ’’مۂ کدہ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ مستقل گاہکوں کو یہاں بڑی اپنائت محسوس ہوتی تھی۔ مشیر کے یہاں رہنے تک ہم روزانہ ’’مۂ کدہ‘‘ جایا کرتے تھے۔ ایک خاص وقت تک شغل کرتے پھر اپنی راہ لیتے۔ پتہ نہیں مشیر کو مۂ کدہ کی یاد کیوں نہیں آئی۔ امریکہ سے آنے کے بعد اس نے ایک بار بھی شراب کا نام نہیں لیا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ اسے ایک ایسی جگہ لے چلوں گا جو بالکل نہیں بدلی ۔ دوسرے روز میں اسے ’’مئے کدہ ‘‘ لے آیا۔
لیکن ’’ مئے کدہ‘‘ بند تھا ۔ برسوں پہلے ’’ مئے کدہ‘‘ کی پیشانی پر ابھرے ہوئے لفظوں میںMAI KADA EST: 1904 اسی طرح موجود تھا نیچے اردو میں بھی ’’مۂ کدہ‘‘ لکھا تھا ۔ آس پاس دریافت کیا تو پتہ چلا کافی دنوں سے بند ہے۔ مجھے بڑا شاک لگا۔ اپنی بے خبری پر افسوس بھی ہوا۔ پتہ نہیں یہ سب کب اور کیسے ہوا؟ ایسا محسوس ہوا جیسے تہذیب کا ایک حصہ مرگیا ہو۔
پتہ نہیں سہراب کی صحت کیسی ہے؟ کاروبار میں نقصان تو نہیں ہوا؟ کسی ناگہانی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیا؟
ہم لوگوں نے سہراب کے گھرکا پتہ چلایا ۔ اس کے گھر پہنچے ۔ قدیم پارسی طرز کا مکان تھا ۔ ملازم نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔ ہم دیوار پر ٹنگی تصویریں دیکھنے لگے ۔ سہراب نے انتظار نہیں کروایا ۔
’’آپ ‘‘ وہ مجھے دیکھ کرچونک پڑا
’’ہاں ۔ اور انھیں پہچانا ۔ مشیر !!‘‘
’’اوہ یاد آیا ۔ آپ تو پورے انگریز ہوگئے ۔‘‘
’’امریکہ میں جو رہتا ہے ۔‘‘ میں نے ہنس کرکہا
’’ آپ تو یہیں رہتے ہیں نا ؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا
مجھے شرمندگی ہوئی۔
کہیے کیا لیں گے؟
’’نہیں میں دن میں نہیں لیتا‘‘ میں نے کہا ’’اورمشیر تم؟‘‘
’’نہیں میں بھی نہیں لوں گا‘‘
’’کوئی تکلّف نہیں۔‘‘ اس نے ملازم سے کچھ کہا۔’’آپ لوگوں کو دیکھنے آنکھیں ترس گئیں‘‘
’’میں شرمندہ ہوں ۔‘‘
’’ہاں شہر بھی تو بہت پھیل گیا ہے ۔‘‘
’’آپ کی صحت کیسی ہے ۔ ‘‘
’’اچھا ہوں ۔ ‘‘
’’بزنس میں نقصان ہوا ؟‘‘ میں نے راست پوچھ لیا
’’ نہیں ۔‘‘
’’پھر مئے کدہ ‘‘ ۔ ؟‘‘
’’چھوڑیے کوئی کب تک بزنس کرتا رہے ۔ آدمی کو آرام بھی کرنا چاہیے نا۔! ‘‘
اتنے میں ملازم ٹرے سجا کر لے آیا۔
’’خاص فرانسیسی شراب ہے۔ اتنے دن بعد ملے ہیں‘ انکار نہ کیجیے‘‘
ہم لوگ انکار نہ کرسکے۔ واقعی بڑی نفیس شراب تھی۔ دھیرے دھیرے سرور آنے لگا۔
’’آپ بتایے ‘‘ مشیر سے مخاطب ہوکر اس نے کہا ’’امریکہ میں کیسی گزررہی ہے؟‘‘
’’پہلے جیسا تو نہیں ہے ۔ یہاں کی گھٹن سے بھاگے کچھ دن تو اچھا لگا اب فضا پر حبس چھایا ہوا ہے ۔ شک کے سائے میں زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوجاتا ہے۔اس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔‘‘ میں نے کہا ’’وطن کے لیے جدوجہد‘ بین الاقوامی فیصلوں کی جارحانہ خلاف ورزیاں‘ دہشت گردی سب گڈ مڈ ہوگئے ہیں ۔ایک پوری قوم کو دہشت گردی کے جال میں پھنسادیا گیا ۔ ایک آگ سی لگی ہوئی ہے جس میں پتہ نہیں کون کون ہاتھ سینک رہا ہے ۔ لیکن ملزم تیار ہے جرم کہیں بھی کسی نے کیا ہو۔ نشان زدہ ملزمین تیار ہیں ۔ پولیس نے بھی ظلم کے سارے حربے آزمالیے ۔ عدالتیں کبھی چھوڑتیں ہیں کبھی نہیں چھوڑتیں۔ اور بے وقوف قوم دلدل میں دھنستی ہی جارہی ہے ۔‘‘
’’آپ تو جذباتی ہوگئے ۔ تاریخ اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے ۔ دیکھیے نا ایران سے مسلمانوں نے ہم کو باہر کیا تھا۔اسپین میں مسلمانوں کو باہر کیا گیا۔ اس ریاست کو ہم آصف جاہی سلطنت کے چرچے سن کر آئے تھے۔ ہمارے اجداد کوسالار جنگ اول نے مدعو کیا تھا۔ انتظامیہ میں ہمیں شامل کیا گیا۔ میرمحبوب علی خان نے ہمیں خطابات سے نوازا تھا۔ نواب سہراب نوازجنگ‘ فرام جی جنگ‘ فریدون الملک وغیرہ وغیرہ فارسی یہاں کی سرکاری زبان تھی اور اردو عوامی زبان ۔ بریانی ‘نوابوں اور موتیوں کا شہر ۔!! گجراتی ‘ مارواڑی ‘ سندھی سبھی آبسے تھے۔ سب کو آزادی حاصل تھی سب نے اپنی اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرلیں۔ شاہی خزانے سے مدد بھی ملتی تھی ۔ ہمارے لیے تو بہت سازگار ماحول تھا۔بڑا عجیب معاشرہ تھا۔ ‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’ آپ کو یاد ہے ؟ نہیںآپ تو بہت چھوٹے رہے ہوں گے ۔تھیٹر میں جب ہم فلم دیکھنے جاتے تو درمیان میں ایک سلائیڈ دکھائی جاتی۔ ’’وقفہ برائے نماز ‘‘ لوگ جلدی جلدی فرض نماز پڑھ کر تھیٹر لوٹ آتے ۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والا معاملہ تھا ۔
’’آپ کو شاہی دور پسند تھا ؟‘‘
’’نہیں رواداری پسند تھی ۔ معاشرے کا کھلاپن اچھا لگتا تھا ۔ اب تو کٹّرپن آگیا ہے ہر قوم میں ۔!
’’ہاں مسلمان بھی خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ اور نماز کے بجاے صلوٰۃ کہہ کر بہت خوش ہونے لگے ہیں‘‘ میں نے کہا۔
’’مئے کدہ‘‘ آپ نے کیوں بند کردیا؟ ‘‘ مشیر نے اچانک پوچھا۔
’’ارے ہاں میں تو اصل بات ہی بھول گیا‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’چھوڑیے ۔‘‘
’’نہیں بتایے کیا ہوا تھا ؟‘‘میں نے اصرار کیا۔ کافی دیر تک وہ خاموش رہا۔ پھر دھیرے سے کہا
’’ مسلمانوں نے حکومت سے شکایت کی کہ ’’مئے کدہ ‘‘ مسجد سے بہت قریب ہے جو خلاف قانون ہے ‘‘ میں سناٹے میں آگیا ۔ تو یہ مسلمانوں کا کارنامہ ہے۔ میں نے سوچا۔
’’لیکن مسجد اور مئے کدہ برسوں سے اسی جگہ ہیں پھر ؟‘‘
’’وہ شاہی دور تھا۔ اب جمہوریت ہے۔!! مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس کا خیال رکھنا حکومت کا فرض بھی تو ہے۔‘‘
’’مسلمان بھی بہت کٹّر ہوتے جارہے ہیں ‘‘ مشیر نے کہا۔ نشہ چڑھنے لگا تو ہم کٹر مسلمانوں کو نوازنے لگے۔
’’مسلمان ہی کیوں ‘‘ سہراب نے ہمیں روکا سب کا یہی حال ہے خود مجھے دیکھیے ۔ میں نے شادی نہیں کی کیوں کہ پارسی غیر مذہب میں شادی نہیں کرسکتے ۔ اس مذہبی شرط کی وجہ سے ہماری تعداد گھٹتی جارہی ہے ۔ اکثر تاخیر سے شادی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔اب پورے شہر میں بارہ سو پارسی رہ گئے ہیں۔‘‘
’’واقعی ؟‘‘
’’ہاں دوسرا مسئلہ موت کا ہے ۔ وہی پرانا دُخمہ ۔ برہنہ نعش کو جلتی دھوپ میں چھوڑدیتے ہیں ۔ اب تقریباً بیس برس سے گدھوں نے شہر کا رخ کرناچھوڑ دیا ہے ۔ اب مختلف الخیال گروپ بن گئے ہیں کوئی کہتا ہے نعش کو دفن کردینا چاہیے ۔ کوئی جلا نے کے حق میں ہے ۔ الکٹرک بھٹی کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے ۔ کچھ لوگ گِدھوں کی Artificial Incimination کے خطوط پر افزائش کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ میں تو پرانے طریقے کو ترجیح دوں گا کہتے ہیں کوئی نیک آدمی مرتا ہے تو گدھ آتے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا کیا حشر ہوگا۔!!آپ کے عقیدے کے مطابق شراب بیچنے والا جہنمی ہوتا ہے نا؟‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’ہاں۔۔۔اور شراب پینے والا بھی۔ اللہ معاف کرے۔!‘‘ میں نے کہا۔
ملازم نے آکر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔
’’آپ نے تکلف کیوں کیا۔ اتنی اچھی شراب پینے کے بعد کھانے کی بالکل اشتہا نہیں ہے۔‘‘
’’پارسی ڈشس بنوائی ہیں آپ کے لیے۔۔۔‘‘
ہم کھانے کی میز پر آگئے۔ زندگی میں پہلی بار پارسی ڈشس کھانے کا اتفاق ہورہا تھا۔ اس لیے بھی زیادہ انکار نہ کرسکے۔
’’یہ براون رائس ہے۔ یہ دَھن سَک یہ ساس اِن مچھی اور یہ کچومر سلاد‘‘
براون رائس باسمتی چاول کی عمدہ ڈش تھی جس میں چینی اور کالی مرچ شامل تھی۔ دَھن سَک تور کی دال‘ مونگ کی دال اور اڑت کی دال ‘ انڈے‘ ٹماٹر اور کھیرے سے بنائی گئی ڈش تھی۔ ساس اِن مچھی میں بہترین پمفرٹ تھی ساتھ میں کرارے چکن پارچہ بھی تھے۔کھانا واقعی لذیذ تھا۔ آخر میں موامی بوئی نام کا مچھلی کا میٹھا پیش کیا گیا۔ ہم نے بہت سیر ہوکر کھایا۔سہراب کی مہمان نوازی نے ہمیں بہت متاثر کیا۔
اور آج اطلاع ملی کہ سہراب مرگیا۔
مجھے بار بار یہی خیال آتا تھا کہ ’’مئے کدہ‘‘ کے بند ہوجانے کا اس پر بہت اثر ہوا ہوگا ۔ اس لیے شاید وہ زیادہ جی نہ سکا ہو ۔ میں Guilty محسوس کررہاتھا۔اس کا اپنا کوئی نہ تھا۔ دور کے رشتے دار اور چند احباب تھے۔
پارسی باہر آرہے تھے ۔ سہراب کی برہنہ نعش کو دُخمہ کی چھت پر چھوڑدیا گیا ہوگا۔ میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگا ۔ بہت سے پارسی بھی رک گئے تھے ۔ اگر گدھ نہ آئیں تو؟ کیا سہراب کی نعش دھوپ میں سوکھتی رہے گی؟کاش سہراب نے الکٹرک بھٹی کو ترجیح دی ہوتی میں سوچ رہا تھا۔
میں نے غیر ارادی طور پر آسمان کی طرف دیکھا ۔مجھے بچپن کا وہ منظردوبارہ نظر آنے لگا۔ گِدھوں کا ایک جھنڈ تیزی سے دخمہ کی طرف آرہا تھا ۔
پارسیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ۔ بیس برس بعد یہ منظر لوٹا تھا ۔
’’پتہ نہیں کہاں سے آئے ہیں ؟ ‘‘ وہ ایک دوسرے سے سوال کررہے تھے۔
’’اگر فرش پر چینی گرجائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں ؟‘‘ کوئی میرے کان میں پھسپھسایا
———————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

The white-winged vulture a Short Story by Javed Nihal Hashmi

Articles

سفید پَروں والے گِدھ

جاوید نہال حشمی

شہر کے بیشتر حصے فساد کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔افواہوں کا بازار بھی گرم تھا۔فرقہ وارانہ تشدد کی آگ کو مزید بھڑکنے اور دیگر علاقوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ نے حکومت کے متعلقہ شعبے کے تعاون سے انٹرنیٹ سروسز وقتی طور پر بند کروا دی تھیں۔نتیجہ، بیشتر گھروں میں ٹیلی فون اور موبائل کی گھنٹی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
مغل پورہ، حاجی پور، داراب نگر اور قصائی پاڑہ مسلم اکثریتی علاقوں میں شمار ہوتے تھے۔یہاں رہنے والے لوگوں کو اپنے ان رشتے داروں کی فکر کھائے جا رہی تھی جن کے مکان پرتاپ گڑھ، ہنومان گڑھی، سونار پور اور درگا نگر جیسے ہندو اکثریتی علاقوں میں تھے۔ یہی حال وہاں کے ہندو خاندانوں کا تھا جن کے اعزّہ و دوست مسلم علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی آگ نے مکانوں اور دکانوں کے ساتھ برسوں کی بھائی چارگی اور نسلوں سے قائم اعتماد اور بھروسے کو بھی جھلسا ڈالا تھا۔بے یقینی، خوف اور جذبۂ انتقام کے شدید احساس سے ان کی پھٹی آنکھیں پلکیں جھپکانا بھول گئی تھیں۔ پولیس کی یقین دہانی میں جھوٹ اور علاقائی چہ مگوئیوں میں حقیقت کا گمان ہونے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہنومان گڑھی کے لوگوں کو خبر ملی کہ قصائی پاڑہ کےڈاکٹر شرما کا مکان لوٹ کر جلا دیا گیا ہے اور ان کی فیملی کے کسی فرد کا کوئی اَتا پتا نہیں ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ مسلمانوں نے ان سب کا کام تمام کر دیا ہے۔انتقامی کاروائی کے خدشے کے تحت انتظامیہ نے جعفرہ گنج کے گرد گویا پولس کا گھیرا ڈال دیا جو ہنومان گڑھی سے متصل ایک چھوٹا سا مسلم محلّہ تھا۔ ساتھ ہی پولیس افسران نے مقامی لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ جب تک لاشیں نہیں مل جاتیں، ان کے مارے جانے کی بات بے بنیاد ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے کسی محفوظ مقام پر پناہ لے رکھی ہو۔ لیکن لوگوں، خاص طور سے نوجوانوں، کو پولیس کے بیان میں قیاس آرائی نظر آئی جب کہ چند مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں منطق جنہوں نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ قصائی پاڑہ والوں نے ڈاکٹر شرما اور ان کی فیملی کے لوگوں کو ذبح خانے میں قتل کر کے چانپڑوں سے بوٹیاں بنا کر گٹر میں بہا دیا ہوگا، لاشیں کیا خاک ملیں گی۔
کمال یاوَر صاحب تھانہ موڑ کے قریب واقع جدید طرز پر بنے اسٹار ہاؤزنگ کمپلکس میں رہتے تھے جس میں ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے لوگوں کے فلیٹس تھے۔ یہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ رہتے تھے جس کے سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایسا ماحول تھا کہ کمپاؤنڈ میں بنے پوجا پنڈال میں مسلمان اور ان کے بچے بھی خوش گپیوں میں مشغول نظر آتے تو عید کے دن ہندو اہلِ خانہ بھی ہاؤزنگ کے گیٹ پر نماز پڑھ کر لوٹنے والے مسلمان پڑوسیوں سے گلے ملنے کے لئے سب سے آگے تیار کھڑے ملتے ۔بعض تو سیوئیاں کھانے پنجابی پائجامہ پہن کر پہنچ جاتے۔ کمال یاور صاحب دو سال قبل جب یہاں رہنے آئے تھے تو ہاؤزنگ کمیٹی کے سکریٹری شبیر صاحب نے اپنے دس سالہ تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے سوسائٹی کو قومی یکجہتی کا بہترین نمونہ قرار دیا تھا اور مشترکہ تقریبات کے علاوہ روز مرہ کے واقعات کی کئی مثالیں بھی پیش کی تھیں۔ کمال یاور صاحب صرف امید ہی کر سکتے تھے کہ ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی و فرقہ وارانہ صورتِ حال کا اثر ہاؤزنگ سوسائٹی کے ماحول پر نہ پڑے۔
آج چوتھے روز کرفیو میں وقفے کے دوران جب وہ باہر نکلے تو چوک بازار میں پرانے پڑوسی شمشیر خان سے ملاقات ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد رسمی گفتگو کے دوران اچانک شمشیر صاحب نے پوچھا:
”گزشتہ ہفتے عرفان کو دیکھا تھا۔ کافی کسرتی بدن بنا لیا ہے اس نے۔ کوئی باڈی بلڈنگ کلب جوائن کیا ہے کیا اس نے؟“
”ارے نہیں،بس ہاؤزنگ کے جِم میں پابندی سے وقت دیتا ہے۔“ کمال صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت کی۔
”کیوں؟ کیا فلموں میں کام کرنے کا ارادہ ہے؟“ شمشیر صاحب کی مسکراہٹ میں طنز کا عنصر بھی شامل تھا۔
” ایسی کوئی بات نہیں۔ آج کے نوجوانوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، فٹ نس کا خبط …“
”انہیں احساس ہو نہ ہو، آپ تو ملک کے حالات سے باخبر ہیں۔ہماری نئی نسل کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب بائی سپس (Biceps) بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ وقت باڈی بنانے کا نہیں، بم بنانے کا ہے۔آج بابری مسجد ڈھائی گئی، کل کوئی ا ور مسجد ہوگی …“
”جی جی …بالکل ۔“انہوں نے بات کاٹتے ہوئے جلدی سے کہا ۔
پھر اس سے قبل کہ شمشیر خان مزید کچھ کہہ پاتے انہوں نے معذرت خواہ لہجے میں کہا:”میں اس وقت ذرا جلدی میں ہوں۔ پھر ملتا ہوں۔“ اور تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ ان کے چہرے پر ناگواری کی لکیریں گہری ہو گئی تھیں۔ اگر رکتے تو زبان سے کوئی تلخ جملہ ضرور ادا ہو جاتا۔
شمشیر خان کی گفتگو سن کر انہیں لگا گویا بستی چھوڑ کر اس ہاؤزنگ کمپلکس میں رہائش اختیار کرنے کا ان کا فیصلہ درست تھا۔ ایسی سوچ چائے خانوں، پان دکانوں اور ہیئر کٹنگ سیلون میں بیٹھ کر عوام کے جذبات سے کھیلنے والے اردو اخبارات کی اشتعال انگیز سرخیوں پر بحث کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ اس مخصوص طبقے کے لوگوں کی ذہنیت سے بخوبی واقف تھے۔
ابھی کل ہی شام کو ہاؤزنگ سوسائٹی کے دفتر میں شہر کے موجودہ سنگین حالات کے پیشِ نظر ممبران کی ایک جنرل میٹنگ بلائی گئی تھی جہاں فرقہ وارانہ صورت حال کے مدنظر احتیاطی تدابیر و تجاویز پر غور و خوض کیا گیا تھا۔متفقہ طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ اس آگ اور خون کی ہولی کا ایک چھینٹا بھی ہاؤزنگ کمپلکس کے اندر آنے سے روکنے کے لئے مشترکہ طور پر ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ہاؤزنگ کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے شبّیر صاحب نے ہاؤزنگ کمپلکس کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے سبھوں سے اپیل کی تھی۔کمیٹی کے صدر چتر ویدی جی اور دیگر نے بھی بھرپورتعاون کا یقین دلایا تھا اور کچھ کار آمد مشورے بھی دئیے تھے۔
ہاؤزنگ کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد اپنے فلیٹ کی جانب جانے کی بجائے کمال یاور صاحب نے شبّیر صاحب کے بلاک کا رُخ کیا ۔
دیگر افراد کی طرح آج شبّیر صاحب بھی صبح ناشتے کے بعد سے ہی ٹی وی سے چپکے ہوئے تھے۔چہرہ پُرتفکر اور نگاہیں ٹی وی اسکرین پر مرکوز۔سلام کا جواب دیتے وقت لبوں پر آنے والی رسمی مسکراہٹ چند ساعتوں میں یوں معدوم ہو گئی گویا کسی فرض سے سبکدوش ہونے کی عجلت ہو۔
”یہ انتظامیہ کی نااہلی اور نکما پن ہے یا حکومت کے جانب دارانہ رویّے اور متعصب ذہن کا شاخسانہ … پوری اسٹیٹ مشینری فسادیوں کے آگے بےبس نظر آ رہی ہے۔“ انہوں نے کمال یاور صاحب کی توجہ ٹی وی پر دکھائی جانے والی فسادہ زدہ علاقوں کی ویڈیو کلیپنگ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔لہجے میں برہمی کا عنصر نمایاں تھا۔
کمال یاور صاحب نے خاموشی سے سر ہلا کر اتفاق کا اظہار کیا۔ان کا ذہن شمشیر خان کی باتوں سے پیدا شدہ بدمزگی کے اثر سے ابھی تک آزاد نہیں ہو پایا تھا۔
اچانک ان کے موبائل کا رِنگ ٹون بج اٹھا۔
”معاف کیجئے گا۔“ انہوں نے شبّیر صاحب کی طرف معذرت طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کال ریسو کی۔ پھر کچھ کہنے کے لئے منہ کھولاہی تھا کہ ہونٹ گویا منجمد ہو گئے، اور آنکھیں پھیلتی چلی گئیں …
چترویدی جی کی چہکتی ہوئی آواز تھی:
”ارے کمل یادو جی، ٹی وی کھولیے اور اپنا چینل لگائیے۔ہمارا اسکور تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہم چالیس سے زیادہ کا لیڈ لے چکے ہیں۔پہلے دن جب نمک حراموں نے ہمارے دس بھائیوں کے گھر پھونک دئیے تھے تو میرا خون کھول اٹھا تھا۔ ان غدّاروں کو سبق سکھانے کے لئے اردھ شتک کافی نہیں، ہمارے لوگوں کو سنچری بنانی ہوگی…“
کمال یاور صاحب کھانس کر رہ گئے۔ انہیں گلے میں کچھ اٹکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
”آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔چلیے، پھر باتیں کرتے ہیں، نمسکار۔“
کمال صاحب نےسکتے کے عالم میں موبائل کان سے ہٹایاہی تھا کہ شبّیر صاحب کی چھوٹی بیٹی نے آ کر پوچھا:
”ابّو، امّی نے پوچھا ہے چائے بسکٹ لیں گے آپ لوگ؟“
”ابھی جاؤ یہاں سے۔“ شبّیر صاحب نے ٹی وی نیوز سے نظریں ہٹائے بغیر ہاتھ اٹھا کر قدرے خشک لہجے میں اور تقریباً جھڑک کر کہا۔
ان کی پیشانی پر پڑی سلوٹیں ان کے گہرے ذہنی انتشار کا پتہ دے رہی تھیں اور بار بار مٹھیوں کے بھنچنے سے شدید اضطرابی کیفیت کا اظہار ہو رہا تھا۔
”اس وقت چائے نہیں، ان پیشاب پینے والوں کا خون پینے کی خواہش ہو رہی ہے۔“ شبّیر صاحب تنفر آمیز لہجے میں بڑبڑائے۔
کمال صاحب نے چونک کر ان کی طرف دیکھا کیوں کہ الفاظ تو ان کے تھے لیکن آواز چترویدی جی کی آئی تھی!وہ بے یقینی پن اور تذبذب کے عالم میں شبیر صاحب کا منہ تکتے رہے۔
”یہ ہوئی نا بات۔“تھوڑی دیر بعد اچانک شبّیر صاحب تقریباً چلّا اٹھے۔چہرہ بھی کھل اٹھا تھا، ”اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ وہ سب دیکھ رہا ہے۔“
کمال صاحب کا شک یقین میں بدل گیا کیوں کہ یہ آواز بھی واضح طور پر چترویدی جی کی ہی تھی۔
شیو مندر میں بھگدڑ،سیڑھیوں پر اٹھارہ لاشیں، مرنے والوں میں پانچ عورتیں اور چھ بچے _ ٹی وی پر بریکنگ نیوز۔
”صوفیہ بیٹا، اب چائے لاؤ۔ بلکہ کچھ کھانے کو بھی لاؤ۔لیٹس سیلے بریٹ۔“ شبّیر صاحب نے چترویدی جی کی آواز میں اپنی بیٹی کو پکارا۔
”ہاں کمال صاحب، بتایا نہیں کس کا فون تھا؟“ شبّیر صاحب نے پوچھا۔
”گھر سے فون تھا۔میرے لوٹنے میں تاخیر سے سبھوں کو فکر ہو رہی تھی۔ اب میں چلتا ہوں۔“
”ارے، چائے تو پیتے جائیے…“
”جی نہیں، شکریہ۔ سب لوگ پریشان ہوں گے۔ چائے پھر کبھی۔ اللہ حافظ۔“
سیڑھیوں سے اترتے وقت انہیں ایک اور الجھن نے آ گھیرا۔پتہ نہیں انہیں ایسا کیوں لگنے لگا تھا جیسے کچھ دیر قبل فون پر انہوں نے چترویدی جی کی نہیں، شبّیر صاحب کی آواز سنی ہو۔
————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

The Flies a Short Story by Tahir Anjum Siddiqui

Articles

مکّھیاں

طاہر انجم صدیقی

کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
بس اس سے آگے وہ مزیدکچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جبپاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے۔۔۔۔۔۔
مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
’’اے اکرم ! تو مت آ یا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آ نا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو زبان چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیسی لڑائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چا چا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان کو خراب لگتاہے ۔
’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتاہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آ نسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میںاس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آ نکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچاکی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگرناشتہ کر رہے ہو تے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے ۔ ناشتے کے بعداُس کا منہ دُھلاتے ،تولیہ سے اپنا اوراُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اوراُسے گود میں اٹھاکر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
اپنے لئے گرما گرم چا ئے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آجانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے ۔حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّرمیں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والادودھ اُسےپلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچااکرم کواُس کے گھر والوں کے سپرد کر تے تو وہ ان سے چمٹ جاتا ۔ ان کے کپڑے ، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاور لوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
“۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابراُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیااور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگوں کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا اورپھوگ کےاُس ڈھیرپر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Beemari a Short Story by Wajahat Abdussattar

Articles

بیماری

وجاہت عبدالستار

ملک میں کرفیو نافذ ہوکر پندرہ دن مکمل ہو چکے تھے ۔کورونا نامی معمولی جرثومے کے خوف نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لےرکھا تھا ۔ حکومتوں کے پاس اب تک اس کا کوئی مناسب علاج موجود نہیں تھا اسلئے حکومتیں صرف احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے گھروں میں قید رہنے کی سختی بنام تلقین کر رہی تھیں۔غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کی خریداری کے لئے روزانہ صبح دو گھنٹے کرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آج بھی کرفیو میں دو گھنٹے کی راحت ملی تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل پڑے اور ضروری اشیا کی خرید و فروخت میں مصروف ہوگئے ۔ کچھ بے فکرے ایسے بھی تھے جنہوں نے چالاکی سے تین چار مہینے کے اناج کی ذخیرہ اندوزی کر رکھی تھی۔اس لئے ان اوقات میں باہر آکر وہ گپے شپے لڑاتے رہتے ۔ ندیم نے جیسے ہی حاجی اسلم کو دیکھا مبارک باد دیتے ہوئے کہا ۔
” مبارک ہو حاجی صاحب ۔۔ رفیق بتا رہا تھا کہ فیس بک پہ آپ کی تصویر کو پانچ سو زیادہ لائک ملے ہیں ۔۔”
”ہائیں ۔۔! کون سی تصویر ۔۔؟”
حاجی اسلم نے پان کی پچکاری مارتے ہوئے پوچھا ۔۔

” شاید کسی مسکین کو اناج کی تھیلی پکڑا رہے تھے آپ ۔۔”
ندیم نے جواباً کہا تو حاجی اسلم کی باچھیں کھل گئیں اور ان باچھوں سے پان کی پیک رِستے رِستے رہ گئی ۔
” اب کیا بتاوں ندیم بھائی … ” حاجی صاحب نے پان کو واپس اپنے دانتوں کے چنگل میں پھنساتے ہوئے کہا ۔
” بس اللہ کام لے رہا ہے جی ۔۔ لیکن یہ رفیق ہے نا ۔۔بڑا خار کھاتا ہے مجھ پر ۔۔”
” اچھا ۔۔۔بھلا وہ کیوں ۔۔؟” ندیم نے سوال داغا ۔
” ارے اس کی تصویروں کو کوئی نہیں پوچھتا نا فیس بک پر ۔۔۔” حاجی صاحب نےسرگوشیوں کے انداز میں کہا ۔۔” اس لئے کم لائک والی فوٹو کے بارے میں بتایا ہوگا لیکن مجھے یقین ہے اس نے تمہیں چار ہزار لائک والی پوسٹ کے بارے میں بالکل نہیں بتایا ہوگا ۔۔”
” چار ہزار ۔۔۔؟ ” ندیم نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔۔” ارے واہ واہ حاجی صاحب ۔۔۔چار ہزار لائک معمولی بات نہیں ۔۔۔ واه ..!”
” صرف لائک ہی نہیں۔۔ سات سو کمنٹ بھی تھے ۔۔” یہ بتاتے ہوئےحاجی صاحب کا سینہ چھپن انچ چوڑا ہو گیا اور چہرے سے مسرت چھلکنے نہیں بلکہ ٹپکنے لگی ۔
” ارے واہ ۔۔۔ بھلا ایسی کیا بات تھی اس پوسٹ میں ؟ ”
” وہی ۔۔۔۔وہ پڑوسیوں والی حدیث نقل کی تھی میں نے ۔۔” حاجی صاحب نے اپنی ٹوپی اٹھا کر سر کھجایا اور کہا ۔ ” ارے وہی ۔۔جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا نا ۔۔کہ تمہاری مدد کے سب سے زیادہ مستحق تمہارے پڑوسی ہیں ۔۔”
” ارے واہ واہ حاجی صاحب ۔۔واہ ۔۔۔ ۔۔۔آپ تو وی آئی پی بن گئے محلے کے ۔۔چار ہزار لائک اور سات سو کمنٹ ۔۔واہ بھئی واہ ۔۔۔ایک بار پھر مبارک ۔۔”
اسی اثنا میں سلیم رکشہ والا دوڑتا ہوا آیا اور تقریباً چیخ پڑا ۔۔
” ندیم بھائی ، ندیم بھائی۔۔حاجی صاحب ۔۔ وہ ۔۔وہ ۔۔۔ خواجہ چاچا ۔۔۔! ”
” ارے کون خواجہ چاچا ۔۔۔ ؟ یہ اتنا کیوں ہانپ رہا ہے تو ؟ ۔۔ذرا ہانپنا تو بند کر پہلے ۔ ” ندیم نے سلیم کو جھاڑتے ہوئے کہا ۔
” وہ دیہاڑی پہ کام کرنے والے خواجہ چاچا تھے نا ۔۔۔ارے وہی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔” سلیم اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے یاد دلانے کے انداز میں بولا ۔۔ ”ارے چھ مہینے پہلے ہی ان کی بیوی مر گئی تھی نا ۔۔”
” ہاں تو کیا ہوا انہیں ؟ وه بھی مر گئے کیا ۔۔؟ ”
حاجی صاحب نے پان کی پچکاری سے دیوار لال کرتے ہوئے اطمینان سے پوچھا ـ
” ہاں ۔مرگئے ۔۔۔” سلیم رکشہ والے نے بجھے بجھے انداز میں کہا ۔
” صبح اپنے بستر پر مردہ حالت میں پائے گئے ہیں ۔ ”
” انا للہ و انا الیہ راجعون ”
دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا پھرندیم نے سلیم سے پوچھا ۔۔
” کیا بیماری تھی انہیں ؟ کیا انہیں بھی کورونا ہو گیا تھا ۔۔؟”
سلیم نے دونوں کو عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور کہا ۔۔
” کورونا ؟ … نہیں نہیں ندیم بھائی ۔۔! کورونا نہیں ۔۔”
” اچھا ۔۔۔” ندیم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی جیسے اس نے کورونا کو مار بھگایا ہو ، پھر اس نے اپنی بائیں آنکھ دبا کر تمسخرانہ انداز میں سلیم سے پوچھا ۔
” تو کیاایڈز ہو گیا تھا انہیں اس عمر میں۔۔۔؟ ”
سلیم ایک لمحے کے لئے بھونچکا سا رہ گیا اور تعجب سے سماج کے ان وی آئی پی لوگوں کو دیکھنے لگا جن پر یہ مخصوص حالات بھی اثر انداز نہیں ہوئے تھے ۔۔ کچھ دیر کے لئے تو اسکی زبان گنگ ہو کر رہ گئی پھر اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا
”ایڈز نہیں ندیم بھائی ۔۔ایڈز سے بڑی بیماری ہوگئ تھی اس بڈھے کو ۔۔ بھوک ۔۔۔بھوک کی بیماری چاٹ گئی اس بڈھے کو ۔۔ بھوک کی بیماری ۔۔”
سلیم رکشے والا نمناک آنکھوں سے یہ الفاظ بدبداتا ہوا پلٹنے لگا تو حاجی اسلم بھائی نے آواز لگائی ۔۔
”اوئے سلیم ۔۔ سچ میں اس بڈھے کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا کیا ۔۔؟ ۔۔ اب کفن دفن کا انتظام تو ہم لوگوں کو ہی کرنا پڑے گا نا ۔۔۔ ”
” ہاں ۔۔ ”
”اب یہ تو بتاتا جا یہ بڈھا رہتا کہاں تھا ۔۔”
” وہ ۔۔۔ وہ تو آپ کے بالکل پڑوس ہی میں رہتا تھا حاجی صاحب ”
سلیم نے چبھتی ہوئی نگاہوں سے حاجی صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا اور پژمردہ قدموں سے پلٹ پڑا ۔

Daman e Yazdaan Chaak a Short Story by Ansari Afzaal Ahmad

Articles

دامنِ یزداں چاک

انصاری افضال احمد

رات کا پچھلا پہر تھا … میرے سامنے نئے افسانے کا ادھورا مسودہ پڑا ہوا تھا ، میں بالوں میں انگلیاں دیئے ہوئے مسلسل مرکزی کردار کے اختتام کے بارے میں سوچ رہا تھا ، بیوی کی بے حیائی، بے وفائی، دوسرے مردوں سے کھلے عام معاشقہ، مرکزی کردار کی بے روزگاری، بے بسی، بیوی کا اچھی تنخواہ پر کام کرنا، گھر میں آفس کے لوگوں کو کام کے بہانے سے لانا اور بے حیائی کرنا… مرکزی کردار کو کیا کرنا چاہیے؟؟ طلاق دے کر دوسری لڑکی تلاش کر لے؟؟ مگر اس سے بھی شاید دل دریدہ زخموں کا مداوا نہ ہو سکے اور یہ تو ایک سیدھا سا اختتام ہوگا، اس میں نہ کوئی کرب آزارافسانوی رنگ ہوگا نہ پڑھنے والے کے لیے کوئی دلچسپی… پھر؟؟؟ پھر کیا کرنا چاہیے اسے؟؟ یہ سوچتے ہوئے میرے ماتھے کی رگیں تن گئیں، مٹھیاں بھنچی ہوئیں اور سانسیں چڑھی ہوئی تھیں پھر اچانک ایک خیال سا ذہن میں آیا… ہاں اسے خودکشی کرنا ہوگی تاکہ انجام افسانوی اور چونکا دینے والا ہو .. اور ویسے بھی موت سے کردار کے سارے دکھوں کا مداوا ہوجاتاہے… موت زندگی کا سب سے بہترین حسن ہے۔موت سارے دکھوں کا اپنے خوبصورت ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر اپنے چاہنے والوں کو رہائی دیتی ہے.. ہاں اسے یقیناً مر ہی جانا چاہیے.. یہ سوچتے ہوئے میں نے آنکھیں موند لیں.. اچانک کچھ آوازوں کے شور سے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا.. کمرا مختلف نوع کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا، ہر طرف پرچھائیاں اور سائے لہرا رہے تھے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے مگر ایک ساتھ آتی ہوئی آوازوں کے سبب میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا .. میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی، جسم سے جیسے پسینے کی دھاریں پھوٹ رہی تھیں، سانسیں تنی ہوئی تھیں ٹیبل لیمپ کی روشنی ہلکی ہلکی سی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اسے شاید روشنی کہنا بھی غلط تھا یہ تو ایک ایسا اندھیرا تھا جسے تھوڑی سے روشنی نے اور گھنا کر دیا تھا…. مسلسل آوازیں جب میری برداشت کے باہر ہونے لگیں تو میں اچانک پھٹ پڑا… “خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ !!!کون ہو تم لوگ؟ اور میرے کمرے میں کیوں گھس آئے ہو ؟ ” میں تم لوگوں کو جانتا تک نہیں” ۔۔ کون ہو تم لوگ”
میرا خاموش ہونا تھا کہ آواز کی بھنبناہٹوں کا شور غالب آگیا. ان میں غصیلی آوازیں بھی تھیں، تکرار اور اضطراب سے بھری آوازیں بھی، کچھ آوازیں خود میں بے انتہا درد سموئے ہوئی تھیں تو کچھ گریہ وزاری کر رہی تھیں… اس مرتبہ میں حلق پھاڑ کر چینخا… “چپ ہو جاو!!… چپ ہوجاؤ!!!… کیوں میری جان کے گاہک بنے ہوئے ہو؟اگر تم لوگ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو تو ایک ایک کر کے مجھ سے بات کرو! ” یہ کہنا تھا کہ کمرے میں دل کو دہلا دینے والا گمبھیر سناٹا چھا گیا اور سایوں کی بھیڑ میں سے ایک سایہ آگے آ گیا.. ” ہاں کہو! کیا کہنا چاہتے ہو؟ اور تم کون ہو یہ بھی مجھے بتاؤ؟؟ ” ” میں کون ہوں؟؟” ایک کھرکھراتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “تم مجھے نہیں جانتے؟ تم نے مجھے زندگی دی، تمہاری ہی مرضی کے مطابق میں نے وہ زندگی گزاری!!اور تم نے ہی مری مرضی کے خلاف مجھ پر موت مسلط کر دی!! جس کہانی میں تم نے مجھے جنم دیا تھا، میں اس کے دوسرے کرداروں سے بے انتہا محبت کرتا تھا! ٹھیک ہے میری بیوی میری بے روزگاری کی وجہ سے مجھے کوستی رہتی تھی، یہ بھی درست ہے کہ میرا لڑکا مجھے ہمیشہ اس بات کا طعنہ دیتا تھا کہ میں نے اسے ایک اچھی اور معیاری زندگی نہیں دی، لیکن کیا تمہیں نہیں معلوم انہیں کرداروں میں میری چھ سال کی ایک بچی تھی.. جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، میں جب گھر آتا تو میرے پیروں سے لپٹ جاتی، اپنی توتلی زبان میں مجھے دن بھر کی معصوم سی باتیں بتاتی، تم اگر میرے اندر جی رہے ہوتے تو تم جان پاتے کہ اس کی محبت ساری نفرتوں پر حاوی تھی، میں اس کے لیے جینا چاہتا تھا، مگر تم……!!.! اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی.. “مگر تم میرے خدا بن بیٹھے، تمھیں تو میری کہانی کا درد بھرا اختتام چاہیے تھا، تا کہ لوگ تمھیں سراہیں.. اور تم نے اپنے لالچ کے چلتے میرے حق میں موت کا فیصلہ سنا دیا، تم نے مجھے خود کشی پر مجبور کر دیا ” ” میں نے مجبور کیا ؟ ” ” ہاں تم نے!! لوگوں نے اسے خودکشی سمجھا ہوگا ! مگر میں جانتا ہوں کہ یہ قتل تھا، اور تم میرے قاتل ہو!! تم ہوتے کون ہو میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے؟ کیا صرف اس لئے کہ تم نے مجھے تخلیق کیا ہے؟ “
” میرے لحاظ سے جو فیصلہ میں نے لکھا تھا ، وہ درست تھا ” میں نے اپنے دفاع کی کمزور سی کوشش کی.. ” اس نے سبھوں کے ساتھ ایک سا برتاؤ کیا ہے ” ایک منمناتی ہوئی آواز میرے کانوں میں آئی اور ایک سایہ بھیڑ سے نکل کر سامنے آ گیا… ” میں ایک عفیفہ تھی، شوہر کی شراب کی لت، اس کی بیماری، بچوں کی کثرت نے مجھے توڑ تو دیا تھا مگر پھر بھی میں اپنے حوصلے کے سہارے ان مصائب کا سامنا کیا مگر میری اس مجبوری اور میری خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر تم نے مجھے کوٹھے پر بٹھا دیا، مجھے جسم فروشی پر مجبور کیا… ” ” میں نے مجبور کیا؟؟” “ہاں تم نے…..!! کیوں کہ تم کہتے ہو ‘چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے۔ اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے۔ تمہارے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ تمہاری ہیروئن چکلے کی ایک طوائف ہو سکتی ہے۔ تمہیں اور تمہارے پڑھنے والوں کو میری مشقت بھری با عزت زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے تم نے مجھے چکلے پر بٹھا دیا، تم نے اگر میرے کردار کو جیا ہوتا، جیسا تمہارا دعوی ہے، تو شاید تم میرے لیے چکلے کا انتخاب نہ کرتے، لیکن تم تو ہمارے خالق ہو تمہیں ہمارے جذبات اور احساسات سے کیا لینا، تمہیں تو صرف اپنی تحریروں پر داد بٹورنی ہوتی ہے، میری عصمت کا سودا کرنے والے تم ہو، تم نے میری دلالی کی ہے، میرے جسم کو فروخت کر کے تم نے دولت، عزت اور شہرت کمائی ہے.
میری جانب اٹھنے والی غلیظ نگاہیں اور میری جانب لپکنے والے ہاتھ تمہارے تھے، تم کیا سمجھتے ہو کہ میری عصمت کے لٹنے کا الزام تم دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاؤ گے؟؟ ”
” سنو! میں نے تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی ہے، مجھے لگا کہ ایسے حالات میں شاید یہی ہونا چاہیے تھا “میں نے دفاع کی ایک کمزور سی کوشش کی…
” یہی ہونا چاہیے تھا؟؟ تم ہوتے کون ہو میرا اگلا قدم طے کرنے والے؟؟ چکلہ اور کوٹھا تم مرد ذات کے دماغوں میں گھسا ہوا ہے، جتنی نجاست اور غلاظت تمہارے دماغوں میں بھری ہوئی ہے اتنی تو ان کوٹھوں پر بھی نہیں ہوتی،بلکہ کوٹھے تو تم لوگوں کے ذہنی بیت الخلاء کا کام کرتے ہیں، جہاں تم اپنی گندگیاں اگل کر معاشرے میں سفید پوش بنے پھرتے ہو.. اچانک ایک پھٹے پھٹے سے سائے نے اس عورت کو پیچھے کیا اور خود آگے آ گیا اور نہایت درد ناک آواز میں چلانے لگا، اس کی شکل میں پہچانتا تھا، میں نے بھی چلّا کر کہا..
“ارے تمہیں تو میں بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں، تم میری آخری کہانی کے کردار تھے، تم جو ایک مذہبی جنونی تھے تم نے ایک بھرے چوک پر خود کو بم سے اڑا لیا تھا اور بے شمار معصوموں کی جان لی تھی “
“میں نے خود کو بم سے اڑایا تھا؟؟؛ ارے میں تو مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والا ایک عام سا نوجوان تھا، جو خود بھی جینا چاہتا تھا اور دوسروں کو بھی جینے دینا چاہتا تھا مگر تم نے میرے جسم ہر بم باندھ کر مجھے بھرے چوک میں اڑا دیا، تم جو کرداروں کے لہو سے اپنی کہانیوں میں رنگ بھرتے ہو، آہوں اور سسکیوں سے اس کا راگ سنوارتے ہو… کیا تمہارے پاس دریائے نیل سے آنے والے امن کے حوالے نہیں تھے؟ کیا تم نے برگد کے نیچے بیٹھے اس شخص کی انسان سے انسان کی محبت کے پیغام کو نہیں سنا جس نے امن اور محبت کے لیے اپنا سب کچھ تیاگ دیا تھا؟ کیا تم تک مردوں کو زندہ کرنے والے کا پیغام امن نہیں پہنچا؟؟ وہ جو مردوں کو زندہ کرکے مسیحائی کرتا تھا اور تم جو زندوں کو مردہ بنانے پر تلے ہوئے ہو.. کیا تمہارے کانوں میں رس گھولتی ہوئی بانسری کی وہ آوازیں نہیں آئیں جس نے جانوروں کو بھی محبت کی ڈور سے باندھ دیا تھا ؟ ہاں تم سنتے بھی تو کیسے سنتے!! تم دیکھتے بھی تو کیسے دیکھتے!! ان میں تمہارے اور تمہارے قارئین کے لیے دلچسپی کہاں تھی!!! تم نے تو ان قوموں سے سیکھا جنھوں نے دنیا کو لکیروں، زاویوں، رنگوں، نسلوں، زبانوں اور دھرموں میں تقسیم کیا، تم بھی تو انہیں کے علم بردار ہو، تمہیں کیا ہوجاتا اگر تم مجھے میرے اصلی کردار میں پیش کر دیتے؟ ہاں شاید تمہاری کہانی کا رنگ چلا جاتا کیونکہ امن کا پرچم بھی سفید ہوتا ہے”…
اچانک سایوں کی بھیڑ میں سے ایک سایہ آگے سرک آیا،اس کی آنکھوں میں موت کا خوف رقص کر رہا تھا اس نے فضا میں مکے لہرائے اور بلند آواز سے کہنے لگا.. “تمہیں تو اس نے انجام تک پہنچا دیا مگر میرا انجام ہونا باقی ہے، میری ادھوری کہانی اس کی میز پر رکھی ہوئی ہے، اور اس نے مجھے میرا انجام نہیں بتایا ہے،لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ میرے لیے بھی موت ہی چنے گا، سن رہے ہو تم؟؟ بتاؤ مجھے تم نے میرے لیے کیا چنا ہے؟؟ “
رفتہ رفتہ میرے سارے کردار سامنے سے ہٹتے چلے گئے، اب میرے سامنے ایک ہی کردار تھا جو مجھ سے سوال کر تھا کہ میں نے اس کے لیے کیا چنا ہے…
” ہاں تم نے صحیح سوچا ہے، موت ہی تمہارے غموں کا مداوا ہے “
” یہ تو تمہارا فیصلہ ہے… قلمکار!..!! تم اپنے حصے کی موت مجھ پر لادنا چاہتے ہو…مگر آج نہیں!! آج قلم وہی ہوگا اور کاغذ بھی وہی اور فیصلہ بھی وہی مگر لکھنے والے ہاتھ اور کردار بدل جائیں گے… ”
رات کا سیاہ اندھیرا چھٹ چکا ہے ، سورج کی پہلی کرن ابھی ابھی اندرداخل ہوئی ہے۔ کلائیوں سے بہنے والے خون نے کاغذ پر پھیلی سیاہی کو مٹاکر ادھوری کہانی کو مکمل کردیا ہے.
————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Singhar Daan a Short Story by Shamoil Ahmad

Articles

سنگھار دان

شموئل احمد

فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں….

برحمبوہن کو نسیم جان کا سنگھار دان ہاتھ لگا تھا۔ سنگھار دان کا فریم ہاتھی دانت کا تھا۔ جس میں قد آدم شیشہ جڑا ہوا تھا اور برجمبو ہن کی لڑکیاں باری باری سے شیشے میں اپنا عکس دیکھا کرتی تھیں۔ فریم میں جگہ جگہ تیل، ناخن پالش اور لپ اسٹک کے دھبے تھے جس سے اس کا رنگ مٹ میلا ہو گیا تھااور برجمبوہن حیران تھا کہ ان دنوں اس کی بیٹیوں کے لھچن….

یہ لچھن پہلے نہیں تھے…. پہلے بھی وہ بالکنی میں کھڑی رہتی تھیں لیکن انداز یہ نہیں ہوتا تھا…. اب تو چھوٹی بھی چہرے پر اُسی طرح پاﺅڈر تھوپتی تھی اور ہونٹوں پر گاڑھی لپ اسٹک جما کر بالکنی میں ٹھٹھا کرتی تھی۔

آج بھی تینوں کی تینوں بالکنی میں کھڑی آپس میں اسی طرح چہلیں کر رہی تھیں اور برحمبوہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ یکایک بڑی نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔ اس کے جوبن کا اُبھار نمایاں ہو گیا۔ منجھلی نے جھانک کر نیچے دیکھا اور ہاتھ پیچھے کر کے پیٹھ کھجائی۔ پان کی دکان کے قریب کھڑے ایک نوجوان نے مسکرا کر بالکنی کی طرف دیکھا تو چھوٹی نے منجھلی کو کہنی سے ٹھوکا دیا اور پھر تینوں کی تینوں ہنسنے لگیں…. اور برحمبوہن کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑکنے لگا…. آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا…. آخر وہی ہوا….

یہ خوف برحمبوہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔ جب بلوائی رنڈے پاڑے میں گھسے تھے کہرام مچ گیا۔ برحمبوہن ور اس کے ساتھی دندناتے ہوئے نسیم جان کے کوٹھے پر چڑھ گئے تھے۔ نسیم جان خوب چیختی چلاتی تھی۔ برحمبوہن جب سنگھاردان لے کر اُترنے لگا تو اس کے پاﺅں سے لپٹ کر گڑ گڑانے لگی تھی۔

”بھیا….یہ موروثی سنگھاردان ہے…. اس کو چھوڑ دو…. بھیا۔“

لیکن برحمبوہن نے اپنے پاﺅں کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔

”چل ہٹ……..رنڈی….“

اور وہ چاروں خانے چت گری تھی۔ اس کی ساڑی کمر تک اُٹھ گئی تھی۔ لیکن پھر اس نے فوراً ہی خود کو سنبھالا تھا اور ایک بار پھر برحمبوہن سے لپٹ گئی تھی۔

”بھیا…. یہ میری نانی کی نشانی ہے….بھیا“

اس باربرحمبوہن نے اس کی کمر پر زور کی لات ماری۔ نسیم جان زمین پر دوہری ہو گئی۔ اس کے بلوز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھونے لگیں۔برحمبوہن نے چھرا چمکایا۔

”کاٹ لوں گا۔“

نسیم جان سہم گئی اور دونوں ہاتھوں سے چھاتیوں کو ڈھکتی ہوئی کونے میں دبک گئی۔ برحمبوہن سنگھاردان لئے نیچے اتر گیا۔

برحمبوہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔ یقینا یہ موروثی سنگھاردان تھا جس میں اس کی پرنانی اپنا عکس دیکھتی ہو گی۔ پھر اس کی نانی اور اس کی ماں بھی اسی سنگھار دان کے سامنے بن ٹھن کر گاہکوں سے آنکھیں لڑاتی ہو گی۔ برحمبوہن یہ سوچ کر خوش ہونے لگا کہ بھلے ہی نسیم جان اس سے اچھا سنگھار دان خرید لے لیکن یہ موروثی چیز تو اب اُسے ملنے سے رہی…. تب ایک پل کےلئے برحمبوہن کو کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہے۔

برحمبوہن جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی کو سنگھاردان بھا گیا۔ شیشہ اس کو دھندلا معلوم ہوا تو وہ بھیکے ہوئے کپڑے سے پونچھنے لگی۔ شیشے میں جگہ جگہ تیل کے گرد آلود دھبے تھے۔ صاف ہونے پر شیشہ جھل مل کر اُٹھا۔ اوربرحمبوہن کی بیوی خوش ہو گئی۔ اس نے گھوم گھوم کر اپنے کو آئینہ میں دیکھا۔ پھر لڑکیاں بھی باری باری سے اپنا عکس دیکھنے لگیں۔

برحمبوہن نے بھی سنگھاردان میں جھانکا تو قد آدم شیشے میں اس کو اپنا عکس مکمل اور دلفریب معلوم ہوا۔ اس کو لگا سنگھاردان میں واقعی ایک خاص بات ہے۔ اس کے جی میں آیا کچھ دیر اپنے آپ کو دیکھئے…. لیکن یکایک نسیم جان روتی بلکتی نظر آئی۔

بھیا….سنگھاردان چھوڑدو…. میری پرنانی کی نشانی ہے….بھیا….“

”چل ہٹ رنڈی….“برحمبوہن نے سر کو دو تین جھٹکے دیئے اور سامنے سے ہٹ گیا۔

برحمبوہن نے سنگھاردان اپنے بیڈ روم میں رکھا۔ اب کوئی پرانے سنگھاردان کو پوچھتا نہیں تھا۔ نیا سنگھاردان جیسے سب کا محبوب بن گیا تھا۔ گھر کا ہر فرد خواہ مخواہ ہی آئینے کے سامنے کھڑا رہتا۔ برحمبوہن اکثر سوچتا کہ رنڈی کے سنگھاردان میں آخر کیا اسرار چھپا ہے کہ دیکھنے والا آئینہ سے چپک سا جاتا ہے لڑکیاں جلدی ہٹنے کا نام نہیں لیتی ہےں اور بیوی بھی رہ رہ کر خود کو مختلف زاویوں سے گھورتی رہتی ہے…. یہاں تک کہ خود وہ بھی…. لیکن اس کےلئے دیر تک آئینہ کا سامنا کرنا مشکل ہوتا۔ فوراً ہی نسیم جان رونے بلکنے لگی تھی اور برحمبوہن کے دل و دماغ پر دھواں سا چھانے لگتا تھا۔

برحمبوہن نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ گھر میں سب کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگتے ہےں۔ بیوی اب کولہے مٹکا کر چلتی تھی اور دانتوں میں مسی بھی لگاتی تھی لڑکیاں پاﺅں میں پائل باندھنے لگی تھیں اور نت نئے ڈھنگ سے بناﺅ سنگھار میں لگی رہتی تھیں۔ ٹیکہ، لپ اسٹک اور کاجل کے ساتھ وہ گالوں پر تل بھی بنائیں۔ گھر میں ایک پاندان بھی آگیا تھا اور ہر شام پھول اور گجرے بھی آنے لگے تھے۔ برحمبوہن کی بیوی سرشام پاندان لے کر بیٹھ جاتی چھالیا کترتی اور سب کے سنگ ٹھٹھا کرتی اوربرحمبوہن تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہتا۔ اس کو حیرت تھی کہ اس کی زبان گنگ کیوں ہو گئی ہے…. وہ کچھ بولتا کیوں نہیں….؟ انہیں تنبیہ کیوں نہیں کرتا؟

ایک دن برحمبوہن اپنے کمرے میں موجود تھا کہ بڑی سنگھاردان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر اس نے اپنے آپ کو دائیں بائیں دیکھا اور چولی کے بند ڈھیلے کرنے لگی۔ پھر بایاں بازو اُوپر اُٹھایا اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے بغل کے بالوں کو چھو کر دیکھا۔ پھر سنگھار دان کی دراز سے لوشن نکال کر بغل میں ملنے لگی۔ برحمبوہن جیسے سکتے میں تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹی کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں منجھلی بھی آگئی اور اس کے پیچھے پیچھے چھوٹی بھی۔

”دیدی…. لوشن مجھے بھی دو….“

”کیا کرے گی……..؟“بڑی اترائی

”دیدی یہ باتھ روم لگائے گی……..“چھوٹی بولی

”چل ہٹ……..“ منجھلی نے چھوٹی کے گالوں میں چٹکی لی اور تینوں کی تینوں ہنسنے لگیں۔

برحمبوہن کا دل کسی انجانے خوش سے دھڑکنے لگا…. ان لڑکیوں کے تو سنگھار ہی بدلنے لگے ہےں…. ان کو کمرے میں اپنے باپ کی موجودگی کا بھی خیال نہیں ہے…. تب برحمبوہن اپنی جگہ سے ہٹ کر اس طرح کھڑا ہوا کہ اس کا عکس سنگھاردان میں نظر آنے لگا۔ لیکن لڑکیوں کے روےے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بڑی اسی طرح لوشن ملنے میں منہمک رہی اور دونوں اس کے اغل بغل میں کھڑی دیدے مٹکاتی رہیں۔

برحمبوہن کو محسوس ہوا جیسے گھر میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تب یکایک نسیم جان شیشے میں مسکرائی۔

”گھر میں اب میرا وجود ہے….“

اور برحمبوہن حیران رہ گیا…. اس کو لگا واقعی نسیم جان شیشے میں بند ہو کر چلی آئی ہے اور ایک دن نکلے گی اور گھر کے چپہ چپہ میں پھیل جائے گی۔

برحمبوہن نے کمرے سے نکلناچاہا۔ لیکن اس کے پاﺅں جیسے زمین میں گڑ گئے تھے وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔ وہ خاموش سنگھار دان کو تکتا رہا اور لڑکیاں ہنستی رہیں…. دفعتاً برحمبوہن کو محسوس ہوا کہ اس طرح ٹھٹھا کرتی لڑکیوں کے درمیان کمرے میں اس وقت ان کا باپ نہیں ایک بھڑوا کھڑا ہے….

برحمبوہن کو اب سنگھاردان سے خوف محسوس ہونے لگا اور نسیم جان اب شیشے میں ہنسنے لگی…. بڑی چوڑیاں کھنکھاتی تو وہ ہنستی…. چھوٹی پائل بجاتی تو وہ ہنستی اور برحمبوہن کو اب….

آج بھی جب وہ بالکنی میں کھڑی ہنس رہی تھیں تو وہ تماشائی بنا سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا دل کسی انجانے خوب سے دھڑک رہا تھا۔

برحمبوہن نے محسوس کیا کہ راہ گیر بھی رُک رُک کر بالکنی کی طرف دیکھنے لگے ہےں۔ یکایک پان کی دکان کے قریب کھڑے نوجوان نے کچھ اشارہ کیا۔ جواب میں لڑکیوں نے بھی اشارہ کیا تو نوجوان مسکرانے لگا۔ برحمبوہن کے جی میں آیا کہ وہ نوجوان کا نام پوچھے۔ وہ دوکان کی طرف بڑھا۔ لیکن نزدیک پہنچ کر خاموش رہا۔ دفعتاً اس کو محسوس ہوا کہ وہ نوجوان میں اسی طرح دلچسپی لے رہا ہے جس طر ح لڑکیاں لے رہی ہےں…. تب یہ سوچ کر اس کو حیرت ہوئی کہ وہ اس کا نام کیوں پوچھنا چاہتا ہے….؟ آخر اس کے ارادے کیا ہےں….؟ کیا وہ اس کو لڑکیوں کے درمیان لے جائے گا؟ برحمبوہن کے ہونٹوں پر لمحہ بھر کےلئے ایک پراسرار مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے پان کا بیڑہ کلے میں دبایا اور جیب سے کنگھی نکال کر دوکان کے شیشے میں بال سونٹنے لگا۔ اس طرح بالوں میں کھنگی کرتے ہوئے اس کو یک گونہ راحت کا احساس ہوا۔ اس نے ایک بار کنگھیوں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک رکشہ والے سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہاتھا اور بیچ بیچ میں بالکنی کیطرف بھی دیکھ رہا تھا۔ جیب میں کنگھی رکھتے ہوئے برحمبوہن نے محسوس کیا کہ واقعی اس کی نوجوان میں کسی حد تک دلچسپی ضرور ہے۔ گویا خود اس کے سنسکار بھی…. اونہہ…. یہ سنسکارونکسار سے کیا ہوتا ہے….؟ یہ اس کا کیسا سنسکار تھا کہ اس نے ایک رنڈی کو لوٹا…. ایک رنڈی کو…. کس طرح روتی تھی…. بھیا ….بھیا میرے…. اور پھر برحمبوہن کے کانوں میں نسیم جان کے رونے بلکنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ برحمبوہن نے غصہ میں دو تین چھٹکے سر کو دیئے…. ایک نظر بالکنی کی طرف دیکھا پان کے پیسے ادا کئے اور سڑک پار کر کے گھر میں داخل ہوا۔

اپنے کمرے میں آکر وہ سنگھار دان کے سامنے کھڑاہوا گیا۔ اس کو اپنا رنگ روپ بدلا ہوا نظر آیا۔ چہرے پر جگہ جگہ جھائیاں پڑ گئی تھیں اور آنکھوں میں کاسنی رنگ گھلا ہوا تھا۔ ایک بار اس نے دھوتی کی گرہ کھول کر باندھی اور چہرے کی جھائیوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ آنکھوں میں سرمہ لگائے اور گلے میں لال رومال باندھ لے۔ کچھ دیر تک وہ اپنے آپ کو اسی طرح گھورتا رہا پھر اسکی بیوی بھی آگئی۔ اس نے انگیا پر ہی ساڑی لپیٹ رکھی تھی۔ سنگھاردان کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تو اس کا آنچل ڈھلک گیا۔ وہ بڑی ادا سے مسکرائی اور آنکھ کے اشارے سےبرحمبوہن کو انگیا کے بند لگانے کےلئے کہا۔

برحمبوہن نے ایک بار شیشے کی طرف دیکھا۔ انگیا میں پھنسی ہوئی چھاتیوں کا عکس اس کو لبھاﺅنا لگا۔ بند لگاتے ہوئے ناگہاں اس کے ہاتھ چھاتیوں کی طرف رینگ گئے۔

”اوئی دیا….“ برحمبوہن کی بیوی بل کھا گئی اور برحمبوہن کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ اس نے چھاتیوں کو زور سے دبا دیا۔“

”ہائے راجہ….“ اس کی بیوی کسمسائی اور برحمبوہن کی رگوں میں خون کی گردش یکلخت تیز ہو گئی۔ اس نے ایک جھٹکے میں انگیا نوچ کر پھینک دی اور اس کو پلنگ پر کھینچ لیا۔ وہ اس سے لپٹی ہوئی پلنگ پر گری اور ہنسنے لگی۔

برحمبوہن نے ایک نظر شےشے کی طرف دیکھا۔ بیوی کے ننگے بدن کا عکس دیکھ کر اس کی رگوں میں شعلہ سا بھڑک اُٹھا۔ اس نے یکایک خود کو کپڑوں سے ایک دم بے نیاز کر دیا۔ تببرحمبوہن کی بیوی اس کے کانوں میں آہستہ سے پھسپھائی۔

”ہائے راجہ….لوٹ لو بھرت پور)“

برحمبوہن نے اپنی بیوی کے منہ سے کبھی ”اوئی دیا“ اور ہائے راجہ“ جیسے الفاظ نہیں سنے تھے۔ اس کو لگا یہ الفاظ نہیں سارنگی کے سر ہےں جو نسیم جان کے کوٹھے سے بلند ہو رہے ہےں اور تب….

اور تب فضا کاسنی ہو گئی تھی…. شیشہ دھندلا گیا تھا…. اور سارنگی کے سر گونجنے لگے تھے۔

برحمبوہن بستر سے اُٹھا۔ سنگھاردان کی دراز سے سرمہ دانی نکالی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ کلائی پر گجرا لپیٹا اور گلے میں لال رومال باندھ کر نیچے اُتر گیا اور سیڑھیوں کے قریب دیوار سے لگ کر بیڑی کے لمبے کش لینے لگا۔

(ذہن جدید نئی دہلی فروری1993ئ)
———————————————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Ana ki Taskeen a Short Story by Noman Nazeer

Articles

انا کی تسکین

نعمان نذیر

چھت مسلسل چھلنی ہو رہی تھی گو یا کسی جنگ میں دشمن کی گولیوں کے نشانے پہ ہو اور اس میں مسلسل چھید ہو رہے ہوں۔ ان سوراخوں سے پا نی کے تیز رفتار قطرے خون کی دھاریوں کی ما نند چل رہے تھے۔ بارش تھی کی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ دسمبر کی اس با رش نے خون رگوں میں جما دیا تھا۔رضیہ اور اللہ دتہ اپنے بچوں کو مثل پرندوں کی اپنے پروں میں چھپائے بیٹھے تھے۔جیسے شکاری سامنے موجود ہو اور شکار اپنے بچاؤ کی آخری کوشش کر رہا ہو۔ اس قاتل موسم میں کچے کمرے میں موجود گرم انگیٹھی تو کب کی ٹھنڈ ی ہو چکی تھی بستر بھی مسلسل چھت ٹپکنے سے کافی حد تک گیلے ہو چکے تھے۔
رضیہ اور اللہ دتہ پیدائشی مفلس نہ تھے بلکہ ایک آفت کے مارے اس حال میں تھے۔ اللہ دتہ کے پاس وراثت میں ملی ۴ ایکڑ زمین تھی جس میں فصل اگا کے وہ اچھا گزر بسر کر رہے تھے۔اللہ دتہ کا باپ اب بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور بیمار بھی رہتا تھا۔اس کا ایک چھوٹا بھائی سکول میں اچھا طالب علم رہنے کے بعد اب کا لج میں داخل ہو چکا تھا۔سکول کے سب اساتذہ اس کی قابلیت کے متعرف تھے۔اللہ دتہ سے عمر میں آٹھ نو سا ل چھوٹا تھا اس نے تو پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہ لی اور باپ کے ساتھ کھتی باڑی کر نے لگا۔اب تمام خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اس پہ تھی۔اس لیے اس کی خواہش تھی کے اس کا بھائی پڑ لکھ کر اچھا مسقبل بنائے کیھتوں میں کیا رکھا ہے مٹی میں مٹی ہو نا۔
حبیب اللہ نے میڑک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پا س اور مز ید تعلیم کے لئے شہر میں کا لج میں داخلہ لے لیا۔ گاؤں سے شہر کا فاصلہ بارہ تیرا میل تھا۔ساتھ کے گاؤں سے ایک بس روز صبح شہر کو جا تی اورشام سے قبل واپس آجا تی اس لئے اس کا شہر جا نا زیادہ مشکل نہ ہوا۔کالج میں بھی جلد ہی اس نے نمایاں طالب ِ علوں میں جگہ بنا لی۔گاؤں میں بھی سب اس کو بڑی عزت دیتے تھے کہ وہ گاؤں والوں کے لئے فخر کا باعث تھا۔بل کھاتی سڑکوں پہ وہ زندگی کی منزلوں کا متلاشی تھا۔
حبیب اللہ نے ایف۔ایس۔ سی میں کامیابی کے بعد بی۔ایس۔سی میں داخلہ لے لیا۔اس کو سکالر شپ مل گئی جس کی وجہ سے بھائی پہ خرچے کا زیادہ بوجھ نہ پڑا۔وہ کا لج سے چھٹی کے بعد ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے کے بعد گھر آتا۔اس نے کچھ رقم جمع کر کے اور کچھ بھائی سے لے کر ایک پرانی موٹر سائیکل لے لی تاکہ شہر ٓانے جا نے میں آسانی ہو۔ پورے گاؤں میں سے وہ چند ایک پڑے لکھے لوگوں میں سے ایک تھا گاؤں کے نوجوان زیادہ تر زمینداری، غلہ بانی کی طرف راغب ہو جا تے۔گاؤں کا سب سے بڑا زمیندار چوہدری عبدالعزیز تھا۔ چوہدری صاحب نیک سیرت،ہمدرد اور غریبوں کے خیر خواہ تھے صلوۃ و صوم کے پابند۔۔۔۔۔۔!! لیکن حبیب اللہ کے تعلیم حاصل کرنے کی خبر نے ان کے دل میں کوئی خاص خوشگورگی کا احساس پیدا نہ کیا۔۔۔۔ چوہدری کا اپنا بیٹا نہ تھا اس کی واحد اکلوتی اولاد ایک بیٹی تھی۔اس کی واحد اکلوتی وارث لیکن چوہدری کی طبیعت میں اسی قدر حرص و لالچ بھی شامل تھا۔اس کا بھائی شہر میں رہتا تھا اس کے تین بیٹے تھے جو وہیں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک اپنا کاروبار چوہدری کی نسبت ان کا مزاج روشن خیال تھا لیکن چوہدر ی فرسودہ خیالات کا مالک تھا۔اس کی بیٹی”عالیہ“بمشکل میڑک پاس کیا اور چوہدری نے اسے شہر کے مشہور کالج میں داخل کرویا جبکہ عالیہ کی طبعت پڑھائی کی جانب ہو نے کے برابر تھی۔ایک روز چوہدری نے اللہ دتہ کو ڈیرے پہ بلایا،اس سے حبیب کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ وہ حویلی میں آکے چھوٹی چوہدرانی(عالیہ) کو آکے پڑھایا کرے۔ اللہ دتہ جی سرکار جو آپ کا حکم وہ ضرور آئے گا اور سر کے بل چل کے آئے گا۔۔۔۔ حبیب بھائی کی تا کید کے مطابق شام کو حویلی پہنچا اس کوعام لو گوں کی طرح بیٹھک میں نہیں بٹھایا گیا۔ چوہدرانی نیک اور رحم دل خاتون تھی وہ حبیب کے سا تھ بہت عزت سے پیش آتی وہ اُسے استاد کا درجہ دیتی اور بیٹوں کی طر ح سمجھتی جبکہ چوہدری کا رویہ یکسر مختلف تھا۔عالیہ کا رویہ پڑھائی کی جابب کچھ اچھا نہ تھا۔لیکن وہ حبیب کے سا تھ بہت عزت سے پیش آتی۔ دو ماہ گذر گئے عالیہ کے امتحان قریب آگئے اس نے با پ سے کہلوایا کہ اب اس کو حبیب کی زیادہ ضرورت ہے وہ اسے امتحانات کے دوران زیادہ وقت دے تا کہ اس کا نتیجہ اچھا آئے۔ وہ اس کی اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی اس کی با ت کو کیسے رد کر سکتا تھا سا تھ ہی اس کو یہ خوشی بھی ہو ئی کہ اس کا پڑھائی میں دل لگ گیا۔۔۔۔۔ عالیہ حبیب کی منتظر رہتی اس کی آنکھوں کی چمک کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ حبیب کو ایک دو با ر اس با ت کا شک ہو لیکن اس نے زیادہ توجہ نہ دی۔ عالیہ اس کے باتوں سے زیادہ اس کی طرف توجہ دینے لگی۔عالیہ نے اس سے اظہار کر دیا کہ وہ اسے پسند کرنے لگی ہے حبیب نے اس با ت پہ تعجب کا اظہار کیا اور اس ڈانٹا بھی لیکن وہ اس کی تما م باتوں کو برداشت کر گئی لیکن با ت سمجھنے کو تیا ر نہ ہوئی۔حبیب اس بات کا خوف نا ک انجام جا نتا تھا لیکن وہ فل وقت آنے سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اس کی سوچوں کی گھتی مزیدالجھ رہی تھی۔عالیہ جذباتیت کی اس انتہا پہ تھی جہاں کوئی نصحت کار گر نہیں ہو تی۔
سردیوں کے خاتمے کے بعد بہار کے موسم کی آمد آمد تھی۔ گاؤں کے ہر سو ہریالی کی بہار تھی گندم کی ٖفصل جواں تھی سٹوں میں دانہ پڑ چکا تھا سرسوں کے پھول ختم ہو کہ پھلیوں کی صورت میں ڈھل چکے تھے۔دوپہر کے وقت کریم عالیہ کو حساب کے پر چے کی تیاری کروا رہا تھا۔چوہدری صاحب ڈیرے پہ تھے۔عالیہ کے پرچے جلد ہی شروع ہو نے والے تھے۔عالیہ کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ مشکل سے ہی ایسی نظر رائیگاں جا تی ہے۔عالیہ نے پھر وہی مو ضو ع چھیڑا لیکن کریم نے تو جہ نہ دی۔عالیہ نے بسی کے آنسو بہانے لگی حبیب نے گھبراہٹ کے عالم میں اس کو سمجھانے کی بہت کو شش کی۔اس نے شفقت سے اس کے سر پہ ہا تھ رکھا۔ عالیہ رونے ہو اس کے گلے لگ گیا اس نے خود کو الگ ہو نے کی بہت کو شش کیا لیکن وہ پھوٹ پھو ٹ کر رو نے لگی۔ اچانک چوہدری صاحب آگئے بیٹی کو اس حالت میں گاؤں کیاایک معمولی لڑکے کے سا تھ دیکھ کر یک لخت سکتے میں آگئے۔ ایک لمحے کے بعد وہ وہاں سے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔ کئی راتوں تک وہ سو نہ سکے لیکن اس راز کو فاش نہ کیا کہ اس میں اپنی عزت کے تاتار ہونے کا اندیشہ تھا۔
چند دن بعد ایک خبر جنگل میں آگ کی طر ح پھیلی کہ چوہدری عبدالعزیز کے گھر میں چوری ہو گئی ہے اس میں لاکھوں مالیت کے زیورات کے علاوہ نقدی بھی شا مل تھی۔حبیب کے امتحا نا ت کے سلسلے میں کا لج سے چھٹیاں تھی اور وہ اس کی تیاری کر رہا تھا۔ اپریل کے مہینے کا آغاز تھا وہ صحن میں موجود دریک کے درخت کے پتلی چھاؤں میں چارپائی پہ بیٹھا پڑھائی میں مشغول تھا کہ اچانک گھر کے پرانے زنگ آلود دروازے پہ دستک رضیہ نے دروازہ کھولا تو پولیس کی وردی میں ملبوس چار سپاہی اندر آئے اورحبیب جو چار پائی سے اُٹھنے کا اردہ ہی کر رہا تھا آدبوچااُس کو ہتھکڑیاں لگا کر جانے لگے وہ حیران تھا رضیہ رونے لگی حبیب نے بھی حیرت اور پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ آخر قصور کیا ہے پولیس والے اس کو گاڑی میں بٹھاتے ہو ئے صرف اتنا بولے ”چوری“۔۔۔۔چوہدری عزیز کے گھر چوری نمک حرام نے۔۔۔۔چوری کی!!
جیل کے تاریک کمرے میں وہ بیٹھا اسی سوچ میں غرق تھا جرم۔۔۔کیسا جرم۔۔عالیہ کا مجھ سے محبت کرنا۔۔ کیونکہ میں میری حثیت۔۔ سوچوں کا جال الجھتا ہی جا رہا تھا۔اس کو ایک ایسے جرم کی سزا دی جا رہی ہے جس میں اس کا کو ئی قصور بھی نہیں۔ لیکن اس راز کو کبھی اس نے بھی فاش نہ کیا۔ کریم کے بھائی نے بہت دوڑ دوپ کی لیکن ایک عام دیہاتی غریب آدمی کی کون سنتا۔آخر کار چوہدری کی لاکھوں کی چوری تھی۔۔۔۔سال بھر میں دو ایکڑ زمین بک گئی لیکن اس کی رہائی نہ ہوئی۔اللہ دتہ بہت رویا منت سماجت کی لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔عالیہ نے اپنے باپ کو ساری بات بتائی کی اصل قصور وار وہ خود ہے اس پہ چوہدری صاحب نے بہت مہربانی کہ بقایا دو ایکڑ زمین کے بدلے صلح ہو گئی اور حبیب ڈیڑھ سال کی قید با مشقت کے بعد رہا ہو گیا۔اس دوران اس کا بوڑھا باپ جوان بیٹے کے دکھ میں دنیا سے چل بسا۔بھائی کے پاس بھی اب کچھ نہ بچاتھا۔ زمین مال مویشی سب بک گیا۔اللہ دتا محنت مزدوری پہ آگیا زمین جو اس کی آس اس کا مان تھی اب چوہدری کے پاس تھی۔حوالات میں بے جا تشدد کے باعث حبیب کی ہڈیاں کمزور ہو گئیں اس کی صحت نے بھی جواب دے دیا سانس کی تکلیف دمے کی صورت اختیار کر چکی تھی۔اللہ دیہ ان سب مشکلات کو برداشت کرتے کرتے قبل از وقت بوڑھا اور کمزور ہو رہا تھا مگر پھر بھی حوصلہ نہ ہارا۔حبیب سارا دن گھر میں پڑ ا اس خوف ناک وقعے کی وجہ سوچتارہتا۔ گھر کے درو دیوار اس کو قید سے کم نہ لگتے اب وہ اپنی بیماری سے بھی لڑ رہا تھا اور حالات سے بھی۔گھر کے حالات دن بہ دن خستہ حالی کا شکار ہو ر تھے۔کھیتی باڑی کے لئے اب زمین بھی نہ تھی۔اللہ دتہ اب محنت مزدوری کرتا تھا۔حبیب دو ہفتے بعد شہر میں سرکاری ہسپتال میں گھنٹوں قطاروں میں لگ کے دوائی لے کہ آتا غریب کا واحد سہارا سرکاری ہسپتال ہی ہو تا ہے جس میں ڈاکٹر تک پہنچنے کے لئے بھی صبرو استقامت سے کا م لینا پڑتا ہے۔حبیب کو علا ج سے زیادہ افاقہ نہ ہو رہا تھا۔اس کے مرض میں بتدریج اضافہ ہی ہو تا رہا۔
اللہ دتہ سارا دن چوہدری کے ہاں کام کاج کرتا۔ چوہدری اس کی ایمانداری اور کام کی لگن سے خو ش تھا۔ایک دن اس نے اسے ڈیرے پہ بلایا اس کے کام کی تعریف کی اور کہا کہ اس ڈیرے کے تمام کام کی دیکھ بھا ل وہ کرے گا اور حساب کتا ب کے لئے اپنے بھائی حبیب کی مدد بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ پڑھا لکھا نو جوان ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر سخاوت یہ کہ اگر وہ چاہے تو ڈیرے پہ ہی اپنی رہائش رکھ سکتا ہے یہ سب ایک درد دل اور ہمدر انسان ہی کہہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔چوہدری جی آپ ہمارے مالک ہیں آپ کے سواء ہمارا اور ہے کون آپ کے اعلٰی ظرفی ہے جو اس غریب کو اس قابل سمجھا۔اللہ دتہ شکرانہ انداز میں بو لا۔
حبیب کو احساسِ ندامت ہر وقت ستاتا کی اس کی وجہ سے سارا خاندان تباہ ہو گیا۔یہ خیال اس کے دل پہ چرکے لگاتا۔بھائی نے اس کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا دیا اور اب بھی اس کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیا ر ہے کہ کسی طرح اس کی صحت بحا ل ہو جائے اور اپنی پڑھائی پھر سے شروع کرکے اپنا اچھا مستقبل بنا سکے۔حبیب حسب معمول دوا کی خاطر ہسپتال گیا تو ڈاکٹروں نے اس کو داخل کر لیا اس کے مزید ٹیسٹ بھی کراوئے۔ اس کو ٹی بی کا مرض تشخیص ہوا۔ ڈاکٹروں نے اس کو اچھے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جس کا خرچ تو زیادہ لیکن سہولیات تما م موجود تھیں۔اللہ دتہ نے چوہدری سے قرض لے کر اس کے علاج کا بندوبست کیا۔ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا۔اللہ دتہ ہر دوسرے دن اس کی خیر خبر لینے آتا۔وہ سارا دن ہسپتال میں لاورثوں کی طرح پڑا بھائی کی راہ تکتا رہتا۔اس وارڈ میں موجود دوسرے مریضوں کے عزیز و اقارب آتے تو ان کو دیکھ اس کا دل بیٹھ سا جاتا جو جاتے ہو ئے اس پہ بھی ہمدردی کی ایک نگاہ ڈال جا تے۔۔۔۔۔۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں سے لے کر خاکروب تک سھبی اس کو جاننے لگے آتے جا تے اس سے خیریت دریافت کر تے۔جو آپس میں بات کرتے تو کہتے بے چارہ غریب جوان۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی آتا آکے مل کے واپس چلا جا تا اس کے سواء کر بھی کیا سکتا تھا سب کچھ لُٹا دینے کے بعد اب اگر محنت مزدوری بھی نہ کرتا تو جسم اور روح کا رشتہ کیسے برقرار رہتا۔اس کے دو معصوم بچے بھی تھے جو اب دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج تھے۔ہسپتال میں حبیب کو آئے دو ہفتے بیت چکے تھے۔ڈاکٹروں کو اب اس کی بہتر ی کی کا فی اُمید نظر آنے لگی تھی۔ بظاہر اب اس کی حالت اب ویسی نہ تھی جیسے دو ہفتے پہلے سے اب بہت بہتر تھا۔ایک سہ پہر اس کو اچانک کھانسی کا شدید دورہ پڑا اس کے ساتھ ہی اُسے ایک خون آلود قہہ آئی۔اس کی حالت خراب ہو نے لگی۔ ڈیوٹی پہ معمور وارڈ نرس نے ڈاکٹر کو بلایا اس کا سا نس اکھڑ رہا تھا۔ اس کی سانس کی بحالی کی پوری کوشش کی گئی۔ڈاکٹروں اور نرسوں کی آنکھیں سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی جا نب دیکھنے لگے ان نظر وں میں ہی جواب تھا۔۔۔۔۔۔سوری۔۔۔
گاؤں مں اس قابل ہونہار نوجوان کی لاش پہنچنے پہ کہرام مچ گیا ہر کوئی اشکبار تھا۔ چوہدری صاحب نے کفن دفن کا بندوبست کرایا۔ لواحقین کی خوب داد رسی کی۔کیونکہ وہ سب کے ہمدرد تھے۔۔۔۔اللہ دتہ کئی روز تک بھوکا پیاسا روتا رہا بھائی کی قبر سے نہ ہلا مگر۔۔۔زندگی بہت کچھ کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ عالیہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے بہت آہ زاری کی اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذمہ دار باپ کو ٹھہرا اس راز کو فاش کر دیا جس نے کئی زندگیاں اُجاڑی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن چوہدری انا پرست تھا کیوں کہ وہ با اختیار تھا عالیہ کی محبت یک طرفہ تھی اس بات کو جاننے کے باوجود اس کی انا کی تسکین ابھی نہ ہوئی تھی۔
چند ماہ بعد ہی چوہدری نے قرض کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ اللہ دتہ تو دو وقت کی روٹی کا محتاج تھا وہ قرض کی واپسی کو اتنا جلدی رقم واپس کر نا اس کے بس میں نہ تھا۔ چوہدری نے چند ماہ کے انتظار کے بعد قرض کے بدلے اللہ دتہ کا گھر بھی کے لیا اُس کو رہنے کے لئے ڈیرے پہ جانور باندھنے والے کمروں سے متصل ایک کمرہ رہنے کے لئے دیا تاکہ وہ اس کی ملازمت بھی کرتے رہیں۔