Jung by Chinwa Achebe

Articles

جنگ

چنوا اچے بے

 

پہلی بار جب وہ ایک دوسرے کی راہوں سے گذرے تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔یہ جد و جہد بھرے دنوں کی بات ہے ۔ جب ہر روز نوجوانوں کی اور کبھی کبھی لڑکیوں کو بھی بھرتی دفتروں سے مایوس واپس لو ٹنا پڑتا تھا ، کیوں کہ نئے تشکیل شدہ ملک کی حفاظت کے لئے ہتھیار اٹھانے والے بہت سے لوگ آ رہے تھے ۔
دوسری بار وہ آنکار کے ایک چیک پوائنٹ پر ملے ۔ جنگ شروع ہو چکی تھی اور دور دراز کے شمالی علاقوں سے دھیرے دھیرے جنوب کی جانب بڑھ رہی تھی۔ وی اونتشا سے اینو گو جا رہا تھا اور عجلت میں تھا ۔ حالاں کہ وہ ذہنی طور پر سڑک پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں اور اچھی تلاش کے حق میں تھا ، لیکن جب اسے تلاشی دینی پڑتی تھی ۔ اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی تھی ۔ حالاں کہ وہ بذات خود اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا ، لیکن لوگ مانتے تھے کہ اگر آپ کی تلاشی لی گئی تو آپ بڑے آدمی نہیں ہیں ۔ اگر وہ اپنی اور متاثر کن آواز میں یہ کہہ کر” ریگی نولڈ نوالکو“ ’ وزارت انصاف‘ اپنی تلاش سے بچ جاتا تھا۔اس کے جملے کا اثر فوراً ہوتا تھا ، لیکن کئی بار لا علمی کے سبب یا ضدی آفیسر کی بنا پر چیک پوائنٹ کے لوگ اس کے جملے سے متاثر نہیں ہوئے تھے ۔ جیسا کہ ابھی آفکا پر ہوا تھا ۔ مارک ۴ کی وزنی بندوقیں اٹھائے ہوئے دو کانسٹبل دور سڑک کے کنارے سے نظر رکھے ہوئے تھے اور تلاشی کا کام انھوں نے مقامیی نگراں کاروں کے حوالے کر دیا تھا ۔
”مجھے جلدی جانا ہے ۔“ اس نے لڑکی سے کہا ، جو اس کی کار تک آ گئی تھی ۔” میرا نام ریگی نولڈ نوانکو ہے ۔ وزارت انصاف سے وابستہ ہوں ۔“
” سلام سر “ میں آپ کی کار کا بوٹ دیکھنا چاہتی ہوں۔“
” اے خدا ! تمہارے خیال سے بوٹ میں کیا ہو سکتا ہے ؟“
” میں نہیں جانتی سر ۔“غصے پر قابو رکھتے ہوئے وہ کار سے باہر نکلا ، پیچھے گیا ، بوٹ کھولااور بائیں ہاتھ سے ڈھکن اٹھاتے ہوئے دائیں سے یوں اشارہ کیا ، جیسے کہہ رہا ہو ، اس کے بعد ۔” ہو گئی تسلی ؟‘اس نے سوال کیا ۔
”جی ، سر۔کیا میں آپ کی گاڑی کا پیچن ہول دیکھ سکتی ہوں!“
” او میرے خدا ۔“
” دیری کے لئے معافی چاہتی ہوں ، سر آپ ہی لوگوں نے ہمیں یہ کام سونپا ہے ۔“
” کوئی بات نہیں ، تم بالکل ٹھیک کہتی ہو یہ رہا گلف باکس ۔ دیکھ لو، کچھ بھی نہیں ہے ۔“
” ٹھیک ہے سر ، بند کر دیجئے ۔“ اس نے پیچھے کا در وازہ کھول کر سیٹ کے نیچے جھانکا ۔ تب اس نے پہلی بار لڑکی کو بغور دیکھا ۔ پیچھے سے۔ وہ خوبصورت لڑکی تھی ۔ جس نے نیلی جرسی ، خاکی جینس اور کینوس کے جوتے پہن رکھئے تھے اور بالوں کو نئے اسٹائل سے پلیٹو ں میں باندھ رکھا تھا ۔ جس سے لڑکیوں کے چہرے پر باغیانہ تیور ابھر آتا تھا ۔ جسے لوگوں نے نہ جانے کیوں ” ائیر فورس پیس“ کانام دے رکھا تھا ۔ وہ کچھ کچھ جانی پہچانی لگتی تھی ۔
”میں مطمئن ہوں سر“اس نے آخر میں کہا۔ جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکی ہے ۔
” آپ نے مجھے پہچانا نہیں سر !“
” نہیں،کیوں !“
”جب میں اسکول چھوڑ کر فوج میں بھرتی ہونے جا رہی تھی تو آپ نے مجھے اینو گو تک لفٹ دی تھی ۔“
” اوں، ہاں۔تمہیں وہ لڑکی ہو ۔ میں نے تمہیں واپس اسکول جانے کے لئے کہا تھا نا،کیوں کہ فوج میں لڑکیوں کی ضرورت نہیں ہے ، پھر کیا ہوا !“
” انھوں نے مجھے اسکول جانے کے لئے کہا یا ریڈ کراس میں بھرتی ہونے کا مشور ہ دیا ۔“
” دیکھا تم نے ، میں نے ٹھیک ہی کہا تھا نا ۔تب پھر تم یہاں کیا کر رہی ہو!“
” صرف سول ڈیفنس کے ساتھ تھوڑا سا ہاتھ بتا رہی ہوں ۔“
” چلو ٹھیک ہے ، یقیناً تم بہت ہی اچھی لڑکی ہو ۔“ وہی دن تھا جس دن اس نے سوچا تھا کہ انقلاب میں آخر کچھ ہے ۔ اس نے پہلے ہی لڑکیوں اور عورتوں کو مارچنگ اور مظاہرہ کرتے دیکھا تھا۔ لیکن وہ ان کے بارے میں ٹھیک سے سوچ نہیں بنا پا یا تھا ۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عورتیں اور لڑکیاں اپنے بارے میں سنجیدگی سے سوچتی تھیں، جو گلیوں میں چھڑیاں اٹھائے اور سروں پر اسٹیل ہیلمٹ کی جگہ سوپ کے کٹورے رکھے آگے پیچھے ڈرل کیا کرتی تھیں ۔ ان دنوں کا سب سے مشہور مذاق تھاوہ بیز جس کے پیچھے پیچھے مقامی اسکول کی لڑکیاں چلتی تھیں اور جس پر لکھا رہتا تھا ” وی آر امپریگینل!“
لیکن آفکا چیک پوائنٹ پر اس لڑکی کے ملاقات کے بعد وہ دوبارہ نہ تو لڑکیوں کا مذاق ہی اڑا سکااور نہ ہی انقلاب کی بات کی ، کیوں کہ اس لڑکی کے کام کرنے کے طریقے نے اور سادگی وخود اعتمادی نے اسے ایک دم چھچھورے بدن کا مجرم بنا دیا تھا ۔ کیا کہا تھا اس نے۔” ہم وہی کام کر رہے ہیں جو آپ لوگوں نے ہمیں سونپا ہے۔“اس نے میرے عہدے کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا جس نے ایک بار اس پر احسان بھی کیا تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے والد کی تلاشی بھی اسی سختی سے لیتی۔
جب وہ تیسری بار ایک دوسرے کی راہوں سے گذرے تو اٹھارہ مہینے بیت گئے تھے اور حالات کافی خراب تھے ۔ موت اور بھکمری نے بیتے دنوں کی خود داری کو رفو کر دیا تھا ، اس کی جگہ مایوسی اور بد امنی نے لے لی تھی ۔ جس کی بنا پر ہر ضمیر مردہ ہو گئے تھے ۔ حیرت کی بات ہے کہ ایسے وقت میں بھی کچھ لوگ ایسے تھے جن کی اکلوتی آرزو یہ تھی کہ زندگی میں بہترین سے بہترین چیزوں پر قبضہ جما لینا اور موج مستی کرنا۔ایسے لوگوں کے لئے دنیا میں ایک عجیب و غریب سی یکسانیت لوٹ آئی تھی ۔ سبھی چیک پوائنٹ غائب ہو گئے ۔ لڑکیاں پھر لڑکیاں بن گئیں اور لڑکے لڑکے ۔ زندگی خوف و دہشت سے بھری اور یاسیت زدہ ہو کر رہ گئی تھی۔ جس میں کچھ اچھائیاں تھیں ۔ کچھ برائیں اور ڈھیر ساری بہادری جو اس کہانی کے کرداروں سے پرے رفیوجی کیمپوں ، چیتھڑوں میں لپٹے ، گولی کے نشانے کے سامنے سینہ سپر، بھوکے ننگے لیکن با ہمت لوگوں میں دکھائی دیتی تھی ۔
ریگی نولڈ ناکوف ان دنوں اویری میں بود و باش اختیار کے ہوئے تھا ، لیکن اس دن وہ راشن کی تلاش میں نکوری گیا ہوا تھا ۔ اویری میں اسے کیریناس میں کچھ مچھلیاں ، ڈبہ بند گوشتاور گھٹیا امریکی اناج ، جسے کھاد نمبر دو کہتے تھے اور جو جانوروں کا چارہ تھا ۔ مل گیا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ کیتھولک نہ ہونے کی وجہ سے اسے کیریناس میں نقصان ہوتا تھا ۔ اس لئے وہ نکوری میں چاول ، بیسن اور گیبن گاری نامی ایک بہترین سیریل کی تلاش میں اپنے دوست کے پاس آیا تھا !جو ڈبلیو سی سی کا ایک ڈپو چلاتا تھا ۔
وہ اویری سے صبح چھ بجے ہی چل پڑا تھا تاکہ اپنے دوست کو ڈپو میں ہی پکڑ سکے ۔ جو ہوائی حملے کے ڈر سے ساڑھے آٹھ کے بعد وہاں ٹھہر تا نہیں تھا ۔ نانکوف کے لئے وہ دن خوش بختی والا تھا ۔ کچھ دن پہلے کئی جہازوں کے ایک ساتھ اچانک ایک ساتھ آ جانے کے سبب ڈپو میں ایک دن پہلے ہی رسد کا بہت بڑا اسٹاک آیا تھا ۔ جب اس کا ڈرائیور ٹن تھیلے اور کارٹن اس کی گاڑی میں لاد رہا تھا تو بھوکی بھیڑنے جو ہمیشہ ریلیف سینٹروں کے ارد گرد جمع رہتی تھی ، کئی بھپتیاں کسیں ۔ مثلاً ” وارکین کینٹینو“ جس کا مطلب ڈبلیو سی سی سے تھا ۔ کوئی اور چلایا ” ایرے ولو“
اس ے دوست نے جواب دیا ’ شم‘ ۔’ ایرے ولو‘ ۔”شم“
” ایسو ہیلی،’شم‘ ۔ ایسو ہیلی، ’ شم۔ممبا۔
نانکوف بے حد شرم محسوس ہوئی ۔ چیتھڑوں اور ننگی پسلیوں والی بھیڑ سے نہیں بلکہ ان کے بیمار جسموں سے اور التجا بھری آنکھوں سے ۔ اسے زیادہ برا محسوس ہوتا اگر وہ کچھ بھی نہ کہہ کرچپ چاپ اس کی گاڑی کے باٹ میں سے ، انڈے ، دودھ کا پاو¿ڈر ، دلیہ، گوشت اور مچھلی کے ڈبوں کو خاموشی سے لدتا ہوا دیکھتے رہے ۔ عمومی طور پرچاروں طرف پھیلی ہوئی مصیبتوں کے درمیان اس طرح کی خوش قسمتی پر شرم آنا لازمی تھا ۔ لیکن کوئی کیا کر سکتا تھا ۔ دور اوگبو قصبے میں موجود اس کی بیوی اور چار بچے مکمل طور پر اس کے ذریعے ارسال کئے گئے راحتی سامان پر انحصار کرتے تھے ۔ وہ انھیں کواشی خور جیسی جان لیوا بیماری کے منھ میں تو نہیں دھکیل سکتا تھا ۔وہ صرف اتنا کر سکتا تھا اور کر رہا تھا کہ جیب ہی اسے آج کی طرح اچھی ارسد مل جاتی تھی تو وہ اس کا کچھ حصہ اپنے ڈرائیور جانسن کے دے دیتا تھا ۔ جس کی بیوی اور چھ بچے تھے یا سات۔اور جس کی تنخواہ دس پاو¿نڈ ماہانہ تھی ۔بازار میں ’گاری‘ کی قیمت ایک پاو¿نڈی سگریٹ امن تک پہنچ گئی تھی ۔ ایسی حالت میں وہ بھیڑ کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ زیادہ سے زیادہ وہ اپنے پڑوسی کے لئے کچھ کر سکتا تھا ۔بس یہی کچھ۔
اومیری سے لوٹتے وقت سڑک کے کنارے کھڑی ایک خوبصورت لڑکی نے لفٹ مانگی۔ اس نے ڈرائیور کو رکنے کا اشارہ کیا ۔ چاروں طرف بیسیوں پیدل چلنے والے ۔ دھول سے سنے اور تھکے ماندے۔جن میں کچھ فوجی تھے اور کچھ پیوپلس۔گاڑی کی طرف دوڑے۔
” نہیں، نہیں، نہیں، مانکوف نے سختی سے کہا ۔” میں تو اس دوشیزہ کے لئے رکا ہوں ۔ میری گاڑی کا ٹائر خراب ہے اور میں صرف ایک ہی مسافر کو لے جا سکتا ہوں ۔سوری۔
” بیٹے پلیز۔“ ہینڈل پکڑتے ہوئے ایک مایوس بڑھیا نے کہا۔
” بڑھیا تو مرنا چاہتی ہے ؟“ ڈرائیور نے اسے دھکیلتے ہوئے کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی ۔ مانکوف نے اب تک کتاب کھول لی تھی اور نظریں ان میں گڑا دی تھیں ۔ تقریباً ایک میل تک اس نے لڑکی کی طرف دیکھا ہی نہیں ۔ آخر لڑکی کو خاموشی گراں گذری ، اس نے خاموشی توڑی ۔” آپ نے مجھے بچالیا ۔شکریہ۔“
” اس میں شکریے کی کیا بات ہے ! کہاں جا رہی ہو؟“
” او میری ۔آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟“
” اوہ! ہاں ضرور …. میں بھی کتنا بھلکڑ ہوں ۔ تم ؟“
” گلیڈس۔“
” ہاں ، ہاں…. فوجی لڑکی ۔گلیڈس تم بالکل بدل گئی ہو ۔ خوبصورت تو تم پہلے سے ہی نہیں ۔ لیکن اب تو تم روپ کی رانی لگتی ہو۔ کیا کتی ہو آج کل؟“
” میں آج کل فویل ڈاریکٹریٹ میں ہوں ۔“
” بہت اچھی بات ہے۔“
” اچھی بات تو ہے ، اس نے سوچا ، لیکن تکلیف دہ بھی ہے ۔ وہ ایک گہرے رنگ کا وگ پہنے ہوئے تھی ۔ قیمتی اسکرٹ اور لوکٹ کا بلاو¿ز ۔ اس کے جوتے ضرور گیبن سے آئے ہوں گے اور کافی قیمتی ہوں گے۔ کل ملا کر نانکوف نے سوچا ۔ اسے کسی امیر آدمی کی داشتہ ہونا چاہیے۔ ایسا آدمی جو جنگ سے پیسوں کے پہاڑ جا رہا ہوگا ۔
” میں نے آج نہیں لفٹ دے کر اپنا ایک اصول توڑا ہے ۔ آج کل میں لفٹ بالکل نہیں دیتا ۔
” کیوں؟“
” آخر میں کتنے لوگوں کو لے جا سکتا ہوں ؟ بہتر ہے کہ کوشش ہی مت کرو ۔ اسی بڑھیا کو ہی لو ۔“
” میں سوچ رہی تھی کہ آپ اس بڑھیا کو بٹھا لیں گے ۔“
یہ سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ خاموشی کے طویل وقفے کے بعد گلیڈس کو محسوس ہوا کہ وہ برا مان گیا ہے ۔ اسی لیے اس نے پھر خاموشی توڑی ۔
” میرے لیے اپنا اصول توڑنے کا شکریہ ۔“ وہ اس کے مڑے ہوئے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کرر ہی تھی۔یہ سن کر وہ مسکرایا ۔ اپنا چہرہ اس کی جانب کیا ، اس کی گود میں ہلکی سی چٹکی لی اور پوچھا۔
” اومیری میںتم کیا کرنے جا رہی ہو؟“
” میں اپنی سہیلی سے ملنے جا رہی ہوں۔“
” سہیلی ؟ یقیناً؟“
” کیوں نہیں …. اگر آپ مجھے ا کے گھر تک چھوڑ دیں تو ا س سے مل بھی سکتے ہیں ۔ ب ایک ہی ڈر ہے کہ وہ کہیں ویک اینڈ ہر نہ نکل گئی ہو ۔ تب تو گڑ بڑ ہو جائے گی۔“
” کیوں ؟“
” کیوں کہ اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو سڑک پر سونا پڑے گا ۔“
” میں تو دعا کر رہا تھا کہ وہ گھر پر نہ ہو ۔“
” کیوں؟“
”کیوں کہ اگر وہ گھر پر نہ ہوئی تو میں تمہیں شب گزاری اور ناشتے کی دعوت دے سکوں ۔“
” کیا ہوا ؟ اس نے ڈرائیور سے پوچھا ، جس نے اچانک گاڑی روک دی تھی ۔ جواب کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ سامنے کھڑی بھیڑ اوپر دیکھ رہی تھی ۔ تینوں گاڑی سے نکلتے ہی جھاڑیوںکی طرف بھاگے ۔ گردنیں آسمان کی جانب تنی ہوئی تھیں ۔ لیکن الارم غلط تھا ۔ آسمان اف اور بے آواز تھا ، صرف دو گدھ اونچی اڑان بھر رہے تھے ۔ نھیڑ میں سے ایک مسخرے نے ان کوفائٹر اور بمبار کا نام دے دیا ۔ یہ دیکھ کر سب چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ تینوں پھر گاڑی میں سوار ہوئے اور سفر جاری ہو گیا۔
” ابھی ریڈرس کے لیے جلدی ہے۔“ اس نے گلیڈ سے کہا جواب بھی اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھے ہوئے تھی، جیسے دل کی دھک دھک سن رہی ہو ۔” وہ دس بجے سے قبل نہیں آتے ہیں ۔“ لیکن گلیڈس مارے خوف کے بول نہیں پا رہی تھی ۔ نانکوف کو ایک موقع دکھائی دیا اور اس نے اس موقع کا فائدہ اٹھا لیا ۔
” تمہاری سہیلی کہاں رہتی ہے ؟“
” ۰۵۲ ڈگلس روڈ پر ۔“
”اوہ! وہ تو شہر کے درمیان میں ہے ، بہت ہی واہیات جگہ ہے۔ نہ خندق نہ کچھ اور۔ مین تمہیں وہاں شام چھ بجے سے پہلے جانے کا مشورہ نہیں دوں گا ۔ وہ جگہ محفوظ نہیں ہے ۔ اگر تمہیں برا نہ لگے تو تمہیں میں اپنے یہاں لے چلتا ہوں ۔ جیسے ہی چھ بجیں گے ۔ میں تمہیں تمہارے سہیلی کے یہاں چھوڑ آو¿ں گا ۔” ٹھیک ہے؟“
” ٹھیک ہے ۔“ اس نے بے جان سی آواز میں کہا ۔” مجھے اس سے بہت ڈر لگتا ہے ۔ اس لیے میں نے اومیری میں کام کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا ۔ جانے کس نے مجھے آج یہاں آنے کا مشورہ دیا تھا۔“
” کوئی بات نہیں ۔ ہمیں تو عادت ہو گئی ہے ۔“
” لیکن آپ کے ساتھ آپ کے افرادِ خانہ تو نہیں ہیں نا؟“
” نہیں “ اس نے کہا۔ کسی بھی خاندان کے افراد اس کے ساتھ نہیں ہیں ۔ کہتے ہم ہیں کہ اس کا سبب ایکر ریڈ س ، ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور ہے ۔ اومیری موج مستی کا شہر ہے اور ہم لوگ گھوڑوں کی طرح رہتے ہیں ۔“
” میں نے بھی کچھ ایسا ہی سنا ہے۔“
” سنا ہی نہیں ، تم آج دیکھو گی بھی۔ میں تمہیں آج ایک بہت ہی موج مستی بھری پارٹی میں لے جاو¿ں گا ۔ میرے ایک دوست کی آج سالگرہ ہے ۔ وہ لیفٹنٹ کرنل ہے ۔ اسی نے پارٹی نے رکھی ہے ۔ انھوں نے ساو¿نڈ اسمیزرس بینڈ کرایے پر حاصل کیا ہے ۔ مجھے پورا یقین ےہے کہ تمہیں خوب مزہ آئے گا ۔لیکن اسے ا بات پر شرم آئی ۔ اسے پارٹیوں سے بہت چڑ تھی ۔ جب کہ اس کے دوست خوب رنگ رلیاں مناتے تھے ۔ اور نانکوف یہ سب بات اس لیے کر رہا تھاکہ وہ گلیڈس کو اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا ۔ اور لڑکی بھی یعنی گلیڈس بھی ، جس کا ایک وقت تھا جنگ میں دارا یقین تھا اور جسے کسی نے دھوکا دیا تھا ۔دکھ بھرے انداز میں گلیڈس نے سر ہلالیا۔
” کیا ہوا !گلیڈس نے پوچھا۔
” کچھ نہیں ۔ یوں ہی کچھ سوچنے لگا تھا ۔ باقی سفر خاموشی میں طے ہوتا رہا ۔
گلیڈس بھی اس کے گھر میں اس قدر تیزی سے گھل مل گئی جیسا کہ وہ اس کی گرل فرینڈ ہو ۔اس نے گھریلو لباس زیب تن کیا اور اپنا بھڑک دار وگ اتار دیا ۔
”تمہارے بالوں کی سجاوٹ بہت اچھی ہے ۔ تم انھیں وگ میںکیوں چھپائے رکھتی ہو؟“
” شکریہ۔“ اس نے کچھ دیر تک اس کے سوال کا جواب دیا ہی نہیں ۔پھر کہا ۔” آدمی لوگ بھی مسخرے ہوتے ہیں ۔
” کیوں ؟“
” تم روپ کی رانی لگتی ہو ۔“ گلیڈس نے نانکوف کی نقل اتاری ۔
” اوہ“ وہ بات۔ میں تو اسے صد فیصد سچ جانتا ہوں ۔“ نانکوف نے یہ کہتے ہوئے اسے اپنی جانب کھینچا اور اس کابوسہ لے لیا ۔ گلیڈس نے نہ تو اعتراض کیا اور نہ ہی پوری طرح اپنے آپ کو اس کے سپرد کر دیا ۔ شروعات کے لیے نانکوف کو یہ انداز اچھا لگا۔ان دنوں بہت سی لڑکیاں آسانی سے خود سپردگی کر دیتی ہیں ۔ کچھ لوگوں نے اسے ” بیماری¿ جنگ“ کا نام دے دیا تھا ۔
کچھ دیر وہ اپنے دفتر حاضری لگانے گیا اور وہ باورچی خانہ میں لنیچ کے لیے نوکر کی مدد کرنے گلی ۔ اس نے صرف حاضری ہی لگائی ہو گی ، کیوں کہ وہ آدھے گھنٹے میں ہی لوٹ آیا ۔ ہاتھ ملتے ہوئے بولا کہ وہ اپنے گلیڈس سے زیادہ دیر تک دور نہیں رہ سکتا ۔
جب و لنچ کر رہے تھے تو وہ بولی۔” تمہارے فریج میں تو کچھ بھی نہیں ہے !“
” مثلاً !“ اس نے برا مانتے ہوئے پوچھا ۔
” مثلاً گوشت“اس نے بلا جھجھک جواب دیا ۔
” تم اب بھی گوشت کھاتی ہو !“ اس نے سوال کیا۔
میں بھلا کون ہوتی ہوں۔لیکن آپ جیسے بڑے لوگ کھاتے ہیں ۔
” مجھے پتہ نہیں ت،م کتنے بڑے لوگوں کی بات کر رہی ہو ۔ لیکن وہ میرے جیسے نہیں ہیں ۔ میں نہ تو دشمن سے کار و بار کر کے پیسہ بناتا ہوں اور نہ یہی راحت کا سامان بیچ کر یا ….“
”آگسٹا کا بوائے فرینڈ یہ سب نہیں کرتا ، اسے صرف بیرونی کرنسی ملتی ہے ۔“
” کیسے ملتی ہے ؟ وہ سر کار وکو دھوکا دیتا ہے ۔ایسی ملتی ہے بیرونی کرنسی۔“
” چاہے وہ کوئی بھی ہو ۔ویسے یہ آگسٹا کون ہے ؟“
” میری سہیلی۔“
” اوہ!“
” پچھلی بار اس نے مجھے تین ڈالر دیے تھے ۔ جن میں میںنے بیلاس پاو¿نڈ میں بدل لیا ۔ ا آدمی نے؟ آگسٹا کو پچاس ڈالر دیے تھے ۔
خیر میری پیاری ، میں بیرونی کرنسی کی بھی دلالی نہیں کرتا اور میرے فریج میں گوشت بھی نہیں ہے ۔ ہم ایک جنگ لڑ رہے ہیں ، اور مجھے صرف یہ معلوم ہے کہ فرنٹ پر ہمارے کچھ نوجوان تین تیج دن میں ایک بار جَو کا پانی پی کر لڑ رہے ہیں ۔“
” یہ تو ٹھیک ہے ۔ اندھا پیے، کتا کھائے ۔“
” بات یہ بھی نہیں ہے ، اس سے بھی بری ہے ۔ “اس نے کہا۔ غصے سے اس کی زبان لڑ کھڑانے لگی تھی ۔
” لوگ ہر روز مارے جا رہے ہیں ۔ اس وقت جب ہم تم بات کر رہے ہیں، اس وقت بھی کوئی مارا جا رہا ہے ۔
” یہ تو ٹھیک ہے ۔“ اس نے کہا۔
” ہوائی جہاز !“‘ لڑکا باورچی خانے سے چلا یا۔
” اوہ ماں۔“ گلیڈس چلائی ۔ جیسے ہی وہ پام کے پتوں اور لال مٹی سے بنی خندق کی اور سر پر ہاتھ رکھ کر ’ بدن جھکائے ہوئے دوڑی‘ آسمان جیٹ طیاروں اور طیاروں کو نشانہ بناتی ہوئی ملکی توپوں کی گرج سے پھٹ پڑا۔
خندق میں ، طیاروں کے چلے جانے کے بعد اور دیر سے شروع ہوئی توپوں کی گھن گرج ختم ہو جانے کے بعد بھی وہ اس سے چپکی رہی ۔ وہ جہاز تو صرف اوپر سے گزر رہا تھا ۔ نانکوف نے کہا ۔
آوازیں کانپ سی رہی تھی۔ اس نے کچھ بھی نہیں گرایا ۔ اس کی سمت سے لگ رہا تھا کہ لڑائی کے مورچے پر جا رہا ہے ۔ شاید ہمارے فوجی ان پر دباو¿ ڈال رہے ہیں ۔ اس لیے وہ ایسا کرتے ہیں ۔ جب بھی ہمارے فوجی دباو¿ ڈالتے ہیں وہ روسیوں اور ھَر کو ہوائی جہازوں کے لیے ایس او ایس بھیج دیتے ہیں ۔ اس نےلمبی سانس لی ۔
اس نے کچھ بھی نہیں کہا ۔صرف اس سے چپکی رہی ۔ وہ ہنستے رہے۔ ان کا نوکر ساتھ والے گھر کے نوکر کو بتلا رہا تھا کہ وہ دو تھے۔ ایک نے یوں ڈائی ماری اور دوسرے نے یوں۔
” ہم بھی اچھی طرح دیکھ رہے ہیں“ دوسرے نے اتنے ہی پر جوش انداز میں کہا ۔ کہنا تو نہیں چاہیے لیکن ان مشینوں سے لوگوں کا مرنا دیکھنے میں اچھا لگے نا!’ خدا کی قسم‘
” سوچو! “ آخر کار گلیڈس نے زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا ۔ نانکوف نے سوچا وہ چند لفظوں میں ہی یا صرف ایک ہی لفظ سے معنی کی کئی پرتوں کو اتار سکتی تھی ۔ اس ایک لفظ میں ’ سوچو‘ حیرت ، تنقید، اور شاید ان لوگوں کے لیے ایک طرح کی حوصلہ افزائی بھی پوشیدہ تھی جو موت کے ہر کاروں کے بارے میں بھی مذاق کر سکتے تھے ۔
” ڈرو مت۔“ اس نے کہا ۔ وہ اس کے مزید قریب آگئی اور وہ اس کے بوسے لینے لگا ۔ وہ دھیرے دھیرے کھلنے لگیاور پھر پوری طرح کھل گئی ۔ خندق میں اندھیرا تھا ۔وہاں جھاڑو بھی نہیں لگی تھی اور اس میں کیڑے پتنگے ہو سکتے تھے ۔ اس نے گھر میں سے چٹائی لانے کے بارے میں سوچا ۔ پھر خیال چھوڑ دیا ۔ اور کوئی ہوائی جہاز آسکتا تھا ۔ پروسی یا کوئی اور راہ گیر ان کے اوپر گر سکتا تھا ۔ یہ تو تقریباً ویسی ہی حالت ہو گئی جس میں لوگوں نے ہوائی حملے کے وقت دن دھاڑے ایک آدمی کو ننگ دھڑنگاپنے بیڈروم سے نکل کر دوڑتے ہوئے دیکھا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے اس حالت میں ایک عورت بھی تھی۔
جیسا کہ گلیڈس کو ڈر تھا۔ اس کی سہیلی گھر پر نہیں تھی ۔ لگتا تھا کہ ا کے با اثر دوست نے لبرول میں خریداری کے لیے اس کے پیچھے ہوائی جہاز میں ایک سیٹ حاصل کرلی تھی ۔ کم از کم پڑوسیوں کا یہی اندازہ تھا ۔
” کمال ہے “ نانکوف نے واپسی پر کہا ۔” وہ لراکا طیارے جوتوں ، وگوں، پینٹوں، برا، کاسٹیمک،اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے لدی پھندی لوٹے گی۔جنھیں پھر وہ ہزاروں پاو¿نڈ کی قیمت پر فروخت کر دے گی ۔ تم لڑکیاں سچ مچ جنگ پر ہو ۔نہیں !“
وہ کچھ نہیں بولی اور اسے لگا کہ آخر کاروہ اسے جھنجھوڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے لیکن اچانک وہ بولی ۔” تم مرد تو چاہتے ہو کہ ہم سب یہی کچھ کریں ۔“
” خیر“ اس نے کہا ۔” میں ایک ایسا مرد ہوں جو نہیں چاہتاکہ تم یہ سب کرو ۔ تمہیں خاکی جنس میں وہ لڑکی یاد ہے جس نے بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیک پوائنٹ پر میری تلاشی لی تھی ؟“
یہ سن کر وہ ہنسنے لگی۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم پھر سے وہی لڑکی بن جاو¿ ۔ تمہیں یاد ہے!“ کوئی وگ نہیں اور جہاں تک مجھے یاد ہے کوئی اسٹرنگ کانوں میں نہیں ….“
” دیکھو“جھوٹ نہیں …. میں نے اسٹرنگ پہن رکھے تھے۔“
” چلو ٹھیک ہے ۔ لیکن میری بات سمجھ میں آئی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ۔
” وہ وقت ہوا ہوا ۔اب تو سب بچنا چاہتے ہیں اسے کہتے ہیں نمبر چھ۔تم اپنا نمبر ہی نکالومیں اپنا نمبر چھ نکالتی ہوں ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک۔
لیفٹنٹ کرنل کی پارٹی میں ایک عجیب سی بات ہو گئی ۔ لیکن ا کے ہونے سے پہلے سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا ۔ بکرے کا گوشت، مرغ اور چاول اور ڈھیر ساری دیشی شراب ، جس میں سے ایک کا نام انھوں نے ٹریسر رکھ چھوڑا تھا ، کیوں کہ وہ حلق کو جلاتی ہوئی نیچے اترتی تھی۔ مذاق کی بات تو یہ تھی کہ بوتل میں دیکھنے پروہ نارنگی کے رنگ جیسی سیدھی سادی لگتی تھی ۔ لیکن سب سے زیادہ جس چیز نے ہنگامہ کھڑا کیا وہ ۔ تھی ڈبل روٹی۔اصلی۔بینڈ بھی اچھا اور لڑکیاں بھی بہت سی تھیں ۔ ماحول کو اور بھی بہتر بنانے کے لئے دو گورے آنکلے جو ریڈ کراس میں تھے۔ ساتھ میں لائے وہ ایک بوتل کو ریزرو کی اور ایک اسکاچ کی ۔ پارٹی میں موجود افراد نے پہلے تو ان کا کھڑے ہو کر خیر مقدم کیا اور پھر سبھی دوڑے ایک ایک گھونٹ پانے کے لئے ۔ کچھ دیر بعد ایک گورے کے برتاو¿ سے لگاکہ اس نے پہلے سے ہی کافی پی رکھی تھی۔جس کا سبب شاید یہ تھا کہ گزشتہ رات ایک پائلٹ جسے وہ اچھی طرح جانتا تھا ۔ خراب موسم میں راحت کا سامان لاتے وقت ائیر پورٹ پر ہوائی حادثہ کا شکار ہو گیا تھا ۔
پارٹی میں اس وقت تک کم لوگوں نے ہی اس حادثہ کے بارے میں سنا تھا۔ اس بے ماحول پر فوراً مردنی سی چھا گئی ۔ رقص کرتے ہوئے کچھ جوڑے واپس اپنی اپنی سیٹوں پر چلے گئے اور بینڈ بجنا بند ہو گیا ۔ تب اچانک ہی ریڈ کراس والا آدمی گرج اٹھا ۔ایک آدمی نے ’[ شریف آدمی نے“ کیوں اپنی جان دے دی ۔ بے کار میں۔چاری کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس بے کار جگہ کے لئے تو بالکل نہیں ۔یہاں ہر چیز سے تعفن اٹھتا ہے ۔یہ لڑکیاں بھی جو بن سنور کر ، مسکراتی ہوئی یہاں آئی ہیں ۔ کسی کام کی نہیں ہیں ۔ مچھلی کا ایک ٹکڑا ۔ یا ایک امریکی ڈالر…. بس اور یہ ہم بستری کے لئے راضی ہو جاتی ہیں ۔“
ابال کے بعد پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک نوجوان افسر اس کے پاس گیا اور اسے تین طمانچے جڑ دیے ۔
دائیں بائیں…. اسے سیٹ سے اٹھا لیا ( اس کیآنکھوں میں آنسوو¿ں جیسا کچھ تھا ) اور باہر دھکیل دیا ۔ اس کا دوست بھی جس نے اسے خاموش کرانے کی کوشش کی تھی ۔ پیچھے پیچھے باہر چلا گیا ۔ ساکت پارٹی میں ان کی کار کے جانے کی آواز صاف طور پر سنائی دی ۔ افسر جس نے طمانچے جڑے تھے ۔ ہاتھ جھاڑتا ہوا اپنی سیٹ پر واپس آگیا۔
” سالا بے وقوف!“ اس نے رتعب دار آواز میں کہا ۔ سبھی لڑکیوں نے اپنی نظروں سے اسے احساس کرا دیا کہ وہ اسے مرد اور ہیرو سمجھتی ہیں۔
” آپ اسے جانتی ہیں !“ گلیڈس نے نانکوف سے پوچھا ۔
اس نے جواب نہیں دیا۔ بلکہ ساری پارٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا” وہ پئے ہوئے تھا ۔“
” مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ۔“افسر نے کہا ۔ جیسا آدمی نشے میں ہوتا ہے تبھی وہ کہتا ہے جو اس کے دل میں ہوتا ہے۔“
” تو تم نے اس بات کے لیے پیٹا جو اس کے من میں تھی ۔“ میزبان نے کہا ۔
” ایسے ہی احساسات ہونے چاہئیں۔جو….“
” شکریہ جناب ۔ جو نے سیلوٹ کرتے ہوئے کہا ۔
” تو اس کا نا م جو ہے۔“ گلیڈس اور اس کی بائیں طرف بیٹھی لڑکی نے ایک دوسرے کی جانب مڑتے ہوئے ایک ساتھ کہا ۔
اس وقت نانکوف اور دوسری جانب بیٹھا ایک دوست ایک دوسرے سے دبی زبان میں ، بہت ہی دبی زبان میں کہہ رہے تھے کہ حالاں کہ وہ آدمی بد دماغ اور بے ہودہ تھا ، لیکن لڑکیوں کے بارے میںاس نے جو کچھ بھی کہا تھا وہ بد قسمتی سے کڑوا سچ تھا ۔ صرف کہنے والا آدمی غلط تھا ۔
جب ڈانس دوبارہ شروع ہوا تو کیپٹن جو گلیڈس کے پاس آیا اور ڈانس کے لیے کہا ۔ اس کے منھ سے الفاظ نکلنے سے قبل ہی وہ کود کر کھڑی ہو گئی ۔ تب اسے اچانک یاد آیا ، وہ مڑی اور اس نے نانکوف سے اجازت مانگی ۔ ساتھ ہی کیپٹن نے بھی مڑ کر کہا ۔” معاف کیجئے۔“
” جائیے ،جائیے“ نانکوف نے دونوں کے درمیان کہیں دیکھتے ہوئے کہا ۔
ڈائس دیر تک چلا اور وہ بنا بتائے انھیں دیکھتا رہا ۔ کبھی کبھی اوپر سے رسد کا ہوائی جہاز گزرتا تو کوئی یہ کہہ کر بتی گل کردیتاکہ کہیں دشمن کا جہاز نہ ہو ۔ لیکن اصل میں تو یہ اندھیرے میں رقص کرنے کا اور لڑکیوں کو گدگدانے کا بہانہ تھا کیوں کہ دشمن کے ہوائی جہازوں کیآواز تو خوب جانی پہچانی تھی۔
گلیڈس جب واپس آئی تو بہت خوف زدہ تھی اور اس نے نانکوف کو اپنے ساتھ رقص کرنے کی درخواست کی ۔ لیکن اس نے منع کردیا ۔” میری پراہ مت کرو ۔“ میں تو یہاں بیٹھ کر تم لوگوں کو رقص کرتا دیکھ کرمزے لے رہا ہوں۔“
” تو پھر چلیے۔“ گلیڈس نے کہا ۔” اگر آپ رقص نہیں کریں گے ۔“
” لیکن میں تو کبھی رقص نہیںکرتا۔ یقین کرو۔ جاو¿ مزے کرو۔“
اس نے اگلا رقص لیفٹنٹ کرنل کے ساتھ کہا اور پھر کیپٹن جوکے ساتھ ۔ اس کے بعد نانکوف اسے گھر لے چلنے کے لیے تیار ہو گیا ۔” مجھے افسوس ہے کہ رقص نہیں کرتا۔“ اس نے کار میں بیٹھتے وقت کہا ۔ لیکن میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک یہ جنگ جاری رہے گی میں رقص نہیںکروں گا۔“
گلیڈس نے کچھ نہیں کہا ۔
” میں اس پائلٹ جیسے آدمی کے بارے میں سوچ رہا ہوں جو کل رات مارا گیا ۔ اس کا تو اس لڑائی سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ وہ تو ہمارے لیے رسد….“
” مجھے امید ہے کہ اس کا دوست اس جیسا نہیں ہوگا ۔“ گلیڈس نے کہا۔
وہ تو اپنے دوست کے سبب اکھڑا ہوا تھا ۔ لیکن میں تو یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جب اس جیسے لوگ مارے جا رہے ہوں ۔ جب مورچے پر ہمارے نوجوان مارے جا رہے ہوں ۔تو ہم لوگوں کو چپ چاپ بیٹھے رہنا اورپارٹیاں کرنا یا رقص کرنا کتنا معقول ہے۔
” لیکن آپ ہی تو مجھے وہاں لے گئے تھے ۔“ آخر میں گلیڈس نے اس کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا __” وہ تو آپ ہی کے دوست ہیں ۔ میں تو انھیں جانتی بھی نہیں تھی۔“
دیکھو،میری پیاری گلیڈس ۔ میں تمہیں مورد الزام نہیں ٹھہرا رہا ہوں ۔ میں تو تمہیں صرف یہ بتلا رہا ہوںکہ میں رقص کیوں نہیںکرتا۔ خیر چھوڑو! کچھ اور بات کریں …. تم اب بھی کل ہی واپس جانے پر آمادہ ہو ! میرا ڈرائیور تمہیں پیر کی صبح کام پر ، وقت پر پہنچا سکتا ہے ۔ نہیں ؟ چلو ، جیسی تمہاری مرضی ۔ تم خود کی مالک ہو۔“
جس آسانی سے وہ اس کے بستر پر چلی آئی اور جس زبان کا اس نے استعما ل کیا وہ سن کر حیرت زدہ تھا ۔
” بمباری کرنا چاہتے ہو!“ اس نے پوچھا ۔ اور جواب کا انتطار کیے بنا بولی ” شروع کرو“ لیکن اپنے سیلوی انداز میں چھوڑنا۔“
ایک بات تو ایک دم صاف تھی ۔ وہ کسی فوجی افسر کی داشتہ تھی ۔ دو برس میں کتنا فرق آگیا تھا ۔ یہی کیا کم کمال تھا کہ اسے ابھی تک اپنی پہلی زندگی یاد تھی ، اپنا نام یاد تھا؟ اگر مشنری ریڈ کراس والا قصہ دوبارہ ہوا۔ اس نے سوچا تو وہ اس کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔ ساری پارٹی کو بتلا دے گا کہ وہ آدمی کتنا سچا ہے ۔ ساری کی ساری پیڑھی کو ہو کیا گیا ہے ؟ کیا یہی ہے کل کی مائیں ؟
لیکن صبح ہوتے ہوئے وہ بہتر محسوس کر رہا تھااور اس کی رائے میں بھی تازگی آ گئی تھی ۔ اس نے سوچا کہ گلیڈس تو اس سماج کا ایک چھوٹا سا عکس ہے ، جو پوری طرح سڑ گل چکا ہے اور اس میں کیڑے رینگ رہے ہیں ۔ لیکن آئین سالم ہے صرف تھوڑی سی گرد جم گئی ہے ۔ ضرورت ہے تو ایک صاف شفاف کپڑے کی ۔ ”گلیڈس کے لیے بھی میرا کچھ فرض بنتا ہے۔“اس نے خود سے کہا ۔” وہ چھوٹی سی لڑکی ، جس نے ایک دن مجھے آنے والے خطرات کااحساس کرایا تھا ، اب بذات خود خطرے میں ہے ۔ کچھ خطرناک اثر پڑ رہا ہے اس پر۔
وہ اس خطرناک اثر کی جڑ تک جانا چاہتا تھا ۔ وہ اثر صرف اس کی اچھے دنوں کی دوست آگسٹا…. یا جو کچھ بھی اس کا نام رہاہو ، کا نہیں تھا اس کی تہہ میں ضرور کوئی آدمی ہوگا ۔ شاید ان بے رحم بیور پاریوں میں سے ایک جو بیرونی کرنسی کی چوری کرتے ہیں اور نوجوانوںکی زندگیوں کو خطروںمیں ڈال کر انھیں دشمنوں کی سرحد کے پار بھیجتے ہیں تاکہ اسمگلنگ کی چیزوں کو سگریٹوں میں بدل کر کروڑوں کمائیں۔ یا پھر ان ٹھیکیداروں میں سے ہوگاجو فوج کو بھیجی جانے والے رسد کی چوری کر کے پیسوں کا پہاڑ بنا رہے ہیں ۔ یا شاید کوئی بزدل فوجی افسر جو بیرکوں کے گندےفقرے اور بہادری کے جھوٹے قصوں سے بھرا ہوا ہوگا ۔ اس نے گلیڈس کو ڈرائیور کے ساتھ اکیلے ہی بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن نہیں،وہ خود جائے گا اور دیکھے گا کہ وہ کہاں رہتی ہے َ کچھ نہ کچھ ضرور سامنے آئے گا ۔ اسی پر وہ گلیڈس کو بچانے کا منصوبہ بنائے گا ۔ جیسے جیسے وہ اس ہڑپ کی تیاری کرنے لگا ، ہر پل گلیڈس کے متعلقوہ بہتر انداز میں سوچنے لگا ۔ اس نے ایک دن پہلے ریلف سنیٹر سے ملے راشن کارڈ کا آدھا حصہ اس کے لیے الگ کر دیا۔ حالاں کہ حالات خراب تھے ، لیکن اس نے سوچا تھا کہ جس لڑکی کے پاس کھانے کے لیے کچھ ہوگا وہ کم للچائے گی ۔ وہ ڈبلیو سی سی میں اپنے دوست سے ہر ہفتے اس کے لیے کچھ نہ کچھ دینے کی بات کرے گا۔
تحفے دیکھ کر گلیڈس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ نانکوف کے پاس پیسے زیادہ نہیں تھے ، لیکن اس نے جوڑ کر بیس پاو¿نڈ بھی اسے تھما دیے۔
” میرے پاس بیرونی کرنسی تو نہیںہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتے ، لیکن…. “
وہ دوڑکر آئی اور اس سے لپٹ کر رونے لگی ۔ اس نے اس کے لبوں پر بوسہ لیا اور آنکھوںکو چوم لیا اور مصیبت زدہ لوگوں کے بارے میں کچھ بد بدایا ، جسے وہ سمجھ نہ پائی ۔ نانکوف نے سوچا کہ میرے سبب ہی اس نے اپنا وگ اتار کر بیگ میں رکھ لیا ہے۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے ایک وعدہ کرو ِ“ اس نے کہا ۔
” کیا؟“
” بمباری والے الفاظ اب تم کبھی استعمال نہیں کروگی۔“
بھگی آنکھوں سے وہ مسکرائی ۔” تمہیں پسند نہیں ہے نا۔“ لیکن سبھی لڑکیاں ایسے ہی کہتی ہیں ۔“
” خیر تم دوسری لڑکیوںسے الگ ہو ۔ وعدہ کروگی نا!“
” اچھا!“
انھیں نکلنے میں دیر ہو گئی تھی ۔ جب وہ گاڑی میں بیٹھے تو گاڑی نے اسٹارٹ ہونے سے انکار کر دیا ۔ انجن میں ادھر ادھر ہاتھ مارنے کے بعد ڈرائیور نے کہا کہ بیٹری ڈاو¿ن ہو گئی ہے ۔ نانکوف حیران ہو گیا ۔ اسی ہفتے اس نے دو سیل بدلنے کے لیے جو تیس پاو¿نڈ خرچ کیے تھے اور بیٹری بدلنے والے مکینک نے کہا تھا کہ یہ چھ ماہ تک چلے گی ۔ نئی بیٹری خریدنے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا تھا، کیوں کہ اس کی قیمت دو سو پچاس پاو¿نڈ تک جا پہنچی تھی ۔ ضرور ڈرائیور نے کوئی لا پرواہی دکھائی ہوگی ، اس نے سوچا ۔
” یہ کل رات ہوا ہو گا۔“ ڈرائیور نے کہا۔
” کل رات کیا ہوا تھا؟“ نانکوف نے غصے سے پوچھا ، یہ سوچتے ہوئے کہ یہ بد تمیزی کی حد ہو گئی ہے ، لیکن ڈرائیور کا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا ۔
” کیوں کہ ہم ہیڈ لائیٹس استعمال رہے تھے ۔
”تو کیا ہم سے امید کی جاتی ہے کہ ہم لائٹس نہ جلائیں ؟ جاو¿ ، دھکا لگوانے کے لیے کچھ آدمی لے آو¿“
وہ گلیڈس کے ساتھ باہر نکل کر گھر میں واپس چلا آیا اور ڈرائیور پڑوس کے گھروںمیں دوسرے نوکروں کو مدد کے لیے ڈھونڈنے نکلا۔سڑک پر آدھا گھنٹہ آگے پیچھے کرنے کے بعدیا دھکا لگانے والوں کے زور و شور سے چلانے کے بعد گاڑی میں جان واپس آئی اور ایکزاسٹ سے دھویں کے کالے بادل نکلنے لگے__
جب وہ چلے تو اس کی گھڑی میں ساڑھے آٹھ بجے تھے ۔ کچھ میل دور ایک اپاہج سپاہی نے لفٹ کے لیے ہاتھ کا اشارہ کیا ۔
” روکو! “ نانکوف چلایا ۔ ڈرائیور نے بریک پراپنا پورا زور لگا دیا اور پھر حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔
” تم نے اس سپاہی کو ہاتھ ہلاتے ہوئے نہیں دیکھا ؟ واپس چلو اور اسے بٹھاو¿۔“
” معاف کیجئے سر ۔“ ڈرائیور نے کہا ۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ صاحب لفٹ دینے والے ہیں ۔“
”اگر معلوم نہیں تھا تو پوچھو۔ گاڑی واپس لو۔“
سپاہی، جو کہ نوجوان تھا ، پسینے سے شرابور، جیکٹ سی خاکی وردی پہنے تھا اور گھٹنے سے نیچے اس کی ٹانگ غائب تھی ۔ یہ جان کر کہ کار اس کے لیے رکی تھی وہ صرف احسامند ہی نہیں بلکہ حیرت زدہ بھی تھا ۔ اس نے پہلے لڑکی کو اپنی گھٹیا سی بیساکھیاں پکرائیں ، جنھیں ڈرائیور نے آگے دونوں سیٹوں کے بیچ ٹکا دیا، پھر وہ خود اندر بیٹھ گیا۔
” شکریہ سر!، اس نے گردن پیچھے گھماتے ہوئے کہا ۔ اس کی سانس بری طرح پھول رہی تھی ۔ میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں میڈم!“
” خوشی تو ہمیں ہے ۔“ نانکوف نے کہا ۔” یہ گھاو¿ کہاں لگا۔؟“
” اجومنی پر، سر ! د جنوری کو ۔“
کوئی بات نہیں ۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ہمیں بے حد فخر ہے تم نوجوانوں پر ۔ سب ختم ہو جانے پر تم لوگوں کو مناسب میڈل ملیں گے ۔یہ ہم یقین دلاتے ہیں۔“
” میں خدا سے آپ کے لیے دعا کروں گا سر!“
اگلے گھنٹے تک وہ خاموش رہے جیسے ہی گاڑی ایک پل کی طرف ڈھلوان سے اتری ، کوئی چلایا ، شاید ڈرائیور یا سپاہی ،” وہ آگے!۔“ بریک کی آواز چیخوں اور آسمان پھٹنے کی آواز میں گھل گئی ۔ گاڑی کے رکنے سے پہلے ہی دروازے کھل گئے اور وہ ادھا دھند جھاڑیوں کی جانب دوڑنے لگے ۔ گلیڈس ناناکوف سے آگے تھی ۔ تب اس شور شرابے میں انھوںنے سپاہی کے چیخنے کی آواز سنی ۔” یہاں آکر میرے لیے دروازہ کھولو !“ اسے گلیڈس کے رکنے کا احساس ہوا اور پھر وہ اس سے آگے نکل گیا ۔ اس نے گلیڈس کودوڑتے رہنے کا مشورہ دیا ۔ تبھی اس ماحول میں ایک اونچی سیٹی کی آواز برچھے کی طرح نیچے گری ، زور کی ہلچل کے ساتھ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور سب کچھ تتر بتر ہو گیا ۔ جس پیڑ سے وہ لگا کھڑا تھا ، وہ دور جھاڑیوں میں جا گرا ۔ پھر مزید ایک بھیانک سیٹی کی آواز اور آس پاس وہی توڑ پھوڑ ، ایک اور …. اور اس کے بعد نانکوف کو کچھ سنائی نہیں دیا۔
وہ اٹھا تو چاروں طرف رونے چلانے، چیخنے کی آوازیں تھیں ، دھواں تھا، بدبو اور چراند کا ماحول تھا۔ اس نے خود کو گھسیٹااور ان آوازوں کی طرف چل پرا۔
دور سے اس نے آنسوو¿ں اور خون سے لت پت ڈرائیور کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا ۔ پھر اس کی اپنی گاڑی کے پرخچوں اور لڑکی اور سپاہی کی گڈ مڈ لاشوںکی اور گئی …. اور وہ چلّا کرڈیہہ گیا۔

٭٭٭

انگریزی سے ترجمہ: قاسم ندیم

JadooN ki Talash by Ibne Safi

Articles

جڑوں کی تلاش ( مکمل ناول)

ابن صفی

 

ڈھمپ اینڈ کو کا دفتر بڑے مزے میں چل رہا تھا مگر اس کی منیجری کم از کم خاور کے بس کا روگ نہیں تھی کیونکہ بزنس کے چکروں کے لئے اس کا ذہن موزوں نہیں تھا۔ ذہن موزوں رہا ہو یا نہ رہا ہو لیکن صورت تو ضرور ایسی تھی کہ وہ کسی فرم کا منیجر معلوم ہوسکتا تھا! بھاری بھرکم بارعب چہرے والا۔۔!

چونکہ وہ بزنس کے معاملہ میں اناڑی تھا اس لئے اس کے کمرے میں لکڑی کی ایک دیوار سے پارٹیشنز کردیئے گئے تھے ایک طرف جولیانا بیٹھی ٹائپ رائٹر کھٹکا یا کرتی تھی اور دوسری طرف خاور اپنی مینجری سمیت براجمان رہا کرتا تھا اگر کبھی کوئی نیا گاہک آجاتا اور خاور کو اسے ڈیل کرنے میں کچھ دشواری محسوس ہوتی تو جولیا کاغذات کا پلندہ دبائے دستخط کرانے کے بہانے اس کی میز پر آجاتی اور دوران گفتگو میں دخل اندازی کرکے خاور کو سہارا دیئے رہتی۔۔ آج بھی کوئی بڑا گاہک خاور کی میز پر موجود تھا اور اپنے کام کے سلسلے میں بعض امور کی وضاحت چاہتا تھا! جولیا نے محسوس کیا کہ خاور رک رک کر گفتگو کر رہا ہے اور گاہک کے ٹوکنے پر بعض اوقات گڑبڑا بھی جاتا ہے۔۔!
وہ کچھ کاغذات سنبھالے ہوئے خاور کی میز پر جا پہنچی “اوہو۔ اچھا ہوا تم آگئیں۔۔” خاور نے کہا اور پھر گاہک سے بولا۔ ” یہ میری اسسٹنٹ ہیں سرسوکھے! میرا داہنا ہاتھ۔۔ اب دیکھیئے آپ جو کچھ چاہتے ہیں اس کام کا تعلق زیادہ تر انہیں کی ذات سے ہوگا!۔۔ حسابات وغیرہ کی پڑتال یہی کرتی ہیں”۔

جولیا نے اس گول مٹول آدمی پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالی۔۔ یہ کچھ وجہیہ ضرور رہا ہوگا! مگر اب مٹاپے نے اس کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس کا اظہار الفاظ میں ناممکن ہے! بس دیکھنے اور محسوس کرنے کی چیز تھی! قد تو متوسط ہی تھا مگر پھیلاو نے اس توسط کی ریڑھ مار کر رکھ دی تھی! صرف کناروں پر تھوڑے سے سیاہ بال تھے جو اگر سفید ہوتے تو اتنے برے نہ معلوم ہوتے۔ اس کے پیروں کے پاس ہی ایک ننھا منا سا خوبصورت کتا بیٹھا سرخ زبان نکالے ہانپ رہا تھا! جولیا نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھا۔ اس کے بال بڑے اور سفید تھے۔ کان البتہ گہرے کتھئی تھے اور یہی اس کا حسن تھا۔ “سرسوکھے رام۔۔ اور مس جولیانافٹنرواٹر۔۔!” خاور نے تعارف کرایا۔ سرسوکھے رام نے مسکرا کر سر کو خفیف سی جنبش دی۔

اور جولیانے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ ” میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں جناب ۔ وہ دل ہی دل میں ہنس رہی تھی۔ اتنی اردو تو سمجھتی ہی تھی کہ اس کے نام اور حبثہ کے تضاد سے لطف اندوز ہوسکتی!۔۔ کتنی ستم ظریفی تھی! یہ ہاتھی سا آدمی سوکھے رام کہلاتا تھا۔۔ یہی نہیں بلکہ خطاب یافتہ بھی تھا! وہ سوچ رہی تھی نہ ہوا عمران ورنہ مزہ آجاتا۔ “دیکھیئے بات دراصل یہ ہے کہ میں مستقل طور پر آپ لوگوں سے معاملہ کرنا چاہتا ہوں”۔ سرسوکھے نے کہا۔ “ہم ہر خدمت کے لئے حاضر ہیں”۔

” وہ۔۔ تو۔۔ تو۔۔ ٹھیک ہے”۔ سرسوکھے نے کرسی کی پشت سے ٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا! “مگر آپ کو اس سلسلہ میں تھوڑی سی دردسری بھی مول لینی پڑے گی! دیکھیئے بات دراصل یہ ہے۔۔” وہ سانس لینے کے لئے رک گیا اور جولیا جھک کر اس کے کتے کا سرہلاتی ہوئی بولی۔ “بڑا پیارا کتا ہے۔ سرسوکھے نے اس طرح چونک کر کتے کی طرف دیکھا جیسے اس کی موجودگی کا خیال ہی نہ رہا ہو۔ ” آپ کو پسند ہے!” اس نے مسکرا کر پوچھا۔ “بہت زیادہ۔۔” “تو میری طرف سے قبول فرمائیے۔۔ “اوہ۔۔ ارے نہیں۔۔!” جولیا خواہ مخواہ ہنس پڑی۔

“نہیں! اب میں اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاں گا۔ سرسوکھے نے کہا اور کتے سے بولا۔ ” لکی۔۔ یہ دیکھو اب یہ تمہاری مالکہ ہیں”۔
وہ دم ہلانے لگا اور سرسوکھے نے پھر اپنے بزنس کی بات شروع کردی۔ “قصہ دراصل یہ ہے کہ۔۔ اوہ ٹھہرئیے میں پہلے اپنا پورا تعارف تو کرادوں! میری فرم کا نام “سوکھے انٹرپرائزس” ہے۔۔ “اوہ۔۔ اچھا میں سمجھ گئی۔۔ “آپ جانتی ہیں!” وہ خوش ہو کر بولا۔ “خیر تو۔۔ میرا فارورڈنگ اور کلیرنگ کا الگ سے اسٹاف تھا! لیکن اب اس پر غیر ضروری مصارف ہونے لگے تھے! میں نے حساب لگایا تو اندازہ ہوا کہ اگر یہ کام کسی دوسری فرم کے سپرد کردیا جائے تو نسبتاسستے میں ہوگا”۔ “جی ہاں۔۔ عموما یہیں ہوتا ہے۔۔” جولیا سرہلا کر بولی۔

“بس تو پھر میں نے اپنے یہاں وہ سیکشن توڑ دیا ہے! “سرسوکھے نے کہا۔ “اور اب اس کے لئے آپ کی فرم سے معاملات طے کرنا چاہتا ہوں”۔
“غالبا مینجر صاحب آپ کو یہاں کے قواعد وضوابط سے آگاہ کرچکے ہیں”۔ “جی ہاں۔ اور میں ان سے کلی طور پر متفق ہوں۔ سرسوکھے نے کہا۔ “قواعد وضوابط کی بات نہیں تھی! میں تو دراصل آپ کے لئے تھوڑی سی دردسری بڑھانا چاہتا ہوں۔۔ “فرمائیے۔۔!”
“آپ کو ایک ایسا حساب بھی تیار کرنا ہوگا جس سے یہ ظاہر ہو کہ یہ کام میری ہی فرم کے ایک سیکشن نے کیا ہے”۔
خاور نے جولیاکی طرف دیکھا! اور جولیا جلدی سے بولی”یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کے لئے آپ کو زیادہ تشویش ہو۔ ایسا بھی ہوجائے گا”۔

“بس تو پھر ٹھیک ہے! کیا آپ کسی وقت میرے دفتر آنے کی زحمت گوارا کرسکتی ہیں؟”
“جب آپ فرمایئے۔۔!”
“نہیں بھئی جب آپ کو فرصت ملے۔ بس آنے سے پہلے فون کردیئے گا”۔
“بہتر ہے! میں آ کر دیکھ لوں گی کہ اب تک آپ کے یہاں حسابات کس طرح رکھے جاتے رہے ہیں”۔
“اوہ۔ شکریہ! یہ تو بڑی اچھی بات ہوگی! اس کے لئے آپ جو بھی حق المحنت تجویز کریں مجھے اس پر اعتراض نہ ہوگا۔۔!”
“حق المحنت کیسا”۔ جولیا نے حیرت سے کہا! “یہ تو میں اپنی فرم کے انٹرسٹ میں کروں گی۔ ہمارے لئے یہی کیا کم ہے کہ ہمیں اتنا بڑا اور مستقل کام مل رہا ہے”۔

“یہی بات۔۔!” سرسوکھے نے میز پر اس طرح گھونسہ مار کر کہا کہ اس کا سارا جسم تھلتھلا گیا!” یہی بات۔۔ یہی اسپرٹ کام کرنے والوں میں ہونی چاہیئے”۔ پھر خاور سے بولا۔ ” آپ خوش قسمت ہیں جناب کہ اتنے اچھے ساتھی آپ کے حصے میں آئے ہیں۔ “شکریہ۔۔” خاور نے سگار کا ڈبہ اسے پیش کیا۔ “بس جناب! اب اجازت دیجیئے!”۔۔ وہ اٹھتا ہوا بولا۔ پھر جولیا سے کہا۔ “میں آپ کا منتظر رہوں گا”۔۔ ساتھ ہی دم ہلاتے کتے سے بولا۔ “نہیں لکی تم میرے ساتھ نہیں جاسکتے! تمہاری مالکہ وہ ہیں!”

کتا جولیا کی طرف مڑا اور وہ متحیر رہ گئی کیونکہ اب وہ اس کی کرسی پر دونوں اگلے پنجے ٹیک کر کھڑا ہوگیا تھا اور اس کی ران سے اپنی تھوتھنی رگڑ رہا تھا۔ اس نے پھر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کی ننھی سی دم بڑی تیزی سے ہلنے لگی۔”کمال ہے!۔۔ جولیا اور خاور نے بیک وقت کہا۔ “کتوں کو ٹرینڈ کرنا میری ہابی ہے”۔ سرسوکھے مسکرایا۔ “میرے سارے کتے بڑے سمجھدار ہیں! اب یہ میرے ساتھ واپس جانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اور صرف آپ ہی کے ساتھ جائے گا! آپ کے دفتر کا کوئی دوسرا آدمی اسے اپنے ساتھ نہیں لے جاسکتا۔۔ اچھا بس اجازت دیجیئے!۔۔”

وہ ان دونوں سے مصافحہ کرکے رخصت ہوگا۔ اس کی چال بھی عجیب تھی بس ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کوئی گیند اچھلتا کودتا ہوا چل پڑا ہو۔ “کیا خیال ہے۔۔!” اس کے چلے جانے کے بعد خاور نے جولیا کی طرف دیکھا۔”حیرت انگیز۔۔” “ہر اعتبار سے۔۔ ہماری بڑی بدقسمتی ہے کہ اس شہر میں ایسے ایسے عجوبے موجود ہیں لیکن ہمیں ان کے دیدار نہیں ہوتے۔۔ تم نے اس کی چال پر غور کیا؟” “ہاں! وہی تو میرے لئے حیرت انگیز تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اتنا موٹا آدمی اتنی تیز رفتاری سے چل سکے گا”۔ “اس کی آنکھیں کتنی چمکیلی ہیں”۔ خاور نے کہا۔

“اور یہ کتا۔۔” جولیا نے کتے کی طرف دیکھ کر کہا۔ جو اب اس کے پیروں کے قریب بیٹھا زبان نکالے ہانپ رہا تھا۔۔ جوزف رانا پیلس ہی کا ہو کر رہ گیا تھا! آتشدان کا بت والے کیس کے بعد اس نے فلیٹ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ عمران کی تاکید تھی کہ وہ ادھر کا رخ بھی نہ کرے۔۔! اس طرح سلیمان یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہوسکا تھا کہ وہ بدستور عمران ہی کی خدمت کرتا رہے گا۔ رانا پیلس میں سب ہی تھے۔ نوکر چاکر، ڈرائیور، جوزف۔ حتی کہ بلیک زیروبھی (بوڑھے آدمی کے میک اپ میں)۔ لیکن رانا تہور علی صندوقی کا کہیں پتہ نہ تھا۔۔!

بلیک زیرو بوڑھے طاہر صاحب کے روپ میں رانا تہور علی صندوقی کا منیجر تھا، سمجھا جاتا تھا کہ وہ اس کی جائیداد کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
جوزف ہر وقت فوجی وردی میں رہتا تھا اور اس کے دونوں پہلوں سے ریوالور لٹکے رہتے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ فوجی وردی میں اس کی مارشل اسپرٹ ہر وقت بیدار رہتی ہے اور شراب نہ ہونے پر اسپرٹ ہی میں پانی ملا کر پینے سے بھی نہیں مرتی۔۔ جوزف بلانوش تھا! لیکن اسے معینہ مقدار سے زیادہ شراب نہیں ملتی تھی اس لئے وہ اکثر اسپرٹ میں پانی ملا کر پیا کرتا تھا۔۔ اس وقت وہ اسپرٹ کے نشے کی جھونک میں پورچ میں “اٹینشن” تھا!۔بالکل کسی بت کی طرح بیحس وحرکت۔ پلکیں ضرور جھپکتی رہتی تھیں۔ مگر بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے کسی الو کو پکڑ کر دھوپ میں بٹھا دیا گیا ہو۔۔! اور وہ خاموشی سے مجسم احتجاج بن کر تن بہ تقدیر ہوگیا ہو۔۔!

دفعتا ایک آدمی پشت پر ایک بہت بڑا تھیلا لادے ہوئے پھاٹک میں داخل ہوا لیکن جوزف کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ تو اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا!۔۔ مگر جیسے ہی وہ پورچ کے قریب آیا۔ اچانک جوزف دہاڑا۔ “ہالٹ۔۔ اور وہ آدمی بھڑک کر دوچار قدم کے فاصلے پر تھیلے سمیت ڈھیر ہوگیا۔ “گٹ اپ۔۔!” جوزف اپنی جگہ سے ہلے بغیر پھر دہاڑا۔۔ “ارے مار ڈالا۔۔!” وہ مفلوک الحال آدمی دونوں ہاتھوں سے سر تھام کر کراہا۔”کی در جاتا!”۔۔ جوزف غرایا۔ “بھیر جاتا۔۔ رانا صاحب کے پاس۔۔ ایسی ایسی جڑی بوٹیاں ہیں میرے پاس!۔۔”
“کیا باکتا۔۔!” جوزف پھر غرایا!

“آں۔۔ آجاں۔۔ پاس آجاں!” وہ آدمی خوف زدہ انداز میں ہاتھ ہلا ہلا کر پوچھتا رہا۔ اب جوزف خود ہی اپنی جگہ سے ہلا اور وہ آدمی تھیلا سمیٹتا ہوا پیچھے پھدک گیا! یہ دبلا تپلا اور چیچڑ چسم والا ایک بوڑھا آدمی تھا۔ آنکپیں اندر کو دھنسی ہوئی اور دھندلی تھیں!۔۔ لیکن ہاتھ پاں میں خاصی تیزی معلوم ہوتی تھی۔ “کیا باکتا۔۔!” جوزف اس کے سر پر پہنچ کر دہاڑا۔ “شش شش۔۔ شقاقل۔۔ مصری!” وہ تھیلیسے کوئی چیز نکال کر اسے دکھاتا ہوا پیچھے کھسکا “یو کیا ہائے۔۔!” جوزف غرایا۔ “اجی بس۔۔ کیا بتاں۔۔” وہ بہت تیزی سے بول رہا تھا! رر ۔۔ رانا صاحب قدر کریں گے”۔

“رانا صاحب نائیں ہائے۔۔ بھاگ جیا۔۔ “تو آپ ہی لڑائی کیجیئے صاحب۔۔ مزہ آجائے گا۔۔ جڑی بوٹیاں۔۔ ہا ہا۔۔ رانا صاحب کہاں ہیں “ام نائیں۔۔ جیان تا۔۔ جیا۔۔اتنے میں بلیک زیرو شور سن کر باہر آگیا۔ “کیا بات ہے۔۔” اس نے جوزف سے انگریزی میں پوچھا۔ “باس کو پوچھتا ہے! میں کہتا ہوں باس نہیں ہیں! وہ مجھے کوئی چیز دکھاتا ہے”۔ بلیک زیرو نے بوڑھے کی طرف دیکھا! وہ جھک جھک کر اسے سلام کر رہا تھا۔
“حضور۔۔ حضور۔۔ حضور عالی۔۔ سرکار۔ جڑی بوٹیاں ہیں میریپاس۔ بڑی دور سے رانا صاحب کا سن کر آیا ہوں”۔ بلیک زیرو نے جلدی میں کچھ سوچا اور آہستہ سے بولا۔ “ہاں کہو ہم سن رہے ہیں”۔

“جو کچھ کہیئے۔ حاضر کروں سرکار۔۔ “ہم کیا کہیں! ہم نے تمہیں کب بلایا تھا؟” “سرکار حضور۔۔ رانا صاحب بڑے معرکے کی بوٹیاں ہیں۔ بس طبعیت خوش ہوجائے گی “کیا ہمارے کسی دوست نے تمہیں بھیجا ہے؟” “جی حضور۔۔ ہم نے اس سرکار کی بڑی تعریف سنی ہے!”
“خیر اندر چل کر۔۔ ہمیں کچھ بوٹیاں دکھا! اور ان کے خواص بتا”۔ بوڑھا خوش نظر آنے لگا تھا اس نے تھیلا سمیٹ کر کاندھے پر رکھا اور بلیک زیرو کے پیچھے چلنے لگا۔ جوزف کھڑا احمقانہ انداز میں پلکیں جھپکاتا رہا!۔۔ پھر یک بیک وہ چونک کر اس بوڑھے آدمی کے پیچھے جھپٹا!
بلیک زیرو اور بوڑھا آدمی اندرداخل ہوچکے تھے! بلیک زیرو اسے ایک کمرے میں بٹھانے کا ارادہ کر ہی رہا تھا کہ اس نے جوزف کو اس پر جھپٹے دیکھا!۔۔

“ارے۔۔ ارے حضور”۔ بوڑھا بوکھلا گیا۔ بلیک زیرو بھی بھونچکا رہ گیا!۔۔ لیکن بوڑھا دوسرے ہی لمحے میں زمین پر تھا! اور جوزف نے اس کی میلی اور سال خوردہ پتلون کی جیب سے ایک چھوٹا سال پستول نکال لیا تھا۔ بوڑھا اس اچانک حملے سے بری طرح بوکھلا گیا تھا۔ اس لئے جوزف کی گرفت سے آزاد ہونے کے بعد بھی اسی طرح بیحس وحرکت پڑا رہا البتہ اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ پلکیں بھی چھپکا رہا تھا۔
“کیوں! تم کون ہو!۔۔” بلیک زیرو نے آنکھیں نکال کر بولا۔

“مم۔۔ میں نہیں جانتا صاحب!۔۔ کہ یہ خطرناک ۔۔ چیز میری جیب میں کس نے ڈالی تھی”۔ وہ ہانپتا ہوا بولا۔ “بکواس مت کرو”۔ بلیک زیرو غرایا! تم کون ہو؟” “جی میں جڑی بوٹیاں تلاش کرکے بیچتا ہوں۔۔ شوقین رئیس میری قدر کرتے ہیں”۔ “مگر تم پہلے تو کبھی یہاں نہیں آئے۔۔!” بلیک زیرو اسے گھورتا ہوا بولا۔

“جی بیشک میں پہلے کبھی نہیں آیا”۔ “کیوں نہیں آئے تھے؟” بلیک زیرو نے غصیلے لہجے میں کہا! اس کے ذہن میں اس وقت عمران رینگنے لگا تھا اور اس نے یہ سوال بالکل اسی کے سے انداز میں کیا تھا۔ “جج۔۔ جی۔۔ ای۔۔ کیا بتاں مجھے اس سرکار کا پتہ نہیں معلوم تھا! وہ تو ابھی ابھی ایک صاحب نے سڑک ہی پر بتایا تھا کہ اس محل میں جا۔ یہاں رانا صاحب رہتے ہیں! بہت بڑی سرکار ہے!۔۔”
“اس پستول کی بات کرو۔۔ “صص۔۔ صاحب! میں نہیں جانتا! بھلا میرے پاس پستول کا کیا کام! پتہ نہیں کس نے کیوں یہ حرکت کی ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا!۔۔ خدا کے لئے ان کالے صاحب کو یہاں سے ہٹا دیجیئے ورنہ میرا دم نکل جائے گا”۔

جوزف اسے خونخوار نظروں سے گھورتا ہوا بڑبڑا رہا تھا۔ “مسٹرٹائر۔ یہ کیا کہہ رہا ہے! مجھے بھی بتائیے”۔ “اس کو گردن سے پکڑ کر ٹانگ لو”۔ بلیک زیرو نے کہا۔ جوزف پستول کو بائیں ہاتھ میں سنبھال کر اس کی طرف بڑھا! لیکن اچانک ایسا معلوم ہواجیسے آنکھوں کے سامنے بجلی سی چمک گئی ہو! بوڑھا چکنے فرش پر پھسلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا تھا۔ “خبردار فائر نہ کرنا جوزف۔۔” بلیک زیرو چیخا۔
جوزف نے بوڑھے پر چھلانگ لگائی تھی اور اب فرش سے اٹھ رھا تھا کیونکہ بوڑھا تو چھلاوہ تھا چھلاوہ۔
جب تک جوزف اٹھتاوہ بیرونی برآمدے میں تھا۔ “فائر مت کرنا۔ بلیک زیرو پھر چیخا! ساتھ ہی اب وہ بھی تیزی دکھانے پر آمادہ ہوگیا تھا جوزف کو پھلانگتا ہوا وہ بھی بیرونی برآمدے میں آیا۔

یہاں دو ملازم کھڑے چیخ رہے تھے۔ “۔۔ صاحب وہ چھت پر ہے”۔ دونوں نے بیک وقت کہا۔ بلیک زیرو چکرا گیا! بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اتنی جلدی چھت پر بھی پہنچ جاتا!۔۔ نوکروں نے قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ انہوں نے اسے بندروں کی سی پھرتی سے اوپر جاتے دیکھا ہے۔ انہوں نے گندے پانی کے ایک موٹے پائپ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ جس سے ملی ہوئی پورچ کی کارنس تھی اور پورچ کی چھت بہت زیادہ اونچی نہیں تھی کوئی بھی پھرتیلا آدمی کم از کم پورچ کی چھت تک تو اتنے وقت میں پہنچ ہی سکتا تھا۔

پھر ذرا ہی سی دیر میں پوری عمارت چھان ماری گئی لیکن اس کا کہیں پتہ نہیں تھا!۔۔ اندر پہنچ کر بلیک زیرو نے محسوس کیا کہ اس چھلاوے نے اپنا تھیلا بھی نہیں چھوڑا تھا۔ “ٹائر صاب”۔ جوزف نے غصیلی آواز میں کہا۔ “مجھے فائر کرنے سے کیوں منع کیا تھا؟” “باس کا حکم ہے کہ اس محل میں کبھی گولی نہ چلائی جائے”۔ “چاہے کوئی یہاں آکر جوزف دی فائٹر کے منہ پر تھوک دے”۔ “خاموش رہو! باس کے حکم میں بحث کی گنجائش نہیں ہوا کرتی”۔ جوزف فوجیوں کے سے انداز میں اسے سلیوٹ کرکے اپنے کمرے کی طرف مڑ گیا۔ اس کا موڈ خراب ہوگیا تھا اس لئے وہ شراب کی بوتل پر ٹوٹ پڑا۔۔

آج صفدر تین دن بعد آفس میں داخل ہوا تھا۔ مگر اس حال میں کہ اس کے بال گردآلود تھے۔ لباس میلا اور شیو بڑھا ہوا تھا۔ دوسروں نے اسے حیرت سے دیکھا! اور اس نے ایک بہت بری خبر سنائی! “عمران مار ڈالا گیا” اور یہ خبر بم کی طرح ان پر گری! جولیا تو اس طرح اچھلی جیسے اس کی کرسی میں اچانک برقی رو دوڑا دی گئی ہو “کیا بک رہے ہو!۔۔ اس نے کانپتے ہوئے سسکی سی لی۔ وہ سب صفدر کے گرد اکھٹے ہوگئے! اس وقت یہاں صرف سیکرٹ سروس کے آدمی تھے۔ چونکہ چھٹی کا وقت ہوچکا تھا اس لئے دوڑ دھوپ کے کام کرنے والے جاچکے تھے۔
“ہاں! یہ حادثہ مجھے زندگی بھر یاد رہے گا!” صفدر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ میں تین دن سیاس کے ساتھ ہی تھا! ہم دونوں کیپٹن واجد والی تنظیم کے بقیہ افراد کی فکر میں تھے۔ تین دن سے ایک آدمی پر نظر تھی! آج اس کا تعاقب کرتے ہوئے ندی کی طرف نکل گئے! مقبرے کے پاس جو سرکنڈوں کی جھاڑیاں ہیں وہاں ہمیں گھیر لیا گیا! حملہ اچانک ہوا تھا! پھر یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ ہمیں دھوکے میں رکھا گیا تھا!

ہم تو دراصل یہ سمجھتے رہے تھے کہ اس تنظیم کا ایک آدمی ہماری نظروں میں آگیا ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ ہمیں نہایت اطمینان سے ختم کرنا چاہتے تھے۔ کسی ایسی جگہ گھیرنا چاہتے تھے جہاں سے بچ کر ہم نکل ہی نہ سکیں یعنی انہوں نے بھی وہ طریقہ اختیار کیا تھا جسے واجد کو پکڑنے کے لئے عمران کام میں لایا تھا”۔ “پھر کیا ہوا۔۔ باتوں میں نہ الجھا!” جولیا مضطربانہ انداز میں چیخی۔ “ہم پر چاروں طرف سے فائرنگ ہو رہی تھی اور ہم کھلے میں تھے۔ اچانک میں نے عمران کی چیخ سنی۔ وہ ٹیکرے سے ندی میں گر رہا تھا! میں نے اسے گرتے اور غرق ہوتے دیکھا۔ تم جانتے ہی ہو کہ ندی کا وہ کنارہ کتنا گہرا ہے جس کنارے پر مقبرہ ہے۔۔

“تم کیسے بچ گئے؟” “بس موت نہیں آئی تھی!” صفدر نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ “تب تو پھر تم آفس ناحق آئے۔۔! تمہیں ادھر کا رخ ہی نہ کرنا چاہیئے تھا! جا جتنی جلدی ممکن ہو اپنی قیام گاہ پر پہچنے کی کوشش کرو”۔ جولیا میز سے ٹکی کھڑی تھی۔ اس کا سر چکرارہا تھا۔ “نہیں میں یقین نہیں کرسکتی!۔۔ کبھی نہیں”۔ وہ کچھ دیر بعد ہذیانی انداز میں بولی۔ ” عمران نہیں مر سکتا! بکواس ہے۔ کبھی نہیں! تم جھوٹے ہو، وہ خواہ مخواہ ہنس پڑی! اس میں اس کے ارادے کو دخل نہیں تھا!۔۔

وہ سب اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگے۔ ان میں تنویر بھی تھا۔”مرنے کو تو ہم سب ہی اسی وقت مرسکتے ہیں!” اس نے کہا۔
“ہم سب مرسکتے ہیں! مگر عمران نہیں مرسکتا! اپنی بکواس بند کرو”۔ پھر جولیا نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے لیکن دوسری طرف سے جواب نہ ملا۔” تمہیں سرسوکھے کے ہاں جانا تھا”۔ خاور نے کہا۔ “جہنم میں گیا سرسوکھے”۔ جولیا حلق پھاڑ کر چیخی۔ ” کیا تم سب پاگل ہوگئے ہوگیا عمران کا مرجانا کوئی بات ہی نہیں ہے!”

“اس کی موت پر یقین آجانے کے بعد ہی ہم سوگ مناسکیں گے!” خاور نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ دفعتا لیفٹننٹ چوہان نے صفدر سے سوال کیا! “تمہیں وہ آدمی ملا کہاں تھا!۔۔ اور تمہیں یقین کیسے آیا تھا کہ وہ اسی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے”۔ “عمران نے مجھے یہ نہیں بتایا تھا”۔ “آخر وہ تمہیں ہی کیوں ایسے مہمات کے لئے منتخب کرتا ہے؟” “وہ کیوں کرنے لگا! مجھے ایکسٹو کی طرف سیہدایت ملی تھی۔۔ وہ سب پھر خاموش ہوگئے۔ جولیا میز پر سر ٹیکے بیٹھی تھی! اور تنویر غصیلی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ اٹھی اوراپنا بیگ سنبھال کر دروازے کی طرف بڑھی۔ “تم کہاں جارہی ہو؟” تنویر نے اسے ٹوکا۔

“شٹ اپ۔۔” وہ مڑ کر تیز لہجے میں بولی۔ “میں ایکسٹو کے علاوہ اور کسی کو جواب دہ نہیں ہوں”۔ وہ باہر نکل کر اپنی چھوٹی سی ٹوسیٹر میں بیٹھ گئی! لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ اسے کہاں جانا ہے۔۔ صفدر کو وہ ایک دیانت دار اور سنجیدہ آدمی سمجھتی تھی۔ اس قسم کی جھوٹ کی توقع اس کی ذات سے نہیں کی جاسکتی! اس نے سوچا ممکن ہے عمران نے اسے بھی ڈاج دیا ہو!۔۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ بچتا ہی رہے۔ کچھ دیر بعد ٹوسیٹر ایک پبلک فون بوتھ کے قریب رکی اور بوتھ میں آکر عمران کے نمبر ڈائیل کئے! اور دوسری طرف سے سلیمان نے جواب دیا! لیکن اس نے عمران کے متعلق لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پچھلے تین دنوں سے گھر نہیں آیا۔

جولیا نے سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ٹھنڈی سانس لی۔کیسے معلوم ہو کہ صفدر کا بیان کہاں تک درست ہے! آخر یہ کمبخت کیوں بچ گیا! پھر ذرا ہی سی دیر میں اسے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے صفدر ہی عمران کا قاتل ہو!۔۔ پھر اس نے غیر ارادی طور پر اپنی گاڑی ندی کی طرف جانے والی سڑک پر موڑ دی۔۔ سورج غروب ہونے والا تھا۔ مگر وہ دن رہے وہاں پہنچنا چاہتی تھی اس لئے کار کی رفتار خاصی تیز تھی۔ گھاٹ کی ڈھلان شروع ہوتے ہی اس نے بائیں جانب والے ایک کچے راستے پر گاڑی موڑ دی۔ اسی طرف سے وہ اس ٹیکرے تک پہنچ سکتی تھی جہاں ایک قدیم مقبرہ تھا۔ اور دور تک سرکنڈوں کا جنگل پھیلا ہواتھا۔

کچے راستے کی دونوں جانب جھنڈ بیریوں سے ڈھکے ہوئے اونچے اونچے ٹیلے تھے۔ مقبرے تک گاڑی نہیں جاسکتی تھی کیونکہ وہاں تک پہچنے کا راستہ ناہموار تھا! اس نے گاڑی روکی، انجن بند کیا اور نیچے اتر کر خالی خالی آنکھوں سے افق میں دیکھتی رہی جہاں سورج آسمان کو چھوتی ہوئی درختوں کی قطار کے پیچھے جھک چکا تھا۔ پھر وہ چونکی اور مقبرے کی طرف چل پڑی۔ ابھی دھندلکا نہیں پھیلا تھا!۔۔ دریا کی سطح پر ڈھلتی ہوئی روشنی کے رنگین لہرئے مچل رہے تھے۔۔ وہ ٹیکرے کے سرے کی جانب بڑھتی چلی گئی۔مگر کیا یہ حماقت ہی نہیں تھی!۔۔ اس نے سوچا! آخر وہ یہاں کیوں آئی ہے؟

ٹیکرے کے نیچے پانی پر ایک موٹر بوٹ نظر آئی جس میں کوئی نظر نہیں آرہا تھا! ہوسکتا ہے کچھ لوگ اس کے چھوٹے سے کیبن میں رہے ہوں۔
اچانک موٹر بوٹ سے ایک فائر ہوا۔ پانی پر ایک جگہ بلبلے اٹھے تھے اور گولی بھی ٹھیک اسی جگہ پڑی تھی۔کیبن کی کھڑکی سے رائفل کی نال پھر اندر چلی گئی اور اس کے بعد ایک آدمی سر نکال کر پانی کی سطح پر دیکھنے لگاجہاں ایک بڑی سی مردہ مچھلی ابھر آئی تھی!
پھر کیبن کی دوسری کھڑکی سے ایک سیاہ رنگ کا بڑا سا کتا پانی میں کودا اور تیرتا ہوا مچھلی تک جاپہنچا! اس کی دم منہ میں دبا کر وہ پھر موٹر بوٹ کی طرف مڑا تھا۔ دوسری بار جب موٹر بوٹ میں بیٹھے ہوئے آدمی نے اپنے دونوں ہاتھ کھڑکی سے نکال کر مچھلی کو سنبھالا۔ اس وقت جولیا نے اسے صاف پہچان لیا! وہ سرسوکھے تھا۔ اس نے مچھلی اندر کھینچ لی اور کتا بھی کھڑکی سے کیبن میں چلاگیا۔ تو وہ مچھلیوں کا شکار کھیل رہا تھا۔۔ جولیا ٹیکرے سے پرے کھسک آئی۔ اس نے سوچا اچھا ہی ہوا سرسوکھے کی نظر اس پر نہیں پڑی! ورنہ خواہ مخواہ تھوڑی دیر تک رسمی قسم کی گفتگو کرنی پڑتی! مگر اب وہ یہاں کیوں ٹھہرے! آئی ہی کیوں تھی؟ یہاں کیا ملتا!۔۔ اگر عمران مارا بھی گیا تو۔۔! وہ۔۔ وہ یک بیک چونک پڑی!اگر وہ یہاں مارا گیا ہوگا تو ایک آدھ بار لاش سطح پر ضرور ابھری ہوگی! مگر اسے کیا؟ ضروری نہیں ہے کہ کسی نے اسے دیکھا بھی ہو!۔۔

پھر وہ کیا کرے۔۔ کیا کرے۔۔ غیر ارادی طور پر وہ سرکنڈوں کی جھاڑیوں میں گھس پڑی! یہ ایک پتلی سی پگڈنڈی تھی جو سرکنڈوں کی جھاڑیوں سے گذر کر کسی نامعلوم مقام تک جاتی تھی۔ کچھ دور پر اسے ریوالور کے چند خالی کارتوس پڑے ملے اور صفدر کے بیان کی تصدیق ہوگئی! ویسے وہ تو اس پر یوں بھی اعتماد کرتی تھی۔ مگر سوال یہ تھا کہ اب جولیا کیا کرے۔۔ یہ بات تو خود صفدر کو بھی نہیں معلوم تھی کہ عمران نے اس آدمی کو کہاں سے کھود نکالا تھا جس کے تعاقب میں وہ دونوں یہاں تک آئے تھے اور یہ حادثہ پیش آیا تھا!

اچانک کوئی چیز اس کی پشت سے ٹکرائی اور وہ اچھل پڑی۔ بس غنیمت یہی تھااس کے حلق سے کسی قسم کی آواز نہیں نکلی تھی ورنہ وہ چیخ ہی ہوتی۔ اس نے جھک کر اس کاغذ کو اٹھایا جو شاید کسی وزنی چیز پر لپیٹ کر پھیکا گیا تھا۔ کاغذ کی تہوں کے درمیان ایک چھوٹی سی کنکری تھی۔ کاغذ پر تحریر تھا: “جولیا۔ دفع ہوجا یہاں سے۔۔ کھیل مت بگاڑو” ایک بیساختہ قسم کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی! دل پر سے بوجھ سا ہٹ گیا!۔۔ اور وہ تیزی سے واپسی کے لئے مڑ گئی! طرز تحریر عمران ہی کا سا تھا۔

واپسی بڑے سکون کے ساتھ ہوئی۔ جولیا کا دل چاہ رہا تھا کہ قہقہے لگائے، ہنستی ہی رہے!۔۔ لیکن وہ صرف ذہنی مسرت پر ہی قناعت کئے ہوئے کار ڈرائیو کرتی رہی، گھر پہنچ کر اس نے ٹھنڈی پھواروں سے غسل کیا اور ڈریسنگ گان پہنے ہوئے خواب گاہ میں چلی گئی۔ آج کی تھکن اسے بڑی لذت انگیز محسوس ہو رہی تھی، اس نے ہیٹر پر چائے کے لئے پانی رکھتے ہوئے سوچا! اگر اس وقت آجائے عمران۔۔؟ اچھی طرح خبر لوں اس کی۔
دفعتا فون کی گھنٹی بجی!
جولیا نے ہاتھ بڑھا کر رسیور اٹھا لیا۔
“ہیلو۔”
“ایکس ٹو۔” دوسری طرف سے آواز آئی۔
“یس سر۔”
“تم ندی کی طرف کیوں گئی تھیں؟”
“اوہ۔۔ جناب۔۔ وہ۔۔ عمران۔۔”
“ہاں مجھے علم ہے۔۔ مگر تم کیوں گئی تھیں؟”
“صص۔۔ صفدر۔۔!”
تمہارے علاوہ۔۔ اور کوئی کیوں نہیں گیا؟”
“پتہ نہیں جناب!” جولیا جھنجلا گئی۔
“وہ جانتے ہیں کہ انہیں اتنا ہی کرنا ہے جتنا کہا جائے۔۔!”
“یعنی میں۔۔ اس کی موت کی خبر سنتی۔۔ اور۔۔!”
“تجہیز و تکفین کی فکر نہ کرتی!” ایکس ٹو نے طنزیہ لہجے میں جملہ پورا کردیا!
“تم کون ہوتی ہو اس کی فکر کرنے والی! اپنی حدود سے باہر قدم نہ نکالا کرو”۔
“بہت بہتر جناب!” جولیا کسی سلگتی ہوئی لکڑی کی چٹخی!
“تمہارا لہجہ!۔۔ تم ہوش میں ہو یا نہیں!” ایکس ٹو اپنے مخصوص خونخوار لہجے میں غرایا!
“میرا محکمہ عشقیہ ڈراموں کے ریہرسل کے لئے نہیں ہے! سمجھیں۔۔!”
“جج۔۔ جی۔۔ ہاں”۔ جولیا بوکھلا گئی۔ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا۔ وہ رسیور رکھ کر آرام کرسی کی پشت سے ٹک گئی۔ اس کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔ اور دل بہت شدت سے دھڑک رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سکون ہوتا گیا اور اسے ایکس ٹو پر اس زور سے غصہ آیا کہ ذہنی طور پر ناچ کر رہ گئی۔۔ اسے کیا حق حاصل ہے۔ وہ کون ہوتا ہے۔ میرے نجی معاملات میں دخل دینے والا ظالم۔۔ کمینہ۔۔ ذلیل۔۔!
فون کی گھنٹی پھر بجی!

اس نے برا سا منہ بنا کر رسیور اٹھا لیا! اور “ہیلو” کہتے وقت بھی اس کا لہجہ زہریلا ہی رہا!
“مس فٹز واٹر پلیز۔۔!” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “ہاں۔۔! جولیا نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیا۔۔ وہ بولنے والے کی آواز نہیں پہچان سکی تھی۔ “میں سوکھے رام بول رہا ہوں” “اوہ۔۔! فرمائیے۔۔ جناب۔۔” “میں اس وقت اپنے آفس میں تنہا ہوں! کیا آپ تکلیف کریں گی”۔
“اس وقت!” جولیا نے حیرت سے کہا اور پھر کسی سوچ میں پڑ گئی۔ “آپ نہیں سمجھ سکتیں مس فٹز واٹر۔۔ میں دراصل آپ کو اپنے اعتماد میں لینا چاہتا ہوں! میری بدنصیبی کی داستان طویل ہے”۔

“میں بالکل نہیں سمجھی! سرسوکھے۔۔ پلیز، “فون پر کچھ نہیں کہہ سکتا، “اچھا سر سوکھے! میں آرہی ہوں! مگر آپ کو میرے گھر کانمبر کیسے ملا؟” “بس اتفاق ہی سے میں مچھلیوں کا شکار کھیل کر واپس آرہا تھا کہ آپ کے دفتر کے ایک صاحب نظر آگئے۔ انہوں نے اپنا نام بتایا تھا لیکن صرف صورت آشنائی کی حد تک میری یادداشت قابل رشک ہے! نام وغیرہ البتہ یاد نہیں رہتے بہرحال میں نے ان سے آپ کیمتعلق پوچھا تھا انہوں نے بتایا کہ آپ اس وقت گھر ہی پر ملیں گی۔ انہوں نے فون نمبر بھی بتایا ، “خیر۔ میں آرہی ہوں”۔ جولیا نے کہا اور سلسلہ منقطع کرکے خاور کے نمبر ڈائیل کئے۔ وہ گھر ہی پر موجود تھا۔

“سر سوکھے مجھے اس وقت اپنے آفس میں طلب کر رہا!” جولیا نے کہا۔ “ضرور جا۔۔ ذرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیئے۔ تمہاری حفاظت کا انتظام بھی کردیا جائے گا”۔ “مگر میں نہیں سمجھ سکتی؟” “ٹھہرو!” خاور نے جملہ پورا نہیں ہونے دیا۔ ” ایکس ٹو کی ہدایت ہے کہ اگر آج کل کوئی نیا گاہک بنے تو اسے ہر ممکن رعایت دی جائے! میں سر سوکھے کا معاملہ اس کے علم میں لاچکا ہوں”۔ “اور اگر میں جانے سے انکار کردوں تو۔۔”؟ “میں اسے محض مذاق سمجھوں گا! کیونکہ تم ناسمجھ نہیں ہو”۔

جولیا نے اپنی اور سرسوکھے رام کی گفتگو دہراتے ہوئے کہا۔ “وہ آدمی اب تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔۔!”
“پرواہ مت کرو! ایکس ٹو اس کے معاملے میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہا ہے”۔ جولیا نے پھر برا سا منہ بنایا اور سلسلہ منقطع کردیا۔
تھوڑی دیر بعد پھر اس کی ٹوسیٹر شہر کے بارونق بازاروں میں دوڑ رہی تھی۔ تقریبا پندرہ منٹ بعد اس نے عمارت کے سامنے کار روکی جس کی دوسری منزل پر سرسوکھے انٹرپرائزس کا دفتر تھا۔ کھڑکیوں میں اسے روشنی نظر آئی۔ چوتھی یا پانچویں منزل کی بات ہوتی تو وہ لفٹ ہی استعمال کرتی! لیکن دوسری منزل کے لئے تو زینے ہی مناسب تھے!

سر سوکھے نے بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا! لیکن جولیا محسوس کر رہی تھی کہ وہ کچھ خائف سا نظر آرہا ہے!
“بیٹھیئے بیٹھیئے! مس فٹز واٹر میں بیحد مسرور ہوں کہ آپ میری درخواست پر تشریف لائیں۔۔!” وہ ہانپتا ہوا بولا۔ جولیا ایک کرسکی کھسکا کر بیٹھ گئی، میں آپ کا زیادہ وقت نہیں برباد کروں گا مس فٹز واٹر!” سوکھے رام پھر بولا۔ “اوہ۔۔ ٹھہرئیے! آپ کیا پئیں گی۔ اس وقت تو میں ی آپ کو سرو کروں گا کیوں کہ اس وقت یہاں ہم دونوں کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں ہے”۔

“اوہ شکریہ! میں کسی چیز کی بھی ضرورت نہیں محسوس کر رہی اور پھر میں تو ویسے بھی شراب نہیں پیتی۔ “گڈ!۔۔” سرسوکھے کی آنکھیں بچکانے انداز میں چمک اٹھیں! وہ اسے تحسین آمیز نظروں سے دیکھتا ہوا بولا۔ “اگر آپ شراب نہیں پیتیں تو میں یہی کہوں گا کہ آپ ہر اعتماد کیا جاسکتا ہے! بڑی پختہ قوت ارادی رکھتی ہیں وہ لڑکیاں جو شراب نہیں پیتیں”۔ “شکریہ ! جی ہاں میں بھی سمجھتی ہوں! خیر آپ کیا کہنے والے تھے؟”

جواب میں سرسوکھے نے پہلے تو ایک ٹھنڈی سانس لی اور پھر بولا۔ ” میں نے اپنا فارورڈنگ اور کلیرنگ کا شعبہ بلا وجہ نہیں ختم کیا! میں مجبور تھا! نہ کرتا تو بہت بڑی مصیبت میں پڑ جاتا! لیکن ٹھہریئے ۔۔ میں آپ پر یہ بھی واضح کرتا چلو ں مس فٹز واٹر کہ آپ کو یہ سب باتیں کیوں بتا رہا ہوں! میں جانتا ہوں کہ عورتیں طبعا” رحم دل ہمدرد ہوتی ہیں”۔وہ خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا! اور جولیا سوچنے لگی کہ اس گفتگو کا ماحصل کیا ہوگا جس کے سر پیر کا ابھی تک تو پتہ نہیں چل سکا۔ “اوہ۔۔ میں خاموش کیوں ہوگیا!” سرسوکھے چونک کر بولا! پھر خفیف سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر نظر آئی اور اس نے کہا۔ “میری باتیں اکثر بیربط ہوجاتی ہیں مس فٹز واٹر! مگر ٹھہریئے میں ایک نقطے کی وضاحت کرنے کی کوشش کروں گا! میرے فاورڈنگ اینڈ کلیرنگ سیکشن میں کوئی بہت ہی بدمعاش آدمی آگھسا تھا اور ایسے انداز میں اسمگلنگ کررہا تھا کہ آئی گئی میرے ہی سرجاتی۔ لکڑی کی پیٹیوں میں باہر سے مال پیک ہو کر آتا تھا لیکن اس کے بعد پتہ نہیں چلتا تھا کہ خالی پیٹیاں کہاں غائب ہوجاتی تھیں!”

“میں نہیں سمجھی۔ “خالی پیٹیاں۔۔ غائب ہوجاتی تھیں۔ “تو اس کا یہ مطلب ہے کہ آپ فرم رٹیل بھی کرتی ہے۔۔!” جولیا نے حیرت سے کہا۔ پیٹیوں کا کھول ڈالا جانا تو یہی ظاہر کرتا ہے۔ “گڈ! آپ واقعئی ذہین ہیں! مجھ سے اندازے کی غلطی نہیں ہوئی”۔ سرسوکھے خوش ہو کر بولا! “میں ساری پیٹیوں کی بات نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ میری مراد صرف ان بڑی پیٹیوں سے تھی جن میں مشینوں کے پرزے پیک ہو کر آتے ہیں! وہ پیٹیاں تو لامحالہ کھولی جاتی تھیں کیوں کہ ان مشینوں کی تیاری فرم ہی کراتی ہے! یعنی وہ یہیں اسمبل ہوتی ہیں”۔
“خیر۔۔ اچھا! “جولیا سرہلا کر بولی۔ ” لیکن آپ خالی پیٹیوں کے متعلق کچھ کہہ رہے تھے۔ “وہ پیٹیاں غائب ہوجاتی تھیں”!

“اچھا چلیئے!” جولیا مسکرا کر بولی۔ “اگر وہ پیٹیاں غائب ہوجاتی ہیں تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے۔ کوئی غریب آدمی انہیں بیچ کر اپنا بھلا کرلیتا ہوگا”۔ “اوہ یہی تو آپ نہیں سمجھتیں مس فٹز واٹر۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ وہ پیٹیاں فائیو پلائی وڈ کی ہوتی ہیں۔۔مطلب سمجھتی ہیں نا آپ۔۔ خیر میں شروع سے بتاتا ہوں! ۔۔ مجھے کبھی ان پیٹیوں کا خیال بھی نہ آتا۔ مجھے بھلا اتنی فرصت کہاں کہ کاروبار کی ذرا ذرا سی تفصیل ذہن میں رکھتا پھروں۔۔ بات دراصل یہ ہوئی کہ ایک دوران میں کوٹھی پر لکڑی کا کام ہو رہا تھا۔ ایک جگہ لکڑی کا پارٹیشن ہونا تھا! خیال یہ تھا کہ دیوار کے فریم میں ہارڈ بورڈ لگا دیا جائے۔ لیکن کسی نے فائیو پلائی وڈ کی ان پیٹیوں کا خیال دلا دیا! میں نے سوچا کہ ہارڈ بورڈ سے بہتر وہی رہے گی پلائی وڈ۔۔ لہذا میں اتفاق سے خود ہی گوڈان کی طرف جا نکلا وہاں اسی دن کچھ پیٹیاں کھولی گئی تھیں۔

چوکیدار تنہا تھا اور وہ خود ہی پیٹیاں کھول کر ان میں سے پرزے نکال رہا تھا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی! کیونکہ یہ کام تو کسی ذمہ دار آدمی کے سامنے ہونا چاہیئے تھا اور پھر یہ چوکیدار کی ڈیوٹی نہیں تھی۔ میں نے اس سے اس کے متعلق استفسار کیا اور اس نے بوکھلا کر جواب دیا کہ گوڈان انچارج نے اسے یہی ہدایت دی تھی!۔۔ میں نے سوچا کہ انچارج سے جواب طلب کروں گا۔ اور چوکیدار سے کہا کہ وہ ایک ٹھیلا لائے اور جتنی جتنی بھی پیٹیاں خالی ہوگئی ہیں انہیں کوٹھی میں بھجوادے۔۔ وہ ٹھیلا لینے کے لئے دوڑا گیا۔ لیکن پھر اس کی واپسی نہ ہوئی! اوہ۔۔ خوب یاد آیا مس فٹز واٹر۔۔ لکی تو ٹھیک ہے نا!۔۔ وہ ایک فرمانبردار کتا ہے۔۔ آپ کو یقینا اس سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔۔!”
“بہترین ہے۔۔!” جولیا نے کہا۔

“میرے پاس کئی قسم کے بہترین کتے ہیں! بہتری کمیاب نسلیں بھی ہیں! کسی دن کوٹھی آئیے آپ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گی”۔
“آپ یہ فرما رہے تھے کہ چوکیدار غائب ہوگیا۔۔” “اوہ۔۔ دیکھیئے! بس اسی طرح ذہن بہک جاتا ہے! ہاں تو وہ مردودبھاگ گیا۔ میں نے ایک دوسرے گوڈان کے چوکیدار سے ٹھیلا منگوایا! اس دوران میں، میں نے ایک پیٹی کا ڈھکن اٹھایا اور اندازہ کرنے لگا کہ وہ ہارڈ بورڈ سے بہتر ثابت ہوگا یا نہیں! اچانک اس کے ایک گوشے پر نظر رک گئی اور میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ جانتی ہیں! میں نے کیا دیکھا!۔۔ لکڑیوں کی پرت میں ایک پرت سونے کی بھی تھی! سونے کا پتر۔۔ اسے بڑی خوبصورتی سے لکڑی کے پرتوں کے درمیان جمایا گیا تھا۔۔ شائد پیٹی کی کیلیں نکالتے وقت ایک گوشے کی لکڑی ادھڑ گئی تھی اور پرت ظاہر ہوگئی تھی!

میں نے فورا ہی گودام میں تالا ڈال دیا اور کوٹھی پر فون کرکے چار معتبر اور مسلح چوکیدار وہاں طلب کتے اور انہیں ہدایت کردی کہ کسی کو گودام کے قریب بھی نہ آنے دیں!۔۔ میں آپ سے کیا بتاں مس فٹز واٹر! ان تختوں سے تقریبا اٹھائیس سیر سونا برآمد ہوا تھا!۔۔ لیکن میں نے کسی کو بھی اس کی خبر نہ ہونے دی۔ آپ خود ہی سوچیئے اگر یہ بات کھل جاتی تو کون یقین کرتا کہ سرسوکھے کے ہاتھ صاف ہیں! کون یقین کرتا!۔۔ گوڈان انچارج سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے چوکیدار کسی بڑے آفیسر کا حوالہ دے کہ اسے مطمئن کردیتا تھا! چونکہ اس سلسلے میں کبھی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی تھی اس لئے اس نے بھی اس پر دھیان نہیں دیا۔

اس طرح وہ ایک دردسری سے بچا رہتا تھا ورنہ اسے بھی کھولی جانے والی پیٹیوں کا باقاعدہ طور پر ریکارڈ رکھنا پڑتا! میں نے اس سے پہلے کی خالی پیٹیوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے جنرل منیجر کی درجنوں چھٹیاں دکھائیں جن میں وقتا فوقتا خالی پیٹیاں طلب کی گئی تھیں! اس نیبتایا کہ کچھ کباڑی قسم کے لوگ آتے تھے اور پیٹیاں وصول کرکے رسیدیں دے جاتے تھے! اس نے رسیدیں بھی دکھائیں!۔۔ میں نے جنرل منیجر سے انکوائری کی! مگر اس نے چھٹیوں کے دستخط اپنے نہیں تسلیم کئے! اس پر میں نے ایک ایکسپرٹ کی خدمات حاصل کیں جس نے جنرل منیجر کے بیان کی تصدیق کردی! یعنی وہ دستخط سچ مچ جعلی تھے! بس یہیں سے انکوائری کا خاتمہ ہوگیا! میں اب کس کے گریبان میں ہاتھ ڈالتا!”۔۔

“آپ نے پولیس کو اطلاع دی ہوتی!” جولیا نے کہا۔ “شائد آپ میری دشواریوں کو ابھی تک نہیں سمجھیں! یقین کیجیئے کہ میں قانونی معاملات میں بیحد ڈرپوک قسم کا آدمی ہوں۔ اگر کہیں پولیس نے الٹا مجھ پر ہی نمدہ کس دیا تو کیا ہوگا؟ میں تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہوں گا! اوہ مس فٹز واٹر۔ بہرحال مجھے اپنے فاورڈنگ اینڈ کلیرنگ کے عملہ پر شبہ تھا اس لئے میں نے وہ سیکشن ہی توڑ دیا! اور اس کے پورے عملے کو برطرف کردیا۔۔ “چوکیدار کا کیا ہوا تھا؟” جولیا نے پوچھا۔ “اوہ۔ اس کا آج تک پتہ نہیں لگا سکا! وہ مل جاتا تو اتنی درسری ہی کیوں مول لی جاتی۔ اس سے تو سب کچھ معلوم ہوسکتا تھا! اب آپ میری مدد کیجیئے!”۔

“مگر میں اس سلسلے میں کیا کرسکتی ہوں؟” سرسوکھے کی ٹھنڈی سانس کمرے میں گونجی اور وہ تھوڑی دیر بعد مسکرا کر بولا! “اب مجھے پوری بات شروع سے بتانی پڑے گی۔۔ بات دراصل یہ ہے مس واٹر۔ میرے یہاں ایک اینگلو برمیز ٹائپسٹ تھی مس روشی۔ وہ آج کل رنگون گئی ہوئی ہے۔ اس نے ایک بار کسی مسٹر عمران کا تذکرہ کیا تھا جو پرائیویٹ سراغرساں ہیں!۔۔ اتفاق سے ایک دن مجھے اس نیدور سے مسٹر عمران کی زیارت بھی کرائی تھی اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ ان کے ساتھ تھیں”۔
“میں۔۔؟”

“جی ہاں۔ آپ۔۔ دیکھیئے مجھے شکلیں ہمیشہ یادر رہتی ہیں یہ اور بات ہے کبھی کبھی نام بھول جاتا ہوں مگر یہ بھی کم ہی ہوتا ہے! اس دوران میں جب یہ واقع پیش آیا مجھے مسٹر عمران کا خیال آیا تھا! مگر افسوس کہ مجھے ان کا پتہ نہیں معلوم تھا! اچانک ایک دن آپ نظر آگئیں! آپ اس وقت آفس میں داخل ہو رہی تھیں! میں نہیں جانتا تھا کہ آپ وہیں کام کرتی ہیں! میں نے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ آپ وہیں کام کرتی ہیں! میں سوچا واہ سرسوکھے تو بہت خوش نصیب ہو۔ تمہارا فارورڈنگ اور کلیرنگ کا کام بھی ہوتا رہے گا اور عمران ساحب تک پہنچ بھی ہوجائے گی۔۔ واہ۔۔ اور آج کل میرے ستارے بھی اچھے ہیں مس فٹز واٹر۔۔ اگر میں آپ کو صرف واٹر کہوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ فٹز واٹر کہنے میں زبان لڑکھڑاتی ہے”۔

“آپ مجھے صرف جولیانا کہہ سکتے ہیں!” جولیا بڑے دلاویز انداز میں مسکرائی۔ “اوہ۔ بہت بہت شکریہ!”۔ وہ خوش ہو کر بولا۔ “میں آپ کا بیحد ممنون ہوں اس وقت میرے دل پر سے ایک بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا ہے! صرف آپ ہی سے میں یہ بات کہہ سکا ہوں!۔۔ اوہ مس فٹز واٹر میں کتنا خوش نصیب ہوں دراصل اسی گفتگو کے لئے میں نے آپ کو تکلیف دی تھی اور نہ حسابات تو سب جگہ کے یکساں ہوتے ہیں”۔
“پھر آپ کیا چاہتے ہیں۔۔؟”

“مجھے عمران صاحب سے ملائیے! ان سے سفارش کیجیئے۔ انہیں مجبورکیجیئے کہ اس معاملہ کا پتہ لگائیں۔ حالانکہ میں نے فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ کے عملے کو الگ کردیا ہے مگر کون جانے اصل چور اب بھی یہیں موجود ہو اور کبھی اس کی ذات سے مجھے کوئی بڑا نقصان پہنچ جائے۔ میں نجی طورپر اس کی تحقیقات چاہتا ہوں۔ پولیس کو کانوں کان خبر نہ ہونی چاہیئے”۔ “دیکھیئے میں کوشش کروں گی! ویسے بہت دنوں سے عمران سے ملاقات نہیں ہوئی”۔ “کوشش نہیں! بلکہ یہ کام ضرور کیجیئے گا مس جولیانا۔۔ اخراجات کی پروا مجھے نہ ہوگی”۔
“آج آپ مقبرے کے نیچے مچھلیوں کا شکار کھیل رہے تھے؟” جولیا مسکرا کر بولی اور آپ کا اسپینیئل شکار کی ہوئی مچھلیاں گھسیٹ رہا تھا”۔

“شکار تو میں یقینا کھیل رہا تھا!”۔ اس نے حیرت سے کہا۔ “مگر آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ مقبرے کے نیچے کھیل رہا تھا”۔
“میں نے آپ کو دیکھا تھا۔۔” “کمال ہے! آپ وہاں کہاں۔۔؟” “میں بھی اوپر جھاڑیوں میں تیتر تلاش کر رہی تھی! کچھ فائر بھی کئے تھے! کیا آپ نے میرے فائروں کی آوازیں نہیں سنی تھیں؟” “قطعی نہیں یا پھر ہوسکتا ہے میں نے دھیان نہ دیا ہو۔ اور تو کیا آپ بندوق چلاتی ہیں۔۔؟”
“مجھے بندوق سے عشق ہے”۔ “شاندار!۔۔” سرسوکھے بچکانہ انداز میں چیخا۔ اس کی آنکھوں کی چمک میں بھی بچپن ہی جھلک رہا تھا!۔۔ “آپ بندوق چلاتی ہیں! شاندار۔۔ آپ واقعئی خوب ہیں۔ مگر آپ نے مجھے آواز کیوں نہیں دی تھی!۔۔ آہا کبھی میرے ساتھ شکار پر چلیئے”۔
“فرصت کہاں ملتی ہے مجھے۔۔!” جولیا مسکرائی۔

“اوہ۔۔ تو آپ کو بہت کام کرنا پڑتا ہے”۔۔!
“بہت زیادہ۔۔!”
“بدتمیزی ضرور ہے مگر کیا پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کو تنخواہ کتنی ملتی ہے؟”
“مجھے فی الحال وہاں ساڑھے چار سو مل رہے ہیں”۔
“بس۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے! آپ پر اتنی ذمہ داریاں ہیں! اور تنخواہ! آپ جانتی ہیں روشنی کو یہاں کتنا ملتاتھا؟”
جولیا نے نفی میں سر ہلادیا!
“چھ سو!”
“اوہ۔۔!” جولیا نے خواہ مخواہ حیرت ظاہر کی۔ وہ سرسوکھے کو بد دل نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ “چھ سو” کہتے وقت اس کا لہجہ فخریہ تھا۔ “اور آپ کی خدمات کا معاوضہ تو ایک ہزار سے کسی طرح بھی کم نہ ہونا چاہیئے؟” جولیا صرف مسکرا کر رہ گئی۔ انداز خاکسارانہ تھا۔ “میں اسے بیہودگی تصور کرتا ہوں کہ آپ کو آفر دوں!۔۔ بہرحال جب بھی آپ وہاں سے بددل ہوں۔ سوکھے انٹرپرائزس کے دروازے اپنے لئے کھلے پائیں گی”۔
“بہت بہت شکریہ جناب!”

دفعتا سر سوکھے نے انگلی اٹھا کر اسے خاموش رہنے کاا شارہ کیا اور اس کے چہرے پر ایسے آثار نظر آئے جیسے کسی کی آہٹ سن رہا ہو! جولیا بھی ساکت ہوگئی اس نے بھی کسی قسم کی آواز سنی تھی۔ اچانک سرسوکھے خوف زدہ انداز میں دہاڑا۔ “کون ہے؟”
کسی کمرے میں کوئی وزنی چیز گری اور بھاگتے ہوئے قدموں کی آواز آئی ایسا لگا جیسے کوئی دوڑتا ہوا زینے طے کر رہا ہو۔۔!
سرسوکھنے جیب سے پستول نکال لیا! لیکن جولیا اس کے چہرے پر خوف کے آثار دیکھ رہی تھی۔ “ٹھہریئے”۔ جولیا اٹھتی ہوئی بولی۔ “میں دیکھتی ہوں”۔

“اوہ۔۔ نہیں! پتہ نہیں کون تھا؟ بہرحال آپ نے دیکھ لیا تھا!” اس نے کہااور دروازے کی طرف بڑھا۔ جولیا بھی اس کے پیچھے بڑھی! انہوں نے سارے کمرے دیکھ ڈالے۔ برابر والے کمرے میں دیوار کے قریب ایک چھوٹی سی میز گری ہوئی نظر آئی۔ “یہ دیکھیئے۔۔” سرسوکھے نے کہا۔ “کوئی اس میز پر کھڑا ہو کر روشندان سے ہماری گفتگو سن رہا تھا، جولیا نے میز کی سطح پر ربر سول جوتے کے نشانات دیکھے۔
“آپ اس میز کو کسی کمرے میں مقفل کرادیجیئے! یہ نشانات عمران کے لئے کارآمد ہوسکتے ہیں”، جولیا نہ کہا۔”گڈ۔۔!” وہ خوش ہو کر بولا! “اب دیکھیئے یہ آپ کی ذہانت ہی تو ہے! مجھے اس کا خیال نہیں آیا تھا۔ اوہ مس جولیانامجھے یقین ہے کہ اب میری پریشانیوں کا دور ختم ہوجائے گا۔ مجھے یقین ہے”۔

“آپ بالکل فکر نہ کریں۔۔” جولیا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ “آپ کے پاس بلڈ ہانڈز بھی ہیں”!
“نہیں۔۔ کیوں۔۔ “اگر کوئی ہوتا تو اسے اس آدمی کی راہ پر بہ آسانی لگایا جاسکتا تھا جو اس وقت ہماری گفتگو سن رہا تھا!”
سرسوکھے کی آنکھیں حیرت سے پھٹی رہ گئیں۔ “اوہ۔۔ مس جولیانا! آپ کی ذہانت کی کہاں تک تعریف کی جائے آپ تو بہت گریٹ ہیں! عمران صاحب کی صحبت نے آپ کو بھی اچھا خاصہ جاسوس بنادیا ہے۔ کاش آپ ہمارے ساتھ ہوتیں! میں چین کی نیند لے سکتا! ساری تشویش ختم ہوجاتی۔۔ سرسوکھے نے خاموش ہو کر ٹھنڈی سانس لی۔

اندھیری رات تھی۔ سڑک پر ویرانیاں رقص کر رہی تھیں! اور ان کا رقص دراصل جوزف کے وزنی جوتوں کی تال پر ہو رہا تھا! وہ اونٹ کی طرح سر اٹھائے چلا جا رہا تھا۔ گو اس وقت وہ فوجی لباس میں نہیں تھا! اور اس کے دونوں ریوالور بھی ہولسٹروں کی بجائے جیب میں تھے۔
اس سڑک پر الیکٹرک پول اتنے فاصلے پر تھے کہ دو روشنیوں کے درمیان میں ایک جگہ ایسی ضرورملتی تھی جہاں اندھیرا ہی رہتا تھا۔ درمیان میں دو پول چھوڑ کر بلب لگائے گئے تھے۔ یہ شہر سے باہر کا حصہ تھا۔ اگر ان اطراف میں دو چار فیکٹریاں نہ ہوتیں تو یہ سڑک بالکل ہی تاریک ہوتی۔
جوزف اس وقت کتھئی سوٹ اور سفید قمیض میں تھا! ٹائی تو وہ کبھی استعمال ہی نہیں کرتا تھا! آج کل وہ بالکل ہی دیو معلوم ہوتا تھا! عمران کی ڈنڈبیٹھکوں نے اس کا جسم اور زیادہ نمایاں کردیا تھا!

وہ یکساں رفتار سے چلتا رہا اور اس کے وزنی جوتوں کی آوازیں دور دور تک گونجتی رہیں۔ فیکٹریوں کے قریب پہنچ کر وہ بائیں جانب مڑ گیا!۔۔ یہ فیکٹریوں کی مخالف سمت تھی! ادھر دور تک ویرانہ ہی تھا۔ ناہموار اور جھاڑیوں سے ذھکی ہوئی زمین میلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔
اچانک جوزف رک گیا! وہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ رہا تھا۔۔ تقریبا سو گز کے فاصلے پر مشرق کی طرف اسے کوئی ننھی سی چمکدار چیز دکھائی دی اور وہ دوسرے ہی لمحے زمین پر تھا! اب وہ گھنٹوں اور ہتھیلیوں کے بل بالکل اسی طرح آہستہ آہستہ چل رہا تھا جیسے کوئی تیندوا شکار کی گھات میں ہو!

رخ اسی جانب تھا جہاں وہ ننھی سی چمکدار چیز نظر آئی تھی۔ “جوزف۔۔!” اس نے ہلکی سی سرگوشی سنی!۔۔ اور وہ کسی وفادار کتے کی طرح اچھل کر ادھر ہی پہنچ گیا۔ “شش۔۔ جوزف جھاڑیوں میں دبک گیا پھر کوئی اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ ” چند منٹ یہیں رکو”۔
جوزف جس پوزیشن میں تھا اسی میں رہ گیا! یہ اس کی عجیب وغریب عادت تھی۔ جب بھی اسے مخاطب کیا جاتا تو ہو اسی طرح ساکت ہوجاتاکہ اٹھا ہوا ہاتھ اٹھا ہی رہ جاتا! جماہی آ رہی ہوتی تو منہ پھیلا کر ہی رہ جاتا اور تاوقتیکہ کوئی نہ کہہ دی جاتی پھیلا ہی رہتا۔۔!
تھوڑی دیر بعد کہا گیا۔

“جوزف کیا تم اس وقت بہت خوش ہو”؟ “ہاں۔ باس بہت زیادہ۔۔ کیونکہ میں آج ایک نئی چیز دریافت کی ہے”۔ “اچھا۔۔!”
“ہاں باس! اگراسپرٹ اور پانی میں تھوڑا سا جنجر ایسنس بھی ملا لیا جائے تو بس۔۔ مزہ ہی آجاتا ہے”۔ “تم نے پھر اسپرٹ شروع کردی ہے؟”
“ہاں۔۔ باس۔۔”۔
“ایک ہزار ڈنڈ۔۔!”

“نن۔۔ نہیں۔۔ باس!” جوزف بوکھلا کر بولا! “نشہ اتر جائے گا! کھوپڑی بالکل خالی ہوجائے گی! اور میں کیچوا بن کر رہ جاں گا۔۔!”
“چلو اٹھو!۔۔” عمران نے اسیٹھوکا دیا۔
“ہم کہاں چلیں گے باس۔۔؟”
“کالا گھاٹ۔۔ تم نے دیکھا نا؟”
“ہاں۔۔ باس۔۔”۔
“وہاں ایک شراب خانہ ہے!”

“میں جانتا ہوں باس!”۔۔ جوزف خوش ہو کر بولا! “وہاں تاڑی بھی ملتی ہے”۔
“ہوم۔۔! اس شراب خانہ کے پاس ندی کی سمت جو ڈھلان شروع ہوتی ہے!تمہیں وہاں رکنا ہوگا!”
“ڈھلان پر رک کر کیا کروں گا باس! کہ آپ شراب خانہ میں جائیں اور میں ڈھلان پر کھڑا رہوں”۔
“چلتے رہو۔۔!”

وہ اندھیرے ہی میں ناہموار راستے طیکرتے رہے! کبھی کبھی محدود روشنی والی چھوٹی سی ٹارچ روشن کرلی جاتی!
جوزف کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ “خاموشی سے چلتے رہو”۔ کہا گیا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ ایک ڈھلوان راستے پر چل رہے تھے جہاں سے ندی کے کنارے والے چراغوں کے سلسلے صاف نظر آنے لگے تھے۔ “ایک بار پھر سنو جوزف!” اس سے کہا گیا۔ “تم شراب خانے کی پشت پر ندی والی ڈھلان پر ٹھہرو گے”۔ “اچھا باس!” جوزف نے بیحد اداس لہجے میں کہا۔ “مگر تم وہاں کیوں ٹھہرو گے؟” “جماہیاں لینے اور آنسو بہانے کے لئے!” جوزف کی آواز دردناک تھی!

عمران ہنس پڑا۔ “مگر باس ! تم اپنے محل میں کیوں نہیں آتے۔۔؟” جوزف نے کہا!
“یہ ایک درد بھری کہانی ہے۔۔ جوزف!” عمران غمناک لہجے میں بولا۔ ” میری آخری بیوی کے رشتے دار مجھے قتل کردینا چاہتے ہیں۔۔!”
“اف۔فوہ! “جوزف چلتے چلتے رک گیا۔ اسے وہ پھرتیلا بوڑھا یاد آگیا تھا جس نے دو تین دن پہلے رانا پیلس میں اپنی چلت پھرت کا مظاہرہ کیا تھا!
بلیک زیرو کو علم ہی نہیں تھا کہ عمران کہاں ہوگا اس لئے یہ کہانی عمران تک نہیں پہنچ سکی تھی! اتفاق سے آج صبح جوزف ہوا خوری کو نکلا تھا۔ راستے میں ایک لڑکے نے اسے ایک خط دیا جو عمران کی طرف سے ٹائپ کیا گیا تھا اور جس میں جوزف کے لئے ہدایت تھی کہ وہ رات کو فلاں وقت فلاں مقام پر پہنچ جائے۔

جوزف اس معاملہ میں اتنا محتاط ثابت ہوگا کہ اس نے اس کا تذکرہ بلیک زیرو (طاہر صاحب) سے بھی نہیں کیاتھا۔ حالانکہ وہ خود بھی دھوکا کھا سکتا تھا۔ کیونکہ وہ خط ٹائپ کیا ہوا تھا اور اس کے نیچے بھی عمران کے دستخط نہیں تھے بلکہ نام ہی ٹائپ کردیا گیا تھا! لیکن اس نے کسی وفادار کتے کی طرح اس میں عمران کی بو محسوس کی تھی اور نتیجے کے طور پر وہ اس وقت یہاں موجود تھا!
“کیوں رک گئے؟” عمران نے ٹوکا۔

اس پر اس نے جڑی بوٹیاں فروخت کرنے والے بوڑھے کی داستان دہرائی اور بتایا کہ کس طرح اس نے اس کی جیب سے پستول نکال لیا تھا۔
عمران سوچ میں پڑ گیا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس پر عمران ہونے کی بنا پر حملے ہو رہے تھے یا اس لئے کوئی اس کے پیچھے پڑ گیا تھا کہ رانا تہور علی صندوقی کا راز معلوم کرسکے۔ یا پھر حملہ آواروں کی نظروں میں بھی تہور علی اور عمران ایک ہی شخصیت کے دو مختلف روپ تھے۔۔!

“بس اسی سے اندازہ کرلو۔ جوزف۔۔ کہ آج کل میں کتنی الجھنوں میں گھرا ہوا ہوں۔۔!”
“مجھے ان کا پتہ بتا باس! ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑوں گا”۔ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا!
“چلتے رہو۔۔!” عمران بولا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب وہ اپنے ماتحتوں کو اپنے قریب بھی نہیں آنے دے گا ورنہ اس کا امکان بھی ہے کہ اسی سلسلے میں ڈھمپ اینڈ کو کا راز ہی فاش ہوجائے۔
“ہاں تو باس! مجھے ڈھلان پر کیا کرنا ہوگا؟”

“اگر میری عدم موجودگی وہاں کوئی سبز رنگ کا موٹر بوٹ آئے تو تم فورا ہی ایک ہوائی فائر کردینا”۔
“بس صرف ہوائی فائر کردوں گا!” جوزف نے پھر مایوسانہ انداز میں پوچھا۔
“تم پر خون کیوں سوار رہتا ہے جوزف؟” “نہیں تو باس!۔۔ وہ دراصل میں سوچتا ہوں کہ مجھے پھانسی کیوں نہ ہوجائے میں نے سنا ہے کہ اب اسپرٹ میں لائسنس کے بغیر نہیں ملا کرے گی۔ مجھے کون لائسنس دے گا! اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں کسی کو قتل کرکے جیل چلا جاں!”
“اور اگر میں ہی تمہیں قتل کردوں تو۔۔!”
“نہیں! اس کی بجائے میری بوتلوں میں اضافہ کردو۔ باس!” جوزف گھگھیا۔
“اب روزانہ پانچ ہزار ڈنڈ۔۔!”

“مم۔۔ مرا۔۔ نہیں۔۔ نہیں باس میریپھیپھڑے پھٹ جائیں گے”۔ “خاموش رہو۔ ہم شراب خانے کے قریب ہیں! تم یہیں سے اسی پگڈنڈی پر مڑ جا! آگے چل کر یہ دو مختلف سمتوں میں تقسیم ہوگئی ہے مگر تم بائیں جانب مڑ جانا۔ پگڈنڈی نہ چھوٹنے پائے۔ اس طرح تم تھیک اسی جگہ پہنچو گے جہاں ٹھہر کر تمہیں میرا انتظار کرنا ہے”۔ “اچھا باس!”جوزف کسی بہت ہی ستم رسیدہ آدمی کی طرح ٹھنڈی سانس لے کر پگڈنڈی پر مڑ گیا۔۔!

عمران جو اب روشنی میں آچکا تھا یعنی طور پر جوزف کے لئے ایک مسئلہ بن کر رہ جاتا!۔۔ اسی لئے اور بھی اس نے اسے اندھیرے ہیں میں رخصت کردیا تھا! وہ دراصل ایک بوڑھے بھکاری کے روپ میں تھا اور اس کے جسم پر چیتھڑے جھول رہے تھے۔ جوزف چلتا رہا! اس مقام کو پہچاننے میں بھی اسے کوئی دشواری نہیں پیش آئی۔ جہاں پگڈنڈی دو شاخوں میں بٹ کر مخالف سمتوں میں مڑ گئی تھی! وہ عمران کی بتائی ہوئی سمت پر چلنے لگا!۔۔ ہوٹل کی پشت پر پہنچ کر اس نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں! گہرا اندھیرا فضا پر مسلط تھا! کہیں کہیں روشنی کے نقطے سے نظر آرہے تھے۔

جوزف لاکھ ڈفر سہی لیکن خطرات کے معاملہ میں وہ جانوروں کی سی حس رکھتا تھا! اس نے سوچا کہ فائر کرنے کے بعد وہ کیا کرے گا! اگر کچھ لوگ آگئے اور وہ پکڑ لیا گیا تو۔۔! کیا باس اسے پسند کرے گا!۔۔ اب وہ کوئی ایسا درخت تلاش کرنے لگا جسے فائر کرنے کے بعد اپنے بچا کے لئے استعمال کرسکے۔ اچانک ایک موٹر بوٹ گھاٹ سے آلگی۔۔ جوزف نے تیزی سے جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن پھر آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا! بھلا اندھیرے میں موٹر بوٹ کا رنگ کیسے نظر آتا! ہیڈ لیمپ کی روشنی بھی اسے نہ ظاہر کرسکتی تھی!۔۔ “او۔۔ باس!” جوزف دانت پیس کر بڑبڑایا۔ “تم نشے میں تھے یا مجھے ہی ہوش نہیں تھا! سبز رنگ۔۔ ہائے سبز رنگ۔۔ زرد نکلے تو کیا ہوگا۔۔ نیلا۔۔ اودا۔۔ کتھئی۔۔ زعفرانی۔۔ اب میں کیا کروں۔۔؟ او باس!۔۔

وہ کھڑا دانت پیستا رہا پھر اپنے سر پر مکے مارنے لگا۔ بہرحال اب اس کے لئے ضروری ہوگیا تھا کہ وہ عمران کو تلاش کرکے پوچھتا کہ اندھیرے میں موٹر بوٹ کا رنگ کیسے دیکھا جائے؟ وہ شراب خانے کے صدر دروازے کی طرف چل پڑا۔ اسے یقین تھا کہ عمران شراب خانے ہی میں ملے گا!۔۔ شاید اس نے کہا بھی تھا!۔۔ شراب خانہ پوری طرح آباد ملا! اس کی چھت زیادہ اونچی نہیں تھی! دیواریں اور چھت سفید آئل پینٹ سے رنگی گئی تھیں! بس ایسا ہی معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی بہت بڑے بحری جہاز کا شراب خانہ ہو! لیکن یہاں اتنی صفائی اور خوش سلیقگی کو دخل نہیں تھا۔

لوگ میلی کچیلی میزوں پر بیٹھے تاڑی یا دیسی شراب پی رہے تھے! ویسے بھی یہاں قیمتی شرابیں شاذونادر ہی ملتی تھیں۔ یہاں پہنچ کر جوزف کی پیاس بری طرح جاگ اٹھی۔ وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتا اور چندھیائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھتا رہا! لیکن یہاں کہیں اسے عمران نہ دکھائی دیا۔ وہ جو ابھی زیادہ نشے میں نہیں تھے اسے گھورنے لگے تھے۔ دفعتا ایک بوڑھا آدمی جھومتا ہوا اپنی میز سے اٹھا اور جوزف کی طرف بڑھنے لگا! اس کے ہاتھ میں گلاس تھا۔ اس کی ہیت کذائی پر جوزف کو ہنسی آگئی۔ یہ ایک پست دبلا پتلا آدمی تھا! چہرے پر اگر ڈاڑھی نہ ہوتی تو بالکل گلہری معلوم ہوتا! آنکھیں دھندلی تھیں۔

جوزف کے قریب پہنچ کر وہ رک گیا اور اس طرح سر اٹھا کر اس کی شکل دیکھنے لگا جیسے کسی منارہ کی چوٹی کا جائزہ لے رہا ہو!۔۔
“کیا ہے۔۔؟” جوزف کھسیانے انداز میں ہنس کر پوچھا۔ “مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہارے کانوں تک اپنی آواز پہنچانے کے لئے مجھے۔۔لاڈ اسپیکر نہ استعمال کرنا پڑے” “ہام!” جوزف اسے پکڑنے کے لئے جھکا اور وہ اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ “خفا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں بہت غم زدہ آدمی ہوں”۔ بوڑھے نے رونی آواز میں کہا۔ وہ انگریزی ہی میں گفتگو کر رہا تھا!

“کیا ہوا ہے تمہیں”۔ جوزف غرایا۔ “ادھر چلو۔ میں تمہیں پلاں گا! تمہیں اپنی دکھ بھری داستان سناں گا! مجھے یقین ہے کہ تم میری مدد کرو گے! بہت زیادہ لمبے آدمی عموما مجھ پر رحم کرتے ہیں”۔ “میں نہیں پیوں گا۔۔!” جوزف نے احمقانہ انداز میں کہا اور پھر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ “کیا تمہیں کسی کی تلاش ہے”۔ بوڑھے نے پوچھا۔ “نہیں۔” “تو پھر آ۔ نا۔۔ غم غلط کریں۔ تم مجھے کوئی بہت شریف آدمی معلوم ہوتے ہو”۔ “ہاں۔!” جوزف نے سر ہلا کر پلکیں جھپکائیں۔ “آ۔۔ دوست آ۔ تمہار دل بہت نورانی ہے” جوزف سچ مچ خوش ہوگیا! اپنی صفائے دل کے متعلق کسی سیکچھ سن کر وہ نہال ہوجاتا تھا۔ ایسے مواقع پر اسے فادر جوشوا یاد آجتے جنہوں نے اسے عیسائی بنایا تھا اور جو اکثر کہا کرتے تھے کہ “تم سفید فاموں سے افضل ہو کیونکہ تم کالوں کے دل بڑے نورانی ہوتے ہیں”۔

بوڑھا اسے اپنی میز پر لے آیا۔ “اوہ۔۔ شکریہ! میں گھر سے باہر کبھی کچھ نہیں پیتا!” جوزف نے کہا۔ “یہ بہت بری عادت ہے دوست! گھر پر پینے سے کیا فائدہ۔ کیا دیواروں سے دل بہلاتے ہو” عادت ہے۔۔! جوزف نے خواہ مخواہ دانت نکال دیئے۔ “نہیں میری خاطر! پیو! میں بہت غم زدہ آدمی ہوں۔۔ میری بات نہ ٹالو! ورنہ میرے غموں میں ایک کا اور اضافہ ہوجائے گا!”
“تمہیں کیا غم ہے؟”

“ایک دو۔ نہیں۔۔ ہزاروں میں!۔۔ بس تم پیو پیارے۔۔ یہی میرے غم کا علاج ہے۔ تم بہت نیک آدمی ہو ضرور پیو گے مجھے یقین ہے۔۔!”
“کیا میرے پینے سے تمہارے غم دور ہوجائیں گے!” جوزف نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔ “قطعی دور ہوجائیں گے۔۔ “اچھا تو پھر میں پیوں گا! خدا تمہاری مشکل آسان کرے!” جوزف نے انگلیوں سے کراس بنایا۔ “کیا پیو گے؟” “تاڑی۔۔ سالہاسال ذرے کہ میں تاڑی نہیں پی۔۔!”
“مذاق مت کرو پیارے۔!” بوڑھے نے کہا۔ “میں مذاق نہیں کر رہا”۔ جوزف کو غصہ آگیا۔ “اچھا۔۔ اچھا۔۔ تاڑی ہی سہی”۔ بوڑھے نے کہا اور اٹھ کر کانٹر کی طرف چلا گیا۔ واپسی پر اس کے ہاتھوں میں تاڑی کی بوتل اور گلاس تھے۔

جوزف نے حلق تر کرنا شروع کیا! جب کھوپڑی کچھ گرم ہوئی تو میز پر گھونسہ مار کر بولا۔ “بتا کس کی وجہ سے تمہیں اتنے دکھ پہنچے ہیں؟” “ابھی بتاں گا۔۔ سن سے پہلے آج کا غم دہراں گا” تھوڑی دیر تک خاموشی رہی پھر بوڑھے نے کہا۔ “ہزاروں روپے کی شراب برباد ہوجائے گی۔ اگر میں نے دو گھنٹے کے اندر ہی اندر کوئی قدم نہ اٹھایا” “شراب برباد ہوجائے گی!” جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔
“ہاں! پانچ بیرل۔ یہاں سے تقریبا ایک میل کے فاصلے پر جنگل میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں نے ہی انہیں وہاں چھپایا تھا۔ اب اطلاع ملی ہے کہ پولیس کو شبہ ہوگیا ہے! اس لئے وہ عنقریب وہاں گھیرا ڈالنے والی ہے۔ کاش میرے بازوں میں اتنی قوت ہوتی کہ میں ان بیرلوں کو قریب ہی کے ایک کھڈ میں لڑھکا سکتا!”

“یہ کون سی بڑی بات ہے”۔ جوزف اکڑ کر بولا۔ “میں چل کر لڑھکا دوں گا!”
“اوہ۔۔ اگر تم ایسا کرسکو تو ایک بیرل تمہارا انعام۔۔!”
“لا۔۔ ہاتھ”۔ جوزف میز پر ہاتھ مار کر بولا! “بات پکی ہوگئی! میں لڑھکاں گا اور تم اس کے عوض مجھے ایک بیرل دو گے!”
پھر تاڑی کی مزید دو بوتلیں ختم ہونے تک بات بالکل ہی پکی ہوگئی اور جوزف لڑکھڑاتا ہوا اٹھا۔۔ بوڑھا آدمی کسی ننھے سے بچے کی طرح اس کی انگلی پکڑے چل رہا تھا!۔۔
یہ جوڑا دیکھ کر لوگ بیتحاشہ ہنسے تھے۔۔ اور جوزف تو اب اسے قطعی فراموش کرچکا تھا کہ یہاں کیوں آیا تھا!۔۔

ایکس ٹو نے اپنے ماتحتوں کو باقاعدہ طور پر ہدایت کردی تھی کہ وہ عمران کے متعلق کسی چکر میں نہ پڑیں۔ نہ تو اس کے فلیٹ کے فون نمبر رنگ کئے جائیں اور نہ کوئی ادھر جائے! جولیا کو اس قسم کی ہدایت دیتے وقت اس کا لہجہ بیحد سخت تھا۔ جولیا اس پر بری طرح جھلا گئی تھی! لیکن کرتی بھی کیا! ایکس ٹو بہرحال اپنے ماتحتوں کے اعصاب پر سوار تھا! وہ اس سے اسی طرح خائف رہتے تھے جیسے ضعیف الاعتقاد لوگ ارواح کے نام پر لرزہ براندام ہوجاتے ہیں۔ مگر جولیا الجھن میں مبتلا تھی۔ آج کل ایک ناقابل فہم سی خلش ہر وقت ذہن میں موجود رہتی اور اس کا دل چاہتا کہ وہ شہر کی گلیوں میں بھٹکتی پھرے! چھتوں اور دیواروں کے درمیان گھٹن سی محسوس ہوتی تھی۔ آج صبح اس نے فون پر بڑے جھلائے ہوئے انداز میں ایکس ٹو سے گفتگو کی تھی۔ اسے بتایا تھا کہ سرسوکھے کی بھاگ دوڑ کا اصل مقصد کیا ہے! پھروہ اس کے لئے عمران کو تلاش کرے یا نہ کرے!۔۔

“بس اسی حد تک جولیا ناکہ وہ مطمئن ہوجائے!” ایکس ٹو نے جواب دیا تھا! ” اسے یہ شبہ نہ ہونا چاہیئے کہ تم اسے ٹال رہی ہو! بلکہ عمران کی گمشدگی پر پریشانی بھی ظاہر کرو۔ جولیا برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی۔ سرسوکھے کی فرمائش کے مطابق آج اسے عمران کی تلاش میں اس کا ساتھ دینا تھا! سب سے پہلے وہ عمران کے فلیٹ میں پہنچے لیکن سلیمان سے یہی معلوم ہوا کہ عمران پچھلے پندرہ دنوں سے غائب ہے! پھر جولیا نے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران وہاں کا مستقل ممبر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں اس کیمتعلق کچھ معلومات حاصل ہوسکیں۔وہ ٹپ ٹاپ کلب پہنچے۔ یہاں بھی کوئی امید افزا صورت نہ نکل سکی! آخر سرسوکھے نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ “اب کہاں جائیں۔ میں واقعی بڑا بدنصیب ہوں مس جولیانا۔ آیئے کچھ دیر یہیں بیٹھیں!”

جولیا کو اس پہاڑ نما آدمی سے بڑی الجھن ہوتی تھی! اس کے ساتھ کہیں نکلتے ہوئے اس کے ذہن میں صرف یہی ایک خیال ہوتا تھا کہ وہ بڑی مضحکہ خیز لگ رہی ہوگی۔ آس پاس کے سارے لوگ انہیں گھور رہے ہوں گے۔ مگر اس کمبخت ایکس ٹو کو کیا کہیئے جس کا حکم موت کی طرح اٹل تھا۔ وہ سرسوکھے کے ساتھ بیٹھی اور بور ہوتی رہی! لیکن پھر اس نے ریکرئیشن ہال میں چلنے کی تجویز پیش کی۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں کوئی نہ کوئی اس سے رقص کی درخواست ضرور کرے گا اور سرسوکھے سے پیچھا چھوٹ جائے گا! سرسوکھے اس تجویز پر خوش ہوا تھا!
وہ ریکریشن ہال میں آئے۔ یہاں ابھی آرکسٹرا جاز بجا رہا تھا! اور چند باوردی منتظمین چوبی فرش پر پاڈر چھڑکتے پھر رہے تھے۔
وہ گیلری میں جا بیٹھے! تھوڑی دیر بعد رقص کے لئے موسیقی شروع ہوئی!

“کیا میں آپ سے رقص کی درخواست کرسکتا ہوں!” سرسوکھے نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ “آپ!” جولیا نے متحیرانہ لہجے میں سوال کیا! اس کا سر چکرا گیا تھا۔ “اوہ”۔ دفعتا سرسوکھے بیحد مغوم نظر آنے لگا! کرسی کی پشت سے ٹکتے ہوئے اس نے چھت پر نظریں جما دیں! جولیا کو اپنے رویے پر افسوس ہونے لگا کیونکہ سرسوکھے کی آنکھیوں میں آنسو تیر رہے تھے! جولیا نے محسوس کیا کہ اس کا وہ “آپ” گویا ایک تھپڑ تھا جو سرسوکھے کے دل پر پڑا تھا! کیونکہ “آپ” کہتے وقت جولیا کیلہجے میں تحیر سے زیادہ تضحیک تھی۔ “اوہو۔۔ تو پھر۔۔ آپ اٹھیئے نا!” جولیا نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ ہنسنے لگا۔ بیتکی سی ہنسی! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے خود اسے بھی احساس ہو کہ وہ یوں ہی احمقانہ انداز میں ہنس پڑا ہے۔ پھر وہ آنکھیں ملنے لگا!

“نہیں ۔!” وہ کچھ دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “میں اپنی اس بیتکی درخواست پر شرمندہ ہوں! میں آپ کو بھی مضحکہ خیز نہیں بنانا چاہتا ۔ وہ پھر ہنسا مگر جولیا کو اس کی ہنسی دردناک معلوم ہوئی تھی! ایسا لگا تھا جیسے متعدد کراہوں نے ہنسی کی شکل اختیار کرلی ہو!
“مس فٹز واٹر!” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ “ہڈیوں اور گوشت کا یہ بنجر پہاڑ ہمیشہ تنہا کھڑا رہے گا۔ میں نے نہ جانے کس رو میں آپ سے درخواست کردی تھی! اداس اور تنہا آدمی بچوں کی سی ذہنیت رکھتے ہیں”۔ گوشت اور ہڈیوں کے اس بیہنگم سے ڈھیر میں چھپا ہوا سرسوکھے رام بچہ ہی تو ہے جو بڑی لاپروائی سے اس بدنما ڈھیر کو اٹھائے پھرتا ہے۔ اگر باشعور ہوتا تو۔۔”

“اور دیکھیئے! آپ بالکل غلط سمجھے سرسوکھے! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا! دراصل مجھے اس پر حیرت تھی کہ۔۔ “نہیں۔ مس جولیانا! میں خود بھی تماشہ بننا پسند نہیں کروں گا!” وہ ہاتھ اٹھا کر دردناک آواز میں بولا۔ جولیا خاموش ہوگئی! رقص شروع ہوکا تھا! سرسوکھے رقاصوں کو کسی بچے ہی کے سے انداز میں دیکھتا رہا۔۔! نہ جانے کیوں جولیا سچ مچ اس کے لئے مغوم ہوگئی تھی۔ جوزف بس چلتا ہی رہا! اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنا چل چکا ہے۔ اور کب تک چلتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی زبان ہی چل رہی تھی ۔ نوجوانی کے قصے چھیڑ رکھے تھے!

نوجوانی کے قصے بھی جوزف کی ایک کمزوری تھی۔ وہ مزے لے لے کر اپنے کارنامے بیان کرتا تھا اور ان کہانیوں کے درمیان قبیلے کی ان لڑکیوں کا تذکرہ ضرور آتا تھا جو اس پر مرتی تھیں۔ اس مرحلہ پر جوزف کے ہونٹ سکڑ جانے اور آواز میں سختی پیدا ہوجاتی۔ ایسا لگتا جیسے حقیقتا اسے کبھی ان کی پرواہ نہ ہوئی ہو! اس وقت وہ بوڑھے سے کہہ رہا تھا۔ “بھلا بتا۔ مجھے ان باتوں کی فرصت کہاں ملتی تھی۔ میں تو زیادہ تر رائفلوں اور نیزوں کے کھیل میں الجھا رہتا تھا۔ جب بھی سفید فام شکاری میرے علاقہ میں داخل ہوتے تو انہیں تندوے کی تلاش ضروری ہوتی تھی! میں ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ ان کی زندگیاں میری مٹھی میں ہوتی تھیں۔۔ اب بتا۔۔ تم ہی بتا۔۔ میں کیا کرتا! نگانہ جو قبیلے کی سب سے حسین لڑکی تھی! اس نے مجھے بددعائیں دی تھیں۔۔ آہ۔۔ آج میں اسی لئے بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ مگر بتا! اس کے لئے کہاں سے وقت نکالتا۔۔!”

جوزف نے پھر بکواس شروع کردی۔ تاڑی کی تین بوتلیں ہٹلر بھی بن سکتی ہیں اور علم الکلام کی ماہر بھی۔۔۔اچانک بوڑھا چلتے چلتے رک گیا۔ اور خوش ہو کر بولا! “واہ۔۔ اب تو وہ بیرل یہاں سے لے جائے بھی جاسکتے ہیں! میرے آدمی ٹرک لے آئے ہیں لیکن پولیس کا کہیں پتہ نہیںہے۔۔!”
“ہائیں!” جوزف منہ پھاڑ کر رہ گیا۔ پھر بولا! “اب میرے انعام کا کیا ہوگا۔ “ایک بیرل تمہارا ہے دوست!” بوڑھے نے اس کی کمر تھپتھپا کر کہا! “تم اب انہیں ٹرک میں چڑھانے میں مدد دو گے”۔ ٹرک قریب ہی موجود تھا۔ اس کا پچھلا ڈھکنا زمین پر ٹکا ہوا تھا۔ جوزف نے چندھائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا! یہ ایک ویرانہ تھا۔ گھنیرے درخت اور جھاڑ جھنکار قریب وجوار کے اندھیرے میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے سے معلوم ہو رہے تھے۔

“چلو۔ اندازہ کرلو کہ تم بیرل اوپر چڑھا سکو گے یا نہیں!” بوڑھے نے کہا اور ٹرک پر چڑھ گیا۔ جوزف کی رفتار سست تھی۔ لیکن وہ بھی اوپر پہنچ ہی گیا! ٹرک تین طرف سے بند تھا اور اس کی چھت کافی اونچی تھی! لیکن جوزف جیسے لمبے تڑنگے آدمی کو تو جھکنا ہی پڑا تھا۔ “چڑھا سکو گے نا؟” بوڑھے نے پوچھا۔ “بل۔۔ بل۔۔ بلکول۔۔” جوزف لڑکھڑایا اور آندھی سے اکھڑتے ہوئے کسی تناور درخت کی طرح ڈھیر ہوگیا! اسے اس پر بھی غور کرنے کا موقعہ نہیں مل سکا تھا کہ کھوپڑی پر ہونے والے تین بھرپور وار زیادہ نشہ آور ہوتے ہیں۔۔ یا تاڑی کی تین بوتلیں۔۔ اس کا ذہن تاریکی کی دلدل میں ڈوبتا چلا گیا! پھر دونوں ٹرک کے اگلے حصے میں چلے گئے!
تھوڑی دیر بعد ٹرک چل پڑا!

صفدر نے اس دن کے بعد سے اب تک ڈھمپ اینڈ کو کے دفتر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ جب وہاں عمران کی موت کی اطلاع لے کر گیا تھا! ایکس ٹو کی طرف سے اسے یہی ہدایت ملی تھی۔ لیکن وہ عمران کے متعلق الجھن میں تھا! کبھی یقین کرنے پر مجبور ہوتا کہ اب عمران اس دنیا میں نہیں! اور کبھی پھر کئی طرح کے شبہات سر اٹھاتے! مگر یہ تو اس کی آنکھوں کے سامنے کی بات تھی کہ عمران چیخ مار کر ندی میں جا پڑا تھا! کچھ بھی ہو دل نہیں چاہتا تھا کہ عمران کی موت پر یقین کرے۔ جولیا نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ عمران زندہ ہے اور اسے اس واقعہ کے بعد اس کی کوئی تحریر ملی تھی! ایکس ٹو تو اسے یقینی طور پر صحیح حالات کا علم تھا۔ ورنہ وہ جولیا کو فون پر سرزنش کیوں کرتا۔ یہی سوچ کر جولیا نے اس سے بھی اس مسئلہ پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کی تھی!

بہرحال صفدر آج کل زیادہ تر گھر ہی میں پڑا رہتا تھا۔۔ اس وقت بھی وہ آرام کرسی میں پڑا اونگھ رہا تھا! اچانک فون کی گھنٹی بجی جو ان دونوں شاذونادر ہی بجتی تھی۔ وہ اچھل پڑا۔۔ “ہیلو۔۔!” اس نے ماتھ پیس میں کہا۔ “ہائیں۔۔!” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “کیا تم زندہ ہو؟”
“ارے!” صفدر پرمسرت لہجے میں چیخا! “آپ۔۔ اس نے عمران کی آواز صاف پہچان لی تھی۔ “اتنی زور سے نہ چیخو کہ تمہاری لائن کو شادی مرگ ہوجائے۔ ویسے میں عالم بالا سے بو ل رہا ہوں۔ “عمران صاحب خدا کے لئے بتایئے کہ وہ سب کیا تھا؟”

“یار بس کیا بتاں”۔ دوسری طرف سے مغوم لہجے میں کہا گیا! ” میں تو یہی سمجھ کر مرا تھا کہ گولی لگ چکی ہے۔ مگر فرشتوں نے پھر دھکا دے دیا! کہنے لگے کھسکو یہاں سے۔ یہاں چارسو بیسی نہیں چلے گی۔ گولی وولی نہیں لگی۔ آئندہ اچھی طرح مرے بغیر ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔ نہیں تو اب کی دم لگا کر واپس کئے جا گے۔ صفدر ہنسنے لگا! وہ بیحد خوش تھا۔ اس کی بیک بہت بڑی الجھن رفع ہو گئی تھی!
“جولیا بے حد پریشان تھی۔۔!” صفدر نے کہا۔ “پچھلے سال میں اس سے ساڑھے پانچ روپے ادھار لیئے تھے نا۔۔ آج تک واپس نہیں کرسکا۔۔!”
“عمران صاحب خدا آپ کو جمالیاتی حس بھی عطا کردے تو کتنا اچھا ہو!”

“تب پھر لوگ مجھے جمال احمد کہیں!” عمران خوش ہو کر بولا۔ “اور میں جمالی تخلص کرنے لگوں! خیر اس پر کبھی سوچیں گے۔ اس وقت تمہیں ایک آدمی کا تعاقب کرنا ہے جو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے بلیرڈ روم نمبر میں بلیرڈ کھیل رہا ہے۔ اس کے جسم پر سرمئی آئیرن کا سوٹ ہے اور گلے میں نیلی دھاریوں والی زرد ٹائی۔ اگر وہ تمہارے پہنچنے تک وہاں سے جاچکا ہو تو پھر وہیں ٹھہرنا”۔ دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا۔

صفدر کو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہچنے میں بیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے! وہ آدمی اب بھی بلیرڈ روم میں موجود تھا جس کے متعلق عمران نے بیس منٹ پہلے اس سے فون پر گفتگو کی تھی۔ یہ ایک لمبا تڑنگا اور صحت مند جوان تھا۔ جبڑوں کی بناوٹ اس کی سخت دلی کا اعلان کر رہی تھی۔ البتہ آنکھیں کاہلوں اور شرابیوں کی سی تھیں۔ آنکھوں کی بناوٹ اور جسم کے پھرتیلے پن میں بڑا تضاد تھا۔
صفدر اس طرح ایک خالی کرسی پر جا بیٹھا جیسے وہ بھی کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہو! یہاں چار بلیرڈ روم تھے اور ہر کمرے میں دو دو میزیں تھیں! اس کمرے کی دونوں میزوں پر کھیل ہو رہا تھا!

بھاری جبڑے والے کا ساتھی تھوڑی دیر بعد ہٹ گیا! اور بھاری جبڑے والے صفدر سے پوچھا۔ “کیا آپ کھیلیں گے؟”
“جی ہاں۔۔!” صفدر اٹھ گیا۔ دونوں کھیلنے گے! کچھ دیر بعد صفدر نے محسوس کیا کہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں کیسے وہ عورتوں اور آرائشی مصنوعات کا تذکرہ نکال بیٹھا تھا۔ “کیا خیال ہے آپ کا یہ عورتیں سال میں کتنی لپ اسٹک کھا جاتی ہوں گی؟”اس نے پوچھا۔ “ابھی تک میں عورتوں کے معاملات سمجھنے کے قابل نہیں ہوا”۔ صفدر نے جواب دیا۔ “اوہو۔۔ تو کیا بھی تک سنگل ہی ہو یار۔۔!”
“بالکل سنگل۔۔!”

“یہ تو بہت بری بات ہے کہ تمہاری آمدنی کا بہت بڑا حصہ لغویات پر نہیں صرف ہوتا”۔ “تم شائد بہت زیادہ زیربار ہوجاتے ہو”۔ صفدر مسکرایا۔ “دو بیویاں ہیں! لیکن ایک کو دوسری کی خبر نہیں۔۔ “یہ کیسے ممکن ہے؟”۔ “دن ایک کے ہاں گزرتا ہے، رات دوسری کے ہاں”۔ ایک سمجھتی ہے کہ میں فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں! وہی جس کے ہاں رات بسر ہوتی ہے۔ اور دوسری سمجھتی ہے کہ میں ایک مل میں اسسٹنٹ ویونگ ماسٹر ہوں اور ہمیشہ رات کی ڈیوٹی پر رہتا ہوں”۔ “تو تم حقیقتا” کیا کرتے ہو؟”

“فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں۔۔!” اس نے جواب دیا۔ “اور یہ کہانیاں کہیں بھی بیٹھ کر لکھی جاسکتی ہیں! اور کبھی ناوقت سیٹ پر جانا پڑا تو اس وقت والی بیوی سمجھتی ہے کہ اوورٹائم کر رہا ہو۔ یا شوٹنگ طویل ہوگئی ہے۔۔ “کما ل کے آدمی ہو۔۔ “بیویوں کو دھوکا دینا میری تفریح ہے!۔ اب تیسری کے امکانات پر غور کر رہا ہوں لیکن وقت کیسے نکالوں گا”۔ “واہ۔۔ تیسری بھی کرو گے۔۔ “کرنی ہی پڑے گی۔ دیکھو یار قصہ دراصل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شادیاں کرنے سے سالیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ اور سالیاں۔۔ ہا۔۔ اگر سالیاں نہ ہوں تو دنیا ویران ہوجائے!”

“مجھے تو اس نام ہی سے گھن آتی ہے”۔ صفدر نے کہا۔ “آہا۔ تو تم انہیں سالیوں کی بجائے بتاشیاں یا جلیبیاں کہہ لیا کرو! کیا فرق پڑتا ہے”۔
صفدر ہنسنے لگا اور تھوڑی دیر بعد یہ بھول ہی گیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔ کھیل ختم ہوجانے کے بعد وہ ڈائننگ روم میں آ بیٹھے۔ بھاری جبڑے والا ایک لاپرواہ اور فضول خرچ آدمی معلوم ہوتا تھا۔ کافی پیتے وقت اس نے صفدر سے کہا۔”یا مجھ پر ایک احسان کرو”۔ “کیا؟” صفدر چونک پڑا۔

اس نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ “چھ بج رہے ہیں لیکن میں رات والی بیوی سے آج پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ میں اس سے کہوں گا کہ تم اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہو۔ آج رات بھی شوٹنگ ہوگی۔ اس لئے ڈائریکٹر نے تمہیں ساتھ کردیا ہے تاکہ تم مجھے اپنے ساتھ ہی لے جا! ساڑھے سات بجے ہم گھر ہی پر رات کا کھانا کھائیں گے۔ تم برابر کہتے رہنا، بھئی جلدی چلو اور بس ہم آٹھ بجے تک گھر سے نکل آئیں گے۔کیوں؟ پھر ہم دونوں دوست ہوجائیں گے۔ اور تم آئندہ بھی ایسے مواقع پر میرے کام آیا کرنا!”
صفدر ہنسنے لگا۔ مگر بھاری جبڑے والے کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا!

“میں سنجیدہ ہوں دوست!” اس نے کہا۔ “اگر تم یہ کام نہ کرسکو تو صاف جواب دو۔ تاکہ میں کسی دوسرے کو پھانسوں! بس کسی اور کے ساتھ کچھ دیر کھیلنا پڑے گا! سارے ہی آدمی تمہاری طرح ٹھس تھوڑا ہی ہوں گے۔ ایڈوینچر کا شوق کسے نہیں ہوتا! بہتیرے پھنسیں گے!”
صفدر نے سوچا چلو دیکھا ہی جائے گا کہ یہ آدمی کس حد تک بکواس کر رہا ہے اور اسے بہرحال اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی تھیں! پہلے چوری چھپے یہ کام سرانجام دینا پڑتا۔ مگر اب۔۔ اب تو وہ اسے کھلی ہوئی کتاب کی طرح پڑھ سکے گا۔

اس نے حامی بھر لی۔
باہر نکل کر بھاری جبڑے والے نے کہا۔ “یہ تو اور اچھی بات ہے کہ تمہاری کار بھی موجود ہے! اب وہ شبہ بھی نہ کرسکے گی کہ میں اسے الو بنا رہا ہوں۔ وہ تمہارے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پر ایمان لے آئے گی”۔ “قطعی۔!” صفدر یوں ہی بولنے کے لئے بولا۔ وہ صفدر کی رہنمائی کرتا رہا اور پھر ماڈل کالونی کی ایک دور افتادہ عمارت کے سامنے کار روکنے کو کہا۔ عمارت نہ خوبصورت تھی اور نہ بڑی تھی۔ پائیں باغ ابتر حالت میں تھا۔ جس سے مالک مکان کی لاپرواہی یا مفلوک الحالی ظاہر ہو رہی تھی۔ اس نے اسے نشست کے کمرے میں بٹھایا اور خود اندر چلا گیا۔
صفدر سوچ رہا تھا کہ اسے فلموں یا فلموں کی شوٹنگ کے متعلق بالکل کچھ نہیں معلوم! اگر اس کی بیوی اس سلسلے میں اس سے کچھ پوچھ بیٹھی تو کیا ہوگا۔۔!

لیکن اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے تین چار آدمی اس پر ٹوٹ پڑے۔ حملہ پشت سے ہوا تھا۔ اس لئے اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔
ایک نے اس کا منہ دبالیا تھا اور دو بری طرح جکڑے ہوئے دروازے کی جانب کھینچ رہے تھے۔ لیکن جب وہ اس طرح اسے کمرے سیباہر نہ لے جاسکے تو تین مزید آدمی ان کی امداد کے لئے وہاں آپہنچے۔ اور صفدر کشاں کشاں ایک تہہ خانے میں پہنچا دیا گیا۔ تہہ خانے کا علم تو اسے اس وقت ہوجا جب اس کی آنکھوں پر سے پٹی کھولی گئی۔ بعد میں آنے والے تین آدمیوں میں سے ایک نے اس کی آنکھوں پر رومال باندھ دیا تھا اور کسی نے دونوں ہاتھ پشت پر جکڑ دیئے تھے۔

لیکن جب آنکھوں پر سے رومال کھولا گیا تو اس کے سامنے صرف ایک ہی آدمی تھا اور یہ تھا وہی بھاری جبڑے والا جو اسے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب سے یہاں تک لایا تھا۔ “مجھے افسوس ہے دوست!” اس نے سر ہلا کر مغوم لہجے میں کہا۔ “اس وقت دونوں بیویاں یہاں موجود ہیں! اس لئے یہ ابتری پھیلی ہے۔ سالیوں کی بجائے دونوں طرف کے سالے اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ تم ہی مجھے بہکایا کرتے ہو۔ صفدر نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ہوئے اسے گھورتا رہا۔ وہ کوشش کر رہا تھا کہ پشت پر بندھے ہوئے ہاتھ آزاد ہوجائیں! لیکن کامیابی کی امید کم تھی۔ اگر کسی طرح وہ اپنے ہاتھ استعمال کرنے کے قابل ہوسکتا تو اس بھاری جبڑے کے زاویوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور نظر آتیں کیونکہ وہ ایک بیجگر فائٹر تھا!

دفعتا بائیں جانب دیوار میں ایک دروازہ نما خلا نمودار ہوئی اور جوزف جھکا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس کے سر پر پٹی چڑھی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے! سر شاید زخمی تھا! شاید یہ صفدر کی چھٹی حس ہی تھی جس نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نہ پیدا ہونے دیئے اور جوزف تو پہلے ہی سے سر جھکائے کھڑا ہوا تھا! اس نے کسی طرف دیکھنا بھی نہیں تھا! اس کے چہرے پر نظر آنے والے آثار اکھڑے ہوئے نشے سے پیدا ہونے والی بوریت کی غمازی کر رہے تھے۔ زیادہ دیر تک شراب نہ ملنے پر اس کی پلکیں ایسی ہی بوجھل ہوجاتی تھیں کہ وہ کسی کی طرف دیکھنے میں بھی کاہلی محسوس کرتا تھا!

اچانک بھاری جبڑے والے نے صفدر سے پوچھا۔ ” یہ کون ہے؟”
“میں کیا جانوں!” صفدر غرایا۔ “کہیں تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا!”
بھاری جبڑے والے کا قہقہہ کافی طویل تھا لیکن جوزف اب بھی سر جھکائے کسی بت کی طرح کھڑا رہا!ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ آوازیں اس کے کانوں تک پہنچی ہی نہ ہوں۔ جو آدمی اسے یہاں لایا تھا اس کی رائفل کی نال اب بھی اس کی کمر سے لگی ہوئی تھی!
“تم بکواس کرکے کامیاب نہیں ہوسکتے دوست”۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔ “تم عمران کے آدمی ہو! اور اس وقت بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ ندی پر مقبرہ کے قریب گھیرا گیا تھا”۔

“مجھے اس سے کب انکار ہے مگر میں اس آدمی کو نہیں جانتا”۔ صفدر نے لاپروائی سے کہا۔
“یہ عمران کا ملازم نہیں ہے؟” بھاری جبڑے والے نے غرا کر کہا۔
“میں نے تو کبھی عمران کے ساتھ نہیں دیکھا”۔ صفدر نے جواب د یا! وہ جانتا تھا کہ جوزف اب عمران کے ساتھ اس کے فلیٹ میں نہیں رہتا بلکہ مستقل طور پر رانا پیلس ہی میں اس کا قیام ہے۔ اس لئے وہ اس کے معاملے میں محتاط ہو کر زبان کھول رہا تھا!
“رانا تہور علی کو جانتے ہو؟”

“یہ نام میرے بالکل نیا ہے”۔ صفدر نے متحیرانہ لہجے میں کہا۔
“او۔۔ حبشی۔۔!” دفعتا وہ جوزف کی طرف مڑکر گرجا! “اب تم اپنی زبان کھولو۔ ورنہ تمہارے جسم کا ایک ایک ریشہ الگ کردیا جائے گا”۔
“جا۔۔” جوزف سر اٹھائے بغیر بھرائی سی آواز میں بولا! “پہلے میری پیاس بجھا! پھر میں بات کروں گا۔ تم لوگ بہت کمینے ہو۔ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ شراب ہی میری زبان کھلواسکے گی”۔ “شراب نہیں مل سکے گی”۔ “تب پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں! جو تمہارا دل چاہے کرو”۔ “ادھر دیکہو۔ کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو؟” اشارہ صفدر کی طرف تھا۔ “کیوں دیکھوں؟ کیسے دیکھوں؟ میری آنکھوں کے سامنے غبار اڑ رہا ہے۔ مجھے اپنے پیر بھی صاف نہیں دکھائی دیتے۔ شراب لا۔ یا مجھے گولی مارد”۔

“پلا۔ اسے۔ پلا”۔ دفعتا بھاری جبڑے والا دونوں ہاتھ ملا کر غرایا ۔ “اتنی پلا کہ اس کا پیٹ پھٹ جائے”۔ رائفل والا جوزف کے پاس سے ہٹ کر پچھلے دروازے سے نکل گیا۔ “عمران کہاں ہے؟” وہ پھر صفدر کی طرف متوجہ ہوا۔ “اگر تم یہ جانتے ہو کہ میں اس دن عمران کے ساتھ تھا جب ہم پر چاروں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ عمران کام آگیا تھااور میں بچ کر نکل گیا تھا”۔ “ہمیں تو اس پر یقین تھا کہ تم بھی نہ بچے ہوگے! لیکن آج تم ہاں میرے سامنے موجود ہو! تم اتنی چالاکی سے نکل گئے تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا تھا”۔ “عمران گولی کھا کر دریا میں گر گیا تھا”۔ صفدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا! لیکن وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں جوزف یہ جملے سن کر چونک نہ پڑے۔ اس وقت کی گفتگو سے اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا کہ وہ رانا تہور علی اور عمران کی الجھن میں پڑ گئے ہیں۔

لیکن صفدر کے اندیشے بیبنیاد ثابت ہوئے کیونکہ جوزف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی اس نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ کسی طرف دیکھا۔
تھوڑی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی اور رائفل والا دیسی شراب کی دو بوتلیں لئے دروازے سے اندر داخل ہوا۔ “ایک بوتل کھول کر اس کے منہ سے لگا دو”۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔ تعمیل کی گئی! جوزف کے موٹے موٹے ہونٹ بوتل کے منہ سے چپک کر رہ گئے! بڑا مضحکہ خیز منظر تھا۔ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بھوکے شیرخوار بچے نے دودھ کی بوتل سے منہ لگا کر چسر چسر شروع کردی ہو۔
آدھی بوتل غٹا غٹ پی جانے کے بعد اس نے بوتل کا منہ چھوڑ کر دو تین لمبی لمبی سانسیں لیں اور مسکرا کر بولا۔

“تم بڑے اچھے ہو! بڑے پیارے آدمی ہو! تم پر آسمان سے برکتیں نازل ہوتی رہیں! اور آسمانی باپ تمہیں اچھے کاموں کی توفیق دے”۔
بھاری جبڑے والا کینہ توز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے اسے مار ڈالنے کی خواہش پال رہا ہو! جوزف نے بقیہ آدھی بوتل بھی ختم کردی۔ اب وہ کسی جاگتے ہوئے آدمی کی سی حالت میں آگیا تھا۔ آنکھیں سرخ ہوگئیں تھیں اور چہرے کی سیاہی چمکنے لگی تھی۔ “ارے۔۔ یہ آدمی۔۔” دفعتا اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ “ہاں! مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسے ایک آدھ بار مسٹر عمران کے ساتھ دیکھا تھا”۔

“لیکن میں نے تو تمہیں کبھی نہیں دیکھا”۔ صفدر نے غصیلی آواز میں کہا۔ “یہ بھی ممکن ہے مسٹر کہ تمہاری نظر مجھ پر کبھی نہ پڑی ہو”۔
“عمران کہاں ملے گا؟” بھاری جبڑے والا غرایا۔ “میں کیا بتا سکتا ہوں مسٹر”۔ جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔ “بہت دنوں کی بات ہے جب میں مسٹر عمران کے ساتھ تھا۔ لیکن وہ میرے پینے پلانے کا بار سنبھالنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے خود ہی میرا پیچھا چھوڑ دیا۔۔ اس طرح میں نے اطمینان کا سانس لیا! ورنہ مجھے تو اس کا غلام رہنا ہی پڑتا ہے جو مجھے زیر کرلے۔ اور پھر میرا تو ڈاکٹر طارق والا مقدمہ بھی چل رہا ہے”۔
“کیسا مقدمہ۔۔؟”

اس پر جوزف نے ڈاکٹر طارق کی کہانی دہراتے ہوئے کہا۔ ماسٹر عمران نے مجھے بہت پیٹا تھا۔ وہ شاید پولیس کے لئے کام کرتے ہیں۔۔!”
بھاری جبڑے والا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا! “رانا کون ہے؟” “باس ہے میرا۔ جوزف نے فخر سے سینہ تان کر کہا۔ “وہ کہاں ملے گا۔۔؟” “میں نہیں جانتا۔ ان سے تو بس کبھی کبھی ملاقات ہوتی ہے”۔ “عمران سے اس کا کیا تعلق ہے۔۔؟” “میں کیا بتاسکتا ہوں مسٹر۔ میں کیا جانوں! میں نے کبھی ان کے ساتھ مسٹر عمران کو نہیں دیکھا”۔ “تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟” “بس یوں ہی میں ایک دن سڑک پر جا رہا تھا کہ ایک کار میرے پاس رکی! اس پر سے رانا صاحب اترے اور کہنے لگے میں نے پچھلے سال شاید تمہیں نیٹال میں دیکھا۔ میں نے کہا کہ میں تو دس سال سے اس ملک میں ہوں! انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی اور ہو۔ پھر وہ مجھ سے میرے متعلق پوچھ گچھ کرنے لگے!۔۔ یہ۔۔ دوسری بوتل بھی مسٹر۔۔ خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور عورت کے سائے سے بچائے۔ تم بہت نیک ہو”۔

بھاری جبڑے والے کے اشارے پر دوسری بوتل بھی کھولی گئی! اور جوزف چوتھائی پینے کے بعد بولا۔ “ہاں تو تم کیا پوچھ رہے تھے۔ برادر۔۔!”
“تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟” “ہاں۔۔ ہاں۔۔ شاید میں یہی بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے میرے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے۔ “چلو کہتے رہو! رکو مت!” بھاری جبڑے والا بولا۔ “میں نے انہیں بتایا کہ مجھے نوکری کی تلاش ہے۔ انہوں نے پوچھا باڈی گارڈز کے فرائض انجام دے سکو گے! اوہ۔۔ بڑی آسانی سے میں نے انہیں بتایا اور یہ بھی کہا کہ میرا نشانہ بڑا عمدہ ہے اور میں کبھی ہیوی ویٹ چیمپین بھی رہ چکا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے نوکر رکھ لیا! میں ان کے پیسنے کی جگہ خون بھی بہا سکتا ہوں۔ لارڈ آدمی ہیں۔ کبھی نہیں پوچھتے کہ میں دن بھر میں کتنی بوتلیں صاف کردیتا ہو”۔

بھاری جبڑے والا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس کے بیان پر تذبذب میں پڑ گیا ہو۔ دوسری طرف صفدر پر جوزف کے جوہر پہلی بار کھلے تھے! وہ اب تک اسے پرلے درجے کا ایڈیٹ ہی تصور کرتا رہا تھا! لیکن اس وقت تو عمران ہی کا یہ قول کرسی نشین ہوا تھا کہ جوزف ایک نادر الوجود شکاری کتا ہے۔ سادہ لوحی اور چیز ہے! لیکن بیضرر نظر آنے والاے کتے بھی شکار کے وقت اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں! بشرطیکہ وہ شکاری ہوں! جوزف پر صحیح معنوں میں یہ مثال صادق آتی تھی۔ “دیکھو میں تمہاری ہڈیاں چور کردوں گا۔ ورنہ مجھ سے اڑنے کی کوشش نہ کرو”۔

“بس یہ بوتل ختم کر لینے دو! اس کے بعد جو دل چاہے کرنا!” جوزف نے ہونٹ چاٹتے ہوئے کہا۔ “صرف ایک دن کی مہلت اور دی جاتی ہے۔ تم عمران کا پتہ بتا اور تم رانا تہور علی کا۔۔!” بھاری جبڑے والا ہاتھ اٹھا کر بولا۔ وہ رائفل والے کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا دروازے سے نکل گیا اور پھر وہ دروازہ بھی غائب ہوگیا۔ دیوار برابر ہوگئی تھی۔ جوزف دوسری برتل کی طرف ندیدوں کی طرح دیکھنے لگا جس میں ابھی تین چوتھائی شراب باقی تھی۔ اس پر کاگ بھی نہیں تھا۔ وہ تھوڑی دیر تک حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر پشت پر بندھے ہوئے ہاتھوں کے بل فرش پر نیم دراز ہوگیا! دیکھتے ہی دیکھتے بوتل دونوں پیروں میں دبائی اور پیر سر کی طرف اٹھنے لگے۔۔ اور بوتل کا منہ اس کے ہونٹوں سے جالگا!

صفدر کھڑا پلکیں چھپکاتا رہا! “غٹ غٹ” کی صدائیں تہہ خانے کے سکوت میں گونج رہی تھیں۔ بوتل خالی ہوئے بغیر ہونٹوں سے نہ ہٹ سکی۔ دفعتا کھٹاکے کی آواز آئی اور بھاری جبڑے والا پھر اندر داخل ہوا اس بار اس کے اس کے ہاتھ میں چمڑے کا چابک تھا! نہ جانے کیوں جوزف مسکرا پڑا مگر وہ جوزف کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ “سرسوکھے رام کو عمران کی تلاش کیوں ہے؟” اس نے صفدر سے پوچھا۔ “میں نہیں جانتا”۔ “تم جانتے ہو۔۔!” وہ چابک زمین پر مارتا ہوا دہاڑا۔ “میرے ہاتھ کھول دو۔ پھر اس طرح اکڑوں تو یقینا مرد کہلا گے”۔ اس بار چابک صفدر کے جسم پر پڑا اور وہ تلملا گیا۔
“بتا!”
صفدر اس کی طرف جھپٹا لیکن اس نے اچھل کر پیچھے ہٹتے ہوئے پھر چابک گہما دیا! اس طرح صفدر نے کئی چابک کھائے! اور یک بیک سست پڑ گیا! یہ حماقت ہی تو تھی کہ وہ اس طرح پٹ رہا تھا! ادھر جوزف کا یہ حال تھا کہ وہ کوشش کے باوجود بھی فرش سے نہیں اٹھ سکتا تھا! پورے چھتیس گھنٹوں کے بعد اسے شراب ملی تھی اور اس نے یہ دو بوتلیں جس طرح ختم کی تھیں اس طرح کوئی دوسرا پانی بھی نہ پی سکتا!
“میں نہیں جانتا۔۔ “ڈھمپ اینڈ کو کا اصل بزنس کیا ہے؟” “فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ۔۔ “تم وہاں کام کرتے ہو؟” “ہاں۔۔!”
“پھر عمران کا اور تمہارا کیا ساتھ۔۔ “مجھے شوق ہے سراغرسانی کا”۔ صفدر بولا۔ “عمران کی وجہ سے میں بھی اپنا یہ شوق پورا کرسکتا ہوں کیونکہ وہ پولیس کے لئے کام کرتا ہے”۔ “تمہارے دفتر کی اسٹینو ٹائپسٹ جولیا کا عمران سے کیا تعلق ہے؟” “یہ وہی دونوں بتا سکیں گے!” صفدر نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔ بھاری جبڑے والا کھڑا دانت پیستا رہا۔ پھر آنکھیں نکال کر آہستہ آہستہ بولا۔ “تم مجھے نہیں جانتے! میں تمہارے فرشتوں سے بھی اگلوالوں گا! خواہ اس کے لئے تمہارا بند بند بھی کیوں نہ الگ کرنا پڑے۔۔!”

وہ پیر پٹختا ہوا چلا گیا! دیوار کی خلا اس کے گذرتے ہی پر ہوگئی تھی! ایک تختہ سا بائیں جانب کھسک کر دوسری جانب کی دیوارسے جا ملتا تھا۔ جیسے ہی جولیا کی نظر سرسوکھے پر پڑی وہ ستون کی اوٹ میں ہوگئی۔ یہاں پام کا بڑا گملا رکھا ہوا تھا اور پام کے پتے اسے چھپانے کے لئے کافی تھے۔ وہ سرسوکھے سے بھاگنے لگی تھی! کیونکہ وہ اسے بیحد بور کرتا تھا! وہ پرانی کہانی جس کا سلسلہ میں وہ عمران کا تعاون حاصل کرنا چاہتا تھا بار بار دہرائی جاتی! اور پھر اس کے ساتھ سرسوکھے کی اداسی بھی تو تھی! اسے غم تھا کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جسے وہ اپنا کہہ سکے! جوانی ہی میں موٹاپا شروع ہوگیا تھا اور اسی بنا پر خود اس کی پسند کی لڑکیاں اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتی تھیں۔۔ وہ جولیا سے یہ ساری باتیں کہتا رہتا! ٹھنڈی سانسیں بھرتا اور کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں آنسوتیرنے لگتے! جنہیں وہ چھپانے کے لئے وہ طرح طرح کے منہ بناتا! اور ہزاروں قہقہے جولیا کے سینے میں طوفان کی سی کیفیت اختیار کرلیتے پھر اسے کسی بہانے سے اس کے پاس سے اٹھ جانا پڑتا۔۔ وہ کسی باتھ روم میں گھس کر پیٹ دبا دبا کر ہنستی۔۔!

اکثر سوچتی کہ اسے تو اس سے ہمدردی ہونی چاہیئے! پھر آخر اسے اس پر تا کیوں آتا ہے۔۔! وہ غور کرتی تو سرسوکھے کی زندگی اسے بڑی دردناک لگتی! لیکن زیادہ سوچنے پر اسے یا تو ہنسی آتی یا غصہ آتا! کبھی وہ سوچتی کہ کہیں سرسوکھے اس کام کے بہانے اس سے قریب ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہا! اس خیال پر غصے کی لہر کچھ اور تیز ہوجاتی! مگر پھر کچھ دیر بعد ہی اس شام کا خیال آجاتا جب وہ اس کے دفتر میں بیٹھی سونے کی اسمگلنگ کی کہانی سن رہی تھی اور دوسرے کمرے کی میز الٹنے کی آواز نے انہیں چونکا دیا تھا! اور پھر اس نے میز کی سطح پر پیروں کے نشانات محفوظ کئے تھے۔۔! وہ سوچتی رہی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ حقیقتا پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر قسم کی پریشانیوں کا تذکرہ بیک بوقت کردینے کا عادی ہو!

وہ روزانہ شام کو عمران کی تلاش میں نکلتے تھے! لیکن آج کے لئے جولیا نے ایک ضروری کام کا بہانہ کرکے اس سے معافی مانگ لی تھی۔۔! لیکن وہ گھر میں نہ بیٹھ سکی! شام ہوتے ہی اس نے سوچا آج تنہا نکلنا چاہیئے! مقصد عمران کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا! وہ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے پورچ میں پہنچی ہی تھی کہ اچانک غیر متوقع طور پر سرسوکھے نظر آگیا تھا! وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج وہ بھی وہیں آ مرے گا۔

جیسے ہی وہ پورچ میں پہنچا! جولیا گملے کی آڑ سے نکلی اور جھپٹ کر کلرک روم میں د اخل ہوگئی! یہاں سے ایک راہداری براہ راست ریکریئشن ہال میں جاتی تھی! جہاں آج اسکیٹنگ کا پروگرام تھا۔۔ وہ بڑی بدحواسی کے عالم میں یہاں پہنچی۔ “اف خدا۔۔” وہ بڑبڑائی اور اس کا سر چکرا گیا! کیونکہ سرسوکھے دوسرے دروازے سے ریکریئشن ہال میں داخل ہوا تھا! ویسے اس کی توجہ جولیانا کی طرف نہیں تھی! جولیانا کلوک روم والی راہداری ایک گیلری میں لائی تھی۔ اس نے ذہنی انتشار کے دوران فیصلہ کیا کہ سرسوکھے سے تو کھوپڑی نہیں چٹوائے گی خواہ کچھ ہوجائے۔ پھر؟

وہ جھپٹ کر ایک میز پر جا بیٹھی جہاں ایک اداس آنکھیوں والا نوجوان پہلے ہی سے موجود تھا۔ “معاف کیجیئے گا!” جولیا نے کہا۔ ذرا سر چکرا گیا ہے۔۔۔ ابھی اٹھ جاں گی”۔ “کوئی بات نہیں محترمہ!” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ جولیا نے آنکھوں پر رومال رکھ کر سرجھکا لیا اور چڑھتی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔۔ “کیسی طبعیت ہے۔۔ آپ کی؟” تھوڑی دیر بعد نوجوان نے پوچھا۔ “اوہ۔۔ جی ہاں۔۔ بس ٹھیک ہی ہے۔۔ اب۔۔ “برانڈی منگوا ں۔۔ “جی نہیں شکریہ! میں اب بالکل ٹھیک ہوں!” وہ سر اٹھا کر بولی۔ “آج کل موسم بڑا خراب جارہا ہے!” نوجوان بولا۔
“جی ہاں۔۔ جی ہاں۔۔ یہی بات ہے”۔

یہ دبلے چہرے والا مگر وجیہہ نوجوان تھا! اس کی آنکھوں کی غم آلود نرماہٹ نے اسے کافی دلکش بنادیا تھا۔ پیشانی کی بناوٹ بھی نرم دلی اور اور ایمانداری کا اعلان کر رہی تھی۔۔ “میں اس شہر میں نوارد ہوں”۔ جولیا نے کہا۔ “مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں اسکیٹنگ بھی ہوتی ہے! مجھے بیحد شوق ہے۔ اس کا۔ جی ہاں”۔ اس نے تھکی ہوئی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ “دلچسپ کھیل ہے”۔
“آپ کو پسند ہے؟”
“بہت زیادہ۔۔!” نوجوان کا لہجہ بیحد خم انگیز تھا۔۔!

ٹھیک اسی وقت سرسوکھے ان کے قریب پہنچا! جولیا کی نظر غیر ارادی طور پراس کی طرف اٹھ گئی تھ اور وہ بطور اعتراف شناسائی سر کو خفیف سی جنبش دے کر آگے بڑھ گیا تھا! جولیا بھی بادل ناخواستہ مسکرائی تھی۔
بہرحال اس کے اس طرح آگے بڑھ انے پر اس کی جان میں جان آئی تھی وہ اس پر یہ بھی نہیں ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اس سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے! سرسوکھے آگے بھ کر ایک میز پر جا بیٹھا تھا! جولیا سوچ رہی تھی کہ اگر وہ اس میز سے اٹھی اور سرسوکھے کو شبہ بھی ہوگیا کہ وہ تنہا ہے تو وہ تیر کی طرح اس کی طرف آئے گا۔

اتنے میں اسکیٹنگ کے لئے موسیقی شروع ہوگئی! اور جولیا نے اس انداز میں نوجوان کی طرف دیکھا جیسے مطالبہ کر رہی ہو کہ مجھ سے رقص کی درخواست کرو! مگر نوجوان خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔۔!
جولیا نے سوچا بدھو ہے لہذا اس نے خود ہی کہا! “اگر آپ کو اسکیٹنگ سے دلچسپی ہے ۔۔ تو۔۔ آئیے۔۔!”
“میں۔۔!” نوجوان کے لہجے میں تحیر تھا! پھر اس کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہوگئی۔۔! اس نے چھبتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ “آپ میرا مذاق کیوں اڑا رہی ہیں محترمہ؟”
“میں نہیں سمجھی!” جولیا بوکھلا گئی!

“یا آپ یہ بیساکھی نہیں دیکھ رہی ہیں!” اس نے ایک کرسی سے ٹکی ہوئی بیساکھی کی طرف اشارہ کیا۔
جولیا کی نظریں اگر پہلے اس پر پڑی بھی ہوگی تو اس نے دھیان نہ دیا ہوگا! بہرحال اب وہ کٹ کر رہ گئی!
“اوہ۔۔ معاف کیجیئے گا!” اس نے لجاجت سے کہا۔ ” میں نے خیال نہیں کیا تھا میں بیحد شرمندہ ہوں جناب! کیا آپ معاف نہیں کریں گے؟”
“کو ئی بات نہیں!” وہ ہنس پڑا۔
اس کا بیاں پیر شاید کسی حادثے کی نظر ہو کر گھٹنے کے پاس سے کاٹ دیا گیا تھا اور اب لکڑی کا ایک ڈھانچہ پنڈلی کا کام دے رہا تھا۔
“یہ کیسے ہوا تھا؟” جولیا نے پوچھا۔ وہ سچ مچ اس کے لئے غمگین ہوگئی تھی!

“فوجیوں کی زندگی میں ایسے حادثات کوئی اہمیت نہیں رکھتے”۔ اس نے کہا اور بتایا کہ وہ پچھلی جنگ عظیم میں اطالولیوں کے خلاف لڑا تھا اور مورچے پر ہی اس کی بائیں ٹانگ ایک حادثہ کا شکار ہوگئی تھی! وہ سیکنڈ لیفٹنٹ تھا!
بات لمبی ہوتی گئی اور وہ جنگ کے تجربات بیان کرتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جولیا نے محسوس کیا کہ اب اس میز سے اٹھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا! اس کے بعد بھی وہ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی گفتگو کرتے رہے۔ پھر پہلا دور ختم ہوگیا۔۔! نوجوان نے کافی منگوائی اور جولیا کو انکار کے باجود بھی پینی ہی پڑی! ویسے بھی وہ اس مغوم نوجوان کی درخواست رد نہیں کرنا چاہتی تھی۔
کچھ دیر بعد کسی جانب سے ایک خوبصورت اور صحت مند نوجوان ان کی طرف آیا اور جولیا سے ساتھی بننے کی درخواست کی۔ جولیا اس کی آواز سن کر چونک پڑی۔
“اگر کوئی حرج نہ ہو تو۔۔!” وہ کہہ رہا تھا!

“ضرور۔۔ ضرور۔۔!” جولیا مسکراتی ہوئی اٹھ گئی تھی! ساتھ ہی اس نے لنگڑے نوجوان کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور یہ بھی محسوس کیا تھا کہ وہ کھسیاسا گیا ہے لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس آدمی کی درخواست رد کردیتی جس کے لئے خود اتنے دنوں سے بھٹکتی پھر رہی تھی! صورت سے تو وہ اسے ہرگز نہ پہچان سکتی کیونکہ وہ میک اپ میں تھا لیکن جب اپنی اصلی آواز میں بولا تھا تو جولیا اسے کیوں نہ پپہچان لیتی وہ عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا!

وہ اس جگہ آئے جہاں اسکیٹس ملتے تھے! جلدی جلدی انہیں جوتوں سے باندھا اور چوبی فرش پر پھسل آئے! عمران اس کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا!
“تم کہاں تھے درندے؟” جولیا نے پوچھا!
“شکار پر۔۔!” عمران نے جواب دیا! پھر بولا۔ “تم اس شام ندی پر کیوں دوڑی آئی تھیں؟”
“یہ اطلاع دینے کیلئے کہ تمہاری موت پر کرائے کے رونے والے بھی نہ مل سکیں گے!”
“لیکن میں تمہیں اس وقت یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ تمہارا پورا دفتر ان لوگوں کی نظروں میں آگیا ہے”۔
“پھر کیا کرنا چاہی؟”

“پرواہ مت کرو!” لیکن فی الحال یہ بھول جا کہ تمہارے ساتھ کبھی کوئی عمران بھی تھا! میں نے انہیں شہبے میں مبتلا کردیا ہے۔ کبھی انہیں میری موت پر یقین سا آنے لگتا ہے اور کبھی وہ میری تلاش شروع کردیتے ہیں”۔
“ایک آدمی اور بھی تمہاری تلاش میں ہے”۔ جولیا نے کہا اور سرسوکھے کا واقعہ بتایا۔
“فی الحال میں اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا!”

“ایکس ٹو تو اس کے کیس میں دلچسپی لے رہا ہے اور میں بڑی شدت سے بور ہو رہی ہوں”۔
“ہوسکتا ہے وہ اس لئے دلچسپی لے رہا ہو کہ تم میری تلاش جاری رکھو! خوب بہت اچھے یہ ایکس ٹو تو یقینا بھوت ہے وہ شاید مجرموں پر یہی ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ عمران کے ساتھیوں کو بھی اس کی موت پر یقین نہیں آیا۔۔ اچھا جولیا تم دن میں تین چار بار میرے فون نمبر پر رنگ کرکے سلیمان سے میرے متعلق پوچھتی رہو! میرا خیال ہے کہ وہ لوگ میرا فون ٹیپ کر رہے ہیں! سرسوکھے کے ساتھ مل کر میری تلاش بھی جاری رکھو!”

“اس کی رام کہانیاں مجھے بور کرکے مار ڈالیں گی!”
“اگر تم اتنی آسانی سے مر سکو تو کیا کہنے ہیں!” عمران نے کہا اور جولیا نے اسے لاکھوں سلواتیں سنا ڈالیں۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اسکیٹنگ کرتے رہے پھر جولیا نے کہا۔
“سرسوکھے یہیں موجود ہے۔۔!”
“کہاں۔۔؟”

جولیا نے بتایا! عمران کنکھیوں سے موٹے آدمی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ “یہ تو صحیح معنوں میں پہاڑی معلوم ہوتا ہے کیا تم اس کے ساتھ اسکیٹنگ نہیں کرو گی؟”
جولیا نے اسے بتایا کہ کس طرح اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے وہ ایک لنگڑے آدمی کے پاس جا بیٹھی تھی!
“بہت بری بات ہے۔۔! موٹاپا اپنے بس کی بات نہیں”۔ عمران نے مغوم لہجہ میں کہا! “تمہیں اس سے شادی کر لینی چاہیئے!”
“میں تمہارا گلا گھونٹ دوں گی۔۔!” جولیا جھلا گئی۔
“آ ج کل تو سب ہی مجھے مار ڈالنے کی تاک میں ہیں۔۔ ایک تم بھی سہی”۔

جولیا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے اسکیٹنگ کرتی رہی۔۔! اس غیر متوقع ملاقات سے پہلے اس کے ذہن میں عمران کے متعلق ہزاروں باتیں تھیں جنہیں اس وقت قدری طور پر اس کی زبان میں آنا چاہیئے تھا! لیکن وہ محسوس کر رہی تھی کہ اب اس کے پاس جھنجھلاہٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ گیا! ویسے یہ اور بات ہے کہ اس جھنجھلاہٹ کو بھی اظہار کے لئے الفاظ نہ ملتے۔۔!
تو گویا یہ عمران اس کے لئے سوہان روح بن کر رہ گیا تھا! اس کی عدم موجودگی اس کے لئے بیچینی اور اضطراب کا باعث بنتی تھی! لیکن جہاں مشکل نظر آئی تا آگیا۔۔ وہ تا لانے والی باتیں ہی کرتا ھا۔۔!

جولیا کا ذہن بہک گیا تھا اور وہ کسی ننھی سی بچی کی طرف سوچ رہی تھی! یہ بھول گئی تھی کہ وہ کون ہے اور کن ذہنی بلندیوں پر رہتی ہے!
“غالبا۔۔ تم میرے فیصلے پر نظرثانی کر رہی ہو”۔ عمران نے کچھ دیر بعد مسکرا کر کہا!
“کیا مطلب۔۔؟”
“یہی کہ تمہیں سرسوکھے سے شادی کر ہی لینی چاہیئے!” عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ “ہوسکتا ہے اس کے بعد ہی وہ صحیح معنوں میں سرسوکھے کہلانے کا مستحق ہوسکے!”
جولیا نے جھٹکا دے کر اپنے ہاتھ اس سے چھڑا لیئے اور تھوڑا سا کترا کر تنہا پھسلتی چلی گئی!

گیارہ بجے وہ گھر پہنچی! سرسوکھے سے اس کی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ ٹپ ٹاپ کلب میں زیادہ دیر نہیں بیٹھا تھا!۔۔ جولیا تنہا اسکیٹنگ کرتی رہی تھی! لیکن جب اس نے تقریبا دس منٹ بعد دوبارہ عمران کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ہال میں موجود نہیں ہے پھر اب وہ وہاں ٹھہر کر کیا کرتی!
گھر پہنچی تو قفل کھولتے وقت کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی اور قفل سے ایک رول کیا ہوا کاغذ کا ٹکڑا پھنسا ہوا ملا۔
جولیا نے اسے کھینچ کر ٹارچ کی روشنی میں دیکھا!

اس پر پنسل کی تحریر نظر آئی!
“جولیا ! جب بھی واپس آ! فورا مجھے رنگ کرو”۔
صفدر۔”
“کیا مصیبت ہے؟” وہ تھکے تھکے سے انداز میں بڑبڑائی تھی۔
دروازہ کھول کر وہ خواب گاہ میں آئی یہیں فون تھا! اس پر صفدر کے نمبر رنگ کئے۔
“ہیلو۔۔ کون۔۔ جولیا! دوسری طرف سے آواز آئی! “اوہ۔۔ بس میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ تم کب گھر پہنچتی ہو؟”
“کیوں؟”

“چند بہت ہی اہم باتیں ہیں۔ میں وہیں آرہا ہوں! پہچنے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ لگیں گے!”
جولیا نے برا سا منہ بنا کر سلسلہ منقطع کردیا! وہ اب صرف سونا چاہتی تھی لیکن صفدر اتنی رات گئے اس سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟
وہ اس کا انتظار کرنے لگی۔۔ پھر صفدر وعدہ کے مطابق پندرہ منٹ کے اندر ہی اندر وہاں پہنچ گیا تھا۔
“کیوں۔۔ اتنی رات گئے؟” جولیا نے متحیرانہ انداز میں پوچھا۔

“صرف ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ سرسوکھے رام کون ہے اور عمران کو کیوں تلاش کر رہا ہے”۔
“کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟” یہ سوال غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔
“کیونکر کچھ لوگ مجھ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں”۔
صفدر نے اپنی کہانی چھیڑ دی۔

“مگر پھر تم یہاں کیسے نظر آرہے ہو”۔ جولیا نے اس کے خاموش ہوجانے پر پوچھا!
“یہ جوزف جیسے گدھے کا کارنامہ ہے! واقعی عمران کا انتخاب بھی لاجواب ہوتا ہے”۔
“مگر میں نے سنا ہے وہ اب عمران کے ساتھ نہیں رہتا!”

“اسی پر تو حیرت ہے!” صفدر نے کہا! حالانکہ اسے ذرہ برابر بھی حیرت نہیں تھی کیونکہ وہ جوزف کی جائے قیام سے اچھی طرح واقف تھا! لیکن ایکس ٹو کی ہدایت کے مطابق اسے پراسرار رانا پیلس کو راز ہی رکھنا تھا!
“خیر تو پھر تم لوگ رہا کیسے ہوئے؟” جولیا نے پوچھا۔

“جوزف نے ایک خالی بوتل پیروں میں دبا کر دیوار پر کھینچ ماری تھی اور پھر اس کا نیک ٹکڑا دانتوں میں دبائے ہوئے میرے پاس آیا تھا۔ ہم دونوں ہی کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ اس نے اسی شیشے کے ٹکڑے سے میرے ہاتھوں کی ڈور کاٹنی شروع کردی! وہ شیشے کا ٹکڑا منہ میں دبائے کسی نہ تھکنے والے جانور کی طرح اپنے کام میں مشغول رہا۔ آخرکار اسے کامیابی ہی ہوئی۔ رسی کٹتے ہی میرے ہاتھ آزاد ہوگئے! پھر میں نے جوزف کے ہاتھ بھی کھول دیئے لیکن اس خدشے کی بنا پر کچھ دیر پریشان بھی ہونا پڑا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے۔ اب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنا بھی ہمیں کھل رہا تہا اس لئے تہہ خانے سے باہر نکلنے کے سلسلے میں ہم نے اپنی جدوجہد تیز کردی۔ ہمیں وہاں کسی ایسی چیز کی تلاش تھی جس سے دیوار میں دروازہ نما خلا پیدا کی جاسکتی!”

جولیا کچھ نہ بولی! صفدر نے ایک سگریٹ سلگایا اور دو تین ہلکے ہلکے کش لئے!
لیکن نہ جانے کیوں وہ سوالیہ انداز میں جولیا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔!
کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ “یہ ناممکن ہے کہ عمران تم سے نہ ملا ہو”۔
“ابھی تمہاری پچھلی بات پوری نہیں ہوئی”۔ جولیا ناخوشگوار لہجے میں بولی۔

“پھر کوئی بات ہی نہیں رہ گئی تھی! ہم جلدہی اس دروازے کے میکنزم کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے! تہہ خانے کے اوپر۔۔ عمارت سنسان پڑی تھی! کسی جگہ بھی روشنی نہ دکھائی دی۔ وہ لوگ موجود نہیں تھے! ایک کھڑکی سے میں نے کمپانڈ میں جھانکا۔ باہر ایک آدمی موجود تھا اور برآمدے کا بلب روشن تھا! اس آدمی نے چوکیداروں کی سی وردی پہن رکھی تھی! جوزف کسی بلی کی طر برآمدے میں رینگ گیا۔ کمال کا پھرتیلا آدمی ہے۔۔ بالکل کسی تیندوے کی طرح اور تیزی سے جھپٹنے والا! چوکیدار کے حلق سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکل سکی تھی! پھر جلد ہی وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا۔۔ اس طرح ہم وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے”۔
“پھر کیا کیا تم نے۔۔؟”

“کچھ بھی نہیں! میں اپنی ذمہ داری پر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا”۔
“جولیا نے کچھ کہے بغیر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے۔۔!
اور دوسری طرف سے آواز آئی۔ “دانش منزل پلیز”۔
عمران نے حال ہی میں ایکس ٹو کے پرائیویٹ فون سے ایک ٹیپ ریکارڈ اٹیچ کردیا تھا اور اس کا سسٹم کچھ اس قسم کا تھا کہ رنگ کرنے والے کو ادھر سے ریسور اٹھاے بغیر ہی جواب مل جاتا تھا! اس میں مختلف قسم کے احکامات تھے۔ آج کل کے ٹیپ پر “دانش منزل پلیز” ہی چل رہا تھا کیوں کہ عمران فلیٹ میں ہوتا ہی نہیں تھا! ظاہر ہے کہ ایسے کسی زمانے میں اس کی پناہ گاہ دانش منزل ہی ہوسکتی تھی جب کچھ نامعلوم لوگ اسے مار ڈالنے کے درپے ہوں۔

جولیا نے سلسلہ منقطع کرکے دانش منزل کے لئے ٹرانسمیٹر نکالا! اور بولی۔ ” ہیلو۔۔ ہیلو۔۔ ایکس ٹو پلیز۔۔! ایکس ٹو۔۔ ہلو۔۔ ہلو۔۔ ایکس ٹو۔ ایکس ٹو”۔
“ہلو۔۔!” آواز آئی اور یہ ایکس ٹو ہی کی آواز تھی۔
“یہاں صفدر موجود ہے۔۔!”
“تو پھر۔۔!”
“وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔ کیا فون استعمال کیا جائے”۔
“میں جانتا ہوں وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اس سے کہو کہ دو دن کی تھکن بڑی اچھی نیند لاتی ہے”۔
“بہتر ہے!”
“غالبا تم سوچ رہی ہوگی کہ اس عمارت پر چھاپہ کیوں نہ مارا جائے”۔
“جی ہاں قدرتی بات ہے”۔

“لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ مجھے سرغنہ کی تلاش ہے۔ وہ اس عمارت میں نہیں تھا! اور اب تو وہاں تمہیں ایک پرندہ بھی نہیں ملے گا!”
“میرے لئے کیا حکم ہے؟”
“وقت آنے پر مطلع کیا جائے گا۔ اور کچھ؟”
“جی نہیں!”
“اوور اینڈ آل۔۔!”
جولیا نے سوئچ آف کردیا اور صفدر کی طرف مڑی جو بہت زیادہ متحیر نظر آرہا تھا!
“یہ سب کچھ جانتا تھا!” صفدر نے آہستہ سے کہہ کر جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور ختم ہوئے سگریٹ سے دوسرا سگریٹ سلگانے لگا۔ پھر دو تین گہرے کش لے کر بولا۔ ” وہ جانتا تھا مگر اس نے مطلق پرواہ نہ کی کہ مجھ پر کیا گذرے گی!”
“مگر تمہیں تو عمران نے اس آدمی کے تعاقب کے لئے کہا تھا”۔

“عمران۔ نتائج کا ذمہ دار تو نہیں ہے!” صفدر نے کہا! “ایکس ٹو کو علم تھا آخر اس نے ہماری مدد کیوں نہیں کی؟”
“صفدر صاحب آپ کو تعاقب کے لئے کہا گیا تھا! اس سے دور رہ کر اس کی نظروں سے بچ کر! عمران نے یہ تو نہ کہا ہوگا کہ آپ اس کے ساتھ بلیرڈ کھیلنا شروع کردیں”۔
“ہاں مجھ سے ہی غلطی ہوئی تھی”۔
“ہوسکتا ہے اسی غلطی کی پاداش میں یہ تمہاری سزا رہی ہو کہ ایکس ٹو نے حالات سے واقف ہونے کے باوجود بھی تمہاری کوئی مدد نہ کی!”
صفدر کچھ نہ بولا! اس کی بھنویں سمٹ گئی تھیں اور پیشانی پر کئی سلوٹیں ابھر آئی تھیں!
کچھ دیر بعد جولیا نے جوزف کا تذکرہ چھیڑدیا!

“وہ عمران ہی کی طرح عجیب ہے! بظاہر ڈیوٹ۔ لیکن۔ بہرحال اس نے مجھے کسی طرح بھی یہ نہیں بتایا کہ وہاں کیسے پہنچا تھا!”
“مگر اب وہ رہتا کہاں ہے؟”
“خدا جانے۔۔!”
“عمران کے فلیٹ میں تو بہت دنوں سے نہیں دیکھا گیا”۔
“ہوں۔ یہ بتا۔ سرسوکھے کا کیا قصہ ہے۔ یہ کون ہے؟” وہ عمران کو کیوں تلاش کر رہا ہے! وہ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سرسوکھے عمران کی تلاش میں کیوں ہے اور اس نے ہمارے دفتر سے کیوں رابطہ قائم کیا ہے۔۔!”
“سرسوکھے یہاں کا ایک دولت مند آدمی ہے! وہ اس لئے ہمارے فرم سے رجوع ہوا ہے کہ ہم اس کی فرم کے لئے فارورڈنگ اور کلیرنگ کریں! لیکن میں یہ نہیں جانتی کہ اسے عمران کی تلاش کیوں ہے! یہ تو بہت برا ہوا کہ آفس بھی ان کی نظروں میں آگیا ہے”۔
“میرا تو خیال ہے کہ وہ ہمارے چیف ایکس ٹو کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ ضرور جانتے ہیں”۔

“اور عمران کے قول کے مطابق یہ لوگ وہی ہیں جن سے آتشدان کے بت والے کیس میں مڈبھیڑ ہوئی تھی۔۔! وہ قصہ وہیں ختم نہیں ہوگیا تھا!” جولیا نے کہا اور کسی سوچ میں پڑ گئی!
دفعتا فونی کی گہنٹی بجی اور اور جولیا نے ریسیور اٹھالیا!
“ہیلو۔۔!”

“میں ہوں”۔ ایک ٹو کی آواز آئی۔ سرسوکھے کا کیس ایک بار پھر دہرا۔ تفصیل سے۔۔!”
جولیا نے شروع سے اب تک کے واقعات دہرانے شروع کردیئے لیکن پھر یک بیک اسے خیال آیا کہ اس نے اصلیت صفدر کو نہیں بتائی! اور وہ اب بھی یہیں موجود ہے۔ لہذا اس نے سونے کی اسمگلنگ کی طرف سے آنے سے پہلے کہا۔ “صفدر یہیں موجود ہے”۔
“پروا ہ نہیں”۔ ایکس ٹو کی آواز آئی۔ “صفدر سے اس سلسلے میں کچھ بھی نہ چھپا! وہ ان لوگو میں سے ہے جن پر میں بہت زیادہ اعتماد کرتا ہوں”۔

پھر جیسے ہی جولیا نے سونے کی اسمگلنگ کی کہانی چھیڑی صفدر اسے گھورنے لگا!
آخر میں جولیا نے پوچھا۔”کیا آپ کو علم ہے کہ جن لوگوں نے صفدر کو پکڑا تھا وہ سرسوکھے میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں”۔
“نہیں میں نہیں جانتا”۔
“انہوں نے صفدر سے یہ معلوم کرنے کے لئے سختی برتی تھی”۔
“کیا معلوم کرنے کے لئے۔ جملے ادھورے نہ چھوڑا کرو” ایکس ٹو غرایا۔

“معافی چاہتی ہوں جناب! وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ سرسوکھے عمران کی تلاش میں کیوں ہے! یہ معلوم کرنے کے لئے انہوں نے صفدر پر چابک برسائے تھے۔ ڈھمپ اینڈ کو اور عمران کا تعلق بھی ان کے لئے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے”۔
“اوہ۔۔ اچھا تو۔۔ اب سرسوکھے کو عمران سے ملا دو”۔ ایکس ٹو نے کہا۔
“مگر میں اسے کہاں ڈھونڈوں؟”

“کل صبح سرسوکھے کو گرینڈ ہوٹل میں مدعو کرو! عمران پہنچ جائے گا”۔
“بہت بہتر جناب۔۔!”
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا۔
دوسری صبح تقریبا نو بجے جولیا گرینڈ ہوٹل میں سرسوکھے کا انتظار کر رہی تھی اور اسے یقین تھا کہ اب سرسوکھے سے نجات مل جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اب تک وہ عمران ہی کے سلسلے میں اس کیساتھ رہی تھی! لیکن اب عمران خود ہی اس سے ملنے والا تھا!
پھر کیا؟ اب بھی اس کی گلوخلاصی نہ ہوگی؟ جولیا کے پاس اس وقت بھی اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں تھا!

ٹھیک نو بج کر دس منٹ پر سرسوکھے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور آنکھیں غمگین تھیں! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے کسی عزیز کے کریا کرم سے واپس آیا ہو۔۔!
جولیا نے خوش اخلاقی سے اس کا استقبال کیا!
“بس آجائیں گے تھوڑی دیر میں”۔
اس نے غور سے جولیا کی طرف دیکھا۔ ایک ٹھنڈی سانس لی اور دوسری طرف دیکھنے لگا! ایسا کرتے وقت وہ بیحد مضحکہ خیز لگا تھا! جولیا نے نہ جانے کیسے اپنی ہنسی ضبط کی تھی۔

“پچھلی شام آپ مجھ سے ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ملی تھیں؟” دفعتا اس نے سرجھکا کر آہستہ سے کہا!
“میرے چند دوست۔۔”۔
“ٹھیک ہے”! وہ جلدی سے بولا۔ دیکھیئے مجھے غلط نہ سمجھیئے گا! آخر مجھے کیا حق حاصل ہے کہ آپ سے ایسی گفتگو کروں۔ میرے خدا۔۔!”
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا! اور جولیا کا دل چاہا کہ ایک کرسی اٹھا کر اسی پر توڑ دے۔ گدھا کہیں کا۔ آخر خود کو سمجھتا کیا ہے!

“وہ دیکھیئے”۔ سرسوکھے نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ “میں کیا بتاں بعض اوقات مجھ سے بچکانہ حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں! بھلا بتائیے یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی مگر زبان سے نکل ہی گئی۔ اسے یوں سمجھیئے۔ دیکھیئے! بالکل بچوں کی طرح۔۔! وہ ٹھہرئیے۔۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ دیکھیئے شاید آپ اسی سے میرے احساسات کا اندازہ کرسکیں۔ میری ایک بھابی تھیں! میں انہیں بہت پسند کرتا تھا! اور وہ بھی مجھے بہت چاہتی تھیں! ایک دن ان کا ایک کزن آگیا جو میرا ہی ہم سن تھا۔ کچھ دنوں بعد میں نے محسوس کیا کہ اب وہ مجھ پر اتنی مہربان نہیں رہیں جتنی پہلے تھیں۔ بس رو پڑا۔ الگ جاکر۔ کوٹھری میں کھڑا رو رہا تھا کہ بھابی آگئیں۔ میں خاموش ہوگیا۔ وہ رونے کی وجہ پوچھتی رہیں لیکن میں کیا بتاتا! بہرحال مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پیر میں چوٹ آگئی ہے مجھ سے اٹھا نہیں جاتا۔ انہوں نے مجھے اٹھایا۔ باہر لائیں۔ میرے پیر میں مالش کی۔۔ لیکن میں روتا ہی رہا۔ اب دیکھیئے۔ میں ان سے کیسے کہتا۔ کیسے کہتا کہ وہ اپنے کزن کو مجھ سے زیادہ کیوں چاہتی ہیں۔۔ اسی طرح کل میں کتنا دکھی تھا! بالکل اسی طرح۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردوں! یعنی آپ نے میری طرف آنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ اوہ۔۔!”

وہ یک بیک چونک کر خاموش ہوگیا! اس کی آنکھوں سے ندامت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ پھر وہ دونارہ چونک کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “مس جولیانا۔۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ ایک باکل گدھا اور بیعقل آدمی سمجھ کر معاف کردیجیئے۔ میں آخر یہ ساری بکواس کیوں کر رہا ہوں۔۔ بوائے۔۔”
اس نے بڑے غیر مہذب انداز میں بیرے کو پکارا تھا! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنی کہی ہوئی باتیں جولیا کے ذہن سے نکال پھینکنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔!

“کافی۔۔ اور ایک بڑا پگ وہسکی!” اس نے بیرے سے کہا اور جولیا کی طرف متوجہ ہوا ہی تھا کہ جولیا بولی۔
“پچھلی رات میں نے صرف عمران کے ساتھ اسکیٹنگ کی تھی!”
“نہیں تو۔ میں وہاں موجود تھا میں نے دیکھا پہلے آپ کے ساتھ کوئی اور تھا”۔
“پہلا اور آخری آدمی۔۔!” جولیا مسکرائی۔۔!
“میں نہیں سمجھا!”
“وہ عمران ہی تھا۔۔!”

“نہیں۔۔! مگر۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ نہیں وہ نہیں ہوسکتے! تم مذاق کر رہی ہو!”
“یقین کیجیئے! وہ میک اپ میں تھا! آج کل وہ کسی چکر میں ہے اور کچھ لوگ اس کے دمشن ہوگئے ہیں اس لئے وہ زیادہ تر خود کو چھپائے رکھتا ہے”۔
“اوہ! بھیئی کمال کا آدمی ہے!” سرسوکھے نے بچوں کے سے متحیرانہ لہجے میں کہا۔ “کیا شاندار میک تھا گھنٹوں دیکھتے رہنے کے بعد بھی نہ پہچانا جاسکے”۔
“میں نے بھی اسے صرف آواز سے پہچانا تھا!
“اوہ۔۔!” وہ مضطربانہ انداز میں بولا۔ جس میں دبی ہوئی سی خوشی بھی شامل تھی۔ “تب تو مجھے یقین ہے۔ بالکل یقین ہے کہ میری مشکلات رفع ہوجائیں گی”۔
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی تیر کی طرح ان کی طرف آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

جولیا سٹپٹا گئی! کیونکہ یہ عمران نہیں ہو سکتا تھا اور اگر تھا بھی تو پچھلی رات والے میک اپ میں نہیں تھا!
“فرمائیے جناب!” سرسوکھے غصیلے لہجے میں بولا!
“میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے”۔ آنے والے مسمی صورت بنا کر کہا!
“درد۔ یعنی کہ پین۔ پتہ نہیں فرانسیسی اور جرمن میں اسے کیا کہتے ہیں”۔
“میں پوچھتا ہوں کہ آپ اس میز پر کیوں آئے ہیں”۔ سرسوکھے میز پر ہاتھ مار کر غرایا!
“انہیں دیکھ کر۔۔!” اجنبی نے جولیا کی طرف اشارہ کیا!
“کیا مطلب۔۔!”

“دیکھنے کا مطلب کیسے سمجھاں؟”
“تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔۔!”
“اگر کچھ دیر تک آپ اسی قسم کی گفتگو کرتے رہے تو یقینا خراب ہوجائے گا۔ بھلا کوئی تک ہے۔۔ آخر آپ درد کا مطلب نہیں سمجھتے۔۔دیکھنے کا مطلب نہیں سمجھتے! پھر کیا میں درد کو شکرقند اور دیکھنے کو فلفلانا کہوں۔ واہ بھلا آپ مجھے غصے سے کیوں فلفلا رہے ہیں! میرے پیٹ میں تو شکرقند ہو رہا ہے!”
“تمہاری ایسی کی تیسی”۔ سرسوکھے کرسی کھسکا کر کھڑا ہوگیا اور لگا آستین سمیٹنے!

“ارے۔ تم نے تو میری مٹی پلید کردی جولیا! اجنبی نے جولیا سے کہا۔ ” تم نے تو کہا تھا کہ تم کسی سرسوکھے کے ساتھ ملو گی۔ یہ تو سرہاتھی نہیں بلکہ سرپہاڑ ہیں۔ پہلوان بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اگر انہوں نے ایک آدھ ہاتھ رکھ ہی دیا ہوتا تو میں کہاں ہوں گا! خدا تمہیں غارت کرے!”
جولیا پیٹ دبائے بیتحاشہ ہنس رہی تھی!
“ارے سرسوکھے! یہ عمران ہے!” بدقت اس نے کہا!
“کیا۔۔! اف فہ۔۔ ہاہا۔۔ ہا ہا۔۔ ہاہا!” سرسوکھے نے بھی منہ پھاڑ دیا۔
لیکن اس کی ہنسی خجالت آمیز تھی۔۔!

پھر وہ بیٹھ گیا! لیکن عمران اب بھی ایسی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا جیسے اب اٹھ کر بھاگا!
“مائی ڈیئر مسٹر عمران آپ واقعی کمال کے آدمی ہیں!” سرسوکھے نے ہانپتے ہوئے کہا!
وہ اسی طرح ہانپ رہا تھا جیسے دور سے چل کر آیا ہو!
عمران چونکہ میک اپ میں تھا اس لئے حماقت کا اظہار صرف آنکھوں ہی سے ہوسکتا تھا! لیکن اس وقت تو آنکھیں سرسوکھے کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں!

“اسمگلنگ کی کہانی میں سن چکا ہوں!” عمران نے کہا۔
“مس جولیا نے آپ کو سب کچھ بتایا ہوگا۔۔!”
“جی ہاں سب کچھ!۔۔ آپ اپنے آدمیوں میں سے کس پر شبہ ہے”۔
“دیکھینے! مجھے تو جس اسٹاف پر شبہ تھا اسے پہلے ہی الگ کردیا تھا! فاورڈنگ اور کلیرنگ کا سیکشن ہی توڑ دیا۔۔ لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ موجودہ اسٹاف بیداغ ہے۔ بھلا کیسے کہہ سکتا ہوں! آپ خود ہی سوچیئے!”
“ٹھیک ہے ایسے حالات میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا”۔ عمران سر ہلا کر بولا!
“پھر آپ میرے لئے کیا کریں گے۔۔؟”

“پکوڑے تلوں گا!” عمران نے سنجیدگی سے کہا اور سرسوکھے بیساختہ ہنس پڑا۔۔
“خیر۔۔ خیر۔۔” اس نے کہا! “میں اب یہ معاملہ آپ پر چھوڑتا ہوں! جس طرح آپ کا دل چاہے اسے ہینڈل کیجیئے!۔۔!”
“آپ کو میرے ساتھ تھوڑی سی دوڑ دھوپ بھی کرنی پڑے گی!”
“اس کی فکر نہ کیجیئے! میں موٹا اور بیہنگم ہی سہی! لیکن چلنے کے معاملے میں کسی سے کم بھی نہیں ہوں! مطلب یہ کہ اگر پیدل بھی چلنا پڑے گا۔ جی ہاں”۔

“سواری کا تو کچومر نکل جائے گا! پیدل ہی ٹھیک ہے”۔ عمران سرہلا کر بولا۔
“میں برا نہیں مانتا!” سرسوکھے نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہا۔
پتہ نہیں کیوں یک بیک جولیا کو عمران پر تا آنے لگا اور سرسوکھے کے لئے ہمدردی محسوس ہونے لگی!
اس نے کہا۔ “اچھا تو سرسوکھے۔۔ اب ہم اس معاملہ کو دیکھ لیں گے! ہوسکتا ہے کہ آپ بہت مشغول ہوں!”
“اوہ۔ بیحد۔۔ بیحد۔۔ اچھا اب اجازت دیجیئے!” سرسوکھیاٹھتا ہوا بولا۔
عمران اسے جاتے دیکھتا رہا۔۔!

“تم اس کا مضحکہ کیوں اڑا رہے تھے؟” جولیا نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
“پھر کیا کروں؟ اتنے موٹے آدمی کو سر پر بیٹھا لوں!” عمران بھی جھلا کر بولا۔
“مجھے اس سے ہمدردی ہے! اتنے بڑے ڈیل ڈول میں ایک ننھا سا بچہ! بیچارا۔۔!”
“خدا تمہیں بھی بیچاری بننے کی توفیق عطا کرے۔۔ اور آئندہ مجھے کوئی اتنا موٹا بیچارہ نہ دکھائے تو بہتر ہے ورنہ میں تو کہیں کا نہ رہوں گا۔ تم ایسے اوٹ پٹانگ آدمیوں سے ملاتی رہتی ہو۔ اچھا ٹاٹا۔۔!”
پھر جولیا اسے روکتی ہی رہ گئی۔۔ لیکن وہ چھلاوے ہی کی طرح آیا تھا اور اسی طرح یہ جاوہ جا۔۔ نظروں سے غائب۔۔!

ایکس ٹو نے اپنے ماتحتوں کو باقاعدہ طور پر ہدایت کردی تھی کہ وہ عمران کے متعلق کسی چکر میں نہ پڑیں۔ نہ تو اس کے فلیٹ کے فون نمبر رنگ کئے جائیں اور نہ کوئی ادھر جائے! جولیا کو اس قسم کی ہدایت دیتے وقت اس کا لہجہ بیحد سخت تھا!
جولیا اس پر بری طرح جھلا گئی تھی! لیکن کرتی بھی کیا! ایکس ٹو بہرحال اپنے ماتحتوں کے اعصاب پر سوار تھا! وہ اس سے اسی طرح خائف رہتے تھے جیسے ضعیف الاعتقاد لوگ ارواح کے نام پر لرزہ براندام ہوجاتے ہیں!

مگر جولیا الجھن میں مبتلا تھی۔ آج کل ایک ناقابل فہم سی خلش ہر وقت ذہن میں موجود رہتی اور اس کا دل چاہتا کہ وہ شہر کی گلیوں میں بھٹکتی پھرے! چھتوں اور دیواروں کے درمیان گھٹن سی محسوس ہوتی تھی!
آج صبح اس نے فون پر بڑے جھلائے ہوئے انداز میں ایکس ٹو سے گفتگو کی تھی۔ اسے بتایا تھا کہ سرسوکھے کی بھاگ دوڑ کا اصل مقصد کیا ہے! پھروہ اس کے لئے عمران کو تلاش کرے یا نہ کرے!۔۔
“بس اسی حد تک جولیا ناکہ وہ مطمئن ہوجائے!” ایکس ٹو نے جواب دیا تھا! ” اسے یہ شبہ نہ ہونا چاہیئے کہ تم اسے ٹال رہی ہو! بلکہ عمران کی گمشدگی پر پریشانی بھی ظاہر کرو!”
جولیا برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی!
سرسوکھے کی فرمائش کے مطابق آج اسے عمران کی تلاش میں اس کا ساتھ دینا تھا! سب سے پہلے وہ عمران کے فلیٹ میں پہنچے لیکن سلیمان سے یہی معلوم ہوا کہ عمران پچھلے پندرہ دنوں سے غائب ہے! پھر جولیا نے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عمران وہاں کا مستقل ممبر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں اس کیمتعلق کچھ معلومات حاصل ہوسکیں۔

وہ ٹپ ٹاپ کلب پہنچے۔ یہاں بھی کوئی امید افزا صورت نہ نکل سکی! آخر سرسوکھے نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا۔ “اب کہاں جائیں۔ میں واقعی بڑا بدنصیب ہوں مس جولیانا۔ آیئے کچھ دیر یہیں بیٹھیں!”
جولیا کو اس پہاڑ نما آدمی سے بڑی الجھن ہوتی تھی! اس کے ساتھ کہیں نکلتے ہوئے اس کے ذہن میں صرف یہی ایک خیال ہوتا تھا کہ وہ بڑی مضحکہ خیز لگ رہی ہوگی۔ آس پاس کے سارے لوگ انہیں گھور رہے ہوں گے!
مگر اس کمبخت ایکس ٹو کو کیا کہیئے جس کا حکم موت کی طرح اٹل تھا!

وہ سرسوکھے کے ساتھ بیٹھی اور بور ہوتی رہی! لیکن پھر اس نے ریکرئیشن ہال میں چلنے کی تجویز پیش کی!
مقصد یہ تھا کہ وہاں کوئی نہ کوئی اس سے رقص کی درخواست ضرور کرے گا اور سرسوکھے سے پیچھا چھوٹ جائے گا! سرسوکھے اس تجویز پر خوش ہوا تھا!
وہ ریکریشن ہال میں آئے۔ یہاں ابھی آرکسٹرا جاز بجا رہا تھا! اور چند باوردی منتظمین چوبی فرش پر پاڈر چھڑکتے پھر رہے تھے۔
وہ گیلری میں جا بیٹھے! تھوڑی دیر بعد رقص کے لئے موسیقی شروع ہوئی!

“کیا میں آپ سے رقص کی درخواست کرسکتا ہوں!” سرسوکھے نے ہچکچاتے ہوئے کہا!
“آپ!” جولیا نے متحیرانہ لہجے میں سوال کیا! اس کا سر چکرا گیا تھا!
“اوہ”۔ دفعتا سرسوکھے بیحد مغوم نظر آنے لگا! کرسی کی پشت سے ٹکتے ہوئے اس نے چھت پر نظریں جما دیں! جولیا کو اپنے رویے پر افسوس ہونے لگا کیونکہ سرسوکھے کی آنکھیوں میں آنسو تیر رہے تھے! جولیا نے محسوس کیا کہ اس کا وہ “آپ” گویا ایک تھپڑ تھا جو سرسوکھے کے دل پر پڑا تھا! کیونکہ “آپ” کہتے وقت جولیا کیلہجے میں تحیر سے زیادہ تضحیک تھی!
“اوہو۔۔ تو پھر۔۔ آپ اٹھیئے نا!” جولیا نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔

وہ ہنسنے لگا۔ بیتکی سی ہنسی! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے خود اسے بھی احساس ہو کہ وہ یوں ہی احمقانہ انداز میں ہنس پڑا ہے۔ پھر وہ آنکھیں ملنے لگا!
“نہیں ۔!” وہ کچھ دیر بعد بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “میں اپنی اس بیتکی درخواست پر شرمندہ ہوں! میں آپ کو بھی مضحکہ خیز نہیں بنانا چاہتا !”

وہ پھر ہنسا مگر جولیا کو اس کی ہنسی دردناک معلوم ہوئی تھی! ایسا لگا تھا جیسے متعدد کراہوں نے ہنسی کی شکل اختیار کرلی ہو!
“مس فٹز واٹر!” اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ “ہڈیوں اور گوشت کا یہ بنجر پہاڑ ہمیشہ تنہا کھڑا رہے گا۔ میں نے نہ جانے کس رو میں آپ سے درخواست کردی تھی! اداس اور تنہا آدمی بچوں کی سی ذہنیت رکھتے ہیں”۔ گوشت اور ہڈیوں کے اس بیہنگم سے ڈھیر میں چھپا ہوا سرسوکھے رام بچہ ہی تو ہے جو بڑی لاپروائی سے اس بدنما ڈھیر کو اٹھائے پھرتا ہے۔ اگر باشعور ہوتا تو۔۔”
“اور دیکھیئے! آپ بالکل غلط سمجھے سرسوکھے! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا! دراصل مجھے اس پر حیرت تھی کہ۔۔!”
“نہیں۔ مس جولیانا! میں خود بھی تماشہ بننا پسند نہیں کروں گا!” وہ ہاتھ اٹھا کر دردناک آواز میں بولا۔

جولیا خاموش ہوگئی! رقص شروع ہوکا تھا! سرسوکھے رقاصوں کو کسی بچے ہی کے سے انداز میں دیکھتا رہا۔۔! نہ جانے کیوں جولیا سچ مچ اس کے لئے مغوم ہوگئی تھی!
جوزف بس چلتا ہی رہا! اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کتنا چل چکا ہے۔ اور کب تک چلتا رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی زبان ہی چل رہی تھی ۔ نوجوانی کے قصے چھیڑ رکھے تھے!

نوجوانی کے قصے بھی جوزف کی ایک کمزوری تھی۔ وہ مزے لے لے کر اپنے کارنامے بیان کرتا تھا اور ان کہانیوں کے درمیان قبیلے کی ان لڑکیوں کا تذکرہ ضرور آتا تھا جو اس پر مرتی تھیں۔ اس مرحلہ پر جوزف کے ہونٹ سکڑ جانے اور آواز میں سختی پیدا ہوجاتی۔ ایسا لگتا جیسے حقیقتا اسے کبھی ان کی پرواہ نہ ہوئی ہو! اس وقت وہ بوڑھے سے کہہ رہا تھا۔ “بھلا بتا۔ مجھے ان باتوں کی فرصت کہاں ملتی تھی۔ میں تو زیادہ تر رائفلوں اور نیزوں کے کھیل میں الجھا رہتا تھا۔ جب بھی سفید فام شکاری میرے علاقہ میں داخل ہوتے تو انہیں تندوے کی تلاش ضروری ہوتی تھی! میں ہی ان کی رہنمائی کرتا تھا۔ ان کی زندگیاں میری مٹھی میں ہوتی تھیں۔۔ اب بتا۔۔ تم ہی بتا۔۔ میں کیا کرتا! نگانہ جو قبیلے کی سب سے حسین لڑکی تھی! اس نے مجھے بددعائیں دی تھیں۔۔ آہ۔۔ آج میں اسی لئے بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ مگر بتا! اس کے لئے کہاں سے وقت نکالتا۔۔!”

جوزف نے پھر بکواس شروع کردی۔ تاڑی کی تین بوتلیں ہٹلر بھی بن سکتی ہیں اور علم الکلام کی ماہر بھی۔۔!
اچانک بوڑھا چلتے چلتے رک گیا۔ اور خوش ہو کر بولا! “واہ۔۔ اب تو وہ بیرل یہاں سے لے جائے بھی جاسکتے ہیں! میرے آدمی ٹرک لے آئے ہیں لیکن پولیس کا کہیں پتہ نہیں ہے۔۔!”
“ہائیں!” جوزف منہ پھاڑ کر رہ گیا۔ پھر بولا! “اب میرے انعام کا کیا ہوگا!”
“ایک بیرل تمہارا ہے دوست!” بوڑھے نے اس کی کمر تھپتھپا کر کہا! “تم اب انہیں ٹرک میں چڑھانے میں مدد دو گے”۔
ٹرک قریب ہی موجود تھا۔ اس کا پچھلا ڈھکنا زمین پر ٹکا ہوا تھا۔ جوزف نے چندھائی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا! یہ ایک ویرانہ تھا۔ گھنیرے درخت اور جھاڑ جھنکار قریب وجوار کے اندھیرے میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے سے معلوم ہو رہے تھے۔
“چلو۔ اندازہ کرلو کہ تم بیرل اوپر چڑھا سکو گے یا نہیں!” بوڑھے نے کہا اور ٹرک پر چڑھ گیا۔

جوزف کی رفتار سست تھی۔ لیکن وہ بھی اوپر پہنچ ہی گیا! ٹرک تین طرف سے بند تھا اور اس کی چھت کافی اونچی تھی! لیکن جوزف جیسے لمبے تڑنگے آدمی کو تو جھکنا ہی پڑا تھا۔
“چڑھا سکو گے نا؟” بوڑھے نے پوچھا۔
“بل۔۔ بل۔۔ بلکول۔۔” جوزف لڑکھڑایا اور آندھی سے اکھڑتے ہوئے کسی تناور درخت کی طرح ڈھیر ہوگیا! اسے اس پر بھی غور کرنے کا موقعہ نہیں مل سکا تھا کہ کھوپڑی پر ہونے والے تین بھرپور وار زیادہ نشہ آور ہوتے ہیں۔۔ یا تاڑی کی تین بوتلیں۔۔!
اس کا ذہن تاریکی کی دلدل میں ڈوبتا چلا گیا! پھر دونوں ٹرک کے اگلے حصے میں چلے گئے!
تھوڑی دیر بعد ٹرک چل پڑا!

صفدر نے اس دن کے بعد سے اب تک ڈھمپ اینڈ کو کے دفتر کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ جب وہاں عمران کی موت کی اطلاع لے کر گیا تھا! ایکس ٹو کی طرف سے اسے یہی ہدایت ملی تھی!
لیکن وہ عمران کے متعلق الجھن میں تھا! کبھی یقین کرنے پر مجبور ہوتا کہ اب عمران اس دنیا میں نہیں! اور کبھی پھر کئی طرح کے شبہات سر اٹھاتے! مگر یہ تو اس کی آنکھوں کے سامنے کی بات تھی کہ عمران چیخ مار کر ندی میں جا پڑا تھا! کچھ بھی ہو دل نہیں چاہتا تھا کہ عمران کی موت پر یقین کرے!

جولیا نے کسی کو بھی نہیں بتایا تھا کہ عمران زندہ ہے اور اسے اس واقعہ کے بعد اس کی کوئی تحریر ملی تھی! ایکس ٹو تو اسے یقینی طور پر صحیح حالات کا علم تھا۔ ورنہ وہ جولیا کو فون پر سرزنش کیوں کرتا۔ یہی سوچ کر جولیا نے اس سے بھی اس مسئلہ پر کسی قسم کی گفتگو نہیں کی تھی!
بہرحال صفدر آج کل زیادہ تر گھر ہی میں پڑا رہتا تھا۔۔ اس وقت بھی وہ آرام کرسی میں پڑا اونگھ رہا تھا! اچانک فون کی گھنٹی بجی جو ان دونوں شاذونادر ہی بجتی تھی!
وہ اچھل پڑا۔۔!

“ہیلو۔۔!” اس نے ماتھ پیس میں کہا۔
“ہائیں۔۔!” دوسری طرف سے آواز آئی۔ “کیا تم زندہ ہو؟”
“ارے!” صفدر پرمسرت لہجے میں چیخا! “آپ۔۔!”
اس نے عمران کی آواز صاف پہچان لی تھی۔
“اتنی زور سے نہ چیخو کہ تمہاری لائن کو شادی مرگ ہوجائے۔ ویسے میں عالم بالا سے بو ل رہا ہوں!”
“عمران صاحب خدا کے لئے بتایئے کہ وہ سب کیا تھا؟”

“یار بس کیا بتاں”۔ دوسری طرف سے مغوم لہجے میں کہا گیا! ” میں تو یہی سمجھ کر مرا تھا کہ گولی لگ چکی ہے۔ مگر فرشتوں نے پھر دھکا دے دیا! کہنے لگے کھسکو یہاں سے۔ یہاں چارسو بیسی نہیں چلے گی۔ گولی وولی نہیں لگی۔ آئندہ اچھی طرح مرے بغیر ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔ نہیں تو اب کی دم لگا کر واپس کئے جا گے!”
صفدر ہنسنے لگا! وہ بیحد خوش تھا۔ اس کی بیک بہت بڑی الجھن رفع ہو گئی تھی!
“جولیا بے حد پریشان تھی۔۔!” صفدر نے کہا۔
“پچھلے سال میں اس سے ساڑھے پانچ روپے ادھار لیئے تھے نا۔۔ آج تک واپس نہیں کرسکا۔۔!”
“عمران صاحب خدا آپ کو جمالیاتی حس بھی عطا کردے تو کتنا اچھا ہو!”

“تب پھر لوگ مجھے جمال احمد کہیں!” عمران خوش ہو کر بولا۔ “اور میں جمالی تخلص کرنے لگوں! خیر اس پر کبھی سوچیں گے۔ اس وقت تمہیں ایک آدمی کا تعاقب کرنا ہے جو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے بلیرڈ روم نمبر میں بلیرڈ کھیل رہا ہے۔ اس کے جسم پر سرمئی آئیرن کا سوٹ ہے اور گلے میں نیلی دھاریوں والی زرد ٹائی۔ اگر وہ تمہارے پہنچنے تک وہاں سے جاچکا ہو تو پھر وہیں ٹھہرنا”۔
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا!

صفدر کو ٹپ ٹاپ نائٹ کلب پہچنے میں بیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے تھے! وہ آدمی اب بھی بلیرڈ روم میں موجود تھا جس کے متعلق عمران نے بیس منٹ پہلے اس سے فون پر گفتگو کی تھی۔ یہ ایک لمبا تڑنگا اور صحت مند جوان تھا۔ جبڑوں کی بناوٹ اس کی سخت دلی کا اعلان کر رہی تھی۔ البتہ آنکھیں کاہلوں اور شرابیوں کی سی تھیں۔ آنکھوں کی بناوٹ اور جسم کے پھرتیلے پن میں بڑا تضاد تھا۔
صفدر اس طرح ایک خالی کرسی پر جا بیٹھا جیسے وہ بھی کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہو! یہاں چار بلیرڈ روم تھے اور ہر کمرے میں دو دو میزیں تھیں! اس کمرے کی دونوں میزوں پر کھیل ہو رہا تھا!
بھاری جبڑے والے کا ساتھی تھوڑی دیر بعد ہٹ گیا! اور بھاری جبڑے والے صفدر سے پوچھا!
“کیا آپ کھیلیں گے؟”

“جی ہاں۔۔!” صفدر اٹھ گیا۔
دونوں کھیلنے گے! کچھ دیر بعد صفدر نے محسوس کیا کہ اس کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی ہیں۔ پتہ نہیں کیسے وہ عورتوں اور آرائشی مصنوعات کا تذکرہ نکال بیٹھا تھا!
“کیا خیال ہے آپ کا یہ عورتیں سال میں کتنی لپ اسٹک کھا جاتی ہوں گی؟”
اس نے پوچھا!
“ابھی تک میں عورتوں کے معاملات سمجھنے کے قابل نہیں ہوا”۔ صفدر نے جواب دیا۔
“اوہو۔۔ تو کیا بھی تک سنگل ہی ہو یار۔۔!”
“بالکل سنگل۔۔!”

“یہ تو بہت بری بات ہے کہ تمہاری آمدنی کا بہت بڑا حصہ لغویات پر نہیں صرف ہوتا”۔
“تم شائد بہت زیادہ زیربار ہوجاتے ہو”۔ صفدر مسکرایا۔
“دو بیویاں ہیں! لیکن ایک کو دوسری کی خبر نہیں۔۔!”
“یہ کیسے ممکن ہے؟”
“دن ایک کے ہاں گزرتا ہے، رات دوسری کے ہاں”۔ ایک سمجھتی ہے کہ میں فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں! وہی جس کے ہاں رات بسر ہوتی ہے۔ اور دوسری سمجھتی ہے کہ میں ایک مل میں اسسٹنٹ ویونگ ماسٹر ہوں اور ہمیشہ رات کی ڈیوٹی پر رہتا ہوں”۔
“تو تم حقیقتا” کیا کرتے ہو؟”

“فلموں کے لئے کہانیاں لکھتا ہوں۔۔!” اس نے جواب دیا۔ “اور یہ کہانیاں کہیں بھی بیٹھ کر لکھی جاسکتی ہیں! اور کبھی ناوقت سیٹ پر جانا پڑا تو اس وقت والی بیوی سمجھتی ہے کہ اوورٹائم کر رہا ہو۔ یا شوٹنگ طویل ہوگئی ہے۔۔!”
“کما ل کے آدمی ہو۔۔!”
“بیویوں کو دھوکا دینا میری تفریح ہے!۔ اب تیسری کے امکانات پر غور کر رہا ہوں لیکن وقت کیسے نکالوں گا”۔
“واہ۔۔ تیسری بھی کرو گے۔۔!”

“کرنی ہی پڑے گی۔ دیکھو یار قصہ دراصل یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ شادیاں کرنے سے سالیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ اور سالیاں۔۔ ہا۔۔ اگر سالیاں نہ ہوں تو دنیا ویران ہوجائے!”
“مجھے تو اس نام ہی سے گھن آتی ہے”۔ صفدر نے کہا۔
“آہا۔ تو تم انہیں سالیوں کی بجائے بتاشیاں یا جلیبیاں کہہ لیا کرو! کیا فرق پڑتا ہے”۔
صفدر ہنسنے لگا اور تھوڑی دیر بعد یہ بھول ہی گیا کہ وہ یہاں کس لئے آیا تھا۔
کھیل ختم ہوجانے کے بعد وہ ڈائننگ روم میں آ بیٹھے۔ بھاری جبڑے والا ایک لاپرواہ اور فضول خرچ آدمی معلوم ہوتا تھا۔
کافی پیتے وقت اس نے صفدر سے کہا۔”یا مجھ پر ایک احسان کرو”۔
“کیا؟” صفدر چونک پڑا۔

اس نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ “چھ بج رہے ہیں لیکن میں رات والی بیوی سے آج پیچھا چھڑانا چاہتا ہوں۔ میں اس سے کہوں گا کہ تم اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہو۔ آج رات بھی شوٹنگ ہوگی۔ اس لئے ڈائریکٹر نے تمہیں ساتھ کردیا ہے تاکہ تم مجھے اپنے ساتھ ہی لے جا! ساڑھے سات بجے ہم گھر ہی پر رات کا کھانا کھائیں گے۔ تم برابر کہتے رہنا، بھئی جلدی چلو اور بس ہم آٹھ بجے تک گھر سے نکل آئیں گے۔کیوں؟ پھر ہم دونوں دوست ہوجائیں گے۔ اور تم آئندہ بھی ایسے مواقع پر میرے کام آیا کرنا!”
صفدر ہنسنے لگا۔ مگر بھاری جبڑے والے کی سنجیدگی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا!

“میں سنجیدہ ہوں دوست!” اس نے کہا۔ “اگر تم یہ کام نہ کرسکو تو صاف جواب دو۔ تاکہ میں کسی دوسرے کو پھانسوں! بس کسی اور کے ساتھ کچھ دیر کھیلنا پڑے گا! سارے ہی آدمی تمہاری طرح ٹھس تھوڑا ہی ہوں گے۔ ایڈوینچر کا شوق کسے نہیں ہوتا! بہتیرے پھنسیں گے!”
صفدر نے سوچا چلو دیکھا ہی جائے گا کہ یہ آدمی کس حد تک بکواس کر رہا ہے اور اسے بہرحال اس کے متعلق معلومات فراہم کرنی تھیں! پہلے چوری چھپے یہ کام سرانجام دینا پڑتا۔ مگر اب۔۔ اب تو وہ اسے کھلی ہوئی کتاب کی طرح پڑھ سکے گا۔
اس نے حامی بھر لی۔

باہر نکل کر بھاری جبڑے والے نے کہا۔ “یہ تو اور اچھی بات ہے کہ تمہاری کار بھی موجود ہے! اب وہ شبہ بھی نہ کرسکے گی کہ میں اسے الو بنا رہا ہوں۔ وہ تمہارے اسسٹنٹ ڈائریکٹر پر ایمان لے آئے گی”۔
“قطعی۔!” صفدر یوں ہی بولنے کے لئے بولا۔

وہ صفدر کی رہنمائی کرتا رہا اور پھر ماڈل کالونی کی ایک دور افتادہ عمارت کے سامنے کار روکنے کو کہا۔ عمارت نہ خوبصورت تھی اور نہ بڑی تھی۔ پائیں باغ ابتر حالت میں تھا۔ جس سے مالک مکان کی لاپرواہی یا مفلوک الحالی ظاہر ہو رہی تھی!
اس نے اسے نشست کے کمرے میں بٹھایا اور خود اندر چلا گیا!
صفدر سوچ رہا تھا کہ اسے فلموں یا فلموں کی شوٹنگ کے متعلق بالکل کچھ نہیں معلوم! اگر اس کی بیوی اس سلسلے میں اس سے کچھ پوچھ بیٹھی تو کیا ہوگا۔۔!

لیکن اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے تین چار آدمی اس پر ٹوٹ پڑے۔ حملہ پشت سے ہوا تھا۔ اس لئے اسے سنبھلنے کا موقع نہ مل سکا۔
ایک نے اس کا منہ دبالیا تھا اور دو بری طرح جکڑے ہوئے دروازے کی جانب کھینچ رہے تھے۔ لیکن جب وہ اس طرح اسے کمرے سیباہر نہ لے جاسکے تو تین مزید آدمی ان کی امداد کے لئے وہاں آپہنچے۔ اور صفدر کشاں کشاں ایک تہہ خانے میں پہنچا دیا گیا۔ تہہ خانے کا علم تو اسے اس وقت ہوجا جب اس کی آنکھوں پر سے پٹی کھولی گئی۔ بعد میں آنے والے تین آدمیوں میں سے ایک نے اس کی آنکھوں پر رومال باندھ دیا تھا اور کسی نے دونوں ہاتھ پشت پر جکڑ دیئے تھے۔
لیکن جب آنکھوں پر سے رومال کھولا گیا تو اس کے سامنے صرف ایک ہی آدمی تھا اور یہ تھا وہی بھاری جبڑے والا جو اسے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب سے یہاں تک لایا تھا!

“مجھے افسوس ہے دوست!” اس نے سر ہلا کر مغوم لہجے میں کہا۔ “اس وقت دونوں بیویاں یہاں موجود ہیں! اس لئے یہ ابتری پھیلی ہے۔ سالیوں کی بجائے دونوں طرف کے سالے اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہیں شبہ ہے کہ تم ہی مجھے بہکایا کرتے ہو!”
صفدر نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے ہوئے اسے گھورتا رہا!

وہ کوشش کر رہا تھا کہ پشت پر بندھے ہوئے ہاتھ آزاد ہوجائیں! لیکن کامیابی کی امید کم تھی۔ اگر کسی طرح وہ اپنے ہاتھ استعمال کرنے کے قابل ہوسکتا تو اس بھاری جبڑے کے زاویوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور نظر آتیں کیونکہ وہ ایک بیجگر فائٹر تھا!
دفعتا بائیں جانب دیوار میں ایک دروازہ نما خلا نمودار ہوئی اور جوزف جھکا ہوا اندر داخل ہوا۔ اس کے سر پر پٹی چڑھی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ بھی پشت پر بندھے ہوئے تھے! سر شاید زخمی تھا! شاید یہ صفدر کی چھٹی حس ہی تھی جس نے اس کے چہرے پر حیرت کے آثار نہ پیدا ہونے دیئے اور جوزف تو پہلے ہی سے سر جھکائے کھڑا ہوا تھا! اس نے کسی طرف دیکھنا بھی نہیں تھا! اس کے چہرے پر نظر آنے والے آثار اکھڑے ہوئے نشے سے پیدا ہونے والی بوریت کی غمازی کر رہے تھے۔ زیادہ دیر تک شراب نہ ملنے پر اس کی پلکیں ایسی ہی بوجھل ہوجاتی تھیں کہ وہ کسی کی طرف دیکھنے میں بھی کاہلی محسوس کرتا تھا!

اچانک بھاری جبڑے والے نے صفدر سے پوچھا۔ ” یہ کون ہے؟”
“میں کیا جانوں!” صفدر غرایا۔ “کہیں تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا!”
بھاری جبڑے والے کا قہقہہ کافی طویل تھا لیکن جوزف اب بھی سر جھکائے کسی بت کی طرح کھڑا رہا!ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے یہ آوازیں اس کے کانوں تک پہنچی ہی نہ ہوں۔ جو آدمی اسے یہاں لایا تھا اس کی رائفل کی نال اب بھی اس کی کمر سے لگی ہوئی تھی!
“تم بکواس کرکے کامیاب نہیں ہوسکتے دوست”۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔ “تم عمران کے آدمی ہو! اور اس وقت بھی اس کے ساتھ تھے۔ جب وہ ندی پر مقبرہ کے قریب گھیرا گیا تھا”۔

“مجھے اس سے کب انکار ہے مگر میں اس آدمی کو نہیں جانتا”۔ صفدر نے لاپروائی سے کہا۔
“یہ عمران کا ملازم نہیں ہے؟” بھاری جبڑے والے نے غرا کر کہا۔
“میں نے تو کبھی عمران کے ساتھ نہیں دیکھا”۔ صفدر نے جواب د یا! وہ جانتا تھا کہ جوزف اب عمران کے ساتھ اس کے فلیٹ میں نہیں رہتا بلکہ مستقل طور پر رانا پیلس ہی میں اس کا قیام ہے۔ اس لئے وہ اس کے معاملے میں محتاط ہو کر زبان کھول رہا تھا!
“رانا تہور علی کو جانتے ہو؟”

“یہ نام میرے بالکل نیا ہے”۔ صفدر نے متحیرانہ لہجے میں کہا۔
“او۔۔ حبشی۔۔!” دفعتا وہ جوزف کی طرف مڑکر گرجا! “اب تم اپنی زبان کھولو۔ ورنہ تمہارے جسم کا ایک ایک ریشہ الگ کردیا جائے گا”۔
“جا۔۔” جوزف سر اٹھائے بغیر بھرائی سی آواز میں بولا! “پہلے میری پیاس بجھا! پھر میں بات کروں گا۔ تم لوگ بہت کمینے ہو۔ تمہیں شاید نہیں معلوم کہ شراب ہی میری زبان کھلواسکے گی”۔
“شراب نہیں مل سکے گی”۔

“تب پھر مجھے کسی کی بھی پروا نہیں! جو تمہارا دل چاہے کرو”۔
“ادھر دیکہو۔ کیا تم اس آدمی کو پہچانتے ہو؟” اشارہ صفدر کی طرف تھا۔
“کیوں دیکھوں؟ کیسے دیکھوں؟ میری آنکھوں کے سامنے غبار اڑ رہا ہے۔ مجھے اپنے پیر بھی صاف نہیں دکھائی دیتے۔ شراب لا۔ یا مجھے گولی مارد”۔

“پلا۔ اسے۔ پلا”۔ دفعتا بھاری جبڑے والا دونوں ہاتھ ملا کر غرایا ۔ “اتنی پلا کہ اس کا پیٹ پھٹ جائے”۔
رائفل والا جوزف کے پاس سے ہٹ کر پچھلے دروازے سے نکل گیا۔
“عمران کہاں ہے؟” وہ پھر صفدر کی طرف متوجہ ہوا۔
“اگر تم یہ جانتے ہو کہ میں اس دن عمران کے ساتھ تھا جب ہم پر چاروں طرف سے گولیاں برس رہی تھیں تو یہ بھی جانتے ہو گے کہ عمران کام آگیا تھااور میں بچ کر نکل گیا تھا”۔

“ہمیں تو اس پر یقین تھا کہ تم بھی نہ بچے ہوگے! لیکن آج تم ہاں میرے سامنے موجود ہو! تم اتنی چالاکی سے نکل گئے تھے کہ ہمیں پتہ ہی نہ چل سکا تھا”۔
“عمران گولی کھا کر دریا میں گر گیا تھا”۔ صفدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا! لیکن وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں جوزف یہ جملے سن کر چونک نہ پڑے۔ اس وقت کی گفتگو سے اچھی طرح اندازہ کرچکا تھا کہ وہ رانا تہور علی اور عمران کی الجھن میں پڑ گئے ہیں۔
لیکن صفدر کے اندیشے بیبنیاد ثابت ہوئے کیونکہ جوزف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی تھی اس نے نہ تو سر اٹھایا اور نہ کسی طرف دیکھا۔
تھوڑی دیر بعد قدموں کی آہٹ سنائی دی اور رائفل والا دیسی شراب کی دو بوتلیں لئے دروازے سے اندر داخل ہوا۔
“ایک بوتل کھول کر اس کے منہ سے لگا دو”۔ بھاری جبڑے والے نے کہا۔ تعمیل کی گئی! جوزف کے موٹے موٹے ہونٹ بوتل کے منہ سے چپک کر رہ گئے! بڑا مضحکہ خیز منظر تھا۔ ایسا ہی لگ رہا تھا کہ جیسے کسی بھوکے شیرخوار بچے نے دودھ کی بوتل سے منہ لگا کر چسر چسر شروع کردی ہو۔

آدھی بوتل غٹا غٹ پی جانے کے بعد اس نے بوتل کا منہ چھوڑ کر دو تین لمبی لمبی سانسیں لیں اور مسکرا کر بولا۔
“تم بڑے اچھے ہو! بڑے پیارے آدمی ہو! تم پر آسمان سے برکتیں نازل ہوتی رہیں! اور آسمانی باپ تمہیں اچھے کاموں کی توفیق دے”۔
بھاری جبڑے والا کینہ توز نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے اسے مار ڈالنے کی خواہش پال رہا ہو! جوزف نے بقیہ آدھی بوتل بھی ختم کردی!

اب وہ کسی جاگتے ہوئے آدمی کی سی حالت میں آگیا تھا۔ آنکھیں سرخ ہوگئیں تھیں اور چہرے کی سیاہی چمکنے لگی تھی!
“ارے۔۔ یہ آدمی۔۔” دفعتا اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ “ہاں! مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے اسے ایک آدھ بار مسٹر عمران کے ساتھ دیکھا تھا”۔
“لیکن میں نے تو تمہیں کبھی نہیں دیکھا”۔ صفدر نے غصیلی آواز میں کہا۔
“یہ بھی ممکن ہے مسٹر کہ تمہاری نظر مجھ پر کبھی نہ پڑی ہو”۔
“عمران کہاں ملے گا؟” بھاری جبڑے والا غرایا۔

“میں کیا بتا سکتا ہوں مسٹر”۔ جوزف نے متحیرانہ انداز میں پلکیں جھپکائیں۔ “بہت دنوں کی بات ہے جب میں مسٹر عمران کے ساتھ تھا۔ لیکن وہ میرے پینے پلانے کا بار سنبھالنے کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے خود ہی میرا پیچھا چھوڑ دیا۔۔ اس طرح میں نے اطمینان کا سانس لیا! ورنہ مجھے تو اس کا غلام رہنا ہی پڑتا ہے جو مجھے زیر کرلے۔ اور پھر میرا تو ڈاکٹر طارق والا مقدمہ بھی چل رہا ہے”۔
“کیسا مقدمہ۔۔؟”

اس پر جوزف نے ڈاکٹر طارق کی کہانی دہراتے ہوئے کہا۔ ماسٹر عمران نے مجھے بہت پیٹا تھا۔ وہ شاید پولیس کے لئے کام کرتے ہیں۔۔!”
بھاری جبڑے والا تھوڑی دیر تک کچھ سوچتا رہا پھر بولا! “رانا کون ہے؟”
“باس ہے میرا۔ جوزف نے فخر سے سینہ تان کر کہا۔
“وہ کہاں ملے گا۔۔؟”
“میں نہیں جانتا۔ ان سے تو بس کبھی کبھی ملاقات ہوتی ہے”۔
“عمران سے اس کا کیا تعلق ہے۔۔؟”

“میں کیا بتاسکتا ہوں مسٹر۔ میں کیا جانوں! میں نے کبھی ان کے ساتھ مسٹر عمران کو نہیں دیکھا”۔
“تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟”
“بس یوں ہی میں ایک دن سڑک پر جا رہا تھا کہ ایک کار میرے پاس رکی! اس پر سے رانا صاحب اترے اور کہنے لگے میں نے پچھلے سال شاید تمہیں نیٹال میں دیکھا۔ میں نے کہا کہ میں تو دس سال سے اس ملک میں ہوں! انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے ان کے ذہن میں کوئی اور ہو۔ پھر وہ مجھ سے میرے متعلق پوچھ گچھ کرنے لگے!۔۔ یہ۔۔ دوسری بوتل بھی مسٹر۔۔ خدا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے اور عورت کے سائے سے بچائے۔ تم بہت نیک ہو”۔

بھاری جبڑے والے کے اشارے پر دوسری بوتل بھی کھولی گئی! اور جوزف چوتھائی پینے کے بعد بولا۔ “ہاں تو تم کیا پوچھ رہے تھے۔ برادر۔۔!”
“تم رانا کے پاس کیسے پہنچے تھے؟”
“ہاں۔۔ ہاں۔۔ شاید میں یہی بتا رہا تھا کہ وہ مجھ سے میرے بارے میں پوچھ گچھ کرنے لگے!”
“چلو کہتے رہو! رکو مت!” بھاری جبڑے والا بولا۔
“میں نے انہیں بتایا کہ مجھے نوکری کی تلاش ہے۔ انہوں نے پوچھا باڈی گارڈز کے فرائض انجام دے سکو گے! اوہ۔۔ بڑی آسانی سے میں نے انہیں بتایا اور یہ بھی کہا کہ میرا نشانہ بڑا عمدہ ہے اور میں کبھی ہیوی ویٹ چیمپین بھی رہ چکا ہوں۔ وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے نوکر رکھ لیا! میں ان کے پیسنے کی جگہ خون بھی بہا سکتا ہوں۔ لارڈ آدمی ہیں۔ کبھی نہیں پوچھتے کہ میں دن بھر میں کتنی بوتلیں صاف کردیتا ہو”۔
بھاری جبڑے والا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اس کے بیان پر تذبذب میں پڑ گیا ہو۔

دوسری طرف صفدر پر جوزف کے جوہر پہلی بار کھلے تھے! وہ اب تک اسے پرلے درجے کا ایڈیٹ ہی تصور کرتا رہا تھا! لیکن اس وقت تو عمران ہی کا یہ قول کرسی نشین ہوا تھا کہ جوزف ایک نادر الوجود شکاری کتا ہے۔ سادہ لوحی اور چیز ہے! لیکن بیضرر نظر آنے والاے کتے بھی شکار کے وقت اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لیتے ہیں! بشرطیکہ وہ شکاری ہوں! جوزف پر صحیح معنوں میں یہ مثال صادق آتی تھی۔
“دیکھو میں تمہاری ہڈیاں چور کردوں گا۔ ورنہ مجھ سے اڑنے کی کوشش نہ کرو”۔
“بس یہ بوتل ختم کر لینے دو! اس کے بعد جو دل چاہے کرنا!” جوزف نے ہونٹ چاٹتے ہوئے کہا۔

“صرف ایک دن کی مہلت اور دی جاتی ہے۔ تم عمران کا پتہ بتا اور تم رانا تہور علی کا۔۔!” بھاری جبڑے والا ہاتھ اٹھا کر بولا۔
وہ رائفل والے کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتا ہوا دروازے سے نکل گیا اور پھر وہ دروازہ بھی غائب ہوگیا۔ دیوار برابر ہوگئی تھی۔
جوزف دوسری برتل کی طرف ندیدوں کی طرح دیکھنے لگا جس میں ابھی تین چوتھائی شراب باقی تھی۔ اس پر کاگ بھی نہیں تھا۔
وہ تھوڑی دیر تک حسرت بھری نظروں سے اسے دیکھتا رہا پھر پشت پر بندھے ہوئے ہاتھوں کے بل فرش پر نیم دراز ہوگیا! دیکھتے ہی دیکھتے بوتل دونوں پیروں میں دبائی اور پیر سر کی طرف اٹھنے لگے۔۔ اور بوتل کا منہ اس کے ہونٹوں سے جالگا!
صفدر کھڑا پلکیں چھپکاتا رہا! “غٹ غٹ” کی صدائیں تہہ خانے کے سکوت میں گونج رہی تھیں۔ بوتل خالی ہوئے بغیر ہونٹوں سے نہ ہٹ سکی۔

دفعتا کھٹاکے کی آواز آئی اور بھاری جبڑے والا پھر اندر داخل ہوا اس بار اس کے اس کے ہاتھ میں چمڑے کا چابک تھا! نہ جانے کیوں جوزف مسکرا پڑا مگر وہ جوزف کی طرف متوجہ نہیں تھا!
“سرسوکھے رام کو عمران کی تلاش کیوں ہے؟” اس نے صفدر سے پوچھا!
“میں نہیں جانتا”۔
“تم جانتے ہو۔۔!” وہ چابک زمین پر مارتا ہوا دہاڑا۔
“میرے ہاتھ کھول دو۔ پھر اس طرح اکڑوں تو یقینا مرد کہلا گے”۔
اس بار چابک صفدر کے جسم پر پڑا اور وہ تلملا گیا۔
“بتا!”

صفدر اس کی طرف جھپٹا لیکن اس نے اچھل کر پیچھے ہٹتے ہوئے پھر چابک گہما دیا! اس طرح صفدر نے کئی چابک کھائے! اور یک بیک سست پڑ گیا! یہ حماقت ہی تو تھی کہ وہ اس طرح پٹ رہا تھا! ادھر جوزف کا یہ حال تھا کہ وہ کوشش کے باوجود بھی فرش سے نہیں اٹھ سکتا تھا! پورے چھتیس گھنٹوں کے بعد اسے شراب ملی تھی اور اس نے یہ دو بوتلیں جس طرح ختم کی تھیں اس طرح کوئی دوسرا پانی بھی نہ پی سکتا!
“میں نہیں جانتا۔۔!”
“ڈھمپ اینڈ کو کا اصل بزنس کیا ہے؟”
“فارورڈنگ اینڈ کلیرنگ۔۔!”
“تم وہاں کام کرتے ہو؟”
“ہاں۔۔!”

“پھر عمران کا اور تمہارا کیا ساتھ۔۔؟”
“مجھے شوق ہے سراغرسانی کا”۔ صفدر بولا۔ “عمران کی وجہ سے میں بھی اپنا یہ شوق پورا کرسکتا ہوں کیونکہ وہ پولیس کے لئے کام کرتا ہے”۔
“تمہارے دفتر کی اسٹینو ٹائپسٹ جولیا کا عمران سے کیا تعلق ہے؟”
“یہ وہی دونوں بتا سکیں گے!” صفدر نے ناخوشگوار لہجے میں کہا۔
بھاری جبڑے والا کھڑا دانت پیستا رہا۔ پھر آنکھیں نکال کر آہستہ آہستہ بولا۔ “تم مجھے نہیں جانتے! میں تمہارے فرشتوں سے بھی اگلوالوں گا! خواہ اس کے لئے تمہارا بند بند بھی کیوں نہ الگ کرنا پڑے۔۔!”
وہ پیر پٹختا ہوا چلا گیا! دیوار کی خلا اس کے گذرتے ہی پر ہوگئی تھی! ایک تختہ سا بائیں جانب کھسک کر دوسری جانب کی دیوارسے جا ملتا تھا!

جیسے ہی جولیا کی نظر سرسوکھے پر پڑی وہ ستون کی اوٹ میں ہوگئی۔ یہاں پام کا بڑا گملا رکھا ہوا تھا اور پام کے پتے اسے چھپانے کے لئے کافی تھے۔ وہ سرسوکھے سے بھاگنے لگی تھی! کیونکہ وہ اسے بیحد بور کرتا تھا! وہ پرانی کہانی جس کا سلسلہ میں وہ عمران کا تعاون حاصل کرنا چاہتا تھا بار بار دہرائی جاتی! اور پھر اس کے ساتھ سرسوکھے کی اداسی بھی تو تھی! اسے غم تھا کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہے جسے وہ اپنا کہہ سکے! جوانی ہی میں موٹاپا شروع ہوگیا تھا اور اسی بنا پر خود اس کی پسند کی لڑکیاں اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتی تھیں۔۔ وہ جولیا سے یہ ساری باتیں کہتا رہتا! ٹھنڈی سانسیں بھرتا اور کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں آنسوتیرنے لگتے! جنہیں وہ چھپانے کے لئے وہ طرح طرح کے منہ بناتا! اور ہزاروں قہقہے جولیا کے سینے میں طوفان کی سی کیفیت اختیار کرلیتے پھر اسے کسی بہانے سے اس کے پاس سے اٹھ جانا پڑتا۔۔ وہ کسی باتھ روم میں گھس کر پیٹ دبا دبا کر ہنستی۔۔! اکثر سوچتی کہ اسے تو اس سے ہمدردی ہونی چاہیئے! پھر آخر اسے اس پر تا کیوں آتا ہے۔۔

وہ غور کرتی تو سرسوکھے کی زندگی اسے بڑی دردناک لگتی! لیکن زیادہ سوچنے پر اسے یا تو ہنسی آتی یا غصہ آتا! کبھی وہ سوچتی کہ کہیں سرسوکھے اس کام کے بہانے اس سے قریب ہونے کی کوشش تو نہیں کر رہا! اس خیال پر غصے کی لہر کچھ اور تیز ہوجاتی! مگر پھر کچھ دیر بعد ہی اس شام کا خیال آجاتا جب وہ اس کے دفتر میں بیٹھی سونے کی اسمگلنگ کی کہانی سن رہی تھی اور دوسرے کمرے کی میز الٹنے کی آواز نے انہیں چونکا دیا تھا! اور پھر اس نے میز کی سطح پر پیروں کے نشانات محفوظ کئے تھے۔۔! وہ سوچتی رہی اور اس نتیجے پر پہنچی کہ وہ حقیقتا پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر قسم کی پریشانیوں کا تذکرہ بیک بوقت کردینے کا عادی ہو!
وہ روزانہ شام کو عمران کی تلاش میں نکلتے تھے! لیکن آج کے لئے جولیا نے ایک ضروری کام کا بہانہ کرکے اس سے معافی مانگ لی تھی۔۔! لیکن وہ گھر میں نہ بیٹھ سکی! شام ہوتے ہی اس نے سوچا آج تنہا نکلنا چاہیئے! مقصد عمران کی تلاش کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا! وہ ٹپ ٹاپ نائٹ کلب کے پورچ میں پہنچی ہی تھی کہ اچانک غیر متوقع طور پر سرسوکھے نظر آگیا تھا! وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ آج وہ بھی وہیں آ مرے گا۔

جیسے ہی وہ پورچ میں پہنچا! جولیا گملے کی آڑ سے نکلی اور جھپٹ کر کلرک روم میں د اخل ہوگئی! یہاں سے ایک راہداری براہ راست ریکریئشن ہال میں جاتی تھی! جہاں آج اسکیٹنگ کا پروگرام تھا۔۔!
وہ بڑی بدحواسی کے عالم میں یہاں پہنچی!
“اف خدا۔۔” وہ بڑبڑائی اور اس کا سر چکرا گیا! کیونکہ سرسوکھے دوسرے دروازے سے ریکریئشن ہال میں داخل ہوا تھا! ویسے اس کی توجہ جولیانا کی طرف نہیں تھی! جولیانا کلوک روم والی راہداری ایک گیلری میں لائی تھی۔ اس نے ذہنی انتشار کے دوران فیصلہ کیا کہ سرسوکھے سے تو کھوپڑی نہیں چٹوائے گی خواہ کچھ ہوجائے۔ پھر؟

وہ جھپٹ کر ایک میز پر جا بیٹھی جہاں ایک اداس آنکھیوں والا نوجوان پہلے ہی سے موجود تھا۔
“معاف کیجیئے گا!” جولیا نے کہا۔ ذرا سر چکرا گیا ہے۔۔۔ ابھی اٹھ جاں گی”۔
“کوئی بات نہیں محترمہ!” وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
جولیا نے آنکھوں پر رومال رکھ کر سرجھکا لیا اور چڑھتی ہوئی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔۔!
“کیسی طبعیت ہے۔۔ آپ کی؟” تھوڑی دیر بعد نوجوان نے پوچھا!
“اوہ۔۔ جی ہاں۔۔ بس ٹھیک ہی ہے۔۔ اب۔۔!”
“برانڈی منگوا ں۔۔!”

“جی نہیں شکریہ! میں اب بالکل ٹھیک ہوں!” وہ سر اٹھا کر بولی۔
“آج کل موسم بڑا خراب جارہا ہے!” نوجوان بولا۔
“جی ہاں۔۔ جی ہاں۔۔ یہی بات ہے”۔
یہ دبلے چہرے والا مگر وجیہہ نوجوان تھا! اس کی آنکھوں کی غم آلود نرماہٹ نے اسے کافی دلکش بنادیا تھا۔ پیشانی کی بناوٹ بھی نرم دلی اور اور ایمانداری کا اعلان کر رہی تھی۔۔!

“میں اس شہر میں نوارد ہوں”۔ جولیا نے کہا۔ “مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہاں اسکیٹنگ بھی ہوتی ہے! مجھے بیحد شوق ہے۔ اس کا!”
“جی ہاں”۔ اس نے تھکی ہوئی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ “دلچسپ کھیل ہے”۔
“آپ کو پسند ہے؟”
“بہت زیادہ۔۔!” نوجوان کا لہجہ بیحد خم انگیز تھا۔۔!

ٹھیک اسی وقت سرسوکھے ان کے قریب پہنچا! جولیا کی نظر غیر ارادی طور پراس کی طرف اٹھ گئی تھ اور وہ بطور اعتراف شناسائی سر کو خفیف سی جنبش دے کر آگے بڑھ گیا تھا! جولیا بھی بادل ناخواستہ مسکرائی تھی۔
بہرحال اس کے اس طرح آگے بڑھ انے پر اس کی جان میں جان آئی تھی وہ اس پر یہ بھی نہیں ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اس سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے! سرسوکھے آگے بھ کر ایک میز پر جا بیٹھا تھا! جولیا سوچ رہی تھی کہ اگر وہ اس میز سے اٹھی اور سرسوکھے کو شبہ بھی ہوگیا کہ وہ تنہا ہے تو وہ تیر کی طرح اس کی طرف آئے گا۔

اتنے میں اسکیٹنگ کے لئے موسیقی شروع ہوگئی! اور جولیا نے اس انداز میں نوجوان کی طرف دیکھا جیسے مطالبہ کر رہی ہو کہ مجھ سے رقص کی درخواست کرو! مگر نوجوان خالی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔۔!
جولیا نے سوچا بدھو ہے لہذا اس نے خود ہی کہا! “اگر آپ کو اسکیٹنگ سے دلچسپی ہے ۔۔ تو۔۔ آئیے۔۔!”
“میں۔۔!” نوجوان کے لہجے میں تحیر تھا! پھر اس کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہوگئی۔۔! اس نے چھبتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ “آپ میرا مذاق کیوں اڑا رہی ہیں محترمہ؟”
“میں نہیں سمجھی!” جولیا بوکھلا گئی!

“یا آپ یہ بیساکھی نہیں دیکھ رہی ہیں!” اس نے ایک کرسی سے ٹکی ہوئی بیساکھی کی طرف اشارہ کیا۔
جولیا کی نظریں اگر پہلے اس پر پڑی بھی ہوگی تو اس نے دھیان نہ دیا ہوگا! بہرحال اب وہ کٹ کر رہ گئی!
“اوہ۔۔ معاف کیجیئے گا!” اس نے لجاجت سے کہا۔ ” میں نے خیال نہیں کیا تھا میں بیحد شرمندہ ہوں جناب! کیا آپ معاف نہیں کریں گے؟”
“کو ئی بات نہیں!” وہ ہنس پڑا۔ اس کا بیاں پیر شاید کسی حادثے کی نظر ہو کر گھٹنے کے پاس سے کاٹ دیا گیا تھا اور اب لکڑی کا ایک ڈھانچہ پنڈلی کا کام دے رہا تھا۔ “یہ کیسے ہوا تھا؟” جولیا نے پوچھا۔ وہ سچ مچ اس کے لئے غمگین ہوگئی تھی!

“فوجیوں کی زندگی میں ایسے حادثات کوئی اہمیت نہیں رکھتے”۔ اس نے کہا اور بتایا کہ وہ پچھلی جنگ عظیم میں اطالولیوں کے خلاف لڑا تھا اور مورچے پر ہی اس کی بائیں ٹانگ ایک حادثہ کا شکار ہوگئی تھی! وہ سیکنڈ لیفٹنٹ تھا۔ بات لمبی ہوتی گئی اور وہ جنگ کے تجربات بیان کرتا رہا۔ تھوڑی ہی دیر بعد جولیا نے محسوس کیا کہ اب اس میز سے اٹھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوسکتا! اس کے بعد بھی وہ تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی گفتگو کرتے رہے۔ پھر پہلا دور ختم ہوگیا۔۔! نوجوان نے کافی منگوائی اور جولیا کو انکار کے باجود بھی پینی ہی پڑی! ویسے بھی وہ اس مغوم نوجوان کی درخواست رد نہیں کرنا چاہتی تھی۔

کچھ دیر بعد کسی جانب سے ایک خوبصورت اور صحت مند نوجوان ان کی طرف آیا اور جولیا سے ساتھی بننے کی درخواست کی۔ جولیا اس کی آواز سن کر چونک پڑی۔ “اگر کوئی حرج نہ ہو تو۔۔!” وہ کہہ رہا تھا۔ “ضرور۔۔ ضرور۔۔!” جولیا مسکراتی ہوئی اٹھ گئی تھی! ساتھ ہی اس نے لنگڑے نوجوان کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور یہ بھی محسوس کیا تھا کہ وہ کھسیاسا گیا ہے لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس آدمی کی درخواست رد کردیتی جس کے لئے خود اتنے دنوں سے بھٹکتی پھر رہی تھی! صورت سے تو وہ اسے ہرگز نہ پہچان سکتی کیونکہ وہ میک اپ میں تھا لیکن جب اپنی اصلی آواز میں بولا تھا تو جولیا اسے کیوں نہ پپہچان لیتی وہ عمران کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا!
وہ اس جگہ آئے جہاں اسکیٹس ملتے تھے! جلدی جلدی انہیں جوتوں سے باندھا اور چوبی فرش پر پھسل آئے! عمران اس کے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے تھا!

“تم کہاں تھے درندے؟” جولیا نے پوچھا!
“شکار پر۔۔!” عمران نے جواب دیا! پھر بولا۔ “تم اس شام ندی پر کیوں دوڑی آئی تھیں؟”
“یہ اطلاع دینے کیلئے کہ تمہاری موت پر کرائے کے رونے والے بھی نہ مل سکیں گے!”
“لیکن میں تمہیں اس وقت یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ تمہارا پورا دفتر ان لوگوں کی نظروں میں آگیا ہے”۔
“پھر کیا کرنا چاہی؟”

“پرواہ مت کرو!” لیکن فی الحال یہ بھول جا کہ تمہارے ساتھ کبھی کوئی عمران بھی تھا! میں نے انہیں شہبے میں مبتلا کردیا ہے۔ کبھی انہیں میری موت پر یقین سا آنے لگتا ہے اور کبھی وہ میری تلاش شروع کردیتے ہیں”۔
“ایک آدمی اور بھی تمہاری تلاش میں ہے”۔ جولیا نے کہا اور سرسوکھے کا واقعہ بتایا۔
“فی الحال میں اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتا!”

“ایکس ٹو تو اس کے کیس میں دلچسپی لے رہا ہے اور میں بڑی شدت سے بور ہو رہی ہوں”۔
“ہوسکتا ہے وہ اس لئے دلچسپی لے رہا ہو کہ تم میری تلاش جاری رکھو! خوب بہت اچھے یہ ایکس ٹو تو یقینا بھوت ہے وہ شاید مجرموں پر یہی ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ عمران کے ساتھیوں کو بھی اس کی موت پر یقین نہیں آیا۔۔ اچھا جولیا تم دن میں تین چار بار میرے فون نمبر پر رنگ کرکے سلیمان سے میرے متعلق پوچھتی رہو! میرا خیال ہے کہ وہ لوگ میرا فون ٹیپ کر رہے ہیں! سرسوکھے کے ساتھ مل کر میری تلاش بھی جاری رکھو!”

“اس کی رام کہانیاں مجھے بور کرکے مار ڈالیں گی!”
“اگر تم اتنی آسانی سے مر سکو تو کیا کہنے ہیں!” عمران نے کہا اور جولیا نے اسے لاکھوں سلواتیں سنا ڈالیں۔
وہ کچھ دیر خاموشی سے اسکیٹنگ کرتے رہے پھر جولیا نے کہا۔
“سرسوکھے یہیں موجود ہے۔۔!”
“کہاں۔۔؟”

جولیا نے بتایا! عمران کنکھیوں سے موٹے آدمی کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ “یہ تو صحیح معنوں میں پہاڑی معلوم ہوتا ہے کیا تم اس کے ساتھ اسکیٹنگ نہیں کرو گی؟”
جولیا نے اسے بتایا کہ کس طرح اس سے پیچھا چھڑانے کے لئے وہ ایک لنگڑے آدمی کے پاس جا بیٹھی تھی!
“بہت بری بات ہے۔۔! موٹاپا اپنے بس کی بات نہیں”۔ عمران نے مغوم لہجہ میں کہا! “تمہیں اس سے شادی کر لینی چاہیئے!”
“میں تمہارا گلا گھونٹ دوں گی۔۔!” جولیا جھلا گئی۔
“آ ج کل تو سب ہی مجھے مار ڈالنے کی تاک میں ہیں۔۔ ایک تم بھی سہی”۔

جولیا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے اسکیٹنگ کرتی رہی۔۔! اس غیر متوقع ملاقات سے پہلے اس کے ذہن میں عمران کے متعلق ہزاروں باتیں تھیں جنہیں اس وقت قدری طور پر اس کی زبان میں آنا چاہیئے تھا! لیکن وہ محسوس کر رہی تھی کہ اب اس کے پاس جھنجھلاہٹ کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ گیا! ویسے یہ اور بات ہے کہ اس جھنجھلاہٹ کو بھی اظہار کے لئے الفاظ نہ ملتے۔۔!
تو گویا یہ عمران اس کے لئے سوہان روح بن کر رہ گیا تھا! اس کی عدم موجودگی اس کے لئے بیچینی اور اضطراب کا باعث بنتی تھی! لیکن جہاں مشکل نظر آئی تا آگیا۔۔ وہ تا لانے والی باتیں ہی کرتا ھا۔۔!

جولیا کا ذہن بہک گیا تھا اور وہ کسی ننھی سی بچی کی طرف سوچ رہی تھی! یہ بھول گئی تھی کہ وہ کون ہے اور کن ذہنی بلندیوں پر رہتی ہے۔ “غالبا۔۔ تم میرے فیصلے پر نظرثانی کر رہی ہو”۔ عمران نے کچھ دیر بعد مسکرا کر کہا۔ “کیا مطلب۔۔؟” “یہی کہ تمہیں سرسوکھے سے شادی کر ہی لینی چاہیئے!” عمران نے سنجیدگی سے کہا۔ “ہوسکتا ہے اس کے بعد ہی وہ صحیح معنوں میں سرسوکھے کہلانے کا مستحق ہوسکے۔ جولیا نے جھٹکا دے کر اپنے ہاتھ اس سے چھڑا لیئے اور تھوڑا سا کترا کر تنہا پھسلتی چلی گئی۔

گیارہ بجے وہ گھر پہنچی! سرسوکھے سے اس کی گفتگو نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ وہ ٹپ ٹاپ کلب میں زیادہ دیر نہیں بیٹھا تھا!۔۔ جولیا تنہا اسکیٹنگ کرتی رہی تھی! لیکن جب اس نے تقریبا دس منٹ بعد دوبارہ عمران کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ وہ بھی ہال میں موجود نہیں ہے پھر اب وہ وہاں ٹھہر کر کیا کرتی۔ گھر پہنچی تو قفل کھولتے وقت کاغذ کی کھڑکھڑاہٹ محسوس ہوئی اور قفل سے ایک رول کیا ہوا کاغذ کا ٹکڑا پھنسا ہوا ملا۔

جولیا نے اسے کھینچ کر ٹارچ کی روشنی میں دیکھا!
اس پر پنسل کی تحریر نظر آئی!
“جولیا ! جب بھی واپس آ! فورا مجھے رنگ کرو”۔
صفدر۔”
“کیا مصیبت ہے؟” وہ تھکے تھکے سے انداز میں بڑبڑائی تھی۔

دروازہ کھول کر وہ خواب گاہ میں آئی یہیں فون تھا! اس پر صفدر کے نمبر رنگ کئے۔
“ہیلو۔۔ کون۔۔ جولیا! دوسری طرف سے آواز آئی! “اوہ۔۔ بس میں تو صرف یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ تم کب گھر پہنچتی ہو؟”
“کیوں؟” “چند بہت ہی اہم باتیں ہیں۔ میں وہیں آرہا ہوں! پہچنے میں زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ لگیں گے!”

جولیا نے برا سا منہ بنا کر سلسلہ منقطع کردیا! وہ اب صرف سونا چاہتی تھی لیکن صفدر اتنی رات گئے اس سے کیوں ملنا چاہتا ہے؟
وہ اس کا انتظار کرنے لگی۔۔ پھر صفدر وعدہ کے مطابق پندرہ منٹ کے اندر ہی اندر وہاں پہنچ گیا تھا۔
“کیوں۔۔ اتنی رات گئے؟” جولیا نے متحیرانہ انداز میں پوچھا۔ “صرف ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ سرسوکھے رام کون ہے اور عمران کو کیوں تلاش کر رہا ہے”۔

“کیوں معلوم کرنا چاہتے ہو؟” یہ سوال غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ “کیونکر کچھ لوگ مجھ سے معلوم کرنا چاہتے ہیں”۔ صفدر نے اپنی کہانی چھیڑ دی۔ “مگر پھر تم یہاں کیسے نظر آرہے ہو”۔ جولیا نے اس کے خاموش ہوجانے پر پوچھا۔ “یہ جوزف جیسے گدھے کا کارنامہ ہے! واقعی عمران کا انتخاب بھی لاجواب ہوتا ہے”۔ “مگر میں نے سنا ہے وہ اب عمران کے ساتھ نہیں رہتا۔ “اسی پر تو حیرت ہے!” صفدر نے کہا! حالانکہ اسے ذرہ برابر بھی حیرت نہیں تھی کیونکہ وہ جوزف کی جائے قیام سے اچھی طرح واقف تھا! لیکن ایکس ٹو کی ہدایت کے مطابق اسے پراسرار رانا پیلس کو راز ہی رکھنا تھا!

“خیر تو پھر تم لوگ رہا کیسے ہوئے؟” جولیا نے پوچھا۔ “جوزف نے ایک خالی بوتل پیروں میں دبا کر دیوار پر کھینچ ماری تھی اور پھر اس کا نیک ٹکڑا دانتوں میں دبائے ہوئے میرے پاس آیا تھا۔ ہم دونوں ہی کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے۔ اس نے اسی شیشے کے ٹکڑے سے میرے ہاتھوں کی ڈور کاٹنی شروع کردی! وہ شیشے کا ٹکڑا منہ میں دبائے کسی نہ تھکنے والے جانور کی طرح اپنے کام میں مشغول رہا۔ آخرکار اسے کامیابی ہی ہوئی۔ رسی کٹتے ہی میرے ہاتھ آزاد ہوگئے! پھر میں نے جوزف کے ہاتھ بھی کھول دیئے لیکن اس خدشے کی بنا پر کچھ دیر پریشان بھی ہونا پڑا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے۔ اب ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہنا بھی ہمیں کھل رہا تہا اس لئے تہہ خانے سے باہر نکلنے کے سلسلے میں ہم نے اپنی جدوجہد تیز کردی۔ ہمیں وہاں کسی ایسی چیز کی تلاش تھی جس سے دیوار میں دروازہ نما خلا پیدا کی جاسکتی!”
جولیا کچھ نہ بولی! صفدر نے ایک سگریٹ سلگایا اور دو تین ہلکے ہلکے کش لئے!

لیکن نہ جانے کیوں وہ سوالیہ انداز میں جولیا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔ کچھ دیر بعد اس نے کہا۔ “یہ ناممکن ہے کہ عمران تم سے نہ ملا ہو”۔
“ابھی تمہاری پچھلی بات پوری نہیں ہوئی”۔ جولیا ناخوشگوار لہجے میں بولی۔
“پھر کوئی بات ہی نہیں رہ گئی تھی! ہم جلدہی اس دروازے کے میکنزم کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئے! تہہ خانے کے اوپر۔۔ عمارت سنسان پڑی تھی! کسی جگہ بھی روشنی نہ دکھائی دی۔ وہ لوگ موجود نہیں تھے! ایک کھڑکی سے میں نے کمپانڈ میں جھانکا۔ باہر ایک آدمی موجود تھا اور برآمدے کا بلب روشن تھا! اس آدمی نے چوکیداروں کی سی وردی پہن رکھی تھی! جوزف کسی بلی کی طر برآمدے میں رینگ گیا۔ کمال کا پھرتیلا آدمی ہے۔۔ بالکل کسی تیندوے کی طرح اور تیزی سے جھپٹنے والا! چوکیدار کے حلق سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکل سکی تھی! پھر جلد ہی وہ اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھا تھا۔۔ اس طرح ہم وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تھے”۔
“پھر کیا کیا تم نے۔۔؟”

“کچھ بھی نہیں! میں اپنی ذمہ داری پر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا”۔
“جولیا نے کچھ کہے بغیر ایکس ٹو کے نمبر ڈائیل کئے۔۔!
اور دوسری طرف سے آواز آئی۔ “دانش منزل پلیز”۔
عمران نے حال ہی میں ایکس ٹو کے پرائیویٹ فون سے ایک ٹیپ ریکارڈ اٹیچ کردیا تھا اور اس کا سسٹم کچھ اس قسم کا تھا کہ رنگ کرنے والے کو ادھر سے ریسور اٹھاے بغیر ہی جواب مل جاتا تھا! اس میں مختلف قسم کے احکامات تھے۔ آج کل کے ٹیپ پر “دانش منزل پلیز” ہی چل رہا تھا کیوں کہ عمران فلیٹ میں ہوتا ہی نہیں تھا! ظاہر ہے کہ ایسے کسی زمانے میں اس کی پناہ گاہ دانش منزل ہی ہوسکتی تھی جب کچھ نامعلوم لوگ اسے مار ڈالنے کے درپے ہوں۔

جولیا نے سلسلہ منقطع کرکے دانش منزل کے لئے ٹرانسمیٹر نکالا! اور بولی۔ ” ہیلو۔۔ ہیلو۔۔ ایکس ٹو پلیز۔۔! ایکس ٹو۔۔ ہلو۔۔ ہلو۔۔ ایکس ٹو۔ ایکس ٹو”۔
“ہلو۔۔!” آواز آئی اور یہ ایکس ٹو ہی کی آواز تھی۔
“یہاں صفدر موجود ہے۔۔!”
“تو پھر۔۔!”
“وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔ کیا فون استعمال کیا جائے”۔
“میں جانتا ہوں وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ اس سے کہو کہ دو دن کی تھکن بڑی اچھی نیند لاتی ہے”۔
“بہتر ہے!”

“غالبا تم سوچ رہی ہوگی کہ اس عمارت پر چھاپہ کیوں نہ مارا جائے”۔
“جی ہاں قدرتی بات ہے”۔
“لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ مجھے سرغنہ کی تلاش ہے۔ وہ اس عمارت میں نہیں تھا! اور اب تو وہاں تمہیں ایک پرندہ بھی نہیں ملے گا!”
“میرے لئے کیا حکم ہے؟”
“وقت آنے پر مطلع کیا جائے گا۔ اور کچھ؟”
“جی نہیں!”
“اوور اینڈ آل۔۔!”

جولیا نے سوئچ آف کردیا اور صفدر کی طرف مڑی جو بہت زیادہ متحیر نظر آرہا تھا!
“یہ سب کچھ جانتا تھا!” صفدر نے آہستہ سے کہہ کر جلدی جلدی پلکیں جھپکائیں اور ختم ہوئے سگریٹ سے دوسرا سگریٹ سلگانے لگا۔ پھر دو تین گہرے کش لے کر بولا۔ ” وہ جانتا تھا مگر اس نے مطلق پرواہ نہ کی کہ مجھ پر کیا گذرے گی!”
“مگر تمہیں تو عمران نے اس آدمی کے تعاقب کے لئے کہا تھا”۔
“عمران۔ نتائج کا ذمہ دار تو نہیں ہے!” صفدر نے کہا! “ایکس ٹو کو علم تھا آخر اس نے ہماری مدد کیوں نہیں کی؟”
“صفدر صاحب آپ کو تعاقب کے لئے کہا گیا تھا! اس سے دور رہ کر اس کی نظروں سے بچ کر! عمران نے یہ تو نہ کہا ہوگا کہ آپ اس کے ساتھ بلیرڈ کھیلنا شروع کردیں”۔
“ہاں مجھ سے ہی غلطی ہوئی تھی”۔

“ہوسکتا ہے اسی غلطی کی پاداش میں یہ تمہاری سزا رہی ہو کہ ایکس ٹو نے حالات سے واقف ہونے کے باوجود بھی تمہاری کوئی مدد نہ کی!”
صفدر کچھ نہ بولا! اس کی بھنویں سمٹ گئی تھیں اور پیشانی پر کئی سلوٹیں ابھر آئی تھیں!
کچھ دیر بعد جولیا نے جوزف کا تذکرہ چھیڑدیا!
“وہ عمران ہی کی طرح عجیب ہے! بظاہر ڈیوٹ۔ لیکن۔ بہرحال اس نے مجھے کسی طرح بھی یہ نہیں بتایا کہ وہاں کیسے پہنچا تھا!”
“مگر اب وہ رہتا کہاں ہے؟”
“خدا جانے۔۔!”
“عمران کے فلیٹ میں تو بہت دنوں سے نہیں دیکھا گیا”۔

“ہوں۔ یہ بتا۔ سرسوکھے کا کیا قصہ ہے۔ یہ کون ہے؟” وہ عمران کو کیوں تلاش کر رہا ہے! وہ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سرسوکھے عمران کی تلاش میں کیوں ہے اور اس نے ہمارے دفتر سے کیوں رابطہ قائم کیا ہے۔۔!”
“سرسوکھے یہاں کا ایک دولت مند آدمی ہے! وہ اس لئے ہمارے فرم سے رجوع ہوا ہے کہ ہم اس کی فرم کے لئے فارورڈنگ اور کلیرنگ کریں! لیکن میں یہ نہیں جانتی کہ اسے عمران کی تلاش کیوں ہے! یہ تو بہت برا ہوا کہ آفس بھی ان کی نظروں میں آگیا ہے”۔
“میرا تو خیال ہے کہ وہ ہمارے چیف ایکس ٹو کے متعلق بھی کچھ نہ کچھ ضرور جانتے ہیں”۔
“اور عمران کے قول کے مطابق یہ لوگ وہی ہیں جن سے آتشدان کے بت والے کیس میں مڈبھیڑ ہوئی تھی۔۔! وہ قصہ وہیں ختم نہیں ہوگیا تھا!” جولیا نے کہا اور کسی سوچ میں پڑ گئی!

دفعتا فونی کی گہنٹی بجی اور اور جولیا نے ریسیور اٹھالیا!
“ہیلو۔۔!”
“میں ہوں”۔ ایک ٹو کی آواز آئی۔ سرسوکھے کا کیس ایک بار پھر دہرا۔ تفصیل سے۔۔!”
جولیا نے شروع سے اب تک کے واقعات دہرانے شروع کردیئے لیکن پھر یک بیک اسے خیال آیا کہ اس نے اصلیت صفدر کو نہیں بتائی! اور وہ اب بھی یہیں موجود ہے۔ لہذا اس نے سونے کی اسمگلنگ کی طرف سے آنے سے پہلے کہا۔ “صفدر یہیں موجود ہے”۔
“پروا ہ نہیں”۔ ایکس ٹو کی آواز آئی۔ “صفدر سے اس سلسلے میں کچھ بھی نہ چھپا! وہ ان لوگو میں سے ہے جن پر میں بہت زیادہ اعتماد کرتا ہوں”۔

پھر جیسے ہی جولیا نے سونے کی اسمگلنگ کی کہانی چھیڑی صفدر اسے گھورنے لگا!
آخر میں جولیا نے پوچھا۔”کیا آپ کو علم ہے کہ جن لوگوں نے صفدر کو پکڑا تھا وہ سرسوکھے میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں”۔
“نہیں میں نہیں جانتا”۔
“انہوں نے صفدر سے یہ معلوم کرنے کے لئے سختی برتی تھی”۔
“کیا معلوم کرنے کے لئے۔ جملے ادھورے نہ چھوڑا کرو” ایکس ٹو غرایا۔
“معافی چاہتی ہوں جناب! وہ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ سرسوکھے عمران کی تلاش میں کیوں ہے! یہ معلوم کرنے کے لئے انہوں نے صفدر پر چابک برسائے تھے۔ ڈھمپ اینڈ کو اور عمران کا تعلق بھی ان کے لئے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے”۔
“اوہ۔۔ اچھا تو۔۔ اب سرسوکھے کو عمران سے ملا دو”۔ ایکس ٹو نے کہا۔

“مگر میں اسے کہاں ڈھونڈوں؟”
“کل صبح سرسوکھے کو گرینڈ ہوٹل میں مدعو کرو! عمران پہنچ جائے گا”۔
“بہت بہتر جناب۔۔!”
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا۔

دوسری صبح تقریبا نو بجے جولیا گرینڈ ہوٹل میں سرسوکھے کا انتظار کر رہی تھی اور اسے یقین تھا کہ اب سرسوکھے سے نجات مل جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اب تک وہ عمران ہی کے سلسلے میں اس کیساتھ رہی تھی! لیکن اب عمران خود ہی اس سے ملنے والا تھا!
پھر کیا؟ اب بھی اس کی گلوخلاصی نہ ہوگی؟ جولیا کے پاس اس وقت بھی اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں تھا!
ٹھیک نو بج کر دس منٹ پر سرسوکھے ڈائننگ ہال میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا اور آنکھیں غمگین تھیں! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنے کسی عزیز کے کریا کرم سے واپس آیا ہو۔۔!
جولیا نے خوش اخلاقی سے اس کا استقبال کیا!
“بس آجائیں گے تھوڑی دیر میں”۔

اس نے غور سے جولیا کی طرف دیکھا۔ ایک ٹھنڈی سانس لی اور دوسری طرف دیکھنے لگا! ایسا کرتے وقت وہ بیحد مضحکہ خیز لگا تھا! جولیا نے نہ جانے کیسے اپنی ہنسی ضبط کی تھی۔
“پچھلی شام آپ مجھ سے ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ملی تھیں؟” دفعتا اس نے سرجھکا کر آہستہ سے کہا!
“میرے چند دوست۔۔”۔
“ٹھیک ہے”! وہ جلدی سے بولا۔ دیکھیئے مجھے غلط نہ سمجھیئے گا! آخر مجھے کیا حق حاصل ہے کہ آپ سے ایسی گفتگو کروں۔ میرے خدا۔۔!”
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا! اور جولیا کا دل چاہا کہ ایک کرسی اٹھا کر اسی پر توڑ دے۔ گدھا کہیں کا۔ آخر خود کو سمجھتا کیا ہے!

“وہ دیکھیئے”۔ سرسوکھے نے تھوڑی دیر بعد کہا۔ “میں کیا بتاں بعض اوقات مجھ سے بچکانہ حرکتیں سرزد ہوجاتی ہیں! بھلا بتائیے یہ بھی کوئی کہنے کی بات تھی مگر زبان سے نکل ہی گئی۔ اسے یوں سمجھیئے۔ دیکھیئے! بالکل بچوں کی طرح۔۔! وہ ٹھہرئیے۔۔ مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ دیکھیئے شاید آپ اسی سے میرے احساسات کا اندازہ کرسکیں۔ میری ایک بھابی تھیں! میں انہیں بہت پسند کرتا تھا! اور وہ بھی مجھے بہت چاہتی تھیں! ایک دن ان کا ایک کزن آگیا جو میرا ہی ہم سن تھا۔ کچھ دنوں بعد میں نے محسوس کیا کہ اب وہ مجھ پر اتنی مہربان نہیں رہیں جتنی پہلے تھیں۔ بس رو پڑا۔ الگ جاکر۔ کوٹھری میں کھڑا رو رہا تھا کہ بھابی آگئیں۔ میں خاموش ہوگیا۔ وہ رونے کی وجہ پوچھتی رہیں لیکن میں کیا بتاتا! بہرحال مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پیر میں چوٹ آگئی ہے مجھ سے اٹھا نہیں جاتا۔ انہوں نے مجھے اٹھایا۔ باہر لائیں۔ میرے پیر میں مالش کی۔۔ لیکن میں روتا ہی رہا۔ اب دیکھیئے۔ میں ان سے کیسے کہتا۔ کیسے کہتا کہ وہ اپنے کزن کو مجھ سے زیادہ کیوں چاہتی ہیں۔۔ اسی طرح کل میں کتنا دکھی تھا! بالکل اسی طرح۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کردوں! یعنی آپ نے میری طرف آنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ اوہ۔۔!”

وہ یک بیک چونک کر خاموش ہوگیا! اس کی آنکھوں سے ندامت کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ پھر وہ دونارہ چونک کر بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔ “مس جولیانا۔۔ میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ ایک باکل گدھا اور بیعقل آدمی سمجھ کر معاف کردیجیئے۔ میں آخر یہ ساری بکواس کیوں کر رہا ہوں۔۔ بوائے۔۔”
اس نے بڑے غیر مہذب انداز میں بیرے کو پکارا تھا! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ اپنی کہی ہوئی باتیں جولیا کے ذہن سے نکال پھینکنے کی کوشش کر رہا ہو۔۔!

“کافی۔۔ اور ایک بڑا پگ وہسکی!” اس نے بیرے سے کہا اور جولیا کی طرف متوجہ ہوا ہی تھا کہ جولیا بولی۔” پچھلی رات میں نے صرف عمران کے ساتھ اسکیٹنگ کی تھی!”
“نہیں تو۔ میں وہاں موجود تھا میں نے دیکھا پہلے آپ کے ساتھ کوئی اور تھا”۔
“پہلا اور آخری آدمی۔۔!” جولیا مسکرائی۔۔!
“میں نہیں سمجھا!”
“وہ عمران ہی تھا۔۔!”

“نہیں۔۔! مگر۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ نہیں وہ نہیں ہوسکتے! تم مذاق کر رہی ہو!”
“یقین کیجیئے! وہ میک اپ میں تھا! آج کل وہ کسی چکر میں ہے اور کچھ لوگ اس کے دمشن ہوگئے ہیں اس لئے وہ زیادہ تر خود کو چھپائے رکھتا ہے”۔
“اوہ! بھیئی کمال کا آدمی ہے!” سرسوکھے نے بچوں کے سے متحیرانہ لہجے میں کہا۔ “کیا شاندار میک تھا گھنٹوں دیکھتے رہنے کے بعد بھی نہ پہچانا جاسکے”۔
“میں نے بھی اسے صرف آواز سے پہچانا تھا!

“اوہ۔۔!” وہ مضطربانہ انداز میں بولا۔ جس میں دبی ہوئی سی خوشی بھی شامل تھی۔ “تب تو مجھے یقین ہے۔ بالکل یقین ہے کہ میری مشکلات رفع ہوجائیں گی”۔
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی تیر کی طرح ان کی طرف آیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
جولیا سٹپٹا گئی! کیونکہ یہ عمران نہیں ہو سکتا تھا اور اگر تھا بھی تو پچھلی رات والے میک اپ میں نہیں تھا!
“فرمائیے جناب!” سرسوکھے غصیلے لہجے میں بولا!
“میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے”۔ آنے والے مسمی صورت بنا کر کہا!
“درد۔ یعنی کہ پین۔ پتہ نہیں فرانسیسی اور جرمن میں اسے کیا کہتے ہیں”۔

“میں پوچھتا ہوں کہ آپ اس میز پر کیوں آئے ہیں”۔ سرسوکھے میز پر ہاتھ مار کر غرایا!
“انہیں دیکھ کر۔۔!” اجنبی نے جولیا کی طرف اشارہ کیا!
“کیا مطلب۔۔!”
“دیکھنے کا مطلب کیسے سمجھاں؟”
“تمہارا دماغ تو نہیں خراب ہوگیا۔۔!”
“اگر کچھ دیر تک آپ اسی قسم کی گفتگو کرتے رہے تو یقینا خراب ہوجائے گا۔ بھلا کوئی تک ہے۔۔ آخر آپ درد کا مطلب نہیں سمجھتے۔۔دیکھنے کا مطلب نہیں سمجھتے! پھر کیا میں درد کو شکرقند اور دیکھنے کو فلفلانا کہوں۔ واہ بھلا آپ مجھے غصے سے کیوں فلفلا رہے ہیں! میرے پیٹ میں تو شکرقند ہو رہا ہے!”

“تمہاری ایسی کی تیسی”۔ سرسوکھے کرسی کھسکا کر کھڑا ہوگیا اور لگا آستین سمیٹنے!
“ارے۔ تم نے تو میری مٹی پلید کردی جولیا! اجنبی نے جولیا سے کہا۔ ” تم نے تو کہا تھا کہ تم کسی سرسوکھے کے ساتھ ملو گی۔ یہ تو سرہاتھی نہیں بلکہ سرپہاڑ ہیں۔ پہلوان بھی معلوم ہوتے ہیں۔ اگر انہوں نے ایک آدھ ہاتھ رکھ ہی دیا ہوتا تو میں کہاں ہوں گا! خدا تمہیں غارت کرے!”
جولیا پیٹ دبائے بیتحاشہ ہنس رہی تھی!
“ارے سرسوکھے! یہ عمران ہے!” بدقت اس نے کہا!
“کیا۔۔! اف فہ۔۔ ہاہا۔۔ ہا ہا۔۔ ہاہا!” سرسوکھے نے بھی منہ پھاڑ دیا۔

لیکن اس کی ہنسی خجالت آمیز تھی۔۔!
پھر وہ بیٹھ گیا! لیکن عمران اب بھی ایسی پوزیشن میں بیٹھا ہوا تھا جیسے اب اٹھ کر بھاگا!
“مائی ڈیئر مسٹر عمران آپ واقعی کمال کے آدمی ہیں!” سرسوکھے نے ہانپتے ہوئے کہا!
وہ اسی طرح ہانپ رہا تھا جیسے دور سے چل کر آیا ہو!
عمران چونکہ میک اپ میں تھا اس لئے حماقت کا اظہار صرف آنکھوں ہی سے ہوسکتا تھا! لیکن اس وقت تو آنکھیں سرسوکھے کا جائزہ لینے میں مصروف تھیں!
“اسمگلنگ کی کہانی میں سن چکا ہوں!” عمران نے کہا۔
“مس جولیا نے آپ کو سب کچھ بتایا ہوگا۔۔!”
“جی ہاں سب کچھ!۔۔ آپ اپنے آدمیوں میں سے کس پر شبہ ہے”۔
“دیکھینے! مجھے تو جس اسٹاف پر شبہ تھا اسے پہلے ہی الگ کردیا تھا! فاورڈنگ اور کلیرنگ کا سیکشن ہی توڑ دیا۔۔ لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ موجودہ اسٹاف بیداغ ہے۔ بھلا کیسے کہہ سکتا ہوں! آپ خود ہی سوچیئے!”
“ٹھیک ہے ایسے حالات میں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا”۔ عمران سر ہلا کر بولا!
“پھر آپ میرے لئے کیا کریں گے۔۔؟”
“پکوڑے تلوں گا!” عمران نے سنجیدگی سے کہا اور سرسوکھے بیساختہ ہنس پڑا۔۔
“خیر۔۔ خیر۔۔” اس نے کہا! “میں اب یہ معاملہ آپ پر چھوڑتا ہوں! جس طرح آپ کا دل چاہے اسے ہینڈل کیجیئے!۔۔!”
“آپ کو میرے ساتھ تھوڑی سی دوڑ دھوپ بھی کرنی پڑے گی!”
“اس کی فکر نہ کیجیئے! میں موٹا اور بیہنگم ہی سہی! لیکن چلنے کے معاملے میں کسی سے کم بھی نہیں ہوں! مطلب یہ کہ اگر پیدل بھی چلنا پڑے گا۔ جی ہاں”۔
“سواری کا تو کچومر نکل جائے گا! پیدل ہی ٹھیک ہے”۔ عمران سرہلا کر بولا۔
“میں برا نہیں مانتا!” سرسوکھے نے کھسیانی ہنسی کے ساتھ کہا۔
پتہ نہیں کیوں یک بیک جولیا کو عمران پر تا آنے لگا اور سرسوکھے کے لئے ہمدردی محسوس ہونے لگی!
اس نے کہا۔ “اچھا تو سرسوکھے۔۔ اب ہم اس معاملہ کو دیکھ لیں گے! ہوسکتا ہے کہ آپ بہت مشغول ہوں!”
“اوہ۔ بیحد۔۔ بیحد۔۔ اچھا اب اجازت دیجیئے!” سرسوکھیاٹھتا ہوا بولا۔
عمران اسے جاتے دیکھتا رہا۔۔!
“تم اس کا مضحکہ کیوں اڑا رہے تھے؟” جولیا نے غصیلے لہجے میں پوچھا۔
“پھر کیا کروں؟ اتنے موٹے آدمی کو سر پر بیٹھا لوں!” عمران بھی جھلا کر بولا۔
“مجھے اس سے ہمدردی ہے! اتنے بڑے ڈیل ڈول میں ایک ننھا سا بچہ! بیچارا۔۔!”
“خدا تمہیں بھی بیچاری بننے کی توفیق عطا کرے۔۔ اور آئندہ مجھے کوئی اتنا موٹا بیچارہ نہ دکھائے تو بہتر ہے ورنہ میں تو کہیں کا نہ رہوں گا۔ تم ایسے اوٹ پٹانگ آدمیوں سے ملاتی رہتی ہو۔ اچھا ٹاٹا۔۔!”
پھر جولیا اسے روکتی ہی رہ گئی۔۔ لیکن وہ چھلاوے ہی کی طرح آیا تھا اور اسی طرح یہ جاوہ جا۔۔ نظروں سے غائب۔۔!

دوسری شام جولیا آفس سے گھر آکر لیٹ ہی گئی تھی۔۔! بوریت۔۔! وہ سوچ رہی تھی کہ اس کو ذہنی اضمحلال سے کیسے چھٹکارا ملے گا! آج وہ دن بھر اداس رہی تھی۔ اس کا کسی کام میں بھی دل نہیں لگا تھا۔ عمران۔۔! ان ذہنی الجھنوں کی جڑ عمران ہی تھا! اس کے متعلق کسی ذہنی کشمکش میں پڑ کر وہ اپنی ساری زندہ دلی اور مسرور رہنے کی صلاحیت کھو بیٹھی تھی!

یہ عمران اس کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت تھا! اس کی عدم موجودگی میں وہ اس کے لئے بیچین رہتی تھی لیکن جہاں سامنا ہوتا اور وہ اپنے مخصوص لہجے میں گفتگو شروع کرتا تو اس کا یہی جی چاہتا کہ اس وقت جو چیز بھی ہاتھ میں ہو کھینچ مارے! ایسا ہی تا اس کی خاموشی پر بھی آتا تھا! کیونکہ خاموشی حماقت انگیز ہوتی تھی۔ جولیا نے کراہ کر کروٹ بدلی۔۔ اور آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ فون چیخ پڑا۔۔ وہ اٹھی اور ریسیور اٹھا لیا! دوسری طرف تنویر ٹھا۔ “اوہو۔۔ تو گھر ہی پر ہو!” اس نے کہا۔ کیا آج سرسوکھے واقعی سوکھتا ہی رہے گا؟” “کیا مطلب؟ جولیا غرائی!”

“سنا ہے آج کل وہ تمہیں بڑی موٹی موٹی رنگینیاں عطا کر رہا ہے۔۔”خاموش رہو بدتمیز۔۔” جولیا بپھر گئی۔ “ارے بس۔۔ تھوکو عضہ۔۔ میں نے تو محض عمران کے جملے دہرائے ہیں! ابھی ابھی اس نے فون پر کہا تھا کہ تم تو خیر پہلے ہی ہاتھ دھوچکے تھے اب میں نے بھی دھولئے ہیں اور اس وقت انہیں تولیئے سے خشک کررہا ہوں۔ میں نے پوچھا کیا بکتے ہو کہنے لگا سوکھ رہا ہوں! میں جھنجھلا کر سلسلہ منقطع کرنے ہی والا تھا کہ بولا۔ جولیا آج کل ہمالیاتی عشق کا شکار ہوگئی ہے سرسوکھے اسے عشق کے موٹے موٹے نغمے سناتا ہیاور ایک موٹی سی مسکراہٹ جولیا کے ہونٹوں پر رقص کرنے لگتی ہے اور اسے چاند ستارے، دریا کے کنارے حتی کہ ساون کے نظارے بھی موٹے نظر آنے لگتے ہیں۔۔!”

“شٹ اپ!” جولیا حلق پھاڑ کر چیخی اور سلسلہ منقطع کردیا۔ وہ کانپ رہی تھی! اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے رگوں میں خون کی بجائے چنگاریاں دوڑ رہی ہوں۔ “سور۔۔ کمینہ۔۔ وحشی۔۔ درندہ!” وہ دانت پیس کر بولی اور منہ کے بل تکیئے پر گر گئی۔ تھوڑی دیر تک بیحس وحرکت پڑی رہی! پھر اٹھی اور سرسوکھے کے نمبر ڈائیل کئے! وہ بھی اتفاق سے مل ہی گیا فون پر!
“کون ہے۔۔؟”
“فٹز واٹر۔۔”
“اوہ۔۔ کہیئے کہیئے۔۔!”
“آپ سے نہیں ملتی تو دل گھبراتا رہتا ہے۔۔!” جولیا ٹھنک کر بولی! اور پھر بڑا برا سا منہ بنایا۔
“اوہو۔۔ تو میں آجاں۔۔ یا آپ آرہی ہیں!”
“کسی اچھی جگہ ملیے۔۔!”
“اچھا۔۔ جاگیردار کلب کیسا رہے گا؟”
“اوہو۔۔ بہت شاندار۔۔ پھر آپ کہاں ملیں گے۔۔؟”

“میں آپ کے گھر ہی پر آرہا ہوں!”۔۔ سرسوکھے کا لہجہ بیحد پرمسرت تھا! بالکل ایسا ہی معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی بچے سے مٹھائی کا وعدہ کیا گیا ہو۔ سلسلہ منقطع کرکے جولیا لباس کا انتخاب کرنے لگی۔۔ یہ عمران آخر خود کو سمجھتا کیا ہے۔ وہ سوچ رہی تھی! بیہودہ کہیں کا۔۔ دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا تو آتا ہی نہیں۔۔ جانور۔۔ خیر دیکھوں گی! تم بھی کیا یاد کرو گے۔ اب سرسوکھے ہی سہی۔۔!

سرسوکھے آدھے گھنٹے کیاندر ہی اندر وہاں پہنچ گیا۔ جولیا بیحد دلکش نظر آرہی تھی! اس نے بڑی احتیاط اور توجہ سے میک اپ کیا تھا اور لباس کا تذکرہ ہی فضول ہے کیونکہ گھٹیا سے گھٹیا لباس بھی اس کے جسم پر آنے کے بعد شاندار ہوجاتا تھا۔ وہ ایسی ہی جامہ زیب تھی۔۔!
جاگیردار کلب پہنچنے میں دیر تو نہ لگتی لیکن واقعہ ہی ایسا پیش آیا جو دیر کا سبب تو بن گیا تھا لیکن جولیا کی سمجھ میں نہیں آسکا تھا!

جگایردار کلب پہنچنے کے لئے ایک ایسی سڑک سے گذرنا پڑتا تھا جو زیادہ کشادہ نہیں تھی اور عموما سرشام ہی اپنی رونق کھو بیٹھی تھی! وہ اس سڑک ہی پر تھے کہ جولیا نے محسوس کیا جیسے ان کا تعاقب کیا جارہا ہو! دیر سے ایک کار پیچھے لگی ہوئی تھی۔ “شاید یہ آگے جانا چاہتا ہے۔۔ ایک طرف ہوجائیے!” جولیا نے کہا۔ سرسوکھے نے بھی پلٹ کر دیکھا۔ پچھلی کار اب زیادہ فاصلے پر نہیں تھی۔ اس کے اندر بھی روشنی تھی اور ایک بڑا شاندار آدمی اسٹیرنگ کر رہا تھا۔ جولیا کو تو وہ شاندار ہی لگا تھا!
سرسوکھے کے حلق سے عجیب سی آواز نکلی اور پھر جولیا نے محسوس کیا جیسے اس نے اپنے ہونٹ سختی سے بند کرلیئے ہوں! اس نے اپنی گاڑی بائیں کنارے کرلی اور پچھلی کار فراٹے بھرتی ہوئی آگے نکل گئی۔۔!
تھوڑی دیر بعد جولیا نے چونک کر کہا۔ “ارے جاگیردار کلب تو شاید پیچھے ہی رہ گیا۔۔!
“جی ہاں۔۔ بس ابھی واپس ہوتے ہیں! یہ کام اچانک نکل آیا ہے”۔

“میں نہیں سمجھی؟”
“ہوسکتا ہے کہ آپ نے اس آدمی کو بارہادیکھا ہو! یہ جو اگلی کار میں ہے!”
“جی نہیں! میں نے تو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔۔” جولیا بولی!
“تعجب ہے آپ فارورڈنگ کلیرنگ کا کام کرتی ہیں لیکن اسے نہیں جانتیں میرا خیال تھا کہ یہ بھی آپ کے کاروباری حریفوں میں سے ہوگا!اس کا بھی تو فارورڈنگ کلیرنگ کا بزنس ہے شاید۔۔!”
“پتہ نہیں! میں نہیں جانتی!”
“کسی زمانے میں میرے یہاں اسسٹنٹ منیجر تھا”۔ سرسوکھے نے ٹھنڈا سانس لے کر کہا۔ “لیکن بیایمان آدمی ہے اس لئے میں نے اسے الگ کردیا تھا!”

“تو کیا آپ اس کا تعاقب کر رہے ہیں!”
“یقینا کیونکہ میرا خیال ہے کہ وہ میری فرم کے موجودہ جنرل منیجر سے گٹھ جوڑ کئے ہوئے ہے۔ مقصد کیا ہے! میں نہیں جانتا!”
“گٹھ جوڑ کا شبہ کیسے ہوا آپ کو؟”
“جب یہ میرے یہاں تھا تو دونوں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔۔!”
“تو آپ کس بات کا شبہ کر رہے ہیں۔۔!”

“وہ ایک پرانا اسمگلر ہے۔۔ یہی معلوم ہوجانے پر میں نے اسے اپنی فرم سے الگ کیا تھا۔۔!”
“تب تو پھر اتنے گھما پھرا کی بات ہی نہیں تھی! آپ نے پہلے ہی اس کا نام بتایا ہوتا! ہم اسے چیک کرلیتے”۔
“نام تو درجنوں بتائے جاسکتے ہیں! مگر یہ اس وقت میرا تعاقب کیوں کر رہا تھا! مجھے تو یہ دیکھنا ہے۔۔!”
” تو اب آپ اس کا تعاقب کریں گے؟”

قطعی۔۔ قطعی!” وہ بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا! “اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ اب وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟” کیا اس لئے میرا تعاقب کیا جا رہا ہے کہ میں نے تم لوگوں سے مدد طلب کی ہے!”
“خیر ایسے لوگوں کے لئے پریشانی کا باعث صرف عمران ہوسکتا ہے!” جولیا نے کہا۔ “کیونکر بعض بڑے جرائم پیشہ اس کی ساکھ سے واقف ہیں!”

“میں یہی کہنا چاہتا تھا مس جولیانا۔۔ آپ کو وہ شام تو یاد ہی ہوگی جب آپ میرے آفس میں میری کہانی سن رہی تھیں۔۔!”
“جی ہاں! میں نے میز پر پائے جانے والے پیر کے نشان کا چربہ عمران کے حوالے کردیا ہے!”
“اوہ۔۔ دیکھیئے وہ کار بائیں جانب مڑرہی ہے۔۔ کیا میں ہیڈلائٹس بجھا دو”۔
“اگر تعاقب جاری رکھنا ہے تو یہی مناسب ہوگا!” جولیا نے کہا!

سرسوکھے نے اگلی روشنی گل کردی اور پھر وہ بھی بائیں جانب مڑ گیا! تھوڑی دیر بعد وہ پھر شہر کے ایک بھرے پرے حصے میں داخل ہوئے!
“اوہ وہ اپنی گاڑی گرینڈ ہوٹل کی کمپانڈ میں موڑ رہا ہے!” سرسوکھے بڑبڑایا۔۔!
اگلی کار گرینڈ ہوٹل کے پھاٹک میں داخل ہو رہی تھی۔ سرسوکھے نے اپنی گاڑی کی رفتار رینگنے کی حد تک کم کردی۔۔! اگلی کار پارک ہوچکی تھی اس سے وہی آدمی اترا اور بڑے پروقار انداز میں چلتا ہوگا گرینڈ ہوٹل کے صدر دروازے میں داخل ہوگیا۔۔!
ادھر سرسوکھے نے اپنی گاڑی روک دی تھی۔۔!

“اوہ۔۔ میں کیا کروں!” وہ مضطربانہ انداز میں بولا! “آپ ہی بتایئے!”
“کاش میں یہ معلوم کرسکتی کہ آپ کیا چاہتے ہیں”۔
“ہمیشے کے لئے ان بدبختوں کا خاتمہ جن کی وجہ سے نیندیں حرام ہوگئی ہیں مجھ پر۔۔! اس وقت تو میں صرف اپنی جان بچانا چاہتا ہوں! آپ کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے مس جولیا!”
“آپ جو کچھ کہیں۔۔ میں کروں!”

“اوہ دیکھیئے! میں بھی اپنی گاڑی کمپانڈ ہی میں پارک کروں گا اور آپ اسی میں بیٹھ کر میرا انتظار کریں گی!”
“کتنی دیر۔۔!”
“ہوسکتا ہے۔۔ جلد ہی لوٹ آں! ہوسکتا ہے دیر ہوجائے”۔
“آپ جائیں گے کہاں۔۔؟”
“اندر۔۔! میں دیکھوں گا کہ وہ کس چکر میں ہے! آپ خود سوچیئے کہ وہ میرا تعاقب کر رہا تھا! پھر آگے نکل آیا۔۔ اب یہاں آرکا ہے۔ کیاوہ میرے گرد کسی قسم کا جال پھیلا رہا ہے!”

جولیا کچھ نہ بولی! سرسوکھے نے گاڑی پھاٹک میں گھمائی اور اسے ایک گوشے میں روکتا ہوا بولا۔
“بس آپ اس کی کار پر نظر رکھیئے گا!”
سرسوکھے گاڑی سے اترا اور صدر دروازے کی طرف چل پڑا! اس کی چال میں معمول سے زیادہ تیزی تھی! جولیا کار میں بیٹھی رہی! تقریبا پانچ منٹ گذر گئے! وہ اس آدمی کے متعلق سوچ رہی تھی جسے کار میں دیکھا تھا۔۔ یکایک وہ چونک پڑی ایک نیا سوال اس کے ذہن کے تاریک گوشوں سے ابھرا تھا!۔۔ اگر وہ سرسوکھے کا تعاقب ہی کر رہا تھا تو گاڑی کے اندر روشنی رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
جولیا اس پر غور کرتی رہی! اور اس کا ذہن الجھتا چلا گیا! اب تو ایک نہیں درجنوں سوالات تھے۔۔!

کیا سرسوکھے اسے خطرے میں چھوڑ کر خود کھسک گیا تھا؟ خصوصیت سے اس سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا! لہذا وہ چپ چاپ سرسوکھے کی گاڑی سے اتر آئی! قریب ہی بڑے بڑے گملوں کی ایک قطار دور تک پھیلی ہوئی تھی! ان میں گنجان اور قدآور پودے تھے جن کی پشت پر تاریکی ہی تھی! جولیا نے سوچا کہ وہ بہ آسانی ان کی آڑ لے سکے گی!
شاید آدھا گھنٹہ گذر چکا تھا لیکن ابھی تک ان دونوں میں سے کسی کی بھی واپسی نہیں ہوئی تھی۔۔!

جولیا سوچنے لگی کہ وہ خواہ مخواہ اپنے پیر تھکا رہی ہے اور اسے ایک بار پھر عمران پر غصہ آگیا۔۔ محض عمران کی وجہ سے وہ اس وقت گھر سے نکل آئی تھی ورنہ دل تو یہی چاہا تھا کہ آفس سے واپسی پر گھنٹوں مسہری پر پڑی رہے گی! تنویر نے فون پر عمران کی گفتگو دہرا کر اسے تا دلا دیا تھا اور وہ سرسوکھے کے ساتھ باہر نکل آئی تھی اور تہیہ کرلیا تھا کہ آئندہ شامیں بھی اسی کے ساتھ گذارے گی!

لیکن اب اسے اپنی جلد بازی کھل رہی تھی! ویسے اس کی ذمہ داری تو عمران ہی پر تھی لہذا وہ سلگتی رہی۔۔!
دفعتا اسے سرسوکھے نظر آیا جو بڑی تیزی سے اسی کار کی طرف جارہا تھا جس پر تعاقب کرنے والا آیا تھا۔ پھر جولیا نے اسے کار کے انجن میں کچھ کرتے دیکھا اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں! آخر وہ کیا کرتا پھر رہا ہے!
اس کے بعد وہ وہیں کھڑے کھڑے اپنی کار کی طرف مڑا اور داہنا ہاتھ اٹھا کر اسے دو تین بار جنبش دی!
غالبا یہ اشارہ جولیا کے لئے تھا کہ وہ ابھی انتظار کرے۔۔ جولیا نے ایک طویل سانس لی۔۔!

سرسوکھے بڑی تیزی سے پھاٹک کی طرف سے چلا جارہا تھا! پھر وہ اس سے گذر کر سڑک پر نکل گیا!
جولیا وہیں کھڑی رہی! پھر اس نے سوچا کہ وہ خواہ مخواہ اپنی ٹانگیں توڑ رہی ہے! جہنم میں گئے سرسوکھے کے معاملات! وہ خود ہی نپٹتا پھرے گا اسے کیا پڑی ہے کہ خواہ مخواہ اپنا وقت برباد کرے، اپنی انرجی ضائع کرے۔۔ اچانک وہ ایک بار پھر چونک پڑی!
اب وہ آدمی اپنی کار کی طرف جا رہا تھا جو سرسوکھے کی موجودہ بھاگ دور کی وجہ بنا تھا۔۔!

پھر جولیا نے دیکھا کہ وہ کار میں بیٹھ کر اسے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے! تھوڑی ہی دیر بعد وہ انجن کھولے اس پر جھکا ہوا نظر آیا۔۔ اور پھر جب وہ سیدھا کھڑا ہو ا تو اس کے ہاتھوں کی مایوسانہ جنبشیں اس کی بیبسی کا اعلان کر رہی تھیں۔۔!
دفعتا ایک ٹیکسی ڈرائیور اس کی طرف آیا! دونوں میں گفتگو ہوتی رہی پھر ٹیکسی ڈرائیور نے بھی انجن دیکھا اور کار اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی! جولیا محسوس کر رہی تھی کہ وہ آدمی بہت زیادہ پریشان ہے!

پھر ذرا سی دیر بعد اس نے اسے ٹیکسی میں بیٹھتے دیکھا کہ وہ اپنی کار وہیں چھوڑے جا رہا تھا۔۔!
جولیا نے سوچا کہ اب اسے ہر قیمت پر اس کا تعاقب کرنا چاہیئے! ہوسکتا ہے سرسوکھے نے اسے وہاں کچھ دیر روکے رکھنے ہی کے لئے اس کے کار کے انجن میں کوئی خرابی پیدا کی ہو!

اس نے تعاقب کا فیصلہ بہت جلدی میں کیا تھا! کیونکہ ٹیکسی نکلی جارہی تھی ورنہ وہ کوئی قدم اٹھانے سے پہلے مناسب حد تک غور کرنے کی عادی تھی! وہ جھپٹ کر سرسوکھے کی کار میں آ بیٹھی! اور پھر دس منٹ بعد دونوں کاروں کے درمیان صرف سو گز کا فاصلہ رہ گیا! وہ اس فاصلہ کو اس سے بھی زیادہ رکھنا چاہتی تھی لیکن اس بھری پری سڑک پر اس کے امکانات نہیں تھے!

جو ں توں کرکے اس نے تعاقب جاری رکھا! کچھ دیر بعد وہ ٹیکسی شہر کے ایک کم آباد حصے میں داخل ہوئی لیکن یہاں بھی ٹریفک کم نہیں تھا!
دفعتا وہ ٹیکسی ایک عمارت کی کمپانڈ میں مڑ گئی! پھاٹک کھلا ہی ہوا تھا! جولیا نے اپنی کار کی رفتار کم کرکے اسے سڑک کے نیچے اتار دیا!
دوسری عمارت کی کمپانڈ تاریک پڑی تھی اورچہار دیواری اتنی اونچی تھی کہ اندر کا حال نظر نہیں آسکتا تھا!
پتہ نہیں اس کے سر میں کیا سمائی کہ وہ بھی کار سے اتر کر کمپانڈ میں داخل ہوگئی! چاروں طرف اندھیرا تھا۔ عمارت کی کوئی کھڑکی بھی روشن نہیں تھی!

وہ مہندی کی باڑھ سے لگی ہوئی آگے بڑھ ہی رہی تھی کہ اچانک کوئی سخت سی چیز اس کے بائیں شانے سے کچھ نیچے چھبنے لگی اور ایک تیز قسم کی سرگوشی سنائی دی! “چپ چاپ چلتی رہو۔ یہ پستول بےآواز ہے!”
جولیا کا سرچکرا گیا۔۔ یہ کس مصیبت میں آ پھنسی۔ لیکن وہ چلتی ہی رہی!
اسے ہوش نہیں تھا کہ اندھیرے میں اسے کتنے دروازے طے کرنے پڑے تھے! پھر جب وہ ایک بڑے کمرے میں پہنچی تو اس کی آنکھیں چندھیا کر رہ گئیں۔یہاں متعدد بلب روشن تھے اور ان کی برقی قوت بھی زیادہ تھی!

یہاں اسے وہ آدمی جو ٹیکسی میں بیٹھ کر آیا تھا! تین نقاب پوشو ں میں گھرا ہوا نظر آیا جن کے ہاتھوں میں ریوالور تھے۔۔!
جولیا نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا جو اسے یہاں تک لایا تھا۔۔! دوسرے ہی لمحے اس کے حلق سے ایک تحیر زدہ سی چیخ نکلی۔۔! یہ سرسوکھے تھا۔۔!

اس کے ہونٹوں پر ایک خونخوار سی مسکراہٹ تھی۔۔! اس نے کہا!
“میں جانتا تھا کہ تم یہی کرو گی۔۔!”
“مم۔۔ مگر۔۔ میں نہیں سمجھی”۔ جولیا ہکلائی!
“ابھی سمجھ جا گئی”۔ سرسوکھے نے خشک لہجے میں کہا! “چپ چاپ یہیں کھڑی رہو! اوہ۔۔ تمہارے ہینڈ بیگ میں ننھا سا پستول ضرور ہوگا! مجھے یقین ہے”۔
اس نے اس کے ہاتھ سے بیگ چھین لیا!
جولیا دم بخود کھڑی رہی! اب وہ پھر اس آدمی کی طرف متوجہ ہوگئی تھی جس کی وجہ سے ان مشکلات میں پڑی تھی۔۔ سرسوکھے کا مرکز نگاہ بھی وہیں تھا۔

“کیوں۔۔؟ خفیہ معاہدہ کے کاغذات کہاں ہیں؟” اس نے گرج کر اس آدمی سے پوچھا!
“کیسا خفیہ معاہدہ۔۔ اور کیسے کاغذات؟” وہ آدمی مسکرا کر بولا۔ “میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو!”
“اوہ تو کیا تم اسے بھی جھٹلا سکو گے کہ تم رانا تہور علی ہو!”
“اسے جھٹلانے کی ضرورت ہی کیا ہے!”
“کیا لیفٹننٹ واجد والے کاغذات تمہارے پاس نہیں ہیں؟”

” میں جب کسی کسی لیفٹننٹ واجد ہی کو نہیں جانت تو کاغذات کے متعلق کیا بتاں۔۔؟”
“تب تو عمران بھی تمہارے لئے اجنبی ہی ہوگا”۔ سرسوکھے کی مسکراہٹ زہریلی تھی!
“یہ کیا چیز ہے۔۔؟”
“خاموش رہو!” سرسوکھے آنکھیں نکال کر چیخا!
“چلو اب خاموش ہی رہوں گا!یقین نہ ہو تو کچھ پوچھ کر آزمالو۔۔!”
“رانا۔۔”

“اب اپنا نام بھی بتا دو۔۔” وہ آدمی مسکرایا! ت”تاکہ میں بھی تمہیں اتنی ہی بیتکلفی سے مخاطب کرسکوں!”
“رانا تمہارے جسم کا بند بند الگ کردیا جائے گا!”
“ضرور کوشش کرو! میں بھی آدمی کی ٹوٹ پھوٹ کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں! میری نظروں سے آج تک کوئی ایسا آدمی نہیں گذرا جس کا بند بند الگ کردیا گیا ہو؟”

“ستون سے باندھ کر کوڑے برسا”۔ سرسوکھے نے نقاب پوشوں سے کہا۔
نقاب پوشوں نے اپنے ریوالور جیبوں میں ڈال لئے۔ لیکن اس وقت جولیا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ اس آدمی کی بجائے خود سرسوکھے ہی پر ٹوٹ پڑے۔۔!
“ارے۔۔ ارے! دماغ تو نہیں خراب ہوگیا!” سرسوکھے بوکھلا کر پیچھے ہٹا۔

“ہاں۔۔ دیکھو! دفعتا وہ آدمی بولا۔ “ہم اسے زندہ چاہتے ہیں! تاکہ اس پر ہودہ کسوا کر سواری کے کام میں لاسکیں۔۔ رانا تہور علی صندوقی کا ہاتھی بھی عام ہاتھیوں سے الگ تھلگ ہونا چاہیئے۔۔!”
جولیا کو تو ابھی بھانت بھانت کی حیرتوں سے دوچار ہونا تھا! سرسوکھے ان تینوں کے لئے لوہے کا چنا ثابت ہوا۔۔!
سارے کمرے میں وہ انہیں نچاتا پھر رہا تھا۔۔ اتنے بھاری جسم والا اتنا پھرتیلا بھی ہوسکتا ہے! حیرت! حیرت!! جولیا کو تو ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی بھوت انے میں آ پھنسی ہو! سرسوکھے آدمی تو نہیں معلوم ہو رہا تھا۔۔!

بالکل ایسا ہی معلوم ہو رہا تھا جیسے کسی ہاتھی نے چیتے کی طرح چھلانگیں لگانی شروع کردی ہو۔۔!
سب سے لمبا نقاب پوش حلق سے طرح طرح کی آوازیں نکالتا ہوا اسے پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔!
رانا تہویر علی ریوالور سنبھالے دروازوں کی روک بنتا پھر رہا تھا کہ کہیں سرسوکھے کسی دروازے سے نکل کر فرار نہ ہوجائے! ویسے اس کی آنکھوں میں کچھ اس قسم کے تاثرات پائے جاتے رہے تھے جیسے اچھی فیلڈنگ کرنے والے کسی چست وچالاک بچے کی آنکھوں میں پائے جاتے ہیں۔ جولیا کبھی اس کی طرف دیکھنے لگی تھی اور کبھی سرسوکھے کی طرف۔۔!
“سرسوکھے تم ابھی تھک جا گے”۔ دفعتا رانا نے کہا۔

“اسی طرح صبح ہوجائے گی”۔ سرسوکھے نے قہقہہ لگایا۔ تم مجھ پر فائر کیوں نہیں کرتے؟”
“میں ایک بلیک میلر ہوں سرسوکھے!” رانا کہا۔ “کیا تم سودا کرو گے؟”
“میں جانتا تھا!”۔۔ سرسوکھے نے بیتکان قہقہ لگایا۔ وہ اب بھی ان تینوں کو ڈاج دیتا پھر رہا تھا!
جولیا دروازے کی طرف کھسک رہی تھی۔۔ رانا نے اسے للکارا۔
“خبردار اگر تم اپنی جگہ سے ہلیں تو تمہاری لاش یہیں پڑے پڑے سڑ جائے گی!” جولیا ٹھٹک گئی!
“اپنے آدمیوں کو روکو”۔۔ سرسوکھے نے کہا۔

“اوہ۔۔ تم تینوں دفع ہوجا”۔ رانا نے ہاتھ ہلا کر کہا! اور تینوں نقاب پوش اسے چھوڑ کر ایک دروازے سے نکل گئے!
“تم ادھر چلو۔۔!” سرسوکھے نے جولیا سے کہا۔۔ اور رانا نے ریوالور کی نال کو جنبش دے کر سرسوکھے کی تائید کی! جولیا ان کے قریب آگئی۔ “تم اسے کہاں لئے پھر رہے ہو سرسوکھے؟ جانتے ہو یہ کون ہے؟” رانا نے پوچھا۔
“میں سب کچھ جانتا ہوں تم معاملے کی بات کرو!”
“ساڑھے تین لاکھ”۔
“بہت ہے۔۔ میں نہیں دے سکتا۔۔!”

“تب پھر میں دوسروں سے بھی بزنس کرسکتا ہوں۔۔! مگر نہیں!
میں تم سے بات ہی کیوں کرو۔۔ معاملہ تو تمہارے چیف ہی سے طے ہو سکے گا۔۔!”
“میرا کوئی چیف نہیں ہے!” سرسوکھے غرایا! “میں مالک ہوں”۔
“تب پھر تم ہی معاملہ طے کرو”۔ “میں ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ تک بڑھ سکوں گا! لیکن اس کے بعد گنجائش نہیں ہے!”
“اس سے بہتر تو یہی ہوگا کہ میں عمران سے ہار مان کر اپنا پیچھا چھڑاں!”

“تم ایسا نہیں کرسکتے!” سرسوکھے گرجا! “میں کتوں کے راتب میں اضافہ کرنے کی سکت رکھتا ہوں۔۔ ساڑھے تین لاکھ ہی سہی”۔
اچانک رانا نے اچھل کر اس کی توند پر ایک زر دار لات رسید کی۔۔!
اور وہ چیخ کر الٹ گیا! اس کے گرنے سے کسی قسم کی آواز پیدا ہوئی تھی!
جولیا اندازہ نہ کرسکی! عجیب سی آواز تھی۔۔ نہ وہ کسی چٹان کے گرنے کی آواز تھی اور نہ۔۔؟ وہ اندازہ بھی کیسے کرسکتی تھی کیونکہ اس نے آج تک نہ تو گوشت کا پہاڑ دیکھا ہی تھا اور نہ اس کے گرنے کی آواز سنی تھی!

“اب تم اٹھ نہ سکو گے سرسوکھے۔۔! رانا نے قہقہہ لگایا۔ “بس کسی ایسی بطخ کی طرح پڑے رہوجو چت لیٹا کر سینے پر کنکری رکھ دی گئی ہو! مجھے اسی کا انتظار تھا۔ مگر تم تو ایسے بھی ڈفر ہو! تم غالبا یہ سمجھتے تھے کہ رانا اتفاقا ہاتھ آگیا ہے اسی لئے اس پھر بھی غور نہ کرسکے کہ جو شخص کسی سے چھپتا پھر رہا ہو وہ بھلا کار کے اندر روشنی کیوں رکھنے لگا! کار کے اندر میں نے اس توقع پر روشنی کی تھی کہ شاید تم پھنس ہی جا۔۔ وہا ہوا۔۔ یہاں کچھ دیر پہلے تمہارے آدمی تھے جنہیں میرے آدمیوں نے ٹھکانے لگا کر ان کی جگہ خوش لے لی تھی۔۔

مجھے تمہارے سارے اڈوں کا علم تھا! اس لئے اس وقت ہر اڈے پر میرے ہی آدمی موجود ہوں گے! اتنی دردسری تو محض اس لئے مول لی تھی کہ تمہاری زبان سے اعتراف کراسکوں کہ اس کالی تنظیم کے سربراہ تم ہی ہو۔۔ تم ہی وہ وطن فروش ہو جس نے ملک کو تباہ کردینے کی سازش کی تھی۔۔ ہاہا۔۔ تم اٹھ نہیں سکتے۔۔ بس اسی طرح بیبسی سے ہاتھ پیر مارتے رہو! میں یہ بھی جانتا تھا کہ تم لیٹ جانے پر خود سے نہیں اٹھ سکتے تین چار نوکر تمہیں کینچ کھانچ کر بستر سے اٹھاتے ہیں! اسی کام کے لئے تم نے تین چار پہلوا رکھ چھوڑے ہیں۔۔!”
“مجھے۔۔ اٹھا۔۔ دس لاکھ!” سرسوکھے چیخا!
جولیا پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔!

“تم اس فکر میں تھے کہ مجھے اور عمران دونوں کو ٹھکانے لگا دو۔۔ اس لئے اسمگلنگ کی کہانی لے کر عمران کی بیوی کے پاس پہنچ گئے تھے۔۔ “اے۔ تم کیا بکواس کر رہے ہو!” جولیا بگڑ گئی۔ “تم عمران کی بیوی نہیں ہو؟” رانا نے بڑی معصومیت سے پوچھا!
“نہیں۔ “اوہ۔۔ تو اس نے بکواس کی ہوگی۔۔ بہرحال تو پھر تم اس سے اتنی ہی قریب ہوسکتی ہو کہ سرسوکھے تمہارا سہارا لیتا”۔
“وہ صرف میرا دوست ہے”۔
“شوہر بھی دشمن تو نہیں ہوتا!”
“زبان۔۔ بند کرو۔۔! تم کون ہو؟ اور تمہارا ان معاملات سے کیا تعلق ہے؟”

“زبان بند کرلوں گا تو تم سنو گی! خیر۔۔ تم خود ہی اپنی زبان بند کرو اور مجھے سرسوکھے سے گفتگو کرنے دو! ہاں سوکھے! تم ابھی دس لاکھ کی بات کر رہے تھے! دس کروڑ اور دس ارب کی باتیں شروع کرو پھر شاید مجھے سوچنا پڑے کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے!”
“تم کیا چاہتے ہو؟” سرسوکھے نے بیبسی سے پڑے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔۔!
“تمہارے ہاتھوں کے لئے اسپیشل ہتھکڑیاں بنوائی ہیں! دیکھنا چاہتا ہوں کہ فٹ ہوں گی یا نہیں۔۔؟”
“تم بلیک میلر ہو؟۔۔”

“ہاں میں اپنے ملک و قوم کے لئے سب کچھ کرسکتا ہوں! بلیک میلنگ تو تفریحا بھی ہوجاتی ہے۔۔!”
“تم کون ہو۔۔؟” سرسوکھے نے خوف زدہ سی آواز میں پوچھا!
“جوزف۔۔!” رانا نے جواب دینے کی بجائے آواز دی!
دوسرے ہی لمحے جوزف کمرے میں تھا اور اس کے ہاتھوں میں بڑی بڑی اور وزنی ہتھکڑیاں تھیں۔۔!
“ہتھکڑی لگا دو!” لیکن خیال رکھنا کہ کہیں وہ تمہارے سارے اٹھ نہ آئے! ورنہ پھر اس کا پیٹ ہی پھاڑنا پڑے گا! میں اس ہاتھی کو زندہ لے جانا چاہتا ہوں۔۔!”

جوزف اس کا مطلب سمجھ گیا تھا اس لئے وہ کوشش کر رہا تھا کہ قوت صرف کئے بغیر ہی اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دے۔ لیکن اسے کامیابی نہ ہوئی۔ تب رانا نے صفدر کو آواز دی! اور جولیا چونک کر اسے گھورنے لگی صفدر بھی اندر آیا۔۔!
“چلو بھئی۔۔ تم بھی مدد کرو جوزف کی!” رانا نے کہا اور جولیا کھسک کر اس کے قریب آگئی! وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہی تھی!
“فرمائیے محترمہ۔۔!”

“تم کون ہو؟” جولیا نے آہستہ سے پوچھا!
“ہم۔۔ رانا تہور علی صندوقی ہیں!۔۔ ہمارے حضور ابا۔۔ یعنی کہ آنریبل فادر۔۔”
“تم جھوٹے ہو۔۔!” سرسوکھے حلق پھاڑ کر چیخا!” تم ان لوگوں سے بھی کوئی فراڈ کرو گے۔۔ صفدر تم تو عمران کے ساتھی ہو! جولیا اس کے باتوں پر یقین نہ کرو! یہ تمہیں بھی ڈبوئے گا!”
“مگر کچھ دیر پہلے تو یہ تمہاری فرم کا ایک نالائق ملازم تھا”۔ جولیا نے زہریلے لہجے میں کہا!
“کچھ بھی ہو تم اس سے وفا کی امید نہ رکھنا یہ تمہیں اور صفدر کو یہاں سے زندہ واپس نہ جانے دے گا۔۔!”
“مجھے یقین ہے۔۔ تم بکواس نہ کرو!” صفدر نے اس کے منہ پر گھونسہ مارتے ہوئے کہا! وہ دونوں مل کر اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال چکے تھے!

“پچھتا گے۔۔ تم لوگ پچھتا گ۔۔!” سرسوکھے کراہا!
“تم ڈفر ہو سرسوکھے!”۔۔ دفعتا رانا نے کہا۔ “عمران اس وقت بہتزیادہ خطرناک ہوجاتا ہے جب اسے خود اپنی ہی تلاش ہو۔۔ کیا سمجھے!”
“میں نہیں سمجھا! تم کیا کہہ رہے ہو؟”
“عمران کو عمران کی تلاش تھی اس لئے تم چکر کھا گئیتھے! سرسوکھے اگر عمران کو عمران کی تلاش نہ ہوتی تو تم کبھی روشنی میں نہ آتے!”
“تم ۔۔ تم۔۔ عمران۔۔!”

“ہاں! میں عمران۔۔!” عمران سینے پر ہاتھ رکھ کر خفیف سا خم ہوا اور پھر سیدھا کھڑا ہوتا ہوا بولا۔ “میں جانتا تھا کہ تم لوگ کیپٹن واجد کی گرفتاری کے بعد سے رانا تہور علی کے پیچھے پڑ جا گے! مجھے سرغنہ پر ہاتھ ڈالنا تھا جو اندھیرے میں تھا! لہذا میں نے کیپٹن واجد کے ان ساتھیوں میں جنہیں میں نے دانستہ نظر انداز کردیا تھا یہ بات پھیلانے کی کوشش کی کیپٹن واجد کے بعض اہم کاغذات رانا تہور علی نے عمران کے ہاتھ لگتے ہی نہیں دیئے۔۔ اور عمران اب رانا تہور علی کی تلاش میں ہے اور رانا تہور علی کوشش کر رہا ہے کہ وہ عمران کو ختم ہی کردے! تم نے سوچا کہ کیوں نہ دونوں ہی کو ختم کردیا جائے! لہذا تم ڈھمپ اینڈ کمپنی جا پہنچے۔ مقصد صرف یہ تھا کہ جولیا کا قرب حاصل کرسکو!

ہاں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کسی زمانے میں روشی نے بھی تمہاری فرم کی ملازمت کی تھی! لیکن یہ قطعی غلط ہے کہ تم نے مجھے اسی کے توسط سے پہچانا تھا! سیکرٹ سروس والوں پر تمہاری نظریں پہلے ہی سے تھیں اور تم یہ بھی جانتے تھے کہ میں ان کے لئے کام کرتا ہوں! بہرحال تم اس لئے آئے تھے کہ ہم میں گھل مل کر تم بھی رانا تہور علی کی تلاش کرنے والی مہم میں شریک ہوسکو! اور جب وہ مل جائے تو چپ چاپ اسے اور عمران دونوں کو میٹھی نیند سلا دو۔۔! اس لئے تم نے اپنے آفس کے پراسرار اسمگلروں کی کہانی تراشی تھی۔ تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہیئے! تمہیں عمران کی تلاش تھی لیکن وہ ہمیشہ بحیثیت عمران تمہاری نظروں میں رہا ہے تم اسے دیکھتے تھے اور نظرآنداز کردیتے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں تمہیں دھوکا دینے میں کیسے کامیاب ہوتا! تم یہ کیسے سمجھتے کہ عمران اور تہور علی میں چھڑ گئی ہے! وہ دونوں ایک دوسرے کو رگڑ دینا چاہتے ہیں۔۔!”

سرسوکھے نے آنکھیں بند کرلیں تھیں! ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ شروع سے اب تک کے واقعات کو ذہنی طور پر ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہو۔ عمران نے کچھ دیر خاموش رہ کر قہقہہ لگایا۔ “ہاہا ۔ سوکھے رام! جب میرے کرایہ کے آدمیوں نے ندی کے کنارے مجھ پر اور صفدر پر حملہ کیا تھا تو تم یہی سمجھے تھے کے حملہ رانا تہور علی کی طرف سے ہوا تھا۔۔ وہ ڈرامہ میں نے اسی لئے اسٹیج کیا تھا کہ تم یہی سمجھو! موٹی عقل والے موٹے آدمی تم اتنا نہیں سوچ سکتے تھے کے کھلے میں ہم پر فائرنگ ہوئی تھی۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی صفدر بچ نکلا تھا۔۔! میں تو خیر دریا ہی میں کود گیا تھا!”

صفدر نے پلکیں جھپکائیں! اسے وہ واقعہ اب بھی یاد تھا! لیکن اصلیت اسی وقت معلوم ہوئی تھی! اس کے فرشتے بھی اس موقع پر یہ نہ سوچ سکتے کہ جس کا تعاقب کرتے ہوئے وہ ندی تک پہنچے تھے عمران ہی کا آدمی تھا اور وہ فائرنگ بھی مصنوعی ہی تھی! ہوسکتا ہے کہ گولیوں والے کارتوس سرے سے استعمال ہی نہ کئے گئے ہوں! لیکن بچ نکلنے کے بعد تو وہ اسے معجزہ ہی سمجھتا رہا تھا! کیونکہ فائرنگ جھاڑیوں سے ہوئی تھی اور وہ کھلے میدان میں تھے اوٹ کے لئے کوئی جگہ نہیں مل سکتی تھی۔

ادھر جولیا کوعمران کی تحریر یاد آگئی جو سرکنڈوں کی جھاڑیوں کے درمیان ملی تھی۔۔!
عمران نے پھر قہقہہ لگایا اور بولا! ” میں نے خود ہی تمہیں موقع دیا تھا۔ کہ تم میرے کچھ آدمیوں کو پکڑ لو۔۔تاکہ مجھے تمہارے مختلف اڈوں کا علم ہوسکے اور تم دوسرے چکر میں تھے! تم انہیں پکڑواتے تھے اور پھر ایسے حالات پیدا کرتے تھے کہ وہ نکل جائیں۔۔ اور مجھ تک یہ بات پہنچے کہ وہ لوگ سرسوکھے میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں! اور مجھے نہ صرف سرسوکھے کی اسمگلنگ والی کہانی پر یقین آجائے بلکہ میں اس الجھن میں بھی پڑ جاں کہ آخر ان اسمگلروں کو رانا تہور علی سے کیا سروکار۔۔! تمہیں یقین تھا کہ اس طرح میں تم پر اعتماد کرکے تمہیں رانا تہور علی والے معاملہ میں بھی شریک کرلوں گا! اس طرح تمہیں رانا تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔۔!”
“باس!” دفعتا جوزف ہاتھ اٹھا کر بولا۔ “تم نے اس رات اندھیرے میں سبز رنگ کی بوٹ دیکھنے کی ہدایت دی! مجھے بتا کہ میں اندھیرے میں سبز رنگ کیسے دیکھ سکتا تھا؟”

“بکواس بند کرو! یہ میں نے اسی لئے کیا تھا کہ تم یہی پوچھنے کے لئے مجھے تلاش کرتے ہوئے شراب خانے میں آ۔۔ اور حلق تک تاڑی ٹھونس لو!”
“میں قسم کہا سکتا ہوں کہ مجھے دس سال بعد تاڑی نصیب ہوئی تھی”۔
جوزف نے غالبا” تاڑی کا ذائقہ یاد کرکے اپنے ہونٹ چاٹے تھے!
“بکواس بند کرو!” عمران نے کہا اور پھر سرسوکھے کی طرف دیکھنے لگا جو زمین میں پڑا اس طرح ہانپ رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے کی اچھل کود سے پیدا ہونے تھکن اب محسوس ہوئی ہو! دفعتا اس نے کھنکار کر کہا۔

“میں بہت بڑا آدمی ہوں! تمہیں پچھتانا پڑے گا! اگر تم کسی کو میری کہانی سنانا چاہو گے تو وہ تم پر ہنسے گا۔ تمہیں پاگل سمجھے گا!”
“پاگل تو لوگ ویسے ہی سمجھتے ہیں سوکھے رام۔۔ مجھے بالکل دکھ نہ ہوگا۔ لیکن تم خود ہی عدالت کے لئے اپنے خللاف سارا ثبوت مہیا کرچکے ہو۔ یہاں ایک ٹیپ ریکارڈ بھی موجود ہے جس پر شروع سے اب تک ہماری گفتگو ریکارڈ ہوتی رہی ہے۔۔ اور اب بھی ہو رہی ہے۔۔!”
دفعتا سرسوکھے پر چنگھاڑنے کا دورہ سا پڑ گی! لیکن ٹیپ ریکارڈر ایک بھی صحیح وسالم گالی ریکارڈ نہ کرسکا ہو! سرسوکھے کی ذہنی حالت اتنی اچھی نہیں معلوم ہوتی تھی کہ وہ مختلف گالیوں کو مربوط کرکے انہیں قابل فہم بنا سکتا۔۔!

دوسرے دن عمران جولیا کے فلیٹ میں نظر آیا! وہ اسے بتا رہا تھا کہ اس نے تنویر کو اسی لئے فون پر بور کیا تھا کہ وہ جولیا کو بور کرے۔ عمران کو یقین تھا کہ جولیا تنویر کی زبانی اس کی بکواس سن کر ضرور تا میں آجائے گی اور نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ اسی وقت سرسوکھے کے ساتھ نکل کھڑی ہو۔۔!
“سرسوکھے نے تم سے تعاقب کرنے والے کے متعلق بحث کرکے یہی معلوم کرنا چاہا تھا کہ تم رانا کو پہچانتی ہو یا نہیں۔ تم نہیں پہچانتی تھیں! اس لئے اس نے صحیح اندازہ لگایا اور اپنے کام میں لگ گیا۔۔!”

“ایکس ٹو نے مجھے فون پر ہدایت دی ہے کہ میں رانا کے وجود کو راز ہی رکھوں”۔ جولیا نے کہا۔ “اس کا بیان ہے کہ ہم لوگوں میں سے صرف صفدر اور میں رانا کے وجود سے واقف ہوں! بقیہ لوگ نہیں جانتے! تو کیا تمہارا رانا والا رول ابھی برقرار رہے گا؟”
“فی الحال وہ مستقل ہے!”
“تب پھر یہ سمجھنا چاہیئے کہ اس پارٹی میں سب سے زیادہ اہمیت تمہیں ہی حاصل ہے”۔
“یا پھر میری بیوی کو حاصل ہوسکتی ہے!” عمران بڑی معصومیت سے کہا!

جولیا بڑا برا سا منہ بنا کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ اور عمران اٹھتا ہوا بولا! بہرحال مجھے اس غیر ملکی سازش کی جڑوں کی تلاش تھی۔۔ کتنی موٹی جڑ ہاتھ آئی۔۔ ہاہا۔۔ کاش اسے کسی چڑیاگھر کی زینت بنایاجاسکتا! اس کے پھرتیلے پن نے تو میرے بھی چھکے چھڑا دیئے تھے! لیکن گر جانے کے بعد وہ کس طرح بیبس ہوگیا تھا! دنیا کا آٹھواں عجوبہ۔۔!”
اس کے بعد نہ جولیا نے اسے رسما ہی روکا اور نہ عمران ہی تفریح کے موڈ میں معلوم ہوتا تھا۔

—————-

Naya Qanoon by Sadat Hasan Manto

Articles

نیاقانون

سعادت حسن منٹو

 
 

منگوکوچوان اپنے اڈّے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈّے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہورہا ہے اُستاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔
پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چھڑجانے کی افواہ سنی تھی تو اس نے گاما چوہدری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبّرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی۔‘‘ دیکھ لینا چوہدری، تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘
اور جب گاما چوہدری نے اس سے پوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا۔ ’’ولایت میں اور کہاں؟‘‘
اسپین میں جنگ چھڑی اور جب ہر شخص کو اس کا پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈّے پر جتنے کوچوان حلقہ بنائے حُقّہ پی رہے تھے۔ دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کر رہے تھے اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلاتے ہوئے اپنی سواری سے تازہ ہند و مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔
اِسی روز شام کے قریب جب وہ اڈّے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حُقّے کا دور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اُتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا۔
’’یہ کسی پیر کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو، چھریاں چلتے رہتے ہیں اور میں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دُکھایا تھا اور اس درویش نے جل کر یہ بددعا دی تھی، جا تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے۔۔۔ اور دیکھ لو، جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حُقّے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی۔’’ یہ کانگرسی ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہو گا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہو گی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آ جائے گا یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے لیکن ہندوستان سدا غلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بددُعا بھی دی تھی کہ ہندوستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘
استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ اس کے ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں مگر اس کے تنفّر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے گویا وہ ایک ذلیل کُتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھتا تو اسے متلی سی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آجاتی ہے جس کے جسم پر سے اُوپر کی جھِلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو!۔
جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اس کی طبیعت مُکّدر رہتی اور وہ شام کو اڈّے میں آ کر ہِل مارکہ سگریٹ پیتے یا حُقّے کے کش لگاتے ہوئے اس گورے کو جی بھر کر سنایا کرتا۔
’’. . . . . .‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا۔ ’’آگ لینے آئے تھے، اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے،یوں رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں۔۔۔‘‘
اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا۔ وہ اپنے سینے کی آگ اُگلتا رہتا۔
’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی۔۔۔ جیسے کوڑھ ہو رہا ہے۔۔۔ بالکل مُردار، ایک دھپّے کی مار اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔ تیری جان کی قسم، پہلے پہل جی میں آئی کہ ملاعون کی کھوپڑی کے پُرزے اُڑا دوں۔ لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردُود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔‘‘ ۔۔۔ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا اور ناک کو خاکی قمیض کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بُڑبڑانے لگ جاتا۔
’’قسم ہے بھگوان کی ، ان لاٹ صاحبوں کے ناز اُٹھاتے اُٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں، رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم، جان میں جان آ جائے۔‘‘
اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔
دو مار واڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے، گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔
’’سنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا۔۔۔ کیا ہر چیز بدل جائے گی؟۔‘‘
’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندوستانیوں کو آزادی مل جائے گی۔‘‘
’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘
’’یہ پوچھنے کی بات ہے۔ کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘
ان مارواڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اور چابک سے بہت بُری طرح پیٹا کرتا تھا۔ مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتا اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا۔’’ چل بیٹا۔ چل بیٹا۔۔۔ ذرا ہوا سے باتیں کر کے دکھا دے۔‘‘
مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسّی پی کر ایک بڑی ڈکار لی اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ ’’ہت تیری ایسی کی تیسی۔‘‘
شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا تو خلافِ معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہو گیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا۔۔۔ بہت بڑی خبر اور اس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔
آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آ رہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لا کھڑاکر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق ،جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا، اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کر کے غور و فکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘ بار بار گونج رہا تھا اور اس کے تمام جسم میں مسرت کی ایک لہر دوڑارہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے ان مارواڑیوں کو گالی دی۔۔۔
’’. . . . . . . . غریبوں کی کھٹیا میں گُھسے ہوئے کھٹمل۔ نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہو گا۔‘‘
وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں، سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی ہمیشہ کے لیے بِلوں میں غائب ہو جائیں گی۔
جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا تو استاد منگو بڑھ کر اس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا۔ لا ہاتھ اِدھر ۔۔۔ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔‘‘
یہ کہہ کرمنگو نے بڑے مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں۔ دورانِ گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ماتھ مار کر کہا۔ ’’تُو دیکھتا رہ… کیا بنتا ہے۔ یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا‘‘۔
استاد منگو موجود سووےَت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سُن چکا تھا۔ اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے روس والے بادشاہ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پُرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں۔ وہ انہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔
کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔ استاد منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سُنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو ان واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوتا تھا۔
ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔
’’جدید آئین کا دوسرا حصہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سُنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریہ کے اعتبار سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘
ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی۔ چونکہ اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے اس لیے استاد منگو صرف اوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اس نے خیال کیا یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو بُرا سمجھتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔ ’’ٹوڈی بچے!‘‘
جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کر کے بڑا خوش ہوتا تھا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلباء کو اپنے ٹانگے میں بٹھا کر مزنگ جا رہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں باتیں کرتے سنا:
’’نئے آئین نے میری اُمیدیں بڑھا دی ہیں اگر ۔۔۔ صاحب اسمبلی کے ممبر ہو گئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی‘‘۔
’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی، شاید اسی گڑبڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آ جائے۔
’’ہاں۔ ہاں۔ کیوں نہیں۔‘‘
’’وہ بیکار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو کمی ہو گی۔‘‘
اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی۔اور وہ اس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔ ’’نیا قانون۔۔۔!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا۔ ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ نیا ساز آ جاتا جو اس نے دو برس ہوئے چوہدری خدا بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر،جب وہ نیا تھا،جگہ جگہ لوہے کی نکل چڑھی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’’نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔
پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصوّر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی، ان سے اس کی آنکھوں کو ضرور ٹھنڈک پہنچے گی۔
آخر کار مارچ کے اِکتّیس دن ختم ہو گئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اُٹھا اور اصطبل میں جا کر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
اس نے صبح کے سرد دُھند لکے میں کئی تنگ اور کھلے بازاروں کا چکر لگایا مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھی اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں مارچ کو چوہدری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنّے میں خریدی تھی۔
گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔ ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں لیکن استاد منگو مایوس نہیں تھا۔
’’ابھی بہت سویرا ہے۔ دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اس خیال سے اسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ’’ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘
جب اس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبا کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی نگاہیں آج کسی خِیرہ کُن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔
تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انار کلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی تھی۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔
جب استاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے، چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیرِ اثر اس نے کئی مرتبہ اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔
’’تُو ہر وقت مُردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اُٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچہ جن دے گی؟‘‘۔
استاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسس تھا۔ اس کی بیوی گنگا وَتی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی۔ ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور تم پیاس سے بے حال ہو رہے ہو۔‘‘
کچھ بھی ہو مگر استاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا کہ اُسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔
لیڈروں کی عظمت کا اندازہ استاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور ان کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہو تو استاد منگو کے نزدیک وہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اِسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔
انار کلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اوردل میں یہ خیال کیا۔
’’چلو یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔ شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے۔‘‘
چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزلِ مقصود پر اُتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو اُنگلیوں میں دبا کر سُلگایا اور اگلی نشست کے گدّے پر بیٹھ گیا۔ جب استاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وہ عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد بڑی دھیمی چال چلنا شروع کر دیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔
گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سُست تھی۔ جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا، اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہو رہے تھے۔
وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا اور اس قابلِ غور بات کو آئینِ جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اِسی سوچ بچار میں غرق تھا، اسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اسے بلایا ہے پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے سڑک کے اس طرف دور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک’گورا‘ کھڑا نظر آیا جو اسے ہاتھ سے بُلا رہا تھا۔
جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اُستاد منگو کو گوروں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہو گئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا۔ ’’ان کے پیسے چھوڑنا بھی بیوقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دیئے ہیں، ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں۔ چلو چلتے ہیں۔‘‘
خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگہ موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکتے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا۔
’’صاحب بہادر،کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا۔ ’صاحب بہادر‘ کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھچ گیا اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آ رہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہو گئی گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا اور اپنے اندر اس نے اس گورے کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔
جب گورے نے ،جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رُخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اُوپر کو اُڑ گئیں۔
استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اترنے والا تھا۔ اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرّے ذرّے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔
گورے نے سگریٹ کا دھواں نگلتے ہوئے کہا۔ ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘ ’’وہی ہے‘‘۔ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔
’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہو گیا کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی اور اس خوامخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی، اُسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا بلکہ اس کے پرزے اُڑا دئے ہوتے۔ مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔
استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اورپہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا۔ ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘
استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔
گورے نے جواب دیا۔ ’’ہیرا منڈی۔‘‘
’’کرایہ پانچ روپے ہو گا۔‘‘ استاد منگو کی مونچھیں تھر تھرائیں۔
یہ سن کر گورا حیران ہو گیا۔ وہ چِلّایا ’’ پانچ روپے … کیا تم ۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’ہاں، ہاں پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ ’’کیوں … جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘
استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔
گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیشِ نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا۔ گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح اوپر کو اُٹھا اور چشم زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اُتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔
ششدرو متحیّر گورے نے اِدھر اُدھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں تو اس نے زور زور سے چِلّانا شروع کیا۔ اس کی چیخ و پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:
’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچہ!‘‘
لوگ جمع ہو گئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو اُن دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اس کی چوڑی چھاتی پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔
’’وہ دن گزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانون ہے میاں۔۔۔ نیا قانون!‘‘
اور بیچارہ گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کی مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔
استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون، نیا قانون‘‘ چلّاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔
’’نیا قانون، نیا قانون، کیا بک رہے ہو… قانون وہی ہے پرانا!‘‘
اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا!

————————————-

Toba Tek Singh by Saadat Hasan Manto

Articles

ٹوبہ ٹیک سنگھ

سعادت حسن منٹو

 

 

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل ، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جائے .
معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول ، بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں ، اور با‌لاخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرّر ہو گیا۔ اچّھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دئے گئے تھے۔ جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جا چکے تھے۔ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے۔ سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈر پر پہنچا دیے گئے
ادھر کا معلوم نہیں۔ لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز با قائدگی کے ساتھ ” زمیندار ” پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ ” مولبی ساب ، یہ پاکستان کیا ہوتا ہے “۔ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔” ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں “۔
یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا .
اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔” سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا جا رہا ہے ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی “۔
دوسرا مسکرایا۔ ” مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے ہندوستانی بڑے شیطانی آکڑ آکڑ پھرتے ہیں ”
ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے ” پاکستان زندہ باد ” کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بیہوش ہو گیا۔
بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے یہ بھی بے خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی انپڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگو سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کر سکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمّد علی جناح ہے جس کو قائدِ اعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لئے ایک علیٰحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ کہاں ہے ، اس کا محلِّ وقوع کیا ہے۔ اس کے متعلّق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔ اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے۔
ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان ، اور ہندوستان اور پاکستان کے چکّر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا ” میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔ میں اس درخت ہی پر رہونگا “۔
بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے جائینگے۔
ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے با‌لکل الگ تھلگ باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔
چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سر گرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سولہ مرتبہ نہایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی۔ اس کا نام محمّد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائدِ اعظم محمّد علی جنّاح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا۔
لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبّت میں نا کام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبّت ہو گئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کر دئےاس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔
جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے۔ اس کو ہندوستان بھیج دیا جائیگا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلےگی۔
یوروپین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یوروپین وارڈ رہیگا یا اڑا دیا جائیگا۔ بریک فاسٹ ملا کریگا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاٹی تو زہر مار نہیں کرنا پڑیگی۔
ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب و غریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لالٹین”۔ دن کو سوتا تھا نہ رات کو۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لئے بھی نہیں سویا۔ لیٹتا بھی نہیں تھا۔ البتّہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔
ہر وقت کھڑے رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں۔ مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان ، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلّق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی پاکستان گورنمنٹ “۔
لیکن بعد میں ” آف دی پاکستان گورنمنٹ ” کی جگہ ” آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ ” نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے۔ اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غیب ہی ہو جائیں۔
اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کے بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا اس لئے ڈاڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے۔ جن کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس کے متعلّق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچّھا کھاتا پیتا زمین دار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔
مہینے میں ایک بار ملاقات کے لئے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے۔ ایک مدّت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان ، ہندستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہو گیا۔
اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر سب اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے ، مہینہ کون سا ہے ، یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لئے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آ رہی ہے۔ اس دن وہ اچّھی طرح نہاتا ، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا ، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں سج بن کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی مونگ دی دال آف دی لالٹین ” کہ دیتا۔
اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچّی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی ، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔
پاکستان اور ہندوستان کا قصّہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں ، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔
اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہم دردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے پھل ، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقیناً اسے بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں۔
پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ، تو اس نے حسبِ عادت قہقہہ لگایا اور کہا۔” وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لئے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا “۔
بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منّت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اسلئے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آ کر وہ اس پر برس پڑا۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال ، ست سری اکال “۔
اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔
تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا۔ مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔ ” یہ تم سے ملنے آیا ہے تمہارا دوست فضل دین ہے “۔
بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ” میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے مجھ سے جتنی مدد ہو سکی ، میں نے کی۔ تمہاری بیٹی روپ کور . . . . ”
وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔” بیٹی روپ کور “۔
فضل دین نے رک رک کر کہا۔ ” ہاں . . . . وہ . . . . وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔ان کے ساتھ ہی چلی گئی تھی “۔
بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ ” انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیسر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا-اور بہن امرت کور سے بھی . . . . بھائی بلبیسر سے کہنا۔ فضل دین راضی خوشی ہے۔ وہ بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے کٹّا دیا ہے۔ دوسری کے کٹّی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی . . . . اور . . . . میری لائق جو خدمت ہو ، کہنا ، میں ہر وقت تیار ہوں . . . . اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں “۔
بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے پوچھا۔ “ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ “۔
فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔ ” کہاں ہے؟ وہیں ہے جہاں تھا “۔
بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ ” پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟ ”
” ہندوستان میں نہیں پاکستان میں “۔ فضل دین بوکھلا سا گیا۔
بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی آف دی پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی دور فٹے منہ ! ،،
تبادلے کے تیاریاں مکمّل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرّر ہو چکا تھا۔
سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ دستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلّقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بورڈر پر طرفین کے سپرنٹندنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کاروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا۔
پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے۔ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے ، جو ننگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے۔کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں ، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔
پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی۔ اسلئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے ” پاکستان زندہ باد ” اور ” پاکستان مردہ باد ” کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا ، کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آ گیا تھا۔
جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلّقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ ” ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ پاکستان میں یا ہندوستان میں ؟
معتلّقہ افسر ہنسا۔ ” پاکستان میں “۔
یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے ، مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ “ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے ” اور زور زور سے چلّانے لگا۔ ” اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان “۔
اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائیگا۔ مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپن سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی۔
آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی ، اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔
سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا ، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خاردار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔

———————————————–

Nijat by Munshi Premchand

Articles

نجات

منشی پریم چند

دکھی چمار دروازے پر جھاڑ رہا تھااور اس کی بیوی جھُریا گھر کو لیپ رہی تھی۔دونوں اپنے اپنے کام سے فراغت پا چکے تو چمارِن نے کہا۔

’’تو جا کر پنڈت با با سے کہہ آؤ ۔ ایسا نہ ہو کہیں چلے جائیں ‘‘۔دُکھی : ہاں جاتا ہوں لیکن یہ تو سوچ کہ بیٹھیں گے کس چیز پر؟‘‘

جُھریا: کہیں سے کوئی کھٹیا نہ مل جائے گی۔ٹھکرانی سے مانگ لانا‘‘۔

دُکھی: تو توُ کبھی کبھی ایسی بات کہہ دیتی ہے کہ بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ بھلا ٹھکرانے والے مجھے کھٹیا دیں گے؟ جاکر ایک لوٹا پانی مانگو تو نہ ملے۔ بھلا کھٹیا کون دے گا۔ ہمارے اوپلے،ایندھن،بھوسا لکڑی تھوڑے ہی ہیں کہ جو چاہے اٹھا لے جائے اپنی کھٹولی دھو کر رکھ دے۔ گرمی کے تو دن ہیں۔ان کے آتے آتے سوکھ جائے گی۔

جُھریا: ہماری کھٹولی پر وہ نہ بیٹھیں گے۔دیکھتے نہیں کتنے دھرم سے رہتے ہیں ۔

دُکھی نے کسی قدر مغموم لہجے میں کہا۔’’ہاں یہ بات تو ہے۔ مہوے کے پتے توڑ کر ایک پتل بنا لوں ،تو ٹھیک ہو جائے۔ پتل میں بڑے آدمی کھاتے ہیں۔وہ پاک ہے ۔لاتو لاٹھی،پتے توڑ لوں‘‘۔

جُھریا: پتّل میں بنا لوں گی۔تم جاؤ لیکن ہاں انہیں سیدھا بھی جائے اور تھالی ۔چھوٹے بابا تھالی اٹھا کر پٹک دیں گے۔وہ بہت جلد غصہ میں آجاتے ہیں ۔ غصّہ میں پنڈتانی تک کو نہیں چھوڑتے ۔ لڑکے کو ایسا پیٹا کہ آج تک ٹوٹا ہاتھ لیے پھرتا ہے۔پتّل میں سیدھا بھی دے دینا مگر چھونا مت ۔ بھوری گونڈکی لڑکی کو لے کر شاہ کی دکان سے چیزیں لے آنا۔سیدھا بھرپور ،سیر بھر آٹا،آدھ سیر چاول،پاؤ بھر دال،آدھ پاؤ گھی،نمک،ہلدی اور تیل میں ایک کنارے چار آنہ کے پیسے رکھ دینا۔

گونڈکی کی لڑکی نہ ملے تو پھرمہا جن کے ہاتھ پیر جوڑ کر لے آنا۔تم کچھ نہ چھونا ورنہ گجب ہو جائے گا۔

ان باتوں کی تاکید کر کے دکھی نے لکڑی اٹھالی اور گھاس کا ایک بڑا سا گٹھا لے کر پنڈت جی سے عرض کرنے چلا۔

خالی ہاتھ بابا جی کی خدمت میں کس طرح جاتا ۔نذرانے کے لیے اس کے پاس گھاس کے سوا اور کیا تھا۔ اسے کالی دیکھ کر تو بابا جی دور ہی سے دھتکار دیتے۔

پنڈت گھاسی رام ایشور کے پرم بھگت تھے۔ نیند کھلتے ہی ایشوراپاسنا میں لگ جاتے،منہ ہاتھ دھو تے آٹھ بجے،تب اصلی پوجا شروع ہوتی۔ جس کا پہلا حصہ بھنگ کی تیاری تھی۔اس کے بعد آدھ گھنٹہ تک چند ن رگڑ تے۔پھر آئینے کے سامنے ایک تنکے سے پیشانی پر تلک لگاتے ۔چندن کے متوازی خطوط کے درمیان لال روئی کا ٹیکہ ہوتا۔ پھر سینہ پر ،دونوں بازوؤں پر چند ن کے گول گول دائرے بناتے اور ٹھاکر جی کی مورتی نکال کر اسے نہلاتے۔ چندن لگاتے ،پھول چڑھاتے ،آرتی کرتے اور گھنٹی بجاتے ۔دس بجتے بجتے وہ پوجن سے اٹھتے اور بھنگ چھان کر باہر آتے ۔ اس وقت دوچار دروازے پر آ جاتے۔

ایشور اپاسنا کافی الفور پھل مل جاتا۔ یہی ان کی کھیتی تھی۔آج وہ عبادت خانے سے نکلے تو دیکھا دکھی چمار گھاس کا ایک گٹھا لئے بیٹھا ہے۔انہیں دیکھتے ہی کھڑا ہو ا ورنہایت ادب سے ڈنڈوت کر کے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ایسا پُر جلال چہرہ دیکھ کراس کا دل عقیدت سے پرہو گیا۔ کتنی تقدس مآب صورت تھی ۔چھوٹاسا گول مول آدمی۔ چکنا سر، بھولے ہوئے رکسار، روحانی جلال سے منور آنکھیں اس پر روئی اور چندن نے دیوتاؤں کی تقدس عطا کر دی تھی۔ دکھی کو دیکھ کر شیریں لہجہ میں بولے۔

’’آج کیسے چلا آیا رے دُکھیا؟‘‘ دُکھی نے سر جھکا کر کہا۔’’بٹیا کی سگائی کر رہا ہوں مہاراج!ساعت شگن بچارنا ہے ۔ کب مرجی ہو گی؟‘‘ گھاسی۔’’آ ج تو مجھے چھٹی نہیں ۔شام تک آجاؤں گا‘‘۔

دکھی :’’نہیں مہاراج !جلدی مرجی ہو جائے ۔سب سامان ٹھیک کر کے آیا ہوں۔ یہ گھاس کہاں رکھ دوں؟‘‘

گھاسی: اس گائے کے سامنے ڈال دے۔ اور ذرا جھاڑ ودے کر دروازہ تو صاف کر دے۔ یہ بیٹھک بھی کئی دن سے لیپی نہیں گئی۔ اسے بھی گوپر سے لیپ دے ۔ تب تک میں بھوجن کر لوں۔ پھر ذرا آرام کر کے چلوں گا۔ہاں یہ لکڑی بھی چیر دینا۔ کھلیان میں چار کھانچی بھوسہ پڑا ہے اسے بھی اٹھا لانا اور بھوسیلے میں رکھ دینا۔دکھی فوراًحکم کی تعمیل کرنے لگا۔ دروازے پر جھاڑ و لگائی۔ بیٹھک گور سے لیپا۔ اس وقت بارہ بج چکے تھے۔پنڈت جی بھوجن کرنے چلے۔ دکھی نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ اسے بھی زور کی بھوک لگی۔ لیکن وہاں کھانے کو دھرا ہی کیا تھا۔گھر یہاں سے میل بھر تھا۔ وہاں کھانے چلا جائے تو پنڈت جی بگڑ جائیں۔ بے چارے نے بھوک دبائی اور لکڑی پھاڑنے لگا۔

لکڑی کی موٹی سی گرہ تھی جس پر کتنے ہی بھگتوں نے اپنا زور آزما لیا تھا۔ وہ اسی دم خم کے ساتھ لوہے سے لوہا لینے کے لئے تیار تھی ۔دکھی گھاس چھیل کر بازار لے جاتا۔ لکڑی چیرنے کا اسے محاورہ نہ تھا۔ گھاس اس کے کھرپے کے سامنے سر جھکا دیتی تھی۔

یہاں کس کس کر کلہاری کا بھر پور ہاتھ جماتا لیکن اس گرہ پر نشان تک نہ پڑتا۔ کلہاڑی اچٹ جاتی۔ پسینہ سے تر تھا۔ہانپتا تھا۔ تھک کر بیٹھ جاتا تھا۔ پھر اٹھتا تھا۔ہاتھ اٹھائے نہ اٹھتے تھے ۔ پاؤن کانپ رہے تھے۔

ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔پھر بھی اپنا کام کئے جاتا تھا۔ اگر ایک چلم تمباکو پینے کو مل جاتا تو شاید کچھ طاقت آجاتی۔ اس نے سوچا۔یہاں چلم اور تمباکو کہاں ملے گا۔ برہمنوں کا گاؤں ہے۔ برہمن ہم سب نیچ جاتوں کی طرح تمباکو تھوڑا ہی پیتے ہیں۔ یکا یک اسے یاد آیا کہ گاؤں میں ایک گونڈ بھی رہتا ہے۔ اس کے یہاں ضرور چلم تمباکو ہو گی۔ فوراًاس کے گھر دوڑا ۔

خیر محنت سپھل ہوئی۔اس نے تمباکو اور چلم دی ۔لیکن آگ وہاں نہ تھی۔

دکھی نے کہا’’آگ کی فکر نہ کرو بھائی، پنڈت جی کے گھر سے آگ مانگ لوں گا۔ وہاں تو ابھی رسوئی بن رہی تھی‘‘۔

یہ کہتا ہوا وہ دونوں چیزیں لے کر چلا اور پنڈت جی کے گھر میں دالان کے دروازہ پر کھڑا ہو کر بولا۔’’مالک ذرا سی آگ مل جائے تو چلم پی لیں‘‘۔ پنڈت جی بھوجن کر رہے تھے ۔ پنڈتانی نے پوچھا۔۔’’یہ کون آدمی آگ مانگ رہا ہے؟‘‘

’’تو دے دو‘‘

پنڈتانی نے بھنویں چڑھا کر کہا۔’’تمہیں تو جیسے پوڑی پیڑ ے کے پھر میں دھرم کرم کی سدھ بھی نہ رہی۔

چمار ہوا، دھوبی ہوا،پاسی ہو۔منہ اٹھائے گھر میں چلے آئے۔ پنڈت کا گھر نہ ہوا،کوئی سرائے ہوئی۔ کہہ دو ڈیوڑھی سے چلا جائے ورنہ اسی آگ سے منہ جھلسا دوں گی۔ بڑے آگ مانگنے چلے ہیں‘‘۔

پنڈت جی نے انہیں سمجھا کر کہا۔’’اندر آگیا تو کیا ہوا۔ تمہاری کوئی چیز تو نہیں چھوئی،زمین پاک ہے۔

ذرا سی آگ کیوں نہیں دے دیتیں۔کام تو ہمارا کر رہا ہے۔ کوئی لکڑہارا یہی لکڑی پھاڑتا تو کم از کم چار آنے لیتا۔

پنڈتانی نے گرج کر کہا۔’’وہ گھر میں آیا ہی کیوں؟‘‘پنڈت نے ہار کر کہا ۔’’ سسرے کی بد قسمتی‘‘۔ پنڈتانی:اچھا اس وقت تو آگ تو دے

دیتی ہوں لیکن پھر جو اس گھر میں آئے گا تو منہ جھلس دو گی۔دکھی کے کانوں میں ان باتوں کی بھنک پڑ رہی تھی۔بیچارہ پچھتا رہا تھا۔نا حق چلا آیا ۔سچ تو کہتی ہیں پنڈت کے گھر چمار کیسے آئے۔یہ لوگ پاک صاف ہوتے ہیں۔تب ہی تو اتنا مان ہے۔چر چمار تھوڑے ہی ہیں۔اسی گاؤں میں بوڑھا ہو گیا ۔ مگر مجھے اتنی عقل بھی نہ آئی۔

اسی لئے جب پنڈتانی جی آگ لے کر نکلیں تو جیسے اسے جنت مل گئی۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر زمین پر سر جھکاتا ہوا بولا۔پنڈتانی ماتا!مجھ سے بڑی بھول ہو ئی کہ گھر میں چلا آیا ۔چمار کی عقل ہی تو ٹھہری۔ اتنے مورکھ نہ ہوتے تو سب کی لات کیوں کھاتے؟ پنڈتانی چمٹے سے پکڑ کر آگ لائی تھی۔

انہوں نے پانچ ہاتھ کے فاصلہ پر گھونگھٹ کی آڑ سے دکھی کی طرف آگ پھینکی ۔ ایک بڑی سی چنگاری اس کے سر پر پڑ گئی۔ جلدی سے ہٹ کر جھاڑے لگا۔

اس کے دل نے کہا۔یہ ایک پاک برہمن کے گھر کو ناپاک کرنے کا نتیجہ ہے بھگوان نے کتنی جلدی سزا دے دی۔اسی لئے تو دنیا پنڈتوں سے ڈرتی ہے۔اور سب کے روپے مارے جاتے ہیں۔برہمن کے روپے بھلا کوئی مار تو لے۔ گھر بھر کا ستیا ناس ہو جائے۔ ہاتھ پاؤں گل گل گرنے لگیں۔

باہر آکر اس نے چلم پی اور کلہاڑی لے کر مستعد ہو گیا۔کھٹ کھٹ کی آوازیں آنے لگیں۔سر پر آگ پڑ گئی تو پنڈتانی کو کچھ رحم آگیا۔ پنڈت جی کھانا کھا کر اٹھے تو بولیں۔’’اس چمر ا کو بھی کھانے کو دے دو۔ بے چارا کب سے کام کر رہا ہے۔ بھوکا ہو گا‘‘۔ پنڈت نے اس تجویز کو فنا کر دینے کے ارادے سے پوچھا۔ ’’روٹیاں ہیں‘‘۔

پنڈتانی: دو چار بچ جائیں گی۔ پنڈت: دو چار روٹیوں سے کیا ہو گا؟یہ چمار ہے۔ کم از کم سیر چڑھا جائے گا۔

پنڈتانی کانوں پر ہاتھ رکھ کر بولیں۔’’ارے باپ رے۔ سیر بھر،تو پھررہنے دو‘‘۔پنڈت جی نے اب تیر بن کر کہا۔’’کچھ بھوسی چوکر ہو تو آٹے میں ملاکر موٹی موٹی روٹیاں توے پر ڈال دو۔سالے کا پیٹ بھر جائے گا۔

پتلی روٹیوں سے ان کمینوں کا پیٹ نہیں بھرتا۔ انہیں تو جوار کا ٹکڑا چاہئیے‘‘۔

پنڈتانی نے کہا۔’’اب جانے بھی دو،دھوپ میں مرے ‘‘۔

دکھی نے چلم پی کر کلہاڑی سنبھالی۔دم لینے سے ذرا ہاتھوں میں طاقت آگئی تھی ۔تقریباً آدھ گھنٹہ تک پھر کلہاڑی چلاتا رہا۔ پھر بے دم ہو کر وہیں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔اتنے میں وہی گونڈ آ گیا۔بولا’’بوڑھے دادا جان کیوں دم دیتے ہو۔تمہارے پھاڑے یہ گانٹھ نہ پھٹے گی۔نا حق ہلکان ہوتے ہو‘‘۔

دکھی نے پیشانی کا پسینہ صاف کر کے کہا۔’’بھائی ابھی گاڑی بھر بھوسہ ڈھونا ہے‘‘۔

گونڈ:کچھ کھانے کو بھی دیا یا کام ہی کرونا جانتے ہیں۔جا کے مانگتے کیوں نہیں ؟‘‘

دکھی: تم بھی کیسی باتیں کرتے ہو۔ بھلا برہمن کی روٹی ہم کو پچے گی؟ گونڈ:پچنے کو تو پچ جائے گی۔ مگر ملے تو۔ خود تو مونچھوں پر تاؤ دے کر کھانا کھایا اور آرم سے سو رہے ہیں۔

تمہارے لیے لکڑی پھاڑنے کا حکم لگا دیا۔ زمیندار بھی کچھ کھانے کو دیتا ہے۔ یہ ان سے بھی بڑھ گئے ۔ اس پر دھرماتما بنتے ہیں۔

دکھی نے کہا۔’’بھائی آہستہ بولو ۔ کہیں سن لیں گے تو بس!‘‘ یہ کہہ کر دکھی پھر سنبھل پڑااور کلہاڑی چلانے لگا۔ گونڈ کو اس پر رحم آگیا۔ کلہاڑی ہاتھ سے چھین کر تقریباً نصف گھنٹہ تک جی توڑ کر چلاتا رہا لیکن گانٹھ پرذرا بھی نشان نہ ہو۔

بالآخر اس نے کلہاڑی پھینک دی اور یہ کہہ کر چلاگیا۔’’یہ تمہارے پھاڑے نہ پھٹے گی۔ خواہ تمہاری جان ہی کیوں نہ نکل جائے‘‘۔

دکھی سوچنے لگا۔ یہ گانٹھ انہوں کہاں سے رکھ چھوڑی تھی کہ پھاڑے نہیں پھٹتی۔میں کب تک اپنا خون پسینہ ایک کروں گا۔ ابھی گھر پر سو کام پڑے ہیں۔کام کاج والا گھر ہے۔ایک نہ ایک چیز گھٹتی رہتی ہے۔ مگر انہیں اس کی کیا فکر؟چلوں جب تک بھوسہ ہی اٹھا لاؤں ۔ کہہ دوں گا آج تو لکڑی نہیں پھٹی۔ کل آکر پھاڑ دوں گا۔

اس نے ٹوکرا اٹھایا اور بھوسہ ڈھونے لگا۔کھلیان یہاں سے دو فرلانگ سے کم نہ تھا۔اگر ٹوکرا خوب بھر بھر کر لاتا تو کام جلد ہوجاتا ۔مگر سر پر اٹھاتا کون؟ خود اس سے نہ اٹھ سکتا۔

اس لیے تھوڑا تھوڑا لاتا تھا۔ چار بجے بھوسہ ختم ہوا۔ پنڈت کی نیند بھی کھلی،منہ ہاتھ دھو کے پان کھایا اور باہر نکلے۔ دیکھا تو دکھی توکرے پر سر رکھے سو رہا ہے۔زور سے بولے۔’’ارے دکھیا !تو سو رہا ہے۔ لکڑی تو ابھی جوں کی توں پڑی ہے۔ اتنی دیر تو کیا کر رہاتھا؟مٹھی بھر بھوسہ اٹھانے میں شام کر دی ۔ اس پر سو رہا ہے۔ کلہاڑی اٹھا لے اور لکڑی پھاڑ ڈال ۔ تجھ سے ذرا بھر لکڑی نہیں پھٹتی۔پھر ساعت بھی ویسی ہی نکلے گی۔مجھے دوش مت دینا۔ اسی لئے تو کہتے ہیں جہاں نیچ کے گھر کھانے کو ہوا اس کی آنکھ بدل جاتی ہے‘‘۔

دکھی نے پھر کلہاڑی اٹھائی۔جو باتیں اس نے پہلے سوچ رکھی تھیں ، وہ سب بھول گیا۔ پیٹ پیٹھ میں دھنسا جاتا تھا۔دل ڈوبا جاتا تھا۔ پر دل کو سمجھا کر اٹھا ۔ پنڈت ہیں ۔ کہیں ساعت ٹھیک نہ بچاریں تو پھر سفینہ ناس ہو جائے ۔ تب ہی تو ان کا دنیا میں اتنا مان ہے۔ ساعت ہی کا تو سب کھیل ہے۔ جسے چاہیں بنا دیں، جسے چاہیں بگاڑدیں گے۔پنڈت جی گانٹھ کے پاس آکر کھڑے ہو گئے اور حوصلہ افزائی کرنے لگے۔ ہاں مارکس کے۔اور مس کے مار۔ ایسے زور سے مار ،تیرے ہاتھوں میں جیسے دم ہی نہیں ۔ لگا کس کے۔ کھڑا کھڑا سوچنے کیا لگتا ہے۔

ہاں بس پھٹا ہی چاہتی ہے،اس سوراخ میں‘‘۔ دکھی اپنے ہوش میں نہیں تھا ۔ نہ معلوم کوئی غیبی طاقت اس کے ہاتھوں کو چلا رہی تھی۔ تھکان ،بھوک ،پیاس،کمزوری سب کے سب جیسے ہو اہو گئی تھیں۔ اسے اپنے قوت بازو پر خود تعجب ہو رہا تھا۔ ایک ایک چوٹ پہاڑ کی مانند پڑتی تھی۔ آدھ گھنٹے تک وہ اسی طرح بے خبری کی حالت میں ہاتھ چلاتا رہا۔ حتیٰ کہ لکڑی بیچ سے پھٹ گئی اور دکھی کے ہاتھ سے کلہاڑی چھوٹ کر گر پڑی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ بھی چکر کھا کر گر پڑا۔ بھوکا پیاسا تکان خوردہ جسم جواب دے گیا۔ پنڈت جی نے پکارا ۔ اٹھ کر دو چار ہاتھ اور لگا دے۔ پتلی پتلی ہو جائیں ‘‘۔

پنڈت جی نے اب اسے دق کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ اندر جا کر بوٹی چھانی ۔

حا جات ضروری سے فارغ ہوئے ،نہایا اور پنڈتوں کا لباس پہن کر باہر نکلے۔ دکھی ابھی تک وہیں پڑا تھا۔

زور سے پکارا۔’’ارے دکھی !کیا پڑے ہی رہو گے ۔ چلو تمہارے ہی گھر چل رہا ہوں سب سامان ٹھیک ہے نا؟‘‘ دکھی پھر بھی نہ اٹھا۔ اب پنڈت جی کو کچھ فکر ہوئی۔پاس جاکر دیکھا تو دکھی اکڑا ہوا پڑا تھا ۔

بدحواس ہو کر بھاگے اور پنڈتانی سے بولے۔’’دکھیا تو جیسے مر گیا‘‘۔ پنڈتانی جی تعجب انگیز لہجے میں بولیں ۔’’ابھی تو لکڑی چیر رہا تھا!؟‘‘

ہاں لکڑی چیرتے چیرتے مر گیا ۔اب کیا ہو گا؟‘‘ پنڈتانی نے مطمئن ہو کر کہا ۔’’چمروٹے میں کہلا بھیجو مردہ اٹھا لے جائیں‘‘۔

دم کے دم میں یہ خبر گاؤں بھر میں پھیل گئی۔گاؤں میں زیادہ تر برہمن ہی تھے۔صرف ایک گھر گونڈ کا تھا۔لوگوں نے ادھر کا راستہ چھوڑ دیا۔ کنویں کا راستہ ادھر ہی سے تھا۔پانی کیونکر بھرا جائے؟چمار کی لاش پاس ہو کر پانی بھرنے کون جائے ۔ ایک بڑھیا نے پنڈت جی سے کہا۔

’’مردہ کیوں نہیں اٹھواتے ۔کوئی گاؤں میں پانی پیے گا یا نہیں؟‘‘ ادھر گونڈ نے چمرونے میں جاکر سب سے کہہ دیا۔’’خبردار مردہ اٹھانے مت جانا۔ ابھی پولیس کی تحقیقات ہو گی۔

دل لگی ہے کہ ایک غریب کی جان لے لی ۔ پنڈت ہوں گے تو اپنے گھر ہوں گے۔ لاش اٹھاؤ گے تو تم بھی پکڑے جاؤ گے۔

اس کے بعد ہی پنڈت جی پہنچے ۔پر چمرونے میں کوئی آدمی لاش اٹھانے کو تیار نہ ہوا۔ ہاں دکھی کی بیوی اور لڑکی دونوں ہائے ہائے کرتی وہاں سے چلیں اور پنڈت جی کے دروازے پر آکر سر پیٹ کر رونے لگیں ۔ ان کے ساتھ دس پانچ اور چمارنیں تھیں۔کوئی روتی تھی،کوئی سمجھاتی تھی،پر چمارایک بھی نہ تھا۔پنڈت جی نے ان سب کو بہت دھمکایا،سمجھایا،منت کی۔ پر چماروں کے دل پر پولیس کاایسا رعب چھایا کہ ایک بھی مان نہ سکا ۔ آخر نا امید ہو کر لوٹ آئے۔

آدھی رات تک رونا پیٹنا جاری رہا۔دیوتاؤں کا سونا مشکل ہو گیا۔مگر لاش اٹھانے کوئی نہ آیا۔ اور برہمن چمار کی لاش کیسے اٹھاتے ؟بھلا ایسا کسی شاستر پوران میں لکھا ہو ، کہیں کوئی دکھا دے۔

پنڈتانی نے جھنجھلاکر کہا۔’’ان ڈائنوں نے تو کھوپڑی چاٹ ڈالی۔ ان سبھوں کا گلا بھی نہیں تھکتا‘‘۔ پنڈت نے کہا۔’’چڑیلوں کو رونے دو۔ کب تک روئیں گی۔جیتا تھا تو کوئی بات نہ پوچھتا تھا۔مر گیا تو شورو غل مچانے کے لئے سب آپہنچیں‘‘۔ پنڈتانی:چمار وں کا رونا منحوس ہوتا ہے؟

پنڈت: ہاں بہت منحوس ۔

پنڈتانی : ابھی سے بو آنے لگی۔ پنڈت : چمار تھا سسرا کہیں کا ۔ ان سبھوں کو کھانے پینے میں کوئی بچار نہیں ہوتا۔

پنڈتانی:ان لوگوں کو نفرت بھی معلوم نہیں ہوتی۔

پنڈت:سب کے سب بھرشٹ ہیں۔ رات تو کسی طرح کٹی مگر صبح بھی کوئی چمار نہ آیا۔ چمار نی بھی رو پیٹ کر چلی گئی۔بدبو پھیلنے لگی۔

پنڈت جی نے ایک رسی نکالی۔ اس کا پھندہ بنا کر مردے کے پیر میں ڈالا اور پھندے کو کھینچ کر کس دیا۔ابھی کچھ کچھ اندھیرا تھا۔پنڈت جی نے رسی پکڑ کر لاش کو گھسیٹنا شروع کیا اور گھسیٹ کر گاؤں سے باہر لے گئے۔

وہاں سے آ کر نہائے ،درگاپٹھ پڑھا اور سر میں گنگا جل چھڑکا۔ ادھر دکھی کی لاش کو کھیت میں گیدڑ ،گدھ اور کوے نوچ رہے تھے۔ یہی اس کی تمام زندگی کی بھگتی ،خدمت اور اعتقاد کا انعام تھا۔

Sawa Ser Gehun

Articles

سوا سیر گیہوں

منشی پریم چند

 

 

 

کسی گاؤ ں میں شنکر نامی ایک کسان رہتا تھا۔ سیدھا سادا غریب آدمی تھا۔ اپنے کام سے کام، نہ کسی کے لینے میں، نہ کسی کے دینے میں، چھکاپنجا نہ جانتا تھا۔ چھل کپٹ کی اسے چھو ت بھی نہ لگی تھی۔ ٹھگے جا نے کی فکر نہ تھی۔ ود یانہ جانتا تھا۔ کھانا ملا تو کھا لیا نہ ملا تو چربن پر قنا عت کی۔ چر بن بھی نہ ملا تو پانی لیا اور راما کا نام لے کر سو رہا۔ مگر جب کوئی مہمان درواز ے پر آ جاتا تو اسے یہ غنا کا راستہ تر ک کر دینا پڑ تا تھا۔ خصوصاً جب کوئی سادھومہا تما آ جاتے تھے تو اسے لا زماً دنیا وی باتو ں کا سہا را لینا پڑ تا۔ خود بھو کا سو سکتا تھا مگر سادھو کو کیسے بھو کا سلا تا۔ بھگو ان کے بھگت جو ٹھہرے۔
ایک روز شام کو ایک مہاتما نے آکر اس کے درواز ے پر ڈ یر ا جمادیا۔ چہرے پر جلال تھا۔ پیتا میر گلے میں، جٹا سر پر، پیتل کا کمنڈ ل ہاتھ میں، کھڑ اؤ ں پیر میں، عینک آنکھوں پر، غر ض کہ پو را بھیس ان مہا تما کا ساتھا جو رؤسا کے محلو ں میں ریاضت، ہوا گاڑیوں پر مندروں کا طواف اور یو گ (مراقبہ ) میں کمال حال کرنے کے لیے لذیذ غذائیں کھا تے ہیں۔ گھر میں جو کا آ ٹا تھا وہ انہیں کیسے کھلا تا؟ زمانۂ قدیم میں جو کی خواہ کچھ اہمیت رہی ہو، مگر زمانہ حال میں جو کی خورش مہاتما لوگو ں کے لیے ثقیل اور دیر ہضم ہوئی ہے، بڑی فکر ہوئی کہ مہا تما جی کو کیا کھلاؤں؟ آخر طے کیا کہ کہیں سے گیہوں کا آٹا ادھا ر لا ؤ ں۔ گاؤ ں بھر میں گیہوں کا آٹا نہ ملا۔ گاؤں بھر میں سب آدمی ہی آدمی تھے، دیو تا ایک بھی نہ تھا، دیوتا ؤ ں کو خورش کیسے ملتی؟ خوش قسمی سے گاؤں کے پر وہت جی کے یہاں تھو ڑے سے گیہوں مل گئے۔ ان سے سوا سیر گیہوں ادھار لیے اور بیوی سے کہا کہ پیس دے۔ مہا تما نے کھا یا۔ لمبی تا ن کر سوئے اور صبح آشیر واددے کر اپنا راستہ لیا۔
پر وہت جی سال میں دوبار کھلیانی لیا کرتے تھے۔ شنکر نے دل میں کہا کہ سوا سیر گیہوں کیا لوٹا ؤں۔ پنسیر ی کے بدلے کچھ زیادہ کھلیانی دے دوں گا۔ وہ بھی سمجھ جائیں گے، میں بھی سمجھ جاؤں گا۔ چیت میں جب وہ پر وہت جی پہنچے تو انھیں ڈیڑ ھ پنسیر ی کے قریب گیہوں دے دیے اور اپنے کو سبکد وش سمجھ کر اس کا کوئی تذکرہ نہ کیا۔ پروہت جی نے بھی پھر کبھی نہ مانگا۔ سید ھے سادھے شنکر کو کیا معلوم کہ یہ سوا سیر گیہوں چکانے کے لیے مجھے دوبارہ جنم لینا پڑے گا۔
سات سال گذ ر گئے۔ پر وہت جی برہمن سے مہاجن ہوئے۔ شنکر کسان سے مزور ہو گیا۔ اس کا چھو ٹا بھائی منگل اس سے الگ ہو گیا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر دونو ں کسان تھے، الگ ہو کر دونو ں مزدور ہوگئے تھے۔ شنکر نے بہت چاہا کہ نفا ق کی آگ بھڑ کنے نہ پاوے۔ مگر حالت نے اس کو مجبور کر دیا۔ جس وقت الگ چولھے جلے وہ پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ آج سے بھائی بھا ئی دشمن ہو جائیں گے۔ ایک روئے تو دوسر ا ہنسے گا، ایک کے گھر میں غمی ہو گی تو دوسرے کے گھر گلگلے پکیں گے۔ محبت کا رشتہ، دودھ کا رشتہ آج ٹو ٹا جاتا ہے۔ اس نے سخت محنت کر کے خاندانی عزت کا یہ درخت لگایا تھا۔ اسے اپنے خون سے سینچا تھا، اس کا جڑ سے اکھڑ نا دیکھ کر اس کے دل کے ٹکڑ ے ہو ئے جاتے تھے۔ سات روز تک اس نے دانے کی صورت بھی نہ دیکھی۔ دن بھر جیٹھ کی دھو پ میں کا م کرتا اور رات میں لپیٹ کرسورہتا۔ اس سخت رنج اور ناقابل برداشت تکلیف نے خون کو جلا یا دیا، گوشت اور چربی کو گھُلا دیا۔ بیمار پڑا تو مہینوں چار پائی سے نہ اٹھا۔ اب گزر بسر کیسے ہو؟ پانچ بیگھے کے آدھے کھیت رہ گئے، ایک بیل رہ گیا۔ کھیتی کیا خاک ہوتی۔ آخر یہا ں تک نوبت پہنچی کہ کھیتی صرف نام بھر کو رہ گئی۔ معاش کا سارا بھار مزدوری پر آپڑا۔
سا ت سال گزر گئے۔ ایک دن شنکر مزدوری کر کے لو ٹا تو راستہ میں پر وہت جی نے ٹو ک کر کہا۔ شنکر کل آکے اپنے بیج بینک کا حساب کر لے۔ تیرے یہاں ساڑھے پانچ من گیہوں کب سے باقی پڑے ہیں اور تو دینے کا نام نہیں لیتا۔ کیا ہضم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘۔
شنکرنے تعجب سے کہا’’میں نے تم سے کب گیہوں لیے تھے کہ ساڑھے پانچ من ہو گئے؟تم بھو لتے ہو، میرے یہاں نہ کسی چھٹانک بھرا ناج ہے، نہ ایک پیسہ ادھار‘‘۔
پروہت۔ ’’اسی نیت کا تو یہ پھل بھو گ رہے ہو کھانے کو نہیں جڑتا۔
یہ کہہ پر وہت جی نے اس کا سوا سیر گیہوں کا ذکر کیا جو آج سے سال قبل شنکر کو دیے تھے۔ شنکر سن کر ساکت رہ گیا۔ میں نے کتنی بار انہیں کھلیانی دی۔ انہوں نے میرا کون سا کا م کیا۔ جب پو تھی پتر اد یکھنے، ساعت شگون بچارنے دوار پر آتے تھے تو کچھ نہ کچھ دچھنا لے ہی جا تے تھے۔ اتنا سوارتھ۔ سوا سیر اناج کولے انڈے کی طرح یہ بھو ت کھڑا کر دیا۔ جو مجھے نگل ہی جائے گا۔ اتنے دنوں میں ایک بار بھی کہہ دیتے تو گیہوں دے ہی دیتا۔ کیا اسی نیت سے چپ بیٹھے رہے۔ بولا۔ ’’مہا راج نام لے کر تو میں نے اتنا انا ج نہیں دیا، مگر کئی با ر کھلیانی میں سیر سیر، دودوسیر دے دیا ہے۔ اب آپ آج ساڑھے پانچ من مانگتے ہو، میں کہاں سے دوں گا؟
پروہت۔ ’’لیکھا جَو جَو بکسیں سوسو۔ تم نے جو کچھ دیاہوگا، کھلیانی میں دیاہوگا، اس کا کوئی حساب نہیں۔ چاہے ایک کی جگہ چار پنسیر ی دے، تمہارے نام ہی میں ساڑھے پانچ من لکھا ہوا۔ جس سے چاہے حساب لگو ا لو۔ دے دو تو تمہارا نام جھیک (کاٹ )دوں، نہیں تو اور بڑھتا رہے گا‘‘۔
شنکر’’پانڈ ے، کیوں ایک غریب کو ستانے ہو میر ے کھانے کا ٹھکا نا نہیں، اتنا گیہوں کس کے گھر تو دو گے‘‘۔
پر وہت۔ ’’جس کے گھر سے چاہے لا ؤ، میں چھٹا نک بھر بھی نہ چھوڑوں گا۔ یہاں نہ دوگے، بھگوان کے گھر تو دو گے‘‘۔
شنکر کا نپ اٹھا۔ ہم پڑھے لکھے لو گ ہوتے تو کہہ دیتے۔ ’’اچھی بات ہے، ایشو ر کے گھر ہی دیں گے وہا ں کی تو ل یہاں سے کچھ بڑی تو نہ ہو گی۔ کم سے کم اس کا کو ئی ثبو ت ہمارے پاس نہیں۔ پھر اس کی کیا فکر؟ ‘‘مگر شنکر اتنا عقل مند، اتنا چالاک نہ تھا۔ ایک تو قرض، وہ بھی بڑہمن کا! بہی میں نام رہے گا تو سید ھے نرک میں جاؤں گا۔ اس خیال سے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ بو لا۔ مہاراج تمہار اجتنا ہو گایہیں دوں گا۔ ایشو ر کے یہاں کیوں دوں؟ اس جنم میں تو ٹھو کر کھا ہی رہاہوں اُس جنم کے لیے کیوں کا نٹے بو ؤں؟ مگر یہ کو ئی نیا ئے نہیں ہے۔ تم نے رائی کا پر بت بنا دیا۔ برہمن ہو کے تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہتے تھا۔ اسی گھڑی تقاضا کر کے لیا ہوتا تو آج میر ے اوپر بڑا بوجھ کیوں پڑتا؟ میں تو دے دوں گا، لیکن تمہیں بھگوان کے یہاں جواب دینا پڑے گا؟
پر وہت:’’وہاں کا ڈر تمہیں ہوگا۔ مجھے کیوں ہونے لگا۔ وہاں تو سب اپنے ہی بھائی بند ہیں۔ رشی مُنی سب تو برہمن ہی ہیں۔ کچھ بنے بگڑے گی، سنبھال لیں گے۔ تو کب دیتے ہو؟۔ ‘‘
شنکر۔ ’’میرے پاس دھرا تو ہے نہیں، کسی سے مانگ جا نچ کر لا ؤ ں گا تبھی دوں گا‘‘۔
پروہت۔ ’’میں یہ مانوں گا۔ سات سال ہو گئے۔ اب ایک کا بھی ملا حظہ نہ کر وں گا۔ گیہوں نہیں دے سکتے تو دستاو یزلکھ دو۔
شنکر۔ ’’مجھے تو دینا ہے۔ چاہیے گیہوں لے لو۔ چاہے دستاویزلکھاؤ کس حساب سے دام رکھو گے؟
پروہت۔ ’’جب دے ہی رہا ہوں تو بازار بھاؤ کا ٹوں گا۔ پاؤ بھر چھڑا کر کیوں بُر ا بنوں ‘‘۔
حساب لگایا گیا توگیہوں کی قیمت ساٹھ روپیہ بنی۔ سا ٹھ کا دستاویز لکھا گیا۔ تین روپیہ سیکڑہ سود۔ سال بھر میں نہ دینے پر سود کی شر ح ساڑہے تین روپے سیکڑہ۔ آٹھ آنے کا اسٹا مپ، ایک روپیہ دستاویز کی تحر یر شنکر کو علیحدہ دینی پڑی۔
سا رے گاؤں نے پروہت جی کی مذمت کی مگر سامنے نہیں۔ مہاجن سے سبھی کو کام پڑتاہے اس کے منہ کون لگے؟

شنکرنے سال بھر تک سخت ریاضت کی میعاد سے قبل اس نے روپیہ ادا کرنے کابرَت سا کرلیا۔ دوپہر کو پہلے بھی چولھا نہ جلتا تھا، صرف چربن پر بسر ہوتی تھی۔ اب وہ بھی بند ہوا۔ صرف لڑکے کے لیے رات کو روٹیاں رکھ دی جاتیں۔ ایک پیسہ کی تمباکو روزپی جاتا تھا۔ یہی ایک لت تھی جسے وہ کبھی نہ چھو ڑ سکا تھا۔ اب وہ بھی اس کٹھن برت کے بھینٹ ہو گئی۔ اس نے چلم پٹک دی، حقہ تو ڑ دیا اور تمبا کو کی ہانڈی چور چور رکرڈالی۔ کپڑے پہلے بھی تر ک کی انتہا ئی حد تک پہنچ چکے تھے۔ اب وہ باریک ترین قدر تی کپڑوں میں منسلک ہو گئے۔ ماگھ کی ہڈیو ں تک میں سیرایت کر جانے والی سردی کو اس نے آگ کے سہارے کا ٹ دیا۔
ا س اٹل ارادے کا نتیجہ امید سے بڑھ کر نکلا۔ سال کے آخر تک اس کے پا س ساٹھ روپے جمع ہو گئے۔ اس نے سمجھا کہ پنڈت جی کواتنے روپے دے دوں گااور کہوں گامہاراج باقی روپے بھی جلدی آپ کے سامنے حاضر کردوں گا۔ پندرہ کی تو اور بات ہے۔ کیا پنڈت جی اتنا بھی نہ مانیں گے۔ اس نے روپے لیے اور لے جا کر پنڈت جی کے قدموں پر رکھ دیے۔
پنڈ ت جی نے متعجب ہو کر پوچھا۔ ’’کسی سے ادھار لے کیا؟‘‘
’’شنکر‘‘۔ نہیں مہاراج !آپ کی اسیس سے اب کی مجوری اچھی ملی‘‘۔
پنڈ ت جی، ’’لیکن یہ تو ساٹھ ہی ہیں‘‘۔
شنکر۔ ’’ہاں مہاراج !اتنے ابھی لے لیجیے۔ باقی دوتین مہینے مین دے دوں گا۔ مجھے ارن کر دیجیے‘‘۔
پنڈ ت جی۔ ’’ارن تو جبھی ہوں گے، جب میری کوڑی کوڑی چکا دوگے؟جاکر میرے پندرہ او رلاؤ‘‘۔
شنکر۔ ’’مہاراج !اتنی دیا کرو۔ اب سانجھ کی روٹیوں کا بھی ٹھکانا نہیں ہے۔ گاؤ ں میں ہوں توکبھی نہ کبھی دے ہی دوں گا‘‘۔
پنڈت۔ ’’میں یہ روگ نہیں پالتا۔ نہ بہت باتیں کرنا جانتاہوں۔ اگر میرے پورے روپے نہ ملیں گے تو آج سے ساڑے تین روپے سیکڑہ کا بیاج چلے گا۔ اتنے روپے چاہے اپنے گھر میں رکھو چاہے میر ے یہاں چھوڑ جاؤ‘‘۔
شنکر۔ ’’اچھا، جتنالایا ہوں، اتنا رکھ لیجیے۔ میں جاتاہوں، کہیں سے پندرہ اور لانے کی فکر کرتا ہوں ‘‘۔
شنکر نے سارا گاؤ چھان مارا مگر کسی نے روپے نہ دیے۔ اس لیے نہیں کہ اس کا اعتبا ر نہ تھا، یا کسی کے پاس روپے نہ تھے، بلکہ پنڈت جی کے شکار کو چھیڑنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔

عمل کے بعد رد عمل کا قدرتی قاعدہ ہے۔ شنکر سال بھر تک تپسیاکرنے پر بھی جب قر ض بیباق کرنے میں کامیاب نہ ہوا تو اس کی احتیاط مایوسی کی شکل میں تبدیل ہوگئی۔ اس نے سمجھ لیاکہ جب اتنی تکلیف اٹھا نے پر سال بھر میں ساٹھ روپے سے زیادہ نہ جمع کر سکا تو اب کون سا اپا ئے ہے جس سے اس کے دونے روپے جمع ہوں۔ جب سرپر قر ض کا بو جھ ہی لدنا ہے توکیا من بھر اور کیا سوا من کا۔ اس کی ہمت پست ہوگئی محنت سے نفرت ہوگئی۔ امید ہی حوصلہ کی پیدا کرنے والی ہے۔ امید میں رونق ہے، طاقت ہے، زندگی ہے، امید ہی دنیا کی متحرک کرنے والی قوت ہے۔ شنکر مایوس ہوکر بے پر وا ہوگیا۔ وہ ضرور تیں جن کو اس نے سال بھر تک ٹال رکھا تھا۔ اب دروازے پر کھڑی ہونے والی بھکارنیں نہ تھیں، بلکہ سر پر سوار ہونے والی چڑیلیں تھیں جو اپنا چڑھا وا لیے بغیر جان ہی نہیں چھوڑتیں۔ کپڑوں میں پیوندلگنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اب شنکر کو حساب ملتا تو روپے جمع نہ کرتا۔ کبھی کپڑے لاتا اور کبھی کھانے کی کوئی چیز۔ جہاں پہلے تمباکو پیا کرتا تھاوہاں اب گانجہ اور چرس کا چسکا بھی لگا۔ اسے اب روپے ادا کرنے کی کوئی فکر نہ تھی۔ گویا اس پر کسی کا ایک پیسہ بھی نہ تھا۔ پہلے لرزہ آجانے پر بھی وہ کا م کرنے ضرور جاتا تھا۔ اب کام پر نہ جانے کا بہانہ تلاش کیا کرتا۔
اس طرح تین سال گزر گئے۔ پنڈت جی مہاراج نے ایک بار بھی تقاضانہ کیا۔ وہ ہوشیاری شکاری کی طرح تیر بہد ف نشانہ لگانا چاہتے تھے۔ پہلے سے شکار کو بھڑ کا دینا ان کے شیوہ کے خلاف تھا۔
ایک روز پنڈ ت جی نے شنکر کوبلایا۔ حساب دکھایا۔ ساٹھ روپے جمع تھے وہ منہا کرنے پر بھی اب شنکر کے ذمے ایک سو بیس روپے نکلے۔
’’اتنے روپے تو اُسی جنم میں دوں گا۔ اس جنم میں نہیں ہوسکتا؟‘‘
پنڈ ت۔ ’’میں اسی جنم میں لوں گا۔ اصل نہ سہی سود تو دینا ہی پڑ ے گا ‘‘۔
شنکر۔ ’’ایک بیل ہے وہ لے لیجیے۔ ایک جھو نپڑی ہے، وہ لے لیجیے ‘‘اور میر ے پاس رکھاکیاہے؟‘‘۔
پنڈت۔ ’’مجھے بیل بد ہیالے کریکا کرنا ہے۔ مجھے دینے کو تمہارے پاس بہت کچھ ہے‘‘۔
شنکر۔ ’’اورکیا ہے مہاراج‘‘۔
پنڈت۔ ’’کچھ نہیں ہے، تم تو ہو؟ آخر تم بھی کہیں مزدوری کرنے ہی جاتے ہو۔ مجھے بھی کھیتی کرنے کے لیے ایک مزدور رکھناہی پڑتا ہے۔ سود میں تم ہما رے یہاں کام کیا کرو۔ جب سبھیتاہواصل بھی دے دینا۔ سچ تویہ ہے کہ اب تم دوسری جگہ کام کرنے کے لیے جانہیں سکتے۔ جب تک میر ے روپے نہ چکادو۔ تمہارے پاس کوئی جائیداد نہیں ہے۔ اتنی بڑی گٹھری میں کس اعتبار پر چھوڑدوں؟ کون اس کاذمہ لے گاتم مجھے مہینے مہینے سود دیے جاؤ گے۔ اور کہیں کما کر جب تم مجھے سود بھی نہیں دے سکتے تو اصل کی کو ن کہے؟‘‘۔
شنکر۔ ’’مہاراج !سود میں تو کا م کروں گا اور کھاؤ گاکیا؟‘‘۔
پنڈت ’’تمہاری گھر والی ہے، لڑکے ہیں۔ کیا وہ ہاتھ پیر کٹا بیٹھیں گے، تمہیں آدھ سیر جور وز چربن کے لیے دے دیا کروں گا۔ اوڑھنے کے لیے سال میں کمبل پاجاؤ گے۔ ایک سلوکا بھی بنو ادیا کروں گا، اورکیا چاہیے؟ یہ سچ ہے کہ اور لو گ تمہیں چھ آنے روز دیتے ہیں لیکن مجھے ایسی غرض نہیں ہے۔ میں تو تمہیں اپنے روپے بھر انے کے لیے رکھتا ہوں‘‘۔
شنکر نے کچھ دیر تک گہر ے سوچ میں پڑے رہنے کے بعد کہا۔ ’’مہاراج !یہ تو جنم بھر کی گلامی ہوئی؟۔
پندت۔ ’’غلامی سمجھو، چاہے مجوری سمجھو۔ میں اپنے روپے بھرائے بنا تمہیں نہ چھوڑوں گا۔ تم بھا گو گے تو تمہارا لڑکا۔ ہا ں جب کوئی نہ رہے گاتب کی بات دوسری ہے‘‘۔
اس فیصلہ کی کہیں اپیل نہ تھی۔ مزدور کی ضمانت کون کرتا؟ کہیں پناہ نہ تھی؟ بھاگ کر کہاں جاتا؟ دوسرے روز سے اس نے پنڈت جی کے ہاں کام کرنا شروع کردیا۔ سوا سیر گیہوں کی بدولت عمر بھر کے لیے غلامی کی بیڑ یا ں پاؤں میں ڈالنی بڑیں۔ اس بد نصیب کو اب اگر کسی خیال سے تسکین ہوتی تھی۔ تو اسی سے کہ یہ سب میرے پچھلے جنم کا بھو گ ہے۔ عورت کووہ کا م کرنے پڑے تھے جو اس نے کبھی نہ کیے تھے۔ بچے دانے دانے کو ترستے تھے، لیکن شنکر چپ دیکھنے کے سوااور کچھ نہ کر سکتا تھا۔ وہ گیہوں کے دانے کسی دیوتا بد ھا کی طرح تمام عمر اس کے سر سے نہ اترے۔

شنکر نے پنڈت جی کے یہاں بیس برس تک غلامی کرنے کے بعد اس غم کدے سے رحلت کی۔ ایک سو بیس ابھی تک اس کے سر پر سوار تھے۔ پنڈت جی نے اس غریب کو ایشور کے دربار میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا۔ پس انہوں نے اس کے جوان بیٹے کی گردن پکڑی۔ آج تک وہ پنڈت جی کے یہاں کام کرتا ہے۔ اس کا ادھار کب ادا ہو گا، ہو گا بھی یا نہیں، ایشور ہی جانے۔
ناظرین! اس قصہ کوفرضی نہ سمجھئے، یہ سچا واقعہ ہے ایسے شنکروں اور ایسے پروہتوں سے دنیا خالی نہیں ہے۔

———————————-

Doo(2) Bayl by Munshi Premchand

Articles

دو بَیل

پریم چند

 

جھوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے ۔ ایک کا نام تھا ہیرا اور دوسرے کا موتی ۔ دونوں دیکھنے میں خوب صورت، کام میں چوکس، ڈیل ڈول میں اونچے ۔ بہت دِنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے ، دونوں میں محبت ہوگئی تھی ۔ جس وقت یہ دونوں بیل ہَل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہِلا ہِلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی کہ زیادہ بوجھ میری ہی گردن پر رہے ۔ ایک ساتھ ناند میں مُنھ ڈالتے ۔ ایک منھ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا اور ایک ساتھ ہی بیٹھتے ۔

ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنی سُسرال بھیجے ۔ بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جارہے ہیں ۔ سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا ۔ اگر اِن بے زبانوں کی زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے :’’ تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا؟ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی ۔ تم نے جو کچھ کھِلایا ، سر جھکا کر کھالیا، پھر تم نےہمیں کیوں بیچ دیا۔ ‘‘

کسی وقت دونوں بیل نئے گاؤں جا پہنچے ۔ دِن بھر کے بھوکے تھے ، دونوں کا دِل بھاری ہو رہا تھا ۔ جسے اُنھوں نے اپناگھر سمجھا تھا ، وہ اُن سے چھوٹ گیا تھا ۔ جب گاؤں میں سوتا پڑگیا ، تو دونوں نے زور مار کر رسّے تڑالیے اور گھر کی طرف چلے ۔ جھوری نے صبح اُٹھ کر دیکھا تو دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے ۔ دونوں کے گھٹنوں تک پاؤں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے ۔ دونوں کی آنکھوں میں محبت کی ناراضگی جھلک رہی تھی ۔ جھوری اُن کو دیکھ کر محبت سے باؤلا ہوگیااور دوڑ کر اُن کے گلے سے لپٹ گیا ۔ گھر اور گاؤں کے لڑکے جمع ہوگئے اور تالیاں بجا بجا کر اُن کا خیر مقدم کرنے لگے ۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاں لایا ، کوئی گُڑ اور کوئی بھوسی ۔

جھوری کی بیوی نے بیلوں کو دروازے پر دیکھا تو جل اُٹھی، بولی :’’ کیسے نمک حرام بیل ہیں ۔ ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا، بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ‘‘
جھوری اپنے بیلوں پر یہ اِلزام برداشت نہ کرسکا ، بولا: ’’ نمک حرام کیوں ہیں ؟ چارہ نہ دیا ہوگا، تو کیا کرتے ۔ ‘‘
عورت نے تک کر کہا :’’بس تمھیں بیلوں کو کھِلانا جانتے ہو، اور تو سبھی پانی پِلا پِلا کر رکھتے ہیں ۔ ‘‘
دوسرے دِن جھوری کا سالا جس کا نام گیا تھا ، جھوری کے گھر آیا اور بیلوں کو دوبارہ لے گیا ۔ اب کے اُس نے گاڑی میں جوتا ۔ شام کو گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسّیوں سے باندھا اور پھر وہی خشک بھوسا ڈال دیا۔

ہیرا اور موتی اِس برتاؤ کے عادی نہ تھے ۔ جھوری اُنھیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھا ، یہاں مار پڑی ، اِس پر خشک بھوسا، ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اُٹھائی ۔ دوسرے دِن گیانے بیلوں کو ہل میں جوتا ، مگر اُنھوں نے پاؤں نہ اُٹھایا ۔ ایک مرتبہ جب اُس ظالِم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا ، تو موتی غُصّے کے مارے آپے سے باہر ہوگیا ، ہل لے کے بھاگا۔ گلے میں بڑی بڑی رسیّاں نہ ہوتیں تو وہ دونوں نکل گئے ہوتے ۔ موتی تو بس اِینّٹھ کر رہ گیا۔ گیا آپہنچا اور دونوں کو پکڑ کر لے چلا ۔ آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چُپ چاپ کھڑے رہے ۔ اُس وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منھ میں ایک ایک روٹی دے کر چلی گئی ۔ یہ لڑکی گیا کی تھی ۔ اُس کی ماں مرچکی تھی ۔ سوتیلی ماں اُسے مارتی رہتی تھی ۔ اُن بیلوں سے اُسے ہمدردی ہوگئی ۔

دونوں دِن بھر جوتے جاتے ۔ اُلٹے ڈنڈے کھاتے ، شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اور رات کو وہی لڑکی اُنھیں ایک ایک روٹی دے جاتی ۔

ایک بار رات کو جب لڑکی روٹی دے کر چلی گئی تو دونوں رسیّاں چبانے لگے ، لیکن موٹی رسّی منھ میں نہ آتی تھی ۔ بے چارے زور لگا کر رہ جاتے ۔ اتنے میں گھر کا دروازہ کھُلا اور وہی لڑکی نکلی ۔ دونوں سرجھکا کر اس کا ہاتھ چاٹنے لگے ۔ اُس نے اِن کی پیشانی سہلائی اور بولی :’’کھول دیتی ہوں ، بھا گ جاؤ ، نہیں تو یہ لوگ تمھیں مار ڈالیں گے ۔ آج گھر میں مشورہ ہو رہا ہے کہ تمھاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائے ۔ ‘‘ اُس نے رسّے کھول دیے اور پھر خود ہی چلاّئی :’’ او دادا ! او دادا ! دونوں پھوپھا والے بیل بھاگے جارہے ہیں ۔دوڑو__دوڑو!‘‘

گیا گھبرا کر باہر نکلا ، اُس نے بیلوں کا پیچھا کیا وہ اور تیزہوگئے ۔ گیا نے جب اُن کو ہاتھ سے نکلتے دیکھا تو گاؤں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لینے کے لیے لوٹا ۔ پھر کیا تھا دونوں بیلوں کو بھاگنے کا موقع مِل گیا ۔ سیدھے دوڑے چلے گئے ۔ راستے کا خیال بھی نہ رہا ، بہت دور نکل گئے ، تب دونوں ایک کھیت کے کِنارے کھڑے ہو کر سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے ؟ دونوں بھوک سے بے حال ہو رہے تھے ۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی ، چرنے لگے ۔ جب پیٹ بھر گیا تو دونوں اُچھلنے کودنے لگے ۔ دیکھتے کیا ہیں کہ ایک موٹا تازہ سانڈ جھومتا چلا آرہا ہے ۔ دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے ۔ جوں ہی ہیرا جھپٹا ، موتی نے پیچھے سے ہَلّہ بول دیا۔ سانڈ اُس کی طرف مڑا تو ہیرا نے ڈھکیلنا شروع کردیا۔ سانڈ غُصّے سے پیچھے مڑا تو ہیرا نے دوسرے پہلو میں سینگ رکھ دیے ۔ بے چارہ زخمی ہو کر بھاگا دونوں نے دور تک تعاقب کیا ۔ جب سانڈ بے دم ہو کر گِر پڑا ، تب جاکر دونوں نے اُس کا پیچھا چھوڑا۔

دونوں فتح کے نشے میں جھومتے چلے جارہے تھے ۔ پھرمٹر کے کھیت میں گُھس گئے۔ ابھی دو چار ہی منھ مارے تھے کہ دو آدمی لاٹھی لے کر آگئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا ۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہاؤس میں بند تھے ۔

اُن کی زندگی میں پہلا موقع تھا کہ کھانے کو تِنکا بھی نہ ملا ۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں ، کئی بکریاں ، کئی گھوڑے ، کئی گدھے ، مگر چارہ کسی کے سامنے نہ تھا۔ سب زمین پر مردے کی طرح پڑے تھے ۔ رات کو جب کھانا نہ ملا تو ہیرا بولا :’’ مجھے تو معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے ۔ ‘‘ موتی نے کہا :’’ اتنی جلدی ہمّت نہ ہارو،بھائی یہاں سے بھاگنے کا کوئی طریقہ سوچو۔‘‘ ’’ باڑے کی دیوار کچّی تھی ۔ ہیرا نے اپنے نکیلے سینگ دیوار میں گاڑ کر سوراخ کیا اور پھر دوڑ دوڑ کر دیوار سے ٹکرّیں ماریں ۔ ٹکرّوں کی آواز سُن کر کانجی ہاؤس کا چوکیدار لالٹین لے کر نکلا۔ اُس نے جو یہ رنگ دیکھا تو دونوں کو کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی رسّی سے باندھ دیا ہیرا اور موتی نے پھر بھی ہمّت نہ ہاری ۔ پھر اُسی طرح دیوار میں سینگ لگا کر زور کرنے لگے ۔ آخر دیوار کا کچھ حِصّہ گر گیا۔ دیوار کا گرنا تھا کہ جانور اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ گھوڑے ، بھیڑ، بکریاں ، بھینسیں سب بھاگ نکلے ۔ ہیرا، موتی رہ گئے صبح ہوتے ہوتے منشیوں ، چوکیداروں اور دوسرے ملازمین میں کھَلبَلی مچ گئی ۔ اُس کے بعد اُن کی خوب مرمّت ہوئی۔ اب اور موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا ۔

ایک ہفتے تک دونوں بیل وہاں بندھے پڑے رہے ۔ خدا جانے کانجی ہاؤس کے آدمی کتنے بے درد تھے ، کسی نے بے چاروں کو ایک تنکا بھی نہ دیا۔ ایک مرتبہ پانی دکھا دیتے تھے ۔ یہ اُن کی خوراک تھی ۔ دونوں کمزور ہوگئے ۔ ہڈّیاں نکل آئیں ۔

ایک دِن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی اور دوپہرہوتے ہوتے چالیس پچاس آدمی جمع ہوگئے ۔ تب دونوں بیل نکالے گئے ۔ لوگ آکراُن کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے اِن کمزور بیلوں کو کون خریدتا ! اتنے میں ایک آدمی آیا ، جس کی آنکھیں سُرخ تھیں ، وہ منشی جی سے باتیں کرنے لگا ۔ اس کی شکل دیکھ کر دونوں بیل کانپ اُٹھے ۔ نیلام ہو جانے کے بعد دونوں بیل اُس آدمی کے ساتھ چلے ۔

اچانک اُنھیں ایسا معلوم ہوا کہ یہ رستہ دیکھا ہوا ہے ۔ ہاں ! اِدھر ہی سے تو گیا اُن کو اپنے گاؤں لے گیا تھا ، وہی کھیت ، وہی باغ ، وہی گاؤں، اب اُن کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تکان ، ساری کمزوری ، ساری مایوسی رفع ہوگئی ۔ ارے ! یہ تو اپنا کھیت آگیا ۔ یہ اپنا کنواں ہے ، جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے ۔

دونوں مست ہو کر کُلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اوراپنے تھان پر جاکر کھڑے ہوگئے ۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑاآیا ۔ جھوریدروازے پر بیٹھا کھانا کھا رہا تھا ، بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا اور انھیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔

اُس آدمی نے آکر بیلوں کی رسیاں پکڑ لیں ۔ جھوری نے کہا :’’ یہ بیل میرے ہیں ۔‘‘ ’’تمہارے کیسے ہیں ۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں ۔ ‘‘ وہ آدمی زبردستی بیلوں کو لے جانے کے لیے آگے بڑھا ۔ اُسی وقت موتی نے سینگ چلایا ، وہ آدمی پیچھے ہٹا ۔ موتی نے تعاقب کیا اور اُسے کھدیڑتا ہوا گاؤں کے باہر تک لے گیا۔ گاؤں والے یہ تماشا دیکھتے تھے اورہنستے تھے ۔ جب وہ آدمی ہار کر چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔

ذراسی دیر میں ناند میں کھلی ، بھوسا ، چوکر ، دانا سب بھردیا گیا۔ دونوں بیل کھانے لگے ۔ جھوری کھڑا اُن کی طرف دیکھتا رہا اور خوش ہوتا رہا، بیسیوں لڑکے تماشا دیکھ رہے تھے ۔ سارا گاؤں مُسکراتا ہوا معلوم ہوتا تھا۔

اُسی وقت مالکن نے آخر دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے ۔

—————————

Shikwa Shikayat by Munshi Prem Chand

Articles

شکوہ شکایت

منشی پریم چند

 

 

 

زندگی کا بڑا حصّہ تو اسی گھر میں گزر گیا مگر کبھی آرام نہ نصیب ہوا۔ میرے شوہر دُنیا کی نگاہ میں بڑے نیک اور خوش خلق اور فیاض اور بیدار مغز ہوں گے لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دُنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزا آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کئے کئے ڈالتے ہوں۔ جو گھر والوں کے لئے مرتا ہے اس کی تعریف دُنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو ان کی نگاہ میں خود غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور ہے، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کے لئے مرتے ہیں ان کی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب ان ہی کو دیکھوصبح سے شام تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں۔ باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو اسی دُکان سے لائیں گے جہاں کوئی گاہک بھول کر بھی نہ جاتا ہے۔ ایسی دُکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے۔ نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دُکان بدنام ہی کیوں ہوتی۔ انہیں ایسی ہی دُکانوں سے سودا سلف خریدنے کا مرض ہے۔ با رہا کہا کسی چلتی ہوئی دُکان سے چیزیں لایا کرو وہاں مال زیادہ کھپتا ہے۔ اس لئے تازہ مال آتا رہتا ہے۔ مگر نہیں ٹٹ پونجیوں سے ان کو ہمدردی ہے اور وہ انہیں اُلٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔ گیہوں لائیں گے تو سارے بازار سے خراب گھنا ہوا، چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے۔ منوں لکڑی جلا ڈالو، کیا مجال کہ گلے۔ گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل اور نرخ اصلی گھی سے ایک چھٹانک کم۔ تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا۔ بالوں میں ڈالو تو چیکٹ جائیں، مگر دام دے آئیں گے اعلیٰ درجے کے، چنبیلی کے تیل کے۔ چلتی ہوئی دُکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے۔ شاید”اونچی دُکان اور پھیکا پکوان” کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دُکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔ ایک دن کی بات ہو تو برداشت کر لی جائے۔ روز روز کی یہ مصیبت برداشت نہیں ہوتی ہے۔ کہتی ہوں آخر ٹٹ پونجیوں کی دُکان پر جاتے ہی کیوں ہیں، کیا ان کی پرورش کا ٹھیکہ تم ہی نے لے لیا ہے؟ آپ فرماتے ہیں”مجھے دیکھ کر بلانے لگتے ہیں۔” خوب! ذرا انہیں بلا لیا اور خوشامد کے دو چار الفاظ سنا دئے، بس آپ کا مزاج آسمان پر جا پہنچا۔ پھر انہیں سدھ نہیں رہتی کہ وہ کوڑا کرکٹ باندھ رہا ہے یا کیا۔ پوچھتی ہوں تم اس راستے سے جاتے ہیں کیو ں ہو؟ کیوں کسی دوسرے راستے سے نہیں جاتے؟ ایسے اٹھائی گیروں کو منہ ہی کیوں لگاتے ہو؟ اس کا کوئی جواب نہیں۔ ایک خموشی سو بلاؤں کو ٹالتی ہے۔

ایک بار ایک زیور بنوانا تھا۔ میں تو حضرت کو جانتی تھی۔ ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ ایک پہچان کے سنار کو بلا رہی تھی۔ اتفاق سے آپ بھی موجود تھے۔ بولے یہ فرقہ بالکل اعتبار کے قابل نہیں، دھوکا کھاؤ گی۔ میں ایک سنار کو جانتا ہوں۔ میرے ساتھ کا پڑھا ہوا ہے۔ برسوں ساتھ ساتھ کھیلے ہیں۔ میرے ساتھ چالبازی نہیں کر سکتا۔ میں نے سمجھا جب ان کا دوست ہے اور وہ بھی بچپن کا، تو کہاں تک دوستی کا حق نہ نبھائے گا۔ سونے کا ایک زیور اور پچاس روپے ان کے حوالے کئے اور اس بھلے آدمی نے وہ چیز اور روپے نہ جانے کس بے ایمان کو دے دئے کہ برسوں کے پیہم تقاضوں کے بعد جب چیز بن کر آئی تو روپے میں آٹھ آنے تانبا اور اتنی بدنما کہ دیکھ کر گھن آتی تھی۔ برسوں کاارمان خاک میں مل گیا۔ رو پیٹ کر بیٹھ رہی۔ ایسے ایسے وفادار تو ان کے دوست ہیں جنہیں دوست کی گردن پر چھری پھیرنے میں عار نہیں۔

ان کی دوستی بھی انہیں لوگوں سے ہے جو زمانہ بھر کے فاقہ مست، قلانچ، بے سرو سامان ہیں، جن کا پیشہ ہی ان جیسے آنکھ کے اندھوں سے دوستی کرنا ہے۔ روز ایک نہ ایک صاحب مانگنے کے لئے سرپر سوار رہتے ہیں اور بلا لئے گلا نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی نے روپے ادا کئے ہوں۔ آدمی ایک بار کھو کر سیکھتا ہے، دو بار کھو کر سیکھتا ہے، مگر یہ بھلے مانس ہزار بار کھو کر بھی نہیں سیکھتے۔ جب کہتی ہوں روپے تو دے دئے اب مانگ کیوں نہیں لاتے۔ کیا مر گئے تمہارے دوست؟ تو بس بغلیں جھانک کر رہ جاتے۔ آپ سے دوستوں کو سوکھا جواب نہیں دیا جاتا۔ خیر سوکھا جواب نہ دو، میں یہ بھی نہیں کہتی کہ دوستوں سے بے مروّتی کرو۔ مگر ٹال تو سکتے ہیں۔ کیا بہانے نہیں بنا سکتے؟ مگر آپ انکار نہیں کر سکتے۔ کسی دوست نے کچھ طلب کیا اور آپ کے سر پر بوجھ پڑا۔ بے چارے کیسے انکار کریں۔ آخر لوگ جان جائیں گے یہ حضرت بھی فاقہ مست ہیں۔ دُنیا انہیں امیر سمجھتی ہے چاہے میرے زیور ہی کیوں نہ گروی رکھنے پڑیں۔ سچ کہتی ہوں بعض اوقات ایک ایک پیسے کی تنگی ہو جاتی ہے اور اس بھلے آدمی کو روپے جیسے گھر میں کاٹتے ہیں۔ جب تک روپے کے وارے نیارے نہ کر لے اسے کسی پہلو قرار نہیں۔ ان کے کرتوت کہاں تک کہوں۔ میرا تو ناک میں دم آگیا۔ ایک نہ ایک مہمان روز بلائے بے درماں کی طرح سر پر سوار۔ نہ جانے کہاں کے بے فکرے ان کے دوست ہیں۔ کوئی کہیں سے آ کر مرتا ہے، کوئی کہیں سے۔ گھر کیا ہے اپاہجوں کو اڈہ ہے۔ ذرا سا گھر، مشکل سے دو تو چارپائیاں۔ اوڑھنا بچھونا بھی بافراط نہیں مگر آپ ہیں کہ دوستوں کو دینے کے لئے تیار۔ آپ تو مہمان کے ساتھ لیٹیں گے۔ اس لئے انہیں چارپائی بھی چاہئے۔ اوڑھنا بچھونا بھی چاہئے ورنہ گھر کا پردہ کھل جائے، جاتی ہے تو میرے اور بچوں کے سر۔ زمین پر پڑے سکڑ کر رات کاٹتے ہیں، گرمیوں میں تو خیر مضائقہ نہیں لیکن جاڑوں میں تو بس قیامت ہی آ جاتی ہے۔ گرمیوں میں بھی کھلی چھت پر تو مہمانوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ اب میں بچوں کو لئے قفس میں پڑی تڑپا کروں۔ اتنی سمجھ بھی نہیں کہ جب گھر کی یہ حالت ہے تو کیوں ایسوں کو مہمان بنائیں جن کے پاس کپڑے لتے تک نہیں۔ خدا کے فضل سے ان کے سبھی دوست ایسے ہی ہیں۔ ایک بھی خدا کا بندہ ایسا نہیں، جو ضرورت کے وقت ان کے دھیلے سے بھی مدد کر سکے۔ دو ایک بار حضرت کو اس کا تجربہ اور بے حد تلخ تجربہ ہو چکا ہے۔ مگر اس مردِ خدا نے تو آنکھیں نہ کھولنے کی قسم کھا لی ہے۔ ایسے ہی ناداروں سے ان کی پٹتی ہے، ایسے ایسے لوگوں سے آپ کی دوستی ہے کہ کہتے شرم آتی ہے۔ جسے کوئی اپنے دروازے پر کھڑا بھی نہ ہونے دے، وہ آپ کا دوست ہے۔ شہر میں اتنے امیر کبیر ہیں، آپ کا کسی سے ربط ضبط نہیں، کسی کے پاس نہیں جاتے۔ امرا مغرور ہیں، مُدَمِّغ ہیں، خوشامد پسند ہیں، ان کے پاس کیسے جائیں، دوستی گانٹھیں گے ایسوں سے جن کے گھر میں کھانے کو بھی نہیں۔

ایک بار ہمارا خدمت گار چلا گیا اور کئی دن دوسرا خدمت گار نہ ملا۔ میں کسی ہوشیار اور سلیقہ مند نوکر کی تلاش میں تھی مگر بابو صاحب کو جلد سے جلد کوئی آدمی رکھ لینے کی فکر سوار ہوئی۔ گھر کے سارے کام بدستور چل رہے تھے مگر آپ کو معلوم ہو رہا تھا کہ گاڑی رکی ہوئی ہے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بانگڑو کو پکڑ لائے۔ اس کی صورت کہے دیتی تھی کہ کوئی جانگلو ہے مگر آپ نے اس کی ایسی ایسی تعریفیں کیں کہ کیا کہوں! بڑا فرماں بردار ہے، پرلے سرے کا ایمان دار، بلا کا محنتی، غضب کا سلیقہ شعار اور انتہا درجے کا با تمیز۔ خیر میں نے رکھ لیا۔ میں بار بار کیوں کر ان کی باتوں میں آ جاتی ہوں، مجھے خود تعجب ہے۔ یہ آدمی صرف شکل سے آدمی تھا، آدمیت کی کوئی علامت اس میں نہ تھی۔ کسی کام کی تمیز نہیں۔ بے ایمان نہ تھا مگر احمق اوّل نمبر کا۔ بے ایمان ہوتا تو کم سے کم اتنی تسکین تو ہوتی کہ خود کھاتا ہے۔ کم بخت دُکان داروں کی فطرتوں کا شکار ہو جاتا تھا۔ اسے دس تک گنتی بھی نہ آتی تھی۔ ایک روپیہ دے کر بازار بھیجوں تو شام تک حساب نہ سمجھا سکے۔ غصہ پی پی کر رہ جاتی تھی۔ خون جوش کھانے لگتا تھا کہ سور کے کان اکھاڑ لوں۔ مگر ان حضرت کو کبھی اسے کچھ کہتے نہیں دیکھا۔ آپ نہا کر دھوتی چھانٹ رہے ہیں اور و ہ دور بیٹھا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ میرا خون کھولنے لگتا، لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا۔ جب میرے ڈانٹنے پر دھوتی چھانٹنے جاتا بھی تو آپ اسے قریب نہ آنے دیتے۔ اس کے عیبوں کو ہنر بنا کر دکھایا کرتے تھے اور اس کوشش میں کامیاب نہ ہوتے تو ان عیوب پر پردہ ڈال دیتے تھے۔ کم بخت کو جھاڑو دینے کی بھی تمیز نہ تھی۔ مردانہ کمرہ ہی تو سارے گھر میں ڈھنگ کا ایک کمرہ ہے، اس میں جھاڑو دیتا تو ادھر کی چیز اُدھر، اوپر کی نیچے گویا سارے کمرے میں زلزلہ آ گیا ہو۔ اور گرد کا یہ عالم کہ سانس لینی مشکل مگر آپ کمرے میں اطمینان سے بیٹھے رہتے۔ گویا کوئی بات ہی نہیں۔ ایک دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہہ دیا، “اگر کل سے تو نے سلیقے سے جھاڑو نہ دی تو کھڑے کھڑے نکال دوں گی۔”

سویرے سو کر اٹھتی تو دیکھتی ہوں کمرے میں جھاڑو دی ہوئی ہے۔ ہر ایک چیز قرینے سے رکھی ہے۔ گرد و غبار کا کہیں نام نہیں۔ آپ نے فوراً ہنس کر کہا، “دیکھتی کیا ہو، آج گھورے نے بڑے سویرے جھاڑو دی ہے۔ میں نے سمجھا دیا، تم طریقہ تو بتلاتی نہیں ہو، الٹی ڈانٹنے لگتی ہو۔” لیجئے صاحب! یہ بھی میری ہی خطا تھی۔ خیر، میں نے سمجھا اس نالائق نے کم سے کم ایک کام تو سلیقے کے ساتھ کیا۔ اب روز کمرہ صاف ستھرا ملتا اور میری نگاہوں میں گھورے کی کچھ وقعت ہونے لگی۔ اتفاق کی بات ایک دن میں ذرا معمول سے سویرے اٹھ بیٹھی اور کمرے میں آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ گھورے دروازے پر کھڑا ہے اور خود بدولت بڑی تن دہی سے جھاڑو دے رہے ہیں۔ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا۔ ان کے ہاتھ سے جھاڑو چھین لی اور گھورے کے سر پر پٹک دی۔ حرام خور کو اسی وقت دھتکار بتائی۔ آپ فرمانے لگے، اس کی تنخواہ تو بیباق کر دو۔ خوب! ایک تو کام نہ کرے، دوسرے آنکھیں دکھائے، اس پر تنخواہ بھی دے دوں۔ میں نے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ ایک کرتا دیا تھا وہ بھی چھین لیا۔ اس پر حضرت کئی دن مجھ سے روٹھے رہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگے جا رہے تھے، بڑی مشکلوں سے رکے۔

ایک دن مہتر نے اتارے کپڑوں کا سوال کیا۔ اس بے کاری کے زمانے میں فالتو کپڑے کس کے گھر میں ہیں۔ میرے یہاں تو ضروری کپڑے بھی نہیں۔ حضرت ہی کا توشہ خانہ ایک بغچی میں آ جائے گا جو ڈاک کے پارسل سے کہیں بھیجا جا سکتا ہے۔ پھر اس سال سردی کے موسم میں نئے کپڑے بنوانے کی نوبت بھی نہ آئی تھی۔ میں نے مہتر کو صاف جواب دے دیا۔ سردی کی شدت تھی اس کا مجھے خود احساس تھا۔ غریبوں پر کیا گزرتی ہے، اس کا بھی علم تھا لیکن میرے یا آپ کے پاس افسوس کے سوا اور کیا علاج ہے۔ جب رؤسا اور امرا کے پاس ایک مال گاڑی کپڑوں سے بھری ہوئی ہے تو پھر غربا کیوں نہ برہنگی کا عذاب جھیلیں۔ خیر! میں نے تو اسے جواب دے دیا۔ آپ نے کیا کیا، اپنا کوٹ اُتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ حضرت کے پاس یہی ایک کوٹ تھا۔ یہ خیال نہ ہوا کہ پہنیں گے کیا۔ مہتر نے سلام کیا، دعائیں دیں اور اپنی راہ لی۔ آخر کئی دن سردی کھاتے رہے، صبح کو گھومنے جایا کرتے تھے، وہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ مگر دل بھی قدرت نے انہیں عجیب قسم کا دیا ہے۔ پھٹے پرانے کپڑے پہنتے آپ کو شرم نہیں آتی۔ میں تو کٹ جاتی ہوں، آپ کو مطلق احساس نہیں۔ کوئی ہنستا ہے تو ہنسے۔ آپ کی بلا سے۔ آخر مجھ سے دیکھا نہ گیا تو ایک کوٹ بنوا دیا۔ جی تو جلتا تھا کہ خوب سردی کھانے دوں مگر ڈری کہ کہیں بیمار پڑ جائیں تو اور بھی آفت آ جائے۔ آخر کام تو انہیں کو کرنا ہے۔ یہ اپنے دل میں سمجھتے ہوں گے کہ میں کتنا نیک نفس اور منکسر المزاج ہوں۔ شاید انہیں ان اوصاف پر ناز ہو۔ میں انہیں نیک نفس نہیں سمجھتی ہوں۔ یہ سادہ لوحی نہیں، سیدھی سادی حماقت ہے۔ جس مہتر کو آپ نے اپنا کوٹ دیا اسی کو میں نے کئی بار رات کو شراب کے نشے میں بد مست جھومتے دیکھا ہے اور آپ کو دکھا بھی دیا ہے، تو پھر دوسروں کی کج روی کا تاوان ہم کیوں دیں؟ اگر آپ نیک نفس اور فیاض ہوتے تو گھر والوں سے بھی تو فیاضانہ برتاؤ کرتے یا ساری فیاضی باہر والوں کے لئے ہی مخصوص ہے۔ گھر والوں کو اس کا عشرِ عشیر بھی نہ ملنا چاہئے؟ اتنی عمر گزر گئی مگر اس شخص نے کبھی اپنے دل سے میرے لئے ایک سوغات بھی نہ خریدی۔ بے شک جو چیز طلب کروں اسے بازار سے لانے میں انہیں کلام نہیں، مطلق عذر نہیں مگر روپیہ بھی دے دوں یہ شرط ہے۔ انہیں خود کبھی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ میں مانتی ہوں کہ بچارے اپنے لئے بھی کچھ نہیں لاتے۔ میں جو کچھ منگوا دوں اسی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ مگر انسان کبھی کبھی شوق کی چیزیں چاہتا ہی ہے اور مردوں کو دیکھتی ہوں، گھر میں عورت کے لئے طرح طرح کے زیور، کپڑے، شوق سنگھار کے لوازمات لاتے رہتے ہیں۔ یہاں یہ رسم ممنوع ہے۔ بچوں کے لئے مٹھائی، کھلونے، باجے، بگل شاید اپنی زندگی میں ایک بار بھی نہ لائے ہوں، قسم سی کھا لی ہے۔ اس لئے میں تو انہیں بخیل کہوں گی، مردہ دل ہی کہوں گی۔ فیاض نہیں کہہ سکتی۔

دوسروں کے ساتھ ان کا جو فیاضانہ سلوک ہے اسے مَیں حرص نمود اور سادہ لوحی پر محمول کرتی ہوں۔ آپ کی منکسر المزاجی کا یہ حال ہے کہ جس دفتر میں آپ ملازم ہیں اس کے کسی عہدہ دار سے آپ کا میل جول نہیں۔ افسروں کو سلام کرنا تو آپ کے آئین کے خلاف ہے۔ نذر یا ڈالی کی بات تو الگ ہے اور تو اور کبھی کسی افسر کے گھر جاتے ہی نہیں۔ اس کا خمیازہ آپ نہ اُٹھائیں تو کون اُٹھائے اوروں کو رعایتی چھٹیاں ملتی ہیں، آپ کی تنخواہ کٹتی ہے اوروں کی ترقیاں ہوتی ہیں آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ حاضری میں پانچ منٹ بھی دیر ہو جائے تو جواب طلب ہو جاتا ہے۔ بچارے جی توڑ کر کام کرتے ہیں۔ کوئی پیچیدہ، مشکل کام آ جائے تو انہیں کے سر منڈھا جاتا ہے۔ انہیں مطلق عذر نہیں، دفتر میں انہیں گھسو اور پسو وغیرہ خطابات ملے ہوئے ہیںمگر منزل کتنی ہی دشوار طے کریں ان کی تقدیر میں وہی سوکھی گھاس لکھی ہے۔ یہ انکساری نہیں ہے۔ میں تو اسے زمانہ شناسی کا فقدان کہتی ہوں۔ آخر کیوں کوئی شخص آپ سے خوش ہو۔ دُنیا میں مروت اور رواداری سے کام چلتا ہے، اگر ہم کسی سے کھنچے رہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہم سے نہ کھنچا رہے، پھر جب دل میں کبیدگی ہوتی ہے تو وہ دفتری تعلقات میں ظاہر ہو جاتی ہے۔ جو ماتحت افسر کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہے، جس کی ذات سے افسر کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے، جس پر اعتبار ہوتا ہے، اس کا لحاظ وہ لازمی طور پر کرتا ہے۔ ایسے بے غرضوں سے کیوں کسی کو ہمدردی ہونے لگی۔ افسر بھی انسان ہیں۔ ان کے دل میں جو اعزاز و امتیار کی ہوس ہوتی ہے وہ کہاں پوری ہو۔ جب اس کے ماتحت ہی فرنٹ رہیں۔ آپ نے جہاں ملازمت کی وہاں سے نکالے گئے۔ کبھی کسی دفتر میں سال دو سال سے زیادہ نہ چلے۔ یا تو افسروں سے لڑ گئے یا کام کی کثرت کی شکایت کر بیٹھے۔

آپ کو کنبہ پروری کا دعویٰ ہے۔ آپ کے کئی بھائی بھتیجے ہیں۔ وہ کبھی آپ کی بات بھی نہیں پوچھتے۔ مگر آپ برابر ان کا منہ تاکتے رہتے ہیں۔ ان کے ایک بھائی صاحب آج کل تحصیل دار ہیں۔ گھر کی جائیداد انہی کی نگرانی میں ہے۔ وہ شان سے رہتے ہیں، موٹر خرید لی ہے۔ کئی نوکر ہیں، مگر یہاں بھولے سے بھی خط نہیں لکھتے۔ ایک بار ہمیں روپے کی سخت ضرورت ہوئی، میں نے کہا اپنے برادر مکرم سے کیوں نہیں مانگتے؟ کہنے لگے انہیں کیوں پریشان کروں۔ آخر انہیں بھی تو اپنا خرچ کرنا ہے۔ کون سی ایسی بچت ہو جاتی ہو گی۔ میں نے بہت مجبور کیا، تو آ پ نے خط لکھا۔ معلوم نہیں خط میں کیا لکھا، لیکن روپے نہ آنے تھے نہ آئے۔ کئی دنوں کے بعد میں نے پوچھا، “کچھ جواب آیا حضور کے بھائی صاحب کے دربار سے؟” آپ نے ترش ہو کر کہا، “ابھی ایک ہفتہ تو خط بھیجے ہوا۔ ابھی کیا جواب آ سکتا ہے؟ ایک ہفتہ اور گزرا۔ اب آپ کا یہ حال ہے کہ مجھے کوئی بات کرنے کا موقع ہی نہیں عطا فرماتے۔ اتنے بشاش نظر آتے ہیں کہ کیا کہوں۔ باہر سے آتے ہیں تو خوش خوش۔ کوئی نہ کوئی شگوفہ لئے ہوئے۔ میری خوشامد بھی خوب ہو رہی ہے۔ میرے میکے والوں کی بھی تعریف ہو رہی ہے۔ میں حضرت کی چال سمجھ رہی تھی۔ یہ ساری دلجوئیاں محض اس لئے تھیں کہ آپ کے برادرم مکرم کے متعلق کچھ پوچھ نہ بیٹھوں۔ سارے، ملکی، مالی، اخلاقی تمدنی مسائل میرے سامنے بیان کئے جاتے تھے، اتنی تفصیل اور شرح کے ساتھ کہ پروفیسر بھی دنگ رہ جائے۔ محض اس لئے کہ مجھے اس امر کی بابت کچھ پوچھنے کا موقع نہ ملے لیکن میں کیا چُوکنے والی تھی، جب پورے دو ہفتے گزر گئے اور بیمہ کمپنی کے روپے روانہ کرنے کی تاریخ موت کی طرح سر پر آ پہنچی تو میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تمہارے بھائی صاحب نے دہن مبارک سے کچھ فرمایا یا ابھی تک خط ہی نہیں پہنچا۔ آخر ہمارا حصہ بھی گھر کی جائیداد میں کچھ ہے یا نہیں یا ہم کسی لونڈی باندی کی اولاد ہیں؟ پانچ سو روپے سال کا منافع نو دس سال قبل تھا، اب ایک ہزار سے کم نہ ہو گا۔ کبھی ایک جھنجی کوڑی بھی ہمیں نہ ملی۔ موٹے حساب سے ہمیں دو ہزار ملنا چاہئے۔ دو ہزار نہ ہو، ایک ہزار ہو، پانچ سو ہو، ڈھائی سو ہو، کچھ نہ ہو تو بیمہ کمپنی کے پریمیم بھرنے کو تو ہو۔ تحصیل دار کی آمدنی ہماری آمدنی سے چوگنی ہے، رشوتیں بھی لیتے ہیں۔ تو پھر ہمارے روپے کیوں نہیں دیتے۔ آپ ہیں ہیں، ہاں ہاں کرنے لگے۔ بچارے گھر کی مرمت کراتے ہیں۔ عزیز و اقارب کی مہمان داری کا بار بھی تو انہیں پر ہے۔ خوب! گویا جائداد کا منشا محض یہ ہے کہ اس کی کمائی اسی میں صرف ہو جائے۔ اس بھلے آدمی کو بہانے بھی گھڑنے نہیں آتے۔ مجھ سے پوچھتے، میں ایک نہیں تو ہزار بتا دیتی۔ کہہ دیتے گھر میں آگ لگ گئی۔ سارا اثاثہ جل کر خاک ہو گیا۔ یا چوری ہو گئی۔ چور نے گھر میں تنکا تک نہ چھوڑا۔ یا دس ہزار کا غلّہ خریدا تھا۔ اس میں خسارہ ہو گیا۔ گھاٹے سے بیچنا پڑا۔ یا کسی سے مقدمہ بازی ہو گئی اس میں دیوالیہ پٹ گیا۔

آپ کو سوجھی بھی تو لچر سی بات۔ اس جولانئ طبع پر آپ مصنف اور شاعر بھی بنتے ہیں۔ تقدیر ٹھونک کر بیٹھی رہی۔ پڑوس کی بی بی سے قرض لئے تب جا کر کہیں کام چلا۔ پھر بھی آپ بھائی بھتیجوں کی تعریف کے پل باندھتے ہیں تو میرے جسم میں آگ لگ جاتی ہے۔ ایسے برادرانِ یوسف سے خدا بچائے۔

خدا کے فضل سے آپ کے دو بچے ہیں، دو بچیاں بھی ہیں۔ خدا کا فضل کہوں یا خدا کا قہر کہوں، سب کے سب اتنے شریر ہو گئے کہ معاذ اللہ۔ مگر کیا مجال کہ یہ بھلے مانس کسی بچے کو تیز نگاہ سے بھی دیکھیں۔ رات کے آٹھ بج گئے ہیں، بڑے صاحب زادے ابھی گھوم کر نہیں آئے۔ میں گھبرا رہی ہوں۔ آپ اطمینان سے بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہیں۔ جھلائی ہوئی آتی ہوں اور اخبار چھین کر کہتی ہوں، “جا کر ذرا دیکھتے کیوں نہیں لونڈا کہاں رہ گیا۔ نہ جانے تمہارے دل میں کچھ قلق ہے بھی یا نہیں۔ تمہیں تو خدا نے اولاد ہی ناحق دی۔ آج آئے تو خوب ڈانٹنا۔” تب آپ بھی گرم ہو جاتے ہیں۔ “ابھی تک نہیں آیا۔ بڑا شیطان ہے۔ آج بچوُ آتے ہیں تو کان اکھاڑ لیتا ہوں، مارے تھپڑوں کے کھال ادھیڑ کر رکھ دوں گا۔ یوں بگڑ کر طیش کے عالم میں آپ اس کو تلاش کرنے نکلتے ہیں۔ اتفاق سے آپ ادھر جاتے ہیں، ادھر لڑکا آ جاتا ہے۔ میں کہتی ہوں کدھر سے آ گیا۔ وہ بچارے تجھے ڈھونڈنے گئے ہوئے ہیں۔ دیکھنا آج کیسی مرمت ہوتی ہے۔ یہ عادت ہی چھوٹ جائے گی۔ دانت پیس رہے تھے آتے ہی ہوں گے۔ چھڑی بھی ہاتھ میں ہے۔ تم اتنے شریر ہو گئے ہو کہ بات نہیں سنتے۔ آج قدر و عافیت معلوم ہو گی۔ لڑکا سہم جاتا ہے اور لیمپ جلا کر پڑھنے لگتا ہے۔ آپ ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوٹتے ہیں۔ حیران و پریشان اور بدحواس، گھر میں قدم رکھتے ہی پوچھتے ہیں، “آیا کہ نہیں؟”

میں ان کا غصہ بھڑکانے کے ارادے سے کہتی ہوں، “آ کر بیٹھا تو ہے جا کر پوچھتے کیوں نہیں، پوچھ کر ہار گئی کہاں گیا تھا۔ کچھ بولتا ہی نہیں۔”

آپ گرج پڑتے ہیں، “منو! یہاں آؤ”

لڑکا تھر تھر کانپتا ہوا آ کر آنگن میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ دونوں بچیاں گھر میں چھپ جاتی ہیں کہ خدا جانے کیا آفت نازل ہونے والی ہے۔ چھوٹا بچہ کھڑکی سے چوہے کی طرح جھانک رہا ہے۔ آپ جامے سے باہر ہیں۔ ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میں بھی وہ غضب ناک چہرہ دیکھ کر پچھتانے لگتی ہوں کہ کیوں ان سے شکایت کی۔ آپ لڑکے کے پاس جاتے ہیں مگر بجائے اس کے کہ چھڑی سے اس کی مرمت کریں۔ آہستہ سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بناوٹی غصے سے کہتے ہیں۔ “تم کہاں گئے تھے جی! منع کیا جاتا ہے۔ مانتے نہیں ہو۔ خبردار جو اب اتنی دیر کی۔ آدمی شام کو گھر چلا آتا ہے یا ادھر ادھر گھومتا ہے؟”

میں سمجھ رہی ہوں یہ تمہید ہے۔ قصیدہ اب شروع ہو گا، گریز تو بری نہیں لیکن یہاں تمہید ہی خاتمہ ہو جاتی ہے۔ بس آپ کا غصہ فرو ہو گیا۔ لڑکا اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے اور غالباً خوشی سے اچھلنے لگتا ہے۔ میں احتجاج کی صدا بلند کرتی ہوں۔ “تم تو جیسے ڈر گئے، بھلا دو چار تمانچے تو لگائے ہوتے۔ اس طرح تو لڑکے شیر ہو جاتے ہیں۔ آج آٹھ بجے آیا ہے۔ کل نو بجے کی خبر لائے گا۔ اس نے بھی دل میں کیا سوچا ہو گا۔”

آپ فرماتے ہیں، “تم نے سنا نہیں میں نے کتنی زور سے ڈانٹا۔ بچے کی روح ہی فنا ہو گئی۔ دیکھ لینا جو پھر کبھی دیر میں آئے۔” “تم نے ڈانٹا تو نہیں ہاں آنسو پونچھ دیئے۔”

آپ نے ایک نئی اپج نکالی ہے کہ لڑکے تادیب سے خراب ہو جاتے ہیں۔ آپ کے خیال میں لڑکوں کو آزاد رہنا چاہئے۔ ان پر کسی قسم کی بندش یا دباؤ نہ ہونا چاہئے۔ بندش سے آپ کے خیال میں لڑکے کی دماغی نشو و نمامیں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ نتیجہ ہے، کبھی گولیاں، کبھی کنکوے۔ حضرت بھی انہیں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ چالیس سال سے تو متجاوز آپ کی عمر ہے مگر لڑکپن دل سے نہیں گیا۔ میرے باپ کے سامنے مجال تھی کہ کوئی لڑکا کنکوا اڑا لے یا گلی ڈنڈا کھیل سکے۔ خون پی جاتے۔ صبح سے لڑکوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے۔ اسکول سے جوں ہی لڑکے واپس آتے پھر لے بیٹھتے۔ بس شام کو آدھے گھنٹے کی چھٹی دیتے۔ رات کو پھر کام میں جوت دیتے۔ یہ نہیں کہ آپ تو اخبار پڑھیں اور لڑکے گلی گلی کی خاک چھانتے پھریں۔

کبھی آپ بھی سینگ کٹا کر بچھڑے بن جاتے ہیں، لڑکوں کے ساتھ تاش کھیلنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے باپ کا لڑکوں پر کیا رعب ہو سکتا ہے۔ ابا جان کے سامنے میرے بھائی سیدھے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی آواز سنتے ہی قیامت آ جاتی تھی۔ انہوں نے گھر میں قدم رکھا اور خاموشی طاری ہوئی۔ ان کے رو برو جاتے ہوئے لڑکوں کی جان نکلتی تھی اور اسی تعلیم کی برکت ہے کہ سبھی اچھے عہدوں پر پہنچ گئے۔ صحت البتہ کسی کی بہت اچھی نہیں ہے۔ تو ابا جان کی صحت ہی کون سی بہت اچھی تھی۔ بچارے ہمیشہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا رہتے۔ پھر لڑکوں کی صحت کہاں سے اچھی ہو جاتی لیکن کچھ بھی ہو تعلیم و تادیب میں انہوں نے کسی کے ساتھ رعایت نہیں کی۔ ایک روز میں نے حضرت کو بڑے صاحبزادے کی کنکوا کی تعلیم دیتے دیکھا۔ یوں گھماؤ، یوں غوطہ دو، یوں کھینچو، یوں ڈھیل دو۔ ایسا دل و جان سے سیکھا رہے تھے، گویا گرو منتر دے رہے ہوں۔ اس دن میں نے بھی ان کی ایسی خبر لی کہ یاد کرتے ہوں گے۔ میں نے صاف کہہ دیا تم کون ہوتے ہو میرے بچوں کو بگاڑنے والے۔ تمہیں گھر سے کوئی مطلب نہیں ہے، نہ ہو، لیکن میرے بچوں کو خراب مت کیجئے، برے برے شوق نہ پیدا کیجئے۔ اگر آپ انہیں سدھا نہیں سکتے تو کم سے کم بگاڑیئے تو مت۔ لگے باتیں بنانے، ابا جان کسی لڑکے کو میلے تماشے نہ لے جاتے تھے۔ لڑکا سر پٹک پٹک کر مر جائے مگر ذرا بھی نہ پسیجتے تھے اور ان بھلے آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک ایک سے پوچھ کر میلے لے جاتے ہیں۔ چلو چلو، وہاں بڑی بہار ہے، خوب آتش بازیاں چھوٹیں گی، غبارے اڑیں گے۔ ولایتی چرخیاں بھی ہیں، ان میں مزے سے بیٹھنا اور تو اور آپ لڑکوں کو ہاکی کھیلنے سے بھی نہیں روکتے۔ یہ انگریزی کھیل بھی کتنے خوف ناک ہوتے ہیں۔ کرکٹ، فٹ بال، ہاکی ایک سے ایک مہلک۔ گیند لگ جائے تو جان ہی لے کر چھوڑے۔ مگر آپ کو ان کھیلوں سے بڑی رغبت ہے۔ کوئی لڑکا میچ جیت کر آ جاتا ہے تو کتنے خوش ہوتے ہیں، گویا کوئی قلعہ فتح کر آیا ہو۔ حضرت کو ذرا بھی اندیشہ نہیں کہ کسی لڑکے کے چوٹ لگ گئی تو کیا ہو گا۔ ہاتھ پاؤں ٹوٹ گیا تو بچاروں کی زندگی کیسے پار لگے گی۔

پچھلے سال لڑکی کی شادی تھی۔ آپ کو یہ ضد تھی کہ جہیز کے نام کھوٹی کوڑی بھی نہ دیں گے۔ چاہے لڑکی ساری عمر کنواری بیٹھی رہے۔ آپ اہل دُنیا کی خبیث النفسی آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔ پھر بھی چشم بصیرت نہیں کھلتی۔ جب تک سماج کا یہ نظام قائم ہے اور لڑکی کا بلوغ کے بعد کنواری رہنا انگشت نمائی کا باعث ہے اس وقت تک یہ رسم فنا نہیں ہو سکتی۔ دو چار افراد بھلے ہی ایسے بیدار مغز نکل آئیں جو جہیز لینے سے انکار کریں لیکن اس کا اثر عام حالات پر کم ہوتا ہے اور برائی بدستور قائم رہتی ہے۔ جب لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لئے بھی بیس پچیس برس کی عمر تک کنواری رہنا بدنامی کا باعث نہ سمجھا جائے گا۔ اس وقت آپ ہی آپ یہ رسم رخصت ہو جائے گی۔ میں نے جہاں جہاں پیغام دئے، جہیز کا مسئلہ پیدا ہوا اور آپ نے ہر موقع پر ٹانگ اڑا دی۔ جب اس طرح ایک سال پورا گزر گیا اور لڑکی کا سترھواں سال شروع ہو گیا تو میں نے ایک جگہ بات پکی کر لی۔ حضرت بھی راضی ہو گئے کیوں کہ ان لوگوں نے قرارداد نہیں کی۔ حالانکہ دل میں انہیں پورا یقین تھا کہ ایک اچھی رقم ملے گی اور میں نے بھی طے کر لیا تھا کہ اپنے مقدور بھر کوئی بات اُٹھا نہ رکھوں گی۔ شادی کے بخیر و عافیت انجام پانے میں کوئی شبہ نہ تھا، لیکن ان مہاشے کے آگے میری ایک نہ چلتی تھی۔ یہ رسم بے ہودہ ہے۔ یہ رسم بے معنی ہے۔ یہاں روپے کی کیا ضرورت؟۔ یہاں گیتوں کی کیا ضرورت؟ ناک میں دم تھا۔ یہ کیوں وہ کیوں؟ یہ تو صاف جہیز ہے۔ تم نے میرے منہ میں کالک لگا دی۔ میری آبرو مٹا دی۔ ذرا خیال کیجئے بارات دروازے پر پڑی ہوئی۔ دن لڑکی کے ماں باپ برت رکھتے ہیں۔ میں نے بھی برت رکھا لیکن آپ کو ضد تھی۔ کہ برت کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب لڑکے کے والدین برت نہیں رکھتے تو لڑکی کے والدین کیوں رکھیں اور سارا خاندان ہر چند منع کرتا رہا لیکن آپ نے حسب معمول ناشتہ کیا، کھانا کھایا۔ خیر رات کو شادی کے وقت کنیا دان کی رسم آئی۔ آپ کو کنیا دان کی رسم پر ہمیشہ سے اعتراض ہے۔ اسے آپ مہمل سمجھتے ہیں۔ لڑکی دان کی چیز نہیں۔ دان روپے پیسے کا ہوتا ہے جانور بھی دان دئے جا سکتے ہیں لیکن لڑکی کا دان ایک لچر سی بات ہے۔ کتنا سمجھتی ہوں۔ “صاحب پرانا رواج ہے، شاستروں میں صاف اس کا حکم ہے۔ عزیز و اقارب سمجھا رہے ہیں مگر آپ ہیں کہ کان پر جوں نہیں رینگتی۔ کہتی ہوں دُنیا کیا کہے گی؟ یہ لوگ کیا بالکل لا مذہب ہو گئے مگر آپ کان ہی نہیں دھرتے۔ پیروں پڑی، یہاں تک کہا کہ بابا تم کچھ نہ کرنا جو کچھ کرنا ہو گا میں کر لوں گی۔ تم صرف چل کر منڈپ میں لڑکی کے پاس بیٹھ جاؤ اور اسے دُعا دو۔ مگر اس مرد خدا نے مطلق سماعت نہ کی۔ آخر مجھے رونا آگیا۔ باپ کے ہوتے میری لڑکی کا کنیا دان چچا یا ماموں کرے، یہ مجھے منظور نہ تھا۔ میں نے تنہا کنیا دان کی رسم ادا کی۔ آپ گھر جھانکے تک نہیں اور لطف یہ ہے کہ آپ ہی مجھ سے روٹھ بھی گئے۔ بارات کی رخصتی کے بعد مجھ سے مہینوں بولے نہیں۔ جھک مار کر مجھی کو منانا پڑا۔

مگر کچھ عجیب دل لگی ہے کہ ان ساری برائیوں کے باوجود میں ان سے ایک دن کے لئے بھی جدا نہیں رہ سکتی۔ ان سارے عیوب کے باوجود میں انہیں پیار کرتی ہوں۔ ان میں وہ کون سی خوبی ہے جس پر میں فریفتہ ہوں۔ مجھے خود نہیں معلوم۔ مگر کوئی چیز ہے ضرور جو مجھے ان کا غلام بنائے ہوئے ہے۔ وہ ذرا معمول سے دیر میں گھر آتے ہیں تو میں بے صبر ہو جاتی ہوں۔ ان کا سر بھی درد کرے تو میری جان نکل جاتی ہے۔ آج اگر تقدیر ان کے عوض مجھے کوئی علم اور عقل کا پتلا، حسن اور دولت کا دیوتا بھی دے تو میں اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھوں۔ یہ فرض کی بیڑی نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ رواجی وفاداری بھی نہیں ہے بلکہ ہم دونوں کی فطرتوں میں کچھ ایسی رواداریاں کچھ ایسی صلاحیتیں پیدا ہو گئی ہیں۔ گویا کسی مشین کے کل پرزے گھس گھسا کر فٹ ہو گئے ہوں۔ ا ور ایک پرزے کی جگہ دوسرا پرزہ کام نہ دے سکے چاہے وہ پہلے سے کتنا ہی سڈول، نیا اور خوشنما کیوں نہ ہو۔ جانے ہوئے رستے سے ہم بے خوف، آنکھیں بند کئے چلے جاتے ہیں، اس کے نشیب و فراز، موڑ اور گھماؤ اب ہماری آنکھوں میں سمائے ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس کسی انجان رستے پر چلنا کتنی زحمت کا باعث ہو سکتا ہے۔ قدم قدم پر گمراہ ہو جانے کے اندیشے، ہر لمحہ چور اور رہزن کا خوف، بلکہ شاید آج میں ان کی برائیوں کو خوبیوں سے تبدیل کرنے پر بھی تیار نہیں۔

—————————

APNE DUKH MUJHE DEDO BY BEDI

Articles

اپنے دُکھ مجھے دے دو

راجندر سنگھ بیدی

اپنے دُکھ مجھے دے دو

 

اندو نے پہلی بار ایک نظر اوپر دیکھتے ہوئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور صرف اتنا سا کہا۔ “جی” اسے خود اپنی آواز کسی پاتال سے آئی ہوئی سنائی دی۔

دیر تک کچھ ایسا ہی ہوتا رہا اور پھر ہولے ہولے بات چل نکلی۔ اب جو چلی سو چلی۔ وہ تھمنے ہی میں نہ آتی تھی۔ اندو کے پتا، اندو کی ماں، اندو کے بھائی، مدن کے بھائی بہن، باپ، ان کی ریلوے سیل سروس کی نوکری، ان کے مزاج، کپڑوں کی پسند، کھانے کی عادت، سبھی کا جائزہ لیا جانے لگا۔ بیچ بیچ میں مدن بات چیت کو توڑ کر کچھ اور ہی کرنا چاہتا تھا لیکن اندو طرح دے جاتی تھی۔ انتہائی مجبوری اور لاچاری میں مدن نے اپنی ماں کا ذکر چھیڑ دیا جو اسے سات سال کی عمر میں چھوڑ کر دق کے عارضے سے چلتی بنی تھی۔ “جتنی دیر زندہ رہی بیچاری” مدن نے کہا۔ “بابو جی کے ہاتھ میں دوائی کی شیشیاں رہیں۔ ہم اسپتال کی سیڑھیوں پر اور چھوٹا پاشی گھر میں چیونٹیوں کے بل پر سوتے رہے اور آخر ایک دن28 مارچ کی شام” اور مدن چپ ہو گیا۔ چند ہی لمحوں میں وہ رونے سے ذرا ادھر اور گھگھی سے ذرا اُدھر پہنچ گیا۔ اندو نے گھبرا کر مدن کا سر اپنی چھاتی سے لگا لیا۔ اس رونے نے پل بھر میں اندو کو اپنے پن سے ادھر اور بیگانے پن سے ادھر پہنچا دیا تھامدن اندو کے بارے میں کچھ اور بھی جاننا چاہتا تھا لیکن اندو نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا۔ “میں تو پڑھی لکھی نہیں ہو ں جیپر میں نے ماں باپ دیکھے ہیں، بھائی اور بھابھیاں دیکھی ہیں، بیسیوں اور لو گ دیکھے ہیں۔ اس لئے میں کچھ سمجھتی بوجھتی ہوںمیں اب تمہاری ہوںاپنے بدلے میں تم سے ایک ہی چیز مانگتی ہوں۔”

روتے وقت اور اس کے بعد بھی ایک نشہ سا تھا۔ مدن نے کچھ بے صبری اور؟؟؟؟کے ملے جلے شبدوں میں کہا”کیا مانگتی ہو؟ تم جو بھی کہو گی میں دو ں گا۔”

“پکی بات؟” اندو بولی۔

مدن نے کچھ اتادلے ہو کر کہا۔ “ہاں ہاں کہا جو پکی بات۔”

لیکن اس بیچ میں مدن کے من میں ایک وسوسہ آیامیرا کاروبار پہلے ہی مندا ہے، اگر اندو کوئی ایسی چیز مانگ لے جو میری پہنچ ہی سے باہر ہو تو پھر کیا ہو گا؟ لیکن اندو نے مدن کے سخت اور پھیلے ہوئے ہاتھوں کو اپنے ملائم ہاتھوں سے سمیٹتے ہوئے ان پر اپنے گال رکھتے ہوئے کہا۔

“تم اپنے دکھ مجھے دو۔”

مدن سخت حیران ہوا۔ ساتھ ہی اپنے آپ پر ایک بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے چاندنی میں ایک بار پھر اندو کا چہرہ دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کچھ نہ جان پایا۔ اس نے سوچا یہ ماں یا کسی سہیلی کا رٹا ہوا فقرہ ہو گا جو اندو نے کہہ دیا۔ جبھی یہ جلتا ہوا آنسو مدن کے ہاتھ کی پشت پر گرا۔ اس نے اندو کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے کہا۔

“دئے!” لیکن ان سب باتوں نے مدن سے اس کی بہیمت چھین لی تھی۔

مہان ایک ایک کر کے سب رخصت ہوئے۔ چکلی بھابھی دو بچوں کو انگلیوں سے لگائے سیڑھیوں کی اونچ نیچ سے تیسرا پیٹ سنبھالتی ہوئی چل دی۔ دریا آباد والی پھوپھی جو اپنے “نولکھے ” ہار کے گم ہو جانے پر شور مچاتی واویلا کرتی ہوئی بے ہوش ہو گئی تھی اور جو غسل خانے میں پڑا ہو ا مل گیا تھا، جہیز میں سے اپنے حصے کے تین کپڑے لے کر چلی گئی۔ پھر چاچا گئے۔ جن کو ان کے جے پی ہو جانے کی خبر تار کے ذریعے ملی تھی اور جو شاید بد حواسی میں مدن کی بجائے دلہن کا منہ چومنے چلے تھے۔

گھر میں بوڑھا باپ رہ گیا تھا اور چھوٹے بہن بھائی۔ چھوٹی دلاری تو ہر وقت بھابی کی ہی بغل میں گھسی رہتی۔ گلی محلے کی کوئی عورت دلہن کو دیکھے یا نہ دیکھے۔ دیکھے تو کتنی دیر دیکھے۔ یہ سب اس کے اختیار میں تھا۔ آخر یہ سب ختم ہوا اور آہستہ آہستہ پرانی ہو نے لگی لیکن کا کا جی کی اس نئی آبادی کے لوگ اب بھی آتے جاتے۔ مدن تو اس کے سامنے رک جاتے اور کسی بھی بہانے سے اندر چلے آتے۔ اندو انہیں دیکھتے ہی ایک دم گھونگٹ کھینچ لیتی لیکن اس چھوٹے سے وقفے میں جو کچھ دکھائی دے جاتا وہ بنا گھونگٹ کے دکھائی ہی نہ دے سکتا تھا۔

مدن کا کاروبار گندے بروزے کا تھا۔ کہیں بڑی سپلائی والے دو تین جنگلوں میں چیڑ اور دیودار کے پیڑوں کی جنگل میں آگ نے آ لیا تھا اور وہ دھڑا دھڑ جلتے ہوئے خاک سیاہ ہو کر رہ گئے تھے۔۔ شادی کی رات بالکل وہ نہ ہوا جو مدن نے سوچا تھا۔ جب چکلی بھابی نے پھسلا کر مدن کو بیچ والے کمرے میں دھکیل دیا تو اندو سامنے شالوں میں لپٹی اندھیرے کا بھاگ بنی جا رہی تھی۔ باہر چکلی بھابی اور دریا آباد والی پھوپھی اور دوسری عورتوں کی ہنسی، رات کے خاموش پانیوں میں مصری کی طرح دھیرے دھیرے گھل رہی تھی۔ عورتیں سب یہی سمجھتی تھیں کہ اتنا بڑا ہو جانے پر بھی مدن کچھ نہیں جانتا۔ کیونکہ جب اسے بیچ رات سے جگایا گیا تو وہ ہڑبڑا رہا تھا۔ “کہاں، کہاں لئے جا رہی ہو مجھے؟”

ان عورتوں کے اپنے اپنے دن بیت چکے تھے۔ پہلی رات کے بارے میں ان کے شریر شوہروں نے جو کچھ کہا اور مانا تھا، اس کی گونج ان کے کانوں میں باقی نہ رہی تھی۔ وہ خود رس بس چکی تھیں اور اب اپنی ایک اور بہن کو بسانے پر تلی ہوئی تھیں۔ زمین کی یہ بیٹیاں مرد کو تو یوں سمجھتی تھیں جیسے بادل کا ٹکڑا ہے جس کی طرف بارش کے لئے منہ اٹھا کر دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ نہ برسے تو منتیں ماننی پڑتی ہیں۔ چڑھاوے چڑھانے پڑتے ہیں۔ جادو ٹونے کرنے ہوتے ہیں۔ حالانکہ مدن کالکا جی کی اس نئی آبادی میں گھر کے سامنے کی جگہ میں پڑا اسی وقت کا منتظر تھا۔ پھر شامتِ اعمال پڑوسی سبطے کی بھینس اس کی کھاٹ ہی کے پاس بندھی تھی جو بار بار پھنکارتی ہوئی مدن کو سونگھ لیتی تھی اور وہ ہاتھ اٹھا اٹھا کر اسے دور رکھنے کی کوشش کرتا۔ ایسے میں بھلا نیند کا سوال ہی کہاں تھا؟

سمندر کی لہروں اور عورت کے خون کو راستہ بتانے والا چاند ایک کھڑکی کے راستے سے اندر چلا آیا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ دروازے کے اس طرف کھڑا مدن اگلا قدم کہاں رکھتا ہے۔ مدن کے اپنے اندر ایک گھن گرج سی ہو رہی تھی اور اسے اپنا آپ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے بجلی کا کھمبا ہے جسے کان لگانے سے اسے اندر کی سنسناہٹ سنائی دے جائے گی۔ کچھ دیر یونہی کھڑے رہنے کے بعد اس نے آگے بڑھ کر پلنگ کو کھینچ کر چاندنی میں کر دیا تاکہ دلہن کا چہرہ تو دیکھ سکے۔ پھر وہ ٹھٹک گیا۔ جب اس نے سوچااندو میری بیوی ہے۔ کوئی پرائی عورت تو نہیں جسے نہ چھونے کا سبق بچپن ہی سے پڑھتا آیا ہوں۔ شالو میں لپٹی ہوئی دلہن کو دیکھتے ہوئے اس نے فرض کر لیا، وہاں اندو کا منہ ہو گا۔ اور جب ہاتھ بڑھا کر اس نے پاس پڑی گٹھڑی کو چھوا تو وہیں اندو کا منہ تھا۔ مدن نے سوچا تھا وہ آسانی سے مجھے اپنا آپ نہ دیکھنے دے گی لیکن اندو نے ایسا نہ کیا۔ جیسے پچھلے کئی سالوں سے وہ بھی اسی لمحے کی منتظر ہو اور کسی خیالی بھینس کے سونگھتے رہنے سے اسے بھی نیند نہ آ رہی ہو۔ غائب نیند اور بند آنکھوں کا کرب اندھیرے کے باوجود سامنے پھڑپھڑاتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ ٹھوڑی تک پہنچتے ہوئے عام طور پو چہرہ لمبوترا ہو جاتا ہے لیکن یہاں تو سبھی گول تھا۔ شاید اسی لئے چاندنی کی طرف گال اور ہونٹوں کے بیچ ایک سائے دار کھوہ سی بنی ہوئی تھی۔ جیسی دو سر سبز اور شاداب ٹیلوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ماتھا کچھ تنگ تھا لیکن اس پر سے ایکا ایکی اٹھنے والے گھنگھریالے بال۔

جبھی اندو نے اپنا چہرہ چھڑا لیا جیسے وہ دیکھنے کی اجازت تو دیتی ہو لیکن اتنی دیر کے لئے نہیں۔ آخر شرم کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے۔ مدن نے ذرا سخت ہاتھوں سے یوں ہی سی ہوں ہاں کرتے ہوئے دلہن کا چہرہ پھر سے اوپر کو اٹھا دیا اور شرابی سی آواز میں کہا۔ “اندو!”

اندو کچھ ڈر سی گئی۔ زندگی میں پہلی بار کسی اجنبی نے اس کا نام اس انداز سے پکارا تھا اور وہ اجنبی کسی خدائی حق سے رات کے اندھیرے میں آہستہ آہستہ اس اکیلی بے یار و مددگار عورت کا اپنا ہوتا جا رہا تھا۔۔

“میں نے تو ابھی سے چار سوٹ اور کچھ برتن الگ کر ڈالے ہیں اس کے لئے اور جب مدن نے کوئی جواب نہ دیا تو اسے جھنجھوڑتے ہوئے بولی۔ “تم کیوں پریشان ہوتے ہویاد نہیں اپنا وچن؟ تم اپنے دکھ مجھے دے چکے ہو۔”

“ایں؟” مدن نے چونکتے ہوئے کہا اور جیسے بے فکر ہو گیا لیکن اب کے جب اس نے اندو کو اپنے ساتھ لپٹایا تو وہاں ایک جسم ہی نہیں رہ گیا تھا ساتھ ایک روح بھی شامل ہو گئی تھی۔

مدن کے لئے اندو روح ہی روح تھی۔ اندو کا جسم بھی تھا لیکن وہ ہمیشہ کسی نہ کسی وجہ سے مدن کی نظروں سے اوجھل ہی رہا۔ ایک پردہ تھا۔ خواب کے تاروں سے بنا ہوا۔ انہوں کے دھوئیں سے رنگین قہقہوں کی زر تاری سے چکا چوند جو ہر وقت اندو کو ڈھانپے رہتا تھا۔ مدن کی نگاہوں اور اس کے ہاتھوں کے دو شاسن صدیوں سے اس درو پدی کا چیر ہرن کرتے آئے تھے جو کہ عرفِ عام میں بیوی کہلاتی ہے لیکن ہمیشہ اسے آسمانوں سے تھانوں کے تھان، گزوں کے گز، کپڑا ننگا پن ڈھانپنے کے لئے ملتا آیا تھا۔ دو شاسن تھک ہار کے یہاں وہاں گرے پڑے تھے لیکن درو پدی وہیں کھڑی تھیں، عزت اور پاکیزگی کی ایک سفید اور بے داغ ساری میں ملبوس وہ دیوی لگ رہی تھی۔ اور مدن کے لوٹتے ہوئے ہاتھ خجالت کے پسینے سے تر ہوئے، جسے سکھانے کے لئے وہ انہیں اوپر ہوا میں اٹھا دیتا اور پھر ہاتھ کے پنجوں کو پورے طور پر پھیلا تا ہوا، ایک تشنجی کیفیت میں اپنی آنکھوں کی پھیلتی پھٹتی ہوئی پتلیوں کو سامنے رکھ دیا اور پھر انگلیوں کے بیچ میں سے جھانکتااندو کا مر مریں جسم خوش رنگ اور گداز سامنے پڑا ہوتا۔ استعمال کے لئے پاس، ابتذال کے لئے دورکبھی جب اندو کی ناکہ بندی ہو جاتی تو اس قسم کے فقرے ہوتے

“ہائے جی” گھر میں چھوٹے بڑے ہیں۔ وہ کیا کہیں گے؟

مدن کہتا۔ “چھوٹے سمجھتے نہیںبڑے انجان بن جاتے ہیں۔”

اسی دوران میں بابو دھنی رام کی تبدیلی سہارنپور ہو گئی۔ وہاں وہ ریلوے میل سروس میں سیلیکشن گریڈ کے ہیڈ کلرک ہو گئے۔ اتنا بڑا کوارٹر ملا کہ اس میں آٹھ کنبے رہ سکتے تھے لیکن بابو دھنی رام اس میں اکیلے ہی ٹانگیں پھیلائے کھڑے رہتے۔ زندگی بھر وہ بال بچوں سے کبھی علیٰحدہ نہیں ہوئے تھے۔ سخت گھریلو قسم کے آدمی۔ آخری زندگی میں اس تنہائی نے ان کے دل میں وحشت پیدا کر دی لیکن مجبوری تھی، بچے سب دلی میں مدن اور اندو کے پاس تھے اور وہیں اسکول میں پڑھتے تھے۔ سال کے خاتمے سے پہلے انہیں بیچ میں اٹھانا ان کی پڑھائی کے لئے اچھا نہ تھا۔ بابو جی کے دل کے دورے پڑنے لگے۔

بارے گرمی کی چھٹیاں ہوئیں۔ ان کے بار بار لکھنے پر مدن نے اندو کو کندن، پاشی اور دلاری کے ساتھ سہارنپور بھیج دیادھنی رام کی دنیا چمک اٹھی۔ کہاں انہیں دفتر کے کام کے بعد فرصت ہی فرصت تھی اور کہاں اب کام ہی کام تھا۔ بچے بچوں ہی کی طرح جہاں کپڑے اتارتے ہیں وہیں پڑے رہنے دیتے اور بابو جی انہیں سمیٹتے پھرتے۔ اپنے مدن سے دور السانی ہوئی رتی، اندو تو اپنے پہناوے تک سے غافل ہو گئی تھی۔ وہ رسوئی میں یوں پھرتی تھی جیسے کانجی ہاؤس میں گائے، باہر کی طرف منہ اٹھا اٹھا کر اپنے مالک کو ڈھونڈا کرتی ہو۔ کام وام کرنے کے بعد وہ کبھی اندر ٹرنکوں پر لیٹ جاتی۔ کبھی باہر کنیر کے بوٹے کے پاس اور کبھی آم کے پیڑ تلے جو آنگن میں کھڑا سینکڑوں ہزاروں دلوں کو تھامے ہوئے تھا۔

ساون بھادوں میں ڈھلنے لگا۔ آنگن میں سے باہر کا دریچہ کھلتا تو کنواریاں، نئی بیاہی ہوئی لڑکیاں پینگ بڑھاتے ہوئے گاتیںجھولا کن تے ڈارورے امریاںاور پھر گیت کے بول کے مطابق دو جھولتیں اور دو جھلاتیں اور کہیں چار مل جاتیں تو بھول بھلیاں ہو جاتیں۔ ادھیڑ عمر کی بوڑھی عورتیں ایک طرف کھڑی تکا کرتیں۔ اندو کو معلوم ہوتا جیسے وہ بھی ان میں شامل ہو گئی ہے۔ جبھی وہ منہ پھیر لیتی اور ٹھنڈی سانسیں بھرتی ہوئی سو جاتی۔ بابو جی پاس سے گزرتے تو اسے جگانے، اٹھانے کی ذرا بھی کوشش نہ کرتے۔

میسور اور آسام کی طرف سے منگوایا ہوا بیروزہ مہنگا پڑتا تھا اور لوگ اسے مہنگے داموں خریدنے کو تیار نہ تھے۔ ایک تو آمدنی کم ہو گئی تھی۔ اس پر مدن جلدی ہی دکان اور اس کے ساتھ والا دفتر بند کر کے گھر چلا آتا۔ گھر پہنچ کر اس کی ساری کوشش یہی ہوتی کہ سب کھائیں پئیں اور اپنے اپنے بستروں میں دبک جائیں۔ جب وہ کھاتے وقت خود تھالیاں اٹھا اٹھا کر باپ اور بہن کے سامنے رکھتا اور ان کے کھا چکنے کے جھوٹے برتنوں کو سمیٹ کر نل کے نیچے رکھ دیتا۔ سب سمجھتے بہو۔ بھابی نے مدن کے کان میں کچھ پھونکا ہے اور اب وہ گھر کے کام کاج میں دلچسپی لینے لگا ہے۔ مدن سب سے بڑا تھا۔ کندن اس سے چھوٹا اور پاشی سب سے چھوٹا۔ جب کندن بھابی کے سواگت میں سب کے ایک ساتھ بیٹھ کر کھانے پر اصرار کرتا تو باپ دھنی رام وہیں ڈانٹ دیتا۔

“کھاؤ تم۔ ” وہ کہتا “وہ بھی کھا لیں گے” اور پھر رسوئی میں ادھر ادھر دیکھنے لگتا اور جب بہو کھانے پینے سے فارغ ہو جاتی اور برتنو ں کی طرف متوجہ ہوتی تو بابو دھنی رام اسے روکتے ہوئے کہتے۔ “رہنے دے بہو برتن صبح ہو جائیں گے۔”

اندو کہتی “نہیں بابو جیمیں ابھی کئے دیتی ہوں جھپاکے سے۔”

تب بابو دھنی رام ایک لرزتی ہوئی آواز میں کہتے “مدن کی ماں ہوتی بہو، تو یہ سب تمہیں نہ کرنے دیتی۔؟ اور اندو ایک دم اپنے ہاتھ روک لیتی۔

چھوٹا پاشی بھابی سے شرماتا تھا۔ اس خیال سے کہ دلہن کی گود جھٹ سے ہری ہو، چمکی بھابی اور دریا باد والی پھوپھی نے ایک رسم میں پاشی ہی کو اندو کی گود میں ڈالا تھا۔ جب سے اندو اسے نہ صرف دیور بلکہ اپنا بچہ سمجھنے لگی تھی۔ جب بھی وہ پیار سے پاشی کو اپنے بازوؤں میں لینے کی کوشش کرتی تو وہ گھبرا اٹھتا اور اپنا آپ چھڑا کر دو ہاتھ کی دوری پر کھڑا ہو جاتا۔ دیکھتا اور ہنستا رہتا۔ پاس آتا تو دور ہٹتا۔ ایک عجیب اتفاق سے ایسے میں بابو جی ہمیشہ وہیں موجود ہوتے اور پاشی کو ڈانٹتے ہوئے کہتے “ارے جانا بھابی پیا ر کرتی ہے ابھی سے مرد ہو گیا تو؟” اور دلاری تو پیچھا ہی نہ چھوڑتی اس کا۔ “میں تو بھابی کے ساتھ ہی سوؤں گی۔”کے اصرار نے بابو جی کے اندر کوئی جنا ردھن جگا دیا تھا۔ ایک رات اس بات پر دلاری کو زور سے چپت پڑی اور وہ گھر کی آدھی کچی، آدھی پکی نالی میں جا گری۔ اندو نے لپکتے ہوئے پکڑا تو سر سے دوپٹہ اڑ گیا۔ بالوں کے پھول اور چڑیاں، مانگ کا سیندور، کانوں کے کرن پھول سب ننگے ہو گئے۔ “بابو جی۔” اندو نے سانس کھینچتے ہوئے کہاایک ساتھ دلاری کو پکڑنے اور سر پر دوپٹہ اوڑھنے میں اندو کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس بے ماں بچی کو چھاتی سے لگائے ہوئے اندو نے اسے ایک ایسے بستر میں سلا دیا جہاں سرہانے ہی سرہانے، تکئے ہی تکئے تھے۔ نہ کہیں پائنتی تھی نہ کاٹھ کے بازو۔ چوٹ تو ایک طرف کہیں کو چبھنے والی چیز بھی نہ تھی۔ پھر اندو کی انگلیاں دلاری کے پھوڑے ایسے سر پر چلتی ہوئی اسے دکھا بھی رہی تھیں اور مزا بھی دے رہی تھیں۔ دلاری کے گالوں پر بڑے بڑے اور پیارے پیارے گڑھے پڑتے تھے۔ اندو نے ان گڑھوں کا جائزہ لیتے ہوئے کہا “ہائے ری منی! تیری ساس مرے، کیسے گڑھے پڑ رہے ہیں گالوں پر!”

منی نے منی کی طرح کہا۔ “گڑھے تمہارے بھی تو پڑتے ہیں بھابی۔”

“ہاں منو!” اندو نے کہا اور ایک ٹھنڈا سانس لیا۔

مدن کو کسی بات پر غصہ تھا۔ وہ پاس ہی کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔ “میں تو کہتا ہوں ایک طرح سے اچھا ہی ہے۔”

“کیوں اچھا کیوں ہے؟” اندو نے پوچھا۔

“ہاںنہ اُگے بانس نہ بجے بانسریسانس نہ ہو تو کوئی جھگڑا نہیں رہتا۔” اندو نے ایکا ایکی خفا ہوتے ہوئے کہا۔ “تم جاؤ جی سو رہو جا کربڑے آئے ہوآدمی جیتا ہے تو لڑتا ہے نا؟ مر گھٹ کی چپ چاپ سے جھگڑے بھلے۔ جاؤ نہ رسوئی میں تمہارا کیا کام؟”

مدن کھسیانا ہو کر رہ گیا۔ بابو دھنی رام کی ڈانٹ سے باقی بچے تو پہلے ہی اپنے اپنے بستروں میں یوں جا پڑے تھے جیسے دفتروں میں چھٹیاں سٹارٹ ہو تی ہیں۔

لیکن مدن وہیں کھڑا رہا۔ احتیاج نے اسے ڈھیٹ اور بے شرم بنا دیا تھا لیکن اس وقت جب اندو نے بھی اسے ڈانٹ دیا تو وہ روہانسا ہو کر اندر چلا گیا۔

دیر تک مدن بستر میں پڑا کسمساتا رہا لیکن بابو جی کے خیال سے اندو کو آواز دینے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ اس کی بے صبری کی حد ہو گئی تھی۔ جب منی کو سلانے کے لئے اندو کی لوری کی آواز سنائی دی”تو آ نندیا رانی، بورائی مستانی۔”

وہی لوری جو دلاری منی کو سلا رہی تھی، مدن کی نیند بھگا رہی تھی۔ اپنے آپ سے بیزار ہو کر اس نے زور سے چادر سر پر کھینچ لی۔ سفید چادر کے سر پر لپیٹنے اور سانس کے بند کرنے سے خواہ مخواہ ایک مردے کا تصور پیدا ہو گیا۔ مدن کو یوں لگا جیسے وہ مر چکا ہے اور اس کی دلہن اندو اس کے پاس بیٹھی زور زور سے سر پیٹ رہی ہے، دیوار کے ساتھ کلائیاں مار مار کر چوڑیاں توڑ رہی ہے اور پھر باہر لپک جاتی ہے اور بانہیں اٹھا اٹھا کر اگلے محلے کے لوگوں سے فریاد کرتی ہے۔ “لوگو! میں لٹ گئی۔ ” اب اسے دوپٹے کی پرواہ نہیں۔ قمیض کی پرواہ نہیں۔ مانگ کا سیندور، بالوں کے پھول اور چوڑیاں، جذبات اور خیالات کے طوطے تک اڑ چکے ہیں۔

مدن کی آنکھوں سے بے تحاشہ آنسو بہہ رہے تھے۔ حالانکہ رسوئی میں اندو ہنس رہی تھی۔ پل بھرمیں اپنے سہاگ کے اجڑنے اور پھر بس جانے سے بے خبر۔ مدن جب حقائق کی دنیا میں واپس آیا تو آنسو پونچھتے ہوئے اپنے اس رونے پر ہنسنے لگاادھر اندو تو ہنس رہی تھی لیکن اس کی ہنسی دبی دبی تھی۔ بابو جی کے خیال سے وہ کبھی اونچی آواز میں نہ ہنستی تھی جیسے کھلکھلاہٹ کوئی ننگا پن ہے، خاموشی، دوپٹہ اور دبی دبی ہنسی ایک گھونگٹ۔ پھر مدن نے اندو کا ایک خیالی بت بنایا اور اس سے بیسیوں باتیں کر ڈالیں۔ یوں اس سے پیار کیا جیسے ابھی تک نہ کیا تھاوہ پھر اپنی دنیا میں لوٹا جس میں ساتھ کا بستر خالی تھا۔ اس نے ہولے سے آواز دیاندوایک اونگھ سی آئی لیکن ساتھ ہی یوں لگا جیسے شادی کی رات والی، پڑوسی سبطے کی بھینس منہ کے پاس پھنکارنے لگی ہے۔ وہ ایک بے کلی کے عالم میں اٹھا، پھر رسوئی کی طرف دیکھتے، سر کو کھجاتے ہوئے دو تین جمائیاں لے کر لیٹ گیاسو گیا

مدن جیسے کانوں کو کوئی سندیسہ دے کر سویا تھا۔ جب اندو کی چوڑیاں بستر کی سلوٹیں سیدھی کرنے سے کھنک اٹھیں تو وہ بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ یوں ایک دم جاگنے میں محبت کا جذبہ اور بھی تیز ہو گیا تھا۔ پیار کی کروٹوں کو توڑے بغیر آدمی سو جائے اور ایکا ایکی اٹھے تو محبت دم توڑ دیتی ہے۔ مدن کا سارا بدن اندر کی آگ سے پھنک رہا تھا۔ اور یہی اس کے غصے کا کرن بن گیا۔ جب اس نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔

“تو تم آ گئیں؟”

“ہاں۔”

“سنیسو مر گئی؟”

اندو جھکی جھکی ایک دم سیدھی کھڑی ہو گئی۔ “ہائے رام” اس نے ناک پر انگلی رکھتے ہوئے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ “کیا کہہ رہے ہومرے کیوں بیچاری۔ ماں باپ کی ایک نہ ہی بیٹی۔”

“ہاںمدن نے کہا۔”بھابھی کی ایک ہی نند۔” اور ایک دم تحکمانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے بولا۔ “زیادہ منہ مت لگاؤ اس چڑیل کو۔”

“کیوں اس میں کیا پاپ ہے؟”

“یہی پاپ ہے” مدن نے اور چڑتے ہوئے کہا۔ “وہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی تمہارا۔ جب دیکھو جونک کی طرح چمٹی ہوئی ہے۔ دفان ہی نہیں ہوتی۔”

“ہااندو نے مدن کی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ “بہنوں اور بیٹیوں کو یوں تو دھتکارنا نہیں چاہئے۔ بیچاری دو دن کی مہمان۔۔ آج نہیں تو کل۔ کل نہیں تو پرسوں۔ ایک دن تو چل ہی دے گی۔” اس کے بعد اندو کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن وہ چپ ہو گئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اپنے ماں باپ، بھائی بہن چچا بھی گھوم گئے۔ کبھی وہ بھی ان کی دلاری تھی۔ جو پلک جھپکتے ہی نیاری ہو گئی۔ اور پھر دن رات اس کے نکالے جانے کی باتیں ہو نے لگیں۔ جیسے گھر میں کوئی بڑی سی باہنی ہے جس میں کوئی ناگن رہتی ہے اور جب تک وہ پکڑ کر پھنکوائی نہیں جاتی۔ گھر کے لوگ آرام کی نیند سو نہیں سکتے۔ دور دور سے کیلنے والے لتھن کرنے والے۔ دات چھوڑنے والے ماندری بلوائے گئے اور بڑے دھتورے اور موتی ساگر۔ آخر ایک دن اتر پچھم کی طرف سے لال آندھی آئی جو صاف ہوئی تو ایک لاری کھڑی تھی جس میں گوٹے کنری میں لپٹی ہوئی ایک دلہن بیٹھی تھی۔ پیچھے گھر میں ایک سر پر بجھتی ہوئی شہنائی بین کی آواز معلوم ہورہی تھی۔ پھر ایک دھچکے کے ساتھ لاری چل دی۔ مدن نے کچھ برافروختگی کے عالم میں کہا”تم عورتیں بڑی چالاک ہوتی ہو۔ ابھی کل ہی اس گھر میں آئی ہو اور یہاں کے سب لوگ تمہیں ہم سے زیادہ پیار کرنے لگے ہیں؟”

“ہاں!” اندو نے اثبات میں کہا۔

“یہ سب جھوٹ ہےیہ ہو ہی نہیں سکتا۔”

“تمہارا مطلب ہے میں”

“دکھاوا ہے یہ سب ہاں!”

“اچھا جی؟” اندو نے آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہا۔ “یہ سب دکھاوا ہے میرا؟ اور اندو اٹھ کر اپنے بستر میں چلی گئی۔ اور سرہانے میں منہ چھپا کر سسکیاں بھرنے لگی۔ مدن اسے منانے والا ہی تھا کہ اندو خود ہی اٹھ کر مدن کے پاس آ گئی اور سختی سے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی۔ “تم جو ہر وقت جلی کٹی کہتے رہتے ہوہوا کیا ہے تمہیں؟” مجھے تم سے کچھ نہیں لینا۔”

“تمہیں کچھ نہیں لینا مجھے تو لینا ہے۔” اندو بولی۔ زندگی بھر لینا ہے اور وہ چھینا جھپٹی کرنے لگی۔ مدن اسے دھتکارتا تھا اور وہ اس سے لپٹ لپٹ جاتی تھی۔ وہ اس مچھلی کی طرح تھی جو بہاؤ میں بہہ جانے کی بجائے آبشار کے تیز دھارے کو کاٹتی ہوئی اوپر ہی اوپر پہنچانا چاہتی ہو۔

چٹکیاں لیتے ہوئے، ہاتھ پکڑتی، روتی ہنستی وہ کہہ رہی تھی

“پھر مجھے پھاپھا کٹنی کہو گے؟”

“وہ تو سبھی عورتیں ہوتی ہیں۔”

“ٹھہروتمہاری تو” یوں معلوم ہوا جیسے اندو کوئی گالی دینے والی ہواور اس نے منہ میں کچھ منمنایا بھی۔ مدن نے مڑتے ہوئے کہا۔ “کیا کہا؟” اور اندو نے اب کی سنائی دینے والی آواز میں دہرایا۔ مدن کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ اگلے ہی لمحے اندو مدن کے بازوؤں میں تھی اور کہہ رہی تھی “تم مرد لوگ کیا جانو؟جس سے پیار ہوتا ہے اس کے سبھی عزیز پیارے معلوم ہوتے ہیں۔ کیا باپ کیا بھائی اور کیا بہن” اور ایکا ایکی کہیں دور سے دیکھتے ہوئے بولی۔ “میں تو دلاری منی کا بیاہ کروں گی۔”

“حد ہو گئی” مدن نے کہا۔ “ابھی ایک ہاتھ کی ہوئی نہیں اور بیاہ کی سوچنے لگیں۔”

“تمہیں ایک ہاتھ کی لگتی ہے نا؟” اندو بولی اور پھر اپنے ہاتھ مدن کی آنکھوں پر رکھتے ہوئے کہنے لگی۔ “ذرا آنکھیں بند کرو اور پھر کھولو۔” مدن نے سچ مچ ہی آنکھیں بند کر لیں اور جب کچھ دیر تک نہ کھولیں تو اندو بولی۔ “اب کھولو بھیاتنی دیر میں تو میں بوڑھی ہو جاؤں گی۔ جبھی مدن نے آنکھیں کھول دیں۔ لمحہ بھر کے لئے اسے یوں لگا جیسے سامنے اندو نہیں منی بیٹھی ہے اور وہ کھو سا گیا۔ بلکہ موقع نہ پا کر اس شلوار کو جو بہو دھوتی سے بدل آتی اور جسے وہ ہمیشہ اپنی ساس والے پرانے صندل کے صندوق پر پھینک دیتی، اٹھا کر کھونٹی پر لٹکا دیتے۔ ایسے میں انہیں سب سے نظریں بچانا پڑتیں لیکن ابھی شلوار کو سمیٹ کر مڑتے ہی تو نیچے کونے میں نگاہ بہو کے محرم پر پڑ جاتی۔ تب ان کی ہمت جواب دے جاتی اور وہ شتابی کمرے سے نگل بھاگتے۔ جیسے سانپ کا بچہ بل سے باہر آگیا ہو۔ پھر برآمدے میں ان کی آواز سنائی دینے لگی۔ اوم نموم بھوتے دا سو دیوا

اڑوس پڑوس کی عورتوں نے بابو جی کی خوبصورتی کی داستانیں دور دور تک پہنچا دی تھیں۔ جب کوئی عورت بابو جی کے سامنے بہو کے پیارے پن اور سڈول جسم کی باتیں کرتی تو وہ خوشی سے پھول جاتے اور کہتے “ہم تو دھنیہ ہو گئے، امی چند کی ماں! شکر ہے ہمارے گھر میں بھی کوئی صحت والا جیو آیا۔” اور یہ کہتے ہوئے ان کی نگاہیں کہیں دور پہنچ جاتیں۔ جہاں دق کے عارضے تھے۔ دوائی کی شیشیاں، اسپتال کی سیڑھیاں یا چیونٹیوں کے بل، نگاہ قریب آتی تو موٹے موٹے گدرائے ہوئے جسم والے کئی بچے بغل میں جانگھ پر، گردن پر چڑھتے اترتے ہوئے محسوس ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا جیسے ابھی اور آ رہے ہیں۔ پہلو پر لیٹی ہوئی بہو کی کمر زمین کے ساتھ اور کولہے چھت کے ساتھ لگ رہے ہیں اور وہ دھڑا دھڑ بچے جنتی جا رہی ہے اور ان بچوں کی عمر میں کوئی فرق نہیں۔ کوئی بڑا ہے نہ چھوٹا۔ سبھی ایک سےجڑواںتوام اوم نمو بھگوتے

آس پاس کے سب لوگ جان گئے تھے۔ اندو بابو جی کی چہیتی بہو ہے۔ چنانچہ دودھ اور چھاچھ کے مٹکے دھنی رام کے گھر آنے لگے اور پھر ایک دم سلام دین گوجر نے فرمائش کر دی۔ اندو نے کہا “بی بی میرا بیٹا آر۔ ایم۔ ایس میں قلی رکھوا دو۔ اللہ تم کو اچھا دے گا۔ ” اندو کے اشارے کی دیر تھی کہ سلام دین کا بیٹا نو کر ہو گیا۔ وہ بھی سارٹر، جو نہ ہو سکا اس کی قسمت، آسامیاں زیادہ نہ تھیں۔

بہو کے کھانے پینے اور اس کی صحت کا بابو جی خیال رکھتے تھے۔ دودھ پینے سے اندو کو چڑ تھی۔ وہ رات کے وقت خود دودھ کو بالائی میں پھینٹ، گلاس میں ڈال، بہو کو پلانے کے لئے اس کی کھٹیا کے پاس آ جاتے۔ اندو اپنے آپ کو سمیٹتے ہوئے اٹھتی اور کہتی۔”نہیں بابو جی مجھ سے نہیں پیا جاتا۔” “تیرا تو سسر بھی پئے گا۔ ” وہ مذاق سے کہتے۔

“تو پھر آپ پی لیجیئے نا۔” اندو ہنستی ہوئی جواب دیتی اور بابو جی ایک مصنوعی غصے سے برس پڑتے۔ “تو چاہتی ہے بعد میں تیری بھی وہی حالت ہو جو تیری ساس کی ہوئی؟”

ہوںہوںاندو لاڈ سے روٹھنے لگی۔ آخر کیوں نہ روٹھتی۔ وہ لوگ نہیں روٹھتے جنہیں منانے والا کوئی نہ ہو لیکن یہاں منانے والے سب تھے، روٹھنے والا صرف ایک۔ جب اندو بابو جی کے ہاتھ سے گلاس نہ لیتی تو وہ اسے کھٹیا کے پاس سرہانے کے نیچے رکھ دیتےاور “لے یہ پڑا ہے”، تیری مرضی ہے تو پی نہیں مرضی تو نہ پی” کہتے ہوئے چل دیتے۔

اپنے بستر پر پہنچ کر دھنی رام دلاری منی کے پاس کھیلنے لگتے۔ دلاری کو بابو جی کے ننگے پنڈے کے ساتھ پنڈا گھسانے اور پھر پیٹ پر منہ رکھ کر پھنکڑا پھلانے کی عادت تھی۔ آج جب بابو جی اور منی یہ کھیل کھیل رہے تھے۔ ہنس ہنسا رہے تھے، تو منی نے بھابی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “دودھ تو خراب ہو جائے گا بابو جی۔ بھابی تو پیتی ہی نہیں۔”

“پئے گی ضرور پئے گی بیٹا” بابو جی نے دوسرے ہاتھ سے پاشی کو لپٹاتے ہوئے کہا۔ “عورتیں گھر کی کسی چیز کو خراب ہوتے نہیں دیکھ سکتیں۔”

ابھی یہ فقرہ بابو جی کے منہ ہی میں ہوتا کہ ایک طرف سے “ہشہے خصم کھانی” کی آواز آنے لگتی۔ پتہ چلتا بہو بلی کو بھگا رہی ہے اور پھر غٹ غٹ سی سنائے دیتی اور سب جان لیتے بہوبھابی نے دودھ پی لیا۔ کچھ دیر کے بعد کندن بابو جی کے پاس آتا اور کہتا “بوجیبھابی رو رہی ہے۔”

“ہائیں؟” بابو جی کہتے اور پھر اٹھ کر اندھیرے میں دور اسی طرف دیکھنے لگتے جدھر بہو کی چارپائی پڑی ہوتی۔ کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ پھر لیٹ جاتے اور کچھ سمجھتے ہوئے کندن سے کہتے۔ “جاتو سو جاوہ بھی سو جائے گی اپنے آپ۔”

اور پھر لیٹتے ہوئے بابو دھنی رام آسمان پر کھلے ہوئے پرماتما کے گلزار کو دیکھنے لگتے اور اپنے من میں بھگوان سے پوچھتے” چاندی کے ان کھلتے بند ہوئے ہوئے پھولوں میں میرا پھول کہا ہے؟” اور پھر پورا آسمان انہیں درد کا ایک دریا دکھائی دینے لگتا اور کانوں میں مسلسل ایک ہاؤ کی آواز سنائی دیتی جسے سنتے ہوئے وہ کہتے۔”جب سے دنیا بنی ہے انسان کتنا رویا ہے!” اور روتے روتے سو جاتے۔

اندو کے جانے سے بیس پچیس روز ہی میں مدن نے واویلا شروع کر دیا۔ اس نے لکھا۔ میں بازار کی روٹیاں کھاتے کھاتے تنگ آگیا ہوں۔ مجھے قبض ہو گئی ہے۔ گردے کا درد شروع ہو گیا ہے۔ پھر جیسے دفتر کے لوگ چھٹی کی عرضی کے ساتھ ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ بھیج دیتے ہیں۔ مدن نے بابو جی کو ایک دوسرے سے تصدیق کی چھٹی لکھوا بھیجی۔ اس پر بھی جب کچھ نہ ہوا تو ایک ڈبل تارجوابی۔ جوابی تار کے پیسے مارے گئے لیکن بلا سے۔ اندو اور بچے لوٹ آئے تھے۔ مدن نے اندو سے دو دن سیدھے منہ بات ہی نہ کی۔ یہ دکھ بھی اندو ہی کا تھا۔ ایک دن مدن کو اکیلے میں پا کر وہ پکڑ بیٹھی اور بولی۔ “اتنا منہ پھلائے بیٹھے ہومیں نے کیا کیا ہے؟”

مدن نے اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے کہا۔ “چھوڑدور ہو جا میر آنکھوں سے کمی”

“یہی کہنے کے لئے اتنی دور سے بلوایا ہے؟”

“ہاں!”

“ہٹاؤ اب۔”

“خبرداریہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے جو تم آنا چاہتی تو کیا بابو جی روک لیتے؟”

اندو نے بے بسی سے کہا۔ “ہائے جیتم بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ میں انہیں بھلا کیسے کہہ سکتی تھی؟ سچ پوچھو تو تم نے مجھے بلوا کر بابو جی پر تو بڑا جلم کیا ہے۔”

“کیا مطلب ؟”

“مطلب کچھ نہیںان کا جی بہت لگا ہوا تھا بال بچوں میں۔”

“اور میرا جی؟”

“تمہارا جی؟” تم تو کہیں بھی لگا سکتے ہو۔ اندو نے شرارت سے کہا اور اس طرح سے مدن کی طرف دیکھا کہ اس کی مدافعت کی ساری قوتیں ختم ہو گئیں۔ یوں بھی اسے کسی اچھے سے بہانے کی تلاش تھی۔ ا س نے اندو کو پکڑ کر سینے سے لگا لیا۔ اور بولا۔ “بابو جی تم سے بہت خوش تھے؟”

“ہاں” اندو بولی۔ “ایک دن میں جاگی تو دیکھا سرہانے کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں۔”

“یہ نہیں ہو سکتا۔”

“اپنی قسم!”

“اپنی قسم نہیںمیری قسم کھاؤ۔”

“تمہاری قسم تو میں نہیں کھاتیکوئی کچھ بھی دے۔”


“ہاں!” مدن نے سوچتے ہوئے کہا۔ “کتابوں میں اسے سیکس کہتے ہیں۔”

“سیکس؟” اندو نے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے؟۔

“وہی جو مرد اور عورت کے بیچ ہوتا ہے۔”

“ہائے رام!” اندو نے ایک دم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔ “گندے کہیں کے شرم نہیں آئی بابو جی کے بارے میں ایسا سوچتے ہوئے؟”

“تو بابو جی کو نہ آئی تجھے دیکھتے ہوئے؟”

“کیوں؟” اندو نے بابو جی کی طرف داری کرتے ہوئے کہا۔ “وہ اپنی بہو کو دیکھ کر خوش ہو رہے ہوں گے۔”

“کیوں نہیں۔ جب بہو تم ایسی ہو۔”

“تمہارا من گندا ہے۔ اندو نے نفرت سے کہا۔ اس لئے تمہارا کاروبار بھی گندے بروزے کا ہے۔ تمہاری کتابیں سب گندگی سے بھری پڑ ی ہیں۔ تمہیں اور تمہاری کتابوں کو اس کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے تو جب میں بڑی ہو گئی تھی تو میرے پتا جی نے مجھ سے ادھک پیار کر نا شروع کر دیا تھا۔ تو کیا وہ بھیوہ تھا نگوڑاجس کا تم ابھی نام لے رہے تھے۔” اور پھر اندو بولی۔ “بابو جی کو یہاں بلا لو۔ ان کا وہاں جرا بھی جی نہیں لگتا۔ وہ دکھی ہوں گے تو کیا تم دکھی نہیں ہو گے؟”

مدن اپنے باپ سے بہت پیا ر کرتا تھا۔ گھر میں ماں کی موت نے بڑا ہونے کے کارن سب سے زیادہ اثر مدن پر ہی کیا تھا۔ اسے اچھی طرح سے یاد تھا۔ ماں کے بیمار رہنے کے باعث جب بھی اس کی موت کا خیال مدن کے دل میں آتا تو آنکھیں موند کر پرارتھنا شروع کر دیتااوم نمو بھگوتے دا سوویوا۔ اوم نمواب وہ نہیں چاہتا تھا کہ باپ کی چھتر چھایا بھی سر سے اٹھ جائے۔ خاص طور پر ایسے میں جبکہ وہ اپنے کاروبار کو بھی جما نہیں پایا تھا۔ اس نے غیر یقینی لہجے میں اندو سے صرف اتنا کہا۔ “ابھی رہنے دو بابو کو۔ شادی کے بعد ہم دونوں پہلی بار آزادی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔”

تیسرے چوتھے روز بابو جی کا آنسوؤں میں ڈوبا ہوا خط آیا۔ میرے پیارے مدن کے تخاطب میں میرے پیارے کے الفاظ شور پانیوں میں دھل گئے تھے۔ لکھا تھا۔ “بہو کے یہاں ہونے پر میر ے تو وہی پرانے دن لوٹ آئے تھے، تمہاری ماں کے دن، جب ہماری نئی شادی ہوئی تھی تو وہ بھی ایسی ہی الہڑ تھی۔ ایسے میں اتارے ہوئے کپڑے ادھر ادھر پھینک دیتی۔ اور پتا جی سمیٹتے پھرتے۔ وہی صندل کا صندوق، وہی بیسویں خلجنمیں بازار جا رہا ہوں۔ آ رہا ہوں۔ کچھ نہیں تو دہی بڑے یا ربڑی لا رہا ہوں۔ اب گھر میں کوئی نہیں۔ وہ جگہ جہاں صندل کا صندوق پڑا تھا، خالی ہے” اور پھر ایک آدھ سطر اور دھل گئی تھی۔ آخر میں لکھا تھا۔ “دفتر سے لوٹتے سمے، یہاں کے بڑے بڑے اندھے کمروں میں داخل ہوتے ہوئے میرے من میں ایک ہول سا اٹھتا ہے۔ ” اور پھر”بہوکا خیال رکھنا۔ اسے کسی ایسی ویسی دایہ کے حوالے مت کرنا۔”

اندو نے دونوں ہاتھوں سے چٹھی پکڑ لی۔ سانس کھینچ لی، آنکھیں پھیلاتی شرم سے پانی پانی ہوتی ہوئی بولی۔ “میں مر گئی۔ بابو جی کو کیسے پتہ چل گیا؟”

مدن نے چٹھی چھڑاتے ہوئے کہا۔ “بابو جی کیا کہتے ہیں؟دنیا دیکھی ہے۔ ہمیں پیدا کیا ہے۔

“ہاں مگر۔” اندو بولی۔ “ابھی دن ہی کے ہوئے ہیں۔”اور پھر اس نے ایک تیز سی نظر اپنے پیٹ پر ڈالی جس نے ابھی بڑھنا بھی شروع نہیں کیا تھا اور جیسے بابو جی یا کوئی اور دیکھ رہا ہو۔ اس نے ساری کا پلو اس پر کھینچ لیا اور کچھ سوچنے لگی۔ جبھی ایک چمک سی اس کے چہرے پر آئی اور وہ بولی۔”تمہاری سسرال سے شیرینی آئے گی۔”

“میری سسرال؟”اور ہاں۔ مدن نے راستہ پاتے ہوئے کہا۔ “کتنی شرم کی بات ہے۔ ابھی چھ آٹھ مہینے شادی کے ہوئے ہیں اور چلا آ رہا ہے۔ “اور اس نے اندو کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔

مدن کی ٹانگیں ابھی تک کانپ رہی تھیں۔ اس وقت خوف سے نہیںتسلی سے۔

“چلا آیا ہے یا تم لائے ہو؟”

“تمیہ سب قصور تمہارا ہے۔ کچھ عورتیں ہوتی ہی ایسی ہیں۔”

“تمہیں پسند نہیں؟”

“ایک دم نہیں”

“کیوں؟”

“چار دن تو مزے لے لیتی زندگی کے۔”

“کیا یہ جندگی کا مجا نہیں؟” اندو نے صدمہ زدہ لہجے میں کہا۔ مرد عورت شادی کس لئے کرتے ہیں؟ بھگوان نے بن مانگے دے دیا نا؟ پوچھو ان سے جن کے نہیں ہوتا۔ پھر وہ کیا کچھ کرتی ہیں۔ پیروں فقیروں کے پاس جاتی ہیں۔ سمادھیوں، مجاوروں پر چوٹیاں باندھتی ہیں، شرم و حیا تج کر دریاؤں کے کنارے ننگی ہو کر سرکنڈے کاٹتی، شمسانوں میں مسان جگاتی۔”

“اچھا! اچھا!” مدن بولا۔ “تم نے بکھان ہی شروع کر دیا۔ اولاد کے لئے تھوڑی عمر پڑی تھی۔؟”

“ہو گا تو!” اندو نے سرزنش کے انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔”جب تم اسے ہاتھ بھی مت لگانا۔ وہ تمہارا نہیں، میرا ہو گا۔ تمہیں تو اس کی جرورت نہیں، پر اس کے دادا کو بہت ہے۔ یہ میں جانتی ہوں۔” اور پھر کچھ خجل، کچھ صدمہ زدہ ہو کر اندو نے اپنا منہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔ وہ سوچتی تھی پیٹ میں اس ننھی سی جان کو پالینے کے سلسلے میں، اس جان کا ہوتا سوتا تھوڑی بہت ہمدردی تو کرے گا ہی لیکن مدن چپ چاپ بیٹھا رہا۔ ایک لفظ بھی اس نے منہ سے نہ نکالا۔ اندو نے چہرے پر سے ہاتھ اٹھا کر بدن کی طرف دیکھا اور ہونے والی پہلوٹن کے خاص انداز میں بولی۔ “وہ تو جو کچھ میں کہہ رہی ہوں سب پیچھے ہو گا۔ پہلے تو میں بچوں گی ہی نہیںمجھے بچپن سے وہم ہے اس بات کا۔”

مدن بھی جیسے خائف ہو گیایہ خوبصورت “چیز” جو حاملہ ہو جانے کے بعد اور بھی خوبصورت ہو گئی ہے مر جائے گی؟ اس نے پیٹھ کی طرف سے اندو کو تھام لیا اور پھر کھینچ کر اپنے بازوؤں میں لے آیا اور بولا۔ “تجھے کچھ نہ ہو گا اندومیں تو موت کے منہ سے بھی چھین کر لے آؤں گا تجھےاب ساوتری کی نہیں، سیہ دان کی باری ہے”

مدن سے لپٹ کر اندو بھول ہی گئی کہ اس کا اپنا بھی کوئی دکھ ہے

اس کے بعد بابو جی نے کچھ نہ لکھا۔ البتہ سہارنپور سے ایک سارٹر آیا جس نے صرف اتنا بتایا کہ بابو جی کو پھر سے دورے پڑنے لگے ہیں۔ ایک دورے میں تو وہ قریب قریب چل ہی بسے تھے۔ مدن ڈر گیا۔ اندو رونے لگی۔ سارٹر کے چلے جانے کے بعد ہمیشہ کی طرح مدن نے آنکھیں موند لیں اور من ہی من میں پڑھنے لگااوم نمو بھگوتے

دوسرے روز ہی مدن نے باپ کو چٹھی لکھیبابو جی! چلے آؤبچے بہت یاد کرتے ہیں اور آپ کی بہو بھی ” لیکن آخری نوکری تھی۔ اپنے بس کی بات تھوڑی تھی۔ دھنی رام کے خط کے مطابق وہ چٹھی کا بندوبست کررہے تھےان کے بارے میں دن بہ دن مدن کا احساس جرم بڑھنے لگا۔”اگر میں اندو کو وہیں رہنے دیتا تو میرا کیا بگڑجاتا؟”


وجے دشمی سے ایک رات پہلے مدن اضطراب کے عالم میں بیچ والے کمرے کے باہر برآمدے میں ٹہل رہا تھا کہ اندر سے رو نے کی آواز آئی اور وہ چونک کر دروازے کی طرف لپکا۔ بیگم دایہ باہر آئی اور بولی۔ “مبارک ہو۔ “مبارک ہو بابو جیلڑکا ہوا ہے۔”

“لڑکا ؟” مدن نے کہا اور پھر متفکرانہ لہجے میں بولا۔ “بی بی کیسی ہے؟”۔

بیگم بولی۔ “خیر مہر ہےمیں نے ابھی تک اسے لڑکی ہی بتائی ہےزچہ زیادہ خوش ہو جائے تو ا س کی آنول نہیں گرتی نا۔”

“تو” مدن نے بیوقوفوں کی طرح آنکھیں جھپکتے ہوئے کہا اور کمرے میں جانے کے لئے آگے بڑھا۔ بیگم نے اسے وہیں روک دیا اور کہنے لگی۔ “تمہارا اندر کیا کام؟” اور پھر ایکا ایکی دروازہ بھیڑ کر اندر لپک گئی یا شاید اس لئے کہ جب کوئی اس دنیا میں آتا ہے تو ارد گرد کے لوگوں کی یہی حالت ہوتی ہے۔ مدن نے سن رکھا تھا جب لڑکا پیدا ہوتا ہے تو گھر کے در و دیوار لرزنے لگتے ہیں۔ گویا ڈر رہے ہیں کہ بڑا ہو کر ہمیں بیچے گا یا رکھے گا۔ مدن نے محسوس کیا کہ جیسے سچ مچ ہی دیواریں کانپ رہی تھیںزچگی کے لئے چکلی بھابی تو نہ آئی تھیں کیونکہ اس کا اپنا بچہ تو بہت چھوٹا تھا البتہ دریا آباد والی پھوپھی ضرور پہنچی تھیں جس نے پیدائش کے وقت رام، رام، رام، رام کی رٹ لگا دی تھی اور اب وہی رٹ مدھم ہو رہی تھی۔

زندگی بھر مدن کو اپنا آپ اس قدر فضول اور بیکار نہ لگا تھا۔ اتنے میں پھر دروازہ کھلا اور پھوپھی نکلی۔ برآمدے کی بجلی کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ بھوت کے چہرے کی طرح ایک دم دودھیا نظر آ رہا تھا۔ مدن نے اس کا راستہ روکتے ہوئے کہا”اندو ٹھیک ہے نا پھوپھی۔”

“ٹھیک ہے ٹھیک ہے ٹھیک ہے! پھوپھی نے تین چار بار کہا اور پھر اپنا لرزتا ہوا ہاتھ مدن کے سر پر رکھ کر اسے نیچا کیا، چوما اور باہر لپک گئی”

پھوپھی برآمدے کے دروازے میں سے باہر جاتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ وہ بیٹھک میں پہنچی جہاں باقی بچے سو رہے تھے۔ پھوپھی نے ایک ایک کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر چھت کی طرف آنکھیں اٹھا کر منہ میں کچھ بولی اور پھر نڈھال سی ہو کر منی کے پاس لیٹ گئی اوندھیاس کے پھڑکتے ہوئے شانوں سے پتہ چل رہا تھا جیسے رو رہی ہے۔ مدن حیران ہواپھوپھی تو کئی زچگیوں سے گزر چکی ہے، پھر کیوں اس کی روح کانپ اٹھی ہےپھر ادھر کے کمرے سے ہر مل کی بو باہر لپکی۔ دھوئیں کا ایک غبار سا آیا۔ جس نے مدن کا احاطہ کر لیا۔ اس کا سر چکرا گیا۔ جبھی بیگم دایہ کپڑے میں کچھ لپیٹے ہوئے باہر نکلی۔ کپڑے پر خون ہی خون تھا۔ جس میں کچھ قطرے نکل کر فرش پر گر گئے۔ مدن کے ہوش اڑ گئے۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہا ں ہے۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ بیچ میں اندو کی ایک نر گھلی سی آواز آئی۔”ہائےئے” اور پھر بچے کے رونے کی آواز۔”

تین چار دن میں بہت کچھ ہوا۔ مدن نے گھر کے ایک طرف گڑھا کھو د کر آنول کو دبا دیا۔ کتوں کو اندر آنے سے روکا لیکن اسے کچھ یاد نہ تھا۔ اسے یوں لگا جیسے ہرمل کی بو دماغ میں بس جانے کے بعد آج ہی اسے ہوش آیا ہے، کمرے میں وہ اکیلا ہی تھا اور اندونند اور جسووھااور دوسری طرف نند لالاندو نے بچے کی طرف دیکھا اور کچھ ٹوہ لینے کے سے انداز میں بولی۔ “بالک تم ہی پر گیا ہے۔”

“ہو گا۔” مدن نے ایک اچٹتی ہوئی نظر بچے پر ڈالتے ہوئے کہا۔ “میں تو کہتا ہوں شکر ہے بھگوان کا کہ تم بچ گئیں۔”

“ہاں!” اندو بولی۔ “میں تو سمجھتی تھی”

“شبھ شبھ بولو۔”مدن نے ایک دم اندو کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ “یہاں تو جو کچھ ہوا ہےمیں تو اب تمہارے پاس بھی نہیں پھٹکوں گا۔” اور مدن نے زبان دانتوں تلے دبا لی۔”

“توبہ کرو۔” اندو بولی۔

مدن نے اسی دم کان اپنے ہاتھ سے پکڑ لئےاور اندو نحیف آواز میں ہنسنے لگی۔

بچہ ہونے کے کئی روز تک اندو کی ناف ٹھکانے پر نہ آئی۔ وہ گھوم گھوم کر اس بچے کی تلاش کر رہی تھی جو اب اس سے پرے، باہر کی دنیا میں جا کر اپنی اصلی ماں کو بھول گیا تھا۔ اب سب کچھ ٹھیک تھا اور اندو شانتی سے اس دنیا کو تک رہی تھیمعلوم ہوتا تھا اس نے مدن ہی کے نہیں دنیا بھر کے گناہگاروں کے گناہ معاف کر دئے ہیں اور دیوی بن کر دیا اور کرونا کے پرساد بانٹ رہی ہےمدن نے اندو کے منہ کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا۔ اس سارے خون خرابے کے بعد کچھ دبلی ہو کر اندو اور بھی اچھی لگنے لگی ہےجبھی ایکا ایکی اندو نے دونوں ہاتھ اپنی چھاتیوں پر رکھ لئے۔

“کیا ہوا؟” مدن نے پوچھا۔

“کچھ نہیں۔ اندو تھوڑا سا اٹھنے کی کوشش کر کے بولی۔ “اسے بھوک لگی ہے” اور اس نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔

“اسے؟بھوک؟”مدن نے پہلے بچے کی طرف اور پھر اندو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا “تمہیں کیسے پتہ چلا؟”

“دیکھتے نہیں” اندو نیچے کی طرف نگاہ کرتے ہوئے بولی۔ “سب کچھ گیلا ہو گیا ہے۔”

مدن نے غور سے ڈھیلے ڈھالے گلے کی طرف دیکھا۔ جھر جھر دودھ بہہ رہا تھا اور ایک خاص قسم کی بو آ رہی تھی۔ پھر اندو نے بچے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

“اسے مجھے دے دو!”

مدن نے ہاتھ پنگھوڑے کی طرف بڑھایا اور اسی دم کھینچ لیا۔ پھر کچھ ہمت سے کام لیتے ہوئے اس نے بچے کو یوں اٹھایا جیسے وہ کوئی مرا ہوا چوہا ہے۔ آخر اس نے بچے کو اندو کی گود میں دے دیا۔ اندو مدن کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ “تم جاؤباہر۔”

“کیوں؟”باہر کیوں جاؤں؟” مدن نے پوچھا۔

“جاؤ نا۔ اندو نے کچھ مچلتے، کچھ شرماتے ہوئے کہا۔”تمہارے سامنے میں دودھ نہیں پلا سکوں گی۔” “ارے؟ مدن حیرت سے بولا” میرے سامنے؟نہیں پلا سکے گی۔” اور پھر نا سمجھی کے انداز میں سر کو جھٹکا دے کر باہر کی طرف چل نکلا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے مڑتے ہوئے اندو پر ایک نگاہ ڈالی۔ اتنی خوبصورت اندو آج تک نہیں لگی تھی۔

بابو دھنی رام چھٹی پر گھر لوٹے تو وہ پہلے سے آدھے دکھائی پڑتے تھے۔ جب اندو نے پوتا ان کی گود میں دیا تو وہ کھل اٹھے۔ ان کے پیٹ کے اندر کوئی پھوڑا نکل آیا تھا جو چوبیس گھٹنے انہیں سولی پر لٹکائے رکھتا۔ اگر منا روتا تو بابو جی کی اس سے دس گنا بری حالت ہوتی۔

کئی علاج کئے گئے۔ بابو جی کے آخری علاج میں ڈاکٹر نے ادھنی کے برابر پندرہ بیس گولیاں روز کھانے کو دیں۔ پہلے ہی دن انہیں اتنا پسینہ آیا کہ دن میں تین تین چار چار بار کپڑے بدلنے پڑے۔ ہر بار مدن کپڑے اتار کر بالٹی میں نچوڑتا۔ صرف پسینے سے ہی بالٹی ایک چوتھائی ہو گئی تھی۔ رات انہیں متلی سی محسوس ہونے لگی تھی اور انہوں نے پکارا”بہو ذرا داتن تو دینا ذائقہ بہت خراب ہو رہا ہے۔” بہو بھاگی ہوئی گئی اور داتن لے کر آئی۔ بابو جی اٹھ کر داتن چبا ہی رہے تھے کہ ایک ابکائی آئی۔ ساتھ ہی خون کا پرنالہ لے آئی۔ بیٹے نے واپس سرہانے کی طرف لٹایا تو ان کی پتلیاں پھر چکی تھیں اور کوئی ہی دم میں وہ اوپر آسمان کے گلزار میں پہنچ چکے تھے جہاں انہوں نے اپنا پھول پہچان لیا تھا

منے کو پیدا ہوئے کُل بیس پچیس روز ہوئے تھے۔ اندو نے منہ نوچ کر، سر اور چھاتی پیٹ پیٹ کر خود کو نیلا کر لیا۔ مدن کے سامنے وہی منظر تھا جو اس نے تصور میں اپنے مرنے پر دیکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اندو نے چوڑیاں توڑنے کی بجائے اتار کر رکھ دی تھیں۔ سر پر راکھ نہیں ڈالی تھی لیکن زمین پر سے مٹی لگ جانے اور بالوں کے بکھر جانے سے چہرہ بھیانک ہو گیا تھا۔ “لوگو! میں لٹ گئی۔” کی جگہ اس نے ایک دل دوز آواز میں چلانا شروع کر دیا تھا۔ “لوگو! ہم لٹ گئے!”

گھر بارکا کتنا بوجھ مدن پر آ پڑا تھا۔ اب کا ابھی مدن کو پوری طرح اندازہ نہ تھا۔ صبح ہونے تک اس کا دل لپک کر منہ میں آگیا۔ وہ شاید بچ نہ پاتا۔ اگر وہ گھر کے باہر بدرو کے کنارے سیل چڑھی مٹی پر اوندھا لیٹ کر اپنے دل کو ٹھکانے پر نہ لاتادھرتی ماں نے چھاتی سے لگا کر اپنے بچے کو بچا لیا تھا۔ چھوٹے بچے کندن، دلاری منی، پاشی یوں چلا رہے تھے جیسے گھونسلے پر شکرے کے حملے پر چڑیا کے بونٹ چونچیں اٹھا اٹھا کر چیں چیں کرتے ہیں۔ انہیں اگر کوئی پروں کے اندر سمیٹتی ہے تو اندونالی کے کنارے پڑے پڑے مدن نے سوچا اب تو یہ دنیا میرے لئے ختم ہو گئی ہے۔ کیا میں جی سکوں گا؟ زندگی میں کبھی ہنس بھی سکوں گا؟ وہ اٹھا اور اٹھ کر گھر کے اندر چلا آیا۔

سیڑھیوں کے نیچے غسل خانہ تھا جس میں گھس کر اندر سے کواڑ بند کرتے ہوئے مدن نے ایک بار پھر اس سوال کو دہرایا”میں کبھی ہنس بھی سکوں گا؟” اور وہ کھل کھلا کر ہنس رہا تھا۔ حالانکہ اس کے باپ کی لاش ابھی پاس ہی بیٹھک میں پڑی تھی۔

باپ کو آگ میں حوالے کرنے سے پہلے مدن ارتھی پر پڑے ہوئے جسم کے سامنے ڈنڈوت کے انداز میں لیٹ گیا۔ یہ اس کا اپنے جنم داتا کو آخری پرنام تھا۔ تس پر بھی وہ رو نہ رہا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ماتم میں شریک ہونے والے رشتہ دار محلہ سن سے رہ گئے۔ پھر ہندو راج کے مطابق سب سے بڑا بیٹا ہونے کی حیثیت سے مدن کو چتا جلانی پڑی۔ جلتی ہوئی کھوپڑی میں کپال کرپا کی لاٹھی مارنی پڑتیعورتیں باہر ہی سے شمشان کے کنویں پر سے نہا کر لوٹ چکی تھیں۔ جب مدن گھر پہنچا تو وہ کانپ رہا تھا۔ دھرتی ماں نے تھوڑی دیر کے لئے جو طاقت اپنے بیٹے کو دی تھی، رات گھر کے گھر آنے پر پھر سے ہول میں ڈھل گئیاسے کوئی سہارا چاہئے تھا، کسی ایسے جذبے کا سہارا جو موت سے بھی بڑا ہو۔ اس وقت دھرتی ماں کی بیٹی جنک دلاری اندو نے کسی گھڑے میں سے پیدا ہو کر اس رام کو اپنی بانہوں میں لے لیااس رات کو اگر اندو اپنا آپ یوں اس پر نثار نہ کرتی تو اتنا بڑا دکھ مدن کو لے ڈوبتا۔

دس ہی مہینے کے اندر اندر ان کا دوسرا بچہ چلا آیا۔ بیوی کو اس دوزخ کی آگ میں دھکیل کر خود اپنا دکھ بھول گیا تھا۔ کبھی کبھی اسے خیال آتا اگر میں شادی کے بعد بابو جی کے پاس گئی ہوتی تو اندو کو نہ بلا لیتا تو شاید وہ اتنی جلدی نہ چل دیتے لیکن پھر وہ باپ کی موت سے پیدا ہونے والے خسارے کو پورا کرنے میں لگ جاتاکاروبار جو پہلے بے توجہی کی وجہ سے بند ہو گیا تھامجبوراً چل نکلا ان دنوں بڑے بچے کو مدن کے پاس چھوڑ کر، چھوٹے کو چھاتی سے گلے لگائے اندو میکے چلی گئی۔ پیچھے منا طرح طرح کی ضد کرتا تھا جو کبھی مانی جاتی تھی اور کبھی نہیں بھی۔ میکے سے اندو کا خط آیامجھے یہاں اپنے بیٹے کے رونے کی آواز آ رہی ہے، اسے کوئی مارتا تو نہیں؟ مدن کو بڑی حیرت ہوئیایک جاہل ان پڑھ عورت ایسی باتیں کیسے لکھ سکتی ہے؟ پھر اس نے اپنے آپ سے پوچھاکیا یہ بھی کوئی رٹا ہوا فقرہ ہے؟

سال گزر گئے۔ پیسے کبھی اتنے نہ آئے کہ ان میں سے کچھ پیش ہو سکے لیکن گزارے کے مطابق آمدنی ضرور ہو جاتی تھی۔ دقت اس وقت پر ہوتی جب کوئی بڑا خرچ سامنے آ جاتاکندن کا داخلہ دینا ہے، دلاری منی کا شگن بھجوانا ہے۔ اس وقت مدن منہ لٹکا کر بیٹھ جاتا اور پھر اندو ایک طرف سے آتی مسکراتی ہوئی اور کہتی “کیوں دکھی ہو رہے ہو؟” مدن امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا۔ “دکھی نہ ہوں؟ کندن کا بی اے کا داخلہ دینا ہے منی” اندو پھر ہنستی اور کہتی۔ “چلو میرے ساتھ ” اور مدن بھیڑ کے بچے کی طرح اندو کے پیچھے چل دیتا۔ اندو صندل کے صندوق کے پاس پہنچتی جسے کسی کو، مدن سمیت ہاتھ لگانے کی اجازت نہ تھی۔ کبھی کبھی اس بات پر خفا ہو کر مدن کہتا۔ “مرو گی تو اسے بھی چھاتی پر ڈال کے لے جانا۔”اور اندو کہتی۔ “ہاں! لے جاؤں گی۔” پھر اندو وہاں سے مطلوبہ رقم نکال کر سامنے رکھ دیتی۔

“یہ کہاں سے آ گئے؟”

“کہیں سے بھیتمہیں آم کھانے سے مطلب ہے۔”

“پھر بھی؟”

“تم جاؤ اپنا کام چلاؤ۔”

اور جب مدن زیادہ اصرار کرتا تو اندو کہتی۔ “میں نے ایک سیٹھ دوست بنایا ہے نا۔” اور پھر ہنسنے لگتی۔۔

جھوٹ جانتے ہوئے بھی مدن کو یہ مذاق اچھا نہ لگتا۔ پھر اندو کہتی۔ “میں پورا لٹیرا ہوںتم نہیں جانتے؟” سخی اور لٹیراجو ایک ہاتھ سے لوٹتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے گریب گربا کو دبا دیتا ہے”اس طرح منی کی شادی ہوئی جس پر ایسی ہی لوٹ کے زیور بکے۔ قرضہ چڑھا اور پھر اتر بھی گیا۔ ایسے ہی کندن بھی بیاہا گیا۔ ان شادیوں میں اندو ہی “ہتھ بھرا” کرتی تھی اور ماں کی جگہ کھڑی ہو جاتی۔ آسمان سے بابو جی اور ماں دیکھا کرتے اور پھول برساتے جو کسی کو نظر نہ آتے۔ پھر ایسا ہوا، اوپر ماں اور بابو جی میں جھگڑا چل گیا۔ ماں نے بابو جی سے کہا “تم تو بہو کے ہاتھ کی پکی کھا کر آئے ہو۔ اس کا سکھ بھی دیکھا ہے۔ پر میں نصیبوں جلی نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ ” اور یہ جھگڑا دشنو، مہیش اور شیو تک پہنچا۔ انہوں نے ماں کے حق میں فیصلہ دے دیااور یوں ماں، مات لوک میں آ کر بہو کی کوکھ میں پڑیاور اندو کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی پھر اندو ایسی دیوی بھی نہ تھی۔ جب کوئی اصول کی بات ہوتی تو نند دیور کیا خود مدن سے بھی لڑ پڑتیمدن راست بازی کی اس پتلی کو خفا ہو کر ہریش چند ر کی بیٹی کہا کرتا تھا۔ چونکہ اندو کی باتوں میں الجھاؤ ہونے کے باوجود سچائی اور دھرم قائم رہتے تھے، اس لئے مدن اور کنبے کے باقی سب لوگوں کی آنکھیں اندو کے سامنے نیچے رہتی تھیں۔ جھگڑا کتنا بھی بڑھ جائے۔ مدن اپنے شوہر ی زعم میں کتنا بھی اندو کی بات کو رد کر دے لیکن آخر سب ہی سر جھکائے ہوئے اندو ہی کی شرن میں آتے تھے اور اسی سے چھما مانگتے تھے۔

نئی بھابھی آئی۔ کہنے کو تو وہ بھی بیوی تھی لیکن اندو ایک عورت تھی، جسے بیوی کہتے ہیں۔ اس کے الٹ چھوٹی بھابھی رانی ایک بیوی تھی جسے عورت کہتے ہیں۔ رانی کے کارن بھائیوں میں جھگڑا ہوا اور جے پی چاچا کی معرفت جائیداد تقسیم ہوئیں جس میں ماں باپ کو جائیداد تو ایک طرف اندو کی اپنی بنائی ہوئی چیزیں بھی تقسیم کی زد میں آ گئیں اور اندو کلیجہ مسوس کر رہ گئی۔ جہاں سب کچھ ہو جانے کے بعد اور الگ ہو کر بھی کندن اور رانی ٹھیک سے نہیں بس سکے تھے، وہاں اندو کا نیا گھر دنوں ہی میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگا تھا۔

بچی کی پیدائش کے بعد اندو کی صحت وہ نہ رہی۔ بچی ہر وقت اندو کی چھاتیوں سے چمٹی رہتی جہاں سبھی گوشت کے اس لوتھڑے پر تھو تھو کرتے تھے وہاں ایک اندو تھی جو اسے کلیجے سے لگائے پھرتی لیکن کبھی خود پریشان ہو اٹھتی اور بچی کو سامنے جھلنگے میں پھینکتے ہوئے کہہ اٹھتی۔ “تو مجھے بھی جینے دے گیماں؟” اور بچی چلا چلا کر رونے لگتی۔

مدن اندو سے کٹنے لگا۔ شادی سے لے کر اس وقت تک اسے وہ عورت نہ ملی تھی جس کا وہ متلاشی تھا۔ گندہ بروزہ بکنے لگا اور مدن نے بہت سا روپیہ اندو سے بالا بالا خرچ کرنا شروع کر دیا۔ بابو جی کے چلے جانے کے بعد کوئی پوچھنے والا بھی تو نہ تھا۔ پوری آزادی تھی۔

گویا پڑوسی سبطے کی بھینس پھر مدن کے منہ کے پاس پھنکارنے لگی۔ بلکہ بار بار پھنکارنے لگی۔ شادی کی رات والی بھینس تو بک چکی تھی لیکن اس کا مالک زندہ تھا۔ مدن اس کے ساتھ ایسی جگہوں پر جانے لگا جہاں روشنی اور سائے عجیب بے قاعدہ سی شکلیں بناتے ہیں۔ نکڑ پر بھی کبھی اندھیرے کی تکون بنتی ہے اور اوپر کھٹ سے روشنی کی ایک چوکور لہر آ کر اسے کاٹ دیتی ہے۔ کوئی تصویر پوری نہیں بنتی۔ معلوم ہوتا ہے بغل سے ایک پاجامہ نکلا اور آسمان کی طرف اڑ گیا۔ یا کسی کوٹ نے دیکھنے والا کا منہ پوری طرح سے ڈھانپ لیا۔ اور کوئی سانس کے لئے تڑپنے لگا۔ جبھی روشنی کی ایک چوکور لہر ایک چوکٹھا بن گئی اور اس میں ایک صورت آ کر کھڑ ہو گئی۔ دیکھنے والے نے ہاتھ بڑھایا تو وہ آر پار چلا گیا۔ جیسے وہاں کچھ بھی نہ تھا۔ پیچھے کوئی کتا رونے لگا۔ اوپر طبل نے اس کی آواز ڈبو دی۔

مدن کو اس کے تصور کے خد و خال ملے لیکن ہر جگہ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے آرٹسٹ سے ایک خط غلط لگ گیا یا ہنسی کی آواز ضرورت سے زیادہ بلند تھی اور مدنداغ صناعی اور متوازن ہنسی کی تلاش میں کھو گیا۔۔

سبطے نے اس وقت اپنی بیوی سے بات کی جب اس کی بیگم نے مدن کو مثالی شوہر کی حیثیت سے سبطے کے سامنے پیش کیا۔ پیش ہی نہیں کیا بلکہ منہ پہ مارا۔ اس کو اٹھا کر سبطے نے بیگم کے منہ پر دے مارا۔ معلوم ہوتا تھا کسی خونین تربوز کا گودا ہے جس کے رگ و ریشے بیگم کی ناک اس کی آنکھوں اور کانوں پر لگے ہوئے ہیں۔ کروڑ کروڑ گالی بکتی ہوئی بیگم نے حافظے کی ٹوکری میں سے گودا اور بیج اٹھائے اور اندو کے صاف ستھرے صحن میں بکھیر دئے۔

ایک اندو کی بجائے دو اندو ہو گئیں۔ ایک تو اندو خود تھی اور دوسری ایک کانپتا ہوا خط جو اندو کے پورے جسم کا احاطہ کئے ہوئے تھا اور جو نظر نہیں آ رہا تھامدن کہیں بھی جاتا تھا تو گھر سے ہو کرنہا دھو، اچھے کپڑے پہن، مگھئی کی ایک گلوری جس میں خوشبودار قوام لگا ہو، منہ میں رکھ کرلیکن اس دن مدن گھر آیا تو اندو کی شکل ہی دوسری تھی۔ اس نے چہرے پر پوڈر تھوپ رکھا تھا۔ گالوں پر روج لگا رکھی تھی۔ لپ اسٹک نہ ہونے پر ہونٹ ماتھے کی بندی سے رنگ لئے تھےاور بال کچھ اس طریقے سے بنائے تھے کہ مدن کی نظریں ان میں الجھ کر رہ گئیں۔ “کیا بات ہے آج ؟” مدن نے حیران ہو کر پوچھا۔

“کچھ نہیں” اندو نے مدن سے نظریں بچاتے ہوئے کہا۔ “آج فرصت ملی ہے۔”

شادی کے پندرہ بیس برس گزر جانے کے بعد اندو کو آج فرصت ملی تھی اور وہ بھی اس وقت جب چہرے پر جھائیاں آ چلی تھیں۔ ناک پر ایک سیاہ کاٹھی بن گئی تھی اور بلاؤز کے نیچے ننگے پیٹ کے پاس کمر پر چربی کی دو تہیں سی دکھائی دینے لگی تھیںآج اندو نے ایسا بندوبست کیا تھا کہ ان عیوب میں سے ایک بھی چیز نظر نہ آتی تھییوں بنی ٹھنی۔ کسی کسائی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی”یہ نہیں ہو سکتا” مدن نے سوچا اور اسے ایک دھچکا سا لگا۔ اس نے پھر ایک بار مڑ کر اندو کی طرف دیکھا جیسے گھوڑوں کے بیوپاری کسی نامی گھوڑی کی طرف دیکھتے ہیںوہاں گھوڑی بھی تھی اور لال لگام بھییہاں جو غلط خط لگے تھے، شرابی آنکھوں کو نہ دیکھ سکےاندو سچ مچ خوبصورت تھی۔ آج بھی پندرہ سال کے بعد پھولاں، رشیدہ، مسز رابرٹ اور ان کی بہنیں ان کے سامنے پانی بھرتی تھیںپھر مدن کو رحم آنے لگا اور ایک ڈرآسمان پر کوئی خاص بادل بھی نہ تھے لیکن پانی پڑنا شروع ہو گیا۔ ادھر گھر کی گنگا طغیانی پر تھی اور اس کا پانی کناروں سے نکل نکل کر پوری اترائی اور اس کے آس پاس بسنے والے گاؤں اور قصبوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسی رفتار سے اگر پانی بہتا رہا تو اس میں کیلاش پربت بھی ڈوب جائے گاادھر بچی رونے لگی۔ ایسا رونا جو وہ آج تک نہ روئی تھی۔ مدن نے اس کی آواز سن کر آنکھیں بند کر لیں۔ کھولیں تو وہ سامنے کھڑی تھی۔ جوان عورت بن کرنہیں نہیں، وہ اندو تھی، اپنی ماں کی بیٹی، اپنی بیٹی کی ماں۔ جو اپنی آنکھوں کے دنیالے سے مسکرائی اور ہونٹوں کے کونے سے دیکھنے لگی۔

اسی کمرے میں جہاں ایک دن ہرمل کی دھونی نے مدن کو چکرا دیا تھا، آج اس کی خوشبو نے بوکھلا دیا تھا۔ ہلکی بارش تیز بارش سے خطرناک ہوتی ہے۔ اس لئے باہر کا پانی اوپر کسی کڑی میں سے رستا ہوا اندو اور مدن کے بیچ ٹپکنے لگالیکن مدن تو شرابی ہو رہا تھا۔ اس نشے میں اس کی آنکھیں سمٹنے لگیں اور تنفس تیز ہو کر ا نسان کا تنفس نہ رہا۔

“اندو” مدن نے کہا۔ اور اس کی آواز شادی کی رات والی پکار سے دو سر اوپر تھیاور اندو نے پرے دیکھتے ہوئے کہا۔ “جی ” اور اس کی آواز دو سر نیچے تھیپھر آج چاندنی کی بجائے اماؤس تھی اس سے پہلے کہ مدن اندو کی طرف ہاتھ بڑھاتا۔ اندو خود ہی مدن سے لپٹ گئی۔ پھر مدن نے ہاتھ سے اندو کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور دیکھنے لگا۔ اس نے کیا کھویا، کیا پایا ہے؟۔ اندو نے ایک نظر مدن کے سیاہ ہوتے ہوئے چہرے کی طرف پھینکی اور آنکھیں بند کر لیں۔


“یہ کیا؟” مدن نے چونکتے ہوئے کہا۔ “تمہاری آنکھیں سوجی ہوئی ہیں۔”

“یوں ہی” اندو نے کہا اور بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ “رات بھر جگایا ہے اس چڑیل میا نے۔”

بچی اب تک خاموش ہو چکی تھی۔ گویا وہ دم سادھے دیکھ رہی تھی۔ اب کیا ہونے والا ہے؟ آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا؟ واقعی آسمان سے پانی پڑنا بند ہو گیا تھا۔ مدن نے پھر غور سے اندو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ “ہاں مگر یہ آنسو؟”

“خوشی کے ہیں” اندو نے جوا ب دیا۔ آج کی رات میری ہے۔ اور پھر ایک عجیب سی ہنسی ہنستے ہوئے وہ مدن سے چمٹ گئی۔ ایک تلذذ کے احساس سے مدن نے کہا۔ “آج برسوں کے بعد میرے من کی مراد پوری ہوئی اندو! میں نے ہمیشہ چاہا تھا”

“لیکن تم نے کہا نہیں۔” اندو بولی۔ “یاد ہے شادی والی رات میں نے تم نے سے کچھ مانگا تھا؟”

“ہاں!” مدن بولا۔ “اپنے دکھ مجھے دے دو۔”

“تم نے کچھ نہیں مانگا مجھ سے”

“میں نے ؟” مدن نے حیران ہوتے ہوئے کہا “میں کیا مانگتا؟ میں تو جو کچھ مانگ سکتا تھا وہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے پیاران کی تعلیم، بیاہ شادیاںیہ پیارے پیارے بچےیہ کچھ تو تم نے دے دیا۔”

“میں بھی یہی سمجھتی تھی۔” اندو بولی “لیکن اب جا کر پتہ چلا، ایسا نہیں۔”

“کیا مطلب؟”

“کچھ نہیں۔” پھر اندو نے رک کر کہا۔ ” میں نے بھی ایک چیز رکھ لی۔”

“کیا چیز رکھ لی؟”

اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منہ پرے کرتے ہوئے بولی “اپنی لاجاپنی خوشیاس وقت تم بھی کہہ دیتےاپنے سکھ مجھے دے دوتو میں” اور اندو کا گلا رندھ گیا۔ اور کچھ دیر بعد بولی۔ “اب تو میرے پاس کچھ بھی نہیں رہا۔”

مدن کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ وہ زمین میں گڑ گیا۔ یہ ان پڑھ عورت؟کوئی رٹا ہوا فقرہ؟ نہیں تو یہ تو ابھی ہی زندگی کی بھٹی سے نکلا ہے۔ ابھی تو اس پر برابر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں اور آتشیں برادہ چاروں طرف اڑ رہا ہے

کچھ دیر بعد مدن کے ہوش ٹھکانے آئے اور بولا۔ “میں سمجھ گیا اندو” پھر روتے ہوئے مدن اور اندو ایک دوسرے سے لپٹ گئےاندو نے مدن کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایسی دنیاؤں میں لے گئی جہاں انسان مر کر ہی پہنچ سکتا ہے۔

GEND,DASA BY AHMAD NADEEM QASMI

Articles

گنڈاسا

احمد ندیم قاسمی

 

 

اکھاڑہ جم چکا تھا۔ طرفین نے اپنی اپنی “چوکیاں” چن لی تھیں۔ “پڑکوڈی” کے کھلاڑی جسموں پر تیل مل کر بجتے ہوئے ڈھول کے گرد گھوم رہے تھے۔ انہوں نے رنگین لنگوٹیں کس کر باندھ رکھی تھیں۔ ذرا ذرا سے سفید پھینٹھئے ان کے چپڑے ہوئے لانبے لابنے پٹوں کے نیچے سے گزر کر سر کے دونوں طرف کنول کے پھولوں کے سے طرے بنا رہے تھے۔ وسیع میدان کے چاروں طرف گپوں اور حقوں کے دور چل رہے تھے اور کھلاڑیوں کے ماضی اور مستقبل کو جانچا پرکھا جا رہا تھا۔ مشہور جوڑیاں ابھی میدان میں نہیں اتری تھیں۔ یہ نامور کھلاڑی اپنے دوستوں اور عقیدت مندوں کے گھیرے میں کھڑے اس شدت سے تیل چپڑوا رہے تھے کہ ان کے جسموں کو ڈھلتی دھوپ کی چمک نے بالکل تانبے کا سا رنگ دے دیا تھا، پھر یہ کھلاڑی بھی میدان میں آئے، انہوں نے بجتے ہوئے ڈھولوں کے گرد چکر کاٹے اور اپنی اپنی چوکیوں کے سامنے ناچتے کودتے ہوئے بھاگنے لگے اور پھر آناً فاناً سارے میدان میں ایک سرگوشی بھنور کی طرح گھوم گئی۔”مولا کہاں ہے؟”

مولا ہی کا کھیل دیکھنے تو یہ لوگ دور دراز کے دیہات سے کھنچے چلے آئے تھے۔ “مولا کا جوڑی وال تاجا بھی تو نہیں!” دوسرا بھنور پیدا ہوا لوگ پوربی چوکوں کی طرف تیز تیز قدم اٹھاتے بڑھنے لگے، جما ہوا پڑ ٹوٹ گیا۔ منتظمین نے لمبے لمبے بیدوں اور لاٹھیوں کو زمین پر مار مار کر بڑھتے ہوئے ہجوم کے سامنے گرد کا طوفان اڑانے کی کوشش کی کہ پڑ کا ٹوٹنا اچھا شگون نہ تھا مگر جب یہ سرگوشی ان کے کانوں میں سیروں بارود بھرا ہوا ایک گولا ایک چکرا دینے والے دھماکے سے پھٹ پڑا۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ لوگ پڑ کی چوکور حدوں کی طرف واپس جانے لگے۔ مولا اپنے جوڑی وال تاجے کے ساتھ میدان میں آگیا۔ اس نے پھندنوں اور ڈوریوں سے سجے اور لدے ہوئے ڈھول کے گرد بڑے وقار سے تین چکر کاٹے اور پھر ڈھول کو پوروں سے چھو کر یا علیؓ کا نعرہ لگانے کے لئے ہاتھ ہوا میں بلند کیا ہی تھا کہ ایک آواز ڈھولوں کی دھما دھم چیرتی پھاڑتی اس کے سینے پر گنڈاسا بن کر پڑی مولے” “اے مولے بیٹے۔ تیرا باپ قتل ہو گیا!”

مولا کا اٹھا ہوا ہاتھ سانپ کے پھن کی طرح لہرا گیا اور پھر ایک دم جیسے اس کے قدموں میں نہتے نکل آئے۔ “رنگے نے تیرے باپ کو ادھیڑ ڈالا ہے گنڈاسے سے!” ان کی ماں کی آواز نے اس کا تعاقب کیا!

پڑ ٹو ٹ گیا۔ ڈھول رک گئے۔ کھلاڑی جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے۔ ہجوم میں افراتفری پیدا ہوئی اور پھر بھگدڑ مچ گئی۔ مولا کے جسم کا تانبا گاؤں کی گلیوں میں کونڈتے بکھیرتا اڑا جا رہا تھا۔ بہت پیچھے اس کا جوڑی وال تاجا اپنے اور مولا کے کپڑوں کی گٹھڑی سینے سے لگائے آ رہا تھا اور پھر اس کے پیچھے ایک خوف زدہ ہجوم تھا۔ جس گاؤں میں کسی شخص کو ننگے سر پھرنے کا حوصلہ نہ ہو سکتا تھا وہاں مولا صرف ایک گلابی لنگوٹ باندھے پہناریوں کی قطاروں، بھیڑوں، بکریوں کے ریوڑوں کو چیرتا ہوا لپکا جا رہا تھا اور جب وہ رنگے کی چوپال کے بالکل سامنے پہنچا تو سامنے ایک اور ہجوم میں سے پیر نور شاہ نکلے اور مولا کو للکار کر بولے۔ “رک جا مولے!”

مولا لپکا گیا مگر پھر ایک دم جیسے اس کے قدم جکڑ لئے گئے اور وہ بت کی طرح جم کر رہ گیا۔ پیر نور شاہ اس کے قریب آئے اور اپنی پاٹ دار آواز میں بولے۔ “تو آگے نہیں جائے گا مولا!”

ہانپتا ہوا مولا کچھ دیر پیر نور شاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا رہا۔ پھر بولا “آگے نہیں جاؤں گا پیر جی تو زندہ کیوں رہوں گا؟”۔

“میں کہہ رہا ہوں” پیر جی “میں پر زور دیتے ہوئے دبدبے سے بولے۔”

مولا ہانپنے کے باوجود ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ “تو پھر میرے منہ پر کالک بھی مل ڈالئے اور ناک بھی کاٹ ڈالئے میری، مجھے تو اپنے باپ کے خون کا بدلہ چکانا ہے پیر جی۔ بھیڑ بکریوں کی بات ہوتی تو میں آپ کے کہنے پر یہیں سے پلٹ جاتا۔”

مولا نے گردن کو بڑے زور سے جھٹکا دے کر رنگے کے چوپال کی طرف دیکھا۔ رنگا اور اس کے بیٹے بٹھوں سر گنڈاسے چڑھائے چوپائے پر تنے کھڑے تھے۔ رنگے کا بڑا لڑکا بولا۔

“آؤ بیٹے آؤ۔ گنڈاسے کے ایک ہی وار سے پھٹے ہوئے پیٹ میں سے انتڑیوں کا ڈھیرا نہ اگل ڈالوں تو قادا نام نہیں، میرا گنڈاسا جلد باز ہے اور کبڈی کھیلنے والے لاڈلے بیٹے باپ کے قتل کا بدلا نہیں لیتے، روتے ہیں اور کفن کا لٹھا ڈھونڈنے چلے جاتے ہیں۔”

مولا جیسے بات ختم ہونے کے انتظار میں تھا۔ ایک ہی رفتار میں چوپال کی سیڑھیوں پر پہنچ گیا۔ مگر اب کبڈی کے میدان کا ہجوم بھی پہنچ گیا تھا اور گاؤں کا گاؤں اس کے راستے میں حائل ہو گیا تھا۔ جسم پر تیل چپڑ رکھا تھا اس لئے وہ روکنے والوں کے ہاتھوں سے نکل نکل جاتا مگر پھر جکڑ لیا جاتا۔ ہجوم کا ایک حصہ رنگے اور اس کے تینوں بیٹوں کو بھی روک رہا تھا۔ چار گنڈاسے ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں جنوں کی طرح بار بار دانت چمکا رہے تھے کہ اچانک جیسے سارے ہجوم کو سانپ سو نگ گیا۔ پیر نور شاہ قرآن مجید کو دونوں ہاتھوں میں بلند کئے چوپال کی سیٹرھیوں پر آئے اور چلائے۔”اس کلام اللہ کا واسطہ اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ ورنہ بدبختو گاؤں کا گاؤں کٹ مرے گا۔ جاؤ تمہیں خدا اور رسولؑ کا واسطہ، قرآن پاک کا واسطہ، جاؤ، چلے جاؤ۔”

لوگ سر جھکا کر ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ مولا نے جلدی سے تائے سے پٹکا لے کر ادب سے اپنے گھٹنوں کو چھپا لیا اور سیٹرھیوں پر سے اتر گیا۔ پیر صاحب قرآن مجید کو بغل میں لئے اس کے پاس آئے اور بولے۔”اللہ تعالی تمہیں صبر دے اور آج کے اس نیک کام کا اجر دے۔”

مولا آگے بڑھ گیا۔ تاجا اس کے ساتھ تھا اور جب وہ گلی کے موڑ پر پہنچے تو مولا نے پلٹ کر رنگے کی چوپال پر ایک نظر ڈالی۔

“تم تو رو رہے ہو مولے؟” تاجے نے بڑے دکھ سے کہا۔

اور مولا نے اپنے ننگے بازو کو آنکھوں پر رگڑ کر کہا۔ “تو کیا اب روؤں بھی نہیں؟”

“لوگ کیا کہیں گے؟” تاجے نے مشورہ دیا۔

“ہاں تاجے!” مولا نے دوسری بار بازو آنکھوں پر رگڑا۔ “میں بھی تو یہی سوچ رہا ہوں کہ لوگ کیا کہیں گے، میرے باپ کے خون پر مکھیاں اڑ رہی ہیں اور میں یہاں گلی میں ڈورے ہوئے کتے کی طرح دم دبائے بھاگا جا رہا ہوں ماں کے گھٹنے سے لگ کر رونے کے لئے!”

لیکن مولا ماں کے گھٹنے سے لگ کر رویا نہیں۔ وہ گھر کے دالان میں داخل ہوا تو رشتہ دار اس کے باپ کی لاش تھانے اٹھا لے جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ منہ پیٹتی اور بال نوچتی ماں اس کے پاس آئی اور “شرم تو نہیں آتی” کہہ کر منہ پھیر کر لاش کے پاس چلی گئی۔ مولا کے تیور اسی طرح تنے رہے۔ اس نے بڑھ کر باپ کی لاش کو کندھا دیا اور برادری کے ساتھ روانہ ہو گیا۔

اور ابھی لاش تھانے نہیں پہنچی ہو گی کہ رنگے کی چوپال پر قیامت مچ گئی۔ رنگا چوپال کی سیڑھیوں پر سے اترکر سامنے اپنے گھر میں داخل ہونے ہی لگا تھا کہ کہیں سے ایک گنڈاسا لپکا اور انتڑیوں کا ایک ڈھیر اس کے پھٹے ہوئے پیٹ سے باہر ابل کر اس کے گھر کی دہلیز پر بھاپ چھوڑنے لگا۔ کافی دیر کو افراتفری کے بعد رنگے کے بیٹے گھوڑوں پر سوار ہو کر رپٹ کے لئے گاؤں سے نکلے، مگر جب وہ تھانے پہنچے تو یہ دیکھ کر دم بخود رہ گئے کہ جس شخص کے خلاف وہ رپٹ لکھوانے آئے ہیں وہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھا تسبیح پر قل ھو اللہ کا ورد کر رہا تھا۔ تھانے دار کے ساتھ انہوں نے بہت ہیر پھیر کی کوشش کی اور اپنے باپ کا قاتل مولا ہی کو ٹھہرایا مگر تھانیدار نے انہیں سمجھایا کہ “خواہ مخواہ اپنے باپ کے قاتل کو ضائع کر بیٹھو گے، کوئی عقل کی بات کرو۔ ادھر یہ میرے پاس اپنے باپ کے قتل کی رپٹ لکھوا رہا ہے ادھر تمہارے باپ کے پیٹ میں گنڈاسا بھی بھونک آیا ہے۔”

آخر دونوں طرف سے چالان ہوئے، لیکن دونوں قتلوں کا کوئی چشم دید ثبوت نہ ملنے کی بناء پر طرفین بری ہو گئے اور جس روز مولا رہا ہو کر گاؤں میں آیا تو اپنی ماں سے ماتھے پر ایک طویل بوسہ ثبت کرانے کے بعد سب سے پہلے تاجے کے ہاں گیا۔ اسے بھینچ کر گلے لگایا اور کہا۔ “اس روز تم اور تمہارا گھوڑا میرے کام نہ آتے تو آج میں پھانسی کی رسی میں توری کی طرح لٹک رہا ہوتا۔ تمہاری جان کی قسم جب میں نے رنگے کے پیٹ کو کھول کر رکاب میں پاؤں رکھا ہے، آندھی بن گیا خدا کی قسم اسی لئے تو لاش ابھی تھانے بھی نہیں پہنچی تھی کہ میں ہاتھ جھاڑ کر واپس بھی آگیا۔”

سارے گاؤں کو معلوم تھا کہ رنگے کا قاتل مولا ہی ہے، مگر مولے کے چند عزیزوں اور تاجے کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کچھ ہوا کیسے پھر ایک دن گاؤں میں یہ خبر گشت کرنے لگی کہ مولا کا باپ تو رنگے کے بڑے بیٹے قادر کے گنڈاسے سے مرا تھا رنگا تو صرف ہشکار رہا تھا بیٹوں کو۔ رات کو چوپالوں اور گھروں میں یہ موضوع چلتا رہا اور صبح کو پتہ چلا کہ قادر اپنے کوٹھے کی چھت پر مردہ پایا گیا اور وہ بھی یوں کہ جب اس کے بھائیوں پھلے اور گلے نے اسے اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا سر لڑھک کر نیچے گرا اور پرنالے تک لڑھکتا چلا گیا، رپٹ لکھوائی اور مولا پھر گرفتار ہو گیا۔ مرچوں کا دھواں پیا، تپتی دوپہروں میں لوہے کی چادر پر کھڑا رہا۔ کتنی راتیں اسے اونگھنے تک نہ دیا گیا مگر وہ اقبالی نہ ہوا اور آخر مہینوں کے بعد رہا ہو کر گاؤں میں آ نکلا اور جب اپنے آنگن میں قدم رکھا تو ماں بھاگی ہو ئی آئی۔ اس کے ماتھے پر طویل بوسہ لیا اور بولی۔ “ابھی دو اور باقی ہیں میرے لال۔ رنگے کا کوئی نام لیوا نہ رہے، تو جبھی بتیس دھاریں بخشوں گی۔ میرے دودھ میں تیرے باپ کا خون تھا۔ مولے اور تیرے خون میں میرا دودھ ہے اور تیرے گنڈاسے پر میں نے زنگ نہیں چڑھنے دیا۔ “مولا اب علاقے بھر کی ہیبت بن گیا تھا۔ اس کی مونچھوں میں دو دو بل آ گئے تھے۔ کانوں میں سونے کی بڑی بڑی بالیاں، خوشبودار تیل اس کے لہرئیے بالوں میں آگ کی قلمیں سی جگائے رکھتا تھا۔ ہاتھی دانت کا ہلالی کنگھا اتر کر اس کی کنپٹی پر چمکنے لگا تھا۔ وہ گلیوں میں چلتا تو پٹھے کے تہبند کا کم سے کم آدھا گز تو اس کے عقب میں لوٹتا ہوا جاتا۔ باریک ململ کا پٹکا اس کے کندھے پر پڑا رہتا اور اکثر اس کا سرا گر کر زمین پر گھسٹنے لگتا۔ اور گھسٹتا چلا جاتا۔ مولا کے ہاتھ میں ہمیشہ اس کے قد سے بھی لمبی تلی پلی لٹھ ہوتی اور جب وہ گلی کے کسی موڑ یا کسی چوراہے پر بیٹھتا تو یہ لٹھ جس انداز سے اس کے گھٹنے سے آ لگتی اسی انداز سے لگی رہتی اور گلی میں سے گزرنے والوں کو اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ مولا کی لٹھ ایک طرف سرکانے کے لئے کہہ سکیں۔ اگر کبھی لٹھ ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تن گئی تو لو گ آتے، مولا کی طرف دیکھتے اور پلٹ کر کسی دوسری گلی میں چلے جاتے۔ عورتوں اور بچوں نے تو وہ گلیاں ہی چھوڑ دی تھیں جہاں مولا بیٹھنے کا عادی تھا۔ مشکل یہ تھی کہ مولا کی لٹھ پر سے الانگنے کا بھی کسی میں حوصلہ نہ تھا۔ ایک بار کسی اجنبی نوجوان کا اس گلی میں سے گزر ہوا۔ مولا اس وقت ایک دیوار سے لگا لٹھ سے دوسرے دیوار کو کریدے جا رہا تھا۔ اجنبی آیا اور لٹھ پر سے الانگ گیا۔ ایکا ایکی مولا نے بپھر کر ٹینک میں سے گنڈاسا نکالا اور لٹھ پر چڑھا کر بولا۔”ٹھہر جاؤ چھوکرے، جانتے ہو تم نے کس کی لٹھ الانگی ہے یہ مولا کی لٹھ ہے۔ مولے گنڈاسے والے کی۔”

نوجوان مولا کا نام سنتے ہی یک لخت زرد پڑ گیا اور ہولے سے بولا۔ “مجھے پتہ نہیں تھا، مولے۔” مولا نے گنڈاسا اتار کر ٹینک میں اڑس لیا اور لٹھ کے ایک سرے کو نوجوان کے پیٹ پر ہلکے سے دبا کر بولا۔ “تو پھر جا کر اپنا کام کر۔” اور پھروہ لٹھ کو یہاں سے وہاں تک پھیلا کر بیٹھ گیا۔

مولا کا لباس، اس کی چال، اس کی مونچھیں اور سب سے زیادہ اس کا لا ابالی انداز، یہ سب پہلے گاؤں کے فیشن میں داخل ہوئے اور پھر علاقے بھر کے فیشن پر اثر انداز ہوئے لیکن مولا کی جو چیز فیشن میں داخل نہ ہو سکی وہ اس کی لانبی لٹھ تھی۔ تیل پلی، پیتل کے کوکوں سے اٹی ہوئی، لوہے کی شاموں میں لپٹی ہوئی، گلیوں کے کنکروں پر بجتی اور یہاں سے وہاں تک پھیل کر آنے والوں کو پلٹا دینے والی لٹھ اور پھر وہ گنڈاسا جس کی میان مولا کی ٹینک تھی اور جس پر اس کی ماں زنگ کا ایک نقطہ تک نہیں دیکھ سکتی تھی۔

لوگ کہتے تھے کہ مولا گلیوں کے نکڑوں پر لٹھ پھیلائے اور گنڈاسا چھپائے گلے اور پھلے کی راہ تکتا ہے۔ قادرے کے قتل اور مولے کی رہائی کے بعد پھلا فوج میں بھرتی ہو کر چلا گیا تھا اور گلے نے علاقہ کے مشہور رسہ گیر چوھدری مظفر الٰہی کے ہاں پناہ لی تھی، جہاں وہ چوھدری کے دوسرے ملازموں کے ساتھ چناب اور راوی پر سے بیل اور گائیں چوری کر کے لاتا۔ چوھدری مظفر اس مال کو منڈیوں میں بیچ کر امیروں، وزیروں اور لیڈروں کی بڑی بڑی دعوتیں کرتا اور اخباروں میں نام چھپواتا اور جب چناب اور راوی کے کھوجی مویشیوں کے کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چوھدری مظفر کے قصبے کے قریب پہنچتے تو جی میں کہتے۔ “ہمارا ماتھا پہلے ہی ٹھنکا تھا! انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ کھروں کے سراغ کے ساتھ ساتھ چلتے چودھری کے گھر تک جا پہنچے تو پھر کچھ دیر بعد لوگ مویشیوں کی بجائے خود کھوجیوں کا سراغ لگاتے پھریں گے اور لگا نہ پائیں گے۔ وہ چوھدری کے خوف کے مارے قصبے کے ایک طرف سے نکل کر اور تھلوں کے ریتے میں پہنچ کر یہ کہتے ہوئے واپس آ جاتے “کھروں کے نشان یہاں سے غائب ہو رہے ہیں۔”

مولا نے چوھدری مظفر اور اس کے پھیلے ہوئے بازوؤں کے بارے میں سن رکھا تھا۔ اسے کچھ ایسا لگتا تھا کہ جیسے علاقہ بھر میں صرف یہ چوھدری ہی ہے جو اس کی لٹھ الانگ سکتا ہے لیکن فی الحال اسے رنگے کے دونوں بیٹوں کا انتظار تھا۔

تاجے نے بڑے بھائیوں کی طرح مولے کو ڈانٹا “اور کچھ نہیں تو اپنی زمینوں کی نگرانی کر لیا کر، یہ کیا بات ہوئی کہ صبح سے شام تک گلیوں میں لٹھ پھیلائے بیٹھے ہیں اور میراثیوں، نائیوں سے خدمتیں لی جا رہی ہیں۔ تو شاید نہیں جانتا پر جان لے تو اس میں تیرا ہی بھلا ہے کہ مائیں بچوں کو تیرا نام لے کر ڈرانے لگی ہیں، لڑکیاں تو تیرا نام سنتے ہی تھوک دیتی ہیں، کسی کو بد دعا دینی ہو تو کہتی ہیں اللہ کرے تجھے مولا بیاہ کر لے جائے۔ سنتے ہو مولے!”

لیکن مولا تو جس بھٹی میں گودا تھا اس میں پک کر پختہ ہو چکا تھا۔ بولا “ابے جا تاجے اپنا کام کر، گاؤں بھر کی گالیاں سمیٹ کر میرے سامنے ان کا ڈھیر لگانے آیا ہے؟ دوستی رکھنا بڑی جی داری کی بات ہے پٹھے، تیرا جی چھوٹ گیا ہے تو میری آنکھوں میں دھول کیوں جھونکتا ہے۔ جا اپنا کام کر، میرے گنڈاسے کی پیاس ابھی تک نہیں بجھیجااس نے لاٹھی کو کنکروں پر بجایا اور گلی کے سامنے والے مکان میں میراثی کو بانگ لگائی۔ “ابے اب تک چلم تازہ نہیں کر چکا الو کے پٹھے جا کر گھر والوں کی گود میں سو گیا چلم لا۔”

تاجا پلٹ گیا مگر گلی کے موڑ پر رک گیا اور مڑ کر مولے کو کچھ یوں دیکھا جیسے اس کی جواں مرگی پر پھوٹ پھوٹ کر رو دے گا۔

مولا کنکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا اٹھا اور لٹھ کو اپنے پیچھے گھسیٹتا تاجے کے پاس آ کر بولا دیکھ تاجے مجھے ایسا لگتا ہے تو مجھ پر ترس کھا رہا ہے اس لئے کہ کسی زمانے میں تیری یاری تھی پر اب یہ یاری ٹوٹ گئی ہے تاجے تو میرا ساتھ نہیں دے سکتا تو پھر ایسی یاری کو لے کر چاٹنا ہے۔ میرے باپ کا خون اتنا سستا نہیں تھا کہ رنگے اور اس کے ایک ہی بیٹے کے خون سے حساب چک جائے، میرا گنڈاسا تو ابھی اس کے پوتے، پوتیوں، نواسے، نواسیوں تک پہنچے گا، اس لئے جا اپنا کام کر۔ تیری میری یار ختم۔ اس لئے مجھ پر ترس نہ کھایا کر، کوئی مجھ پر ترس کھائے تو آنچ میرے گنڈاسے پر جا پہنچتی ہے جا۔”

واپس آ کر مولا نے میراثی سے چلم لے کر کش لگایا تو سلفہ ابھر کر بکھر گیا۔ ایک چنگاری مولا کے ہاتھ پر گری اور ایک لمحہ تک وہیں چمکتی رہی۔ میراثی نے چنگاری کو جھاڑنا چاہا تو مولا نے اس کے ہاتھ پر اس زور سے ہاتھ مارا کہ میراثی بل کھا رہ گیا اور ہاتھ کو ران اور پنڈلی میں دبا کر ایک طرف ہٹ گیااور مولا گرجا۔ “ترس کھاتا ہے حرامزادہ۔”

اس نے چلم اٹھا کر سامنے دیوار پر پٹخ دی اور لٹھ اٹھا کر ایک طرف چل دیا۔

لوگوں نے مولا کو ایک نئی گلی کے چوراہے پر بیٹھے دیکھا تو چونکے اور سرگوشیاں کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے۔ عورتیں سر پر گھڑے رکھے آئیں اور “ہائیں” کرتی واپس چلی گئیں۔ مولا کی لٹھ یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور لوگوں کے خیال میں اس پر خون سوار تھا۔

مولا اس وقت دور مسجد کے مینار پر بیٹھی ہوئی چیل کو تکے جا رہا تھا۔ اچانک اسے کنکروں پر لٹھ کے بجنے کی آواز آئی۔ چونک کراس نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی نے اس کی لٹھ اٹھا کر دیوار کے ساتھ رکھ دی ہے اور ان لانبی سرخ مرچوں کو چن رہی ہے جو جھکتے ہوئے اس کے سر پر رکھی ہوئی گٹھڑی میں سے گر گئی تھیں۔ مولا سناٹے میں آگیا لٹھ کو الانگنا تو ایک طرف رہا اس نے یعنی ایک عورت ذات نے لٹھ کو گندے چیتھڑے کی طرح اٹھا کر پرے ڈال دیا ہے اور اب بڑے اطمینان سے مولا کے سامنے بیٹھی مرچیں چن رہی ہے اور جب مولا نے کڑک کر کہا۔ “جانتی ہو تم نے کس کی لاٹھی پر ہاتھ رکھا ہے جانتی ہو میں کون ہوں تو اس نے ہاتھ بلند کر کے چنی ہوئی مرچیں گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے کہا کوئی سڑی لگتے ہو۔”

مولا مارے غصے کے اٹھ کھڑا ہوا۔ لڑکی بھی اٹھی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نرمی سے بولی اسی لئے تو میں نے تمہاری لٹھ تمہارے سر پر نہیں دے ماری ایسے لٹے لٹے سے لگتے تھے مجھے تو تم پر ترس آگیا تھا۔”

“تر س آگیا تھا تمہیں مولا پر؟ مولا دھاڑا۔

“مولا!”لڑکی نے گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور ذرا سی چونکی۔

“ہاں، مولا، گنڈاسے والا” مولا نے ٹھسے سے کہا اور وہ ذرا سی مسکرا کے گلی میں جانے لگی۔ مولا کچھ دیر وہاں چپ چاپ کھڑا رہا اور پھر ایک سانس لے کر دیوار سے لگ کر بیٹھ گیا۔ لٹھ کو سامنے کی دیوار تک پھیلا لیا تو پرلی طرف سے ادھیڑ عمر کی ایک عورت آتی دکھائی دی۔ مولا کو دیکھ کر ٹھٹکی۔ مولا نے لٹھ اٹھا کر ایک طرف رکھ دی اور بولا۔ “آ جاؤ ماسی، آ جاؤ میں تمہیں کھا تھوڑی جاؤں گا۔”

حواس باختہ عورت آئی اور مولے کے پاس سے گزرتے ہوئے بولی۔ “کیسا جھوٹ بکتے ہیں لوگ، کہتے ہیں جہاں مولا بخش بیٹھا ہو وہاں سے باؤ کتا بھی دبک کر گزرتا ہے، پر تو نے میرے لئے اپنی لٹھ۔”

“کون کہتا ہے؟” مولا اٹھ کھڑا ہوا۔

“سب کہتے ہیں، سارا گاؤں کہتا ہے، ابھی ابھی کنویں پر یہی باتیں ہو رہی تھیں، پر میں نے تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ مولا بخش”

لیکن مولا اب تک اس گلی میں لپک کر گیا تھا جس میں ابھی ابھی نوجوان لڑکی گئی تھی۔ وہ تیز تیز چلتا گیا اور آخر دور لمبی گلی کے سرے پر وہی لڑکی جاتی نظر آئی، وہ بھاگنے لگا۔ آنگنوں میں بیٹھی ہوئی عورتیں دروازوں تک آ گئیں اور بچے چھتوں پر چڑھ گئے۔ مولا کا گلی سے بھاگ کر نکلنا کسی حادثے کا پیش خیمہ سمجھا گیا۔ لڑکی نے بھی مولا کے قدموں کی چاپ سن لی تھی، وہ پلٹی اور پھر وہیں جم کر کھڑ ی رہ گئی۔ اس نے بس اتنا ہی کیا کہ گٹھڑی کو دونوں ہاتھوں سے تھا م لیا، چند مرچیں دہکتے ہوئے انگاروں کی طرح اس کے پاؤں پر بکھر گئیں۔

“میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔” مولا پکارا۔ “کچھ نہیں کہوں گا تمہیں۔”

لڑکی بولی۔ “میں ڈر کے نہیں رکی۔ ڈریں میرے دشمن۔”

مولا رک گیا، پھر ہولے ہولے چلتا ہوا اس کے پاس آیا اور بولا۔ “بس اتنا بتا دو تم ہو کون؟”

لڑکی ذرا سا مسکرا دی۔

عقب سے کسی بڑھیا کی آواز آئی۔ “یہ رنگے کے چھوٹے بیٹے کی منگیتر راجو ہے، مولا بخش۔”

مولا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر راجو کو دیکھنے لگا۔ اسے راجو کے پاس رنگا اور رنگے کا سارا خاندان کھڑا نظر آیا۔ اس کا ہاتھ ٹینک تک گیا اور پھر رسے کی طرح لٹک گیا۔ راجو پلٹ کر بڑی متوازن رفتار سے چلنے لگی۔

مولا نے لاٹھی ایک طرف پھینک دی اور بولا۔ “ٹھہرو راجو، یہ اپنی مرچیں لیتی جاؤ۔”

راجو رک گئی۔ مولا نے جھک کر ایک ایک مرچ چن لی اور پھر اپنے ہاتھ سے انہیں راجو کی گٹھڑی میں ٹھونستے ہوئے بولا۔ “تمہیں مجھ پر ترس آیا تھا نا راجو؟”۔

لیکن راجو ایک دم سنجیدہ ہو گئی اور اپنے راستے پر ہولی۔ مولا بھی واپس جانے لگا۔ کچھ دور ہی گیا تھا کہ بڑھیا نے اسے پکارا۔ “یہ تمہاری لٹھ تو یہیں رکھی رہ گئی مولا بخش!”

مولا پلٹا اور لٹھ لیتے ہوئے بڑھیا سے پوچھا۔

“ماسی! یہ لڑکی راجو کیا یہی کی رہنے والی ہے؟ میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا۔”

“یہیں کی ہے بھی بیٹا اور نہیں بھی۔” بڑھیا بولی۔ “اس کے باپ نے لام میں دونوں بیٹوں کے مرنے کے بعد جب دیکھا کہ وہ روز ہل اٹھا کر اتنی دور کھیتوں میں نہیں جا سکتا تو گاتن والے گھر کی چھت اکھیڑی اور یہاں سے یوں سمجھو کہ کوئی دو ڈھائی کوس دور ایک ڈھوک بنا لی۔ وہیں راجو اپنے باپ کے ساتھ رہتی ہے، تیسرے چوتھے دن گاؤں میں سودا سلف خریدنے آ جاتی ہے اور بس۔”

مولا جواب میں صرف “ہوں” کہہ کر واپس چلا گیا، لیکن گاؤں بھر میں یہ خبر آندھی کی طرح پھیل گئی کہ آج مولا اپنی لٹھ ایک جگہ رکھ کر بھول گیا۔ باتوں باتوں میں راجو کا ایک دو بار نام آیا مگر دب گیا۔ رنگے کے گھرانے اور مولا کے درمیان صرف گنڈاسے کا رشتہ تھا نا اور راجو رنگے ہی کے بیٹے کی منگیتر تھی اور اپنی جان کسے پیاری نہیں ہوتی۔”

اس واقعہ کے بعد مولا گلیوں سے غائب ہو گیا۔ سارا دن گھر میں بیٹھا لاٹھی سے دالان کی مٹی کریدتا رہتا اور کبھی باہر جاتا بھی تو کھیتوں چراگاہوں میں پھرپھرا کر واپس آ جاتا۔ ماں اس کے رویے پر چونکی مگر صرف چونکنے پر اکتفا کی۔ وہ جانتی تھی کہ مولا کے سر پر بہت سے خون سوار ہیں، وہ بھی جو بہا دئے گئے اور وہ بھی جو بہائے نہ جا سکے۔

یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ نقارے پٹ پٹا کر خاموش ہو گئے تھے۔ گھروں میں سحری کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ دہی بلونے اور توے پر روٹیوں کے پڑنے کی آواز مندروں کی گھنٹیوں کی طرح پر اسرار معلوم ہو رہی تھیں۔ مولا کی ماں بھی چولہا جلائے بیٹھی تھی اور مولا مکان کی چھت پر ایک چارپائی پر لیٹا آسمان کو گھورے جا رہا تھا۔ یکا یک کسی گلی میں ایک ہنگامہ مچ گیا۔ مولا نے فوراً لٹھ پر گنڈاسا چڑھایا اور چھت پر سے اتر کر گلی میں بھاگا۔ ہر طرف گھروں میں لالٹینیں نکلی آ رہی تھیں اور شور بڑھ رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر مولا کو معلوم ہوا کہ تین مسافر جو نیزوں، برچھیوں سے لیس تھے، بہت سے بیلوں اور گائے بھینسوں کو گلی میں سے ہنکائے لئے جا رہے تھے کہ چوکیدار نے انہیں ٹوکا اور جواب میں انہوں نے چوکیدار کو گالی دے کر کہا کہ یہ مال چوھدری مظفر الٰہی کا ہے، یہ گلی تو خیر ایک ذلیل سے گاؤں کی گلی ہے، چوھدری کا مال تو لاہور کی ٹھنڈک سڑک پر سے بھی گزرے تو کوئی اف نہ کرے۔

مولا کو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے چوھدری مظفر خود، بہ نفسِ نفیس گاؤں کی اس گلی میں کھڑا اس سے گنڈاسا چھیننا چاہتا ہے، کڑک کر بولا۔ “چوری کا یہ مال میرے گاؤں سے نہیں گزرے گا، چاہے یہ چوھدری مظفر کا ہو چاہے لاٹ صاحب کا۔ یہ مال چھوڑ کر چپکے سے اپنی راہ لو اور اپنی جان کے دشمن نہ بنو!” اس نے لٹھ کر جھکا کر گنڈاسے کو لالٹینوں کی روشنی میں چمکایا۔ “جاؤ۔”

مولا گھرے ہوئے مویشیوں کو لٹھ سے ایک طرف ہنکانے لگا۔ “جا کر کہہ دو اپنے چوھدری سے کہ مولا گنڈاسے نے تمہیں سلام بھیجا ہے اور اب جاؤ اپنا کام کرو۔”

مسافروں نے مولا کے ساتھ سارے ہجوم کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو چپ چاپ کھسک گئے۔ مولا سارے مال کو اپنے گھر لے آیا اور سحری کھاتے ہوئے ماں سے کہا کہ “یہ سب بے زبان ہمارے مہمان ہیں، ان کے مالک پرسوں تک آ نکلیں گے کہیں سے اور گاؤں کی عزت میری عزت ہے ماں۔” مالک دوسرے ہی دن دوپہر کو پہنچ گئے۔۔

یہ غریب کسان اور مزارعے کوسوں کی مسافتیں طے کر کے کھوجیوں کی ناز برداریاں کرتے یہاں تک پہنچے تھے اور یہ سوچتے آ رہے تھے کہ اگر ان کا مال چوھدری کے حلقۂ اثر تک پہنچ گیا تو پھر کیا ہو گا اور جب مولا ان کا مال ان کے حوالے کر رہا تھا تو سارا گاؤں باہر گلی میں جمع ہو گیا تھا اور اس ہجوم میں راجو بھی تھی۔ اس نے اپنے سر پر اینڈوا جما کر مٹی کا ایک برتن رکھا ہوا تھا اور منتشر ہوتے ہوئے ہجوم میں جب راجو مولا کے پاس سے گزری تو مولا نے کہا۔ “آج بہت دنوں بعد گاؤں میں آئی ہو راجو۔”

“کیوں؟” اس نے کچھ یوں کہا جیسے “میں کسی سے ڈرتی تھوڑی ہوں” کا تاثر پیدا کرنا چاہتی ہو۔ میں تو کل آئی تھی اور پرسوں اور ترسوں بھی۔ ترسوں تھوم پیاز خریدنے آئی۔ پرسوں بابا کو حکیم کے پاس لائی، کل ویسے ہی آ گئیں اور آج یہ گھی بیچنے آئی ہوں۔”

“کل ویسے ہی کیوں آ گئیں؟” مولا نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔

“ویسے ہی بس جی چاہا آ گئے، سہیلیوں سے ملے اور چلے گئے، کیوں؟”

“ویسے ہی” مولا نے بجھ کر کہا، پھر ایک دم اسے ایک خیال آیا۔ “یہ گھی بیچو گی؟”

“ہاں بیچنا تو ہے، پر تیرے ہاتھ نہیں بیچوں گی۔”

“کیوں؟”

“تیرے ہاتھوں میں میرے رشتہ داروں کا خون ہے۔”

مولا کو ایک دم خیال آیا کہ وہ اپنی لٹھ کو دالان میں اور گنڈاسے کو بستر تلے رکھ کر بھول آیا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں چل سی ہونے لگی۔ اس نے گلی میں ایک کنکر اٹھایا اور اسے انگلیوں میں مسلنے لگا۔

راجو جانے کے لئے مڑی تو مولا ایک دم بولا۔ “دیکھو راجو میرے ہاتھوں پر خون ہے ہی اور ان پر ابھی جانے کتنا اور خون چڑھے گا، پر تمہیں گھی بیچنا ہے اور مجھے خریدنا ہے، میرے ہاتھ نہ بیچو، میری ماں کے ہاتھ بیچ دو۔”

راجو کچھ سوچ کر بولی”چلوآؤ”

مولا آگے آگے چلنے لگا۔ جاتے جاتے جانے اسے وہم سا گزرا کہ راجو اس کی پیٹھ اور پٹوں کو گھورے جا رہی ہے۔ ایک دم اس نے مڑ کر دیکھا راجو گلی میں چگتے ہوئے مرغی کے چوزوں کو بڑے غور سے دیکھتی ہوئی آ رہی تھی۔ وہ فوراً بولا”یہ چوزے میرے ہیں۔”

“ہوں گے۔” راجو بولی۔

مولا اب آنگن میں داخل ہو چکا تھا، بولا “ماں یہ سب گھی خرید لو، میرے مہمان آنے والے ہیں تھوڑے دنوں میں۔”

راجو نے برتن اتار کر اس کے دہانے پر سے کپڑا کھولا تاکہ بڑھیا گھی سونگھ لے، مگر وہ اندر چلی گئی تھی ترازو لینے اور مولا نے دیکھا کہ راجو کی کنپٹیوں پر سنہرے روئیں ہیں اور اس کی پلکیں یوں کمانوں کی طرح مڑی ہوئی ہیں جیسے اٹھیں گی تو اس کی بھنووں کو مس کر لیں گی اور ان پلکوں پر گرد کے ذرے ہیں اور اس کے ناک پر پسینے کے ننھے ننھے سوئی کے ناکے سے قطرے چمک رہے ہیں اور نتھنوں میں کچھ ایسی کیفیت ہے جیسے گھی کے بجائے گلاب کے پھول سونگھ رہی ہو۔ اس کے اوپر ہونٹ کی نازک محراب پر بھی پسینہ ہے اور ٹھوڑی اور نچلے ہونٹ کے درمیان ایک تل ہے جو کچھ یوں اچٹا ہوا لگ رہا ہے جیسے پھونک مارنے سے اڑ جائے گا۔ کانوں میں چاندی کے بندے انگور کے خوشوں کی طرح لس لس کرتے ہوئے لرز رہے ہیں اور ان بندوں میں اس کے بالوں کی ایک لٹ بے طرح الجھی ہوئی ہے۔ مولے گنڈاسے والے کا جی چاہا کہ وہ بڑی نرمی سے اس لٹ کو چھڑا کر راجو کے کانوں کے پیچھے جما دے یا چھڑا کر یونہی چھوڑ دے یا اسے اپنی ہتھیلی پر پھیلا کر ایک ایک بال کو گننے لگے یا

ماں ترازو لے کر آئی تو راجو بولی۔ “پہلے دیکھ لے ماسی، رگڑ کے سونگھ لے۔ آج صبح ہی کو تازہ تازہ مکھن گرم کیا تھا۔ پر سونگھ لے پہلے!”

“نہ بیٹی میں تو نہ سونگھوں گی۔” ماں نے کہا “میرا تو روزہ مکروہ ہوتا ہے!۔”

“لو” مولا نے لٹھ کی ایک طرف گرا دیا۔ پانچوں آہستہ آہستہ ا س کی طرف بڑھنے لگے۔ ہجوم جیسے دیوار سے چمٹ رہ گیا۔ بچے بہت پیچھے ہٹ کر کمہاروں کے آوے پر چڑھ گئے تھے۔

“کیا بات ہے؟” مولا نے گلے سے پوچھا۔

گلا جواب اس کے پاس پہنچ گیا تھا بولا۔

“تم نے چوھدری مظفر کا مال روکا تھا!”

“ہاں” مولا نے بڑے اطمینان سے کہا۔”پھر؟”

گلے نے کنکھیوں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔ چوھدری نے تمہیں اس کا انعام بھیجا ہے اور کہا ہے کہ ہم یہ انعام ان سارے گاؤں والوں کے سامنے تمہارے حوالے کر دیں۔” “انعام!” مولا چونکا۔ “آخر بات کیا ہے؟”

گلے نے تڑاخ سے ایک چانٹا مولا کے منہ پر مارا اور پھر بجلی کی سی تیزی سے پیچھے ہٹتے ہوئے بولا۔ “یہ بات ہے۔”

تڑپ کر مولا نے لٹھ اٹھائی، ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں گنڈاسا شعلے کی طرح چمکا، پانچوں نووارد غیر انسانی تیزی سے واپس بھاگے، مگر گلا لاری کے پرلی طرف کنکروں پر پھسل کر گر گیا۔ لپکتا ہوا مولا رک گیا، اٹھا ہوا گنڈاسا جھکا اور جس زاویے پر جھکا تھا وہیں جھکا رہ گیادم بخود ہجوم دیوار سے اچٹ اچٹ کر آگے آ رہا تھا۔ بچے آوے کی راکھ اڑاتے ہوئے اتر آئے، نورا دکان میں سے باہر آگیا۔

گلے نے اپنی انگلیوں اور پنجوں کو زمین میں یوں گاڑ رکھا تھا۔ جیسے دھرتی کے سینہ میں اتر جانا چاہتا ہے اور پھر مولا، جو معلوم ہوتا تھا کچھ دیر کے لئے سکتے میں آگیا ہے، ایک قدم آگے بڑھا، لٹھ کو دور دکان کے سامنے اپنے کھٹولے کی طرف پھینک دیا اور گلے کو بازو سے پکڑ کر بڑی نرمی سے اٹھاتے ہوئے بولاچوھدری کو میرا سلام دینا اور کہنا کہ انعام مل گیا ہے، رسید میں خود پہنچانے آؤ ں گا۔”

اس نے ہولے ہولے گلے کے کپڑے جھاڑے، اس کے ٹوٹے ہوئے طرے کو سیدھا کیا اور بولا۔ “رسید تم ہی کو دے دیتا پر تمہیں تو دولہا بننا ہے ابھی اس لئے جاؤ، اپنا کام کرو”

گلا سر جھکائے ہولے ہولے چلتا گلی میں مڑ گیامولا آہستہ آہستہ کھاٹ کی طرف بڑھا، جیسے جیسے وہ آگے بڑھ رہا تھا ویسے ویسے لوگوں کے قدم پیچھے ہٹ رہے تھے اور جب اس نے کھاٹ پر بیٹھنا چاہا تو کمہاروں کے آوے کی طرف سے اس کی ماں چیختی چلاتی بھاگتی ہوئی آئی اور مولا کے پاس آ کر نہایت وحشت سے بولنے لگی۔”تجھے گلے نے تھپڑ مارا اور تو پی گیا چپکے سے! ارے تو تو میرا حلالی بیٹا تھا۔ تیرا گنڈاسا کیوں نہ اٹھا؟ تو نے” وہ اپنا سر پیٹتے ہوئے اچانک رک گئی اور بہت نرم آواز میں جیسے بہت دور سے بولی۔ “تو تو رو رہا ہے مولے؟”

مولے گنڈاسے والے نے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے اپنا ایک بازو آنکھوں پر رگڑا اور لرزتے ہوئے ہونٹوں سے بالکل معصوم بچوں کی طرح ہولے بولا “تو کیا اب روؤں بھی نہیں!۔”