Nepali Folk Tale

Articles

کل سب بدل جائے گا

نیپالی لوک کہانیاں

 

ایک مرتبہ کی بات ہے ایک آدمی کا گزر پٹن سلطنت (موجودہ للت پور)سے ہوا۔ وہاں وہ رگھو نام کے آدمی کو دیکھ کر بہت حیران ہو اجو تیل نکالنے والی میل میں جانوروں کی طرح پہئے کو گول گول گھما رہا تھا۔
مسافر نے پوچھا ” تم کب تک اسے یوں ہی گھماتے رہو گے؟“ رگھو نے جواب دیا ۔” فکر مت کرومیر ے دوست کل سب بدل جائے گا!“
کچھ دنوں بعد مسافرکا دوبارہ اسی جگہ سے گزر ہوا۔اس بار وہ پہلے سے اور زیادہ حیران ہوگیا وہی رگھو جسے تیل کی میل میں جانوروں کی طرح کام کرتے دیکھا تھا اب وہ میل کا مالک بن چکا تھا ۔مسافر نے اسے اس ترقی پر مبارک باد پیش کی ۔رگھو نے شکریہ ادا کیا اور کہا” میرے دوست کل سب بدل جائے گا۔“
اگلی مرتبہ اسی شہر سے جب مسافر کا گذر ہوا ۔اس بار حیرت کی انتہانہ رہی ۔رگھو پٹن سلطنت کا راجا بن چکا تھا ۔ ” یہ کیسے ہوا میرے دوست؟“ مسافر نے پوچھا۔ رگھو نے بتایا کہ جو اس سے پہلے راجاتھا اس کا انتقال ہو گیا اور علاقائی دستور کے مطابق راجا وہی شخص بنتا ہے جسے شاہی ہاتھی پھولوں کا ہار پہنائے۔ شہرکے سب لوگ جمع ہوئے شاہی ہاتھی میرے قریب آیا اورمجھے ہار پہنا دیا۔
”مجھے سن کربہت خوشی ہوئی رگھو ۔بہت بہت مبارک ہو!“
رگھو مسافر سے بغل گیر ہوگیا اور معمول کے مطابق کہا” فکر مت کروکل سب بدل جائے گا !“
کچھ دنوں بعد پھر مسافر کا گزر اسی جگہ سے ہو ا۔اس بار وہ اور زیادہ حیران ہواکیوں کہ اسے وہاں اینٹ اور پتھروں کا ڈھیر اور منہدم عمارتیںنظر آئےں۔وہاں محل ،شہر اور رگھو کا نام و نشان نہ تھا ۔مسافر کو بے حد تکلیف ہوئی جب اسے کسی سے پتہ چلا کہ زلزلے میں پورا شہر برباد ہو گیا۔
پھر مسافر کو رگھو کی وہ بات یاد آئی جو وہ بار بار کہتا تھا کہ کل سب بدل جائے گا ۔ مسافر نے اپنے آپ سے کہا واقعی کل سب بدل جائے گا!“
سبق : ہر چیز فانی ہے/کوئی بھی چیز ہمیشہ کے لئے باقی نہیں رہتی۔


 

انگریزی سے ترجمہ : حیدر شمسی

Coffee by Mushtaq Ahmad Yusufi

Articles

کافی

مشتاق احمد یوسفی

 

میں‌نے سوال کیا “آپ کافی کیوں ‌پیتے ہیں؟“
انھوں نے جواب دیا “آپ کیوں‌ نہیں پیتے؟“
“مجھے اس میں‌ سگار کی سی بو آتی ہے۔“
“اگر آپ کا اشارہ اس کی سوندھی سوندھی خوشبو کی طرف ہے تو یہ آپ کی قوتٍ شامہ کی کوتاہی ہے۔“
گو کہ ان کا اشارہ صریحاً میری ناک کی طرف تھا، تاہم رفعٍ شر کی خاطر میں‌نے کہا
“تھوڑی دیر کے لیے یہ مان لیتا ہوں کہ کافی میں سے واقعی بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ مگر یہ کہاں کی منطق ہے کہ جو چیز ناک کو پسند ہو وہ حلق میں انڈیل لی جائے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کافی کا عطر کیوں نہ کشید کیا جائے تاکہ ادبی محفلوں میں ایک دوسرے کے لگایا کریں۔“
تڑپ کر بولے “صاحب! میں ماکولات میں معقولات کا دخل جائز نہیں سمجھتا، تاوقتیکہ اس گھپلے کی اصل وجہ تلفظ کی مجبوری نہ ہو—–کافی کی مہک سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک تربیت یافتہ ذوق کی ضرورت ہے۔ یہی سوندھا پن لگی ہوئی کھیر اور دُھنگارے ہوئے رائتہ میں ہوتا ہے۔“
میں نے معذرت کی “کُھرچن اور دُھنگار دونوں‌ سے مجھے متلی ہوتی ہے۔“
فرمایا “تعجب ہے! یوپی میں تو شرفا بڑی رغبت سے کھاتے ہیں“۔
“میں نے اسی بنا پر ہندوستان چھوڑا۔“
چراندے ہو کر کہنے لگے “ آپ قائل ہو جاتے ہیں تو کج بحثی کرنے لگتے ہیں۔“
جواباً عرض کیا “گرم ممالک میں بحث کا آغاز صحیح معنوں میں‌قائل ہونے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ دانستہ دل آزاری ہمارے مشرب میں گناہ ہے۔ لہٰذا ہم اپنی اصل رائے کا اظہار صرف نشہ اور غصہ کے عالم میں‌کرتے ہیں۔ خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا، لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کافی خوش ذائقہ ہوتی ہے تو کسی بچے کو پلا کر اس کی صورت دیکھ لیجئے۔“
جھلا کر بولے “ آپ بحث میں معصوم بچوں کو کیوں گھسیٹتے ہیں؟“
میں بھی الجھ گیا “آپ ہمیشہ ‘بچوں‘ سے پہلے لفظ ‘معصوم‘ کیوں‌ لگاتے ہیں؟ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ کچھ بچے گناہ گار بھی ہوتے ہیں؟ خیر، آپ کو بچوں‌ پر اعتراض ہے تو بلی کو لیجئے۔“
“بلی ہی کیوں؟ بکری کیوں‌ نہیں؟“ وہ سچ مُچ مچلنے لگے۔
میں نے سمجھایا “بلی اس لئے کہ جہاں تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، بچے اور بلیاں بُرے بھلے کی کہیں بہتر تمیز رکھتے ہیں۔“
ارشاد ہوا “کل کو آپ یہ کہیں‌گے کہ چونکہ بچوں اور بلیوں کو پکے گانے پسند نہیں‌ آسکتے اس لیے وہ بھی لغو ہیں۔“
میں نے انہیں یقین دلایا “میں‌ ہرگز یہ نہیں کہ سکتا۔پکے راگ انھیں‌کی ایجاد ہیں۔ آپ نے بچوں کا رونا اور بلیوں کا لڑنا۔۔۔۔۔“
بات کاٹ کر بولے “بہرحال ثقافتی مسائل کے حل کا نتیجہ ہم بچوں اور بلیوں ‌پر نہیں چھوڑ سکتے۔“
آپ کو یقین آئے یا نہ آئے، مگر یہ واقعہ ہے کہ جب بھی میں نے کافی کے بارے میں استصوابٍ رائے کیا اس کا انجام اسی قسم کا ہوا۔ شائقین میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اُلٹی جرح کرنے لگتے ہیں۔ اب میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں‌کہ کافی اور کلاسیکی موسیقی کے بارے میں استفسارٍ رائے عامہ کرنا بڑی ناعاقبت اندیشی ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بدمذاقی ہے جیسے کسی نیک مرف کی آمدنی یا خوب صورت عورت کی عمر دریافت کرنا (اس کا مطلب یہ نہیں کہ نیک مرد کی عمر اور خوب صورت عورت کی آمدنی دریافت کرنا خطرے سے خالی ہے)۔ زندگی میں صرف ایک شخص ملا جو واقعی کافی سے بیزار تھا۔ لیکن اس کی رائے اس لحاظ سے زیادہ قابلٍ التفات نہیں کہ وہ ایک مشہور کافی ہاؤس کا مالک نکلا۔
ایک صاح تو اپنی پسند کے جواز میں‌صرف یہ کہ کر چپ ہو گئے کہ
چھٹتی نہیں منہ سے یہ کافی لگی ہوئی
میں‌نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے “دراصل یہ عادت کی بات ہے۔ یہ کم بخت کافی بھی روایتی چنے اور ڈومنی کی طرح‌ایک دفعہ منہ سے لگنے کے بعد چھڑائے نہیں چھوٹتی۔ ہے ناں؟“
اس مقام پر مجھے اپنی معذوری کا اعتراف کرنا پڑا کہ بچپن ہی سے میری صحت خراب اور صحبت اچھی رہی۔ اس لئے ان دونوں‌خوب صورت بلاؤں سے محفوظ رہا۔
بعض احباب تو اس سوال سے چراغ پا یر کر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ میں‌ یہ نہیں‌ کہتا کہ وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ ایمان کی بات ہے کہ چھوٹے الزام کو سمجھ دار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس ضمن میں جو متضاد باتیں سننا پڑتی ہیں، ان کی دو مثالیں‌ پیش کرتا ہوں۔
ایک کرم فرما نے میری بیزاری کو محرومی پر محمول کرتے ہوئے فرمایا:
‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ہائے ‌کم‌بخت تو نے پی ہی نہیں
ان کی خدمت میں‌ حلفیہ عرض کیا کہ دراصل بیسیوں گیلن پینے کے بعد ہی یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ دوسرے صاحب نے ذرا کھل کر پوچھا کہ کافی سے چٍڑ کی اصل وجہ معدے کے وہ داغ (Ulcers) تو نہیں جن کو میں ‌دو سال سے لیے پھررہا ہوں اور جو کافی کی تیزابیت سے جل اٹھے ہیں۔
اور اس کے بعد وہ مجھے نہایت تشخیص ناک نظروں سے گھورنے لگے۔
استصوابٍ رائے عامہ کا حشر تو آپ دیکھ چکے۔ اب مجھے اپنے تاثرات پیش کرنے کی اجازت دیجئے۔ میرا ایمان ہے کہ قدرت کے کارخانے میں کوئی شئے بےکار نہیں۔ انسان غوروفکر کی عادت ڈالے (یا محض عادت ہی ڈال لے) تو ہر بری چیز میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور نکل آتی ہے۔ مثال کے طور پر حقہ ہی کو لیجئے۔ معتبر بزرگوں سے سنا ہے کہ حقہ پینے سے تفکرات پاس نہیں پھٹکتے۔ بلکہ میں‌ تو یہ عرض‌ کروں گا کہ اگر تمباکو خراب ہو تو تفکرات ہی پر کیا موقوف ہے، کوئی بھی پاس نہیں‌ پھٹکتا۔ اب دیگر ملکی اشیائے خوردونوش پر نظر ڈالیے۔ مرچیں کھانے کا ایک آسانی سے سمجھ آجانے والا فائدہ یہ ہے کہ ان سے ہمارے مشرقی کھانوں کا اصل رنگ اور مزہ دب جاتا ہے۔ خمیرہ گاؤ زبان اس لیے کھاتے ہیں کہ بغیر راشن کارڈ کے شکر حاصل کرنے کا یہی ایک جائز طریقہ ہے۔ جوشاندہ اس لیے گوارا ہے کہ اس کے نہ صرف ایک ملکی صنعت کو فروغ ہوتا ہے بلکہ نفسٍ امارہ کو مارنے میں ‌بھی مدد ملتی ہے۔ شلغم اس لیے زہر مار کرتے ہیں کہ ان میں وٹامن ہوتا ہے۔ لیکن جدید طبی ریسرچ نے ثابت کردیا ہے کہ کافی میں سوائے کافی کے کچھ نہیں ہوتا۔ اہل ذوق کے نزدیک یہی اس کی خوبی ہے۔
معلوم نہیں کہ کافی کیوں، کب اور کس مردم آزار نے دریافت کی۔ لیکن یہ بات وثوق کے ساتھ کہ سکتا ہو‌ں کہ یونانیوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ اگر انھیں ذرا بھی علم ہوتا تو چرائتہ کی طرح یہ بھی یونانی طب کا جزوٍاعظم ہوتی۔ اس قیاس کو اس امر سے مزید تقویت پہنچتی ہے کہ قصبوں میں کافی کی بڑھتی ہوئی کھپت کی غالباً ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عطائیوں نے “اللہ شافی اللہ کافی“ کہ کر مؤخرالذکر کا سفوف اپنے نسخوں میں لکھنا شروع کر دیا ہے۔ زمانہ قدیم میں اس قسم کی جڑی بوٹیوں کا استعمال عداوت اور عقدٍثانی کے لیے مخصوص تھا۔ چونکہ آج کل ان دونوں باتوں کو معیوب خیال کیا جاتا ہے، اس لیے صرف اظہارٍ خلوصٍ باہمی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
سنا ہے کہ چائے کے باغات بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ بات یوں بھی سچ معلوم ہوتی ہے کہ چائے اگر کھیتوں میں‌ پیدا ہوتی تو ایشیائی ممالک میں اتنی افراط سے نہیں ملتی بلکہ غلہ کی طرح غیر ممالک سے درآمد کی جاتی۔ میری معلوماتٍ عامہ محدود ہیں مگر قیاس یہی کہتا ہے کہ کافی بھی زمین ہی سے اگتی ہوگی۔ کیونکہ اس کا شمار ان نعمتوں میں نہیں جو اللہ تعالٰی اپنے نیک بندوں پر آسمان سے براہٍ راست نازل کرتا ہے۔ تاہم میری چشمٍ تخیل کو کسی طور یہ باور نہیں آتا کہ کافی باغوں کی پیداوار ہو سکتی ہے۔ اور اگر کسی ملک کے باغوں‌ میں یہ چیز پیدا ہوتی ہے تو اللہ جانے وہاں کے جنگلوں میں‌کیا اُگتا ہوگا؟ ایسے اربابٍ ذوق کی کمی نہیں جنھیں کافی اس وجہ سے عزیز ہے کہ یہ ہمارے ملک میں پیدا نہیں ہوتی۔ مجھ سے پوچھئے تو مجھے اپنا ملک اسی لیے اور بھی عزیز ہے کہ یہاں کافی پیدا نہیں ہوتی۔
میں مشروبات کا پارکھ نہیں ہوں۔ لہٰذا مشروب کے اچھے یا برے ہونے کا اندازہ ان اثرات سے لگاتا ہوں جو اسے پینے کے بعد رونما ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے میں نے کافی کو شراب سے بدرجہا بدتر پایا۔ میں نے دیکھا ہے کہ شراب پی کر سنجیدہ حضرات بے حد غیر سنجیدہ گفتگو کرنے لگتے ہیں جو بے حد جاندار ہوتی ہے۔ برخلاف اس کے کافی پی کر غیر سنجیدہ لوگ انتہائی سنجیدہ گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے سنجیدگی سے چڑ نہیں بلکہ عشق ہے۔ اسی لیے میں‌سنجیدہ آدمی کی مسخرگی برداشت کر لیتا ہوں، مگر مسخرے کی سنجیدگی کا روادارن ہیں۔ شراب کے نشے میں لوگ بلا وجہ جھوٹ نہیں بولتے۔ کافی پی کر لوگ بلا وجہ سچ نہیں بولتے۔ شراب پی کر آدمی اپنا غم اوروں کو دے دیتا ہے مگر کافی پینے والے اوروں کے فرضی غم اپنا لیتے ہیں۔ کافی پی کر حلیف بھی حریف بن جاتے ہیں۔
یہاں ‌مجھے کافی سے اپنی بیزاری کا اظہار مقصود ہے۔ لیکن اگر کسی صاحب کو یہ سطور شراب کا اشتہار معلوم ہوں تو اسے زبان و بیان کا عجز تصور فرمائیں۔ کافی کے طرفدار اکثر یہ کہتے ہیں کہ یہ بے نشے کی پیالی ہے۔ بالفرضٍ محال یہ گزارشٍ احوال واقعی یا دعویٰ ہے تو مجھے ان سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر اتنے کم داموں میں آخر وہ اور کیا چاہتے ہیں؟
کافی ہاؤس کی شام کا کیا کہنا! فضا میں ہر طرف ذہنی کہرا چھایا ہوا ہے۔ جس کو سرمایہ دار طبقہ اور طلبا سرخ سویرا سمجھ کر ڈرتے اور ڈراتے ہیں۔ شوروشغب کا یہ عالم کہ اپنی آواز تک نہیں سنائی دیتی اور بار بار دوسروں سے پوچھنا پڑتا ہے کہ میں نے کیا کہا۔ ہر میز پر تشنگانٍ علم کافی پی رہے ہیں۔ اور غروبٍ آفتاب سے غرارے تک، یا عوام اور آم کے خواص پر بقراطی لہجے میں بحث کر رہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کافی اپنا رنگ لاتی ہے اور تمام بنی نوعٍ انسان کو ایک برادری سمجھنے والے تھوڑی دیر بعد ایک دوسرے کی ولدیت کے بارے میں‌اپنے شکوک کا سلیس اردو میں اظہار کرنے لگتے ہیں، جس سے بیروں کو کلیتہً اتفاق ہوتا ہے۔ لوگ روٹھ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ گھر جائیں گے
گھر میں‌ بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
کافی پی پی کر سماج کو کوسنے والے ایک اٹلیکچوئل نے مجھے بتایا کہ کافی سے دل کا کنول کھل جاتا ہے اور آدمی چہکنے لگتا ہے۔ میں‌بھی اس رائے سے متفق ہوں۔ کوئی معقول آدمی یہ سیال پی کر اپنا منہ نہیں‌بند رکھ سکتا۔ ان کا یہ دعویٰ بھی غلط نہیں‌معلوم ہوتا کہ کافی پینے سے بدن میں‌ چستی آتی ہے۔ جبھی تو لوگ دوڑ دوڑ کر کافی ہاؤس جاتے ہیں اور گھنٹوں وہیں‌ بیٹھے رہتے ہیں۔
بہت دیر تک وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ کافی نہایت مفرح ہے اور دماغ کو روشن کرتی ہے۔ اس کے ثبوت میں انہوں‌نے یہ مثال دی کہ “ابھی کل ہی کا واقعہ ہے۔ میں دفترسے گھر بے حد نڈھال پہنچا۔ بیگم بڑی مزاج ہیں۔ فوراً کافی کا TEA POT لا کر سامنے رکھ دیا۔“
میں ذرا چکرایا “پھر کیا ہوا؟“ میں نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
“میں‌ نے دودھ دان سے کریم نکالی“ انھوں‌ نے جواب دیا۔
میں نے پوچھا “شکر دان سے کیا نکلا؟“
فرمایا “شکر نکلی، اور کیا ہاتھی گھوڑے نکلتے؟“
مجھے غصہ تو بہت آیا مگر کافی کا سا گھونٹ پی کر رہ گیا۔
عمدہ کافی بنانا بھی کیمیا گری سے کم نہیں۔ یہ اس لیے کہ رہا ہوں‌کہ دونوں‌کے متعلق یہی سننے میں آیا ہے کہ بس ایک آنچ کی کسر رہ گئی۔ ہر ایک کافی ہاؤس اور خاندان کا ایک مخصوص نسخہ ہوتاہے جو سینہ بہ سینہ، حلق بہ حلق منتقل ہوتا رہتا ہے۔ مشرقی افریقہ کے اس انگریز افسر کا نسخہ تو سبھی کو معلوم ہے جس کی کافی کی سارے ضلعے میں دھوم تھی۔ ایک دن اس نے ایک نہایت پر تکلف دعوت کی جس میں اس کے حبشی خانساماں نے بہت ہی خوش ذائقہ کافی بنائی۔ انگریز نے بہ نظر حوصلہ افزائی اس کو معزز مہمانوں‌کے سامنے طلب کیا اور کافی بنانے کی ترکیب دریافت پوچھی۔
حبشی نے جواب دیا “بہت ہی سہل طریقہ ہے۔ میں بہت سا کھولتا ہوا پانی اور دودھ لیتا ہوں۔ پھر اس میں‌کافی ملا کر دم کرتا ہوں۔“
“لیکن اسے حل کیسے کرتے ہو۔ بہت مہین چھنی ہوتی ہے۔“
“حضورکے موزے میں چھانتا ہوں۔“
“کیا مطلب؟ کیا تم میرے قیمتی ریشمی موزے استعمال کرتے ہو؟“ آقا نے غضب‌ ناک ہو کر پوچھا۔
خانساماں‌سہم گیا “نہیں سرکار! میں آپ کے صاف موزے کبھی استعمال نہیں کرتا۔“
سچ عرض کرتا ہوں‌کہ میں کافی کی تندی اور تلخی سے ذرا نہیں گھبراتا۔ بچپن ہی سے یونانی دواؤں کا عادی رہا ہوں اور قوتٍ برداشت اتنی بڑھ گئی ہے کہ کڑوی سے کڑوی
گولیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا!
لیکن کڑواہٹ اور مٹھاس کی آمیزش سے جو معتدل قوام بنتا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے۔ میری انتہا پسند طبیعیت اس میٹھے زہر کی تاب نہیں لا سکتی۔ لیکن دقت یہ آن پڑتی ہے کہ میں میزبان کے اصرار کو عداوت اور وہ میرے انکار کو تکلف پر محمول کرتے ہیں۔
لہٰذا جب وہ میرے کپ میں شکر ڈالتے وقت اخلاقاً پوچھتے ہیں:
“ایک چمچہ(یہ ایک لفظ نہیں‌ پڑھا جارہا)؟
تو مجبوراً یہی گزارش کرتاہوں‌کہ میرے لیے شکر دان میں کافی کے دو چمچ ڈال دیجئے۔
صاف ہی کیوں‌ نہ کہ دوں کہ جہاں‌تک اشیائے خوردونوش کا تعلق ہے، میں‌تہذیب حواس کا قائل نہیں۔ میں‌یہ فوری فیصلہ ذہن کی بجائے زبان پر چھوڑنا پسند کرتا ہوں۔ پہلی نظر میں جو محبت ہو جاتی ہے، اس میں بالعموم نیت کا فتور کارفرما ہوتا ہے۔ لیکن کھانے پینے کے معاملے میں‌میرا یہ نظریہ ہے کہ پہلا ہی لقمہ یا گھونٹ فیصلہ کن ہوتا ہے۔ بدذائقہ کھانے کی عادت کو ذوق میں تبدیل کرنے کے لیے بڑا پٍتا مارنا پڑتا ہے۔ مگر میں اس سلسلہ میں برسوں‌تلخیٍ کام و دہن گوارا کرنے کا حامی نہیں، تاوقیکہ اس میں‌ بیوی کا اصرار یا گرہستی کی مجبوریاں شامل نہ ہوں۔ بنا بریں، میں‌ ہر کافی پینے والے کو جنتی سمجھتا ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو لوگ عمر بھی ہنسی خوشی یہ عذاب جھیلتے رہے، ان پر دوزخ اور حمیم حرام ہیں۔
کافی امریکہ کا قومی مشروب ہے۔ میں اب بحث میں‌ نہیں الجھنا چاہتا کہ امریکی کلچر کافی کے زور سے پھیلا، یا کافی کلچر کے زور سے رائج ہوئی۔ یہ بعینہ ایسا سوال ہے جیسے کوئی بے ادب یہ پوچھ بیٹھے کہ “غبارٍ خاطر“ چائے کی وجہ سے مقبول ہوئی یا چائے “غبارٍ خاطر“ کے باعث؟ ایک صاحب نے مجھے لاجواب کرنے کی خاطر یہ دلیل پیش کی امریکہ میں تو کافی اس قدر عام ہے کہ جیل میں‌بھی پلائی جاتی ہے۔ عرض کیا کہ جب خود قیدی اس پر احتجاج نہیں کرتے تو ہمیں‌کیا پڑی کہ وکالت کریں۔ پاکستانی جیلوں‌میں‌بھی قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جائے تو انسدادٍ جرائم میں کافی مدد ملے گی۔ پھر انھوں‌ نے بتایا کہ وہاں لا علاج مریضوں کو بشاش رکھنے کی غرض سے کافی پلائی جاتی ہے۔ کافی کے سریع التاثیر ہونے میں کیا کلام ہے۔ میرا خیال ہے کہ دمٍ نزع حلق میں پانی چوانے کی بجائے کافی کے دو چار قطرے ٹپکا دیے جائیں تو مریض کا دم آسانی سے نکل جائے۔ بخدا، مجھے تو اس تجویز پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ گناہ گاروں کی فاتحہ کافی پر دلائی جائے۔
سنا ہے کہ بعض روادار افریقی قبائل کھانے کے معاملے میں جانور اور انسان کے گوشت کو مساوی درجہ دیتے تھے۔ لیکن جہاں‌تک پینے کی چیزوں کا تعلق ہے، ہم نے ان کے بارے میں کوئی بری بات نہیں‌سنی۔ مگر ہم تو چینیوں کی رچی ہوئی، حسٍ شامہ کی داد دیتے ہیں کہ نہ منگول حکمرانوں کا جبروتشدد انہیں پنیر کھانے پر مجبور کر سکا کہ امریکہ انہیں کافی پینے پر آمادہ کر سکا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان کی نفاست نے سخت قحط کے زمانے میں‌بھی فاقے اور اپنے فلسفےکو پنیر اور کافی پر ترجیح‌دی۔
ہمارا منشا امریکی یا چینی عادات پر نکتہ چینی نہیں۔ ہر آزاد قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے منہ اور معدے کے ساتھ جیساسلوک چاہے، بے روک ٹوک کرے۔ اس کے علاوہ جب دوسری قومیں ہماری رساول، نہاری اور فالودے کا مذاق نہیں اڑاتیں تو ہم دخل در ماکولات کرنے والے کون؟ بات دراصل یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں‌پیاس بجھانے کے لیے پانی کے علاوہ ہر رقیق شئے استعمال ہوتی ہے۔ سنا ہے کہ جرمنی (جہاں‌ قومی مشروب بیئر ہے) ڈاکٹر بدرجہء مجبوری بہت ہی تندرست و توانا افراد کو خالص پانی پینے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن جن کو آب نوشی کا چسکا لگ جاتا ہے، وہ راتوں‌کو چھپ چھپ کر پانی پیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ پیرس کے کیفوں‌میں‌رنگین مزاج فن کار بورژوا طبقہ کو چڑانے کی غرض‌سے کھلم کھلا پانی پیا کرتے تھے۔
مشرقی اور مغربی مشروبات کا موازنہ کرنے سے پہلے یہ بنیادی اصول ذہن نشین کر لینا ازبس ضروری ہے کہ ہمارے یہاں‌پینے کی چیزوں میں کھانے کی خصوصیات ہوتی ہیں۔ اپنے قدیم مشروبات مثلاً یخنی، ستو اور فالودے پر نظر ڈالئے تو یہ فرق واضح‌ہو جاتا ہے۔ ستو اور فالودے کو خالصتاً لغوی معنوں ‌میں ‌آپ نہ کھا سکتے ہیں اور نہ پی سکتے ہیں۔ بلکہ اگر دنیا میں‌کوئی ایسی شئے ہے جسے آپ بامحاورہ اردو میں بیک وقت کھا اور پی سکتے ہیں تو یہی ستو اور فالودہ ہے جو ٹھوس غذا اور ٹھنڈے شربت کے درمیان ناقابلٍ بیان سمجھوتہ ہے، لیکن آج کل ان مشروبات کا استعمال خاص خاص تقریبوں میں ‌ہی کیا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اب ہم نے عداوت نکالنے کا ایک اور مہذب طریقہ اختیار کیا ہے۔
آپ کے ذہن میں‌خدانخواستہ یہ شبہ نہ پیدا ہو گیا ہو کہ راقم السطور کافی کے مقابلے میں‌ چائے کا طرف دار ہے تو مضمون ختم کرنے سے پہلے اس غلط فہمی کا ازالہ کرنا از بس ضروری سمجھتا ہوں‌۔ میں‌کافی سے اس لیے بیزار نہیں ہوں‌کہ مجھے چائے عزیز ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کافی کا جلا چائے بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں‌کہ جنہیں‌چائے کے ارماں‌ہوں‌گے

Chaarpai aur culture by Mushtaq Ahmad Yusufi

Articles

چارپائی اورکلچر

مشتاق احمد یوسفی

ایک فرانسیسی مفکرّکہتاہےکہ موسیقی میں مجھےجوبات پسندہےوہ دراصل وہ حسین خواتین ہیں جواپنی ننھی ننھی ہتھیلیوں پرٹھوڑیاں رکھ کر اسے سنتی ہیں ۔ یہ قول میں نےاپنی بریّت میں اس لیےنقل نہیں کیاکہ میں جوقوّالی سےبیزارہوں تواس کی اصل وجہ وہ بزرگ ہیں جومحفلِ سماع کورونق بخشتےہیں۔اورنہ میرایہ دعویٰ کہ میں نےپیانواورپلنگ کےدرمیان کوئی ثقافتی رشتہ دریافت کرلیاہے۔ حالانکہ میں جانتاہوں کہ پہلی باربان کی کھّری چارپائی کی چرچراہٹ اورادوان کاتناؤ دیکھ کربعض نوواردسیّاح اسےسارنگی کےقبیل کاایشیائی سازسمجھتےہیں۔ کہنایہ تھاکہ میرےنزدیک چارپائی کی دِلکشی کاسبب وہ خوش باش لوگ ہیں جو اس پراُٹھتےبیٹھتےاورلیٹتےہیں۔اس کےمطالعہ سےشخصی اورقومی مزاج کےپرکھنےمیں مددملتی ہے۔ اس لیےکہ کسی شخص کی شائستگی وشرافت کااندازہ آپ صر ف سےلگاسکتےہیں کہ وہ فرصت کےلمحات میں کیاکرتاہےاوررات کوکِس قِسم کےخواب دیکھتاہے۔
چارپائی ایک ایسی خودکفیل تہذیب کی آخری نشانی ہےجونئےتقاضوں اورضرورتوں سےعہدہ برا ہونےکےلیےنِت نئی چیزیں ایجادکرنےکی قائل نہ تھی۔ بلکہ ایسےنازک مواقع پرپُرانی میں نئی خوبیاں دریافت کرکےمسکرادیتی تھی۔ اس عہدکی رنگارنگ مجلسی زندگی کاتصّورچارپائی کےبغیر ممکن نہیں۔اس کاخیال آتےہی ذہن کےافق پرپہت سےسہانےمنظراُبھر آتے ہیں-اُجلی اُجلی ٹھنڈی چادریں،خس کےپنکھی، کچّی مٹّی کی سن سن کرتی کوری صُراحیاں، چھڑکاؤ سےبھیگی زمین کی سوندھی سوندھی لپٹ اور آم کےلدےپھندےدرخت جن میں آموں کےبجائےلڑکےلٹکےرہتےہیں-اوراُن کی چھاؤں میں جوان جسم کی طرح کسی کسائی ایک چارپائی جس پردِن بھرشطرنج کی بساط یارمی کی پھڑجمی اورجوشام کودسترخوان بچھاکرکھانےکی میزبنالی گئی۔ ذراغورسےدیکھئےتویہ وہی چارپائی ہےجس کی سیڑھی بناکرسُگھڑبیویاں مکڑی کےجالےاورچلنلےلڑکےچڑیوں کےگھونسلےاتارتےہیں۔ اسی چارپائی کووقتِ ضرورت پٹیوں سےبانس باندھ کراسٹیریچربنالیتےہیں اوربجوگ پڑجائےتوانھیں بانسوں سےایک دُوسرےکواسٹیریچرکےقابل بنایاجاسکتاہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ  سےلگ جائےتوتیماردارمؤخرالذِکرکےوسط میں بڑاساسوراخ کرکےاوّل الذِکرکی مشکل آسان کردیتےہیں۔ اورجب ساون میں اُودی اُودی گھٹائیں اُٹھتی ہیں توادوان کھول کرلڑکیاں دروازےکی چوکھٹ اوروالدین چارپائیوں میں جُھولتےہیں۔اسی پربیٹھ کرمولوی صاحب قمچی کےذریعہ اخلاقیات کےبنیادی اُصول ذہن نشین کراتےہیں۔ اسی پرنومولودبچّےغاؤں غاؤں کرتی، چُندھیائی ہُوئی آنکھیں کھول کراپنےوالدین کودیکھتےہیں اور روتے ہیں اوراسی پردیکھتےہی دیکھتےاپنےپیاروں کی آنکھیں بندہوجاتی ہیں۔
اگر یہ اندیشہ نہ ہوتاکہ بعض حضرات اس مضمون کوچارپائی کاپرچہ ترکیب ِ استعمال سمجھ لیں گےتواس ضمن میں کچھ اورتفصیلات پیش کرتا۔ لیکن جیسا کہ پہلےاشارہ کرچکاہُوں، یہ مضمون اس تہذیبی علاقت کاقصیدہ نہیں، مرثیہ ہے۔ تاہم بہ نظرِاحتیاط اِتنی وضاحت ضروری ہےکہ:
ہم اس نعمت کےمُنکرہیں نہ عادی
نام کی مناسبت سےپائےاگرچارہوں تومناسب ہےورنہ اس سےکم ہوں، تب بھی خلقِ خداکےکام بندنہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کےحجم اورشکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنےرکھ کرآپ غبی سےغبی لڑکےکواقلیدس کی تمام شکلیں سمجھا سکتے ہیں۔ اوراس مہم کوسرکرنےکےبعدآپ کواحساس ہوگاکہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کاصرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصّوری میں بھی کوئی ذکرنہیں۔ دیہات میں ایسےپائےبہت عام ہیں جو آدھے پٹُیوں سےنیچےاورآدھےاُوپرنِکلےہوتےہیں۔ ایسی چارپائی کااُلٹاسیدھادریافت کرنےکی آسان ترکیب یہ ہےکہ جس طرف بان صاف ہووہ ہمیشہ ”اُلٹا“ ہوگا۔راقم الحروف نےایسےان گھڑپائےدیکھےہین جن کی ساخت میں بڑھئی نےمحض یہ اصول مدنظررکھاہوگاکہ بسولہ چلائےبغیرپیڑکواپنی قدرتی حالت میں جوں کاتوں پٹیوں سےوصل کردیاجائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سےخرادکےبنےایسےسڈول پائےبھی گزرےہیں جنھیں چوڑی دارپاجامہ پہنانےکوجی چاہتاہی۔اس قسم کےپایوں سےنٹومرحوم کوجووالہانہ عشق رہاہوگااس کااظہارانھوں نےاپنےایک دوست سےایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کراپنےمخصوص اندازمیں کیا۔کہنےلگے:
”اگرمجھےایسی چارٹانگیں مل جائیں توانھیں کٹواکراپنےپلنگ کےپائےبنوالوں۔“
غورکیجئےتومباحثےاورمناظرےکےلیےچارپائی سےبہترکوئی جگہ نہیں۔ اس کی بناوٹ ہی ایسی ہےکہ فریقین آمنےسامنےنہیں بلکہ عموماً اپنے حریف کی پیٹھ کا سہارا لےکرآرام سےبیٹھتےہیں۔ اوربحث وتکرارکےلیےاس سےبہترطرزِنشست ممکن نہیں، کیونکہ دیکھا گیا ہےکہ فریقین کوایک دوسرےکی صورت نظرنہ آئے توکبھی آپےسےباہرنہیں ہوتے۔ اسی بناپرمیراعرصےسےیہ خیال ہےکہ اگربین الاقوامی مذکرات گول میز پرنہ ہوئےہوتےتولاکھوں جانیں تلف ہونےسےبچ جاتیں۔ آپ نےخودیکھاہوگاکہ لدی پھندی چارپائیوں پرلوگ پیٹ بھرکےاپنوں کےغیبت کرتےہیں مگردل برےنہیں ہوتے۔ اس لیےکہ سبھی جانتےہیں کہ غیبت اسی کی ہوتی ہےجسےاپناسمجھتےہیں۔ اورکچھ یوں بھی ہےکہ ہمارےہاں غیبت سےمقصودقطع محبت ہےنہ گزارش احوال واقعہ بلکہ محفل میں
لہوگرم رکھنےکاہےاِک بہانہ
لوگ گھنٹوں چارپائی پرکسمساتےرہتےہیں مگرکوئی اٹھنےکانام نہیں لیتا۔ اس لیےکہ ہرشخص اپنی جگہ بخوبی جانتاہےکہ اگروہ چلاگیاتوفوراًاس کی غیبت شروع ہوجائےگی۔ چنانچہ پچھلےپہرتک مردایک دوسرےکی گردن میں ہاتھ ڈالےبحث کرتےہیں اورعورتیں گال سےگال بھڑائےکچرکچرلڑتی رہتی ہیں۔فرق اتناہےکہ مردپہلےبحث کرتےہیں ، پھرلڑتےہیں۔ عورتیں پہلےلڑتی ہیں اوربعدمیں بحث کرتی ہیں ۔ مجھےثانی الذکرطریقہ زیادہ معقول نظرآتاہے، اس لیےکہ اس میں آئندہ سمجھوتےاورمیل ملاپ کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
رہایہ سوال کہ ایک چارپائی پربیک وقت کتنےآدمی بیٹھ سکتے ہیں توگزارش ہےکہ چارپائی کی موجودگی میں ہم نےکسی کوکھڑانہیں دیکھا۔ لیکن اس نوع کےنظریاتی مسائل میں اعدادوشمارپربےجازوردینےسےبعض اوقات عجیب وغریب نتائج برآمدہوئےہیں۔آپ نےضرورسناہوگاکہ جس وقت مسلمانوں نےاندلس فتح کیاتووہاں کےبڑےگرجامیں چوٹی کےمسیحی علماوفقہااس مسئلہ پرکمال سنجیدگی سےبحث کررہےتھےکہ سوئی کی نوک پرکتنےفرشتےبیٹھ سکتےہیں۔
ہم تواتناجانتےہیں کہ تنگ سےتنگ چارپائی پربھی لوگ ایک دوسرےکی طرف پاؤں کیےاًاٍکی شکل میں سوتےرہتےہیں ۔چنچل ناری کاچیتےجیسااجیت بدن ہویاکسی عمررسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر- یہ اپنےآپ کو ہرقالب کےمطابق ڈھال لیتی ہے۔ اورنہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہےبلکہ اتنی لچک بھی ہےکہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اورلیٹ جائیں۔ بڑی بات یہ ہےکہ بیٹھنےاورلیٹنےکی درمیانی صورتیں ہمارےہاں صدیوں سےرائج ہیں ان کےلیےیہ خاص طورپرموزوں ہے۔یورپین فرنیچرسےمجھےکوئی چڑنہیں،لیکن اس کوکیاکیجئےکہ ایشیائی مزاج نیم درازی کےجن زاویوں اورآسائشوں کاعادی ہوچکا ہے، وہ اس میں میسرنہیں آتیں۔مثال کےطورپرصوفےپرہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔کوچ پردسترخوان نہیں بچھاسکتے۔اسٹول پرقیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر،بقول اخلاق  احمد، اردو نہیں بیٹھ سکتے۔
ایشیا نے دنیا کو دو نعمتوں سے روشناس کیا۔چائےاور چارپائی! اوران میں یہ خاصیت  مشترک ہےکہ دونوں سردیوں میں گرمی اورگرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ اگرگرمی میں لوگ کھری چارپائی پرسواررہتےہیں توبرسات میں یہ لوگوں پرسواررہتی ہےاورکھلےمیں سونےکےرسیااسےاندھیری راتوں میں برآمدےسےصحن اورصحن سےبرآمدےمیں سرپراٹھائےپھرتےہیں۔ پھرمہاوٹ میں سردی اوربان سےبچاؤکےلیےلحاف اورتوشک نکالتےہیں۔ مثل مشہور ہے کہ سردی رُوئی سےجاتی ہےیادُوئی سی۔لیکن اگریہ اسباب ناپیدہوں اورسردی زیادہ اورلحاف پتلاہوتوغریب غربامحض منٹوکےافسانےپڑھ کرسورہتےہیں۔
عربی میں اونٹ کےاتنےنام ہیں کہ دوراندیش مولوی اپنےہونہارشاگردوں کوپاس ہونےکایہ گُربتاتےہیں کہ اگرکسی مشکل یاکڈھب لفظ کےمعنی معلوم نہ ہوں توسمجھ لوکہ اس سےاُونٹ مرادہے۔ اسی طرح اُردومیں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اورکسی ترقی یافتہ زبان میں شایدہی مل سکیں:-
کھاٹ، کھٹا، کھٹیا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹولی، کھٹ ،چھپرکھٹ، کھرّا، کھری، جِھلگا،  پلنگ ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔
یہ نامکمل سی فہرست صرف اردوکی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پردال ہےاورہمارےتمّدن میں اس کامقام ومرتبہ متّعین کرتی ہے۔
لیکن چارپائی کی سب سےخطرناک قسم وہ ہےجس کےبچےکھچےاورٹوٹےادھڑےبانوں میں اللہ کےبرگزیدہ بندےمحض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔ اس قسم کےجھلنگےکوبچےبطورجھولااوربڑےبوڑھےآلہ تزکیہ نفس کی طرح استعمال کرتےہیں۔ اونچےگھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کوغریب رشتےداروں کی طرح کونوں کھدروں میں آڑےوقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔خودمجھےمرزاعبدالودودبیگ کےہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پرگزارنےکااتفاق ہواجس پرلیٹتےہی اچھابھلاآدمی نون غنہ (ں)بن جاتاہے۔
اس میں داخل ہوکرمیں ابھی اپنےاعمال کاجائزہ ہی لےرہاتھاکہ یکایک اندھیراہوگیا،جس کیوجہ غالباًیہ ہوگی ایک دوسراملازم اوپرایک دری اوربچھاگیا۔اس خوف سےکہ دوسری منزل پرکوئی اورسواری نہ آجائے،میں نےسرسےدری پھینک کراُٹھنےکی کوشش کی توگھٹنےبڑھ کےپیشانی کی بلائیں لینےلگی۔کھڑبڑسن کرمرزاخودآئےاورچیخ کرپوچھنےلگےبھائی آپ ہیں کہاں؟میں نےمختصراًاپنےمحل وقوع سےآگاہ کیاتوانھوں نےہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچا۔ انھیں کافی زورلگاناپڑااس اس لیےکہ میراسراورپاؤں بانوں میں بری طرح الجھےہوئےتھےاوربان سرسےزیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔بمشکل تمام انھوں نے مجھے کھڑاکیا۔
اورمیرےساتھ ہی،مجھ سےکچھ پہلی،چارپائی بھی کھڑی ہوگئی!
کہنےلگی” کیابات ہے؟ آپ کچھ بےقرارسےہیں۔ معدے کا فعل درست نہیں معلوم ہوتا۔“
میرےجواب کاانتظارکیےبغیروہ دوڑکراپناتیارکردہ چُورن لےآئےاوراپنےاوراپنےہاتھ سےمیرےمنہ میں ڈالا۔پھنکی منہ میں بھرکرشکریہ کےدوچارلفظ ہی کہنے پایا ہوں گاکہ معاًنظران کےمظلوم منہ پرپڑگئی جوحیرت سےکھلاہواتھا۔میں بہت نادم ہوا۔لیکن قبل اس کےکہ کچھ اورکہوں انھوں نےاپناہاتھ میرےمنہ پررکھ دیا۔پھرمجھےآرام کرنےکی تلقین کرکےمنہ دھونےچلےگئے۔
میں یہ چارپائی اوڑھےلیٹاتھاکہ ان کی منجھلی بچی آنکلی ۔تتلاکرپوچھنےلگی:
”چچاجان!اکڑوں کیوں بیٹھےہیں؟“
بعدازاں سب بچےمل کراندھابھینساکھیلنےلگے۔بالاخران کی امی کومداخلت کرناپڑی۔
”کم بختو!اب توچپ ہوجاؤ!کیاگھرکوبھی اسکول سمجھ رکھاہے؟“
چندمنٹ بعدکسی شیرخوارکےدہاڑنےکی آوازآئی مگرجلدہی یہ چیخیں مرزاکی لوریوں میں دب گئیں جن میں ڈانٹ ڈانٹ کرنیندکوآنےکی دعوت دے رہے تھے۔چندلمحوں بعدمرزااپنےنقش فریادی کوسینہ سےچمٹائےمیرےپاس آئےاورانتہائی لجاجت آمیزلہجےمیں بولے:
”معاف کیجئے! آپ کوتکلیف توہوگی۔مگرمنّومیاں آپ کی چارپائی کےلیےضدکررہےہیں۔انھیں دوسری چارپائی پرنیندنہیں آتی۔آپ میری چارپائی پر سو جائیے،میں اپنی فولڈنگ چارپائی پرپڑرہوں گا۔“
میں نےبخوشی منومیاں کاحق منومیاں کوسونپ دیااورجب اس میں جھولتےجھولتےان کی آنکھ لگ گئی توان کےوالدبزرگوارکوزبان تالوسےلگی۔
اب سنئےمجھ پرکیاگزری۔مرزاخودتوفولڈنگ چارپائی پرچلےگئےمگرجس چارپائی پرمجھ خاص منتقل کیاگیا۔اس کانقشہ یہ تھاکہ مجھےاپنےہاتھ اورٹانگیں احتیاط سےتہ کرکےبالترتیب سینہ اورپیٹ پررکھنی پڑیں۔اس شب تنہائی میں کچھ دیرپہلےنیندسےیوں دوچشمی ھ بنا، یونانی پروقراط کےبارےمیں سوچتا رہا۔اس کےپاس دوچارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اوردوسری چھوٹی۔ٹھنگنےمہمان کووہ لمبی چارپائی پرسلاتااورکھینچ تان کراس کاجسم چارپائی کے برابر کردیتا۔اس کےبرعکس لمبے آدمی کووہ چھوٹی چارپائی دیتااورجسم کےزائدحصوں کوکانٹ چھانٹ کرابدی نیندسلادیتا۔
اس کےحدوداربعہ کےمتعلق اتناعرض کردیناکافی ہوگاکہ انگڑائی لینےکےلیےمجھےتین چارمرتبہ نیچےکودناپڑا۔کودنےکی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس کی اونچائی”درمیانہ“تھی۔ یہاں درمیانہ سےہماری مرادوہ پست بلندی یاموزوں سطح مرتفع ہی، جس کو دیکھ کریہ خیال پیداہوکہ:
نہ توزمیں کےلیےہےنہ آسماں کےلیے
گوکہ ظاہربین نگاہ کویہ متوازی الاضلاغ نظرآتی تھی مگرمرزانےمجھےپہلےہی آگاہ کردیاتھاکہ بارش سےپیشتریہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جوکان آگئی تھی،اس سےمجھےکوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔اس لیےکہ مرزانےازراہ تکلف ایک پائےکےنیچےڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتارکھ کرسطح درست کردی تھی۔ میراخیال ہےکہ تہذیب کےجس نازک دورمیں غیورمردچارپائی پردم توڑنےکی بجائےجنگ میں دشمن کےہاتھوں بےگوروکفن مرناپسندکرتےتھے، اسی قسم کی مردم آزارچارپائیوں کارواج ہوگا۔لیکن اب جب دشمن سیانےاورچارپائیاں زیادہ آرام دہ ہوگئے ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اورباعزت طریقےدریافت ہوگئےہیں۔
ایک محتاط اندازےکےمطابق ہمارےہاں ایک اوسط درجہ کےآدمی کی دوتہائی زندگی چارپائی پرگزرتی ہے۔اوربقیہ اس کی آرزومیں!بالخصوص عورتوں کی زندگی اسی محورکےگردگھومتی ہےجوبساطِ محفل بھی ہےاورمونسِ تنہائی بھی۔اس کےسہارےوہ تمام مصائب انگیزکرلیتی ہیں۔خیرمصائب تومردبھی جیسےتیسےبرداشت کرلیتے ہیں مگرعورتیں اس لحاظ سےقابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کےعلاوہ مردوں کوبھی برداشت کرناپڑتاہی۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ مئی جون کی جھلسادینےوالی دوپہرمیں کنواریاں بالیاں چارپائی کےنیچےہنڈیاکلہیاپکاتی ہیں اوراوپربڑی بوڑھیاں بیتےہوئےدونوں کو یاد کر کے ایک دوسرےکالہوگرماتی رہتی ہیں(قاعدہ ہےکہ جیسےجیسےحافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اوربھی سہانامعلوم ہوتاہے!)اسی پربوڑھی ساس تسبیح کےدانوں پرصبح وشام اپنےپوتوں اورنواسوں کوگنتی رہتی ہےاورگڑگڑاگڑگڑاکردعامانگتی ہےکہ خدااس کاسایہ بہوکےسرپررہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیرسےبہری بھی ہے۔ اس لیےبہواگرسانس لینےکےلیےبھی منہ کھولےتوگمان ہوتاہےکہ مجھےکوس رہی ہوگی۔قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کاتکیہ بنائےاٹواٹی کھٹواٹی لےکرپڑتی تھی اورآج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سےہاتھ نکال کرپانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اورگشتی نجومیوں کوہاتھ دکھاکراپنےبچوں اورسوکنوں کی تعدادپوچھتی ہیں۔لیکن جن بھاگوانوں کی گودبھری ہو،ان کے بھرے پرےگھرمیں آپ کوچارپائی پرپوتڑےاورسویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظرآئیں گی۔ گھٹنیوں چلتےبچےاسی کی پٹی پکڑکرمیوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اوررات برات پائینتی سےمدمچوں کاکام لیتےہیں۔لیکن جب ذراسمجھ آجاتی ہےتواسی چارپائی پرصاف ستھرےتکیوں سےلڑتےہیں۔نامورپہلوانوں کےبچپن کی چھان بین کی جائےتوپتہ چلےگاکہ انھوں نےقینچی اوردھوبی پاٹ جیسےخطرناک داؤاسی محفوظ اکھاڑےمیں سیکھے۔
جس زمانےمیں وزن کرنےکی مشین ایجادنہیں ہوئی تھی توشائستہ عورتیں چوڑیوں کےتنگ ہونےاورمردچارپائی کےبان کےدباؤسےدوسرےکےوزن کاتخمینہ کرتےتھے۔اس زمانےمیں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیاراعمال بھی تھی۔نتیجہ یہ کہ جنازےکوکندھادینےوالےچارپائی کےوزن کی بناپرمرحوم کےجنتی یااس کےبرعکس ہونےکااعلان کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارےہاں دبلےآدمی کی دنیااورموٹےکی عقبےعام طورخراب ہوتی ہے۔
برصغیرمیں چندعلاقےایسےبھی ہیں جہاں اگرچارپائی کوآسمان کی طرف پائینتی کرکےکھڑاکردیاجائےتوہمسائےتعزیت کوآنےلگتےہیں۔سوگ کی یہ علامت بہت پرانی ہےگوکہ دیگرعلاقوں میں یہ عمودی(١)نہیں،افقی(-)ہوتی ہے۔اب بھی گنجان محلوںمیں عورتوں اسی عام فہم استعارے کا سہارا لے کر کوستی سنائی دیں گی۔”الٰہی!تن تن کوڑھ ٹپکے۔ مچمچاتی ہوئی کھاٹ نکلے!“ دوسرابھرپورجملہ بددعاہی نہیں بلکہ وقت ضرورت نہایت جامع ومانع سوانح عمری کاکام بھی دےسکتاہےکیونکہ اس میں مرحومہ کی عمر،نامرادی،وزن اورڈیل ڈول کےمتعلق نہایت بلیغ اشارےملتےہیں۔نیزاس بات کی سندملتی ہےکہ راہی ملک عدم نےوہی کم خرچ بالانشین وسیلہ نقل وحمل اختیارکیاجس کی جانب میراشارہ کرچکےہیں:
تیری گلی سدااےکشندہ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں
قدرت نےاپنی رحمت سےصفائی کاکچھ ایساانتظام رکھاہےکہ ہرایک چارپائی کوسال میں کم ازکم دومرتبہ کھولتےپانی سےدھارنےکی ضرورت پیش آتی ہی۔جونفاست پسندحضرات جان لینےکایہ طریقہ جائزنہیں سمجھتےوہ چارپائی کوالٹاکرکےچلچلاتی دھوپ میں ڈال دیتےہیں۔پھردن بھرگھروالےکھٹمل اورمحلےوالےعبرت پکڑتےہیں۔اہل نظرچارپائی کوچولوں میں رہنےوالی مخلوق کی جسامت اوررنگت پرہی سونےوالوں کی صحت اورحسب نسب کاقیاس کرتےہیں(واضح رہےکہ یورپ میں گھوڑوں اورکتوں کےسوا،کوئی کسی کاحسب نسب نہیں پوچھتا) الٹی چارپائی کوقرنطینہ کی علامت جان کر راہ گیرراستہ بدل دیں دیں توتعجب نہیں۔حدیہ کہ فقیربھی ایسےگھروں کےسامنےصدالگانابندکردیتےہیں۔
چارپائی سےپراسرارآوازیں نکلتی ہیں،ان کامرکزدریافت کرنااتناہی دشوارہےجتناکہ برسات کی اندھیری رات میں کھوج لگاناکہ مینڈک کےٹرانےکی آواز کدھر سےآئی یاکہ یہ تشخیص کرناکہ آدھی رات کوبلبلاتےہوئےشیرخواربچےکےدردکہاں اٹھ رہاہے۔چرچراتی ہوئی چارپائی کومیں نہ گل نغمہ سمجھتاہوں،نہ پردہ ساز،اورنہ اپنی شکست کی آواز! درحقیقت یہ آوازچارپائی کااعلان صحت ہےکیونکہ اس کےٹوٹتےہی یہ بندہوجاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک خودکارالام کی حیثیت سےیہ شب بیداری اورسحرخیزی میں مدددیتی ہے۔ بعض چارپائیاں اس قدرچغل خورہوتی ہیں کہ ذراکروٹ بدلیں تودوسری چارپائی والاکلمہ پڑھتاہواہربڑاکراٹھ بیٹھتا ہے۔اگرپاؤں بھی سکیڑیں توکتےاتنےزورسےبھونکتےہیں کہ چوکیدارتک جاگ اٹھتےہیں۔ اس یہ فائدہ ضرورہوتاہےکہ لوگ رات بھر نہ صرف ایکدوسرےکی جان ومال بلکہ چال چلن کی بھی چوکیداری کرتےرہتےہیں۔ اگرایسانہیں ہےتو پھرآپ ہی بتائیےکہ رات کوآنکھ کھلتےہی نظرسب سے پہلے پاس والی چارپائی پر کیوں جاتی ہے

———————————

San by Mustaq Ahmad Yusufi

Articles

سن

مشتاق احمد یوسفی

 

اوروں کا حال معلوم نہیں، لیکن اپنا تو یہ نقشہ رہا کہ کھیلنےکھانےکےدن پانی پت کی لڑائیوں کے سن یاد کرنے، اور جوانی دیوانی نیپولین کی جنگوں کی تاریخیں رٹنے میں کٹی۔ اس کا قلق تمام عمر رہے گا کہ جو راتیں سکھوں کی لڑائیوں کے سن حفظ کرنے میں گزریں،وہ ان کےلطیفوں کی نذر ہو جاتیں تو زندگی سنور جاتی۔ محمود غزنوی لائق صد احترام سہی، لیکن ایک زمانے میں ہمیں اس سے بھی یہ شکایت رہی کہ سترہ حملوں کی بجائےاگر وہ جی کڑا کر کے ایک ہی بھرپور حملہ کر دیتا تو آنے والی نسلوں کی بہت سی مشکلات حل ہوجاتیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیےکہ وہ پیدا ہی نہ ہوتیں (ہمارا اشارہ مشکلات کی طرف ہے)۔
اولاد آدم کے سر پر جوگزری ہے، اس کی ذمہ داری مشاہیر عالم پرعائدہوتی ہے۔ یہ نری تہمت طرازی نہیں بلکہ فلسفہ تاریخ ہے، جس سےاس وقت ہمیں کوئی سروکارنہیں۔ہم تواتناجانتےہیں کہ بنی نوع آدم کوتواریخ نےاتنانقصان نہیں پہنچایاجتنامورخین نے۔ انھوں نےاس کی سادہ اورمختصرسی داستان کو یادگار تاریخوں کاایک ایساکیلنڈربنادیاجس کےسبھی ہندسےسرخ نظر آتے ہیں۔ چنانچہ طلبابوجوہ معقول ان کےحق میں دعائےمغفرت نہیں کر سکتے اور اب ذہن بھی ان تعینات زمانی کااس حد تک خوگرہوچکاہےکہ ہم وجودانسانی کاتصوربلاقیدسن دسمبت کرہی نہیں سکتے:
“جوسن نہ ہوتےتوہم نہ ہوتے، جو ہم نہ ہوتےتوغم نہ ہوتا“ معلوم ایسا ہوتاہےکہ مورخین سن کوایک طلسمی طوطاسمجھتےہیںجس میں وقت کےظالم دیو کی روح مقید ہے۔ کچھ اسی قسم کے عقیدے پر میل بورن کےخضرصورت آرچ بشوپ مانکس نےتین سال پہلےطنزکیاتھاکہ جب ان کی ٣٩ویں سالگرہ پر ایک اخبار کے رپورٹر نے اپنی نوٹ بک نکالتے ہوئے بڑے گمبھیر لہجے میں دریافت کیا:
”آپ کےنزدیک ٣٩کی عمرتک پہنچنےکی اصل وجہ کیاہے؟“
”برخودار! اس کی اصل وجہ یہ ہےکہ میں1845 میں میٹرک کےامتحان سےکچھ دن قبل مرزاعبدالودودبیگ نےاس رازکوفاش کیا(ہرچندکہ طلبااس کھولانہیں کرتے)کہ شقی القلب ممتحن بھی سن ہی سےقابومیں آتے ہیں۔ چنانچہ زیرک طالب علم ہر جواب کی ابتداکسی نہ کسی سن سےکرتےہیں۔خواہ سوال سے اس کادورکاتعلق بھی نہ ہو۔ذاتی مشاہدےکی بناپرعرض کرتاہوں کہ ایسےایسےغبی لڑکےجونادرشاہ درانی اوراحمدشاہ ابدالی میں کبھی تمیزنہ کرسکے، آج تک چنگیزخاں کومسلمان سمجھتےہیں، محض اس وجہ سےفرسٹ کلاس آئےکہ انھیں قتل عام کی صحیح تاریخ اورپانی پت کی حافظہ شکن جنگوں کےسن ازبر تھی۔ خود مرزا، جو میٹرک میں بس اس وجہ سےاول آگئےکہ انھیں مرہٹوں کی تمام لڑائیوں کی تاریخیں یادتھیں، پرسوں تک اہلیہ بائی کوشیواجی کی رانی سمجھےبیٹھےتھے۔ میں نےٹوکاتوچمک کربولے:
”یعنی کمال کرتےہیں آپ بھی!اگرشیواجی نےشادی نہیں کی تونانافرنویس کس کالڑکاتھا؟“
ترقی یافتہ ممالک میں مارچ کامہینہ بےحدبہارآفرین ہوتا ہے۔ یہ وہ رت ہےجس میں سبزہ اوس کھاکھاکرہراہوتاہےاورایک طرف دامن صحراموتیوں سےبھر جاتاہےتودوسری طرف

موجہ گل سےچراغاں ہےگزرگاہ خیال

اس تمہیددل پذیرسےمیرایہ مطلب نہیں کہ اس کےبرعکس پس ماندہ ممالک میں اس مست مہینےمیں پت جھڑہوتاہےاور

بجائےگل چمنوں میں کمرکمرہےکھاد

توجہ صرف اس امرکی جانب دلاناچاہتاہوں کہ برصغیرمیں یہ فصل گل آبادی کےسب سےمتصوم اوربےگناہ طبقےکےلیےہرسال ایک نئےذہنی کرب کاپیغام لاتی ہے، جس میں چارسال سےلےکرچوبیس سال کی عمرتک کےسبھی مبتلانظرآتےہیں۔ہمارےہاں یہ سالانہ امتحانوں کاموسم ہوتاہے۔ خداجانےمحکمہ تعلیم نےاس زمانےمیں امتحانات رکھنےمیں کونسی ایسی مصلحت دیکھی،ورنہ عاجزکی رائےمیں اس ذہنی عذاب کےلیےجنوری اورجون کےمہینےنہایت مناسب رہیں گے۔ یہ اس لیےعرض کررہاہوں کہ کلاسیکی ٹریجڈی کےلیےخراب موسم انتہائی ضروری تصورکیاگیاہے۔
بات سےبات نکل آئی،ورنہ کہنایہ چاہتاتھاکہ اب جوپیچھےمڑکےدیکھتاہوںتویک گونہ افسوس ہوتاہےکہ عمرعزیزکی پندرہ سولہ بہاریں اورمیوہ ہائےباغ جوانی اسی سالانہ جانکنی کی نذرہوگئی۔ یادش بخیر!وہ سلوناموسم جس کواگلےوقتوں کی زبان میں ’جوانی کی راتیں،مرادوں کےدن،کہتےہیں،شاہ جہان کےچاروں بیٹوں کی لڑائیاں اورفرانس کےتلےاوپراٹھارہ لوئیوں کےسن ولادت ووفات یادکرنےمیں بسر ہوااورتنہافرانس کاسفرکیامذکور۔برطانیہ کی تاریخ میں بھی چھ عددجارج اور آٹھ آٹھ ایڈورڈاورہنری گزرےہیں،جن کی پیدائش اورتخت نشینی کی تاریخیں یادکرتےکرتےزبان پرکانٹےاورحافظےمیںنیل پڑگئے تھے۔ ان میں ہنری ہشتم سب سےکٹھن اورکٹھورنکلا۔اس لیےکہ اس کی اپنی تخت نشینی کےعلاوہ ان خواتین کی تاریخ وفات بھی یادکرناپڑی جن کو اس نےاپنےاوپرحلال کررکھاتھااورجنھیں باری باری تختہ نصیب ہوا۔
قیاس کہتاہےکہ تاریخی نام رکھنےاورتاریخ وفات کہنےکارواج اسی مشکل کوحل کرنےکی غرض سےپھیلاہوگا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی مدد سے حافظے کوایسی تاریخیں یادرکھنےمیں آسانی ہوتی ہے، جن کابھول جاناہی بہترہوتا۔بعض شعراءبہ نظراحتیاط ہرسال اپنا قطعہ تاریخ وفات کہہ کررکھ لیتے ہیں تاکہ مرنےکی سندرہےاوروقت ضرورت پس ماندگان کےکام آئے۔کون واقف نہیں کہ مرزاغالب نےجو مرنےکی آرزومیں مرتےتھے، متعددباراپنی تاریخ رحلت کہہ کرشاگردوں اوقرض خواہوں کوخوامخواہ ہراساں کیاہوگا۔لیکن جب قدرت نےان کومرنےکاایک سنہری موقع فراہم کیاتو یہ کہہ کرصاف ٹال گئےکہ وبائےعام میں مرناہماری کسرشان ہے۔
مارچ 1942 کاذکرہے۔ بی ،اےکےامتحان میں ابھی ایک ہفتہ باقی تھا۔ میں روہیلوں کی لڑائیوں سےفارغ ہوکرمرزاعبدالودودبیگ کےپاس پہنچاتودیکھاکہ وہ جھوم جھوم کرکچھ رٹ رہےہیں۔پوچھا”خیام پڑھ رہےہو؟“
کہنےلگی”نہیں تو!ہسٹری ہے۔“
”مگرآثارتوہسٹیریاکےہیں!“
اپنی اپنی جگہ دونوں سچےتھے۔ انھوں نےغلط نہیں کہا،اگرچہ میرا خیال بھی صحیح نکلاکہ وہ شعرسےشغل فرمارہےہیں۔البتہ شعرپڑھتےوقت چہرے پر مرگی کی سی کیفیت میں نےقوالوں کےسواکسی اورکےچہرےپراس سےپہلےنہیں دیکھے تھے۔ پھرخودہی کہنےلگے ”چلوہسٹری کی طرف تواب بےفکری ہوگئی۔قبلہ ناناجان نےپچاس مشاہیرکی تاریخ ولادت ووفات کےقطعےکہہ کرمیرےحوالےکردئےہیں۔جن میں سے آدھےحفظ کرچکاہوں۔“اس کےبعد انھوں نےتیمورلنگ کی پیدائش اوررنجیت سنگھ کی رحلت کےقطعات بطورنمونہ گاکرسنائے۔
گھرپہنچ کرتخمینہ لگایاتواس نتیجہ پرپہنچاکہ فی کس دوقطعات کےحساب سےاس شاہنامہ ہندکےچارسومصرعےہوئےاوراس میں وہ ذیلی قطعات شامل نہیں جن کاتعلق دیگرواقعات وموضوعات(مثلاًجاناپرتھوی راج کاسوئمبرمیں بھیس بدل کراورلےبھاگناسنجوگتاکوگھوڑےپر۔آنا نادر شاہ کاہندوستان میں واسطےلینےکوہ نورہیرابرابرانڈےمرغابی کے۔ داخل ہوناواجدعلی شاہ کاپہلےپہل مٹیابرج میں معہ چھ بیگمات کےاوریادکرنابقیہ بیگمات کو)یاتاریخی چھٹ بھیوں(ثانوی ہیرو)مثلاً راناسانگا،ہیموں بقال،نظام سقہ وغیرہ سےتھا۔ایک قطعہ میں توضلع جگت پراترآئےتھے۔ یہ اس نیم تاریخی حادثےسےمتعلق تھا،جب نورجہاں کےہاتھ سےکبوتر اڑگیااورجہانگیرنےاس کو(یعنی نورجہان کو)پہلی بار”خصم گیں“ نگاہوں سےدیکھا۔
حالانکہ دماغی طورپرمیں پانی پت کی لڑائیوں میں بری طرح زخمی ہوچکاتھا،لیکن آخری قطعہ کوسن کر میں نےاسی وقت دل میں فیصلہ کرلیا کہ امتحان میں باعزت طریقےسےفیل ہونااس اوچھےہتھیار سےہزار درجہ بہترہوگا۔بہرحال مرزانےایک ہفتےبعداس کلیدکامیابی کوامتحان میں بےدریغ استعمال کیا،جس میں انھیں دودشواریوں کاسامناکرناپڑا۔بڑی دشواری تویہ کاپی میں قطعات اورحروف ابجدکاحساب دیکھ کرکمرہ امتحان کانگراں،جوایک مدراسی کرسچین تھا،بارباران کےپاس لپک کرآتااورسمجھاتا کہ اردوکاپرچہ کل ہے۔مرزاجھنجھلاکرجواب دیتےکہ یہ ہمیں بھی معلوم ہےتووہ نرمی سے پوچھتا کہ پھریہ تعویزکیوں لکھ رہےہو؟پایان کارمرزانےوہیں کھڑے کھڑے اس کوفن تاریخ گوئی اوراستخراج سنین کےرموزونکات سےغلط انگریزی میں آگاہ کیا۔حیرت سےاس کا منہ ٧ کےہندسہ کی ماندپھٹاکاپھٹارہ گیا۔حروف واعدادکوبہکی بہکی نظروں سےدیکھ کرکہنےلگا:
”تعجب ہےکہ تم لوگ ماضی کےواقعات کاپتہ بھی علم نجوم سےلگالیتےہو!“
اس مجسم دشواری کےعلاوہ دوسری دقت یہ ہوئی کہ ابھی پانچوں سوالات کےجملہ بادشاہوں ،راجاؤں اورمتعلقہ جنگو ں کےعدداورسن بہ سہولت تمام نکلےبھی نہ تھےکہ وقت ختم ہوگیااورنگراں نےکاپی چھین لی۔بڑی منت وسماجت کےبعدمرزاکوکاپی پراپنارول نمبرلکھنےکی اجازت ملی۔
جیساکہ عرض کرچکاہوں،مجھےسن یادنہیں رہتااورمرزاکووہ واقعہ یادنہیں رہتاجواس سن سےمتعلق ہو۔فرض کیجئے۔ مجھےکچھ کچھ یادپڑتاہےکہ فرانسیسی انقلابیوں نےکسی صدی کےآخرمیں قلعہ باستیل کامحاصرہ کیاتھا۔ لیکن سن یادنہیں آتا۔اب مرزاکویقینا اتنایادہوگاکہ 1799 میں کچھ گڑبڑ ضرورہوئی تھی۔ لیکن کہاں ہوئی اوراورکیوں ہوئی-یہ وہ بغیراستخارہ کیےنہیں بتاسکتے۔ چنانچہ مارچ 1924 ہی کاذکرہے۔ہم دونوں ایک دوسرےکی کمزوری پرافسوس کررہےتھےاورلقمہ دیتےجاتےتھے۔ وہ اس طرح کہ وہ مجھےروس کہ بیوہ ملکہ کیتھرین اعظم کاسن ولادت اورتاریخ تاج پوشی وغیرہ بتارہےتھےاورمیں ان کواس کےمنہ بولےشوہروں کےنام رٹوارہاتھا۔اچانک مرزابولےیار!
یہ بڑےمرکےبھی چین سےنہیں بیٹھنےدیتی۔
مرنےوالےمرتےہیں لیکن فناہوتےنہیں
میں نےکہا”کارلائل کاقول ہےکہ تاریخ مشاہیرکی سوانح عمری ہے۔“
کہنےلگے ”سچ تو کہتا ہے بچارا! تاریخ بڑے آدمیوں کااعمال نامہ ہےجوغلطی سےہمارےہاتھ تھمادیاگیا۔اب یہ نہ پوچھوکس نےکیاکیا،کیسےکیااورکیوں کیا۔بس یہ دیکھوکہ کب کیا۔“
عرض کیا”دیکھوتم پھرسن اورسمبت کےپھیر میں پڑگئے۔ایک مفکر کہتا ہے٠٠٠٠“
بات کاٹ کر بولے” بھئی تم اپنےاچھےبھلےخیالات بڑے آدمیوں سےکیوں منسوب کردیتےہو؟لوگ غورسےنہیں سنتے۔“
مکررعرض کیا”واقعی ایک مفکرکہتاہےکہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔تم دیکھوگےزبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبےپاؤں آتی ہیں۔تاریخی کیلنڈرمیں ان کاکہیں ذکرنہیں۔سب جانتےہیں کہ سکندرنےکس سن میں کون ساملک فتح کیا۔لیکن یہ کوئی نہیں بتاسکتاکہ بن مانس کون سےسن میں انسان بنا۔اتناتواسکول کےبچےبھی بتادیں گےکہ سیفوکب پیداہوئی اورسقراط نےکب زہرکاپیالہ اپنےہونٹوں سےلگایالیکن آج تک کوئی مورخ یہ نہیں بتاسکاکہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا۔لڑکی کس ساعت نایاب میں عورت بنی۔جوانی کس رات ڈھلی۔ادھیڑپن کب ختم ہوااوربڑھاپاکس گھڑی شروع ہوا۔“
کہنےلگے”برادر!ان سوالات کاتعلق تاریخ یونان سےنہیں،طب یونانی سے ہے۔“
سنہ عیسوی سےکہیں زیادہ مشکل ان تاریخوں کایادرکھناہےجن کےبعدمیں ”قبل مسیح “ آتاہے۔اس لیےکہ یہاں مورخیں گردش ایام کوپیچھےکی طرف دوڑاتےہیں۔ان کوسمجھنےاورسمجھانےکےذہنی شیس آسن کرناپڑتاہےجواتنادشوارہےجتناالٹےپہاڑےسنانا۔اس کوطالب علم کی خوشی قسمتی کہیےکہ تاریخ قبل میلادمسیح نسبتاً مختصراورادھوری ہے۔ اگرچہ مورخیںکوشاں ہیں کہ جدیدتحقیق سےبےزبان بچوں کی مشکلات میں اضافہ کردیں۔بھولےبھالےبچوں کوجب یہ بتایاجاتاہےکہ روم کی داغ بیل ٣٥٧ قبل مسیح میں پڑی توننھےمنےہاتھ اٹھاکریہ سوال کرتےہیں کہ اس زمانہ کےلوگوں کویہ پتہ کیسےچل گیاہےکہ حضرت عیسیٰ کےپیداہونےمیں ابھی ٣٥٧ سال باقی ہیں۔ان کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ ٣٥٧ ق۔م کوساتویں صدی شمارکریں یا آٹھویں ۔عقل منداستادان جاہلانہ سوالات کاجواب عموماً خاموشی سےدیتےہیں۔ آگےچل کہ جب یہی بچےپڑھتےہیں کہ سکندر٦٥٣ق۔م میں پیداہوااور٣٢٣ق ۔م میں فوت ہواتووہ اسےکتابت کہ غلطی سمجھتےہوئےاستادسےپوچھتےہیں کہ یہ بادشاہ پیداہونےسےپہلےکس طرح مرا؟ استادجواب دیتاہےکہ پیارےبچو!اگلےوقتوں میں ظالم بادشاہ اسی طرح مراکرتےتھے۔
کلاسیکی شاعراورانشاپروازکچھ سوچ کرچپ ہوجانےکہ نازک فن سےآشنا ہے۔بالخصوص ان مقامات پرجہاں لطف گویائی کولذت خموشی پرقربان کردینا چاہیے۔ وہ اس ”جادواں ،پیہم دواں،ہردم جواں“ زندگی کووقت کےپیمانوں سےنہیں ناپتااورسن وسال کی الجھنوں میں نہیں پڑتا۔چنانچہ وہ یہ صراحت نہیں کرتاکہ جب مصرکوانطونی نےاورانطونی کوقلوپطرہ نےتسخیرکیاتواس گرم وسیزرچشیدہ ملکہ کی کیاعمرتھی۔شیکسپیئر محض یہ کہہ کرآگےبڑھ جاتاہےکہ وقت اس کےلازوال حسن کےسامنے ٹھہر جاتا ہے، اورعمراس کاروپ اوررس نہیں چراسکتی۔اس کےبرخلاف مورخیں نےدفترکےدفتراس لایعنی تحقیق میں سیاہ کرڈالےہیں کہ اپنےصندلی ہاتھوں کی نیلی نیلی رگوں پراترانےوالی اس عورت کی اس وقت کیاعمرہوگی۔اب ان سےکوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ جب خودانطونی نےامورسلطنت اورسن ولادت کےبارےمیں تجاہل عارفانہ سےکام لیاتو آپ کیوں اپنےکو اس غم میں خواہ مخواہ ہلکان کیے جارہے ہیں؟ اسی طرح جس وقت ہماراانشاپروازاس جنسی جھٹ پٹےکی طرف اشارہ کرناچاہتاہےجب دھوپ ڈھل جاتی ہےمگردھرتی بھیترہی بھیترمیٹھی میٹھی آنچ میں تپتی رہتی ہے، تواپنی پسندکےجوازمیں بس اتناکہہ کرآنکھوں ہی آنکھوں مسکرادیتاہےکہ”چھڑھتی دوپہرسےڈھلتی چھاؤں زیادہ خوش گوارہوتی ہے۔“
اس اعتبارسےان خواتیں کاکلاسیکی طرزعمل لائق تحسین وتقلیدہی،جواپنی پیدائش کی تاریخ اورمہینہ ہمیشہ یادرکھتی ہیں۔لیکن سن بھول جاتی ہیں۔
اوریہ واقعہ ہےکہ حافظہ خراب ہوتوآدمی زیادہ عرصہ تک جوان رہتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہےکہ وقت احساس بذات خودایک آزارہے، جس کواصلاحاً بڑھاپا کہتےہیں۔ڈاکٹرجانسن نےغلط نہیں کہا”یوں تومجھےدو بیماریاں ہیں- دمہ اورجلندھر۔لیکن تیسری بیماری لاعلاج ہےاوروہ ہےعمرطبعی!“ لیکن غور کیجئے تو عمربھی ضیمراورجوتےکی مانندہے،جن کی موجودگی کااحساس اس وقت تک نہیں ہوتاجب تک وہ تکلیف نہ دینےلگیں۔ میں یہ ثابت کرنےکی کوشش نہیں کررہاکہ اگرسن پیدائش یادرکھنےکارواج بیک گردش چرخ نیلوفری اٹھ جائے، توبال سفیدہونےبندہوجائیں گے۔یااگرکیلنڈرایجادنہ ہواہوتاتوکسی کےدانت نہ گرتے۔ تاہم اس میں کلام نہیں کہ جس شخص نےبھی ناقابل تقسیم رواں دواں وقت کوپہلی بارسکینڈ،سال اورصدی میں تقسیم کیا،اس نے انسان کوصحیح معنوں میں پیری اورموت کاذائقہ چکھایا۔وقت کوانسان جتنی بارتقسیم کرےگا،زندگی کی رفتاراتنی ہی تیزاورنتیجہ موت اتنی ہی قریب ہوتی جائےگی۔اب جب کہ زندگی اپنےآپ کوکافی کےچمچوں اورگھڑی کی ٹک ٹک سےناپتی ہے، تہذیب یافتہ انسان اس لوٹ کرنہ آنےوالےنیم روشن عہد کی طرف پیچھےمڑمڑکردیکھتاہے، جب وہ وقت کاشماردل کی دھڑکنوں سےکرتاتھااورعروس نورات ڈھلنےکااندازہ کانوں کےموتیوں کے ٹھنڈے ہونے اور ستاروں کےجھلملانےسےلگاتے تھے :
نہ گھڑی ہےواں نہ گھنٹہ نہ شماروقت وساعت
———————-

Telegram by Jogindar Paul

Articles

ٹیلی گرام

جوگندر پال

 

جوگندر پال 5 ستمبر 1925ء کو سیالکوٹ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ تقسیم ہند کے وقت بھارت آگئے۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی تاہم ان کی ابتدائی اور وسطانوی تعلیم اردو ذریعہ تعلیم سے مکمل ہوئی اور یہی ان کے ادبی اظہار خیال کی زبان بنی۔

جوگندر نے ایم اے انگریزی ادب میں کیے اور پیشہ درس وتدریس سے جڑگئے۔ وہ مہاراشٹر کے ایک پوسٹ گریجویٹ کالج کے پرنسپل کے طور پر وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔

جوگندر کی تخلیقات میں دھرتی کا کال (1961ءمیں کیوں سقیم؟ (1962ءکھودو بابا کا مقبرہ (1994ءپرندے (2000ء) (سبھی افسانے)، نہیں رحمان بابو (افسانوں کا مجموعہ جس میں کچھ دوسطری تھے)، آمدورفت (1975ءبیانات (1975ء) (دو مختصر ناول)، بے محاورہ (1978ءبے ارادہ (1981ءنادید (1983ءخواب رو (1991ء) (دونوں ناول) زیادہ مشہور ہوئے تھے۔

22 اپریل ، 2016ء کو جوگندر پال کا انتقال ہوگیا۔

—————————————————-

ٹیلی گرام

 

پچھلے بارہ برس سے شیام بابو تار گھر میں کام کر رہا ہے، لیکن ابھی تک یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ بے حساب الفاظ برقی تاروں میں اپنی اپنی پوزیشن میں جوں کے توں کیوں کر بھاگتے رہتے ہیں، کبھی بدحواس ہو کر ٹکرا کیوں نہیں جاتے؟ ٹکرا جائیں تو لاکھوں کروڑوں ٹکراتے ہی دم توڑ دیں اور باقی کے لاکھوں کروڑوں کی قطاریں ٹوٹ جائیں تو وہ اپنی سمجھ بوجھ سے نئے رشتوں میں منسلک ہو کر کچھ اس حالت میں ری سیونگ سٹیشنوں پر پہنچیں “بیٹے نے ماں کو جنم دیا ہے سٹاپ مبارک باد!” یا “چوروں نے قانون کو گرفتار کر لیا ہے۔” یا “افسوس کہ زندہ بچہ پیدا ہوا ہے۔”یا ہاں اس میں کیا مضائقہ ہے؟ شیام بابو مشین کی طرح بے لاگ ہو کر میکانکی انداز میں برقی پیغامات کے کوڈ کو رومن حروف میں لکھتا جا رہا ہے لیکن اس مشین کے اندر ہی اندر ان بوکھلائی ہوئی انسانی سوچوں کا تالاب بھر رہا ہے کیا مضائقہ ہے؟ جیسی زندگی، ویسے پیغام “کرتا ہوں سٹاپ کشور ” اس نے کسی کشور کے تار کے کوڈ کے آخری الفاظ کاغذ پر اتار لئے ہیں اور وہ اس بات سے برآمد ہوتے ہوئے ایک ایک لفظ کو قلم بند کرتا جائے۔ سوچنا سمجھنا اس کا کام ہے جس کے نام پیغام موصول ہوا جب دھیرج کو کوئی پکارے تو آواز کو تو سارا ہجوم سن لیتا ہے لیکن صرف دھیرج ہی مڑ کر دیکھتا ہے کہ کیا ہے خلاف معمول نہ معلوم کیا سوچ کر شیام بابو تار کا مضمون پڑھنے لگا ہے “شادی روک لو سٹاپ۔ میں تم سے بے انتہا محبت کرتا ہوں سٹاپ کشور ۔” وہ ہنس پڑا ہے وہ دوسرے ہنگامے میں۔ بے چارہ تھوڑی سی محبت کر کے باقی محبت کرنا بھول گیا ہو گا، مگر اب کوئی راہ نہیں سوجھ رہی ہے تو باقی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محبت ہی محبت کئے جانے کا اعلان کر رہا ہے۔ محبت ہی محبت کرنے سے کیا ہوتا ہے بے بی؟ طلاق، ڈارلنگ! طلاق ہو جائے مگر محبت قائم رہے۔
اور۔شیام بابو ایک اور تار کا یہ مضمون پڑھنے لگا ہے آپ کی باپ کی موت کی خبر پا کر مجھے بے حد دکھ ہوا ہے شیام بابو پھر ہنس دیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، اپنے باپ کی موت پر مجھے اتنا افسوس ہوا ہے کہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
تو کیوں کر رہے ہو بھائی؟”\ تاکہ میرا رونا نکل آئے۔ آیئے، آپ بھی میرے ساتھ رویئے۔
سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ بندروں کو چپ کیسے کرایا جائے۔ سب کے سب روتے ہی چلے جا رہے ہیں۔
ارے بھائی، کیوں رو رہے ہو؟
مجھے کیا پتہ؟ اس سے پوچھو۔
تم ہی بتا دو بھائی، کیوں رو رہے ہو؟
مجھے کیا پتہ؟ اس سے پوچھو۔
تم؟” مجھے کیا پتہ؟
تم تو آخری بندر ہو بھائی بتاؤ، کیوں رو رہے ہو؟”\ بس یوں ہی سوچا کہ ذرا فرصت میسر آئی ہے تو ایک بار جی جان سے رولوں۔ میرا ایک کام کیجئے۔ آپ کو زحمت تو ہو گی، مگر میرے رونے کو کسی تگڑی سی الم ناک خبر میں پیش کرنے کے لئے ایک ارجنٹ ٹیلی گرام کا ڈرافٹ تیار کر دیجئے۔ لکھئے میری ماں مر گئی ہے ٹھہریئے، وہ تو غریب اسی روز مر گئی تھی جب بیوہ ہوئی تھی۔ اس دن سے ہم نے اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا لکھئے! میرا بھائی مرگیا ہے ہاں، یہی لکھئے مگر نہیں، سب کو معلوم ہے کہ ہماری آپس میں بالکل نہیں بنتی میری بہن نہیں، وہ تو پہلے ہی مر چکی ہے میں ارے ہاں! یہی لکھئے، میں ہی مرگیا ہوں۔ مجھے سب کو فوری طور پر خبر کرنا ہے کہ میں ہی مرگیا ہوں۔
مبارک باد پیش کرتا ہوں سٹاپ شیام بابو کے خود کار قلم نے جلدی جلدی لکھا اور وہ اپنی تحریر سے بے خبر سا سوچ رہا ہے، مجھے دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں زندہ ہوں تو یہ میز بھی زندہ ہے جس پر جھک کر میں اپنا کام کئے جا رہا ہوں۔ چونکہ یہ میز کھائے پئے سوئے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔ اس لئے اس کی ڈیوٹی یہ ہے کہ ہمارے دفتر کے اس کمرے میں چوبیس گھنٹے خدمت بجا لانے کے لئے اپنی چاروں ٹانگوں پر کھڑی رہے اور مجھے چونکہ اپنی مشین کی ٹک ٹک کو بھی چلائے رکھنا ہوتا ہے اس لئے میرے لئے یہ آرڈر ہے کہ آٹھ گھنٹے یہاں ڈٹ کرکام کرو او ر باقی وقت میں اپنی مشین کی دیکھ بھال کے سارے دھندے سنبھالو ہاں، یہی تو ہے۔ میں جیتا کہاں ہوں؟ دفتر میں تو صرف پروڈیکشن کا کام ہے۔ مشین چلنا بند ہو جائے تو پروڈیکشن پر برا اثڑ پڑے گا۔ اس لئے سارے دفتری ٹائم میں تو مشین یہاں چلتی رہتی ہے اور اس کے بعد مجھے ہر روز ساری مشین کو کھول کر صاف کرنا پڑتا ہے، اس کی آئیلنگ گریزنگ کرنا پڑتی ہے، اس کے ایک ایک ڈھیلے پرزے کو کسنا پڑتا ہے۔۔اور یہ سارا کام بھی مجھے اکیلے ہی انجام دینا ہوتا ہے۔
پچھلے ساڑھے سات برس سے، جب سے شیا م بابو کی شادی ہوئی ہے، اس کی بیوی وہیں اپنے ماں باپ کے گاؤں میں ان ہی کے ساتھ رہ رہی ہے۔ شادی کے موقع پر وہ اس کی ڈولی اٹھوا کر گاؤں سے باہر تولے آیا، لیکن پھر جب سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کہاں لے جائے تو ڈولی کا مونسہ واپس گاؤں کی طرف مڑوا لیا یہ تم نے بہت اچھا کیا بیٹا اس کی ساس نے کہا تھا کہ ایک بار ہماری بیٹی کو گاؤں سے باہر لے گئے۔ کم سے کم رسم تو پوری ہو گئی۔ اب چاہو تو بے شک ساری عمر یہیں رہے۔ یہ گھر بھی تو اسی کا ہے لیکن اس کا کوئی اپنا گھر کیوں نہیں جہاں اسے وہ لے آتا تو اس میں بوئی ہوئی انسانیت کی آبیاری ہوتی رہتی۔
شروع شروع میں تو شیام با بو کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ سوتے میں بھی بیوی کے گاؤں کا رخ کئے ہوتا تم گھبراؤ نہیں سنیہ دتی۔ میں دن رات کرائے پر کوئی اچھا سا کمرہ لینے کی مہم میں جٹا ہوا ہوں۔ جیسے ہی کوئی مل گیا، تمہیں اسی دم یہاں لے آؤں گا مگر برا ہو اس بڑے شہر کا، جو اپنے چھوٹے دل میں ایک کے اوپر ایک کئی کمرے بنائے ہوئے ہے مگر اتنی اونچائی پر رہائش کے کرائے کے خیال سے اسے یہاں رہنے کی بجائے یہاں سے لڑھک کر خود کشی کی سوجھتی ہے۔ پورے ساڑھے سات برس اسی طرح گزر گئے ہیں۔ وہ میاں اور بیوی ساڑھے پانچ سو میل کے فاصلے پر وہاں۔ شیام بابو تین سو پینسٹھ دن تک اپنی بیس دن کی ارنڈ لیو کا انتظار کرتا رہتا اور وقت آنے پر گاڑیوں، بسوں اور تانگوں کو بدل بدل کر وہ گویا اپنے دو پیروں سے سرپٹ بھاگتے ہوئے وہاں جا پہنچتا اور اس کی خواہش اتنی شدید ہوتی کہ اپنی تیار بیٹھی ہوئی بیوی پر وہ بے اختیار کسی درندے کی طرح ٹوٹ پڑتا۔ ایک دو تین سال تک تو وہ ہر سال گیا، لیکن چوتھے سال عین چھٹی کے دنوں میں وہ بیمار ہو گیا، پھر پانچویں سال جو جانا ہوا تو اس کے بعد ڈھائی سال میں ایک بار بھی نہیں جا سکا۔ جو پیسے وہاں جانے میں ضائع ہوں گے۔ ان میں سے آدھے بھی منی آرڈر کرا دوں گا تو بیسیوں کام نکال لے گی ہاں، اس کا ایک دو سالہ لڑکا بھی ہے جس کے بارے میں اس کی بیوی نے اسے لکھا تھا کہ وہ اسے اپنی پانچویں سال کی چھٹی پر اس کی کوکھ میں ڈال آیا تھا ؒ لیکن شیام بابو اپنا حساب کتاب کر کے اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اس کا بیٹا اس کا بیٹا نہیں۔ شاید اسی وجہ سے ڈھائی سال کے اس عرصے میں وہ ایک بار بھی اس کے پاس نہیں گیا تھا لیکن اس سلسلے میں اس نے بیوی کو کبھی کچھ نہیں لکھاجو ہے سو ٹھیک ہےوہ بھی کیا کرے؟ اور میں بھی کیا کروں؟کبھی اچھے دن آ گئے تو سب اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔
اسے اور اس کے ہمارے بچے کو اس کا ہوا تو ہم دونوں کا ہی ہوا یہیں اپنے پاس لے آؤں گا اور پھر ہم چین سے رہیں گے، بڑے چین سے رہیں گے۔
اس کے دفتر کا کوئی ساتھی اس کا کندھا جھٹک رہا ہے۔ مشین میں شاید کوئی نقص پیدا ہو گیا ہے اور وہ رکی پڑی ہے شیام بابو!
آں ں! شیام بابو نے ہڑبڑا کر اپنی آنکھیں کھول لی ہیں۔
طبیعت خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔
کون سا گھر؟ نہیں ٹھیک ہوں، یوں ہی ذرا اونگھنے لگا تھا ٹک ٹک ٹک ٹک!مشین پھر چلنے لگی ہے۔ تمہارے لئے پانی منگواؤں؟”
ارے بھائی، کہہ دیا نا، ٹھیک ہوں۔
اس کے ساتھی نے تعجب سے اس کے کام پر جھکے ہوئے سر کی طرف دیکھا ہے اور اپنے کام میں الجھ گیا ہے۔
شیام بابو کو اپنا جی اچانک بھر ابھرا سا لگنے لگا ہے۔ عام طور پر تو یہی ہوتا ہے کہ اسے اپنی خوشی کی خبر ہوتی ہے نہ اداسی کی۔ اسے بس جو بھی ہوتا ہے بے خبری میں ہی ہوتا ہے۔ اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور یوں ہی سب کچھ بخوبی ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ بے خبر سا اپنے آپ دفتر میں آ پہنچتا ہے اور اسی حالت میں سارے دن قلم چلا چلا کر اپنے ٹھکانے پر لوٹ آتا ہے اور پھر دوسرے دن صبح کو عین ویسے کا ویسا ڈیوٹی پر آ بیٹھتا ہے۔ یعنی معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے، کیوں ہے، کیا ہے؟ کوئی ہو تو معلوم بھی ہو اس دن تو حد ہو گئی؛ وہ یہاں اپنی سیٹ پر بیٹھا ہے اور اس کا باس یہاں اس کے قریب ہی کھڑا پوچھ رہا ہے، بھئی، شیام بابو آج کہاں ہے؟”\شیام بابو شیام بابو!شیام بابو یقینی طور پر اس کی آواز سن رہا ہے، مگر سن رہا ہے تو فوراً، جواب کیوں نہیں ہیں دیتا۔س سر!ایسے بھولے بھٹکے چہرے شاید ہماری آنکھوں میں ٹھہرنے کی بجائے روحوں میں لڑھک جاتے ہیں۔ ان سے مخاطب ہونا ہو تو اپنے ہی اندر ہولو، اپنی ہی تھوڑی سے جان سے انہیں زندہ کرلو، ورنہ یہ تو جیسے ہیں ویسے ہی ہیں۔
گوشت کو رگوں میں خون دوڑنے کی اطلاع ملتی رہے تو یہ زندہ رہتا ہے، ورنہ بے خبری میں مٹی ہو جاتا ہے۔ جب شیام بابو کی اپنی زندگی بے پیغام ہے تو اسے کیسے محسوس ہو کہ ٹیلی گراموں کے ٹیکسٹ برقی کوڈ کی اوٹ میں کھلکھلا کر ہنس رہے ہیں، یا دھاڑیں مار مارکر رو رہے ہیں، یا تجسس سے اکڑے پڑے ہیں۔ سوکھی مٹی کے دل پر آپ کچھ بھی لکھ دیجئے، اسے اس سے کیا؟ شیام بابو کو اس سے کیا، کہ کوئی کسے کیا پیغام بھیج رہا ہے؟ اس کی قسمت میں تو کسی کا پیغام نہیں، محبت کا یا نفرت، خوشی یا غم کا اسے کیا؟ ٹیلی گراموں کے گرم گرم ٹیکسٹ کا کوڈ اس کے ٹھنڈے قلم سولی سے لٹک کر سپاٹ سی صورت لئے کاغذ پر ڈھیر ہوتا رہتا ہے یہ لو، الفاظ تو نرے الفاظ ہیں، بس الفاظ ہیں، الفاظ کیوں ہنسیں یا روئیں گے؟ ان کو پڑھ کے ہنسو، روؤ، یا جو بھی کرو، تم ہی کرو یہ لو!
لیکن اس وقت یہ ہے کہ شیام بابو کو اپنا جی یک بارگی بہت بھرا بھرا لگنے لگا ہے۔ سوچوں کا تالاب شاید بھر بھر کے اس کے دل تک آپہنچا ہے اور وہ انجانے میں تیرنے لگا ہے اور سوکھی مٹی میں جان پڑنے لگی ہے۔
سٹاپ میں بدیس سے لوٹ آیا ہوں سٹاپ اور عین اس وقت صاحب کے چپراسی نے اس کی آنکھوں کے نیچے ہیڈ آفس کا ایک لیٹر رکھ دیا ہے۔ اس نے لیٹر پر نظر ڈالی ہے اور پھر چونک کر خوشی سے کانپتے ہوئے اسے دوبارہ پڑھنے لگا ہے۔ اسے سرکاری طور پر اطلاع دی گئی ہے کہ تمہارے نام دو کمروں کا کوارٹر منظور ہو گیا ہے!
کیدار بابو جمیلکشن!ادھر دیکھو دوستو۔ دیکھو، میرا کیا لیٹر آیا ہے؟”
کیا کیا ہے؟
میرا کوارٹر منظور ہو گیا ہے!
تو کیا ہوا؟ہائیں، کیا کہا کوارٹر منظور ہو گیا ہے؟!ہاں!
بہت اچھا!بہت اچھا! سب کے لئے چائے ہو جائے شیام بابو!
ارے چائے ہی کیا، کچھ ادھارے دے سکتے ہو تو جو چاہو منگوا لو۔
ہاں، تم فکر نہ کرو۔ میں سارا بندوبست کئے دیتا ہوں یہ تو بہت ہی اچھا ہو گیا شیا م بابو!راموادھر آؤ رامو، جاؤ ہوٹل والے کو بلا لاؤ جاؤاب بھابی کو کب لا رہے ہو شیام بابو؟
آج چھٹی کی درخواست دے کر ہی جاؤں گا کیدار بابو! شیا م بابو قصور میں اپنے کوارٹر میں بیٹھا کھانا کھا رہا ہے اور اس کے کندھوں پر اس کا لڑکا کھیل رہا ہے کیا نام ہے اس کا؟دیکھو نا، دماغ پر زور ڈالے بغیر اپنے اکلوتے بچے کا اپنا ہی تو ہے نام بھی یاد نہیں آتا۔ کوئی بات نہیں شکر اور دودھ کھلتے ملتے ہی گاڑھے اور میٹھے ہو جاتے ہیں اری سن رہی ہو بھلی لوگ؟ اگلی چپاتی کب بھیج وگی؟ دفتر کے لئے دیر ہو رہی ہے۔
لو، شیام بابو، ہوٹل والا تو آگیا ہے بس ایک ایک چاٹ، ایک ایک گلاب جامن اور کیا؟ ایک ایک سموسہ چلے گا نا شیام بابو؟لکھو ہمارا آرڈر بھائی پر نانند!
شیام بابو کو پتہ ہی نہیں چلا ہے کہ دفتر میں باقی سارا وقت کیسے بیت گیا ہے۔ وہاں سے اٹھنے سے پہلے اس نے سب ساتھیوں سے وعدہ کیا ہے کہ کل سویرے وہ ان سب کو ان کی بھابی کی تصویر دکھائے گا۔
اتنی بھولی ہے کہ ڈرتا ہوں اس شہر میں کیسے رہے گی۔
ڈرو مت شیام بابو۔ بھابی کو لانا ہے تو اب شیرببر بن جاؤ۔
دفتر سے نکل کر تیز تیز قدم اٹھائے ہوئے شیام بابو چوراہے پر آگیا ہے اور پان اور سگریٹ لینے کے لئے رک گیا ہے اور پھر تمباکو والے پان کا لعاب حلق سے اتارتے ہوئے نتھنوں سے سگریٹ کا دھواں بکھیرتے ہوئے ہلکی ہلکی سردی میں حدت محسوس کرتے وہ بڑے اطمینان سے اپنے رہائش کے اڈے کی طرف ہولیا ایک چھوٹی سی کھولی جس میں مشکل سے ایک چارپائی آتی ہے۔ ابھی پچھلے ہی مہینے خان سیٹھ نے اسے دھمکی دی تھی۔ بھاڑے کے دس روپے بڑھاؤ، نہیں تو چلتے بنو ہاں!
چوہے کے اس بل کا کرایہ پہلے ہی پچاس روپے وصول کرتے ہو خان سیٹھ۔ اپنے خدا سے ڈرو!
لیکن خان سیٹھ نے اپنے خدا کو ڈرانے کے لئے ایک بھیانک قہقہہ لگایا بلی شریف نہ ہوتی بابو، تو بولو، کیا ہو جاتا؟ ساٹھ روپے، نہیں تو خالی کرو ہاں!
اسی مہینے خالی کر دوں گا اور سیٹھ سے کہوں گا، لو سنبھالو اپنی کھولی خان سیٹھ۔ تمہاری قبر کی پورے سائز کی ہے لو!نہیں جھگڑے وگڑے کا کیا فائدہ؟ چپکے سے اس کی کھولی اس کے حوالے کر کے اپنی راہ لوں گا۔
بس سٹاپ آگیا ہے اور بس بھی کھڑی ہے، لیکن بہت بھری ہوئی ہے۔ شیام بابو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پیدل ہی جائے گا۔ یہاں سے تھوڑا ہی فاصلہ تو ہے اس کا سگریٹ جل جل کر انگلیوں تک آ پہنچا ہے، لیکن ابھی اس کی خواہش نہیں مٹی ہے۔ اس نے ہاتھ کا ٹکڑا پھینک کر ایک اور سگریٹ سلگا لیا ہے ساوتری کو میری سگریٹ پینا بالکل پسند نہیں پیسے بھی جلاتے ہو اور پھیپھڑے بھی۔ اس سے تو اچھا ہے میرا ہی ایک سرا جلا کر دوسرے کو ہونٹوں میں دبا لو اور دھواں چھوڑتے جاؤ! میرا مزہ کیا سگریٹ سے کم ہے؟ اری بھلی لوگ، ایک تمہارا ہی مزہ تو ہے۔ سگریٹ وگریٹ کی لت کو گولی مارو آؤ!اس نے خیال ہی خیال میں بیوی کو سینے سے لگا لیا ہے اور مخالف سمت سے آتی ہوئی ایک عورت سے ٹکرا گیا ہے، گویا اس کی ساوتری نے اس سے الگ ہونے کے لئے اپنے آپ کو جھٹکا ہوارے! اس نے اندھے پن میں اپنا ہاتھ اس عورت کی طرف پھیلا دیا ہے ایڈی اٹ! وہ عورت غصے سے پھنکارتی ہوئی آگے بڑھ گئی ہے اور شیام بابو شرمندہ ہو جانے کے باوجود خوش خوش ہے اور عورت کی پیٹھ کی طرف مونہہ لٹکا کر اس نے بہ آواز بلند کہا ہے۔ آئی ایم ساری میڈم لیکن اس عورت کی پھنکار پھر اس کے بند کانوں کے باہر ٹکرائی ہے۔ ایڈی اٹ!
شیام بابو اپنے ذہن کو جھاڑ رہا ہے اور اڑتی ہوئی گرد میں اس کی بیوی زور زور سے ہنس رہی ہے اور ٹکراؤ پرائی عورتوں سے! ایک میں ہوں جو بلا روک ٹوک ساری دراز دستیاں سہہ لیتی ہوں۔ میں اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر دیکھوں کسی اور کی طرف ذرا نظر اٹھا کر تو دیکھوںکسی اور کی طرف دیکھنے کی مجھے ضرورت ہی کیا ہے؟ میرے لئے تو بس جو بھی ہو تم ہو شیام بابو نے اپنے آپ کو ڈانٹ کر کہا ہے نیں، تم نے اپنی بیوی کے ماتھے پر خواہ مخواہ کلنک کا ٹیکہ لگا رکھا ہے۔ تمہارا بچہ تمہارا ہی ہےاور اگر مان بھی لیں کہ وہ تمہارا نہیں، تو اس میں ساوتری کا کیا دوش؟ اس کا سارا سال تمہاری ارنڈ لیو کے دس بیس روز کا تو نہیں چل سب ٹھیک ہے، میرا بچہ میرا ہی ہے ہمارے نیٹو کی آنکھیں اس کی طرح چھوٹی چھوٹی ہیں۔ ماتھ مجھ پرگیا ہے، مگر ناک میں بھی کیسا باپ ہوں کہ دو سال اوپر کا ہولیا ہے مگر میں نے ابھی تک اسے ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ پچھلے سال مجھے ایک چکر کاٹ آنا چاہئے تھا آج چھٹی کی درخواست دینا بھی بھول گیا ہوں۔ اب کل پہلا کام یہی کروں گا اور اس ہفتے کے آخر میں یہاں سے نکل جاؤں گا ساوتری کو چٹھی بھی نہ لکھوں گا اور اچانک اس کے سامنے جاکھڑا ہوں گا ساوتری!اور وہ آنکھیں مل مل کر میری طرف دیکھتی رہ جائے گی ساوتری وہ رو دے گی یہ مجھے کس کی آواز سنائی دی ہے۔ہائے اب تو اٹھتے بیٹھتے تمہاری ہی صورت دکھائی دیتی ہے نیٹو کے باپو۔ اب تو آ جاؤ!میں آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لوں گا اور وہ میرے بازوؤں میں بے ہوش ہو جائے گی۔ ساوتری! ساتری!اپنی کھولی کے سامنے پہنچ کر اس نے بے اختیار اپنی بیوی کا نام پکارا ہے لیکن وہاں اس کے تارگھر کے رامو نے آگے بڑھ کر اسے جواب دیا ہے بابوجی؟”
ارے رامو، تم!کیسے آئے؟شیام بابو اپنے حواس درست کر رہا ہے۔ بابوجی!رامو کی آواز بھاری ہے اور وہ بولتے ہوئے تامل برت رہا ہے۔
اتنے اکھڑے اکھڑے کیوں ہو؟بولو نا!
آپ کا تار لایا ہوں۔
میرا تار؟” ہاں بابوجی، یہ تار آپ کے ہاتھ سے ہی لکھا ہوا ہے، مگر آپ کا دھیان ہی نہیں گیا کہ آپ کا ہے۔ تار کا لفافہ ایک طرف سے کھلا ہے لیکن شیام بابو اسے دوسری طرف سے چاک کر رہا ہے۔ ڈسپیچ والے کشن سنگھ کو بھی خیال نہ آیا شیام بابو، کہ یہ تار آپ کا ہے۔
شیام بابو نے تار کا فارم کھول کر دونوں ہاتھوں سے اپنی آنکھوں کے سامنے فٹ کر لیا ہے۔
مجھے بھی آدھا راستہ طے کر کے اچانک خیال آیا بابوجی، ارے، یہ تار تو اپنے بابوجی کا ہے میں اسے پڑھ چکا ہوں۔ بہت افسوس ہے کہ ساوتری نے خودکشی کر لی ہے سٹاپ

Lajwanti by Rajendar Singh Bedi

Articles

لاجونتی

راجندر سنگھ بیدی

 

’’ ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے …‘‘
(یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ری، ہاتھ بھی لگاؤ کمھلا جاتے ہیں)
—— ایک پنجابی گیت
بٹوارہ ہوا اور بے شمار زخمی لوگوں نے اُٹھ کر اپنے بدن پر سے خون پونچھ ڈالا اور پھر سب مل کر ان کی طرف متوجہ ہوگئے جن کے بدن صحیح و سالم تھے، لیکن دل زخمی ……
گلی گلی، محلّے محلّے میں ’’پھر بساؤ‘‘ کمیٹیاں بن گئی تھیں اور شروع شروع میں بڑی تندہی کے ساتھ ’’کاروبار میں بساؤ‘‘ ، ’’زمین پر بساؤ‘‘ اور ’’گھروں میں بساؤ‘‘ پروگرام شروع کردیا گیا تھا۔ لیکن ایک پروگرام ایسا تھا جس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی تھی۔ وہ پروگرام مغویہ عورتوں کے سلسلے میں تھا جس کا سلوگن تھا ’’دل میں بساؤ‘‘ اور اس پروگرام کی نارائن باوا کے مندر اور اس کے آس پاس بسنے والے قدامت پسند طبقے کی طرف سے بڑی مخالفت ہوتی تھی ——
اس پروگرام کو حرکت میں لانے کے لیے مندر کے پاس محلّے ’’ملاّ شکور‘‘ میں ایک کمیٹی قائم ہوگئی اور گیارہ ووٹوں کی اکثریت سے سندرلال بابو کو اس کا سکریٹری چُن لیا گیا۔ وکیل صاحب صدر چوکی کلاں کا بوڑھا محرر اور محلّے کے دوسرے معتبر لوگوں کا خیال تھا کہ سندر لال سے زیادہ جانفشانی کے ساتھ اس کام کو کوئی اور نہ کرسکے گا۔ شاید اس لیے کہ سندرلال کی اپنی بیوی اغوا ہوچکی تھی اور اس کا نام تھا بھی لاجو —— لاجونتی۔
چنانچہ پربھات پھیری نکالتے ہوئے جب سندر لال بابو، اس کا ساتھی رسالو اور نیکی رام وغیرہ مل کر گاتے —— ’’ہتھ لائیاں کمھلان نی لاجونتی دے بوٹے…‘‘ تو سندر لال کی آواز ایک دم بند ہوجاتی اور وہ خاموشی کے ساتھ چلتے چلتے لاجونتی کی بابت سوچتا —— جانے وہ کہاں ہوگی، کس حال میں ہوگی، ہماری بابت کیا سوچ رہی ہوگی، وہ کبھی آئے گی بھی یا نہیں؟… اور پتھریلے فرش پر چلتے چلتے اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے۔
اور اب تو یہاں تک نوبت آگئی تھی کہ اس نے لاجونتی کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا تھا۔ اس کا غم اب دُنیا کا غم ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دکھ سے بچنے کے لیے لوک سیوا میں اپنے آپ کو غرق کردیا۔ اس کے باوجود دوسرے ساتھیوں کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسے یہ خیال ضرور آتا —— انسانی دل کتنا نازک ہوتا ہے۔ ذراسی بات پر اسے ٹھیس لگ سکتی ہے۔ وہ لاجونتی کے پودے کی طرح ہے، جس کی طرف ہاتھ بھی بڑھاؤ تو کُمھلا جاتا ہے، لیکن اس نے اپنی لاجونتی کے ساتھ بدسلوکی کرنے میں کوئی بھی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ وہ اسے جگہ بے جگہ اُٹھنے بیٹھنے ، کھانے کی طرف بے توجہی برتنے اور ایسی ہی معمولی معمولی باتوں پر پیٹ دیا کرتا تھا۔
اور لاجو ایک پتلی شہتوت کی ڈالی کی طرح، نازک سی دیہاتی لڑکی تھی۔ زیادہ دھوپ دیکھنے کی وجہ سے اس کا رنگ سنولا چکا تھا۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے قراری تھی۔ اُس کا اضطراب شبنم کے اس قطرے کی طرح تھا جو پارہ کر اس کے بڑے سے پتّے پر کبھی ادھر اور کبھی اُدھر لڑھکتا رہتا ہے۔ اس کا دُبلاپن اس کی صحت کے خراب ہونے کی دلیل نہ تھی، ایک صحت مندی کی نشانی تھی جسے دیکھ کر بھاری بھرکم سندر لال پہلے تو گھبرایا، لیکن جب اس نے دیکھا کہ لاجو ہر قسم کا بوجھ، ہر قسم کا صدمہ حتیٰ کہ مارپیٹ تک سہ گزرتی ہے تو وہ اپنی بدسلوکی کو بتدریج بڑھاتا گیا اور اُس نے ان حدوں کا خیال ہی نہ کیا، جہاں پہنچ جانے کے بعد کسی بھی انسان کا صبر ٹوٹ سکتا ہے۔ ان حدوں کو دھندلا دینے میں لاجونتی خود بھی تو ممد ثابت ہوئی تھی۔ چونکہ وہ دیر تک اُداس نہ بیٹھ سکتی تھی، اس لیے بڑی سے بڑی لڑائی کے بعد بھی سندر لال کے صرف ایک بار مسکرادینے پر وہ اپنی ہنسی نہ روک سکتی اور لپک کر اُس کے پاس چلی آتی اور گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہہ اُٹھتی — ’’پھرمارا تو میں تم سے نہیں بولوں گی …‘‘ صاف پتہ چلتا تھا، وہ ایک دم ساری مارپیٹ بھول چکی ہے۔ گان￿و کی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مرد ایسا ہی سلوک کیا کرتے ہیں، بلکہ عورتوں میں کوئی بھی سرکشی کرتی تو لڑکیاں خود ہی ناک پر انگلی رکھ کے کہتیں — ’’لے وہ بھی کوئی مرد ہے بھلا، عورت جس کے قابو میں نہیں آتی ……‘‘ اور یہ مار پیٹ ان کے گیتوں میں چلی گئی تھی۔ خود لاجو گایا کرتی تھی۔ میں شہر کے لڑکے سے شادی نہ کروں گی۔ وہ بوٹ پہنتا ہے اور میری کمر بڑی پتلی ہے۔ لیکن پہلی ہی فرصت میں لاجو نے شہر ہی کے ایک لڑکے سے لو لگالی اور اس کا نام تھا سندر لال، جو ایک برات کے ساتھ لاجونتی کے گان￿و۔‘‘ چلا آیا تھا اور جس نے دولھا کے کان میں صرف اتنا سا کہا تھا —— ’’تیری سالی تو بڑی نمکین ہے یار۔ بیوی بھی چٹ پٹی ہوگی۔‘‘ لاجونتی نے سندر لال کی اس بات کو سن لیا تھا، مگر وہ بھول ہی گئی کہ سندر لال کتنے بڑے بڑے اور بھدّے سے بُوٹ پہنے ہوئے ہے اور اس کی اپنی کمر کتنی پتلی ہے!
اور پربھات پھیری کے سمے ایسی ہی باتیں سندر لال کو یاد آئیں اور وہ یہی سوچتا۔ ایک بار صرف ایک بار لاجو مل جائے تو میں اسے سچ مچ ہی دل میں بسا لوں اور لوگوں کو بتادوں —— ان بے چاری عورتوں کے اغوا ہوجانے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ فسادیوں کی ہوس ناکیوں کا شکار ہوجانے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔ وہ سماج جو ان معصوم اور بے قصور عورتوں کو قبول نہیں کرتا، انھیں اپنا نہیں لیتا —— ایک گلا سڑا سماج ہے اور اسے ختم کردینا چاہیے …… وہ ان عورتوں کو گھروں میں آباد کرنے کی تلقین کیا کرتا اور انھیں ایسا مرتبہ دینے کی پریرنا کرتا ،جو گھر میں کسی بھی عورت، کسی بھی ماں، بیٹی، بہن یا بیوی کو دیا جاتا ہے۔ پھر وہ کہتا —— انھیں اشارے اور کنائے سے بھی ایسی باتوں کی یاد نہیں دلانی چاہیے جو ان کے ساتھ ہوئیں —— کیوں کہ ان کے دِل زخمی ہیں۔ وہ نازک ہیں، چھوئی موئی کی طرح —— ہاتھ بھی لگاؤ تو کمھلا جائیں گے …
گویا ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے محلّہ ملاّ شکور کی اس کمیٹی نے کئی پربھات پھیریاں نکالیں۔ صبح چار پانچ بجے کا وقت ان کے لیے موزوں ترین وقت ہوتا تھا۔ نہ لوگوں کا شور، نہ ٹریفک کی اُلجھن۔ رات بھر چوکیداری کرنے والے کتّے تک بجھے ہوئے تنوروں میں سر دے کر پڑے ہوتے تھے۔ اپنے اپنے بستروں میں دبکے ہوئے لوگ پربھات پھیری والوں کی آواز سُن کر صرف اتنا کہتے —— او! وہی منڈلی ہے! اور پھر کبھی صبر اور کبھی تنک مزاجی سے وہ بابو سندر لال کا پروپگینڈا سنا کرتے۔ وہ عورتیں جو بڑی محفوظ اس پار پہنچ گئی تھیں، گوبھی کے پھولوں کی طرح پھیلی پڑی رہتیں اور ان کے خاوند ان کے پہلو میں ڈنٹھلوں کی طرح اکڑے پڑے پڑے پربھات پھیری کے شور پر احتجاج کرتے ہوئے منھ میں کچھ منمناتے چلے جاتے۔ یا کہیں کوئی بچہ تھوڑی دیر کے لے آنکھیں کھولتا اور ’’دل میں بساؤ‘‘ کے فریادی اور اندوہگین پروپگنڈ ے کو صرف ایک گانا سمجھ کر پھر سوجاتا۔
لیکن صبح کے سمے کان میں پڑا ہوا شبد بیکار نہیں جاتا۔ وہ سارا دن ایک تکرار کے ساتھ دماغ میں چکّر لگاتا رہتا ہے اور بعض وقت تو انسان اس کے معنی کو بھی نہیں سمجھتا۔ پر گُنگناتا چلا جاتاہے۔ اسی آواز کے گھر کر جانے کی بدولت ہی تھا کہ انھیں دنوں، جب کہ مِس مردولا سارا بائی، ہند اور پاکستان کے درمیان اغوا شدہ عورتیں تبادلے میں لائیں، تو محلّہ ملاّ شکور کے کچھ آدمی انھیں پھر سے بسانے کے لیے تیار ہوگئے۔ ان کے وارث شہر سے باہر چوکی کلاں پر انھیں ملنے کے لیے گئے۔ مغویہ عورتیں اور ان کے لواحقین کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر سرجھکائے اپنے اپنے برباد گھروں کو پھر سے آباد کرنے کے کام پر چل دیے۔ رسالو اور نیکی رام اور سندرلال بابو کبھی ’’مہندر سنگھ زندہ باد‘‘ اور کبھی ’’سوہن لال زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے … اور وہ نعرے لگاتے رہے، حتیٰ کہ ان کے گلے سوکھ گئے ……
لیکن مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں، جن کے ماںباپ، بہن اور بھائیوں نے اُنھیں پہچاننے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں؟ اپنی عفت اور عصمت کو بچانے کے لیے انھوں نے زہر کیوں نہ کھالیا؟ کنوئیں میں چھلانگ کیوں نہ لگا دی؟وہ بُزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لُٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انھیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کر کس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھیں سے موت کو گُھور رہی ہیں۔ ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک اُنھیں نہیں پہچانتے۔ پھر ان میں سے کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی —— سہاگ ونتی —— سہاگ والی … اور اپنے بھائی کو اس جمّ غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی …… تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟ میں نے تجھے گودی کھلایا تھا رے …… اور بہاری چلاّ دینا چاہتا۔ پھر وہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کے نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا، جو دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتا اور جو صرف ہماری نظر کا دھوکا ہے۔ جو صرف ایک حد ہے جس کے پار ہماری نگاہیں کام نہیں کرتیں۔
لیکن فوجی ٹرک میں مس سارابائی تبادلے میں جو عورتیں لائیں، ان میں لاجو نہ تھی۔ سندرلال نے امید وبیم سے آخری لڑکی کو ٹرک سے نیچے اترتے دیکھا اور پھر اس نے بڑی خاموشی اور بڑے عزم سے اپنی کمیٹی کی سرگرمیوں کو دوچند کردیا۔ اب وہ صرف صبح کے سمے ہی پربھات پھیری کے لیے نہ نکلتے تھے، بلکہ شام کو بھی جلوس نکالنے لگے، اور کبھی کبھی ایک آدھ چھوٹا موٹا جلسہ بھی کرنے لگے جس میں کمیٹی کا بوڑھا صدر وکیل کالکا پرشاد صوفی کھنکاروں سے ملی جُلی ایک تقریر کردیا کرتا اور رسالو ایک پیکدان لیے ڈیوٹی پر ہمیشہ موجود رہتا۔ لاؤڈاسپیکر سے عجیب طرح کی آوازیں آتیں۔ پھر کہیں نیکی رام، محرر چوکی کچھ کہنے کے لیے اُٹھتے۔ لیکن وہ جتنی بھی باتیں کہتے اور جتنے بھی شاستروں اور پُرانوں کا حوالہ دیتے، اُتنا ہی اپنے مقصد کے خلاف باتیں کرتے اور یوں میدان ہاتھ سے جاتے دیکھ کر سندر لال بابو اُٹھتا، لیکن وہ دو فقروں کے علاوہ کچھ بھی نہ کہہ پاتا۔ اس کا گلا رُک جاتا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور روہانسا ہونے کے کارن وہ تقریر نہ کر پاتا۔ آخر بیٹھ جاتا۔ لیکن مجمع پر ایک عجیب طرح کی خاموشی چھاجاتی اور سندر لال بابو کی ان دو باتوں کا اثر، جو کہ اس کے دل کی گہرائیوں سے چلی آتیں، وکیل کالکا پرشاد صوفی کی ساری ناصحانہ فصاحت پر بھاری ہوتا۔ لیکن لوگ وہیں رو دیتے۔ اپنے جذبات کو آسودہ کر لیتے اور پھر خالی الذہن گھر لَوٹ جاتے ———
ایک روز کمیٹی والے سانجھ کے سمے بھی پرچار کرنے چلے آئے اور ہوتے ہوتے قدامت پسندوں کے گڑھ میں پہنچ گئے۔ مندر کے باہر پیپل کے ایک پیڑ کے اردگرد سیمنٹ کے تھڑے پر کئی شردھالو بیٹھے تھے اور رامائن کی کتھا ہورہی تھی۔ نارائن باوا رامائن کا وہ حصّہ سنا رہے تھے جہاں ایک دھوبی نے اپنی دھوبن کو گھر سے نکال دیا تھا اور اس سے کہہ دیا —— میں راجا رام چندر نہیں، جو اتنے سال راون کے ساتھ رہ آنے پر بھی سیتا کو بسا لے گا اور رام چندر جی نے مہاستونتی سیتا کو گھر سے نکال دیا —— ایسی حالت میں جب کہ وہ گربھ وتی تھی۔ ’’کیا اس سے بھی بڑھ کر رام راج کا کوئی ثبوت مل سکتا ہے؟‘‘——نارائن باوا نے کہا —— ’’یہ ہے رام راج! جس میں ایک دھوبی کی بات کو بھی اتنی ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
کمیٹی کا جلوس مندر کے پاس رُک چکا تھا اور لوگ رامائن کی کتھا اور شلوک کا ورنن سننے کے لیے ٹھہر چکے تھے۔ سندر لال آخری فقرے سنتے ہوئے کہہ اُٹھا ——
’’ہمیں ایسا رام راج نہیں چاہیے بابا!‘‘
’’چُپ رہو جی‘‘ —— ’’تم کون ہوتے ہو؟‘‘ —— ’’خاموش!‘‘ مجمع سے آوازیں آئیں اور سندر لال نے بڑھ کر کہا —— ’’مجھے بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘‘
پھر ملی جُلی آوازیں آئیں —— ’’خاموش!‘‘ —— ’’ہم نہیں بولنے دیں گے‘‘ اور ایک کونے میں سے یہ بھی آواز آئی —— ’’مار دیں گے۔‘‘
نارائن بابا نے بڑی میٹھی آواز میں کہا —— ’’تم شاستروں کی مان مرجادا کو نہیں سمجھتے سندر لال!‘‘
سندر لال نے کہا —— ’’میں ایک بات تو سمجھتا ہوں بابا — رام راج میں دھوبی کی آواز تو سنی جاتی ہے، لیکن سندر لال کی نہیں۔‘‘
انہی لوگوں نے جو ابھی مارنے پہ تلے تھے، اپنے نیچے سے پیپل کی گولریں ہٹا دیں، اور پھر سے بیٹھتے ہوئے بول اُٹھے۔ ’’سُنو ، سُنو، سُنو……‘‘
رسالو اور نیکی رام نے سندر لال بابو کو ٹہوکا دیا اور سندر لال بولے— ’’شری رام نیتا تھے ہمارے۔ پر یہ کیا بات ہے بابا جی! انھوں نے دھوبی کی بات کو ستیہ سمجھ لیا، مگر اتنی بڑی مہارانی کے ستیہ پر وشواس نہ کرپائے؟‘‘
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا — ’’اِس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘
’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا —— ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اُسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا… آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے … اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے … اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
آج ہماری سیتا نردوش گھر سے نکال دی گئی ہے… سیتا … لاجونتی … اور سندر لال بابو نے رونا شروع کردیا۔ رسالو اور نیکی رام نے تمام وہ سُرخ جھنڈے اُٹھا لیے جن پر آج ہی اسکول کے چھوکروں نے بڑی صفائی سے نعرے کاٹ کے چپکا دیے تھے اورپھر وہ سب ’’سندرلال بابو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے چل دیے۔ جلوس میں سے ایک نے کہا — ’’مہاستی سیتا زندہ باد‘‘ ایک طرف سے آواز آئی — ’’شری رام چندر ‘‘……
اور پھر بہت سی آوازیں آئیں— ’’خاموش! خاموش!‘‘ اور نارائن باوا کی مہینوں کی کتھا اکارت چلی گئی۔ بہت سے لوگ جلوس میںشامل ہوگئے، جس کے آگے آگے وکیل کالکا پرشاد اور حکم سنگھ محرر چوکی کلاں، جارہے تھے ، اپنی بوڑھی چھڑیوں کو زمین پر مارتے اور ایک فاتحانہ سی آواز پیدا کرتے ہوئے —— اور ان کے درمیان کہیں سندرلال جارہاتھا۔ اس کی آنکھوں سے ابھی تک آنسو بہہ رہے تھے۔ آج اس کے دل کو بڑی ٹھیس لگی تھی اور لوگ بڑے جوش کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر گا رہے ۔
’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی دے بوٹے…!‘‘
ابھی گیت کی آواز لوگوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ابھی صبح بھی نہیں ہوپائی تھی اور محلہ ملاّ شکور کے مکان 414 کی بدھوا ابھی تک اپنے بستر میں کربناک سی انگڑائیاں لے رہی تھی کہ سندر لال کا ’’گرائیں‘‘لال چند، جسے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے سندر لال اور خلیفہ کالکا پرشاد نے راشن ڈپوے دیا تھا، دوڑا دوڑا آیا اور اپنی گاڑھے کی چادر سے ہاتھ پھیلائے ہوئے بولا—
’’بدھائی ہو سندر لال۔‘‘
سندر لال نے میٹھا گڑ چلم میں رکھتے ہوئے کہا — ’’کس بات کی بدھائی لال چند؟‘‘
’’میں نے لاجو بھابی کو دیکھا ہے۔‘‘
سندر لال کے ہاتھ سے چلم گر گئی اور میٹھا تمباکو فرش پر گر گیا —— ’’کہاں دیکھا ہے؟‘‘ اس نے لال چند کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے پوچھا اور جلد جواب نہ پانے پر جھنجھوڑدیا۔
’’واگہ کی سرحد پر۔‘‘
سندر لال نے لال چند کو چھوڑ دیا اور اتنا سا بولا ’’کوئی اور ہوگی۔‘‘
لال چند نے یقین دلاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں بھیّا، وہ لاجو ہی تھی، لاجو …‘‘
’’تم اسے پہچانتے بھی ہو؟‘ سندر لال نے پھر سے میٹھے تمباکو کو فرش پر سے اُٹھاتے اور ہتھیلی پر مسلتے ہوئے پوچھا ،اور ایسا کرتے ہوئے اس نے رسالو کی چلم حُقّے پر سے اُٹھالی اور بولا— ’’بھلا کیا پہچان ہے اس کی؟‘‘
’’ایک تیندولہ ٹھوڑی پر ہے، دوسرا گال پر—‘‘
’’ہاں ہاں ہاں‘‘ اور سندر لال نے خود ہی کہہ دیا ’’تیسرا ماتھے پر۔‘‘ وہ نہیںچاہتا تھا، اب کوئی خدشہ رہ جائے اور ایک دم اسے لاجونتی کے جانے پہچانے جسم کے سارے تیندولے یاد آگئے، جو اس نے بچپنے میں اپنے جسم پر بنوا لیے تھے، جو ان ہلکے ہلکے سبز دانوں کی مانند تھے جو چھوئی موئی کے پودے کے بدن پر ہوتے ہیں اور جس کی طرف اشارہ کرتے ہی وہ کمھلانے لگتا ہے۔ بالکل اسی طرح ان تیندولوں کی طرف انگلی کرتے ہی لاجونتی شرما جاتی تھی — اور گم ہوجاتی تھی، اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ گویا اس کے سب راز کسی کو معلوم ہوگئے ہوں اور کسی نامعلوم خزانے کے لُٹ جانے سے وہ مفلس ہوگئی ہو … سندرلال کا سارا جسم ایک اَن جانے خوف، ایک اَن جانی محبت اور اس کی مقدس آگ میں پُھنکنے لگا۔ اس نے پھر سے لال چند کو پکڑ لیا اور پوچھا—
’’لاجو واگہ کیسے پہنچ گئی؟‘‘
لال چند نے کہا — ’’ہند اور پاکستان میں عورتوں کا تبادلہ ہو رہا تھا نا ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا — ؟‘‘ سندر لال نے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا۔ ’’کیا ہوا پھر؟‘‘
رسالو بھی اپنی چارپائی پر اُٹھ بیٹھا اور تمباکو نوشوں کی مخصوص کھانسی کھانستے ہوئے بولا— ’’سچ مچ آگئی ہے لجونتی بھابی؟‘‘
لال چند نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’واگہ پر سولہ عورتیں پاکستان نے دے دیں اور اس کے عوض سولہ عورتیں لے لیں —لیکن ایک جھگڑا کھڑا ہوگیا۔ ہمارے والنٹیراعتراض کر رہے تھے کہ تم نے جو عورتیں دی ہیں، ان میں ادھیڑ، بوڑھی اور بیکار عورتیں زیادہ ہیں۔ اس تنازع پر لوگ جمع ہوگئے۔ اس وقت اُدھر کے والنٹیروں نے لاجو بھابی کو دکھاتے ہوئے کہا — ’’تم اسے بوڑھی کہتے ہو؟ دیکھو … دیکھو … جتنی عورتیں تم نے دی ہیں، ان میں سے ایک بھی برابری کرتی ہے اس کی ؟’’ اور وہاں لاجو بھابی سب کی نظروں کے سامنے اپنے تیندولے چُھپا رہی تھی۔‘‘
پھر جھگڑا بڑھ گیا ۔ دونوں نے اپنا اپنا ’’مال‘‘ واپس لے لینے کی ٹھان لی۔ میں نے شور مچایا — ’’لاجو — لاجو بھابی …‘‘ مگر ہماری فوج کے سپاہیوں نے ہمیں ہی مار مار کے بھگا دیا۔
اور لال چند اپنی کہنی دکھانے لگا، جہاں اسے لاٹھی پڑی تھی۔ رسالو اور نیکی رام چُپ چاپ بیٹھے رہے اور سندر لال کہیں دور دیکھنے لگا۔ شاید سوچنے لگا۔ لاجو آئی بھی پر نہ آئی… اور سندر لال کی شکل ہی سے جان پڑتا تھا، جیسے وہ بیکانیر کا صحرا پھاند کر آیا ہے اور اب کہیں درخت کی چھان￿و میں، زبان نکالے ہانپ رہا ہے۔ مُنھ سے اتنا بھی نہیں نکلتا — ’’پانی دے دو۔‘‘ اسے یوں محسوس ہوا، بٹوارے سے پہلے بٹوارے کے بعد کا تشدّد ابھی تک کارفرما ہے۔ صرف اس کی شکل بدل گئی ہے۔ اب لوگوں میں پہلا سا دریغ بھی نہیں رہا۔ کسی سے پوچھو، سانبھر والا میں لہنا سنگھ رہاکرتا تھا اور اس کی بھابی بنتو — تو وہ جھٹ سے کہتا ’’مر گئے‘‘ اور اس کے بعد موت اور اس کے مفہوم سے بالکل بے خبر بالکل عاری آگے چلاجاتا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر بڑے ٹھنڈے دل سے تاجر، انسانی مال، انسانی گوشت اور پوست کی تجارت اور اس کا تبادلہ کرنے لگے۔ مویشی خریدنے والے کسی بھینس یا گائے کا جبڑا ہٹا کر دانتوں سے اس کی عمر کا اندازہ کرتے تھے۔
اب وہ جوان عورت کے روپ، اس کے نکھار، اس کے عزیز ترین رازوں، اس کے تیندولوں کی شارع عام میں نمائش کرنے لگے۔ تشدّد اب تاجروں کی نس نس میں بس چکا ہے۔ پہلے منڈی میں مال بکتا تھا اور بھاؤ تاؤ کرنے والے ہاتھ ملا کر اس پر ایک رومال ڈال لیتے اور یوں ’’گپتی‘‘ کرلیتے۔ گویا رومال کے نیچے انگلیوں کے اشاروں سے سودا ہوجاتا تھا۔ اب ’’گپتی‘‘ کا رومال بھی ہٹ چکا تھا اور سامنے سودے ہو رہے تھے اور لوگ تجارت کے آداب بھی بھول گئے تھے۔ یہ سارا ’’لین دین‘‘ یہ سارا کاروبار پُرانے زمانے کی داستان معلوم ہو رہا تھا، جس میں عورتوں کی آزادانہ خرید و فرخت کا قصّہ بیان کیا جاتا ہے۔ از بیک اَن گنت عریاں عورتوں کے سامنے کھڑا اُن کے جسموں کو ٹوہ ٹوہ کے دیکھ رہا ہے اور جب وہ کسی عورت کے جسم کو اُنگلی لگاتا ہے تو اس پر ایک گلابی سا گڑھا پڑجاتا ہے اور اس کے اردگرد ایک زرد سا حلقہ اور پھر زردیاں اور سُرخیاں ایک دوسرے کی جگہ لینے کے لیے دوڑتی ہیں … ازبیک آگے گزر جاتا ہے اور ناقابلِ قبول عورت ایک اعترافِ شکست، ایک انفعالیت کے عالم میں ایک ہاتھ سے ازار بند تھامے اور دوسرے سے اپنے چہرے کو عوام کی نظروں سے چھپائے سِسکیاں لیتی ہے…
سندرلال امرتسر (سرحد) جانے کی تیاری کرہی رہا تھا کہ اسے لاجو کے آنے کی خبر ملی۔ ایک دم ایسی خبر مل جانے سے سندر لال گھبرا گیا۔ اس کا ایک قدم فوراً دروازے کی طرف بڑھا، لیکن وہ پیچھے لوٹ آیا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ وہ روٹھ جائے اور کمیٹی کے تمام پلے کارڈوں اور جھنڈیوں کو بچھا کر بیٹھ جائے اور پھر روئے، لیکن وہاں جذبات کا یوں مظاہرہ ممکن نہ تھا۔ اُس نے مردانہ وار اس اندرونی کشاکش کا مقابلہ کیا اور اپنے قدموں کو ناپتے ہوئے چوکی کلاں کی طرف چل دیا ،کیونکہ وہی جگہ تھی جہاں مغویہ عورتوں کی ڈلیوری دی جاتی تھی۔
اب لاجو سامنے کھڑی تھی اور ایک خوف کے جذبے سے کانپ رہی تھی۔ وہی سندرلال کو جانتی تھی ،اس کے سوائے کوئی نہ جانتا تھا۔ وہ پہلے ہی اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتا تھا اور اب جب کہ وہ ایک غیرمرد کے ساتھ زندگی کے دن بِتا کر آئی تھی، نہ جانے کیا کرے گا؟ سندرلال نے لاجو کی طرف دیکھا۔ وہ خالص اسلامی طرز کا لال دوپٹہ اوڑھے تھی اور بائیں بکّل مارے ہوئے تھی … عادتاً محض عادتاً —— دوسری عورتوں میں گھل مل جانے اور بالآخر اپنے صیّاد کے دام سے بھاگ جانے کی آسانی تھی اور وہ سندرلال کے بارے میں اتنا زیادہ سوچ رہی تھی کہ اسے کپڑے بدلنے یا دوپٹہ ٹھیک سے اوڑھنے کا بھی خیال نہ رہا۔ وہ ہندو اور مسلمان کی تہذیب کے بنیادی فرق — دائیں بُکل اور بائیں بُکل میں امتیاز کرنے سے قاصر رہی تھی۔ اب وہ سندرلال کے سامنے کھڑی تھی اور کانپ رہی تھی، ایک اُمید اور ایک ڈر کے جذبے کے ساتھ —
سندر لال کو دھچکا سا لگا۔ اس نے دیکھا لاجونتی کا رنگ کچھ نکھر گیا تھااور وہ پہلے کی بہ نسبت کچھ تندرست سی نظر آتی تھی۔ نہیں ۔ وہ موٹی ہوگئی تھی — سندر لال نے جو کچھ لاجو کے بارے میں سوچ رکھا تھا، وہ سب غلط تھا۔ وہ سمجھتا تھا غم میں گُھل جانے کے بعد لاجونتی بالکل مریل ہوچکی ہوگی اور آواز اس کے منھ سے نکالے نہ نکلتی ہوگی۔ اس خیال سے کہ وہ پاکستان میں بڑی خوش رہی ہے، اسے بڑا صدمہ ہوا ،لیکن وہ چُپ رہا کیونکہ اس نے چُپ رہنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اگرچہ وہ نہ جان پایا کہ اتنی خوش تھی تو پھر چلی کیوں آئی؟اس نے سوچا شاید ہند سرکار کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنی مرضی کے خلاف یہاں آنا پڑا —— لیکن ایک چیز وہ نہ سمجھ سکا کہ لاجونتی کا سنولایا ہوا چہرہ زردی لیے ہوئے تھا اور غم، محض غم سے اس کے بدن کے گوشت نے ہڈیوں کو چھوڑ دیاتھا۔ وہ غم کی کثرت سے ’’موٹی‘‘ ہوگئی تھی اور ’’صحت مند‘‘ نظر آتی تھی، لیکن یہ ایسی صحت مندی تھی جس میں دو قدم چلنے پر آدمی کا سانس پھول جاتا ہے…‘‘
مغویہ کے چہرے پر پہلی نگاہ ڈالنے کا تاثر کچھ عجیب سا ہوا۔ لیکن اس نے سب خیالات کا ایک اثباتی مردانگی سے مقابلہ کیا اور بھی بہت سے لوگ موجود تھے۔ کسی نے کہا —— ’’ہم نہیں لیتے مسلمران (مسلمان) کی جھوٹی عورت ——‘‘
اور یہ آواز رسالو، نیکی رام اور چوکی کلاں کے بوڑھے محرر کے نعروں میں گُم ہوکر رہ گئی ۔ ان سب آوازوں سے الگ کالکاپرشاد کی پھٹتی اور چلاّتی آواز آرہی تھی۔ وہ کھانس بھی لیتا اور بولتا بھی جاتا۔ وہ اس نئی حقیقت، اس نئی شدھی کا شدّت سے قائل ہوچکا تھا۔ یُوں معلوم ہوتا تھا آج اس نے کوئی نیا وید، کوئی نیا پران اور شاستر پڑھ لیا ہے اور اپنے اس حصول میں دوسروں کو بھی حصّے دار بنانا چاہتا ہے… ان سب لوگوں اور ان کی آوازوں میں گھِرے ہوئے لاجو اور سندر لال اپنے ڈیرے کو جا رہے تھے اور ایسا جان پڑتا تھا جیسے ہزاروں سال پہلے کے رام چندر اور سیتا کسی بہت لمبے اخلاقی بن باس کے بعد اجودھیا لوٹ رہے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ خوشی کے اظہار میں دیپ مالا کر رہے ہیں، اور دوسری طرف انھیں اتنی لمبی اذیّت دیے جانے پر تاسف بھی۔
لاجونتی کے چلے آنے پر بھی سندر لال بابو نے اسی شدّ و مد سے ’’دل میں بساؤ‘‘ پروگرام کو جاری رکھا۔ اس نے قول اور فعل دونوں اعتبار سے اسے نبھادیا تھا اور وہ لوگ جنھیں سندرلال کی باتوں میں خالی خولی جذباتیت نظر آتی تھی، قائل ہونا شروع ہوئے۔ اکثر لوگوں کے دل میں خوشی تھی اور بیشتر کے دل میں افسوس۔ مکان 414 کی بیوہ کے علاوہ محلہ ملاّ شکور کی بہت سی عورتیں سندرلال بابو سوشل ورکر کے گھر آنے سے گھبراتی تھیں۔
لیکن سندرلال کو کسی کی اعتنا یا بے اعتنائی کی پروا نہ تھی۔ اس کے دل کی رانی آچکی تھی اور اس کے دل کا خلا پٹ چکا تھا۔ سندرلال نے لاجو کی سورن مورتی کو اپنے دل کے مندر میں استھاپت کرلیا تھا اور خود دروازے پر بیٹھا اس کی حفاظت کرنے لگا تھا۔ لاجو جو پہلے خوف سے سہمی رہتی تھی، سندر لال کے غیرمتوقع نرم سلوک کو دیکھ کر آہستہ آہستہ کھُلنے لگی۔
سندرلال، لاجونتی کو اب لاجو کے نام سے نہیں پکارتا تھا۔ وہ اسے کہتا تھا ’’دیوی!‘‘اور لاجو ایک اَن جانی خوشی سے پاگل ہوئی جاتی تھی۔ وہ کتنا چاہتی تھی کہ سندرلال کو اپنی واردات کہہ سنائے اور سناتے سناتے اس قدر روئے کہ اس کے سب گناہ دُھل جائیں۔ لیکن سندرلال، لاجو کی وہ باتیں سننے سے گریز کرتا تھا اور لاجو اپنے کُھل جانے میں بھی ایک طرح سے سِمٹی رہتی۔ البتہ جب سندرلال سوجاتا تو اسے دیکھا کرتی اور اپنی اس چوری میں پکڑی جاتی۔ جب سندرلال اس کی وجہ پوچھتا تو وہ ’’نہیں‘‘ ’’یو نہیں‘‘ ’’اونھوں‘‘ کے سوا اور کچھ نہ کہتی اور سارے دن کا تھکا ہارا سندرلال پھر اونگھ جاتا… البتہ شروع شروع میں ایک دفعہ سندرلال نے لاجونتی کے ’’سیاہ دنوں‘‘ کے بارے میں صرف اتنا سا پوچھا تھا ——
’’کون تھا وہ؟‘‘
لاجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا —— ’’جُمّاں‘‘ —— پھر وہ اپنی نگاہیں سندرلال کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندرلال ایک عجیب سی نظروں سے لاجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس کے بالوں کو سہلارہا تھا۔ لاجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کرلیں اور سندر لال نے پُوچھا ——
’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’مارتا تونہیں تھا؟‘‘
لاجونتی نے اپنا سر سندر لال کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا —— ’’نہیں‘‘… اور پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا، پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی … اب تو نہ ماروگے؟‘‘
سندر لال کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے تاسف سے کہا —— ’’نہیں دیوی! اب نہیں … نہیں ماروں گا…‘‘
’’دیوی!‘‘ لاجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔
اور اس کے بعد لاجونتی سب کچھ کہہ دینا چاہتی تھی، لیکن سندرلال نے کہا —— ’’جانے دو بیتی باتیں۔ اس میں تمھارا کیا قصور ہے؟ اس میں قصور ہے ہمارے سماج کا جو تجھ ایسی دیویوں کو اپنے ہاں عزت کی جگہ نہیں دیتا۔ وہ تمھاری ہانی نہیں کرتا، اپنی کرتا ہے۔‘‘
اور لاجونتی کی من کی من ہی میں رہی۔ وہ کہہ نہ سکی ساری بات اور چپکی دبکی پڑی رہی اور اپنے بدن کی طرف دیکھتی رہی جو کہ بٹوارے کے بعد اب ’’دیوی‘‘ کا بدن ہوچکا تھا۔لاجونتی کا نہ تھا۔ وہ خوش تھی بہت خوش ۔ لیکن ایک ایسی خوشی میں سرشار جس میں ایک شک تھا اور وسوسے۔ وہ لیٹی لیٹی اچانک بیٹھ جاتی، جیسے انتہائی خوشی کے لمحوں میں کوئی آہٹ پاکر ایکاایکی اس کی طرف متوجہ ہوجائے …
جب بہت سے دن بیت گئے تو خوشی کی جگہ پورے شک نے لے لی۔ اس لیے نہیں کہ سندر لال بابو نے پھر وہی پرانی بدسلوکی شروع کردی تھی، بلکہ اس لیے کہ وہ لاجو سے بہت ہی اچھا سلوک کرنے لگا تھا۔ ایسا سلوک جس کی لاجو متوقع نہ تھی … وہ سندر لال کی، وہ پرانی لاجو ہوجانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑپڑتی اور مولی سے مان جاتی۔ لیکن اب لڑائی کا سوال ہی نہ تھا۔ سندرلال نے اسے یہ محسوس کرا دیا جیسے وہ — لاجونتی کانچ کی کوئی چیز ہے، جو چھوتے ہی ٹوٹ جائے گی… اور لاجو آئینے میں اپنے سراپا کی طرف دیکھتی اور آخر اس نتیجے پر پہنچتی کہ وہ اور تو سب کچھ ہوسکتی ہے، پر لاجو نہیں ہوسکتی۔ وہ بس گئی، پر اُجڑ گئی … سندرلال کے پاس اُس کے آنسو دیکھنے کے لیے آنکھیں تھیں اور نہ آہیں سننے کے لیے کان!… پربھات پھیریاں نکلتی رہیں اور محلہ ملاّ شکور کا سدھارک رسالو اور نیکی رام کے ساتھ مل کر اُسی آواز میں گاتا رہا ——

’’ہتھ لائیاں کملان نی، لاجونتی دے بُوٹے

Viktoria Was Home All Alone by Martin Auer

Articles

خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ

مارٹن آور

کہانی’ خالی گھر اور تنہا وکٹوریہ‘مارٹن آور کی تحریر کردہ ایک مضبوط ارادوں والی آسٹریائی لڑکی کی کہانی ہے۔ مارٹن آور کی شخصیت کی کئی جہات ہیں۔ تصنیف و تالیف کے علاوہ وہ اسٹیج اور صحافت سے بھی وابستہ ہیں۔ انھیں ادبِ اطفال پر آسٹریلین نیشنل ایوارڈ سے بھی سر فراز کیا جا چکا ہے۔

————————————–

ہر کوئی جا چکا تھااور وکٹوریہ گھر پر اکیلی تھی۔
’’جب سب جاچکے ہوتے ہیں تب میرا گھر ایک جادوئی جگہ بن جاتا ہے۔‘‘
وہ اپنے والدین کی خواب گاہ میں گئی اور وہاں پھیلی ہوئی چادر کو کھینچا۔بیڈ کے بالکل درمیان میں ایک بڑا بھالو لیٹا ہوا تھا۔وہ سیدھا اس کی طرف دیکھنے لگا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’مجھے کچھ دو‘‘
بھالو کمرے سے باہر گیا اور وکٹوریہ کے لیے اس کے والد کی ہیٹ لے آیا۔وکٹوریہ نے اسے پہن لیا اور اس بھالو کو ڈھانک دیا۔
اس نے اپنی ماں کا نائٹ اسٹینڈ(بستر کے بازو میں موجود ٹیبل یا کباٹ)کھولا۔
یہاں سنہری آنکھوں والا ایک بڑا مینڈک بیٹھا ہوا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’مجھے کچھ دو‘‘
مینڈک اچھلتے ہوئے کمرے سے باہر گیا اور وکٹوریہ کے لیے اس کی والدہ کے جوتے لے آیا۔
وکٹوریہ نے جوتے پہن لیے اور نائٹ اسٹینڈ کو بند کردیا۔
وکٹوریہ نے الماری کی طرف دیکھا۔ وہاں سے اسے کچھ دھڑکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔وہ کپڑوں میں کچھ تلاش کرنے لگی۔تب اسے اپنے والد کا سردیوں میں پہنا جانے والا موٹا اور وزنی کوٹ نظر آیا۔دھڑکنے کی آواز اسی میں سے آرہی تھی۔وہ یہ دیکھنے کے لیے سوٹ کیس کے اوپر چڑھ گئی کہ کیا چیز دھڑک رہی ہے۔کوٹ کے اوپری جیب میں ایک بڑا سرخ وسیاہ دل دھڑک رہا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
کوٹ کے ایک کنارے والی جیب میں سنہری چابی اور دوسرے کنارے والی جیب میں کچھ بیج رکھے ہوئے تھے۔
’’کیا تم یہ مجھے دو گے‘‘اس نے دل سے دریافت کیا اور دل دھڑکنے لگا۔
تب اس نے چابی اور بیج لے لیے۔
وکٹوریہ پورے گھر میں بھٹکتی رہی، گھر بہت بڑا تھا۔
ایک کمرے میں ایک ڈیسک موجود تھا اور ڈیسک کے اوپر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔وہ کرسی کے اوپر چڑھ گئی اور اس نے کتاب کھولی۔
کتاب میں تصویریں نہیں تھیں صرف کچھ الجھی ہوئی لکیریں نظر آرہی تھیں۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا
اس نے اپنی سنہری چابی سے کتاب کو چھوا۔
الجھی ہوئی کالی لکیروں میں حرکت ہونے لگی۔وہ چھوٹے چھوٹے مرد اور عورتیں تھیں ، انہوں نے اب رقص کرنا شروع کردیا تھا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور صفحہ پلٹ دیا۔
اب وہ کالی الجھی ہوئی لکیریں ایسے تالاب میں تبدیل ہوگئیں جس پر بڑے بڑے پانی کے بلبلے تیر رہے تھے۔
وکٹوریہ نے ان بلبلوں کو اپنی چابی سے چھوا۔ان بلبلوں سے چھوٹے چھوٹے جرثومے پھسل کر اطراف میں تیرنے لگے۔ اب ان کی دُمیں غائب ہوچکی تھیں اور وہ مینڈک کی طرح نظر آرہے تھے۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور وہ صفحہ بھی پلٹ دیا۔
اگلے صفحے پر چھوٹے چھوٹے کیڑے تھے۔وکٹوریہ نے انہیں اپنی چابی سے چھوا۔
اچانک چاروں طرف کھٹمل پھیل گئے اور انہوں نے ان کیڑوں کو کھانا شروع کردیا۔
پھر چاروں طرف پرندے پھیلنے لگے اور ان پرندوں نے کھٹملوں کو کھانا شروع کیا۔
اس کے بعد اچانک لومڑیاں نمودار ہوئیں اور انہوں نے پرندوں کو کھا لیا۔
لیکن ایک لومڑی کے گلے میں ہڈی پھنس گئی اور اس کی موت ہوگئی۔
اچانک دوبارہ چھوٹے چھوٹے کیڑے نظر آنے لگے اور انہوں نے اس لومڑی کو کھالیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور وہ صفحہ پلٹ دیا۔
اگلے صفحے پر ایک جنگل موجود تھا۔ اس نے جنگل کو اپنی چابی سے چھوا۔
اچانک وہاں کچھ لوگ نظر آنے لگے جو درختوں کو کاٹ رہے تھے۔
وہ درختوں کا استعمال گھر بنانے کے لیے اور شہر بنانے کے لیے کرتے تھے۔ وہ لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے۔
اچانک آگ لگ گئی اور پورا شہر جل اٹھا۔
لوگوں نے اپنا سازوسامان باندھا اور باہر بھاگنے لگے۔
پھر ہوا اپنے ساتھ کچھ بیج اڑا کر لے آئی اور جنگل دوبارہ ہرا بھرا ہونے لگا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا اور کتاب کو بند کرکے اپنے پاس رکھ لیا۔
وہ کچن میں گئی، اس کی ماں سنک کے نیچے والے کباٹ میں گلدان رکھا کرتی تھی۔وکٹوریہ نے سب سے بڑا گلدان نکالا اور کمرے کے وسط میں بیٹھ گئی۔اس نے گلدان میں بیج ڈالے اور انہیں اوپر تک مٹی سے ڈھانک دیا۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے؟‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا اور گلدان کو اپنی سنہری چابی سے چھوا۔ مٹی میں حرکت شروع ہوئی ۔ بیجوں سے کونپلیں پھوٹ پھوٹ کر اوپر آنے لگیں۔کونپلیں مسلسل اونچائی کی جانب بڑھتی گئیں۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا
’’یہ جلد ہی کمرے سے باہر تک بڑھتی چلی جائیں گی‘‘
لیکن تب بھی کونپلیں شاخوں میں تبدیل ہو کر مسلسل بڑھتی رہیں۔
اب وکٹوریہ شاخوں پر چڑھنے لگی
وہ اوپر ہی اوپر چڑھتی رہی، کمرہ کسی مینار کی طرح اونچا نظر آرہا تھا۔
پتیوں کے درمیان سے ایک شیر جھانکتا ہوا نظر آرہا تھا۔وہ اپنا بڑا سا منہ کھولے دھاڑ رہا تھا۔
’’آئو دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے ‘‘وکٹوریہ نے اپنے آپ سے کہا اور شیر کو اپنی سنہری چابی سے چھوا۔
اچانک شیر پالتو بلّی کے بچے کی طرح ہو گیا۔
’’اوہ۔۔۔۔۔۔‘‘وکٹوریہ نے کہا او ر اوپر چڑھتی گئی۔
اچانک بھیڑیے اس کی طرف دوڑتے ہوئے آنے لگے۔وہ تیز آواز میں غرّا رہے تھے۔ وکٹوریہ نے انہیں اپنی چابی سے چھوا اور تمام بھیڑیے دیکھتے ہی دیکھتے پالتو کتّے کے پلّوں میں تبدیل ہوگئے۔
’’یہ اچھا ہوا‘‘وکٹوریہ نے کہا اور اوپر چڑھتی گئی۔
اچانک اسے کچھ اجنبی لوگ نظر آئے جو اس کی طرف دیکھ کر چیخ و پکار کر رہے تھے۔لیکن وکٹوریہ انہیں سمجھ نہیں سکی۔
اس نے اپنی سنہری چابی باہر نکالی،لوگوں نے اس چابی کو چھوا تب اس نے انہیں سمجھ لیا۔
’’وکٹوریہ ! آپ آخر کار یہاں تک پہنچ ہی گئیں، ہم بہت خوش ہیں کہ آپ یہاں ہو۔ـ‘‘اجنبیوں نے کہا۔ لیکن اب وہ اجنبی نہیں رہ گئے تھے۔
’’کیوں؟ شکریہ‘‘وکٹوریہ نے کہا۔
پھر لوگوں نے اسے اپنے گھر، اپنی بلڈنگیں اور اپنے اپارٹمنٹس بتاتے ہوئے کہا،’’اگر تمہیں گھر چاہیے تو ہمارے گھروں میں سے کوئی ایک لے لو۔‘‘
’’کیوں؟ شکریہ۔‘‘وکٹوریہ نے کہا۔’’شاید بعد میں‘‘اور وہ اوپر چڑھتی گئی۔
وکٹوریہ اوپر ہی اوپر چڑھتی رہی اور شاخ کے آخری سرے پر پہنچ کر اس نے چاند کو دیکھا۔
شاخ کے آخری سرے پر ایک ٹیبل پر اس کے والد اور والدہ بیٹھے ہوئے تھے۔وہ شمع روشن کر کے اپنے ہاتھوں کو اٹھائے ہوئے تھے۔
چاند اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔وکٹوریہ!اس کی والدہ نے اسے مخاطب کیا۔ ’’کیا تم ہمارے ساتھ بیٹھنا پسند کروگی؟‘‘
’’ہاں ضرور‘‘وکٹوریہ نے کہا۔
————————————————–

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

It’s a Chick, Not a Dog by Jar al-Nabi al-Hilw

Articles

یہ چوزہ ہے ، پلّہ نہیں

جرالنّبی الحلو

کہانی ’یہ چوزہ نہیں پلّہ ہے‘ مصری نژاد کہانی کار جرالنّبی الحلوکی تحریر کردہ ہے۔ کہانی میں ایک مصری لڑکا انسانوں اور حیوانوں کے درمیان دوستی کے بارے میں سیکھتا ہے۔

—————————————-

ہم تمام مرد، عورت، لڑکے، لڑکیاں اور ہماری ماںایک بہت بڑے گھر میں رہتے تھے۔ماں میری توجہ کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوتی تھی میں اسے دیکھا کرتا تھا۔ماں اکثر میرے والد کی تصویر دیوار پر لٹکانے کے لیے ہتھوڑا اور کیل لے آیا کرتی تھی۔ پھر مجھے سیمنٹ خریدنے کے لیے باہر بھیجتی تھی تاکہ دیواروں پر موجود دراڑوں کی مرمّت کی جا سکے۔گھر جتنا صاف ستھرا ہونا چاہیے وہ اسے اتنا صاف رکھنے کی کوشش کرتی۔وہ کھانا تیار کرنے کے بعد مرغے، مرغیوں، بطخوں اور خرگوشوں کے درمیان بیٹھ جاتی۔
ہماری پوری زندگی ان ہی مرغے، مرغیوں، بطخوں اور خرگوشوں کے درمیان گزر رہی تھی۔ان سبھوں کے درمیان ایک چھوٹا سا پیلا چوزہ مجھے ہمیشہ حیرت میں ڈال دیتا تھا۔اس کا جسم ریشم کی طرح نرم و ملائم تھا۔اس کے دائیں اور بائیں دونوں بازئوں میں تین تین چھوٹے چھوٹے پر نکل آئے تھے۔یہ پر بہت کمزور تھے اس کہ باوجود بھی وہ چوزہ اپنے پروں کو حرکت دے کر خود کو زمین سے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتا۔یہ بالکل تنہا اور حیرت انگیز چوزہ تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ گھر میں میری ماں کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔اس کے چلنے کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے کوئی چھوٹا بچہ پیچھے چل رہا ہو۔وہ چلتے چلتے کبھی گرتا کبھی سنبھلتا ،لیکن میری ماں کی پیروی کرتا رہتا۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیںکہ وہ کیوں بخوشی چوں چوں کرتا ہوا میری ماں کے پیچھے چلتا تھا۔
ماں جانتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔یقینا وہ ہمیشہ سے اس بات کو جانتی تھی۔شاید آپ چاہتے ہوں کہ میں یہ بتائوں ایسا کیوں ہوتا تھا۔اس کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ میری ماں کا پیر چلتے وقت کبھی پیچھے نہیں آیا اور نہ ہی اس چوزے پر پڑا تھا۔دوسری وجہ یہ کہ میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور میں یہ بھی دیکھ سکتا تھا کہ ماں چلتے وقت دیکھ لیا کرتی تھی کہ وہ اس کے پیچھے چل رہا ہے یا نہیں۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ جب وہ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ جاتی اور چوزے کی طرف دیکھ کر مسکراتی تب وہ فوراً اپنے پروں کو جنبش دیتا اور دوڑنا شروع کردیتا۔وہ کئی مرتبہ لڑکھڑاتا پھر کھڑا ہوجاتا،آخر کار وہ کھڑا ہوتا ہے اور ماں کی گود میں جا کر بیٹھ جاتا ہے۔
ماں اس طرح بیٹھی ہوئی ہے کہ سورج کی شعاعیں سیدھے اسی پر پڑرہی ہیں۔اب وہ اس طرح سے بیٹھتی ہے کہ سورج کی شعاعیں اس کی گود میں پڑنے لگتی ہیں۔وہ جدھر حرکت کرتی ہے چوزہ بھی اس سمت اپنا رخ کرتا ہے۔
ایک مرتبہ وہ ماں کی پشت پر بیٹھا تھا تب ماں نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔ وہ ماں کی گود میں اس جگہ سوگیا جہاں سورج کی شعاعیں پڑ رہی تھیں۔وہیں بیٹھے بیٹھے ماں نے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں۔اپنے سر کو دیوار پر ٹیک دیااور اونگھنے لگی۔میں اس کے چہرے کے خدوخال دیکھنے لگا، اس کی پلکیں تقریباً بند ہوچکی تھیں۔ اس کی چوڑی پیشانی بالکل روشن تھی۔مجھے اس کے چہرے پر نا سمجھ میں آنے والی مسکراہٹ نظر آرہی تھی۔اس کی سیدھی آنکھ پر پَرکا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نظر آرہا تھا۔وہ بہت گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ میں بمشکل اس کی سانسوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔چوزہ سورج کی شعاعوں میں لپٹا اس کی آغوش میں سو رہا تھا۔
چوزہ ماں کے جسم پر چونچ مار رہا تھا۔اس کی چونچ ماچس کی تیلی کے کنارے سے بھی زیادہ چھوٹی تھی۔وہ ماں کی انگلیوں پر چونچ مار رہا تھا۔ ماں کی انگلیوں میں ایک انگوٹھی تھی جس پر نقش و نگار کنندہ تھے۔ میں ان نقش و نگار کو کبھی سمجھ نہیں پایا۔میں نے یہ فرض کرلیا کہ اس انگوٹھی پر ماں کا نام کنندہ تھا۔میں نے ایسا اس لیے فرض کیا تھا کیوں کہ ماں کے نام کے حروف بھی اس پر موجود تھے۔ میں نے اس چوزے سے دوستی کرنے کی کبھی خواہش نہیں کی اور نہ کبھی اسے اپنے پیچھے آنے دیااور سچائی یہی ہے کہ اس نے بھی کبھی میرے پیچھے چلنے کی کوشش نہیں کی۔خیر میرا دوست تو میرا اپنا پیارا سا کتّا تھا۔
میرا خوبصورت کتّا ہمارے گھر کے اطراف میں موجود چھوٹے سے باغ کے دروازے پر میراانتظار کرتا تھا۔لہٰذا میرے پاس ایک ایسا کتّا تھا جو میرے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کتّا کسی بھی طرح چوزے سے بڑا ہوتا ہے اور میرا کتّا میرا دوست تھا اس لیے وہ میرے برابر چلا کرتا تھا۔رات کی تاریکیوں میں تنگ گلیوں سے گزرتے وقت وہی میرے ڈر اور خوف کو دور کیا کرتا تھا۔ وہ بھونکتے ہوئے دوسرے کتّوں کی جانب دوڑتا تھا۔وہ ان بچوں کے پیچھے بھی دوڑتا تھا جو اسے ستانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کے بعد ہانپتے کانپتے ہوئے میری طرف واپس آجاتا تھا۔
ایک مرتبہ رات کی رنگینیوں میں جب میں ایک موسیقی کی آواز پر رقص کر رہا تھا، میں نے دیکھا کہ وہ بھی خوشی کے ساتھ اپنی دُم کو ہلا رہا تھا اور اس کی کالی آنکھیں مجھ پر مرکوز تھیں۔وہ نہ کبھی مجھے پریشان کرتا تھا اور نہ ہی ناراض کیا کرتا تھا۔لیکن اسے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ میں اپنے کسی اسکولی دوست سے بات رہاہوں، وہ اکثر ہماری گفتگو میں مداخلت کیا کرتا تھا۔اس وقت تک بھونکتا رہتا جب تک میں اسے ڈانٹ کر خاموش نہ کرادوں۔تب وہ اپنی دُم کو اپنے دونوں پیروں میں دبا لیتااور زمین پر اس طرح دیکھنے لگتا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو۔
چوزے نے کبھی ماں کے معاملات یا کسی بھی کام میں مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نہیں جانتا کہ یہ اچھی بات ہے یا نہیں۔لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے کتّے کی طرح ناراض یا خوش نہیں ہوا کرتا تھا۔میں نے بہت کوشش کی کہ میرا کتّا بھی میری گود میں آکر سو سکے لیکن وہ اس بات سے بے چین ہوجاتا تھا۔وہ بیٹھتا بھی نہیں تھا۔میں نے ایک مدّت سے اچھلتے کودتے وقت بھی اس کے ناخن محسوس نہیں کیے۔وہ درخت سے گرتی ہوئی پتیوں کے پیچھے دوڑتا، جب اسے پتہ چل جاتا کہ یہ پتیاں ہی ہیں تب وہ واپس آجاتا اور اپنے پچھلے پیروں پر بیٹھ جاتا۔اکثر وہ میری گود سے فرار ہونے کے لیے اس طرح سے چالیں چلا کرتا تھا۔
باغ کے ایک کنارے پر میں نے لکڑیوں سے اس کے لیے ایک گھر بھی بنایا تھاتاکہ وہ اس میں آرام کر سکے۔میںنے اس طرح کے کئی گھرکہانیوں کی کتابوں میں تصویری شکل میں بنے ہوئے دیکھے تھے۔لیکن اسے اس گھر سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔کبھی کبھی وہ لکڑی کے بنے ہوئے چھوٹے گھر کے بازو میں سو جاتا۔لیکن آرام کرنے کے لیے گھر اور باغ کا دروازہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔ ان جگہوں سے وہ اندر اور باہر کی بہتر طور پر نگرانی کر سکتا تھا۔کبھی کبھی وہ کسی پر حملہ کرنے کے انداز میں بھونکتا تھا۔
میری دانست میں چوزے کی سب سے بڑی چھلانگ وہ تھی جب وہ اچھل کر ماں کے کاندھے پر بیٹھ گیا تھا۔پھر اس کے بعد اس نے اپنے پروں کو موڑ دیا اور فوراً سو گیا۔ ماں نے اسے بیدار کیا، اس کی چونچ پکڑ کر اسے پانی پلایااور چاول کے دانے کھلائے۔میرا وقت گھر اور اسکول میں پڑھائی کرتے ہوئے گزرتارہا۔ اسی دوران یہ چوزا ایک مرغے کے روپ میں بڑا ہوگیا۔
ماں اس مرغے سے بہت خوش تھی۔میرے والد نے کہا کہ وہ اسے بھون کر کھانا چاہتے ہیں۔میرے بھائی چاہتے تھے کہ اسے چاول کے ساتھ پکایا جائے۔ ماں نے کسی اور ہی نیّت سے اسے دوسرے پرندوں کے ساتھ چھت پر رکھ دیا۔اب یہ مرغا بھی ان پرندوں میں سے ایک تھا۔وہ دیوار پر کھڑا ہوتااور جیسے ہی ماں کھانا اوپر کرتی وہ چیختے ہوئے اس پر جھپٹ پڑتا۔
اس مرغے کو ماںکی شفقت اور حسنِ سلوک یاد نہیں رہا۔اکثر جب وہ اس پر چھلانگ لگاتا تب اپنے پروں کو تیزی سے حرکت دیتا اورناخنوں سے ماں کی جلد کھرچنے لگتا۔ درحقیقت اب ماں بھی اس سے خوف زدہ رہنے لگی تھی۔اسی وجہ سے اب وہ اسے زیادہ سے زیادہ خود سے دور رکھنے کی کوشش کرتی۔
میں نے اکثر خرگوشوں اور دیگر پرندوں کو ماں پر اسی طرح جھپٹتے دیکھاتھا، جس طرح وہ کھانے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔اس کے برعکس میرے کتّے میں اب نرم مزاجی آچکی تھی۔جب چھوٹے بچے اس پر چڑھ کر بیٹھ جاتے تب بھی وہ ناراض نہیں ہوتا۔صرف اپنی دُم کو ہلا دیتا۔اس کی عادت تھی کہ وہ اپنے سامنے والے پیروں کو پھیلا دیتا ، اپنی ٹھوڑی ان پیروں پر رکھتااور سوجایا کرتا تھا۔
ایک شام بہت زیادہ گرمی کے سبب میں ایک چٹائی پر لیٹا ہوا تھامیرا سر ماں کی گود میں تھااور اس کی انگلیاں آہستہ آہستہ نرمی کے ساتھ میرے بالوں میں گردش کررہی تھیں۔میں نے اس سے چوزے کے بارے میں پوچھاکہ وہ اتنے خونخوار مرغ میں کیسے بدل گیا۔
ماں مسکرائی’’اسی طرح زندگی چلتی ہے‘‘اس نے کہا۔’’وہ ان لوگوں سے خوفزدہ ہونا جانتا ہے جو اسے کھا جانا چاہتے ہیں۔‘‘
میں اپنے پنجوں پر چلتا ہوا گھر سے باہر آگیا۔ اکیلے ٹہلنے کے لیے باہر جانا چاہتا تھا۔لیکن میرا کتّا آگیا اور میرے پیچھے چلنے لگا۔اس کی د’م لہرارہی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھاجیسے وہ کسی خوش کن گیت پر سیٹیاں بجا رہا ہو۔
——————————————————

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Marked by the Moon by Nasser Yousefi

Articles

نشانِ قمر

ناصر یوسفی

کہانی ’’ نشانِ قمر‘‘ فارسی زبان سے ماخوذ ہے۔ اس کے مصنف ناصر یوسفی تعلق ایران سے ہے ۔ فارسی لوک کہانیوں پر ان کی نظر گہری ہے ۔ کہانی ’نشانِ قمر‘ میں بھی لوک کہانیوں کے اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

——————————————–

ایک مرتبہ کا ذکر ہے۔ بہت پہلے، بہت بہت پہلے۔دنیا کے بالکل کنارے کسی ایسی جگہ پر جو نہ بہت دور اور نہ ہی بہت قریب تھی ایک لڑکی رہا کرتی تھی جس کا نام چاند پری تھا۔چاند پری بہت مددگار اور رحم دل تھی۔لیکن اس پر مایوسیوں اور اداسیوں کا بوجھ بھی تھا۔پوری دنیا میں اس کا اپنا گھر اور اس کے اپنے دوست نہیں تھے۔وہ بالکل اکیلی تھی۔وہ بی بی خانم کے یہاں رہا کرتی تھی۔بی بی خانم کی ایک لڑکی تھی جس کا نام گلاب تن تھا۔وہ بھی خوبصورت تھی لیکن رحمدل نہیں تھی۔وہ ہر ایک کا مذاق اڑایا کرتی تھی۔اگرچہ چاند پری کے پاس نہ خوبصورت لباس تھے، نہ اس کا اپنا گھر یا خاندان تھااور نہ ہی اس کے اپنے دوست تھے، اس کے باوجود بھی گلاب تن اس سے حسد کیا کرتی تھی۔
گھر کا تمام کام چاندپری کو ہی کرنا پڑتا تھا۔وہ صبح صادق سے لے کر آدھی رات تک گھر کا کام کیا کرتی تھی۔مختلف کمروں میں جھاڑو دینا، کپڑے دھونا، کھانا بنانا، کپڑے سینا اور اسی طرح کے تمام چھوٹے بڑے کام چاند پری کے ذمّہ تھے۔چاند پری ان تمام کاموں سے بہت زیادہ تھک جاتی تھی۔اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں اتنے زیادہ برتن اور کپڑے دھونے کی طاقت نہ تھی اور نہ ہی وہ تمام کمروں میں جھاڑو لگا سکتی تھی۔کبھی کبھی تنہائی اور اکیلے پن کے احساس سے اس کا دل بھر آتا تھا۔تب وہ گھر کے پیچھے جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر رویا کرتی تھی۔اسے روتے دیکھ کر تتلیاں اس کے اطراف میں منڈلاتیں اور اس کے سر پر بیٹھ جایا کرتی تھیں۔پھول اپنا سر جھکا کر اپنی خوشبو اس پر چھڑکا کرتے تھے۔اگر رات کا وقت ہوتا تب ستارے رات بھر اس کے لیے جھلملایا کرتے تھے۔
ایک دن، گزرے ہوئے تمام دنوں کی طرح، ماضی کے تمام دنوں کی طرح چاند پری، بی بی خانم اور گلاب تن کے میلے کچیلے کپڑے دھونے کے لیے باہر گئی۔گھر کے پیچھے دو کنویں تھے۔ایک کنواں بہت پہلے ہی سوکھ چکا تھا۔لیکن دوسرا کنواں پانی سے لبالب بھرا ہوا تھا۔چاندپری ایک ایک بالٹی پانی نکال کر کپڑے دھوتی رہی۔ان تمام کپڑوں کو دھونا اس کے لیے بہت مشکل کام تھا۔اس کی انگلیاں زخمی ہو چکی تھیں۔پیٹھ میں درد شروع ہو چکا تھا۔لیکن اس کے باوجود بھی اسے ابھی بہت سارے کپڑے دھونے تھے۔
اس نے تمام کپڑے دھو لیے ، انہیں سکھانے کے لیے ایک رسی پر پھیلادیااور ایک درخت کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لیے بیٹھ گئی۔اس کی آنکھ لگ گئی اور چاندپری کو بالکل احساس نہیں ہوپایا کہ وہ کتنی دیر سے سوتی رہی ہے۔ اچانک تیز آوازسے وہ چونک کر بیدار ہوگئی۔شدید آندھی چل رہی تھی۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی طوفان آنے والا ہو۔درخت جھومنے لگے ،خوفناک آوازیں تیز تر ہوتی چلی گئیں۔ آندھی ان تمام کپڑوں کو اڑالے گئی جسے چاندپری نے ابھی ابھی دھویا تھا۔چاندپری کپڑوں کو پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑتی رہی۔انہیں یکجا کرنے کے لیے وہ ادھر سے اُدھر دوڑتی رہی۔ پھر اس نے اپنے اطراف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ کچھ کپڑے کنویں کے کنارے پر پڑے ہوئے ہیں۔ جب اس نے انہیں جمع کرنا شروع کیا تب ایک کپڑا کنویں میں گر گیا۔ چاندپری بہت گھبرا گئی۔وہ تیز آواز میں روتے ہوئے کہہ رہی تھی،’’اگر بی بی خانم کو اس بات کا پتہ چل گیا تو میں مصیبت میں آجائوں گی۔ یقینا وہ مجھے ڈانٹے گی۔ ہوسکتا ہے وہ مجھے، گھر سے ہی نکال دے۔‘‘
چاندپری آہستہ آہستہ پورے احتیاط سے کنویں میں اترنے لگی۔ اس نے سوچ لیا کہ چاہے جو ہوجائے وہ کپڑا باہر نکال کر ہی رہے گی۔ ابھی وہ زیادہ نیچے نہیں اتری تھی کہ اس کا پیر پھسل گیااور وہ نیچے گر گئی۔جب اسے ہوش آیا،اس نے اپنے اطراف دیکھا، بادل، زمین، آسمان،یہاں تک کہ درختوں اور پھولوں کے رنگ بھی مختلف تھے۔وہ بہت زیادہ خوبصورت اور دیدہ زیب تھے۔اس نے اپنی آنکھوں کو ملنا شروع کیا۔وہ خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔اسے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسے کہاں جانا ہے۔چاندپری نے بی بی خانم کا لباس تلاش کرنا شروع کیا۔ اسے تھوڑے فاصلے پر ایک جھونپڑی نظر آئی۔خاموشی سے وہ جھونپڑی کے قریب پہنچی اور اس نے دروازے پر دستک دی۔ اسے اندر سے آواز آئی کہ تم جو بھی ہو، جہاں سے بھی آئی ہو اندر آجائو۔دروازہ کھلا ہوا ہے۔چاندپری دروازہ کھول کرآہستہ سے اندر داخل ہوگئی۔اسے جھونپڑی مکمل طور پر درھم برہم نظر آرہی تھی۔ ہر چیز ادھر اُدھر بکھری ہوئی تھی۔اس پریشانی میں چاندپری کسی کو دیکھ نہیں سکی۔اسی آواز نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا :’’میں یہاں ہوں، کھڑکی کی طرف دیکھو، میں یہاں بیٹھی ہوں۔‘‘
چاند پری نے اپنا سر گھمایا اور دیکھا، وہ ڈر کر کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ایک چڑیل کھڑکی کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے چاند پری کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا:’’لوگ مجھے آنٹی گھولی کہتے ہیں۔تمہارا نام کیا ہے؟‘‘چاندپری نے اچھی طرح اس کی جانب دیکھا۔آنٹی گھولی کی مسکراہٹ خوبصورت تھی۔ اس کی آنکھوں سے رحمدلی جھانک رہی تھی۔ان چیزوں کو دیکھ کر اس کا ڈر کچھ حد تک کم ہوگیا۔وہ اور قریب ہوگئی اور اپنا نام بتایا۔اسی لمحے اسے بی بی خانم کا لباس آنٹی گھولی کے ہاتھ میں نظر آیا۔چاندپری نے مسکراتے ہوئے کہا:’’یہ بی بی خانم کا ڈریس ہے اور میں اسے ہی تلاش کرتے ہوئے یہاں تک آئی ہوں۔‘‘
آنٹی گھولی نے لباس کو مضبوطی سے اپنے ہاتھوں میں پکڑلیا اور کہا،’’اگر تم میرے تین سوالوں کے جواب دوگی تب میں یہ لباس تمہیں لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر جانے کا راستہ بھی بتا دوں گی۔‘‘چاندپری ہنسنے لگی، وہ آنٹی گھولی کی بغل میں بیٹھ گئی،اس کے پیروں پر ہاتھ رکھا اور کہا،’’اپنے سوال پوچھو لیکن یہ بھی خیال رکھو کہ سوال زیادہ مشکل نہیں ہونے چاہیے۔‘‘
آنٹی گھولی نے اپنے خیالات یکجا کرتے ہوئے پوچھا،’’کیا میرا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے؟‘‘چاندپری نے اپنے اطراف دیکھا،ہرچیز بکھری پڑی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے آنٹی گھولی نے کئی سالوں سے اپنے کمرے کی صاف صفائی نہ کی ہو۔چاندپری نے اپنا سر ہلایا اور کہا،’’یہ گھر خوبصورت ہے لیکن بی بی خانم کا گھر اس سے زیادہ صاف ستھرا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چین محسوس ہونے لگی۔ممکن تھا کہ وہ رودیتی لیکن چاندپری نے اس سے کہا، ’’آئو ہم دونوں ایک ساتھ کمرے کی صفائی کرتے ہیں۔‘‘فوراً اس نے خود سے کام کرنا شروع کردیا،سب سے پہلے اس نے کھڑکیاں کھولیں،اس کے بعد کمرے میں جھاڑو لگایا،ہر چیز کو اپنی صحیح جگہ پر رکھا،جتنی چیزوں کو دھونا ضروری تھا اسے دھویا،آنٹی گھولی بھی کام میں اس کی مدد کرتی رہی۔کچھ ہی وقت میں کمرہ صاف و شفاف نظر آنے لگا۔کام ختم کرنے کے بعد چاند پری نے کہا،’’اب تمہارا گھر بی بی خانم کے گھر سے زیادہ صاف اور خوبصورت ہو گیا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کمرے کی طرف دیکھا،وہ خود بھی یقین نہیں کرسکی کہ کمرہ اتنا زیادہ صاف ہوگیا۔ وہ اتنی زیادہ خوش ہوئی کہ اسے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ اب کیا کرنا ہے۔چاندپری بھی مسکرانے لگی۔ اسے یاد تھا کہ اسے یہاں سے جانا ہے اس لیے اس نے آنٹی گھولی سے کہا کہ وہ اب اپنا دوسرا سوال کرے۔آنٹی گھولی نے اپنا اسکارف درست کیا،اپنے ڈریس پر ایک نظر ڈالی اور پوچھا،’’کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
چاندپری نے آنٹی گھولی کو بغور دیکھا،اس کا چہرہ انتہائی گندہ اور گرد آلود تھا،اس نے اچھی طرح سے اپنے ہاتھ اور منہ بھی نہیں دھویا تھا۔کافی عرصے سے بالوں میں کنگھی بھی نہیں کی تھی۔چاند پری نے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’مجھے آپ پر ترس آتا ہے، بی بی خانم آپ سے زیادہ خوبصورت اور نفاست پسند ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے دوبارہ بے چینی محسوس کی لیکن چاندپری نے کہا،’’آئو، کھڑے رہو اور پہلے اپنا ہاتھ منہ دھو لو۔‘‘چاندپری نے منہ ہاتھ دھونے میں آنٹی گھولی کی مدد کی۔اس کے بعد وہ نیچے بیٹھ گئی اور آنٹی گھولی کے بالوں میں کنگھی کرنے لگی۔اس نے اس کے سر پر صاف اسکارف بھی رکھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،’’اب آپ زیادہ نفاست پسند اور پرکشش نظر آرہی ہیں۔‘‘آنٹی گھولی نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا،وہ اپنا سر ادھر اُدھراور اوپر نیچے کرنے لگی۔پھر وہ چاندپری کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگی جبکہ چاندپری کا چہرہ آنٹی گھولی کے شانوں پر تھا، آنٹی گھولی چاند پری کا سر سہلانے لگی۔چاند پری کو اپنی ماں یاد آگئی۔اس نے آنٹی گھولی سے کہا،’’آپ بہت مہربان ہیں، آپ میری ماں کی طرح ہے۔‘‘اتنا سنتے ہی آنٹی گھولی کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔اس نے چاند پری کا چہرہ اوپر اٹھایا اور کہا،’’میری پیاری بیٹی، اب تم چلی جائو، کافی دیر ہو رہی ہے۔‘‘
چاند پری نے کہا، ’’کیا آپ بھول گئیں، آپ نے ابھی تیسرا سوال نہیں پوچھا ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے کہا ،’’تم نے خود ہی اس کا جواب دے دیا ہے۔میں یہی پوچھنا چاہتی تھی کہ ’’کون زیادہ مہربان ہے؟ میں یا بی بی خانم؟اور تم نے کہہ دیا کہ میں تمہاری ماں کی طرح ہوں۔‘‘ آنٹی گھولی نے چاندپری کو لباس لوٹا دیا اور کہا،’’کاش کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہ سکتیں!کاش کہ تم میری دوست اور ساتھی ہوتیں!لیکن تمہاری جگہ یہاں نہیں ہے۔‘‘
آنٹی گھولی نے آہیں بھرتے ہوئے کہا،’’جھونپڑی کے پاس میں ایک ندی ہے، یہ دھنک ندی ہے،جب اس کا پانی نیلا ہوجائے تب تم اپنا چہرہ دھو لینا۔‘‘آنٹی گھولی نے اسے ایک پھول بھی دیااور کہا کہ ’’اسے’ گلِ آرزو ‘کہتے ہیں۔یہ تمہاری ایک خواہش پوری کرسکتاہے۔‘‘چاند پری بہت خوش ہوئی۔اس نے’ گلِ آرزو ‘اپنی جیب میں رکھا،آنٹی گھولی کا بوسہ لیا اور وہاں سے نکل پڑی۔جھونپڑی کے بازومیں اسے دھنک ندی دکھائی دی،اس نے پانی کا رنگ نیلا ہونے تک انتظار کیا،جس لمحے وہ ندی کے پانی میں اپنا چہرہ دھو رہی تھی تب اس پر مدہوشی طاری ہونے لگی،اسے محسوس ہورہا تھا جیسے دنیا اس کے سامنے گردش کر رہی ہے۔اس کے بعد کیا ہوا اسے کچھ بھی نہیں یاد رہا۔
جب چاندپری کی آنکھ کھلی تب اسے محسوس ہوا کہ وہ سوکھے ہوئے کنویں کے پاس پڑی ہے۔چاند پری نے اطراف میں دیکھا اور اپنے تمام کپڑے بالٹی میں یکجا کیے۔گھر جانے سے پہلے وہ اپنے ہاتھ دھونا چاہتی تھی۔اس نے کنویں میں بالٹی ڈالی،تب اچانک اسے محسوس ہوا کہ کنویں میں کوئی چیز چمک رہی ہے۔چاندپری اسے بغور دیکھنے لگی۔ایسا لگتا تھا جیسے کنویں میں کوئی ستارہ اتر آیا ہو۔اسے بہت تعجب ہوا۔اس نے عجلت میں پانی کی بالٹی اوپر کھینچی۔چاند پری بہت گھبرا گئی تھی۔وہ فوراً اپنے ہاتھ دھو لینا چاہتی تھی۔لیکن اب اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ستارہ اس کی بالٹی میں چمک رہا ہو۔چاندپری نے اسے اور قریب سے دیکھا۔وہ چمک اس کے چہرے پر تھی۔وہ ہلالِ عید کی طرح اک چھوٹا اور خوبصورت چاند تھا جو چاندپری کی پیشانی پر جگمگارہا تھا۔
چاندپری نے اپنی پیشانی کو چھو کردیکھا،اس نے چاند نکالنے کی کوشش کی،لیکن کسی بھی طرح سے چاند اس کی پیشانی سے الگ نہیں ہوسکا۔اچانک نرم نازک ہو ا ا س کے چہرے کو چھو تے ہوئے گزرنے لگی۔پھول اسے دیکھ کر سر جھکانے لگے۔ پنکھڑیاں ٹوٹ کر اس کے پیروں پر گرنے لگی اور اسے چندا، چندا کہہ کر مخاطب کرنے لگیں۔تتلیاں اس کے اطراف منڈلاتے ہوئے اس کے کانوں کے قریب جاکر اسے چندا، چندا پکارتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ تم کتنی خوبصورت ہوگئی ہو!تتلیاں درخت اور ہوائیں اسے چاند پری کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔دھیرے دھیرے اس نے گھر کا رخ کیا۔ اس نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھ لیا تاکہ بی بی خانم اس کی پیشانی پر وہ چاند نہ دیکھ سکے۔ لیکن بی بی خانم نے اسے دیکھ ہی لیا۔ حیرت کی وجہ سے وہ کچھ بھی بولنے سے قاصر رہی۔ چاند پری کا چہرہ کسی چاند کی طرح روشن تھا۔ بی بی خانم نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اندر لے گئی۔ اسے اوپر سے نیچے تک دیکھنے کے بعد سوال کیاکہ کیا ہوا؟ یہ چاند کہاں سے آیا؟اورتم نے کیا کیا؟
چاند پری بہت ڈر گئی اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔اس نے کہا ’’میں نہیں جانتی ، شاید آنٹی گھولی نے ایسا کیا ہو۔‘‘
بی بی خانم نے حیرت سے دریافت کیا،’’آنٹی گھولی ! یہ آنٹی گھولی کون ہے؟‘‘پھر اس نے چاند پری کے بال کھینچتے ہوئے کہا،’’تم مجھے ضرور بتائو گی کہ تم نے کیا کیا،تم کہاں گئی تھیں؟ اور تم گلاب تن کو بھی سکھائو گی کہ تم نے ایسا کس طرح کیا۔‘‘
چاند پری خوفزدہ ہوگئی اس نے اپنا سر اثبات میں ہلاتے ہوئے کہا،’’ٹھیک ہے میں گلاب تن سے کہہ دوں گی کہ میں نے کیا کیا اور میں کہاں گئی تھی۔‘‘
اگلی صبح گلاب تن بھی بالٹی میں کپڑے بھر کر سوکھے کنویں کے قریب پہنچی،اس نے ایک لباس کنویں میں پھینک دیااور خود سے کنویں میں اترنے لگی،ابھی وہ تہہ تک بھی نہیں پہنچی تھی کہ اس کا پیر پھسل گیا۔
جب گلاب تن کو ہوش آیا تووہ جلدی جلدی اس سمت دوڑنے لگی جس کا ذکرچاند پری نے کیا تھا۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے آنٹی گھولی کی جھونپڑی نظر آگئی۔دروازے پر دستک دیے بغیر وہ اندر داخل ہوگئی۔ اس نے سلام تک نہیں کیا۔وہ سیدھے اندر داخل ہوئی اور ایک کنارے پر جا کر بیٹھ گئی۔ آنٹی گھولی نے اسے دیکھا اور دریافت کیا،’’تم کون ہو؟ تم کہاں سے آئی ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
گلاب تن نے نہ ہی اپنا نام بتایا اور نہ ہی یہ کہا کہ وہ کہاں سے آئی ہے۔اس نے صرف اتنا کہا کہ میں نے اپنا لباس گم کردیا ہے، مجھے میرا لباس دے دو اور میری پیشانی پر نشانِ قمر بنا دو۔
آنٹی گھولی نے اس سے کہا میں تم سے تین سوالات پوچھوں گی، اگر تم نے ان کے جوابات دے دیئے تو میں تمہیں تمہارا ڈریس لوٹا دوں گی اور تمہیں گھر کا راستہ بھی بتا دوں گی۔ اس نے اس کمرے کی طرف اشارہ کیا جسے چاند پری کی مدد سے اس نے صاف کیا تھا اور دریافت کیا کہ’’مجھے بتائو کیا میرا گھر بی۔بی خانم کے گھر سے زیادہ خوبصورت ہے۔‘‘
اطراف میں دیکھے بغیر گلاب تن نے جواب دیا۔’’ تمہارا یہ گھر کسی اصطبل کی طرح بدنما ہے۔ ہمارا گھر اس سے زیادہ صاف و شفاف اور خوبصورت ہے۔‘‘
آنٹی گھولی بے چینی محسوس کرنے لگی، اس نے سوچا شاید گلاب تن گھر کی صاف صفائی میں اس کی مدد کرے گی۔لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔
آنٹی گھولی نے دوسرا سوال کیا،’’مجھے بتائو کون زیادہ خوبصورت ہے؟ میں یا بی بی خانم؟‘‘
اس کے الفاظ سنتے ہی گلاب تن کھڑی ہو گئی اور کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ میری ماں زیادہ خوبصورت ہے۔میری یاداشت کے مطابق تم بد صورت ترین عورت ہو۔‘‘
آنٹی گھولی دوبارہ بے چینی محسوس کرنے لگی اور بہت اداس ہوگئی، اس نے سوچا شاید گلاب تن اسے خوبصورت بنانے میں مدد کرے گی۔ لیکن گلاب تن نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔لہٰذا آنٹی گھولی نے اس سے تیسرا سوال نہیں کیا۔ اس نے سمجھ لیاکہ گلاب تن کا دل تاریکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ آنٹی گھولی نے اسے گھر کا راستہ بتاتے ہوئے کہا،’’ندی کے کنارے سے جائو اور جب ندی کا پانی سفید ہوجائے تو اپنا چہرہ دھو لینا۔ ‘‘
آنٹی گھولی ندی کے سفید پانی سے گلاب تن کی تمام برائیاں دھونا چاہتی تھیں۔گلاب تن تیزی سے باہر نکلی اور ندی کے کنارے انتظار کرنے لگی۔ ندی مختلف رنگوں میں تبدیل ہوتی رہی، اس کے بعد ندی سفید ہوگئی لیکن گلاب تن نے اپنا چہرہ نہیں دھویا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا ’’سفید پانی اتنا خوبصورت نہیں ہے،مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ندی کو اور رنگوں میں تبدیل ہونے کا انتظار کیا،جب پانی سرخ ہوگیا تب گلاب تن بہت خوش ہوئی اور اس نے اپنا چہرہ دھولیا۔
جب گلاب تن نے اپنی آنکھیں کھولی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے بستر پر پڑی ہوئی ہے اور بی بی خانم اس کے بازو میں بیٹھی ہوئی ہے۔ گلاب تن اٹھ بیٹھی اور دریافت کیا’’کیا میری پیشانی پر بھی نشانِ قمر موجود ہے؟‘‘
بی بی خانم رونے لگی، گلاب تن نے قریب ہی موجود پانی سے بھرے ہوئے پیالے میں اپنا عکس دیکھا، چیختے ہوئے اس نے وہ پیالہ دور پھینک دیا۔ اس کی پیشانی پر ایک لال رنگ کا بڑا سا بدنماداغ ابھر آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے خون سے بھرا ہوا پھوڑا ابھر آیا ہو۔
گلاب تن خوفزدہ ہو کر چیخنے لگی، چاند پری دوڑتے ہوئے اس کے کمرے میں پہنچی، اس کے چہرے پر موجود چاند کی وجہ سے پورا کمرہ روشن ہوگیا۔وہ خاموشی سے گلاب تن کے قریب گئی اور اس بدنما داغ کو دیکھا۔
گلاب تن نے چاند پری کو تمام واقعات کی تفصیل بتائی، اور اس کی گود میں سر رکھ کر رونے لگی۔ چونکہ گلاب پری خود بھی اپنی زندگی میں بہت رو چکی تھی لہٰذا کسی کو روتے دیکھنا چاند پری کو بالکل پسند نہیں تھا۔وہ گلاب تن کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
اچانک اسے ’گلِ آرزو‘یاد آگیا۔ اس نے اپنا ہاتھ اپنے اسکرٹ کی جیب میں ڈالا۔ ’گلِ آرزو‘ اب بھی وہاں موجود تھا۔ اگرچہ کہ اس کی اپنی بہت ساری آرزوئیں اور خواہشات تھیں لیکن اس نے انہیں پرے رکھتے ہوئے ’گلِ آرزو‘کو باہر نکالا۔ چاند پری نے اس کی پنکھڑیوں کو رگڑتے ہوئے کہا، ’’اے ’گلِ آرزو‘ اس دنیا میں میری بھی بہت ساری آرزوئیں اور تمنائیں ہیں لیکن میں کسی کو اداس اور غمگین نہیں دیکھ سکتی۔ اگر تم واقعی ’گلِ آرزو‘ہو تو ایسا کچھ کرو کہ گلاب تن پھر کبھی رو نہ سکے۔‘‘
ابھی چاند پری کے الفاظ ختم بھی نہیں ہو پائے تھے کہ گلاب تن کی پیشانی پر موجود لال بدنما داغ زائل ہونا شروع ہوااور پھر دھیرے دھیرے اس طرح سے غائب ہوگیا جیسے پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔ بی بی خانم اتنا خوش ہوئی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب وہ کیا کرے۔ گلاب تن بھی بہت خوش تھی۔ چاند پری ’گلِ آرزو‘ لے کر کمرے سے نکل گئی۔ وہ صحن میں بیٹھ کر سوچنے لگی، اس نے سوچا کہ اگلے دن اسے بی بی خانم اور گلاب تن کے لیے بہت سارا کام کرنا پڑے گا۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ بی بی خانم اور گلاب تن اب بھی اس کے ساتھ بُرا سلوک کریں گے۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایسا لگتا تھا جیسے دھنک ندی کے سفید پانی نے ان لوگوں کے کالے دلوں کو دھو دیا ہو۔ ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ’گلِ آرزو‘ نے بی بی خانم اور گلاب تن کی ساری برائیوں کو زائل کردیا ہو۔
——————————————-

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997

Granny Long Tongue by Chiba Mikio

Articles

لمبی زبان والی بُڑھیا

شیبا میکیو

کہانی ’لمبی زبان والی بڑھیا کی مصنفہ ‘شیبا میکیو1944میں جاپان کے می یاگی پری فیکچر نامی شہر میں پیدا ہوئیں۔ادبِ اطفال کے لیے سرگرم رہنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی آف آرٹ میں انہوں نے تقریباً نو سالوں تک تصویری کتابوں کانظریہ اور ادبِ اطفال کی تدریس کی۔انھوں نے جاپانی کہانیوں میں پائے جانے والے بھوت پریت اور عجیب الخلقت مخلوقات پر کافی کام کیا ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں عجیب الخلقت مخلوق کا اسکالر بھی کہا جاتا ہے۔

———————————————–

اس کہانی کے تانے بانے اس وقت بُنے گئے جب بھوت پریت نہ صرف پہاڑوں پر بلکہ جنگلوں میں بھی رہا کرتے تھے۔اس وقت’ اُکوماٹا پاس‘ نامی جگہ پر واقع’ اُکویاما پہاڑ‘ پر لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین نامی دیو رہاکرتے تھے۔بڑھیا کی زبان سانپ کے پھن سے زیادہ لمبی اور چابک سے زیادہ مضبوط تھی۔ریڈ بین کا چہرہ جھونپڑی کی کھڑکی سے زیادہ بڑا تھا۔ جب وہ اپنے دانت باہر نکال کر اپنا چہرہ اوپر کرتا تب اتنا بھیانک نظر آتا کہ خوف سے پہاڑی ریچھ بھی اپنی آنکھیں بند کرلیتے۔
لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین اُکوماٹا پاس نامی علاقے کے گمشدہ لوگوں کو خوف زدہ کیا کرتے تھے اورانہیں اپنا یہ کام بہت پسند تھا۔بعد میں دھیرے دھیرے لوگوں نے پہاڑ کی جانب جانا بند کردیا۔
’’اے بڑھیا ! کیا تمھیں لگتا ہے کہ ہم نے تمام انسانوں کو خوف زدہ کردیا؟‘‘
’’ریڈ بین ! بے وقوف مت بنو۔یہاں اتنے انسان ہیں جتنا درختوں پر پتیاں ۔میرے دماغ میں ایک خیال آیا ہے ،کیوں نہ ہم یہاں سے باہر جائیں اور لوگوں کو ڈرائیں، خوف زدہ کریں؟‘‘
لمبی زبان والی بڑھیا ایک جست میں ریڈبین کے شانوں پر پہنچ گئی۔ بے ہنگم چال چلتے ہوئے وہ جنگلوں سے گزرے۔ انھوں نے دیکھا جنگل اب جنگل نہیں سپاٹ میدان میں تبدیل ہوچاک تھا۔ جنگل سے پہاڑ کے دامن تک موجود تمام درخت کاٹ دیے گئے تھے۔
’’اوہ! یہاں کی ہوا تازہ اور منظر بھی پر کشش ہے ۔‘‘ریڈ بین نے کہا۔
اس بات نے لمبی زبان والی بڑھیا سخت ناراض ہوئی اور پاگلوں کے انداز میں کہا۔
’’بے وقوف مت بنو!یہاں ایک بھی درخت موجود نہیں ہے۔انسانوں نے تمام درخت کاٹ دیے ہیں۔یقینا بارش کے موسم میں یہاں سیلاب آجائے گا۔ ریڈ بین جلدی گائوں میں چلو۔مجھے اس تعلق سے برے خیالات آرہے ہیں۔‘‘
دھمک ۔۔۔۔۔۔۔دھمک ۔۔۔۔۔۔د ھمک ۔۔۔۔۔۔۔۔دھمک ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک بڑی جھیل کے قریب پہنچے۔
’’دیکھو یہ راستہ سیدھے جھیل میں جاتا ہے۔اے بڑھیا !کیا تم سمجھتی ہوکے گائوں یہیں کہیں پانی کے نیچے ہے۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو!انسانوں نے تمام درخت کاٹ دیے اور جنگلات کو برباد کردیا۔مٹی کے تودے اور لکڑیوں نے ندی کا راستہ بند کردیا ہے۔جلدی آگے بڑھو اور گائوں کی طرف چلو! سورج نیچے آتا جا رہا ہے۔‘‘
دھمک۔۔۔۔۔۔۔۔دھمک۔۔۔۔۔۔۔دھمک  جب وہ گائوں کے کنارے پہنچ گئے، انہوں نے بغیر پانی کا ایک تالاب دیکھا۔
’’بڑھیا ! دیکھو زمین پر کتنا بڑا انڈا پڑا ہوا ہے۔‘‘
’’بے وقوف مت بنو!یہ اژدھے کا موتی ہے!یہ تالاب یقینا اژدھا دیوتا کا ہے جو گائوں کے اوپر سے سب دیکھ رہا ہے۔مجھے لگتا ہے اژدھا پانی سوکھنے کے بعد کہیں اور چلا گیا ہے۔مجھے امید ہے ہر چیز ٹھیک ہی ہوگی۔ـ‘‘
گائوں میں بالکل سنّاٹا تھا۔معمولی سی آواز بھی سنائی نہیں دے رہی تھی۔حتیٰ کہ باورچی خانوں کی کھڑکھڑاہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازبھی نہیں آرہی تھیں۔
’’مجھے انسانوں کی بو آرہی ہے۔‘‘ریڈ بین نے ایک کھڑکی میں جھانکتے ہوئے چیخ کر کہا۔
کمرے کے اندر فرش پر اپنے والدین کے ساتھ دوبچے سکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔وہ سب بہت تھکے ہوئے نظرآرہے تھے۔ان کے گھٹنے سینوں سے چمٹے ہوئے تھے۔
’’میری طرف دیکھو! میں لمبی زبان والی بڑھیا ہوں۔‘‘
اس نے اپنی لمبی زبان کسی چابک کی طرح باہر نکالی اور وہاں موجود ہر ایک شخص کے سر کے اطراف میں چاٹنا شروع کیا۔ لیکن ان لوگوں نے بس معمولی سی حرکت کی، صرف اپنے سر کو یہ دیکھنے کے لیے اوپر اٹھایا کہ کیا ہو رہا ہے۔(اور پھر پہلی حالت میںواپس ہوگئے)
’’لوگو! تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیا تم بھوت پریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے؟ ‘‘لمبی زبان والی بڑھیا نے حیرت سے پوچھا۔والد نے بالکل باریک اور دھیمی آواز میں جواب دیا۔’’ہمارے پاس ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی بھی طاقت نہیں ہے۔ ہمارے پاس کل سے کھانے کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا بھی نہیں ہے۔جب سے ندی خشک ہوئی ہے ہم چاول اور آلو بھی اگا نہیں سکے۔‘‘
’’تب تو ٹھیک ہے! لیکن تم جھیل سے پانی کیوں نہیں لے آتے؟‘‘
’’ہم اس کے قریب جانے سے بہت ڈرتے ہیں۔جب کبھی ہم اس کے قریب جاتے ہیں تب زمین حرکت کرنے اور لرزنے لگتی ہے۔اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم تمہارے جیسی خوفناک اور ڈراونی مخلوق سے مدد مانگیں۔کیا تم کنارے پر راستہ بنانے میں ہماری مدد نہیں کروگے تاکہ پانی بہتا ہوا دوبارہ ندی میں آجائے؟‘‘
جب کوئی مصیبت میں ہوتا ہے تب عفریت بھی اس کی مدد کردیتے ہیں۔لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین عجلت میں جھیل کی طرف جانے لگے۔
’’ریڈ بین! ٹھیک ہے، ہم یہاں زمین میں ایک راستہ بنانے جارہے ہیںتاکہ پانی بہہ سکے۔‘‘
’’لیکن بڑھیا! ہمارا کام تو لوگوں کو ڈرانا اور خوف زدہ کرنا ہے۔ہم کیوں ان کی مدد کریں؟‘‘
’’جب انسان آسودہ حال ہوجائے گا ،تب وہ دوبارہ ہم سے ڈرنے لگے گا۔‘‘
اس طرح سے لمبی زبان والی بڑھیا اور ریڈ بین جھیل کے راستے میں پھنسے ہوئے لکڑی کے بڑے بڑے ٹکڑوں اور مٹی کے تودوں کو ہٹانے لگے۔
جیسے ہی پانی نے دوبارہ بہنا شروع کیا ، ان لوگوں نے اتنی تیز آواز سنی کہ پانی بھی دہل گیا۔
ـ’’اے! تم کیا سوچ رہے ہو :یہ تم نے کیا کیا؟‘‘
انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک دیو قامت اژدھا ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کا جسم اتنابڑا تھا کہ اس سے پوری جھیل بھری جا سکتی تھی۔
’’خدا رحم کرے! دیکھو تم کتنے بڑے ہو۔یقینا تم وہ اژدھے ہو جو اژدھا دیوتا کے اس تالاب میں رہتے تھے۔تم اتنے بڑے کیسے ہوگئے؟‘‘
’’ہم اژدھے اسی طرح کے ہوتے ہیں۔اگر ہم تالاب میں رہیں تو ہم تالاب جتنے ہی بڑے ہو جاتے ہیں۔اگر ہم جھیل میں رہیں تب جھیل اتنے بڑے ہوجاتے ہیں۔اگر ہم آسمان میں اڑنا شروع کردیں تب ہم بادلوں کے برابر جسامت اختیار کرجائیں گے۔‘‘
اژدھا اپنے جسم کو لپیٹتا ہوا قریب سے قریب تک آتا گیا۔
“میں ان لوگوں کو سبق سکھانے جا رہا ہوں جنھوں نے اس تالاب کو خالی کردیا جہاں میں رہا کرتا تھا۔لیکن اس سے پہلے میںتم دونوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔”
“او! ریڈ بین ! بھاگو یہاں سے، جلدی بھاگو”
بڑھیا نے جنگل کی طرف بھاگتے ہوئے اپنی لمبی زبان ایک درخت کے اطراف میں لپیٹ دی۔لیکن ریڈ بین کی رفتار بہت سست تھی، اژدھے نے اسے اپنی گرفت میں لے کر ہوا میں اڑا دیا۔
’’ریڈ بین ! ہوا میں لٹکے رہو میں تمھیں بچا لوں گی۔‘‘
’’اوہ! تم اپنی زبان مجھ سے دور رکھو۔‘‘اژدھا اپنے جسم کو ادھر ادھر کرتے ہوئے چیخنے لگا۔
ریڈ بین اژدھے کے پھن سے آزاد ہو کر جھیل میں گر چکا تھا۔اس کے بعد بڑھیا نے حیرت انگیز طور پر اژدھے کی ناک باندھ دی۔
اوہ! اوہ! اوہ! اژدھا پھڑپھڑانے لگااور ایک زوردار چھینک ماری۔اتنی زوردار چھینک کہ پانی جھیل سے تیزی کے ساتھ کناروں کی طرف بہنے لگا۔اچانک کنارے پر ایک راستہ بن گیا۔پانی سیلاب کی طرح تیزی سے ندی میں بہنے لگا۔بڑھیا اور ریڈبین دونوں بھی گائوں کی جانب بہنے لگے۔
پانی نے انہیں اژدھا دیوتا کے تالاب تک پہنچا دیا۔
’’بڑھیا ! دیکھو اژدھا دیوتا کا تالاب اپنی پہلی حالت میں واپس آگیا۔‘‘
’’ریڈبین ! اس جانب دیکھو، تالاب میں اژدھا دیوتا کا موتی بھی نظر آ رہا ہے۔ دیکھو یہ کتنا چمک رہا ہے۔اژدھے کا موتی سات الگ الگ رنگوں میں چمک رہا تھا۔بڑھیا نے اسے آسمان کی طرف اٹھایا اور ناگ کو آواز دی۔
’’اے ناگ! تمہارا موتی دوبارہ پہلے کی طرح چمکنے لگا ہے۔ایک اچھا اژدھا بن جائو اور ہمیشہ کے لیے اندر چلے جائو۔یہی تمہارا گھر ہے۔‘‘
اتنا سنتے ہی اژدھا کہرے سے باہر نکلا اور اپنے موتی میں چلا گیا۔بڑھیا نے اس موتی کو آہستہ سے تالاب کے گہرے حصے میں رکھ دیا۔اب گائوں کی ہر چیز اپنی پرانی حالت پر لوٹ چکی تھی۔لیکن بڑھیا کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمودارتھے۔
اس نے گائوں والوں سے کہا،’’یہ سب بھیانک واقعات صرف اس لیے ہوئے کہ آپ لوگوں نے تمام درخت کاٹ دیے۔جائو اورابھی دوبارہ پہاڑوں کے دامنوں اور جنگلوں میں درخت لگائو،بالکل اسی طرح جس طرح پہلے تھے۔‘‘
لوگوں نے پہاڑوں کے دامن اور جنگلوں میں بالکل اسی طرح درخت لگا دیے جس طرح کا مشورہ بڑھیا نے دیا تھا۔ہر سال درخت بڑھتے ہی گئے۔جنگل بھی پہلے کی طرح ہوگیا۔ہر چیز اچھی ہوگئی۔ بارش بھی بھرپور ہونے لگی۔اب جب کبھی گائوں کے لوگ جنگلات کی طرف آتے تب وہ گمشدہ ہونے کا بہانہ کرتے اور لمبی زبان والی بڑھیا کی جھونپڑی کی طرف چلے جاتے۔وہ سورج ڈوبنے تک وہیں رہتے اور انتظار کرتے کہ بڑھیا اپنی زبان سے ان کے سروں کو چاٹے گی۔جبکہ ریڈ بین انہیں اب بھی ڈراتا تھا۔ لیکن اب وہ اچھے دوست بن چکے تھے اور خوشی خوشی رہنے لگے تھے۔
——————————————————

انگریزی سے ترجمہ : ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

مترجم نور الاسلام جونیئر کالج ، گوونڈی ممبئی میں انگریزی کے استاد ہیں

مضمون نگار سے رابطہ:

khanzkr@gmail.com

09987173997