Lahore ka Aik Waqea by S.R. Farooqi

Articles

لاہور کا ایک واقعہ

شمس الرحمن فاروقی

یہ بات ۱۹۳۷ء کی ہے۔ میں ان دنوں لاہور میں تھا۔

ایک دن میرے جی میں آئی کہ چلو علامہ اقبال سے مل آئیں۔ اس زمانے میں میرے پاس ہلکے بادامی سفید (Off White) رنگ کی ایمبسیڈر (Ambassador)تھی۔ میں اسی میں بیٹھ کر علامہ صاحب کی قیام گاہ کو چلا۔ ان کی کوٹھی کا نمبر اور وہاں تک پہنچنے کا صحیح راستہ مجھے ٹھیک سے نہ معلوم تھا، لیکن میکلوڈ روڈ، جہاں وہ رہتے تھے ، اس کی جاے وقوع سے میں اچھی طرح واقف تھا۔ لہٰذا کسی خاص مشکل کے بغیر میں علامہ کے بنگلے تک پہنچ گیا۔

سڑک کچھ گردوغبار سے بھری ہوئی لگتی تھی۔ فٹ پاتھ، یا یوں کہیں کہ فٹ پاتھ کی جگہ سڑک کے دونوں طرف کی چوڑی پٹی، خشک اور گرد آلود تھی۔ علامہ کے بنگلے کا پھاٹک اچھا خاصا اونچا، لیکن لکڑی کا تھا۔ اس پر سلیٹی رنگ کی لوہے (یا ٹین )کی چادر تھی، جس کے باعث پھاٹک بہت بھاری اور کسی پراسرارسی عمارت کا پھاٹک معلوم ہوتا تھا۔ پھاٹک کھلا ہوا تھا اور سامنے مختصر سی اندرونی سٹرک (Drive Way) تھوڑا بل کھاتی ہوئی اصل عمارت کی طرف جاتی ہوئی صاف نظر آرہی تھی۔ عمارت بلندو بالا، لیکن سال خوردہ اور ذرا بوسیدہ معلوم ہوتی تھی۔ جگہ جگہ مرمت اور ایک جگہ تعمیر نہ کے آثار بھی باہر سے دکھائی دیتے تھے۔ مجھے احسان دانش کی نظم ’’علامہ اقبال کی کوٹھی‘‘ یاد آئی جو ایک دو مہینہ پہلے ’’خیام‘‘ یا ’’عالم گیر‘‘ میں چھپی تھی۔ نظم میں کوٹھی کی خستہ حالی پر افسوس اوررنج کا اظہار تھا۔ آخری شعر تھا:

سنتا ہوں کہ اب ہو گئی کوٹھی کی مرمت

احسان اسے دیکھنے جاؤں گا دوبارہ

میں کچھ دیر اس شش و پنج میں رہا کہ گاڑی اندر تک لیے چلا جاؤں، یا فٹ پاتھ ہی پر چھوڑ دوں۔ پھرمیں نے دل میں کہا، ممکن ہے پورٹیکو میں اورکوئی گاڑی کھڑی ہو، اور میں اپنی گاڑی اندرونی سڑک پر کھڑی کردوں تو شاید کسی کاراستہ رک جائے۔ لہٰذا میں نے گاڑی وہیں سڑک کے کنارے لگادی اور باہر آیا۔ تب میں نے دیکھا کہ میرے مقابل فٹ پاتھ پر دو تین گمٹیاں ہیں، جیسی کہ پان سگریٹ والے رکھتے ہیں ۔ ان گمٹیوں پر نوجوانوں اور بے فکروں کا مجمع ساتھا۔ کچھ نو عمر لڑکے بھی تھے۔ مجھے افسوس ہوا کہ ان کم بختوں کو لکھنے پڑھنے سے مطلب نہیں کہ یہاں پان کی دکان پر وقت ضائع کررہے ہیں۔

میں ابھی گاڑی کو تالا لگا ہی رہا تھا کہ اچانک سڑک پار کر کے پانچ سات نو عمر لڑکے میری طرف لپکے۔ ان کے انداز اور ہاتھوں کے اشارے سے مجھے ایسا لگا کہ وہ کچھ مانگ رہے ہیں۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ تو اور بھی برا ہے۔ یہ لونڈے پیشہ ور بھاری معلوم ہوتے ہیں۔ یقیناًمنظم اور مجرمانہ طور پر بھیک منگوانے والوں کا کوئی گروہ ہو گا جو انہیں اس طرح استعمال کررہا ہوگا اور ان کی زندگیوں کو بھاڑ میں جھونک رہا ہوگا۔ جب تک میں گاڑی کے دروازے سے چابی نکالوں نکالوں، کوئی چار پانچ لڑکے اورایک دبلا پتلا منحوس صورت شخص، جس کی شکل سے ہی خباثت ٹپک رہی تھی، اچانک میرے پاس پہنچ گئے اور قریب تھا کہ ان کے ہاتھ میرے کوٹ تک پہنچ جائیں۔

میں یہ دیکھ کر لرز گیا کہ وہ لڑکے نہ محلے کے ان پڑھ بے فکرے آوارہ گرد تھے اور نہ بھیک منگے۔ وہ تو کسی قسم کے پیشہ ور معلوم ہوتے تھے، اپنے جسم کی تجارت کرنے والے۔ میں نے دل میں کہا، معاذاللہ ، یہ کیا ہورہا ہے؟ میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ہوں؟ یہ بھرا پرا شہر، دن کا وقت، شریفوں کا محلہ اور یہ پیشہ ور لونڈے؟

اب میں نے جانا کہ وہ ہاتھ میرے کوٹ کی جیبوں تک پہنچنا نہیں بلکہ میرے دامن کو تھامنا چاہتے تھے۔ وہ لوگ مجھ سے کوئی سودا کرنا چاہتے تھے۔ دس دس بارہ بارہ سال کے لونڈے، جن کی آنکھوں میں لڑکپن کی معصومیت کی جگہ عجیب شیطانی چمک تھی، چہروں پر وہ پختگی اور پھیکا پن تھا جو بڑے عمر کے لوگوں کے چہروں پر بھی شاذ ہی نظر آتا ہے۔ میں نے نفرت سے انہیں جھٹک کر ایک طرف ہو جانا چاہا تو وہ میرے پیچھے لپکے۔ توبہ! ایسا تو سنسنی خیز افسانوں میں بھی نہ ہوتا ہوگا۔ یہ واقعہ ہے یا کوئی دیوانہ پن جس میں سے دوچار ہوں، میں نے دل میں کہا۔ پھر تقریباً جست لگاتاہوا ان کے نرغے سے نکل کر میں علامہ کے پھاٹک میں داخل ہوگیا۔

خدا کا شکر ہے کہ اندر آنے کی ہمت ان بدمعاشوں کو نہ ہوئی۔ پھاٹک توکھلاہی ہوا تھا، لیکن وہ پھاٹک کے کھمبے کے پاس آکر یوں رک گئے جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ میں نفرت سے اپنے ہاتھ اورکپڑے جھاڑتا ہوا دوڑ کر بنگلے کے پورٹیکو میں داخل ہوگیا۔

اب واللہ اس ملاقات کی تفصیل کچھ یاد نہیں۔ اتنا خیال میں ہے، اور وہ بھی دھندلا سا، کہ حضرت علامہ بڑی شفقت سے پیش آئے۔

میں نے گھنٹی بجائی توا یک بڑے میاں جو وضع سے ملازم اوررشتہ دار کے بین بین لگتے تھے، فوراً برآمد ہوئے۔ میری اطلاع لے کر اندر گئے، اور تقریباً الٹے ہی پاؤں واپس آکر مجھ سے کہا کہ علامہ صاحب گول کمرے میں تشریف رکھتے ہیں، آپ آجائیں۔ کچھ یاد نہیں کہ باتیں کس موضوع پر ہوئیں۔ میں ریلوے کاانجینئر، مجھے شاعری سے ذوق تو تھا (اب بھی ہے) اور مجھے علامہ کا بہت سا کلام زبانی یاد بھی تھا، لیکن اس ذوق کے سوا میرے پاس کچھ نہ تھا جو مجھے علامہ سے ہم کلام ہونے کا اہل بناتا۔ یہ بخوبی یاد ہے کہ علامہ نے مجھے بالکل احساس نہ ہونے دیا کہ میری ملاقات ان کے لیے ایک کار فضول سے زیادہ نہیں۔ اور نہ ہی انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جس سے مجھے اپنے جہل کا احساس ہوتا۔

ملاقات کوئی آدھ گھنٹہ رہی۔ پھر میں نے اجازت لے کر سلام کیا۔ علامہ صاحب کمرے سے باہر تک مجھے چھوڑنے آئے۔ ایک بار جی میں آئی ان سے درخواست کروں کہ آپ کے دروازے کے باہر سڑک کی پرلی طرف جو طائفہ شیاطین ہے، اس کا کچھ تدارک کریں۔ لیکن میری ہمت نہ پڑی۔ اور پھر اس معاملے سے ان کا مطلب ہی کیا تھا؟ یہ کام تو پولیس والوں کا تھا۔ علامہ کو شاید خبر بھی نہ رہی ہو کہ سڑک پار کی گمٹیوں پرکس طرح کا ہجوم رہتاہے۔

میں پورٹیکو سے باہر آیا تو اندرورنی سڑک (Drive Way) پرسرمئی رنگ کی ایک پرانی آسٹن اے چالیس (Austin-A40) کھڑی تھی۔ علامہ کی تو نہ ہوگی، کیونکہ میں نے کہیں سنا تھا کہ ان کے پاس ان دنوں ایک بڑی سی فورڈ تھی۔ خیر، کوئی ملنے والا آیا ہوگا، میں نے دل میں کہا۔ اچھا ہی ہوا جو میں نے اپنی کار باہر کھڑی کی۔

میں علامہ صاحب سے ملاقات کی خوشی میں مگن باہر نکلا۔ ایک لمحے کے لیے میں بھول گیا تھا کہ ان لوگوں سے پھر سابقہ پڑ سکتا ہے۔ لیکن باہر سڑک پر آکر میرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ کئی لڑکے میری کار کے پاس کھڑے تھے، اورکار کو ڈھکیل ڈھکال کر اس کا رخ مخالف سمت میں کر دیا گیا تھا۔میں کچھ حواس باختہ سا، لیکن ہمت کر کے گاڑی کی طرف بڑھا تو وہ لونڈے مجھ سے تقریباً چمٹ گئے۔ ان کے بدن سے عجیب طرح کی حیوانی اورچکنے تیل کی سی بو آرہی تھی۔ ابھی میں فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ ان سے کس طرح نپٹوں، کہ ایک لمبا سا دبلا پتلا شخص، جو خاکی مائل ملگجے پیلے رنگ کی لمبی قمیص اوراسی کپڑے کی شلوار پہنے ہوئے تھا، میری طرف لپکا۔ اس کے چہرے پر بداخلاقی اور بے حیائی کے آثار اس قدر نمایا ں تھے کہ میری طبیعت گنگنا گئی، جیسے میں نے کسی بھیگی لجلجی چیز کو چھولیا ہو۔ اس وقت میں سڑک کی جانب تھا، اوروہ میرے دائیں ہاتھ پر فٹ پاتھ کے رخ پر تھا۔

میں نے پلٹ کر اسے ایک ٹھوکر لگانی چاہی تو اس نے اپنی ٹانگ میری طرف بڑھا کر مجھے روکنا چاہا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میری ٹانگ کچھ اس طرح اس کی ٹانگ سے الجھی کے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور اچل کر چھپاک سے فٹ پاتھ کے نیچے گہری نالی میں جا رہا۔ میں نے موقع غنیمت جان کر لپکتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھولا، دل میں دعا کررہا تھا کہ گاڑی فوراً اسٹارٹ ہوجائے۔ بارے دعا قبول ہوئی۔ چابی لگاتے ہی گاڑی بڑی خوبی سے اسٹارٹ ہو گئی۔ میں نے گاڑی گیئر میں ڈالی اور ایکسیلٹر پر پاؤں پورے زور سے داب دیا۔

گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔ میرا ارادہ تھاکہ چند ہی لمحے بعد فرسٹ گیئر سے سیکنڈ میں آجاؤں گا، کیونکہ سیکنڈ میں طاقت بہت تو ہوتی ہی ہے، ساتھ ہی اس میں رفتار تیزی سے سڑھانے کابھی امکان رہتا ہے۔ حسب ارادہ میں نے گاڑی سیکنڈ میں ڈالی ہی تھی کہ محسوس ہوا گاڑی چل نہیں پار ہی ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی طاقت اسے پکڑ کر الٹی طرف کھینچ رہی ہو۔ میں نے پیچھے نگاہ کی تو دیکھا کہ کئی لونڈے کار کے بمپر اوربوٹ سے چپکے ہوئے پورا زور لگا کر گاڑی کو آگے بڑھنے سے روکنے میں مصروف تھے۔ ادھر میں ایکسی لیٹر پر پاؤں پورے زور سے دبائے ہوئے ہوں، ادھر وہ دس بارہ بچے گاڑی کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، اور اس کامیابی سے کہ گاڑی کی رفتار چیونٹی کی رفتار سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔

میں نے کندھے سکوڑ کر سرکو یوں جھکا لیا گویا خطرہ میرے پیچھے نہیں، بلکہ سامنے ہے، اور میں پوری قوت کے ساتھ سامنے کسی چیز سے ٹکرانے والا ہوں۔ سرجھکا کر اور بدن چرا کر میں نے اپنی پوری قوت ارادی و جسمانی اس بات پر لگادی کہ گاڑی کو اتنی ریس دوں کے ان غول بچوں کو جھٹکتا ہوا نکل جاؤں۔ لیکن ان پلیدوں میں خدا معلوم کتنی طاقت آگئی تھی کہ میرا پندرہ ہارس پاور کا انجن، میری اپنی قوت مدافعت، سب بے کار ثابت ہورہی تھیں۔ گاڑی بس گھسٹتی ہی رہی۔ اور سو پچاس گز ہی کے اندر مجھے یقین ہو گیا کہ یا تو گاڑی اب بہت جلد بند ہو جائے گی ، یا ان لونڈوں کی طاقت اسے آگے بڑھنے سے روک ہی دے گی۔

میں اب سراسیمہ ہو چلا تھا۔ میرے ذہن میں بس یہ بات گردش کر رہی تھی کہ یہ گاڑی جسے میں اپنی حفاظت و مدافعت کے لیے کافی سمجھ رہا تھا، میرے لیے موت کا پھندا ، یا فنا کا جال ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر میں اسی میں بندرہ گیا تو چند ہی منٹ جاتے ہیں کہ یہ غولان شیطانی مجھے آگے بڑھنے سے روک دیں گے، مجھے گاڑی سے کھینچ لیں گے اور پھر خدا جانے میری کیا درگت بنائیں۔ وہ شخص، جسے میں نے نالی میں ڈھکیل دیا تھا، وہ تو شاید میری تکا بوٹی کر کے پھینک دے۔

اب، کئی سال بعد میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ، مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میرا استدلالی، ترقی یافتہ دماغ، جسے اصطلاح میں ’’یمینی دماغ‘‘یا Right Brain کہتے ہیں، معطل ہو چکا تھا، اور میں اپنے ’’یساری دماغ‘‘ یعنی Left Brain کے قبضے میں تھا۔ یساری دماغ، جسے Reptilian Brain بھی کہتے ہیں، انسانوں، رینگنے والے جانوروں، اور انڈا دینے والے جانوروں میں مشترک ہے۔

کہا گیا ہے کہ ارتقائی عمل کے کروڑوں برس نے اس دماغ کو پیدا کیا۔ اور چونکہ یہ دماغ رینگنے والے جانوروں اور پھر انڈا دینے والے جانوروں سے ہو کر انسان تک پہنچا ہے، اس لیے اسے حشراتی دماغ Reptilian Brain بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے بنیادی اور ’سفلی‘ جذبات سب اسی دماغ میں پیدا ہوتے ہیں۔ شہوت، خوف، بھوک کا احساس، تشدد، تحفظ جان، خطرے سے فرار اختیار کرنا وغیرہ سب جبلتیں اسی دماغ کی دین ہیں۔ دنیا میں زیادہ تر جرائم پیشہ لوگوں، خاص کر قاتلوں اور زنا بالجبر کے مرتکب لوگوں میں یساری دماغ کو سمینی دماغ سے زیادہ فعال پایا گیا ہے۔ اس کی جگہ چونکہ سر کے بائیں اور نچلے حصے میں ہے، اس لیے اسے ’یساری‘ کہتے ہیں۔ اس کے برخلاف ، یمینی یا Right Brain کاارتقاء اور بھی کئی کروڑ برس میں ہوا۔ استدلال ، درون بینی اور تعقل کی صفات اسی یمینی دماغ کی پیداوار ہیں۔

یساری دماغ کو استدلال اور تعقل اور پچھتاوے سے کوئی علاقہ نہیں۔ جب یہ دماغ حاوی ہو جاتا ہے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ بعض دماغی مریضوں میں بھی یمینی دماغ کی کمزوری اوریساری دماغ کی مضبوطی کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔

بہرحال اس وقت مجھے ایک ہی دھن تھی، کہ کسی طرح اس گاڑی سے نکل بھاگوں۔ گاڑی میں جائے قیام نہ تھی تو باہر جائے فرار ضرور ہوگی، یہ میرا استدلال تھا۔ لیکن گاڑی کس طرح چھوڑوں اور کس مقام پر، یہ ابھی سمجھ میں نہ آیا تھا۔

اچانک میں نے ایک عجیب بات محسوس کی۔سڑک پرکوئی راہ گیر نہ تھا۔ خالی راستہ قطعاً سنسان، بھائیں بھائیں کرتا معلوم ہوتا تھا۔ خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور ، میرے ذہن میں کبیرکا مصرع آیا۔ میکلوڈ روڈ پرزیادہ بھیڑ بھاڑ تو کبھی نہ ہوتی تھی، لیکن بالکل سناٹا بھی نہ ہوتا تھا۔ ایک دو موٹریں تو منٹ دو منٹ پر گذر ہی جاتی تھیں۔ علامہ صاحب کے مکان سے ذرا آگے علامہ کے مشہور دوست سرجگندر سنگھ کا عظیم الشان بنگلہ تھا۔ (کیسے پتے کی بات جگندر نے کل کہی۔) ان کے پھاٹک پرا یک دو ملازم بھی ہمیشہ کھڑے نظر آتے تھے۔ سردار صاحب کے بنگلے کے ذرا ہی فاصلے پر بہرام جی خدائی جی کی دکان ایک بنگلہ نما مکان میں تھی۔ یہ لوگ ولایت سے عمدہ قسم کی شرابیں اور سگار منگاتے تھے۔ کوئی ایک دو فرلانگ پر وہائٹ وے، لیڈلا (Whiteway, Laidlaw) کی عالی شان دو منزلہ دکان تھی۔ اس کے سامنے دو چار موٹریں، ایک دو شکر میں، پان سات بگھیاں، تو ہر وقت ہی کھڑی رہتی تھیں۔ آج خدا جانے کیابات تھی کہ نہ وہ کوٹھیاں دکھائی دیتی تھیں، نہ کوئی دکان ہی نظر آئی تھی۔ حتیٰ کہ پولیس کاکوئی سپاہی بھی ٹریفک چوراہے پر نہ تھا۔

اب جو غور کرتا ہوں تو خیا ل آتا ہے کہ میری رفتار اس قدر دھیمی تھی کہ بس چیونٹی کی چال سمجھیے۔ اور جن عمارتوں، دکانوں کا میں نے اوپر ذکر کیا، وہ مجھ سے چند فرلانگ تو تقریباً دور تھیں، اس وقت کہاں سے دکھائی دے جاتیں؟ لیکن میں نے کہا نا کہ اس وقت میرا انسانی دماغ نہیں، بلکہ حشراتی دماغ مجھ پر حاوی تھا۔ آج مجھے یقین ہے کہ اگر میں ہمت کر کے اس گاڑی کو چلاتا رہتا ، اسپیڈ چاہے جو بھی رہتی، تو دس پانچ منٹ میں کسی محفوظ یا آبادی والی جگہ پر ضرور پہنچ سکتا تھا۔ میرا پیچھا کرنے والے مجھ پر ہرگز ہاتھ نہ ڈال سکتے تھے۔ گاڑی کو وہ بالکل روک نہ سکتے تھے۔ اوراگر وہ گاڑی کو چھوڑ کر کھڑکی کی راہ سے مجھ پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے تو میں بآسانی اتنی دیر میں گاڑی کی رفتار بڑھا کر ان کے خطرے سے آزاد ہو سکتا تھا۔ لیکن اس وقت تو یہ لگ رہا تھا کہ یہ گاڑی نہیں موت کی کوٹھری Death Cell ہے۔ اگر میں اسی میں بیٹھا رہا تو موت کا شکار ہو جاؤں گا۔

میں نے دل میں کہا کہ اگر کوئی مضبوط کھمبا، یا دیوار، راستے میں ملے تو گاڑی اس سے ٹکرا دوں۔ دھماکہ ہو گا تو دس پانچ لوگ لامحالہ جمع ہو جائیں گے۔ ممکن ہے کوئی پولیس والا بھی آنکلے۔ یا شاید میں زخمی، یا بے ہوش ہی ہو جاؤں۔ تب تو یہ طائفہ بیابانی میرا پیچھا چھوڑے گا۔ اس وقت میرے (حشراتی) دماغ میں یہ بات نہ آئی کہ موٹر کا کوئی واقعی کارگر ایکسیڈنٹ کرنے کے لیے رفتارضروری ہے۔ بیس بائیس کی رفتار تو ہو اور اس وقت میری رفتار چار پانچ سے متجاوز نہ تھی۔ اور نہ ہی مجھے یہ بات سوجھی تھی کہ زخمی یا بے ہو ش ہو کر تومیں اور بھی ان کے رحم وکرم پر ہو جاؤں گا۔وہ مجھے ہسپتال لے جانے کے بہانے اٹھا کر کہیں بھی لے جا سکتے تھے، یا وہیں کا وہیں مجھے مزید گزند پہنچا سکتے تھے۔ اسے میری خوش قسمتی کہیے کہ اس وقت میرے سامنے کوئی چیز ایسی نہ تھی جس سے ٹکرا کر میں اپنا یہ عقل مندی پر مبنی ’منصوبہ‘ پورا کرتا۔

اسی لمحے مجھے محسوس ہوا کہ وہ پیلی ملگجی قمیص والا گھناؤنا شخص بھی ان لونڈوں کامعاون ہو کر میری گاڑی کو پیچھے سے روکنے میں شامل ہو گیا ہے۔ ’’اس کی بھی طاقت شامل ہو گئی ہے، اب تو میں بچ نہ سکوں گا‘‘ میں نے دل میں کہا۔ ابھی گاڑی کی رفتار میں کوئی خاص فرق نہ آیا تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ ملگجی قمیص والا گاڑی کو رکوانے میں جان لڑا دے گا۔

’’بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی‘‘، میں نے اپنے آپ سے کہا۔ مجھے اپنے والد مرحوم کا ایک خادم یاد آیا جو ایسے موقعوں کے لیے حسب ذیل شعر پڑھا کرتا تھا:

کب تک چھپیں گی کیریاں پتوں کی آڑ میں

آخر کو آم بن کے بکیں گی بزار میں

عام حالات میں مجھے جب بھی یہ شعر یاد آتاتو ہلکی سی ہنسی بھی آتی۔ لیکن آج رونا آرہا تھا۔ یہی نہیں، اپنا بچپن بھی اس وقت مجھے بڑی آرزو بھری ارمان انگیز گلابی نارنجی روشنیوں کے سائے میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا تھا، حالانکہ دراصل میرا بچپن خاصا ناخوشی سے بھرا ہوا اور بھلا دینے کے لائق تھا۔

کہتے ہیں ایک بار بسمل سعیدی نے جوش صاحب سے کہا کہ جوش صاحب آپ کے کلام میں سوزوگداز کی اک ذرا کمی نہ ہوتی تو آپ اور بھی بڑے شاعر ہوتے۔جوش صاحب نے کہا، ’’ہرگز نہیں، میرے یہاں سوزوگداز کی کمی ہرگز نہیں۔ لو یہ شعر سنو:

میرے رونے کا جس میں قصہ ہے

عمر کا بہترین حصہ ہے

بسمل سعیدی نے قہقہہ لگا کر کہا، ’’واللہ جوش صاحب بچپن کے مضمون پر اس سے بہتر شعر میں نے نہیں سنا تھا‘‘۔ خیر، جوش صاحب اور بسمل صاحب کے مخول ایک طرف، لیکن سچ بات یہ ہے کہ میرا بچپن اپنے بڑوں سے پٹتے، اورروتے ہی گزرا تھا۔ پھر بھی کاش میں ابھی سات ہی آٹھ برس کا ہوتا، میں نے دل میں تقریباً روتے ہوئے کہا۔ اس صورت میں آج اس موٹر میں تو نہ ہوتا، جہاں میری عزت اور جان دونوں کے لالے پڑے ہیں۔ آخر میں نے کسی کا بگاڑا بھی کیا ہے؟

مجھے صغرسن کے وہ دن یاد آگئے جب ذرا ذرا سی بات پر، اور اکثر بے وجہ ہی، مجھ پرڈانٹ یا مار پڑتی تھی۔ یااگر کوئی وجہ ہوتی ہوگی تو میرا ننھا سا ذہن اس کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا۔ کسی بات کے لیے کسی وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ ان دنوں میرے محدود دماغ کا فیصلہ تھا۔ بعد میں، جب مجھے علت یعنی Cause اور سبب، یعنی Reason کا فرق معلوم ہو ا تو میں نے یہ نتیجہ نکالا کہ لازماً ایسا نہیں کہ کسی چیز کی علت معلوم ہو جائے تو اس کا سبب بھی معلوم ہو جائے۔مثلاً کسی شخص کا قتل ہو جائے اور لاش کا معائنہ کرکے ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ وہ پستول کی گولی سے مرا ہے، تو یہ محض علت قتل معلوم ہوئی۔ ا س سے یہ کہاں معلوم ہوا کہ اس کے قتل کا سبب کیا ہے؟

اس وقت جو میں اپنی جان کے خطر میں ہوں، تو اس کی علت یہ ہے کہ میں کسی مقام پر کسی وقت موجود تھا۔ اگر نہ ہوتا تو یہ بات بھی نہ ہوتی۔ لیکن میرے وہاں موجود رہنے کی کچھ علت تھی، اور اس علت کی بھی کچھ علت ہوگی، اور پھر اس علت کی بھی۔۔۔

تو کیا ساری دنیا محض علل کی داستان ہے؟ اسباب کہیں نہیں؟ یا شاید ہمارا یہاں آنا کسی سبب سے ہو؟ اسباب پڑے یوں کہ کئی روز سے یاں ہوں، میر تقی میر نے چپکے سے میرے کان میں کہا۔کون سے اسباب؟ ہمیں یہاں کیوں لایا گیا؟ کیا اس لیے کہ میں اپنی موٹر میں بیٹھا ہی بیٹھا جسم فروش لونڈوں اوران کے سرخیل کی ناپاک حرکتوں کاہدف بنوں؟ میں نے تقریباً ہسٹریائی انداز میں اپنے آپ سے کہا۔

اچانک مجھے کار کے پیچھے، اور باہر سڑک پر سے کچھ غلغلہ سنائی دیا۔ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ اوربھی میرے دشمنوں کی امداد کو آگئے ہیں۔ گاڑی کی رفتار اب مزید پست پڑ گئی تھی۔ یا شاید وہ میرا وہم رہا ہو۔ لیکن میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہاں ایک لمحہ بھی رکنا کسی برے انجام کو دعوت دینا ہوگا۔ مجھے خیال آیا کہ میرے شیطان صفت متعاقبوں نے علامہ صاحب کی کوٹھی میں قدم نہ رکھا تھا۔ شاید وہ گھروں کے اندر آنے سے ڈرتے ہوں؟ لہٰذا سب سے اچھا یہ ہوگا کہ میں گاڑی کو کسی مناسب پھاٹک میں اڑا دوں، اورخود نکل بھاگوں۔ نکل بھاگوں گا کس طرح ، وہ لوگ جھپٹ کر مجھے پکڑ تو نہ لیں گے؟ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سڑک پرمیری جانب، یعنی بائیں جانب، ایسی ہی محفوظ سی ایک کوٹھی دکھائی دی۔ ’’وہ مارا‘‘، میں دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔

میں نے ایک زبردست جھٹکے سے اسٹیئرنگ کو بائیں گھماکرگاڑی کو پھاٹک میں ترچھا ڈال کر پوری طاقت سے بریک لگائی۔ بائیں گھومنے کے جھٹکے، اور پھر بریک لگنے کے جھٹکے سے گاڑی پھاٹک کے بیچ میں ترچھی ہو کر بند ہوگئی۔ تعاقب کرنے والے بھی ان جھٹکوں کی مرکز گریز Centrifugal قوت کی تاب نہ لا کر پیچھے ادھر ادھر گر پڑے۔ میں نے مڑ کر نگاہ کی تو میرا نزدیک ترین معاقب مجھ سے کوئی دس بارہ فٹ کے فاصلے پر تھا۔ میں نے کھینچ کرچابی گاڑی میں سے نکال لی اور اندھا دھند دوڑتا ہوا اس کوٹھی، یعنی اپنی پناہ گاہ میں داخل ہو گیا۔

بڑا سا بنگلہ تھا، لیکن ذرا سنسان سا۔ سامنے کوئی نوکر، مالی یاچوکی دار نہ تھا۔اونچی کرسی کا برآمدہ، جس میں پرانی وضع کی آرام کرسیاں اور مونڈھے تھے۔ دیوار سے لگی ہوئی سنگار میز اور قد آدم آئینہ، اس کے پاس ہی ہیٹ وغیرہ رکھنے کا اسٹینڈ۔ زیادہ دیکھنے کا موقع تھا نہ ہمت۔ میں مکان کی لمبائی میں دوڑتاچلا گیا۔برآمدے کے اختتام پر ایک کمرہ سادکھائی دیا۔ اس کا دروازہ کچھ نیم وا، کچھ بھڑا ہوا ساتھا۔ میں نے جھٹ سے اس میں داخل ہو کر اندر سے کنڈی چڑھالی۔

کمرے میں فنائل کی ہلکی سی بوتھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ باتھ روم ہے۔ ٹٹول کر بجلی کا سوئچ تلاش کیا۔ زرد زرد روشنی ہوئی تو دیکھا کہ آٹھ سات فیٹ لمبا، اسی قدر چوڑا باتھ روم اور غسل خانہ ہے۔ کموڈ کی جگہ نئے ڈھنگ کا فلش تھا۔ اوپر لوہے کا ٹینک، اس سے زنجیر لٹکتی ہوئی۔ اس طرح کے فلش اس وقت ہندوستان میں بہت کم تھے۔ میں اس لیے واقف تھا کہ ریلوے کی دو بڑی کمنیاں، جی آئی پی ریلوے G.I.P. Railway اور بی بی اینڈ سی آئی ریلوے B.B.&C.I. Railway اپنے اسٹیشنوں پر فرسٹ کلاس ویٹنگ روموں میں ایسے باتھ روم بنوارہی تھیں۔میں خود جی آئی پی ریلوے میں ملازم تھا۔

مجھے بری طرح پیشاب محسوس ہورہا تھا۔ خدا معلوم ڈرکی وجہ سے ، یا واقعی۔ لیکن ابھی میری پوزیشن بالکل غیر محفوظ تھی۔ ادھر ایسا لگ رہا تھا کہ پیشاب ضرورکرنا چاہیے، پتا نہیں پھر موقع ملے نہ ملے۔ میرا ہاتھ پتلون کی پیٹی کی طرف گیا ہی تھا کہ دروازہ زورزور سے پیٹا جانے لگا۔ پتا نہیں وہ میرے دشمن تھے، یا گھرکاکوئی فرد جسے شک ہوگیا تھا کہ کوئی باہری آدمی باتھ روم میں گھس آیا ہے۔ میں بہرحال خود کواس حالت میں نہ سمجھتا تھا کہ دروازہ کھول کر باہر آؤں۔ لیکن باتھ روم میں خود کو چھپائے رہنے کاامکان کہاں؟ اور نکلوں توجاؤں کہاں؟ پھر میری نگاہ پرلی طرف کی دیوار پر پڑی تومعلوم ہوا کہ ادھر بھی ایک دروازہ ہے۔ اب وہ جہاں بھی کھلتاہو، میرے لیے وہی دروازہ نجات کا دروازہ تھا۔

میں نے آہستہ سے پرلی طرف کی کنڈی کھول لی۔ دل میں خدا کا شکر بجالایا کہ دروازہ دوسری طرف سے بند نہ تھا۔ اول تو دو دو دروازے توڑنے میں ان لوگوں کو وقت لگے گا، دوسری بات یہ کہ جب اتنا شوروغل اور توڑپھوڑ کاہنگامہ ہوگا تو گھر میں کوئی تو متوجہ ہوگا۔ اسوقت مجھے یہ یاد نہ رہا تھا کہ میرے اپنے خیال کے مطابق ان شیاطینوں کا طائفہ گھروں میں گھس نہ سکتاتھا۔ لہذا اغلب تھا کہ دروازہ پیٹنے والا (والے) اہل خانہ سے ہی متعلق ہو (ں)۔

دروازے سے باہر آکر میں نے دیکھا کہ وہی برآمدہ اور آگے تک چلا گیا ہے۔ میرے دائیں جانب چاردیواری تھی، لہٰذا برآمدے کی شکل اب راہداری کی سی تھی۔ باتھ روم کے دروازے سے متصل ہی چار دیواری میں ایک دروازہ تھا جو سڑک کی طرف کھلتاہوگا۔ دروازے کاایک پاٹ کھلا ہوا تھا، ااور اس میں سے تین ملازم صاف دکھائی دیتے تھے۔ وہ دہلیز اور سیڑھی پر بیٹھے ہوئے باتوں میں اس قدرمحو تھے کہ انہوں نے میری موجودگی بالکل محسوس نہ کی۔ اور ظاہر ہے کہ میں بھی ان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے حق میں نہ تھا۔

راہداری میں گربہ قدم چلتامیں کوئی دس گز گیا ہوں گا کہ ایک دروازہ نظرآیا جوگھر کے اندر کھلتا تھا۔ ادھر باتھ روم کا باہری دروازہ ٹوٹنے کی سی آواز ہلکی سی میرے کان میں آئی۔ میں نے مزید توقف کیے بغیر گھر کے دروازے میں قدم رکھ دیا۔ وہاں کمرہ نہ تھا، بلکہ ایک وسیع برآمدہ ، سہ دری نما، جس میں کسی مصروف گھر کا تاثر صاف محسوس ہوتا تھا۔ ایک چوڑے پلنگ پر دو عورتیں بیٹھی چالیا کتر رہی تھیں۔ ان کی شکلیں اور وضع قطع اب بالکل نہیں یاد رہی۔ لیکن پلنگ کے پاس ایک بڑی سی گدے دار آرام کرسی Frong Chair پردوہرے، گداز بدن کی ایک ادھیڑ، قبول صورت خاتون تھیں جو ساری میں ملبوس تھیں۔ ان کے سامنے کرسیوں پردو نسبتاً نوجوان عورتیں سوئیٹر بن رہی تھیں۔ میں نے قیافہ کیاکہ ادھیڑ عمر خاتون ہی ان میں صاحب اقتدار ہیں۔ میں نے انہیں سلام کیا۔ وہ میرے انداز، لب و لہجہ اور میری حواس باختگی سے یہ تو شاید سمجھ ہی گئیں کہ میں کوئی چور اچکا نہیں ہوں۔ باقی لڑکیوں؍عورتوں میں ضرور ایک طرح کی گھبراہٹ نظرآئی، لیکن کسی نے شور وغیرہ کچھ نہ مچایا۔ ممکن ہے کہ وہ ان خاتون کی وجہ سے خود کو محفوظ سمجھ رہی ہوں۔ خاتون نے میرے سلام کا جواب نہ دیا، بلکہ ذرا درشت لہجہ میں کہا:

’’کون ہو تم؟ یہاں کیسے آئے؟ چلو، فوراً چلے جاؤ یہاں سے‘‘۔ وہ خوف زدہ سے زیادہ جھنجھلائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں۔

’’خدا کے لیے مجھے پناہ دیجئے، میں بڑے خطرے میں ہوں‘‘۔ میں نے سرگوشی کی سی آواز میں کہا۔

’’کیوں؟ کیا پولیس تمہارے پیچھے ہے؟‘‘

’’یہ سب بعد میں بتاؤں گا۔ پولیس وغیرہ کا کوئی چکر نہیں۔ میں ایک باعزت انجینئر ہو۔ کچھ بدمعاش میرے پیچھے لگ گئے ہیں‘‘۔

’’بدمعاشوں ہی کے پیچھے توبدمعاش لگتے ہیں۔ شریفوں کو ایسے لوگوں سے کیا کام؟ چلو نکلو۔ ابھی نکلو۔ نہیں تومیں نوکروں کو بلواتی ہوں‘‘۔

’’پھرمیراخون ہوجائے تو آپ اللہ کو کیامنہ دکھائیں گی؟‘‘ اچانک میرے دل میں بجلی کی طرح یہ خیال کوندا کہ یہ خاتون ہزار باعزت سہی، لیکن خاتون خانہ نہیں ہیں۔ ’’للہ آپ کسی ذمہ دار شخص کے پاس لے چلیں‘‘۔

میرا تیرنشانے پر بیٹھا تھا۔ وہ پہلو بدل کر بولی، ’’ذمہ دار؟ ذمہ دار اور کون ہے یہاں؟ تم بتاؤ، تمہارا معاملہ کیاہے؟ اس کا لہجہ اب ذرا تیز ترتھا، اور زور لفظ ’’تم‘‘ پرتھا۔

میں نے اٹک اٹک کر اپناحال بتانا شروع کیا۔ یہ بھی ڈر تھا کہ بات کچھ ایسی عجیب ہے کہ ان لوگوں کو یقین شاید ہی آئے گا۔ اگر ایسا واقعہ کوئی مجھ سے بیان کرتا تومیں اسے مجذوب کی بڑ سے زیادہ وقعت نہ دیتا۔ اس خوف کے باعث میرا لہجہ خود مجھے ہی تیقن سے عاری لگ رہا تھا، اور میری روداد بھی ناقابل یقین معلوم ہو رہی تھی۔ لیکن خیر، وہ لوگ تو توجہ سے سن رہے تھے اور داستان تھی ہی کتنی لمبی؟ چند منٹ سے بھی کم میں تمام ہوجاتی۔ میں نے بولنا شروع کیا، اور دل میں دعا کرتارہا کہ ان لوگوں کو اعتبار آجائے۔

وہ دروازہ، جس سے میں داخل ہوا تھا ، یوں ہی کھلا ہوا تھا۔ سب کے دھیان میری کہانی کی طرف تھے۔ اچانک پیلی ملگجی قمیص والا شخص بڑے اطمینان سے اسی دروازے سے داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں لمبا سا پستول تھا۔

میں نے دوڑ کر ادھیڑ عمر خاتون کی کرسی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی۔ لیکن اس شخص نے پستول کارخ انہیں خاتون کی طرف کردیا اور عجیب نخوت بھرے، سرد، سفاک ، حقارت آمیز لہجے میں بولا:

’’بول، میر تیرا کون لگتا ہوں؟‘‘

میرے پور ے جسم میں سنسنی پھیل گئی ۔ تو کیا یہ سب لوگ ایک ہی تھے؟ میں نے سراسیمہ ہو کر دل میں کہا۔

ابھی ہم میں سے کوئی اس حال میں نہ تھا کہ اس نئے خطرے سے دفاع کے لیے کچھ کرتا۔ ان سب عورتوں کے بدن بالکل ساکت تھے، جیسے پتھر کی مورتیں ہوں۔ میں جس جگہ چھپنے کی سعی ناکام کررہا تھا، اس کے پیچھے ایک دروازہ تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوا کہ اس دروازے کے پیچھے بھی کوئی ہے۔

میں ابھی یہ فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ دروازے کے پیچھے واقعی کوئی ہے بھی کہ نہیں، اور وہ میرا دوست ہے کہ دشمن۔ دفعتاً وہی دروازہ دھڑاکے کی آواز کے ساتھ کھلا اور ایک سیاہ سی چیز سائیں سائیں کرتی ہوئی اس میں سے نکلی اور باہر آنگن میں گردبادکی طرح قائم ہوگئی۔

میں نے دیکھا کہ وہ ساری عورتیں منہ کو دوپٹے سے ڈھانکے بے ہوش سی پڑی ہیں۔ پستول والا گھٹنوں کے بل تھا، اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ ہاتھ کچھ اسطرح سینے پر تھے گویا بندگی بجالارہا ہو۔ پستول اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ادھیڑ عمر خاتون کے قدموں میں آرہا تھا۔ لیکن خود انہیں کسی چیز سے مطلب نہ رہ گیا تھا۔ وہ گردن ڈھلکائے، ساری کے پلو میں منہ کو چھپائے آرام کرسی پر کپڑے کی گڑیا کی طرح ڈھیر تھیں۔ میرے پاؤں من من بھرکے ہو رہے تھے۔ دل گویا بیٹھ کرجوتے کے تلے میں آگیا تھا۔ لیکن دماغ (وہی حشراتی دماغ؟) تھوڑا بہت حاضر تھا۔ میں نے دل میں کہاکہ بھاگ نکلنے کا اس سے بہتر موقع نہ ملے گا۔ ممکن ہے اپنی گاڑی کو بھی اس گھر کے پھاٹک سے نکال لے جا سکوں۔

میں ڈرتا، چوروں کی طرح قدم رکھتا، بلکہ تقریباًگھسٹتا ہوا، اپنی پناہ گاہ سے باہر آیا۔ یہ پناہ گاہ کی بھی خوب رہی۔ آنگنمیں وہ سیاہ گردباد ابھی بھی اسی طرح قائم تھا۔ سائیں سائیں کی آواز آرہی تھی۔ لیکن اس وقت وہ آواز کچھ ماتمی سی لگی۔ نہ جانے کیوں مجھے خیال تھا کہ مجھے قطعاً کسی قسم کی آواز نہ کرنی چاہیے۔ بھلا وہ گردباد کیاتھا، کیا کوئی بدروح تھی، یا کوئی خدائی قہر؟ لیکن میرے شور کرنے نہ کرنے سے اس کا کیا تعلق ہو سکتا تھا؟ شاید یہ بھی میرے حشراتی ذہن کا کرشمہ تھا، کہ اکثر رینگنے والے جانور خطرے کے سامنے دم سادھ کرپڑ جاتے ہیں، گویا مردہ ہوں۔

ملگجی قمیص والے کے پاس سے گزرتے ہوئے میرے جی میں آئی کہ اس کی پسلیوں پراپنے بوٹ سے ایک زوردار ٹھوکر لگاؤں۔ حرام زادہ مرتو چکا ہی تھا۔ لیکن نہ مرا ہو تو؟ اور وہ سیاہ گرد باد؟ میں اس ارادے سے بازرہا۔ پھرمیں نے دل میں کہا کہ پستول ہی اٹھا لوں، شاید وہ اخوان الشیاطین ابھی باہر بیٹھے ہوں۔ مگر تھوڑی سی عقل جو واپس آرہی تھی، ا س کامشورہ تھا کہ تم نہ پستول چلانا جانتے ہو اور نہ اس کالائسنس ہی تمہارے پاس ہے۔کیوں خواہ مخواہ ایک اور مصیبت کو دعوت دیتے ہو؟ ایک مشکل سے تو مرمر کے جینے کی نوبت آرہی ہے، اب اور کوئی حماقت نہ کرو۔ چپکے یہاں سے نکل چلو۔’’مگر وہ عورتیں، اور یہ ملگجی قمیص والا، کہیں یہ سب مر نہ گئے ہوں۔ کہیں پولیس میرا پیچھا نہ کرے‘‘۔ میں نے اپنے دل سے کہا۔

’’بے وقوف آدمی‘‘، میں نے دل ہی دل میں خود کو ڈانٹا۔ ’’اب دیر کرو گے تو پولیس نہ آتی ہوگی تو بھی آجائے گی۔ اگر یہ لوگ مر بھی گئے ہیں توتم سے کیا مطلب؟ ہاں ا گر پولیس نے یہاں تمہیں دیکھ لیا تو البتہ مشکل ہو گی۔بندھے بندھے پھرو گے۔ نوکری سے الگ ہاتھ دھونا پڑے گا۔ چلو، یہاں سے فوراً چل نکلو‘‘۔

میں اس قدر آہستہ آہستہ وہاں سے نکلا گویا انڈوں پر چل رہا ہوں۔ گلیارے کے دروازے پر اندھیرا تھا۔ وہ تینوں نوکر بھی شاید سوگئے تھے، کہ بے ہوش تھے، پتانہیں۔ میں ان کو چپکے سے پھاند کر اس آسیب گھر سے باہر آگیا۔

سڑک پرروشنیاں جل اٹھی تھیں، ایک آدھ سواری بھی خراماں خراماں گزررہی تھی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا، لیکن کچھ بدلا ہوا سا بھی تھا۔ میری سمجھ میں فوراً یہ بات نہ آئی کہ کیا تبدیلی آگئی ہے۔

تھوڑی دیر بعد مجھے اچانک احساس ہوا کہ میکلوڈ روڈ اب صبح کی طرح سنسان نہیں تھی۔ اور یہ بھی کہ جب میں پیچھے کے گھر میں پناہ لینے کے لیے گھسا تھا تو اس وقت دھوپ نکلی ہوئی تھی، دن کے گیارہ کاعمل رہا ہوگا۔ اور میں ہرگز ہرگز اس گھر میں پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ رہا تھا۔ پھر اس وقت یہ شام کیسی؟

گھبراہٹ اورخوف کے باعث مجھے بڑے زور کی متلی آئی۔ سارا منہ نمکین پانی سے بھر گیا اور جب تک میں خود کو سنبھالوں ، مجھے ایک ابکائی، بلکہ بھینسے کی سی ڈکراتی ہوئی آواز کے ساتھ استفراغ ہوا۔ لیکن ایک تلخ، زرد سیاہی مائل گھونٹ کے سوا کچھ نہ نکلا۔ میں نے صبح کئی پیالی چائے کے ساتھ بہت معمولی ناشتہ کیا تھا اور تب سے اب تک تین چار گھنٹے ہو چکے تھے (یا شاید سارا ہی دن گذر چکا تھا)۔پھر متلی میں نکلتاکیا۔ میں نے گرمی زدہ کتے کی طرح ہانپتے ہوئے اپنا سینہ اور پیٹ سنبھالنا چاہا۔ اس قے کے باوجود میری ابکائیاں کم نہ ہوئی تھیں۔ مجھے ’’توبۃ انصوح‘‘ کے شروع کا بیان یاد آیا کہ نصوح کو بھی بڑے زور کا استفراغ ہوا تھا۔ (جسے کوے کا پر، مجھے بچپن کی پڑھی ہوئی ایک کہانی بھی یاد آئی، استفراغ اتنا سیاہ جیسے کوے کا پر)۔ ’’تو کیا مجھے بھی ہیضہ ہو رہا ہے؟ یا میں نے کہیں سے زہر تو نہیں منہ میں ڈال لیا؟‘‘ میں نے گھبرا کر اپنے دل میں کہا۔

چکر سے بے حال ہو کرمیں بے تحاشا پاس کی دیوار سے ٹکرا گیا۔ چوٹ بچانے کی فکر میں ہاتھ جو دیوار پر زور سے مارا تو کوئی چیز بچھو کے ڈنک کی طرح چبھی۔ گھبرا کر غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ دیوار میں ایک موٹی کیل نکلی ہوئی تھی اور وہ کوئی آدھ انچ بھر میری ہتھیلی میں اترگئی ہے۔ ہتھیلی سے خون بری طرح بہہ رہا تھا۔ میری آستین اور پتلون پر بھی جگہ جگہ خون ٹپک گیا تھا۔ خوف اور خلجان کے ساتھ یہ چوٹ مجھے اور بھی بدحال کر گئی۔

مجبوراً اسی دیوار کو دیکھ بھال کر اور اسی سے ٹیک لگا کر میں ٹھہر گیا۔ رومال سے ہتھیلی پر پٹی کس کے باندھ لی کہ جریان خون کم ہو۔ دیر بعد طبیعت ذرا بحال ہوئی ۔ میں نے اپنے دل میں کہا، ’’یہ سب جناتی کارخانہ معلوم ہوتاہے۔ آیت الکرسی اس وقت ٹھیک سے یاد نہ آئی تو قل ھواللہ احد ، اور لاحول ولا قوۃ کا ورد شروع کیا۔ کچھ دیر بعد دل ذرا ٹھہرا۔ میرا گلا بالکل خشک ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں پانی کہاں۔ میں نے دل سے کہا اب ہمت کرکے سڑک پرنکلو، اپنی گاڑی اٹھاؤ اور بھاگ لو۔ یہ پانی کے لیے ٹھہرنے کا موقع نہیں ہے اور نہ ہتھیلی کی مرہم پٹی کی فکر اس وقت مناسب ہے۔

میں بوجھل قدموں سے اس بنگلے کے پھاٹک کی طرف چلا، جہاں میں نے گاڑی چھوڑی تھی۔ کچھ خوف اس بات کا بھی تھا کہ کہیں وہ موذی لونڈے ابھی موجود نہ ہوں۔ لیکن ان کا سرخیل تووہاں اندر (مرا؟) پڑا تھا۔ وہ ناپاک حرام زادے بھی بھاگ گئے ہوں گے۔ دل میں یہ کہہ کر میں کوٹھی کے پھاٹک کی طرف الٹے پاؤں چلا۔

جب میں پناہ کے لیے بھاگ رہا تھا اس وقت تووہ کوٹھی مجھے بہت کشادہ محسوس ہوئی تھی۔ مجھے لگا تھا کہ اسکا باہری برآمدہ، اور اندر کی راہداری ملا کر کوئی ڈھائی سوفٹ کی طوالت رہی ہوگی۔ خلاف توقع اب وہ فاصلہ بہت کم نکلا۔ میں چند ہی قدم چلا ہوں گا کہ عمارت کا پھاٹک نظرآگیا لیکن میری کار وہاں کہیں نہ تھی۔ میں ایک لمحے کو سناٹے میں آگیا۔ پھرمیرے خیال میں آیا کہ چونکہ گاڑی میں نے پھاٹک میں اس طرح اڑا کر کھڑی کی تھی کہ راستہ بند ہوگیا تھا، اس لیے شاید کسی نے اسے ڈھکیل کر کنارے کرو یا ہو۔

لیکن گاڑی تووہاں کہیں نہ تھی۔ حتیٰ کہ پھاٹک پر ٹائروں کانشان، بریکوں کی گھسٹنی، کچھ بھی ایسی علامت نہ تھی کہ کوئی کار یہاں جھٹکادے کر موڑی، اور پھر اسی طرح جھٹکے سے روکی گئی ہے۔ کار وہاں سے اس طرح مفقود تھی گویا کبھی تھی ہی نہیں۔کوئی چور تو نہیں لے گیا؟ میں نے دل میں سوچا۔ لیکن کاروں کی چوریاں اس زمانیمیں قطعاً نہ ہوتی تھیں۔ کار کی چوری کرنیوالا اسے بیچتا بھی کس کے پاس؟ اس زمانے میں معدودے چند لوگ کار رکھتے تھے اور وہ زیادہ تر وکیل، ڈاکٹر، یا سرکاری افسر تھے۔بہرحال، اگرکوئی چور بھی لے گیا تو مجھ میں اتنی ہمت اس وقت نہ تھی کہ اس چوری کی رپورٹ لکھاؤں۔ پولیس والوں کو کیابتاتا کہ میں اس گھر میں کیا کرنے گیا تھا؟ اورکارکا تو وہاں نشان بھی نہ تھا، صرف چابی تھی جو میری جیب میں تھی۔ میں نے جیب ٹٹولی توچابی واقعی موجود تھی۔

ریلوے کے اسسٹنٹ انجینئر کے لیے کار کی چوری کوئی معمولی حادثہ نہیں۔ مجھے فوراً تفتیش کرانی چاہیے تھی۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ میں دوسری کاربآسانی نہ خرید سکتاتھا، بلکہ شاید اب دوسری کارنصیب ہی نہ ہوتی۔لیکن اس وقت میرے لیے چارہ ہی کیا تھا۔ پھر یہ بھی خیال میں آیا کہ گاڑی کوئی چھوٹی سی سوئی تو نہیں کہ کھو جائے تودکھائی نہ دے۔ فی الحال تو یہاں سے چل دیناچاہیے، اور بہت جلد۔ انسان کی عقل معمولی چیزوں کو سمجھنے سے اکثر عاری رہتی ہے، اور یہ تو یقیناًکوئی مافوق الفطرت معاملہ ہے۔ اس میں زیادہ چھان بین بھی ٹھیک نہیں۔ خدا نے بڑا فضل کیاجو میں محفوظ رہا۔ ورنہ اکثر لوگ تو سنا ہے خوف کے مارے مخبوط الحواس ہوجاتے ہیں، یا جان ہی سے جاتے رہتے ہیں۔ ابھی اپنی فکرکرو، کارکی فکر بعد میں ہوگی۔

میں اپنے دل کو اس طرح سمجھاکر سڑک کی روشنی میں آیا۔ مجھے اپنے کپڑے خدا معلوم کیوں کچھ زردی مائل لگ رہے تھے۔ شاید میونسپلٹی کی بجلی ایسی ہی چندھیائی سی ہوتی ہے۔ سامنے سے ایک تانگہ آرہاتھا، میں اسے روک کر سوار ہوگیا۔ میرے کپڑے اب اور بھی پیلے لگ رہے تھے۔ لاحول ولا قوۃ، کیا مجھے یرقان ہو گیا ہے؟ اتنے میں تانگے والے نے مڑ کر مجھے معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ شاید اس کی نگاہ میرے لباس کے سرخ چھینٹوں پر پڑگئی تھی۔یا پھر کیا میرے کپڑے سچ مچ پیلے ہورہے تھے؟ اچانک مجھ پربخار کا سا لرزہ طاری ہوگیا۔ میں نے کپکپاتی ہوئی آواز میں تانگے والے سے کہا ’’مجھے اسٹیشن لے چلو۔ جلد ی کرو گاڑی پکڑنی ہے‘‘۔ مغل پورہ کا اسٹیشن وہاں سے قریب ہی تھا۔ تانگے نے مجھے منٹوں میں پہنچادیا۔ اسی وقت پٹھان کوٹ ایکسپریس پلیٹ فارم پر داخل ہورہی تھی۔ میں پٹھان کوٹ کا ٹکٹ لے کرایک ڈبے میں دھنس پڑا۔ پٹھانکوٹ میں میرا کوئی نہ تھا تو کیا ہوا، ملگجی قمیص والا اور سیاہ گرد باد بھی تو وہاں نہ تھے۔

اور میں نے جوکچھ لکھاہے، اسے میرے ایک دوست نے پڑھ کر کہا:

’’یہ کیا فضول بکواس تم نے لکھ ماری ہے؟ تم اپنی خود نوشت لکھ رہے ہو یاخواب میں دیکھے ہوئے اور دل سے گھڑے ہوئے واقعات لکھ رہے ہو؟‘‘

’’تم جانتے ہو میں نے قسم کھارکھی ہے کہ اپنی خودنوشت میں ایک حرف بھی جھوٹ نہ لکھوں گا۔ اور اسی لیے ہر صفحہ تم کو پڑھوا دیتاہوں کہ اگر کوئی غلطی ہو تواسے ٹھیک کرادو‘‘۔

’’ہوگا۔ لیکن میں ٹھیک کراؤں کیا خاک؟ اس بار تو تم نے حد ہی کر دی۔ تم کہتے ہو ان دنوں تمہارے پاس امبسیڈر کار تھی۔ ابے احمق، یہ کار تو تقسیم ہندکے بعد برلا نے پہلی بار ۱۹۵۷ء میں بنائی تھی۔ انہوں نے انگلینڈ کی Morris Oxford کے نقشے ان کی اجازت سے حاصل کر کے پہلے تو Hindustan 14 نامی کار بنائی۔ دو تین سال بعد مارس کا ماڈل بدلاتو انہوں نے نئے نقشے کے مطابق Landmaster اور پھر چند سال بعد جدید تر ڈیزائن کے مطابق Hindustan Ambassador کار وجود میں آئی۔ ۱۹۳۷میں امبسیڈر کہاں تھی جس میں بیٹھ کر تم علامہ سے ملنے گئے تھے؟‘‘

میں نے چڑ چڑاکر کہا ’’کارکا ماڈل بھول گیا ہوں گا۔ تم تو جانتے ہو کہ میرے پاس شروع نوکری ہی سے کاررہی ہے‘‘۔

’’بڑے آئے کار کا ماڈل بھولنے والے۔ بھلا اپنی پہلی کار کا ماڈل تم اس قدر بھول گئے کہ عدم کو وجود میں لے آئے؟ اور بیٹے ذرا یہ تو بتاؤ کہ ۱۹۳۷ میں علامہ اقبال صاحب میکلوڈ روڈ پر کہاں رہتے تھے؟ ۱۹۳۶ء کے اکتوبر میں یا اس کے کچھ پہلے حضرت علامہ نے میوروڈپر جاوید منزل کی تعمیر مکمل کر لی تھی اور فوراً ہی وہ اس میں منتقل ہو گئے تھے۔ تم ۱۹۳۷مفں میکلوڈ روڈ پرا ن سے کس جنم میں ملے ہو گے؟‘‘

’’سوسکتا ہے میکلوڈ روڈ نہیں، میوروڈ رہی ہو‘‘، میں نے جھنجھلا کر کہا۔ ’’نام میں ذرا ہی سا تو فرق ہے۔ کیا آدمی اتنی چھوٹی چھوٹی بات یاد رکھ سکتا ہے؟ شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے سر جگندر سنگھ کا بنگلہ اور دوکانیں وہاں نہیں مل رہی تھیں‘‘۔

’’بے شک آدمی ذرا ذرا سی بات یاد نہیں رکھ سکتا۔ لیکن یہاں تو اہم تفصیلات کا سوال ہے۔۔ ۔ ہاں اگر خود نوشت کے نام پر داستان امیر حمزہ لکھنی ہو تو اور بات ہے‘‘۔

’’داستان امیر حمزہ کو کچھ نہ کہو۔ اس سے بڑھ کر تاریخی کتاب ممکن نہیں‘‘۔ میں نے بپھر کر کہا۔

’’خیر یہی سہی۔ لیکن عام پبلک کے سامنے ایسی بات نہ کہنا، ورنہ لوگ تمہیں پاگل خانے بھجوادیں گے۔ اور بھائی صاحب، وہ لونڈے جن کا آپ نے ذکر کیاہے، ان کے بارے میں آپ نے کہیں اخبار میں پڑھا ہوگا۔ وہ لوگ جرائم پیشہ کنجر، یعنی ایک طرح کے خانہ بدوش تھے۔ ایک زمانے میں ان کا ایک قبیلہ لاہور میں کہیں سے آگیا تھا اور اس کے افراد، خاص کر لڑکے بالے، چھوٹی موٹی چوریوں میں اکثر ماخوذ ہوتے رہتے تھے۔ میکلوڈ روڈ یامیو روڈ تو نہیں، باغبان پورہ والی سڑک پر ضرور انہوں نے اپنے ڈیرے لگا رکھے تھے۔ آپ کبھی وہاں سے گزرے ہوں گے، پھراسی کے بارے میں آپ نے کوئی خواب دیکھ لیا۔ اور اب زیب داستان کے لیے اسے اپنی خود نوشت میں ڈالے دے رہے ہیں‘‘۔

’’اچھا یوں ہی سہی۔ تویہ لو!‘‘ یہ کہہ کر میں نے اپنی دائیں ہتھیلی اپنے دوست کی ناک کے نیچے اس کی آنکھ کے بالکل پاس تقریباً ٹھونس دی۔ ہتھیلی پراب بھی چوٹ کا داغ بہت گہرا اور صاف تھا۔ ’’حرامزادے، یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا۔ ’’کہو تو پٹھان کوٹ کے اس ڈاکٹر کا نام پتابتادوں جس نے اس چوٹ کا علاج کیا تھا‘‘۔

میرا دوست ایک لمحے کے لیے سن ہو کر رہ گیا۔ صاف معلوم ہورہا تھا کہ وہ گڑبڑا گیا ہے۔ مگر وہ بھی مجھ سے کم بے حیا نہیں۔ ذرا رک کر بولا، ’’اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے ک ہتھیلی پر یہ چوٹ تمہیں اسی وقت اور اسی جگہ لگی تھی جس کا ذکر تم نے افسانے۔۔۔ میرا مطلب ہے خود نوشت میں کیا ہے؟‘‘

’’نہ سہی، لیکن وہ ڈاکٹر اگرہوگا تو وہ وقت اور زمانے کی تصدیق تو کر دے گا‘‘۔

’’پچاس سے اوپر برس ہورہے ہیں۔ خدا معلوم وہ ڈاکٹر وہاں ہے بھی کہ مرکھپ گیا‘‘۔

’’وہم کا علاج تو لقمان کے پاس بھی نہ تھا، اور ضد کے علاج سے سقرا ط بھی معذور تھا‘‘۔

’’مانا۔ لیکن میں تم سے جرح اس لیے کررہا ہوں کہ تمہیں نے کہا تھا، اس کتاب کو دشمن کی نظر سے دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ اس میں ایک بھی بات غلط راہ پا جائے‘‘۔

’’ہاں، اور اب تک تمہیں کچھ نہ ملا تو فرضی ہی الزام گڑھنا شروع کر دیے‘‘۔

’’سچی بات یہ ہے کہ تمہارے بیانیے میں اور باتیں بھی کھٹکی تھیں، لیکن وہ اتنی نمایاں نہ تھیں۔ اس باب میں تو تم نے واقعے کے نام سے ایک بھی حرف نہ لکھا‘‘۔

’’کچھ اور ، مثلا؟‘‘ میں نے بڑی کوشش سے غصہ ضبط کرکے پوچھا۔

’’تم نے علامہ صاحب کی آواز کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔ اس وقت تک ان کی آواز بالکل بیٹھ چکی تھی‘‘۔

’’میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے اس ملاقات کی تفاصیل نہیں یاد‘‘۔

’’مگر اتنی اہم بات۔۔۔‘‘

’’چپ رہو۔ جانتے ہو، لفظ ’واقعہ‘ کے معنی حقیقت بھی ہیں ، اور خواب بھی ، اور موت بھی‘‘، میں نے بڑے فخر سے کہا، گویا کوئی بڑی دریافت بیان کر رہا ہوں۔

’’پھر تو مجھے کچھ کہنا ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ بتاؤ تم نے منیر نیازی کا مصرع کبیر کے سرکیوں مڑھ دیا؟‘‘

’’کیا بکتے ہو؟‘‘ میں دہاڑا۔

’’یہی کہ ’خالی شہر ڈراؤنا کھڑا تھا چاروں اور ‘ منیر نیازی کا مصرع ہے اور یہ بات اس کے مجموعے ’دشمنوں کے درمیان شام‘ مطبوعہ ۱۹۶۸ کے صفحہ ۲۵ پر موجود ہے۔ تم نے ۱۹۳۷ء میں یہ مصرع کبیر کے نام سے کہاں دیکھ لیا؟ چلو اب مان بھی جاؤ کہ تم نے اپنی خود نوشت میں ایک افسانہ بھی ڈال دیا ہے‘‘۔

’’سب افسانے سچے ہوتے ہیں ! سب افسانے سچے ہوتے ہیں!‘‘ ایک لمحے کی خاموشی کے بعد میں چیخ کر بولا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

Chawanni a Short Story by Rizwanul Haq

Articles

چونّی

رضوان الحق

دوپہر میں سوتے سوتے اچانک طالب صاحب کی آنکھ کھلی تو ان پر دیر تک اسی خواب کا تصرف رہا جو انھوں نے سوتے میں دیکھا تھا- اس خواب میں ان کے ماضی کے کئ حسین در وا ہو گئے تھے- جب اس خواب کا تصرف کچھ کم ہوا تو وہ اپنی پرانی چیزوں میں کچھ تلاش کرنے لگے- آج برسوں بعد انھوں نے الماری کے اس خانے کو کھولا تھا- اس میں ان کی کئ یادگار چیزیں، مثلا” تعلیمی اسناد، دوستوں کے دیے ہو‎ۓ کچھ تحفے، داغ فرقت دے چکی بیوی کی کچھ تصویریں اور ایک معشوق کے چند خطوط وغیرہ تھے – بڑی دیر تک وہ انہیں چیزوں کو دیکھتے رہے- اچانک انھیں الماری میں چار آنے کا ایک سکّہ پڑا مل گیا – انھوں نے سوچا ان پرانی اور دنیا کے لئے بے کار ہو چکی چیزوں میں یہ سکّہ رائج الوقت کہاں سے آ گیا؟ اور انھوں نے اسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا – اس کے بعد ایک بار پھر وہ پورے انہماک سے انہیں اسباب میں محو ہو گئے – کچھ دیر بعد ان کے پوتے لطیف نے آ کر کہا –
“دادا جی! مجھے پیسے دے دیجئے، چاکلیٹ لوں گا –”
“انھوں نے دو روپے نکل کر اسے دیے اور وہ روپئے لے کر جانے لگا کہ اچانک انھیں چار آنے کا وہ سکّہ بھی یاد آ یا اور اسے نکال کر وہ بولے –
“بیٹے لطیف،لو یہ بھی رکھ لو-“
لطیف نے پہلے تو ہاتھ بڑھا کر سکّہ لے لیا لیکن جب اس نے دیکھا وہ سکّہ چار آنے کا ہے، تو اسے واپس کرتے ہوئے بولا-
“دادا جی، اس کا کیا کروں؟ اب چار آنے کا کچھ نہیں ملتا، اسے تو آپ ہی رکھ لیجئے –”
“یہ کہہ کر وہ سکّہ اپنے دادا کے ہاتھ میں دے کر باہر چلا گیا- طالب صاحب حیران کھڑے کبھی چونی اور کبھی اپنے پوتے کو دیکھتے رہ گئے- پھر انھوں نے سکّے کو اپنی جیب میں واپس رکھ لیا-
طالب صاحب چار آنے کی معنویت کے بارے میں سوچنے لگے- انھیں محسوس ہوا لطیف نے جس طرح چونی لینے سے انکار کیا ہے، یہ بدتمیزی ہے- نہیں تو چار آنے ابھی اتنے بے وقعت نہیں ہوئے ہیں- کچھ دیر تک وہ چار آنے کے بارے میں سوچتے رہے- انھیں محسوس ہوا یہ چار آنے اپنے پاس رکھنا ٹھیک نہیں ہے اور وہ اسے خرچ کرنے کی غرض سے گھر سے باہر نکل پڑے –
باہر نکل کر انھوں نے سب سے پہلے پھل خریدے جو دس روپے کے ہوئے- جیب سے پیسے نکالے تو چار آنے کا وہ سکّہ بھی نکل آیا جسے بڑ ی بے دلی سے انھوں نے جیب میں واپس رکھا – اس کے بعد ایک چھوٹے سے ہوٹل میں جا کر چاۓ پی، جس کے تین روپے ہوئے- وہاں بھی بات نہیں بنی، تھوڑی دور چلنے پر ایک پان کی دکان نظر آئی – انھوں نے سوچا چلو پان کھاتا ہوں، ممکن ہے اب پان ایک روپیہ پچیس پیسہ کا ہو گیا ہو تو چونی دے دوں گا- پان کھانے کے بعد جب انھوں نے قیمت پوچھی تو اس نے دو روپے بتائی – طالب صاحب نے پیسے نکالے تو چار آنے کا وہ سکّہ پھر نکل آیا اور انھوں نے جھنجلا کر اسے جیب میں پھر واپس رکھ لیا- پان کھانے کے بعد انھیں یاد آیا کہ ایک سگریٹ ایک روپیہ پچیس پیسے کی ملتی ہے- اس لیے دکان دار سے سگریٹ دینے کو کہا اور ایک روپیہ پچیس پیسے نکال کر اسے دینے لگے تو دکان دار نے کہا-
“دو روپیے ہوئے صاحب-“
“یہ سنتے ہی انھیں لگا جیسے چونی کا وہ سکّہ بچھو بن کر ڈسنے جا رہا ہو- انھوں نے اسے ہاتھ سے جھٹک دیا اور دو روپیے دکان دار کو دے دیے – اس کے بعد کچھ سوچ کر چار آنے کے اس سکے کو پھر تلاش کر کے جیب میں رکھ لیا اور گھر واپس آ گئے – اگلے کئی روز تک وہ چونی خرچ کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتے لیکن ناکام ہو کر لوٹ آتے- چار آنے کا وہ سکّہ انھیں ہر وقت بے چین کیے رہتا اور گھر میں بیٹھنے نہ دیتا- انھیں کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے چار آنے کے اس سکّے پر آسیب سا آ گیا ہو- اس لیے وہ سوچ رہے تھے اسے جلد سے جلد خرچ کر ڈالنے میں ہی عافیت ہے- وہ گھر سے نہ جانے کیا کیا منصوبے بنا کر نکلتے، کہ اس مد میں خرچ کر دونگا اور اگر اس میں نہ بھی خرچ ہو سکے تو اس مد میں ضرور ہی خرچ ہو جائیں گے لیکن وہ چار آنے خرچ نہ ہو سکے، اس چونی کو خرچ کرنے کی کوشش میں انھوں نے نہ جانے کتنے روپیے خرچ کر دیے-
ایک دن وہ بہت اداس بیٹھے چار آنے کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ اچانک انھیں خیال آیا، میں پچھلے کئی دنوں سے اتنا پریشان ہوں لیکن میرے بیٹے یا بہو نے میری خیریت تک نہیں پوچھی اور اب تو لطیف بھی مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا- اب بیٹا تجارت کے سلسلے میں بھی مجھ سے کبھی مشوره نہیں لیتا- سب کچھ اپنی مرضی سے کرتا ہے- کیا اب اس کے دل میں میری اہمیت نہیں رہی؟ کیا میں بے معنی ہو چکا ہوں اور شاید ان پر بوجھ بھی- یہ سوچ سوچ کر ان کا دل گھبرانے لگا- جب ان کی پریشانی زیادہ بڑھنے لگی تو انھوں نے اس طرف سے اپنا دھیان ہٹانے کے لیے لطیف کو پکارا-
“بیٹا لطیف!”
لطیف باہر سے دوڑتا ہوا اندر آیا-
“جی،دادا جی-“
“کیا کر رہے تھے؟”
“باہر کھیل رہا تھا-“
“چلو میں بھی تمہارے ساتھ کھیلتا ہوں-“
“ہا ہا… ہا ہا…. ہی ہی-“
لطیف نے بہت تیز قہقہہ لگایا- طالب صاحب حیران و پریشان ہو گئے کہ اس میں اتنی تیز ہنسنے کی کیا بات ہے؟ آخر کار ان سے رہا نہ گیا اور انھوں نے پوچھا-
“کیا ہوا؟اتنی زور سے ہنس کیوں رہے ہو؟”
“آپ میرے ساتھ کیسے کھل سکتے ہیں؟ میں اتنی تیز دوڑتا ہوں اور آپ اتنی دھیرے دھیرے چلتے ہیں-“
یہ کہہ کر لطیف تیزی سے دوڑتا ہوا چلا گیا-
“معاف کرنا بیٹا! مجھے یاد نہیں رہا کہ اب میں تمھارے ساتھ کھیلنے کے لایق نہیں رہا- اچھا جاؤ، تم اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو-“
لیکن لطیف ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہاں سے جا چکا تھا- اس واقعے کے بعد وہ اور بھی بے چین رہنے لگے-
رات میں انھیں خیال آیا کے بہت دنوں سے بیٹی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے- شاید اس سے بات کرنے میں کچھ راحت ملے، اور وہ باہر پی سی او پر اپنی بیٹی سے بات کرنے چلے گئے- انھوں نے راستے میں سوچا کچھ دن کے لیے اسے گھر بلا لیتا ہوں، طبیعت بہل جاۓ گی- فون پر ان کی بیٹی نے اپنے بچوں کی پڑھائی کی وجہ سے گھر نہ آ سکنے کی مجبوری بتائی- فون کرنے کے بعد جب انھوں نے بل دیکھا تو تیس روپیے چوبیس پیسے ہوئے تھے. انھوں نے تیس روپیے نکالے اور جلدی سے وہ چونی بھی دینے لگے تو پی سی او والے نے کہا-
“اسے رہنے دیجیے – اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے-“
“رہنے کیوں دیں؟جب پورے پیسے ہیں تو کیوں نہ دوں؟”
“اب فالتو چیزوں کو جن کی کوئی اہمیت نہ ہو اسے اپنے پاس رکھ کر کوئی اپنا بوجھ کیوں بڑھاۓ- اب اسے کون پوچھتا ہے؟”
“تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ میرے بچے ہیں، بہو ہے، پوتا ہے، نواسے ہیں- میرا اپنا گھر ہے، تجارت ہے- میں کسی پر بوجھ نہیں ہوں- میں نے زندگی میں بہت کمایا ہے- اور اب اپنی تجارت اپنے بیٹے کو سونپ دی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ میں فالتو چیز ہو گیا ہوں-“
“آپ بھی بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں- میں نے فالتو چیز آپ کو نہیں چونی کو کہا تھا-“
اور اس طرح طالب صاحب پھر واپس چل دیے اور وہ چونی انہیں کے پاس رہ گئی- راستے میں وہ بڑبڑاتے رہے –
“ہوونہہ چونی کو کہا ہے- جیسے میں کچھ سمجھتا ہی نہیں، جھوٹے کہیں کے- میرا کیا ہے؟ کچھ دن کی زندگی اور ہے- کسی نہ کسی طرح گذر ہی جاۓ گی- اللہ نے چاہا تو مجھ سے بھی بر ا حشر ہوگا ان حرامزادوں کا-“
رات میں انھیں دیر تک نیند نہ آ سکی- کروٹیں بدلتے رہے اور سوچتے رہے، اپنے ماضی کے بارے میں، ابتداۓ جوانی کے بارے میں- جب گاؤں میں ان کی زمین داری چلتی تھی- زمین داری ختم ہونے پر انھوں نے شہر میں آ کر اپنا کاروبار شروع کیا تھا-
” صاحب یو کھیت جوت ڈالی تو چونی کا کام ہوئی جئی –”
“ابے لکھو جانتا ہے چونی میں ایک بار کے کھانے کا ایک ہفتے کا غلہ ملتا ہے، اور تو بس ایک دن میں چونی کا کام کر لینا چاہتا ہے؟ تو اپنا کام کر اور یہ حساب کتاب مجھ پر چھوڑ- جب چار آنے پورے ہو جائیں گے تو دے دونگا-“
پاس والے قصبے کی خانم بائی کی کیا دھومیں تھیں، اس کے مجرے کی دور دور تک شہرت تھی – اسکول سے جب میں پہلی دفعہ مجرا سننے گیا تھا تو چار آنے ہی دیے تھے-
وہ بھی کیا زمانہ تھا- کیا شان تھی میری بھی اور چونی کی بھی- جدھر سے گذرتا تھا، لوگ جھک جھک کر سلام کرتے تھے لیکن اب نہ کوئی مجھے پوچھتا ہے اور نہ چونی کو- یا الله تو کیوں مجھے ایسی ذلّت بھری زندگی جینے پر مجبور کر رہا ہے- اس سے تو اچھا تھا مجھے موت ہی آ جاتی- یہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے؟ اور سرکار کو کیا ہو گیا ہے- جب چار آنے کی کوئی چیز ملتی ہی نہیں تو اسے جاری کیوں رکھا ہے؟ بند کیوں نہیں کر دیتی؟ وہ ضرور مجھے چڑانے کے لیے ہی اب چونی چلا رہی ہے-
چونی کی صحیح صورت حال کیا ہے؟ یہ جاننے کے لیے وہ ایک دن ریزرو بنک پہنچ گئے اور وہاں ایک بڑے بابو سے ملے-
“اب چونی چلتی ہے یا نہیں؟”
“کبھی آسمان کی طرف غور سے دیکھا ہے؟”
“ہاں دیکھا ہے-“
“کیسا دکھتا ہے؟”
“نیلا، زمین کو چاروں طرف سے ڈھکے ہوئے -“
“شاید آپ کو معلوم نہیں- آسمان جیسی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہوتا، اور نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا ہے- صرف ایک خلا ہوتا ہے-“
“وہ تو مجھے معلوم ہے-“
“اسی طرح بہت سی چیزیں محسوس ہوتی ہیں، دکھائی بھی دیتی ہیں، لیکن ہوتی نہیں ہیں-“
“جیسے؟”
“کبھی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا ہے؟”
“کیا مطلب؟ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟”
“بات بہت صاف ہے- آئینہ دیکھنے والے کو لگتا ہے کہ وہ اس آئینے میں موجود ہے لیکن در حقیقت آئینے میں وہ ہوتا نہیں ہے- اس لیے آنکھوں دیکھی پر کبھی اعتبار نہ کریں، سمجھ گئے؟”
“طالب صاحب نے جب کوئی جواب نہیں دیا تو اس نے پھر پوچھا-
“کبھی ریل گاڑی سے سفر کیا ہے؟”
“ہاں کیا ہے-“
“کھڑکی سے باہر پیڑوں کو تیز رفتار سے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے؟”
“ہاں دیکھا ہے-“
“وہ بھی بھاگتے نہیں ہیں-ساکت کھڑے ہوتے ہیں- سمجھ گئے یا اور سمجھاؤں؟ گرمیوں میں کسی صحرا میں گئے ہیں؟”
“بس… بس با با بس، سمجھ گیا-“
“پھر آپ تشریف لے جا سکتے ہیں، میں آپ کی طرح بے کار نہیں ہوں، میرے پاس بہت کام ہیں-“
مجبور اور خفیف ہو کر طالب صاحب وہاں سے واپس چلے آے – وہ ایک سیدھا سادہ سوال لے کر وہاں گئے تھے- لیکن اس بابو نے اس کا جواب دینے کے بجاۓ ایسا سمجھا یا کہ وہ کئی اور سوالوں میں مبتلا ہو گئے-اس سب کا انجام یہ ہوا کہ وہ ہر چیز کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے- وہ کچھ بھی دیکھتے تو سوچتے، پتہ نہیں یہ چیز حقیقت میں ہے بھی یا صرف اس کے وجود کا وہم ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ زمین گھوم رہی ہے- اس لیے اس پر موجود ہر شے بھی گھوم رہی ہوگی- پھر یہ زمین اور ساری اشیا ٹھہری ہوئ کیوں ہیں؟ معلوم نہیں یہ گھر، یہ کمرہ، یہ ساز و سامان، ان سب کی حقیقت کیا ہے؟خود میں بھی ہوں یا نہیں ہوں؟کہیں میں بھی تو بھاگتے ہوئے پیڑوں کی طرح اور نیلے آسمان کی طرح تو نہیں ہوں؟ اب اس کا فیصلہ کیسے ہو؟میں خود اس کا فیصلہ کر نہیں سکتا اور دوسروں کا ویسے بھی کیااعتبار؟ اگر دوسرے لوگ قابل اعتبارہوں بھی تو اس بات کا کیا اعتبارکہ ان کی آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہی ہیں؟اس بابو نے کہا تھا آنکھوں دیکھی پر اعتبارنہ کرنا- بات تو ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن کس کا اعتبارکروں؟
وہ انھیں خیالوں میں گم تھے کہ اندر سے بہو کی آواز آئی –
“پا پا کھانا لگا دوں؟
لیکن انھوں نے اس کی آواز پر کوئی دھیان نہیں دیا- کوئی جواب نہ پا کر وہ ان کے کمرے میں آ گئی- انھیں سر پکڑ کر بیٹھے دیکھ کر بولی-
“کیا ہوا پاپا؟ کیا سر میں درد ہے؟ تیل لگا دوں؟”
“تم…؟ کون ہو تم؟ کیا چاہتی ہو؟”
“پاپا میں ہوں، ادھر دیکھیے، مجھے نہیں پہچانا؟ میں آپ کی بہو ہوں- بھوک نہیں لگی؟ کھانا لگا دوں؟”
“وہ تو میں دیکھ رہا ہوں- لیکن آنکھوں دیکھی پر مجھے یقین نہیں -“
“پاپا یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ اگر اپنی آنکھوں دیکھی پر یقین نہیں تو پھر کس پر یقین ہے؟”
“مجھے کسی پر یقین نہیں – یہ سب فریب ہے، مایا ہے- لیکن یہ یاد رکھنا میں ابھی زندہ ہوں- رکو، میں ابھی تمھیں اپنے ہونے کا ثبوت دیے دیتا ہوں-“
یہ کہہ کر وہ کمرے کا سامان اٹھا کر پھینکنے لگے، پانی سے بھرا گلاس پھینک دیا- اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے، شیشے کی کچھ کرچیاں ان کے پیروں سے ٹکرائیں جس سے ان کے پیر سے خون بہنے لگا- اس کے بعد بولے-
“دیکھو اگر میں یہاں موجود نہ ہوتا تو یہ سب کیسے کرتا؟”
بہو نے گھبرا کر اپنے شوہر کو فون کر دیا- تھوڑی دیر میں طالب صاحب کا بیٹا آ گیا- اس نے انھیں ہسپتال لے جاکر بھرتی کرا دیا- وہاں ان کی پوری جانچ ہوئ، کوئی خاص بیماری نہیں نکلی، ڈاکٹر نے بتایا ان کی صحیح دیکھ بھال کی ضرورت ہے- صحیح وقت پر کھانا اور سونا ہونا چاہیے- جہاں تک ممکن ہو ان کو تنہا مت چھوڑئیے، کچھ دوائیں بھی لکھ دیں، شام کو وہ گھر واپس آ گئے –
ڈاکٹر نے نیند کی گولیاں بھی دے دی تھیں، اس لیے وہ شام کو ہی سو گئیاور رات بھر سوتے رہے- صبح جب نیند سے جاگیتو سوتے سوتے اتنا تھک چکے تھے کہ کچھ دیر جاگنے کے بعد بھی ان کے پورے جسم میں کہیں کوئی جنبش نہ ہو سکی- رات بھر وہ عجیب سے خواب دیکھتے رہے تھے- اس لیے دماغ بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا تھا- انھیں نہ وقت کا صحیح احساس تھا نہ مقام کا- وہ آنکھیں بند کیے نیم خوابی کی کیفیت میں مبتلا رہے- اتنے میں انھیں اپنے پیر پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا- جب غور کیا تو محسوس ہوا کہ چیونٹیاں رینگ رہی ہیں- وہ پیر کے اس حصّے کی طرف جا رہی تھیں جہاں انھیں چوٹ لگی تھی- ان کے ذہن میں اچانک سوال ابھرا، کہیں میں مر تو نہیں گیا ہوں؟ جو چیونٹیاں اپنا حصّہ لینے آ گئی ہوں؟ ورنہ چیونٹیاں زندوں کو تو ایسے نہیں چاٹتی ہیں… میں اس وقت پتہ نہیں کہاں ہوں؟ قبر میں ہوں یا ایسے ہی کہیں پڑا سڑرہا ہوں؟ لیکن میں سوچ کیسے رہا ہوں؟ تو کیا ابھی روح جسم میں باقی ہے؟یا میں خدا کے سامنے پیش کیا جا چکا ہوں اور جنت یا جہنم میں ہوں؟ وہ ابھی اسی فکر میں تھے کہ ان کی بہو نے آ کر کہا-
”پاپا چاۓ لائی ہوں-“
“کون ہو تم؟ میں جنت میں ہوں یا جہنم میں؟”
یہ سنتے ہی بہو گھبرا گئی، اس کے ہاتھ سے چاۓ کی پیالی چھٹ گئی اور تھوڑی سی چاۓ طالب صاحب کے اوپر بھی گر گئی- گرم گرم چاۓ گرتے ہی ان کی نیم خوابی کی کیفیت ٹوٹ گئی اور وہ ایک دم سے گھبرا کر اٹھ بیٹھے- جب تھوڑی دیر میں ان کی طبیعت معمول پر آئی تو بڑی ندامت کے ساتھ بولے –
“ارے بیٹی تم ہو، معاف کرنا میں ایک خوف ناک خواب میں مبتلا تھا- کیا بات ہے بہو؟ آج بہت جلدی چاۓ لے کر آ گئیں؟”
“جلدی کہاں وقت سے ہی تو آئ ہوں، وہ چاۓ تو گر گئی میں دوسری چاۓ لے کر آتی ہوں-“
بہو کے جاتے ہی وہ ایک بار پھر اسی خواب کے بارے میں سوچنے لگے اور پھر ان پر ایک اضطرابی کیفیت طاری ہونے لگی- تھوڑی دیر میں بہو چاۓ لے کر آ گئی-
“یہ لیجیے پاپا اور دوا بھی لائی ہوں- کھا لیجیے، جلدی ٹھیک ہو جائیں گے-“
“میں نہیں مانتا- تم کیسے ثابت کر سکتی ہو کہ یہ دوا ہی ہے- میں تم لوگوں کو خوب سمجھتا ہوں! یہ مت سمجھنا کہ میں کسی کام کے لایق نہیں رہا- میں ابھی سب کچھ کر سکتا ہوں- یہ گھر میرا ہے- تجارت میری ہے- یاد رکھنا، سچائی وہی نہیں ہوتی جو دکھائی دیتی ہے-“
اتنے میں ان کا بیٹا بھی آ گیا- اسے دیکھتے ہی وہ گرج پڑے –
“تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے؟ آئینے کا عکس، آب سراب، یا نیلا آسمان، میں حقیقت ہوں… حقیقت – میں کچھ بھی کر سکتا ہوں- یہ گھر میرا ہے، میں تمھیں اپنے گھر سے نکال دوں گا- تم سب نے مجھے مردہ سمجھ لیا ہے- میری بیٹی نے تو مجھے شادی ہوتے ہی بھلا دیا- اس نے کب سے میری خیریت تک معلوم نہیں کی، جیسے میں مر چکا ہوں-“
یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے- تھوڑی دیر تک رو لینے کے بعد ان کے دل کا غبار کم ہو گیا تو ان کی طبیعت کچھ ٹھیک ہوئ – کچھ دیر بعد ان کی بیٹی بھی آ گئی، جس سے دل اور بھی ہلکا ہو گیا- دوپہر میں طالب صاحب نے اپنی بہو کو پکارا-
“بہو… ذرا یہاںآنا-“
“جی!پاپا جی-“
“میں کل جب بیمار ہوا تھا… میری جیب میں چار آنے کا ایک سکّہ تھا- وہ کہاں ہے؟”
“ہاں ہاں… میرے پاس ہے، کیا پیسوں کی ضرورت ہے پاپا؟ کتنے پیسے چاہیے؟”
“نہیں… مجھے بس وہی چونی چاہیے – تم کون بڑی آیئں مجھے پیسے دینے والی-“
“وہ تو میں نے کہیں رکھ دی، ڈھوڈنی پڑے گی- چونی ہی تو تھی اس لیے میں نے ز یادہ توجہ نہیں دی-“
“تو ڈھونڈو مجھے وہ سکّہ ابھی چاہیے، جاؤ ڈھونڈ کر لاؤ –”
شام کو وہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کی بہو نے آ کر کہا-
“پا پا آپ کے لیے چاۓ لائی ہوں اور آپ کی وہ چونی بھی مل گئی-“
“کہاں ہے؟ لاؤ دیکھوں – جلدی لاؤ، بہت اچھا ہوا- ٹھیک ہے اب تم جاؤ -“
بہو کے جاتے ہی وہ بے تحاشا سکے کو چوم نے لگے اور اس سے بولے-
“کہاں کھو گئے تھے میرے دوست؟ ایک تم ہی تو ہو جو میرا درد سمجھتے ہو-اگر تم بھی چلے گئے تو میں کیسے زندہ رہوں گا؟”
رات میں وہ ٹھیک سے سو نہ سکے، صبح وہ عام طور پر بستر پر دیر تک پڑے رہتے تھے، اخبار بہت صبح آ جاتا تھا، وہ اسے اٹھانے کبھی نہ جاتے تھے لیکن اس صبح وہ اخبار والے کی راہ تکتے رہی- جیسے ہی اخبار آیا، انھوں نے لپک کر اسے اٹھا لیا – صفحہ ا ول پر چو کھٹے میں ایک مختصر لیکن نمایاں خبر تھی-
“حکومت نے چونی بند کرنے کا فیصلہ کر لیا-“
————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Best Urdu Short Story

Maze a Story by Moinuddin Jinabade

Articles

بھُول بھلیاں

معین الدین جینابڑے

گلی میں کھیل رہے بچوں کے شور اور از خود ورق الٹنے والے البم کی موسیقی نے آپس میں مل کر بابو کھوجی رام پرایک عجیب کیفیت طاری کردی تھی۔ ان کی بوڑھی آنکھوں میں یادوں کے جگنو چمک رہے تھے۔ ان جگنوؤں کی جلتی بجھتی روشنی میں وہ ٹھہرٹھہر کر،ماضی کے اندھیرے میں ٹٹولتے ہوئے کافی دور تک نکل آئے تھے اور اب ان کی عمر اپنے اس پوتے جتنی ہوگئی تھی جو باہر گلی میں اپنے ہم سِنوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔
ساٹھ باسٹھ برس کا فاصلہ جب مٹ گیا تو انہوں نے اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ گلی کی چہل پہل بدستور قائم تھی۔ آنے جانے والوں کاسلسلہ جاری تھا۔ پھیری والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ دو ایک کو گلی کی عورتوں نے روک لیا تھا اور ان سے مول تول کررہی تھیں۔ ایک بغیر گھنٹی کا سائیکل سوار چلا چلا کر راہ گیروں کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کررہا تھا۔ ادھرے سے موٹر کے ہارن کی آواز آئی تو دوسروں کے ساتھ سائیکل سوار بھی ایک طرف کو ہوگیا۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا۔ بس اتنا فرق ہوا تھا کہ دور دور تک ان کا کوئی ساتھی، کوئی ہمجولی نظر نہیں آرہا تھا۔ سب چھپ گئے تھے اور انہیں ان چھپے ہوؤں میں سے کسی ایک کو ڈھونڈ کر چھونا تھا۔
اپنے چھپے ہوئے ساتھیوں کو ڈھونڈ نکالنا کھوجی رام کے لیے کوئی بات نہیں تھی۔ جب کبھی اس پر داؤ چڑھتا وہ یوں چٹکیوں میں اسے اتار دیتا۔ بھگوان جانے یہ اس کے نام کی برکت کی وجہ سے تھا یا کھیل کے قاعدوں کی وجہ سے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کھوجی رام پر داؤ چڑھا ہو اور اس نے سو کی گنتی کے اندر اسے اتارا نہ ہو۔ اس داؤ کو اتارنے میں اس کے ساتھی پسینے پسینے ہوجاتے تھے۔
جب کبھی کھوجی رام کی بات آتی تو لڑکوں کا جی چاہتا کہ کھیل کے قاعدوں میں کچھ ترمیم کی جائے اور اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو یوں ہوجائے کہ ان کی گلی کچھ پھیل جائے…… اتنی پھیل جائے کہ سارا شہر اس کے اندر سماجائے……کھوجی جیسا ڈھونڈنے والا ہو تو اتنی سی گلی میں چھپنا بھی کوئی چھپنا ہوا۔ کھیل کا مزہ تو اسی وقت ہے کہ داؤ اُتارنے والے کو نانی یاد آجائے!
داؤ اتارنے کے لیے کھوجی چاروں طرف گھوم کر گلی کا جائزہ لے رہا تھا اور اسکے دوست جہاں کہیں بھی چھپے تھے، دم سادھے دل ہی دل میں گنتی گن رہے تھے۔ یہ طے تھا کہ سو کی گنتی تک پہنچتے پہنچتے ان میں سے کسی ایک پر داؤ چڑھ چکا ہوگا۔ ہر لڑکا اپنی خیر منا رہا تھا۔ چھٹپٹے کاوقت تھا۔ اب پکڑے جانے کا مطلب تھا رات کے اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھر اکریں اور دیر سے گھر جانے کی سزا میں پٹائی ہوگی سو وہ الگ!
اکثر یہ ہوتا کہ نوّے پچانوّے کے اندر ہی کھوجی پکار کر کسی کے پکڑے جانے کا اعلان کرتا اور باقی لڑکے اپنی اپنی جگہ سے نکل کر باہر آجاتے۔ آج یہ ہوا کہ ان میں سے ہر ایک کی گنتی سو تک پہنچ گئی اور وہ باہر نہیں نکل سکے۔ کھوجی نے کسی کے پکڑے جانے کا اعلان ہی نہیں کیاتھا۔
اتنی دیر میں کھوجی داؤ نہ اتار سکے یہ ناممکن ہے۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس نے انہیں بے وقوف بنایا ہو۔ یہ حرکت تو کچے کھلاڑیوں کی ہے کہ جب ان پر داؤ چڑھے تو سب کے چھپ جانے کا انتظار کریں اور پھر چپ چاپ آنکھوں پر بندھی پٹی کھول کر گھر کی راہ لیں۔ چھپنے والے، چھپے بیٹھے یہ سوچ کر خوش ہوتے رہیں کہ کوئی انہیں ڈھونڈرہا ہے اور وہ کسی کو پدار ہے ہیں۔ یہ تو انہیں بعد میں معلوم ہوگا کہ وہ خود پد گئے۔
کھوجی ایسا نہیں کرسکتا۔ وہ ایک پکا کھلاڑی ہے اور اس کھیل کے تعلق سے کچھ ایسی ازلی مناسبت ساتھ لے کر آیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے، کھیل کے اسرار رموز ازخود اس پر آشکار ہونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ وہ واحد کھلاڑی تھا جسے صرف چھپنے میں نہیں بلکہ ڈھونڈنے میں بھی لطف آتا تھا۔ اس کھیل میں وہ دونوں رول یکساں دلچسپی اور انہماک سے ادا کرتا تھا۔ اس کے لیے آنکھ مچولی کے کھیل میں پدنا اور پدانا بے معنی لفظ تھے۔ ایساکبھی نہیں ہوا کہ اس نے ڈھونڈنے کی باری سے جی چرایا ہو یا یہ کہ چھپنے کی باری کی طرف اس کی رغبت ظاہر ہوئی ہو۔ سب دیکھتے تھے کہ اسے ڈھونڈنے میں بھی وہی مزہ آتا ہے جو دوسروں کو چھپنے میں آتا ہے۔ چھپنے میں اوروں کے ساتھ اسے مزہ آتا تھا تو کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔
یہی وجہ ہے کہ ہر لڑکے کو یہ یقین تھا کہ سب کے چھپ جانے کے بعد چپ چاپ گھر چلے جانے کی حرکت اس سے سرزد نہیں ہوسکتی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اسے شرارت سوجھی ہو اور اپنی شرارت میں اس نے پکڑے جانے والے لڑکے کو ساجھی بنا لیا ہو۔ کھوجی نے اسے اس بات پر آمادہ کر لیا ہو کہ دونوں خاموش بیٹھے رہیں تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ ڈھونڈے جانے کے شوق میں سب لڑکے کب تک چھپے رہ سکتے ہیں۔ یہ حرکت کھوجی پہلے بھی دو ایک مرتبہ کرچکا تھا۔
آج ایک مرتبہ پھر ان لڑکوں کو معلوم ہوا کہ جس چھپنے کی باری کی خاطر وہ مرے جاتے ہیں وہ چھپنا کتنا اذیت ناک ہوسکتا ہے۔ وہ جو کچھ دیر پہلے اس خیال سے مسرور تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ رہا ہے، اب پریشان ہوگئے تھے کہ کوئی انہیں ڈھونڈ کیوں نہیں لیتا؟ ڈھونڈے جانے کا نشہ اتر چکا تھا۔ اتنی دیر تک چھپے رہنے سے ان کی طبیعتیں منغض ہونے لگیں تو انہوں نے اپنی اپنی جگہ سے کسی آڑ، کسی اوٹ سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کی اور جب یہ کوشش سود مند ثابت نہیں ہوئی تو سب کے سب اوٹ سے نکل کر باہر گلی میں آگئے۔
باہر گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی تھی۔ میونسپلٹی کا بلب ٹمٹما رہا تھا۔ ساری چہل پہل ماند پڑچکی تھی۔ فضا بوجھل ہوگئی تھی اور راستے پر اداسی بچھی ہوئی تھی…… رہا کھوجی تو اس کا دور دور تک پتا نہیں تھا!
کھوجی نے نہ تو اپنے دوستوں کو بے وقوف بنایا تھا اور نہ اس شام اسے شرارت سوجھی تھی۔ داؤ اتارنے کے لیے چاروں طرف گھوم کر جب اس نے گلی کا جائزہ لیا اور ایک اچٹتی ہوئی نظر بڑی سڑک پر ڈالی تو وہاں سے گذرتے ایک آدمی پر اسے اپنے ماما کا گمان ہوا۔ اس کے وہ ماما جو کبھی ممبئی نہیں آئے تھے۔ کھوجی نے دیکھا کہ وہ گلی میں نہیں مڑے بلکہ سیدھا آگے بڑھ گئے۔ لپک کر انہیں روکنے کے خیال سے کھوجی گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر آگیا……وہ اماں کی اس تاکید کو بھولا نہیں تھا کہ کھیل کود کے دوران کبھی گلی سے باہر قدم نہ نکالے ……لیکن اسے اماں کی یہ بات بھی یاد تھی کہ اس بمبئی کی بھیڑ میں بچے تو بچے بڑے بھی کھوجاتے ہیں۔ پردیس میں ماما کے کھو جانے کا اندیشہ اس کے ذہن پر کچھ ایسا حاوی ہوا کہ اس نے سوچا بھگوان نہ کرے اگر اس بھیڑ میں ماما کھوگئے تو اس کی ذمہ داری اس کے سر ہوگی۔
بڑی سڑک پر آکر اس نے ماما کو آواز دی لیکن سڑک کے شور میں شاید اس کی آواز ان تک نہیں پہنچی۔ وہ برابر آگے بڑھتے رہے۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تک نہیں۔ کھوجی نے سوچا ذرا سا تو فاصلہ ہے ابھی دوڑ کر انہیں روک لیتا ہوں۔ وہ بھیڑ کر چیرتے ہوئے ان کی طرف بڑھنے لگا۔ لوگوں کو ہٹاتے اور موٹروں سے بچتے بچاتے انہیں جالینے کی کھوجی کی تمام تر کوشش کے باوجود اس کے اور ماما کے بیچ کا فاصلہ مستقل بڑھتا رہا۔ اس کوشش میں وہ اپنے گھر اور گلی سے بہت دور نکل آیا اور اسے اس بات کا بھی دھیان نہیں رہا کہ وہ بڑی سڑک کو کب کا چھوڑ چکا ہے۔
انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں اس کے ماما کی حیثیت ایک تنکے کے سی تھی۔ وہ تنکا اس سمندر کی پرشور موجوں پر ہچکولے کھا رہا تھا اور کھوجی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ اس ڈوبتے ابھرتے تنکے کو دیکھتے دیکھتے ایک پل کے لیے کھوجی کو ایسا لگا کہ وہ خود اس سمندر میں ڈوبا جارہا ہے۔ دوسرے ہی پل اس نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی موج آئی اور اس میں وہ تنکا ایسا ڈوبا کہ پھر ابھر نہ سکا!
تنکے کے ڈوبنے نے کھوجی کو اپنے ڈوبنے کے احساس سے نجات دلائی۔ اس نے ٹھہر کر سانس درست کیا۔ خود اپنا جائزہ لیا تو دیکھا کہ وہ پسینہ پسینہ ہورہا ہے۔ اپنے اطراف نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ وہ شہر کے کسی انجانے چوراہے کے بالکل بیچ میں کھڑا ہے…… چشم زدن میں اس پر روشن ہوا کہ وہ کھو گیا ہے!………… تو آخر وہ ڈوب ہی گیا!!
ان دنوں بمبئی میں ٹرا میں چلا کرتی تھیں۔ سڑک پر ان کے لیے لوہے کی پٹریاں ڈال دی گئی تھیں۔ اوپر برقی تار جھول رہے تھے جن سے ٹرام جڑی رہتی تھی۔ وہ شائد ٹرام کے وہاں سے گزرنے کاوقت نہیں تھا۔ بسوں، موٹروں اور سائیکلوں سے البتہ چاروں راستے پٹے پڑے تھے۔ تمام سواریوں کی رفتار میں ایک تال میل تھا۔ پیدل چلنے والوں کی بھیڑ الگ تھی۔ مختلف عمروں کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھی وہ بھیڑ۔ اس میں بعضوں کے ساتھ ان کے بچے بھی تھے۔ وہ سب ان سواریوں سے بے نیاز اپنے اپنے راستے، چلے جارہے تھے۔ ویسے ہی جیسے وہ سواریاں، ٹرام کی لوہے کی پٹریوں سے بے نیاز فراٹے بھر رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ان سبھوں کو بڑے سلیقے کے ساتھ سدھایا گیا ہے۔ کسی کی کسی سے ٹکر نہیں ہورہی تھی۔ جبکہ ٹکرا جانے کے امکانات قوی تھے۔ سب سہج سبھاؤ سے چلے جارہے تھے۔ گویا ہر چیز اپنے معمول پر تھی، سوائے اس کے…………ہر چیز اپنے محور سے بندھی ہوئی تھی اور اس کی گردش کا راستہ طے تھا۔ سوائے اس کے کہ وہ کھو گیا تھا!
لوگوں کا وہ ہجوم دیکھتے دیکھتے کئی ریلوں میں بٹ جاتا اور کچھ دیر میں الگ الگ سمتوں سے کئی ریلے آکر پھر سے ہجوم بناتے۔ کبھی کبھی دو ریلے آمنے سامنے ہوجاتے تو وہ آپس میں بڑے عجیب ڈھنگ سے گتھ جاتے۔ ذرا سی دیر میں معلوم ہوتا کہ دونوں نے ایک دوسرے کو پار کرلیا ہے۔ لیکن وہ تواپنے محور ہی سے دور جاپڑا ہے وہ بھلا کس کے مقابل ہوسکتا ہے؟
تادیر مستقل طور پر ڈوبتے ابھرتے تنکے کے تعاقب کی وجہ سے اس کی نظر دھندلاگئی تھی اور یہ منظر اس کے لیے ایک پراسرار کیفیت کا حامل ہوگیا تھا۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ایک مہین چادر اس پورے منظر پر تان دی گئی ہے اور اس چادر سے منظر کے اسرار ایک ایک کرکے چھن رہے ہیں ………… سچ تو یہ ہے کہ اس کی دنیا ہی بدل گئی تھی………… اور یہ اس پل بدل گئی تھی جس پل اس پر یہ بات کھلی تھی کہ وہ کھو گیا ہے!
اس ننھی سی عمر میں شعوری طور پر وہ ان باتوں کو کیا سمجھتا لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس نے خود کو کھو کر جسے پایا تھا اس ایک پل کے لیے اس نے اپنے اندر ایک عجیب اپنا پن محسوس کیا تھا۔ وقت گذرتا رہالیکن وہ ایک پل کہیں اس کے اندر ٹھہر سا گیا!
کھو جانے کے باوجود وہ طمانیت کے احساس سے بھرا ہوا تھا۔ اسے کھونے کا مطلق غم نہیں تھا لیکن جب اسے اماں کی یاد آئی اور خیال آیا کہ اب وہ انہیں مل نہیں پائے گا تو بے اختیار اس کے آنسو نکل پڑے۔ آنسو پوچھنے کے لیے اس نے ابھی ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ………… گلی سے آرہی رونے کی آواز اور دادا اا کی پکار نے ان ہاتھوں کو روک لیا!
بابو کھوجی رام ایک زقندبھر کے دوبارہ وقت کے دھارے سے آملے۔ البم کی چابی آخری ورق پر آکر ختم ہوگئی تھی۔ اس آخری ورق پر ان کی اپنی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ملازمت سے سبکدوشی کے بعد الوداعی تقریب کی تصویر تھی وہ۔ اس کے ساتھ ہی صبح کا دیکھا ہوا اخبار رکھا تھا اور سامنے سے ان کا پوتا روتا ہوا آرہا تھا۔
آج صبح اخبار میں اپنے پوتے کی عمر کے ایک گم شدہ بچے کی تصویر دیکھ کرانہیں یاد آیا تھا کہ ساٹھ برس قبل پہلی مرتبہ ان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تھا اس دن آج ہی کی تاریخ تھی۔ اپنے حافظے کو جانچنے کے خیال سے وہ بچپن کی اس تصویر کو ڈھونڈ رہے تھے جس کی پشت پر بابوجی نے اس کے نام اور پتے کے ساتھ کھوجانے کی تاریخ لکھ رکھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ بابو جی اس تصویر کو لیے پولس اسٹیشن کی طرف جارہے تھے کہ راستے میں وہ انہیں روتا ہوا مل گیا تھا………… جیسے اچانک غیر متوقع طور پر وہ کھو گیا تھا ویسے ہی اچانک غیر متوقع طور پر وہ مل بھی گیا تھا!!
اس اتفاق پر سبھی حیران تھے اور اماں تھیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہی تھیں۔ انہوں نے اسے سینے سے لگا کر چمکارتے ہوئے جب پوچھا کہ بیٹا تو کھو کیسے گیا تھا؟ تو اس نے انہیں بڑی سڑک پر ماما کو دیکھنے اور ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہنے کی تفصیل بتائی تھی۔ اس پر اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تھا:
”بیٹا! میری دادی کہا کرتی تھی کہ دنیا میں ایک صورت کے تین آدمی ہوتے ہیں۔ یہ دھرتی اتنی وشال ہے کہ ایک صورت کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک صورت کا ایک ہی آدمی ہوتا ہے………… بیٹا!وہ تیرے ماما نہیں تھے۔ ان کی شکل تیرے ماما سے ملتی ہوگی۔ آئندہ یاد رکھنا کبھی کسی کی صورت دیکھ کر دھوکے میں مت آنا“
اس نے امّاں کی بات گرہ میں باندھ لی تھی لیکن وہ ایک پل جو اس کے اندر کہیں ٹھہر گیا تھا، ہر پل خود کو دہرانے کی فکر میں لگا رہتا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر والے تو گھر والے، گلی محلے والے بھی اس کے تعلق سے پریشان اور فکر مند رہنے لگے تھے۔ سال میں دو ایک مرتبہ یوں ہی اتفاقیہ طور پر کھوجانا، کھوجی کی زندگی کا معمول بنتا جارہا تھا۔ وہ تو خیر تھی کہ وہ اتفاقیہ طور پر مل بھی جاتا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گذرنے لگا اور کھوجی کی عمر بڑھنے لگی ماں باپ کے اندیشوں کی نوعیتیں بھی بدلنے لگیں۔ اب بابو جی بات بے بات اس پر بگڑنے لگے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے جھلا کر، اسے ڈپٹ کر پوچھا تھا:
”تو بار بار کھو کیوں جاتا ہے!“
اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کی خاموشی پر وہ اور بگڑے تھے۔ بگڑ کر انہوں نے دوسرا سوال داغا تھا:
”تجھے کیا مل جاتا ہے اس بار بار کے کھو نے میں؟“
اس کے پاس اس کا بھی جواب نہیں تھا…………وہ بابو جی کو کیسے سمجھاتا کہ کھونا اپنے آپ میں ایک پانا ہے!
اب اس کے چھوٹے بھائی بہن اتنے بڑے ہوگئے تھے کہ اس کی زندگی کے اس معمول سے وہ بھی اپنی بساط بھر واقف ہونے لگے تھے۔ ان کی آپس کی بات چیت اور ہنسی مذاق میں حوالے کے طور پر کبھی کبھار اس کا ذکر بھی آنے لگا تھا۔ ایک مرتبہ اس کے چھوٹے بھائی نے اپنی دیدی سے پوچھا:
”دیدی! بمبئی میں اتنی بھیڑ کیوں ہے!“
تو اسے دیدی نے جواب دیا تھا:
”یہ ساری بھیڑ ہمارے بھیا کے کھونے کے واسطے جٹائی گئی ہے۔“
گھر والوں کی ہر ممکن کوشش کے باوجود بمبئی کی یہ بھیڑ بار بار بھیا کے کام آنے سے باز نہ آئی تو انہوں نے بھیا کے پیروں ہی میں بیڑی ڈال دی……بڑی دھوم دھام سے اس کا بیاہ کرکے بہو گھر لے آئے کہ اب یہ کھونٹی سے بندھا رہے گا! کم از کم اماں تو یہی سمجھتی تھیں لیکن بابو جی اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے۔ ان کی سوچ ذرا الگ تھی۔ وہ سوچتے تھے کہ آج جب یہ کھو جاتا ہے تو گھوم پھر کر ہمیں مل جاتا ہے۔ کل کو اگر ہم نہ ہوئے تو کھونے کے بعد یہ کسے ملے گا؟ کھونے کے بعد دوبارہ ملنے کے لیے کسی کا ہو نا ضروری ہے۔ کافی غورو فکر کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اس ضرورت کو صرف بہو ہی پورا کرسکتی ہے!
کچھ دنوں کے بعد باتوں باتوں میں امّاں نے بہو کے سامنے اس کے کھونے کے معمول کاذکر کردیا۔ ابھی اس غریب کے ہاتھوں کی مہندی بھی نہیں چھٹی تھی کہ اس کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ ڈاکٹر نے خواب آور گولیاں تجویز کی۔ اب یہ ہونے لگا کہ رات میں وقت بے وقت وہ ہڑ بڑا کر نیند سے جاگ اٹھتی اور اندھیرے ہی میں ساتھ والے بسترکو ٹٹول کر دیکھ لیتی کہ وہ کھو تو نہیں گیا۔
اس کی بیوی نہیں جانتی تھی کہ وہ یوں راتوں کو پراسرار طور پر غائب نہیں ہوتا۔ وہ تو بڑے ہی فطری انداز میں سہج سبھاؤ سے کھوتا آیاہے……لیکن وہ یہ بات اپنی بیوی کو کیسے سمجھاتا!
کچھ دنوں میں اس کی بیوی اس بات کو خود ہی سمجھ گئی۔ ویسے بھی وہ بڑی سمجھدار عورت تھی اپنی گرہستی جمانے میں اس نے جس سلیقے اور اسے چلانے میں جس سگھڑاپے کا مظاہرہ کیا تھا وہ اسی کاحصہ تھا۔ اس کے اس سلیقے کو دیکھ کر کھوجی کے ماں باپ نہال ہوگئے تھے۔ اس نے آکر گھر کی کایا ہی پلٹ دی تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پانچ برسوں سے ایسا لگ رہا تھا کہ کھوجی کا معمول پرانی بات ہو کر رہا گیاہے………… لیکن ایک دن بہو اپنی ساس سے کہہ رہی تھی ”ماں جی! جیسا آپ بتاتی ہیں وہ کھونا تو پھر بھی ٹھیک تھا۔ کھو گئے…… پھر مل گئے۔ لیکن اب تو انہوں نے کھونے کا ڈھنگ ہی بدل دیا ہے“
بوڑھی ماں لرز کر رہ گئی تھی۔
”وہ کیسے بیٹی؟“
”کیا بتاؤں ماں جی! اب تو یہ آٹھوں پہر کھوئے کھوئے رہتے ہیں۔“
اماں نے اپنا ماتھا پیٹ لیا تھا اور بہو کی طرف ترحم آمیز نظروں سے دیکھ کر، مجرم کی طرح پلکیں جھکالی تھیں!
اماں کے خیال نے بابو کھوجی رام کو بچپن کی وہ بات یاد دلادی جسے انہوں نے کبھی گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ان کی نظر سامنے پڑے البم کے آخری ورق پر جمی تھی۔ وہ سوچنے لگے اگر دنیا میں ایک شکل کے تین آدمی ہوتے ہیں تو اس صورت کے بھی ہوں گے۔ یہ کیوں کر ہوا کہ انہوں نے اماں کی بات کو گرہ میں باندھ کر بھلادیا۔ کبھی اس پر غور نہیں کیا۔ جبکہ زندگی میں چار چھ مرتبہ خود ان کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ کسی اجنبی سے ان کا تعارف ہوا اور اس نے چھوٹتے ہی یہ بتایا کہ ان کی صورت اجنبی کے کسی دوست یا عزیز سے ہو بہو ملتی ہے۔
وہ حیران تھے کہ جدید ایجادات کی وجہ سے یہ دنیا سمٹ سمٹا کر بہت چھوٹی ہوگئی ہے لیکن پھر بھی یہ ا تنی بڑی ہے کہ ایک شکل کے دو آدمی آپس میں مل نہیں پاتے۔ ایسا آدمی مل جاتا ہے جو الگ الگ جگہوں پر، الگ الگ وقتوں میں دونوں سے مل چکاہو لیکن ایک وقت ایک جگہ، دو ایک جیسے آدمی نہیں مل پاتے، کیا وجہ ہے کہ اتفاقیہ طور پر ہی سہی وہ کبھی آمنے سامنے نہیں ہوتے۔ اس اتفاق کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے قدرت نے نہ جانے کیا اہتمام کیا ہے اور پتا نہیں ایسا کرنے میں اس کا کون سا راز پوشیدہ ہے……ورنہ یہ کیوں کر ہوا کہ وہ زندگی بھر کھوتے آتے ہیں لیکن یہ نہ ہوا کہ کسی بار اتفاق ہی سے اپنے کسی ہم شکل سے ٹکرا جاتے!
باہر گلی میں بچے اب بھی آنکھ مچولی کا کھیل کھیل رہے تھے۔ کھیل میں ان کا پوتا بھی شریک تھا۔ بچے اس سے بے نیاز تھے کہ شام کے سائے گہرے ہورہے تھے۔ بابو کھوجی رام کو البتہ یہ احساس ضرور ہوا کہ وہ کھوئے بیٹھے رہے اور ان کے معمول میں فرق آگیا۔ یہ وقت تو شام کی سیر کا ہے۔ اس وقت انہیں کارپوریشن کے گارڈن کی بینچ پر ہونا چاہیے تھا۔ ان کے بچپن میں یہ گارڈن نہیں تھا۔ اس جگہ کھلی زمین پڑی تھی۔ جس پرسنتے تھے کہ مداری اپنا بندر نچاتا تھا۔ جگہ ویسے دور نہیں تھی۔ گلی سے نکل کر بایاں موڑ مڑکر بڑی سڑک پر بیس بائیس قدم چلنے جتنا فاصلہ تھا۔ اس وقت تو عمر وہ تھی کہ اس فاصلے کو تین چا ر چھلانگوں میں طے کرلیتے لیکن اماں نے تاکید جو کر رکھی تھی کہ کبھی گلی سے باہر قدم نہ رکھنا، آج اس فاصلے کو طے کرنے میں آدھا گھنٹہ لگ جاتا ہے۔ دس پندرہ منٹ بینچ پر سستانے کے بعد جب وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی ہڈیاں کڑ کڑا کر رہ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس عمر میں جسم کے لیے اتنی ورزش ضروری ہے ورنہ تو وہ دہلیز سے باہر قدم نہ نکالتے۔ دیر ہی سے سہی معمول کو پورا کرنے کی خاطر بابو کھوجی رام نے اپنے رعشہ زدہ ہاتھ میں چھڑی سنبھالی، ناک پر عینک کو جمایا اور باہر گلی میں نکل آئے، وہ بڑی سڑک کی طرف بڑھ رہے تھے کہ پیچھے سے ان کے پوتے نے آواز دی:
”دادا جی آج آپ دوسری بار سیر پر جار ہے ہیں۔“
”دوسری بار کیا مطلب؟“
کچھ دیر پہلے تو آپ گئے تھے۔“
”کب؟“
”جب میں داؤ اتار رہا تھا۔“
”کہاں گیا تھا میں؟“
”آپ گلی سے نکل کر بڑی سڑک پر ادھر مڑ گئے تھے۔“
پوتے نے دائیں موڑ کی طرف ہاتھ دکھا کر کہا۔
”لیکن میں تو روز بائیں طرف مڑتا ہوں۔ گارڈن کی طرف!“
”میں نے دیکھا آج آپ اس طرف مڑر ہے تھے۔“
اس نے پھر دائیں جانب اشارہ کیا۔
”کیا اب بھی تم پر داؤ چڑھا ہے؟“
”نہیں۔ اب میرے چھپنے کی باری ہے۔“
چھپنے کی خوشی میں لڑکے نے مسکرا کر پلکیں جھپکائیں، بابو کھوجی رام نے پوتے کو سمجھاتے ہوئے کہا:
”دیکھو! باری چاہے چھپنے کی ہو یا داؤ اتارنے کی، سب کچھ بھول کر اسے اتارنے میں من لگانا چاہیے۔“
”داؤچڑھ جائے تو سبھی اتارتے ہیں لیکن چھپنے کی باری کیسے اتاری جاتی ہے۔“
”ڈھونڈ کر“
”اور ڈھونڈنے کی باری…………!“
”چھپ کر…………“
پتا نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں“
”سوچو مت، جاؤ چھپ جاؤ تمہارے سب دوست چھپ چکے ہیں۔“
گلی اب بھی وہی تھی جو ساٹھ باسٹھ برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ آنے جانے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پھیر ی والے اور خوانچہ فروش آوازیں لگاتے ہوئے گذر رہے تھے۔ راہ گیروں اور سائیکلوں کی آر جار میں اسکوٹریں اور موٹریں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ آنکھ مچولی کا کھیل اب بھی کھیلا جارہا تھا۔ سب لڑکے چھپ چکے تھے اور ڈھونڈنے والے کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کسے ڈھونڈ نکالے گا۔
بابو کھوجی رام آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے ہوئے وہاں تک آگئے جہاں گلی دائیں بائیں مڑکر بڑی سٹرک سے مل جاتی ہے۔ پیچھے مڑ کر انہوں نے ایک بھر پور نظر ڈالی، پھر پلٹ کر پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب دیکھا۔ بڑی سڑک اب نام ہی کی بڑی رہ گئی تھی۔ باوجود اس کے کہ ان برسوں میں کارپوریشن نے دو ایک مرتبہ سٹرک کے کنارے بنی غیر قانونی تعمیرات کو توڑ کر اسے چوڑا بھی کیا تھا، وہ کچھ سمٹی سکڑی سی معلوم ہو رہی تھی۔ اس کے سرے البتہ اب بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ جہاں تک نظر نے ساتھ دیا پہلے کی طرح اب بھی یہی نظر آیا کہ بس سٹرک چلی جارہی ہے۔ دائیں طرف بھی سٹرک ہی سڑک تھی اور بائیں طرف بھی سڑک ہی سڑک……!
بابو کھوجی رام نے جب چھڑی پر اپنی گرفت مضبوط کی اور دایاں موڑ مڑ گئے تو پیچھے گلی میں شام کے دھندلکے کی جگہ رات کی سیاہی اتر آئی اور کارپوریشن کے کھمبے سے ٹنگا ٹیوب ٹمٹمانے لگا!!
٭٭٭
Best Urdu Short Story

White Dove a Short Story by Reyaz Tauheedi

Articles

سفید کبوتر

ڈاکٹر ریاض توحیدی

وہ اسپتال سے چیک اپ کروانے کے بعد گھر لوٹ رہا تھا۔ راجدھانی چوک کے قریب غیر متوقع ٹریفک جام سے آمدو رفت کا سلسلہ درہم برہم ہوچکاتھا۔گاڑیوں کے کالے دھوئیں کی زہر آلود ہ فضاسے ماحول دھند زدہ ہوگیا تھا۔افراتفری کے عالم میں لوگوں کا گاڑیوں سے اترنا چڑھنا جاری تھا۔پْرانتشار کیفیت میں حساس طبیعت لوگوں نے دھندلے ماحول کی انفکشن سے احتیاط برتنے کے لئے منہ پر ماسک لگارکھے تھے۔نصف النہار کی شدید گرمی سے بس میں سوارسبھی مسافرپسینے سے شرابور ہورہے تھے۔ انہیں اپنا آپ دہکتے تندور میں تڑپتے ہوئے کبوتر کی طرح محسوس ہورہا تھا۔اْس نے کھڑکی سے باہرکھڑے ایک پولیس والے سے دھیمی آواز میں پوچھا:
’’بھائی صاحب!یہ جام کب ختم ہوگا؟‘‘
پولیس والا نزدیک آکر اْس کے حْلیے کو گھورتے ہوئے بڑی ناگواری سے پوچھ بیٹھا:
’’کیا کہہ رہا ہے؟‘‘
پولیس والے کے تیور دیکھ کر وہ اپنی بات دہرانے سے ڈر سا گیا۔
’’جناب ہم ٹریفک جام کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔‘‘پچھلی سیٹ سے سوامی جی کی آوازآئی۔
’’اپنی پچپن برس کی زندگی میںمیں نے اتناسخت جام نہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’ہاں جی ہاں‘‘بغل میں بیٹھے سردار جی نے خان صاحب کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئےکہا۔’’چھوٹے چھوٹے جام تو ہوتے دیکھے ہیں لیکن اتنا بھیانک جام تو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔‘‘
’’وہ مسئلہ یہ ہے کہ راجدھانی کے تواریخی چوک میں پہلی بار ایک بڑا سیاسی جلسہ ہورہا ہے۔‘‘پولیس والااب نرم لہجہ اختیا ر کرتے ہوئے بول پڑا’’اس لئے صبح سے یہ جام لگا ہوا ہے۔‘‘
’’او وِیرا‘‘سردار جی تھوڑا ساجذباتی ہوکر بول پڑا۔’’دیش کے ان غم خواروں کو اپنی ہمدردی کی نمائش کے لئے کوئی اور جگہ نہیں ملی تھی جو تواریخی چوک پر قبضہ جماکرلوگوں کو عذاب میں ڈال دیا۔‘‘
پولیس والا ہاتھ میں ڈنڈا گھماتے ہوئے چپ چاپ اپنے قدم آگے بڑھانے لگا۔وہ دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔دھند میں اضافہ ہورہا تھا۔ پھیلتی دھند میں لپٹے سرسبز درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے کبوتروں کی سانسیں اْکھڑ رہی تھیں اوروہ بکھرتے گھونسلوں کوکوؤں کی یلغار سے بچانے کے لئے اپنے پر پھڑ پھڑا رہے تھے۔ کبوتروں کی بدحواسی دیکھ کر وہ سرد آہ بھرتے ہوئے سوچنے لگا کہ دہائیوں سے ان کبوتروں کی روح زخمی ہورہی ہے ‘کب انہیں کوؤں کی یورش سے نجات ملے گی ۔
’’میرے دیش واسیو!‘‘خواب گر سیاست دان کی گرج دار آوازجلسہ گاہ سے بلند ہوئی۔’’ امن کی مٹھاس۔۔۔۔دیش کااتِہاس ۔۔۔۔۔۔۔۔اتِہاس کے لئے نہ صرف سب کی برابری ضروری ہے بلکہ جنتا کے ساتھ ساتھ جانوروں کو بھی تحفظ دینا لازمی ہے‘کیونکہ عدم تشدد ہماری پر مپراہے۔‘ ‘
عدم تشددکا نام سنتے ہی اْس کے کٹے بازو سے ایک برقی رو سی دوڑ کر سیدھے دل سے جا ٹکرائی۔دل سے اُٹھنے والی درد کی ٹیس نے دماغ میں ہلچل مچا دی۔
’’سب باہر نکلو‘‘ باہر سے دہشت ناک آواز آئی۔’’دروازہ کھولتے ہو کہ گھر کے ساتھ زندہ جلا دئے جاو گے۔‘‘
دہشت ناک آواز سے سبھی لوگ نیند سے جاگ اْٹھے او ر خوف زدہ ہوکرمحسن خان کے کمرے میں جاکر سہم گئے۔ دہشت بھری آواز سے ان کے اوسان خطا ہورہے تھے۔محسن خان کا نوجوان بیٹااحسان خان دروازہ کھولنے کے لئے اْٹھ کھڑا ہوالیکن باپ اور دوسرے گھر والوں نے اسے روک لیا۔سبھی لوگ سہم کر یہ سوچنے سے قاصر نظر آرہے تھے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔۔۔؟خوف کی ہوائیں ابھی صحن میں ہی سائیں سائیں کررہی تھیںکہ اچانکہ دہشت کے ناگ گھر کے اندربھی گھس کر رینگنے لگے۔ڈر کے مارے عورتوں اور بچوں کی چیخ وپکارشروع ہوگئی۔ خوف کا پھندا احسان خان کی گردن پر پڑتے ہی وحشت ناک آواز کمرے میںگونج اٹھی؛
’’اپنے تہوار پر حقوق حیوان کا خون کرکے ہمارے آدرشوں کا بھی خون کرتے ہو۔‘‘
یہ سن کراحسان خان کا بزرگ باپ روتے بلکتے دہشت کے سامنے ہاٹھ جوڑکر گڑگڑاتے ہوئے بول پڑا:
’’ہم پر رحم کھاؤ‘ ہم نے تہوار میںکسی کے آدرشوں کاخون نہیں کیاہے۔‘‘
آدرش کازہریلاترشول برق رفتاری سے بزرگ محسن خان کے پیٹ میں گْھس گیا اورپھول کو چمن سے جدا کردیا۔ احسان خان یہ وحشت ناک منظر دیکھ کر جونہی دہشت کے نرغے کو پھاند کر باپ کے پیٹ سے ترشول نکالنے لگا تو حقوق حیوان کی علمبردارتلوار نے انسانی ہاتھ کو بڑی بے رحمی سے کاٹ ڈالا اور ایک معصوم بیٹابے ہوش ہو کرمظلوم والدکی لاش پر گرپڑا۔دہشت کی آوازمخصوص اتِہاس کے نعرے لگاتے ہوئی اندھیرے میں گْم ہوگئی۔
’’تو بولو ‘امن کی مٹھاس۔۔۔دیش کا اتِہاس۔۔۔‘‘جلسہ گاہ سے لا ؤڈاسپیکر سے نعرے بلند ہوئے۔
’’سب بکواس‘‘سردار جی طیش میں آکر بول پڑا۔’’ہاتھی کے دانت کھانے کے اورد کھانے کے اور ۔‘‘
ہاتھی کے دانت …سن کراس نے بند آنکھیں کھولیں اور سردار جی کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا۔ جلسہ ختم ہوتے ہی گاڑیاں آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگیں۔اپنی منزل پر پہنچ کر وہ گاڑی سے اتر کرگھر کی جانب بڑھ گیا۔گھر میں داخل ہوتے ہی بیوی پوچھ بیٹھی کہ اتنی دیر کیوں لگا دی‘ فون بھی نہیں ہورہا تھا۔سب ٹھیک تھانا؟ہاں وہ ٹریفک جام کی وجہ سے دیر ہوگئی۔اب جلدی بستر بچھاؤ میں تھک گیا ہوں اور چائے بھی اْدھر ہی لانا۔بیڈ پر لیٹ کر اْس نے ٹی .وی آن کیا۔نیشنل چینل پر نیوز چل رہی تھی۔نیوز کے دوران الیکشن ایڈ آیا؛
’’کل وقت پر الیکشن بوتھ پر پہنچ کرایک ذمہ دار شہری ہونے کاثبوت دیں اور اپنے قیمتی ووٹ کاصحیح استعمال کرکے دیش کے وکاس میں اپنا حصہ ادا کریں۔‘‘
ایڈ ختم ہوتے ہی اْس نے ٹی۔وی آف کردیا اور سوچنے لگا کہ کیاووٹ کا صحیح استعمال کرنے سے ہمیں دہشت سے نجات ملے گی۔۔۔۔۔؟کیا ہمارے احساسات کی گاڑی ٹریفک جام سے نکل پائے گئی ۔۔۔؟کیا کوؤں کی یلغار سے کبوتر وںکے آشیانے بچ پائیں گے ۔۔۔۔کیاراجدھانی چوک کی فضا ؤں میںپھر سے امن کی خوشبو پھیلے گی۔۔۔۔۔ ؟کیا ہم عدم تحفظ کی سائیکی سے نجات پاسکیں گے۔۔۔۔؟
اس طرح کے کئی روح فرساسوالات اس کے ذہن میں آتے رہے اور وہ کھبی ہاں اور کبھی نا جیسی عجیب کشمکش میں پھنس کر سو گیا۔ صبح کا ناشتہ کرنے کے بعد سبھی گھروالے پولنگ بوتھ کی جانب نکل پڑے۔ماحول پر عجیب قسم کا سناٹاچھایا ہوا تھا۔راہ چلتے چلتے کئی جگہوں پر دہشت کے ترشول نظر آتے رہے۔ایک جگہ تو ان کے کانوں سے مخصوص اتِہاس کا ساتھ دینے کی آوازبھی ٹکرائی لیکن وہ سر جھکائے ہوئے پولنگ بوتھ کے باہر لگی قطار میں پہنچ گئے۔یہاں پر ماحول قدرے خوشگوار ہی تھا۔ووٹ ڈالنے کا کام ٹھیک طرح سے چل رہا تھا۔وہ اپنی باری پر جب پولنگ بوتھ میں داخل ہوا تو پولنگ آفیسر اسے نام پوچھ بیٹھا؛
’’سر…. میرا نام احسان خان ہے۔‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘پولنگ آفیسر رجسٹر پر ٹک لگاتے ہوئے بول پڑا۔’’جاؤادھر پردے کے پیچھے آرام سے اپنا ووٹ ڈالو۔‘‘ جی شکریہ کہتے ہوئے وہ ای۔وی۔مشین کے قریب پہنچ گیا۔مشین پر لگے نشان کو دیکھتے ہی اس کی نظر کوئے اور سفیدکبوتر کے نشان پر ٹک گئی۔اسے کوے کی چونچ ترشول محسوس ہوا جو دھند میں پھنسے کبوتر پر حملہ کرنے کے لئے گھات لگائے بیٹھا ہے۔ترشول کی سائیکی سے دماغ میں خوف کے دھماکے ہونے لگے لیکن دل کے سکون نے دماغ کے خوف پر قابو پالیا۔کبوتروالے بٹن پرانگلی پڑتے ہی اْسے یوں محسوس ہو اکہ جیسے سفید کبوترکالی دھند سے آزاد ہوکرفضائے بسیط میں لمبی اڑان بھررہا ہے۔
——————————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Best Urdu Short Story

Talash Ahd e Rafta ki Story by Fareeda Nisar

Articles

تلاش عہد رفتہ کی

فریدہ نثار احمد انصاری

” چل جلدی کر! یہ بلوریاں لے، دیکھ برابر لگنا چاہئے ورنہ میں سب لے لوں گی۔” سر پر قاعدے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے وہ گویا ہوئی۔

” ارے ہٹ! بڑی آئی سب لینے والی! ایک دھکا لگاؤں گا نا، دیکھ جا کر کہاں گرے گی ،بڑا خود کو طُرّم خان سمجھتی ہے”
ثاقب نے جھٹکے سے اس کے دوپٹے کو کھینچا اور وہ گرتے گرتے بچی۔

” خبردار ! دوپٹے کو ہاتھ نہ لگانا۔” نوخیز لڑکی کی طرح شرماتے ہوئے اس نے کہا :
” امی مرحومہ کہتی تھیں دوپٹہ لڑکیوں کے سر کا تاج ہوتا ہے۔” اور دوسرے ہی پل اس نے زمین پر پڑے بڑے چھوٹے پتھر اٹھائے اور ثاقب پر جارحانہ انداز میں تانے۔
ثاقب کہاں رُکتا، وہ یہ جا وہ جا۔سلیم کی اب باری تھی۔سلیم چنچل نہ تھا۔سمجھتا تھا۔اس کے گھر میں بڑے چھوٹے سبھی موجود تھے۔وہ ہر کسی کا احترام کرتا تھا۔اس نے دھیرے سے سمجھایا دیکھو ایسے بلوریاں پھینکو پھر برابر لگے گی۔”

وہ خوش ہوگئ اور خوب تالیاں بجانے لگی۔وہ بچوں کے ساتھ ایسے ہی کھیل کر خوش ہوتی۔شام میں گھر کے لڑکوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ چھت پر چڑھ جاتی اور چکری اپنے ہاتھوں میں دھر لیتی ۔لڑکوں سے پتنگ خوب اونچی اُڑانے کی فرمائش کرتی اور یک لخت تالیاں بجانے میں چکری زمین پر گر جاتی اور پتنگ بے چاری ہچکولے کھاتی زمین کا سفر کرتی۔پھر لڑکے شرارت سے اس کے سر پر چپت لگاتے اور خوب بڑ بڑ کرتے اور وہ کسی کو دھپ لگاتی زینے طئے کر نیچے آجاتی۔

وہاں کچن سے آتی اس کی دیورانی کی بڑبڑاہٹ گھر کے سبھی افراد کے لئے باعث تذلیل ہو جاتی کہ ” کچھ کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی ! لڑکوں بالوں کے ساتھ کھیلنا نہی نا بھولتا۔”

ایسا کیوں ہوا؟ وہ ایسی تو نہیں تھی۔ایک سلیقہ شعار، قبول صورت بہو تھی۔ساس کے ہاتھ کا چھالا تو میاں کے دل کی رانی۔ساری رشتہ داریوں کا پاس بخوبی نبھاتی۔کس کے گھر کون پیدا ہوا، کس کے گھر چھٹّی کے کپڑے بھجوانا ہے، بتیسے کے لڈو بنانا ہے، شادی بیاہ کے لوازمات تو موت میت کی بھاتی سب وقت پر ان کے گھر سے پہنچ جاتی۔ خاندان والے بھی اس کی عزت واکرام میں کوئی کمی نہ کرتے کہ والد محترم کے قول کو ہمیشہ دامن میں سمیٹ کر رکھا تھا کہ” دینے والے کا ہاتھ ہمیشہ اوپر رہتا ہے۔”

لیکن وقت کا پہیہ کچھ ایسا گھوما کہ دینے والے ہاتھ لینے والے بن گئے ۔یہی دنیا کی ستم ظریفی کہ دیکھتے دیکھتے جو قصیدہ خواں تھے وہ مرثیہ خواں بن گئے اور وہ کچھ بھی تو نہ کر سکی۔سب سے چھوٹے دیور کہ جس کو ایسے پالا تھا جیسے کوکھ کا بچہ ہو، جس کی شادی اپنے بیٹے کی طرح کی تھی اسی کی بہو نے دھیرے دھیرے اس کی بیماری کو کچھ یوں طول دیا کہ ان طعنوں کی بندش میں اس نے اپنے وجود کو گم کر دیا۔نہ عدالت میں جُرم کی سماعت ہوئی نہ مجرم کو سزا سنائی گئی۔ذہنی طور پر وہ حال سے بے خبر ہوتی چلی گئی ۔ کچھ عمر کا تقاضےاور پہلے پہل بھولنے کی عادت سے شروعات ہوئی ۔کچھ بھولا کچھ یاد رہا کے مصداق خود کو حالات کے حوالے کر دیا اور یہاں دیورانی اس کے سجے سجائے سنگھاسن پر براجمان ہوتی چلی گئی ۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ کے سبب جب گھر کے اخراجات و اندراج میں اس سے گڑبڑی ہونے لگی تب دیورانی کو مکمل موقع مل گیا اور وہ سیاہ و سفید کی مالک بن بیٹھی۔

کبھی ایسا بھی ہوتا کہ لکھنے بیٹھتی تو لکھ ہی نہ پاتی۔کاغذ پر قلم سے صرف آڑھے ترچھے دائرے بناتی۔تب بیٹا وسیم آتا اور ہاتھ پکڑ کر اسے لکھنے کی ترغیب دیتا۔وہ غائب دماغی سے اس کا چہرہ تاکا کرتی لکھتی کم۔ بیٹا کہتا :
” اماں! اس طرح نہ دیکھیں ۔آپ کو یاد نہیں بچپن میں آپ نے بھی تو اسی طرح مجھے سکھایا تھا۔اب کیا ہوگیا کہ میں نے آپ کا ہاتھ تھاما۔

ہال سے اٹھتی دیورانی کی آواز وہ سمجھ نہ پاتی، شاید سمجھنے کی کوشش نہ کرتی اور انگوٹھا منھ میں لے کر وہیں زمین پر سو جاتی۔ ” دیکھو تو کیسے بچوں سی حرکت ہے۔کچھ شرم غیرت ہے کہ نہیں! ” اور پھر وسیم کا دل پھٹ جاتا لیکن اماں کی سمجھائی عزت و تکریم کا لحاظ آجاتا، ان کی بتائی باتیں یاد آجاتیں اور وہ اپنی بیوی کو آواز دیتا اور گود میں اٹھا کر اس کے کمرے میں لے جاتا۔

” ہائے ہائے! دیکھو تو کیسا زمانہ آگیا۔بیٹے کی گود میں سواری ہو رہی ہے! ” ایک اور چرکا لگتا پر وسیم صبر کا دامن تھامے رکھتا۔ اس نے اپنی ساری زندگی اماں کے لئے وقف کرنے کاتہیہ کر لیا تھا اس لئے شادی سے بھی انکار کرتا رہا لیکن جب اماں کی نجی ضروریات کا خیال آتا تب کسی خاتون کی مدد کے بارے میں سوچنے لگتا۔کہتے ہیں کہ ہم جس راہ پر چلنا چاہتے ہیں پاک پروردگار وہ راہیں آسان بنا دیتا ہے اور یوں زندگی کی ڈگر پر اس کی ملاقات ڈاکٹر صبا سے ہو گئی ۔

صبا ایک سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ایک سائیکیاٹرسٹ۔نفسیاتی ڈاکٹر۔وسیم کے فیملی ڈاکٹر نے اسے اس کے پاس بھیجا تاکہ مریضہ کی بیماری کی بخوبی شناخت ہو۔ اس نے بتایا ” اماں کے ساتھ ایک دن یہ حادثہ ہوا تھا کہ گھر کے قریب کے کھیتوں میں آگ لگ گئی تھی اور انھیں ایسا لگا تھا کہ ساری زندگی کا اثاثہ برباد ہو گیا۔جس طرح بچپن میں ان کے میکے میں ایسا ہی اندوہناک واقعہ ہو گزرا تھا، وہ اس صدمے کی ہو کر رہ گئی تھیں اور جب سارے واقعات کی ڈوریاں ملائی گئیں اور کئی ٹیسٹ کروائے گئے تب یہی بتایا گیا کہ اماں
Age regression in Dissoliative identity Disorder کے دہن رسیدہ ہو چکی ہیں۔
ڈاکٹر صبا نے بتایا :” 60 سال کے اوپر کے لوگ اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ عمر کے علاوہ زندگی کا کوئی واقعہ یا بہت زیادہ دماغی تناؤ ،کوئی صدمہ ان کو بچپن میں ہوئے کسی خاص واقعہ کی طرف موڑ دیتا ہے اور وہ وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔واپسی ممکن نہیں ہوتی۔البتہ اسے مزید آگے بڑھنے سے افراد خانہ کی محبتیں یا ماحول کی تبدیلی روک سکتی ہے۔”

صبا نے اُن کے علاج معالجے سے رجوع کیا۔ دعائیں و دوائیں کبھی اپنا اثر ضرور دکھاتیں لیکن دیورانی کے طعنے اس کی سماعتوں سے ٹکراتے رہتے۔شاید سمجھ جاتی ہو یا نہ سمجھے لیکن بہرحال اپنائیت کی ضرورت تھی۔وسیم اپنے والد کے ساتھ زمینداری میں مصروف رہتا اور گھر پر ملازم بھی دیورانی کے ہاتھوں بک چکے تھے۔وہ ویسے ہی بولائی بولائی گھر میں گھومتی رہتی ۔نہ وقت پر کھانا کھاتی نہ سوتی۔بچے بھی کیا کبھی تنہا سب کچھ کر پاتے ہیں؟ وہ بچہ ہی تو بن گئی تھیں۔کئی بار اس کے والد نے بھائی سے دیورانی کی شکایت کی، ڈانٹا گیا، وسیم نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن دیورانی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔اس کا ہدف یہ تھا کہ کسی طرح یہ افرادِ خانہ کہیں چلی جائیں اور وہ بلا شرکتِ غیر وارث قرار دی جائے۔

انسان کی سوچ سے بہت آگے مالک کائنات سوچتا ہے۔کسی کا حق مار کر کوئی کتنا دوڑ سکتا ہے؟ اسی دوران وسیم نے پہلے اپنے ابا سے اجازت لی پھر صبا سے شادی کی درخواست کی۔ صبا نے بھی وقت لیا اور یہ کہہ دیا کہ آپ اپنے والد کو ہمارے گھر بھیج دیں اگر والدین نے مناسب جانا تو اسے انکار نہ ہوگا اور اس طرح صبا نے ایک بہو، ایک ڈاکٹر بن کر وسیم کی دہلیز پر محبت کے چراغ جلائے ۔دیورانی کو تو آگ ایسے لگی کہ سر سے چلی اور پیر تک پہنچی لیکن کچھ کر نہ پائی. وہ تو اپنی خالہ کی بیٹی کو اس مقام پر دیکھنا چاہتی تھی لیکن ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔۔سادگی سے نکاح و رخصتی ہوئی کہ کوئی خلاف قیاس بات نہ ہو جائے اور محبتوں کی چھم چھم پازیب پہنے صبا اماں کی زندگی میں آگئیں۔شبِ زفاف وسیم نے ایک بار پھر بات دہرائی کہ ” ماں ہی اس کی متاع حیات ہے۔” اور اس نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر دی کہ جنت جانے کا راستہ ماں کے قدموں تلے سے ہی گزرتا ہے۔

صبا کئی بار باتیں سنی ان سنی کر دیتی۔ایک دن تو حد ہی کر دی کہ ” لو بڑی ڈاکٹر صاحبہ بنی گھومتی تھیں، کیا ہوا سارے سرٹیفیکٹ جھوٹے نکلے کہ کلنیک نہیں جاتیں، گھر کی ہو کر رہ گئی ہیں محترمہ!! اس کا کیا راز ہے؟ اے منشی! ذرا پتہ تو کر آ کہ سرٹیفکیٹ جعلی تو نہیں۔” اور وہ بھونچکی رہ گئی ۔کیا کرے کیا نہیں۔کلینک جائے تو گھر ہاتھ سے چھوٹتا ہے نہ جائے تو ایسے طعنوں کے لئے کہاں سے اتنا بڑا جگر لائے؟ لیکن اسے اپنا وعدہ یاد رہا۔باقی سب بھول گئی اور تن من دھن سے اماں کی ہو گئی ۔اس طرح اُن کی دیکھ بھال کرتی جیسے اپنے بچے کی کرتی ہو۔ اماں بھی اس کا ساتھ پاکر ایسی خوش ہوتیں کہ کوئی دیرینہ سہیلی مل گئی ہو۔اس کے ساتھ گڑیا گڑیا کھیلتیں، دوڑ لگاتیں، کھیتوں میں تتلیوں کے پیچھے دوڑتیں۔بہت بہت خوش ہوتیں۔

کہ ایک دن وسیم کے ابو ایسے سوئے کہ پھر سویرا نہ ہوا۔کفن دے کر جب اماں کو سامنے لایا گیا تب بھی اس کی غائب دماغی کے آگے پہلے تو بس بیٹھی رہیں اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر صبا کو تھا ۔ دلدوز چیخ کے ساتھ اس نے ہاتھ پیر چلانے شروع کئے۔بلند آواز سے رونے لگیں اور مٹھیاں بھینچ لیں۔کچھ منٹ نہ گزرے کہ دیوار پر سر مار کر خود کو لہولہان کر لیا۔صبا کے ساتھ وسیم اور ملازمہ بھی آگے بڑھے پر قابو پانا مشکل ہو گیا۔ایسی خوفناک حالت میں وہ دیورانی کی طرف دوڑیں اور اس کے بال پکڑ کر کھینچنے لگیں۔بڑی مشکل سے بالوں کو چھڑایا اور مغلظات کا طوفان برپا ہو گیا۔ صبا بھاگم بھاگ بیڈروم سے نیند کا انجکشن تیار کر، لے آئی اور کسی طرح وسیم نے کنٹرول کر انھیں لگوایا پھر وہ ہوش وخرد سے بیگانہ ہوگئیں۔وسیم کاندھوں پر اسے کمرے میں لے آیا۔ لیکن دیورانی کی زبان پر قابو نہ تھا۔سارے سوگواران بس ٹک ٹک دیدم کی کیفیت میں مبتلا تھے۔آخر کسی طرح ان کے میاں نے کھری کھری سنائی کہ موقع تو دیکھو کہ ابھی بھائی کا لاشہ آخری سفر کا منتظر اور گھر کی یہ حالت!!!

میت میں آئے لوگوں نے بھی تدفین کے بعد اپنے گھر کی راہ لی کہ اب اس گھر میں مشفق ہستیوں کا کال پڑ گیا تھا۔مزارعین کی آنکھیں خون کے آنسو رو رہی تھیں پر کیا کرتے کہ حالات سازگار نہ تھے۔دوسرے دن بھی چچی کا حال ویسا ہی رہا۔جہاں اماں کو ہوش آتا تو پھر بے قابو ہو جاتیں اور وسیم کے ابو! کہاں ہیں آپ؟ کہتیں، جواب نہ پاکر کر چیختیں اور دیوار پر سر مارنا شروع کر دیتیں۔صبا کی کوشش یہی رہتی کہ انجکشن سے ان کے ذہنی تناؤ کو کم کیا جائے ۔کبھی کامیاب ہوتی اور کبھی ویسے ہی بے حال۔ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھنے کی بھی نوبت آ گئی ۔دل پر آری چلتی لیکن قابو پانے کے لئے کرنا پڑتا۔واحد علاج اسپتال جاکر بجلی کے شاک سے گزاریں لیکن نہ وسیم کو یہ گوارا تھا نہ صبا اس کی اجازت دیتی کہ ایک بار اس کا تانتا چل نکلے تو بار بار مریض کو اس کرب سے گزرنا ہوتا ہے۔

اب وقت آچکا تھا۔صبا نے وسیم سے بتا دیا کہ اب صرف ماحول کی تبدیلی ہی انھیں کچھ بہتر بنا سکتی ہے ۔وسیم کے آگے اور کوئی راستہ نہ رہا۔سوئم کے دن ہی اس نے چچا کے آگے اپنی بات رکھی۔اس نے بتایا :” چچا جان! آپ میرے والد کی جگہ ہیں۔آپ کی عزت و تکریم میرے لئے مقدم ہےلیکن گھر کے حالات سے آپ باخبر ہیں۔اب میں کیا کروں آپ ہی مشورہ دیجئے۔اماں کو میں اس حالتِ زار سے نکالنا چاہتا ہوں۔بتائیے کیا کروں؟ ” چچی نے جوں ہی سنا فوراَ لقمہ دیا ” کیا کروں کیا؟ پاگل خانے بھجوا دو یا اسپتال ڈال آؤ اور کیا کرو؟ اور تم اور بہو اپنا سوچو” چچا نے ڈانٹ کر کہا :” زبان ہے کہ آری! جو منھ میں آئے بکتی رہتی ہو۔کچھ وقت کا لحاظ بھی کر لیا کرو۔” لیکن جن کی آنکھوں کا پانی اُتر جائے وہ کہاں کسی کی سنتے ہیں۔ان کی بڑ بڑاہٹ جاری رہی اور آخر چچا نے یہ فیصلہ سنا دیا کہ ” اگر ماحول بدلنا چاہتے ہو تو وہ دو گاؤں دور پار کی ارضی ہے وہیں چلے جاؤ اور اپنا نیا جیون شروع کرو۔حالات ٹھیک ہوں تب دیکھ لیں گے۔” وسیم سوچ میں پڑ گیا کہ وہ قطعہءارضی اتنی زرخیز بھی نہیں لیکن میری محنت، لگن اللہ کے حکم سے اسے ہرابھرا بنا دے گی۔اس نے حامی بھر لی اور اماں و صبا کے ساتھ وہاں سے کوچ کر لیا۔وقتِ رخصت چچا، چچی سے کہہ دیا :” جب تک آپ لوگ یہاں ہیں یہ آپ کی لیکن جس دن اسے فروخت کرنے کا ارادہ کریں گے میں اپنا حصہ لینے آجاؤں گا کہ وراثت اللہ پاک کا عطیہ ہے۔

یوں وہ دور پار کا ہو گیا ۔ دور پار کہاں؟ بس دو گاؤں کے ہی فاصلے تھےلیکن دلوں کی دوریوں نے دریا کے دو پاٹوں میں تقسیم کر دیا تھا جب کہ وہ کبھی تقسیم کا خواہاں نہ تھا۔
ذہن کو کچھ سکون ملا تو صبا نے بھی اماں کی طرف مکمل طور پر علاج شروع کیا۔جگہ و حالات بدلے تو دوائیں بھی اثر دکھانے لگیں اور اماں کی طبیعت میں بھی کچھ فرق نظر آنے لگا ۔اب ہیجانی دورے موقوف تو نہ ہوئے لیکن کچھ کم ضرور ہو گئے ۔

ماہ وایام کا سفر جاری رہا۔اماں یہاں بھی بچوں کے ساتھ گلی محلے میں کھیل کر خوش ہوتیں ۔تالیاں بجاتیں۔بچے بھی ان سے مانوس ہو چلے تھے۔ایک دن گر کھیلنے نہ آتیں تو بچے جاننے کے لئے دستک دے دیتے۔بے بی اماں ان میں مقبول ہو گئی تھیں۔صبا اکثر دور کھڑی رہ کر یا دریچوں سے جھانک کر ان کی حرکات وسکنات دیکھتی رہتی۔پیر فلک آسمان خاموشی سے جاننے کی کوشش کرتا رہا کہ کیا اماں کی واپسی ممکن ہے؟ سر سبز زمین جس پر وسیم کی محنت رنگ لا رہی تھی اس سے بھی وسیم کی خاموش سرگوشیاں کہہ اٹھتیں ” اماں! واپس آجاؤ” لیکن نٹ کھٹ بچے بھی کہاں بڑوں کے دلوں کے حالِ زار سے واقف ہوتے ہیں ۔

صبا ایک سائیکیاٹرسٹ تھی، وہ جانتی تھی کہ زندگی کا کوئی کمزور لمحہ یا بڑا صدمہ ان کی زیست کی شمع گُل کرنے کے لئے کافی ہوگا۔وہ انھیں ہر طرح سے خوش رکھتی۔ایک دن جب وسیم پرانی یادیں، وہ بچپن کے واقعات جو سینت سینت کر تصاویر کی شکل میں رکھے گئے تھے انھیں دیکھ رہا تھا۔اماں بھی ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں کہ آس کے پنچھی نے ایک زبردست اُڑان لی ۔اماں نے ایک تصویر اٹھا لی اور اسے بڑے غور سے دیکھنے لگیں۔تصویر کو کبھی الٹا کرتیں کبھی سیدھا۔مختلف زاویوں سے اس نے دیکھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔تصویر میں ابو ساتھ تھے اور اماں دلہن کے روپ میں ساری کا پلّو سر پر رکھے ہوئے تھیں۔زیوروں نے ان کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کیا ہوا تھاماتھے کا ٹیکہ اور لونگ کا لشکارا اپنی آب وتاب سے ان کی سج دھج کو دوبالا کر رہا تھا۔سونے کے کنگنوں کے ساتھ دھانی کانچ کی چوڑیوں کی کھنک کو شاید اماں نےآج پھر سے محسوس کر لیا تھا ۔منظر میں دور گگن کا چاند ان کی محبت کا گواہ تھا اور حویلی کے خوبصورت حوض میں امی کا ہاتھ جس کے پانی میں چاند کا عکس دکھائی دے رہا تھا اور ایسا لگ رہا تھا گویا اماں نے پانی میں چاند کو چھو لیا ہو۔پرانی تصویر نے انھیں اس جگہ کھڑا کر دیا جہاں سے انھوں نے شبستانِ حیات کی دہلیز پار کی تھی۔ہچکیوں کے درمیان وہ اس تصویر کو دیکھنے لگیں ساتھ دوسری تصویر جس میں کالے لانبے بالوں کے ساتھ بنگالی ساری پہن رکھی تھی اسے نہارنے لگیں اور وسیم کو ہاتھ کے اشارے سے بتایا یہ میں ہوں اور میرے بال!!! اور ہاتھوں نے بالوں کو تلاش کرنا چاہا لیکن وہ چمکتے بال تو کب کے اس سے رخصت ہو چکے تھے۔بس وہ دیکھتے ہی رہ گئی ۔ہاتھ کے اشارے سے بالوں کے بارے میں چہرے پر سوالیہ نشان ابھرے اور یک لخت اس نے خود کو سمیٹا اور زمین پر ڈھیر ہوگئی ۔وسیم کی چیخ سن کر صبا دوڑتی ہوئی آئی پر جانے والی نے عدم کی دنیا آباد کر لی تھی۔

گلی کے نکڑ کا بورڈ جہاں گاؤں کے لوگوں کو انتقال پر ملال کی اطلاع دی جاتی ہے، وہاں درج تھا کہ ” مہرانساء بیگم، وسیم زمیندار کی امی کی تدفین عصر بعد گاؤں کے بڑے قبرستان میں کی جائے گی۔” اس تحریر کو پڑھ کر لوگ ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے۔” یہ مہرالنساء کون ہیں؟ ” چہ میگوئیاں جاری تھیں کہ ہواؤں نے یہ بات وسیم تک پہنچا دی۔غم کے گھٹاٹوپ اندھیرے سے اس نے خود کو نکالا اور بورڈ تک آکر مہرالنساء نام کو اپنے ہاتھوں سے ہٹا دیا اور اس کی جگہ ” بےبی اماں” کا نام جگمگانے لگا۔ہر گھر کا بچہ بچہ اب اس تدفین میں شریک ہو مٹھی بھر مٹی ڈال رہا تھا۔
——————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Best Urdu Short Story , Fiction

Wooden horse a Short Story by Ratan Singh

Articles

کاٹھ کا گھوڑا

رتن سنگھ

اس وقت بندو کا ٹھیلہ تو ٹھیلہ، خود بندو ایسا بے جان کاٹھ کا گھوڑا بن کر رہ گیا ہے جو اپنے آپ نہ ہل سکتا ہے نہ ڈول سکتا ہے، نہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ اسی لیے، بندو کی ہی وجہ سے اندھیر دیو کے تنگ بازار میں راستہ قریب قریب بند ہوکر رہ گیا ہے۔ ضرورت سےزیادہ بوجھ سےلدا ہوا بندو کا ٹھیلہ سڑک پر چڑھائی ہونے کی وجہ سے رک سا گیا ہے۔رہ رہ کر اگر چلتا بھی ہے تو جوں کی رفتار سے رینگتا ہے، اور پھر کھڑا ہوجاتا ہے۔ اس کے پیچھے کاریں، ٹرک، بسیں، موٹرسائیکل، اسکوٹر غرض یہ کہ سبھی تیز رفتار گاڑیوں کی لمبی قطار ٹھہر سی گئی ہے اور انہی کے بیچ میں تانگے اور رکشے بھی پھنسے ہوئے ہیں۔

ان گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وزیر، ملک کے بڑے بڑے کارخانے دار، کاروباری سیٹھ، دفتروں کے افسر، دوکاندار، وردیوں والے فوجی اور پولس والے، سفید کالروں والے بابو، عام آدمی، سودا سلف خریدنے کےلیے گھروں سے نکلی عورتیں، اسکولو ں اور کالجوں کے بچے،ڈ اکٹر، نرس، انجینئر سبھی کے سبھی ٹھہر گئے ہیں۔ لگتا ہے جیسے بندو کی سست رفتاری کی وجہ سے سارے بازار، سارے شہر، بلکہ ایک طرح سے کہا جائے تو سارے ملک، ساری دنیا کی رفتار دھیمی پڑگئی ہے۔

یوں تو وزیر اپنی کار میں بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو کر رہا ہے لیکن بے چینی سے بار بار گھڑی دیکھ رہا ہے کیونکہ کسی غیرملکی وفد سے ملنے کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ آگے سے راستہ اس طرح بند کیوں ہوگیا ہے۔ اس کا ڈرائیور گھبرایا ہوا بار بار کار سے اترتا ہے، کچھ دور جاکر دیکھ کر آتا ہے اور پھر مایوس ہوکر گاڑی میں بیٹھا انتظار کرنے لگتا ہے۔ وہ لوگ جو کار میں بیٹھے وزیر سے باتیں کر رہے ہیں، دل ہی دل میں خوش ہیں کہ راستہ بند ہونے کی وجہ سے کار کھڑی ہے اور انہیں وزیر کے سامنے اپنی بات رکھنے کا پورا پورا موقعہ مل رہاہے۔ کارخانے دار اور کاروباری سیٹھ البتہ اپنی کاروں کی گدیوں پر بیٹھے بے چین ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے ہر بیتتے ہوئے پل کے معنی ہیں لاکھوں کاگھاٹا۔

ریلوے کا ایک ڈرائیور بار بار اپنی سائیکل کااگلا پہیہ اٹھا اٹھاکر پٹک رہا ہے۔ پریشانی کی وجہ سے اس کے ماتھے پر پسینہ آرہا ہے، کیونکہ جس گاڑی کو لے کر اسے جانا ہے، اس کے چھوٹنے کا وقت ہوچکا ہے اور وہ یہاں راستے میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔اسکولوں اور کالجوں کے زیادہ تر بچے خوش ہیں۔ جتنے پیریڈ نکل جائیں اتنا ہی اچھا ہے لیکن کچھ ایک کو افسوس بھی ہے کہ ان کی پڑھائ پیچھے رہ جائے گی۔اسی طرح سر پر لوہے کی ٹوپی پہنے ہوئے فوجی بار بار موٹر سائیکل کاہارن بجارہا ہے۔ لیکن آگے نہیں بڑھ پا رہاہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر دفتر پہنچنے میں دیر ہوگئی تو اس کاکمانڈنٹ آفیسر چالیس کلو کا وزن پیٹھ پر لدواکر دس کلومیٹر کا روڈ مارچ کروادے گا۔

لیکن بندو ان سب سے بےخبر ہے۔ بے نیاز ہے۔

آج اس سے ٹھیلہ کھنچ بھی نہیں پارہا۔ ایک تو سیٹھ کے بچے نے زیادہ بوجھ لاد دیا ہے۔ دوسرے اس کے ٹھیلے کادھرا جام ہو رہا ہے۔ تیسرے خاموش سی چڑھائی کاراستہ ہے اور چوتھے یہ کہ اس کا من ہی نہیں ہو رہا ہے ٹھیلہ کھینچنے کا۔ وہی کاٹھ کے گھوڑے والی بات ہو رہی ہے، جو اپنے آپ سرک نہیں سکتا۔ جب کبھی اس کا من اداس ہوتا ہےتو اس کی کیفیت اس کاٹھ کے گھوڑے جیسی ہوجاتی ہے جسے وہ بچپن میں ایک میلے سے خرید کر بڑا دکھی ہوا تھا۔

کاٹھ کا رنگین گھوڑا لے کر جب وہ بڑے فخر سے گلی کے بچوں کے بیچ گیا تو اس نے دیکھا کہ کسی کے پاس چابی والی موٹر تھی جو گھوں گھوں کرتی ہوئی تیز بھاگتی تھی اور کسی کے پاس ریل گاڑی تھی، انجن سمیت اپنے آپ چلنے والی گاڑی۔ جن کے پاس ایسے دوڑنے والے کھلونے نہیں تھے ان کے پاس لتی کے سہارے گھومنے والے رنگین لٹو تھے۔ تیزی سے گھومتے ہوئے وہ ایسے لگتے تھے جیسے وہ سارے میدان کو اپنے گھیرے میں لے رہے ہوں۔ ان کھلونوں کے سامنے اس کا کاٹھ کا گھوڑا ساکت بے جان تھا۔

ویسے بچوں کے سامنے کھیلتے ہوئے اس نے بھی اپنے گھوڑے کو ٹانگوں کے بیچ پھنسا کر دوڑنے کا سوانگ کیا تھا لیکن دل ہی دل میں وہ جانتا تھا کہ اس کا کھلونا دوسروں کے کھلونے کے سامنے بے کار اور بے معنی ہے۔ اسی لیے گھر آکر اس نے کاٹھ کے گھوڑے کو چولہے کی آگ میں جھونک دیا تھا۔ لیکن جلنے کےباوجود جیسے وہ بےجان کاٹھ کا گھوڑا اس کی شخصیت کے ساتھ چپک کر رہ گیا تھا۔ کیونکہ ہوا یہ تھا کہ گلی کے وہی بچے جو اس کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، ان میں سے کوئی پڑھ لکھ کر منیم بن گیا تھا تو کوئی وکیل، کوئی اسکول کا ماسٹر ہوگیا تھا تو کوئی بڑا افسر۔ اور اس کے برعکس بندو وہی کاٹھ کا گھوڑا ہی رہ گیا۔ باپ ٹھیلہ چلاتا تھا تو وہ بھی ٹھیلہ ہی کھینچ رہا ہے۔

وہ اکثر سوچتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا کہ ایک ہی گلی میں رہتے ہوئے باقی لوگ آگے بڑھ گئے اور وہ پیچھے رہ گیا۔ ایسا کیوں کر ہوگیا؟ لیکن وہ سوچے بھی تو کیا؟ کاٹھ کا گھوڑا بھلا سوچ ہی کیا سکتا ہے؟

لیکن آج وہی کاٹھ کا گھوڑا یہی سوچ کر اداس ہو رہا ہے کہ اس کے آٹھ نو سال کے لڑکے چندو نے محض اس لیے اسکول جانا بند کردیا ہے کہ وہ اس کے لیے ضرورت کی چیزیں جٹا نہیں پاتا۔ جب میں اپنی زندگی کی گاڑی ٹھیک سے نہیں کھینچ پاتا تو پھر اس ٹھیلے کے بوجھ کو کیوں کھینچوں؟ بندو سوچ رہا ہے۔اس کا دل کیا کہ ٹھیلہ جو پہلے ہی سرک نہیں پا رہا ہے اسے چھوڑ چھاڑ کر الگ کھڑا ہوجاؤں۔ اس کی ہمت پہلے ہی جواب دے رہی ہے۔ رہ رہ کر اس کے دل میں خیال اٹھ رہے ہیں کہ ایک دن اس کے چندو کو بھی اسی طرح ٹھیلے کے بوجھ کو کھینچنا پڑے گا۔ اور اس خیال کے ساتھ اسے اپنی جان ٹوٹتی ہوئی سی محسوس ہو رہی ہے اور اس کے لیے ایک ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہو رہا ہے۔

لیکن اس کے پیچھے جو لوگ کھڑے ہیں وہ اتاولے ہو رہے ہیں۔ کھیج رہے ہیں۔ بار بار ہارن بجارکر اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ان میں سے ایک اس کے پاس آیا اور بولا،’’بھیا جلدی کرو۔ تہارے پیچھے پوری دنیا رکی پڑی ہے۔ اٹکی پڑی ہے۔‘‘

’’اٹکی ہے تو اٹکی رہے‘‘۔ بندو جھنجھلاکر بولا۔’’ جو لوگ تیز جانا چاہتے ہیں ان سے کہو کہ میرے پیروں میں بھی پہیے لگوادیں۔‘‘

’’بات تو ٹھیک کہتا ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔ ’’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اتنے تیز ہو جائیں کہ وہ ہوا سے باتیں کرنے لگیں اور کچھ کو اتنا مجبور کردیا جائے کہ ان کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی دشوار ہوجائے۔‘‘

یہ سب باتیں گاڑیوں کے ہارن کی آوازوں اور لوگوں کے شور میں دبی جارہی ہیں۔ کاٹھ کے گھوڑے میں قدم اٹھانے کی ہمت نہیں۔ وہ آگے نہیں بڑھ پارہا۔ اور اس کے پیچھے بھیڑ میں وہ وزیر رکا ہوا ہے جسے کسی غیرملکی وفد سے وقت مقررہ پر بات کرنا ہے، وہ ڈرائیور اٹکا ہوا ہے، جسے ملک کے کسی دوسرے شہر کی طرف ریل گاڑی لے کر جانا ہے، اسکول کے وہ بچے رکے ہوئے ہیں جو کل کے مالک ہوں گے۔ ڈاکٹر ،نرس ،انجینئر سب کے قدم بندھ کر رہ گئے ہیں۔

اور بندو کاٹھ کاگھوڑا بنا اندھیر دیو کے بازار میں اپنے ٹھیلے کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے پاؤں میں حرکت آئے تو زندگی آگے بڑھے۔
————————————-
kaath ka ghorha, Wooden horse, best story

Mother of all a Short Story by Mushtaq A. Wani

Articles

سب کی ماں

ڈاکٹر مشتاق احمد وانی

   بوڑھی بہاراں؛ بیاسی سال کی ہوچکی تھی۔زندگی  کی بیاسی بہاریں دیکھنے کے بعد بھی اس کے حواس خمسہ میں ضعف کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔البتہ لاٹھی ٹیکنے کی عادی تھی اور کہا کرتی تھی کہ آدمی شہر کا ہو یا دیہات کا اسے گھر سے باہر جاتے وقت ہاتھ میں لاٹھی ضرور رکھنی چاہیے۔کیونکہ کیا معلوم کب کہاں کوئی بندر؛کتا؛بھینسہ؛بیل؛گھوڑا یا کوئی اور جانور حملہ آور ہوجائے۔اس کے چہرے کی جھریوں کی جھالر یہ عیاں کررہی تھی کہ وہ زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھ چکی ہے۔دو بیٹے اور دو بیٹیوں کی ماں تھی۔اس کا   رفیق حیات اپنا حق رفاقت ادا کرتے ہوئے بہت پہلے دنیا سے چل بسا تھا۔دونوں بیٹے وفادار بھی تھے اور خوشحال بھی۔اس کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں تک کی شادی ہوچکی تھی۔اس کی آنکھوں نے اپنے قصبے کے راج محل کی زیب وزینت دیکھی تھی؛ راجکماروں کے پالنوں کو جھلایا تھا؛اپنے ملک کے بٹوارے کی خبر سن کر آنسو بہاے تھے اور پھر آدمی کی شکل میں حیوانی درندگی کا بھیانک رقص دیکھا تھا۔پھر ایک وقت اس کی زندگی میں ایسا بھی آیا تھا جب اس کی آنکھوں نے اپنے قصبے کے ویران وسنسان راج محل میں دور سے “جانی دشمن”فلم کی شوٹینگ دیکھی تھی۔زندگی کا اتنا تلخ وشیریں رس پینے کے باوجود بوڑھی بہاراں  کے چہرے سے نورانیت ٹپکتی تھی اور لب ولہجے میں بزرگانہ طمطراق موجود تھا۔لگتا تھا کہ زندگی اسے تھکا دینے میں ناکام ہوچکی ہے۔مقام حیرت تو یہ تھا کہ وہ اس عمر میں بھی نماز؛روزے اور ذکر واذکار کی پابند تھی۔قرآن پاک  پڑھنا نہیں جانتی تھی لیکن اس کے باوجود بڑی عظمت و عقیدت کے ساتھ قرآنی حروف پہ شہادت کی انگلی پھیرتی۔اس سے اس کے دل کو تسکین پہنچتی اور آنکھوں میں آنسو آجاتے۔اس کی خوشی کی کوئی حد اس وقت نہیں رہتی جب وہ اپنے قصبے کے مرکزی مقام چنار چھاوں میں ہندو؛مسلم؛ سکھ اور عیسائی برادری کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے اور پھل کھاتے دیکھتی؛ تب اسے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے یہ سب اسکے بطن سے پیدا ہوئے ہوں۔اس کے اس احساس مسرت کا تعلق اسکی عملی زندگی سے بھی تو رہا تھا کیونکہ وہ اپنے قصبے کی مشہور ہنر مند دائی تھی۔اس لیے  وہ یہ جانتی تھی کہ اسکے سامنے یہ مشترکہ نئی نسل اس کے ہاتھوں شکم مادر سے اس جہان رنگ وبو میں آئی ہے۔ بہاراں؛ بے لوث خدمت کے سبب  اپنے قصبے میں مشترکہ تہذیب کا استعارہ بن کے رہ گئی تھی۔وہ تو اس وقت سے دائی کا کام کرتی آرہی تھی جب اسکے قصبے کے مکانات کچے ہوا کرتے تھے اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے انسانی رشتوں کے تقدس کو پامال نہیں کیا تھا۔سینکڑوں بچوں کو اس نے ماں کی کوکھ سے زمین کی کوکھ پہ قدم رکھتے دیکھا تھا۔اللہ تعالے نے نہ جانے اس کے ہاتھوں میں کیا جادو رکھا تھا کہ جس بھی حاملہ عورت کے درد زہ کو دیکھ کے ڈاکٹر لوگ گھبرا کے بڑے شہر میں لے جانے کو کہتے اسے  بہاراں اپنی تحویل میں لیتی اور ایک دو بار ہاتھ پھیرتے ہی بچی  یا بچہ  تولد ہوتا۔ایک بار جب  رات کو دھنو دھوبی کی بیوی آرتی کے شریر میں درد زہ کی ترنگ اٹھی تھی تو وہ حواس باختہ سا دوڑتا بھاگتا  بہاراں کے گھر پہ آیا تھا اور زور سے پکار اٹھا تھا
    “دائی—-میری دھرم پتنی کو بچہ درد تڑپائے جات ہے؛چل کے دیکھونا”

     بہاراں؛ اپنے کچے مکان میں میٹھی نیند سوئی ہوئی تھی۔دھنو دھوبی کی پکار سے وہ جاگ گئی تھی۔اس کے ماتھے پہ شکنیں سی ابھر آئی تھیں اور تب اس نے دھنو دھوبی کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا
     ” ابے ایسے نہیں بولتے؛مجھے تمہارا بولنا اچھا
  نہیں لگا۔جب ایسی بات ہو تو مجھے اس طرح
  آواز دیا کرو
“اماں——درد”میں سمجھ جایا کروں گی کہ میرے قصبے کی کوئی بہو؛ بیٹی درد زہ کے باعث زندگی اور موت کی کشمش میں ہے”
دھنو نے کہا تھا
“ہاں میں ایسے ہی پکاروں گا اور دوسروں کو بھی
یہ بات بتاوں گا۔مگر اماں آپ چلیں تو سہی”
     بوڑھی بہاراں ایک چھوٹا سا تھیلا بغل میں دبائے دھنو کے ساتھ چل پڑی تھی۔آگے دھنو کے گھر
میں اسکی بیوی آرتی درد زہ سے پچھاڑیں کھارہی تھی۔اسکی دلدوذ چیخیں سن کے دھنو کا دل دہل جاتا۔ بہاراں نے جاتے ہی اپنے ہاتھوں میں پتا نہیں کون سا تیل لگایا تھا اور پھر آہستہ آہستہ آرتی کے شریر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔چند ہی لمحوں  بعد آرتی کی کوکھ سے ایک سندر سلونا سا بچہ اس جہان فانی میں آگیا تھا۔نومولود کی پہلی چیخ سن کر دھنو دھوبی کے جسم میں جان آگئی تھی۔اس کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا تھا
  “اماں—بھگوان آپ کو سدا سکھی رکھے۔آپ جگ
جگ جیں”
وہ ذچہ اور بچہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا تھا۔پھر اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا اور پانچ سو روپے کا نوٹ بہاراں کو دیتے ہوئے کہنے لگا تھا
“اماں؛ یہ لیجیے میرا دل آج خوش ہوا ہے” بہاراں نے لینے سے انکار کیا تھا۔لیکن دھنو نے زبردستی پانچ سو روپے کا نوٹ پکڑا دیا تھا۔پھر وہ دھنو کے گھر سے رخصت ہوگئی تھی اور ٹارچ کی روشنی میں اکیلی اپنے کچے مکان میں پہنچ گئی تھی۔
     لالہ نند لال؛ بہاراں کے قصبے کا  سب سے بڑا
سیٹھ تھا۔دیوالی؛ہولی اور نوراتروں میں ان کے گھر میں دیسی گھی کے چراغ جلا کرتے تھے۔ایک رات جب ان کی بہو شادی کے سات سال بعد پہلی مرتبہ درد زہ سے کراہ اٹھی تھی تو لالہ نند لال اسپتال جانے کے بجائے خود بہاراں کے کچے مکان میں آئے تھے۔انھوں نے آواز دی تھی
  “اماں—-درد” بہاراں نماز تہجد پڑھ چکی تھی اور دعامانگنے میں مشغول تھی۔سیٹھ نند لال نے دوبارہ آواز دی تھی
“اماں—— درد”
بوڑھی بہاراں اندر سے بولی تھی
“ٹھہر جایئے آرہی ہوں”
چند لمحوں بعد وہ لالہ نندلال کے حویلی نما مکان میں پہنچ گئی تھی۔جاتے ہی اس نے اپنے ہاتھوں میں تیل لگایا تھا۔اللہ کانام لے کر آہستہ آہستہ لالہ نندلال کی بہو کے مخملیں شریر پہ دونوں ہاتھ پھیرے تھے ۔دیکھتے دیکھتے اسکے دردزہ میں افاقہ
ہوا تھا اور بہو نے ایک خوبصورت سی بالکہ کو جنم دیا تھا۔لالہ نند لال خوش ہوئے تھے لیکن ان کا بیٹا نیرج کسی حد مایوس ہوا تھا۔لالہ نند لال نے بہاراں
کی گود گری چھواروں سے بھر دی تھی۔  ایک ہزار روپے کا نوٹ؛تانبے کی تھالی اور پیتل کی بالٹی دی تھی اور ان کی بیوی نے اپنے کان میں لگی سونے کی ایک بالی اتار کے دی تھی۔
     اپنے کچے مکان میں پہنچتے ہی بہاراں کے پوتے پوتیوں نے اسکے ہاتھ میں گری چھواروں سے بھری پوٹلی دیکھ کر اسے گھیر لیا تھا۔دادی دادی کی رٹ لگائے وہ اس سے پوٹلی لینا چاہتے تھے۔مگر اس نے کسی کو بھی پوٹلی نہیں دی تھی ۔اس نے سب کو نیچے بٹھایا تھا اور اپنے ہاتھ سے ان میں برابر گری چھوارے بانٹ دیے تھے۔اسکے دونوں بیٹوں کے پکے مکان  تھے۔دونوں سرکاری ملازم تھے۔دونوں ماں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔بہاراں نے ساس بہو کے رشتے کو ماں بیٹی کے رشتے میں بدل دیا تھا۔وہ اکثر کہا
   کرتی تھی
“ہر ساس اگر بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے
  تو کوئی بھی گھر برباد نہیں ہوگا”
       بہاراں کو اپنے چھوٹے سے کچے مکان میں بہت سکون ملتا تھا۔کھانا تو وہ خود نہیں پکاتی تھی البتہ صبح لپٹن جائے کا ایک کپ  خود بناکر پی لیتی تھی۔اسے رسی کی کھاٹ پہ سونا بہت اچھا لگتا تھا۔ دونوں بیٹوں نے جب اسے ایک خوبصورت بیڈ اور بستر خرید کر دیا تھا تو وہ ان سے ناراض ہوئی تھی اور کہنے لگی تھی
     “میں رات کو تہجد پڑھتی ہوں ۔تمہارے اس نرم
   گرم بستر پہ جب لیٹوں گی تو میں کہاں جاگ
  پاوں گی۔قبر میں یہ نرم گرم بستر تو نہیں ہوگا”
       بہاراں کے قصبے میں مثالی قسم کی رواداری اور بھائی چارہ موجود تھا۔ہندو ؛ مسلم؛سکھ اور عیسائی آپس میں ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔دیوالی اور عید کی خوشیاں آپس میں بڑی دھوم دھام سے مناتے تھے؛ لیکن اس خوش کن   ہندو مسلم بھائی چارے کو اس وقت نظر بد لگ گئی تھی جب قصبے میں نہ جانے کہاں سے دو لنگور آکے بندروں پہ جھپٹ پڑے تھے اور انھیں نوچنا کھسوٹنا شروع کردیا تھا۔لنگوروں اور بندروں کے درمیان مہا بھارت دیکھنے کے لیے مرد عورتیں اور بچے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے۔ چند ہندو لڑکوں نے بندروں کو اس لیے بچانے کی کوشش کی تھی کہ بندر ہمارے اس قصبے میں 80 سال سے رہ رہے ہیں جب کہ لنگور پہلی بار اس قصبے میں کہیں سے آنکلے ہیں۔ مسلمان لڑکے یہ چاہتے تھے کہ لنگور ؛بندروں کو پٹک پٹک کے ماریں کیونکہ ان بندروں نے
پورے  قصبے کے لوگوں کاناک میں دم کردیا تھا۔بندر گھروں میں گھستے تھے اور اندر سے کپڑے؛کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے تھے  اور بعض اوقات بوڑھوں اور بچوں پہ جھپٹ پڑتے تھے۔ہندو اور مسلمان لڑکے دو متضاد نظریے کے تحت چل رہے  تھےکہ ان میں آپس میں توتو میں میں اور دھکا مکی کی نوبت آگئی تھی۔بندر اور لنگور دونوں قسم کے جانور تو وقتی طور پر قصبے کی فصیل پھاند کر کہیں دور چلے گئے تھے۔لیکن قصبے میں فرقہ پرستی کا زہر چھوڑ گئے تھے۔”بولو شری ہنومان جی کی جے” اور “اسلام زندہ باد”کے نعرے فضا میں گونجنے لگے تھے کہ اتنے میں پولیس آگئی تھی اور
اس نے ان مشتعل نوجوانوں کو حراست میں لے لیا تھا۔دوسرے ہی دن قصبے کے کچھ سنجیدہ ہندو؛مسلم؛سکھ اور عیسائی لوگوں نے گذشتہ روز ہندو مسلم نوجوانوں کی نازیبا و ناشائستہ حرکت کے بارے میں ایک میٹنگ بلائی تھی۔دونوں فرقوں کے لڑکے اس میٹنگ میں شامل ہوئے تھے۔ بہاراں بھی اس میٹنگ میں بن بلائے چلی آئی تھی۔اس کے آتے ہی سب لوگ کھڑے ہوکر بیٹھ گئے تھے۔سب نے نوجوان لڑکوں کی سرزنش کی تھی؛انھیں اپنی غلطی کا احساس دلایا تھا۔آخر پر بہاراں نے بڑے رقت آمیز لہجے میں کہا تھا
  “تم سب کو اپنے خاندان کے لوگ سمجھتی ہوں۔
  میرے ہاتھوں تمہارا جنم ہوا ہے۔میری آنکھوں نے
   تمہارا بچپن؛ لڑکپن اور جوانی کا زمانہ دیکھا ہے
   اور اس عمر میں اب تمہارا بڑھاپا دیکھ رہی ہوں۔
  میں خود اب ڈوبتے سورج کی کرن کی مانند ہوں۔
   دنیا کی سب سے انمول نعمت دل کا سکون ہے۔
اتفاق واتحاد کی نعمت کو نہ کھونا۔میرے قصبے
  میں رہنے والے مسلمان اور ہندو میری آنکھیں ہیں؛
    سکھ اور عیسائی میرے بازو۔کل جن بچوں نے
غلط حرکت کی ہے وہ آپس میں ایک دوسرے سے
   معافی مانگیں اور ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملیں
    ورنہ مجھ بوڑھی کا دل روتا رہے گا”
          آخری جملہ کہتے ہوئے بہاراں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔میٹینگ ایک خوشگوار ماحول میں اختتام پزیر ہوئی تھی۔آخر پر حلوہ بانٹا گیا تھا۔
   ایک ہفتے کے بعد  بہاراں نے اپنی دونوں بہووں کو اپنے پاس بلایا تھا۔اپنی چھوٹی سی المونیم کی صندوقچی کھولی تھی؛ اس میں سے بیس ہزار روپے نکال کر دونوں کو دس دس ہزار  دے دیے تھے ۔دوسرے دن اپنی بیٹیوں کو بلایا تھا اور ان کو بھی دس دس ہزار روپے دے دیے تھے۔ایسا کرنے سے اسے سکون سا ملا تھا۔تیسرے دن ہلکی سی بارش ہوئی تھی۔ نماز عصر کا وقت تھا۔وہ وضو بنانے کے
لیے جونہی اندر سے باہر نکلی تھی تو اسکے دونوں پیر پھسل گئے تھے اور وہ چاروں شانے چت نیچے گر گئی تھی۔اسکی چیخ سن کر گھر کے تمام افراد اسکی طرف دوڑ پڑے تھے۔پوتے پوتیاں چیختے ہوئے دادی دادی پکارنے لگے تھے اور دونوں بہو؛ بیٹے ماں کو بے ہوشی کی حالت میں دیکھ کر روتے ہوئے اماں  اماں پکارنے لگے تھے۔انھوں نے فورا”ماں کو اٹھایا تھا اور گاڑی میں رکھ کر اسپتال لے گئے تھے۔
اسپتال پہنچتے ہی اس نے اپنی دونوں آنکھیں کھول دی تھیں اور پھر کلمہ پڑھتے ہوئے دم توڑ دیا تھا۔اس کے باغ کے تمام پھول بیک وقت اسکے صدمے سے مرجھا گئے تھے۔اک کہرام سامچ گیا تھا۔یہ مایوس کن خبر پورے قصبے میں چند لمحوں میں پھیل گئی تھی۔جس نے جہاں سنا تھا وہ وہیں سے اسپتال کی جانب دوڑ پڑا تھا۔جب لاش گھر پہنچائی گئی تھی تو سب نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت کی تحجیز وتکفین کل ہوگی۔ ساری رات گھر کے تمام افراد نے  روتے بلکتے گزار دی تھی۔دوسرے دن قصبے کے تمام دکان داروں نے دکانیں بند رکھی تھیں۔پورے قصبے میں سناٹا چھایا
ہوا تھا۔میت کو غسل اور کفنانے کے بعد جب تابوت
میں رکھا گیا تھا تو آخری دیدار کے لیے گھر کے تمام افراد کو بلایا گیا تھا۔بہاراں دائی کا چہرہ بہت زیادہ
نورانی نظر آرہا تھا۔یوں معلوم ہورہاتھا کہ جیسے وہ
مسکرارہی ہوں۔جونہی تابوت اٹھانے لگے تھے تو ہندو اورسکھ برادری کے لوگ آگے آئے تھے۔انھوں نے میت کو پہلے کندھا دیا تھا۔لالہ نندلال نے روتے ہوئے  ایک سفید قیمتی چادر تابوت کے اوپر ڈال دی تھی۔دھنو دھوبی دھاڑیں مارمار کر رورہا تھا۔سکھ رشپال سنگھ نے روتے ہوئے ایک آدمی سے کہا تھا
  “بہاراں مائی؛ کی موت ہم سب کی موت ہے۔کیونکہ
  اب ہمارے قصبے کی کوئی بھی عورت بغیر آپریشن
   کے بچہ نہیں جنے گی”
                                 **
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
——————————————
sab ki maa , Mother of all, best story

Poor Eid a Short Story by Meer Saheb Hasan

Articles

غریب عید

میر صاحب حسن

ابھی چند ہی دن ہوئے تھے مجھے مع فیملی اس علاقے میں شفٹ ہوا تھا مگر پہچان زیادہ تر لوگوں سے ہوگئی تھی شاید اس میں اہم کردار میرے پیشے کا تھا ۔ ہر کوئی صحافی سے ملنا پسند کررہا تھا ۔میں جہاں رہتا تھا وہ علاقہ Re-development میں چلا گیا تھا اب دو یا تین سال مجھے کرائے کے مکان میں رہنا تھا ۔کرایہ مجھے اچھا مل رہا تھا اس لئے میں نے سوچا کیوں نہ کچھ رقم بچائی جائے اس لئے ایسے علاقے میں کرایہ کا مکان تلاش کیا جو سستا تھا اور ساتھ ہی آفس سے قریب۔

میرے ساتھ میری اہلیہ شگفتہ ،ایک بیٹی سارہ اور ایک بیٹاصادق تھے۔ ہم نئے نئے شفٹ ہوئے تو لوگ ملنے آئے ۔جب سنا کہ میں ممبئی کے ہی کسی اخبار میں بطور کرائم رپورٹر کام کرتا ہوں تو وہ سبھی خوش ہوئے کہ چلو اپنے علاقے کے مسائل بھی اخبار میں آجایا کریں گے۔

میں جس علاقے کی بات کررہا ہوں اکثروبیشتر اخبارات میں اس کا تعارف ان لفظوں میں کیا جاتا ہے۔’’مسلم اکثریتی علاقہ ‘‘۔یہ سچ بھی ہے ۔ممبئی کے مضافات میں چیمبور سے واشی جانے کے لئے آگے بڑھتے ہیں تو گورنمنٹ بلڈنگ کہیئے یا مہاڈا کالونی کہہ لیجئے کہ آگے ایک بڑا سگنل پڑتا ہے جہاں قانون کا پالن اسی صورت میں ہوتا ہے جب وہاں کوئی ٹرافک کانسٹبل کھڑا ہو ورنہ پھر سب کی مرضی چلتی ہے جدھر جانا ہے بچ کے نکل جائو ورنہ گالی گلوج برداشت کرو۔ سگنل کے بائیں طرف سڑک اندر جاتی ہے ۔ہاں اسے سڑک ہی کہاجائے گا کیونکہ میونسپل کارپوریشن نے اسے سڑک کا نام دیا ہے۔اسی سڑک سے لگ کر ایک اور سڑک ہے جو دور تک آگے چلی جاتی ہے اور ایک ایسی جگہ سے مڑ جاتی ہے جہاں پہنچ کر ناک پر رومال ڈالنا ضروری ہوجاتا ہے ۔دور سے دیکھنے والے اسے پہاڑ سمجھتے ہیں مگر قربت حاصل کرلینے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ہے اسے ’’ڈمپنگ گرائونڈ ‘‘کہتے ہیں۔اس ڈمپنگ گرائونڈ سے پہلے ہی ایک بڑا نالا ہے جس پر ایک چھوٹا سا پل بنا ہوا ہے۔یہ پورا علاقہ ایک جیسا ہی نظر آتا ہے پہلی بار آنے والا گھنٹوں گلیوں کی خاک چھانتا رہے گا۔ اوہ……..سوری…..سوری علاقہ کانام تو بتایا ہی نہیں ،ممبئی میں رہنے والے بخوبی سمجھ گئے ہوں گے کہ یہ گوونڈی ہے۔ ہاں یہ گوونڈی ہے جہاں غربت ،گندگی،بھوکمری غرض کیا نہیں ہے ۔غٖربت کی ہر تصویر یہاں نظر آتی ہے۔

میں ایک صحافی ہوں ،صحافی تو غریب ہی ہوتے ہیں اور پھر اردو صحافی وہ تو ……… صحافی جان کر مجھے پڑوس میں رہنے والے روز ہی ملنے لگے۔میرا بیٹا سات سال کا تھا اس کی بھی دوستی مقامی بچوں سے ہوگئی۔ پڑوسی اچھے ہوں تو رہنا بھی اچھالگتا ہے وہی ہمارے ساتھ ہوا تھا۔اچھے پڑوسی ملے تھے،سکون تھا۔

  ایک شام، میں گھر پہنچا تو ایک خاتون کو موجودپایا جن کے متعلق شگفتہ  نے بتایا کہ یہ نسرین بھابھی ہیں۔اپنے سات آٹھ سالہ اکلوتے بیٹے نثارکے ساتھ رہتی ہیں۔ جو قریب ہی اسکول میںپڑھتا ہے۔ اِن کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے اور دوسری بیوی کو لے کر افریقہ چلا گیاہے۔نسرین بھابھی کی گزر بسرمشکل سے ہوتی ہے۔سامنے والی گلی کی کسی کھولی میں رہتی ہیں۔ مجھے نسرین بھابھی کے حالات جان کر دکھ ہوا۔

جس جگہ میری کھولی تھی وہاں میری لائن میں اور سامنے ،کُل ملا کر بیس کھولیاں تھیں۔زیادہ تر لوگ ذری کا کام کرتے تھے۔وہ لوگ زیادہ پڑھے لکھے تو نہ تھے مگر اب بچوں کی تعلیم پر کافی دھیان دے رہے تھے۔

—————————

مجھے اس علاقے میں رہتے ہوئے کئی ماہ ہوگئے تھے پڑوسیوں سے اکثر اتوار کو ملاقات ہوجایا کرتی تھی۔بقیہ دنوں میں صبح دس بجے میں گھر سے آفس کے لئے روانہ ہوجاتا اور واپسی دیر رات گئے ہوا کرتی تھی ۔ ہمارے علاقے میں پانی ، بجلی اور گندگی بڑا مسئلہ تھی۔میں خود وہیں رہ رہا تھا چنانچہ کئی بار اخبار میں بھی اس کے متعلق خبر لگائی تھی۔میری کھولی سے دس فیٹ کی دوری پر حاجی چاچا کا نل تھا وہی سب کو پانی سپلائی کرتے تھے ۔دس منٹ پانی لیجئے اور دو سو روپئے ماہانہ دیجئے۔ایک بار رات میں بجلی چلی گئی تو میں نے بجلی محکمہ میں فون کردیا اور کچھ ہی دیر میں محکمہ والے آئے اور بجلی بحال ہوگئی تھی۔سامنے کھولی میں رہنے والے پپو بھائی نے کہا ۔

’’واہ ناصر بھائی!کمال ہوگیا آپ کے فون کرتے ہی لائٹ والے آگئے۔یہ ہوتا ہے فائدہ پترکار ہونے کا۔‘‘

اس کے بعد سے معمول سا بن گیا تھا کہ جب رات میں بجلی جاتی تو لوگ مجھے ہی آواز دیتے کہ بجلی محکمہ کو فون کردوں۔ایسی ہی ایک رات بجلی چلی گئی تھی۔فون کرنے پر معلوم ہوا کہ قریب ہی لوٹس کالونی کا ٹرانسفارمر جل گیا ہے دو گھنٹے لگ جائیں گے بجلی بحال ہونے میں۔شدت کی گرمی میں دوگھنٹے گزار پانا مشکل تھا ۔ابھی رات کے دس ہی بجے تھے ۔چنانچہ میں اپنے بیٹے صادق کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا کہ کچھ دیر ٹہل آئوں۔

تھوڑی دیر تک میں بیٹے کو لئے ادھر ادھر ٹہلتا رہا۔پھر سوچا کیوں نہ مین روڈ کی کسی ہوٹل میں چائے پی لوں۔مین روڈپر جانے کے لئے ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک گھر کے دروازے پر میں نے نثار کو کھڑا دیکھا۔میرے بیٹے صادق نے بتایا کہ یہ اس کا گھر ہے۔تب تک نسرین بھابھی بھی باہر نکل آئیں شاید نثار نے مجھے دیکھ کر اپنی والدہ کو بتا دیاتھا۔سلام دعا کے بعد نسرین بھابھی نے کہا۔

’’بھائی صاحب! آپ پہلی بار میرے گھر کی طرف آئے ہیں چائے پی کر جائیے۔‘‘میں تو چائے پینے کی غرض سے ہی مین روڈ جارہا تھا۔شکریہ کہتے ہوئے ان کے گھر میں داخل ہوا۔

نسرین بھابھی کے گھر میں پہلی بار آیا تھا مگر ایسا گھر بھی میں نے پہلی بار ہی دیکھاتھا جو شروع ہوتے ہی ختم بھی ہوجاتا ہے۔یہ ایک 6×7کی کھولی رہی ہوگی۔دائیں طرف تین فٹ کی جگہ اور بائیں طرف ایک پلنگ رکھی ہوئی تھی کچھ گٹھریاں ،اسکول بیگ،کپڑے پلنگ پر قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔نیچے خالی جگہ پر اسٹو تھا۔ساتھ ہی پانی کا ایک چھوٹا سا ڈرم اور ڈھر ساری پانی کی کچھ خالی کچھ بھری بوتلیں۔میں تعجب سے یہ منظر دیکھ ہی رہا تھاکہ آواز آئی۔

’’بھائی بیٹھئے نا بس دو منٹ میں چائے حاضر ہے۔‘‘میں نے کھولی دیکھتے ہوئے نسرین بھابھی سے سوال کیا۔

’’اتنی بوتلیں کیوں رکھی ہیں؟‘‘

’’پانی بھر کے لاتی ہوں بھائی،پھر کوئی مٹکا بھی نہیں ہے اسلئے ایسے ہی رکھتی ہوں۔پانی پیتے جاتے ہیں بوتلیں خالی ہوتی جاتی ہیں پھر دوسرے دن بھر لاتے ہیں۔‘‘

’’بھر لاتے ہیں……..کیا مطلب……پانی پائپ سے نہیں لیتے؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’نہیں بھائی! پائپ سے لینے کے لئے مہینہ دو سو روپیہ دینا ہوگا۔میں کہاں سے دوں گی۔بڑی مشکل سے تو نثار کو پڑھا رہی ہوں۔‘‘

’’تو پانی کہاں سے لیتی ہیں آپ؟‘‘

’’یہ سب بوتلیں مانخورد ریلوے اسٹیشن سے بھرکرلاتی ہوں‘‘۔میں یہ سن کر دنگ رہ گیا۔

جہاں یہ کھولی تھی وہاں سے تقریباً تین کلومیٹر کی دوری پر یہ اسٹیشن واقع ہے۔کچھ ہی دیر میں نسرین بھابھی نے چائے میرے حوالے کی ۔کسی طرح جلدی جلدی میں نے حلق میں اتاری اور کھولی سے باہر یہ سوچ کر نکل آیا۔

اس دنیا میں کتنا غم ہے

میرا غم کتنا کم ہے

٭٭٭

میں کئی دنوں تک اسی فکر میں لگا رہا کہ کیسے نسرین بھابھی کی پریشانیاں دور ہوں مگر بہت کچھ میرے بس میں نہ تھا ۔پھر بھی میں نے حاجی چاچا سے کہا کہ نسرین بھابھی کو بھی پانچ منٹ کے لئے پائپ دے دیا کرو ۔سو روپئے مہینہ میں دے دیا کروں گا۔

میں صحافی تھا اور میری روزی روٹی اخبارات سے جڑی ہوئی تھی اسلئے روزانہ میرے پاس کئی اخبارات آیا کرتے تھے۔پڑوسیوں کو معلوم ہوگیا تھا کہ میرے گھر ردی جمع رہتی ہے چنانچہ کسی ضرورت کے موقع پر اکثر کوئی نہ کوئی ردی لے جاتا۔

٭٭٭

ماہ رمضان کی آمد تھی۔

اخبار کے مینجنگ ڈائریکٹردل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے اسپتال میں تھے ان کی بائی پاس سرجری ہونے والی تھی۔آفس میں سب پریشان تھے کہ عید میں کیا ہوگا۔گھر میں وائف کو فکر تھی کہ بچوں کا کپڑا جلد سے جلد آجائے۔کئی بار شگفتہ نے بھی اس ضمن میں ذکر کیا ۔میں نے امید بندھائی کہ ڈائیرکٹر صاحب تو اسپتال میں ہیں مگر ہم لوگوں نے ان کے لڑکے سے بات کی ہے کہ پوری نہ سہی کچھ رقم ہی مل جائے تاکہ عید اچھے سے گزر جائے۔

’’چلئے جو منظور خدا ہوگا ہوکے رہے گا انشاء اللہ‘‘۔یہ کہہ کر شگفتہ نے میری ہمت بندھائی۔

عید کو دو روز باقی تھے۔

پوری گلی میں شور شرابہ تھا ۔بزمِ فلاح والوں نے اندر آنے والی سڑک سے لے کر پوری گلی میں ڈیکوریشن کردیا تھا ۔جسے دیکھئے وہ شاپنگ میں مصروف تھا۔ غرض ہر کوئی عید کی تیاریوں میں تھا۔

اخبار کے ڈائیرکٹر صاحب اب تک اسپتال میں تھے مگر ان کے فرزند ارجمند نے اخبار میں کام کرنے والے سبھی افراد کو تھوڑے تھوڑے پیسے دئے اس وعدے کے ساتھ کہ باقی عید کے دوچار روز بعد ادا کردیا جائے گا۔

مغرب بعد میں گھر پہنچا تو قریبی مسجد سے اعلان ہورہا تھا کہ چاند ہوگیا ہے اور کل عید ہے۔ کھانے کے بعد ہم لوگ لوگوں نے بھی شاپنگ کی ۔

 شگفتہ اور بچوں کے کپڑے ،چپلیں،جوتے ،سوئیاں،مہندی وغیرہ سب خریدا گیا۔شگفتہ نے بہت ضدکی کہ میں اپنے لئے بھی پٹھانی سوٹ خرید لوں۔

’’شگفتہ! بچوں کے اور تمہارے کپڑے وغیرہ زیادہ ضروری تھے ‘‘۔

’’تو ٹھیک ہے پھر ہمارے لئے کیوں لے لیاآپ نے؟آپ نہیں پہنیں گے توہم بھی نہیں پہنیں گے‘‘۔

’’چلو بھئی! اب صبح دیکھوں گا‘‘۔

’’نہیں نہیں دیکھنا نہیں ہے صبح نمازبعد پٹھانی سوٹ لے لیجئے گاپھر ہم لوگ امی کے یہاں چلیں گے‘‘۔

’’ٹھیک ہے بابا‘‘۔

صبح آٹھ بجے نماز عیدباجماعت اداکی۔لوگوں سے گلے ملے۔ مسجد و اطراف میں بچے بوڑھے سبھی کے چہرے دمکتے نظر آرہے تھے ۔بھلا ایسا کیوں نہ ہوتا؟ پورے مہینے انتظار رہتا ہے عید کا۔عید خوشیوں کا دن ہوتا ہے۔

٭٭٭

بعد نماز عید پڑوسیوں سے مل کر گھر آیا۔گھر میں داخل ہوتے ہی شگفتہ نے کہا۔

’’دس بجے تک جاکر سوٹ خرید لیجئے پھر امی کے یہاں چلا جائے گا‘‘۔

’’ارے بھئی!اب کیا کہوں؟………میرے پاس قریب دوہزار روپئے بچے ہیں اور عید کے تین چار دن بعد ہی آفس سے بقیہ پیسے مل پائیں گے‘‘۔

’’کوئی بات نہیں ……..ہزار روپئے تک سوٹ آجائے گااور باقی ہزار تین چار دن کے لئے کافی ہے‘‘۔شگفتہ کے ساتھ بچے بھی ضد کرنے لگے۔

سب کے زور دینے پر میں نے ایک ہزار روپئے شگفتہ کے حوالے یہ کہتے ہوئے کیا ۔

’’یہ رہے ہزار روپئے ،دو تین دن خرچ سنبھالنا۔ہزار میں رکھ لیتا ہوں ابھی کچھ دیر میں جاکر پٹھانی یا کرتا پائیجامہ خرید لوں گا‘‘۔میرے یہ کہنے پر سب خوش ہوگئے اور ہم سبھی سوئیاں پینے لگے۔

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ نسرین بھابھی کا بیٹا آگیا۔اس نے کہا۔

’’ گھر میں کچھ کام ہے امی نے ردی پیپر مانگے ہیں اور کہا ہے زیادہ پیپر لانا،صفائی کرنا ہے‘‘۔

’’آئو بیٹا بیٹھو! شیر خرما پی لو پھرردی پیپر لے جانا ‘‘میں نے کہا۔

’’نہیں انکل!امی بولی ہے صادق کے یہاں سے ردی پیپر لے کر جلدی آجائو‘‘۔

’’اچھا بیٹا!ردی پیپر ،امی کو دے کر آجانا‘‘۔یہ کہتے ہوئے میں نے گھر میں جمع سارے ردی اخبارات نکال کر ایک جمبو تھیلی میں رکھ کر اس کے حوالے کئے کہ کہیں گرا نہ دے۔وہ دونوں ہاتھوں سے تھیلی سنبھالتے ہوئے چلا گیا۔

شگفتہ نے مجھے یاد دلایا۔

’’ دس بج رہے ہیں جائیے کرتا پائیجامہ لے کر جلدی آجائیں‘‘۔نہ چاہتے ہوئے بھی میں باہر نکلا۔سوچا چلو سگنل کی طرف جو عید بازار ہے وہیں سے خرید لیتے ہیں۔

 ابھی میں گلی سے نکل کر مین روڈ کی طرف جانے ہی والا تھا کہ میری نظر نثار پر پڑی جو سامنے ایک دکان پر کھڑا تھا اور دکان والا اس جمبو تھیلی سے ردی اخبارات نکال کر تول رہا تھا۔جو کچھ دیر پہلے میں نے اپنے گھر پر نثار کے حوالے کئے تھے۔دکاندار نے ردی کو تول کر کچھ روپئے نثار کے ہاتھوں پر رکھ دیے۔نثار دکان سے نکل کر سڑک پر آیا تو میں نے اسے روک لیا۔

’’یہاں کیا کررہے ہو بیٹا؟‘‘میں نے سوال کیا۔

’’امی بولی یہ ردی بیچ کر پانچ روپئے کا دودھ،دو روپئے کی چائے پتی اور پانچ پائو لے کر آئو۔تومیں نے ردی دکان والے کو دے دیا اور دودھ لینے جارہا‘‘۔

’’دکان والے نے ردی پیپر کے کتنے روپئے دیے؟‘‘

’’وہ انکل نے چالیس روپئے دیے ہیں‘‘۔نثار نے جواب دیا۔

’’کیوں بیٹا! تم لوگ چائے نہیں پیئے‘‘۔

’’نہیں انکل! امی کے پاس پیسہ نہیں ہے اور رات میں ہم لوگ کھانا بھی نہیں کھائے‘‘۔

’’کیوں ؟تمہاری امی نے کھانا نہیں پکایا تھا؟‘‘

’’نہیں انکل !بہت دن سے امی کی طبیعت کھراب ہے اور پیسہ بھی نہیں ہے۔اس لئے امی کھانا نہیں پکاتی ہے۔ہم لوگ روجانہ، روجا مسجد میں کھولتے تھے اور کھانا بھی وہیں کھا لیتے تھے۔کل شام پانی لینے کے لئے مانکوراسٹیشن گئے تھے ،دیر سے آئے تو کھانا کھتم ہوگیا تھا۔ہم لوگ بھوکے رہے۔میں ردی امی کے پاس لے گیا تو امی بولی جلدی سے بیچ کر دودھ پائو لا،پھر ہم چائے پیتے ہیں‘‘۔

نثار کی باتیں میرے لئے کسی تازیانے سے کم نہ تھیں۔میں نے جیب سے ہزار روپئے نکال کر اُس کی جیب میں رکھتے ہوئے سمجھایا۔

’’بیٹا!یہ روپئے گرا مت دینا،سیدھے اپنی امی کو جاکر دو۔شیر خرما کھائو اور اپنے لئے امی سے کپڑا لانے کے لئے کہنا……..جائو پہلے گھر جائو‘‘۔

نثار جیب تھامے خاموشی سے تیز قدم اٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔

میں وہیں کھڑا سوچتا رہا کہ نثار غریب ہے؟

یامیں غریب ہوں جو اپنے پڑوسی کی خبرگیری نہ کرسکا؟

یا معاشرہ ہی غریب ہے جو اندھا بہرا ہوچکا ہے

 یا پھریہ عید ہی غریب ہے؟
—————————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Ghareeb ki Eid, Best urdu short story

What happened on the ship? Story by Anwar Khan

Articles

جہاز پر کیا ہوا؟

انور قمر

موٹرویسل گاندھی (Motor Vessel Gandhi) نام کا جہاز صوبہ گجرات کی مشہور بندرگاہ کانڈلہ سے، صبح سات بجے صوبہ بنگال کے تاریخی شہر کلکتہ کی جانب روانہ ہوا تھا۔ بحیرۂ عرب کی موجوں میں ہلکا سا تلاطم تھا، ذرا تیز ہوا بہہ رہی تھی، اکادکا سمندر پرندے جہاز کا طواف کرتے اب بھی دیکھے جاسکتے تھے۔ گیارہ بج چکے تھے، کپتان عرش الرحمن اور چیف آفیسر بمل دت کے درمیان دبے دبے سے غصے کے ساتھ بحث ہورہی تھی۔

بمل دت کہہ رہا تھا، ’’سر، کیا آپ نے شنڈلرزلسٹ (Schindler’s List) نہیں دیکھی؟‘‘

کپتان نے جہاز کی چرخی کو کسی قدر بائیں کو موڑتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہم تم دونوں ہی نے ساتھ دیکھی تھی، غالباً کلکتہ کے میٹروتھئیٹر میں، مگر اس فلم کا ہماری بحث سے کیا تعلق؟‘‘

’’تعلق ہے صاحب اور لازماً ہے۔ کیا اس میں شنڈلر کے نائب نے جو مذہب کے اعتبار سےیہودی تھا اپنے یہودی بھائیوں کی جان نہیں بچائی تھی؟‘‘

’’یقیناً بچائی تھی، مگر شنڈلر کو ان کی جانوں کا بھاری تاوان بھی تو ادا کرنا پڑا تھا۔‘‘ کپتان نے چرخی کو راست وضع پر قائم رکھتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ رک کر بولا:

’’اگر وہ نازیوں کو بصورت جنس یا نقد اس قدر بھاری تاوان ادا نہ کرتا تو یقیناً کئی یہودی نظر بندی ڈیروں میں مار دیے جاتے۔‘‘

’’ہاں صاحب یہی تو میں کہہ رہا ہوں اور ایک مسلمان کی حیثیت سے نہ ایک ہندو کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں، بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کہ آپ انھیں کلکتہ لے چلیے۔ وہاں دیکھیں گے کہ وہاں کی مارکسی حکومت ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ وہ انھیں پناہ میں لے لے گی۔‘‘

ابھی کچھ دیر پہلے کوارٹر ماسٹر شمسی نے آکر اطلاع دی تھی کہ جہاز پر رکھے ہوئے ایک کنٹینر (Container) کے اندر سے بچے کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جب کپتان نے اس بات کی وضاحت طلب کی تو اس نے کہا:

’’جناب میں حسب معمول ڈیک صاف کر رہا تھا۔ صفائی کرتاہوا جب میں کنٹینر نمبر ستائیس تک پہنچا تو اس کے اندر سے مجھے بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ پھر مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے بچے کا منہ داب دیا ہے۔ پہلے تو مجھے خوف محسوس ہوا کہ کنٹینر سے بچے کی آواز آنے کا کیا مطلب؟ کوئی بچہ تو اس کے اندر موجود نہیں؟ اگر ہے تو اس کا منہ داب دینے کا کیا مطلب؟ اس کے علاوہ بھی اس کنٹینر میں کوئی موجود تو نہیں؟ میں دبے پاؤں وہاں سے چلتا ہوا برج پر آگیا تاکہ یہ ماجرا آپ سے بیان کر سکوں۔‘‘

موٹر ویسل گاندھی ایک خستہ حال جہاز تھا۔ اسے کئی سال سے مرمت درکار تھی۔ ڈرائی ڈاکنگ (Dry Docking) کے لیے جہاز کو وزاگا پٹم لے جانے کے کپتان عرش الرحمن کو احکام مل چکے تھے تاکہ وہاں اس کی ازسرنو مرمت ہو، مگر آخری لمحوں میں وہ احکام منسوخ کردیے گئے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ گاندھی کے مالکان کو گجرات کی ایک بڑی چرم ساز کمپنی سے مال و اسباب کی باربرداری کا بڑا ٹھیکہ مل گیا تھا۔’’نور تم داس پر شوتم داس‘‘جہاز رانی کی کوئی سو سال پرانی کمپنی تھی جس کے مالکان اپنے پرکھوں کے قائم کردہ تجارتی اصولوں پر کام کرتے چلے آئے تھے۔ انہوں نے نہ تو کبھی صوبائی حکومت کے مقرر کردہ قوانین کو لانگھنا چاہا تھا،نہ مرکزی حکومت کی مرتب کردہ پالیسی کے خلاف بلاوجہ آزادی لینے کی کوشش کی تھی۔

چنانچہ جب کپتان عرش الرحمن نے کمپنی ہیڈکوارٹر کو بذریعہ فیکس اطلاع دی کہ ایک کنٹینر میں کوئی چالیس کے قریب گجرات کے مہاجر ہیں۔ ان میں نو بچے ہیں، پچیس عورتیں ہیں اور گیارہ ضعیف مرد ہیں۔ ان کا فہرست میں کوئی ذکر نہیں، اس لیے مجھے مطلع کیجئے کہ میں ان کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کروں۔‘‘

کچھ دیر پہلے کپتان کے حکم دینے پر کنٹینر نمبر ستائیس کی مہر توڑ دی گئی تھی۔ پھر تالا کھولا گیا تھا، کنٹینر کا بولٹ اتارا گیا تھا۔ پھر شمسی نے جوں ہی کنٹینر کا دروازہ کھولا تو اندر سے سخت بدبو کا ایک بھپکا باہر آیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اندر بچے، عورتیں اور مرد تقریباً الگ الگ قطاروں میں بیٹھے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ ان سب کی آنکھیں ان کے ہاتھوں میں تھیں۔ نہ جانے کتنے عرصے سے وہ گھپ اندھیرے اور غلاظت میں بند تھے۔ کپتان نے ان کو عرشے کے ایک گوشے میں لے جاکر،حمام کرانے اور حمام کے بعد انھیں ہلکی غذا دینے کی ہدایت کی۔

کمپنی کے ڈائریکٹر چھبیل داس کی میز پر، آفس منیجر مسٹر ڈی کو سٹانے، موٹر ویسل گاندھی سے آیا ہوا فیکس رکھ دیا اور ان کا احکام سننے کے لیے وہاں کھڑا رہا۔ انہوں نے فوراً کمپنی کے بڑے عہدے داروں کی بیٹھک طلب کی اور حاضرین کو وہ فیکس پڑھ کر سنایا اور کہا کہ موجودہ صورت میں کپتان ہی مناسب شخص ہے جو اس موقع پر صحیح فیصلہ کرسکتا ہے۔

اوبیرائے صاحب نے کہا:

’’مجھے تو آج سے پچپن ساٹھ سال پرانے ملکی تقسیم کے بعد پیش آنے والے واقعات یاد آنے لگے کہ کیسے لوگوں نے چھکڑوں پر، تانگوں میں، پیدل اور مال گاڑی کے ڈبوں میں سرحد پار کی تھی۔ یہ خانماں برباد بھی انھیں کے سے بلکہ ہم جیسے دکھائی دے رہے ہیں۔ بھائی چھبیل داس جی! ٹوبہ ٹیک سنگھ سے امر تسر اور امرتسر سے دہلی کے سفر کا حال کیا سناؤں۔ کیا کچھ نہ دیکھا ان آنکھوں نے، اب تو اس کے تصور ہی سے، اندھیری راتوں میں اٹھ بیٹھتا ہوں اور بھوت بھوت کہہ کر چلانے لگتا ہوں۔‘‘

چھبیل داس نے منیجر ڈی کوسٹا سے رائے مانگی۔ اس نے کہا کہ میں بین الاقوامی قوانین جہاز رانی کے مینول دیکھ رہا تھا، تاکہ فوری طور پر ان سے رہنمائی حاصل کرسکوں۔ ضابطوں میں 1973 کے حوالے سے یہ بات درج ہے، کہ بندرگاہ چھوڑ دینے کے بعد، اگر کپتان کو یہ اطلاع ملے کہ اس کے جہاز پر کوئی ایسا شخص سوار ہے، جس کا جہاز کے مسافروں یا عملے کی فہرست میں نام درج نہیں، تو ایسے شخص کو، اپنی منزل پر پہنچ کر، انتظامیہ کے حوالے کر دے، یا اسے محسوس ہو کہ وہ زیادہ وقت گنوائے اسی بندرگاہ کو لوٹ کر جاسکتا ہے، جہاں سے وہ شخص جہاز پر سوار ہوا تھا تو لوٹ جائے اور وہاں بندرگاہ کی انتظامیہ کے اس شخص کو حوالے کردے۔‘‘

چھبیل داس جی نے کہا: ’’ٹھیک ہے وہ تو سات روز کے بعد کلکتہ پہنچیں گے۔ ان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ واپس ہوجائیں اور کانڈلہ پر وہ کنٹینر انتظامیہ کی تحویل میں دے دیں۔‘‘

پچھتر سالہ اوبرائے صاحب نے کہ جن کا شمار بھی ڈائریکٹروں میں ہوتا تھا، کہا:

’’چھیبل داس جی یہ ہمارے لیے سب سے سہل راستہ ہے کہ ہم، ان مہاجروں کو، پھر سے گجرات حکومت کے حوالے کردیں۔ اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ میں نے مرحوم کرشن چندر کی ایک کتاب پڑھی تھی ’’ہم وحشی ہیں۔‘‘ اسے پڑھ کر میں نے انہیں لکھا تھا کہ آپ نے برصغیر کے دو بڑے فرقوں سے بلند ہو کر نہ سینتالیس کے حالات پر افسانے لکھے ہیں۔ اور انسان کے اندرون میں بسے ہوئے اس وحشی سے اپنے قاری کو متعارف کیا ہے، جس سے آشنا ہو کر آپ کا قاری، دم بخود رہ جاتا ہے۔

’’کرشن جی نے میرے خط کے جواب میں لکھا تھا کہ دونوں ہی فرقوں کے ہاتھوں قتل و غارت ہوا، آتش زنی اور لوٹ مار کی وارداتیں دونوں ہی نے سر انجام دیں، عصمت دری اور عورتوں کو داغ دینے کے واقعات کے ذمے دار دونوں ہی فرقے کے لوگ ہیں۔ لیکن اب ہمیں اتنا کچھ جھیل جانے کے بعد یہ خیال رکھنا چاہئے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔

’’تو چھیبل داس جی آپ عرش الرحمن سے کہیے کہ وہ کنٹینر لے کر سیدھا کلکتہ چلا آئے۔ ہم یہاں دیکھیں گے کہ ہماری ہوم منسٹری ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔ ان کے کلکتہ پہچنے تک، ہم مسٹر اہلوالیہ، ہوم سکریٹری سے رابطہ قائم کر کے اس معاملے میں مشورہ طلب کر لیں گے۔‘‘

کمپنی کی جانب سے جب ایم وی گاندھی پر چھبیل داس جی کا دستخط کیا ہوا فیکس پہنچا، تو اس وقت جہاز کانڈلہ کی جانب موڑ لیا گیا تھا، کیوں کہ عرش الرحمن ایک سینئر کپتان تھا اور جہاز رانی کے قوانین اور احکامات سے بخوبی واقف تھا۔

اس نے بمل دت کو فیکس دکھاتے ہوئے کہا، ’’یہ دنیا والے کبھی کسی کو اپنے غیر جانب دار ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ گوکہ اس کنٹینر میں آئے ہوئے تمام لوگ میرے بہن بھائی ہیں۔ مگر میں ان کے ساتھ کیوں کر امتیازی سلوک کر سکتا تھا؟ اچھا ہوا جو یہ حکم آگیا۔‘‘

’’سر، ہمارے پاس قوت اختیار تو تھی۔ مگر آپ دوسرا حق انتخاب استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔‘‘ بمل دت نے جواب دیا۔

عرش الرحمن مسکرایا اور بولا:

’’اچھا جاؤ اور اسٹور میں دیکھ آؤ کہ راشن پانی مناسب مقدار میں موجود ہے کہ نہیں۔‘‘

اسی لمحے شمسی پھر دوڑتا ہوا برج میں آیا۔

’’کیا بات ہے شمسی، تم اتنے گھبرائے ہوئے کیوں لگ رہے ہو؟‘‘

’’سر! سر! کنٹینر نمبر سولہ سے بھی، میں نے ابھی ابھی ایک بچے کو رونے کی آواز سنی ہے۔‘‘
————————————————–

From lockdown to lockup by Dr. Salim Khan

Articles

لاک ڈاون سے لاک اپ تک

ڈاکٹر سلیم خان

کورونا کے غم کی لہر کو لاک ڈاون نے خوشی میں بدل دیا ۔ جمال کے گھر میں اس کی بیوی جمیلہ کے سوا ہر کوئی خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ جمال کے والد کمال صاحب اس لیے خوش تھے کہ پہلی بھر سارے گھر کے لوگ ایک ساتھ جمع تھے ۔ کوئی کہیں آجانہیں رہا تھا ۔ اپنے آپ میں مست لوگ کم ازکم گھر کے اندر تو تھے ۔ اپنی بہو ، بیٹے اور پوتوں و پوتیوں کو ایک ساتھ دیکھ کر ان کو بہت اچھا لگ رہا تھا ۔ کمال صاحب کی اہلیہ افسری بیگم کو خوشی اس بات کی تھی اب گھر کا سارا کام ان کی بہو کو کرنا پڑ رہا تھا۔ جمیلہ بہو بننے سے قبل ٹیچر بن چکی تھی۔ اس لیے گھریلو کاموں سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کے اس کے پاس ہزار بہانے ہوتے تھے ۔ اسکول کے اندر نہایت چاک و چوبند رہنے والی جمیلہ گھر آتے ہی تھک کر چور ہوجاتی تھی ۔
جمیلہ کا ابتداء میں یہ معمول تھا کہ دو پہر کو ساس کے ہاتھ کا بناکھاکر سونا اور شام میں اٹھ کر بچوں کے پرچے جانچنا۔ افسری بیگم پوچھتیں کہ بہو تم پڑھاتی بھی ہو یا امتحان ہی لیتی رہتی ہو تو اس کا جواب ہوتا ۵ کلاسوں کو پڑھاتی ہوں ۔ ہر ایک کا ماہانہ ٹسٹ ہوتا ہے۔ پہلے پرچہ ترتیب دینا ہوتا ہے اور پھر جانچنا اس طرح پورا مہینہ اسی کی نذر ہوجاتا۔ جمیلہ کے ببلو اور ببلی جب اسکول جانے لگے تو ان کے پڑھانے کا کام بڑھ گیا ۔ اسی کے ساتھ محلے بھر کے بچے گھر میں پڑھنے کے لیے آنے لگے ۔ اس طرح چونکہ اضافی آمدنی ہوجاتی تھی اس لیے افسری بیگم نے اسے بھی برداشت کرلیا اور شام کا کھانا بھی خود بنانے لگیں ۔ سچ تو یہ ہے افسری بیگم کو لاک ڈاون کی بدولت پہلی بار اپنی بہو سے خدمت لینے کا موقع ملا تھا ۔
افسری بیگم کی زندگی میں سب سے اچھا وقت سرما اور گرما کی تعطیلات میں آتا ۔ چھٹیوں میں نتائج تقسیم کرنے تک جمیلہ بے حد مصروف رہتی اور اگلے ہی دن اپنے شوہر بچوں سمیت میکے ملکا پور چلی جاتی ۔ افسری بیگم کو اس کا کوئی افسوس نہ ہوتا کیونکہ اول تو ان کے کام کا بوجھ کم ہوجاتا اور ایک دو دن کے اندر ان کی دبیٹیاں اپنے میکے آجاتیں ۔ پھر کیا خدمت ہی خدمت۔ سچ تو یہ ہے کہ کمال صاحب اور افسری بیگم کے لیے وہی سب سے اچھا زمانہ ہواکرتا تھا لیکن اس زمانے نہ جمال موجود ہوتا اور نہ ببلو و ببلی ۔ بچوں کی کمی دادا اور دادی کو بہت کھلتی لیکن وہ بیچارے کر بھی کیا کرسکتے تھے۔ لاک ڈاون نے سب کچھ بدل دیا تھا۔ اسکول اور ٹیوشن سب بند ہوگئے تھے ۔ بچے خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے ۔ انہیں نہ جانے کس نے بتا دیا تھا کہ اس سال امتحان بھی نہیں ہوں گے اور وہ بغیر کسی ابتلاء وآزمائش کے اگلی کلاس میں ڈھکیل دیئے جائیں گے ۔
ان سب سے زیادہ خوش جمال تھا کیونکہ وہ جس بین الاقوامی کمپنی میں کام کرتا تھا اس کے دفاتر ہانگ کانگ اور سنگاپور سے لے نیویارک اور لاس اینجلس تک پھیلے ہوئے تھے ۔ صبح آنکھ کھلتی تو مشرق بعید کے ای میل اس کے جواب کا منہ کھولے انتظار کررہے ہوتے۔ اس لیے کہ دفتر کا سارا ریکارڈ اس کے کمپیوٹر میں بند تھا اور اس کام مختلف دفاتر کو معلومات فراہم کرنا تھا۔ اس کو بستر پر چائے پیتے ہوئے بھی دوچار ضروری جوابات دینا پڑجاتے تھے۔ دفتر پہنچنے تک ہندوستان اور جنوب ایشیا کا سلسلہ جاری ہوجاتا۔ دوپہر بعد یوروپ سے آنے والے خطوط کا اضافہ ہوجاتا اور شام میں جب ہانگ اور سنگاپور والے سونے کی تیاری کرنے لگتے تو امریکہ بیدار ہوجاتا ۔ یہاں تک کہ بستر پر جانے تک بھی کچھ نہ کچھ کام بچ ہی جاتا تھا ۔
وقت کی چکی میں بری طرح پسنے والا جمال یہ سمجھنے سے قاصر تھاکہ آخر اس کا ہر گاہک اور ہر افسر گھوڑے پر سوار ہوکر کیوں آتا ہے ۔ ان کو اتنی جلدی کیوں ہوا کرتی ہے۔ جیسے اگر یہ معلومات فوراً نہ ملے تو آسمان پھٹ جائے۔ ان گھڑسواروں کو جمال کے ٹاپ کے نیچے روندے جانے کا احساس تک نہیں ہوتا تھا لیکن کورونا کی وباء نے وقت کا پہیہ روک دیا تھا اور اب وہ گھوڑے بیچ کر سونے لگا تھا ۔ وہ اپنا ایک ایک ارمان نکال رہا تھا ۔ یو ٹیوب پر ایسی ساری ویڈیوز اس نے دیکھ ڈالی تھیں جن سے مستفید ہونا اس کے تصور بھی محال تھا۔ ایسے ایسے دوستوں سے فون اور فیس بک پر رابطہ استوار کرچکا تھا جو ماضی کے دھندلکے میں نہ جانے کہاں کہاں کھوگئے تھے۔
اس بیچ اپنے موبائل میں کھوئے ہوئے جمیل کو جمیلہ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا اب سبزی ترکاری لاوگے یا پھر سے دال چڑھا دوں ۔
جمیل سر اٹھائے بغیر بولا چڑھا دو دال ۔ میں نے کب اعتراض کیا ہے؟
آپ کے اعتراض کی مجھے پروا کب ہے؟ لیکن اب تو بچے بھی دال روٹی کھاتے کھاتے بور ہونے لگے ہیں ۔
تو ان کو سمجھاو کہ لاک ڈاون ہے ۔ گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ نہیں مانتے ۔ کہتے ہیں سبزی ترکاری بک رہی ہے۔ دوستوں اور سہیلیوں کے یہاں سب بنتا ہے تو ہمارے یہاں کیوں نہیں بن سکتا؟
جمال کسمساتے ہوئے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا تو افسری بیگم نے پوچھا بیٹے لاک ڈاون میں ایسے منہ اٹھائے کہاں چل دیئے؟
بازار جارہا ہوں امی۔ کچھ سبزی ترکاری لے آوں ۔ بچے روز روز دال چاول کھاتے کھاتے بیزار ہوگئے ہیں ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن کم ازکم ماسک تو لگا لو ۔ میں نے سنا ہے بغیر ماسک کے جانے پر جرمانہ لگتا ہے۔
کمال صاحب بولے جرمانہ کے ساتھ ڈنڈے بھی پڑتے ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں حفظ ماتقدم کو طور پر دستانے بھی پہن لو۔
جمال کے باہر نکلنے کے بعد ببلو نے اپنے دادا سے پوچھا ہمارے ابو کو ڈنڈے سے کون مار سکتا ہے؟
کمال صاحب بولے پولس والے اور کون ؟
ببلی نے پوچھا کیا پولس بھی ہماری ٹیچر کی طرح بلاوجہ مار پیٹ کرتی ہے ۔
افسر بیگم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا بیٹی یہ سوال تم اپنی امی سے کرو۔
باورچی خانے سے جمیلہ کی آواز آئی ۔ دادی پوتی میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟
ببلو بولا امی یہ گھچڑی نہیں بریانی ہے ۔ دم بریانی اور سب ہنسنے لگے ۔
جمال نے اپنی بلڈنگ سے نکل کر بازار کی جانب چلتے ہوئے بس اسٹاپ پر دیکھا تو وہاں بنچ پر ایک آدمی سویا ہواتھا ۔ پاس میں جمال کی طرح کورونا سے بے خوف ایک مور ناچ رہا تھا ۔ جمال کبھی خواب میں بھی سوچ نہیں سکتا تھا اس چہل پہل کے وقت کوئی مور بھی اس طرف آسکتا ہے۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھا ۔عام طور پر دن بھر اس بس اسٹاپ پر بھیڑ لگی ہوتی ۔ بسوں کا تانتہ لگا رہتا تھا ۔ ایک نکلتی تو دوسری آتی دکھائی دیتی لیکن اب سب کچھ بدل گیا تھا ۔ بس اسٹاپ کے قریب پہنچ کر جمال نے لیٹے ہوئے نوجوان کو دیکھا تو اس کا پیٹ پیٹھ سے لگا ہواتھا ۔ اس کو فوراً وزیر اعظم کی نصیحت یاد آگئی ۔ ہر انسان دوسرے کا درد محسوس کرے اور اسے کھانے کو دے لیکن اس کا جھولا اس وقت خالی تھا۔ اس کی جیب نوٹ تو تھے لیکن اس سے پیٹ نہیں بھرتا تھا ۔
بازار میں جمال نے سبزیوں تین چار گنا بھاو سنے تو اسے وزیر اعلیٰ کی تقریر یاد آگئی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ کسی کو منافع خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس نے سبزی والے سے کہا خدا سے ڈرو، کم ازکم اس مشکل وقت میں تو لوٹ مار نہ کرو ؟
سبزی فروش بولا صاحب ہم کیا کریں ۔ جو بھاو مال ملتا اسی میں دو پیسہ بڑھا کر بیچتے ہیں ۔ آخر ہمارے بھی تو بال بچے ہیں؟
ارے لیکن یہ بھی کوئی بھاو ہے ؟میں پولس کو شکایت کروں گا ۔
ہم تو کورونا سے نہیں ڈرتے ۔ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر آپ لوگوں کو سیوا کررہے ہیں اوپر سے آپ دھمکا رہے ہیں ۔ لینا ہے لیجیے ورنہ اپنا راستہ ناپیے۔
جمال کو ایسے جواب کی توقع نہیں تھی۔ اس نے سوچا کہیں جمیلہ نے اس کے ذریعہ انتقام تو نہیں لے لیا لیکن کہاں جمیلہ اور کہاں یہ سبزی والا؟ سبزی ترکاری لے کر لوٹتے ہوئے جمال کو پھل والا دکھائی دیا ۔ وہ پھلوں کے لیے ہفتہ بھر سے ترس گیا تھا ۔ اس نے سیب ، انگور، کیلے اور نہ جانے کیا کیا خرید لیے یہاں تک کہ پھلوں کا تھیلا سبزی سے زیادہ بھاری ہوگیا ۔ اس ناپسندیدہ مہم سے فارغ ہوکر گھر لوٹتے ہوئے جمال جب بس اسٹاپ پر پہنچا تو اسے بنچ پر وہی لڑکا سویا ہوا نظر آیا۔ نیچے ایک کتا بیٹھارال ٹپکا رہا تھا ۔ بے حس و حرکت پڑی ہوئی لاش کو دیکھ جمال کو گمان گزرا کہیں یہ شخص مرمرا تو نہیں گیا۔ اس نے قریب آکر غور سے دیکھا تو سانس چل رہی تھی لیکن پیٹ وہی پیٹھ سے چپکا ہوا تھا۔ جمال نے سوچا اگر یہ کورونا سے نہیں تو بھوک سے مرجائے گا۔ اس نے اپنےبڑے تھیلے سے سیب کی چھوٹی تھیلی نکالی اور اس نوجوان کو جگایا۔
نوجوان نے آنکھ کھولتے ہی پوچھا کون ہو تم ؟ میرے پاس کیوں آئے ہو ؟ مجھ سے کیا چاہیے ؟
مجھے کچھ نہیں چاہیے۔ میں تمہیں یہ پھل دے رہا ہوں ۔ تم اسے کھالو۔
پھل ۰۰۰؟پھل مجھے کیوں دینا چاہتے ہو؟؟ ۰۰۰۰تم ہو کون پہلے یہ تو بتاو؟؟ ؟۰۰۰۰۰۰۰کون ہو تم؟ ؟؟؟
تم کو اس سے کیا غرض کہ میں کون ہوں ؟ میں تمہیں پھل دے رہا ہوں ۔ اسے کھاو اور مجھے دعا دو بس۔میں کچھ اور نہیں چاہتا۔
دعا ۰۰۰۰۰دعا ۰۰۰۰۰۰سمجھ گیا ۰۰۰۰۰۰۰سب سمجھ گیا ۰۰۰۰۰۰۰کیا نام ہے تمہارا؟ ۰۰۰۰۰۰پہلے اپنا نام بتاو ؟
جمال کی سمجھ میں اس کی بوکھلاہٹ نہیں آرہی تھی پھر بھی وہ بولا ۔ جمال ۰۰۰۰محمد جمال ہے ۰۰۰۰۰۰نام میرا۔
یہ الفاظ اس پر نوجوان پر بجلی بن کر گرے اور اس نے جمال پر گھونسوں اور مکوں کی برسات کردی ۔ اپنے آپ کو ایک ناگہانی حملے سے بچانے سے قبل جمال بے ہوش ہوچکا تھا ۔ کتا زور زور سے بھونکنے لگا تھا ۔یہ سن آس پاس کی بلڈنگ کے چوکیدار دوڑ پڑے اور اس نوجوان کو دھر دبوچا۔ وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا لیکن بے بس کردیا گیا۔ ان میں ایک واچ میں نے جمال کو پہچان لیا ۔ اتفاق سے وہاں پولس کی گشتی گاڑی پہنچ گئی ۔ چوکیداروں نے اس نوجوان کو پولس کے حوالے کردیا ۔ پولس نے چوراہے پر کھڑے تنہا رکشا کو بس اسٹاپ پر بھجوادیا۔ جمال کا چہرا سوج گیا تھا اورگرنے کے سبب سر پر لگی چوٹ سے خون بہہ رہا تھا ۔ اس رکشا میں ڈال کر قریب ہی جمال کی بلڈنگ تک پہنچایا گیا۔ اس بیچ جمال کو ہوش بھی آگیا اور اپنے چوکیدار کی مدد سے پہنچ گیا۔
جمال کی حالتِ زار دیکھ کر اس کی امی کمال صاحب پر بھڑک گئی ۔ دیکھا آپ کی بدشگونی کا اثر میرے بیٹے پر کیا ہوا ۔
ببلو نے کمال صاحب سے پوچھا دادا جی پولس والوں نے ہمارے ابو کے ساتھ یہ کیوں کیا ؟
ببلی نے امی سے سوال کیا یہ پولس والے ایسے ظالم کیوں ہوتے ہیں ؟
باورچی خانے میں افسری بیگم ہلدی کا لیپ بناتے ہوئے کینہ توز نظروں سے کمال صاحب کو دیکھ رہی تھیں اوروہ احساس جرم کے بوجھ تلے ایک طرف بت بنے کھڑے ہوئےتھے ۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا بولیں ۔وہ ایسا محسوس کرنے لگے تھے گویا سارا قصورا انہیں کا ہے۔
جمیلہ نے جلدی چہرہ صاف کیا ۔سر پر لگے زخم پر پٹی باندھتے ہوئے بولی اس کورونا کے زمانے میں تو دماغ ٹھنڈا رکھا کرو۔ کس لڑائی کرلی ؟
جمیل بولا میں نے کسی سے لڑائی نہیں کی ۔ میں تو اسے سیب دینے گیا تھا مگر وہ مجھ پرٹوٹ پڑا۔
کون تھا وہ ؟ کس پر رحم آگیا تھا آپ کو ؟؟ جمیلہ نے پھر سوال کیا
میں نہیں جانتا وہ کون تھا ؟
نہیں جانتے؟ نہیں جانتے تھے تو اس کو سیب دینے کی ضرورت کیا تھی؟
کیسی باتیں کرتی ہو بیگم ؟ کسی بھوکے کو کچھ دینے کے لیے اس کو جاننا ضروری ہوتا ہے کیا؟
جمیلہ بے یقینی سے بولی لیکن کسی کی مدد کرو تو اس کے جواب میں وہ مکےّ تھوڑی نا برساتا ہے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ آپ کچھ چھپا رہے ہیں؟
میں کیوں چھپاوں بیگم ۔ جاو یہاں سے اور میرا پیچھا چھوڑو ۔ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔
افسری بیگم ہلدی کا لیپ لے آئیں اور بولیں بیٹے سیدھے لیٹ جا۔ میں یہ لگاتی ہوں ابھی آرام ہوجائے گا۔ بہو بیگم تم دودھ میں تھوڑا ہلدی ڈال کر ابال لاو ۔ اس سے یہ سوجن اتر جائے گی ۔ جمیلہ باورچی خانے کے اندر گئی اور جمال لیپ کے لگتے ہی سو گیا ۔ اس بیچ ببلو نے پڑوس میں جاکر اپنے دوست جگو کو سارا ماجراسنادیا جسے اس کے والد آنند شریواستو نے بھی سن لیا ۔
وہ فوراً دوڑ کر کمال صاحب کے پاس آئے اور پرنام کرکے پوچھا انکل یہ جمال بھائی کو کیا ہوگیا ؟ کس درندے نے ان کا یہ حال کردیا ۔
کمال صاحب بولے وہ کہہ رہا تھا کہ کسی نے بس اسٹاپ پر حملہ کردیا ۔
اچھاً لیکن اس نے ایسا مہاپاپ کیوں کیا ؟
جمال نے بتایا کہ وہ تو غریب سمجھ کر مدد کرنے کے لیے گیا تھا مگر اس نامراد ناہنجار نے گھونسوں کی بارش کردی ۔
ارے ! کمال ہے ۔ لگتا ہے چوری چکاری کا چکر ہوگا۔ آج کل لاک ڈاون کی وجہ لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، لوٹ مار بڑھ گئی ۔ کون جانےآگے کیا ہوگا ؟
کمال صاحب بولے لیکن جمال نے تو کہا کہ اس نےروپیہ یا سامان چرانے کی کوشش نہیں کی ۔
شاید اسے موقع نہیں ملا ہوگا۔ خیر کیا وہ حملہ آور بد معاش فرار ہوگیا ؟
جی نہیں اس کوپکڑ پولس کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
یہ بہت اچھا ہوا۔ مقامی تھانیدار میرا دوست ہے۔ میں اس سے ساری حقیقت جان لگا لوں گا اور ایسی سزا دلواوں گا کہ وہ سات جنم تک یاد رکھے گا ۔
جمال نیند سے اٹھا تو بغل والی بلڈنگ سے ڈاکٹراشوک شاہ نے آکر مرہم پٹی کردی اور کچھ گولیاں دے گئے ۔ دوست و احباب کے فون کا تانتہ لگ گیا ۔ ہرکوئی یہی سوال کرتا کہ کیا ہوا اور کیوں ہوا ؟ جمال سب کو دوسرے سوال کا جواب دیتا مجھے نہیں پتہ ۔ اس طرح ایک تحیر پیر پسار رہا تھا۔ کوئی جمال پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن جمال کے پاس ان کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ ان میں سب سے زیادہ بے چینی وکیل شریواستو کو تھی ۔ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ پہلا واقعہ تھا جس میں بلا وجہ کوئی حملہ ہوگیا تھا۔
گھر آکر شریواستو نے پولس تھانے میں فون لگایا اور اردلی سے اپنا تعارف کرا کر کہا کہ انسپکٹر وشواس راو کو فون دے ۔
وشواس راو آواز پہچان کر بولے فرمائیے آنند صاحب لاک ڈاون کے زمانے میں کیسے یاد کیا ؟
شریواستو بولے میں نے ایک چور کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے آپ کو فون کیا ہے جو فرار ہونے کی کوشش کررہا تھا؟
چور! کون سا چور ؟ شریواستو جی یقین مانیں جب سے کورونا آیا ہے اپنے علاقہ میں چوری کا ایک بھی معاملہ درج نہیں ہوا۔
اچھا ، کل تو میں نے ایک ویڈیو دیکھی کہ ماسک لگا کر اور دستانے پہن کر چوری کی جارہی ہے ۔
ارے شریواستو صاحب وہ اپنی ممبئی کا نہیں بلکہ پونہ کا واقعہ ہے اور چور اپنا چہرہ کورونا کی وجہ سے نہیں چھپاتے اور دستانے وبا کے سبب نہیں پہنتے ۔
اچھا یہ آپ کو کیسے پتہ ؟
کامن سینس وکیل صاحب ۔ آج کل جگہ جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں ۔ آپ نے جووہ ویڈیو دیکھی وہ بھی ایسے ہی ایک پوشیدہ کیمرے کا کمال تھا ۔
لیکن کیمرے کا ماسک سے کیا لینا دینا ؟
ارے بھائی کوئی چور پکڑا جانا نہیں چاہتا اس لیے اپنا چہرہ چھپاتا ہے اور اپنی انگلیوں کا نشان چھپانے کے لیے دستانے پہنتا ہے ۔
یار تب تو چوری کا ڈر کورونا سے زیادہ ہے کیونکہ ایک مستقل اور دوسرا عارضی ہے ۔
جی ہاں لیکن آپ کس چور کی بات کررہے تھے۔
وہی جس کو ابھی دوگھنٹے قبل ٹیگور روڈ چوراہے سے گرفتار کرکے چوکی میں بھیجا گیا۔
اوہو!سمجھ گیا ۰۰۰شریواستو جی وہ چوری کا نہیں بلکہ کوئی معاملہ ہے ۔
اور معاملہ! میں نہیں سمجھا ۔ مجھے تو چوری کی واردات نظر آتی ہے لیکن جمال بھی یہی کہہ رہا ہے اور آپ بھی اس کی تائید کررہے ہیں ۔
جمال کی بات درست ہے لیکن اس کا کیا خیال ہے؟ اس پر کیوں حملہ کیا گیا؟؟
وشواس راو صاحب وشواس کریں وہ کہتا ہے کہ اسے وجہ تو نہیں معلوم لیکن یہ چوری کا معاملہ نہیں ہے ۔
دیکھیے شریواستو صاحب یہ ذرا نازک بات ہے۔ میں نے کمشنر صاحب سے بات کی ہے۔ انہوں نے بھی اس پرخاموشی اختیار کرنے کی تلقین کی ہے
وہ کیوں؟ ایک آدمی پر جان لیوا حملہ ہوگیا۔ وہ تو خیر جمال اچھا صحتمند آدمی تھا ۔ میرے جیسا دبلا پتلا ہوتا تو بھگوان کو پیارا ہوجاتا ۔
جی ہاں لیکن اگر یہ بات میڈیا میں پھیل جائے تو بدنامی ہوگی اس لیے اسے رفع دفع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تو کیا آپ نے اس بدمعاش کو چھوڑ دیا ہے؟
جی نہیں ، جب تک جمال اجازت نہ دے ہم اس کونہیں چھوڑیں گے۔
ٹھیک ہے اور میں بھی اس کو نہیں چھوڑوں گا۔ جمال میرا بہت اچھا ہم سایہ ہے ۔ میں اس پر ہاتھ اٹھانے والے کو سزا دلا کر رہوں گا۔
آپ کی بات سر آنکھوں پر، مگر یہ تو بتائیے کہ اب جمال کا کیا حال ہے؟
اس کی طبیعت سنبھل رہی ہے۔ ڈاکٹر شاہ کا کہنا ہے کہ فکر کی کوئی بات نہیں ہفتہ دس دن میں پتہ بھی نہیں چلے گا کیا ہوا تھا ۔
ٹھیک ہے تو جب اس کا من کرے آپ مجھے فون کرکے آجائیں ۔ ہم لوگ پولس تھانے میں بات کریں گے ۔
اچھا لیکن تب تک ہم کیا کریں؟
آپ لاک ڈاون میں بند رہیں وہ لاک اپ میں بند رہے گا۔ اسی کے ساتھ فون بند ہوگیا ۔
اس گتھی نے شریواستو کی بے چینی بڑھا دی تھی ۔ وہ جمال اور اس کے گھروالوں سے زیادہ پریشان تھا اور چاہتا تھا کہ جلد ازجلد پولس تھانے میں وشواس راو اور اس بدمعاش سے مل کر اس معمہ کو سلجھائے۔ تین دن بعد جمال قدرے ٹھیک ہوگیا اور شریواستو نے اس کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے تیار کرلیا۔ وہ لوگ پولس تھانے پہنچے تو وشواس راو کو منتظرپایا ۔ اپنے کمرے میں لے جاکروہ جمال سے بولا آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔
شریواستو بیچ میں بول پڑا ۔ صاحب مجھے اس کی وجہ جاننا اور وہ ایف آئی آر دیکھنی ہے ۔ میں جاننا چاہتا ہوں اس پر کون سی دفعات اس پر لگائی گئی ہیں ۔
وشواس راو بولے شریواستو جی دھیرج رکھیے ۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے؟
جمال بولا صاحب مجھے تو صرف وجہ جاننے میں دلچسپی ہے۔ میں تو اس کی مدد کرنے کے لیے گیا تھا ۔
جی ہاں، یہی میں آپ سے جاننا چاہتا ہوں کہ اس دن کیا ہوا؟
کچھ نہیں۔ میں نے اس کا پچکا ہوا پیٹ دیکھا تو سوچا کہ بھوکا ہوگا ۔ اس لیے اس کو سیب دینے کی پیشکش کی ۔
اچھا تو پھراس کے بعد کیا ہوا؟
اس نے میرا نام پوچھا اور مجھ پر پِل پڑا۔ میں اس غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے بے ہوش ہوگیا ۔
جی ہاں اس نے بھی یہی کہا ہے۔
شریواستو بولے لیکن یہ کیا پاگل پن ہے کہ کوئی مدد کرنے کے لیے آئے تو اس پر ہلہّ بول دیا جائے ۔
یہ سوال میں نے اس سے پوچھا تو اس کا جواب تھا کہ سیب کے اندر کورونا کا وائرس تھا ۔
یہ سن کر دونوں ہکا بکارہ گئے ۔ کورونا کا وائرس ؟ یہ اس کو کیسے پتہ چل گیا۔جمال نے پوچھا
کیا بتائیں صاحب یہی سوشیل میڈیا کا زہر ۔ اس نے کئی پیغامات اور ویڈیوز دیکھ رکھے تھے جن میں بتایا گیا کہ مسلمان کورونا پھیلا رہے ہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ نیند کے اندر خواب میں بھی وہی دیکھ رہا تھا کہ کسی اجنبی نے اس کو جگا کر سیب دے دئیے ۔ نام سن کر اس کا شک یقین میں بدل گیا ۔
جمال کے لیے یہ انکشاف حیرت انگیز تھا لیکن شریواستو خود ایسے پیغامات دیکھ چکے تھے وہ بولے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ زہر اتنا زوداثر ہوگا؟
اب اس کا کیا حال ہے ؟جمال نے سوال کیا ۔
وہ اب اپنی حرکت پر نادم ہے ۔
شریواستو بولے ندامت سے کیا ہوتا ہے ؟ اس کو اپنے کیے کی قرار واقعی سزا بھگتنی پڑے گی۔
وشواس راو بولے ہم بھی اس کو سزا دینا چاہتے ہیں لیکن یہ گزارش ہے کہ اسے ماب لنچنگ کے بجائے صرف مارپیٹ کا معاملہ بنایا جائے تاکہ سرکار کی بدنامی نہ ہو اور فرقہ پرست عناصر اس کا بیجا فائدہ نہ اٹھا سکیں۔
جمال بولا مجھے تو وہ قابلِ رحم لگتا ہے۔ اس بیچارے کا برین واش کیا گیا ہے۔ کیا وہ واقعی نادم ہے۔
وشواس راو نے کہا یہ میرا قیاس ہے ۔ آپ خود اس سے مل کر اس کا فیصلہ کریں ۔آپ چاہیں تو میں اس کو بلوا بھیجوں ۔
جمال بولا جی ہاں اس کو بلوائیے۔ تھوڑی دیر بعد اردلی نے آکر کہا نہال سنگھ نہیں آنا چاہتا ۔ اس کا کہنا ہے مجھے سولی چڑھا دو تب بھی میں نہیں آوں گا۔
وشواس راو نے اٹھتے ہوئے کہا میں اس سے بات کرتا ہوں اور نہال سنگھ کے کوٹھری میں جاکربولے باہر آکر مل لے ۔ وہ بھلا مانس ہے ہاتھ پیر جوڑ تو معاف بھی کرسکتا ہے ورنہ تیری خیر نہیں ہے ۔ پانچ چھے سال تک تو نہ فیصلہ ہوگا اورنہ ضمانت ہوگی ۔ پھر دوچار سال کی جیل ہوجائے گی ۔
نہال بولا جو بھی ہو صاحب میں اس کے سامنے نہیں جاسکتا ۔ کوٹھری کے باہر شریواستو اور جمال یہ گفتگو سن رہے تھے۔
وشواس راو نے کہا پاگل نہ بن ۔ کیوں اپنی جوانی خراب کرتا ہے۔ چل میرے ساتھ ۔ وہ رحمدل انسان لگتا ہے۔
وہ تو ہے لیکن میں ۰۰۰۰۰میں ۰۰۰۰۰کیا میں انسان ہوں ۔ میں انسان نہیں حیوان ہوں ۔
یہ سن کر جمال کی پلکیں نم ہوگئیں ۔ وہ واپس آکر وشواس راو کے کمرے میں بیٹھ گیا کچھ دیر بعد نہال سنگھ بھی سرجھکا کر وہاں پہنچ گیا ۔ جمال نے اس کو دیکھ کر کہا دیکھو نہال غلطی حیوان نہیں کرتا ۔ غلطی انسان سے یا شیطان سے سرزد ہوتی ہے ۔
جی ہاں ۔ شریواستو بولے اس شیطان نے بہت مہا پاپ کیا ہے ۔ اس کو سزا ضرور ملے گی۔
جمال نے کہا نہیں ۔ شیطان اپنی غلطی پر اڑ جاتا ہے اور انسان نادم ہوتا ہے ۔ یہ شیطان نہیں انسان ہے۔
یہ جملہ سن کر نہال آگے بڑھا اور جمال کے قدموں پر گرگیا ۔ اس نے کہا صاحب آپ انسان نہیں بھگوان ہیں ۔
جمال نے اس کا کندھا پکڑ اٹھا یا اور کہا نہیں نہال میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں ۔ انسان کی غلطی انسان معاف کردیتا ہے لیکن دیکھو آئندہ اس راکشس سے بچ کر رہنا جس نے تمہیں شیطان بنانے کی کوشش کی ۔یہ کہہ کر جمال لاک اپ سے نکل کر لاک ڈاون کی جانب چل پڑے۔
———————————————————–