وہ اسٹوری ٹیلر کے نام سے اس قدر مشہور ہو چکی تھی کہ لوگ اس کا اصل نام تک نہیں جانتے تھے۔کبھی کبھی اس کے فن اور شخصیت پر کوئی مضمون شائع ہوتا تو اس کا اصل نام سامنے آجاتا تھا ورنہ وہ زمانے کے لئے اسٹوری ٹیلر ہی تھی۔ دنیا کے بہت سے ملکوں کے بڑے بڑے شہروں میں اس نے اپنے شو کئے تھے۔وہ کئی زبانوں پر عبور رکھتی تھی،اس نے کہانی سنانے کے فن کو بلندیاں عطا کی تھیں۔وہ شاندار قصّہ گو تھی۔اس کی تخلیق کردہ کہانیاں بے حد دلچسپ اور نرالی ہوتی تھیں۔ اس نے اپنی کہانیاں سنانے کے لئے داستانوی انداز اختیار کیا تھا۔اسٹوری ٹیلر کے خیال میں لوگ وہاٹس اپ،فیس بک اور سوشل میڈیا کی دیگر مصروفیات سے اکتا چکے تھے۔اس نے کتابیں لکھنے اور فلم یا ٹی وی کے لئے اسکرپٹ لکھنے کے بجائے اسٹوری ٹیلنگ کا طریقہ اختیا ر کیا۔
وہ ایک پروگرام کی بڑی رقم وصول کیا کرتی تھی۔اس کے شو بڑی بڑی کمپنیاں منعقد کراتی تھیں۔ جس کے ٹکٹ مہنگے دام میں فروخت ہوتے تھے۔پروگرام کے منتظمین کو با مشکل تمام اس کی تاریخ ملا کرتی تھی۔اس کی شہرت امیر اور اعلی طبقے میں زیادہ تھی۔وہ معاشرے کی ہائی سوسائٹی کے لئے تفریح اور لطف اندوز ہونے کا نیا انداز بن کر ابھری تھی۔ اس کے مداحوں میں بڑے آفیسر،ڈاکٹر، بزنس مین، فنکار،اسپورٹس مین اورفلم اسٹار بھی شامل تھے۔ اس کے شو دیکھنے والوں کو سماج میں عزّت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
آج کی اس کی یہ اسٹوری ٹیلنگ ایک بڑے ملک کی راجدھانی کے ایک عظیم الشان آڈیٹوریم میں منعقد کی جا رہی تھی۔وہ اس ملک میں اپنی داستان پہلی بار سنا رہی تھی۔لوگ بے قراری سے اسٹوری ٹیلر کے اسٹیج پر جلوہ افروز ہونے کے منتظر تھے کہ پروگرام کا آرگنائزر اسٹیج پر آیا اور سامعین سے مخاطب ہوا:
”دوستوں! آپ کا انتظار اب ختم ہونے جا رہا ہے۔ہمارے ملک کے لئے، ہم سب کے لئے یہ فخر کا مقام ہے کہ اسٹوری ٹیلر نے ہماری درخواست پر ہمارے ملک میں شو کرنے کی منظوری دی۔اب آپ کچھ ہی دیر میں اسٹوری ٹیلر آپ سے روبرو ہونگی۔ہم اپنے ملک کی طرف سے، اپنی کمپنی کی طرف سے اور آپ سب کی طررف سے اسٹوری ٹیلر کا تہہ دل سے خیر مقدم کرتے ہیں۔ تو صاحبوں استقبال کریں اسٹوری ٹیلر کا۔“
ارگنائزر شکریہ ادا کر کے چلا گیا تو اسٹوری ٹیلر اپنے مخصوص انداز میں اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئی، وہ بے حد حسین اور دلفریب لگ رہی تھی۔اس کا چست لباس اس کی دلکشی کو ابھار رہا تھا۔ اس نے ایک ادائے دلربائی سے سامعین کی طرف فلائنگ کس اچھالی۔ مگر اسے بے حد حیرانی ہوئی کہ ناظرین محض اسے دیکھے جا رہے تھے۔ اسے اپنی کس کا کوئی بھی ردِعمل ان کی طرف سے نہیں ملا۔ ایسے موقعوں پر اکثر ناظرین سیٹیاں بجانا شروع کر دیتے تھے اور تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے ہال کی دیواریں دہل جاتی تھیں۔
”دوستوں!“ اسٹوری ٹیلر نے کان میں لگے مائک کو اپنے ہونٹوں کے آگے درست کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
” امید ہے کہ میری آج کی یہ کہانی، یہ تخلیق آپ کو ضرور پسند آئے گی۔آپ اس سے یقینا لطف اندوز ہوں گے۔
میری آج کی کہانی کا نام ہے ٹی او ڈی۔“
اس نے چند لمحے سامعین پر نگاہ دوڑائی تاکہ کہانی کے عنوان کا تاثر جان سکے، سارا مجمع دم بخود تھا۔ سب کی سانسیں تھم سی گئی تھیں۔ایک سکوت کا عالم تھا۔ اسٹوری ٹیلر کو عجیب سا محسوس ہوا۔
اس نے کہانی سنانی شروع کی۔
”ایک بہت عظیم الشان ملک تھا۔ جس کا نام گلستان تھا۔ اس کی شاندار تاریخ، اس کی تہذیب و تمدّن،ثقافت، اس کی شان و شوکت اور عظمت کا چرچہ دنیا بھر میں تھا۔مگر چند دہائیوں سے جن حکمرانوں نے ملک کی ذمہ داری سنبھالی تھی وہ اس کی عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے تھے۔“
یہ کہہ کر اسٹوری ٹیلر نے چند لمحوں کے لئے خاموشی اختیار کی اور ہال میں موجود لوگوں کی جانب نگاہ دوڑائی۔ خاموشی
مکمّل خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔۔۔اس نے آگے کہا۔۔۔۔۔”پھر اس ملک کی باگ ڈور ایک ایسے شخص نے اپنے ہاتھوں میں لے لی جو مکّار، چالاک اور موقع پرست تھا۔اس نے اپنے آس پاس خوشامد کرنے والوں فوج تیّار کر رکھی تھی،جو اس کے اشارے پر کام کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ملک کے کچھ دانشوروں کی خیال میں وہ بہت بڑا احمق تھا۔ اسی مناسبت سے وہ عوام کے ایک بڑے طبقے میں احمق ہی مشہور ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔احمق کی ’حماقت ‘ کے چرچے ملک سے نکل کر غیر ممالک میں بھی ہونے لگے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ملک جادونگری کو اس کی حماقتوں کا علم ہوا تو اس کے حاکم جادوگر نے فوراََ حکمتِ عملی تیار کی اور اس پر عمل پیرا ہونے کے لئے احمق کے ملک کے سفر کا ارادہ کیا اور احمق کو بھی جادونگری میں آنے کی دعوت دی۔“
اسٹوری ٹیلر کچھ دیر رکی اور لمبا سانس کھینچ کر پھیپھڑوں کو تازگی بخشنے کے بعد گویا ہوئی۔۔۔۔۔۔” معزز حاضرین! یہ بات واضع رہے کہ جادونگری نے اپنی جادوگری سے کئی ملکوں پر غیر اعلانیہ قبضہ کر لیاتھا۔ جادوگر تمام دنیا پر اپنا جادو چلانا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔اب اس کی نظریں گلستان پر تھیں۔اس کے لئے یہ سنہری موقع تھا۔جادوگر گلستان پر اور بالخصوص احمق کی کارگزاریوں پر گدھ کی نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ملک گلستان کی بائیں بازو کی خفیہ رپورٹ تو یہ بھی بتاتی تھی کہ احمق کا گلستان کا حاکم بننے میں جادوگر کا ہاتھ تھا۔ احمق نے اب جادو نگری کی چوکھٹ پر حاضری دینا شروع کر دی تھی۔
اس بار جب احمق جادونگری کے سفر پر گیا تو جادوگر اسے اپنے طلسماتی محل کے خفیہ کمرے میں لے گیا اور بولا۔۔۔۔۔ ”دیکھئے حاکمِ گلستاں! ہم چاہتے ہیں کہ گلستان ترقی کرے، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔“ جادوگر خاموش ہو گیا۔
”مگر کیا حضور۔۔۔“ احمق نے اپنی نہ نظر آنے والی دم ہلاکر وفاداری کا ثبوت دیا۔۔۔۔”آپ تو بس حکم کریں۔۔“
”دراصل بات یہ ہے کہ گلستان کی عوام بیدار مغز نہیں ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ خوابوں کی دنیا میں رہتی ہے،اپنی خیالی دنیا سے باہر ہی نہیں آتی۔“ جادوگر نے اپنے چہرے پر زبردستی فکر کے تاثرات لاتے ہوئے کہا۔
”میں جانتا ہوں حضور، مجھے اپنے ملک کی عوام کی نادانیوں کا اعتراف ہے۔“احمق نے مایوسی کا اظہار کیا۔”حضور، آپ کچھ مدد کریں، میری رہنمائی فرمائیں۔“
ہاں ہاں کیوں نہیں۔“ جادوگر کسی ایسے ہی موقع کی تلاش میں تھا۔اس کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ تھی۔۔”اگر آپ چاہتے ہیں تو میں مدد کو تیار ہوں۔ اس کے لیے آپ کو اپنی عوام سے ایک ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس ٹیکس کی وصولی کے لیے جس طرح کی بھی مدد کی ضرورت ہوگی جادونگری کرے گی۔“
ایک اور نئے ٹیکس کے نام پر احمق خوش ہو گیا، اسے جنتا پر نئے نئے ٹیکس لگانے کا خبط تھا۔
”حضور! اب یہ بھی بتا دیجئے، یہ ٹیکس کس طرح کا ہوگا اور مجھے کیا کرنا ہے؟“ احمق نے پوچھا۔
”دیکھئے، ہم چاہتے ہیں کہ۔۔۔۔“ جادوگر نے نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔”دنیا کا ہر ملک ترقّی کرے۔ پسماندہ ملک ہو یا پھر ترقی پذیر۔ترقی کرنا، آگے بڑھنا، ہر انسان،طبقے، قوم اور ملک کا حق ہے۔ ہم نے ’عالمی جادوئی تنظیم‘میں بھی اس بات کا اظہار کیا تھا کہ عوام کو ایک دوسرے سے نفرت اور خود غرضی سے دور رکھا جائے اور عالمی سطح پر بھی امن اور بھائی چارہ پھیلے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک خوب آگے بڑھے، کیوں کہ آپ ہمارے دوست ہیں۔“جادوگر نے ٹیبل سے مشروب اٹھا کر احمق کی طرف بڑھایا۔ جادوگر کے اس رویّہ میں مہمان نوازی کا عنصر کم اور شکار کو پھانسنے کا معاملہ زیادہ محسوس ہو رہا تھا۔ جادوگر نے آگے کہا۔۔۔۔۔
”دیکھیے حاکم ِ گلستاں!جادونگری کے ایک سائنسداں نے ایک ایسی ایجاد کی ہے، جس سے کسی بھی انسان کے خوابوں کو ریکارڈ کیا جا سکتا ہے۔ایک بہت چھوٹی سی چپ کو جس انسان کے بازو میں معمولی سے آپریشن کے ذریعے فٹ کر دیا جائے گا، وہ جب بھی کوئی خواب دیکھے گا، ایک مخصوص کمپیوئٹر میں ریکارڈ ہو جائے گا، وہ خواب جاگتی آنکھوں کا ہو پھر نیند میں آنے والا خواب ہو۔“
”تو پھر۔۔۔۔؟“ احمق نے اپنی حماقت دکھائی۔
”پھر کیا۔۔۔سمجھو۔۔۔۔“ جادوگر نے جھنجھلا کر کہا۔ ” پھر یہ کہ آپ کو اپنے ملک کے ہر باشندے کے بازو میں یہ چپ فٹ کرانی ہوگی اور تب جو بھی کوئی دیکھے گا، اس سے ٹیکس وصول کرنا ہوگا۔ اس سے دو فائدے ہوں گے، اوّل یہ کہ ٹیکس کی رقم سے فلاحی کام کرائیے گا اور دوسرے آپ کی عوام خوابوں سے نکل کر عملی دنیا میں میں آجائے گی۔ آپ کا ملک تیز رفتاری سے ترقّی کرے گا۔“
یہ سن کر احمق کو کچھ تشویش ہوئی، اس نے اپنی ساری ہمّت و حوصلہ سمیٹ کر کہا۔۔۔۔۔ ”حضور جان کی امان پاؤں تو عرض کروں؟۔۔۔۔۔۔اس چپ کا استعمال آُ پ اپنے ملک کی عوام پربھی کر رہے ہیں؟“
جادوگر نے احمق کو ایسے دیکھا جیسے یہ سمجھنے کوشش کر رہا ہوکہ اتنی سمجھداری کی بات اس کے دماغ میں آئی کیسے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا جواب دوں۔۔۔۔”جادونگری کی عوام خواب نہیں دیکھتی عمل کرتی ہے۔“ یہ جملہ تیزی سے کہہ کر جادوگر نے میٹنگ کے خاتمے کا اشارہ کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمق نیا سبق سیکھ کر اپنے ملک گلستان واپس آیا۔اس نے فوراََ ایمرجنسی میٹنگ بلائی۔ جس میں اس نے تمام وزیروں اور عہدِ داروں کو اس چپ کی اطلاع دی۔ پھر اس نے باضابطہ اعلان کیا۔۔۔۔”ایک نیا محکمہ خواب و خیال قائم کیا جائے۔ اس محکمے کی تمام ذمہ داریاں میں خود سنبھالوں گا۔اس کی ضروری کاروائیاں جلد سے جلد شروع کی جائیں، اس کام میں کسی بھی طرح کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔“
کہانی سناتے سناتے اسٹوری ٹیلر اچانک خاموش ہو گئی، وہ مجمع پر نگاہیں دوڑانے لگی۔ ہر طرف خاموشی تھی، پوری طرح سنّاٹا۔ اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا، وہ سوچ رہی تھی کہ لوگ اس پر سوال کریں گے، بھلا ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔ مگر خاموشی بتا رہی تھی کہ انھوں نے اس بات کو قبول کر لیا ہے۔
اسٹوری ٹیلر نے اپنے مخصوص انداز میں دونوں ہاتھوں کو اوپر لے جا کر نیچے جھٹکا اور آگے کہا۔۔۔”اورجب یہ خبر عوام تک پہنچی تو پورے ملک میں ہنگامہ ہو گیا۔ اس نئے قانون کی زبردست مخالفت کی گئی۔لوگ یہ ٹیکس دینے پر کسی صورت راضی نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا ہم یہ آپریشن کرائیں گے ہی نہیں۔
مرکزی سطح پر جو محکمہ خواب خیال قائم کیا گیا تھا، اس کی صوبائی شاخیں بنائی جانے لگیں۔ ساتھ ہی ہر ضلع میں اس کے مراکز قائم کئے گئے۔ہر ضلع کے سرکاری اسپتالوں میں اس کا مخصوص شعبہ تیار کیا جانے لگا۔ حکومت نے اس کام کو تحریک کی شکل دے دی تھی۔دیگر محکموں سے بھی مدد لی جا رہی تھی۔ عوام الناس سے سیدھا تعلق بنانے کے لئے سرکاری کارندے جو نئیر ڈاکٹر کے ہمراہ گھر گھر جا کر آپریشن کرکے گیہوں کے دانے کے برابر چپ ہر شخص کے بازو میں لگا رہے تھے اور اس کا رابطہ ضلع کے محکمہ خواب وخیال کے دفاتر میں رکھے کمپیوٹر سے جوڑا جا رہا تھا تاکہ دیکھے گئے خوابوں کو ریکارڈ کیا جا سکے اور اس کا بل بناکر رقم وصول کی جائے۔
ظاہر ہے یہ کوئی معمولی اور چھوٹا کام نہ تھا۔اس کے لئے وقت درکار تھا۔اس کام میں خرچ ہونے والی رقم کے لئے جادونگری فنڈنگ کر رہی تھی اور ساتھ ہی اس نے اس کام کے لئے سائنس داں، ڈاکٹر اور دیگر ’ماہرین‘ کا بھی انتظام کیا تھا۔
دوسری طرف حکومت میں بائیں بازو کی طاقت اس ٹیکس کے سخت خلاف تھی۔مگر ان کی ایک نہ چلی۔حکومت کا کام جاری رہا۔عوام میں زبردست ہلچل تھی، اس کے خلاف جلسے، جلوس اور دھرنا پردرشن ہو رہا تھا۔ملک کا ذہین دانشور طبقہ بھی سڑکوں پر اتر آیا تھا۔ہر شہر کے پبلک پارکوں میں آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔
دفتروں اور چائے خانوں میں بھی اسی کا ذکرہو رہا تھا۔ ایک دفتر میں بڑے بابونے کہا۔۔۔۔ ”میرے خیال میں اس ٹیکس سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔“
”جناب! آپ کس بنیاد پر ایسا کہہ رہے ہیں؟“ دوسرے بابو نے مخالفت کی۔
”دیکھو بھائی، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے ملک کا حکمراں اور اس کی ٹیم بہت قابل لوگ ہیں۔ انھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ کرہی کیا ہوگا۔“ پاس میں بیٹھے کلرک نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
”وہی تو میں کہہ رہا ہوں۔“ بڑے بابو نے ٹیبل پر ہاتھ مارا۔۔۔۔”ہم سب کو خوابوں کی دنیا سے باہر نکلنا ہی ہوگا۔“
”یہ مت بھولو، دنیا میں جس کسی طرح کی بھی ایجادات ہوئی ہیں یا انسان نے کامیابی حاصل کی ہے اس کے پیچھے انسانوں کے خواب ہی تھے۔“ کلرک نے فائل کو ایک طرف کرتے ہوئے جھنجھلاہٹ سے کہا۔
”مگر میرے بھائی ایسے لوگ دنیا میں چند ہوتے ہیں، جن کے خواب انسانی نسل کے لئے مفید ہوں۔“ دوسرے بابو نے کہا۔
”ہمارے ملک کی عوام جس خوابوں کی دنیا کی دنیا میں رہتی ہے، وہ بے حد خطرناک ہے۔“بڑے بابو بولے۔
”آپ درست فرما رہے ہیں۔خوابوں پر ٹیکس لگنا ہی چاہئے۔“ کلرک نے چاپلوسی والے انداز میں کہا۔
”خوابوں پر ٹیکس۔۔۔اونہہ۔۔۔“ دوسرے بابو نے جھنجھلا کر اخبار کو ٹیبل پر پٹخ دیا اور دفتر سے باہر چلا گیا۔
ملک کی یونیورسٹیوں میں بھی اس کے خلاف چرچے ہو رہے تھے۔ ملک کی ایک مرکزی یونیور سٹی میں برابر احتجاج ہو رہا تھا۔ہزاروں کی تعداد میں طالب علم آزادی کا پرچم اٹھائے نعرے لگاتے گھوم رہے تھے۔۔۔۔۔
”ہم کیا چاہیں، آزادی!“
”سپنے دیکھنے کی آزادی“
”جینے کی آزادی“
”آزادی۔۔۔۔ آزادی۔۔۔آزادی۔۔“
مگر ان سارے ہنگاموں کا حکومت پر کوئی اثر نہیں ہوا۔“
اسٹوری ٹیلرنے دائیں جانب دیکھا جہاں کونے میں ٹیبل پر پانی کی چھوٹی چھوٹی بوتلیں رکھی ہوئیں تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹیبل کے قریب گئی۔اس نے پانی کی بوتل اٹھائی ایک ہی سانس میں بوتل خالی کر دی۔اس کے حلق سے پانی اندر جانے کی ’غڑپ غڑپ‘ کی آوازیں کان میں لگے مائک کی وجہ سے سب کو سنائی دے رہی تھیں۔
اسٹوری ٹیلر بہت پریشان تھی آخر کیوں آج کوئی ہاتھ اٹھا کر سوال نہیں کر رہا۔ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کہانی پر کسی کوکوئی اعتراض نہیں ہوا؟ دوسرے ملکوں میں تو اس کہانی پر کئی اعتراض ہوئے تھے۔۔۔۔ وہ آگے بولی۔۔۔”۔۔۔اور دوستوں آخر کار وہی ہوا جو احمق چاہتا تھا۔۔۔غریب اور لاچار عوام پر ایک اور ٹیکس لاد دیا گیا۔۔۔۔خواب دیکھنے کا ٹیکس۔جی ہاں ٹی او ڈی۔ یہ ٹیکس دو قسم کا تھا، ایک جاگتی آنکھوں والے خوابوں کا ٹیکس اور دوسرا نیند میں آنے والے خوابوں کا ٹیکس۔ دوسرے قسم کے ٹیکس کی رقم، پہلے والے ٹیکس سے کم تھی۔
سرکاری خزانے میں لگاتار رقم جمع ہو رہی تھی۔لوگ خود کو خواب دیکھنے سے باز نہیں رکھ پا رہے تھے۔وہ بہت کوشش کرتے کہ خواب نہ دیکھیں مگر۔۔۔۔بے خیالی میں خوا بوں میں کھو جاتے اور گھر پر لگا خوابی میٹر چل پڑتا۔غریب لوگ جتنا کماتے تھے، اس کا زیادہ تر حصّہ ٹیکس میں چلا جاتا تھا۔کبھی کبھی آمدنی سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑ تا تھا۔امیر اور اعلی طبقے کے لوگوں کو شروع میں ٹیکس ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی مگر بعد میں وہ بھی لگاتار پیسہ دیتے دیتے اکتا چکے تھے۔تب ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب کبھی کسی بھی حالت میں خواب نہیں دیکھیں گے۔“
اسٹوری ٹیلر کا گلا خشک ہو چکا تھا۔وہ تھکان محسوس کر رہی تھی۔ اس نے ایک بار پھر پانی پیا۔ اور نئی توانائی کے ساتھ کہانی کو آگے بڑھایا۔
”۔۔۔۔ تو دوستوں آپ کو کیا لگتا ہے کہ آگے کیا ہوا ہوگا۔؟۔۔۔۔“
اسٹوری ٹیلر خاموش ہوگئی اور جواب کا انتظار کرتے ہوئے،آگے کی قظار میں بیٹھے لوگوں کا چہرہ تکنے لگی۔ کوئی کچھ نہیں بولا۔ اسٹوری ٹیلر کو اس بات کی بالکل توقع نہیں تھی۔ وہ مایوسی کے انداز میں کہانی کو اختتام کی طرف لے جانے لگی۔
”کئی لوگوں پر تو اس بات کا ہی ٹیکس لگا دیا گیا کہ وہ خواب دیکھنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ تو پھر دوستوں! چند سالوں میں ہی صورتِ حال کچھ اس طرح ہو گئی کہ امیر اور اعلی طبقے کے لوگ غیر ممالک میں جا بسے۔ متوسط طبقے کے لوگوں نے بڑی تعداد میں خود کشی کر لی۔بے شمار لوگ حکومت سے بغاوت کرنے، فسادات اور بھوک سے مارے گئے۔
ایک سروے کے مطابق کل ۳۳ فیصد آبادی باقی رہ گئی تھی جس نے بنا خوابوں کے جینا سیکھ لیا تھا۔یہ وہ لوگ تھے جو ایک مشین میں تبدیل ہو چکے تھے، ان میں انسانی احساسات و جذبات ختم ہو چکے تھے۔یہ لوگ سانس لیتے تھے، مشین کی طرح کام کرتے تھے، مشین میں ڈالے جانے والے تیل،پیٹرول کی طرح کھانا کھاتے تھے اور جس طرح مشینوں کی کبھی کبھی صفائی ہوتی ہے، اس انداز میں سیکس کرتے تھے۔کچھ دیر بستر پر آرام کے لئے ایسے جاتے تھے جیسے مشین چلتے چلتے گرم ہو جاتی ہے تو اس کو ٹھنڈا کرنے کے لئے معمولی وقت کے لئے بند کر دیا جاتا ہے۔ترقّی تنزلّی، عزّت، ذلّت، اچھّائی برائی ان کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ تمام طرح کی جمالیاتی حس سے وہ ناواقف ہوچکے تھے۔“
اسٹوری ٹیلر ایک بار پھر خاموش ہو گئی۔ اس نے مایوسی کا ایک لمبا سانس چھوڑا۔۔۔۔ اور بولی۔۔۔۔۔ ”احمق جو ایک بار پھر ملک کا حکمراں منتخب ہو گیا تھا۔، وہ جادونگری کی چوکھٹ پر بیٹھا اپنے ملک کی بربای کے لئے آنسو بہا رہا تھا۔۔۔۔
”میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں سرکار، اب میں کیا کروں۔۔۔۔تمام طرح کی صلاحتیں گلستان سے ناپید ہو گئی ہیں، اب گلستان برباد ہو چکا ہے۔“
یہ سن کر جادوگر مسکرایا اور بولا۔۔۔۔”ارے تو اس میں گھبرانے کی کیا بات ہے؟ہم گلستان کی حفاظت کے لئے نہ کہ صرف یہ کہ اپنی فوجی طاقت کو آپ کے یہاں بھیجیں گے بلکہ ساتھ ہی ہر طرح کی صلاحتیں بھی بھیجیں گے اور یہی نہیں بلکہ ملک کو نئے سرے سے آباد کرنے کے لئے ہم جادونگری کی عوام بھی وہاں بھیجیں گے۔۔۔۔۔ اب تو خوش ہو نہ حاکمِ گلستاں۔۔۔۔۔ اور بولو۔۔۔۔“
یہ سن کر احمق خوش ہو گیا اور شکریہ ادا کرنے کے لئے جادوگر کے جوتے اپنی قمیض کی دامن سے صاف کرنے لگا۔“
اسٹوری ٹیلر نے ایک لمبی سانس چھوڑی اور تھک کر قریب رکھی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔۔۔
”بس اتنی سی تھی یہ کہانی۔“
اسٹوری ٹیلر کہانی مکمّل کر چکی تھی۔مگر اسٹوری ٹیلر کے لئے مقامِ حیرت تھا کہ سامعین میں سے کسی نے تالیاں نہیں بجائی تھیں، کسی بھی طرح کے ردِعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ یہ کیسے لوگ ہیں ہر احساس سے عاری۔ سارے سامعین کہانی سن کر آڈیٹوریم سے اس طرح باہر نکل رہے تھے جیسے ان کے بازو میں بھی کوئی چپ نصب ہو۔
٭٭٭
T O D a Short Story by Zakir Faizi
Articles
ٹی او ڈی
ڈاکٹر ذاکر فیضی
Chopati Beach a Short Story by Mohtashim Akbar
Articles
چوپاٹی بیچ
محتشم اکبر
سمرین جب آفس سے گھر پہنچی تو تھک کر چور ہوچکی تھی۔ آفس میں آج کام زیادہ ہی تھا۔ جس نے تھکان پیدا کردی تھی۔وہ گھر میں داخل ہوکر پرس ایک طرف پھینکا اور بستر پر گر پڑی۔ اس میں ذرّہ برابر قوت نہیں تھی کہ وہ فریش ہوکر اپنے لیے ایک کپ چائے بنائے۔ پلنگ پر لیٹتے ہی خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر خوابوں کے سمندر میں غوطے کھانے لگی۔ اسے اس بات کا بھی خیال نہ رہا کہ ناصر کے آنے کا وقت ہوگیا ہے۔ ابھی رات کا کھانا بنانا بھی باقی ہے۔ دوپہر کا کھانا تو اکثر باہر ہی کھاتے تھے۔ ایک ساتھ نہیں بلکہ اپنے اپنے دفتر میں اور رات کا کھانا وہ ہمیشہ ساتھ ہی کھاتے ۔
دروازہ کی بیل لگاتار بج رہی تھی۔ سمرین نیند کی آغوش سے باہر آئی۔کچھ دیر تک تو وہ سمجھ ہی نہیں پائی کہ کہاں ہے۔ آفس میں ہے یا گھر میں۔ بڑی عجلت میں اس نے دروازہ کھولا۔ سامنے اس کی زندگی کا رکھوالا ، اس کا ہم سفر ناصر کھڑا تھا۔ اس نے روزانہ کی طرح ناصر کو دیکھ کر اپنے چہرے پر ایک بھر پور مسکراہت بکھیری۔ ناصر نے گھر میں آنے کے بعد سمرین کو سینے سے لگا لیا اور پیار کرنے لگا۔ اس نے ناصر کو ہٹاتے ہوئے کہا رات ابھی باقی ہے۔ اوراس نے اُسے پانی پلاکر ٹھنڈا کیا ۔ مسکراتے ہوئے چائے بنانے چلی گئی۔ ناصر اخبار اٹھاکر پڑھنے میں محو ہوگیا۔ وہ خبریں بھی پڑھتا جارہا تھا اور سوچ بھی رہا تھا کہ آج کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں۔ ملک کا کیا حال ہورہا ہے کسی کو اس کی فکر نہیں۔ سب اپنی جیبیں بھرنے میں لگے ہیں۔ سارے گھوٹالے ہمارے ہی ملک میں کیوں ہورہے ہیں۔ ہمارے لیڈروں کا ضمیر کتنا مردہ ہوگیا ہے۔ کہیں کہیں تو زِنا کے واقعات کثرت سے ہورہے ہیں۔ مذہبی تفرقہ کو ہوا دی جارہی ہے۔ اپنے بچاؤ کے لیے کیسی کیسی گھناؤنی سازشیں کرنے میں مصروف ہیں ہماری اعلیٰ کمان ۔ کہیں ریڈیو پر یہ گانا بج رہا تھا ؎ دیکھ تیرے سنسار کی حالت کیا ہوگئی بھگوان کتنا بدل گیا ہے انسان
صبح بڑی اجلی اجلی تھی۔ دونوں کے چہرے خوشیوں سے ایسے دمک رہے تھے جیسے سورج کی پہلی کرن سے سنسار دمکنے لگتا ہے۔ انھوں نے آفس جانے کی تیاری شروع کردی ۔ناصر کو آفس جلدی جانا تھا اُس لیے وہ سمرین کے لیے بغیر ہی چلا گیا۔ وہ اکیلی رہ گئی۔ آفس جانے میں ابھی دیر تھی۔ اُس نے سوچا کیوں نہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اخبار کا مطالعہ کرلوں ۔ جیسے ہی اس کی نظریں جلی سرخیوں پہ آکر رک گئی اس میں لکھا تھا کہ ایک بوڑھے نے بارہ سالہ لڑکی کی عصمت دری کی۔ خبر پڑھ کر وہ سہم گئی۔ اس کے چہرہ پر ڈرو خوف کے سائے منڈرانے لگے۔ وہ اکثر آتے جاتے سفر کے دوران لوگوں کی ہوس بھری نظروں کو اپنے اندر اترتا محسوس کرتی۔ کبھی تو اس کو ایسا محسوس ہوتا کے یہ سارے مرد اپنی آنکھوں کے ذریعے اس کی لگاتارعصمت دری کر رہے ہیں۔ یہ سب سوچتے ہوئے وقت کا احساس نہیں رہا ۔
سمرین معمول کے مطابق بس اسٹاپ پر پہنچی ۔ وہاں بھیڑ کا یہ عالم تھا کہ تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ اس کو سب سے آخر میں کھڑے رہنے کی جگہ ملی۔ اس بھیڑ میں اُسے سب مرد ہی مرد نظر آرہے تھے۔ وہ اُن مردوں کا جائزہ لینے لگی۔ اُسے ایسا محسوس ہوا کہ ان مردوں کی آنکھوں میں اسے ہوس نظر نہیں آئی بلکہ ناصر کی طرح شرمیلا پن نظر آیا۔ اس نے لائن میں کھڑی دوسری عورتوں کی طرف دیکھا تو اُسے اُن کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی ہوس نظر آئی۔ سمرین کو ایسا محسوس ہوا کہ یہ عورتیں بھی مردوں کو میری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ وہ سوچنے لگی کہ کم سے کم کوئی بوڑھا ہی ناصر کے اندر سما جائے ۔ وہ کبھی کبھی تو اپنے آپ کو بہت معذور محسوس کرتی ۔ وہ سوچتی کہ یہ ساری باتیں ناصر کو صاف صاف بتا دے۔ لیکن وہ اپنے آپ میں یہ سب کہنے کی ہمت نہیں جٹاپاتی۔ اس نے کئی مرتبہ یہ بھی سوچا کہ نوکری چھوڑ دے ۔ گھر کے حالات اور ناصر کی ضد کی آگے اس کی ایک نہ چلی۔
ناصر پر اپنے بوڑھے ماں باپ ، پانچ جوان بہنوں کی ذمہ داری بھی تھی۔ وہ سمرین کی تنخواہ میں گھر چلاتا اپنی تنخواہ اپنے بوڑھے ماں باپ کو گاؤں بھیج دیتا تھا۔ اُس نے کئی بار کوشش کی کہ اس کے ماں باپ بھی اسی کے ساتھ شہر میں رہے ۔ لیکن ساس اور پانچ نندوں کو برداشت کرنے کی ہمت سمرین میں نہیں تھی۔ اس نے ہمیشہ ناصر کی مخالفت ہی کی ۔
سمرین اور ناصر چھٹی کے دن چوپاٹی گئے ۔ شادی سے پہلے وہ روزانہ ہی چوپاٹی کی بکھری ریت پر بیٹھ کر سمندر کی موجوں میں گم ہوکر اپنے مستقبل کے لیے نئے نئے خواب بنتے ، سجاتے۔ سمرین ریت میں اپنے پاؤں دھنساکر ایک گھر بناتی اور اس سے کہتی دیکھو ہم اپنا گھر ایسا ہی بنائیںگے۔ آس پاس سے ایک گانے کی آواز آرہی تھی۔
؎ جھل مل ستاروں کا ایک آنگن ہوگا رم جھم برستا ساون ہوگا۔ گانا سن کر دونوں اپنے خوابوں میں کھو جاتے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کی محبت بھی بڑھنے لگی۔ محبت کی بپھری ہوئی موجوں نے دونوں کو شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔ وہ چوپاٹی کی ٹھنڈی ریت پھر بیٹھے ماضی کے خیالوں سے باہر آئے تو انھیں ایسا لگا کہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ سمندر کی موجوں میں پہلے جیسا جوش نہیں ہے۔ سمرین نے ریت میں پاؤں دھنسا کر گھر بنانے کی کوشش کی تو اسے لگا کہ وہ گھر نہیں بنا پائے گی۔ جب اس نے اپنے پیر ریت سے نکالے تو اسے محسوس ہوا کے پیر زمین کے اندر دھنستے جارہے تھے اور وہ بہت کوشش کہ باوجود بھی انھیں باہر نہیں نکال پارہی تھی۔ ناصر کی طرف دیکھا تو اسے سمندر کی موجوں میں گم پایا۔ اس کو سمندر کی موجوں سے کھینچ کر سمرین نے اپنی بانہوں کے حالے میں قید کرتے ہوئے کہنے لگی۔ ہم نے اپنے مستقبل کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں ۔ میں چاہتی ہوں کہ آج کے بعد ہم اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے اولاد کی چاہت کرے۔جو ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنے۔
ان کی سوچ آسمان کی اونچائی کو چھو رہی تھی۔دونوںایک دوسرے میں اس طرح کھو گئے کہ وقت گزرنے کا اندازہ بھی نہیں ہوا۔ ان کی شادی کو پانچ سال ہوگئے تھے۔ زمانے کی تلخیوں سے ہٹ کر اُن کے پیار میں جولانی تھی ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورتوں کو سمجھتے تھے۔ اس نے ناصر کی دیکھ کر کہنے لگی ۔ ناصر… کیوں نہ ہم گھر چل کر اپنے بڑھاپے کے سہارے کے لیے کوشش کریں۔
ناصر نے سمرین کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور گویا ہوا … سمرین ابھی حالات ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ گھر میں کوئی نیا مہمان آئے اور ہمارا خرچ بڑھا دے۔ پھر اس کی دیکھ ریکھ کے لیے بھی تو کوئی گھر میں چاہیے۔اُس نے ناصر کو دیکھ کر منہ تیڑھا کیا اور خاموشی سے خلاؤ ںمیں گھورنے لگی ۔ دور اُفق میں اُسے اپنے خواب منتشر ہوتے نظر آئے۔
دونوں جب گھر پہنچے تو کافی رات بیت چکی تھی ۔ دونوں کے بیچ ایک ہلکی سے دراڑ نظر آرہی تھی جسے ناصر محسوس نہیں کرسکا ۔ صبح کی ضروریات سے فارغ ہوکر ناصر کو آوازدی ناشتہ تیار ہے۔ دونوں نے ناشتہ ایسے کیا جیسے انھیں زبردستی ناشتے کے لیے بٹھادیا گیا۔ دونوںنے ایک دوسرے بہت کم بات کی اور آفس جانے کے لیے نکل پڑے۔ باہر کا سماں بھی کچھ تلخ تلخ سا نظر آریا تھا ۔ ہوائیں بھی بغیر کسی آہٹ کے ، بغیر کسی تغیر کے اپنا سفر طے کررہی تھیں۔
آفس پہنچ کر ناصر نے اخبار اٹھایا اس کی نظر اخبار کی جلی سرخیوں پہ پڑی۔ خبر تھی کہ کل رات چوپاٹی بیچ پر ایک نا بالغ و معصوم لڑکی کی مسخ شدہ لاش ملی۔ پولیس کی خبر کے مطابق پہلے اس کی عصمت دری کے بعد اس کا قتل کر دیا گیا۔ یہ خبر پڑھ کر وہ دہل گیا ۔ کچھ دیر کے لیے اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ا سے کل چوپاٹی بیچ کی شام یاد آرہی تھی ۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر اس نے سمرین کو وہاں کچھ پل کے لیے بھی اکیلا چھوڑا ہوتا تو ہوسکتا تھا کہ یہ ہیبت ناک واقعہ اُس کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو کیا کرتا۔ ہمارا معاشرہ کتنا خونخوار ہوتا جارہا ہے۔
یہ خبر پورے ملک میں فیس بک اور واٹس آپ کے ذریعے پھیلتی جارہی تھی ۔ سمرین نے یہ خبر پڑھی اور اُس کا دل خوف سے کانپ اُٹھا۔ اپنے آپ کو وہ بالکل معذور سا محسوس کرنے لگی اور سوچنے لگی کہ انسان کتنا بدلتا جارہا ہے۔ درندوں کی صفت اس میں کہاں سے آتی جارہی ہے ۔جب وہ آفس سے گھر جانے کے لیے نکلی تو راستے میں ایسا لگا کہ کوئی اس کا تعاقب کررہا ہو۔ جب وہ بس میں سوار ہوئی تو اس نے دیکھا کہ بس میں اکیلی ہے۔ بس مردوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس نے سارے مردوں کو اپنی طرف ہوس بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پایا ۔اسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان میں اڑتا ہوا باز زمین پر اپنے شکار کو دیکھ کر اس پر جھپٹ پڑنے کے لیے پَر تولتا ہے۔ اس کے چہرے پر ڈروخوف کے آثار پھیلنے لگے۔ وہ سوچنے لگی کہ کہیںدلّی میں ہوئے ہولناک ، ہیبت ناک حادثہ کی طرح اس کے ساتھ بھی نہ پیش آئے۔ وہ لوگو کے نگاہوں میں بسی درندگی کو دیکھ کر سہم گئی۔ کیوںکہ وہ جانتی تھی کہ چہرہ انسان کی اضطرابیت کو ظاہر کردیتا ہے۔ چہرے ہی تو انسان کو بے قابو ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔آج تک جتنے بھی واقعات ہوئے ان سب کے محرک چہرے ہی تو بنے ہیں۔
سمرین جب گھر پہنچی تو ناصر کو گھر میں موجود پایا۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ وہ شاید اس کی آنکھوں میں وہی درندگی دیکھنا چاہتی تھی جو اس نے بس میں سوار لوگوں کے آنکھوں میں دیکھا تھا۔ لیکن اُس کی آنکھوں میں اسے کچھ بھی ایسا نظر نہیں آیا۔ سمرین کے دماغ میں ناصر کے متعلق بہت کچھ چل رہا تھا۔ کیوں کہ اُس نے چوپاٹی پر بیٹھ کر سمرین کی کئی خواہشوں کو ریت میں دفن کردیا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ کاش کوئی درندہ ہی ناصر کے اندر اتر آئے۔
——————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
The fourth Artist a Story by Shabbir Ahmad
Articles
چوتھا فنکار
شبیر احمد
بوڑھے نے بڑی احتیاط سے ہونٹوں کے ایک کونے میں بیڑی دبائی اور پھر سے وہی قصہ چھیڑا۔ یہ قصہ سناتے وقت بوڑھے پر ایک اضطرابی کیفیت چھا جاتی تھی۔
’’چاردوست تھے۔ چاروں نے بھگوان وشو کرما سے پرارتھنا کی۔ اے بھگوان! ہمیں کوئی انوکھا فن سکھلادے۔ بھگوان وشوکرمانے ان کی پرارتھنا سوئیکار کرلی۔ انھیں بارہ برس تک سکھاتے رہے۔ وہ بھی پورے جی جان سے سیکھتے رہے ۔ پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنانا سیکھا۔ دوسرے نے اس پر ماس جمانا سیکھا، تیسرے نے اس پر چمڑے کا غلاف چڑھانا سیکھا۔‘‘
حسب عادت بوڑھے نے کئی باریہ قصہ دہرایا اور خاموش ہوگیا۔ بوڑھے کو خاموش دیکھ کر اس مرتبہ بھی لڑکے کو تجسس ہوا! اس نے پھروہی سوال پوچھا، ’’اور چوتھے نے؟‘‘
بوڑھا گم صم کھڑا رہا۔ وہ شاید چوتھے فن کار کے بارے میں کچھ بتانا نہیں چاہتا تھا یا پھر اسے اس کے بارے میں کوئی علم ہی نہ تھا۔
لڑکے کا تجسس ہنوز برقرار تھا اورجب بوڑھے کو اس کے تجسس کا احساس ہوا تو اس نے بیڑی کے ٹکڑے کو پھونک مار کر پھینکا اور کہا، ’’ابے !گھبراتا کیوں ہے؟ اس کے بارے میں بھی بتاؤں گا! دھیرج دھر!! ‘‘
اور لڑکا پھر سے بانس کی ٹھٹری میں پوال باندھنے لگا۔ بوڑھے نے ایک اور بیڑی سلگائی۔ جلدی جلدی دو چار کش لگائے، کمر میں گمچھا باندھا، انگلیوں کے درمیان اپنے پچکے گال رکھے، داڑھی کے بال اینٹھے، تھوڑی دیرکچھ سوچا اور کام میں جٹ گیا۔
اب اس کا ہاتھ تیزی سے چل رہاتھا۔ رفتہ رفتہ پوال نظروں سے اوجھل ہورہی تھی۔ وہ بائیں ہاتھ سے ڈھانچے کو سہارا دیئے دائیں ہاتھ سے مٹی تھوپ رہاتھا۔ ہتھیلی کے نچلے حصے سے تھپکیاں بھی لگا رہاتھا۔ جہاں مٹی زیادہ ہو جاتی وہاں انگلیوں سے کاڑھ لیتا، جہاں مٹی کم پڑ جاتی وہاں چپکا دیتا۔ رہ رہ کر بیڑی کاسرا انگارے کی طرح دھکنے لگتا اور دوسرے ہی لمحہ اس پر راکھ کی تہہ جم جاتی۔
لڑکا پوال باندھ رہا تھا لیکن نظریں بوڑھے کی ہتھیلیوں اور انگلیوں کی جنبش پر ٹکی ہوئی تھیں۔
اورجب بوڑھا لڑکے کو دیکھتا تو مسکرا دیتا۔ ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا، ’’ابے ، مورتی ہاتھ میں نہیں ہوتی ہے۔‘‘ اور پھر دایاں ہاتھ سینے پر زور سے تھپک کر کہتا، ’’مورتی یہاں ہوتی ہے۔ سمجھا، یہاں، اس کے اندر!‘‘
لڑکا حیرت سے بوڑھے کا سینہ تکنے لگتا۔ اوبڑ کھابڑ ،ہڈیاں ہی ہڈیاں ،گوشت کا نام و نشاں نہیں!! بوڑھے کاہاتھ تیزی سے چلنے لگا۔
اور جب بانس کی ٹھٹری پر پوال باندھنے کا کام مکمل ہو گیا تو لڑکے نے ڈھانچے کو گھما پھرا کر دیکھا۔ جسم کے نشیب و فراز کامختلف زاویوں سے معائنہ کیا۔ انگلیوں سے کھینچ تان کر ڈوری کے دم خم کاجائزہ لیا۔ ’’بابا کو ایسا ہی کسا ہوا ڈھانچہ پسند ہے۔‘‘ اس نے من ہی من کہا اور پھر سے بوڑھے کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا، ’’بابا کے ہاتھوں میں جادو ہے! چھوتے ہی ہاتھ، پاؤں، پیٹ، سینہ، نابھی، گردن سب ایک ایک کر کے ماٹی سے نکلنے لگتے ہیں!! ‘‘
بوڑھے نے چھاتی پر مٹی تھوپ کر چھوٹے چھوٹے دو ٹیلے بنادیئے تھے۔ اب وہ ان ٹیلوں پر ہتھیلیاں پھیررہاتھا اور جب وہ ایسا کرتا تھا تو اس پر عجیب سی ایک کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ چہرہ تمتمانے لگتاتھا۔ آنکھوں کی پتلیاں ناچنے لگتی تھیں، ہونٹ کپکپانے لگتے تھے۔ سانس ٹوٹنے لگتی تھی۔ پہلے پہل لڑکے نے گھبرا کر اسے جھنجوڑا تھا۔ جواباً نرم اور نازک رخسار پر طمانچہ کھایا تھا۔ اس کے بعد کبھی اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ایسی حالت میں بوڑھے کے قریب پھٹکے۔
اورجب سینے کا تناؤ پوری آب و تاب سے نمایاں ہو جاتا تو بوڑھے کے چہرے پر سرور و انبساط کی ہزاروں لہریں دوڑ جاتیں۔ وہ مسکراتے ہوئے لڑکے کی طرف دیکھنے لگتا۔ سو اس نے اس بار بھی دیکھا۔ صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ ایک بے تکا سا سوال بھی پوچھ لیا، ’’اچھا، بتا تو بے، تو نے کبھی کسی ناری کا سریر دیکھا ہے؟ ایک دم ننگ دھڑنگ سریر!! ‘‘
لڑکاہکّا بکّا بوڑھے کو تکنے لگا۔ وہ تو اس کی بڑی عزت کرتا تھا۔ اسے بھگوان سمجھت اتھا۔ بھلا بھگوان بھی اس طرح کے سوال کرتے ہیں!! لڑکا پس و پیش میں پڑ گیا۔
’’کیا بے، جواب کیوں نہیں دیتا؟‘‘
لڑکے سے کچھ کہا نہ گیا۔
پاٹ اور مٹی کا گلاوا گڑھے میں پڑا پڑا سڑ چکا تھا۔ بدبو آنے لگی تھی۔ نالے میں کیچڑ کے سڑ جانے سے بھی ایسی ہی بدبوآتی ہے۔ بدبو لڑکے کے نتھنوں کو چھونے لگی اور یکسر اس کی نظروں کے سامنے کا منظر بدل گیا!!
**
بھادوں کی امس اور ہوا بند! گرمی ایسی کہ دم گھٹ جائے۔ سڑک اور فٹ پاتھ کے درمیان چوڑا ایک نالہ، کیچڑ سے اٹا ہوا۔ نالے کا پانی سڑ چکا ہے۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے کلبلا رہے ہیں۔ ناک نہیں ٹھہرتی۔ نالے سے لگا ایک چھوٹا سا جھونپڑا ہے ۔ جھونپڑے میں بچہ ماں کی چھاتی سے چپکا سو رہا ہے۔ اچانک بچے کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ حیرت میں پڑ گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ اب وہ راستے پر اکیلا پڑا ہے۔ چاند میں بیٹھی بڑھیا چکی پیس رہی ہے۔ ہر طرف چاندنی پھیلی ہے۔
’’میں یہاں کیسے ؟ ‘‘ بچہ اپنے ننھے سے ذہن کو جھٹکتا ہے۔ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔اس کی نگاہ جھونپڑے پر پڑتی ہے۔ ایک شخص جھونپڑے سے باہر آتا ہے اور لنگی باندھتا ہوا پُر پیچ راستوں میں گم ہو جاتا ہے۔ بچہ جھونپڑے کی طرف لپکتا ہے اور جیسے ہی قدم اندر رکھتا ہے ٹھٹک کر رہ جاتا ہے۔ ماں کے جسم پر ایک دھاگا بھی نہیں۔ وہ آہٹ سنتی ہے۔ بدن پر ساری کھینچ لیتی ہے۔ پیٹھ پھیر کرسو جاتی ہے۔ بچہ کھڑا کانپنے لگتا ہے۔
لڑکا بھی کانپنے لگا۔ بوڑھے نے سوال دہرایا، ’’کیابے! جواب کیوں نہیں دیتا، دیکھا ہے؟‘‘
لڑکے نے نفی میں سر ہلایا۔
بوڑھے نے کہا ،’’جا پہلے دیکھ کر آ، پھر میں تجھے آگے کا سبق سکھاؤں گا۔۔۔۔ اور ہاں سن جیسے تیسے مت دیکھنا۔ غور سے دیکھنا۔ ایک ایک چیز دیکھنا، اچھی طرح سے دیکھنا۔ بھوئیں کتنی کھنچی ہوئی ہیں، پیشانی کتنی چوڑی ہے ، گردن کوتاہ ہے یا صراحی دار، پیٹ پر بل کتنے ہیں، چھاتیاں تنی ہوئی ہیں یا جھولی ہوئیں ، پھول نیلا ہے یا بھونرا ، ہونٹ گلابی ہیں یا کتھئی، نابھی گہری ہے یا ابھری ہوئی۔ ٹانگیں چکنی ہیں یا روئیں دار…‘‘
لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ بوڑھے کو حیرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ بوڑھے نے مزید کہا، ’’سن ماٹی کو ہاتھ لگانے سے پہلے دونوں آنکھیں بند کر لینا۔ ذہن کے پردے پر اس ننگ دھڑنگ ناری کی چھبی دیکھنا۔ آنکھ، ناک، کان، ہونٹ، کپال، کندھا، چھاتی، پیٹ، نابھی، چوتڑ، کمر، ٹانگیں، بانہیں سب اچھی طرح من میں بسا لینا۔ اس کے بعد بچالی (پوال) کے اس ڈھانچے میں ماٹی جماتے جانا۔ یاد رہے نظروں سے وہ چھبی اوجھل نہ ہونے پائے۔‘‘
بوڑھا تھوڑی دیر خاموش رہا۔ پھر مسکرایا اور بولا، ’’اچھا ایک کام کر، ماٹی میں چال کی تھوڑی سی بھوسی اور ملادے ۔‘‘
لڑکے نے پوچھا،’’اور پاٹ؟‘‘
’’نہیں پاٹ ملانے کی ضرورت نہیں۔‘‘
لڑکا مٹی کے گڑھے میں بھوسی ڈال کر کچھ دیر پیروں سے رَلایا پھر دھیمی آواز میں بولا، ’’بابا، ایک بات پوچھوں؟ ‘‘
بوڑھے نے اثبات میں سر ہلادیا۔
لڑکے نے پوچھا،’’بابا، آپ کی ماں نہیں ہے؟ ‘‘
’’ارے جب تیری ماں نہیں ہے تو مجھ جیسے بوڑھے کی ماں کیسے ہو سکتی ہے! ہاں، ایک بیوی ضرور ہے لیکن میرے ساتھ رہنا اسے گوارا نہیں۔ وہ جو کھال کے پاس نیا اسٹیشن بنا ہے۔ کولکاتا اسٹیشن! حرام زادی، وہیں رہتی ہے۔ دارو بیچتی ہے اور سنا ہے، دھندہ بھی کرتی ہے۔ ریلوے کے جتنے سپاہی ہیں اس کے گاہک ہیں۔ ان کے ساتھ سوتی ہے۔ سوتی رہے سالی، میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔۔۔۔ اور تو سن عورتوں کا صرف بدن دیکھنا، غور سے دیکھنا، ایک ایک انگ دیکھنا لیکن خبردار ان کے ساتھ سونا نہیں! عورت کے ساتھ سونے سے آدمی نشٹ ہو جاتا ہے! کسی کام کا نہیں رہتا!‘‘
بوڑھے کا لہجہ بھرّا گیا۔ آنکھیں نم ہونے لگیں۔ رات بھر بوڑھا اسی طرح بکتا رہا۔ خوب دارو پیتارہا۔ اوراپنی بیوی کو گالیاں دیتا ہوا زمین پر بدحواس سو گیا۔
**
بوڑھا دن چڑھے تک سوتا رہتا تھا۔ اس نے پارک کی پچھلی باونڈری وال سے پولیتھین باندھ کر چھوٹی سی ایک جھونپڑی بنا رکھی تھی۔ جھونپڑی کے سامنے ہی وہ مورتیاں بناتا تھا۔ پارک کے دوسرے سرے پر واٹر سپلائی کے پائپ میں ایک جوڑ تھا جس سے خاصا پانی رستا تھا۔ تھوڑی دور فٹ پاتھ کی بائیں طرف کئی جھونپڑیاں تھیں۔ ان جھونپڑیوں میں رہنے والے صبح ہی سے وہاں بھیڑ لگا دیتے تھے۔ عورتیں برتن اور کپڑا دھونے بیٹھ جاتیں، تو ٹلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ لڑکا علی الصباح جاگ جاتا اوروہاں سے پرانے پلاسٹک کے جار میں پانی بھر لاتا۔ گڑھے میں مٹی اور پانی ڈال کر پیروں سے گوندھتا۔ غرض یہ کہ بوڑھے کے جاگنے تک اوپر کا تمام کام نپٹا دتیا تھا۔ گڑھے میں سوکھی مٹی ڈال کرجب وہ پانی ملاتا تو آس پاس کی فضا سوندھی سوندھی خوشبو سے مہک اٹھتی تھی۔ لڑکے کو یہ خوشبو اچھی لگتی تھی ۔ بملا کو بھی بھاتی تھی۔
ہاں، وہاں چھوٹی سی ایک بچی بھی رہتی تھی۔اس کی پیاری پیاری باتیں لڑکے کو کھینچنے لگیں۔ ایک دن اس نے بچی سے کہا،’’میرے ساتھ چل، ماٹی کی گڑیاں دوں گا۔‘‘
اور جب بچی آتی تو وہ اسے چھوٹی چھوٹی گڑیاں بنا کر دے دیتا تھا۔ اگرچہ ان گڑیوں میں ہزاروں عیب ہوتے تھے، لیکن بچی انھیں بڑے چاؤ سے لے لیتی تھی ۔
شروع شروع میں تو وہ گڑیوں کے لالچ میں چلی آتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس کا ذہن بڑی بڑی مورتیوں کی طرف مائل ہونے لگا۔ وہ گھنٹوں بوڑھے کو مورتیاں بناتے دیکھا کرتی تھی۔ اپنی پیاری پیاری باتوں سے بوڑھے کا بھی من موہ لیتی تھی۔
اور جب بوڑھا وہی پرانا قصہ سناتا تو وہ بھی غور سے سنتی؛
’’چار دوست تھے۔ چاروں نے بھگوان وشو کرما سے پرارتھنا کی۔ اے بھگوان ! ہمیں کوئی انوکھا فن سکھلا دے۔ بھگوان وشوکرما نے ان کی پرارتھنا سوئیکار کر لی۔ انھیں بارہ برس تک سکھاتے رہے۔ وہ بھی پوری جی جان سے سیکھتے رہے ۔ پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنانا سیکھا۔ دوسرے نے اس پر ماس جمانا سیکھا، تیسرے نے اس پر چمڑے کا غلاف چڑھاناسیکھا۔‘‘
اور جب بوڑھا خاموش ہو جاتا تو لڑکے کے ساتھ ساتھ وہ بھی تجسس بھرے لہجے میں وہی سوال دہراتی،’’اور چوتھے نے؟‘‘
جب بوڑھے سے کوئی جواب نہیں بن پاتا تو بچی بے باکی سے کہتی،’’ چھوڑیئے چھوڑیئے ،آپ کو پتہ نہیں ہے!‘‘
لیکن بوڑھا اس کی بات کا برا نہیں مانتا تھا، بس ہنس دیتا تھا۔
***
بچی روزانہ صبح سویرے آنکھیں ملتی ہوئی چلی آتی تھی اور لڑکے کے ساتھ بیٹھ کر کبھی گڈا، کبھی گڑیا، کبھی توتا، کبھی مینا، کبھی شیر اور ہاتھی بنایا کرتی تھی۔ سامنے سیمنٹ کا ایک بوسیدہ ڈرین پائپ پڑا تھا۔ وہ اس پر بیٹھ جاتی اور دیر تک اس سے باتیں کیا کرتی تھی۔
ایک دن لڑکے نے کہا، ’’ بملا، دیکھ میں نے رات بھر جاگ کر تیرے لیے ماں کالی کی پرتیما بنائی ہے۔ دیکھ اس کی زبان دیکھ، کتنی لمبی ہے!! اس کے گلے میں منڈیوں کی یہ مالا دیکھ !! کتنی محنت سے ایک ایک سر بنایا ہے۔ انھیں دھاگے میں پرویا ہے۔ دیکھ ، اس کے ایک ہاتھ میں کٹی ہوئی ایک بڑی سی منڈی لٹکاؤں گا اوردوسرے میں یہ داؤ۔۔۔۔ اور یہ سیار بھی بنایا ہے، جو منڈی سے ٹپکنے والا خون چاٹے گا۔ اور دیکھ یہ بابا بھولے ناتھ کا پتلا ہے ۔ اسے چت لٹا کر ماں کالی کی پرتیما اس پررکھ دوں گا۔۔۔۔۔‘‘
بچی نے ہونٹ بچکا کر کہا، ’’نہیں ،ٹھیک نہیں ہوا۔ ماں کالی کے تو چار ہاتھ ہوتے ہیں، اس کے دو ہیں۔ شیو ٹھاکر کی جٹا بھی نہیں ہے۔ شیر کی چھال کہاں ہے؟‘‘
لڑکا اداس ہو گیا۔ اس نے تمام مورتیاں توڑ ڈالیں۔
ویسے بھی وہ ہر روز بوڑھے کے جاگنے سے پہلے اپنی بنائی ہوئی تمام مورتیاں توڑ کر گڑھے میں ڈال دیتا تھا اور مٹی کو اس طرح ملا دیتا تھا کہ بوڑھے کو اس کی بھنک بھی نہیں مل پاتی تھی۔ اسے ڈر تھا ،کہیں بوڑھا ناراض نہ ہو جائے۔
دوسرے دن پھر بچی آئی۔ ابھی وہ ڈرین پائپ پر ٹھیک سے بیٹھی بھی نہ تھی کہ لڑکے نے مسکرا کر کہا، ’’بملا، آنکھیں بند کر !‘‘
بملانے آنکھیں بند کرلیں۔کچھ دیر بعد لڑکے نے کہا، ’’اب کھول ! دیکھ آج میں نے کیا بنایا ہے؟ بتا تو یہ کس کی مورتی ہے؟‘‘
بچی کے چہرے پر اتنی حیرت نہ تھی جتنا کہ اس نے امید لگائی تھی۔ بچی تتلاتے ہوئے بولی ،’’لگتی تو درگا جیسی ہے۔ لیکن…‘‘
بچی غور سے مورتی دیکھنے لگی اورگال پر دایاں ہاتھ رکھ کرشہادت کی انگلی ہلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔ لڑکے کا تجسس بڑھ گیا۔
’’لیکن !‘‘
لڑکے نے بڑی بے صبری سے پوچھا،’’لیکن کیا؟‘‘
’’لیکن۔۔۔۔ اس کی ناک میں نتھ اور کانوں میں مندری کہاں ہے؟ ماتھے پرٹیکا، گلے میں ہار، ہاتھ میں چوڑی، پاؤں میں پائل، بھی نہیں۔ دھت یہ بھی کوئی ماں درگا ہوئی۔‘‘
اس بار بھی لڑکا اداس ہو گیا۔ اس نے یہ مورت بھی گڑھے میں ڈال دیا اسے مٹی میں ملا دیا۔ لڑکے کو اداس دیکھ کر بچی نے کہا،’’جب میں بڑی ہو جاؤں گی تو میں ناک میں نتھ، کان میں جھمکے،ہاتھ میں چوڑی پہنوں گی۔ گلے میں ہار، ماتھے پر ٹیکا، پاؤں میں پائل بھی پہنوں گی۔‘‘
لڑکا سوچنے لگا، ’’جب بملا بڑی ہوجائے گی تو وہ کس کی طرح دکھے گی؟ درگا ماں کی پرتیما کی طرح، کالی مائی کی پرتیما کی طرح یا پھر ماں سرسوتی کی پرتیما جیسی؟ کیا اس کا کولھا اور سینہ بھی اسی طرح ابھر آئے گا۔ کیا اس کا جسم بھی اسی طرح کا ہو جائے گا جیسا بابا کو اپنی پرتیماؤں کے لیے پسند ہے۔ نہیں نہیں، وہ پرتیمائیں تو بول نہیں سکتیں۔ سب کی سب بے جان ہیں۔ ان میں آتما کہاں؟ میری بملا تو بولتی ہے! ٹپ ٹپ بولتی ہے، مینا کی طرح!! یہ تو زندہ ہے۔ ‘‘
لیکن افسوس کہ اس کی مینا زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہ سکی!!
ہوا یوں کہ اس علاقے میں تیزی سے مہاماری پھیلنے لگی! بھادوں کے مہینے میں یہاں اکثر ایسا ہوتاتھا۔ جب وہ کئی روز تک نہیں آئی تو لڑکے کو فکر لاحق ہوئی۔ وہ اس کے گھر پہنچ گیا۔ بملا بے ست پڑی تھی۔ جسم پر لال لال چٹّے پڑ گئے تھے۔ لڑکے کو دیکھ کراس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ ابھری۔ لڑکے نے پوچھا،’’بملا، بڑا کشٹ ہو رہا ہے کیا؟”
بملا کچھ نہیں بولی۔ اس نے اثبات میں صرف دھیرے سے گردن ہلا دی۔ سرہانے اس کی ماں بیٹھی سر پر پانی پٹّی چڑھا رہی تھی۔ سسکتے ہوئے بولی، ’’کئی دنوں سے بخار لگا ہے۔ اترنے کا نام نہیں لیتا۔ کہتی ہے، سر میں بہت دردہے! بدن کاجوڑ جو ڑ دکھ رہاہے!!‘‘
لڑکے سے اس کی حالت دیکھی نہیں گئی۔ اس نے دل ہی دل پرارتھنا کی،’’اے ٹھاکر، میری بملا کو اچھا کر دے…!!‘‘
اس کے بعد وہ روزانہ جانے لگا۔ بملا کی ماں نے منع کیا،’’بیٹا، تواس کے پاس مت جایا کر۔ اسے چھوت کی بیماری ہوگئی ہے۔ تجھے بھی ہو جائے گی۔‘‘
لیکن لڑکا کب ماننے والاتھا۔ وہ بملا کی ہتھیلیاں اور تلوے سہلاتا، سر پر پٹی چڑھاتا۔ گھنٹوں اس کے سرہانے بیٹھا رہتا۔ کہتا،’’بملا، تو جلدی سے ٹھیک ہو جا۔ میں اس دفعہ تیری مورتی بناؤں گا۔‘‘
لیکن اس کی بملا ٹھیک نہیں ہوئی۔ اسے قے آنے لگی۔ پیٹ میں شدیددرد شروع ہوگیا۔ ناک اور منہ سے خون بہنے لگا۔ جسم زرد پڑتا گیا۔ لوگوں نے کہا، ’’ڈینگو بخار ہوا ہے۔ یہ نہیں بچے گی۔‘‘
اور واقعی وہ نہیں بچی۔ لوگوں کاماننا تھا کہ مہاماری میں مرنے والے بچے کی لاش جلانی نہیں چاہئے۔ سچ تو یہ تھا کہ اس کی غریب ماں کے پاس اتنا پیسہ ہی کہاں تھا کہ وہ لکڑیاں خریدتی۔ اپنی بچی کی چتا جلاتی ۔ چنانچہ اس کی لاش نہر کنارے مٹی میں دبا دی گئی۔ لڑکا پھر سے تنہا ہو گیا۔ اب اس کا جی کسی کام میں لگتا نہ تھا۔ بچی کی موت کا صدمہ بوڑھے کو بھی کم نہ تھا لیکن وہ اس صدمے کو دل میں دبائے لڑکے کو بہلانے کی کوشش کرتا۔ اس نے ایک بارپھر وہی قصہ چھیڑا؛
’’چاردوست تھے ۔چاروں نے بھگوان وشو کرما سے پرارتھنا کی۔ اے بھگوان! ہمیں کوئی انوکھا فن سکھلادے۔ بھگوان وشوکرما نے ان کی پرارتھنا سوئیکار کر لی۔ انھیں بارہ برس تک سکھاتے رہے۔ وہ بھی پوری جی جان سے سیکھتے رہے ۔ پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنانا سیکھا۔ دوسرے نے اس پر ماس جمانا سیکھا، تیسرے نے اس پر چمڑے کا غلاف چڑھانا سیکھا۔‘‘
لیکن اس بار بوڑھے کو خاموش دیکھ کر اس نے اپنا سوال نہیں دہرایا۔
اورتب بوڑھے نے کہا، ’’ آ، میں تجھے ماس جمانا اور چمڑے کا غلاف چڑھانا سکھلا دوں ۔‘‘
لیکن لڑکا تو کسی اور خیال میں گم تھا۔ خاموش کھڑا رہا۔
دوسرے دن وہ نہر کنارے اداس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ پیلی سی ایک چیز پر پڑی۔ اس نے غور سے دیکھا، ’’کہیں یہ بملا کے پیر کی ہڈی تو نہیں؟ تو کیا جانوروں نے اس کی قبر کھود کر اس کی لاش کھا لی ہے!!‘‘
ہاں، بملا کی لاش کے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اس نے ایک ایک ہڈی ڈھونڈی اور انھیں اٹھا کر لے آیا۔
چاندنی رات تھی۔ لڑکے نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ دور دور تک بادل کانام و نشاں نہ تھا۔ چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا مگر درخت کا ایک پتا بھی نہیں ہل رہا تھا۔ فضا میں عجیب سی گھٹن تھی۔
وہ کچھ دیر تک ٹکٹکی باندھے چاند کو تکتا رہا۔ بڑھیا چاند میں بیٹھی چکّی پیس رہی تھی۔ پھر اس نے جھونپڑے کی طرف دیکھا۔ بوڑھا ہر دن کی طرح آج بھی دارو پی کر اوندھا پڑا ہوا تھا۔
لڑکا ہڈیاں جوڑتا گیا اور بڑبڑاتا گیا، ’’پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنایا…!‘‘
اورجب ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تو لڑکا اس ڈھانچے پر مٹی تھوپتا گیا اور بڑبڑاتا گیا، ’’پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنایا، دوسرے نے ماس جمایا …!‘‘
اب وہ مورتی کو ہتھیلیوں سے لیپ رہا تھا اور بڑبڑاتا جارہا تھا، ’’پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنایا،دوسرے نے ماس جمایا، تیسرے نے غلاف چڑھایا … ‘‘
**
پوَ پھٹ چکی تھی۔ فضا میں گھٹن کا احساس بڑھنے لگا تھا۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی بوڑھا خوابِ غفلت میں پڑا تھا کہ اچانک اس کے کانوں میں ایک آواز آئی۔ وہ چونک کر جاگ گیا۔
پہلے تو اسے یقین ہی نہ ہوا۔ اس نے ہتھیلیوں سے آنکھیں ملیں، کان سہلائے اور اپنے آپ سے کہا، ’’نہیں، یہ خواب نہیں! یہ خواب نہیں ہے!!‘‘
بوسیدہ ڈرین پائپ پر بملا کی پرتیما تھی!! لڑکا پرتیما کے سامنے نیم بے ہوشی کے عالم میں پڑا تھا۔ وہ بڑبڑاتا جا رہا تھا، ’’پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنایا، دوسرے نے ماس جمایا، تیسرے نے غلاف چڑھایا۔ پہلے نے ہڈیاں جوڑ جوڑ کر ڈھانچہ بنایا، دوسرے نے ماس جمایا، تیسرے نے غلاف چڑھایا… ‘‘
بوڑھے کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ ڈرتا ڈرتا پرتیما کے قریب آیا۔ دم بخود کچھ دیرتک اسے دیکھتا رہا۔ پھر لڑکے کی طرف مڑا۔ا سے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا! پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا!! اوردھم سے اس کے قدموں پر گر پڑا !!!
پرتیما اب بھی بول رہی تھی،’’ اور چوتھے نے روح پھونکی!۔۔۔۔۔۔ اور چوتھے نے روح پھونکی۔۔۔۔۔!!!‘‘
————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
The elephant of Haddu a Short Story of Zakia Mashhhadi
Articles
ہدّوُ کا ہاتھی

ذکیہ مشہدی
ہدّوُ نے پیپل کے پتوں کے بڑے بڑے جھنکاڑرکشےسے اتارے، کثیف کرتے کی جیب سے چند مڑےتڑےنوٹ اورکچھریزگاری بر آمد کی، احتیاط سے گن کررکشے والے کا کرایہ ادا کیا، بقیہ رقم واپس رکھی، پھر بڑی محنت سے موٹی موٹی ڈالیاں کھینچ کر انہیں احاطے کے اندر لائے۔ہاتھی نے کسل مندی سے سونڈدائیںبائیں جھلائی، پھر قدرے تکلف کے سا تھ بھاری بھر کم پاؤں آگے بڑھائے۔’’ ارے بیٹا رک‘ اس سے قبل کہ لوگ تیرا حصہ کھا جائیں یہ لے لے۔‘‘ ہدّو نےبڑی محبت سے ہاتھی کو مخاطب کیا اور کندھے پر لٹکےانگوچھے کے سرے پر بندھی پوٹلی کھولی۔پوٹلی میں چارعدد دوستی روٹیاں اور کوئی پانچ سات حلوے کی قتلیاں۔ ان میں صرف ایک چنے کی تھی اور باقی سو جی یا میدے کی۔ہاتھی نے قریب آ کر اپنا بھاڑ سامو نہہ کھول د یا۔ ہدّو نے چاروں رو ٹیاں اور حلوہ، ایک سا تھ لپیٹکر اس میں ڈالے تو اونٹ کے منہ میں زیرے والے محاورے میں ذرا سی ترمیم کر دینے کو جی چاہا۔ہاتھی نے پھر بھی تاڑکےپتوں جیسے بڑے بڑے کانجھلے اور املی کے چیوں جیسی ننھی ننھی آنکھوں سے ہدّ و کو انتہائی ممنونیت اور محبت کے ملے جلے جذبات کے سا تھ دیکھا۔ ہدّ و نہال ہو اٹھے۔ ساتھ ہی ان کے دل میں ایک کچوٹ سی اٹھی۔ بے چارہ ہاتھی۔ استطاعت ہو تی تو کیا آج اسے وہ ٹوکرہ بھرکر حلوہر وٹی نہ کھلاتے؟ یا پھر میوے وا لا روٹ او رگڑ کی بھیلیاں۔ٹاٹ کے پردے کے پیچھے سے بیوی چلاّئیں۔’’ ارے اس کمبخت کو ڈھائی گھڑی کی آ وے۔ بچے کھا لیتے حلوہ روٹی جو اس کے پیٹ میں ڈال دیا۔ اس کالےپہاڑ کا کوئی بھلا نہ ہو اور بچے محروم رہ جائیں۔‘‘’’ بچے ہیں کہ راون کی فوج! اپنا حصہ کھا چکے یہ ہمارا حصہ تھاہمجسے چاہیں د یں۔‘‘ ہدّ و گرجے۔’’ ہم جسے چاہیں دیں۔‘‘ بیوی نے مونہہ ٹیڑھا کر کے ان کی نقل کی۔ شا ید انہیں کوئی معقول جواب نہیں سوجھا تھا۔ اس لئےمونہہ چڑانے پر ہی اکتفا کی۔’’ نیک بخت،اوقات میں رہا کر، شوہر کا مونہہچڑاتی ہے۔ جہنم میں جائے گی۔ صبح تین چار گھروں سے حصے آئے۔ سب تیرے یہ سپوتاڑا گئے۔ ہم نے ایک نوالہ بھی نہیں کھا یا۔ گئے تھے اسحٰق صاحب کے یہاں۔ ان کی اہلیہ، خدا انہیں جنت نصیب کرے، بو لیں ’ سید ہادی حسن، آئے ہو تو فاتحہتمہیںپڑھ دو۔‘ ہم نے فاتحہ پڑھی تو اس کا حصہ انہوں نے الگ سے دیا۔‘‘’’اوئی نوج مردوئے۔ اسحٰق میا ں کی بیوی زندہ، جو ان جہان۔ انہیں کہہ رہا ہے خدا جنت نصیب کرے۔‘‘ ہدّو کی بیوی ایسی دہشت زدہ ہوئیں کہ ذرا دیر کو تو ہاتھی کو حلوہ روٹی کھلا د ئےجانے کا غصہ بھی بھول گئیں۔ہدّ و نے شان بے نیازی سے ہا تھ ہلا یا جیسے مکھی اڑا رہے ہوں۔’’ ارے یہ تو دعاہے جاہل عو رت۔ زندگی میں ہی دے دینے میں کیا حرج ہے۔ آخر کبھی تو مریں گی اسحٰق میاں کی جو رو۔ تم بھی ابھی سے ہمارے لئے دعا مانگا کرو کہ اللہ جنت نصیب کرے۔ بڑے گناہ سمیٹ رہے ہیں۔ اپنے غریب بے چارے ہا تو کو پیٹ بھر کھانا بھی نہیں دے پاتے۔‘‘پھر وہی ہاتھی۔ بلکہ مارے محبت کے’ ہا تو‘ وہ بھی بے چارہ غریب۔ بیوی کی ایڑی میں لگی اور چوٹی میں بجھی۔ وہ چھنکیں۔’’ بیوی بچوں کا پیٹ تو بھر لو پہلے۔ لٹکے رہتے ہو اس منحوس ہاتھی کی دُم میں۔ شب برات کے شب برات فاتحہ خوانی کے علاوہ بھی کچھ کر لیا کرو۔ اور فاتحہ خوانی بھی اب کہاں۔جب سے تبلیغی جماعت والوں کازور بڑھا ہے محلے میں فاتحہ کرانے والے گھر بھی بس دو چار ہی رہ گئے ہیں۔نہ جلسے جلوس میں ہاتھی بلا یا جائے نہ تم کچھ کر کے و و۔‘‘’’کیوں کر یں ہم کچھ اور۔ د ادا پر دادا کے و خَت سے یہیفیلبانی کرتے آ رہے ہیں۔ اور فاتحہ کیا ہم کسی لالچ میں کرتے ہیں ؟ارے لوگوں میں عزت ہے۔ سید ہیں ہم اور راجہ کے فیلبان ہیں۔ کبھی کبھار لوگ فاتحہ کے لئے کہہ دیتے ہیں۔‘‘ بکتے جھکتے ہدّو ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوئے۔’’ تمہارے دادا پر دادا کو بھی کچھ اور نہیں ملا تھا کرنے کے لئے۔ بھلابتا ؤ سادا ت اور فیلبانی!‘‘ بیوی نے پھر جلکرمو نہہ مارا۔’’ خیر خود جو بھی کیاتمہیں کو کچھ اورہنرسکھاجاتے۔ہم تو کہیں اب بھی اس اللہ مارے بوڑھےبھوت کو و ہیں پٹخ آؤ اس موئے راجہ کے… اور کوئی ایسا کام سنبھالو کہ گھر میں چارپیسے جڑیں۔‘‘ہاتھی کی شان میں کسی قسم کی گستاخی ہدّو کو سخت ناپسند تھی۔ بلکہ تقریبا ًناقابلِ بر داشت۔ ہاتھی ان کے اجتماعی لا شعور کا ایک حصہ تھے۔ ان کے اجداد میں سے ایک بزرگ سلطنت جون پور کے تیسرے سلطان ابراہیم شاہ شرتی کے زمانے میں فیل خانے کے مہتمم ہوا کر تے تھے۔ شاہی کے وقتوں میں یہ ایک بڑا معزز عہدہ تھا۔ ہدّو کے ذہن کے نہاں خانوں میں ہاتھیوں کے جھنڈ کے جھنڈگھومتے پھرتے تھے۔ وہ ان سب کوگومتی کے پانیوں میں نہلا تے، ان کے لئےمیوہ اور گڑبھرےروٹ تیار کراتے،گنّوں کی پھاندیاں اترواتے ، اور پیار سے ان کے سوپ جیسے کانوں میں محبت بھرے نرم و شیریں الفاظ یوں اتارتے کہ اڑیل سے اڑیل ہاتھی بھی پالتو کتے کی طرح اٹھ کھڑا ہوتا۔یہ ہاتھی کے اٹھ کھڑے ہونے کا بھی ایکالگ قصہ تھا۔چودھویں صدی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ لوگ باگ دہلی کے تاج سے کرکٹ کھیل رہے تھے (اگر چہ کر کٹ اس وقت رائج نہیں تھا )۔ کمز و رمرکز پاکر جو جہاں گو رنر مقرر کیا گیا تھا، فرمانروا بن بیٹھا تھا یا کم از کم بیٹھنے کے پھیر میں تھا۔سلطنت جون پور بھی کئی اور چھوٹی چھوٹی حکومتوں کی طرح معرضِ وجود میں آگئی۔ بانیتھے سلطانالشرق ملکسرورخواجہ جہاں جو فیرو زشاہ کے وقت میں ہی مشرقی علاقوں کے گورنر بنائے گئے تھے اور باوجود اس کے کہ خواجہ سرا تھے، نہایت لائق وفائق انسان تھے۔ صرف پانچ برس کے دور حکومت میں (کہ قضا و قدر نے اس سے زیادہ مہلت نہیں دی ) جون پور کو دارالسرور بناگئے۔ آ گے چل کر شاہجہاں نے اسے شیرازِہند کے لقب سے نوازا۔اس وقت قلعہ فیر و زشاہی میں ہاتھی گھوڑوں کی ریل پیل ہوا کرتی تھی۔ کوچ کا نقارہ بجنے پر فوجیں کوچ کیا کر تی تھیں دماد م،دما دم۔ شفاف سڑک پر صبح خاکروب جھاڑ و لگا تے اور شام کوبھشتیمشکوں سے چھڑکاؤ کر تے۔ سوندھی سوندھی خوشبو اڑ تی تو عالموں کی پالکیاں نکلتیں، خراماں خر اماں۔ ڈھال گر ٹولہ میں لو ہار ڈھالیں بنا نے میں مصروف ہو تے اور درسگا ہوں میں طالبعلم اپنے اپنے ذہن کو جلا بخشتے۔ درسگا ہوں نے ایسی شہرت حاصل کی کہ ایک صدی بعد شیر شاہ جیسا مدبر، ذہین اور رعایا پرور بادشاہ یہاں تعلیم حاصل کرنے آیا (ڈھا ل گر ٹو لے میں اب غریب مسلمان بیڑی بنا تے ہیں اور ٹیبی میں مبتلا ہو کر قبل از وقت مر جایا کر تے ہیں۔ جون پور کے کسی مدر سے میں اب کوئی شیر شاہ پڑھنے نہیں آتا)۔دہلی میں طوائفالملوکی کے اس دور میں جناب امیر تیمورصاحبقراں نے بھی اپنی ترچھی آنکھیں ہندستان کی طرف پھیریں۔ بڑے بڑے شہر بشمول دہلی اجاڑ ہوئے جیسے کوئی نہایت منحوس الو بول گیا ہو۔ صاحب علم و اوصاف لوگ عزت اور جان و مال کی حفاظت کے لئے بھاگ بھاگ کرنسبتاًپر امن علاقوں میں اکٹھا ہوئے جن میں جون پور بھی تھا جو دارالسر و ر کے بعد دارالامان بھی قرار دیا گیا تھا۔ انہیں دنوں علی گڑھ سے ہجرت کر کے جو اس وقت کوئیلکے خوبصورت نام سے جانا جاتا تھا، ایک باریش بزرگ ایکمسیں بھیگتے نو جو ان کے ساتھ، جو ان کا پوتا تھا، ہاتھی پر سوار، جون پور سے تین میل دور موضع فیروز شاہ پور میں وارد ہوئے (جونپورپرانگریزوں کے قبضے کے بعد یہ موضع ان کے کاغذات میںفروشی پور درج ہوا جسے بعد میں عوام نے پڑوسی پور بنا دیا) یہبزرگ ان مسلمانوں میں سے تھے جنہوں نے بھٹیزکے قلعہ کے باہر ہندوؤں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر تیموریسپاہ سے جنگ کی تھی اور شکست یقینی جان کر زن و بچہ قتل کر کے ’ جو ہر‘ کی رسم ادا کی تھی۔ زندگی باقی تھی خود بھی بچ گئے اور یہ پوتا بھی جو ان کے ساتھ ہاتھی پر سوار ہو کر جنگ میں شریک تھا۔سید، عالم دین اور نہایت پاکباز ہونے کے سبب بزرگ جون پور میں ہاتھوں ہا تھ لئےگئے۔اس وقت سلطنت کا فاؤنڈیشن اسٹون نصب کرکےخواجہجہاں ر ا ہی ملک عدم ہوچکے تھے۔مونہہ بولا بیٹا مبارک شاہ تخت پر تھا۔ بزرگ کو مبارک شاہ نے ایک قطعہ ا راضی دی جس پر انہوں نے مدرسہ قائم کیا۔ کچھ عرصے بعد ان کا ہاتھی مر گیا تو سلطان نے ہاتھی بھی عنایتکیا۔ اطراف کا ایک پنچ گو تی راج پوت بزرگ سے اس قدر متاثر ہوا کہ اسلام قبول کیا اور اپنی بیٹی ان کے پوتے کے نکاح میں دی۔ بزرگہاتھی والے سید صاحب مشہور ہو گئے اس لئے کہ فیروز شاہ پور سے جون پور آتے تو ہاتھی پر سوار ہو کر ہی آیا کر تے۔ جون پور اب شرقی سلطنت کا صدر مقام تھا۔سید صاحب کا ہا تھی ایک دن جون پور میں اڑ گیا۔ اٹالہ چوک پر بیٹھا تو بس بیٹھے بیٹھے گھنٹوں کان جھلتا رہا۔ اٹھنے کا نام نہ لے۔ لا کھ مہاوت نے آنکس کے ٹہو کے د ئے، پچکار ا، سارا فن آزما لیا لیکن زمین جنبد، آسمان جنبد، نہ جنبدفیلِسید۔ تب ان کے پوتے کے پانچ سالہ بیٹے نے، جس کی ماں نسلاً راجپوتنی اور مذہباً مسلمان تھی اور جو پردادا کے ساتھ ہاتھی پر بیٹھ کر سیر کرنے چلا آیا تھا ہاتھی کے گلے میں ننھے ننھے ہاتھ ڈال کے اس کے کان میں کچھ کہا۔ ہاتھی فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ قصہ کچھ ایسا زبان زد خاص و عام ہوا کہ لڑکا بڑا ہوا تو سلطان ابراہیم شاہ شرتی نے اس کے پر دادا کی زمینوں میں اضافہ کر کے اسے فیل خانے کا مہتمم مقرر کیا۔ سید ہادی حسن عرف ہدّو میاں کے کرمخوردہ شجرے میں فیل خانے کے مہتمم اور پڑوسی پور کے زمیندارسید سنجرحسین کا نام بالکل صاف لکھا نظر آتا ہے۔ہا تھی کے پیٹ میں اتنا سارا حلوہ اور اصلی گھی لگی دو ستیر و ٹیا ں اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھ کر ہدّو کی اہلیہ کے کلیجے میں دھواں اٹھا تھا اور اب تک اٹھے جا رہا تھا۔ خالی برتن کھڑ کا کھڑ کا کر وہ مسلسل اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھیں۔ہدّ و پر کوئی اثر نہ ہو تے دیکھ کر انہوں نے پیر پٹخے ’’ اب ہم خود جائیں گے پڑوسی پور اور اس کلمونہے اللہ مارے ہاتھی کو چھوڑ آئیں گے وہاں۔کوس کوس کے تھک گئے ۔مرا بھی نہیں۔ اب جائے وہاں سفیدے کے د رخت روندے۔ اس موئے راجہ کے سفیدوں کو کیڑے لگیں، سوکھامار جائے۔‘‘یہ سفیدے کے درختوں کا بھی ایک قصہ تھا:ہدّو کی بیوی کو سفیدے کے درختوں سے سخت چڑتھی جس میں وہ حق بہ جانب تھیں۔ ان کی زندگی کے منظر نامے پر سفیدے کے درخت لکھے جانے سے پہلے زندگی اتنی بے ہنگم اور تاریک نہیں تھی۔ پڑ وسی پور کے زمیندار بھیرو سنگھ کے یہاں ایک خستہ حویلی، کچھ زمینیں اور ایک عدد ہاتھی، خاتمہ زمینداری کے خاصے عرصے بعد تک بر قرار تھے۔ راجہ صاحب کا لقب بھی برقرار تھا جو بے وقوف رعیت نے انگریزوں کے زمانے میں ان کے بزرگوں کے ہا تھ زمینداری آنے پر انہیں عنایت کیا تھا۔ اس وقت حویلی نہایت حسین اور با رونق ہوا کرتی تھی۔ ڈیوڑھی پر تین تین ہاتھی جھولتے تھے جن پر آٹھ ملازم مقرر تھے۔ ان کے خاص مہاوت کی سفارش پر ایک نواں ملازم مقرر کیا گیا۔ یہ ہدّ و کے پردادا کے والد تھے۔سید سنجر حسین، مہتمم فیل خانہ شا ہی اور محض تین ہاتھیوں پر مشتمل معمولی سے فیل خا نے کے ایک معمولی ملازم کے درمیان گومتی میں بہت سارا پانی بہہ چکا تھا !راجہ صاحب نے اپنے بچپن کے دوست گیا کے نواب احمد علی خاں سے خاصہ سبق سیکھا تھا۔ ان کے ہاں ہاتھی کے سا تھ رولس رائس بھی تھی۔ بچپن میں نواب صاحب کے لئے انگریز گورنس ہوا کر تی تھی۔ محل میں پچاس سے تین اوپر کمرے تھے لیکن وہ مرے تو ان کا گھر ایک کوٹھری پر مشتمل رہ گیا تھا۔ ہا تھی اور رولس رائس محل سمیت نہ جانے کن لوگو ں کی جیبوں میں سما گئے تھے۔ انگریز گو رنسں کی جگہ ایک چندھی بڑی بی تھیں جو پرانے وقتوں کے احسانات نبھانے کے لئے دو و قت ر و ٹی ڈال جا یا کر تی تھیں۔ سبزی بعض اوقات کافی نہیں ہو تی تھی۔نواب صاحب ایسے میں چائے سے روٹی کھا لیا کرتے یا صرف اچار پر اکتفا کرتے۔راجہ صاحب نے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم د لوائی۔ د و تو امریکہ میں جا بسے اور ایک با ہر سے فلمسازی کی تر بیت لے کر بمبئی میں مقیم ہوا۔ اشتہاری فلمیں بنانے والا یہ نوجوان اپنے پیشے میں کافی کامیاب ہوا اور چند سال پہلے گاؤں آیا تو ضد کر کے باپ کو اپنے ساتھ لیتا گیا۔ شکستہ حویلی کی گرتی دیواریں پوری طرح گر وا کر ملحق زمین سے اسے ملا دیا اور وہاں سفیدے کے درخت لگواد ئے کہ یہ نہایت منفعت بخش سودا ہے۔ شاگرد پیشہ کی د و کو ٹھریاں رہنے دیں ان میں اپنیپسند اور بھروسے کے مطابق دو جوان صحتمند کارندے مقررکئے۔باقی لوگوں کوہدّو اورہاتھیسمیت نکال باہر کیا۔ راجہ صاحب کو ہاتھی سے بے حد لگاؤ تھا اور ہدّ و کو اس سے جومحبت تھی اس کے بھی معترف تھے۔ اس لئےہاتھی کو بیچنے کی تجویز پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔ ہاتھیہدّ و کو سونپ کر جون پور میں ایک غیرمقیم ہند ستانی دوست کے بنگلہ نما مکان کے احاطے میں اس کی رہائش کا انتظام کرا یا اور ماہ بہ ماہ اتنی رقم بھیجنےکا وعدہ کیا جو ہاتھی اور ہدّو کی کچھ حد تک کفالتضرور کرسکے۔اب تھا یہ کہ گاؤں میں حویلی کے شاگرد پیشے میں رہنے کے بہت فائدے تھے۔ پھلپھلاری،سبزی ترکاری کی بہتات تھی جو چھوٹی رانی صاحبہ فراخ دلی سے ملازموں میں تقسیم کرتی رہتی تھیں۔ ہدّ و کے بچوں کے لئے عید بقر عید میں نئے کپڑے بن جا تے تھے۔ ہدّوفصل پر کٹائیا ور د ائیں میں مدد کر دیتے تو بہت سا غلہ مل جایا کرتا تھا۔ نقدی زیادہ ہا تھ میں نہ آنے پر بھی فراغت کی زندگی تھی۔ جو تین بچے اس دور میں پیدا ہوئے وہ نہایت صحت مندتھے۔ جون پور آ کر پیدا ہونے وا لے باقی تین نہایت مریل۔ اب تو تینوں بڑے بچوں کے گال بھی پچک گئے تھے۔ وہ اٹالہ مسجد کے پاس کے اقلیتی ادارے کی چھٹی کے اوقات میںچہار دیواری پھلانگ کر اندرگھس جا تے اورگو لیاں اور تاش کھیلتے۔ گھر آتے تو ایسے بھوکےہو تے کہ بس چلتا تو ہنڈیا برتن توڑ کے کھا جائیں۔ اس وقت ہدّو کی بیوی کا جی چاہتا کہ وہ سفیدے کے درختوں میں آگ لگا آئیں یا ہاتھی کی تکا بوٹی کر ڈالیں جو بمبئی سے آنے والی قلیل سی رقم کابیشترحصہ کھا جا تا تھا۔ایک آدھ مرتبہ بیوی نے تجویز رکھی ’’ہم ڈھال گرٹولہ جا کے دیکھ آتے ہیں۔ شاید کہیں بیٹری بنانے کا کام مل جائے۔‘‘ ہدّوبے حد ناراض ہوئے ’’ اب تم برقعہ اوڑھ کے گلی محلے کے لونڈوں کے بیچ سٹرپٹر کر تی گھوموگی۔سیدانی ہو ذرا یہ تو سوچو۔‘‘ایک بار بیوی پھرہتھےسے اکھڑ گئیں’’ ہم تمہاری طرح کھرے سید نہیں ہیں۔ہماری اماں پٹھاننتھیں اور پھر کام کر نے میں ذات کیسی۔‘‘ انہوں نے اسی قدر چیں بہ جبیں ہو کر جواب دیا تھا۔’’ سید کی بیٹی ہو نہ۔ اور سید کی بیوی بھی۔ بس بات ختم۔ اماں سے کیا ہوتاہے۔اماں سے نسل نہیں چلا کرتی۔‘‘اماں سے نسلچلتی ہو تی تو پچ گوتیوں کی بیٹی نے کب کا سید و ں کو راجپوت بنا دیا ہو تا۔ اور آ گے چل کر مغلوں کو بھی۔ بیوی نے حلوہ روٹی کے لئےزیادہ راڑ مچائیتو ہدّ و نےا س دریدہ د ہنعورت سے کچھ دیر فرار حاصل کر نے میں ہی عافیت جانی اورگھر سے نکل لئے۔ جا تے جا تے ایک نظر ہاتھی پر ڈالی جو مزے سے کُڑ کُڑکر کے پیپل کی ٹہنیاں چبا رہا تھا۔ حسب دستور پتے دیکھ کر محلے کی دو چار بکر یاں بھی آگئی تھیں اور پتوں پر مونہہمار رہی تھیں۔ ہا تھی ان سے کبھیناراض نہیں ہو تا۔ شان بے نیازی سے یوں دیکھتا جیسے وہ راجہ ہو اور بکر یاں اس کی غریب رعایا۔ ایک دوسرے کوسینگوں سے ٹھیلتیبکریوں میں سے دو ایک بکریاں ہاتھی کودھکے بھی لگا دیتیں تب بھی وہ بر افروختہ نہ ہو تا۔ اس کی اس فراخدلی کو دیکھ کرہدّو بھی کچھ نہ کہتے۔ اس وقت بھی ایک چھوٹی سی بکری اس کے موٹے موٹے ستون جیسےپاؤں کے بیچ ہو کر سائبان تلے کھڑی جلدی جلدی پتوں پرمونہہ مارر ہی تھی۔ ہدّ و کا جی بھر آیا۔بھاری دل اور بھاری قدموں کے ساتھ چلتے ہدّواٹالہ چو ک پر آ کے کھڑے ہو گئے۔ شاندار اٹالہ سر بلند کئے کھڑی تھی۔ سبک نہیں بلکہ مست ہاتھی کی طرح مہیب، بھاری، رعب دار، مسحورکن ۔ ایسا لگتا تھا یہ مسجد ابھی چلنے لگے گی اور اس کے ساتھ چل پڑے گی کل کائنات۔ دماد م دماد م۔ اور شاہی کا وقت پھر لوٹ آئے گا۔با رونق اٹالہ چوک پر ایک رکشہ اکیلا کھڑا تھا۔ رکشے والا کہیں گیا ہوا تھا۔ شایدچائے پینے یا چائے پی کر پیشاب کرنے۔ یا صبح صبح اسٹیشن سے اچھی کمائی کر لا یا تھا اور کہیں بیٹھ کر اسے اڑا نے کے لئے پتے کھیل رہا تھا۔ ہدّو وہیں کھڑے ہوگئے، کچھ بے دھیان سے۔ ایک برقعہ پوش عورت نزدیک آئی۔’’ اے رکشے والے چلو گے ، حمام د رواز ہ چلنا ہے۔‘‘ اس نے ہدّو کو مخاطب کیا۔ہدّ و کو جیسے کسی بھِڑ نے کاٹ لیا۔’’ ارے ہم تمہیں رکشے والے لگتے ہیں؟ ہم فیل بان ہیں فیلبان۔ وہ بھی ایسے ویسے نہیں راجہ کے فیلبان ہیں۔ جا کے دیکھ یا ؤ پر لے محلے میں راجہ صاحب کے رشتے دار کی خالی زمین ہے۔ ہم اس پر رہتے ہیں۔ وہیں ہمارا ہاتھی کھڑا ہے۔ سب ہمیں جانتے ہیں اورہمارے ہاتھی کو بھی۔ لگتا ہے تم یہاںنئی ہو۔ کسی گاؤں گراؤں سے آئی ہو شاید۔‘‘عورت اس مسلسل بوچھار سے گھبرا گئی۔ اسے یہ شخص کچھ سنکی معلوم ہوا۔اس نے تیز تیز قدموں سے سٹک لینے میں ہی عافیت سمجھی۔ہدّو بدبد اتے ہوئے لوٹ آئے۔ عورتوں کے پیچھے لگنا ان کا شیوہ نہ تھا۔ جب ان کا دل زیادہ دکھتا تو ہاتھی سے باتیں کر کے اسے ہلکاکر لیتے۔ اس وقت انہیں بڑا صدمہ پہنچا تھا، وہ ہاتھی پر چڑھ گئے اور گردنسہلاسہلا کے اس کے کان میں کہنے لگے ’’سُنا بیٹا، ایک پگلی سی عورت تھی، پاگل نہیں تو سنکی ضرور رہی ہوگی۔ ہمیں رکشے والا سمجھ رہی تھی۔ ارے ہمارے پاس رکشہ کھڑا تھا تو ہم رکشے والے ہوگئے؟ ارے ہم فیلبانہیں فیلبان۔‘‘ہاتھی نے بڑے بڑے کان جھل کر مکھیاں اڑائیں۔’’ دیکھا ہمارا بیٹا کہہ رہا ہے اور نہیں تو کیا۔سنکی نہیں پوری پاگل رہی ہو گی۔ چل بیٹاگومتی چل کے نہلا لائیں تجھے۔ گرمی بہت ہے۔‘‘ بوڑھے ہاتھی نے السائی ہوئی آنکھیں بند کیں اورپھرکھولیں جیسے کہہ رہا ہو’’ اب تمہارا جی چاہ رہا ہے تو لے چلو۔ چلتے ہیں۔‘‘تیکھے نقوش اور جلی جلی سی رنگت والے ہدّو نے اٹالہ سے کچھ دور فیروز شاہی قلعہ کی چڑھائی پر ہانپتے کانپتے رکشہ آگے بڑھا یا تو انہیں بے تحاشہ وہ عورت یاد آئی جس نے کچھ عرصہ پہلےرکشہ والا سمجھ کر حمام دروازہ چلنے کے لئے کہا تھا۔ وہ یقیناًکوئی پچھل پیری تھی یا اس کی زبان پرکا لاد ھبہ تھا۔ ویسے کالیزبان تو ہدّو کی بیوی کی بھی رہی ہو گی جو ہاتھی یوں کھڑا کھڑا مر گیا تھا بے چارہ۔ لیکن موت کا ذائقہ تو ہر ذیروح کو چکھنا ہے، ہاتھی ہو یا چیونٹی اور مر نے کے لئے صرف ایک وجہ کا فی ہے…پیدا ہونا۔اور موت اور پیدائش، ‘ ان دونوںکے علاوہ اس دنیا میں نہ کچھ حتمی ہے اور نہ قطعی۔ مزید یہ کہ ہاتھی جو خاصہ بوڑھا ہو چلا تھا آدھا پیٹ کھا کے زندہ رہنے والے انسانوں کی طرح زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔ لیکن ہدّو کی تسلی کے لئے ان میں سے کوئی حقیقت کا فی نہیں تھی۔ وہ بلک بلک کے رویا کرتے تھے ۔ ایک قلیل سی آمدنی کا ذریعہ ختم ہو جانے کی وجہ سے نہیں بلکہ ہاتھی کے فراق میں۔ نہایت ایمانداری کے ساتھ انہوں نے راجہ صاحب کو ایک پوسٹ کارڈلکھوا کے اس کی اطلاع دے دی تھی۔ انہوں نے ہدّو کو کچھ یکمشت رقم بھیجی اور ایک جوڑ کپڑے۔ یہ ان کے لئےخلعت کا قائممقام تھے اور ہاتھی کا آخری تحفہ۔ ساری رقم ختم ہو گئی تو ہدّو حاجی رضا علی کے یہاں گئے۔ ان کے یہاں رکشے چلا کر تے تھے۔ اتفاق سے ایک کام چور، ٹی بی کے مریض رکشے والے کو انہوں نے حال ہی میں چھٹی دی تھی۔ اس کا رکشہ انہوں نے ہدّو کو تھما دیا۔ شرمسار اورر نجیدہ ہدّو جب پہلے دن گر دن جھکا کے اٹالہ کے رکشہ اسٹینڈ پر کھڑے ہوئے تو ان کا دل بالکل اچاٹ تھا۔ لیکن تب انہوں نے یاد کیا کہ ابھی کچھ دن پہلے ان کے پاس ہاتھی تھا۔ سچ مچ کا ہاتھی۔ اور ان کے شجرے میں کہیں سیدسنجر حسین تھے جو شا ہی کے وقتوں میں فیل خانے کے مہتمم ہوا کرتے تھے( اور’’ شیرازہند جون پور‘‘ کے مصنف سید اقبال حسین کا کہنا تھا کہ اس وقت شاہی فیل خانےمیں ہاتھیوں کی تعداد کم از کم چھ سو ضرورتھی)ثبوت کے طور پر ہاتھی کے دانت کچی دیوار پر آویزاں تھے اور شجرہبکس میں محفوظ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Dhoop Chahon a Short Story by Asrar Gandhi
Articles
دھوپ چھاؤں

اسرار گاندھی
وہ اپنا گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم میں آ گیا تھا اور اس کے دن آنسوؤں سے بھر گئے تھے۔ پچھلے پچاس برسوں کی زندگی بھولنا اتنا آسان تو نہ تھا۔ ہر لمحہ کچھ نہ کچھ باتیں اس کے دل و دماغ میں سوئیوں کی طرح تیرتی رہتیں اور اس کا پورا وجود چھلنی ہو کر رہ جاتا۔
کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اسے بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔
باہر ہو م کا نوکر کھڑا تھا۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ وہ نوکر کو دیکھتا ہوا بولا۔
’’چائے کا وقت ہے، آپ میس میں آ کر چائے پی لیں ۔ ‘‘
’’چلو میں آتا ہوں ۔ ‘‘
وہ کپڑے تبدیل کر کے میس کی طرف چل پڑا۔
بڑی شاداب جگہ پر تھایہ ہوم۔ یہاں کے لوگ بڑے نرم مزاج تھے۔ بہت ہی محبتوں سے باتیں کرتے، ہر طرح کا خیال رکھتے، شاید ان کو ایسی ٹریننگ ہی دی گئی تھی۔
اس نے میس میں چائے پی اور باہر آ کر لان میں پڑی ہوئی ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ لان پر اور بھی کئی لوگ بیٹھے تھے۔ جنہیں وہ نہیں جانتا تھا کہ اسے یہاں آئے ہوئے ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے۔
لان پر مخمل جیسی گھاس بچھی تھی اور وہاں رکھے ہوئے قطار در قطار گملوں میں خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے۔ شاید ہوم کو اس لئے بھی خوبصورت بنایا گیا ہو گا کہ تنہائی کا شکار یہ بزرگ اپنے آپ کو اس خوبصورتی کا حصہ بنا لیں اور ان کا وقت آسانی سے کٹ سکے۔
لیکن اس وقت اسے یہ خوبصورتی بھی ذہنی سکون نہ دے سکی۔
اسے اپنا گھر یادآ رہا تھا۔ گھر کے لوگ یاد آ رہے تھے۔ وہ لوگ جنھوں نے اسے یہاں آنے دیا اور اس کے گھر چھوڑ کر اس ہوم میں چلے آنے کے تعلق سے قطعی خاموشی اختیار کر لی تھی۔ شاید انھیں اس طرح اس کا اِس ہوم میں آنا اچھا لگا ہو۔ شاید وہ لوگ یہی چاہتے بھی تھے کہ وہ ان کے حسب منشا زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
اس نے نظر اٹھا کر لان کی طرف دیکھا جہاں کئی لوگ آپس میں مل کر خوش گپیاں کر رہے تھے۔ یہ لوگ بھی تو یوں ہی یہاں نہ آ گئے ہوں گے۔ ان کی بھی گھر چھوڑنے کی مجبوریاں رہی ہوں گی۔ کس کی اولاد کب ہوئی ہے اپنے بوڑھے ماں باپ کی لیکن اس کے بچے تو اپنی ماں کے ہو گئے۔ اسے وہ سرگوشیاں یاد آئیں ۔ ’’دیکھو تمہارے باپ نے مجھے بہت پریشان کیا ہے۔ میں نے تم لوگوں کے لئے بڑی ذلتیں سہی ہیں ۔ ‘‘ بڑے ہوتے ہوئے بچے اپنی ماں کی باتوں پر یقین کر لیتے اور ان کی آنکھوں میں نفرت کے سائے لہرانے لگتے۔
اس نے سوچاکہ کاش اس نے بھی اپنے بچوں کوسچ بتانے کی کوشش کی ہوتی لیکن پھریہ سوچ کر خاموش ہو جاتا کہ بڑے ہو کر یہ اپنے آپ ہی سچ سے روشناس ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ بچے جیوں کے تیوں رہے۔ اسے سوچنا چاہئے تھا کہ جب اولادیں جوان ہو جاتی ہیں تو مائیں اپنے شوہر کے مد مقابل کھڑی ہو نے لگتی ہیں ۔
اور اب وہ اس اولڈ ایج ہوم میں تھا۔ جو بڑی شاداب جگہ پر بنایا گیا تھا۔ اور یہاں اس جیسے کتنے لوگ دھیمے دھیمے قدموں سے آتی ہوئی موت کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ لان پر سے اٹھا اور اپنے کمرے میں آ گیا۔ بستر پر لیٹتے ہی بہت سی یادوں اور آوازوں نے اسے گھر لیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ وہ اپنی بیٹی سے کتنا پیار کرتا ہے لیکن بیٹی کا بے اعتنائی سے بھرپور رویہ ہمیشہ اس کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا۔ کئی بار وہ سوچتا کہ آخر اس کا قصور کیا ہے۔ پھر اسے اپنے اندر سے آتی ہوئی ایک آواز سنائی دیتی کہ ان پریشانیوں کے ذمہ دار تو تم خود بھی ہو۔ تم نے ہی تو اپنے وجود کو ایک ساؤنڈ پروف چادر میں لپیٹ رکھا تھا۔ ان دنوں کیا تم نے کبھی اپنے بچوں کے بارے میں بھی سوچا۔ وہ اس آواز کو سن کر سہم جاتا۔
اس نے سوچا کہ کتنی خاموشی سے زیادہ تر دوست دور ہوتے چلے گئے اور وہ تنہا ہوتا چلا گیا تھا۔ صرف ایک صادقہ ہی تھی جو اب بھی اس کی غم گسار تھی۔
صادقہ۔۔۔۔ جو کسی کالج میں پینٹنگز کی ٹیچر تھی اور ساتھ ہی ایک جانی مانی پینٹر بھی۔
شاید وہ صادقہ ہی تھی، نہیں یقیناً وہ صادقہ ہی تھی جس نے پہلی ملاقات کے کچھ دنوں بعد ا س کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
’’اپنی اوپر لادی گئی نیند شکست خوردہ انسان کے لئے ہوتی ہے، اس خیال سے باہر آ جاؤ۔ زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے، میں تمہارے ساتھ ہوں ۔ ‘‘
پھر وہ سچ مچ ان دنوں سے باہر آ گیا تھا، جو آنسوؤں سے بھرے تھے۔ کتنے دنوں بعد گرم جوشی کے ساتھ وہ دن لوٹے تھے۔ ایک الگ سا احساس، ایک الگ سی خوشبو لئے ہوئے۔ اچانک پھرکسی نے دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ چونک پڑا اور اس کی سوچ کے پرندے پرواز کر گئے۔ وہ جھنجھلا کر اٹھا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو ہو م کا ایک چپراسی کھڑا تھا۔ اس نے کاٹ کھانے والے انداز میں پوچھا۔ ’’کیا ہے؟‘‘
’’ صاحب شام کو لان پر ایک ضروری میٹنگ ہے آپ اس میں ضرور آئیے۔ ‘‘ چپراسی چلا گیا۔ اور اس نے بڑبڑاتے ہوئے دروازہ بند کیا۔ اور بستر پر آ کر دوبارہ لیٹ گیا۔ اور یادوں کی پگڈنڈی پھر روشن ہو گئی۔
اس نے سوچا کہ اس نے صادقہ کو پہلی بار کب دیکھا تھا، پھر اسے فوراً ہی یاد آ یا کہ وہ اسے پہلی بار ایک پینٹنگ کی نمائش میں ملی تھی۔
اس دن وہ یوں ہی اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا کہ اس کی نظریں اس ہال پر پڑی جہاں مصوری کے تعلق سے ایک نمائش لگی تھی۔ وہ ہال میں داخل ہو گیا۔
ہال میں بڑے سلیقہ سے پینٹنگز سجائی گئی تھیں ۔ وہ مصوری کے خوبصورت نمونوں کو دیکھتے ہوئے اس تک پہنچا تھا۔
اس نے بہت خوبصورت رنگوں میں اپنی پینٹنگز بنائی تھیں ۔ وہ چند لمحے وہاں ٹھہرا رہا پھر پینٹنگز کی طرف سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ یہ کہنااس کے لئے مشکل تھا کہ وہ زیادہ خوبصورت تھی یا اس کی تخلیق کردہ تصویریں ۔
اس نے اپنے قدم آگے بڑھائے ہی تھے کہ وہ اس کے قریب آکر آہستہ سے بولی ’’پینٹنگزکیسی لگیں ؟‘‘
’’بہت خوبصورت بنائی ہے آپ نے یہ پینٹنگز۔ لیکن اگر آپ ان پینٹنگزسے ذرا دور ہٹ کر کھڑی ہو جائیں تو یقیناً یہ پینٹنگز زیادہ حسین نظر آنے لگیں گی۔ ‘‘
وہ Blushکر گئی۔
وہ بھی مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا، لیکن اس نے محسوس کیا کہ جیسے اس کے اندر کوئی چیز کہیں ٹھہر گئی ہے۔
اگلی لاقات بھی ایسی ہی ایک نمائش میں ہوئی تھی۔ اس دن وہ اسے ہال کے دروازے پر ہی مل گئی تھی۔
’’آپ‘‘ وہ اسے دیکھتا ہوا بولا۔
’’ہاں میں ، میں صادقہ ہوں ، ایک کالج میں پڑھاتی ہوں ۔ ‘‘
’’بہت اچھا لگا آپ سے مل کر۔ ‘‘
’’مجھے بھی۔ ‘‘
’’آج آپ کی پینٹنگز؟‘‘
’’میں آج صرف دوسروں کی تخلیقات سے لطف لینے آئی ہوں ۔ ‘‘
’’آپ نے اچھا کیا۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’آج آپ کو دیکھ کر آپ کی پینٹنگز اور بھی شرمسار ہو جاتیں ۔ ‘‘
وہ اسے دیکھ کرمسکرائی ’’شکریہ‘‘
’’چلئے یہاں لگے ہوئے مصوری کے نمونوں کو دیکھا جائے‘‘ وہ دھیرے سے پھر بولی۔
’’ہاں چلئے کہ آپ کے ساتھ ان پینٹنگز کو دیکھنے کا مزہ تو کچھ اور ہی ہو گا۔ ورنہ مجھے تو رنگوں کے تعلق سے کچھ زیادہ معلوم نہیں ۔ ‘‘
پھر وہ اسے دیر تک ان تصویرو ں کی باریکیاں سمجھاتی رہی۔
’’کیا آپ میرے ساتھ کہیں بیٹھ کر ایک کپ کافی پینا پسند کریں گی؟‘‘ اچانک وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔
تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد وہ راضی ہو گئی۔
کچھ دیر بعد وہ ایک خوبصورت سے ریستورا ن’’ محفل‘‘ میں بیٹھے ہوئے تھے۔
کافی کا سپ لیتے ہوئے صادقہ بولی تھی ’’کیا آپ کو بھی پینٹنگز بنانے کا شوق ہے، یا صرف دیکھنے کی حد تک ہی محدود ہیں ۔ ‘‘
’’صرف دیکھنے کی حد تک۔ دراصل پینٹنگز میرے اندر کی جمالیاتی حس کو مطمئن کرتی ہیں اور یہ بات صرف پینٹنگز تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ……..‘‘ وہ اچانک خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا اور اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
اس نے صادقہ کے اندر کچھ اتھل پتھل سی محسوس کی۔
صادقہ خاموشی سے ہال کا جائزہ لے رہی تھی۔ ہر ٹیبل پر ایک لیمپ لٹکا ہوا تھا، جس کی روشنی ایک چھوٹے سے دائرے تک ہی محدود تھی۔ ان میزوں کے علاوہ ہال میں ہر طرف ایک پراسرار کی تاریکی بکھری ہوئی تھی۔
’’آپ کون سا پرفیوم استعمال کرتی ہیں ؟ بڑی دلآویز خوشبو ہے، کافی ہیجان انگیز۔ ‘‘
اس کی آواز سن کر وہ چونک پڑی۔
’’یہ آپ کا واہمہ ہے، میں پرفیوم کبھی استعمال نہیں کرتی۔ ‘‘ وہ بڑے پر وقار انداز میں بولی۔
وہ جھینپ گیا، لیکن اسے حیرت ضرور ہوئی کہ اس نے سچ مچ خوشبو محسوس کی تھی۔
کافی ختم کرنے کے بعد وہ آہستہ سے بولی ’’چلئے چلتے ہیں ‘‘
’’چلئے‘‘ وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
کاؤنٹر پر بل ادا کر کے وہ ’’محفل‘‘ سے باہر نکل آئے۔
وہ اپنی کار کی طرف بڑھتا ہوا بولا ’’آپ کو کہاں ڈراپ کر دوں ۔ ‘‘
’’کہیں بھی نہیں ، میں چلی جاؤں گی۔ ‘‘
اس کے کئی بار کہنے کے باوجود بھی وہ نہیں مانی اور ایک رکشہ لے کر اپنے گھر کی طرف چل دی۔
نہ جانے کیوں اسے ایک شرمندگی کا احساس ہوا۔ پھر ایک طویل سانس لیتے ہوئے اس نے اپنی کار اسٹارٹ کی اور آگے بڑھ گیا۔
اچانک اس نے ایک جھرجھری سی لی اور ماضی سے حال میں آ گیا۔ اس نے اٹھ کر فریج سے ٹھنڈے پانی کی ایک بوتل نکالی اور گلاس میں انڈیل کر پینے لگا۔ وہ پھر آ کر پستر پر بیٹھ گیا اور آنکھیں بند کر لیں ، آنکھیں بند کرتے ہی ماضی پھر پلٹ پڑا۔
اس دن صبح ہی صبح اس کا فون آیا تھا۔ ’’کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں بس بیتے دنوں کی یاد‘‘ وہ کچھ اداس سے لہجے میں بولا۔
’’ایک بات جاننا چاہتی ہوں ، بتائیں گے آپ؟‘‘
’’آپ کی بات سن کر ہی کچھ کہہ سکتا ہوں ۔ ‘‘
’’دراصل میں آپ کی ذاتی زندگی میں کچھ دخل دینا چاہتی ہوں ۔ ‘‘
’’پوچھئے، آپ کو پورا حق حاصل ہے۔ ‘‘
’’میں نے بہت بار محسوس کیا ہے کہ آپ بات کرتے کرتے کہیں گم ہو جاتے ہیں اور آپ کی نیلی نیلی روشن آنکھیں اچانک بجھ سی جاتی ہیں ۔ ‘‘
ایک لمحے کے لئے گہری خاموشی چھا گئی۔
’’آج موسم بہت اچھا ہے۔ ‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’آپ شاید میری بات کا جواب دینا نہیں چاہتے۔ ‘‘
تھوڑی دیر خاموش رہ کر وہ آہستہ سے بولا۔ ’’اگر آپ کو ایک دن یہ پتہ چلے کہ آپ کے بچے آپ کے لئے نہیں بلکہ ماں کے لئے ہیں اور اگر بچوں کی آنکھوں میں کبھی آپ کے لئے محبت کے چراغ روشن نہ ہوں تو آپ کیامحسوس کریں گی۔ جیسے ہی مجھے ان باتوں کا خیال آتا ہے میری بے بسی میری آنکھوں کو بجھا دیتی ہے۔ ‘‘ اس کے لہجے میں بے حد اداسی تھی۔
’’ویری ساری، میرا سوال آپ کو اداس کر گیا۔ ‘‘ وہ دھیمے سے بولی۔
’’نہیں کوئی بات نہیں ، مجھے بار بار اس کیفیت سے گذرنا ہوتا ہے، یہ تو میری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ زندگی کی سچائیوں کی طرف سے میری بے نیازی مجھے یہاں لائی ہے۔ میں کسی کو الزام نہیں دیتا مگر اتنی بڑی سزا کا مستحق بھی تو نہیں تھا۔ ‘‘ اس کے لہجے میں تھرتھراہٹ تھی۔
’’کاش! میں آپ کے لئے کچھ کر سکتی۔ ‘‘
میں جانتا ہوں کہ آپ کی اپنی فیملی ہے، ذمہ داریاں ہیں ۔ آپ کچھ کرنا چاہیں بھی تو نہیں کر سکتیں ۔ ‘‘
’’دیکھئے میں ……‘‘ پھر اس نے اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے ہی فون کاٹ دیا۔ اس کے لہجے میں بڑی کپکپاہٹ تھی۔
اسے معلوم تھا کہ وہ بہت جذباتی ہے۔
یادوں کا کارواں اب بھی رواں دواں تھا۔
اس دن کسی نے بہت زور سے اس کا دروازہ بھڑبھڑا یا تھا اوراس کی نیند ٹوٹ گئی تھی۔ وہ دانت پیستا ہوا اٹھا تھا اور دروازہ کھول کر دیکھا تو کاشف سامنے کھڑا تھا۔
’’کیا بات ہے، اتنی زور سے دروازہ کیوں بھڑبھڑا رہے ہو؟‘‘ وہ پھاڑ کھانے والے لہجے میں غرایا، پھر اگلے ہی لمحے وہ نارمل ہو گیا۔
’’ساری کاشف، آؤ آؤ! میں نیند میں غرق تھا، اچانک اس طرح سے اٹھنا……‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں ۔ کیا رات دیر میں سوئے تھے؟‘‘
’’ہاں ، پتہ نہیں کیوں رات دیر سے نیند آئی۔ ‘‘
’’کیوں ؟ کیا کوئی بات ہو گئی۔ ‘‘
’’نہیں ، بس کسی کے فون کا انتظار تھا۔ نہیں آیا تو کچھ الجھن سی ہوئی اور نیند نے کسی طویل صحرا کی طرف اڑان بھر لی۔ ‘‘
’’تم تو نیند کی گولیاں بھی لیتے ہو؟‘‘
’’ہاں ، مگر کبھی کبھی وہ بھی کام نہیں کرتیں ۔ میں شاید کچھ زیادہ ہی حساس ہو گیا ہوں ۔ ‘‘
’’یہ تو مناسب بات نہیں ۔ ویسے اس وقت تمھارے گھر بے حد سناٹا چھایا ہوا ہے۔ کیا کوئی نہیں ہے؟
’’ہاں ، سب مبمئی گئے ہوئے ہیں ۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’بس یوں ہی گھومنے کے لئے‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی، تمھیں تنہا چھوڑ تفریحاً ممبئی چلے گئے، انھیں معلوم ہے کہ تم دل کے مریض ہو‘‘
’’میں تنہا کہاں ہوں ۔ ‘‘
’’کون ہے تمھارے ساتھ؟‘‘ کاشف نے پھر سوال کیا۔
اس نے آسمان کی جانب دیکھا۔ مسکرایا، پھر دھیرے سے بولا ’’کوئی اور بھی ہے، جسے ہر وقت میرا خیال رہتا ہے۔ ناشتہ کیا، کھانا کھایا، طبیعت کیسی ہے، آرام کیجئے، کہیں گھوم آئیے۔ یہ اور ایسی بہت سی باتیں ، وہ مجھے جینے کا حوصلہ دیتی ہے، ورنہ شاید اب تک……‘‘ وہ چپ ہو گیا اور آنکھیں بند کر کے جلدی جلدی سانسیں لینے لگا۔
کاشف اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا ’’اچھا چلو اٹھو، محلے کے کسی چائے خانے میں چائے پیتے ہیں ، باتیں بعد میں کریں گے۔ ‘‘
چائے پی کر وہ واپس آ گئے۔
’’تم آج فری تو ہو؟ ‘‘کاشف کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’نہیں یار اس زندگی میں مہلت کہاں آج مجھے دو میٹنگ میں شامل ہونا ہے اور ایک ریلی میں حصہ لینا ہے۔ ‘‘
’’ لعنت ہے تمھاری اس مشغول زندگی پر، کبھی فرصت ہی نہیں social activistہونا بھی عذاب جان ہے۔ نہیں آج تم کہیں نہیں جاؤ گے۔ مرے ساتھ رہو گے۔ چلیں گے ذرا بچوں کے لئے کچھ خریداری کریں گے، پھر کہیں کھانا کھا کر ’’ٹریٹ ‘‘میں کافی پئیں گے۔ ‘‘
’’اور وہ جو میں تمام لوگوں سے وعدے کر چکا ہوں ۔ اس کا کیا ہو گا ؟‘‘
’’سب سے معذرت کر لو۔ کہہ دو طبیعت ٹھیک نہیں ہے؟‘‘
وہ کاشف کی ضد کے آگے سر نگوں ہو گیا۔
گھر سے نکلتے وقت اس نے دیوار گھڑی کی جانب دیکھا تو بارہ بج رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد وہ سول لائنس کے ایک پاش مارکیٹ میں ایک اسٹیشنری کی دکان پر تھے۔
’’یہاں کیا کام ہے۔ ‘‘ وہ کاشف کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’بچوں کے لئے پینسلس، ربر، گم اور رنگ خرید نے ہیں ۔ ‘‘
’’ چلو ‘‘وہ دکان میں داخل ہوتا ہوا بولا
’’ارے تم!‘‘اچانک اس کی زبان سے نکلا۔
وہ پلٹی تو اس کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔
’’یہاں کیسے‘‘؟
’’بس بچوں کے لئے کچھ چیزیں لینے آ گئی تھی۔ ‘‘
اچانک اسے کاشف کا خیال آیا جو رنگوں کے انتخاب میں مشغول تھا۔
’’کاشف ادھر آؤ ‘‘اس نے آواز لگائی۔
کاشف آیا تو وہ بولا ’’ان سے ملو…..‘‘
اس سے پہلے کہ وہ کچھ آگے بولتا وہ خود ہی بول پڑی۔ ’’میں صادقہ ہوں ۔ ایک کالج میں پڑھاتی ہوں ۔ ‘‘
’’یہ کاشف ہے میرا دوست۔ ‘‘
کچھ دیر پر تکلف باتوں کے بعد صادقہ چلی گئی اور وہ ایک رستوران میں کھانا کھانے کے بعدکافی کے لئے وہ ٹریٹ پہنچے تو ہال تقریباً بھرا ہوا ملا۔
وہ کاشف کو لئے ہوئے ایک خالی میز پر پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر بہتوں نے سلام کے لئے ہاتھ اٹھائے اور وہ گردن کے اشارے سے سب کو جواب دیتا رہا۔
کاشف اسے کچھ بیتاب سا لگا۔
’’کیا بات ہے تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ہاں یہی کہ صادقہ کی آنکھیں اتنی جان لیوا ہیں اور تم ابھی تک زندہ کیسے ہو۔ ‘‘
وہ ہنسنے لگا۔ پھر بولا۔
’’کبھی اس کے سامنے اس کی خوبصورتی کی تعریف نہ کر دینا ورنہ ناراض ہو جائے گی اور سلام دعا بھی بند کر دے گی۔ ایک بار کسی کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے۔ ‘‘
کاشف اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’کاشف آج تم نے بڑی گڑ بڑ کر دی۔ میٹنگوں میں میرا جانا ضروری تھا۔ ‘‘
چند لمحوں کے لئے سناٹا چھا گیا۔ پھر کاشف بڑے گمبھیر لہجے میں بولا۔
’’کوئی گڑ بڑ ی نہیں کی۔ مجھے معلوم ہے کہ تم نے اپنی زندگی اتنی مشغول کیوں کر لی ہے۔ تم گھر کے اندر گردش کرنے والی ان آوازوں سے بچنا چاہتے ہو جو تمھارے پورے وجود میں سوئی کی طرح چبھتی چلی جاتی ہیں ۔ تمھاری مشغولیت تمھارے لئے فرار کا ایک راستہ ہے۔ ‘‘
وہ بری طرح سے تلملا گیا۔ لیکن کچھ بولا نہیں ۔ وہ ہال کا جائزہ لینے لگا۔ اچانک اس کی نظریں اس تخلیق کار پر پڑیں جو صادقہ پر مائل بہ کرم تھا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے سوچا کہ اپنی طرف سے ہر کسی کو اس کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی کو بھی پسند کر سکے۔ یہ بالکل الگ بات ہے کہ اس کی پسند کو دوسرا فرد کس طرح لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ صادقہ اسے پسند نہیں کرتی۔
پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
ٹریٹ سے نکلے تو ان کے راستے الگ تھے۔
موبائل کی آواز سے وہ پھر چونکا اور یادیں کہیں پرے چلی گئیں ۔
کال صادقہ کی تھی۔ اس کے چہرے پر رونق براجمان ہو گئی۔
’’ہلو صادقہ‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔
’’کیسے ہیں آپ؟‘‘
’’بس ٹھیک ہوں ۔ تم کسی طرح وقت نکال کر آ جاؤ تو بالکل ٹھیک ہو سکتا ہوں ۔ ‘‘
’’آج تو بہت بزی ہوں ، گھر کچھ مہمان آنے والے ہیں ۔ بچوں کے لئے شاپنگ کرنی ہے، پھر کالج، چاہ کر بھی آنا مشکل ہے۔ ‘‘وہ خاموش رہا جیسے بجھ سا گیا ہو۔
’’میں وعدہ کرتی ہوں کہ کل ضرور آؤں گی۔ آں …..ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’چلو کوئی بات نہیں ۔ یہ بھی کر کے دیکھتے ہیں ۔ ‘‘
اگلے دن وہ سچ مچ اس کے پاس آ گئی۔
’’میں آ گئی۔ بولو اب تو خوش ہونا۔ ‘‘
وہ کچھ بولا نہیں آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کی گلے میں اپنی باہیں ڈال دیں ۔
وہ اس کی بانہوں کو ہٹاتی ہوئی بولی ’’دوا کھائی؟‘‘
’’ہاں جینا ہے تو دوا کھانی ہی پڑے گی۔ ‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔
’’آپ لیٹ جائیے اور پھر آرام سے باتیں کیجئے۔ ‘‘
’’بس میں ٹھیک ہوں ۔ دن بھر لیٹا ہی رہتا ہوں ۔ ‘‘
صادقہ کے اصرار پر وہ لیٹ گیا۔
’’صادقہ اگر تم نہ ہوتیں تو میں اب تک ا پنی قبر میں Skeltonبن گیا ہوتا۔ ‘‘
’’پھر وہی باتیں آپ مجھے رلانا چاہتے ہیں کیا؟‘‘
’’ویری ساری میں اب ایسی باتیں نہیں کرونگا، خوش۔ ‘‘
وہ مسکرائی پھر اس کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے سلجھانے لگی۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔
’’ارے ہاں ایک بات تو بتانا بھول ہی گئی، میں چند دنوں کے لئے باہر جا رہی ہوں ۔ ‘‘
’’کیوں ، کہاں جا رہی ہو؟‘‘
’’وہ کیا ہے کہ دہلی میں بین الاقوامی سطح کا ایک آرٹ فیسٹول ہو رہا ہے۔ مجھے بھی اپنی پینٹنگز لگانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ‘‘
’’ارے واہ کیا بات ہے۔ ‘‘ وہ بستر سے اٹھا اور صادقہ کو بھر پور طریقہ سے گلے لگا لیا۔
’’صادقہ یہ تمھارے لئے بہترین کامیابی ہے۔ میں بہت خوش ہوں ‘‘وہ دوبارہ بستر پر بیٹھتا ہوا بولا۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ صادقہ کی روشن روشن آنکھیں بجھ سی گئیں ہیں اور اس کے چہرے پر ایک افسردگی چھا گئی ہے۔
’’ارے کیا بات ہے تم افسردہ کیوں ہو گئیں ۔ تمھیں تو اس وقت بے حد خوش ہونا چاہئے تھا۔ ‘‘
’’کوئی بات نہیں بس میں اب چلوں گی۔ ‘‘
’’نہیں تم ابھی تھوڑی دیر اور رکو اور مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے۔ ؟‘‘
’’کچھ خاص بات نہیں ، بس میں یہ سوچنے لگی کہ کبھی میری کامیابیوں پر میرے شو ہرنے ایسی خوشی کا ظہار کیوں نہیں کیا۔ وہ صرف ’بھئی واہ ‘تک ہی کیوں محدود ہے، اس نے کبھی مرے اندر چھپے ہوئے فنکار تک پہنچنے کی کوشش کیوں نہ کی؟‘‘ وہ بولتے بولتے چپ ہو گئی۔
’’دیکھو صادقہ حالات کو سمجھنے کی کوشش کرو، وہ کار پوریٹ لائف کا بندہ ہے، اس کے لئے مادی فائدے ہی سب کچھ ہیں ۔ اس نے تمھارے جینے کے لئے تمام آسائشیں اکٹھا کر دی ہیں ۔ اس کے خیال میں تمھارے لئے یہی کافی ہے۔ اس سے دانشورانہ رویے کی امید کرنا بے وقوفی ہے، تمھیں تو اب تک اس بات کو سمجھ لینا چاہئے تھا۔ ‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں اس کے یہاں خوبصورتی کا تصور صرف مرے چہرے تک ہی ہے اور بس۔ ‘‘
وہ چند لمحے چپ رہ کر بولی۔ ’’چھوڑیے ان باتوں کو۔ جتنا سوچوں گی اتنا ہی دکھ پہنچے گا۔ میرے لئے آپ تو ہیں نا؟‘‘وہ مسکراتی ہوئی بولی۔
’’ہاں میں تمھارے لئے ہوں اور جب تک زندہ ہوں تمھارے لئے رہوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ میری زندگی میں تم انھیں ذہنی آسودگیوں کے لئے آئی ہو اور شاید تم خوش بھی ہو۔ ‘‘
وہ خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کی پیشانی کو بوسہ دے کر بولی۔ ’’اچھا چلتے ہیں کافی دیر ہو گئی ہے پھر ملتے ہیں ۔ ‘‘
پھر صادقہ کے لاکھ منع کرنے کے با وجود وہ اسے گیٹ تک چھوڑنے آیا۔ وہ جب اپنے کمرے کی طرف واپس لوٹ رہا تھا تو اسے اپنے پیروں میں کپکپاہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا کہ کل اپنا چیک اپ ضرور کرا لے گا ورنہ ہو سکتا ہے کہ وہ اور بیمار پڑ جائے۔
اس اولڈ ایج ہو م میں اسے آئے ہوئے اب تقریباً سال بھر ہو رہے تھے۔ گھر سے کئی بار فون آئے لیکن اس نے رسیو نہیں کیا۔ وہ جذباتی طور پر بلیک میل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے اپنا ایک معمول بنا لیا تھا۔ دن میں کافی ہاؤ س اور شام کو ہوم میں رہنے والوں کے ساتھ گپ شپ یا پھر ان چند دوستوں سے ملاقاتیں جو اب بھی اس سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے۔
صادقہ تو برابر آتی ہی رہتی ہے۔ وہ جب بھی آتی اسے جینے کا حوصلہ دیتی۔ اسے صادقہ کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے زندگی کا حاصل محسوس ہوتے۔
وہ آج بھی آئی تھی۔ دیر تک اس کے ساتھ رہی، پیار بھری باتیں ، ہنسی مذاق اور مصوری کے تعلق سے بہت باتیں ۔
کمرے کے باہر سورج ڈوب چکا تھا۔ لوگ لان پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ آج وہ کمرے کے باہر نہیں نکلا۔ جانے کیوں آج وہ ایک عجیب سی کیفیت محسوس کر رہا تھا۔ اسے اپنی بیٹی مونا یاد آ رہی تھی، وہی مونا جو اس کی محبتوں اور شفقتوں کا محور رہی ہے اور وہی مونا جو اس کے ساتھ ہر لمحے بے اعتنائی بھرا رویہ اختیار کرتی رہی ہے۔ اس سے باتیں کرتے وقت اس کا رویہ کتنا کولڈ کولڈ ہوتا ہے۔ کیسا زہر بھر دیا گیا ہے اس کی رگوں میں اس نے سوچا۔
پھر اسے خیال آیا کہ اسے جلد سو جانا چاہئے۔ ورنہ اس کی طبیعت اور خراب ہو سکتی ہے۔ وہ اٹھا اور الماری میں رکھی ہوئی نیند کی گولیوں کا نیا پیک کھول کر دو گولیاں نکالیں اور ایک گلاس پانی سے اتار گیا۔
وہ آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے نیند کا انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے محسوس کیا کہ نیند تو اب بھی دور ہے۔ وہ سونے کے لئے بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ وہ پھر اٹھا اور نیند کی گولیوں والی شیشی سے دو گولیاں پھر نکالیں اور ان گولیوں کو پانی کے ساتھ حلق کے نیچے اتار لیں ۔ اس بار وہ گولیوں والی شیشی کو الماری میں رکھنے کے بجائے اپنے ساتھ بستر پر لیتا آیا تھا۔ کوئی دو گھنٹہ بعد بھی اسے نیند نہ آئی۔ اس کا ڈپریشن بڑھنے لگا تھا، اس نے شیشی سے پھر تین چار گولیاں نکالیں اور ایک جھٹکے سے سب کھا گیا۔ گولیاں کھا کر پانی پیتے وقت اس کی نظریں دروازے پر پڑیں تو دیکھا کہ دروازے کی کنڈی کھلی ہوئی ہے۔ اس نے سوچا کہ ابھی اٹھ کر بند کر دے گا۔
رات دو بج گئے تھے لیکن نیند کا پتہ نہ تھا۔ اس کی جھنجھلاہٹ اپنے پورے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ وہ اچانک اٹھا اور شیشی سے تمام گولیاں ایک ساتھ نکال لیں اور حلق کے نیچے اتار گیا۔
چند لمحوں بعد اسے نیند آ گئی۔
اگلے دن صادقہ دوپہر کے بعد آئی اور دروازہ بھڑ بھڑانے کے لئے دروازہ پر ہاتھ رکھا تو وہ کھل گیا۔ اسے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ ابھی تک سو رہا ہے۔ اس نے اس کا ہاتھ چھوا تو وہ برف کی طرح سرد تھا۔ اس نے جلدی سے اس کی پیشانی چھوئی تو وہ بھی بالکل سردتھی یہی حال پیروں کا بھی تھا۔
صادقہ کو لگا کہ جیسے وہ خود بھی برف ہوتی جا رہی ہے۔
وہ زور سے چیخی۔ ہوم کے تمام لوگ اکٹھا ہو گئے اور اسے لے کر فوراً اسپتال بھاگے۔ کئی ڈاکٹروں نے چیک اپ کیا لیکن اب وہاں تھا ہی کیا۔ وہ کبھی نہ ٹوٹنے والی طویل نیند سو چکا تھا۔
صادقہ اس سے لپٹی ہوئی بلک بلک کر رو رہی تھی۔
پوسٹ مارٹم کے بعد اسی شام اس کے دوستوں کی موجودگی میں اسے دفن کر دیا گیا اور اس کی وصیت کے مطابق اس کے گھر والوں کو اس کی موت کی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔
——————————————–
Portrait a Short Story by Iqbal Hasan Azad
Articles
پورٹریٹ

اقبال حسن آزاد
آبادی سے تھوڑی دور ہٹ کر جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اسے گھنے جنگلوں سے خوف آتا۔ رام دین مالی کا لڑکا جو اس سے عمر میں چند سال بڑا تھا اسے لے کر جنگل کی سمت نکل جاتا۔ جہاں تک جنگل چھدرا رہتا اور سورج کی روشنی دکھائی دیتی اسے بڑا لطف آتا مگر جیسے ہی اندھیرا سروں پر چھانے لگتا وہ گھبرا کر کہتا۔
” سکھو! اب گھر چلو۔“ سکھو کو اس کی گھبراہٹ پر ہنسی آجاتی۔ وہ اور اندر جانا چاہتا مگر صاحب کے ڈر سے لو ٹ جاتا۔
گذرتے وقت کی دھند ہر شے پر چھاتی جا رہی تھی۔ یادیں مٹ میلی ہو گئی تھیں۔اسے لگتا جیسے درخت بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے تنے کھوکھلے ہو گئے ہیں اور وہ کسی تیز آندھی کے منتظر ہیں۔ وہ بہت ساری باتوں کو بھول چکا تھا اور بہت ساری جگہیں اور شکلیں بھی اس کے حافظے سے نکل چکی تھیں حتیٰ کہ اسے اپنے باپ کی شکل بھی بالکل یاد نہ رہی تھی کہ اسے گذرے ہوئے چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا تھا۔ اس کا بڑا لڑکا اس سانحے کے بعد پیدا ہوا تھا۔ ان دنوں وہ اپنی پہلی پوسٹنگ پر اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ کسی دور دراز کے شہر میں مقیم تھا۔ اس زمانے میں ٹیلی فون کی سہولت عام نہیں ہوئی تھی اور کسی کی پیدایش یا موت کی خبر دینے کے لیے ٹیلی گرام مقبول عام ذریعہ تھا۔ لیکن کبھی کبھی ٹیلی گرام بھی دیر سے پہنچتا۔ چنانچہ اس خبر کے ملنے کے بعد جب وہ گھر گیا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے باپ کو سپرد خاک کیا جا چکا ہے اور اس طرح وہ اس کے آخری دیدار سے محروم رہا تھا جس کا قلق اسے اب تک تھا۔ البتہ اس کی بڑی بہن جو قریب کے شہر میں بیاہی گئی تھی اپنے شوہر کے ہمراہ وقت پر پہنچ گئی تھی۔ چہلم کے بعد اس کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چلی گئی تھی اور وہ ماں کو اپنے ساتھ شہر لے آیا تھا۔ قصبے کے مکان میں تالا پڑ گیا۔
کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا کہ اس کے دماغ میں کوئی جنگل اُگ آیا ہے جہاں اونچے گھنے پیڑ آپس میں جڑے کھڑے ہیں اور سورج کی روشنی ان کے بڑے بڑے پتوں سے ٹکراکر وہیں رک جاتی ہے۔ نیچے گہرا اندھیرا ہے۔ وہ سوتے میں چونک اٹھتا۔ اسے اپنی پیشانی پر پسینے کے قطرے محسوس ہوتے۔ وہ سات بار لاحول پڑھ کر دوبارا سونے کی کوشش کرتا۔ عموماًاسے نیند آ جاتی مگر تھوڑی ہی دیر بعد پھر اچٹ جاتی۔ بڑھاپے کی نیند کچے گھڑے کی مانند ہوتی ہے۔
اسے اپنی عمر بھی ٹھیک ٹھاک یاد نہیں رہی تھی۔ کبھی اسے لگتا کہ وہ ستر کا ہو چکا ہے مگر واقعات کے جوڑ گھٹاﺅ میں اسے اپنی عمر پچھتر کی معلوم ہوتی۔ بالکنی میں آرام کرسی پر بوڑھی ہڈیوں کو دھوپ دکھلاتے وقت جب وہ انگلیوں پر حساب لگا رہا ہوتا تو اس کی بیوی کو شک ہوتا کہ اس کے حواس اس کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں۔ وہ اس کی جانب سے فکر مند رہنے لگی تھی۔ مگر درحقیقت ایسی بات نہیں تھی۔ وہ پابندی سے اخبار پڑھتا اور ٹی۔وی پر خبر یں سنتا۔ اسے لگتا جیسے دنےا بہت بدل گئی ہے۔ پچھلی دفعہ جب اس کا لڑکا اس سے ملنے آیا تھا تو وہ اس کے لئے ایک موبائل لیتا آیا تھا۔ کبھی کبھی وہ اس بدلی ہوئی دنیا کا موازنہ اپنی دنیا سے کرتا تو اسے عجیب سا محسوس ہوتا۔ اسے اس بات کا اطمینان تھا کہ اس کے انتقال کی خبر اس کے بیٹے کو چند منٹوں میں ہو جائے گی۔
گھنے جنگلوں میں جب کبھی زور کی ہوا چلتی ہے تو درختوں کے پتے شور مچاتے ہوئے چند لمحوں کے لئے ایک دوسرے سے جدا ہو جاتے ہیں اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سورج کی روشنی بلا روک ٹوک زمین تک پہنچ جاتی ہے۔ تنہائی کی چادر اوڑھ کر اونگھتے ہوئے اچانک اس کے ذہن میں جھکڑ چلنے لگتے اور بہت ساری یادیں روشنی سے جگمگا اٹھتیں۔مگر اسے یہ بالکل یاد نہ رہا تھا کہ اس کے باپ کی شکل و صورت کیسی تھی؟ہاں! بچپن سے لے کر جوانی کے دنوں تک کی بہت ساری باتیں جن کا تعلق اس کے باپ سے تھا اسے یاد تھیں۔
ایک چھوٹے سے قصبے میں اس کا بڑا سا آبائی مکان تھا۔ سڑک کی جانب گول ستونوں سے گھرا ایک طویل برآمدہ۔ اس کے بعد کشادہ ڈرائنگ روم ۔اندر تین طرف دالان، درمیان میں آنگن اور آنگن سے ایک دروازہ گلی میں کھلتا ہوا۔ دالان سے ملحق چھ رہائشی کمرے اور سب سے آخر میں اسٹور روم۔ اس کے باپ کو پرانی چیزیںترتیب اور قرینے سے رکھنے کا شوق تھا۔ اکثر اس کی ماں کسی بیکار شے کو پھینکنا چاہتی تو اس کا باپ اسے اسٹور روم میں رکھنے کا مشورہ دیتا اور کہتا کہ داشتہ آید بکار۔ اس کی ماں اس محاورے سے چڑ جاتی حالانکہ اس کا باپ نہایت شریف آدمی تھا اور کسی نامحرم کی جانب نگاہ اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہ کرتا تھا۔ اس آبائی مکان میں اس کا باپ اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد آکر رہا تھا۔ زندگی کے بیشتر ایام کوارٹروں میں گذرے تھے۔ اس کا باپ بیک وقت شفیق بھی تھا اور سخت گیر بھی۔ اسے یاد تھا کہ وہ اپنے باپ کے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھایا کرتا تھا اور اس کا باپ اپنی پلیٹ سے کوئی چیز مثلاً گوشت کی کوئی اچھی بوٹی یا کوئی میٹھی شے اس کی پلیٹ میں ڈال دیا کرتا تھا۔ اسے یہ بھی یاد تھا کہ اس کا باپ ہی اسے نہلاتا تھا اور اگر نہانے کے دوران وہ کوئی شرارت کرتا تو اس کے باپ کا بے رحم طمانچہ اس کے گال پر پڑتا۔ اس نے جب اسکول جانا شروع کیا تو اس کا باپ اسے خود سے پڑھانے لگا اور پڑھاتے وقت ایک لمبی چھڑی اپنے پاس رکھتا ۔
اسے اپنے باپ کے بہت سارے دوستوں کے دھندلے دھندلے چہرے اب بھی یاد تھے۔بعض کی وضع قطع بھی یاد تھی ۔یادوں کے خزانے میں پھندنے والی سرخ ٹوپی بھی تھی اور بغیر چھت کی کار بھی۔ اور وہ رجسٹری آفس بھی جہاں سے اس کا باپ ریٹائر ہوا تھا۔ وکٹورین طرز کی سرخ عمارت ،گول ستونوں سے گھرا ہوا طویل برآمدہ ،بڑے بڑے دروازے جن کے پٹ روشن دانوں کی مانند کھلتے اور بند ہوتے اور ان کے اوپر سبز رنگ کی چق۔ ایک بڑا سا ہال۔ اجلاس، کٹہرے اور بنچیں۔ سامنے کھلا میدان اور میدان کے درمیان میں یونین جیک لہراتا ہوا۔ جب اجلاس ختم ہو جاتا تو وہ سکھو کے ساتھ برآمدے میں کھیلتا۔ کبھی کبھی اس کی بڑی بہن اسے تلاش کرتی ہوئی آتی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر لے جاتی۔ اکثر وہ سکھو کے ساتھ مالی کے چھوٹے سے کوارٹر میں چلا جاتا جہاں سکھو کی ماں اسے گرم گرم لِٹّی کھلاتی۔ ایک دفعہ اس کی بہن نے یہ بات باپ کو بتا دی تھی۔ اس روز اسے کافی مار پڑی تھی اور مار کھانے کے دوران اس سے پیشاب خطا ہو گیا تھا۔
ان ہی دنوں اسے اپنے آس پاس کسی بہت بڑی تبدیلی کا احساس ہوا تھا۔ اسے لگا جیسے جنگلوں میں چھپے بہت سارے سانپ، بچھو، شیر اور چیتے، بھالو اور بندر زمین پر چاروں طرف پھیل گئے ہیں۔ان دنوں اس کا باپ بہت فکر مند نظر آتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی ماں کو کہتے سنا۔
”سب لوگ چلے جا رہے ہیں۔ آپ کے بڑے بھیا بھی بیوی بچوں کو لے کر چلے گئے۔ کیوں نہ ہم لوگ بھی….“
”ہر گز نہیں۔“ اس کے باپ کی کرخت آواز گونجی تھی اور پھر خاموشی چھا گئی تھی۔
اور پھر پتا نہیں کہاں سے آدمیوں کا جنگل امڈ آیا تھا۔ روتے بلکتے، ننگے بھوکے لوگ پوری کچہری اور پورے میدان میں بھر گئے تھے۔ لاریاں بھر بھر کر آتیں اور آدمیوں کا جنگل گھنا ہوتا جاتا۔ وہ لوگ اپنے کوارٹر تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔
پھر جیسے کئی دنوں تک چھائے رہنے کے بعد جب بادل اور کہاسا ختم ہوکر سورج نظر آنے لگتا ہے اورمنجمد زندگی میں حرارت پیدا ہونے لگتی ہے اسی طرح دھیرے دھیرے وہ سارے لوگ، ان کے سازوسامان ، لاریاں اور خاکی وردیاں سب دھیرے دھیرے غائب ہو گئیں۔ ساتھ ہی ساتھ سرخ پھندنے والی گول ٹوپی اور بغیر چھت کی کار بھی۔ اور یونین جیک کی جگہ ترنگا لہرانے لگا تھا۔ ان دنوں اس کی عمر تیرہ سال کی تھی۔
اس کے ایک سال بعد کی سردیوں میں اس کا باپ ریٹائر ہو گیا۔ اس بڑے میدان میں ایک گروپ فوٹو گرافی ہوئی تھی۔ اس کا باپ سوٹ پہنے درمیان کی کرسی پر بیٹھا تھا۔ دائیں بائیں آفس کے دوسرے لوگ ۔ پچھلی صف میں ڈرائیور، خاکروب، مالی، چپراسی اور آس پاس کے لوگ۔ بقیہ کرسی پر کچہری کے اسٹاف اور زمین پر ان کے افراد خانہ۔ اپنے باپ کے قریب وہ اور اس کی بڑی بہن بیٹھے تھے۔ اس کے باپ کے گلے میں گیندے کے پھولوں کا ہار ڈالا گیا تھاجسے اس کے با پ نے اس کے گلے میں ڈال دیا تھا۔ ایک بڑے اسٹینڈ پر کیمرہ رکھا ہوا تھا اور فوٹو گرافر نے اپنے سر پر کالی چادر ڈال کر تصویر اتاری تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد جب اس کا باپ اپنے آبائی مکان لوٹا تو اس تصویر کو فریم کروا کے ڈرائنگ روم میں لگا دیا گیا۔ عرصے تک وہ تصویر ڈرائنگ روم میں لگی رہی تھی۔ پھر پتا نہیں کیسے وہ تصویر ڈرائنگ روم سے ہٹ گئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ جس وقت اس کی بڑی بہن کی شادی ہو رہی تھی اور گھر میں سفیدی پھیری جا رہی تھی اس وقت وہ تصویر اسٹور روم میں رکھ دی گئی ہو۔
اس کے باپ کی پنشن قلیل تھی اور اس مکان کے علاوہ اس کے پاس کوئی جائداد بھی نہ تھی۔ جب وہ پہلی بار میٹرک میں فیل ہو گیا تو اس کے باپ نے اسے مارا تو نہیں مگر غصے میں تھرتھراتے ہوئے یہ ضرور کہا تھا کہ اگر اگلے سال بھی وہ فیل ہو گیا تو وہ اسے ننگا کرکے گھر سے باہر نکال دے گا مگر اس کی نوبت نہیں آئی تھی کہ اس نے وہ سارا سال پڑھنے میں گذار دیا تھا۔ اگلے سال وہ پاس ہوگیا اور آگے کی تعلیم کے لیے اس کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا گیا۔
کبھی کبھی کسی نیوز چینل کی تلاش میں ریموٹ کنٹرول کا بٹن دباتے وقت اسے عجیب بے ہنگم کپڑوں میں ملبوس اچھلتے کودتے طالب علم نظر آتے تو اسے لگتا جیسے واقعی بہت کچھ بدل گیا ہے۔لیکن جب اسے خبروں کے درمیان خون کے دھبے اور دھوئیں کے بادل دکھائی دیتے تو محسوس ہوتا کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ وہ اکتا کر ٹی وی آف کر دیتا اور کتابوں سے دل بہلانے لگتا۔ ایک دن کتابوں کی الماری سے ایک ناول نکل آیا۔ Portrait of a lady ۔یہ ناول وہ کئی بار پڑھ چکا تھامگر آج اس کے عنوان کو دیکھ کر ایک بھولی بسری یاد اس کے ذہن کے نہاں خانوں میں روشن ہو گئی۔ جن دنوں وہ بی اے کا امتحان دے کر گھر آیا تھا ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ جس شہر سے اس کا باپ ریٹائر ہوا تھا وہاں ایک شخص کے گھر میں آگ لگ گئی اور دوسری اشیاکے ساتھ مالک مکان رام اودھیش سنگھ کے ضروری کاغذات بھی جل گئے۔ ان کاغذات میں اس کے مکان کا قبالہ بھی تھا۔ اس کی رجسٹری اس کے باپ ہی نے کی تھی۔ وہ پریشان حال اس کے باپ کے پاس آیا۔ اس کا باپ فوراً اس کی مدد کو تیار ہو گیا۔ دونوں اس رجسٹری آفس میں گئے اور وہاں اس کے باپ نے اپنے اثر و رسوخ کی بدولت قبالے کی نقل بہت جلد اسے دلوادی۔ رام اودھیش سنگھ اس مہربانی سے اس قدر خوش ہوا کہ اس نے بہت سارے تحفے تحائف دینے کے ساتھ یہ بھی کیا کہ اپنے بیٹے سے جو کہ ایک پینٹر تھا اس کے باپ کا ایک قدآدم پورٹریٹ بنوا دیا اور پھر وہ پورٹریٹ گھر کے ڈرائنگ روم کی زینت بن گیا تھا۔
باپ کے انتقال کے بعد وہ اپنی ماں کو شہر لے آیا تھا اور قصبے کے مکان میں تالا پڑ گیا تھا۔ اس کی ماں کو جب کبھی اپنے گھر کی یاد ستاتی وہ اسے لے کر چند دنوں کے لیے وہاں چلا جاتا۔ اس طرح کئی سال گذر گئے۔ اس دوران بہت سی اچھی اور بری باتیں ہوئیں۔ اس کی ماں اور بڑی بہن کا انتقال ہو گیا اور اس کی بیوی نے تین بچوں کو جنم دیا۔ ایک لڑکا اور دو لڑکیاں۔ اس کی ترقی ہوئی اور وہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو ا۔ بیوی کہتی کہ قصبے کا مکان فروخت کر دیا جائے۔ اس کا بھی یہی ارادہ تھا مگر پیشے کی ذمہ داریاں اسے مہلت نہ دیتی تھیں۔ پھر بھی سال دو سال پر وہ گھر چلا جاتا اور ہر بار گھر کا کوئی نہ کوئی حصہ مخدوش پاتا۔ وہ اس کی مرمت کرواکر واپس چلا آتا۔ اس نے یہ بھی چاہا کہ کوئی کرایہ دار مل جائے تاکہ مکان کی دیکھ بھال ہوتی رہے مگر اس چھوٹے سے قصبے میں جہاں زندگی جوہڑ کے پانی کی طرح ٹھہری ہوئی تھی اسے اس مقصد کے لیے کوئی نہ مل سکا۔ تب اس نے یہ چاہا کہ کوئی یونہی رہنے کو تےار ہو جائے اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا۔ قصبے کا ایک شخص اپنی بیوی بچوں کے ساتھ اس مکان میں رہنے کو تیار ہو گیا۔ اب وہ اس جانب سے بالکل بے فکر ہو گیا تھا اور کئی کئی برسوں تک وہاں جانے کی ضرورت محسوس نہ کرتا مگر مکان کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے ہر سال ایک معقول رقم اس شخص کو بھیج دیا کرتا۔
ان دنوں وہ سرحدی علاقے میں تعینات تھا جہاں چاروں اطراف گھنے جنگل تھے اور پھر ان جنگلوں سے چھن کر آتی ہوئی خون اور بارود کی بو نے اسے اپنے باپ کی یاد دلا دی تھی۔ایک بارپھرآدمیوں کاجنگل اُگ آیا تھا۔روتے بلکتے ننگے بھوکے لوگ…. چھولداریاں…. لاریاں….بوٹوں کی دھمک….آنے والوں میں سے کسی نے بتایا کہ اس کے چچا مع اہل وعیال شہید کر دیئے گئے۔اس نے یہ خبر صبر و سکون کے ساتھ سنی لیکن کئی دنوں تک اسے ٹھیک طور پر نیند نہ آسکی تھی۔ پھر جب اس کی نوکری اسے شہر در شہر گھماتی اس شہر میں لے آئی تھی جہاں سے اسے سبکدوش ہونا تھا تو اس نے وہاں ایک بڑا سا فلیٹ خرید لیا تھا۔ لڑکا تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملک سے باہر چلا گیا تھا اور لڑکیوں کی شادی ہو چکی تھی۔
شام کے وقت ہر روز تو نہیں مگر اکثر وہ سامنے والے پارک میں ٹہلنے کے لیے چلا جاتا۔ جہاں اسے چند اور بوڑھے مل جاتے۔ وہ لوگ کسی بنچ پر بیٹھ کر ٹھنڈی آہیں بھرتے۔ ان کے پاس کہنے کو کچھ زیادہ نہیں ہوتا چنانچہ ان کے منہ سے الفاظ کم نکلتے اور خاموشی کا جنگل پھیلتا جاتا۔ ایک دن ایک بوڑھا، جس کا نام اسے معلوم نہ تھا ،بہت خوش نظر آ رہا تھا اور خلاف معمول لگاتار بولتا جا رہا تھا۔ اس کی گفتگو سے اندازہ لگانا دشوار نہ تھا کہ وہ اپنے آبائی مکان میں چند روز گذار کر آیا ہے جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں بشاشت آگئی ہے۔ پارک سے لوٹنے کے بعد اسے بھی اپنے آبائی مکان کے یاد بری طرح ستانے لگی۔ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے باپ کی یاد بھی آنے لگی مگر عجیب بات تھی کہ اسے اپنے باپ کی شکل اب بھی یاد نہیں آ رہی تھی۔ اس کے دل میں گھر جانے کی شدید خواہش پیدا ہوئی مگر وہاں جانے کا کوئی بہانہ نہ سوجھتا تھا۔ دل کے بہلانے کو اس نے پرانے البم تلاش کیے اور ایک ایک البم کو دیکھ لیا مگر کسی میں بھی اس کے باپ کی تصویر نہ تھی۔ نہ ریٹائرمنٹ سے پہلے کی نہ ریٹائرمنٹ کے بعد کی۔ اس کی بیوی نے دریافت بھی کیا کہ آخر اسے کس چیز کی تلاش ہے مگر وہ ٹال گیا۔
ایک دن حسب معمول دن کے دو بجے وہ کھانا کھانے کے بعد آرام کر رہا تھا کہ اطلاعی گھنٹی بجی۔ اس نے دروازہ کھولا تو اپنے سامنے ایک ادھیڑ عمر کے اجنبی کو پایا۔ اس نے بتایا کہ وہ قصبے سے آرہاہے۔ اب وہ قصبہ دھیرے دھیر ے شہر میں تبدیل ہو رہا ہے اور ایک نئی فیکٹری کے سنگ بنیاد کے ساتھ ہی زمین کی قیمت بڑھنے لگی ہے اور نئے نئے لوگ وہاں بسنے کے لیے آ رہے ہیں۔ اگر وہ اپنا آبائی مکان فروخت کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے خریدنے کے لیے تیار ہے۔ اس دوران اس کی بیوی بھی اس کے پاس آکھڑی ہوئی تھی۔ اس نے نووارد سے کہا کہ اس کا آفر انہیں قبول ہے اور وہ لوگ جلد ہی اس مکان کو فروخت کرنا چاہیں گے۔ مکان کے تذکرے کے ساتھ ہی اسے اپنے باپ کا پورٹریٹ یاد آگیا اور اس نے دل میں تہیہ کر لیاکہ وہ اسے لیتا آئے گا اور یہاں ڈرائنگ روم میں آویزاں کردے گا۔
دس روز بعد وہاں جانے کا پروگرام بنا جس کی اطلاع اس نے نووارد کے ذریعہ نگراں کو بھیج دی۔ اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی کہ اگر کوئی کام کی چیز بچی ہو تو اسے اپنے ساتھ لے آئے۔ اس نے اپنے بہنوئی کو فون کرکے صورت حال بتائی۔ اس کے بہنوئی نے کہا کہ وہ جو مناسب سمجھے کرے۔ جس روز وہ گھر کے لیے روانہ ہوا اسے راستے بھر اپنے باپ کی یاد آتی رہی۔ گاڑی جب اس کے شہر پہنچی تو شام ہو رہی تھی اور آسمان پر ہلکے ہلکے بادل چھائے ہوئے تھے جس سے فضا نیم تاریک ہو گئی تھی۔ گھر کا نگراں ان لوگوں کا منتظر تھا۔ اس کی بیوی مر چکی تھی اور بچے اب اس کے پاس نہیں رہتے تھے۔ اس نے ڈرائنگ روم کو صاف ستھرا پایا۔ نگراں نے بتایا کہ وہ اسی کمرے میں رہتا ہے۔بقیہ کمرے بند رہتے ہیں مگر ان لوگوں کی آمد پر اس نے بیڈروم صاف کروا دیا ہے۔ وہ اس کی باتیں بے دھیانی کے ساتھ سن رہا تھا اور اس کی نگاہیں دیواروں کا طواف کر رہی تھیں۔ پھر وہ بیڈروم میں گیا۔ وہاں مسہری پر دھلی ہوئی چادر بچھی تھی اور تکئے لگے تھے۔اس اثنا میں رات گھر آئی۔اس کی بیوی نے اسے مشورہ دیاکہ چونکہ وہ لوگ سفر کے تھکے ماندے ہیں لہذا انہیں رات کا کھانا کھا کر جلد سو جانا چاہئے۔جگہ اجنبی تو نہیں تھی مگر اسے دیر رات گئے تک نیند نہیں آئی۔رات کے پچھلے پہر زوروں کی بارش ہوئی اور وہ اندھیرے کمرے میں آنکھیں پھاڑے بجلی کی چمک اور گرج سنتا رہا تھا۔ اس کی بیوی گہری نیند سوئی تھی۔
دوسری صبح دونوں نے پورے گھر کا جائزہ لیا۔ عقبی حصے میں جہاں اس کے باپ کے وقتوں میں سبزیاں اُگائی جاتی تھیں،وہاں ایک بے ترتیب جنگل اُگ آیا تھا۔نگراں نے بتایا کہ چونکہ وہ اکیلا ہے اور اس عمر میں جسمانی مشقت سے گریزاں ہے اس لیے اس نے سبزیاں اُگانی چھوڑ دی ہیں۔ اس کی بیوی نگراں سے باتوں میں مشغول ہو گئی ۔اسے ان دنوں کی گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے وہ اسٹور روم کی جانب بڑھ گیا۔ حالانکہ اسے ایسی کوئی جلدی نہیں تھی مگر وہ اس پورٹریٹ کو ایک نظر دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ صحیح سلامت ہے کہ نہیں۔ اسٹور روم کا دروازہ بند تھا مگر اس میں تالا نہیں تھا۔ اس نے کواڑوں کو دھکا دیا تو وہ ایک دھیمی کراہ کے ساتھ کھل گئے۔ اندر اندھیراتھا اور سارے میں ایک ناگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے جیب سے رومال نکال کر ناک پر رکھ لیا اور اندھیرے کمرے میں آنکھیں جمانے کی کوشش کرنے لگا۔ جب اس کی آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں تو اس نے اسٹور روم کا جائزہ لیا۔ وہاں ٹوٹی پھوٹی کرسیاں، ٹیبل، مٹی کے گھڑ ے، لوہے کے بکسے، لکڑی کی ایک بڑی الماری اور جانے کیا کیابھرا تھا۔ آخر اس کی متلاشی نگاہوں کو ایک کونے میں رکھا وہ آدم قدپورٹریٹ نظر آہی گیا۔ پورٹریٹ پر گرد جمی تھی اور اس کے خد و خال نظر نہیں آرہے تھے۔ اس نے بدقت تمام کمرے کی کھڑکی کھولی جو عام روشن دان سے ذرا سی بڑی تھی اور قدرے اونچائی پر تھی۔ کمرہ کچھ روشن ہوا۔ پورٹریٹ دیوار کے سہارے زمین پر کھڑا تھا۔ وہ ا س کے سامنے جاکھڑا ہوا۔”تو ایسا تھا اس کا باپ۔ سر پر ہلکے سفید بال،چوڑی پیشانی، گھنی گھنی بھنویں، بھاری پپوٹے، ستواں ناک، پتلے ہونٹ اور دوہرے جبڑے۔ “وہ کافی دیر تک بغیر پلک جھپکائے اسے دیکھتا رہا۔ اچانک کسی کے آنے کی آہٹ ہوئی۔ وہ چونک کر مڑا۔ دروازے پر اس کی بیوی کھڑی حیرت سے اسے تکے جا رہی تھی۔ جب اس نے اپنی بیوی کی جانب نگاہ اٹھائی تو اس نے پوچھا۔”آپ اتنی دیرسے آئینے کے سامنے کیوں کھڑے ہیں؟“
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Caged sleep a Short Story by Noorain Ali Haq
Articles
پنجرے میں قید نیند

نورین علی حق
کافی کوششوں کے باوجودمجھے نیند نہیں آئی۔
نصف شب گزرچکی ہے۔ گھر کے تمام افراد اپنے اپنے کمروں میں سو رہے ہیں۔ آبا واجداد کی پیروی میں ہم آج بھی عشاء کے بعد عشائیہ کرتے ہیں اس کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کے ہوجاتے ہیں۔
رات کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے،شاید میری نینداس کے اعداد و شمار پر مامور کردی گئی ہے، بستر پرکروٹیں بدل بدل کر تھک چکاہوں، چاہتا ہوں کہ اٹھ کر بجلی جلادوں۔ مگر ایسا کرنا اخلاقی تقاضے کے خلاف ہے۔ میرے بازو میں لیٹی ہوئی یہ عورت،جس کے منہ سے خراٹوں کی نکلتی ہوئی آوازیں، اس وقت مجھ پر خاصی ناگوار گزر رہی ہیں۔ وہ دن دن بھر میرے اور میرے بچوں کے کام کرتے ہوئے تھک جاتی ہے اور بستر پر آکر نڈھال پڑجاتی ہے۔ عرصے تک مجھے اس کی تھکن کا احساس ہی نہیں ہوا۔ بس اس کی ہڈیاں نچوڑنا اور پسلیاں توڑنا ہی میرا محبوب مشغلہ تھا۔ ان دنوں میرے رویوں میں تبدیلی آتی جارہی ہے یاشاید میں اس سے اکتاچکا ہوں یا میری جسمانی و نفسانی خواہشات دم توڑ رہی ہیں۔
اس کے خراٹے مسلسل جاری ہیں۔ وہ نیند کی وادی میں سیر کررہی ہے اور میں گم گشتہئ راہ اونٹ کی طرح سخت ترین اندھیری رات میں صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔کالی،سیاہ ترین رات میں عجیب وغریب خوف ناک اور دل کو دہلادینے والی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرارہی ہیں۔ میں ان آوازوں سے پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ بھاگنا چاہتا ہوں،دور بہت دور بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ میں نے جو آوازیں برسوں کے طویل عرصے میں وقفے وقفے سے سنی ہیں، وہ آپس میں خلط ملط ہورہی ہیں۔ مخلوط آوازیں کسی سیال کی طرح میرے کانوں کے اندر پہنچ کر مجھے ناقابل برداشت حد تک تکلیف پہنچا رہی ہیں۔ میرا جسم پسینے سے شرابور ہورہا ہے، میں نے خوف کے عالم میں اپنی آنکھیں کھول دی ہیں، اندھیرے کمرے میں ہر طرف سیاہ سایے منڈلا رہے ہیں، ناچ رہے ہیں۔ طرح طرح کی ڈراونی آوازیں نکال رہے ہیں۔ میں انہیں تاریکی میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ وہ میری طرف لپک رہے ہیں۔ ان کے بڑھے ہوئے ناخن، منہ سے باہر کو لٹکتی زبانیں،چوکور،سہ کور اور نہ جانے کن کن انداز کے ان کے چہرے، مجھے ڈرا رہے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھیں بھینچ لی ہیں۔ آنکھیں بند کرکے چادر میں منہ چھپالینے کے بعدان کی تعداد میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ان کی آوازیں زیادہ کرخت، زیادہ دردناک، کچھ زیادہ ہی ڈراؤنی ہوتی جارہی ہیں۔ میں اپنے بستر پر کروٹیں بدل رہا ہوں۔ گویا شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپاکر آفت سے بچناچاہتا ہوں۔ نیند کی دیوی مجھ سے ناراض ہے، میں اس کی منتیں اور سماجتیں کررہا ہوں۔ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اسے پکار رہا ہوں۔ میرے پاس اس کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ وہ غائب ہے یا شاید ان سایوں نے اسے اغوا کرلیا ہے۔
میں ان آوازوں کو سن کر انہیں سمجھنا چاہتا ہوں۔ بند کمرے میں ان کے داخل ہونے کا راستہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں پریشان ہوں۔ آوازیں پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی ہیں۔ بستر کے اندر پڑے پڑے حبس کا احساس ہورہا ہے۔ زبان خشک ہوکر تالو سے چپک گئی ہے۔ میں بولنا چاہتا ہوں، بول نہیں پارہا ہوں۔ میری بیوی سورہی ہے۔ میں اسے جگانا چاہتا ہوں مگر وہ مجھے نظر نہیں آرہی ہے۔ ہر طرف سایے ہی سایے منڈلا رہے ہیں۔ دیواروں پر،روشن دانوں پر، کمرے کی کھڑکیوں پر، چھت کی دیواروں سے بھی چپکے ہوئے ہیں، کبھی ہنس رہے ہیں، کبھی رو رہے ہیں۔ ان کی ہنسی اور رونے کے درمیان میری بیوی کے خراٹے سخت ترین اندھیری رات میں ہونے والی موسلادھار بارش کے درمیان گرجنے والی بجلی کا کام کررہے ہیں۔
میں اپنے دونوں ہاتھوں کو ادھر ادھر مار رہا ہوں۔ دونوں پیروں کو پٹک رہا ہوں۔ کانوں کے پردوں کو پھاڑ دینے کی حد تک آوازیں بلند اور صاف ہوگئی ہیں البتہ ان آوازوں کے جنگل میں چند ہی آوازوں کو میں سمجھ پارہا ہوں۔ انتقام۔ انتقام۔ انتقام۔
ہر طرف سایے ہی سایے ہیں، ہر سایے کو مجھ سے شکایت ہے۔ وہ مجھ سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ سایے میرے ذریعہ کی گئی ناانصافیوں کو چیخ چیخ کر بیان کررہے ہیں۔ ڈراؤنی آوازوں کے ساتھ میری طرف لپک ر ہے ہیں۔
”کیا ہوا؟“
”ہاتھ، پیر کیوں چلا رہے ہو؟“
میری بیوی جاگ چکی ہے، حیرت زدہ مجھے دیکھ رہی ہے، اٹھ کر بیٹھتے ہی اس نے اپنے ہاتھوں کے کٹورے میں میرے چہرے کو ڈال لیا، کبھی بغور دیکھ رہی ہے۔ کبھی اپنے نرم ملائم ہاتھوں سے میرا پسینہ پوچھ رہی ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے ترحم کا دریا موجزن ہے۔ اس کے آنسو باہر نکلنے سے پہلے ہی میں بول پڑا ہوں۔
”کچھ نہیں ہوا۔“
”کیسے کچھ نہیں ہوا۔خواب دیکھ رہے تھے؟“
”نہیں بابا۔“ کچھ سوچتے ہوئے میں نے جواب۔
”تو پھرنیند میں ڈر گئے؟“
میں خاموش ہوں۔ مجھ میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ لیکن اس کا یہ رویہ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ اس کے جاگنے سے تھوڑی ڈھارس تو بندھی ہے، مگر اس کے پھر سے سوجانے کے بعد کے خطرات میرے ذہن پر منڈلا رہے ہیں، وہ میرے بدبودار پسینے کواپنے نرم و نازک ہاتھوں سے خشک کررہی ہے۔ اضطراری کیفیت میں ہے۔ ہر طرف اپنے ہاتھ پھیرتی جارہی ہے۔ اس کے ہاتھ میں اس کے ڈوپٹے کا پلو ہے، جس سے وہ اپنے سر، بال، کاندھوں اور ہاتھوں کو ڈھک کر اکثر اپنی عبادتوں میں مصروف رہتی ہے۔ اس کا ڈوپٹہ میرے بدبودار پسینے سے اٹ گیا ہے۔ میرے بدبودار جسم کے بدبودار پسینے سے تر اپنے ڈوپٹے کے پلو کو وہ اپنے داہنے ہاتھ میں لیے رونی سی آواز میں کہہ رہی ہے۔
”آخر کیا ہوگیا تمہیں۔ اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو؟“
”نہیں،نہیں۔۔“
میری آوازمجھے بہت دور سے آتی محسوس ہورہی ہے جنگل کے درختوں اور جھاڑیو ں کے درمیان سے یا دور پانی کی لہروں میں ڈوبتی جارہی ہے۔بیوی کے جگنے کے بعد خوف ناک سایے میرے ارد گردخاموش کھڑے ایک دوسرے کو کچھ اشارے کررہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں، میری کیفیت دِگرگوں ہے۔ بیوی کی موجودگی کی وجہ سے مجھ میں تھوڑی ہمت تو ہے مگروہ میری آنکھوں سے دور نہیں ہورہے ہیں۔ بیوی بستر سے اٹھ چکی ہے۔ بجلی کے کھٹکوں کے بورڈ کی طرف بڑھ رہی ہے، شاید بجلی جلا کر مجھے دیکھناچاہتی ہے۔میری حالت کا اندازہ لگانا چاہتی ہے۔میں نے اسے کچھ نہیں کہا وہ آگے بڑھ رہی ہے۔میرے اندر ایک بارپھر سراسیمگی پھیلتی جارہی ہے۔ خاموش سایے میرے قریب آتے جارہے ہیں۔ کالے، سخت سیاہ سایے میرے جانے پہچانے چہروں میں تبدیل ہورہے ہیں،ان کے چہروں کے تاثرات بھی بدل رہے ہیں۔ ایک منظر آتا ہے۔ پھر غائب ہوجاتا ہے۔ دوسرا منظر آتا ہے پھر وہ بھی غائب ہوجاتا ہے۔ کبھی انسان کبھی سایہ کبھی چہرہ کبھی سیاہی۔میں سوچ رہا ہوں یہ کون سا منظر ہے، یہ کون سا عالم ہے، ماضی کے دریچے وا ہونا چاہتے ہیں اور میں ماضی کو بالکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
بیوی نے زیرو پاورکا بلب آن کردیا ہے۔ بلب کی مدھم روشنی میں مجھے دیکھ رہی ہے اور میں اس کے ساتھ تمام سایوں کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ دائیں بائیں، اوپر نیچے۔ آگے، پیچھے، ہر طرف سایے ہیں،وہ بلب آن ہوتے ہی اپنے وجود میں سمٹتے جارہے ہیں، ان کے دیو ہیکل اجسام چھوٹے ہورہے ہیں، چھوٹا ہوتے ہوتے نقطوں اور چھوٹے چھوٹے ذروں میں تبدیل ہوکر خلا میں گھوم رہے ہیں۔ میری بیوی مجھے غور سے دیکھ رہی ہے۔ ایک آندھی چلی ہے۔ گردو غبار سے میرا بستر اور خود میں اٹ گیا ہوں۔ دیو ہیکل اجسام سے چھوٹے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہونے والے سایے ناک،کان اور آنکھوں کے ذریعہ میرے پھیپھڑوں اورنہ جانے کہاں کہاں تک پہنچ رہے ہیں۔میں نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے اپنے چہرے پر رکھ لیے ہیں۔ ناک، منہ اور کانوں کے سوراخوں کو بند کررہاہوں اور سایے کسی نہ کسی سوراخ سے میرے اندر داخل ہورہے ہیں۔ سایوں کا تانڈو کچھ کم ہوگیا ہے۔ پریشان سی بیوی میرے پاس آکر بیٹھ گئی ہے۔
”تمہارا چہرہ سرخ ہورہا ہے،بہت زیادہ ڈر گئے ہو۔ کیا پتہ خواب میں کیا دیکھا۔ اب بتاؤگے بھی نہیں۔ چلو کوئی نہیں۔“
وہ مسکرانے کی کوشش کررہی ہے، اس کا غم اس کی مسکراہٹ پر غالب ہے۔ میں بھی مسکرانے کی اداکاری کررہا ہوں۔ اس نے میرے سر کو اپنے زانو پر رکھ لیا ہے۔ میرے چہرے پر اپنا دایاں ہاتھ پھیر رہی ہے۔ میں نے کوئی ردعمل نہیں کیا۔ بس خالی خالی نگاہوں سے کبھی اسے اور کبھی چھت کو گھورتا رہا، وہ میری ناک، تھوڑی، ہونٹوں، کانوں کی لوؤں اور میرے رخساروں سے کھیلتی رہی۔ میرے چہرے پر ذرا شادابی لوٹی تو اس نے میرے سر کو دبانا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ میرے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگی۔کافی دیر تک میرے سر کو دبانے کے بعد اس نے اپنے ایک پیر کو سیدھا کرلیا۔ پھر تھوڑی دیر تک مجھے دیکھتی رہی۔ شاید میری حالت کا اندازہ لگارہی ہے۔ میرے اندر کی گھٹن اور چہرے سے خوف کے آثار کم ہونے لگے ہیں۔ میرا چہرہ پرسکون نظر آرہا ہے۔ مجھے غنودگی آرہی ہے۔ بہت سنبھل کراس نے میرے سر کو تکئے پر رکھ دیا۔ شاید اسے بھی نیند آرہی ہے۔ اس کے باوجود میری دل بستگی کے لیے یہ سب کچھ کررہی ہے۔ یا یوں کہیے کہ اپنے فرائض ادا کررہی ہے، جس کی تعلیم اسے ماں کی گود سے ملنی شروع ہوگئی تھی۔ تکئے پر سرجاتے ہی میں چونک گیا ہوں۔ اس نے جلدی میں اپنے دونوں پیر سیدھے کیے۔ اس کے پیر میرے پیٹ اور رانوں سے مس کرتے ہوئے نیچے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ اپنے پیروں کے ناخنوں سے میرے پیروں کو کھرچ رہی ہے۔ ہم دائیں کروٹ لیٹے ہوئے ہیں۔ درمیان میں فاصلہ نہیں ہے۔ اس کا بایاں ہاتھ میری پشت پر ہے۔ ذرا دیر اس نے اپنے ہاتھ سے میری پیٹھ سہلائی پھر اس کا ہاتھ میرے سر کے پچھلے حصہ سے جالگا اور کہنی میری پیٹھ پر ٹکی رہی۔ میری سانسیں اس کی سانسوں سے ٹکرارہی ہیں۔ اس نے میرے بائیں رخسار پر اپنا داہنا رخسار رکھ کر چادر تان لی۔ ہم دونوں چادر کے اندر ہیں۔
”اب کیسا لگ رہا ہے؟ ٹھیک ہو؟”
”ہوں۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔“
”پھر آواز اتنی غم زدہ کیوں ہے؟“
اس نے میرے رخسار سے اپنا چہرہ ہٹالیا۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرا رہی ہے۔ اپنی ناک میری ناک سے ٹکرارہی ہے۔
”آج کتنے اچھے لگ رہے ہو، ہمیشہ اسی طرح معصوم اور شریف بن کر رہا کرو۔عرصے بعد رات کو بھی تم انسان ہو۔“
اس کے گرم گرم بوسے،سے میرے دل کی دنیا بدل رہی ہے۔ کوئی اور رات ہوتی تو اس کے اظہار محبت کا جواب اس سے زیادہ ٹوٹ کر میں دیتا۔
”تمہیں یاد ہے نینی تال کی وہ رات، تم نے مجھے کتنا پریشان کیا تھا، ساری رات جگانے کے باوجود صبح ہی صبح اٹھ کر تیار ہوگئے تھے“۔
میں نے اپنی آنکھیں کھول کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجالی اور آنکھوں سے اس کے سوال کا جواب دیا۔وہ بھی مسکرارتی رہی،اس نے اپنے رخسار کو ایک بارپھر میرے رخسار پر رکھ دیا اور شرماتی ہوئی نازواداکے ساتھ میرے کان میں کہا”بہت اچھے ہوتم۔“
جوابا مسکراتے ہوئے میں نے اس کے رخسار کا بوسہ لیااور چہرے کو اپنی جگہ لے آیا۔اپنااوراس کا ماضی میری نگاہوں کے سامنے ہے۔اس کے جذبات،محبت،جاں نثاری کی حد تک عشق کا غلبہ،گھریلوذمہ داریوں کی خوش اسلوبی کے ساتھ ادائیگی،میری چھوٹی بڑی خواہشات اورضروریات کا خیال رکھناوہ اب تک اپنے ضروری کاموں سے زیادہ اہم سمجھتی ہے۔
وہ اپنی رومیں بولتی جارہی ہے۔نینی تال کے ہوٹل،ہوٹل کا کھانا،ناشتہ،وہاں کی جھیلیں،کھائیاں،جنگلات سب اس کے ذہن پر نقش ہیں۔
”کتنامزہ آیاتھا۔وہاں بوٹ میں گھومنے میں،دورتک پانی ہی پانی،تاحد نظر پہاڑوں کا سلسلہ،جھیل کے کنارے کنارے اورپہاڑوں پرعجیب وغریب اوردلکش اندازمیں بنے ہوئے گھر۔دیکھنے میں ہی آنکھوں کو کتنا سکون ملتا ہے اوردوسری طرف گھنے جنگل۔ میرے روکنے کے باوجود تم بوٹ کو لوگوں کی نگاہوں سے دور لیے جارہے تھے۔اللہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم…………تم توواقعی شروع کے بے غیرت ہو۔میں نے جب ایسے ویسے کاموں سے روکا تو تم چڑھ گئے۔لیکن برہمی کا اظہار نہیں کیا۔ ہنسنے اور کھیلنے کے انداز میں جھیل کا پانی ہاتھ میں لے کر مجھ پر ڈالتے رہے۔تمہیں شرم بھی نہیں آرہی تھی کہ میں بھیگ رہی ہوں۔“
سفرنامہ سن کرمیں ہاں ہوں کررہاہوں۔غنودگی اس پرحاوی ہوتی جارہی ہے اور وہ سفرنامہ سنائے جارہی ہے۔میری پیٹھ کھل گئی ہے۔اس نے چادر درست کی اور پھر سے ہم دونوں چادرکے اندرہیں۔ ہمارے چہرے کھلے ہوئے ہیں۔زیروپاورکا بلب کمرے میں ہلکی اورملگجی روشنی کا احساس کرارہا ہے۔
میں اس کے اوراپنے ماضی کے سحر سے باہر نہیں نکل سکاہوں۔وہ جب سے مجھے ملی ہے، ایک پجارن کی طرح بے لوث مجھے پوجے جارہی ہے۔اسے مجھ پر ناقابل یقین حد تک یقین ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک وہ میرے ساتھ ہے۔ورنہ میرارویہ اس کے ساتھ ہمیشہ منافقانہ رہا۔ وہ ایک مشرقی عورت ہے۔گھر سے باہر میں کیاکررہاہوں۔اسے کبھی کوئی مطلب نہیں رہا اور میں ہمیشہ لاوارث جانوروں کی طرح کسی بھی کھیت میں منہ مارنے کی کوششیں کرتارہا۔ مجھ سے عمر میں بڑی ہویاچھوٹی،اسٹوڈینٹ ہویاشاپ کیپر،پڑوسی ہویارشتے کی بھابھی یاراہ چلتی ہوئی کوئی ادھیڑ عمرعورت۔کوئی میری آنکھوں سے بچ نہیں سکی۔نظرنہ آنے والاانچ ٹیپ ہمیشہ میری آنکھوں کی پتلیوں میں تیار رہتا ہے اورطرفہ تماشایہ کہ میرے پاس اچھی خاصی داڑھی بھی ہے،سراورداڑھی میں گنے چنے بال ہوں گے،جوکالے رہ گئے ہیں۔میں خود کو مذہب کا ٹھیکیدار بھی بزعم خود مانتاہوں۔اپنے اعمال کو درست ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث کے نصوص سے دلائل بھی اکٹھا کرلیتاہوں۔ کبھی تعلیم وتعلم کے پیشے سے وابستہ نہیں رہا۔ آباواجداد کی کتابیں اوربیاضیں پڑھ کر ترغیب ملی اورمطالعے کے شوق نے پڑھنے لکھنے کی طرف مائل کردیا۔
وہ نینی تال کی کہانی سناتے سناتے میرے نامکمل اورادھورے جواب سے اکتاکر تھک کر سوچکی ہے۔میں اس کے چہرے کوبغوردیکھ رہاہوں۔اس کی سانسیں ذراتیز تیز چل رہی ہیں،خراٹے کی آواز ابھی نہیں آرہی ہے۔میں پھر سے خوف محسوس کررہاہوں۔دل ہی دل میں دعاکررہاہوں کہ یہ خراٹے نہ بھرے۔میں آنکھوں کی پتلیاں ادھر ادھر گھمارہاہوں۔میرے وجود کے اندر عجیب سی اینٹھن ہورہی ہے۔میرے پیٹ،سینہ اورآنتوں میں کچھ پھنساہواہے،شاید وہ سایے آہستہ آہستہ باہرآرہے ہیں، جوتھوڑی دیر پہلے میرے اندرچلے گئے تھے۔میری بیوی نے کروٹ بدل لی ہے اور بے خبر سورہی ہے۔میں نہیں چاہتاکہ اسے پھر سے جگادوں۔مگرمیری حالت ابترہے۔میں جمائیاں لے رہاہوں،سونا چاہتا ہوں مگرنیند نہیں آرہی ہے۔باربارچھینک رہاہوں۔ میری ناک میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے۔کانوں میں انگلیاں ڈال رہاہوں،انہیں کھینچ رہاہوں،سرپرہاتھ پھیر رہاہوں۔دل کی گہرائیوں سے نیندکو پکاررہاہوں۔ بستر پرپڑے پڑے اکتاہٹ ہورہی ہے اورسایوں کی تعدادبڑھتی جارہی ہے۔میں چت لیٹ کر چھت کوتاک رہاہوں۔ میرے اوپرسیلنگ فین کے پاس ایک سایہ پنجرے میں میری نیند کو قیدکیے ہوئے ہے۔وہ میرے چہرے کے بالکل اوپر پنجرے کوزورزورسے ہلارہا ہے،میں دیکھ رہاہوں۔میری نیندپنجرے میں قیدہے اورپنجرے کے اندرجھٹکے کھارہی ہے،لہولہان ہورہی ہے۔میں اپنا داہناہاتھ اس کی طرف بارباراٹھارہاہوں،میرے اٹھے ہوئے ہاتھ کودیکھ کر سایہ قہقہ لگا رہاہے۔مجھے چڑا رہا ہے۔ آواز یں بلند کررہا ہے۔لو……لے لواپنی نینداور زورزورسے پنجرے کو جھٹکے دے رہاہے۔اس کے ساتھی بھی تالیاں ماررہے ہیں اورٹھٹھاکررہے ہیں۔رونگٹے کھڑے کردینے والی مکروہ ترین آوازیں نکال رہے ہیں، بارباراپنے چہرو ں کے تاثرات بدل رہے ہیں۔میں ان کی یہ حرکت دیکھ کر غصے سے پاگل ہورہاہوں۔ سایے کوپکڑ کر زبردستی اپنی نیند کو چھین لینا چاہتاہوں۔لیکن میر ے پاس خاموشی اورسراسیمگی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔بیوی کروٹیں بدلتے ہوئے مجھ سے دورہوتی جارہی ہے۔میں پھر سے پسینے پسینے ہوچکاہوں۔آدھے سر میں دردہورہاہے۔باربارجمائی آرہی ہے۔آنکھوں میں چبھن ہورہی ہے۔بستر پرکروٹیں بدل بدل کرعاجز آچکاہوں اورکمرے میں سایوں کاتانڈوبڑھتاجارہا ہے۔میرے بدبودارپسینے سے میرابستربھیگ رہاہے۔میری بدبوخود میرے لیے پریشانی کاسبب بن رہی ہے۔
میں اکتاکراپنے کمرے سے نکل گیاہوں۔صحن کی کھڑکی سے سڑک کودیکھ رہاہوں۔سڑک پرھوکاعالم ہے۔آسمان پر چاند ستارے کہیں نظرنہیں آرہے ہیں۔اسٹریٹ لائٹ جلی ہوئی ہے،جس سے دھندلی اورپیلی روشنی نکل رہی ہے۔فضاخاصی مغموم ہے۔صحن میں بھی رکنے کا دل نہیں چاہ رہا ہے۔ یہاں بھی ہرطرف سایے ہیں۔وہ سایہ اب بھی اپنے ہاتھ میں پنجرہ لیے میرے پیچھے پیچھے چل رہاہے۔میری طرف پنجرے کو بڑھا رہا ہے اورپھر اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ میں پنجرے کی طرف لپک رہاہوں اور سایہ مجھ سے دوربھاگ رہاہے۔میں اس کے پیچھے دوڑرہاہوں۔وہ آگے پیچھے، دائیں بائیں،مجھے گھمائے جارہاہے اورمیں اس کاتعاقب کررہاہوں۔میں الٹے سیدھے جملے ادا کر رہوں،چیخ چیخ کرسایوں کو گالیاں دے رہا ہوں۔ نیندکوحاصل نہ کرپانے کے قلق اورشکست خوردگی کے احساس کے ساتھ میں اس ہال میں آ گیاہوں،جہاں خصوصی تقریبات ہوتی ہیں اورمہمانوں کے لیے بھی وہی مخصوص ہے۔ہال میں ایک روحانی محفل سجی ہوئی ہے۔لوگوں کاازدحام ہے،ہارمونیم اوردَف کی تھاپ کے ساتھ توری صورت کے بلہاری نجام،سب سکھین میں چنر موری میلی،دیکھ ہنسیں نرناری،سب سکھین میں چنر موری میلی،میلی میلی کی آوازمیرے کانوں سے ٹکرارہی ہے۔میں نے ہال کا دروازہ اندر سے بند کر لیا ہے۔غورسے محفل میں شریک لوگوں کو دیکھ رہاہوں۔یہ میرے جانے پہچانے چہرے ہیں۔ان پر وجد وحال طاری ہے۔مسندنشیں کودیکھ رہاہوں۔وہاں کوئی اورنہیں،کلف کیے ہوئے کرتے پاجامے،صدری اورٹوپی میں ملبوس خود میں ہوں۔محفل میں موجود میرے چہرے پرروحانیت ہے۔ہال کے دروازے کے سمت مخالف میں قدآدم شیشہ ہے۔اپنے روحانی چہرے کودیکھنے کے بعد میری نظرشیشے پرچلی گئی ہے۔شیشے میں نظرآنے والامیں،محفل میں موجودمسندنشیں سے بالکل مختلف ہے۔شیشے میں،میں دیکھ رہاہوں، میرے داہنے ہاتھ کی آستین،ہاتھ سے باہر ہے، بائیں ہاتھ کی آستین کہنی تک چڑھی ہوئی ہے۔کرتے کے بٹن کھلے ہوئے ہیں،داڑھی اورسرکے بال ادھرادھربکھرے ہوئے ہیں،ایک پائنچہ میرے پیرسے باہر نکلاہواہے۔دوسراپنڈلی تک چڑھاہواہے۔میری حالت بدترہے۔شیشے میں میراسراپاایک پاگل کی طرح اورگندگی میں اٹاہوانظرآرہاہے۔کسی نے میراایک بازو پکڑ کر اپنی طرف مخاطب کیا ہے۔میں اس کی طرف مڑگیاہوں۔میری نظروں کے سامنے وہ سایہ ہے،جس کے ہاتھ میں پنجرہ ہے،اس میں میری نیند قید ہے۔وہ شیشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہاہے۔تمہاری کون سے تصویر حقیقی ہے،شیشے والی یامحفل والی۔یک بہ یک میری نگاہیں اپنے قدموں پر ٹک گئی ہیں۔میں اپنے داہنے پیر کے ناخن سے زمین کھرچ رہاہوں اورقدموں کودیکھے جارہوں۔اس نے پھر کہاہے۔ ”خاموش کیوں ہو، بتاؤ اپنی حقیقت۔“ضبط کا باندھ ٹوٹ گیا ہے، زور زور سے بے خودی کے عالم میں چیخ رہاہوں۔میرے منہ سے کانپتی بلکتی ھاھاھاھا،ھوھوھوکی آوازیں نکل رہی ہیں۔چوں یک جرعہ رسید ازوے بہ حافظ۔ہمہ عقل وخرد بیکار دیدم کی آوازفضا کو مرتعش کررہی ہے۔ایک مخصوص دھن میں سب سکھین میں چنر موری میلی،اب کی بہارے چنر موری رنگ دے کی تکرار میرے کانوں سے ٹکرارہی ہے،میں ایک ہاتھ کی پشت کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی پر تیز تیز مار رہاہوں اور بلند ہوتی آوازوں کو دہراتاجارہاہوں۔ کبھی ہاتھوں کو سر سے اوپر اٹھا رہاہوں،کبھی چہرے پر مار رہاہوں اور کبھی ایک کی ہتھیلی پر دوسری کی پشت ماررہاہوں۔میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے بالوں کوزورزورسے کھینچتے ہوئے زمین پر گھٹنے ٹیک دیے ہیں،گریہ وزاری کررہاہوں۔ میرا جسم ہچکولے کھارہا ہے۔سب سکھین میں،سب سکھین میں،سب سکھین میں چنر موری میلی۔
—————-
یہ افسانہ سہ ماہی ادبی مجلہ ’’اردو چینل‘‘ کے شمارہ ۳۸ میں شائع ہوچکا ہے۔
Dome Doves a Short Story by Shaukat Hayat
Articles
گنبد کے کبوتر

شوکت حیات
بے ٹھکانہ کبوتروں کا غول آسمان میں پرواز کر رہا تھا۔
متواتر اڑتا جارہا تھا۔ اوپر سے نیچے آتا۔ بے تابی اور بے چینی سے اپنا آشیانہ ڈھونڈتا اور پھر پرانے گنبد کو اپنی جگہ سے غائب دیکھ کر مایوسی کے عالم میں آسمان کی جانب اڑجاتا۔
اڑتے اڑتے ان کے بازو شل ہوگئے۔ جسم کا سارا لہو آنکھوں میں سمٹ آیا۔ بس ایک ابال کی دیر تھی کہ چاروں طرف۔۔۔
لیکن یہ پڑوسیوں کے بچے بھی کم بدمعاش نہیں۔ مرغیوں کے ڈربے میں آدمی رہنے پر مجبور ہوجائیں اور مرغیاں وسیع و عریض ہال میں چہل قدمی کرنے کی سعادت حاصل کرلیں تو کئی باتوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہوتا ہے۔۔ لیکن بچے تو بچے ٹھہرے۔ اپارٹمنٹ کے بچے ہوں یا عام قصباتی گلیوں اور جھونپڑ پٹیوں کے بچے۔۔۔
بچے بھی اتنے بے ہنگم ہوتے ہیں۔۔۔ اتنا شور مچاتے ہیں۔۔۔ سارے فلیٹ کو سر پر اٹھا لیتے ہیں، لیکن سر پر اٹھانے کے لئے شہر کے سب سے بڑے اپارٹمنٹ کا سب سے چھوٹا وَن بیڈ روم یونٹ یعنی اس کا فلیٹ ہی تھا جس میں کھیل کود کی سب سے کم گنجائش تھی۔ کارپیٹ ایریا بیڈ روم یونٹ یعنی اس کا فلیٹ ہی تھا جس میں کھیل کود کی سب سے کم گنجائش تھی۔ کارپیٹ ا یریا کے نام پر چند انسانوں کے سانس لینے کے لئے جسم کے ہلنے ڈلنے بھر کی جگہ دی گئی تھی۔ چاروں طرف سے بند ڈربے میں۔ بس ایک چھوٹی سی بالکنی ہی راحت پہنچاتی تھی، جس کے بڑے حصے میں متعدد گملے سجے ہوئے تھے۔ گملوں میں انواع و اقسام کے پھولوں کے پودے لگے ہوئے تھے۔ گلاب، چنبیلی زنّیا، کروٹن اور۔۔۔ جینے کی آرزو کے استعارے۔۔۔
دن بھر کا تھکا ماندہ، ہانپتے کانپتے بغیر لفٹ کے اپارپاٹمنٹ کی چوتھی منزل پر پہنچ کر وہ ا پنے فلیٹ کی کال بیل بجاتا، بدحواسی پورے وجود پر طاری ہوتی۔
بچے پیروں سے لپٹتے کاندھوں پر چڑھنے کی کوشش کرتے۔
’’تم لوگ اب تک کلچرڈ نہیں ہوسکے۔ دوسرے بچوں کو دیکھو۔۔۔ سیکھو کچھ ان سے۔۔۔ کس طرح نہ ہونے کی طرح ہوتے ہیں۔ یہی تو ان کی شناخت ہے۔۔۔۔‘‘
لیکن چھوٹی سی بالکنی میں آکر بیٹھ جاؤ۔۔۔ گرم گرم چائے کی ایک پیالی مل جائے اور بچے خاموش اور مصروف ہوں تو معلوم ہوتا کہ زندگی میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ جنت میں اس سے زیادہ لطف آئے گا بھلا ۔۔۔ساری تکان دور ہوجاتی۔
اپارٹمنٹ کے کیمپس میں بڑے پیپل کے درخت کو بلڈر نے اپنی جگہ سالم چھوڑ دیا تھا۔ اس کی ایک شاخ اس کی بالکنی تک پھیلی ہوئی تھی۔ سیمنٹ کے اس پہاڑ کے ساتھ پیپل کے درخت کا کولاژ جدید مصوری کے شاہکار نمونے کی طرح دکھائی دیتا تھا۔
گوریّوں کا جھنڈ چہچہاتا ہوا اپارٹمنٹ کی اس بالکنی میں منڈلاتا رہتا اور زندگی کی خوبصورتی کے گیت گاتا۔ ایک نت کھٹ گلہری تیزی سے آتی اور شرارت بھری آنکھوں سے اسے گھورتی ہوئی پیپل کے درخت کی ٹہنی کے راستے پیڑ پر واپس چل دیتی۔ہواؤں کی خنکی میں سورج کی سنہری کرنوں کی گرمی من پسند دلربا اور سیم تن کی گرمی سے ذائقہ دار ہم آمیزی کا لطف دیتی۔
’’زندگی اتنی سفاک نہ بن۔۔۔
سب کچھ داؤں پر لگا کر تجھے حاصل کیا ہے یا ہنوز۔۔۔
تجھے پانے کی جستجو میں ہوں۔۔۔’’
وہ دھیمے دھیمے سر میں گنگناتا۔
وہسکی اور بیئر کو ملادو تو اس کی تلخی دماغ کو جھنجھناتا ہوا لطف عطا کرتی ہے۔ سارا وجود ہلکا ہوکر آسمان میں اڑنے لگتا ہے۔ اوپر سے دیکھنے پر زمین پر چلنے والے لوگ کتنے بونے نظر آنے لگتے ہیں۔
ہوائیں تیز چلنے لگیں۔ پیپل کے پتے ہلنے لگے۔ پیپلیاں ٹوٹ کر گر رہی تھیں۔ گوریّوں کی چہچہاہٹ معمول سے مختلف سماعتی پیکر اختیار کر رہی تھی۔
بغل والا پڑوسی کہہ رہا تھا، اس بار پچھلے سال والا ابال نہیں۔ دن خیریت سے کٹ جائے گا۔ موسم ٹھیک ہے۔ جینے کی چاہت قائم ہے۔۔۔ آپ بھی مزے سے رہیے۔
’’نوپرابلم۔۔۔‘‘
’’اپارٹمنٹ کے تمام بچوں کو میرے ہی فلیٹ میں مجمع لگانا تھا۔ ان کی کوئی کانفرنس ہے کیا۔ ٹو بیڈروم اور تھری بیڈروم کے بڑے بڑے فلیٹ چھوڑ کر ون بیڈروم فلیٹ میں ان کا جماؤ۔۔۔ ہر جگہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل رہی ہے۔ لیکن تمام چھوٹی مچھلیاں مل کر بڑی مچھلی کا روپ دھارن کر لیں تو۔۔۔‘‘
ٹیلی ویژن آن تھا۔ پرائیویٹ چینل کے پروگرام چل رہے تھے۔ دودھیا اسکرین پر تاریخ کی طویل صدیاں لمحوں کی نوک پر خود بخود آخری ہچکی لے رہی تھیں۔
’’کوئی تو سمجھائے ان بچوں کو جاکر۔۔۔ ناگفتہ بہ حالات میں کیا آسمان سر پر اٹھالینے کا ارادہ ہے۔۔۔ گلیوں، پھولوں اور تلسی کی پتیوں، میرے گملوں پر کوئی ضرب نہ آجائے۔۔۔ بڑی محنت سے انہیں سینچا ہے۔۔۔ اجی سنتی ہو۔۔۔ ذرا دیکھو۔۔۔ اچھا چھوڑو۔۔۔ شریف آدمی کو تو مرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ کچھ مت کہو۔۔۔ بچے تو بچے ہی میں۔۔۔ پڑوسیوں کے بچے۔۔۔ ہم کہیں گےبھی تو کس حد تک جائیں گے۔۔۔‘‘
بغل والے فلیٹ کے ینگ مین آف سکسٹی ٹوسین دادا کے ساتھ باہر نکلنے سے پہلے اس نے بیوی سے بدبداتے ہوئے کہا۔ پھر ان کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے دور تک نکل گیا ۔ دادا بول رہےتھے۔
’’ہاں صاحب، گھبرانے کی بات نہیں۔۔۔ سب کچھ نارمل ڈھنگ سے ہورہا ہے۔ اضطراری چیزیں زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہتیں۔ امن و استقامت کی راہ اپنا کر رہی ہم اور آپ چین اور سکھ کی زندگی گزار سکتے ہیں۔۔۔ میں تو پچھلے سال کے مقابلے میں بڑی تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔ راوی چین اور راحت کی سانسیں لکھتا ہے!‘‘
پرانے زمانے کے سین دادا اس کے ساتھ ہوتے تو اردو کے ثقیل الفاظ کچھ زیادہ ہی استعمال کرتے تھے۔
سڑک پر گاڑیاں معمول کے مطابق چل رہی تھیں۔ چھٹی کے دن چہل پہل کی جو کمی عام طور پردیکھی جاتی ہے، وہ اس روز بھی تھی۔
پڑوسی نے سگریٹ کا لمبا کش لیا، ’’ارے صاحب ، کیوں سوگواری کا موڈ طاری کیے ہوئے ہیں۔ میں سمجھ سکتا ہوں آپ اپنی بالکنی اپنے پودوں اور گملوں کے تحفظ کے لئے بے چین ہیں۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا۔ آپ کے سارے گملے خیریت سے رہیں گے۔اب دوستوں سے ملنے چل رہے ہیں تو یوں اداس نظر آنا چھوڑیے۔۔۔ انجوائے کیجئے۔۔۔ دیکھئے گول گول گنبدوں کی گولائی اور نوکیلے ابھار۔۔۔ اف۔۔۔ سامنے کے پرکشش منظر سے جسم میں عجب ترنگ پیدا ہورہی ہے۔۔۔ ذرا دیکھئے آپ بھی۔۔۔‘‘
’’اس عمر میں داداآپ۔۔۔‘‘
اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ اس کا دل دوسرے گنبدوں میں الجھا ہوا ہولناک کیفیات سے گزر رہا تھا۔ سین دادا نرم و گداز جسمانی گنبدوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے چٹخارے ماررہے تھے۔
’’عمر کی کیا بات کرتے ہو۔۔۔ ہمیشہ خود کو جوان سمجھو۔۔۔ دیکھنا اور دیکھتے ہوئے ان رنگین تصویروں میں ڈوب جانا اور بار بار ڈوبنا ابھرنا۔۔۔‘‘
سین دادا نے پھر کہا، ’’ینگ مین، تم جوانی میں بوڑھا ہوگیا۔۔۔ ذرا نظر تو اٹھا۔۔۔‘‘
سین دادا نے اس کے شانے پر اپنی انگلیوں کی گرفت سخت کی۔
آگے تین قیامتیں فاختاؤں کی چال چلتی ہوئی گپ شپ میں مصروف تھیں۔
’’سین دادا آپ ان فاختاؤں میں الجھے ہوئے ہیں۔ذرا اوپر دیکھیے بے ٹھکانا کبوتروں کا غول مستقل آسمان میں چکر کاٹ رہا ہے۔ اپنے مستقر کے بے دردی اور بربریت کے ساتھ مسمار کرکے غائب کردئے جانے کے بعد کیسی بے گھری اور بے امانی جھیل رہا ہے۔ آپ ان کبوتروں کی آنکھیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ ان میں اترتا خون، بیچارگی اور کچھ کر گزرنے کی تڑپتی ہوئی آرزوئیں محسوس کررہے ہیں۔۔۔‘‘
سین دادا اپنی دھن میں مگن تھے۔ آسمان کی طرف نظر اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کے پاس تو پوری زمین تھی اور زمین پر آسمانی جلوے موجود تھے۔ وہ ان سن رسیدہ لوگوں لوگوں میں تھے جن کی آنکھوں نے بیویوں کے مرجانے کے بعد شہوت کے شرارے پھوٹتے ہیں۔
اسے یاد آگیا کہ ایک روز جب گارڈ نے اطلاع دی کہ اپارٹمنٹ کے نیچے ایک سانپ نظر آیا ہے تو سب پر وحشت طاری ہوگئی تھی۔ پورے اپارٹمنٹ میں ریڈ ایلرٹ کردیا گیا تھا۔ لوگ رات بھر سو نہیں پائے۔ ادھر ادھر سے مانگ کر ڈنڈے اور لاٹھیاں جمع کرلی گئیں۔ کھڑکی دروازے سب کے سب مقفل تھے۔ آنکھیں پہرے دے رہی تھیں۔ لیکن ہر آن یہ ڈر تھا کہ روشنی گل ہوگئی یا آنکھیں لگ گئیں تو پتہ نہیں سانپ کس کو ڈس لے۔
اسے تو بس اس بات کی فکر تھی کہ اس کی بالکنی میں آنے والی گلہری اور گوریوں کا جھنڈ متوحش نہ ہوجائے۔ کہیں سانپ انہیں نہ ڈس لے۔ مبادا اس کے رنگ برنگ پھولوں والے گملوں، گلہری اور گوریّوں سے جو کولاژ بنتا ہے، اس پر سیاہ بادل منڈلانے لگیں۔
وہ چپ چاپ ایک لوہے کی چھڑ لے کر اپنی بالکنی میں جاکر بیٹھ گیا۔ بالکنی میں گوریوں نے چھوٹا سا گھونسلہ بنا رکھا تھا۔ چوں چوں کی آویزیں رنگین روشن فوراوں کی طرح پھوٹ رہی تھیں۔ اس نے اطمینان کی گہری سانس لی۔ ا س کے ایک ہاتھ میں تین سیل والی ٹارچ تھی۔ اس کی بیوی بک بک کرتی رہی۔ اسے برا بھلا کہتی رہی۔ بالکنی سے ہٹنے کی ہدایت دیتی رہی۔ اس نے طرح طرح سے اسے سانپ کے زہر سے ڈرانے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک نہ سنی، آخر کار اسے کہنا پڑا کہ اگربہت ڈر لگ رہا ہے تو بالکنی کے دروازہ اندر سے بند کرلے۔ وہ گوریوں کے گھونسلے کی حفاظت پر مامور رہے گا۔ بہت دیر تک اس کی بیوی بچے منت سماجت کرتے رہے۔ اسے خبطی اور بیوقوف قرار دیتے رہے۔ لیکن اس نے گوریوں کی ننھی سی جانوں سے لاپروائی کے لئے خود کو کسی قیمت پر آمادہ نہیں کیا۔
کسی فلیٹ میں سانپ نہیں ملا ۔ تمام کونے کھدرے جھاڑے گئے۔ بکس اور کپ بورڈ کی چھان پھٹک کی گئی۔ بچے تو بچے ہی ٹھہرے کچھ دیر تک سانپ کا چکر انہیں دلچسپ تماشے کی طرح لگا۔ بڑوں کے کاموں میں وہ پوری تندہی کے ساتھ ہاتھ بٹاتے رہے۔ بعد ازاں سب کے سب تھک کر جہاں تہاں سوگئے۔ بڑے بوڑھے رات بھر جاگتے رہے اور بالآخر صبح ہونے پر سب کے سب اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ ایک افواہ تھی جو انہیں رات بھر پریشانیوں میں مبتلا رکھنے کے لئے اڑائی گئی تھی۔ تفتیش کی گئی کہ سب سے پہلے یہ خبر کس نے اڑائی تھی۔ آخر کار اپارٹمنٹ کا گارڈ شک کے گھیرے میں آگیا۔ سب اس کی کرتوت ہے۔ محافظت کی ذمہ داری میں گھپلا کر رہا ہے۔
صبح کی نرم و نازک ہواؤں کے ساتھ تتلیاں اڑتی ہوئی پھولوں کی طرف آئیں۔ بھنورے پھولوں کا چکر کاٹنے لگے۔ گھونسلے سے گوریوں کے جھنڈ نے دانہ چگنے کے لئے اڑان بھری۔ سورج کی نرم کچی کرنوں نے اس کی بالکنی کو گلے لگایا تو اسے محسوس ہوا کہ جینے کے جواز ابھی ختم نہیں ہوئے۔
’’دادا میرا دل نہیں لگ رہا ہے۔۔۔ اب واپس چلیں۔۔۔ نہ معلوم میرے پھولوں کا کیاحشرہوا ہوگا۔ بچوں کی بھیڑ کے ارادے نیک نہیں معلوم ہوتے۔۔۔‘‘
’’تم خواہ مخواہ وہمی ہوگئے۔ کسی نہ کسی فلیٹ میں سب برابر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس بار تمہارے فلیٹ کی باری ہے۔ آخر تمہارے بچے بھی تو ان میں شامل ہیں۔۔۔ گھبرانے کی کیا بات ہے۔۔۔‘‘
’’داد۔۔۔ میرا دل نہ جانے کیوں گھبرا رہا ہے۔۔۔ یہ بے اماں کبوتروں کا اڑتا ہوا غول دماغ میں عجیب قسم کی وحشت پیدا کر رہا ہے۔ ان کی جائے اماں ان سے چھن گئی۔ گنبدوں کی بلندی دھول چاٹ رہی ہے۔ یہ کبوتر اب کہاں جائیں دادا۔۔۔ انہیں کہاں آسرا ملے گا۔۔۔؟‘‘
’’تم ینگ مین۔۔۔ پارزیٹو ہوکر سوچو تو ہر جگہ ٹھکانا ہی ٹھکانا ہے۔۔۔ گنبد، پہاڑوں کی سفاک چوٹیاں، پتھریلے غار اور گھنے جنگل کے درختوں کی ڈالیاں۔۔۔ موسموں کے سرد و گرم جھیلنے کے لئے تیار رہو۔۔۔ یار۔۔۔ یار، اپنی کھال تھوڑی کھری کھری بناؤ۔۔۔‘‘
ہر طرف اندر ہی اندر مختلف آہٹیں تھیں۔۔۔
کہیں پھلجھڑیاں چھوٹ رہی تھیں، کہیں شہنائی پر ماتمی دھن بج رہی تھی۔ ایک مدت کے بعد وہ عجیب و غریب لمحہ ایک نقطے پرمنجمد ہوگیا تھا، جہاں سے بیک وقت خوشیوں اور غم کے دھارے پھوٹ رہے تھے بظاہر چاروں طرف سراسمیگی اور گہرا سناٹا تھا جو آنے والے بڑے طوفان کا نقیب معلوم ہورہا تھا۔
سین دادا دونوں جذبوں سے یکسر بے نیاز تھے۔ ان پر شہوانی جذبات حاوی تھے۔
جن دوستوں کے یہاں جارہے تھے، ان کی عورتوں کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ کئی جگہوں سے ہوتے ہوئے وہ دونوں مسٹر تھامسن کے گھر پہنچے۔ مسٹر تھامسن مہمان نواز انسان تھے۔ انہوں نے جھٹ نئی بوتل نکال لی۔ گلاس سامنے رکھ دیے۔ ان کے گھر کی نوجوان خادمہ مس ریزہ بڑی پھرتی سے ہر کام میں ہاتھ بٹا رہی تھی۔
جھٹ پٹ اس نے فریج میں رکھے ہوئے گوشت کے قتلے کئے اور انہیں فرائی کر کے ان کے آگے رکھ دیا۔ گرم گوشت سے اٹھی ہوئی بھاپ سے سین دادا کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ مسٹر تھامسن پہلے ہی سے شغل میں مصروف تھے۔ ان کا نشہ آسمان کو چھورہاتھا۔ سین دادا بھی مست ہورہے تھے۔ ان سے برداشت نہ ہوا۔ انہوں نے نیم برشت کا جو کی پلیٹ لاتی ہوئی مِس ریزہ کی ننگی گرم پنڈلی پر اپنی لرزتی ہوئی انگلیاں رکھ دیں۔اس نے بڑے پیار سے سین دادا کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر عقیدت بھرا بوسہ دیا اور ان کا پیگ بناکر گلاس ان کے ہونٹوں سے لگادیا۔ ایک لمحے کے لئے ان کی مدت کی پیاس بجھ گئی۔ دل کو قرار آگیا۔ دوسرے ہی لمحے ان کی تڑپ اور شدت اختیار کر گئی۔ شریانوں میں خون کا دباؤ بڑھ گیا۔۔۔ ان کی انگلیاں ایک بار پھر مس ریزہ کی بَرہنہ پنڈلی کو چھوتی ہوئی اس کی سڈول جانگھوں کی طرف رینگنے لگیں۔
مس ریزہ کچھ دیر مبہوت رہی۔کوئی تاثر اس کے چہرے پر نہیں تھا۔ اس نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ان کی انگلیاں اور آگے بڑھنے لگیں۔
مِس ریزہ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبانے لگے۔
دراصل مس ریزہ سین دادا کو دیکھ کر ماضی کی وادیوں میں کھو گئی تھی۔ اسے اپنا بچپن یاد آنے لگا تھا۔
’’مائی لَونگ ڈیر ریزہ۔۔۔
لائف از این اینڈلس اسکائی۔۔۔
یو ہیو ٹو گولانگ وے۔۔۔ ویری لانگ۔۔۔‘‘
اس کے مشفق باپ کی آنکھوں میں کیسے کیسے خواب تھے۔ وہ باپ سے لپٹ گئی۔۔۔ننھے ننھے پیروں سے اس کے کندھوں پر چڑھ گئی۔۔۔ مسٹر سین کے چہرے کی اس کے باپ سے مشابہت نے اسے چشم ِزدن میں ان کے قریب کردیا تھا۔۔۔ بعد ازاں اس کے باپ نے تابوت میں سکونت اختیار کرلی۔ ہواؤں کے دوش پر اڑتی ہوئی پتی کی طرح کئی جگہوں سے ہوکر اسے تھامسن کے ہاں آسرا ملا تھا جو اس علاقے میں بڑا عزت دار شخص گردانا جاتا تھا۔۔۔ یہاں اسے بہت دباؤ اور جبر میں ہنستے اور خوش دکھتے ہوئے خود کو تھامسن کے حوالے کرنا پڑا تھا۔
اس کے لئے کوئی اور راستہ بھی نہ تھا۔۔۔ کئی دروازے اس نے بدلے تھے۔ ہر دروازے پر زبانیں لپلپاتے، سرخ آنکھوں والے حیوان موجود تھے، رال ٹپکاتے۔ پھر مسٹر تھامسن کیا برے تھے۔ صاف ستھرے خوشبودار انسان۔ ان کے لمس میں کم از کم اسے جمالیاتی طور پر کسی کراہیت کا احساس نہ ہوتا تھا۔۔۔
سین دادا مس ریزہ کی ان کیفیات سے بے خبر سرشاری اور لذت یابی کی اپنی دنیا میں محو تھے۔ وفور ِجذبات سے ان کے پلکیں مند نے لگی تھیں۔۔۔ مس ریزہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے نزدیک کھڑی تھی۔ نشہ کی حالت میں مسٹر تھامسن نے سین دادا کے ارادے کو بھانپ لیا تھا۔ وہ ایک دریا دل انسان تھے۔ شراب و کباب میں تو دوسروں کی شرکت پسند کرتے تھے، لیکن اور کسی نجی چیز میں انہیں کسی کی حصہ داری منظور نہ تھی۔
انہوں نے خشم گیں نگاہوں سے مس ریزہ کی طرف دیکھا۔ مس ریزہ جس کی آنکھوں میں سین دادا کے لئے ہمدردی امنڈ آئی تھی، تھامسن کی یہ کیفیت دیکھ کر سٹپٹا گئی اور خالی پلیٹ اٹھاکر آنسو پونچھتی ہوئی کچن کی طرف بڑھ گئی۔ پھر وہ نظر نہ آئی۔ یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر مسٹر تھامسن کو اسے چیخ کر بلانا پڑا۔
اس نے سوچا، اس کے اور مس ریزہ کے دکھ میں کس کا دکھ بڑا ہے۔ غٹرغوں کرتے ہوئے کبوتروں کا غول اس کے سر پر منڈلانے لگا۔ اس نے ہامی بھری۔ اس سے بڑا غم تو ان بے امان کبوتروں کا ہے، جنہیں اب ساری عمر، ہجرت کا عذاب جھیلنا ہے۔۔۔ کئی نسلوں سے وہ ان گنبدوں کے باشندے تھے۔۔۔ لیکن اب۔۔۔
اسے سین دادا اور مسٹر تھامسن کی مئے نوشی پر غصہ آنے لگا۔ سین دادا بولتے ہیں ینگ مین غم بھلاؤ۔۔۔ انجوائے کرو۔۔۔ ایسے حالات میں بھلا کوئی انجوائے کرسکتا ہے۔۔۔
اندرونِ خانہ سے برتنوں کے گرنے کی آواز آرہی تھی۔
متوحش سی ریزہ دوڑتی ہوئی آئی۔
’’انکل۔۔۔ ایک کبوتر گھر کے اندر داخل ہوگیا ہے۔۔۔ بغل والے پڑوسی کی بلی اس پرجھپٹنا چاہ رہی تھی۔۔۔ کبوتر کچن میں برتنوں کے بیچ چھپ گیا ہے۔ بڑی مشکل سے میں نے بلی کو بھگایا اور کچن کا دروازہ بند کر کے آرہی ہوں۔۔۔‘‘
اس کا کلیجہ دھک سے ہوکر رہ گیا۔ اس نے سین دادا کی آنکھوں میں جھانکا پھر تھامسن کو دیکھا۔ نشے کی چمک ہونے کے باوجود ان کی آنکھوں میں کبوتر کے بارے میں سن کر سراسمیگی پیدا ہوگئی تھی۔ دونوں کے سر جھک گئے۔ جیسے کوئی افتاد آپڑی ہو۔
اسی وقت باہر کے دروازے پر کسی نے دستک دی، ’’مسٹر تھامسن۔۔۔ مسٹر تھامسن۔۔۔‘‘
اداس اور سراسیمہ ریزہ نے دروازہ کھولا۔
پڑوسی مسٹر جان کھڑے تھے۔
’’مس ریزہ۔۔۔ مسٹر تھامسن کو بلاؤ۔‘‘
’’کیا ہے بھائی۔۔۔‘‘ مسٹر تھامسن نشے میں جھومتے ہوئے بھاری بھاری قدموں سے باہر آئے۔
’’میرا کبوتر آپ کے یہاں آگیا ہے۔۔۔ آپ جانتے ہیں میری مدر ان لا پرانی مریض ہیں۔۔۔ آج کل ان کے ہاتھوں میں سنسناہٹ رہتی ہے۔ ڈاکٹروں نے کبوتر کا سوپ تجویز کیا ہے۔۔۔ اسے ذبح کر ہی رہا تھا کہ اڑ کر آپ کے یہاں چلا آیا۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ میرے یہاں آکر چھپ گیا ہے۔۔۔ ابھی ابھی مس ریزہ نے مجھے رپورٹ دی ہے۔۔۔ ایک بلی بھی ہے جو اس کی جان کی دشمن بنی ہوئی ہے۔۔۔ مس ریزہ جاؤ ان کا کبوتر انہیں واپس کردو۔۔۔ آئیے۔۔۔ آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھیں مسٹر جان۔۔۔ کچھ ہوجائے جب تک۔۔۔‘‘
’’او نو تھینکس۔۔۔ میں صرف ویک اینڈ میں لیتا ہوں۔۔۔ دوسرے روز چھٹی رہتی ہے۔۔۔ سویرے اٹھنے کا چکر نہیں ہوتا۔۔۔ کمبخت کو لینے سے مجھے نیند بہت آتی ہے۔۔۔‘‘
ہزار اندرونی شکست و ریخت سے گزرنے کے بعد ناچار مس ریزہ کبوتر کو پکڑ لے آئی تھی۔۔۔ لیکن اس نے دیکھا کہ اس کے پورے وجود پر کپکپاہٹ طاری تھی۔ ۔۔۔ مسٹر تھامسن نے اس کی آوازوں کو سنا۔۔۔ بہت دنوں سے وہ اسے خود سے اسی طرح کی باتیں کہتے ہوئے سن رہا تھا۔۔۔ خاموش نگاہوں سے وہ بد بدا رہی تھی۔
لڑ نہیں سکتا تو بھاگ جانا مراد۔۔۔ اڑجا۔۔۔ بستیوں سے دور وسیع آسمانوں اور جنگلوں کی طرف بھاگ۔۔۔
لیکن سہما ہوا کبوتر اس کی ہتھیلیوں میں سکڑتا سمٹتا چھپنے کی کوشش میں مصروف تھا۔۔۔ اور جب مسٹر جان نے تھینک یو۔۔۔ تھینک یو۔۔۔ کہتے ہوئے اسے پکڑنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو مس ریزہ کے اندرون سے کسی نے اچھال لگائی۔
اس منظر نامے میں اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کس میں لرزش زیادہ تھی۔۔۔ کبوتر یا مس ریزہ میں۔۔۔ یا وہ خود زیادہ لرز رہا تھا۔۔۔ یہ کبوتر کہیں۔۔۔ اچانک اسے خیال آیا۔
بے اماں کبوتر۔۔۔ شاید ان میں سے ایک بوڑھی عورت کے ہاتھوں کو حرارت پہنچانے کے لئے مذبح کا اسیر ہوگیا۔
میس ریزہ نے ہتھیلیاں ڈھیلی کردیں۔ اس کے اندر کسی نے اچھل کر جیسے اس کے ہاتھوں کو جھٹکا دیا۔
لڑ نہیں سکتے تو کم از کم بھاگ تو سکتے ہو۔۔۔ ہائے نامراد۔۔۔ تو نے یہ صلاحیت بھی کھودی۔۔۔
کبوتر اڑا اور روشن دان پر جاکر بیٹھ گیا۔
مسٹر تھامسن نے ایک طمانچہ اس کے گال پر جڑ دیا۔ وہ بے حد غصے میں تھے۔ مس ریزہ پر سکتہ طاری ہوگیا۔۔۔ تھامسن نے ٹیبل پر اسٹول رکھ کر اسے پکڑنے کا حکم دیا۔ اس کوشش میں اسٹول کھسکنے سے مس ریزہ گری۔۔۔ اسے شدید چوٹیں آئیں۔۔۔ سین دادا اسے اٹھانے کے لئے آگے بڑھے لیکن تب تک مسٹر تھامسن نے بڑھ کر اسے اٹھالیا تھا۔۔۔ ان کے سینے سے لگی ہوئی مس ریزہ کانپ رہی تھی۔
وہ دونوں اٹھ گئے۔
’’اجازت ہو مسٹر تھامسن۔۔۔ آپ کی محفل میں بڑا لطف آیا۔۔۔‘‘
’’لیکن یہ صاحب تو اتنے سوگوار ہیں کہ انہوں نے کوئی مزہ نہ لیا۔۔۔‘‘
سین دادا نے بڑے پیار سے اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ ویسے کنکھیوں سے وہ مستقل کانپتی ہوئی مس ریزہ کو دیکھے جارہے تھے۔
’’اس کی اداسی برحق ہے۔۔۔ لیکن میرا کہنا ہے کہ خواہ مخواہ اداس ہونے کا فائدہ کیا ہے۔۔۔ کوئی راستہ نکلتا توٹھیک تھا۔۔۔ آپ کے پاس لایا تھا کہ انگور کی بیٹی کے ساتھ شغل کرے گاتو بہل جائے گا۔۔۔ لیکن یہاں کبوتر اور بلی کا تماشا دیکھ کر یہ اور بھی اداس ہوگیا۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔۔۔ آپ نے بڑی فیاضی دکھائی۔۔۔ اس گرماگرم محبت کا شکریہ۔۔۔‘‘
رخصت ہونے سے قبل انہو ں نے مس ریزہ کو بھرپور نگاہوں سے دیکھا جو اس متوحش انداز میں بھی بَلا کی حسین لگ رہی تھی۔۔۔
’’بائی بائی ریزہ۔۔۔ بائی مسٹر تھامسن۔۔۔ گڈ نائٹ۔۔۔‘‘
اس روز کئی دوستوں کے ہاں دونوں گئے تھے۔ سب نے اس روز کے اہم ترین واقعے پر بات چیت کرنے سے گریز کیا تھا۔ لوگ دل ہی دل میں یا تو رو رہے تھے یا ہنس رہے تھے۔ عجیب بے بسی اور دلی خوشی کی کیفیتیں تھیں۔ جن سے مختلف لوگ اپنے اپنے حساب سے گزر رہے تھے۔ لیکن تمام کیفیات اور بے نیازی کے باوجود ایک سوال سب کو کریدر رہا تھا۔
’’اب کیا ہوگا۔۔۔آئندہ کیا ہونے والا ہے۔۔۔؟‘‘
وہ اوب گیا تھا۔ تھامسن کے ہاں اس نے بھی مئے نوشی کی۔ لیکن اسے نشہ آنا تو دور، ہلکا سرور تک نہ ہوا۔ رہ رہ کر اسے اپنے گملے کے پودوں ، بالکنی اور بچوں کے اجتماع کا خیال آرہا تھا۔ایک عجیب تشویش میں وہ تمام وقت مبتلا رہا۔
اس علاقے کے تمام دوستوں کے ہاں سین دادا نے جی بھر کر انجوائے کرنے کے بعد واپسی کا ارادہ کیا۔ ان کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ گلابی نشہ پورے وجود پر طاری تھا۔ ریزہ کی لمحاتی قربت نے انہیں عجیب کیف و سرور سے سرشار کر رکھا تھا۔ پھر ابھی اتنا ہوش انہیں تھا کہ ہم سفر کی چارہ جوئی کرنی ہے۔ اسے اپنے پھولوں، پودوں اور گملوں کی سالمیت کے تعلق سے، ڈھارس بندھانی ہے۔ راستے بھر ان کا اندازہ پچکارنے اور دلار نے والا رہا۔
’’گھبراؤ نہیں بچے۔۔۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘
گیٹ پر اپارٹمٹ کے گارڈ نے ان کے داخل ہونے کے لئے رستہ چھوڑ دیا۔چاروں طرف خاموشی تھی۔ اپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر اس نے سین دادا کو سہارا نہ دیا ہوتا تو وہ ٹکرا کر گر پڑتے۔ تیسری منزل پر بہ دقت تمام اس نے دادا کی جیب سے ان کےفلیٹ کی چابی نکال کر ان کا انٹر لاک کھولا۔ ان کے فلیٹ کے اندر داخل ہوا۔ یہ یقین ہوجانے کے بعد کہ دادا نے اندر سے چٹخنی لگالی ہے، وہ اپنے فلیٹ کی جانب روانہ ہوا۔ اوپر کی منزل کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے اس کے قدم کانپ رہے تھے۔ دل ایک انجانے خوف سے لرز رہا تھا۔
کال بیل بجانے پر بیوی نے دروازہ کھولا تو اس کی آنکھیں سوجی ہوئی لگیں۔ جیسے بہت دیر سے روتی رہی ہو۔
’’کیا حال ہے۔ میرے پھولوں کا۔۔۔؟‘‘
’’خود دیکھ لو جاکر۔۔۔‘‘
بچے اپنے بستروں میں گہری نیند میں مبتلا تھے۔ سب کے چہروں پر ایسی اذیتیں جیسے کوئی بہت ڈراؤنا اور تکلیف دہ خواب دیکھ رہے ہوں۔۔۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔۔ اس کے جسم میں کاٹو تو لہو نہیں۔ بالکنی کھلتے ہی وہاں کے ٹوٹے پھوٹے منتشر حالِ زار نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ نُچے ہوئے پھول، موزائک کے فرش پر مسلی کچلی بکھری ہوئی پھولوں کی پنکھڑیاں، ٹوٹے پھوٹے گملے۔۔۔ گملوں کی مٹیوں کے جابجا ڈھیر۔۔۔ گوریّوں کے گھونسلوں کے منتشر تنکے۔۔۔ گوریوں کا کوئی پتہ نہیں تھا۔۔۔ گلہری، تتلیاں اور بھنورے تو اب ایک مدت تک دکھائی نہیں دیں گے۔۔۔ اس کی بالکنی کا سارا حسن ملیا میٹ ہوچکا تھا۔
آخر بچوں نے اپنے کھیل میں میرا سب کچھ۔۔۔ اس سے اس کا اندیشہ صحیح نکلا تھا۔ اس دن اپارٹمنٹ میں گھسے سانپ کو چند بچوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور اس سے کھیلنے کے خطرناک عمل کے عادی ہوگئے تھے۔ اسی لیے تو بچے اتنے زہریلے اور وحشی ہوگئے تھے۔
آسمان میں گنبد کے خون آلود کبوتروں کا غول مستقل جائے اماں کی تلاش اور کچھ کر گزرنے کے جنون میں چکر کاٹ رہا تھا۔
بیوی سے اس کی نگاہیں ملیں تو اسے اچانک احساس ہوا کہ گھر میں میت پڑی ہے اورباہر کرفیو میں اس کی تدفین ایک سنگین مسئلہ ہے۔
—————————————–
Wajood be Saya a Story by Salim Sarfaraz
Articles
وجود بےسایہ

سلیم سرفراز
سورج سوا نیزے پر کھڑا تھا ـ سر پر مئی کی برہنہ رقص کرتی ہوئی دھوپ اور قدموں تلے نڈھال بچھی ہوئی کولتار کی نم آلود لیکن شعلہ فشاں سڑک ـ سنسان اور پرسکوت ـ اس کا جسم چولہے کی تیز آنچ پر چڑھے ہوئے توے کی طرح تپ رہا تھا ـ اس کے پیروں میں پلاسٹک کی چپل تھی جو گرم کولتار کی پگھلی سڑک پر چپک چپک جاتی تھی ـ وہ بمشکل قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ـ اسے شدت سے کسی ایسے سائے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں وہ کچھ دیر کے لیے اپنے مضمحل جسم کو دھوپ کے سفاک اور بےرحم پنجوں سے بچا سکے لیکن کہیں جائے پناہ نہیں تھی ـ یکایک اس کے ذہن میں ایک گھنے اور سایہ دار درخت کی شبیہ ابھری ـ اسے یاد آیا کہ تھوڑی ہی دوری پر وہ درخت موجود ہے ـ اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے خودکلامی کی ـ
“بس ـ تھوڑا سا حوصلہ اور ـ کچھ ہی فاصلے پر وہ گھنا سایہ دار شجر منتظر ہے ـ اس کی مہربان بانہوں میں قدرے راحت مل جائے گی ـ “
اس حوصلہ افزا دلاسے سے اس کے شل ہوتے جارہے پیروں میں توانائی بھر گئی اور اس کے قدم سرعت سے اٹھنے لگے ـ کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ اس مقام پر پہنچ گیا ـ
لیکن یہ کیا…؟ اس کی آنکھوں میں حیرت کی گرم ریت بھر گئی ـ اس نے اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو ہاتھ سے ملتے ہوئے چہار سمت دیکھا ـ سبھی آشنا مناظر نگاہوں کے سامنے اپنی موجودگی کا اعتراف کررہے تھے لیکن وہ درخت غائب تھا جس کے سائے میں راحت پانے کی چاہ میں وہ اپنے پژمردہ جسم کو کسی طرح یہاں تک گھسیٹ لایا تھا ـ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے گہری بےیقینی سے سوچا ـ کل تک تو وہ تناور درخت اپنے بےشمار بازوؤں کو فضا میں پھیلائے ہوئے یہیں پر کھڑا تھا ـ کیا اسے راتوں رات کاٹ ڈالا گیا ـ لیکن آس پاس درخت کے کٹنے کا کوئی نشان تو ہوتا ـ وہ کوئی چھوٹا سا پودا نہیں تھا ـ زمین کے بڑے رقبے کو اس کی جڑیں قبضہ کیے ہوئے تھیں ـ درخت کٹ جانے کے باوجود اس کی جڑیں تو ہوتیں ـ وہاں تو کولتار کی سڑک بچھی تھی جسے دیکھ کر قطعی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ آج کل میں بچھائی گئی ہو ـ تو کیا اس کا ذہن انتشار کا شکار تھا؟ کیا یہ وہ جگہ نہیں جہاں وہ درخت موجود تھا؟ اس نے بہ نظرغائر چاروں طرف کا جائزہ لیا ـ سامنے ہی سڑک کی دوسری جانب کسی موبائل کمپنی کا اونچا ٹاور حسب سابق کھڑا تھا ـ اس کے قریب ہی پختہ چبوترے پر ملک کے ایک بڑے رہنما کا قدآور مجسمہ نصب تھا ـ درخت کے نیچے بیٹھ کر وہ ہمیشہ انہیں دیکھتا آیا تھا ـ انہیں اپنے سابقہ مقام پر دیکھ کر اس کا یقین قوی ہوا کہ وہ صحیح جگہ پر ہے لیکن تعجب خیز امر تھا کہ وہ درخت اپنی جگہ پر نہیں تھا ـ آخر وہ کدھر کھو گیا؟ وہ گہرے مخمصے میں پڑگیا ـ وہ دیر تک وہیں کھڑا اس ناقابلِ یقین معمے کو حل کرنے کی سعی کرتا رہا ـ سنسان سڑک پر کوئی ذی نفس بھی نہیں تھا کہ اس سے اس درخت کے متعلق استفسار کیا جاتا ـ معاً اس کی نگاہ مخالف سمت سے آتے ہوئے ایک شخص پر پڑی تو اسے تھوڑا اطمینان ہوا ـ شاید وہ اس گتھی کو سلجھانے میں مدد کرسکے ـ قریب آنے پر اس نے دیکھا کہ وہ ایک ستر بہتر سالہ بزرگ تھے ـ ان کے وجیہ چہرے پر گہری سنجیدگی اور متانت تھی ـ چھریرے جسم پر سلیقے کا لباس تھا ـ کچھ سوچتی ہوئی سی گہری آنکھوں پر نفیس قسم کی عینک چڑھی تھی ـ اس نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے ـ
“بڑے میاں! یہاں ایک گھنا سایہ دار درخت تھا ـ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا ہوا؟ “ـ
اس نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا تو بزرگ نے ادھر دیکھا ـ وہ کچھ دیر تک اپنے ذہن پر زور ڈالتے رہے اور پھر پرخیال آواز میں گویا ہوئے ـ
“ہاں! شاید برسوں پہلے یہاں ایک درخت ہوا کرتا تھا ـ “
“میں برسوں پہلے کی بات نہیں کررہا ہوں ـ “
اس کے لہجے میں قدرے تلخی در آئی ـ
“وہ درخت کل تک یہاں موجود تھا ـ “
“اچھا! ” ان کے چہرے پر پشیمان سی مسکراہٹ ابھری ـ
“بیٹے ـ مجھے تو ہر واقعہ ہر منظر برسوں پہلے کا ہی لگتا ہے ـ دراصل ضعیفی نے میرے ذہن کو خاصا متاثر کیا ہے ـ تمہارے کہنے پر مجھے بھی یاد آرہا ہے کہ کل تک اس جگہ ایک تناور درخت موجود تھا ـ لیکن وہ گیا کہاں؟ “
انہوں نے بھی تعجب کا اظہار کیا تو اسے گہری ناامیدی ہوئی ـ
“میں تو کافی دیر سے اسی تذبذب میں مبتلا ہوں کہ وہ کہاں گم ہوگیا ـ یہ تو یقینی بات ہے کہ اسے کاٹا نہیں گیا ورنہ زمین پر کچھ نشانات تو ہوتے ـ آخر وہ ایک تناور درخت تھا ـ “
دونوں دیر تک اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے کھڑے رہے ـ قدرے توقف کے بعد کچھ سوچتے ہوئے اس نے بزرگ سے استفسار کیا ـ
“کیا درخت بھی چلتے ہیں؟ کیا پتہ وہ خود ہی یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چل دیا ہو ـ “
“درختوں کے چلنے کے بارے میں تو میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہ سکتا ـ “
بزرگ نے معذوری ظاہر کی اور پھر خوابیدہ لہجے میں بولے ـ
“لیکن ہاں! انہیں باتیں کرتے تو میں نے دیکھا ہے ـ برسوں پہلے جب میں بچہ تھا اور گاؤں میں رہتا تھا ـ ہمارے آنگن میں بہت سے درخت تھے ـ میری ماں گھریلو کام سے فرصت پاکر گھنٹوں ان سے باتیں کرتی رہتی تھی ـ جب وہ کلام کرسکتے ہیں تو شاید چلتے بھی ہوں ـ “
“میں بہت دور سے اس کے سائے میں بیٹھنے کی خواہش لیے چلا آرہا ہوں لیکن یہاں اس کا وجود ہی نہیں ـ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواہش مجھے تاعمر پریشان رکھے گی ـ اچھا ـ ایک التجا کروں ـ کیا آپ اسے تلاش کرنے میں میرا تعاون کرسکتے ہیں؟ “
اس کے لہجے میں کچھ ایسی لجاجت اور لرزش تھی کہ بزرگ کا دل درد سے بھر آیا ـ انہوں نے سرعت سے کہا ـ
“ہاں! ہاں! کیوں نہیں بیٹے ـ میں یقیناً اس جستجو میں تمہارا ساتھ دوں گا ـ مجھے بھی بےحد تجسس ہے کہ وہ کہاں گیا؟ “
“میں تو اس راستے سے کسی سائے کی تلاش کرتا ہوا آرہا ہوں ـ ظاہر سی بات ہے کہ ادھر یہ درخت نہیں گیا ـ آپ مخالف سمت سے آرہے ہیں ـ کیا آپ نے راستے میں کوئی درخت دیکھا؟ “
” کہہ نہیں سکتا ـ “
بزرگ کے لہجے میں خجالت کے آثار تھے ـ
“دراصل میرے اندر یادوں کا ایسا ہجوم ہوتا ہے کہ مجھے باہر کے مناظر کی مطلق خبر ہی نہیں ہوتی ـ “
“تو پھر کیوں نہ اسی طرف چلتے ہیں ـ “
بزرگ نے اثبات میں سر کو جنبش دی تو دونوں اس طرف چل پڑے ـ ہرچندکہ دھوپ کی تپش میں مزید اضافہ ہوچکا تھا لیکن اب اسے قطعاً اس کا احساس نہ تھا ـ کافی دور چلنے کے باوجود درخت نظر نہ آیا تھا ـ اس نے بزرگ کی طرف دیکھا ـ وہ بھی متلاشی نگاہیں ہر سو دوڑاتے ہوئے اس کے ساتھ چلے آرہے تھے ـ معاً اس احساس سے اسے تاسف ہوا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس بزرگ اور شریف النفس انسان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے ـ اس نے خفت آمیز لہجے میں انہیں مخاطب کیا ـ
“میری وجہ سے آپ بھی پریشان ہورہے ہیں ـ گھر میں بیوی بچے آپ کے منتظر ہوں گے ـ “
“نہیں! نہیں! پریشانی کی کوئی بات نہیں ـ یوں بھی میرے گھر میں میرا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ـ “
“کیامطلب؟ آپ کی بیوی….اور بچے….. “
اس نے تعجب سے پوچھا ـ
“میرے دو بیٹے ہیں ـ دونوں سنہری خوابوں کے تعاقب میں دور دیس چلے گئے ـ میری بیوی ان کی جدائی برداشت نہ کرسکی ـ پچھلے برس ہی داغ مفارقت دے گئی ـ اب گھر میں کسی آسیب کی طرح میں تنہا بھٹکتا رہتا ہوں ـ حالانکہ کھانے پینے کی فکر نہیں ـ پنشن کی رقم سے بسراوقات ہوجاتی ہے ـ بس یادوں کابےرحم لشکر سدا حملہ آور ہوتا رہتا ہے جس کے خوف سے میں بھاگا بھاگا پھرتا ہوں ـ “
اس نے محسوس کیا کہ ان کی آواز میں اشکوں کی آمیزش ہونے لگی ہے ـ انہوں نے یکلخت خود کو سنبھالا اور قدرے توقف کے بعد اس سے مخاطب ہوئے ـ
“لیکن اتنی شدید دھوپ میں تم کہاں سے آرہے ہو؟ تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہےکہ تم شب خوابی کے لباس میں ہی گھرسےنکل پڑےہو. ” اس کے تمام وجود کو ایک زوردار جھٹکاسا لگا ـ اس کےقدم رک گئے ـ ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں ـ آنکھوں کے سامنے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گزشتہ واقعات اڑنے لگے ـ
وہ دیر رات تک کمپوٹر پر دفتری کام کرتا رہا تھا ـ پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں تو اس نے کمپوٹر بند کیا اور بستر پر دراز ہوگیا ـ بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی تھی اس لیے بغل کا حصہ خالی تھا ـ دن بھر کا تھکا ماندہ جسم جلد ہی نیند کی آغوش میں سماگیا ـ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ پاس رکھے ہوئے موبائل کی تیز آواز سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ـ اس نے موبائل اٹھا کر رسیو کیا ـ دوسری جانب سے ایک اجنبی آواز ابھری ـ
“میں سنٹرل اولڈ ایج ہوم سے بول رہا ہوں ـ آپ کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا ہے ـ تجہیزوتکفین میں شامل ہونے کے لیے آپ آجائیں ـ “
اس کے ہاتھ سے موبائل گرپڑا ـ آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا اور وہ بےحس وحرکت بیٹھا رہ گیا ـ بہت دیر بعد وہ بستر سے اٹھا ـ لرزش زدہ قدموں سے چلتے ہوئے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا ـ چاروں طرف صبح کی نرم کرنیں پھیلی ہوئی تھیں لیکن اس کے دماغ میں لاوے سے دہک رہے تھے ـ اسے یاد نہیں کہ وہ کس طرح اولڈ ایج ہوم پہنچا اور کیسے تجہیز وتکفین کا سارا عمل انجام پایا ـ وہ قبرستان سے نکلا تو دھوپ شدت اختیار کرچکی تھی اور جسم میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی تھی ـ وہ خالی الذہن سا آگے بڑھتا گیا تھا ـ راستے میں دھوپ ناقابل برداشت ہوتی گئی تواسےاس درخت کا خیال آیا تھا ـ
“کیا ہوا؟ کن خیالوں میں کھوگئے؟ ” بڑے میاں کی آواز پر جیسے وہ خواب سے بیدار ہوا ـ اس نے پھٹی پھٹی ناآشنا نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا اور وحشت زدگی سے بڑبڑایا ـ
“میں قبرستان سے آرہا ہوں ـ اپنے والد کو دفن کرکے…… “
“اوہ! “
بڑے میاں گہرے تاسف میں ڈوب گئے ـ
“میں انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کرانا نہیں چاہتا تھا لیکن.. میری بیوی…… “
اس کی بھرائی ہوئی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے ابھری ـ
“میں سمجھتا ہوں بیٹے ـ “
بڑے میاں نے تسلی آمیز نرم لہجے میں کہا ـ
“وہ بوڑھے ہوگئے تھے ـ دمہ کے مریض تھے جس کی وجہ سے کبھی کبھی رات بھر پریشان رہتے ـ میری بیوی کو بےحد ناگوار لگتا ـ وہ ان کی نگہداشت کرنا تو دور ان کے وجود کو بھی گھر میں برداشت کرنے پر قطعی آمادہ نہیں تھی ـ وہ مجھ پر دباؤ ڈالتی رہتی تھی کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کردیا جائے ـ میں نے اسے سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن لاحاصل ..اس مسئلے پر گھر میں روزانہ تلخی پیدا ہوجاتی ـ یہ سب میرے والد کے بھی علم میں تھا ـ ایک دن انہوں نے خود کہا کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کر دیا جائے ـ میرے انکار کرنے پر وہ بضد ہوگئے ـ آخرش تنگ آکر میں نے انہیں وہاں داخل کروادیا ـ شروعات میں روزانہ دفتر سے واپسی پر ان سے ملنے جاتا تھا لیکن پھر اس میں وقفہ آنے لگا ـ دراصل میری بیوی نے دونوں بچوں کو مہنگے انگریزی میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا تھا ـ ان کے تعلیمی اخراجات اور گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے میں ایک پارٹ ٹائم جاب بھی کرنے لگا تھا ـ میری مصروفیت بڑھتی گئی تھی ـ ادھر تو میں بہت دنوں ان سے مل بھی نہیں پایا تھا کہ آج صبح اچانک … ….. “
اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں ـ بڑے میاں نے بےحد شفقت سےاس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح ان کے بازوؤں میں ڈھے گیا ـ سنسان اور پرسکوت سڑک پر اس کا گریہ گونجنے لگا ـ بڑے میاں اپنے شانے پر اس کے سر کو رکھے اس کی پشت کو نرمی سے تھپکتے رہے ـ کافی دیر بعد اس کا گریہ تھما ـ اس نے کاندھے سے سر اٹھایا اور آستین سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگا ـ بڑے میاں نے پیشکش کی ـ
“تم چاہو تو میرے گھر چل سکتے ہو ـ قریب ہی ہے ـ تھوڑی دیر آرام کرکے چلے جانا ـ “
وہ کسی معمول کی طرح ان کے ساتھ چل پڑا ـ کچھ ہی فاصلے پر چھوٹا سا ایک مکان تھا جس کے دروازے پر قفل جھول رہا تھا ـ انہوں نے جیب سے چابی نکالی اور تالا کھولا ـ وہ اسے لیے ہوئے اندر اس کمرے میں داخل ہوئے جو شاید خوابگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا ـ اسے پلنگ پر بیٹھنے کے لیے کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے ـ ثانیے بھر بعد وہ ایک طشت میں کھانے کی اشیا سجالائے ـ طشت اس کے پاس رکھتے ہوئے انہوں نے نرمی سے کہا ـ
“کھاؤ! میں چائے بناکر لاتا ہوں ـ “
ان اشیا کو دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ اسے زوروں کی بھوک لگی ہے ـ اس نے انہیں شکم میں ڈالنا شروع کردیا ـ اس کا کھانا ختم ہونے کو تھا کہ وہ چائے لے کر حاضر ہوگئے ـ چائے پیتے ہوئے اس نے بڑے میاں کو غور سے دیکھا ـ ان کے چہرے پر طمانیت کا گہرا عکس جھلملا رہا تھا ـ معاً اسے اپنے والد یاد آگئے ـ عرصہ قبل جب وہ بچہ تھا ـ شام ہوتے ہی وہ دروازے پر اپنے والد کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا ـ اس کے والد کام سے لوٹتے ہوئے اس کے لیے کھانے پینے کی کوئی شے ضرور لاتے ـ اسے اپنے پاس بٹھا کر بڑی محبت سے کھلاتے ـ وہ کھاتا رہتا اور اس کے والد اسے گہری نگاہوں سے تکتے رہتے ـ اس نے یاد کیا کہ اس وقت ان کے چہرے پر طمانیت اور آسودگی کا کچھ ایسا ہی عکس لہراتا ہوا نظر آتا تھا ـ
جب وہ چائے سے فارغ ہوچکا تو بڑے میاں برتن اٹھاتے ہوئے بولے ـ
” تم تھوڑی دیر آرام کرلو ـ دھوپ کی شدت میں کمی آجائے تو گھر چلے جانا ـ “
اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی اور لیٹ گیا ـ جلد ہی نیند اس پر حاوی ہوگئی ـ جب اس کی آنکھیں کھلیں تو بڑے میاں اس کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ـ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ اٹھتے ہوئے بولا ـ “لگتا ہے بہت دیر ہوگئی ـ اب مجھے چلنا چاہیئے ـ “
وہ پلنگ سے اٹھ کھڑا ہوا ـ بڑے میاں بھی کرسی سے اٹھ گئے اور گویا ہوئے ـ
” ٹھیک ہے بیٹے ـ جاؤ ـ لیکن اسے تم اپنا ہی گھر سمجھنا ـ کبھی کسی درد بھرے لمحے میں کسی کاندھے کی ضرورت ہو تو بلاتردد یہاں چلے آنا ـ یہ بوڑھا تمہارے لیے دست دعا دراز رکھے گا ـ “
اس نے شکرگزار نگاہوں سے اس مہربان شخصیت کو دیکھا اور باہر نکل آیا ـ دھوپ اب نرم پڑ چکی تھی اور اس کے لمس میں وہ ناگوار چبھن نہیں رہی تھی ـ وہ اسی راستے پر ہولیا جس سے یہاں تک آیا تھا ـ کچھ ہی دیر بعد وہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں سے بڑے میاں ساتھ ہوئے تھے ـ
“ارے! یہ کیا؟ “
اس کی سخت حیرت سے پھٹی آنکھیں چھلانگ مار کراس جگہ پہنچ گئیں جہاں وہ گھنا سایہ دار درخت اپنے مکمل وجود کے ساتھ پہلے کی طرح ہی کھڑا تھا ـ ـــــــــــــــــــــ
——————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Kitabistan a Short Story by Shadab Rashid
Articles
کتابستان

شاداب رشید
35 سال بعد جب دوبارہ اپنے شہراپنے محلے میں قدم رکھا تومحسوس ہوا جیسے سب کچھ بدل گیا ہے ۔
جب آہستہ آہستہ راستے اور گلیوں سے آنکھیں مانوس ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ نہیں کچھ بھی نہیں بدلا ہے صرف لوگ بدل گئے ہیں ۔ پرانے چہروں کی جگہ نئے چہروں نے لے لی ہے۔ سڑکیں اور گلیاں آج بھی ویسی کی ویسی ہی تھیں بلکہ بد سے بدتر ہوچکی تھیں۔ دکانیں بھی کم و بیش ویسی ہی تھیں جیسی کہ آج سے پینتیس سال پہلے تھیں بس فرق صرف اتنا تھا کہ تقریباً ہر دکان چار چار پانچ پانچ فٹ باہر کی جانب نکلی ہوئی تھیں۔ جس کی جتنی گنجایش تھی اتنی باہر ، یہاں تک کہ کچھ دکانیں تو سڑک تک نکل آئی تھیں۔فٹ پاٹھ ندارد اور جو دکانیں اپنی حدود میں تھیں وہاں کی فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہوچکا تھاجن پر کئی چھوٹے چھوٹے موبائل کے باکڑے، پان بیڑی کی ٹپریاں اور کھانے پینے کے ٹھیلے لگ گئے تھے۔پیدل چلنے والے سڑکوں پر چل رہے تھے اور گاڑیاں ایک دوسرے کو روندتی چلی جارہی تھیں۔ اتنے سالوں میں ایک فرق تو یہ آیا تھا کہ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا تھا۔جتنی گاڑیاں اتنے ہی ہارن۔ جس طرح کسی گلی میں ایک کتے کے بھونکتے ہی گلی کے تمام کتے بھونکنا شروع کردیتے ہیںٹھیک اسی طرح ٹرافک سگنل جیسے ہی لال سے ہرا ہوتا ایک ہارن بجتے ہی تمام کی تمام گاڑیوں کے ہارن چیخنے لگتے ہیں۔
اس ماحول کو دیکھ کر مجھ پر ہیبت سی طاری ہونے لگی۔ دل گھبرانے لگا اور میں فوراً گھر لوٹ آیا۔ میری بیوی ہمیشہ میرا چہرہ بڑی آسانی سے پڑھ لیا کرتی تھی، میں اُس سے کبھی کچھ نہیں چھپا پاتا تھا۔ میری شکل دیکھتے ہی پوچھنے لگی، ’’کیا ہوا؟ اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’نہیں ، کچھ بھی نہیں۔ ٹھیک ہوں۔ ‘‘
’’تم نے صبح بلڈ پریشر اور ڈائبے ٹیز کی گولیاں کھائی تھیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں۔ کھائی تھیں۔‘‘
’’پھر اتنے پریشان کیوں ہو۔ اور اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے تمھیں؟‘‘
’’کہا نا کچھ نہیں۔ بس تھوڑی تھکان ہوگئی ہے۔ اتنا چلنے کی عادت جو نہیںرہی۔‘‘ میرے جواب پر وہ مطمئن ہوگئی۔ ’’تم سناؤ۔ تمھارا دن کیسا رہا۔ ‘‘
’’مت ہی پوچھوتو اچھا ہے۔ ‘‘
’’کیوں ؟ کیا ہوگیا؟‘‘
’’اوہو ، آپ کے جانے کے بعد میں آپا کے ساتھ بازار چلی گئی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکے نے اپنی موٹر سائیکل سے ایک بزرگ کو ٹکر مار دی، یہی نہیں خود کی غلطی مان معافی مانگنے کے بجائے وہ تو اُس چچا کوہی گالیاں دینے لگا۔ مجھے تعجب تو تب ہوا جب میں نے دیکھا کے کسی کو بھی اس جھگڑے میں دلچسپی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن دوڑا چلا جارہا ہے۔ جیسے انسانیت نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی اس شہر میں۔‘‘میں اپنی بیوی کے چہرے پر بھی وہی ہیبت محسوس کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے مجھ پر طاری تھی۔ وہ بولے چلے جارہی تھی، ’’آپا بھی کہنے لگی کہ چلو چلو یہ تو روز کا ہے۔ بتاؤ یہ بھی کوئی بات ہوئی، اس سے اچھا تو دبئی تھا۔ مجال ہے جو وہاں اس طرح کی کوئی واردات ہوجائے۔ اور اگر ہو بھی جاتی ہے تو پولیس کے آنے سے پہلے ہی آس پاس موجود لوگ جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ مگر یہاں۔ ہائے توبہ۔‘‘
میرے اور اُس کے حالات تقریباً تقریباً ایک جیسے لگ رہے تھے۔
’’اوہو ، آپ خالی ہاتھ آئے ہیں کیا؟‘‘ اچانک بیوی کے سوال پر میں چونک پڑا۔
’’ہوں، ہاں ہاں۔‘‘
’’کیوں؟ آپ تو کتابستان گئے تھے نا؟ خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ کوئی کتاب نہیں لائے ساتھ میں ۔ تعجب ہے!‘‘
’’ نہیں ۔ میں وہاں گیا ہی نہیں۔ دراصل میرا ایک پرانا دوست مل گیا تھا راستے میں ، اس کے ساتھ چائے پینے اور باتیں کرنے میں اتنا وقت گزر گیا کہ پتا ہی نہیں چلا۔‘‘پتا نہیں کیوں یہ جھوٹ میرے منہ سے اپنے آپ ہی نکل گیا، شاید میں نہیں چاہتاتھا کہ جن حالات سے وہ ابھی ابھی دو چار ہوئی ہے میں بھی اپنی پریشانی بتا کر اُسے دگنا کردوں۔
’’خیر ، اچھا ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ واپس لوٹتے ہی تم پھر سے پسارے جمع کرنا شروع کردوگے۔‘‘وہ مجھ پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیکتی کمرے میں چلی گئی اور میں ہمیشہ کی طرح غصے کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
میری کتابوں کو وہ ہمیشہ ہی ’پسارا‘ کہا کرتی تھی۔ کتابیں جنھیں زندگی کا سرمایہ کہا جاتا ہے ، میرے گھر والے دنیاوی سرمایے کے لیے وہی میری زندگی سے دور کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ میرے دبئی چلے جانے کے بعد اُنھوںنے کتابوں کو آہستہ آہستہ ٹھکانے لگا نا شروع کردیا اور پھر مکمل طور پر دبئی منتقل ہوتے وقت یہ کہہ کر کہ ’’کہاں اپنے ساتھ لادتے پھروگے‘‘ بچی کھچی کتابوں کو بھی ردّی میں تلوا دیا تھا۔ میں بھی مجبور تھا کہ پتا نہیں دبئی سے کب لوٹنا ہو ساتھ ہی یہ بھی خدشہ تھا کہ پتہ نہیں اب دوبارہ کب واپس آنا ہو، اس بیچ ان کتابوں کا کیا ہوگا!
آج اپنے شہر لوٹتے ہی مجھے کتابستان کی یاد آگئی اور پہلی ہی فرصت میں مَیں نے وہاں کا رُخ کیا مگر اس شہر کی افراتفری دیکھ کروہاں تک جانے کی ہمت ہی ٹوٹ گئی۔ ایک زمانے تک میں نے اپنے اس شوق کو دبائے رکھا تھا۔ اب دوبارہ مجھے موقع ملا ہے اپنا یہ شوق پورا کرنے کا۔ اور میں نے اپنی بیوی کو بھی تنبیہہ کردی ہے کہ اس بار اس کی زبردستی نہیں چلے گی ، میں کتابیں خریدوں گا اور ضرور خریدوں گا۔ آج تو میں خالی ہاتھ لوٹ آیا تھا مگر میرا ارادہ اٹل تھا۔ میں دوبارہ اس محلے میں جاؤں گا ، کتابستان میں جاؤں گا۔
کتابستان۔ اس نام کے ساتھ ہی میں ہمیشہ چالیس پچاس سال پیچھے چلا جاتا تھا۔ کتابستان وہ گلی تھی جہاں دونوں طرف کتابوں کی بے شمار دکانیں تھیں جن میں دکانوں کے باہر فٹ پاتھ تک کتابوں کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ دکانوں میں کتابیں رکھنے کے کھانوں میں کتابیں ٹھونسی ہوتی تھی ، ٹیبل پر کتابوں کا انبارلگا ہوتا تھا اور تو اور زمین پر بھی کتابوں کے چھوٹے بڑے پہاڑ ہر طرف پھیلے ہوتے تھے۔ کم و بیش ہر دکان کا یہی حال ہوتا تھا۔ یہی نہیں اس گلی کی فٹ پاتھوں پر بھی چھوٹے چھوٹے باکڑے بنے ہوئے تھے جس میں کتابیں، کتابچے، پاکٹ بکس اورکلینڈر بھرے ہوتے تھے۔ وہاں آنے والے ہر خاص و عام کی تشنگی کی کتابیں وہاں موجود تھیں ۔ چاہے وہ ادب ہو یا مذہب، کھانا بنانے کی کتابیں ہوں یا فلمی رسائل ، بچوں کی دنیا ہو یا خواتین کی ڈائجسٹ اور ہر کسی کا پسندیدہ ابن صفی، مانو پوری اردو دنیا ایک گلی میں سمٹ آئی ہو ، ہر طرف صرف کتابیں ہی کتابیں۔ اسی لیے اس گلی کا نام ہی ’کتابستان‘ پڑ گیا تھا۔
اسکول جانے کےلیے مجھے اسی گلی سے گزرنا پڑتا تھا۔ پہلے پہل بچوں کی کتابیں پڑھنے کا شوق چرایا پھر آہستہ آہستہ کتابیں خریدنے کے لیے میں اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا نے لگا۔ شروعاتی دور میں ’کھلونا‘، ’پیام تعلیم‘ ’نونہال‘ وغیرہ رسائل اور بچوں کی کتابیں میری پسندیدہ تھیں ۔ ایک بار ایک دکان کے باہر دکان سے لے کر سڑک تک پھیلی لمبی قطار دیکھ کر میں تعجب میں پڑگیا ، پوچھنے پر پتا چلا کہ ابن صفی کا نیا ناول ’ڈیڑھ متوالے‘ آج بازار میں آنے والا ہے جسے خریدنے کے لیے یہ قطار لگی ہے۔ میں اُس وقت تک ابن صفی سے ناواقف تھا۔ اتنی لمبی قطار دیکھ کر میرے اندر بھی اسے پڑھنے کا جوش ٹھاٹھے مارنے لگا۔ سڑک کے دوسری جانب ایک باکڑا ایسا بھی تھا جو پڑھنے کے لیے کتابیں کرایے پر دیا کرتا تھا ، جس میں زیادہ تر ابن صفی، خواتین ڈائجسٹ اور پاکستانی رومانی ناول ہوا کرتے تھے۔ میں اُسی دن اُس باکڑے سے ابن صفی کا ایک پُرانا ناول کرایے پر لے آیا۔ آہا، کیا مصنف تھا وہ بھی، ایک بار جو ناول شروع کیا تو پھر ختم کرے بنا اُٹھنا مُحال تھا۔ چسکا اتنا تھا کہ جب دیکھو میں ابن صفی کی جاسوسی دنیا میں ہی کھویا رہنے لگا،اور جب کبھی گھر والوں کی ڈانٹ پڑتی تو اسکول کی کتابوں میں چھپا کر پڑھنے لگتا۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس سے پیچھا چھڑا ہی نا سکے۔ دبئی میں بھی ہمارے ایک خیرخواہ نے ابن صفی کے تمام ناولوں کی PDF فائل مہیا کرادی تھی، یہ الگ بات ہے جو مزہ کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ PDF میں کہاں۔ ابن صفی کی کتابیں کرائے پر لے کر پڑھنے کا سلسلہ یونہی جارہی رہا لیکن پڑھنے کے بعد اُن کتابوں کولوٹاتے وقت دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی ، اس لیے آہستہ آہستہ جیب خرچ کی رقم بچوں کی کتابوں کے بجائے ابن صفی کی کتابیں خریدنے پر صَرف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ شوق جنون میں تبدیل ہوگیا اور پھر پیسے نہ ہونے کی صورت میں مَیں اپنے والد کی جیب سے پیسے چراکر کتابیں خریدنے لگا۔مُلّا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق میں بھی چرائے ہوئے پیسےصرف کتابیں خریدنے پر ہی صَرف کرتا اس لیے پیسے چرانے کا کبھی پچھتاوا نہ ہوا۔
کتابستان کے بیچوں بیچ ایک دکان ایسی بھی تھی جس کے باہر مہینے کے آخر ی دنوں میں شامیانے باندھے جاتے، کرسیاں ٹیبل لگائے جاتے۔ جب پہلی بار میں نے یہ منظر دیکھا تو لگا شاید کسی کی شادی ہوگی لیکن جب اصلیت پتہ چلی تو میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ دراصل وہ دکان جس کا نام تو اب مجھے یاد نہیں ہےاس گلی کی سب سے قدیم اور بڑی دکانوں میں سے ایک تھی، جس کے پاس نہ صرف ہندستان کی بلکہ پاکستان کی کتابیں بھی آیا کرتی تھیں۔ ہندستان اور پاکستان سے شائع ہونے والے تمام بڑے اخبارات و رسائل بھی وہاں دستیاب تھے۔ ماہنامہ رسالوں میں شائع ہونے والے معموں کی آخری تاریخوں میں اس دکان کی فٹ پاتھ پر شامیانے باندھ کر ، کرسیاں ٹیبل لگا دی جاتی تھیں ۔ شوقین لوگ اس شامیانے میں بیٹھ کر معمہ بھرنے کی آخری تاریخوں میں اپنے اپنے حل اسی دکان میں جمع کراتے تھے۔ شامیانے میں کرسیوں پر معمے بھرتے لوگ، دکان کے سامنے لگے ٹیبل پر اپنے اپنے معمے جمع کرانے والوں کی بھیڑ اور معمہ بھرنے والوں کا دیوانہ پن ،وہاں سے گزرتےہوئے لوگوں کا رُک کر یہ سب دیکھنا کسی تہوار کا سا سماں بنا دیتا تھا۔
بیوی کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود میں دوسرے دن صبح ناشتہ کرتے ہی کتابستان جانے کے لیے گھر سے نکل پڑا۔ پیتنس سال بعد اب راستے پہچاننا کافی مشکل ہوگیا تھا ، اب یہاں اتنے دوست بھی نہیں رہے تھے کہ اُن کا ساتھ حاصل ہوتا ،جو تھوڑے بہت تھے وہ اپنی اپنی نوکریوں پر نکل چکے تھے اور کچھ دوستوں کو تو میرے اس شوق سے ہی الرجی تھی ، یہ الگ بات تھی کہ شام تک اُن کا انتظار کرنا میرے لیے بھی مشکل تھا، میں تو جلد سے جلد کتابستان کے دیدار کرنا چاہتا تھا۔
گلی گلی گھومتے مجھے دو گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے لیکن اب تک کتابستان کا کوئی پتا نہ چل سکاتھا۔ سڑک پر کھڑے چار پانچ لڑکوں سے میں نے پتہ پوچھنے کی کوشش کی جو اپنے اپنے موبائل میں مصروف تھے، ’’بچوں، کیا تم بتا سکتے ہو کہ کتابستان کہاں ہے؟‘‘
ایک بچہ میری طرف دو سیکنڈ تک حیرت سے دیکھتا رہا پھر بولا،’’ انکل، ہندستان اور پاکستان تو پتا ہے یہ کتابستان کیا کوئی نئی کرکٹ ٹیم ہے کیا؟‘‘ اور سب لڑکے زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔
دوسرے نے کہا، ’’ابے نہیں یار، مجھے تو لگتا ہے شاید آئی پی ایل کی کوئی نئی ٹیم ہوگی ۔‘‘ اور اچانک وہ سب سنجیدہ ہوکر آئی پی ایل کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔
میں کھسیا کرآگے بڑھ گیا۔
بچوں کا رویہ مجھے کافی ناگوار گزرا۔ مجھے اپنے بچپن کے دن اور تربیت دینے والے کتابستان کے وہ تمام لوگ یاد آگئے۔
کتابستان کی وہ دکان یاد آگئی جہاںزیادہ خریدار تو دکھائی نہیں دیتے تھے مگر جب کبھی میں شام کو اس گلی سے گزرتا تو وہاں کھڑے رہنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ بہت سے آدمی اور بزرگ حضرات اس دکان میں بیٹھے اور کھڑے دکھائی دیتے۔ وہ سب ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول رہتے اور چائے کا دور چلتا رہتا۔ کچھ بڑی عمر کے نوجوان بھی ایک طرف دبکے ان کے باتیں سنتے نظر آتے۔ میں زیادہ تر اسکول سے لوٹتے وقت اس دکان میں جایا کرتا کیونکہ بچوں کے رسائل ، بچوں کی کہانیاں اور ابن صفی کے ناول سب سے پہلے اسی دکان میں آتے تھے۔ ایک بار شام میں کتابستان سے گزرتے وقت میں بھی وہاں کی بھیڑ دیکھ کر دکان کے ایک طرف چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ کسی نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا، وہ لوگ کسی بات پر گرما گرم بحث میں لگے ہوئے تھے ، بڑی عمر کے نوجوان مجھ سے آگے کھڑے بڑے احترام کے ساتھ ان کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔ دکاندار ایک بڑا سا بہی کھاتہ کھولے اپنے کام میں مشغول تھا مانو اُسے اس بحث کی کوئی پروا ہی نہ ہو یا پھر یہ وہاں کا روز کا معمول ہو۔ وہ لوگ کسی پر لکھے ہوئے ایک مضمون پر بحث کررہے تھے جو شاید ابھی ابھی وہاں بیٹھے ہاتھ میں چھڑی پکڑے ایک مخنی سے بزرگ نے سنایا تھا ، اور جن پر وہ مضمون لکھا گیا تھا ، ایک ہاتھ میں موٹاسا پائپ اور بڑا کالا چشمہ لگائے وہیں موجود تھے۔ وہ بحث تو میری سمجھ سے بالاتر تھی لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے اُن کی گرما گرم بحث میں مزہ آنے لگا۔ پھر تو اس دکان میں جانا میرا تقریباً روز کا معمول ہی بن گیا۔ آہستہ آہستہ میں دکاندار اور دوسرے لوگوں سے مانوس ہونے لگا۔ تب مجھے پتا چلا کہ وہاں بیٹھنے والے زیادہ تر لوگ بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے جس میں شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، مضمون نویس اورخاکہ نویس وغیرہ تھے۔ کئی لوگ صرف ان لوگوں کو دیکھنے آتے تھے اور بہت سے ادب کے قاری تھے جو اُن کی بحث و مباحثے سننے کے لیے وہاں کا رُخ کرتے۔ میں بھی ادب کے ایسے قاریوں میں شامل ہوگیا۔ بہت جلد بڑی عمر کے نوجوانوں سے دوستی ہوگئی، کم عمر ہونے کے باوجود بھی کبھی کسی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ میں ان سب باتوں کے لیے بہت چھوٹاہوں بلکہ وہ اُن ادیبوں کے بارے میں مجھے معلومات دیتے وہاں ہونے والے مباحثوں کو مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ۔ ایک دن دکان کے انچارج چچا یوسف نے مجھے سمجھایا کہ ابن صفی تو ٹھیک ہے لیکن اب مجھے ادب بھی پڑھنا چاہیے اور پھر دھیرے دھیرے میں ادب کی دوسری اصناف بھی پڑھنے اور سمجھنے لگا ۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں ہونے والی باتیں بھی مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگیں۔ کئی ادیبوں سے میرا تعارف بھی ہوگیاتھا لیکن پھر بھی میں اُن کے احترام میں ایک طرف دبکا اُن کی باتیں سنا کرتا کبھی اس میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی ، حالانکہ اب بڑی عمر کے نوجوان بھی وقتاً فوقتاً ان بحثوں میں اپنی رائے کا اضافہ کرنے لگے تھے ۔
میں تھک کر ایک چائے کے ٹھیلے پر بیٹھ گیا۔ میں نے چائے پیتے پیتے ٹھیلے والے سے بھی کتابستان کے بارے میں جاننا چاہا مگر اس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ ٹھیلے کے بغل کی فٹ پاتھ پر دو شخص کھڑے دبئی کی مشہور ڈش ’شوارما‘ کھارہے تھے۔میں نے جب اُن سے کتابستان کا پتا پوچھا تو وہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے، میں نے اپنا سوال تھوڑا آسان بنانے کے لیے دوبارہ پوچھا، ’’کتابستان، وہی گلی جہاں بہت ساری کتابوں کی دکانیں ہیں۔‘‘ پہلا شخص کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگا، ’’کتابوں کی دکانیں……‘‘ تبھی دوسرے نے دخل دیتے ہوئے کہا، ’’ارے وہ لائبریری کی تو بات نہیں کررہے جو ای.آر. روڈ پر ہے؟‘‘
’’جی نہیں بھائی، میں کسی لائبریری کی نہیں بہت ساری دکانوں کی بات کررہا ہوں جہاں کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔‘‘میں نے جھنجلاتے ہوئے ان کی تصحیح کی۔
پہلے نے پھر پوچھا’’اچھا وہ تو نہیں جہاں قرآن حدیث کی کتابیں ملتی ہیں؟‘‘
اب میں خود شرمندگی محسوس کرنے لگا ،بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’جی ہاں وہی وہی… کیا آپ جانتے ہیں؟‘‘
’’ہاں کہیں دیکھی تو تھی وہ دکان ، شاید ای.آر. روڈ پر کہیں……‘‘
میں نے ان کا شکریہ ادا کرنے میں ہی عافیت جانی ، اب کسی اور سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔میں خود ہی ہر گلی میں گھس کر اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔
کالج کے بعد ابّا نے زبردستی مجھے دبئی کمانے کے لیے بھیج دیا تھا، دو سال بعد جب واپس آیا تو یہاں پر میری شادی کی تیاریاں کی جاچکی تھیں ، بس چٹ منگی پٹ بیاہ کر دوبارہ دبئی لوٹ گیا۔ پھر جب ایک سال بعد بمبئی لوٹا تو بیوی اپنا سارا سازو سامان باندھے ساتھ چلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ تمام ضروری خریداری (جس میں کتابیں شامل نہیں تھی) کر دوبارہ دبئی جو گیا تو آج اپنا سب کچھ سمیٹ تمام ذمہ داریوں سے دستبردار واپس لوٹا ہوں۔ اتنا پیسہ تو کما ہی چکا ہوں کہ بقیہ زندگی چین سے کٹے گی، اور شاید اب میں اپنے وہ شوق بھی پورے کرسکوں جن کا گلا گھونٹ میں اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بنانے کے لیے یہ ملک چھوڑ گیا تھا۔
میرا ایسا ہی ایک شوق تھا ، کتابیں! مجھے آج بھی یاد ہے ، جب امّی اسکول شروع ہوتے ہی بازار سے ہمارے لیے نئی کتابیں خرید کر لاتی تو میں سب سے پہلے اُن کتابوں کو کھول کر اُس کی مہک اپنے اندر جذب کرتاتھا۔ ایک عجب سی خوشبو ہوتی تھی اُن کتابوں میں۔ بچوں کی کتابوں اور ابن صفی کے ناولوں میں بھی اُسی طرح کی مہک آتی ۔ میں اکثر کتاب پڑھتے پڑھتے بیچ بیچ میں اُسے سونگھنے لگتا۔ میرے دوست میری اس حرکت پر بہت ہنستے تھے مگر اُنھیں کیا معلوم کہ کتابوں میں نہ صرف ایک کشش ہے بلکہ اس کی مہک میں بھی جادوہے۔ جدید دنیا میں انٹرنیٹ نے کتابوں کی کمی تو پوری کردی ہے لیکن کتابوں سے آنے والی مہک کہاں سے لائیں گےاور تو اور کتابستان میں دکانوں پر لگنے والی قطاروں، شامیانے ، مختلف موضوعات پر ہونے والی گرما گرم بحثوں اور کتابوں کے مصنفوں کوقریب سے دیکھنے ، ملنے کا متبادل شاید ہی کوئی ہو۔ ہاں آج کل فیس بک پر بھی نئےنئے دوست بننے لگے ہیں، بحث و مباحثے ہونے لگے ہیں اور ایک دوسروں کی تخلیقات کی تعریفیں بھی ہونے لگی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے وہ جھوٹ اور فریب کی دنیا لگتی ہے جہاں ہر کوئی ایک بٹن دبا کر ایک دوسرے کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اب بتائیے بھلا لکھ لکھ کر بھی کوئی بحث کرسکتا ہے ! آدمی لکھتا کچھ ہے ،پڑھنے والا پڑھتا کچھ ہے اور سمجھنے والا کچھ بھی نہیں سمجھ پاتا، بحث کہیں کی کہیں چلی جاتی ہے۔اور ویسے بھی زیادہ تر ادبی بحثیں اب ادبی کم اور مذہبی زیادہ ہوگئی ہیں۔ جسے دیکھو اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ مذہبی ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔
گلی گلی گھومتے ہوئے اچانک ایک گلی میں فٹ پاتھ تک پھیلی ہوئی حلوائی اور نان چاپ کی دو دکانوں کے بیچ مجھے وہی دکان نظر آئی جہاں کبھی ادیبوں کی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں۔ میں حیران تھا کہ یہ دکان یہاں کہاں سے آگئی،یہ دکان تو کتابستان کے بلکل بیچوں بیچ میں تھی! خیر میں جلدی جلدی جلیبی ،گلاب جامن کے بڑے بڑے تھالوں اور بڑے سے پھیلے ہوئے نان چاپ کے توّوں کے بیچ میں سے گزر کر اس دکان کے دروازے تک پہنچا۔ آس پاس کی دکانوں پر اُمڑی بھیڑ اور نان چاب اور جلیبیوں کے لیے چیختے گراہکوں کے شور شرابے سے بے خبر دکان کے اندر ایک بزرگ اپنے ٹیبل پر ایک بڑا سا بہی کھاتا کھولے اپنے کام میں مصروف تھے۔دکان میں صرف دو ٹیوب لائٹ جل رہی تھیں جو اتنی بڑی دکان کے لیے ناکافی تھی۔ آج بھی وہ دکان ویسی ہی تھی جیسی پینتیس سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ بس ایک دو ٹیبل نئے آگئے تھے اورکچھ نئی کتابیں نظر آرہی تھیں۔
میرے دکان میں داخل ہوتے ہی ٹیبل والے چچا نے مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے کا م میں مصروف ہوگئے۔ میں کتابیں دیکھنے لگا، بہت سالوں بعد کسی دکان میں کتابوں کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ آخر کار میری محنت رنگ لے آئی۔ میں نے ایک لمبی سانس کھینچی، میں چاہتا تھا کہ ابھی اور اسی وقت دکان میں موجود تمام کتابوں کی مہک میرے نتھنوں میں بھرجائے۔
میں نے کبھی بمبئی سے کتابیں منگوانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں، کیا کرتاوقت اور حالات نے مجھے بھی دوسروں کی طرح صرف پیسہ کمانے والی مشین بنادیا تھا۔آج کتابوں کے بیچ ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ پیسے کمانے کی دھن میں مَیں کتنا مگن تھا۔ہاں البتہ میرے کچھ پاکستانی دوست اپنے وطن سے وقتاً فوقتاً کتابیں منگوا لیا کرتےتھے۔ اُن کے گھر جاتے ہی میں سب سے پہلے کتابوں کے لیے اِصرار کرتا۔ کتاب ملتے ہی ہمیشہ کی طرح پہلے اُس کی خوشبو اپنے اندر جذب کرتا پھر سرسری طور پر سارے مضامین دیکھ ڈالتا اور اگر بہت ہی اچھی کوئی کتاب ہوتی تو بیوی سے چھپا کر اُن سے مانگ کر گھر لے جاتا اور اگر وہ مجھے دینے میں آناکانی کرتے تو میں ایک آدھ کتابیں چھین کر لے بھی آتا۔ یہی نہیں بچپن میں پیسے چوری کرنے کے ہُنر کو یہاں بھی آزماتا۔ پہلے کتابیں خریدنے کے لیے پیسے چراتاتھا اب کتابیں براہِ راست چرالیا کرتا تھا۔ ضمیر تب بھی مطمئن تھا اور اب بھی ہے۔
مجھے الماری میں لگی کتابیں دیکھتے ہوئے اُن بزرگ نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور پوچھا، ’’کہیے ، کیا چاہیے آپ کو؟‘‘
’’جی ، دیکھ رہا ہوں۔ کیا ابن صفی کے ناول ہیں آپ کے پاس؟‘‘
’’ہاں، کون سے چاہیے آپ کو؟ عمران سیریز یا فریدی؟‘‘
جواب سن کر میری بانچھیں کھل گئیں کہ آج بھی ابن صفی کے ناول پڑھے جاتے ہیں۔
’’کون کون سے ہیں آپ کے پاس، بتائیے؟‘‘
’’ فلحال تو نہیں ہے، مگر آپ کے آرڈر دینے پر ہم منگوا دیں گے۔‘‘
میں نے اپنے آس پاس کی کتابوں پر نظر ڈالی۔
’’اور منٹو کی کتابیں؟‘‘
’’جی ہاں ، وہ بھی مل جائیں گی۔ مگر آرڈر پر؟‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا، ’’تو یہاں آپ کے پاس اس وقت کون سی کتاب موجود ہے؟‘‘
’’یہ سب ہیں نا، دیکھیے ان میں سے آپ کو کیا چاہیے؟‘‘
وہاں لگی تقریباً تمام کتابیں نئے نئے مصنفوں کی تھیں جن کے نام بھی میں نے نہیں سننے تھے، اس لیے انتخاب کرنا تھوڑا مشکل ہورہا تھا ۔
’’جناب یہاں چچا یوسف ہوا کرتے تھے، وہ اب کہاں ہیں؟‘‘
’’کون ، یوسف بھائی؟ اوہو اُن کا تو ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ویسے بھی وہ کئی سال پہلے نوکری چھوڑ چکے تھے۔ اُن کی عمر جو زیادہ ہوچکی تھی۔ اب پچھلے چار سالوں سے میں ہی یہاں کا انچارج ہوں۔‘‘
چچا یوسف کے انتقال کی خبر سن کر افسوس ہوا۔ جب بھی میں کتابیں خریدنے آتا تھا وہ بنا بولے مجھے کتابوں پر رعایت دے دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دیتے تھے کہ ’’برخوردار ، تمھیں خاص رعایت دے رہاہوں، اسے ضرور پڑھنا۔صرف خرید کر رکھ نہیں دینا۔‘‘ مجھے ان کی یہ بات آج تک یاد ہے۔
’’اچھا بھائی صاحب، ایک بات اور پوچھنی تھی؟‘‘
’’پوچھیے حضرت۔‘‘
’’یہاں اور بھی دکانیں ہوا کرتی تھیں، اب صرف یہ دکان دکھائی دے رہی ہے؟ باقی دکانوں کا کیا ہوا؟‘‘
’’کیا کہیں جناب، اب لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہی کہاں رہا! جسے دیکھیے بس موبائیل میں مصروف ہے ۔اب تو کتابیں بھی موبائیل پر آگئی ہیں۔‘‘
یہ وہ سچائی تھی جس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا تھا،خیر میںنے بڑے میاںسے اپنی پریشانی کا ذکر کیا:
’’ مجھے اس گلی کا پتا ڈھونڈنے میں بھی کافی دقت ہوئی ۔ دراصل میں اس شہر میں پینتیس سالوں بعد جو لوٹا ہوں۔‘‘
’’ یہ کون سا مشکل کام تھا جناب، آپ کسی سے بھی ای . آر. روڈ پوچھتے ،تو کوئی بھی بتا دیتا۔‘‘
’’وہ بھی مجھے کہاں یاد تھا، میں تو اس گلی کو ایک ہی نام سے جانتا ہوں، کتابستان! میں کل سے یہ جاننے کی کوشش میں لگا تھا کہ کتابستان کہاں ہے، مگر کوئی بتا ہی نہیں سکا ۔‘‘
’’کیا! تو آپ ’کتابستان‘ ڈھونڈ رہ تھے!؟‘‘
’’جی ہاں!کیوں کیا ہوا؟‘‘
میرے جواب پر بڑے میاں بہت زور زور سے ہنسنے لگے ۔ہنستے ہنستے اُنھوں نے کہا، ’’اب اس گلی کا نام کتابستان نہیں رہا جناب! آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ’کھاؤ گلی کاپتہ پوچھتے، کھاؤ گلی۔ اب اس گلی کو پورا شہر ’کھاؤگلی‘ کے نام سے جانتا ہے۔‘‘ میں چند منٹوں تک حیرت سے اُنھیں دیکھتا رہا۔
پھر اپنے آس پاس کی کتابوں کا معائنہ کرنے لگا۔ ایک پُرانی کتاب پر نظر پڑتے ہی میں نے اُسے فوراً اُٹھا کر اُسے بیچ میں سے کھول کر اُس پُرانی کتاب کی مہک اپنے اندر جذب کرنے لگا لیکن میرے نتھنے اُس کتاب کی مہک کے بجائے جلیبی، گلاب جامن، چکن، نان چاپ ، سیخ کباب اور پتا نہیں کن کن پکوانوں کی خوشبوؤں سے بھرگئے ۔