“Death of A Dream” Short Story by Sigrid Undset

Articles

ایک خواب کی موت

سیگرواُنڈسیت


گرجا گھر کے دروازے پر ہاتھوں میں جلتی ہوئی موم بتیاں لے کر راہبائیں آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے پہنچ گئی تھیں۔خوف نے کرستین کے پورے ہوش و حواس کو اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔اسے لگا جیسے چلتے ہوئے وہ کچھ تو اپنے آپ کو ڈھورہی ہے اور کچھ دوسروں کے سہارے بڑھ رہی ہے۔دروازے سے گزر کر وہ سفید دیواروں والے کمرے میں داخل ہوگئے،جہاں موم بتیاں اور سرخ دیودار کی مشعل کی ملی جلی پیلی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور قدموں کی آہٹ سمند رکی لہر وں جیسی آوازیں پیداکررہی تھیں۔اس قریب المرگ عورت کو محسوس ہورہا تھا جیسے اس روشنی کی ہی طرح اس کی زندگی کی لو بھی بس اب بجھنے والی ہے اور ان قدموں کی آواز کے ساتھ ہی جیسے موت اس کے قریب آتی جارہی ہے۔
موم بتی کی روشنی پھر کھلے میں پھیل گئی تھی۔اب وہ برآمدے میں آگئے تھے۔چرچ کی بھورے پتھروں کی دیواروں اور اونچی اونچی کھڑکیوں سے اب موم بتی کی روشنی کھیلنے لگی تھی۔ اس وقت وہ کسی کی بانہوں کے سہارے تھی۔یہ سہارا ولفؔ ہی کا تھا۔مگر اس وقت تو وہ ان سبھی لوگوں جیسا دکھائی دے رہا تھا،جو اسے سہارا دیتے آئے ہیں۔ جب کرستین نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں حائل کردیں اور اپنا گال اس کی گردن سے لگالیا تو لگا جسیے وہ پھر سے بچی بن گئی ہے اور اپنے والد کے ساتھ ہے۔ساتھ ہی اسے ایسا بھی لگا،جیسے وہ کسی بچے کو اپنے سینے سے لگارہی ہے۔ اس کے کالے سر کے پیچھے سے لال روشنی دکھائی دے رہی تھی،ایسے لگ رہا تھا جیسے اک آگ کی لپٹ ہو جوہر طرح کے پیار کے لیے ضروری ہو۔
تھوڑی دیربعد اس نے آنکھیں کھولیں۔اب اس کے ذہن میں انتشار نہیں تھا۔اب وہ ایک کمرے میں اپنے بستر پر تکیے کے سہارے بیٹھی تھی۔ایک راہبہ کپڑے کی پٹی لیے اس پر جھکی ہوئی تھی۔اس میں سے سِرکے کی بو آرہی تھی۔وہ سِسٹر ایگنیس تھی۔کرستین نے اسے اس کی آنکھیں اور ماتھے کے لال مسّے سے پہچان لیا تھا۔دن اوپر چڑھ آیا تھا اور کھڑکی کے چھوٹے سے کانچ میں سے چھن کر پوری روشنی کمر ے میں آرہی تھی۔
وہ بھیانک درداب نہیں تھا،مگر وہ پسینے سے پوری طرح بھیگی ہوئی تھی۔سانس لیتے ہوئے اس کی چھاتی بہت زور سے آگے پیچھے ہورہی تھی۔جو دواسِسٹرایگنیس نے اس کے منہ ڈالی اس نے چپ چاپ نگل لی۔اس کا بدن بالکل ٹھنڈا تھا۔
کرستین نے اپنی پشت تکیے سے لگالی۔اب اسے یاد آیا کہ پچھلی رات کو کیاکیا وقوع پذیر ہوا تھا۔وہ مایاجال سے بھرا بُرا خواب بیت گیا ہے،لیکن وہ حیران بھی تھی۔پھر بھی یہ ٹھیک ہی ہوا کہ کام ہوگیا کہ اس نے بچے کو بچالیا اور ان بے چارے لوگوں کی روحوں کو اس نفرت انگیز کام سے دور ہی رکھا۔وہ سمجھتی تھی کہ اس کی وجہ سے اسے خوش ہونا چاہیے،کیوں کہ مرنے سے قبل اسے یہ اچھا کام کرنے کا موقع نہیں ملاتھا۔دن بھر کے کام کرنے کے بعد شام کو یورنؔ گارد کے گھر میں،اپنے بستر پر لیٹتے ہوئے اسے جتنی طمانیت کا احساس ہوتاتھا،اس وقت اس سے زیادہ طمانیت کا احساس ہورہا تھا۔ اس کے لیے اسے ولفؔ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔جب وہ ولف کا نام لے رہی تھی تو شاید وہ دروازے کے پاس ہی کہیں بیٹھا تھا،کیوں کہ اسی وقت وہ اندر آیا اور بستر کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔کرستین نے اپنا ہاتھ اس کی جانب بڑھادیا۔اس نے ہاتھ اسی وقت اپنے ہاتھ میں لیااور مضبوطی سے تھام لیا۔
اچانک بستر مرگ پر پڑی کرستین بے چین ہوگئی اور اس کے ہاتھ اپنے گلے پر بندھی پٹی سے الجھ گئے۔
’’کیا ہوا کرستین؟‘‘ولف نے پوچھا۔
’’یہ کراس۔‘‘اس نے سرگوشی میں کہا اور نہایت تکلیف کے ساتھ اپنے والد کا سونے کا پانی چڑھا کراس کھینچ کر باہر نکال دیا۔تبھی اسے یاد آیا کہ اس نے کل بے چاری استینن کی روح کو سکون حاصل ہونے کے لیے کوئی تحفہ دینے کا وعدہ کیا تھا۔تب اسے کہاں پتہ تھا کہ دنیا میں اس کے لیے اب زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا ہے۔اس کے پاس دینے کے لیے اب کچھ نہیں بچا تھا،سوائے اس کراس کے، جو اس کے والد کا تھا اور اس کی شادی کی انگوٹھی کے جواب بھی اس کی انگلی میں پڑی تھی۔ اس نے انگوٹھی کو انگلی سے باہر نکالا اور اسے غور سے دیکھنے لگی۔اس کے کمزور ہاتھوں کو یہ کافی بھاری لگ رہی تھی،کیوں کہ یہ خالص سونے کی تھی اور بڑا سا لال پتھر اس پر جڑا ہواتھا۔ بہتر ہوگا کہ اسے بھی وہ کسی کو دے دے۔دینا تو چاہیے ،مگر کسے؟ اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور انگوٹھی ولف کی جانب بڑھادی۔
’’تم یہ کسے دینا چاہتی ہو؟‘‘اس نے پوچھا اور جب کرستین نے کوئی جواب نہیں دیا تو خود ہی کہنے لگا،’’تمہارا مطلب ہے کہ میں اسے،کُلے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
کرستین نے نفی میں سرہلایا اور پھر آنکھیں مضبوطی سے بند کرلیں۔
’’استینن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے لیے کچھ دوں گی۔‘‘ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اس انگوٹھی کو اپنی نظروں سے تلاش کرنے لگی،جو ولف کی بھاری بھرکم ہتھیلی پر رکھی تھی۔اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی جھڑی لگ گی۔اسے محسوس ہوا،جیسے وہ پہلی بار اس علامت کا مفہوم سمجھی ہو۔جو ازدواجی زندگی اس انگوٹھی نے اسے دی،جس کے خلاف اُسے اتنی شکایتیں رہی ہیں،جس کے خلاف وہ ہر دم سر گوشیاں کرتی رہی،جس پر اسے اتناغصہ رہا ہے اور جس کی وہ مخالفت کرتی رہی ہے۔باوجود ان سب کے جسے اس نے پیارکیا ہے،جس سے اس نے حِظ اٹھایا ہے چاہے وہ سکھ کے دن رہے ہوں یا دکھ کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولف اور راہبہ نے کچھ بات کی،جسے وہ سن نہ سکی اور پھر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔کرستین نے چاہا کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھاکر اپنی آنکھیں پونچھ لے مگر وہ ایسا نہ کرسکی اورہاتھ اس کے سینے پر ہی پڑا رہا۔ اندرونی کرب نے اس کے ہاتھ کو اتنا بھاری بنادیا تھا،جیسے لگتا تھا کہ وہ انگوٹھی ابھی اس کی انگلی میں ہی ہے۔ا س کا دماغ پھر دھندلانے لگا۔اسے یہ جانناہی چاہیے کہ انگوٹھی واقعی چلی گئی ہے اور اس کاجانا اس نے خواب میں دیکھاہے۔اب سب کچھ غیر متوقع سا لگ رہا تھا۔کل رات بھی جو کچھ واقع ہوا،اس کے بارے میں بھی توقع نہیں تھی کہ واقعی کچھ ہوجائے گا۔یا پھر اس نے صرف خواب دیکھا تھا۔اپنی آنکھیں کھولنے کی طاقت بھی اس میں باقی نہیں تھی۔
’’سِسٹر!‘‘راہبہ نے اس سے کہا،’’اب آپ کو سونا نہیں چاہیے۔ولف آپ کے لیے پادری کو بلانے گیا ہے۔‘‘
ایک جھرجھری لے کرکرستین پوری طرح جاگ گئی۔اب وہ مطمئن تھی کہ سونے کی انگوٹھی جاچکی تھی اور اس کے بیچ والی انگلی پرا نگوٹھی پہننے کی جگہ پر سفید نشان بن گیا تھا۔
اس کے دماغ میں ایک اور واضح خیال گردش کررہا تھاکہ اس نشان کے مٹنے سے قبل اسے مرجانا چاہیے۔اس خیال سے وہ خوش تھی۔اسے محسوس ہواکہ یہ اس کے لیے ایک ایسا معمہ ہے جس کی گہرائی وہ جان نہیں پائی ہے،لیکن وہ یقینی طور سے جانتی تھی کہ خدا اس کے اوپر محبتوں کی بارش کرتا ہوا، اس کی جانکاری کے بناہی اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے اس کی آرزوئوں کے خلاف، اسے جلد ہی اپنے پاس بلارہا ہے۔وہ خدا کی بندگی تو کرتی رہی مگر ضدی اور آزاد طبع بھی تھی۔جس کے دل میں کوئی اعتقاد نہیں تھا،کاہل اور بے پرواہ،اپنے کام میں من نہ لگائے رکھنے والی۔پھر بھی خدا نے اسے اپنی بندگی سے الگ نہیں کیااور چمکدار سونے کی انگوٹھی کے نیچے اپنا پاکیزہ نشان بنائے رکھا۔یہی نشان تو ظاہر کرتا ہے کہ خدا کی،ساری دنیا کے پروردگار کی باندی رہی ہے اور وہی خدا اب پادری کے پاکیزہ ہاتھوں کے روپ میں آرہا ہے تاکہ اسے نجات ملے۔
پادری سراایلیوؔ کے ہاتھوں سے تیل کاجلتا ہوا دیالینے کے تھوڑی دیر بعد کرستین پھر بے ہوش ہوگئی۔خون کی الٹیوں کے دوروں اور تیز بخار نے اسے بے ہوش کردیاتھا۔ اس کے پاس کھڑے پادری نے راہبائوں کو بتایا کہ وہ جلد ہی اس جہاں سے کوچ کرنے والی ہے۔
بستر مرگ پر پڑی اس عورت کو ایک دوبار ہلکا ساہوش آیااور اس نے ایک دوچہروں کی اور دیکھا۔اس نے سِرا ایلیو کو پہچاناپھر ولف کو بھی پہچان لیا۔اس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ پہچان رہی ہے۔اور اس کے پاس آنے اور اس کے لیے دعا کرنے کے لیے وہ ان سب کی شکر گزار ہے۔مگر جو لوگ آس پاس کھڑے تھے،انھیں لگ رہا تھا جیسے موت کی سختی سے وہ اپنا ہاتھ چھٹپٹانا چاہتی ہے۔
ایک بار اسے اَدھ کھلے دروازے میں سے جھانکتا اپنے چھوٹے بیٹے موننؔ کا چہرہ دکھائی دیا پھر اس نے اپنا چہرہ پیچھے کرلیا۔اور ماں خالی دروازے کو گھورتی رہ گئی۔اس امید پر کہ لڑکا پھر سے وہاں دکھائی دے گا۔مگر اس کے بدلے ایک راہبہ کمرے میں داخل ہوئی اور ایک گیلے کپڑے سے اس کا چہرہ پونچھنے لگی۔یہ بھی اسے اچھا لگا۔پھر سب چیزیں کالے لال کہرے میں کھوگئیں۔اور ایک غراہٹ پہلے بڑے ڈرائونے ڈھنگ سے شروع ہوئی اور مدھم پڑتی چلی گئی۔ لال کہرا بھی ہلکا ہوتا چلاگیا اور آخر میں وہ طلوع آفتاب سے قبل ہلکے کہرے میں بدل گیا۔ساری آوازیں بند ہوگئیں اور وہ جان گئی کہ وہ مررہی ہے۔
سراابلیو اور ولف اس موت والے کمرے سے ساتھ ساتھ باہر نکل آئے۔تھوڑی دیر کے لیے وہ گرجا گھر کے دروازے پررکے۔برف باری ہوچکی تھی۔جس وقت وہ عورت موت کے ساتھ نبرد آزما تھی،اس کے آس پاس کھڑے ہوئے لوگوں کو پتہ نہیں چلا کہ برف باری ہورہی ہے۔ چرچ کی ڈھلوان چھت سے آنے والی سفید چمک سے چندھیاتے دو لوگ۔ہلکے بھورے رنگ کے آسمان کے بیچ میں چرچ کا بڑا سا برج چمک رہا تھا۔کھڑکیوں کے چھجوں پرسے مہین برف پڑی تھی۔لگتا تھا جیسے وہ دونوں اس لیے رک گئے ہیں کیوں کہ وہ نئی پڑی ہوئی برف کی چادر کو اپنے قدموں کے نشانات سے بگاڑنا نہیں چاہتے ہوں۔
انھوں نے ہوا میں گہری سانس لی۔کسی بھی بیمار کے کمرے میں بھری رہنے والی بدبودار ہوا کی بہ نسبت یہ ہوا ٹھنڈی اور میٹھی تھی۔
برج کا گھنٹہ پھر سے بجنے لگا تھا۔دونوں نے اوپر دیکھا ۔ہلتے ہوئے گھنٹے پر سے برف کے ذرات نیچے گرتے ہوئے ننھے ننھے قطروں میں تبدیل ہورہے تھے اور گول چکر کاٹتے ہوئے نیچے آرہے تھے۔
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

—————————————————-

سیگروانڈسیت ۱۸۸۲ء میں ناروے میں پیدا ہوئیںاور ۱۹۴۰ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’کرسٹن لورانسٹر‘‘کے لیے ۱۹۲۸ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے تقریباً دس برس تک ایک دفتر میں کام کیا تھا۔اس لیے دفتر میں کام کرنے والی خواتین کے موضوع کو انہوں نے اپنی تخلیقات میں بہتر انداز سے پیش کیا۔ان کے دکھ ،سکھ کو فطری انداز میں پیش کرنے کا سہرا سیگروانڈسیت کے سر جاتا ہے۔ان کی تصانیف میں ماسٹر آف ہیٹ ویکین،جینی،گنارس،ڈاٹر،دَبرننگ بُش،امیجینران اے مِرر،دَوائلڈ آرچڈ،اِڈا ایلیزبیتھ وغیرہ شامل ہیں۔

 

Torn Shoes A Short Story by Grazia Deledda

Articles

پھٹے ہوئے جوتے

گریزیا ڈیلیڈا

ایلیا کچہری میں بے کار سا رہتا تھا۔ان دنوں لوگ کچہری سے دور ہی رہنا پسند کرتے تھے۔ بڑے سے بڑے وکیل بھی چھوٹے چھوٹے مقدمے لینے پر مجبور تھے۔ایلیا کے پاس تو کوئی بھی مقدمہ نہ آتا،پھر بھی وہ کچہری میں جاتا اور وہاں تنہائی میں بیٹھ کر اپنی بیوی کے لیے شعر کہتا۔ایک دن راستے میں ایک شناساگاڑی بان نے ایلیا کو روکتے ہوئے کہا،’’میں ابھی ابھی تیرسنوا سے آرہا ہوں،وہاں میں تمہارے چاچا سے ملا تھا۔وہ سخت بیمار ہیں۔‘‘
ایلیا گھر لوٹاتو اس کی بیوی گھر کے سامنے دھوپ میں کھڑی اس کا انتظار کررہی تھی۔ ایلیا نے چاچا کی بیماری کی خبر اسے سنائی تو اس کے فکر مند چہرے پر بے چینی کی بجائے معنی خیزمسکراہٹ ابھر آئی۔اسے دیکھ کر ایلیا بھی مسکرادیا۔
’’تو پھر میں جاتا ہوں۔‘‘ایلیانے کہا۔آگے وہ کچھ نہ بولا۔بیوی اس کے دل کا حال جان گئی تھی۔چاچا انتقال کے بعد ساری دولت اسے ہی دینے والے تھے۔تبھی اس نے اپنے شوہر کے پھٹے ہوئے جوتے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا،’’سفر کے اخراجات کے بارے میں کچھ سوچا ہے؟‘‘
’’اس کی فکر مت کرو۔میرے پاس کچھ پیسے ہیں۔‘‘ایلیا اپنے چاچا سے ملنے کے لیے روانہ ہوگیا۔راستے میں وہ تیزتیز قدم چلتا ہوا،اپنے پھٹے ہوئے جوتے کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ اسے کسی نہ کسی چاچا کے گھر تک پہنچا دے تو بہت اچھاہو۔
رات ہوئی ہوا میں خنکی بڑھنے لگی۔ایلیا کو لگا اس کے پائوں برف پرپڑرہے ہوں۔اس نے اپنے خستہ جوتے کی طرف دیکھا،جواب مرمت کرنے کے قابل بھی نہیں رہ گیا تھا۔اسے پہن کرچلنے میں بڑی تکلیف ہورہی تھی۔پھر یہ خیال بھی تکلیف دے رہا تھا کہ ایسا جوتا پہن کر چاچاکے گھر جانا بے عزتی والی بات ہوگی،لیکن کوئی چارہ نہیں تھا۔تب وہ جوتے کی طرف سے دھیان ہٹاکر چاچا کی دولت حاصل کرنے اور مستقبل میں بہترین زندگی گزارنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ایک گائوں آنے پر وہ را ت بتانے کے لیے ایک مسافر خانہ میں ٹھہرا۔کم کرایے کی وجہ سے اسے ایک گندہ چھوٹا سا کمرہ ملا۔وہاں دو لوگ پہلے سے موجود تھے۔وہ دونوں ہی سوئے ہوئے تھے۔
ایلیااپنے انھیں کپڑوں میں لیٹ گیا،لیکن نیند نہ آئی۔اس نے اپنے خیالوں میں دنیا کی سبھی سڑکوں پر اور سبھی گھروں میں بے شمار جوتے دیکھے،پھرتو جیسے اسے ہر جگہ جوتے ہی جوتے دکھائی دینے لگے۔آخر اسے لگا کہ جیسے اس کمرے میں بھی جوتے بکھرے پڑے ہوں۔ تبھی وہ اچانک اٹھ بیٹھا۔اور سردی سے کانپتا ننگے پائوں چلتا ہوا،آہستگی سے اپنے قریب ہی سوئے ہوئے مسافر کی کھاٹ کے پاس گیا۔اس کا ایک جوتا اس نے پہنا ہی تھا کہ اس کے تپتے ہوئے پائوں میں کوئی چیز چبھی۔اس نے جوتا اتاردیا،تبھی کمرے کے باہر اسے کچھ آہٹ سی سنائی دی تو ڈرکے مارے اس کے پائوں جہاں تھے وہیں جم گئے۔اور اسی وقت اس نے اپنے ضمیر کی پھٹکار سنی کہ وہ گناہ کے راستے پر جارہا ہے۔باہر کی آہٹ جب بند ہوگئی تو وہ کمرے سے نکلا۔وہاں کوئی نہیں تھا۔ایک طرف لٹکی ہوئی لالٹین مدھم سی روشنی بکھیر رہی تھی۔ایلیانے اِدھر اُدھر دیکھاتو پاس ہی ایک جوتے کا جوڑ دکھائی دیا۔ اسی وقت اس نے بنا کچھ سوچے سمجھے جوتوں کو اٹھاکر اپنے کوٹ میں چھپالیا۔پھر ایک نظر وہاں سوئے ہوئے چوکیدار کی طرف دیکھا اور چپکے سے پھاٹک کھول کر وہ باہر نکل گیا۔
تقریباً آدھا گھنٹہ ننگے پائوں چلنے کے بعد اسے جوتے پہننے کا خیال آیا۔ایک پتھر پر بیٹھ کر وہ چند لمحات تک جوتوں دیکھتا رہا۔آخر جب وہ جوتے پہن کر کھڑاہوا تو اس کے اندر سے آواز آئی، ’’گناہ،عظیم گناہ‘‘لیکن آواز کی ذرا بھی پرواہ کیے بنا وہ چل پڑا،اب وہ پہلے کی طرح تیزتیزقدم نہیں اٹھا رہا تھا۔اب اس کے قدم لڑکھڑارہے تھے۔اور وہ باربار پیچھے مڑکر دیکھتا تھا کہ کوئی اس کا پیچھا تو نہیں کررہاہے۔صبح کا اجالا پھیلنے لگاتھا تب ایلیا کاڈر اور بڑھ گیا۔اس کے دماغ میں مختلف خیالات نے ہلچل مچادی تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ راہ چلتے لوگ اس کی چوری کو بھانپ لیں گے اور پھر اس کے چور ہونے کی خبر چاروں جانب پھیل جائے گی۔آخر پکڑے جانے کے ڈر سے اس نے پھر اپنا جوتا پہن لیااورچرایا ہوا جوتا سڑک کی ایک جانب اچھال دیا۔تب بھی اس کا دل مطمئن نہیں ہوا۔رات کا وہ واقعہ رہ رہ کر اس کے سامنے آنے لگا۔اسے باربار محسوس ہورہا تھا کہ اس کمرے کے دونوں مسافر اس کے پیچھے آرہے ہوںگے۔پھر اس خیال سے اس کا دل کانپ اٹھاکہ اس کے چور ہونے کی خبر اس کی بیوی تک پہنچ گئی تو غضب ہوجائے گا۔دولت حاصل کرنے سے قبل ہی وہ کس گناہوں کے دلدل میں دھنس گیا ہے۔
چلتے چلتے وہ رک گیا اور پھر لوٹ پڑا۔اس کا پھینکا ہوا جوتا وہیں پڑاتھا۔اُسے دیکھتے ہوئے اس کے دل میں عجیب سی ہلچل ہونے لگی۔اگر وہ اسے چھپادے یا زمین میں گاڑدے تب بھی وہ چوری اس کے ضمیر پر بوجھ بنی رہے گی ور وہ چوری اس کی پوری زندگی پر کلنک بن کر چھائی رہے گی۔
اچانک اس نے جوتے اٹھائے اور مسافر خانے کی طرف چل پڑا۔وہ دھیرے دھیرے چل رہا تھاتاکہ اندھیرا ہونے پر مسافر خانہ پہنچے۔دن بھر اس نے کچھ نہیں کھایاتھااور بے حد تھکان محسوس کررہا تھا۔اس کے قدم ڈگمگارہے تھے۔
مسافر خانے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اس نے رات گزارنے کے لیے جگہ لی۔ پھر موقع پاکر اس نے وہ جوتے اسی جگہ رکھ دیئے،جہاں سے اٹھائے تھے۔اور اپنی کھاٹ پر جاکر لیٹ گیا۔بستر پر لیٹتے ہی وہ نیند کی آغوش میں سماگیا۔صبح جاگنے کے بعد اس نے بچے کھچے پیسوں سے ایک ڈبل روٹی خریدی اور وہاں سے چل دیا۔
بڑا سہانا موسم تھا۔ایلیا اپنے پھٹے ہوئے جوتے پہن کر بڑے اطمینان سے چلاجارہا تھا۔ آخر جب وہ اپنے چاچا کے گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ کچھ ہی گھنٹے قبل ان کا انتقال ہوگیاہے۔ نوکرانی نے اسے بتایا کہ،’’مالک نے آپ کا راستہ دیکھا۔کافی دیر تک انتظارکیا۔تین دن قبل انھوں نے آپ کو تاربھی بھیجا تھا۔وہ کہا کرتے تھے کہ آپ اکیلے ہی ان کے وارث ہیں،لیکن آپ نے انھیں بھلادیا ہے۔ وہ آپ سے بہت ناراض تھے۔جب آج صبح بھی آپ نہیں آئے تو انھوں نے اپنی ساری دولت مچھیروں کے یتیم بچوں کے نام کردی۔‘‘
ایلیا لوٹ کر اپنے گھر آیا۔اس کی بیوی نے سارا ماجرہ سن کر کہا،’’اچھا ہی ہوا، دولت ہمیں نہیں ملی۔جس دولت کے ملنے سے پہلے ہی آدمی اپنی ایمانداری کھوبیٹھے،اس کا نہ ملنا ہی اچھا ہے۔‘‘
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

————————–

گریز یاڈیلیڈا ۱۸۷۵ء میں اٹلی کے ایک قصبے میں پیدا ہوئیں اور ۱۹۳۶ ء میں انتقال فرمایا۔انہیں’’ایڈز اِن دَ وِنڈ‘‘پر نوبل انعام سے نوازا گیا۔انہوں نے اپنی ابتدائی زندگی میں دکھ اور پریشانیوں کا سامنا کیا تھا اس لیے ان کی تخلیقات میں اس کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔انہوں نے جو کچھ تحریر کیااپنے دل کی طمانیت کے لیے تحریر کیا۔انہیں ۱۹۲۶ء میں نوبل انعام تقویض کیا گیا۔ان کی اہم کتابیں آفر دَ ڈائیورس اور دَ مدرہیں۔

 

Goodby Mom A short Story by Albert Camus

Articles

الوداع ماں

البیئر کامو

ماں کا آج انتقال ہوگیا یا شاید کل ہواہو،کہہ نہیں سکتا۔اولڈایج ہوم سے ٹیلی گرام آیا اس میں لکھا تھا ،”آپ کی والدہ چل بسیں،آخری رسومات کل ادا کی جائیں گی۔اس دکھ کی گھڑی میں آپ سے گہری ہمدردی ہے۔“اس سے کچھ پتہ نہیں چلتا ،ہوسکتا ہے یہ کل ہواہو۔
اولڈ ایج ہوم مورنگو میں ہے۔الجیئرس سے تقریباً پچاس میل دور،دو بجے کی بس سے میں رات سے قبل پہنچ جاﺅں گا،پھر رات وہاں گزارسکتاہوں۔تابوت کے پاس رَت جگے کی رسم کے لیےپھر کل شام تک واپس،میں نے اپنے مالک سے دو دن کی چھٹی کی بات کرلی ہے۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ منع نہیں کرسکتاتھا۔پھر بھی مجھے محسوس ہوا کہ وہ غصے میں ہے۔میں نے بنا سوچے ہی کہہ دےا،”سوری سر،آپ جانتے ہیں،اس میں میرا قصورنہیں ہے۔“
مجھے بعد میں احساس ہوا کہ ایسا کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔معافی مانگنے کی توکوئی وجہ ہی نہ تھی۔دراصل اسے مجھ سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیے تھا،پرسوں جب میں سیاہ لباس میں دفتر جاﺅں گا تو شاید وہ ایسا کرے گا۔ابھی تک تو خود مجھے ہی نہیں لگ رہا ہے کہ ماں واقعی نہیں رہی۔شاید آخری رسومات کے بعد یقین ہوجائے گا۔
میں نے دو بجے کی بس پکڑی ۔چلچلاتی دوپہرتھی۔ہمیشہ کی طرح میں سیلسئے کے ریسٹورنٹ میں کھانے کے لیے اترا۔سبھی محبت سے پیش آئے۔سیلسئے نے مجھ سے کہا،”ماں جیسی کوئی امانت نہیں۔“جب میں وہاں سے چلا تو وہ مجھے دروازے تک چھوڑنے آئے۔میں جلدبازی میں چل پڑاتھا، اس لیے مجھے اپنے دوست ایمبنوئل سے اس کی کالی ٹائی اور ماتم کے وقت باندھی جانے والی کالی پٹی مانگ کر لانی پڑی۔کچھ ماہ پہلے ہی اس کے چاچا چل بسے تھے۔
میں نے قریب قریب دوڑکر بس پکڑی۔اس بھاگ دوڑ ،چلچلاتی دھوپ اور گیسولین کی بدبو نے مجھے بیچین کردیا تھا۔راستہ بھر میں سوتا رہا۔جب اٹھا تو دیکھا میں ایک فوجی پر لڑھکا پڑا تھا۔ اس نے معلوم کرنا چاہا کہ کیا میں کسی لمبے سفر سے آرہا ہوں؟میں نے صرف گردن ہلائی، تاکہ بات چیت آگے نہ بڑھے۔میں باتیں کرنے کے موڈ میں قطعی نہیں تھا۔
گاﺅں سے اولڈ ایج ہوم میل بھر دور ہے،میں پیدل ہی چل پڑا۔وہاں پہنچتے ہی میں نے ماں کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔مگر دربان نے پہلے وارڈن سے ملنے کےلیے کہا۔وہ مصروف تھے۔ مجھے کچھ دیر تک انتظارکرنا پڑا۔
اس دوران دربان میرے ساتھ گپ شپ کرتا رہا،پھر دفتر لے گیا،وارڈن چھوٹے قد ، بھورے بالوں والا آدمی تھا۔اپنی گیلی نیلی آنکھوں سے اس نے مجھے بڑی دیر تک دیکھا۔پھر ہاتھ ملایا اور میرا ہاتھ اتنی دیر تک پکڑے رکھا کہ میں اچھی خاصی الجھن محسوس کرنے لگا۔اس کے بعد ایک رجسٹر میں تحقیقات کی اور بولا،”مادام میئر سالٹ تین برس قبل اس ہوم میں آئی تھیں،ان کی اپنی کوئی آمدنی نہیں تھی اور وہ پوری طرح تم پر منحصر تھیں۔“
مجھے لگا وہ مجھے ملزم ٹھہرا رہا ہے۔اس لیے میں صفائی دینے لگا۔مگر اس نے میری بات کاٹ دی۔
”ارے بیٹے،صفائی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں نے ریکارڈ دیکھا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ تم ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔انہیں پورے وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی اور تمہاری طرح کی نوکری میں نوجوانوں کو بہت زیادہ تنخواہ نہیں ملتی۔ دراصل وہ یہاں کافی خوش تھیں۔“
”ہاں سر، مجھے پورا یقین ہے۔“میں نے کہا۔
وہ پھر بتانے لگا،”جانتے ہو،یہاں ان کے کئی اچھے دوست بن گئے تھے۔ سبھی ان کی عمر کے ہیں۔ویسے بھی ہم عمر لوگوں کے ساتھ زندگی اچھی گزرتی ہے۔تم عمر میں چھوٹے ہو، اس لیے ان کے دوست تو نہیں بن سکتے تھے۔“
یہ حقیقت تھی۔کیونکہ جب ہم ساتھ رہتے تھے تو ماں مجھے دیکھتی رہتی۔ مگر ہم شاید ہی کوئی بات چیت کرتے۔اولڈایج ہوم کے ابتدائی دنوں میں وہ خوب رویا کرتی تھی۔مگر یہ حالت کچھ دنوں تک ہی رہی۔اس کے بعد یہاں اس کا دل لگ گیا۔ایک آدھ مہینے بعد تو اگر اسے اولڈایج ہوم چھوڑنے کے لیے کہا جاتا تو وہ یقینا رونے لگتی،کیونکہ یہاں سے بچھڑنے کاا سے دکھ ہوتا۔ اس لیے پچھلے سال میں شاید ہی اس سے کبھی ملنے آیا۔ملنے آنا یعنی پورا اتوار کھپادینا۔بس سے سفر کرنا،ٹکٹ کٹوانا اور آنے جانے میں دو دو گھنٹے گنوانے کی تکلیف سو الگ۔
وارڈن بولتا ہی چلاگیاپھر اس کے پیچھے چل دیا،جب ہم سیڑھیوں سے اترنے لگے تو اس نے کہا،”میں نے ان کے جسد خاکی کو یہاں کے چھوٹے مردہ خانے میں رکھوادیا ہے۔ تاکہ دوسرے بوڑھے لوگ دُکھی نہ ہوں،تم سمجھ سکتے ہونا؟یہاں جب بھی کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو دو چار دنوں تک یہ سبھی غمزدہ و بے چین رہتے ہیں۔ظاہر ہے اس سے ہمارے اسٹاف کاکام بے حد بڑھ جاتاہے، اور دیگر پریشانیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔“
ہم نے برآمدہ پارکیا،جہاں کئی بوڑھے چھوٹے چھوٹے گروپ میں کھڑے ہوکر باتیں کررہے تھے۔ہم ان کے قریب پہنچے تو وہ خاموش ہوگئے۔جوں ہی ہم آگے بڑھے ان کی باتیں شروع ہوگئیں۔ان کی سرگوشیاں سن کر اچانک مجھے پنجرے میں بند طوطوں کی یاد آگئی۔ ان کی آوازیں ضرور اتنی تیکھی اور اونچی نہیں تھیں۔ایک چھوٹی،کم اونچی عمارت کے داخلی دروازے کے باہر پہنچ کر وارڈن رک گیا۔
”جناب میئر سالٹ،یہاں میں تم سے اجازت لیتاہوں۔اگر کوئی کام ہو تو میں اپنے دفتر میں ملوں گا۔کل صبح ماں کی آخری رسومات اداکرنا ہے۔اس سے تم اپنی ماں کے تابوت کے پاس رات گزار سکو گے اوریقینا تم ایسا کر نا چاہوگے۔ایک آخری بات ،تمہاری ماں کے ایک دوست سے مجھے پتہ چلا کہ ان کی خواہش تھی کہ انہیں چرچ کے رسم و رواج کے مطابق دفنایا جائے۔ یوں تو میں نے سارے انتظامات کرلیے ہیں،پھر بھی تمہیں بتانا مناسب سمجھا۔“
میں نے وارڈن کا شکریہ ادا کیا،جہاں تک میں ماں کوجانتا تھا،حالانکہ وہ لامذہبی خیالات کی نہیں تھی۔مگر اس نے زندگی میں مذہب وغیرہ کو کبھی ترجیح نہیں دی تھی۔
میں مردہ خانے میں داخل ہوا،یہ پُتی ہوئی دیواروں اور کھلے روشن دان والا صاف ستھرا چمکدارکمرہ تھا۔فرنیچر کے نام پر یہاں کچھ کریاں اور صوفے رکھے تھے۔کمرے کے درمیان میں دو اسٹولوں پر تابوت کو رکھ دیاگیاتھا۔تابوت کا ڈھکن بند تھا۔مگر اسکرو کو بغیر پورا کَسے ہی چھوڑدیا گیاتھا۔ جس سے وہ لکڑی پر ابھرے ہوئے تھے۔
ایک عربی خاتون جو شاید نرس تھی،تابوت کے قریب بیٹھی تھی۔ اس نے نیلا کرتا پہن رکھاتھااور ایک بھڑکیلا سا اسکارف سر پر باندھ رکھا تھا، اسی پل میرے پیچھے ہانپتا ہوا دربان آپہنچا۔ ظاہر تھا کہ وہ بھاگتا ہوا آیا تھا۔
”ہم نے ڈھکن لگادیاتھا۔مگر مجھے ہدایت دی گئی تھی کہ آپ کے آنے کے بعد میں اسے کھول دوں، جس سے آپ ان کا دیدارکرسکیں۔“یہ کہہ کر وہ تابوت کھولنے کے لیے آگے بڑھا لیکن میں نے اسے منع کردیا۔
”کیا آپ نہیں چاہتے کہ“
”نہیں۔“میں نے کہا۔
اس نے اسکرو ڈرائیور جیب میں رکھا اور مجھے گھورنے لگا۔تب مجھے احساس ہوا کہ منع نہیں کرنا چاہیے تھا۔میں شرم محسوس کرنے لگاتھا،کچھ لمحات تک مجھے گھورنے کے بعداس نے پوچھا، ”کیوں نہیں؟“مگر اس کے لہجے میں حیرت نہیں تھی۔وہ بس یوں ہی جاننا چاہتا تھا۔
”دراصل میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔“میں نے کہا۔
وہ اپنی سفید مونچھوں کو ایٹھنے لگا،پھر میری جانب دیکھے بنا آہستگی سے بول اٹھا،”میں سمجھ سکتا ہوں۔“
وہ نیلی آنکھوں والا بھلا سا ہنس مکھ آدمی تھا،اس نے تابو ت کے نزدیک میرے لیے ایک کرسی سرکائی اور میرے قریب ہی پیچھے بیٹھ گیا۔نرس اٹھی اور دروزے کی جانب چل دی۔ جب وہ جانے لگی تو دربان میرے کان میں بُدبُدایا،”بے چاری کو ٹیومر ہے!“
میں نے اسے غور سے دیکھا،تب پتہ چلا کہ آنکھوں کے ٹھیک نیچے سر پر پٹی بندھی تھی، جس سے اس کا تھوڑا سا چہرہ دکھائی دے رہا تھا۔
اس کے جاتے ہی دربان بھی کھڑا ہوگیا،”اب میں آپ کو اکیلاچھوڑدیتا ہوں۔“
میں نہیں جانتا کہ میں نے کوئی حرکت کی یا نہیں،مگر جانے کے بجائے وہ کرسی کے پیچھے ہی کھڑارہا۔پیٹھ پیچھے کسی کی موجودگی سے میں بڑی بے چینی محسوس کررہا تھا۔سورج ڈھلنے لگاتھا اور کمرہ خوشنما روشنی سے بھراٹھاتھا۔نیند سے میری آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔دیکھے بغیر میں نے دربان سے یوں ہی پوچھاکہ وہ کتنے برسوں سے یہاں کام کررہا ہے۔
”پانچ برسوں سے۔“اس نے فوراً جواب دیا،جیسے وہ سوال کا ہی منتظر تھا۔
بس پھر وہ شروع ہوگیا اور باتیں کرنے لگا،دس برس پہلے اگر کسی نے اس سے کہاہوتا کہ وہ اپنی زندگی مورےگو کے اولڈ ایج ہوم میں گزارے گا تو اسے یقین نہ ہوتا۔وہ چونسٹھ سال کا تھا اور پیرس کا رہنے والا تھا۔
”اوہ!تو تم یہاں کے نہیں ہو؟“میں نے یوں ہی کہہ دیا۔
تب مجھے یاد آیا کہ وارڈن کے پاس جانے سے پہلے اس نے ماں کے بارے میں کچھ کہا تھا کہ انہیں دفنانے کی رسم جلد سے جلد پوری کرنی ہوگی،کیونکہ اس حصے میں خاص طور پر میدانی علاقے میں اچھی خاصی گرمی رہتی ہے۔
”پیرس میں جسد خاکی کو تین دن ،کبھی کبھار چاردن بھی رکھا جاتا ہے۔“
اس نے یہ بھی بتایا کہ اس نے ایک طویل عرصہ پیرس میں گزاراہے اور وہ دن اس کے زندگی کے بہترین دن تھے۔ جنہیں وہ کبھی بھلا نہیں سکتا،یہاں سب کچھ جلدی سے نبٹایا جاتاہے۔
”آپ اپنے عزیز کی موت کو پوری طرح قبول بھی نہیں کرپاتے کہ آخری رسومات کی جانب آپ کو بڑھادیا جاتا ہے۔“
اسی پل اس کی بیوی نے اسے ٹوکا ،”بس بھی کرو۔“
وہ بوڑھا گھبراکر معافی مانگنے لگا۔دراصل وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، وہ مجھے اچھا لگ رہا تھا،میں نے پہلے ان باتوں پر غور نہیں کیاتھا۔
پھر وہ بتانے لگا کہ کیسے ایک عام انسان کی طرح وہ بھی اولڈ ایج ہوم آیا تھا۔ تب وہ کافی صحت مند تھااور تندرست بھی۔اس لیے جب دربان کی جگہ خالی ہوئی تو اس نے یہ نوکری کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
جب میں نے اس سے کہا کہ اوروں کی طرح وہ بھی یہاں کا ایک ’باسی‘ہے تو اسے یہ با ت ناگوار لگی۔وہ ایک خاص عہدے پر تھا۔میرے دھیان میں آیا کہ وہ لگاتار انہیں’وہ اور بوڑھے لوگ‘ کہہ کر مخاطب کررہا تھا،حالانکہ وہ خود ان سے کم بوڑھا نہ تھا۔پھر بھی اس کی بات میں دم تھا۔ایک دربان کے روپ میں اس کی حیثیت تھی،دوسروں سے اوپر اس کے حقوق تھے۔
اسی وقت نرس لوٹ آئی۔رات بہت جلد اتر آئی تھی۔اچانک محسوس ہوا جیسے آسمان پر اندھیرا چھاگیا ہے۔دربان نے بتیاں روشن کردیں۔ روشنی سے آنکھیں چکاچوند ہوگئیں۔
اس نے مشورہ دیا کہ مجھے باورچی خانہ جاکر کھانا کھالینا چاہیے۔مگر مجھے بھوک نہیں تھی۔ اس نے کافی پینے کی پیش کش کی ۔چونکہ مجھے کافی پسند تھی،میں نے شکریہ کہہ کر حامی بھری اور چند ہی منٹوں میں وہ ٹرے لے کر آیا۔میں نے کافی پی،پھر مجھے سگریٹ کی طلب ستانے لگی۔
لیکن کیا ان حالات میں سگریٹ پینامناسب ہوگا؟ماں کے تابوت کے پاس؟دراصل اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا،یہ سوچ کر میں نے دربان کی طرف بھی ایک سگریٹ بڑھائی اور ہم دونوں سگریٹ پینے لگے۔اس نے پھر باتیں شروع کردیں۔
”جانتے ہو،جلد ہی تمہاری ماں کے دوست آئیں گے، تمہارے ساتھ تابوت کے پاس رت جگا کرنے کے لیے۔جب بھی کوئی مرجاتا ہے تو ہم سبھی اسی طرح رت جگا کرتے ہیں۔میں جاکر کچھ کرسیاں اور کالی کافی کا جگ بھرکر لے آﺅں۔“
سفید دیواروں کی وجہ سے تیز روشنی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی میں نے دربان سے ایک دو بتیاں بجھانے کے لیے کہا،”ایسا کچھ نہیں کرسکتے،انھیں ایسا لگایا گیا ہے کہ سبھی ایک ساتھ جلتی ہیں اور ایک ساتھ بجھتی ہیں۔“اس کے بعدمیں نے روشنی کی طرف دھیان دینا چھوڑدیا۔ وہ باہرجاکر کرسیاں لے آیا اور تابوت کے چاروں اور لگادیں۔ایک پر اُس نے کافی کا جگ اور دس بارہ پیالے رکھ دیئے۔ پھر ٹھیک میرے سامنے تابوت کی دوسری جانب بیٹھ گیا۔
نرس کمرے کے دوسرے سرے پر تھی۔میری جانب اس کی پیٹھ تھی،میں نہیں جانتا،وہ کیا کررہی تھی،مگر اس کے ہاتھ ہل رہے تھے اس سے میں نے اندازہ لگاےیا کہ وہ کچھ بُن رہی تھی۔میں اب مطمئن تھا،کافی نے میرے اندر تازگی بھر دی تھی کھلے دروزے سے پھولوں کی خوشبو اور ٹھنڈی ہوا اندر آرہی تھی۔مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہونے لگا۔
کانوں میں عجیب سی سرسراہٹ سے میں جاگ اٹھا۔کچھ دیر تک آنکھیں بند تھیں۔اس لیے روشنی پہلے سے بھی زیادہ تیز لگنے لگی۔کہیں بھی اوٹ نہیں تھی،اس لیے ہر ایک چیز پوری شدومد کے ساتھ واضح ہورہی تھی۔ماں کے بوڑھے دوست آگئے تھے۔میں نے ان کی گنتی کی،کل دس تھے۔ کوئی آہٹ کیے بنا میں نے کسی کو اس قدر قریب سے نہیں دیکھا تھا،ایک ایک عضو،ہاﺅ بھاﺅ،نین نقش، لباس وغیرہ کچھ بھی پوشیدہ نہیں تھے۔پھر بھی میں انہیں سن نہیں پارہا تھا۔وہ واقعی موجود ہیں، اس بات کا یقین کرنا مشکل تھا۔
تقریباً سبھی خواتین نے ایپرن پہن رکھاتھا،جس کی ڈوری کمر پر کس کر بندھی ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے پیٹ اور بھی باہر اُبھر آئے تھے۔میں نے اب تک غور نہیں کیا تھا کہ اکثر بوڑھی خواتین کے پیٹ کافی بڑے ہوتے ہیں۔اس کے بر خلاف سبھی بوڑھے دُبلے پتلے تھے اور چھڑی لیے ہوئے تھے۔
ان کے چہروں کی جس بات نے سب سے زیادہ متوجہ کیا،وہ ان کی آنکھیں تھیں، جو بالکل ندارد تھیں، جھریوں کے درمیان بس ہلکی سی،دھندلی سی چمک بھر تھیں۔
بیٹھتے وقت سبھی نے مجھے دیکھا اورعجیب ڈھنگ سے سرہلایا۔ان کے ہونٹ دانتوں کے بغیر مسوڑھوں کے بیچ چُسکی کی حالت میں بھینچے ہوئے تھے۔میں طے نہیں کرپارہا تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی جتارہے ہیں یا کچھ کہنا چاہتے ہیں یا پھر یہ ان کے بڑھاپے کی وجہ سے ہے۔بعد میں میں نے مان لیا کہ شاید کسی رواج کے مطابق وہ میرا خیر مقدم کررہے ہیں۔دربان کے اِردگرد بیٹھے سبھی بوڑھوں کو پر تجسس نگاہوں سے مجھے دیکھنا اور سرہلانا واقعی عجیب لگ رہا تھا۔پل بھر میں مجھے احساس ہوا کہ وہ مجھے کٹ گھر ے میں کھڑاکرنے آئے ہوں۔
کچھ دےیر بعد ایک عورت رونے لگی۔وہ دوسری قطار میں تھی اور اس کے آگے ایک عورت بیٹھی تھی،اس لیے میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پارہا تھا۔تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کا گلا رُندھ جاتا اور لگتا کہ وہ کبھی رونابند نہیں کرے گی۔کوئی اور اس پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔سبھی خاموش بیٹھے تھے۔ اپنی اپنی کرسیوں میں دھنسے وہ کبھی تابوت کو تو کبھی اپنی گھڑی یا کسی دوسری چیز کو گھورنے لگتے اورپھر ان کی نظریں وہیں جم جاتیں۔
وہ عورت اب بھی سسکیاں بھررہی تھی۔مجھے واقعی حیرت ہورہی تھی،کیونکہ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کون تھی؟میں چاہتا تھا کہ وہ رونا بند کردے،مگر اس سے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔کچھ دیر بعد دربان اس کی جانب جھکا اور کان میں کچھ سرگوشی کی ۔اس نے محض سرہلایا۔ دھیمے سے کچھ کہا،جو میں سن نہ سکا اور پھر وہ اسی طرح رونے لگی۔
دربان اٹھا اور میرے پاس کرسی سرکاکر بیٹھ گیا،کچھ دیر خاموش رہا،پھر میری جانب دیکھے بغیر سمجھانے لگا،”وہ تمہاری ماں سے بےحد قریب تھی،وہ کہتی ہے،اس دنیا میں ماں کے سوا اس کا کوئی نہیں ،وہ اب اکیلی رہ گئی ہے۔“
میں بھلا کیا کہتا۔کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔اس خاتون کی سسکیاں اب کچھ کم ہونے لگیں۔پھر ناک صاف کرنے کے بعد کچھ دیر وہ ہچکیاں لیتی رہی،پھر خاموش ہوگئی۔
حالانکہ میری نیند اڑچکی تھی،مگر میں بے حد تھکان محسوس کررہاتھا۔پیر بری طرح کھینچے جارہے تھے۔ماحول میں ایک عجیب سی آواز تھی،جو کبھی کبھارسنائی دے جاتی،میں پہلے تو کافی الجھن محسوس کررہا تھامگر غور سے سننے کے بعد سمجھ گیا کہ ماجرا کیا ہے؟دراصل بوڑھے اپنے گالوں کے اندر چسکی لے رہے تھے،جس سے سُڑ سُڑ کی عجیب سی آواز پیدا ہورہی تھی۔وہ اپنے خیالوں میں اس قدر مگن تھے کہ انھیں کسی بات کا ہوش نہیں تھا۔یکبارگی مجھے لگا کہ ان کے بیچ رکھی یہ بے جان لاش کوئی معنی نہیں رکھتی مگر یہاں میں شاید غلط تھا۔
ہم سبھی نے کافی پی جو دربان لایا تھا۔اس کے بعد مجھے کچھ زیادہ یاد نہیں۔رات کسی طرح کٹ گئی۔مجھے بس وہ ایک پل یاد ہے،جب اچانک میں نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا ایک بوڑھے کو چھوڑکر سبھی اپنی اپنی کرسیوں پر جھکے اونگھ رہے تھے۔اپنی چھڑی پر دونوں ہاتھ باندھے،تھوڑی ٹکائے وہ بوڑھا مجھے دیکھ رہا تھا۔جیسے میرے جاگنے کا منتظر ہو۔میں پھر سوگیا۔تھوڑی دیر بعد دونوں پیروں میں بے انتہا درد کی وجہ سے میں جاگ پڑا۔
روشن دان سے صبح کی لالی چمکنے لگی تھی،پل بھر کے بعد ہی ایک بوڑھا جاگ کر کھانسنے لگا، وہ بڑے سے رومال میں تھوکتااور ہر بار اُبکائی جیسی آواز آتی۔آواز سن کروہ سب جاگ اٹھے تھے۔ دربان نے انہیں بتایا کہ چلنے کا وقت ہوگیاہے۔وہ ایک ساتھ کھڑے ہوئے۔اس طویل رات کے بعد ان کے چہرے مرجھاگئے تھے۔مجھے واقعی حیرت ہوئی۔جب ہر ایک نے مجھ سے ہاتھ ملایا، جیسے ساتھ گزاری ہوئی ایک رات سے ہی ہم نے آپس میں ایک رشتہ قائم کرلیا ہو۔حالانکہ ایک دوسرے سے ہم نے ایک لفظ نہیں بولاتھا۔
میں کافی بجھ سا گیا تھا۔دربان مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔میں نے خود کو ٹھیک ٹھاک کیا۔اس نے مجھے تھوڑی اور سفید کافی دی۔جس سے میں تازگی محسوس کرنے لگا۔جب میں باہر نکلا، سورج چڑھ چکا تھا اور مورےنگو اور سمندر کے درمیان پہاڑیوں کے اوپر آسمان سرخی مائل ہورہا تھا۔صبح کی خنک ہوا چل رہی تھی،جس میں خوشنما نمکین مہک تھی،جو ایک خوشگواری کا احساس دلارہی تھی۔ ایک طویل عرصے سے میں دیہات میں نہیں آیا تھا۔دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اگر ماں کا مسئلہ نہیں ہوتا تو کتنی بہترین تفریح ہوسکتی تھی۔
میں آنگن میں ایک پیڑ کے نیچے انتظار کرنے لگا۔مٹی کی مہک میرے اندر بھرنے لگی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اب مجھے نیند نہیں آرہی تھی۔پھر میں دفتر کے دوسرے لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا۔اس وقت وہ لوگ دفتر جانے کی تیاری کررہے ہوں گے۔دن کا یہ وقت مجھے سب سے بے کار لگتا۔تقریباً دس منٹ میں انہیں خیالوں میں گم رہا۔
اچانک عمارت کے اندر سے گھنٹی کی آواز آنے لگی اس کے سبب میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹا۔کھڑکیوں کے پیچھے کچھ ہلچل دکھائی دی۔پھر سب خاموش ۔سورج چڑھ آیا تھا۔تلوﺅں میں جلن محسوس ہورہی تھی۔دربان نے مجھے بتایا کہ وارڈن مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں ان کے دفتر گیا۔اس نے چند کاغذات پر دستخط کروائے۔وہ کالی پوشاک زیب تن کیے ہوئے تھا۔ریسیور اٹھاکر میری جانب دیکھنے لگا۔
”آخری رسومات کا انتظام کرنے والے کچھ دیر قبل یہاں آئے تھے۔وہ لوگ وہاں جاکر تابوت کے اِسکرو کس دیں گے۔کیا میں انہیں رُکنے کے لیے کہوں؟تاکہ تم اپنی ماں کا آخری دےدار کرسکو؟“
”نہیں۔“میں نے کہا۔
”اس نے دھیمی آواز سے ریسیورمیں کہا،”ٹھیک ہے،فیگی ایف،اپنے آدمیوں کو ابھی بھیج دو۔“
پھر اس نے بتایا وہ بھی ساتھ چل رہا ہے۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ڈیوٹی پر جو نرس ہے اس کے علاوہ صرف ہم دو ہی آخری رسومات میں شریک ہوں گے۔یہاں کا قاعدہ ہے کہ یہاں رہنے والے آخری رسوما ت میں شامل نہیں ہوسکتے۔حالانکہ رات میں تابوت کے پاس بیٹھنے سے کسی کو روکا نہیں جاتا۔
”ایسا ان کی بھلائی کے لیے ہی کیاجاتاہے۔“اس نے واضح کیا،”تاکہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو،مگر اس مرتبہ میں نے تمہاری ماں کے ایک پرانے دوست کو ساتھ آنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کا نام ہے تھامس پریز۔“وارڈن مسکرایا۔”اصل میں یہ ایک چھوٹی سی دل کو چھولےنے والی کہانی ہے۔تمہاری ماں اور اس کے درمیان بڑی اپنائیت تھی۔یہاں تک کہ سبھی بوڑھے پریز کو اکثر چھیڑا کرتے تھے کہ وہ اس کی منگیتر ہے،وہ اس سے اکثر پوچھتے کہ تم اس سے شادی کب کررہے ہو؟ وہ ہنس کر ٹال دیتا ،ظاہر ہے ماں کی موت کے بعد اسے بے حد تکلیف پہنچی ہے،اس لیے آخری رسومات میں شامل ہونے سے میں انکار نہ کرسکا۔حالانکہ ڈاکٹر کے مشورے پر اسے پچھلی رات تابوت کے پاس بیٹھنے سے روک دیاتھا۔“
کچھ دیر ہم یوں ہی خاموش بیٹھے رہے۔پھر وارڈن کھڑکی کے پاس جاکر کھڑاہوگیا، اچانک بولا،”ارے مورےنگوکے پادری وقت کے بڑے پابند ہیں۔“
انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ گاﺅں میں موجود گرجا گھر تک پیدل پہنچنے میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ درکار ہوگا۔ہم سیڑھیاں اترنے لگے۔قبرستان کے قریب ہی پادری انتظار کررہے تھے۔ان کے ساتھ دو لوگ تھے ایک کے ہاتھ میں کچھ چیزیں تھیں۔پادری جھک کر چاندی کی زنجیر کی لمبائی کو ٹھیک کررہے تھے۔ہمیں دیکھتے ہی وہ سیدھے کھڑے ہوگئے اور میرے ساتھ کچھ باتیں کی۔مجھے وہ بیٹا کہہ کر مخاطب کررہے تھے،پھر ہمیں وہ قبر کی اور لے جانے لگے۔
پل بھر میں میں نے دیکھا کہ تابوت کے پیچھے سیاہ لباس پہنے چار لوگ کھڑے تھے۔ اسی پل وارڈن نے بتایا کہ جنازہ پہنچ چکا ہے۔پادری نے عبادت شروع کردی۔سیاہ کپڑے کی پٹی پکڑے چار لوگ تابوت کے قریب پہنچے جبکہ پادری ،لڑکے اور میں قطار میں چلنے لگے۔ایک عورت جسے میں نے پہلے نہیں دیکھا تھا دروازے پر کھڑی تھی۔وارڈن نے اس سے میرا تعارف کروایا۔ میں اس کانام تو سمجھ نہیں سکا مگر یہ جان گیا کہ وہ اولڈ ایج ہوم کی نرس ہے۔میرا تعارف سن کر اس نے سرکوجھکاکر میراخیر مقدم کیا،مگر اس کے لمبے دبلے پتلے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نہیں تھی۔ ہم ایک گلیارے سے ہوتے ہوئے صدر دروازے تک آئے۔جہاں تابوت کو رکھا گیا تھا۔مستطیل نما ،چمکیلے کالے رنگ کے تابوت کو دیکھ کر مجھے اچانک آفس میں رکھے کالے پین اسٹینڈ کی یاد آگئی۔
تابوت کے پاس انوکھی سج دھج کے ساتھ ایک چھوٹے قد کا آدمی کھڑا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اس کا کام آخری رسومات کے وقت پورے انتظام کی دیکھ بھال کرنا ہے۔بالکل ماسٹر آف سیری منی کی طرح۔اس کے قریب خوفزدہ سا مسٹر پریز کھڑاتھا،ماں کا خاص دوست۔اس نے ہلکے رنگ کی چوڑے کنارے والی گول ٹوپی پہن رکھی تھی۔جب درواز ے سے تابوت لے جایا جانے لگاتو اس نے بڑی پھرتی سے ٹوپی کو اوپر اٹھایا۔پینٹ جوتوں سے کافی اوپر تھی اوراونچے کالر والی سفید شرٹ پر بندھی کالی ٹائی ضرورت سے زیادہ چھوٹی تھی۔اس کی موٹی چوڑی ناک کے نیچے ہونٹ لرزرہے تھے۔ مگر جس چیز نے مجھے  متوجہ کیا وہ تھے اس کے کان۔سرخی مائل،پنڈولم نما اس کے کان جو زرد سے رخساروں پر مہر بند کرنے کے لاکھ کے لال گولے  کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔جیسے ریشمی سفید بادلوں کے درمیان انھیں گاڑدیا گیا ہو۔
منتظم کے ذریعے ہر کام کے لیے رکھے ہوئے ایک نوکر نے ہمیں اپنی اپنی جگہوں پر کھڑاکیا۔تابوت کے آگے پادری ،تابوت کے دونوں طرف کالے کپڑے پہنے ہوئے چار آدمی۔ ان کے پیچھے وارڈن ،میں اور ہمارے پیچھے پریز اور نرس۔
آسمان پر سورج دہکنے لگاتھا۔ہوا میں تپش بڑھ گئی تھی۔پیٹھ پر آگ کے تھپیڑے محسوس ہونے لگے تھے۔اس پر گہرے رنگ کی پوشاک نے میری حالت بدتر کردی تھی۔ نہ جانے کیوں ہم اتنی دیر رکے ہوئے تھے؟ بوڑھے پریز نے ٹوپی دوبارہ اتارلی۔میں ترچھا ہوکر اسے دیکھ رہاتھا،تبھی دربان مجھے اس کے بارے میں مزید باتیں بتانے لگا۔مجھے یاد ہے دربان نے مجھے بتایا کہ بوڑھا پریزاور میری ماں شام میں اکثر دوردورتک سیر کرنے جایا کرتے تھے۔کبھی کبھی چلتے چلتے وہ گاﺅں کے قریب پہنچ جاتے۔مگر ہاں،ان کے ساتھ نرس بھی رہتی تھی۔
میں نے اس دیہاتی علاقے،دورافق اور پہاڑیوں کی ڈھلوان پر سرو کے درختوں کی طویل قطاروں،چمکیلے ہرے رنگ سے رنگی اس زمین اور سورج کی روشنی میں نہائے ایک اکیلے مکان پر بھرپور نظر ڈالی۔میں نے جان لیا،ماں کیا محسوس کرتی ہوگی؟اس علاقے میں شام کا وقت سچ مچ کس قدر اداس اور بے چین کردیتاہوگا۔صبح سورج کی اس چلچلاتی دھوپ میں،جب سب کچھ تپش کی شدت میں لپ لپارہا تھا،تو کہیں کچھ ایساتھا،جو اس فطری نظام کے بیچ میں بھی غیر انسانی اور مایوس کردینے والا تھا۔
آخر ہم نے چلنا شروع کردیا،تبھی میں نے دیکھا کہ پریز ہلکا سا لنگڑاکر چل رہاتھا۔ جوں جوں تابوت تیزی سے آگے بڑھنے لگتا،وہ بوڑھاپچھڑتاچلاگیا۔مجھے واقعی حیرت ہوئی کہ سورج کتنی تیزی سے آسمان پر چڑھتا جارہا ہے۔اسی پل مجھے سوجھا کہ کیڑے مکوڑے کی گونج اور گرم گھاس کی سرسراہٹ کافی دیر سے ہوا میں ایک دھمک پیداکررہی ہے۔میرے چہرے سے بے حساب پسینہ ٹپک رہا تھا۔میرے پاس ٹوپی نہیں تھی،اس لیے میں رومال سے ہی چہرے پر ہواکرنے لگا۔منتظم کے آدمی نے پلٹ کر کچھ کہا،جو میں سمجھ نہ سکا۔اسی وقت اس نے اپنے سر کے کراﺅن کوبھی رومال سے پونچھا، جو اس نے بائیں ہاتھ میں پکڑرکھاتھا،اس نے اوپر کی جانب اشارہ کیا۔
”آج بے حد گرمی ہے،ہے نا؟“
”ہاں۔“میں نے کہا۔
کچھ دیر بعداس نے پوچھا،”وہ آپ کی ماں ہیں،جنہیں ہم دفنانے جارہے ہیں؟کیا عمر تھی ان کی ؟“”وہ بالکل تندرست تھی۔“میں نے کہا،”دراصل میں خود بھی ان کی صحیح عمر کے بارے میں نہیں جانتاتھا۔“
اس کے بعد وہ خاموش ہوگیا،جب میں مڑا تو دیکھا کہ پریز تقریباً پچا س گز کے فاصلے پر لنگڑاتا چلاآرہا تھا۔تیز چلنے کی وجہ سے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹوپی بری طرح سے ہل رہی تھی۔ میں نے وارڈن پر بھی ایک نظر ڈالی،وہ نپے تلے قدموں سے متوازن ہاﺅبھاﺅ کے ساتھ چل رہا تھا،ماتھے پر پسینے کی بوندیں تھیں،جو اس نے پونچھی نہیں تھیں۔مجھے لگاکہ جنازے کے ساتھ چلنے والے کچھ زیادہ ہی تیزچلنے لگے ہیں۔جہاں کہیں بھی نگاہ ڈالی،ہر طرف وہی سورج سے نہایا ہوا دیہاتی علاقہ دکھائی دیا۔سورج اس قدر چمکدار تھا کہ میں آنکھیں اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کرپارہا تھا۔پاﺅں چلچلاتی گرمی میں ہر قدم کے ساتھ زمین پر دھنس جاتے اور پیچھے ایک چمکدار کالا نشان چھوڑدیتے۔آگے کوچوان کی چمکیلی کالی ٹوپی تابوت کے اوپر رکھے اسی طرح کے لیس دار مادے کے لوندے کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔یہ ایک حیرت انگیز خواب کا احساس تھا۔اوپر نیلی سفید چکاچوند اور چاروں جانب یہ گہرا سیاہ پن،چمکدار کالا تابوت ،لوگوں کی کالی پوشاک او رسڑک پر سنہرے،کالے گڑھے اور دھوئیں کے ساتھ ماحول میں گھلی ملی گرم مکڑے اور گھوڑے کی لید کی بو؟ان سب کی وجہ سے،اور رات کو نہ سونے کی بنا پر میری آنکھیں اور خیال دھندلے پڑتے جارہے تھے۔
میں نے دوبارہ پیچھے مڑکر دیکھا،پریز بہت پیچھے رہ گیاتھا۔اس تپتی دھند میں تقریباً اوجھل ہی ہوگیاتھا۔کچھ پل اسی ادھیڑ بن میں رہنے کے بعد میں نے یوں ہی اندازہ لگایاکہ وہ سڑک چھوڑکر کھیتوں سے آرہا ہوگا۔تبھی میں نے دیکھا،آگے سڑک پر ایک موڑ تھا۔ظاہر ہے پریز نے،جو اس علاقے کو بخوبی جانتا تھا،ایک پگڈنڈی پر چل رہا تھا۔ہم جیسے ہی سڑک کے موڑ پر پہنچے،وہ ہمارے ساتھ شامل ہوگیا۔لیکن کچھ دیر بعد پھر پچھڑنے لگا۔اس نے پھر شارٹ کٹ لیا اور پھر ہم میں شامل ہوگیا۔دراصل اگلے آدھے گھنٹے تک ایسا کئی بار ہوا۔پھر جلد ہی اس میں میری جودلچسپی تھی وہ جاتی رہی۔میراسر پھٹاجارہا تھا۔میں بہ مشکل خود کو گھسیٹ رہا تھا۔
اس کے بعد بہت کچھ جلدبازی میں کیا گیا کہ مجھے کچھ یاد نہیں۔ہاں اتنا ضرور یاد ہے کہ جب ہم گاﺅں کی سرحد پر تھے تو نرس کچھ بولی تھی،اس کی آواز سے میں بری طرح چونک پڑاتھا۔ کیوں کہ اس کی آواز اس کے چہرے سے قطعی میل نہیں کھاتی تھی۔اس کی آواز میں موسیقی اور کپکپاہٹ تھی۔اس نے جو کچھ کہاتھا وہ کچھ اس طرح تھا،”اگر آپ اس قدر آہستہ آہستہ چلیں گے تو لو لگنے کا ڈر ہے، مگر تیز چلیں گے تو پسینہ آئے گااور چرچ کی سرد ہوا سے آپ کو زکام ہوجائے گا۔“اس کی بات میں دم تھا۔نقصان ہر طرح سے طے تھا۔تابوت کے ساتھ چلتے ہوئے کچھ یادیں میرے ذہن میں چسپاں ہوگئی ہیں۔مثلاً اس بوڑھے پریز کا چہرہ جو گاﺅں کی سرحد پر ہی آخری بار ہم سے آملا تھا،اس کی آنکھوں سے مسلسل بہتے آنسو جو تھکان کی وجہ سے تھے یا غم کے سبب،یا پھر دونوں کی وجہ سے۔مگر جھریوں کی وجہ سے نیچے ٹپک نہیں پارہے تھے۔آڑے ترچھے ہوکر کان تک پھیل گئے تھے اور اس بوڑھے ،تھکے چہرے کو ایک پیاری سی چمک سے بھردیاتھا۔
مجھے یاد ہے وہ گرجا گھر،سڑکوں سے گزرتے دیہاتی،قبروں پر کھلے لال رنگ کے پھول، پریز پر بے ہوشی کا دورہ،چیتھڑوں سے بنی کسی گڑیاکی مانند اس کا سکڑجانا۔ماں کے تابوت پر سنہری بھوری مٹی کا ٹپ ٹپ گرنا،لوگ بے شمار لوگ،آوازیں،کافی،رےستوراں کے باہر انتظار، ریل انجن کی گڑگڑاہٹ،روشنی سے نہائی الجیئرس کی سڑکیں اور ان پر قدم رکھتے ہی میرا خوشی سے بھرجانا اور پھر تخیل میں ہی سیدھے بستر پر جاکر نڈھال ہوجانا،لگاتار بارہ گھنٹے بے ہوشی کی نیند!
مجھے یہ سب یاد ہے !
٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

البیئرکامو1913میں فرانس میں پیدا ہوئے اور1960میں انتقال فرمایا۔انہیں ”پلیگ“ ناول کے لیے 1957 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔کامو نے اپنی 47 برس کی مختصر زندگی میں نہ صرف اپنے ملک اور یورپ میں بلکہ عالمی ادب میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے مضامین،ناول،ڈرامے اور دیگر اصناف سے عالمی ادب میں اضافہ کیا۔ان کی تخلیقات میں کئی خوبیاں ہیں مگر سب سے اہم خوبی انسان کی تنہائی ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں موت،تکالیف،لامذہبیت اور ارتداد کو بہتر انداز میں پیش کیا ہے۔ان کی تصانیف میں لاپسیٹ،لاشوٹ،لے جسٹس،لاہوم ریولئے وغیرہ اہم کتابیں شامل ہیں۔

Condolence A Short Story by William Faulkner

Articles

تعزیت

ولیم فاکنر

مس ایمیلی گریرسن کی آخری رسومات کے موقع پر شہر کے تقریباً سبھی لوگ آئے ۔مرد حضرات فوت ہونے والی ایمیلی کا آخری دیدار کرنے کی غرض سے اور خواتین اس کے مکان کو اندر سے دیکھنے کا تجسس لے کر۔دس برس سے مکان کی دیکھ بھال کرنے والا صرف ایک نوکرتھا۔وہ مالی کا کام بھی کرتا اور باورچی کا بھی۔
وہ ایک بڑا ساچوکون مکان تھا،جس پر ایک بار رنگ وروغن چڑھایاگیاتھا۔ساتویں دہائی میں سب سے بہترین ڈیزائن کا انتخاب کرکے اسے تعمیر کیا گیاتھا۔اس پر ایک بڑا سا گنبد ،پچی کاری اور منقش بالکونیاں تھیں۔وہ مکان ساتویں دہائی میں شہر کی سب سے عمدہ سڑک پر تعمیر ہواتھا۔اس کے پڑوس میں باعزت لوگوں کے مکانوں کی جگہ اب گیریج،اور سوت کتائی کی صنعتیں تھیں۔صرف مس ایمبلی کا اکلوتا مکان رہ گیا تھا۔مس ایمیلی کے مزاج کے سامنے کاٹن ویگنوں اور گیسولین پمپوں کی ایک نہ چلی۔وہ مکان بھی سب کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا۔اور اب مس ایمیلی بھی ان باعزت لوگوں کے درمیان پہنچ گئی تھی جن کی قبریں جیفرسن کی جنگ میں شہید ہونے والے سپاہیوں کی نظربند اور گمنام قبروں کے درمیان ہی تھیں۔وہ قبریں دیودار کے اونچے درختوں سے ڈھکی تھیں۔
مس ایمیلی کی زندگی صدیوں سے جاری رسم،فرض اوراحتیاط کی بہترین مثال تھی۔اس کی زندگی کی اہمیت ۱۸۹۴ء میں اس روز سے بڑھ گئی تھی جس روز شہر کے میئر کرنل سارتورس نے اس کے تمام ٹیکس معاف کردیے تھے۔یہ کرنل سارتورس وہی تھے جنھوں نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ کوئی نیگرو عورت بغیر اسکارف کے سڑک پر دکھائی نہیں دینی چاہئے۔ٹیکس معافی کا حکم اس کے والد کے انتقال کے بعد بھی قائم رہا۔مس ایمیلی کو اگر یہ احساس ہوجاتا کہ اس پر رحم کیا گیا ہے تو وہ اسے کبھی منظور نہیں کرتی۔کرنل سارتورس نے اس کے لیے ایک کہانی گھڑی تھی۔ان کے مطابق مس ایمیلی کے والد نے شہر کی انتظامیہ کو قرض دیا تھا،جسے شہری انتظامیہ لوٹانے کا خواہش مند تھا۔
اس قسم کی کہانی گھڑنا کرنل سارتورس کی پیڑھی اوراعلیٰ دماغ رکھنے والے شخص کے ہی بس کی بات تھی اور کوئی عورت ہی اس طرح کی بات پر یقین کرسکتی تھی۔جب اگلی پیڑھی کے لوگ جدید خیالات لے کر میئر اور مجسٹریٹ بنے،تو انتظامیہ میں کچھ بد گمانی پیداہوئی۔نئے سال کی پہلی تاریخ کو انھوں نے اسے ایک نوٹس بھیجا۔جس میں ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔فروری کا مہینہ آگیا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔انھوں نے اسے اپنے ذاتی خرچ پر شیرف کے دفتر پہنچنے سے متعلق ایک رسمی پیغام ارسال کیا۔اگلے ہفتے میئر نے بذات خود ایک چٹھی لکھی کہ وہ آئے یا پھر اسے لینے کے لیے وہ اپنی کار روانہ کرسکتا ہے۔جواب میں اسے ایک بوسیدہ کاغذ پر پھیکی سیاہی سے مگر خوشخط تحریر میں ایک رقعہ موصول ہوا،جس میں تحریرتھا کہ وہ اب زیادہ تر باہر نہیں نکلتی۔کسی نوٹ کے بنا نوٹس بھی اس کے ساتھ نتھی تھا۔
مجسٹریٹ نے ایک مخصوص میٹنگ طلب کی۔مس ایمیلی کے لیے مقررہ ایک ڈیپوٹیشن نے جاکر دروازے پر دستک دی۔آٹھ دس سال قبل اس نے چینی پینٹنگ کلاس لیناچھوڑدیاتھا۔ تب سے اس مکان میں کوئی مہمان نہیں آیا تھا۔بوڑھا نیگرو انھیں اندھیرے ہال میں لے آیا۔جس میں سے سیڑھیاں اوپری منزل تک جاتی تھیں۔سیڑھیوں پر بھی اندھیرے کی دبیز چادر تنی ہوئی تھی۔ وہاں گردوغبار اورعجیب سی بو قوتِ سامہ سے ٹکرارہی تھی۔نیگرو انھیں’پارلر‘میں لے گیا۔جہاں بھاری بھر کم فرنیچر موجود تھا اور اس پر چمڑا مڑھا ہواتھا۔نیگرو نے کھڑکی کا پردہ سرکادیا۔اب وہ دیکھ سکتے تھے کہ چمڑا پھٹاہوا ہے۔وہ بیٹھ گئے۔اندر داخل ہوتی ہوئی روشنی کی لکیر میں گرد کے ذرات تیررہے تھے۔ فرنیچر پر جمی ہوئی گرد بھی اس میں شامل ہوکر ان کی جانگھوں کے نزدیک آہستگی سے داخل ہوگئی تھی۔آتش دان کے قریب ایک اسٹینڈ رکھا ہواتھا جس پر سونے کا ملمع چڑھا ہوا تھا۔لیکن اس کی چمک ماند پڑگئی تھی۔اس اسٹینڈ پرمس ایمیلی کے والد کی رنگین تصویر رکھی ہوئی تھی۔
مس ایمیلی کے آتے ہی وہ کھڑے ہوگئے۔وہ ایک کالی ،چھوٹے قد کی موٹی عورت تھی۔ اس کے گلے میں سونے کی ایک پتلی زنجیر تھی۔جو کمر تک لمبی تھی اور بیلٹ میں دھنسی ہوئی تھی۔اس کا ماتھا ماندپڑے ہوئے سونے کی طرح تھا۔وہ آبنوس کی چھڑی پر جھکی ہوئی تھی۔ اس کا قد چھوٹا سا تھا لیکن اس میں کچھ خاص بات تھی۔شاید بات یہی تھی کہ کسی دوسرے کا ایسابدن ہوتا تو وہ صرف موٹاپا کہلاتا۔اس کے بدن میں ٹھہرائو تھا۔وہ پھولی ہوئی دکھائی دیتی تھی جیسے کوئی ساکت پانی میں کافی دیر تک ڈوبا ہواہو۔اس کے بدن میں پیلا پن تھا۔
آنے والوں نے اپنے آنے کی وجہ بتائی۔اس دوران اس کی آنکھیں ان کے چہروں پر گھومتی رہیں۔چربی زدہ چہرے پر اس کی آنکھیں کوئلے کے دو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی طرح لگ رہی تھیں۔جیسے وہ ٹکڑے گندھے ہوئے آٹے کے ڈھیر میں دھنسے ہوئے ہوں۔اس نے انھیں بیٹھنے کے لیے نہیں کہا۔وہ دروازے میں کھڑے کھڑے سنتی رہی۔جو شخص بول رہا تھا پھر وہ لڑکھڑاکر چپ ہوگیا۔انھیں گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دی جو سونے کی زنجیر کی کنارے جڑی ہوئی تھی اور نظر نہیں آرہی تھی۔مس ایمیلی نے سرد اور روکھے لہجے میں کہا،’’جیفرسن میں مجھ پرکوئی ٹیکس نہیں ہے۔کرنل سارتورس مجھے سمجھاچکے ہیں۔تم میں سے اگر کوئی چاہے تو وہ شہری انتظامیہ کے ریکارڈ کودیکھ کر معلوم کرسکتا ہے۔اس طرح تمھیں اطمینان ہوجائے گا۔‘‘
’’ہم ریکارڈ دیکھ چکے ہیں۔ہم شہر کے افسران ہیں،مس ایمیلی!آپ کو شیریف کا دستخط شدہ نوٹس موصول ہواہوگا؟‘‘
’’ہاں،مجھے ایک کاغذ ملا تھا۔‘‘مس ایمیلی نے کہا۔’’شاید وہ سمجھتا ہو اپنے آپ کو شریف ، جیفرسن لیکن مجھے کوئی ٹیکس ادا کرنا نہیں ہے۔‘‘
’’لیکن دیکھیے اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ہمیں اپنا کام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کرنل سارتورس سے ملیے۔مجھے جیفرسن میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کرنا ہے۔‘‘
’’لیکن ،مس ایمیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کرنل سارتورس سے ملیے۔(کرنل سارتورس کو فوت ہوئے تقریباًدس برس ہوچکے تھے) مجھے جیفرسن کوکوئی ٹیکس نہیں دینا ہے،ٹاب!‘‘نیگروحاضر ہوا۔
’’ان شریف لوگوں کو باہر کا راستہ دکھائو۔‘‘
اس طرح اس نے انھیں شکست دے دی۔بالکل اسی طرح جیسے بووالے واقعہ سے پہلے وہ تیس برس تک ان کے والدین کو شکست دیتی آئی تھی۔اس کے والد کے انتقال کے دو سال بعد اس کے عاشق کے اسے چھوڑکر چلے جانے کے فوراً بعد کا یہ واقعہ ہے۔اس کے عاشق کے بارے میں ہمیں اعتماد تھا کہ وہ اس سے شادی کرلے گا۔اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ باہر بہت کم جاتی تھی۔عاشق کے چلے جانے کے بعد تو لوگوں نے اسے باہر نکلتے ہی نہیں دیکھا تھا۔کچھ خواتین نے اس کے قریب جانے کی ہمت جٹائی لیکن وہ ان سے ملی نہیں۔اس مکان میں زندگی کی علامت اکلوتا نیگروتھا۔وہ اس وقت خاصا جوان تھا اور بازار کی ٹوکری لیے آتے جاتے دکھائی دیتا تھا۔
’’آخر کیسے ایک آدمی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی آدمی باورچی خانہ کی دیکھ بھال کرسکتا ہے؟‘‘ خواتین کہتیں۔اس لیے انھیں کوئی حیرت نہیں ہوئی جب بو تیز ہوگئی۔گھنی آبادی والے علاقے اور قدآور ،طاقت ور گریرسنوں کے درمیان وہ بو ایک دوسری کڑی بن گئی تھی۔
ایک پڑوسی عورت نے اسی سالہ میئر جج اسٹیونس کے حضور شکایت درج کی۔‘‘
’’لیکن اس سلسے میں میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
’’کیوں؟آپ اس سے کہہ نہیں سکتے کہ یہ سب بند کرے۔‘‘اس عورت نے کہا،’’کیا کوئی قانون نہیں ہے؟‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔‘‘میئر نے جواب دیا۔
’’ممکن ہے کہ اس کے نیگرو نوکر نے احاطے میں کوئی سانپ یاچوہا ماردیا ہو۔میں اس بارے میں اس سے بات کروں گا۔‘‘اگلے روز اس کے پاس دو مزید شکایتیں درج ہوئیں۔ایک آدمی نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کا اظہار یوں کیا،’’ہمیں در حقیقت اس بارے میں کچھ کرنا ہوگا،’’میئر صاحب!میں مس ایمیلی کو پریشان کرنا نہیں چاہتا۔ہمارے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘
اس رات ججوں کی میٹنگ ہوئی۔وہ چار لوگ تھے،تین بوڑھے اور ایک نوجوان،جو نئی پیڑھی کا نمائندہ تھا۔
’’سیدھی سی بات ہے۔‘‘اس نے کہا،’’مس ایمیلی کو پیغام بھیجیں کہ وہ اپنی جگہ صاف کرادے۔ اس کام کے لیے وقت کا تعین کردیا جائے اور اگر اس دوران یہ کام نہیں کرواتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیا بکواس کررہے ہیں جناب!‘‘جج اسٹیونس نے کہا،’’کیا تم عورت کی یہ کہہ کر بے عزتی کروگے کہ اس کے چہرے سے بدبو آتی ہے۔‘‘
اس لیے اگلی رات،آدھی رات کے بعد چار آدمی دبے پائوں مس ایمیلی کے لان میں داخل ہوئے۔دیواروں کے نیچے اور تہہ خانے کے دروازوں کو سونگھتے ہوئے انھوں نے چکر لگایا۔ اس دوران ان میں سے ایک آدمی اپنے کندھے پر لٹکے ہوئے جھولے سے فرش پر کوئی چیز چھڑکتا جارہا تھا جیسے کھیت میں بیج بورہا ہو۔انھوں نے تہہ خانوں کے دروازے کھولے اور اندر چونا چھڑک دیا۔ مکان کے چاروں طرف انھوں نے یہی کیا۔لوٹتے وقت جب وہ لان کو پار کررہے تھے،ہمیشہ اندھیرے میں ڈوبی ہوئی کھڑکی پراجالا ہوا۔مس ایمیلی وہاں تن کر بیٹھی تھی۔پیچھے سے آرہے اجالے میں اس کا بدن بت کی طرح ساکت لگ رہا تھا۔وہ لوگ چپ چاپ لان پر رینگتے ہوئے باہر سڑک پر نکل آئے۔جہاں اڑتی ہوئی ٹڈیوں کا سایہ ان پر پڑرہاتھا۔دوتین روز کے بعد بوآنا بند ہوگئی تھی۔اس واقعے کے بعد لوگ اس کے حالات سن کر دکھی ہوئے۔ہمارے شہر کے لوگ یاد کرتے تھے کہ کیسے اس کی عظیم چاچی بوڑھی ویاٹ اپنی زندگی کے آخری ایا م میں پوری طرح پاگل ہوگئی تھی۔ان کا ماننا تھا کہ گریرمنوں نے کبھی بھی اپنا قد نیچا نہیں کیااور وہ اس عظمت کے مستحق بھی تھے۔کوئی بھی جوان آدمی مس ایمیلی کے قابل نہیں تھااور ہوتا بھی کیسے؟
ہم کئی بار ایک تخئیلی منظر کو یاد کرتے۔جیسے وہ ’ئیبے لیوں‘ہو۔پسِ منظر میں سفید لباس میں لپٹی ایک نازک سی مس ایمیلی ہے،آگے اس کے والد کھڑے ہیں،اندھیرے میں ایک کرخت شکل ابھررہی ہے۔ان کی پیٹھ مس ایمیلی کی طرف ہے اور ان کے ہاتھوں میں چابک ہے۔وہ دونوں پیچھے کی جانب کھلنے والے دروازے کی درمیان جیسے فریم ہوگئے ہوں۔اس لیے تیس سال کی عمر ہونے کے بعد بھی اس کی تنہائی سے ہم سب اداس رہتے تھے۔اور کچھ کرنا چاہتے تھے۔اپنی چاچی کے پاگل پن کی وجہ سے وہ بہترین موقع گنوانہیں سکتی تھی۔لیکن ایسے مواقع آئے ہی نہیں۔
سننے میںآیا کہ اس کے والد کی موت کے بعد مکان اسی حالت میں مل گیا ہے۔اس سے لوگوں کو خوشی ہوئی۔آخر کار وہ مس ایمیلی کے لیے ہمدردی تو جتاسکتے تھے۔اب وہ اکیلی ہی اس حقیقی دنیا میں رہ گئی تھی۔اس کے والد کے انتقال سے ایک روز بعد سبھی عورتیں اس کے پاس گئیں اور اس سے اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔اور اس کی مدد کی جیسا کہ ہمارے یہاں رواج ہے۔مس ایمیلی ان سے دروازے پر ملی۔ ہمیشہ کی طرح اس نے وہی کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔چہرہ غم اور افسوس سے عاری تھا۔اس نے بتایا کہ اس کے والد مرے نہیں ہیں۔تین دنوں تک وہ اسی بات پر اڑی رہی۔ اس دوران وزیروں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی اور ڈاکٹروں نے اسے لاش کی جانچ کرنے کے لیے کہا۔قانون اور طاقت کا استعمال ہونے سے قبل ہی وہ مان گئی اور انھوں نے اس کے والد کوجس قدر ممکن تھا دفن کردیا۔
ہم یہ تونہیں کہتے کہ اس وقت وہ پاگل تھی۔ہم جانتے تھے کہ ایسی حرکت تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ہمیں وہ سارے جوان یادآئے جنھیں اس کے والد نے بھگادیاتھا۔ایسی حالت میں جب کچھ بھی نہیں بچا تھا،اسے اپنے والد سے وفاداری کا اظہار تو کرنا ہی تھا جس نے اس کے ساتھ دھوکہ دیا تھا اور لوگ چاہتے بھی یہی تھے۔
وہ طویل عرصے تک بیمار رہی۔ہم نے اسے دوبارہ دیکھا،اس کے بال کٹے ہوئے تھے۔وہ کسی دوشیزہ سی لگ رہی تھی۔ایک نظر میں وہ چرچ کی رنگین کھڑکیوں میں جڑی پریوں کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔
شہر میں فٹ پاتھوں کی تعمیر کے لیے ٹھیکے دیے جاچکے تھے۔اور گرمیوں میں اس کے والد کی موت کے بعد کام شروع ہوگیاتھا۔تعمیراتی کمپنی،نیگروں،خچروں اورمشینوں کے ساتھ وارد ہوگئی تھی۔ اس میں امریکہ کا رہنے والا فورمین ہومر بیٹن بھی تھا۔وہ سیاہ فام اور چست آدمی تھا۔اس کی آواز اونچی اور آنکھیں چہرے سے زیادہ ہلکی تھیں۔چھوٹے بچوں کی ایک ٹولی اس بھیڑ کے آگے پیچھے چلتی ۔ وہ ان گالیوں کو سنتے جو فورمین نیگروں کو دیتا تھا۔وہ پھاوڑے ،کدال چلاتے نیگروں کا گیت بھی سنتے۔ جلد ہی فورمین ہومر بیٹن کی سب سے پہچان ہوگئی۔کسی چوراہے میں کھڑے لوگوں کی قہقہے کی آوازیں گونجتیں۔اس سے پتہ چل جاتا کہ وہاں فورمین موجود ہوگا۔حال ہی کی بات تھی۔ہم نے دیکھا کہ وہ اور مس ایمیلی پیلے رنگ کی پہیوں والی بگھی میں بیٹھ کر اتوار کی دوپہر میں گھومنے نکلتے۔بگھی میں جتے ہوئے دونوں گھوڑوں کا رنگ لال بھورا تھا۔دونوں گھوڑے کافی چست تھے۔
پہلے ہم خوش ہوئے کہ چلو اب مس ایمیلی کا دل بہل جائے گا۔کیوں کہ سبھی عورتیں کہتیں، ’’گریرسن کی یقینی طور پر شامی علاقے کے رہنے والے ایک مزدور سے دوستی اچھی رہے گی۔‘‘لیکن اور بھی تو لوگ تھے،جیسے بوڑھے۔وہ کہتے کہ ایک خاندانی عورت کے لیے غم اتنی بڑی وجہ نہیں کہ وہ اپنی تہذیب کو بھول جائے۔حالانکہ یہ بات انھوں نے لفظـ’تہذیب‘کے بنا ادا کی تھی۔انھوں نے صرف یہی کہا،’’بیچاری ایمیلی‘‘اس کے رشتہ داروں کو یہاں آنا چاہئے۔‘‘
البامہ میں اس کی کوئی رشتہ دار تھی،لیکن برسوں پہلے پاگل اور بوڑھی ویاٹ کی جائیداد کے معاملے میں ان بن ہوگئی تھی۔اور دو خاندانوں کے درمیان تب سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔اس خاندان سے آخری رسومات کی ادائیگی کے وقت کوئی شریک بھی نہیں ہوا تھا،اور جیسے ہی بوڑھے لوگوں نے کہا،بے چاری ایمیلی ،کانا پھوسی شروع ہوگئی۔’’کیا تمہارے خیال میں یہی حقیقت ہے؟‘‘ وہ ایک دوسرے سے کہتے تھے،’’یقینی طور پر ایسا ہی ہے اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘اتوار کی دوپہر کی دھوپ کی وجہ سے کھڑکیوں پر پردے ڈالے لوگ اپنے اپنے گھروں میں ریشم اور ساٹن کا کپڑالے کر بیٹھے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں کپڑوں کی سرسراہٹ سنی جاسکتی تھی۔سڑک پر بگھی کی آواز اور گھوڑوں کے دلکی چال کی آواز گونجتی تھی۔’’بے چاری ایمیلی!‘‘
مس ایمیلی اپنی گردن کو تان کر چلتی تھی۔اس وقت بھی ہم سوچتے تھے کہ اسے محبت ہوگئی ہے۔جیسا کہ وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ قابل احترام بننا چاہ رہی ہو۔یاپھر وہ اس بارے میں یہ ظاہر کرنا چاہتی ہوکہ اسے سمجھنا بے حد مشکل ہے۔جیسا کہ وہ ایک مرتبہ آرسینک خرید لائی جو چوہوں کا زہر ہوتا ہے۔لوگوں کے’’بے چاری ایمیلی‘‘کہنے کے ایک سال سے اوپر ہوجانے کے بعد کا یہ واقعہ تھا۔اسی دوران اس کی دو رشتہ دار آئی ہوئی تھیں۔
’’میں کوئی زہر چاہتی ہوں۔‘‘اس نے کیمسٹ سے کہا۔تب وہ تیس سال کے آس پاس کی ایک کمزور عورت تھی۔پہلے سے بھی زیادہ دبلی۔اس کی آنکھیں کالی اورسرد ہوگئی تھیں۔چہرے کی چربی کانوں کے اوپری کناروں اور آنکھوں کے گڑھوں تک کھنچ آئی تھی۔لائٹ ہائوس کی دیکھ ریکھ کرنے والے کا چہرہ جیسے ہوسکتا ہے،ویسا ہی مس ایمیلی کا چہرہ تھا۔
’’میں کوئی زہر چاہتی ہوں۔‘‘اس نے کیمسٹ سے دوبارہ کہا۔
’’ضرور مس ایمیلی،کیا چاہئے؟چوہوں کا یا کوئی اور؟میں چاہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تمہارے پاس جو سب سے بہتر ہو۔وہ دے دو۔اس کے اقسام کی میں پرواہ نہیں کرتی۔‘‘
کیمسٹ نے بہت سے نام گنوائے۔’’وہ کسی بھی چیز کو ختم کرسکتا ہے،یہاں تک کہ ہاتھی کو بھی ۔لیکن آپ کو جوچاہئے،اس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’آرسینک،‘‘مس ایمیلی نے کہا،’’کیا یہ بہتر ہے؟‘‘
’’کیا،آرسینک ؟جی ہاں میڈم!لیکن آپ کو جو چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’مجھے آرسینک ہی چاہئے۔‘‘
کیمسٹ نے اسے سرتاپیر دیکھا۔اس نے بھی اسے پلٹ کردیکھا۔وہ بالکل مطمئن کھڑی تھی۔اس کا چہرہ تنے ہوئے جھنڈے کی طرح لگتا تھا۔’’کیوں،آخر کیوں؟‘‘کیمسٹ نے کہا۔’’مانا کہ آپ کو یہی چاہئے،لیکن قانون کے لحاظ سے آپ کو بتانا پڑے گا کہ اس کا استعمال آپ کس طرح کریں گی؟‘‘
مس ایمیلی اسے بس گھورتی رہی۔اس کا سر تھوڑا سا پیچھے جھک گیا۔تاکہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔وہ دوسری طرف دیکھنے لگا اور مڑا۔اس نے آرسینک نکالا اور پیک کردیا۔کائونٹر پر سامان رکھنے والے نیگرولڑکے نے یہ پیکٹ لاکر دیا۔کیمسٹ لوٹ کر نہیں آیا۔گھر پر مس ایمیلی نے پیکٹ کھولا۔ڈبے پر ایک کھوپڑی اور دو ہڈیوں کی تصویر کے نیچے لکھا تھا،’’چوہوں کے لیے۔‘‘
اس لیے اگلے روز ہم سب نے کہا،’’وہ خود کو ختم کرلے گی۔‘‘اور پھر ہم نے سوچا کہ یہی سب سے اچھا رہے گا۔ ہومر بیٹن کے ساتھ جب وہ پہلے پہل دیکھی گئی تھی۔ہم نے کہا،’’وہ اس سے شادی کرلے گی‘‘۔پھر ہم نے کہا،’’وہ ابھی اسے اور بھی پریشان کرے گی۔‘‘کیوں کہ ہومر نے خود کہا تھا کہ وہ آدمیوں کو پسند کرتا ہے۔اور سب کو پتہ تھا کہ اس نے ایلکو کے کلب میں لڑکوں کے ساتھ شراب پی تھی۔شاید نشے کی حالت میں وہ کہہ گیا تھا،کہ وہ شادی کرنے والاآدمی نہیں ہے۔
بعد میں اتوار کی دوپہر میں چمکتی ہوئی بگھی میں بیٹھ کر سڑک سے گزرتے ہوئے ہم سب نے پردوں کے پیچھے سے دیکھا اور کہا،’’بے چاری ایمیلی۔‘‘مس ایمیلی کا سر اونچا اور تنا ہوا تھا اور ہومر بیٹن اپنی کلغی والی ٹوپی پہنے ،دانتوں میں سگار ،پیلے دستانے ،ہاتھوں میں لگام اور چابک دبائے ہوئے۔
تب کچھ کچھ عورتوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ شہر والوں کی بے عزتی کا معاملہ ہے اور نوجوانوں پر اس کا برا اثر پڑے گا۔آدمی اس معاملے میں دخل اندازی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن عورتوں نے بیسپٹ منسٹر(ایمیلی کے لوگ ایپس کوپال تھے)کو مس ایمیلی سے بات کرنے کے لیے مجبور کیا۔اس بات چیت کے دوران کیا کچھ ہوا یہ راز اس منسٹر نے کبھی نہیں کھولا۔لیکن اس نے وہاں دوبارہ جانے سے انکار کردیاتھا۔اگلے اتوار کو مس ایمیلی اور ہومر بیٹن پھر سڑک پر دکھائی دیئے اور اس کے اگلے روز منسٹر کی بیوی نے البامہ میں مس ایمیلی کے رشتہ داروں کو خط روانہ کیا۔
اس طرح اس کے رشتے کی بہنیں پھر ایک بار پہنچ گئیں اور ہم انتظار کرنے لگے کہ اب آگے کیا ہوتا ہے؟پہلے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔تب ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ شادی کرنے والے ہیں۔ہمیں پتہ چلا کہ مس ایمیلی جوہری کی دکان میں گئی تھی اور اس نے سنگھار کے لیے چاندی کا سیٹ خریدا تھا جس کی ہر چیز پر اس نے ایچ بی کھدوایا۔دو دن بعد ہمیں پتہ چلا کہ وہ ان سب کپڑوں کو خرید لائی جو آدمی پہنتے ہیں۔ان میں نائٹ شرٹ بھی تھا۔اور ہم نے کہا،’’وہ شادی کرچکے ہیں۔‘‘ہمیں خوشی ہوئی تھی۔کیوں کہ رشتے کی دونوں بہنیں مس ایمیلی سے کچھ زیادہ ہی گریرسن ثابت ہوئی تھی۔
اس لیے ہمیں حیرت نہیں ہوئی۔جب ہومر بیٹن سڑکیں بن جانے کے بعد چلا گیا تھا۔ ہمیں ذرا سی مایوسی ہوئی۔لیکن کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ہم نے سوچا شاید وہ مس ایمیلی کو وہاں لے جانے کی تیاری کے لیے پہلے خود چلاگیا ہوگا۔یا پھر رشتے کی بہنوں نے اسے چھٹکاراپانے کا ایک موقع دیا ہوگا۔(اس کے بعد لوگوں کی ایک خفیہ میٹنگ ہوئی۔جس میں ان بہنوں کو گھیرنے کا منصوبہ بنایا گیا جیسا کہ ہم سب مس ایمیلی کے خیرخواہ تھے)وہ دونوں ایک ہفتے بعد لوٹ گئیں۔جو کہ طے شدہ تھا۔ اور جیسا کہ ہم اندازہ لگا رہے تھے،ہومر بیٹن شہر واپس آگیا۔ایک پڑوسی نے شام کے دھندلکے میں نیگرو کو اس کے لیے باورچی خانے کا دروازہ کھولتے ہوئے دیکھا۔
اور اس طرح ہم نے اس وقت آخری بار مس ایمیلی اور ہومر بیٹن کو دیکھا۔نیگروبازار کی ٹوکری لیے آتا جاتا،لیکن اصل دروازہ بند ہی رہتا۔کبھی کبھار چند لمحوں کے لیے ایمیلی کو ہم کھڑکی کے پاس دیکھ لیتے۔جس طرح سے کہ وہ تب دکھائی دی تھی جب چوناچھڑکنے کے لیے وہاں کچھ لوگ گئے تھے۔تقریباً چھ مہینوں تک وہ سڑک پر دکھائی نہیں دی۔پھر ہمیں محسوس ہوا کہ یہ بھی تو فطری بات تھی، اس کے والد کی وجہ سے اس کی زندگی میں کئی بار روڑے اٹکائے گئے اور وہ اس طرح بھیانک تھے کہ موت بھی آنے سے کتراتی تھی۔
اگلی بار جب مس ایمیلی دکھائی دی تو وہ موٹی ہوگئی تھی۔اور اس کے بال پک گئے تھے۔ آگے کچھ سالوں کے بعد بال پک کر سلیٹی ہوگئے تھے اور مڑنے لگے تھے۔آخر میں جب وہ مڑنا بند ہوگئے تو ان کا رنگ جگہ جگہ گہرا سلیٹی ہوگیا۔چوہتر برس کی عمر میں جب اس کی موت ہوئی تب بھی وہ بال کسی زندہ انسان کے بالوں کی طرح گہرے سلیٹی ہی تھے۔
تب سے اس کے گھر کا دروازہ بند رہا۔ان چھ سات برس کو چھوڑکر جس وقت وہ چالیس کے آس پاس تھی اور چینی پینٹنگ کی کلاس لیتی تھی۔نیچے کے کمروں میں سے ایک کو اس نے اسٹوڈیو میں تبدیل کرلیا تھا۔کرنل سارتورس کے ہم عصروں کی بیٹیاں اور پوتیاں پابندی کے ساتھ اس کی کلاس میں روانہ کی جاتیں۔اسی دوران اس کے سارے ٹیکس معاف کردیے گئے تھے۔
پھر نئی پیڑھی نے شہر کا انتظام سنبھالا۔اس وقت تک یہ نسل پینٹنگ سے دور ہوچکی تھی۔ اس لیے انھوں نے اپنے بچوں کو رنگ ڈبوں اور اکتادینے والے برشوں سے دور کردیا۔اور اس کے پاس بھیجنا بند کردیا۔تب سے سامنے کا دروازہ بند تھا،اور بند ہی رہا۔جب شہر میں مفت ڈاک تقسیم کرنے کا نظام رائج ہوا تب اکیلے مس ایمیلی نے اپنے دروازے پر دھات کے بنے باکس لگانے سے منع کردیا۔وہ کسی کی بات سنتی ہی نہیں تھی۔
دن بدن،ماہ در ماہ،سال در سال ہم نے نیگرو کو بوڑھا ہوتے ہوئے دیکھا اور خمیدہ کمر دیکھتے رہے۔ وہ بازار کی ٹوکری لیے آتا جاتا۔ہر دسمبر کو ہم مس ایمیلی کے نام ٹیکس کا نوٹس روانہ کرتے جو ڈاک کے ذریعے واپس آجاتا۔کبھی کبھار ہم اسے زینے کی کھڑکیوں میں دیکھ لیتے وہ کسی مجسمے کی طرح نظر آتی۔ایسا لگتا کہ وہ ہماری طرف دیکھ رہی ہے یا نہیں بھی۔طے کرنا مشکل تھا۔اس نے مکان کی اوپری منزل پر کنڈی چڑھا دی تھی۔اس طرح نسل در نسل سب کے ساتھ چلتی رہی۔ پیاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محبت کرنے والی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سخت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ضدی۔
اور اس طرح اس کی موت ہوگئی۔پرچھائیوں اور گرد سے اٹے مکان میں وہ بیمار پڑی ۔ اسے دیکھنے والااکلوتا شخص لزرتا کانپتا نیگرو تھا۔ہمیں تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ بیمار تھی۔ہم نے نیگرو سے معلومات حاصل کرنا بہت دنوں سے چھوڑدیاتھا۔وہ بھی کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ممکن ہے مس ایمیلی سے بھی نہیں۔کیوں کہ اس کی آواز کرخت ہوگئی تھی اور زنگ آلود ہوگئی تھی۔جیسا کہ اس کا غلط استعمال ہواہو۔
مس ایمیلی نے نیچے کے ایک کمرے میں رکھے اخروٹ کی لکڑی کے بھاری پلنگ پر آخری سانس لی۔اس پلنگ پر پردے لگے ہوئے تھے۔اس کا سلیٹی سر اس تکیے پرپڑا تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ اور سورج کی مناسب روشنی نہ ملنے کے سبب پیلا اور گندا ہوگیا تھا۔
وہاں سب سے پہلے پہنچنے والی عورتوں کو نیگرو سامنے والے دروازے پر ملا۔ اس نے انھیں اندر آنے دیا۔ان کی آوازیں گھٹی گھٹی نکل رہی تھیں۔وہ جلدی جلدی اور تجسس سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھیں۔انھیں اندر پہنچانے کے بعد نیگرو غائب ہوگیا۔وہ سیدھا مکان کے اندر گیا اور پچھلے دروازے سے باہر نکل گیا۔دوبارہ وہ دکھائی نہیں دیا۔
رشتے کی دونوں بہنیں جلد ہی پہنچ گئیں۔انھوں نے دوسرے روز آخری رسومات ادا کیں۔ پھولوں کے ڈھیر کے نیچے پڑی مس ایمیلی کو دیکھنے سارا شہر امڈ پڑاتھا۔تابوت کے پاس اسٹینڈ پر اس کے والد کا رنگین چہرہ فکر میں ڈوبا ہوا نظرا آرہا تھا۔عورتیں ماتم کررہی تھیں اور وہ عجیب لگ رہی تھیں۔کچھ بے حد بوڑھے لوگ پورچ اور برآمدے میں کھڑے تھے۔ان میں سے کئی اپنا ماتمی لباس پہنے ہوئے تھے۔وہ مس ایمیلی کے بارے میں باتیں کررہے تھے۔جیسے وہ ان کی ہم عصر رہی ہو۔وہ اس طرح ظاہر کررہے تھے جیسے انھوں نے اس کے ساتھ رقص کیا ہو یا پھر اس سے شادی کی پیشکش کی ہو۔وہ وقت کے احتساب میں کئی غلطیاں کررہے تھے جیسا کہ اکثر بوڑھے کرتے ہیں۔ جن کے لیے ماضی کوئی ختم ہو نے والی سڑک نہیں بلکہ ایک بڑا سا گھاس کا میدان ہے جسے سردی کبھی چھوبھی نہ پائے۔اس ماضی سے انھیں الگ کرکے رکھ دیا گیاتھا۔
ہمیں پہلے سے ہی علم تھا کہ سیڑھیوں کے اوپر وہاں ایک کمرہ ہے جسے چالیس برس سے کوئی نہیں دیکھ پایا تھا اور جسے اب کھلنا ہی تھا۔لوگوں نے اسے کمرے سے پہلے مس ایمیلی کی تدفین تک انتظار کیا۔
دروازہ توڑنے سے شوروغوغہ ہورہا تھا۔اسے توڑنے کی وجہ سے کمرے میں گرد و غبار اڑنے لگاتھا۔گرد کی ایک مہین تہہ جیسا کہ کسی مزار پر پڑی ہوتی ہے اس کمرے کی ہر ایک چیزپر جمی ہوئی تھی۔یہ کمرہ اس طرح سجا دھجا تھا جیسے کوئی شادی کا جشن ہو۔چاروں طرف دھول کی حکمرانی تھی۔ گلاب کی اڑی ہوئی رنگت والے جھالر دار پردوں پر،اسی رنگت کی روشنی پر،سنگھار دان پر، کرسٹل کے مجسمے پر اور چاندی کے زیورات پر،جن کی پالش ماند پڑچکی تھی۔یہاں تک کہ چاندی کا مونوگرام بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ان چیزوںکے درمیان ایک کالر اور ٹائی بھی پڑی ہوئی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ انھیں تھوڑی ہی دیر قبل ہٹایا گیا ہے۔ انھیں جب اٹھایا گیا تو اس جگہ جمی ہوئی گرد سے آدھے چاند کی تصویر بن گئی تھی۔کرسی پر سوٹ لٹکا ہوا تھا،اچھی طرح تہہ کیاہوا۔ کرسی کے نیچے ایک جوڑی ہلکے جوتے اور الگ پڑے ہوئے موزے تھے۔
آدمی خود بستر پر لیٹا تھا۔
کافی دیر تک ہم حواس باختہ کھڑے رہے۔انتہائی گہری اور زندگی سے معمور مسکان پر نظر گڑائے۔یہ بات طے تھی کہ وہ کسی کو بانہوں میں بھرنے والی حالت میں پڑاتھا۔لیکن اب اسے ابدی نیند نے جالیا تھا۔جو محبت سے بھی زیادہ ثبات رکھتی تھی اور اس کے انکار کو بھی پیچھے چھوڑسکتی تھی۔ جو کچھ بھی اس کے ختم ہوچکے بدن اور گائون میں بچا تھا وہ اس بستر سے بری طرح چپک گیا تھا جس پر وہ لیٹا تھااور اس کے اوپر اور اس کی بغل میں پڑے تکیے کے اوپر انتظارکے گرد وغبار کی دبیز تہہ جم گئی تھی۔پھر ہماری نظر دوسرے تکیے پر کسی کے سر رکھنے سے بنے گڑھے پر پڑی۔ہم میں سے کسی نے اس تکیے سے کچھ اٹھایا اور ہم سب آگے بڑھ کر اسے دیکھنے کے لیے جھکے۔وہ ایک لمبا،گہرے سلیٹی رنگ کا بال تھا جو بے جان تھا اور دھول سے اٹا ہوا۔اس سے تیز بو آرہی تھی۔
٭٭٭

ولیم فاکنر ۱۸۹۷ء میں مسیسیپی ،امریکہ میںپیدا ہوئے اور ۱۹۶۱ء میں انتقال فرمایا۔ انہیں ۱۹۴۹ء میں نوبل انعام دیا گیا۔انھوں نے زندگی کو بے حد قریب سے دیکھا تھا۔وہ مختلف کاموں سے وابستہ رہے۔فوجی بنے،کتابوں کی دکان میں نوکری کی،پوسٹ ماسٹر رہے ساتھ ہی بڑھئی کا کام بھی کیا۔گھروں میں رنگ و روغن کرتے رہے۔کچھ عرصے تک ہالی ووڈ کی فلموں کے اسکرپٹ بھی قلمبند کرتے رہے۔ ’’سینکچوری‘‘ناول پر انہیں نوبل سے نوازا گیا۔ان کی تصانیف میں دَ ماربل فان،سولجرس پے،مسکیو روز، دَ سائونڈاینڈ فیوری،سارٹریج،ایچ آئی لے ڈائنگ،لائن اِن اگست،دَ آن وین کوشڈ وغیرہ ہیں۔

 

Cobbler a Short Story by John Galsworthy

Articles

موچی

جان گالزوردی

میں اسے تب سے جانتا تھا،جب میں بہت چھوٹا تھا۔وہ میرے ابو کے جوتے بناتا تھا۔ چھوٹی سی ایک گلی میں دو دکانیں ملاکر انھیں ایک دکان میں کردیا گیا تھا۔مگر اب وہ دکان نہیں رہی،اس کی جگہ ایک بے حد جدید طرز کی دکان تیار ہوگئی ہے۔
اس کی کاریگری میں کچھ خاص بات تھی۔شاہی خاندان کے لیے تیار کیے گئے کسی بھی جوتے کی جوڑی پر کوئی نشان نہیں ہوتاتھاسوائے ان کے اپنے جرمن نام کے’’گیسلربردرس‘‘ اور کھڑکی پر جوتوں کی صرف چند جوڑیاں رکھی رہتیں۔مجھے یاد ہے کھڑکی پر ایک ہی طرح کی جوڑیوں کو باربار دیکھنا مجھے کھَلتا تھا،کیوں کہ وہ آرڈر کے مطابق ہی جوتے بناتاتھا۔نہ کم نہ زیادہ۔اس کے تیار کیے ہوئے جوتوں کے بارے میں یہ سوچنا غیر تصوراتی تھا کہ وہ پائوں میں ٹھیک سے نہیں آئیں گے؟ تو کیا کھڑکی پر رکھے جوتے اس نے خریدے تھے۔یہ سوچنا بھی تصور سے دور تھا۔وہ اپنے گھر میں ایسا کوئی چمڑا رکھنا برداشت نہیں کرتا تھا جس پر وہ بذاتِ خود کام نہ کرے۔اس کے علاوہ پمپ شو کا وہ جوڑا بے حد خوبصورت تھا،اتنا شاندار کہ بیان کرنا مشکل تھا۔وہ اصل چمڑے کا تھا جس کی اوپری تہہ کپڑے کی تھی۔انھیں دیکھ کر ہی جی للچانے لگتا تھا۔اونچے اونچے بھورے چمکدار جوتے،حالانکہ نئے تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں برسوں سے پہنے جارہے ہوں۔واقعی جوتوں کا وہ جوڑا ایک مثالی نمونہ تھا۔جیسے تمام جوتوں کی روح اس میں منتقل ہوگئی ہو۔
دراصل یہ سارے خیالات میرے ذہن پر بعد میں ابھرے۔حالانکہ جب میں صرف چودہ برس کاتھا،تب سے اسے جانتا تھا اور اسی وقت سے میرے دل میں اس کے اور اس کے بھائی کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوچکا تھا۔ایسے جوتے بنانا جیسے وہ بناتا تھا تب بھی اور اب بھی میرے لیے ایک عجوبہ یا حیرت انگیز بات تھی۔
مجھے بخوبی یاد ہے،ایک دن میں نے اپنا چھوٹا سا پیر آگے بڑھاکر شرماتے ہوئے اس سے پوچھا تھا،’’مسٹر !کیا یہ بہت مشکل کام نہیں ہے؟‘‘
جواب دیتے وقت سرخی مائل داڑھی سے ایک مسکان ابھر آئی تھی،’’ہاں، یہ مشکل کام ہے۔‘‘
چھوٹے قد کا وہ آدمی جیسے بذات خود چمڑے سے بنایا گیا ہو،اس کا زرد چہرہ جھریوں بھرا چہرہ اور سرخی مائل گھنگھرالے بال اور داڑھی،رخساروں سے اس کے منہ تک دائروی شکل میں ابھری چہرے کی لکیریں،گلے سے نکلی ہوئی بھاری بھرکم آواز۔چمڑہ ایک نافرمان چیز ہے۔سخت اور آہستہ آہستہ آکار لینے والی چیز۔اس کے چہرے کی بھی یہی خاصیت تھی۔اپنے آدرش کو اپنے اندر پوشیدہ رکھے ہوئے،محض اس کی آنکھیں اس سے عاری تھیں۔جو بھوری نیلی تھیں اور جن میں ایک سادگی بھری گہرائی تھی۔
اس کا بڑا بھائی بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا،بلکہ اس کا رنگ کچھ زیادہ زردی مائل تھا۔ شروعات میں میرے لیے دونوں میں فرق کرپانا دشوار مرحلہ تھا۔پھرمیری سمجھ میں آگیا۔جب کبھی میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا،ایسا نہیں کہا جاتا تو میں جان لیتا تھا کہ یہ وہی ہے اور یہ الفاظ دہرائے جاتے تو یقیناً وہ اس کا بڑا بھائی ہوتا۔
کئی بار برسوں بیت جاتے اور بل میں اضافہ ہوتا جاتا،مگر گیسلر بھائیوں کی رقم کوئی بقایا نہیں رکھتا تھا۔ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس نیلے فریم کے چشمے والے جوتاساز کا کسی پر دو جوڑیو ں سے زیادہ رقم باقی ہو۔اس کے پاس جانا ہی طمانیت کا احساس جگا دیتا تھا کہ ہم بھی اس کے گاہک ہیں۔
اس کے پاس باربار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی،کیوں کہ اس کے بنائے جوتے بہت مضبوط ہوتے تھے،ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔وہ جوتے ایسے ہوتے جیسے جوتوں کی روح ان کے اندرسِل دی گئی ہو۔
وہاں جانا کسی عام دکان پر خریداری کرنے کے مترادف نہیں تھا۔ایسا قطعی نہیں تھا کہ آپ دکان میں داخل ہوئے اور بس کہنے لگیں کہ،’’ذرا مجھے یہ دکھائو‘‘ یا ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر اٹھے اور چل دیئے۔یہاں پورے اطمینان کے ساتھ جانا پڑتا تھا،بالکل اسی طرح جیسے کسی گرجا گھر میں داخل ہواجاتا ہے۔پھر اس کی اکلوتی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کریں،کیوں کہ اس وقت وہاں کوئی نہیں ہوتا۔جلدی ہی چمڑے کی بھینی بھینی بو اور تاریکی سے بھری اوپر کی کنوئیں نما کوٹھری سے اس کا یا اس کے بڑے بھائی کا چہرا نیچے جھانکتا ہوا نظر آتا۔ایک بھاری بھر کم آواز اور لکڑی کی تنگ سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔پھر وہ آپ کے سامنے کھڑاہوتا،بنا کوٹ کے تھوڑا جھکا جھکا سا،چمڑے کا ایپرن پہنے ،آستین اوپر چڑھائے،آنکھیں اور پلکیں جھپکاتے ہوئے جیسے اسے جوتوں کے خوبصورت خواب سے جگایا گیا ہو یا جیسے وہ الّو کی طرح دن کی روشنی سے حیرت زدہ اور خواب میں خلل کی وجہ سے جھنجھلایا ہوا ہو۔
میں اس سے پوچھتا،ــ  کیسے ہو بھائی گیسلر؟کیا تم میرے لیے روسی چمڑے سے ایک جوڑی جوتے بنا دوگے؟‘‘
بنا کچھ کہے وہ دکان کے اندر چلا جاتا اور میں اسی لکڑی کی کرسی پر آرام سے بیٹھ کر اس کے پیشے کی بو اپنی سانسوں میں اتارتارہتا۔کچھ ہی دیر بعد وہ لوٹتا ۔اس کے کمزور اور اُبھری ہوئی نسوں والے ہاتھوں میں گہرے بھورے رنگ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا۔اس کی آنکھیں اس پر گڑی رہتیں اور وہ کہتا،’’کتنا خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘جب میں بھی اس کی تعریف کردیتا تو وہ سوال کرتا، آپ کو جوتے کب تک چاہیے؟‘‘اور میں کہتا،’’اوہ،بنا کسی دقت کے جتنی جلد ممکن ہوسکے بنا کردے دو۔‘‘ اور پھر وہ سوالیہ انداز میں کہتا،’’کل دوپہر؟‘‘یا اگر اس کا بڑا بھائی ہوتا تو وہ کہتا،’’میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا۔‘‘
پھر میں آہستہ سے کہتا ،’’شکریہ مسٹر گیسلر،اب اجازت ،خدا حافظ۔‘‘
’’خدا حافظ!‘‘وہ کہتا۔مگر اس کی نگاہ ہاتھ تھامے ہوئے چمڑے پر ہی ٹکی رہتیں۔میں دروازے کی جانب مڑتا۔مجھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی۔ جو اسے جوتوں کی اسی خوابوں بھری دنیا میں لے جاتی۔مگر ایسا کوئی نیا جوتا بنوانا ہو،جو اس نے ابھی تک میرے لیے نہ بنایا ہو تو وہ جیسے مخمصے میں پڑجاتا۔مجھے میرے جوتے سے آزاد کرکے دیر تک ہاتھ میں لے کر اس جوتے کو دیکھتا رہتا۔مسلسل شفقت بھری پارکھی نظروں سے نہارتا رہتا۔جیسے اس گھڑی کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو جب بڑے جتن سے انھیں بنایا گیا تھا۔اس کے ہائو بھائو میں کرب جھلکتا تھا کہ آخر کس نے اس قدر عمدہ نمونے کو اس حال میں پہنچایا ہے۔پھر کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میرا پیر رکھ کر وہ پینسل سے دوتین بار پیر کے گھیرے کانشان بناتا،اس کی حرکت کرنے والی انگلیاں میرے انگوٹھے اور پیروں کو چھوتی رہتیں،جیسے میں نے یوں ہی اس سے کہہ دیا،’’بھائی گیسلر،آپ کو پتہ ہے، آپ نے جو پچھلا جوتا بناکر دیا تھا،وہ چرمراتاہے۔‘‘
کچھ کہے بغیر اس نے پل بھر میری طرف دیکھا،جیسے امید کررہا ہو کہ یاتو میں اپنا جملہ واپس لے لوں یا اپنی بات کا ثبوت پیش کروں۔
’’ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘وہ بولا۔
’’ہاں مگر ایسا ہواہے۔‘‘
’’کیا تم نے انھیں بھگویا تھا؟‘‘
’’میرے خیال سے تو نہیں۔‘‘
یہ سن کر اس نے اپنی نظریں جھکالیں۔جیسے وہ ان جوتوں کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو، مجھے بے حد افسوس ہواکہ میں نے یہ بات کیوں کہہ دی۔
’’جوتے واپس بھیج دو۔میں دیکھوں گا۔‘‘وہ بولا۔
اپنے چرمراتے ہوئے جوتوں کے بارے میں میرے اندر رحم دلی کے جذبات ابھر آئے۔ میں بخوبی تصور کرسکتا تھا کہ دکھ بھری طویل بے چینی کے ساتھ نہ جانے کتنی دیر تک وہ ان کی مرمت کرے گا؟
’’کچھ جوتے۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’پیدائشی خراب ہوتے ہیں،اگرانھیں درست نہ کرسکا تو آپ کے بل میں اس کے پیسے نہیں جوڑو ں گا۔‘‘
اک بار ،محض ایک ایک بار میں اس کی دکان میں بے خیالی سے ایسے جوتے پہن کر چلاگیا جو جلد بازی کی وجہ سے کسی مشہور دکان سے خرید لیے تھے۔اس نے بنا کوئی چمڑا دکھائے میرا آرڈر لے لیا۔میرے جوتوں کی گھٹیا بناوٹ پر اس کی آنکھیں ٹکی ہوئی تھیں۔میں اس بات کو محسوس کررہا تھا۔آخر اس سے رہا نہ گیا اور وہ بول اٹھا،’’یہ میرے بنائے ہوئے جوتے تو نہیں ہیں؟‘‘
اس کے لہجے میں نہ غصہ تھا نہ دکھ کا اظہار نہ نفرت کے جذبات۔مگر کچھ ایسا ضرور تھا، جو لہو کو سرد کردے۔اس نے ہاتھ اندر ڈال کر انگلی سے بائیں جوتے کو دبایا،جہاں جوتے کو فیشن ایبل بنانے کے لیے غیر ضروری کاریگری کی گئی تھی۔مگر وہاں وہ جوتا کاٹتا تھا۔
’’یہاں،یہ آپ کو کاٹتا ہے نا؟‘‘اس نے پوچھا،’’یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں انھیں عزت کا پاس نہیں ہوتا۔‘‘پھر جیسے اس کے دماغ میں کچھ بیٹھ گیا ہو،وہ زورزور سے کڑواہٹ بھرے لہجے میں بولنے لگا۔یہ پہلی مرتبہ تھا،جب میں نے اسے اپنے پیشے سے پیدا ہونے والے نا گفتہ با حالات اور دقتوں کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا۔’’انھیں سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘اس نے کہا،’’ وہ کام کے بوتے پر نہیں،بلکہ اشتہار کے بوتے پر سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں۔وہ ہمارے گاہک چھین لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج میرے پاس کام نہیں ہے۔‘‘اس کی جھریوں سے بھرے چہرے پر میں نے وہ سب دیکھا جو کبھی نہیں دیکھا تھا۔بے انتہا تکلیف،کڑواہٹ اور جدوجہد۔اچانک اس کی سرخ مائل داڑھی میں سفیدی لہرانے لگی تھی۔
اپنی جانب سے میں اتناکرسکتا تھا کہ اسے حالات روشناس کراتا۔جس کی بنا پر میں اس گھٹیا جوتوں کو خریدنے پر مجبور ہوگیاتھا۔مگر ان چند لمحات میں اس کے چہرے اور آواز نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے کئی جوڑی جوتوں کے بنانے کا آرڈر دے دیا اور اس کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ جوتے گھسنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔تقریباً دو برس تک میں وہاں نہ جاسکا۔
آخر جب میں گیا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس کی دکان کی دو چھوٹی کھڑکیوں میں سے ایک کھڑکی کے باہر کسی دوسرے کے نام کا بورڈ آویزاں ہوگیا تھا۔وہ بھی جوتے بنانے والا ہی تھا۔ شاہی خاندان کے جوتے۔اب صرف ایک کھڑکی پر وہی جانے پہچانے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ وہ الگ سے نہیں لگ رہے تھے۔اندر بھی،دکان کی وہ کنوئیں نما کوٹھری پہلے کی بہ نسبت زیادہ تاریک اور بو سے اٹی ہوئی لگ رہی تھی۔اس بار ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔کافی دیر بعد وہی چہرہ نیچے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔پھر چپلوں اور قدموں کی آواز گونجنے لگی۔آخر وہ میرے روبرو تھا، زنگ آلود ٹوٹے پرانے چشمے میں سے جھانکتا ہوا۔اس نے پوچھا،ــ’’آپ مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں نا؟‘‘
’’ہاں مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا،’’کیا بتلائوں،آپ کے جوتے اتنے اچھے ہیں کہ گھستے ہی نہیں۔دیکھیے یہ جوتے بھی ابھی تک چل رہے ہیں۔‘‘اور میں نے اپنا پیر آگے بڑھادیا۔اس نے انھیں دیکھا۔
’’ہاں۔‘‘وہ بول اٹھا۔’’مگر لگتا ہے لوگوں کو اب مضبوط جوتوں کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘
اس کی طنز بھری نظروں اور آواز سے نجات پانے کے لیے میں نے فوراً کہا،’’یہ تم نے اپنی دکان کو کیا کر ڈالا ہے؟‘‘۔اس نے اطمینان سے کہا،’’بہت مہنگا پڑرہا تھا۔کیا آپ کو جوتے چاہیے؟‘‘
میں نے تین جوڑی جوتوں کا آرڈر دیا۔حالانکہ مجھے ضرورت صرف دو جوڑی جوتوں کی ہی تھی اور جلدی سے میں وہاں سے باہر نکل آیا۔نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ اس کے ذہن میں کہیں یہ بات ہے کہ اسے یا سچ کہیں تو اس کے جوتوں سے متعلق جو سازش رچی جارہی ہے اس میں میں بھی شامل ہوں۔یوں بھی کوئی ان چیزوں کی اتنی پروا نہیں کرتا۔مگر پھر ایسا ہوا کہ میں کئی مہینوں تک وہاں نہیں گیا۔جب میں وہاں گیا تو میرے ذہن میں بس یہی خیال تھا،اوہ!میں بھلااس بوڑھے کو کیسے چھوڑسکتا ہوں۔شاید اس بار اس کے بڑے بھائی سے سامنا ہوجائے۔
میں جانتا تھا کہ اس کا بڑا بھائی تیکھے لہجے میں یا نفرت آمیز لہجے میں بات نہیں کرسکتا۔
واقعی دکان میں جب مجھے بڑے بھائی کی شبیہہ دکھائی دی تو میں نے راحت محسوس کی۔ وہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر کام کررہا تھا۔
’’ہیلو مسٹر گیسلر کیسے ہیں آپ؟‘‘میں نے پوچھا۔وہ اٹھا اور غور سے مجھے دیکھنے لگا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’مگر میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا۔‘‘
تب میں نے دیکھا کہ یہ تو وہ خود تھا۔کتنا بوڑھا اور کمزور ہوگیا تھا۔اس سے پہلے میں نے کبھی اسے اپنے بڑے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔مجھے بڑا دکھ ہوا۔میں نے آہستہ سے کہا، ’’یہ تو بہت ہی برا ہوا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘وہ بولا،’’وہ نیک دل انسان تھا،اچھے جوتے بناتا تھا،مگر اب وہ نہیں رہا۔‘‘پھر اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا،جہاں سے اچانک اس کے بہت زیادہ بال جھڑگئے تھے۔اس کے بدقسمت بھائی کی طرح۔مجھے محسوس ہوا شاید وہ اس طرح اپنے بھائی کی موت کا سبب بتارہا تھا۔ ’’بھائی اس دوسری دکان کو کھودینے کا غم برداشت نہیں کرپایا۔خیر،کیا آپ کو جوتے چاہیے؟‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمڑہ اٹھاکر دکھایا۔’’یہ بہت خوبصورت ٹکڑاہے!‘‘
میں نے کئی جوتوں کاآرڈر دیا۔بہت دنوں بعد مجھے وہ جوتے ملے جو بے حد شاندار تھے۔ انھیں بڑے سلیقے سے پہنا جاسکتا تھا۔اس کے بعد میں بیرون ملک چلا گیا۔
لوٹ کر لندن آنے میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت گزرگیا۔لوٹنے کے بعد سب سے پہلے میں اپنے اسی بوڑھے دوست کی دکان پر گیا۔میں جب گیا تھا وہ ساٹھ برس کا تھا۔اب جسے میں دیکھ رہا تھا وہ پچھہتر سے بھی زیادہ کا دکھائی دے رہا تھا۔بھوک سے بے حال،تھکا ماندا،خوفزدہ اور اس بار واقعی اس نے مجھے نہیں پہچانا۔
’’اور مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کہا۔دل ہی دل میں دکھی تھا،’’تمھارے جوتے تو واقعی کمال کے ہیں!دیکھو ،میں بیرونِ ملک یہی جوتے پہنتا رہا اور اب بھی یہ اچھی حالت میں ہیں۔ ذرا بھی خراب نہیں ہوئے ہیں،ہیں نا؟‘‘
بڑی دیر تک وہ جوتوں کو دیکھتا رہا۔روسی چمڑے سے بنے ہوئے جوتے۔اس کے چہرے پر ایک چمک سی لوٹ آئی۔اپنا ہاتھ جوتے کے اوپری حصے میں ڈالتے ہوئے وہ بولا۔’’کیا یہاں سے کاٹتے ہیں؟مجھے یاد ہے ان جوتوں کو بنا نے میں مجھے کافی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘
میں نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہر طرح سے بہترین ہیں۔ذرا بھی تکلیف نہیں دیتے۔
’’کیا آپ کو جوتے بنوانے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا،میں جلد ہی بناکر دوں گا،یوں بھی مندی کا دور چل رہا ہے۔‘‘
’’میں بالکل نئے ماڈل کے جوتے بنائوں گا۔آپ کے پیر تھوڑے بڑے ہوگئے۔‘‘ اور آہستگی سے اس نے میرے پائوں کو ٹٹولا اور انگوٹھے کو محسوس کیا۔اس دوران صرف ایک بار اوپر دیکھ کر وہ بولا،’’کیا میں نے آپ کو بتایا کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘
اسے دیکھنا بڑا تکلیف دہ تھا،وہ بہت کمزور ہوگیا تھا،باہر آکر میں نے راحت محسوس کی۔
میں ان جوتوں کی بات بھول ہی چکا تھا کہ ایک شام اچانک وہ آپہنچے۔جب میں نے پارسل کھولا تو ایک کے بعد ایک چار جوڑی جوتے نکلے۔بناوٹ،آکار،چمڑے کی کوالیٹی اور فٹنگ ہر لحاظ سے اب تک بنائے گئے جوتوں سے بہتر اور لاجواب۔عام موقع پر پہنے جانے والے جوتے میں مجھے اس کا بل ملا۔اس نے ہمیشہ کی طرح ہی دام لگایا تھا۔مگر مجھے تھوڑادھکالگا۔کیوں کہ وہ کبھی تین ماہ کی آخری تاریخ سے قبل بل نہیں بھیجتا تھا۔میں دوڑتے ہوئے نیچے گیا،چیک بنایا اور فوراً پوسٹ کردیا۔
ایک ہفتے بعد میں اس راستے سے گزر رہا تھا تو سوچا کہ اسے جاکر بتائوں کہ اس کے جوتے کتنے شاندار اور بہترین ناپ کے بنے ہیں۔مگر جب میں وہاں پہنچا جہاں اس کی دکان تھی تو اس کا نام غائب تھا۔کھڑکی پر اب بھی وہی سلیقہ دار پمپ شو رکھے ہوئے تھے۔اصل چمڑے کے اور کپڑے کی اوپری تہہ والے۔
بے چین ہوکر میں اندر گیا،دونوں دکانوں کو ملاکر دوبارہ ایک دکان کردی گئی تھی۔ایک انگریز نوجوان ملا۔’’مسٹر گیسلر اندر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔
’’نہیں سر۔‘‘وہ بولا،’’نہیں،مسٹر گیسلر نہیں ہیں۔مگر ہم ہر طرح سے آپ کی خدمت کرسکتے ہیں،یہ دکان ہم نے خریدلی ہے،آپ نے باہر ہمارا بورڈدیکھا ہوگا۔ہم نامی گرامی لوگوں کے لیے جوتے بناتے ہیں۔‘‘
’’ہاں،ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’مگر مسٹرگیسلر؟‘‘
’’اوہ!‘‘وہ بولا،’’ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘
’’کیا ،انتقال ہوگیا؟مگر انھوں نے مجھے پچھلے ہفتے ہی تو یہ جوتے بھیجے تھے۔‘‘
’’اوہ!بے چارہ بوڑھا،بھوک سے ہی مرگیا۔‘‘اس نے کہا۔’’بھوک سے آہستہ آہستہ موت،ڈاکٹر یہی کہتے ہیں!آپ جانتے ہیں وہ دن رات بھوکا رہتا تھا اور کام کرتا تھا۔اپنے علاوہ کسی کو بھی جوتوں پر ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔جب اسے آرڈر ملتا تو اسے پورا کرنے میں رات دن ایک کردیتا۔اب لوگ بھلا کیوں انتظار کرنے لگے۔اس کے سبھی گاہک چھوٹ گئے تھے۔وہ وہاں بیٹھا لگاتار کام کرتا رہتا۔وہ کہتا کہ پورے لندن میں اس سے بہتر جوتے کوئی نہیں بناتا۔ اس کے پاس بہترین چمڑا تھا مگر وہ اکیلا ہی سارا کام کرتا تھا۔خیر!چھوڑیئے اس طرح کے آدرش میں کیا رکھا ہے۔‘‘
’’مگر بھوک سے مرجانا؟‘‘
’’یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر میں جانتا ہوں دن رات اپنی آخری سانس تک وہ جوتوں پر لگا رہا۔انھیں دیکھتا رہتا۔اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ سب کچھ گروی رکھ دیا تھا۔مگر اس نے چمڑا نہیں چھوڑا۔نہ جانے کس طرح وہ اتنے دن زندہ رہا۔وہ مسلسل فاقے کرتا رہا۔وہ ایک عجیب انسان تھا، مگر ہاں،وہ جوتے بہت عمد ہ بناتا تھا۔‘‘
’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’وہ عمدہ جوتے بناتا تھا۔‘‘

٭٭٭

اس کہانی کو معروف مترجم قاسم ندیم نے ’اردو چینل‘ کے لیے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔

جان گالزوردی ۱۹۶۷ء میں انگلینڈ کے شہر کِنگسٹن میں پیدا ہوئے اور ۱۹۳۳ء میں انتقال کرگئے۔انہیں’’دَفورسائٹ ساگا‘‘کے لیے نوبل سے نوازا گیا۔ان کے سترہ ناول،چھبیس ڈرامے اور افسانے بارہ جلدوں میں شائع ہوئے ہیں۔انہوں نے نظمیں بھی تخلیق کی ہیں۔لیکن وہ ناولوں کے لیے مشہور ہیں۔ان کی تصانیف میں دَ آئی لینڈ فیری سیز،دَ مین آف پراپرٹی،دَ ڈارک فلور،اِن چانسری، ٹولیٹ،لائلٹیز،دَ وہائٹ سنکی،دَ سلور باکس وغیرہ ہیں۔

Kawwoon se Dhaka AAsman by Anwar Khan

Articles

کوّوں سے ڈھکا آسمان

انور خان

آسمان ان گنت سیاہ بھجنگ کووں سے ڈھکا تھا۔ وہ لوگ آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ان کے اطراف میں بےشمار عمارتیں تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔

’’بڑی سردی ہے، ‘‘ ایک نے کہا۔

’’اور ہوا بھی ایسی تیز،‘‘ دوسرے نے کہا۔

’’جیسے رامپوری چاقو ہڈیوں میں اتر رہا ہو،‘‘ تیسرے نے بات پوری کی۔

’’سنتے ہیں دن بھی نکلنے کا نہیں،‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔

’’یہ تم سے کس نے کہا؟‘‘ پہلا آدمی پریشان ہو کر بولا۔

’’شہر میں ایسی افواہیں ہیں،‘‘ وہ آدمی بولا۔

’’بھلا ایسا ہو سکتا ہے؟‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔

’’ایسا نہیں ہو سکتا،‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔

’’آگ دھیمی ہو رہی ہے،‘‘ چوتھا آدمی بولا۔

’’ہمارے پاس ابھی اور لکڑیاں ہیں۔‘‘

’’اس شہر کی سڑکیں اس قدر صاف ہیں۔ کہیں کاغذ، لکڑی یا کوئی ایسی چیز نہیں ملتی جسے جلا کر آدمی خود کو گرم رکھ سکے۔‘‘

’’آگ رات بھر جل سکے گی؟‘‘

’’کیا پتا۔‘‘

’’اور ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ رات کتنی لمبی ہے۔‘‘

’’رات تو کاٹنی ہی ہو گی۔‘‘

’’چاہے رات کتنی ہی لمبی ہو۔‘‘

وہ چپ ہو گئے اور دیر تک چپ رہے۔ آسمان ان گنت کووں سے ڈھکا تھا۔ تیز سرد ہوا رامپوری چاقو کی طرح ہڈی میں اترتی تھی۔ اطراف میں بلند عمارتیں تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔

قدموں کی چاپ سن کر انھوں نے سر اٹھایا۔ ایک دبلاپتلا، کھچڑی سے بالوں والا آدمی ان کی طرف آ رہا تھا۔ وہ آدمی آگ کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔

’’کون ہو تم ؟ کیا کرتے ہو؟‘‘

’’پردیسی ہوں۔ کہانیاں جمع کرتا ہوں،‘‘ اس نے نرم لہجے میں جواب دیا۔

’’کہانی؟‘‘ ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔

’’پردیسی کوئی کہانی سناؤ کہ رات کٹے۔‘‘

’’میرے پاس کوئی کہانی نہیں،‘‘ اس نے کہا۔

’’ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’میں شہر کے تقریباً ہر آدمی سے مل چکا ہوں۔‘‘

’’کسی کے پاس کوئی کہانی نہیں؟‘‘ پہلے آدمی نے پوچھا۔

اس نے نفی میں سر ہلایا۔

’’مجھے تو یقین نہیں آتا،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔

’’مجھے بھی یقین نہیں آتا،‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔

’’لیکن یہ سچ ہے! ‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔

’’یہ سچ ہے؟‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔

’’ہاں یہ سچ ہے، ‘‘ کہانی جمع کرنے والے نے کہا۔

’’مجھے یقین نہیں آتا،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔

’’مجھے بھی یقین نہیں آتا،‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔

’’کسی مکان میں روشنی نظر نہیں آتی،‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔

’’ہاں ایک بھی کمرے میں روشنی نہیں ہے،‘‘ دوسرے نے غور سے اپنے اطراف دیکھتے ہوے کہا۔

’’شہر کی بجلی فیل ہو گئی ہے،‘‘ کہانی جمع کرنے والا بولا۔

’’بجلی فیل ہو گئی ہے؟‘‘ پہلا آدمی آگ میں گرتے گرتے بچا۔

’’بجلی فیل ہو گئی؟‘‘ دوسرا آدمی ہڑبڑایا۔

’’کیا یہ سچ ہے کہ اب صبح نہیں ہو گی؟‘‘

’’ہاں، میں نے ایسا ہی سنا ہے،‘‘ اس نے کہا۔

’’آگ دھیمی ہو رہی ہے،‘‘ پہلا آدمی بولا۔

’’اور لکڑیاں جمع کرنی چاہییں۔‘‘

دوسرا آدمی اٹھ کر اطراف میں ایسی چیز تلاش کرنے لگا جس کو جلایا جا سکے۔ کچھ دیر بعد وہ مایوس ہو کر لوٹ آیا اور آگ کے پاس بیٹھ گیا۔

’’سالی اس شہر کی مو،نسپلٹی اس قدر واہیات ہے، سڑک پر ایک تنکا بھی نہیں ہے۔‘‘

’’آگ دھیمی ہو رہی ہے،‘‘ کہانی جمع کرنے والا بولا۔

کافی دیر وہ خاموش بیٹھے رہے۔ جب آگ بہت ہی دھیمی ہو گئی تو پہلے آدمی نے کپڑے اتار کر آگ میں جھونک دیے۔سب نے آگ میں اپنے کپڑے جھونک دیے۔ کہانی جمع کرنے والے نے بھی۔

’’پتا نہیں کتنی رات باقی ہے!‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔

’’کیسے کٹے گی یہ رات؟‘‘ چوتھا آدمی بولا۔

’’کیوں نہ ہم کہانی بنائیں۔‘‘

’’ہا! ‘‘ سب کے منھ سے نکلا۔‘‘ کتنی مزیدار بات۔‘‘

’’تو پہلے تم ہی شروع کرو،‘‘ پہلا آدمی بولا۔

’’گلابی صبح،‘‘ کہانی جمع کرنے والا کچھ سوچ کر بولا۔

’’ہنستا بچہ،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔

’’شرماتی لڑکی،‘‘ دوسرے آدمی نے کہا۔

’’پھونس کا مکان،‘‘ تیسرے آدمی نے کہا۔

’’مٹھی بھر چاول،‘‘ چوتھے آدمی نے کہا۔

’’مچھلی کا شوربہ،‘‘ پہلے آدمی نے کہا۔

’’کافی کا پیالہ،‘‘ دوسرا آدمی بولا۔

’’روئی کی دُلائی،‘‘ تیسرا آدمی بولا۔

سب ہنس پڑے۔

آسمان ان گنت سیاہ بھجنگ کووں سے ڈھکا تھا اور تیز سرد ہوا رامپوری چاقو کی طرح ہڈیوں میں اترتی تھی۔ اطراف کی بلند عمارتوں کی کھڑکیاں اور دروازے بند تھے۔ اور وہ دوہرا رہے تھے: گلابی صبح، ہنستا بچہ، شرماتی لڑکی، پھونس کا مکان، مٹھی بھر چاول، مچھلی کا شوربہ ، کافی کا پیالہ، روئی کی دلائی۔

آسمان دھواں دھواں ہوا اور فضا کووں کی کائیں کائیں سے پٹ گئی۔ ملوں کے بھونپو بجے۔ پھر ایک موٹا سا آدمی بنیان اور نیکر پہنے گیلری میں آ کر دانت مانجھتا کھڑا ہوا۔ ایک عورت اپنے بال سمیٹتی آئی اور ایک ادھوری انگڑائی لے کر لوٹ گئی۔ نوکر چاکر دودھ کی بوتلیں، ڈبل روٹی، مکھن، سبز ترکاریاں خریدنے نکلے۔ پھر ایک بس سڑک پر سے گزری جس میں چند آدمی بیٹھے تھے۔ کئی مکانوں سے ٹرانزسٹر کی آوازیں آئیں۔ فلمی گیت اور اشتہارات نشر ہونے لگے۔ اس کے بعد کارپوریشن کی گاڑی آئی اور سڑک کے موڑ پر رک گئی۔ وہاں چند لوگ برہنہ اکڑے پڑے تھے۔ کچھ لوگ گاڑی میں سے اترے، آدمیوں کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا، اور گاڑی پھر چل پڑی۔

Chacha Chakkhan Ne Tasweer Tangi

Articles

چچا چھکن نے تصویر ٹانگی

امتیاز علی تاج

 

چا چھکن کبھی کبھار کوئی کام اپنے ذمے کیا لے لیتے ہیں، گھر بھر کو تگنی کا ناچ نچا دیتے ہیں۔ ’آ بے لونڈے، جا بے لونڈے، یہ کیجو، وہ دیجو‘، گھر بازار ایک ہو جاتا ہے۔ دور کیوں جاؤ، پرسوں پرلے روز کا ذکر ہے، دکان سے تصویر کا چوکھٹا لگ کر آیا۔ اس وقت تو دیوان خانے میں رکھ دی گئی، کل شام کہیں چچی کی نظر اس پر پڑی، بولیں ’چھٹن کے ابا تصویر کب سے رکھی ہوئی ہے، خیر سے بچوں کا گھر ٹھہرا، کہیں ٹوٹ پھوٹ گئی تو بیٹھے بٹھائے روپے دو روپے کا دھکا لگ جائے گا، کون ٹانگے گا اس کو؟‘

’ٹانگتا اور کون، میں خود ٹانگوں گا، کون سی ایسی جوئے شیر لانی ہے، رہنے دو، میں ابھی سب کچھ خود ہی کیے لیتا ہوں‘۔

ہنے کے ساتھ ہی شیروانی اتار چچا ٹانگنے کے درپے ہو گئے۔ امامی سے کہا ’بیوی سے دو آنے لے کر میخیں لے آ‘۔ ادھر وہ دروازے سے نکلا ادھر مودے سے کہا ’مودے! مودے! امامی کے پیچھے جا۔ کہیو تین تین انچ کی ہوں میخیں۔ بھاگ کر جا لیجو اسے راستے میں ہی‘۔

لیجئے تصویر ٹانگنے کی داغ بیل پڑ گئی اور اب آئی گھر بھر کی شامت۔ ننھے کو پکارا ’او ننھے، جانا ذرا میرا ہتھوڑا لے آنا۔ بنو! جاؤ اپنے بستے میں سے چفتی (لکڑی کی تختی) نکال لاؤ اور سیڑھی کی ضرورت بھی تو ہو گی ہم کو۔ ارے بھئی للو! ذرا تم جا کر کسی سے کہہ دیتے۔ سیڑھی یہاں آ کر لگا دے اور دیکھنا وہ لکڑی کے تختے والی کرسی بھی لیتے آتے تو خوب ہوتا‘۔

چھٹن بیٹے! چائے پی لی تم نے؟ ذرا جانا تو اپنے ان ہمسائے میر باقر علی کے گھر۔ کہنا ابا نے سلام کہا ہے اور پوچھا ہے آپ کی ٹانگ اب کیسی ہے اور کہیو، وہ جو ہے نہ آپ کے پاس، کیا نام ہے اس کا، اے لو بھول گیا، پلول تھا کہ ٹلول، اللہ جانے کیا تھا۔ خیر وہ کچھ ہی تھا۔ تو یوں کہہ دیجو کہ وہ جو آپ کے پاس آلہ ہے نا جس سے سیدھ معلوم ہوتی ہے وہ ذرا دے دیجئے۔ تصویر ٹانگنی ہے۔ جائیو میرے بیٹے پر دیکھنا سلام ضرور کرنا اور ٹانگ کا پوچھنا نہ بھول جانا، اچھا؟ ۔۔۔ یہ تم کہاں چل دیے للو؟ کہا جو ہے ذرا یہی ٹھہرے رہو۔ سیڑھی پر روشنی کون دکھائے گا ہم کو؟

آ گیا امامی؟ لے آیا میخیں؟ مودا مل گیا تھا؟ تین تین انچ ہی کی ہیں نا؟ بس بہت ٹھیک ہے۔ اے لو ستلی منگوانے کا تو خیال ہی نہیں رہا۔ اب کیا کروں؟ جانا میرے بھائی جلدی سے۔ ہوا کی طرح جا اور دیکھیو بس گز سوا گز ہو ستلی۔ نہ بہت موٹی ہو نہ پتلی۔ کہہ دینا تصویر ٹانگنے کو چاہیے۔ لے آیا؟ او ودو! ودو! کہاں گیا؟ ودو میاں! ۔۔۔ اس وقت سب کو اپنے اپنے کام کی سوجھی ہے یوں نہیں کہ آ کر ذرا ہاتھ بٹائیں۔ یہاں آؤ۔ تم کرسی پر چڑھ کر مجھے تصویر پکڑانا۔

لیجئے صاحب خدا خدا کر کے تصویر ٹانگنے کا وقت آیا، مگر ہونی شدنی، چچا اسے اٹھا کر ذرا وزن کر رہے تھے کہ ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ گر کر شیشہ چور چور ہو گیا۔ ہئی ہے! کہہ کر سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ چچا نے کچھ خفیف ہو کر کرچوں کا معائنہ شروع کر دیا۔ وقت کی بات انگلی میں شیشہ چبھ گیا۔ خون کی تللی بندھ گئی۔

تصویر کو بھول اپنا رومال تلاش کرنے لگے۔ رومال کہاں سے ملے؟ رومال تھا شیروانی کی جیب میں۔ شیروانی اتار کر نہ جانے کہاں رکھی تھی۔ اب جناب گھر بھر نے تصویر ٹانگنے کا سامان تو طاق پر رکھا اور شیروانی کی ڈھنڈیا پڑ گئی۔ چچا میاں کمرے میں ناچتے پھر رہے ہیں۔ کبھی اس سے ٹکر کھاتے ہیں کبھی اس سے۔ سارے گھر میں کسی کو اتنی توفین نہیں کہ میری شیروانی ڈھونڈ نکالے۔ عمر بھر ایسے نکموں سے پالا نہ پڑا تھا اور کیا جھوٹ کہتا ہوں کچھ؟ چھے چھے آدمی ہیں اور ایک شیروانی نہیں ڈھونڈ سکتے جو ابھی پانچ منٹ بھی تو نہیں ہوئے میں نے اتار کر رکھی ہے بھئی۔

اتنے میں آپ کسی جگہ سے بیٹھے بیٹھے اٹھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ شیروانی پر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ اب پکار پکار کر کہہ رہے ہیں ارے بھئی رہنے دینا۔ مل گئی شیروانی ڈھونڈ لی ہم نے۔ تم کو تو آنکھوں کے سامنے بیل بھی کھڑا ہو تو نظر نہیں آتا۔

آدھے گھنٹے تک انگلی بندھتی بندھاتی رہی۔ نیا شیشہ منگوا کر چوکھٹے میں جڑا اور تمام قصے طے کرنے پر دو گھنٹے بعد پھر تصویر ٹانگنے کا مرحلہ درپیش ہوا۔ اوزار آئے، سیڑھی آئی، چوکی آئی، شمع لائی گئی۔ چچا جان سیڑھی پر چڑھ رہے ہیں اور گھر بھر (جس میں ماما اور کہاری بھی شامل ہیں) نیم دائرے کی صورت میں امداد دینے کو کیل کانٹے سے لیس کھڑا ہے۔ دو آدمیوں نے سیڑھی پکڑی تو چچا جان نے اس پر قدم رکھا۔ اوپر پہنچے۔ ایک نے کرسی پر چڑھ کر میخیں بڑھائیں۔ ایک قبول کر لی، دوسرے نے ہتھوڑا اوپر پہنچایا، سنبھالا ہی تھا کہ میخ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر پڑی۔ کھسیانی آواز میں بولے، ’اے لو، اب کم بخت میخ چھوٹ کر گر پڑی، دیکھنا کہاں گئی؟‘

اب جناب سب کے سب گھٹنوں کے بل ٹٹول ٹٹول کر میخ تلاش کر رہے ہیں اور چچا میاں سیڑھی پر کھڑے ہو کر مسلسل بڑبڑا رہے ہیں۔ ملی؟ ارے کم بختو ڈھونڈی؟ اب تک تو میں سو مرتبہ تلاش کر لیتا۔ اب میں رات بھر سیڑھی پر کھڑا کھڑا سوکھا کروں گا؟ نہیں ملتی تو دوسری ہی دے دو اندھو !

یہ سن کر سب کی جان میں جان آتی ہے تو پہلی میخ ہی مل جاتی ہے۔ اب میخ چچا جان کے ہاتھ میں پہنچاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصے میں ہتھوڑا غائب ہو چکا ہے۔ یہ ہتھوڑا کہاں چلا گیا؟ کہاں رکھا تھا میں نے؟ لاحول ولا قوۃ۔ الو کی طرح آنکھیں پھاڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟ سات آدمی اور کسی کو معلوم نہیں ہتھوڑا میں نے کہاں رکھ دیا؟

بڑی مصیبتوں سے ہتھوڑے کا سراغ نکالا اور میخ گڑنے کی نوبت آئی۔ اب آپ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ماپنے کے بعد میخ گاڑنے کو دیوار پر نشانہ کس جگہ کیا تھا۔ سب باری باری کرسی پر چڑھ کر کوشش کر رہے ہیں کہ شاید نشان نظر آ جائے۔ ہر ایک کو الگ الگ جگہ نشان دکھائی دیتا ہے۔ چچا سب کو باری باری الو، گدھا کہہ کہ کر کرسی سے اتر جانے کا حکم دے رہے ہیں۔

آخر پھر چفتی لی اور کونے سے تصویر ٹانگنے کی جگہ کو دوبارہ ماپنا شروع کیا۔ مقابل کی تصویر کونے سے پینتیس انچ کے فاصلے پر لگی ہوئی تھی۔ بارہ اور بارہ کے (کتنے) انچ اور؟ بچوں کو زبانی حساب کا سوال ملا۔ بآواز بلند حل کرنا شروع کیا اور جواب نکالا تو کسی کا کچھ تھا اور کسی کا کچھ۔ ایک نے دوسرے کو غلط بتایا۔ اسی ’تو تو میں میں‘ میں سب بھول بیٹھے کہ اصل سوال کیا تھا۔ نئے سرے سے ماپ لینے کی ضرورت پڑ گئی۔

اب چچا چفتی سے نہیں ماپتے۔ ستلی سے ماپنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سیڑھی پر پینتالیس درجے جا زاویہ بنا کر ستلی کا سرا کونے تک پہنچانے کی فکر میں ہیں کہ ستلی ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے۔ آپ لپک کر پکڑنا چاہتے ہین کہ اسی کوشش میں زمین پر آ رہتے ہیں۔ کونے میں ستار رکھا تھا۔ اس کے تمام تار چچا جان کے بوجھ سے یک لخت جھنجھنا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔

اب چچا جان کی زبان سے جو منجھے ہوئے الفاظ نکلتے ہیں، سننے کے قابل ہیں مگر چچی روک دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اپنی عمر کا نہیں تو ان بچوں کا ہی خیال کرو۔

بہت دشواری کے بعد چچا جان ازسر نو میخ گاڑنے کی جگہ معین کرتے ہیں۔ بائیں ہاتھ سے اس جگہ میخ رکھتے ہیں اور دائیں ہاھ سے ہتھوڑا سنبھالتے ہیں۔ پہلی ہی چوٹ جو پڑتی ہے تو سیدھی ہاتھ کے انگوٹھے پر۔ آپ ’سی‘ کر کے ہتھوڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ نیچے آ کر گرتا ہے کسی کے پاؤں پر، ہائے ہائے، افوہ اور مار ڈالا شروع ہو جاتی ہے۔

چچی جل بھن کر کہتی ہیں یوں میخ گاڑنا ہوا کرے تو مجھے آٹھ روز پہلے خبر دے دیا کیجئے۔ میں بچوں کو لے کر میکے چلی جایا کروں اور نہیں تو۔

چچا نادم ہو کر جواب دیتے ہیں، یہ عورت ذات بھی بات کا بتنگڑ ہی بنا لیتی ہے۔ یعنی ہوا کیا جس پر یہ طعنے دیے جا رہے ہیں؟ بھلا صاحب کان ہوئے۔ آئندہ ہم کسی کام میں دخل نہ دیا کریں گے۔

اب نئے سرے کے کوشش شروع ہوئی۔ میخ پر دوسری چوٹ جو پڑی تو اس جگہ کا پلستر نرم تھا، پوری کی پوری میخ اور آدھا ہتھوڑا دیوار میں۔ چچا اچانک میخ گڑ جانے سے اس زور سے دیوار سے ٹکرائے کہ ناک غیرت والی ہوتی تو پچک کر رہ جاتی۔

اس کے بعد ازسر نو چفتی اور رسی تلاش کی گئی اور میخ گاڑنے کی نئی جگہ مقرر ہوئی اور کوئی آدھی رات کا عمل ہو گا کہ خدا خدا کر کے تصویر ٹنگی۔ وہ بھی کیس؟ ٹیڑھی اور اتنی جھکی ہوئی کہ جیسے اب سر پر آئی۔ چاروں طرف گز گز بھر دیوار کی یہ حالت گویا چاند ماری ہوتی رہی ہے۔

چچا کے سوا باقی سب تھکن سے چور نیند میں جھوم رہے ہیں۔ اب آخری سیڑھی پر سے دھم سے جو اترتے ہیں تو کہاری غریب کے پاؤں پر پاؤں۔ غریب کے ڈیل (چھالا) تھی۔ تڑپ ہی تو اٹھی۔ چچا اس کی چیخ سن کر ذرا سراسیمہ تو ہوئے مگر پل بھر میں داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بولے، ’اتنی سی بات تھی، لگ بھی گئی، لوگ اس کے لیے مستری بلوایا کرتے ہیں‘۔


 

Kai Chand They Sar E Aasman

Articles

ناول کئی چاند تھے سرِآسماں کا خلاصہ

ڈاکٹر رشید اشرف خان

 

ناول کی کہانی مخصوص اللہ نامی ایک شخص سے شروع ہوتی ہے جوایک ماہر مصور اور شبیہ ساز(۱) تھا ۔آگے چل کر وہ نقاش(۲) اور قالین باف(۳) بھی بن گیا۔ اس کا قیام آج سے برسوں پہلے کشن گڑھ(راجپوتانہ ۔موجودہ راجستھان) کے ایک گاؤں ’’ہندل پروا‘‘ میں تھا ۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے مخصوص اللہ نے ایک لڑکی کی خیالی تصویر بنائی۔ اس تصویر میں حسن وجمال کا کوئی پہلو ایسانہ تھا جومخصوص اللہ نے باقی رکھا ہو۔تصویر تھی گویا ابھی بول پڑے گی۔ گاؤں اور آس پاس کے علا قوں کے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آئے۔تصویر مخصوص اللہ کے حجرے کے باہری طاق میں رکھی تھی۔جس نے بھی دیکھا وہ اس کی تعریف کیے بغیرنہ رہ سکا۔کسی نے کہا کہ ارے یہ ’’بنی ٹھنی ‘‘ہے۔دوسرے نے کہا کہ یہ ’’رادھا دیوی‘‘ ہیں۔تیسرا بولا ارے یہ تو ’’اصلی‘‘ ہے ۔مگر حد تو تب ہوئی جب ایک شرابی نے کہاکہ یہ والاجاہ کی بیٹی’’ من موہنی‘‘ ہے۔ اس زمانے کا معاشرہ ایسا تھا کہ ہرمذہب میں پردے کا اہتمام لازم تھا۔جیسے ہی گجندر پتی مرزا کو خبر ملی کہ اس کی بیٹی من موہنی کی شبیہ بنائی گئی ہے تو وہ آپے سے باہر ہوگیا۔بیٹی اور کچھ گھوڑ سواروں کے ساتھ مخصوص اللہ کے گھر پہنچا ۔وہ وہاںموجود نہ تھا ۔سارے گاؤں والوں کے سامنے اپنی بیٹی کوقتل کر ڈالا، نیزے کی نوک سے طاق پر رکھی شبیہ پھاڑ ڈالی اورچیخ کر کہا کل تک سارا گاؤں خالی کردیا جائے ورنہ میں کسی کی بھی جان ومال کا ذمہ دار نہیں رہوں گا۔اس حکم سے گاؤں والے لرز اٹھے اور دوسری صبح جس کے جدھر سینگ سمائے اُدھر جان بچا کر بھاگ نکلا ۔ مہاجرین کے قافلے میں مخصوص اللہ بھی شامل ہوگیا ۔اس نے بارہ مولہ (کشمیر) میں سکونت اختیار کی۔کچھ دنوں بعد ایک کشمیری لڑکی سے مخصوص اللہ نے شادی کرلی۔اس سے ایک سیاہ فام لڑکا پیدا ہوا۔اپنے بیٹے کو دیکھ کر مخصو ص اللہ بہت خوش ہوا اور اس کا نام محمد یحییٰ رکھا۔ ایک دن پھراسے جانے کیا سوجھی، اپنے بچے کو اس کے ماموں کے حوالے کیا اورکسی کو بتائے بغیرکہیں چلا گیا۔ کافی تلاش کے بعد جنگل میں برف سے ڈھکی اس کی لاش ملی ۔کشمیر کے سرد موسم میں تیزی سے گرتی ہوئی برف میں مخصوص اللہ اکٹر کر مر گیا۔اس کے دائیں ہاتھ میں ہاتھی دانت جیسا ایک پتلامٹرا تڑاکاغذ تھا جسے بہ احتیاط نکالا گیا توپتہ چلا کہ اس پر ایک بے حد خوبصورت لڑکی کی شبیہ تھی۔ وہ دراصل بنی ٹھنی تھی۔کشمیری اس حقیقت کو نہ سمجھ پائے اور انھوں نے تصویر کو مصور کی قبر کے پاس ہی برف میں دبا دیا۔ سلیمہ کو یہ غم تھا کہ آخر وہ اپنے شوہر کی افتاد طبع کو سمجھ کیوں نہ سکی؟ وہ بارہ مولہ چھوڑ کراپنے مائکے بڈگام میںجا کر آباد ہوگئی۔چار برس چار ماہ کی عمر میں محمد یحییٰ کی رسم بسم اللہ ہوئی۔سلیمہ قصہ کہانی کی شکل میں اپنے بیٹے کو اس کے مرحوم باپ کی زندگی کے حالات سنا تی رہتی ۔اس نے بیٹے سے کئی بار کہا کہ تیرے باپ تو یہاں کے نہیں تھے ۔کیا تیرا جی نہیں چاہتا کہ اپنے ماں باپ کے اصلی وطن کودیکھے؟۔بہرحال محمد یحییٰ بڈگام سے کہیں اور جانے پر راضی نہ ہوا۔
محمد یحییٰ جب اٹھارہ برس کا ہوا تو اس کی شادی ایک کشمیری لڑکی بشیرالنسا سے کردی گئی جس سے شادی کے دوسرے سال جڑواں لڑکے پیدا ہوئے،بڑے کا نام محمد داؤد اور چھوٹے کا نام محمد یعقوب رکھا گیا۔دونوں ریشم ، زعفران اور شہد کی تجارت کرنے لگے۔لوگ انھیں داؤد بڈگامی اور یعقوب بڈگامی کہنے لگے۔ان دونوں بھائیوں نے اپنے باپ کی طرح نہ تو تعلیم نویسی سیکھی ، نہ نقاشی ،نہ چوب تراشی(۴) اور نہ قالین بافی۔البتہ ان کے گلے اچھے تھے۔دونوں مل کر طرح طرح کے اردو، فارسی اور کشمیری کلام سناتے ۔دنیا والوں سے داد بھی پاتے اور انعام و اکرام بھی۔
یحییٰ بڈگامی کی موت کے تین مہینے بعد بشیرالنسا بھی اس دنیا سے چل بسی۔ اب داؤد اور یعقوب کا جی کشمیر سے اچاٹ ہوگیا ۔دونوں نے یہ طے کیا کہ اب اپنے ددھیال کشن گڑھ کی طرف چلیں ۔کافی مسافت طے کرکے دونوں بھائی جے پور پہنچے ۔وہاں سے آگے بڑھے تو دھوپ بہت تیز ہو چکی تھی ان کا اور ان کے گھوڑوں کا بھوک پیاس سے برا حال تھا۔ خدا خدا کرکے شام ہوئی ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس پہنچ گئے ۔ تھوڑی دورپر کنواں تھا۔پانی بھرنے والی زیادہ تر عورتیں تھیں۔انھیں میں حبیبہ اور جمیلہ نام کی دو لڑکیاں تھیں۔ سوتیلے باپ کے ظلم سے یہ دونوں داؤد اور یعقوب کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں۔یہاں سے یہ لوگ ’’باندی کوئی ‘‘نامی علاقے میں پہنچے جہاں داؤد نے حبیبہ سے اور یعقوب نے جمیلہ سے نکاح کر لیااور دودن قیام کے بعد فرخ آباد کوچ کر گئے۔ اس واقعے کے گیارہ مہینے بعد یعقوب بڈگامی اور بی بی جمیلہ کے یہاں ۱۷۹۳ء میں یوسف بڈگامی کی ولادت ہوئی۔چھوٹے بھا ئی داؤد بڈگامی لا ولد تھے مگر دونوں بھا ئی ایک دوسرے پر قربان تھے۔فرخ آباد کا قیام دونوں بھائیوں کو بہت پسند تھا ۔ان دونوں بھائیوں نے پرانے پیشے کو ترک کرکے نیا پیشہ سادہ کاری(۵) اختیار کرلیا۔اس فن میںوہ طاق ہوگئے۔مقامی خواتین اور فرنگی عورتیں کپڑے پر قلم کاری کروانے کے لیے انھیں پیشگی کلدار اشرفیاں(۶) یا شاہ عالمی اشرفیاں(۷) دے دیا کرتی تھیں۔لیکن گردش ایام نے پھر اپنا رنگ دکھایا۔ کمپنی کا عمل دخل کوئی دس سال ہوئے ہر طرف نظر آنے لگا۔
یوسف بڈگامی کا واقعہ بھی اپنی جگہ پر بڑا دلچسپ لیکن لرزہ خیز تھا ۔ حقیقت حال یہ تھی کہ ابھی یوسف کی عمر کم ہی تھی جب انگریزوں اور مرہٹوں میں جم کر لڑائی ہوئی۔انگریزوں کے عملے میں یوسف اور اس کے خاندان کے ساتھ فرخ آباد کی مشہور ڈیرے دارنی ، اکبری بائی کا ساز وسامان اور عملہ تھا جس سے یوسف اور اس کے اہل خاندان کی گاڑھی چھننے لگی۔یہ خاندان شہری تھا اور اس کا جنگ سے کچھ لینا دینا نہیں تھا ۔ انگریزوں اور مراٹھوں کی اس رستا خیز میں مراٹھا فوج کی طرف سے پھینکے گئے گولوں کے نتیجے میں یوسف کے والدین، چچا، خالہ ، شاگرد پیشہ(۸) سب ہلاک ہوگئے۔صرف یوسف بچ گیا ۔اکبری بائی کا اپنا خیمہ بھی محفوظ رہا ۔ اکبری بائی اور ان کی ننھی بیٹی اصغری ایک دو اصیلیں(۹) ماما (۱۰)چھو چھو(۱۱) جو ابھی کچھ دور بیل گاڑی میں تھیں۔اس وقت یوسف کی عمر مشکل سے دس برس کی تھی لیکن وہ کافی عقل مند تھا ۔دشمن کے گولوں سے بچنے کے لیے وہ بے تحاشہ ہنڈن ندی کی طرف دوڑنے لگا تاکہ اس میں کود پڑے،لیکن اکبری بائی کی اصیل نے اسے دوڑ کر پکڑ لیا۔ہزار چیخنے پیٹنے کے باوجود اس وقت تک اپنے سینے سے لپٹائے رہی جب تک وہ نیم بے ہوش ہوکر سو نہ گیا۔جب اس کی آنکھ کھلی تو شام ہورہی تھی اور وہ اکبری بائی کے ساتھ بیل گاڑی میں تھا۔
خدا خدا کرکے یہ لٹا ہو ا قافلہ دلی پہنچا ۔اکبری بائی نے چاوڑی بازار میں اپنی ایک رشتے کی بہن کے یہاں قیام کیا ۔کچھ دنوں کے بعد ان کی بہن نے کوچۂ پنڈت کے نکڑ پر اکبری بائی کو رہنے کے لیے مکان کابندوبست کردیا ۔
یوسف ، زندگی بھر اکبری بائی کاشرمندۂ احسان رہا کیونکہ انھوں نے اسے اپنے سگے بیٹے کی طرح پالا۔ اجمیری دروازے پر مدرسۂ غازی الدین خاں میں عربی وفارسی پڑھوانے کے علاوہ انھوں نے اسے ساز وسنگیت کی بھی تعلیم دلوائی۔وہ بہت جلد میاں نور العین واقفؔ، میاں ناصر علی، رائے آنند رام مخلصؔاور مرزا عبدالقادر بیدلؔ کے ساتھ ساتھ جگت استاد شاہ حاتمؔ، میرزا محمد رفیع سوداؔ، میر تقی میرؔ، خواجہ میر دردؔ اوران کے بھائی میراثرؔ کے کمالِ فن سے بڑی حد تک متعارف ہوگیا۔جب محمد یوسف کی عمر پندرہ برس اور اصغری کی عمر تیرہ برس کی تھی تو اکبری بائی نے دونوں کا نکاح کرادیا اور کوچۂ رائے مان میں ایک مکان بھی خرید کر دے دیا۔
شادی کے دو برس بعد یوسف اور اصغری کے پہلی بیٹی پیدا ہوئی اس کانام انوری خانم عرف بڑی بیگم رکھا اس کے بعد بہت کم وقفہ میں یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ایک کا نام عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور دوسری کا وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم ۔یہی وزیر خانم مذکورہ ناول’’ کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘کی مرکزی کردار بنی۔یوسف سادہ کار کی تین بیٹیاں ، تین رنگ کی تھیں ۔پہلی دو بیٹیوں میں سانولا پن اور خوش شکلی کی صفت مشترکہ تھی البتہ وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم رنگ کے سوا ہربات میں کشمیرن لگتی تھی۔بڑی بیگم کو اللہ رسول سے بے حد لگاؤ تھا ،یوسف نے بارہ برس کی عمر میں اس کی شادی میاں مولوی شیخ محمدنظیر صاحب سے کردی ۔منجھلی بیگم کو ماں باپ کی رضامندی کے بغیراکبری بائی نے نواب سید یوسف علی خاں ابن نواب سید محمد سعید خاں والیِ رام پور کے متوسلین میں شامل کردیا۔
چھوٹی بیگم یعنی وزیر خانم کے مزاج میں بچپن ہی سے ڈومنی پن(۱۲) نکلتا تھا ۔ نانی کے یہاں اس کی اصل تعلیم ان امور میں ہوئی جن کوسیکھ سمجھ کر عورت ذات مردوں پر راج کرتی ہے۔وہ شعر بھی کہتی تھی اور میاں شاہ نصیر ؔ کی شاگرد ہ تھی۔استاد نے اسے زہرہؔ تخلص عطا کیا تھا۔وزیر خانم ابھی پندرھویں سال میں تھی کہ یوسف کی بیوی اصغری اچانک بیمار پڑ ی اور چار دن بیمار رہ کر چل بسی۔
ماں کے مرنے کے بعد محمد یوسف اور اس کی بڑی اور منجھلی بیٹی نے اپنے تئیں بھر پور کوشش کی ،کہ چھوٹی بیگم (وزیر خانم) کو شادی کے لیے راضی کرلیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہی ۔وزیر خانم کو شادی نہیں کرنی تھی اور نہ کی۔
وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کا ابتدائی حال ہمیں اس حاضر راوی کے بیان سے معلوم ہوتا ہے جسے ناول میں ڈاکٹر خلیل اصغر فاروقی ، ماہر امراض چشم کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ ناول میںدعویٰ کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر خلیل مستقل تاریخی اور تہذیبی یاد داشتیں لکھا کرتے تھے۔ ناول میں وہ خودلکھتے ہیں:
’’ گزشتہ سال ایک شادی کے سلسلے میں مجھے لندن جانے کا موقع ملا۔ اپنے بارے میں کچھ زیادہ کہنے میں مجھے تکلف ہے اور جو داستان اگلے صفحات پر مرتسم ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق بھی نہیں۔ لہٰذا اتنا کہنا کافی ہوگا کہ میں پیشے کے لحاظ سے ماہر امراض چشم ہوں ۔ شعر وشاعری کا شوق بھی رکھتا ہوں لیکن اگرمیں زمانۂ قدیم میں ہوتا تو مجھے ’’نساب‘‘ کہا جاتا۔اس معنی میںمجھے خاندانوں کے حالات معلوم کرنے ،ان کے شجرے بنانے اور دور دور کے گھرانوں کی کڑیوں سے کڑیاں ملانے کا بے حد شوق ہے اور اب اگر میری عمر بہت زیادہ نہیں ہے،میں نے طب کا مشغلہ ترک کردیاہے۔میرا زیادہ تر وقت شجرے بنانے اور بنائے ہوئے شجروں کو مزید وسیع اور پے چیدہ بنانے میں گزرتا ہے‘‘۱؎
وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم کی پیدائش غالباََ ۱۸۱۱ء میں ہو چکی تھی۔ اس کی زندگی میں پہلا مرد ایڈورڈ مارسٹن بلیک (Edward Marston Blake) تھا ۔ ان دونوں کی ملاقات بھی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی تھی۔اس سلسلہ میں اگرچہ کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ،لیکن خاندانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مرتبہ وزیر خانم اپنے باپ محمدیوسف سادہ کار کے ساتھ مہرولی شریف خواجہ قطب شاہ کی درگاہ سے بذریعہ بہلی(۱۳) واپس آرہی تھی۔ رات کا وقت تھا ۔سب مسافروں کو واپسی کی جلدی تھی کیوں کہ حوض شمسی کے کھنڈر میں ان دنوں بعض پنڈاروں(۱۴) نے چپکے چپکے اپنے اڈے بنا لیے تھے جہاں چھپ کر وہ مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔وزیر خانم کی بہلی کا ایک دھرا گھستے گھستے کمزور پڑگیا تھا ۔ ڈر تھا کہ اگر بیلوں کو ذرا بھی تیز دوڑایا گیا تو دھرا ٹوٹ سکتا ہے لہٰذا ان کی بہلی چیونٹی کی چال چل کر آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔اچانک بہلی اڑتی ہوئی لال مٹی اور ریت کے بڑے بڑے ذروں سے بھر گئی ۔ بیلوں کی بڑی بڑی آنکھیں دہشت اور چبھن کے باعث بند ہوگئیں۔ آندھی کے جھکڑ اور تیز ہوا کے جھونکوں سے بہلی کے سبھی پردے اڑ گئے اور دھرا ٹوٹ جانے سے دھماکہ ہوا ۔بہلی پر سوار سبھی لوگ گر پڑے ۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دہلی کی طرف سے کچھ انگریز اور دیسی سوار آتے دکھائی دیے جن کا سردار ایک انگریز مارسٹن بلیک تھاجو اپنی معشوقہ کے ساتھ رات گزارنے عرب سرائے (۱۵)جا رہا تھا۔وزیر خانم کے سر کی چادر ہوا سے اڑ گئی ۔ مارسٹن بلیک اور وزیر خانم کی آنکھیں دفعتاََ چار ہوئیںاور کیوپڈ(Cupid) (۱۶)اپنا کام کرگیا۔
وزیر خانم بخیریت تمام دہلی پہنچ گئی ۔ مارسٹن بلیک تحفے تحائف لے کے ہر دوسرے تیسرے دن یوسف کے گھر آنے لگا۔ چند مہینوں کے بعد مارسٹن بلیک نے آکر خبر دی کہ میں اسسٹنٹ پو لیٹیکل ایجنٹ کی اسامی پر متعین ہو کر جے پور جا رہا ہوں۔ تقریباََ سوا مہینے کے بعد مارسٹن بلیک جے پور سے دہلی آیا ۔ محمد یوسف سے اکیلے میں کچھ سر گوشیاں کیں ۔ چھوٹی بیگم کو معنی خیز نظروں سے دیکھا۔اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتہ کے بعد مارسٹن بلیک کے قافلہ میں ، جو عازم ِ جے پور تھا ، پھولوں اور گجروں سے سجایا ہوا ایک رتھ بھی تھا ۔وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زرق برق پوشاک میںسجی بنی اس میں سوار تھیں۔
جے پور پہنچ کر وزیر خانم کی دنیا ہی بدل گئی ۔ نوکروں کی ریل پیل ہوئی ۔ مارسٹن بلیک اس کی شمع زندگی کا پروانہ تھا ۔وہ اس سے کہتا تھا تم وزیر نہیں بلکہ اس گھر کی ملکہ ہو۔وقت گزرتا رہا۔وزیر خانم کے دو اولادیں ہوئیں ۔لڑکے کا مارٹن بلیک اور لڑکی کا نام سوفیہ رکھا۔لیکن وزیر خانم نے لڑ لڑا کر دونوں کے ہندوستانی نام امیر میرزا اور بادشاہ بیگم رکھے۔ مارسٹن بلیک کا پھوپھی زاد بھائی ولیم کاٹرل ٹنڈل(William Cotterill Tyndale) اور اس کی بہن ایبیگیل ٹنڈل(Abigail Tyndale) جو پہلے میسور میںرہتے تھے ،جے پور آگئے۔ دسمبر۔ جنوری ۱۸۳۰ء کرنل ایلویس جو پولیٹیکل ایجنٹ برائے راجپوتانہ تھے چھ ہفتے کی رخصت پر کلکتہ چلے گئے اور مارسٹن بلیک کو جے پور کی ریزیڈنسی کا مختار بنا گئے۔راجپوتانے میں سازشیں بڑھ گئیں ۔دیسی لوگوں نے مارسٹن بلیک پر حملہ کرکے اسے مندر کے اندر مارڈالا۔مارسٹن بلیک کے پھوپھی زاد بھائی نے مارسٹن بلیک کی جائداد پر غاصبانہ قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دونوں بچوں کو بھی چھین لیااور چھوٹی بیگم جے پور سے دہلی واپس لوٹ آئی۔
چھوٹی بیگم چونکہ باپ کو ناراض کرکے مارسٹن بلیک کے ساتھ بغیر نکاح کے چلی گئی تھی اس لیے محمد یوسف نے سرسری سی رسمی تعزیت کی اور بیٹی کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی نہ ہوا۔ منجھلی بیگم سے کہہ کر چھوٹی بیگم نے ایک مکان سِرکی والان میں لے لیااور اس میں رہنے لگی۔یہ مارچ ۱۸۳۰ء کی بات ہے ۔وزیر خانم نے اپنی بہن عمدہ خانم (منجھلی بیگم)کے توسط سے نواب یوسف علی خاں کے گھر میں رسائی حاصل کی ،لیکن گھریلو انداز میں ۔ایک دن نواب صاحب نے چھوٹی بیگم کے احوال پوچھتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ میرے ملاقاتی کچھ عمائد شہر اور شرفا تک تمھاری شہرت پہنچ چکی ہے ۔وہ لوگ تم سے تمنائے ملاقات رکھتے ہیں۔وزیر خانم نے نواب کے حکم کی تعمیل کی اور تین سلام کرکے الٹے پاؤں دیوان خانے سے حویلی کے اندر داخل ہوگئی۔
نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کے آٹھویں یا دسویں دن بعد ایک سونٹا بردار نواب یوسف علی خاں کا رقعہ اور روپیوں کے دس توڑے لے کر وزیر خانم کے دروازے پر حاضر ہو ۔ نواب صاحب نے رقعہ فارسی میں تحریر کیا تھا جس کا اردو ترجمہ یہ ہے:
’’ بعد دعاے افزونی ِدولتِ حسن و دام ِ اقبال،وزیر خانم سلمہا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اگلے پنچشنبہ کی شام کو بعد مغرب،نواب ولیم فریزر صاحب ریزیڈنٹ دولت کمپنی بہادر کی ڈیوڑھی عالیہ واقع پہاڑی(موجودہ علاقہ RIDGE) شہر دہلی میں ایک محفل شعر سخن قرار دی گئی ہے۔نواب مرزا اسداللہ خاں صاحب المتخلص بہ غالبؔ والملقب بہ میرزا نوشہ تازہ کلام سے سرفراز فرمائیں گے۔حضرت دہلی کے چنیدہ عمائد واساطین بھی رونق افروز بزم ہوں گے۔ آں عزیزہ اگر اپنے قدوم میمنت لزوم کو زحمت نہضت عطا کریں تو عین باعث لطف ہوگا‘‘ ۱؎
روز موعودہ یعنی پنچشنبہ کو ولیم فریز کے گھر پر وزیر خانم ، دلاورالملک نواب شمس الدین احمدخاں ، مرزا غالب ؔ ،فینی پارکس اور دہلی کی کئی مشہور ہستیاں جمع ہوئیں۔ولیم فریزر نے سب کا تہہ دل سے خیر مقدم کیا ۔غالبؔ کو دیکھ کر فریزر نے کہا:
’’ مرزا نوشہ ہم نے آپ کے لیے فرنچ لیکور (French Liquer) کا انتظام کر رکھا ہے لیکن شرط نئی غزل کی ہے‘‘۲؎
رات گئے محفل شعر و سخن چلتی رہی ۔محفل کے بعد جب سواریاں ولیم فریزر کی کوٹھی سے نکلیں ۔نواب شمس الدین احمد خاں اپنی رہائش گاہ کی طرف چلے گئے اور وزیر خانم رتھ میں بیٹھ کر سرکی والان کی طرف مڑ گئی۔نواب شمس الدین احمدخاں کا ایک سوار گھوڑے سے اتر کر وزیر کے پیچھے پیچھے آیا اور دروازے پر دستک دی ۔وزیر خانم سے دروازے پر کھڑے کھڑے سلام کیا اور کہا کہ سرکار نواب دلاورالملک کسی مناسب وقت پر ملاقات کے خواہاں ہیں ۔وزیر خانم نے جواب دیا کہ کل شام کو تشریف لا سکتے ہیں ۔میں منتظر رہوں گی۔
دوسرے دن وزیر خانم اور اس کے ملازمین گھر کی صفائی اور سجاوٹ میں مشغول ہوگئے ۔ بعد نماز عصر نواب شمس الدین احمد خاں بڑے تزک و احتشام سے وزیر خانم کے گھر پہنچے ۔وزیر خانم نے بڑے پُرجوش انداز میں ان کا استقبال کیا ۔رات گئے تک وزیرخانم اور نواب شمس الدین احمد خاں کے درمیان رازونیاز کی باتیں ہوتی رہیں۔اشعار اور گیت بھی سنائے گئے ۔کھانا کھا کر نواب صاحب اپنے گھر کی طرف مراجعت کر گئے۔
نواب شمس الدین احمد خاں کی تفصیلی بے تکلف گفتگو اور ان کے جھکاؤ کو دیکھ کر وزیرخانم بہت متاثر ہوئی اور یہ خواب دیکھنے لگی کہ اگر نواب صاحب اس سے نکاح کرلیں تو کتنا اچھا ہے۔ دوسرے دن نواب صاحب کے یہاں سے نہایت عمدہ اور قیمتی تحفہ آیا تو وزیرخانم فرط جذبات سے تڑپ گئی۔
رات بھر سوچنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچی کہ پہلے منجھلی بیگم اور ان کے شوہر نواب یوسف علی خاں سے اس ضمن میں مشورہ کرلینا بہتر ہے۔چنانچہ اسی شام ماما کو اپنی بہن منجھلی بیگم کے یہاں بھیج کر نواب یوسف علی خاں سے ملاقات کی اجازت مانگی۔اجازت ملتے ہی دوسرے دن تراہا بیرم خاں پر واقع نواب یوسف علی خاں کے یہاں پہنچ گئی ۔اپنی بہن عمدہ خانم کو تمام باتوں سے با خبر کرکے وزیر خانم نواب صاحب کی خدمت میں باریاب ہوئی،انھیں اپنا پوراماجرا سناکر مشورے کی طالب ہوئی ۔نواب صاحب نے فرمایا ۔اچھا برا سوچ سمجھ لو اور پھر نواب شمس الدین صاحب کو اپنی شرائط سے آگاہ کردو اسی وقت تمھارا اقدام مناسب ہوگا۔وزیر خانم اپنے بہنوئی کا شکریہ ادا کر کے اپنے گھر واپس آگئی۔گھر پہنچنے کے بعد وزیر خانم ایک بار پھر شش وپنچ میں پڑگئی ۔وہ کبھی سوچتی کہ نواب شمس الدین صاحب مجھ سے نکاح کریں گے بھی یا نہیں؟ ہوسکتا ہے نکاح نہ کریں صرف پابند بنا کر رکھیں ۔پھر میرے دونوں بچوں امیر میرزا اور سوفیہ کا کیا ہوگا ۔ کیا میں انھیں اپنے ساتھ رکھ سکوں گی۔ بہرحال یہی سب خیالات وزیر خانم کو رہ رہ کر پریشان کر رہے تھے کہ استخارہ دکھلائے یا کسی رمّال سے فال کھلوائے ۔تب اسے پنڈت نند کشور کا خیال آیا جو اس کی نانی اکبری بائی کے گھرکبھی کبھار آیا جایا کرتے تھے۔
اگلے دن صبح صبح چھوٹی بیگم اپنی نانی کے یہاں جا پہنچی۔نانی نے نوکر کوبھیج کر پنڈت نند کشور کو یہ سندیسہ بھیجا کہ وہ کسی طرح وقت نکال کر چھوٹی بیگم کے مکان پر تشریف لے آئیں۔بڑا کرم ہوگا۔لہٰذا دوسرے دن فجر کی نماز کے فوراََ بعد پنڈت نند کشور چھوٹی بیگم کے گھر آگئے۔چھوٹی بیگم نے انتہائی محبت و عقیدت سے ان کا خیر مقدم کیا۔ پنڈت نند کشور ایک سچے اور دھارمک ہندو ہونے کے باوجود وہ ایک وسیع النظر ،آزاد خیال اور سیکولر مزاج وضع دار بزرگ تھے۔سنسکرت اور ہندی کے علاوہ وہ اردو ،فارسی اور علم نجوم ورمل کے زبردست عالم بھی تھے۔انھوں نے نہایت ہم دردی اور سنجیدگی کے ساتھ چھوٹی بیگم کے مسائل کوسنا اور لسان الغیب خواجہ حافظ شیرازی کے دیوان سے فال کھول کر چھوٹی بیگم کے دل کو گویا ہرا کردیا۔نذرانے کے طور پر کچھ بھی قبول نہ کیا ۔چھوٹی بیگم کے اصرار پر صرف عطر کی ایک چھوٹی سی شیشی قبول کی اور ہزاروں دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔
فال میں اشارہ یہ تھا کہ وزیر خانم ،نواب شمس الدین احمد خاں سے رشتۂ انسلاک استوار کرے۔یہ اس کے حق میں مناسب ومفید ہے۔حافظ شیرازی کا شعر یوں تھا:
اے پیک راستاں ، خبرِ سرو ما بگو
احوال گل ، بہ بلبل دستاں سرابگو
پنڈت نند کشور کے جانے کے بعد ، چھوٹی بیگم پر عجب کیفیت طاری تھی۔ وہ نواب شمس الدین احمد خاں کو خط لکھنا چاہتی تھی مگر رہ رہ کر سوچتی تھی کیا لکھے اور کیسے لکھے۔اتفاق سے میرحسن کے ایک شعر نے اس کی ہمت افزائی کی۔وہ شعراس طرح تھا:
ذوق تنہائی میں خلل ڈالا
آکے مجھ پاس دو گھڑی تو نیں
درج بالا شعرپر وزیر خانم نے تین مصرعے بطور تضمین لگا کر ایک با معنی مخمس کی شکل دی۔اس کے بعد مینا بازار سے نئے نیزے منگا کر اسے تراشا ۔محلے کے مولوی صاحب کے پاس دو روپے نذرانے کے ساتھ بھیج کران قلموں پر شگاف اور قط لگوائے،پھر اس مخمس کو افشانی کاغذ پر خوش خط لکھ کر خریطہ میں بند کیااور لیچی کے نایاب شہد کے ساتھ نواب شمس الدین خاں کی خدمت میں بھیجا۔نواب شمس الدین احمد خاں نے خط پڑھا اور بہت سے تحائف کے ساتھ خط کا جواب بھی دیاجس میں میر اثرؔ کی غزل بھی نقل کی تھی۔جس کا مطلع اس طرح تھا:
تجھ سوا کوئی جلوہ گر ہی نہیں
پر ہمیں آہ کچھ خبر ہی نہیں
نواب صاحب نے خط کے آخر میں یہ بھی لکھا تھا کہ’’کل شام کفش خانے پر ماحضر تناول فرمائیں‘‘۔
دوسرے دن نواب یوسف علی خاں کی بگھی میں بیٹھ کر وزیر خانم نواب شمس الدین احمد خاں کے مکان واقع دریا گنج جا پہنچی۔نواب صاحب کی کوٹھی انگریزی وضع کی تھی۔ برآمدے میں نواب صاحب استقبال کے لیے موجود تھے۔کوٹھی پر ایک طرح کا سناٹا چھایا ہواتھا کہ اب کیا ظہور میں آتا ہے۔
استقبال کے بعد بہت دیر تک وزیرخانم اور نواب شمس الدین خاں آپس میں التیام ہوتے رہے ۔وزیر کا اشارہ یہ تھا کہ نکاح ہوجائے لیکن نواب صاحب بات کو ٹال رہے تھے۔آخر کار بات کا رخ بدلنے کے لیے انھوں نے کہا’’آئیے کھانا کھائیں‘‘ کھانے کے دوران ہی وزیرخانم نے نواب شمس الدین احمد خاں کا عندیہ سمجھ لیا تھا اس لیے اس نے اس تصور سے اپنے دل کو ڈھارس دی کہ نواب کے لگاؤ کی سنہری لیکن عارضی چھاؤں بہر حال تنہا عمر رسیدگی اور بے یاری کی لمبی پر چھائیوں سے بہترہے۔نواب صاحب سے رخصت ہوکر وزیر ان کی کوٹھی سے ملحق مہمان خانے میں جا پہنچی۔ وہاں کی خادمہ حبیب النسا عرف حبیبہ اور ان کی بیٹی راحت افزا وزیر کے لیے پیش پیش تھیں۔نواب صاحب ، بغیر وزیر سے ملے اندھیرے منھ اپنے علاقہ پہاسوچلے گئے چونکہ وہاں ڈاکوؤں نے مال واسباب کے ساتھ ساتھ ایک لڑکی کابھی اغوا کرلیاتھا۔ راحت افزا نے اخروٹ کا بنا ہوا ایک خوبصورت سا صندوقچہ وزیر خانم کودیا اور کہا کہ نواب صاحب نے آپ کو یہ تحفہ دیا ہے۔وزیرخانم نے صندوقچہ کو کھولا تو اس میں ایک نہایت قیمتی انگوٹھی تھی اور آبی رنگ کے کاغذ پر سنہری زعفرانی روشنائی میں صرف ایک شعر لکھا تھا:
شب کہ عریاں بہ برآں شوخ قدح نوشم بود
یک بغل نور چو فانوس درآغوشم بود
نواب یوسف علی خاں آف رام پور اس بات پر خوش تھے کہ چھوٹی بیگم نواب شمس الدین احمد خاں کے متوسلین میں شامل ہورہی ہے اب اس کی زندگی قدرے محفوظ اور پرسکون ہوگی لیکن ولیم فریزر کی چھاتی پر سانپ لوٹ رہا تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ اور بہت سی دیسی عورتوں کی طرح وزیر خانم بھی اس کی رکھیل بن جائے لہٰذا ولیم فریزر نے ایک نہایت گندی اور خطرناک چال چلی۔
وزیر خانم اور نواب شمس الدین احمد کی ملاقات کے تیسرے دن ولیم فریزر کو پتہ چلا کہ پرگنہ پہاسوکے ڈاکو پکڑے گئے لوٹ کی رقم اورقاضی کی دختر بر آمد ہوئی نیز دو ڈاکو سرداروں کو سرِعام پھانسی دے کرنواب شمس الدین نے اپنی مستعدی اور با تدبیری کا ثبوت دیا۔اس کے باوجود بھی ولیم فریزر نواب شمس الدین سے کینہ رکھتا تھا۔اس نے سب سے پہلے نواب گورنر جنرل بہادر کلکتہ کولکھا کہ شمس الدین خاں ایک کمزور اور نکمے والیِ سلطنت ہیں لہٰذالوہارو کا علاقہ ان سے چھین کر ان کے سوتیلے بھائیوں امین الدین احمد اور ضیاء الدین احمد کو دے دیا جائے تاکہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کی پرورش کرسکیں۔اس کے بعد فریزر نے ایک ترکیب اور سوچی ۔اس نے حکم دیا کہ حکیم احسن اللہ خاں کو ریزیڈنسی میں طلب کیا جائے۔ حکیم احسن اللہ خاں ایک خاندانی حکیم تھے ان کا شمار دہلی کے شرفا وعمائدین میں ہوتا تھا۔انھیں اکبر شاہ ثانی کے دربار سے عمدۃ الملک، حاذق الزماں کے خطابات ملے تھے۔وہ بہادر شاہ ثانی کے معالجِ خاص تھے اور بادشاہ نے احترام الدولہ ، عمدۃ الحکما، معتمدالملک ثابت جنگ کے خطابات سے نوازا تھا۔وہ حکیم مومن خان مومن ؔکے ماموں زاد بھائی تھے۔
حکیم احسن اللہ خاں بعد نماز ظہر ریزیڈنسی میں حاضر ہوئے۔فریزر نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ شمس الدین احمد کو یہ خبر کردیں کہ وزیر خانم کسی اور کی نظر چڑھ چکی ہے اور اپنے دل سے اس کا خیال نکال دیں۔فریزر کی بات سنتے ہی حکیم صاحب نے دو ٹوک جواب دیا کہ شمس الدین پر نہ کوئی میرا رعب ودبدبہ ہے اور نہ یہ میرا فرض ہے کہ میں آپ کا پیغام نواب تک پہنچاؤں؟بغیر اجازت حکیم صاحب نے فریزر سے آداب کیا اور رخصت ہو گئے۔ فریزر کی اس ذلیل حرکت سے بہادر شاہ ظفر اور نواب شمس الدین کو آگاہ بھی کردیا۔
حکیم احسن اللہ خاں کے اس رویے پرفریزر آپے سے باہر ہوگیااور اس نے یہ طے کیا وہ بذات خود وزیر خانم سے مل کرسارے معاملات طے کرے گا۔دماغ میں خناس لیے حسب معمول وہ ہاتھی پر سوار ہو کر سیر کے لیے نکلااورجان بوجھ کر اپنی سواری سرکی والان کے پھاٹک پر لے گیا۔وزیر کے گھر پر اطلاع دی کہ ریزڈنٹ بہادر وزیر سے شرف ملاقات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔فریزر کا اچانک اس طرح آنا وزیر کو برا تو ضرور لگا لیکن وقت کا تقاضہ تھا کہ فریزر کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔لہٰذا وزیر نے فریزر کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا اور چائے پیش کی۔اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فریزر نے کہا ’’میں ارادے اور نتیجہ کی وحدت کا قائل ہوں‘‘ یہ سنتے ہی وزیر نے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کہا کہ ’’آپ وحدت کے اس قدر قائل ہیں تو آئینہ میں منھ نہ دیکھتے ہوں گے۔دیکھ لیتے تو بہتر تھا‘‘ وزیر کی اس بات فریزر اکڑکر کھڑا ہوگیا اور بولا چھوٹی بیگم ! یہ سودا تمھیں مہنگا پڑے گا۔
ولیم فریزر اب نواب شمس الدین کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے نت نئی سازشیں کرنے لگا۔وہ بار بار کلکتہ میں بیٹھے ہوئے گورنر جنرل کو اکساتا کہ وہ شمس الدین کو ان کی موروثی جائداد سے بے دخل کردے۔دوسری طرف فریزر نے شہرمیںیہ افواہ پھیلادی کہ اگرنواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم سے ہمارا نکاح ہوجائے تو کمپنی بہادر مقدمۂ وراثت میں نواب شمس الدین احمد کے دعوے پر ہمدردی کرسکتی ہے۔
کچھ دنوں بعد نواب شمس الدین اپنے علاقہ فیروز پور جھرکہ لوٹ جاتے ہیں۔۲۵؍مئی ۱۸۳۱ء کو بروز چہار شنبہ بوقت دو بجے دن وزیر خانم کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ جس کا نام نواب مرزا رکھا گیا۔یہی بچہ آگے چل کر فصیح الملک نواب مرزاخاں داغ ؔ دہلوی کے نام سے جگت استاد بنا۔
نواب شمس الدین خاں اور وزیر بیگم کی قسمت میں ابھی بہت سے اتار چڑھاؤ لکھے تھے ۔ خوشیاں تیزی سے غموں میں بدلتی جارہی تھیں۔حوادث کے سیاہ بادل بڑھے چلے آرہے تھے۔
یہ جولائی ۱۸۳۴ء کی بات ہے۔بارش خوب ہوئی تھی موسم بڑا سہانا تھا۔ولیم فریزر ہوا خوری کے لیے جان بوجھ کر حویلی حسام الدین حیدر کے پھاٹک تک پہنچا۔اس وقت نواب شمس الدین اپنے دوست مظفرالدولہ ناصر الملک میرزا سیف الدین حیدر خاں سیف جنگ کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے حویلی کے پھاٹک سے نکل رہے تھے۔فریزر نے ہاتھی رکوایا اور مصنوعی شگفتگی سے بولا۔مظفرالدولہ۔دلاورلملک ۔ تسلیمات عرض کرتا ہوں۔اس کے بعد فریزر نے کہا ۔ دلاورالملک ! جہانگیرہ بیگم کیسی ہیں ؟ سنا ہے نصیب دشمناں ان کا مزاج ناساز ہے ۔جی چاہے تو نور باغ میں جھولے ڈلوادیے جائیں وہاں تشریف لے آئیں ۔ دل بہل جائے گا۔یہ سنتے ہی شمس الدین کی آنکھوں سے شعلے برسنے لگے۔دراصل ان کی سوتیلی ماں مبارک النسا نے یہ باغ اختر لونی(انگریز) کے ہاتھ بیچ ڈالا تھااور اب وہ باغ فریزر کے رشتے کے بھائی سائمن فریزر کی ملکیت تھی۔سائمن فریزر ، ولیم فریزر کی کوششوںسے دلی کا سٹی مجسٹریٹ اور فریزر کا خاص آدمی تھا۔ان حقائق کی روشنی میں نواب کا غصہ بجا تھا۔
اس کے بعد نواب شمس الدین بلی ماراں سے چاندنی چوک چلے گئے ۔وزیر خانم نے سب باتیں سنیں۔انھیں سمجھایا بجھایا۔شربت وغیرہ پلایا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر تیزی سے باہر چلے گئے۔وزیر خانم پکارتی اور قسمیں دیتی ہی رہ گئی۔نواب صاحب اپنے کچھ آدمیوں کو لے کر ریزیڈنسی پہنچے ۔وہاں فریزر کے سپاہیوں اور نواب میں خوب ہاتھا پائی ہوئی۔فریزر کے آدمیوں نے نواب صاحب کو نہتا کرکے کوٹھی کے باہر پھینک دیا ۔ان کے کپڑے پھٹ گئے اور جوتیاں غائب ہوگئیں۔نواب کے ملازموں نے انھیںبہ ہزار خرابی چاندنی چوک تک پہنچایا۔وہاں ایک کہرام مچ گیا۔وزیر خانم اور سبھی ماما اصیلوں نے تیمارداری شروع کردی۔دوسری طرف وزیر کے دل میں طرح طرح کے اندیشے پیدا ہورہے تھے کہ سوتیلی ماں نے جادو ٹونا نہ کیا ہو، کہیں انگریز ان کی جان کے دشمن نہ بن جائیں۔
دوسرے دن نواب شمس الدین احمدخاں بے دار ہوئے تو کافی تازہ دم تھے۔وزیر سے باتیں کیں ۔ نواب مرزا کو بلا کر خوب پیار کیا ۔نہائے دھوئے اور ناشتہ کیا۔ اپنی بہن جہانگیرہ کی شادی کی غرض سے فیروز پور جھرکہ روانہ ہوگئے۔تین دن کا سفر طے کرنے کے بعد نواب صاحب فیروز پور جھرکہ پہنچے ۔۱۲؍ستمبر ۱۸۳۴ء کو اپنی بہن جہانگیرہ بیگم کا نکاح میرزا اعظم علی اکبرآبادی سے کردیا۔
حسب ِ معمول نواب شمس الدین دوپہر کا کھانا کھا نے کے لیے زنانہ حویلی کی طرف جارہے تھے کہ دلی کا ایک سانڈنی سوار(۱۷) عالی جاہ کے مختار کار بہادر کا عریضہ لے کر نواب کی خدمت میں حاضر ہواجس کا نام انیا میواتی تھا جو نواب شمس الدین کا نوکر تھا ۔ تیزرفتاری ، جفا کشی اور سفر کی صعوبات برداشت کرنے کے لیے اس کے شہرے دوردور تک تھے۔سات تسلیمیں کرنے کے بعد انیا میواتی نے اپنی پگڑی سے ایک ریشمی تھیلی نکال کردونوں ہاتھوں پر رکھی اور ایک قدم آگے بڑھ کر سر جھکائے ہوئے اپنے ہاتھ نواب شمس الدین احمد خاں کی طرف بڑھا دیے ۔
نواب شمس الدین نے خط کو بغور پڑھا انا للہ وانا الیہ راجعون نواب کے منھ سے نکلا۔خط کا اصل مضمون فارسی میں تھا جس کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:
اعلیٰ حضرت ولیِ نعمت سلامت
’’بعد تسلیمات کے معروض ہے ۔ خبر ملی ہے کہ نواب گورنر جنرل بہادر کے آستانۂ عالیہ سے در باب مقدمۂ حضور فیصلہ صادر ہوچکا ہے اور نقل اس فیصلے کی آج صبح ریزیڈنسی پہنچ گئی ہے۔ توقع اور اندیشہ ہے کہ اندر دو تین روزوں کے ریزیڈنٹ بہادر برائے عمل در آمد فیصلہ مزید احکامات جاری فرماویں گے۔یہ تحریر کرتے ہوئے بندے کو نہایت قلق ہے کہ فیصلہ بندہ پرور سلامت کے حسب منشا نہیں ہے۔حکم نواب گورنر جنرل بہادر ہے کہ علاقہ لوہارو کا اور اس کے ماتحت پرگنہ جات تحویل سے اعلیٰ حضرت کے لے لیے جاویں اور ولایت اس خطہ ٔ ملک کی امین الدین احمد بہادر کے سپرد کی جاوے‘‘
خط کو کئی بار پڑھنے کے بعد نواب شمس الدین کے دل میں بیک وقت غصہ ،فکر ، مایوسی اور غم کے بادل چھاگئے۔وہ بالکل سکتے کے عالم میںتھے اور کوئی فیصلہ نہیں کرپارہے تھے انھیں اب کیا کرنا چاہئے۔ ہاں اس تصور کے نتیجہ میں ان کی مٹھیاں ضرور بھنچ گئی تھیں کہ یہ سب کچھ فریزر کا کیا دھرا ہے۔اسی لمحے ان کا جان نثار اوربچپن کا ساتھی کریم خاں آگیا۔ کریم خاںایک ماہر نشانہ بازتھا اس لیے لوگ اسے ’’بھرمارو‘‘ کہتے تھے۔کریم خاں نے نواب کو حوصلہ دلایا اور وہاں سے غائب ہوگیا۔ ۷؍اکتوبر ۱۸۳۴ء بروز سہ شنبہ کریم خاں اور انیا میواتی گڑ گاؤ ں ہوتے ہوئے دوسرے دن دہلی پہنچے۔کریم خاں کے جاسوس فریزر کے نقل و حرکت کی خبریں کریم خاں تک پہنچانا شروع کرنے لگے۔اسی طرح تین مہینے گزر گئے۔ایک دن خبر ملی کہ فریزر کرسمس منانے دہلی آرہا ہے ۔ابھی وہ دہلی تک نہیں پہنچا تھا کہ نواب شمس الدین کا ایک رقعہ کریم خاں کوملا جس میں اسے فوری طور پر قلعۂ فیروز طلب کیاگیا لیکن اس رقعے پرنہ تو نواب کے دستخط تھے اور نہ مہر تھی۔کاغذ بھی وہ نہ تھا جو دیوان ریاست میں استعمال کیا جاتا تھا لیکن کریم خاں کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ روبکارو(۱۸) خود نواب کی تحریر کردہ نہیںتھی۔اگلے دن صبح کریم خاںنے فیروز پور کے لیے رخت سفر باندھا۔ روانہ ہونے سے قبل اسے یہ خیال آیا کہ رقعے کو حویلی میں چھوڑنا ٹھیک نہیں ہے اور اپنے پاس بھی رکھنا اسے خلاف مصلحت سمجھا۔ نواب کی تحریر کو پرزے کرنا یا نذر آتش کرنا کریم خاں کو گوارا نہ ہوا لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر وہ رقعہ دریا گنج کی حویلی کے سامنے والے کنویں میں ڈال دیا۔دوسرے دن عصر کے وقت کریم خاںقلعۂ فیروز پور جھرکہ پرحاضر ہوگیا۔
دوشنبہ کا دن تھا اور تین مارچ کی تاریخ ،جب کریم خاں اور انیا میواتی دوبارہ دہلی پہنچے۔ان دونوں نے فریزر کے روزانہ پروگراموں پر نظر رکھی ۔اپنے جاسوس بھی اس کام پر لگادیے۔۲۲؍مارچ ۸۳۵ا ء کو رات کاوقت تھا ۔فریزر کی بند بگھی جب کشن گنج سے چلی تو تقریباََ گیارہ بجے کاعمل تھا۔ایک مدت کے بعد ایسا اتفاق ہوا تھا کہ فریزر اتنی رات کو گھر سے باہر وہ بھی نسبتاََ کھلی جگہ پرتھا ۔ اسی شام وہ کشن گڑھ (ہریانہ) کے راجا کلیان سنگھ کے یہاں کھانے پر مدعو تھا۔ کھانے کے بعد رقص وشراب کی محفل دیر تک چلی اور فریزر نے معمول سے بہت زیادہ پی لی تھی۔کلیا ن سنگھ کے ملازموں اور فریزر کے محافظوں نے اسے کسی طرح اٹھا کر بگھی میں ڈال دیا تھا ۔ بگھی کے ساتھ ایک مشکی سوار(۱۹) بھی تھا جسے لوگوں نے اندھیرے میں محافظ سمجھا۔مشکی سوار نے بندوق سے فریزرکے جسم کو چھلنی کردیا اور بھاگ نکلا۔سارے شہر میں فریزر کی موت سے کہرام مچ گیا ۔
دوسرے دن فریزر کی تعزیت کو آنے والوںمیں مرزا غالبؔ اور فتح اللہ بیگ خاں بھی تھے۔کسی زمانے میںفتح اللہ بیگ خاں اور نواب شمس الدین خاں آپس میں رشتے دار اور دوست تھے لیکن آگے چل کر کٹر دشمن بن گئے۔فتح اللہ بیگ فریزر کی لاش کو دیکھ کر اس پر گر پڑے اور کہا کہ ’’ہائے شمس الدین نے تجھے نہ چھوڑا‘‘ یہ جملہ سنتے ہی انگریزوں کے کان کھڑے ہوگئے اور وہ شمس الدین اور ان کے ملازموں کے پیچھے لگ گئے۔
سائمن فریزر نے دلی کے تمام دروازے بند کرادیے اور ہر طرف جاسوسوں کا جال بچھا دیا لیکن انیا میواتی اتنا شاطر تھا کہ انگریزوں کو چکما دے کر ۲۴؍مارچ ۱۸۳۵ء کو وہ فیروزپور قلعہ کے صدر دروازے پر تھا۔نواب شمس الدین کا سامنا ہوتے ہی سلام کیا اور کہا کہ ’’سرکار کے اقبال سے کام ہوگیا ۔دشمن راستے سے ہٹادیا گیا‘‘ ۔ نواب صاحب انیا میواتی سے خوش ہوکر دس اشرفیاں دلوائیںاور کہا کہ تم فیروز پورمیں ہی ٹھہرو۔انیا میواتی کی چھٹی حس نے اسے ہوشیار کردیا کہ نواب صاحب کا اتنا گہرا راز تمھارے دل میں دفن ہے وہ یقینا تمھیں مروا ڈالیں گے۔یہی سوچ کر انیا اپنے بھا ئی سے ملا اور اسے اپنا رازدار بنا کر فیروز پور سے رفو چکر ہوگیا۔دوسری طرف کریم خاں گرفتا ر ہوکر انگریزوں سے پٹنے لگا۔بہر حال نواب شمس الدین احمد خاں کو فیروز پور جھرکہ سے دہلی آنے کا حکم دیا گیا۔یہ خبر سنتے ہی پنجاب کے راجا مہاراج دھیراج کے سفیر اجاگر سنگھ نے نواب کی خدمت میں حاضر ہوکر پرزور درخواست کی کہ آپ بھیس بدل کر پنجاب بھاگ چلیں لیکن نواب صاحب نے اسے بزدلی سے تعبیر کیا۔دوپہر کے کھانے کے بعدنواب شمس الدین نے فرداََ فرداََ سب سے ملاقات کی۔ بیویوں کو ان مہر کی رقم دی اور دہلی کے لیے رخصت ہوگئے۔شام تک فیروز پور جھرکہ کے بازار بند ہوگئے ایسا لگتا تھا کہ ساری آبادی نے بن باس لے لیا ہے۔
جیسے ہی خبر ملی نواب شمس الدین قلعۂ پالم تک پہنچ چکے ہیں سائمن فریزر اپنے پچاس مسلح سپاہیوں کے ساتھ قلعۂ پالم پہنچ کر انھیں گرفتا ر کرلیا۔کافی قانونی کاروائیوں کے بعد(جوسب کی سب یکطرفہ تھیں)۸؍اگست۱۸۳۵ء بروز سہ شنبہ Alexander John نے یہ فیصلہ کیا کہ نواب شمس الدین اورکریم خاں کو مجمع عام میں پھانسی دے دی جائے۔
۲۶؍اگست ۱۸۳۵ء کی دوپہر کو جامع مسجد فتح پوری چاندنی چوک میں کریم خاں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا اور ۸؍اکتوبر ۱۸۳۵ ء بروز پنچ شنبہ ۸ بجے دن نواب شمس الدین خاں کو کشمیری دروازے کے باہر کھلی ہوا میں پھانسی دے دی گئی۔آٹھ ہزار کے مجمع نے نواب شمس الدین کو قدم شریف میں دفن کردیا۔
وقت گزرتا رہا ۔مرزا داغ ؔ اپنی خالہ کے ساتھ رام پور چلے گئے اور وزیر خانم کا غم بھی آہستہ آہستہ کم ہوا۔تقریباََ سات سال بعد ۱۱؍اگست ۱۸۴۲ء بروز جمعرات، وزیر خانم کا نکاح نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ بیگم کے جیٹھ آغا مرزا تراب علی سے دو طریقوںسے ،پہلے بطریق اہل سنت اور پھر بطریق اثنا عشریہ ہوا۔ وزیر خانم کو مدتوں بعد محسوس ہوا کہ امن وامان اور سلامتی کے چاند اس کے گرد ہالہ کیے ہوئے ہیںاور خارجی دنیا کی کریہہ ظلمت اب اسے اور اس کے بیٹے نواب مرزا کو بھی نہ چھو سکے گی۔جون ۱۸۴۳ء کو وزیر خانم کو ایک بیٹا پید اہوا جس کا نام شاہ محمد آغا مرز ارکھا گیا ۔ آگے چل کر وہ شائق ؔ اور شاغل ؔ کے نام سے مشہور ہوا۔
نومبر ۱۸۴۳ء کا آغاز تھا جب آغا مرزا تراب علی نے ہاتھیوں اور گھوڑو ں کی خریداری کے لیے سون پور (بہار) جانے کا قصد کیا۔ہندوستان میں جانوروں کا سب سے بڑا میلہ وہاں ہر سال پُوس کی تیسری تاریخ سے لے کر وسط ماگھ یعنی مکر شنکرانتی کے دن(۱۴ جنوری تک) دریائے گنڈک کے کنارے ایک وسیع میدان میں لگتا تھا۔۱۵؍اگہن مطابق ۹؍دسمبر ۱۸۴۳ء کو مرزا آغانے اپنے قافلے کے ساتھ سون پور کے لیے کوچ کیا۔خشکی اور پانی کا سفر کرتے ہو ئے بیس دن کے بعد ۲۹؍دسمبر کو دن چڑھے ان کا قافلہ بخیر وعافیت سون پور پہنچ گیا۔ وہاں مرزا تراب علی کا کاروبار بہت تیز اور منافع بخش رہا۔
سون پور سے واپسی مانک پور روڈ سے ہوئی ۔تراب علی کا ایک تجربہ کار سائیس منیر خاں نے متنبہ کیا کہ یہ راستہ پر خطر ہے یہاں ٹھگ راہ گیروں کو لوٹ کر مار ڈالتے ہیںلیکن آغا مرزا تراب علی نے سائیس کی بات یہ کہہ کر ٹال دی کہ انگریز اس قوم کا قلع قمع کر چکے ہیں۔منیر خاں کی بات سچ ثابت ہوئی جب یہ قافلہ فتح پور ہسوہ سے آگے بڑھا تو درجنوں ٹھگوں نے مکاری سے قافلہ لوٹ لیا۔ مرزا آغا اور ان کے ساتھیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور وہیں ایک بڑے گڑھے میں مردوں کو دفن کردیا۔
مرزا تراب علی نے اپنے ساتھیوں کا ایک قافلہ بذریعہ کشتی بھی روانہ کیا تھا۔قافلے کا سردار داروغہ شاہنواز خاں اور منیرخاں نے کاٹھیاواڑ کے حبشی النسل سیدیوں کی مدد سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں ٹھگوں نے لاشوں کو دفن کیا تھا ۔ان لاشوں کو وہاں سے نکال کر قائم گنج میں دوبارہ دفن کیا گیا۔پانچویں دن کی شام کو سوگواروں کا یہ قافلہ رام پور پہنچا۔وزیر خانم نے جب یہ بری خبر سنی تو اس پر سکتہ طاری ہوگیا۔
نوٹ: اس موقع پر ’’زخمی سانپ ‘‘ اور ’’کسّی‘‘ کی ذیلی سرخیاں قائم کرکے فاروقی نے ٹھگوں کی مختصر مگر کار آمد تاریخ بیان کی ہے خاص طورپر اس قابل نفریں گروہ کی پیشہ وارانہ اصطلاحات کا ذکر کرکے قارئین کے علم میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔چونکہ مرزا کے قاتل ٹھگ تھے اس لیے ناول کا یہ حصہ قطعاََغیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ مہا کالی کے حوالے سے جو باتیں کہی گئی ہیںان کا ٹھگی سے گہرا رشتہ ہے اس لیے یہ بات افسانہ ہو کر بھی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔اسی لیے ہم غیر ضروری سمجھ کر بھی اس سے صَرف نظر نہیں کرسکتے۔
مرزا تراب علی کی بے وقت اور اندوہناک موت کے بعد ایک بار پھر وزیر خانم پر پیغمبری وقت آن پڑا۔مرزا آغا کے قریبی اعزہ میں ایک بیوہ بہن نور فاطمہ اور بوڑھی بیوہ پھوپھی امیر النسا تھیں۔ وزیر خانم اپنا بچہ لے کر مرحوم آغا کے پرانے مکان میں منتقل ہوگئی اور نواب مرزا کو ان کی منجھلی خالہ کے پاس بھیج دیا۔حبیبہ اور راحت افزا وزیر خانم کے ساتھ رہیں۔ ایک طرف راحت افزا کی شادی کی فکر وزیر خانم کو ستائے جارہی تھی تو دوسری طرف سسرال کی بیوہ نند اور پھوپھیا ساس ہروقت وزیر کو طعنے مارتیں کی اس نے جس کا بھی ہاتھ پکڑا وہ چل بسا۔کچھ دنوں کے بعد نواب یوسف علی خاں کے والد نواب محمد سعید خاں والیِ رام پورنے وزیر خانم کو اپنے پاس بلا لیااور راحت افزا کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرائی۔
دلی میں بہادر شاہ ثانی کا عہد حکومت کافی پرسکون اور پر شکوہ تھا لیکن وزیر خانم کا دل رنج وغم سے بھرا ہواتھا۔وہ اپنی بہن منجھلی بیگم پر زیادہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتی تھی لہٰذا رام پور سے شاہ محمد آغا اور نواب مرزا کو لے کر دلی چلی آئی لیکن دلی شہر اور شاہ جہاں آباد اسے کاٹے کھا تا تھا۔نواب مرزا کی تعلیم البتہ اب رک گئی تھی۔ ملا غیاث رام پوری کی عمدہ تعلیم اور انتھک محنت کی بدولت وہ فارسی اور تاریخ و فلسفہ میں اپنے ہم عمروں میں بڑھ کر تھا۔اسے یقین تھا کہ ایک دن وہ بہت اچھا شاعر اور استاد بن جائے گا۔ حافظہ اتنا اچھا تھا کہ فارسی اور اردو کے ہزاروں اشعار یاد تھے۔وہ زود گوئی میں بھی کمال رکھتا تھا۔بہت جلدہی نواب مرزا کانام زبانوں پر چڑھ کر سارے شہر میں مشہور ہوچکا تھا خود مرزا غالب ؔ جیسے شاعر کو فکر تھی کہ اس ہونہار لڑکے کو بلوا کر اس کی ہمت افزائی کریں اور ایسا کیا بھی۔
انھیں دنوں خواجہ حیدر علی آتش کی ایک تازہ غزل لکھنؤ سے دہلی آئی جس کا مطلع تھا:
مگر اس کو فریب نرگسِ مستانہ آتا ہے
اُلٹتی ہیں صفیں ، گردش میں جب پیمانہ آتا ہے
مصر ع اول کو طرح بنا کر بہت سے شعراے دہلی نے غزل کہی ۔جس میں نواب مرزا کے اشعار یوں تھے:
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتاہے
دغا شوخی شرارت بے حیائی فتنہ پردازی
تجھے کچھ اور بھی اے نرگسِ مستانہ آتا ہے
ایک دن نواب مرزاقدم شریف میں اپنے والد کی قبر پر فاتحہ پڑھ کرواپس ہورہا تھا کہ صدر دروازے پر ایک خوبرو اور وجیہہ شخص ہوادار (۲۰)میںبیٹھا تھا ۔وہ شخص مرزا فتح الملک بہادر شاہ ظفر کے تیسرے بیٹے مرزا فخرو اور ہونے والے ولی عہد تھے۔نواب مرزا نے پاس پہنچ کر کورنش(۲۱) بجالائی اور درگاہ سے نکلنے ہی والاتھا کہ ایک چوبدار (۲۲)نے نواب مرزا سے کہا کہ صاحب عالم و عالمیان یاد فرماتے ہیں۔نواب مرزا کے سامنے آتے ہی صاحب عالم نے کہا :
جیتے رہو، ہمیں تمھاری مؤذب کورنش پسند آئی۔کیا نام ہے تمھارا ۔کس کے بیٹے ہو؟ س۔۔۔سرکار م۔۔۔میں نواب شم۔۔۔۔۔شمس الدین احمد خاں کا بیٹا ہوں، نواب مرزا مجھے کہتے ہیں۔
اچھا ۔شمس الدین احمد والیِ فیروز پور جھرکہ و لوہارو کے فرزند ہو؟
سرکار نے درست فرمایا۔
بھئی سبحان اللہ رئیسانہ سبھاؤ کے شخص تھے، یہیں مدفون ہیںاور تم لوگ اب ۔۔۔۔؟
وہ۔۔۔۔تمھاری والی۔۔۔۔اتنا کہہ کر شہزادے نے توقف کیا ۔اسے شاید خیال آگیا کہ مستورات کے بارے میں کچھ پوچھنا تہذیب کے خلاف ہے۔ اچھا ہمارا سلام کہنا۔
نواب مرزا کو شہزادے کے بارے میں کچھ زیادہ معلو م نہ تھا ۔اِدھر اُدھر سے پتہ لگایا توصرف اتنا معلوم ہوا کہ شاعر بھی ہیں ۔رمزؔ تخلص کرتے ہیں اور استاد ذوقؔ کے شاگرد ہیں۔
نواب مرزا نے گھر آکر اپنی ماں کو شہزادے سے ملاقات کا ذکر کیا ۔وزیرچپ چاپ سنتی رہی ۔ بعد میں وزیر خانم اپنی خادمہ حبیب النسا سے میرزا فتح الملک کے بارے میںمختلف سوالات پوچھتی رہی۔حبیبہ نے شہزادے کے بارے میں بڑی امید افزا باتیں بتائیں۔ آخر میں یہ تجویز رکھی کہ چلئے بائی جی سے پوچھ لیں۔
دوسرے دن حبیبہ اور وزیر خانم بائی جی کے یہاں پہنچیں۔کوڑیاں گن کر بائی جی نے کہا کہ تمھیں نواب شمس الدین کو چھوڑنا ہوگا کیونکہ قلعے کی بیگمات کھلے عام مزاروں پر نہیں جاتی ہیں۔وہاں پردے کا بڑا اہتمام ہے۔
تو بائی جی کا حکم ہے کہ میں قلعے کا پیغام قبول کرلوں؟
ہمارا کچھ حکم نہیں بابا۔۔یہ امور ہونے والے ہیں!
اور اس کے بعد میرے دکھ دور ہوجائیں گے بائی جی صاحب ؟
دکھ ،سکھ تو دھوپ چھاؤں کی طرح ہیں۔ہر چیز تغیر پذیر ہے ،قلعے کی بادشاہت کے بھی دن کبھی پورے ہوں گے۔
مولانا امام بخش صہبائی اور حکیم احسن اللہ کی مدد سے ۲۴؍ جنوری ۱۸۴۵ء کو وزیر خانم کا نکاح بعد نماز مغرب فتح الملک مرزا فخرو کے ساتھ بہت دھوم دھام سے ہوگیا۔قلعہ معلی میں بہ طور خاص مبارک سلامت کی بارش ہورہی تھی۔وزیر خانم کو ’’شوکت محل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔نواب مرزا اور شاہ محمد آغا کی پرورش کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا گیا۔کئی ہفتوں تک دعوتوں اور ضیافتوں کا دور چلتا رہا۔گویا وزیر خانم کی زندگی میں ایک نیا سورج طلوع ہوا۔شادی کے بعد اِدھر تو وزیر خانم بادشاہ وقت کی بہو بنیں اور اُدھر نواب مرز اکی شادی فاطمہ رفاعی کے ساتھ ہوگئی۔وزیر خانم اپنی خوش نصیبی پر نازاں تھی مگر تقدیر دور کھڑی ہنس رہی تھی۔ ہر کمالے را زوال کے مصداق وزیر کے آفتاب مسرت کو بھی گہن لگنے والا تھا۔وزیرخانم کو مرزا فخرو سے ایک بیٹا(خورشید مرزا) پیدا ہوا۔دوبارہ محل میں خوشیاں منائی گئیں اور مٹھائیاںتقسیم ہوئیں۔لیکن افسوس کہ وہ منحوس گھڑی آکر رہی جس سے وزیر ہمیشہ ڈرا کرتی تھی۔
۱۰؍جولائی ۱۸۶۵ء کو مرزا فخرو نے بعارضۂ ہیضہ انتقال کیا ۔وزیر خانم نے اپنا منھ پیٹ لیا ۔بجائے اس کے کہ وزیر خانم کی ساس زینت محل اس بیوہ غمزدہ پر رحم کرتیںاسے نہایت بے رحمی سے محل سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔وزیر خانم ان سے خوب لفظی جنگ کی لیکن آخر نتیجہ صرف اتنا رہا کہ ع
’’شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے‘‘ (ناصرکاظمی)
’’ اگلے دن مغرب کے بعد قلعۂ مبارک کے لاہوری دروازے سے ایک چھوٹا سا قافلہ باہر نکلا ۔ایک پالکی میں وزیر ۔ایک بہل پر اس کا اثاث البیت اور پالکی کے دائیں بائیں گھوڑوں پر نواب مرزا اور خورشید مرزا۔ دونوں کی پشت سیدھی اور گردن تنی ہوئی تھی ۔محافظ خانے
والوں نے روکنے کے لیے ہاتھ پھیلائے تو مرزا خورشید عالم نے ایک ایک مٹھی اٹھنیاں چونّیاں دونوں طرف لٹائیں اور یوں ہی سر اٹھا ئے ہوئے نکل گئے۔ان کے چہرے ہر طرح کے تاثر سے عاری تھے لیکن پالکی کے بھاری پردوں کے پیچھے چادرمیں لپٹی اور سرجھکائے بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو کچھ نظر نہ آتا تھا‘‘۱؎
درج بالا اقتباس ناول کا اختتامیہ ہے ۔تقدیر ایک مرتبہ پھر وزیر خانم کو وقت کے بھنور میں ڈھکیل دیتی ہے۔ناول نگار نے وزیر خانم کے کردار کے حوالے سے انیسویں صدی کے مرد مرکوز معاشرہ میں ایک عورت کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کرنے کی جدو جہد کو موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔اس جدو جہد کے دوران اس کی زندگی میں جو مختلف موڑ آتے ہیں اور ان مراحل میںوہ جن اشخاص کے رابطے میں آتی ہے وہ اس عہد میں ہندوستان کی سیاسی اور ادبی تاریخ میں قابل ذکر اور اہم مقام کے حامل ہیں ۔ناول نگار نے ناول کے مرکزی کردار کے حوالے سے اس پورے عہد کی تاریخ کو زندہ کردیا ہے۔
آٹھ سو پینتالیس صفحات پر مشتمل اس ضخیم ناول کا خلاصہ چند صفحات میں پیش کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے جیسا عمل ہے ۔اس مشکل کے باوصف یہ کوشش کی گئی ہے کہ خلاصہ پیش کرتے وقت ان اہم نکات کو بیان کردیا جائے جو ناول کے تخلیقی منظر نامہ کو نمایا ں کردیں۔
٭٭٭

فرہنگ
شبیہ ساز : مشابہ تصویر بنانے والا(Portrait Painter)
(۲) نقّاش : نقش ونگار بنانے والا، مصور۔
(۳) قالین باف : غالیچہ ،قالین بُننے والا
(۴) چوب تراشی : لکڑی پر نقش ونگار بنانا۔
(۵) سادہ کاری : سونے کے تار سے کپڑوں پر بیل بوٹے کاڑھنا۔
(۶) کلدار اشرفیاں : قدیم مقامی سکہ۔
(۷) شاہ عالم اشرفیاں: قدیم بین الاقوامی سکہ۔
(۸) شاگرد پیشہ : نوکر چاکر،ملازموں کے رہنے کے لیے وہ کمرہ جو محل سے قریب ہو
(۹) اصیلیں : باندی ،کنیز، لونڈی۔
(۱۰) ماما : وہ دائی یاخادمہ جو کھانا بناتی ہو۔
(۱۱) چھو چھو : دایہ ، وہ عورت جو لڑکیوںکی خدمت کے لیے مقرر ہوتی ہے۔
(۱۲) ڈومنی پن : گانے بجانے کاشوق، طوائف پن۔
(۱۳) بہلی : چھوٹی بیل گاڑی جو سواری کے کام آتی ہے۔
(۱۴) پنڈاروں : ایک قسم کا آوارہ گرد گروہ، قبیلہ۔
(۱۵) عرب سرائے : قدیم دہلی کا طوائفوں کا ایک علاقہ۔
(۱۶) کیوپڈ : رومیوں کا عشق کا دیوتا۔
(۱۷) سانڈنی سوار : تیز رفتار اونٹنی کی سواری کرنے والا۔
(۱۸)روبکارو : نوابوں کاوہ تحریر نامہ جس میں کوئی حکم صادر کیا گیا ہو۔ایسے
حکم نامہ کو لانے اور لے جانے والے کو ’’روبکارو ‘‘ کہتے ہیں۔
(۱۹) مشکی سوار : سیاہ رنگ کے گھوڑے کی سواری کرنے والا۔
(۲۰) ہوادار : ایک قسم کی ڈولی جو چاروں طرف سے کھلی ہوتی ہے۔
(۲۱) کورنش : درباری سلام کرنے کا طریقہ۔
(۲۲) چوبدار : لاٹھی لے کر نوابوں کے آگے چلنے والا نوکر۔
٭٭٭

 

Nepali Folk Tale

Articles

گیدڑ اور بھالو

نیپالی لوک ادب

 

ایک مرتبہ کی بات ہے گیدڑ اور بھالو کی ملاقات گاﺅں کے میلے میںآسمانی جھولے میںہوئی ۔انھوں نے جھولے کا بھر پور مزہ لیا۔پوری رات انھوں نے شراب پینے ، قمار بازی اور لطیفہ گوئی میں صرف کر دی۔دوسرے دن صبح تک وہ دونوں بہت اچھے دوست بن گئے۔انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب سے وہ دونوں ساتھ ساتھ رہینگے، ساتھ کمائینگے اور ساتھ کھائینگے ۔
گیدڑ نے کہا ”میرے دوست ہم بھائی جیسے ہیں ہم الگ نہیں ہیں۔ ہم نے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کا فیصلہ کیاہے کیوں نہ ہم ساتھ مل کر کھیتی باڑی شروع کریں۔“
بھالو نے سوچا یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تب دونوں گھر کی تلاش میں نکلے۔ گاﺅں سے تھوڑے ہی دور جنگل میں جہاں لوگ لکڑیاں کاٹنے جاتے تھے انھیں وہاں ایک چرواہے کا جھونپڑا نظر آیا جو کئی سالوں سے ویران تھا ۔انھوں نے بامبو سے چھت بنائی اور جھونپڑے کو اچھی طرح سے صاف کیا۔پھر انھوں نے جوئے میں جیتے ہوئے پیسوں سے ایک سانڈ خریدااور زمین جوتنا شروع کردی۔
بھالو کا سلوک گیدڑ کے ساتھ بہت اچھا تھا اور وہ بہت محنتی بھی تھالیکن بے وقوف تھا ۔دوسری طرف گیدڑ بہت چالاک تھا لیکن اسے کام سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی۔انھوں نے مل کر اپنی پہلی بھنٹے کی فصل تیار کرلی ۔گیدڑ کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بھالو کے ساتھ زندگی بطور کسان نہیں گذار سکتا۔
دوسرے دن صبح گیڈر نے کہادوست میںکھیت میں کام کرتا ہوں اور تم جاﺅ سانڈ کو چرا لاﺅ۔اس طرح ہم باری باری کرینگے جس سے ہمارے کام کا بوجھ ہلکا ہو جائیگا ۔
یہ طریقہ بھالو کو بہت پسند آیا وہ روزانہ صبح اٹھتا ناشتہ کرتا اور سانڈ کو چرانے نکل جاتا اور سانڈ کو چرانے چھوڑ کر اونچی جگہ جا کر بیٹھ جاتا اور دن بھر اس پہ نظر رکھتا ۔اس طرح سانڈ گھم ہو جانے اور شیر کی خوراک بننے سے بچا رہتا۔اسی دوران گیدڑ کھیت میں درخت کے سائے میں دن بھر لیٹا رہتا اس طرح فصل بڑھتی گئی۔
جب فصل کی کٹائی کا وقت آیا تب گیدڑ نے کہا”میرے دوست تم نے بہت محنت کی ہے اورکئی دنوں سے سانڈ کو چرا رہے ہو ۔ سانڈ بھی بہت صحت مند ہو گیا ہے ۔اب میری باری ہے اسے چرانے کی اب تم کھیت میں کام کرو۔
بھالو اپنی تعریف سنتے ہی راضی ہو گیا۔وہ فصل کی کٹائی کرنے لگااور گیدڑ سانڈ کو چرانے چلا گیا۔
بھالو مسلسل پورا دن کام کرتا رہتا ۔گیڈر کم محنتی تھا۔اسے گھنے جنگل میں اندر تک جانا بھی بھاری پڑتا تھا جہاں سانڈ کے لیے اچھی غذا تھی۔اسے اونچی جگہ پر چڑھنا اور سانڈ پہ نظر رکھنا بھی بھاری پڑتا تھا ۔ اور وہ دن بھر سانڈ کے ساتھ رہتا کہ کہیں گھم نہ جائے یا وہ شیر کی خوراک نہ بن جائے۔وہ میدانی علاقے میں سانڈ کو چرا تا رہتا یہ اس کے لیے آسان تھا اسے اس چیز کی پرواہ نہ تھی کہ وہاں چھوٹی چھوٹی گھاس ہے۔وہ بیری کے درخت کے نیچے لیٹا رہتا اور اسے دیکھتا رہتا۔اسے نہ ہی اٹھنے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی سانڈ کے پیچھے پیچھے بھاگنے کی۔شام میں تاخیر سے وہ گھر جاتا تاکہ اسے بھالو کے ساتھ فصل کی کٹا ئی میں مدد نہ کرنا پڑے۔
چند دنوں بعد سانڈ دبلا پڑ گیا۔اگر چہ بھالو بے وقوف تھا مگر اندھا نہیں تھا۔
اس نے ایک شام کو گیدڑ سے کہا”دوست ہمارا سانڈ اتنا دبلا کیوں ہوتا جا رہا ہے۔“
گیدڑ کے پاس جواب تیار تھا۔
” اس معاملہ میں ہم دونوں برابرنہیں ہیں دوست تم مجھ سے زیادہ اچھا چراتے ہو“۔ اس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا”جہاں کہیں میں اسے لے جا تا ہووہاں مجھ سے پہلے لوگ پہنچ جاتے ہیں اس لیے اسے کھانے کے لیے کم مل پاتا ہے۔لیکن آج میں نے ایک ایسی جگہ دریافت کرلیہے جہاں گھاس سانڈ کے گھٹنوں تک اگی ہوئی ہے۔کل میں اسے وہاں لے جاﺅں گا اور اسے پیٹ بھر کھلاﺅں گا۔“
بھالو کو یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ گیدڑ اچھا چرواہا بننے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسرے دن صبح جب گیدڑ سانڈ کو لے جانے کے لیے اس کی رسی کھول رہا تھا تب اس نے دیکھا کہ فصل کی کٹائی تقریباََ ہو چکی ہے ۔ اسی دن کا اس کو انتظار تھا ۔وہ گیڈر کو جنگل میں لے گیا مگر اسے گھنی جھاڑی میں نہیں لے گیا بلکہ بنجر ٹیلہ پر لے گیا جہاں گھاس کا نام و نشان نہ تھا۔جب سانڈ نے چرنے کے لیے اپنے سر کو جھکایا تب گیڈر نے اسے دھکا دے دیا اور وہ ٹیلہ سے نیچے گر گیا۔پھر گیدڑ بھاگتا ہوا ٹیلے سے نیچے اترا اور سانڈ کے مردہ جسم کو کھسکا کرٹیلے کے سائے میں لے آیا تا کہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
صبح کا ناشتہ گیدڑ نے سانڈ کے گوشت سے کیا۔جب اس کا پیٹ بھر گیا تب اس نے سانڈ کے بچے ہوئے جسم کو پہاڑ کی غار میں چھپا دیا اور غار کے راستے کو پتھروں سے بند کردیا صرف اتنی جگہ چھوڑ دی کہ وہ خود اندر داخل ہو سکے اور سانڈ کی پونچھ سوراخ سے لٹکا کر باہر چھوڑ دی۔جب سب کام ختم ہو گیا تب اس نے سوچا کہ تھوڑی دیر آرام کر لیا جائے ۔وہ گھر شام کو دیر سے جانا چاہتا تھا کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ فصل کاٹنے میں آج بھالو کو دیر ہو جائے گی۔
گیدڑ کو دور سے اکیلا آتا دیکھ بھالو نے گیدڑ سے کہا”سانڈ کہاں ہیں؟“
گیدڑ روتے ہوئے کہنے لگا ” دوست آج بہت برا ہوا سانڈ غار کے دہانے میں پھنس گیا میں نے اسے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن میں اسے نکال نہ سکا کیوں کہ میں بہت کمزرور تھا ۔میرے دوست تم بہت طاقتور ہو ۔ کل تم میرے ساتھ چلو مجھے یقین ہے کہ تم اسے نکال لو گے۔
بھا لو تعریف سن کر نرم پڑ گیااور وہ اپنے دوست کی بات ٹال نہ سکا۔
دوسرے دن صبح گیدڑ بھالو کو لے کر غار کے پاس پہنچا ۔گیدڑ نے بھالو سے کہا تم بہت موٹے ہو تم اندر نہیں جا سکتے میں اندر جاتا ہوں اور سانڈ کو ڈھکیلتا ہوںتم باہر رہو اورباہر کی طرف کھینچو۔لیکن جب تک مت کھینچنا جب تک میں نہ کہوں۔جب میں کہوںتب تم دونوں ہاتھوں سے پوری طاقت لگا کر کھینچنا ۔
بھالو راضی ہو گیا اور گیدڑ غار کے اندر چلا گیا۔اور اند رجا کر اس نے سانڈ کو باہر ڈھکیلنے کی پوری تیاری کرلی۔پھر آواز لگائی”دوست کھینچو!“
بھالو نے دونوں ہاتھوں سے پونچھ کو پکڑا اور اپنا پیر سہارے کے لیے غار پر رکھ کرپوری طاقت سے کھینچنے لگا۔جب گیدڑ کو لگا کے بھالو پوری طاقت سے کھینچ رہا ہے تب اس نے سانڈ کو باہر کی طرف ڈھکیل دیا ۔بھالو سانڈ کے وزن کو سنبھا ل نہ سکا اور لڑکھڑا کر پہاڑسے نیچے ندی میںگر گیا۔
سانڈ ہاتھ مل کر مسکرانے لگا ۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔فصل پوری کٹ چکی تھی۔سانڈ کو بھی اب چرانے کی ضرورت نہیں تھی اور اب بھالو بھی نہیں تھا جو اسے غلط کام پر بولتا۔دھوکہ باز گیدڑ نے سوچا”اب جیسا میں چاہوں ویسا کر سکتا ہوں کوئی بولنے والا نہیں ہے۔“
وہ بھاگتا ہواگھر آیا ۔کلہاڑی اور باسکٹ لے کر پھر پہاڑی پر گیا تاکہ سانڈ کا بچا ہوا گوشت کھا سکے اورجو بچے اسے کاٹ کر گھر لا سکے۔گیدڑ نے گھر سے دلیابھی ساتھ لے لیا تا کہ دوپہر کا کھانا مکمل ہو جائے۔اور وہ یہ ساری چیزیں لے کر پہاڑی پر پہنچا ۔
پہنچتے ہی وہ ششدر رہ گیا۔ غار کے سامنے بھالوہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا۔
” ارے دوست “گیدڑ کو دیکھ کر بھالو نے کہا۔”سانڈ کا کیا ہوا؟“
”تم نے زیادہ زور سے کھینچ دیا “ گیدڑ نے برجستہ جواب دیا۔” تمہیں اپنی طاقت کا اندازہ نہیں رہا ۔ تمہارے ساتھ ہی سانڈ بھی دریا میں گر گیا اور ڈوب گیا۔وہ دریا میں بہت زور سے گرا تھا پانی بھی بہت اوپر تک اچھلا تھا۔“
”میرے پیارے دوست“بھالوبڑبڑاتے ہوئے کہنے لگا”اب ہم اس سے کبھی نہیں مل سکتے ۔ اس کے ساتھ میری بھی زندگی ختم ہوگئی !“ پھراس نے گیدڑ کی طرف دیکھ کر کہا”تم کلہاڑی اور باسکٹ اپنے ساتھ کیوں لائے ہو؟“
”میں نے سوچا کہ میں جنگل میں جا کر کچھ لکڑیاں کاٹ لاﺅں گا۔مجھے معلوم تھا کہ تم دریا سے بچ کر نکل جاﺅں گے اور تمہیں سردی پکڑ لے گی اور تم کام نہیں کر پاﺅں گے۔میں تم سے کہنے ہی والا تھا کہ تم گھر جا کر تھوڑا آرام کرلو۔“
تمہیں اپنے آپ پر رشک کرنا چاہئے کہ تمہارے بارے میں اتنا سوچنے والا تمہیں بھائی جیسادوست ملا۔پھر بھالو نے کھچڑی کی طرف دیکھ کر کہا ”تم دلیا کیوںاپنے ساتھ لائے؟“
”میں نے سوچا کہ تم تیرتے تیرتے بہت تھک گئے ہوگے اور تمہیں بہت بھوک لگی ہو گی اس لیے میں گھر جاکر تمہارے لیے کھچڑی لے کر آیا۔“
بھالو کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی اور وہ خوش نظر آنے لگا۔
”میرے دوست تم لاکھوں میں ایک ہو“ اس نے چلا کر کہا اور گیدڑ کو گلے سے لگا لیا۔
گیڈر نے بھی ہنسنا شروع کر دیا ۔وہ دونوں ہنسی خوشی پہاڑ سے نیچے اتر گئے۔جب دونوں ہنستے ہنستے نڈھال ہوگئے تب انھوں نے ساتھ مل کردلیا کھایا۔پھر جنگل جاکر لکڑیاں کاٹ کر دونوں ساتھ لائے ۔
دونوں ایک دوسرے کے اب تک دوست تھے ۔حالانکہ کسی کوبھی یقین نہیں آتا تھا کہ بے وقوف ،سخت محنتی بھالو چالاک اور کام چور گیدڑ کا دوست کیسے ہے۔

 


انگریزی سے ترجمہ:حیدر شمسی

Nepali Folk tale

Articles

چالاک نائی

نیپالی لوک ادب

ٰٓ ایک شہزادے کو اپنے نائی کی باتیں بہت پسند تھیں۔ہر صبح نائی اس کی داڑھی بنانے آیا کرتا تھااور داڑھی بناتے وقت وہ مختلف قسم کی باتیں کرتا تھا۔ جو کچھ وہ شہر والوں کے منہ سے سنتا آکر کہہ دیتا ۔
لیکن نائی کو شاہی پادری بالکل بھی پسند نہیں تھا جسے دربار کا ہر شخص عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔یہ بات نائی کو بہت نا خوشگوار گزرتی تھی جسے وہ برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔لہٰذا  اس نے پادری سے چھٹکارا پانے کے لئے ایک منصوبہ بنایا ۔
ایک دن صبح جب وہ شہزادے کی داڑھی بنانے آیا تب اس نے معمول کے مطابق کوئی بات نہیں کی۔ ”تمہیں کیا ہوا ہے آج؟ تم بولتے کیوں نہیں؟“ شہزادے نے نائی سے پوچھا ۔
آخر کار اس کے منھ سے چند جملے نکلے” گذشتہ رات میں نے ایک خواب دیکھاکہ میں جنت میں ہوں جہاں میری ملاقات آپ کے والد بزرگوار اور عزت مآب والدہ سے ہوئی۔ لیکن وہ دونوں بہت پریشان تھے ۔
”کیوں ؟ انھیں کیا پریشانی ہے؟“ شہزادے نے پوچھا۔
چالاک نائی نے صورت بنا کر کہا ” انھیں پادری کی اشد ضرورت ہے جو ان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرسکیں ۔ انھوں نے کہا ہے کہ میں آپ سے اس بات کا تذکرہ کروں اگر آپ شاہی پادری کو ان کی خدمت میں بھیج سکیں توفوراََ جنت میں بھیج دیں ۔
”لیکن کیسے؟“
” اس کام میں کسی قسم کی کوئی مشکل در پیش نہیں آئے گی “ نائی نے جواب دیا۔” بس کفن پہنانا پڑے گا اور قبر میں لٹا نا ہوگا ۔ پھرپادری کی آنکھ سیدھا جنت میں کھلے گی۔“
” اچھا میں سمجھ گیا ۔ میں ایسا ہی کروں گا ۔“
نائی اور شہزادے کے درمیان جو باتیں ہوئیں اور جوفیصلہ کیا گیا یہ باتیں پادری کو معلوم پڑیں ۔لیکن وہ بھی بہت ہوشیاراور چالاک تھا۔اس نے شہزادہ سے درخواست کی کہ ایک مہینہ کی مہلت دی جائے تاکہ جنت کے سفر کے لئے مکمل تیاری کر لے۔
اس نے اپنی قبر کے لئے اپنے ہی باغ میں ایک جگہ منتخب کی۔اور ایک درجن مزدوروں کو تہہ خانہ بنوانے کے لئے لگا دیاجس کا راستہ سیدھا اس جگہ سے اس کے گھر کو نکلے۔پھر قبر میں اس نے ٹوٹی پھوٹی لکڑیاں ، گھاس اور پیڑ کے سوکھے ہوئے پتے سے تہہ خانہ کے دہانے کو چھپا دیا ۔
البتہ وہ مقدس دن آگیا جب پادری کو کفن پہنا کر قبر میں لٹانا تھا جس کی تیاری میں وہ پچھلے ایک مہینے سے لگا ہوا تھا۔پادری کو کفن پہنا کرقبر میں لٹا دیا گیا اورمٹی ڈا ل دی گئی اس طرح تدفین ہوگئی ۔ پادری نے کفن کھولا اور تہہ خانہ کے راستے اپنے گھر پہنچ گیا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا ۔اس دوران پادری نے اپنے بال، داڑھی اور ناخن نہیں کاٹے اور انھیں بڑھنے دیا ۔ایک دن اچانک وہ گھر سے نکل کر شہزادہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔دربار میں حاضر ہوتے ہی سب کے ہوش اڑ گئے اور سب حیرانی سے پادری کو دیکھنے لگے۔
”تم جنت سے کب واپس آئے؟ شہزادے نے پوچھا ۔  ” اور تم نے اپنی صورت کیا بنا رکھی ہے۔ تمہارے بال ، داڑھی اور ناخن اس قدر بڑھے ہوئے کیوں ہیں؟ “
” اسی لیے تو میں آج یہاں آیا ہوں۔“ پادری نے جواب دیا۔ ”کون بے وقوف ہے جو جنت کا آرام چھوڑ کر یہاں زمین پر آئے گا ۔اگر یہ خاص مقصد نہیں تو اور کیا ہے؟ آپ کو معلوم ہے تقریباََایک سال ہوگئے۔ آپ کے والد کے پاس ایک استاد نائی تھا جسے کسی وجہ سے پچھلے چند مہینوں سے جنت سے باہر کسی کام کے لیے بھیج دیا گیا ہے ۔ اس کی جگہ کوئی دوسرا نائی اب تک جنت میں نہیں آیا ۔آپ کے والد بزرگوار نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے پاس جاﺅں اور آپ سے کہوں کہ آپ فوراََ کوئی نائی بھیج دیں تاکہ ان کی ضرورت پوری ہوجائے۔“
شہزادے نے نائی کو حکم دیا کے وہ جنت میں چلا جائے۔
نائی بہت زیادہ ڈر گیا کیوں کہ اس کی بازی الٹ گئی تھی ۔وہ بہت دیر تک خاموش رہا کیوں کہ وہ شہزادے کے حکم کو ماننے سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔شہزادے کے حکم دیتے ہی سپاہیوں نے قبر کھودناشروع کردی۔بیچارے نائی کو کفن پہنا کر زندہ درگور کر دیا گیا۔

سبق: جیسا بوئوگے ویسا ہی کاٹو گے۔

 


انگریزی سے ترجمہ:حیدر شمسی