Majaz ke Shaeri Tareqa e kar by Prof. Sahfey Kidway

Articles

مجاز کے شعری طریقۂ کار کی شناخت آوارہ کے حوالے سے

پروفیسر شافع قدوائی

کسی تخلیق کار کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ناقد کو اس امر کا مکلّف نہیں بناتی کہ وہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات کے مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع ، اسلوب ،ہیئت ،ڈکشن اور فنی طریقۂ کارکے معروضی اور تجزیاتی مطالعے سے گریز کرکے محض موضوع کی Paraphrasingاور بعض غیر قطعی نیز پیش پا افتادہ تنقیدی اصطلاحات کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تنقیدی فریضے سے عہدہ بر آہوجائے ۔مقام افسوس ہے کہ اردو کے بیش تر ناقدین نے عہد حاضر کے ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی تعیین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقیدی سہل نگاری کا ثبوت دیا۔ہوا یہ کہ بیش تر ناقدین نے مجاز کے شعری اکتسابات اور فنی طریقۂ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان کی مقبولیت کو موضوعات کی عمومیت اور غنائیت کی رہین منت قراردیا۔ان کی شاعری’’رومانی انقلابیت‘‘اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی بدحالی،بے اطمینانی ،کرب اور شکستِ خواب کی مظہر قراردی گئی اور غزلوں و نظموں کی تحسن کے سلسلے میں بعض کلیشے مثلاََ ’’نغمہ باز غنائیت‘‘،’’لطافت احساس‘‘،’’جمالیاتی آہنگ‘‘،’’رومانی طرز احساس‘‘اور ’’ترقی پسند سماجی شعور‘‘وغیرہ تواتر اور شدومد کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ان کی شاعری کو’’نغمہ سنج کے گلے کے وفور‘‘کی زائید بھی ٹھہرایا گیا تاہم ’’آہنگ ‘‘ کے بالاستیاب اور مرکز آمیز مطالعے (Close Reading)کی کوئی سنجیدہ اور با معنی کوشش نہیں کی گئی۔یہی سبب ہے کہ مجاز کی شہر آفاق رومانیت کے اجزا ئے ترکیبی اور ان کے فن کے اسلوبیاتی و ہیئتی خصائص اب تک واضح نہیں ہو سکے پیں۔ کسی تخلیق کار کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ناقد کو اس امر کا مکلّف نہیں بناتی کہ وہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات کے مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع ، اسلوب ،ہیئت ،ڈکشن اور فنی طریقۂ کارکے معروضی اور تجزیاتی مطالعے سے گریز کرکے محض موضوع کی Paraphrasingاور بعض غیر قطعی نیز پیش پا افتادہ تنقیدی اصطلاحات کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تنقیدی فریضے سے عہدہ بر آہوجائے ۔مقام افسوس ہے کہ اردو کے بیش تر ناقدین نے عہد حاضر کے ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی تعیین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقیدی سہل نگاری کا ثبوت دیا۔ہوا یہ کہ بیش تر ناقدین نے مجاز کے شعری اکتسابات اور فنی طریقۂ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان کی مقبولیت کو موضوعات کی عمومیت اور غنائیت کی رہین منت قراردیا۔ان کی شاعری’’رومانی انقلابیت‘‘اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی بدحالی،بے اطمینانی ،کرب اور شکستِ خواب کی مظہر قراردی گئی اور غزلوں و نظموں کی تحسن کے سلسلے میں بعض کلیشے مثلاََ ’’نغمہ باز غنائیت‘‘،’’لطافت احساس‘‘،’’جمالیاتی آہنگ‘‘،’’رومانی طرز احساس‘‘اور ’’ترقی پسند سماجی شعور‘‘وغیرہ تواتر اور شدومد کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ان کی شاعری کو’’نغمہ سنج کے گلے کے وفور‘‘کی زائید بھی ٹھہرایا گیا تاہم ’’آہنگ ‘‘ کے بالاستیاب اور مرکز آمیز مطالعے (Close Reading)کی کوئی سنجیدہ اور با معنی کوشش نہیں کی گئی۔یہی سبب ہے کہ مجاز کی شہر آفاق رومانیت کے اجزا ئے ترکیبی اور ان کے فن کے اسلوبیاتی و ہیئتی خصائص اب تک واضح نہیں ہو سکے پیں۔ کلیم الدین احمد نے اس عام تنقیدی روش سے انحراف کرتے ہوئے مجاز کے کلام کو تجزیہ کے عمل (گو کہ یہ تجزیہ خاصا سطحی اور سرسری ہے)سے گزارکر یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے (مجاز)ہاں رومانیت کی خوبیاں کم اور نقائص زیادہ ہیں اور ان کی زیادہ تر نظموں میں کسی عمیق تجربے کا بیان نہیں ملتا۔انہوں نے مجاز کی مشہور نظم’’نورا‘‘کی اجمالی تشریح کے بعد لکھا کہ یہ نظم ایک شرارت کے بیان کو محیط 1ہے اور اس قسم کے معمولی ،رکیک اور سطحی خام جذبے موضوع شاعری نہیں ہوتے۔کلیم الدین احمد کے نزدیک مجاز کی تخلیقات میں عموماََ کسی تجربے کا وجود ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے بھی تو یہ تجربہ غیر اہم اور ناقابل اعتنا ہوتا ہے۔کلیم الدین احمد سمیت تقریباََ تمام ناقد،کیا ترقی پسند اور کیا غیر ترقی پسند ،اس بات پر متفق ہیں کہ مجاز طبعاََ اور اصلاََ رومانی شاعر ہیں۔ظاہر ہے کہ رومانی شاعری کی بعض واضح خصوصیات ہوتی ہیں اور اس نوع کے شعرا کی تفہیم کے سلسلے میں ان پیمانوں سے استنباط کیا جاتا ہے۔تاہم مجاز کی بیش تر شاعری کو ان اصولوں کی کسوٹی پرپرکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مجاز کے کلام پر پہلا اعتراض کہ ان کی شاعری میں غیر اہم اور ناقابل اعتنا تجربے بارپاتے ہیں اور اس نوع کے معمولی ،رکیک اور سطحی خام جذبے موضوع شاعری نہیں ہوتے ،کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ فن کی دنیا میں کوئی جذبہ یا تجربہ فی نفسہ اعلی یا ادنیٰ یا سطحی یا وقیع یا خام یا پختہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ اہم ان کے اظہار کی نوعیت ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تجربے(شاعری تجربے کا اظہار بھی یا نہیں،یہ الگ لائقِ بحث موضوع ہے)کافنکار انہ اظہار ہوا ہے یا نہیں۔اگر کوئی فن پارہ کمزور یا سطحی نظر آتا ہے تو سبب بیان کردہ تجربے کا کچا پن نہیں بلکہ Expressionکی ناکامی ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ مجاز کی بعض نظمیں اظہار کی ناکامی کے باعث یک رُخی ،اکہری اور ناکام لگتی ہیں مگر ایک طرف تو مجاز کو رومانی شاعر قراردیا جاتا ہے اور دوسری طرف شدومد کے ساتھ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی لازمی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے بعض غیر اہم تجربوں اور کمزور لمحوں کا بیان ملتا ہے۔یہ اعتراض ناقدین کی سہل نگاری پر دال ہے کیونکہ رومانی شاعرکی لازمی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے بعض غیر اہم Trivialنظر آنے والے تجربات وقیع تر، دور رس اور حد درجہInspiringلگتے ہیں اور یہ تجربے اس کی رومانی Sensibilityکے داعیوں کو غذا پہنچاتے رہتے ہیں اس لحاظ سے مذکورہ اعتراض Self Contradictoryٹھہرتا ہے۔ اس تنقیدی رائے کے صائب ہونے میں کلام نہیں کہ مجاز انقلابی شاعری کے دلدادہ ہونے کے باوجود بنیادی طور پر رومانی شاعر تھے۔لیکن مجاز کی رومانیت کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور پھر تخلیقات میں کس طرح ان کا اظہار ہوا ہے،نیز رومانیSensibilityکے مختلف ابعاد اور پہلوؤں کی ترسیل میں ان کے اسلوب ،ڈکشن اور فنی طریقہ کی نوعیت کیا رہی ہے،ان سوالات پر غور کرنے کے لئے مجاز کی شہر آفاق نظم ’’آوارہ‘‘کو تجزیے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔تجزیے میں’’آوارہ‘‘پر ناقدین کے اس عام اعتراض کا کہ اس کے آخری بند جذباتی جھلاہٹ کے آئینہ دار اور نظم و ضبط سے یکسر عاری ہیں،محاسبہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ زیر تجزیہ نظم ’’آوارہ‘‘ایک طرف تو رومانی طرز احساس کی مظہر ہے تو دوسری طرف مجاز کی فنی ہنر مندی کو بھی نشان زدکرتی ہے۔نظم کے مطالعے سے منکشف ہوتا ہے کہ موضوع سے قطع نظر مجاز کا فنی شعور بھی خاصا بالیدہ تھا۔شاعر نے بعض خارجی مظاہرکے حوالے سے اپنی حسیاتی اور جذباتی زندگی کی رواداد فنکارانہ شعور کے ساتھ بیان کی ہے۔احساس ہوتا ہے کہ نا آسودگی، رفاقت سے محرومی ،دوستوں کی گریزپائی اور مروجہ معاشرتی نظام سے مکمل بے اطمینانی شاعر کے داخلی وجود پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہے۔نظم کا ٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں،نہ صرف نارسائی کے جاں گسل احساسات کو نشان زد کرتا ہے بلکہ یہ احساس بھی کراتا ہے کہ استحصالی معاشرہ کے مختلف مظاہرے نے نظم کے واحد متکلم کو آتش زیر پا کردیا ہے،نیز آبلہ پائی اس کی جذباتی زندگی کی آخری پناہ گاہ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔شاعر نے داخلی احساسات کی عکاسی اور بعض خارجی مظاہر کی وساطت سے آبلہ پائی(Wandering)کی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لئے نظم کا پورا ڈھانچہ حرکت (Movement)پر استوار کردیا ہے۔نظم کے عنوان ’’آوارہ‘‘سے لے کر آخری بند تک افعال(Verbs) کا تواتر سے خلاقانہ استعمال مجاز کی فنی بالغ نظری کا ناقابل تردید ثبوت پیش کرتا ہے۔ حال سے مایوسی اور عدم اطمینان کا احساس اور پھر اس پورے نظام کو بدلنے کی خواہش کوئی جامدیا منفعل جذبہ نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل عمل اور جہد پیہم کی کیفیت ہے۔لہٰذا شاعر نے اس کیفیت کے اظہار کے لئے Action Verbsفنی چابکدستی سے استعمال کیے ہیں۔نظم کے ابتدائی بند کی ردیف ’’پھروں‘‘اور پھر اسی بند کے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں قافیے’’آوارہ‘‘اور ’’مارا‘‘ کے حوالے سے ایک متحرک بصری پیکر تخلیق کیا گیاہے۔نظم کے پانچویں بند میں ردیف ’’چل ‘‘ اور چھٹے بند کے تین مصرعے ’’ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں‘‘،’’ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں‘‘اور ’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘اصلاََفعلیاتی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔اس نظم کے کئی بندوں میں ردیف اور کافیے مرکب افعال پر قائم کیے گئے ہیں۔نویں بند میں ایک مرکب فعل’’توڑوں‘‘ردیف ہے،جبکہ گیارہویں بند کے تینوں مصرعوں ’’دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘،’’میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘اور ’’زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘میں قافیہ اور ردیف دونوں مرکب افعال پر استوار ہیں۔ اسی طرح بارہویں ،چودہویں اور پندرہویں بند میں بھی مرکب افعال ’’نوچ لوں‘‘۔’’توڑدوں‘‘اور’’ پھونک دوں‘‘ ردیف کا کام انجام دے رہے ہیں ۔اس نظم میں نہ صرف ایسے فعل اور مرکب افعال سے کسب فیض کیا گیا ہے جن سے عمل کے فوری پن اور سیال ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ بعض ایسی صفتیں بھی استعمال کی گئی ہیں جن میں تحریک کا ایک عنصر پوشیدہ ہے۔ ’’آوارہ‘‘میں استعمال کی گئیں صنعتیں تحریک کو نشان زد کرتی ہیں مثلاََپہلے بند کے دوسرے مصرعے ’’جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں‘‘میں ابتدائی ٹکڑا ’’جگمگاتی جاگتی سڑک‘‘ اصلاََایک متحرک دوہری صفت ہے۔اسی طرح دوسرے بند کے پہلے مصرعے ’’جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی‘‘میں صفت ’’جھلملاتے‘‘اور اسی بند کے تیسرے مصرعے ’’میرے سینے پہ مگر دہکی ہوئی شمشیرسی‘‘میں صفت’’دہکی ہوئی‘‘سے تحریک کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔متحرک صفتوں کے استعمال کی مثالیں اردو نظم میں شا ذہی ملیں گی۔ مجاز نے اپنی اس مشہور نظم میں افعال اور متحرک صفتوں کے علاوہ بعض ایسے اسم بھی استعمال کیے ہیں جو نظم کے ڈھانچہ(جواصلاََMovementپر استوار ہے)سے عملی طور پر ہم آہنگ ہیں کہ ان اسما کا تعلق بھی تحرک سے ہے۔مثلاََتیسرے بند میں اسم’’تاروں‘‘،چوتھے بند کے پہلے مصرعے ’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجڑی‘‘میں مستعمل اسما ’’ستارہ‘‘اور’’ پھلجھڑی‘‘کا براہ راست تعلق حرکت سے ہے۔نظم کا ڈھانچہMovementپر استوار کرنے کا مقصد ایک ایسی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بعض خارجی مظاہرے کے توسط سے بیان کرتا ہے جس کا براہ راست تعلق ان متحرک عمل یعنیWanderingسے ہے۔نظم کے مطالعے سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ WanderingاورEmotional Releaseکا ذریعہ بن گئی ہے۔افعال کے متواتر استعمال سے نہ صرف ایک نوع ڈرامائی فضا خلق ہوگئی ہے بلکہ پوری نظم میں گفتگو کی سی برجستگی(Immediacy) بھی پیدا ہوگئی ہے۔ ہیئتی خصائص سے قطع نظر زیر تجزیہ نظم کی موضوعاتی تفہیم جذبات کی منطق کے حوالے سے بھی کی جاسکتی ہے۔ٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں ،اے وحشت دل کیا کروں‘‘دو طرح کے جذبات کے اظہار سے عبارت ہے،پہلا جذبہ بدیہی طور پر غم ہے جس کا تعلق محرومی سے ہے۔اس نارسائی اور فراق نصیبی کا نتیجہ منتشر خیالی ،پراگندگی اور آوارگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس کی طرف مذکورہ مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں،اے وحشت دل کیا کروں ‘‘اشارہ کرتا ہے۔ٹیپ کا مصرعہ تجسیم’’اے غم دل‘‘،’’اے وحشت دل‘‘کے علاوہ کلمۂ استہفام’’کیا‘‘اور فعل’’کروں‘‘پر استوار ہے۔مصرعہ میں’’کیا کروں ‘‘کی تکرار سے ایک طرف تو ایک نوع کی بے بسی،لاچاری اور بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف ایک تیز اور تندجذبے کی عکاسی کا سراغ بھی ملتا ہے۔ نظم کا آغاز ایک جذباتی منظر’’شہر کی رات اور میں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے ہوتا ہے۔ابتدائی تین بندوں میں خارجی مناظر کا۔۔۔۔۔۔۔ذکر ہے تاہم پہلے بند کے تیسرے مصرعے ’’غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں‘‘اور دوسرے اور تیسرے بند کے آخری مصرعوں’’میرے سینے پر مگر دہکی ہوئی شمشیر سی‘‘اور’’آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال‘‘سے داخلی کیفیت بھی مترشح ہوتی ہے۔ نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہے جذباتیت کی لے تیز تر ہوتی جاتی ہے اور آخر کے بندوں میں بیان کردہ بعض خارجی ناظر اپنی تمام ترظاہری دلکشی کے باوجود بے اطمینانی،محرومی اور کم مایگی کے احساسات کو برانگیخت کرتے نظر آتے ہیں۔ چوتھا بند ایکEpisodeکی صورت میں سامنے آتا ہے یعنی اس کا اظہار ستارہ ٹوٹنے اور پھلجھڑی چھوٹنے کے بیان سے ہوتا ہے اور پھر اس واقعہ کے شاعر کے پارہ پارہ داخلی وجود پرپڑنے والے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔پہلے مصرعے ’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی‘‘میں بیان کردہ عمل سے نظم کے واحد متکلم کی جذباتی زندگی میں ہیجان برپا ہوتا ہے اور احساسِ محرومی بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔آخری دو مصرعوں ’’جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی‘‘اور ’’ہوک سے سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی‘‘سے اس صورت حال کا احساس کیا جاسکتا ہے۔’’ستارہ ‘‘اور ’’پھلجھڑی‘‘اپنے لغوی مفاہیم سے قطع نظر یہاں عشرت شبانہ کے مظہر کے طور پر ابھرتے ہیں جن سے اب شاعر محروم ہوچکا ہے۔ پانچویں بند میں رات کے دو مشاغل مے خواری اور حسینوں کی ہم جلیسی کا ذکر ہے مگر اب شاعر بعض خارجی اسباب کی بنا پر ان دونوں سے محروم ہو چکا ہے۔رات جو ہمیشہ شاعر کو Inspireکرتی رہتی تھی ایک بار پھر دل آسائی کا سامان کرتی ہے اور شاعر کو تلقین کرتی ہے کہ وہ یا تو مئے خانے کا رخ کرے یا پھر کسی حسینہ کے کاشانے کی طرف جائے۔اگر یہ دونوں صورتیں ناقابل عمل ہوں تو پھر وہ ویرانے میں جائے کہ یہی وہ مقام ہے جہاںشفتہ سری کو قدرے سکون مل سکتا ہے۔یوں بھی اردو شاعری کی روایت میں صحرا اور ویرانہ عاشق کے جائے مسکن کے طور پر ابھرتے ہیں۔چھٹا بند پانچویں بند کی توسیع کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ اس بند میں بھی رات سے وابستہ کیفیات کا ذکر ہے۔رات ثروت مند افراد کے لیے عشرت،رت جگے، رنگینی،رعنائی اور رنگ ونور کا سیلاب لے کر آتی ہے جس سے شاعر سخت اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس بند کے آخری مصرعے’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘سے نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ شاعر کے اخلاقی زاویۂ نظر کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اس امر کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ ہر بند خواہ اس کا تعلق خارجی منظر سے ہو یا داخلی احساسات کی ترسیل سے،لازماََ اشیا یا افراد کے تیئں جذباتی ردعمل کا اظہار کرے۔اس مرکزی تنظیم یا شیرازہ بندی کے علاوہ15بندوں پر مشتمل اس نظم کے چھ بند خارجی مظاہر کی عکاسی سے عبارت ہیں جبکہ بقیہ 9بندوں میں داخلی وجود کی مختلف النوع کیفیات کاذکر ہے۔ساتویں ،آٹھویں اور نویں بند میں نظم کے واحد متکلم نے اپنے شخصی خصائل’’راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں‘‘،’’لوٹ کر واپس چلا جاؤں میری فطرت نہیں‘‘اپنی بے بضاعتی اور محرومی’’اورکوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں‘‘،’’ان کو پاسکتا ہوں میں یہ آسرا بھی چھوڑدوں‘‘،اور مستقبل سے متعلق اپنے عزائم’’جی میں آتا ہے کہ اب عہد وفا بھی توڑدوں‘‘،’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘کاذکر کیا ہے اور مذکورہ بیان اصلاََ شاعر کے جذباتی ردعمل کے بیان کو محیط ہے۔ پانچویں بند کی طرح گیارہویں بند کی ابتدا ایک خارجی واقعہ یعنی’’اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب‘‘کے بیان سے ہوتی ہے۔محل یہاں حسن کے استحصال (یعنی حسن اس کے زیر نگیں ہے)کے پیکر کے طور پر سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے حسن کا اولین مظہر’’ماہتاب‘‘تابنا کی اور خیرہ کن روشنی کا منبع ہونے کے بجائے’’پیلا‘‘نظر آرہا ہے۔ماہتاب کی زردی تسکین قلب یا باعث اہتزاز ہونے کے بجائے بے چینی،کرب اور محرومی کے احساسات کو برانگیخت کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ویسے بھی چاند اکثر وحشت اور دیوانگی کے داعیوں کو متحرک کرتا ہے۔ پیلے ماہتاب کے افق پر نمودار ہوتے ہی شاعر کی جذباتی زندگی میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے جس کی طرف بارہواں بند’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں‘‘الخ،چودہواں بند’’لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں‘‘الخ،اور پندرہواں بند’’بڑھ کے اس اندر سبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘واضح اشارہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔مذکورہ بند نہ صرف جذباتی ہیجان کا نقطئہ عروج ہیں بلکہ یہی نظم کا کلائمکس بھی ہے۔نظم کا آغاز ایک قدرے کم جذباتی مصرعے ’’شہر کی رات اور میں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے ہوتا ہے۔آخر میں جذباتی تموج کے مظہر بند’’بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘پر ختم ہوئی۔ آوارہ کے بارہویں ،چودہویں اورپندرہویں بند کو عام طور پر ہدف تنقید بنایا گیا ہے اور کلیم الدین احمد سے لے کر جدید تر ناقدوں نے ان بندوں کو نظم وضبط سے عاری ،بہت زیادہLoudاورو فورِجذبات کاآئینہ دار قرار دے کر اسے نظم کی کمزوری پر محمول کیا ہے۔اس اعتراض کے سلسلے میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ نظم کا مذکورہ اختتامی حصہ اصلاََجذبے کے نقطئہ عروج کی عکاسی کرتا ہے جس کی مدھم لے کا اندازہ نظم کے پہلے بند سے لگایا جاسکتا ہے۔نظم میں جذبات کا دھیرے دھیرے ارتقا ہوتا ہے اور آخری بند کلائمکس ہونے کے باعث جذبے کی تندی کا مظہر ہے۔اس طرح’’آوارہ‘‘کو بجا طور پرEmotional Organic Growthکی نظم ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ اس میں جذبات کا بتدریج ارتقا نظر آتا ہے۔اس اعتبار سے ’’آوارہ‘‘کے اختتامی حصے پر بے ربطی اور نظم وضبط سے عاری ہونے کا اعتراض بھی باطل ٹھہرتا ہے۔ نظم کے Localeسے شاعر کا رومانی رویہ مترشح ہوتا ہے۔شہر جو کلاسیکی شعرا کے نزدیک مرکز تہذیب و تمدن تھا اور جس کے کوچے’’اوراق مصور‘‘اور جہاں ہر صورت’’تصویر‘‘ نظر آتی تھی،رومانی شعرا کو مصنوعیت،ریاکاری،منافقت،کھوکھلے پن،غیر فطری پابندیوں اور معاشی عدم مساوات کا مرکز نظر آتا ہے۔رومانی فن کاروں کے نزدیک شہر میں سکونت کوئی پسندیدہ یا مطبوع خاطر شے نہیں،اس لیے تخلیق کار مناظرِفطرت کی آغوش میں پناہ لینے کا خواہاں رہتا ہے۔مجاز نے بعض مظاہر فطرت مثلاََ وادی،چشمہ اور کھلی فضا سے اپنی انسیت اور قلبی تعلق اور ان کی شہر پر فوقیت کا براہ راست ذکر تو نہیں کیا مگر شہر کی لعنتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی نظم کاLocaleشہر کو بنایا ہے۔ نظم کے پہلے مصرعے’’شہر کی رات اورمیں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے پتا چلتا ہے کہ شاعر اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ شہر کی رات جو عیش وعشرت،شادکامی اور سرخوشی سے عبارت ہوتی ہے اس کے حق میں ناکامی اور آوارگی کے پیامبر کی صورت میں کیوں سامنے آئی ہے۔ابتدا چھ بندوں میں رات سے وابستہ احوال بیان کیے گئے ہیں۔رات کی خیرہ کن روشنی میں ایک طرف تو رعنائیوں اور عیش و سرمستی کی مختلف صورتیں جلوہ گر ہوتی ہیں تو دوسری طرف استحصال کی مختلف شکلیں۔’’اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب‘‘،’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی اک پھلجھڑی‘‘،’’جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی‘‘اور مفلسی اور معاشرتی جبر کے مختلف مناظر،’’مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے‘‘،’’سینکڑوں سلطان جابر ہیں نظر کے سامنے‘‘،’’سینکڑوں چنگیز ونادر ہیں نظر کے سامنے‘‘بھی ابھرتے ہیں۔یہ مظاہر Emotional Release کے جذبے کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔اس مرحلے پرEmotional Releaseکا سب سے بہتر ذریعہ یہ نظر آتا ہے کہ اس پورے نظام کو یکسر بدل دیا جائے اور فن کاروں کو اس سلسلے میں Initiativeلینا چاہیے۔نظم کا واحد متکلم بھی اقدامیت پر مائل ہوتا ہے جس کی طرف چودہواں بند’’لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑدوں‘‘،الخ،اور آخری بند’’بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘اشارہ کرتا ہے۔آخر کے ان بندوں سے نہ صرف initiativeلینے کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ایک نوع کے فوری پن یعنیSpontaneityکا احساس بھی ہوتا ہے۔نظم کے اختتامی حصے پر رومانی نظموں کی ایک مخصوص صفت جسےOverflow of powerful feelingsسے تعبیر کیا گیا ہے،کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ زیر تجزیہ نظم میں تشبیہوں کے استعمال کی بھی ایک نئی اور انوکھی صورت ملتی ہے۔’’آوارہ‘‘میں مستعمل تشبیہیں محض کسی شے کی خوبی یا دو اشیا میں باہمی مماثلت کے کسی پہلو کو اجاگر نہیں کرتیں بلکہ اصلاََاشیا کے تیئں شاعر کے ردعمل سے قاری کو بے کم وکاست واقف کراتی ہیں۔تیسرے بند میں رات کا سماں دو تشبیہوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔شاعر نے اولاََروپہلی چھاؤں کو صوفی کے تصور سے اورتاروں کے جال کو عاشق کے خیال سے تشبیہ دی ہے۔پہلے ایک مرئی شے رو پہلی چھاؤں اور ایک غیر مرئی شے صوفی کے تصور میں ایک قدرِ مماثلت تلاش کی گئی ہے۔یہ مماثلت روشن فضا کا احساس ہے۔روپہلی چھاؤں کی طرح صوفی کا تصور(مراقبہ)بھی واضح اور روشن ہوتا ہے اور جب صوفی ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو تاریکی چھٹ جاتی ہے اور اسے روشن فضا کا احساس ہوتا ہے۔اسی طرح ایک خارجی مظہر روپہلی چھاؤں ایک داخلی کیفیت’’صوفی کے تصور‘‘کے عین مماثل ہے۔مگر دونوں تشبیہوں کے حوالے سے شاعر نے رات کے تئیں اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔اسی طرح تاروں کے جال اور عاشق کے خیال میں الجھاؤ کی بنا پر مماثلت کے نقوش واضح کیے گئے ہیں۔جال پیچیدگی الجھاؤ سے عبارت ہوتا ہے۔اسی طرح عاشق کا خیال بھی مرکز جو کیفیت کا مظہر ہونے کے باوجود اکثر منتشر خیالی،پراگندگی اور الجھاؤ کی متعدد صورتوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دسویں بند میں ماہتاب کے لیے چار تشبیہیں،’’ملا کا عمامہ‘‘،’’بنئے کی کتاب‘‘، ’’مفلس کی جوانی‘‘اور’’بیوہ کا شباب‘‘استعمال کی گئی ہیں۔اس بند ’’محل‘‘حسن کے استحصال کے پیکر کے طور پر ابھرتا ہے جس کے باعث حسن مجسم ماہتاب اپنی کشش، جاذبیت،دلکشی اور تابنا کی کھو بیٹھتا ہے۔چاند کی تابناکی ماند پڑ کر پیلے رنگ کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ماہتاب اپنی معنوعیت سے محروم ہوکر شاعر کے نزدیک مفلس کی جوانی اور بیوہ کے شباب کی طرح بے کاروبے سود ہوکر رہ گیا ہے۔چاند کے تئیں شاعر کا پسندیدہ ردعمل دو تشبیہوں ’’ملا کا عمامہ‘‘اور’’بنئے کی کتاب‘‘سے ظاہر ہورہا ہے۔مجاز کی فنی بالغ نظری کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بارہویں بند میں شاعر نے جن مردہ چاند تاروں کو نوچ لینے کی خواہش کااظہار کیا ہے ان کا ذکر پہلے کے بندوں یعنی تیسرے اور دسویں میں کردیا ہے۔ تجسیم(Personification)کی بھی کئی مثالیں اس نظم میں موجود ہیں مثلاََٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں،اے وحشت دل کیا کروں‘‘،دوسرے بند کا دوسرا مصرعہ’’رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی ‘‘پانچویں بند کا تیسرا مصرعہ’’رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میںچل ‘‘اور چھٹے بند کا تیسرا مصرعہ’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘ وغیرہ۔ رومانی فنکاروں کی تخلیقات کا مابہ الامتیاز عنصرEmotional Betrayal کافنکارانہ اظہارہے۔Emotional Betrayalسے مراد یہ ہے کہ فن کاراپنی خواہش کے بر خلاف جذبے کا اظہار کرتا ہے تاہم بیان کی نوعیت سے اصل جذبے کا احساس ہوتا ہے۔ ’’آوارہ‘‘میں اس نوع کی ایک دو مثالیں نظر آتی ہیں مثلاََنویں بند میں شاعر محبوب سے ترک تعلق کا خواہاں ہوتا ہے،اس بند کا آخری مصرعہ’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘ Emotional Betrayalکی اچھی مثال ہے۔’’زنجیر ہوا‘‘کی ترکیب سے ذہن ہوا و ہوس کی طرف جاتا ہے،یعنی ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کا اور محبوب کا تعلق ہوسنا کی کی ایک شکل تھا۔نظم کے دیگر مصرعوں سے احساس ہوتا ہے کہ شاعر کا اصل تجربہ عشق ہے مگر وہ مذکورہ مصرعے میں ہوس کا ذکر کر رہا ہے جس کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہے۔زنجیر ہوا کا ایک مفہوم رشتہ کی ناپائیداری اور اس کے موہوم ہونے کا بھی ہے۔اگر یہ مفہوم بھی مرادلیاجائے تو شاعر یہاں گہرے تعلق کو ناپائیداری سے تعبیر کر رہا ہے۔Emotional Betrayalکی صورت میں Surface Structureمیں نمایاں تنذیلی آجاتی ہے۔زبان،تراکیب اور لفظیات بھی منفرد اور مختلف ہوجاتی ہے۔زیربحث مصرعے ’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘میں الفاظ کا انتخاب اور دروبست کی صورت اسی نظم کے بعض دیگر مصرعوں مثلاََ’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں‘‘،’’کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں‘‘سے بالکل مختلف ہیَ۔ رومانی شاعری کی بعض دیگر خصوصیات مثلاََاحساس تنہائی ،خود نگری اور اپنی خوبیوں کا بالتفصیل بیان بھی اس نظم میں موجود ہے ،مثلاََ’’آہ لیکن کون جانے ،کون سمجھے جی کا حال‘‘،’’اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں‘‘،’’راستے میں رک کے دم لوں یہ مری عادت نہیں‘‘اور’’اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وامیرے لئے‘‘وغیرہ۔ ان معروضات کی روشنی میں یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ’’آوارہ‘‘محض موضوع (متوسط طبقے کے نوجوانوں کی بدحالی اور اس عہد کی معاشرتی صورت حال کی عکاسی)کی عمومیت کی بنا پر ایک قابل قدر نظم نہیں ہے بلکہ یہ مجاز کی فنی ہنر مندی کا بھی ناقابل تردید ثبوت پیش کرتی ہے جو تحریک یعنیMovementپر نظم کا ڈھانچہ استوار کرنے کی مثالیں اردو شاعری میں کم کم ملتی ہیں۔اس لحاظ سے ’’آوارہ‘‘ایک منفرد نظم ہے۔

A’sr E Hazir Mein Sir Syed ke Afkaar ki Ma’niuet

Articles

عصر حاضر میں افکار سر سید کی معنویت

پروفیسریو نس اگاسکر

 

میں اپنی گفتگوکا آغاز ’حیات جاوید ‘ میں شامل خواجہ الطاف حسین حالی کے دیباچے کے ایک اقتباس سے کرنا چا ہو ں گا جس پر میں نے اپنی اور آپ کی سہولت کی خاطر نمبر ڈال کر اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے ۔سر سید کی لائف یا سیرت کے لکھنے کی غایت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہو ئے حالی فرماتے ہیں: میں اپنی گفتگوکا آغاز ’حیات جاوید ‘ میں شامل خواجہ الطاف حسین حالی کے دیباچے کے ایک اقتباس سے کرنا چا ہو ں گا جس پر میں نے اپنی اور آپ کی سہولت کی خاطر نمبر ڈال کر اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے ۔سر سید کی لائف یا سیرت کے لکھنے کی غایت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہو ئے حالی فرماتے ہیں:   {۱}   اس بزرگ کی لائف ہم کونصیحت کرتی ہے کہ زمانے کی مخالفت کو خدا کی  مخالفت سمجھ کر اس کے ساتھ مو افقت پیدا کر و تاکہ دنیا میں آرام سے اور عزت سے زندگی بسر کرو ۔{۲} جب تم میں عمدہ حاکم بننے کی لیاقت باقی نہ رہے تو عمدہ رعیت بننے میں کوشش       کرو تا کہ دونوں عمدگیوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔(وہ بتاتی ہے کہ کوئی قوم محکوم        ہونے کی حالت میں کیوں کر قومی عزت حاصل کر سکتی ہے۔){۳} وہ جس طرح ہم کو آزادیِ رائے کی تعلیم دیتی ہے ،اسی کی طرح یہ بھی سکھاتی         ہے ہم کیوں کر اپنی آزادی کو قائم رکھ سکتے ہیں ۔ِ{۴} وہ ہم کو سبق دیتی ہے کہ قوم کی خیر خواہی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ        بہت سے کام ان کی عقل اور عادات اور مرضی کے خلاف نہ کیے جائیں اور ان        کی مخالفت کو صبر و استقلا ل کے ساتھ بر داشت نہ کیا جائے ۔{۵} وہ ہم کو تعصبات سے متنفر کرتی ہے ،غیر قوموں کے ساتھ حسن معاشرت سکھاتی        ہے ،دوستوں کے ساتھ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، عیسائی ہوں یا یہودی        خلوص اور سچائی سے ملنا سکھاتی ہے ۔ {۶} وہ ہم کو ہدایت کرتی ہے کہ جیسا دل میں سمجھو ویسا ہی زبان سے کہو اور جو کچھ کہو        اس کو کر دکھائو ۔{  ۷}وہ بآواز بلند کہتی ہے کہ وقت کی قدر کرو ،ڈیوٹی کا خیال رکھو ،ایک لمحہ بے کار نہ          رہو اور کام کرتے کرتے مر جائو ۔ ہمارے موجودہ حالات اور طرز فکر و عمل کے تناظرمیں ہم حالی کی بیان کردہ ان اچھی باتوں پر غور کریں تو ہمارا دل فوراً گواہی دے گا کہ سر سید کی حیات اور ان کے خیالات کی معنویت ہمارے دور میں نہ صرف بر قرار ہے بلکہ مزید اجاگر ہو گئی ہے ۔ سر سید نے جب ہوش کی آنکھیں کھولیں تو ایک شاندار حکومت کا سورج جس نے طبقۂ اشرافیہ کے گھرانوں میں روشنی اور گرمی کے ساتھ توانائی پیدا کی تھی ، غروب ہو چکا تھا اور صرف دھند لکا باقی تھا ۔ اس دور حکومت کی پروان چڑھائی ہوئی ہندوستانی مسلم تہذیب کے ایوانوں میں بھی فانوس خیال کی گردش کا ساسماں تھا ،در ودیوار روشن تو تھے مگر ان پر رقص کرتے ہوئے مناظر اتنی تیزی سے بدل رہے تھے کہ سر چکرانے لگتے تھے ۔ایسے میں ۱۸۵۷ ء کی قیامت صغرا نے سب کچھ تہ وبالا کر دیا ۔ ’’زمانہ با تو نہ ساز دتو بازمانہ بساز‘‘ کا سبق پڑھنے والوں کے ہوش و حواس بھی پر زن ہو گئے ۔پرانی بساط کے الٹ جانے کے بعد نئی بساط بچھی تو پتہ چلا کہ نہ صرف مہرے بدل گئے ہیں بلکہ چالیں بھی نئی چلی جا رہی ہیں۔ سر سید ان بدلے ہوئے حالات کے عینی مشاہدین اور ان سے متاثربھی تھے مگر انھوں نے شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر جینے کی بجائے آندھی میں بھی اپنا راستہ تلاش کرنے کی تدبیر کی۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ابتدا میں آندھی کی مخالف سمت میں بھی چلے تھے۔ ان کی ابتدائی قلمی کا وشات میں ان کی ماضی پرستی و احیا پسندی کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد میں رواداری کی کمی جھلکتی ہے ۔مثلاََ سلاطین تموریہ کے تذکرے ’جام جم ‘اور’’آئین اکبری ‘‘کی تر تیب و تصحیح کے ذریعے وہ ماضی کی باز آفرینی کے طالب نظر آتے ہیں۔ اسی طرح رسالہ راہ سنت و ردّبدعت اور شیعی عقائد کی تر دید میں شاہ عبدالعزیز دہلوی کے’’ تحفۂ اثناعشریہ‘‘کے ایک باب کا کیا ہوا ان کا ترجمہ ’تحفہ حسن‘ ان کی بے لچک و ہابیت کے غماز ہیں۔لیکن انھوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ وہ حاکم ازل کی سلطنت کو کوئین و کٹوریہ کی حکومت سے بھی محدود سمجھ رہے ہیں جس میں مذہب و ملت اور فرقے و طبقے کے لوگوں کو اپنے عقیدے اور رسم ورواج کے مطابق چلنے کی آزادی میسّرہے۔ اور جب وہ انگلستان کے سفر سے واپس لوٹے تو انگریزی تہذیب و تمدن اور طرز حکومت و معاشرت کے مطالعے و مشاہدے نے ان کی سوچ کی دنیا ہی بدل ڈالی ۔ انھیں یقین ہو گیا کہ محض ایک سچا مسلمان ہو نے کے بجائے ایک اچھا شہری بننا ضروری ہے ۔اور اس کے لیے انگریزوں کے لائے ہوئے طرز حکومت ،نظام تعلیم اور حسن معاشرت کی تقلید لازمی ہے لیکن اپنی شناخت کو باقی رکھنے اور اپنی اجتماعیت کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی تہذیب و مذہبی روایات کی پاس داری بھی ضروری ہے۔ سر سید نے زمانے کی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے حالات کو بھی موافق بنانے میں تن من دھن کی بازی لگا دی لیکن دنیا میں آرام سے رہنے اورعزت سے زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قومی شناخت اور قومی مفادات کے تحفظ کی بھی جان توڑ کوشش کی ۔ معاف کیجیے ، میں نے آرام سے رہنے کی بات محض حالی کے اتباع میں کہی ہے ، ورنہ سر سید کی قسمت میں آرام کہاں تھا ۔حالی کا اقتباس تو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں اب خود سر سید کی گواہی بھی سماعت فرمائیے۔ اپنے مضمون ’’امید کی خوشی‘‘ میں خود کو اپنا ہی غیر تصور کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکرکرتاہے دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے، ہر وقت بھلائی کی تدبیر یں ڈھونڈتا ہے (اور) ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے۔ یگانوں بیگانوں سے ملتا ہے ۔جن کی بھلائی چاہتا ہے انھیں کو دشمن پاتا ہے ۔شہری وحشتی بتاتے ہیں، دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں، عالم فاضل کفر کے فتووںکا ڈر دکھاتے ہیں ۔بھائی بند عزیز اقارب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو جاتے ہیں :  وہ بھلا کس کی بات مانے ہیںبھائی سید تو کچھ دِوانے ہیں  ہو سکتا ہے ہمارے عہد کے اکاّدکا ّ دیوانوں میں سر سید کی مذکورہ خصوصیات پیدا ہو جائیں مگر ان کی سی ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت کا ورود مسعود اب ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان کی انیسویں صدی کسی اعتبار سے قحط الرجال کی صدی نہیں تھی اس کے باوجود سر سید کو جتنے محاذوں پر قومی، تہذیبی ،علمی ، سیاسی ،مذہبی ،اخلاقی ، اصلاحی اور تعلیمی جنگ لڑنی پڑی ، اس کی مثال ہمارے ملک کی تاریخ میں تو نہیں ملے گی ۔ پروفیسر آرنلڈ نے سر سید کی وفات کے بعد لاہور میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں سر سید کی مختلف النوع شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا :’’تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ دنیا میں بڑے آدمی تو اکثر گزرے ہیںلیکن ان میں بہت کم ایسے نکلیں گے جن میں یہ حیرت انگیز اوصاف اور لیاقتیں مجتمع ہوں ۔وہ(سر سید) ایک ہی وقت میں اسلام کا محقق ،علم کا حامی ، قوم کا سوشل ر فارمر ، پولیٹیشن،مصنف اور مضمون نگار تھا ۔ اس کا اثراس سوچنے والے عالم کا سانہ تھا جو گوشۂ تنہائی میں بیٹھا اپنی تحریروں سے لوگوں کے دلوں کو اکسائے بلکہ وہ اعلانیہ دنیا کے سامنے لوگوں کا رہبر بن کر آیا ۔اس لیے آیا کہ جس بات کو سچ اور صحیح سمجھے، اگر اس کی دنیا مخالف ہو تو بھی ساری دنیا سے لڑنے کے لیے ہر وقت آمادہ اور تیار رہے۔‘‘(برگ گل سر سید نمبر) پروفیسر آرنلڈ کی بات کو ڈاکٹر سید عبداﷲ نے تہذیب الاخلاق کی اہمیت کے حوالے سے قدرے تفصیل اور وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے ۔’’ تہذیب الاخلاق کے مشتہرہ مقاصد کا دائرہ بہت وسیع تھا۔مثلاً فرد کے اخلاق کی اصلاح ،قومی اصلاح و تکمیل ،تہذیب و شائستگی اور قومی عزت کا احساس پیدا کرنا ،قوم کو جدید تر قیاتِ علمی کی طرف راغب کرنا ،علمی نقطۂ نظرکی اصلاح ، دینی زاویۂ نگاہ کی اصلاح ، ادب و انشا کے لیے ذوق صحیح کا پیدا کرنا ،اردو کو قومی حِسیات اور اجتماعی افکار کا ترجمان بنانا اور با لآ خر (بہ قول مولانا حالی) قوم میں زندہ دلی پیدا کرنا۔‘‘(بر گ گل ،سر سید نمبر ۱۹۵۵ء)  سر سید کی خدمات کا جب بھی ذ کر ہوتا ہے ،ان کی تعلیمی سر گرمیوں ، مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی کاوشوں ،اخلاقی خرابیوں اور سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوششوں اور اردو کو جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل کے لایق بنانے کی تدبیروں کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن ان کی ایک نہایت اہم خدمت یعنی مسلمانوں کے علمی نقطۂ نظر اور دینی زاویۂ نگاہ کی اصلاح میں کی گئی ان کی مساعی کو بہ نظر تعمق نہیں دیکھا جا تا ۔ سر سید کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ مسلمانوں کی دنیوی علوم سے دلچسپی میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں دنیوی ترقی کی رفتارمیں تیزی اس وقت ممکن ہے جب انھیں اسلام کی عظمت رفتہ کی باز آفرینی کے تصور سے باز رکھا جائے۔سر سید نوجوانی میں وہابی اور اہل حدیث تھے مگر آگے چل کر انھیں یہ احساس ہو گیا کہ ان عقائد کے تحت وہ مذہب کی حرکی قوت سے منحرف ہو گئے ہیں اور مذہب کو ایک جاطرز حیات بنا کر اس کے فطری ارتقامیں مانع ہو رہے ہیں۔  سر سید کے نہایت معرکہ آرا مضمون ’’آزادیِ رائے ‘‘کے حوالے سے ان کی تعقل پسندی اور حق پر ستی پر گفتگو کی جائے تو عصر حاضر کے لیے ان کے افکار کی معنومیت کو اجاگر کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے ۔سر سید نے ابتدا ہی میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ ہر انسان کو آزادی ِرائے کا پورا حق ہے اور کسی رائے کی صحت یا غلطی کا دارو مدار ماننے والوں کی قلت یا کثرت پر نہیں ،قوت استدلال پر ہے ۔یعنی ایک تنہا آدمی کی رائے بھی اجتماعی رائے کے مقابلے میں صحیح و درست ہو سکتی ہے۔  محض کسی مذہبی خوف یا قوم و برادری کے اندیشے یا بد نامی یا حکومت کی تعذیر کے ڈر سے آزادی ِرائے کا استعمال نہ کرنا ،فرد و قوم بلکہ پوری انسانیت کے لیے مضرت رساں ثابت ہو سکتا ہے ۔آزادیِ راے میں مزاحم ہونے والے افراد اگر وہ کسی مذہبی گروہ سے وابستہ ہوں ،اپنی نادانی سے ساری دنیا پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مذہب کو مخالفوں کے اعتراضوں سے نہایت اندیشہ ہے ۔ ایسے میں ان کی رائے یا مذہبی عقیدہ درست بھی ہو تو اس کو صحیح ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اپنے ہی عقیدے یا مذہب کو جس میں وہ پیدا ہوا ہے ،محض جمہور کے کہنے پر صحیح سمجھنے والا شخص اپنی کو ئی رائے نہیں رکھتا ۔ایسے میں جن وجوہات سے مسلم خاندان میں پیدا ہونے والا شخص بڑا مقدس مسلمان ہوتا ہے انھی وجوہات سے عیسائی یا بت پرست خاندان یا ملک میں پیدا ہونے والا اچھا عیسائی یا بت پرست ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی کا مسلمان ، عیسائی یا ہندو پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس کی بنیاد پر تعصب برتنا کسی طور مناسب نہیں۔ سر سید کے نزدیک جس شخص کو اپنی رائے پر کسی قدر بھروسہ کیے جانے یا اسے عام لوگوں کے ذریعے تسلیم کیے جانے کی خواہش ہے اسے اپنی رائے کو عام مباحثے کے لیے پیش کرنا چاہیے ۔اس لیے کہ جن اعتقاد وں کو ہم نہایت جائز و درست سمجھتے ہوں ان کی درستی کی کوئی سند اور بنیاد بجز اس کے نہیں ہو سکتی کہ تمام دنیا کو اختیار دیا جائے کہ وہ ان کو بے بنیاد ثابت کرے۔  آگے چل کر انھوں نے مسلمانوں کی اس روش پر افسوس کیا ہے کہ وہ قدما کی طرح دلائل و براہین اور بحث و حجت سے عقائدو اعمال کو درست ثابت کرنے کی بجائے ،جھوٹے غرور اور بے جا استغناسے کام لیتے ہیں یا عقیدے یا مسلے کے بر خلاف کوئی دلیل سننے کے بجائے اپنے گروہ کے لوگوں کو کفر کے فتووں کے ڈراورا سے جہنم میں جانے کی چھوٹی دہشت دکھا کے ان عقائد یا مسائل پر غوریا بحث کرنے سے باز رکھتے ہیں۔         مضمون کے آخری حصّے میں سر سید نے اپنی گفتگو کا رخ مسلمانوں میں تجسّس و تحقیق کی کمی کی طرف موڑ دیا ہے اور علمی جستجو کے نام پر محض کتاب میں کیا لکھا ہے یہ جاننے یا کس نے کیا کہا ہے اور آیا کہا بھی ہے کہ نہیں یہ معلوم کرنے پر اکتفا کرنے کی روش کو نا پسند یدہ قرار دیا ہے۔ انھیں کے الفاظ میں’’ اس طریقے اور عادت نے آزادیِ رائے کو کھو دیا اور اس سیرت کو جس سے غلطی میں پڑنے سے حفاظت تھی، توڑ دیا ان کے تمام علم و فضل غارت ہو گئے ۔ان کے باپ دادا کی کمائی جس سے توقع تھی کہ ان کی اولاد فائدہ اٹھاوے گی سب ڈوب گئی۔ ‘‘ عصر حاضر میں مسلمانوں کے عقائد و طرز حیات میں پیدا ہونے والے جمود پر نظر ڈالیں اور ان کی ترجیحات میں کار جہاں کو اخیر میں رکھتے ہوئے دنیا کی جگہ محض عقبیٰ کو سنوارنے اور چند مخصوص عقائد و رسوم کی پا بندی کو انسان اور کا ینات کی تخلیق کا مقصد و منتہاسمجھنے کی روش کو نظر میں رکھیں تو سر سید کے مذکورہ بالا خیالات کی معنویت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی ۔

Nasr Kai Rang Roop ki Hooti hai : Nida Fazli (Interview)

Articles

نثر کئی رنگ روپ کی ہوتی ہے

ندا فاضلی

مقصود بستوی: نداؔ صاحب ! میں آپ سے جاننا چاہوں گا کہ نثر اور شاعری میں کیا رشتہ ہے۔ کیا یہ ایک دوسرے کو رد کرتی ہیں۔ ان میں باہمی داخلی جنگ ہے۔ اور یہ اپنی بقا کے لیے دوسری صنف کو کمزور کرنا ضروری سمجھتی ہیں؟

ندا فاضلی:شاعری کی طرح نثر بھی کئی رنگ روپ کی ہوتی ہے۔’صحافتی نثر‘، ’تنقیدی نثر‘،’ تجارتی نثر‘، ’تخلیقی نثر‘ ۔ میرے یہاں جو نثر ہے اس کا رشتہ میرے انھیں تجربہ و مشاہدہ اورسوچ کے زاویوں سے ہے جو وزن ، قافیہ اور ردیف کی پابندیوں میں شاعری میں ڈھل جاتے ہیں اور جب ان سے آزاد ہوتے ہیں تو نثر میں اتر آتے ہیں۔ ان دونوں میں ایک دوسرے کو رد کرنے کے کسی بھی رویہ کو میں نہیں مانتا۔ میرے یہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم سفر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کبھی ذہن گھر کے در و دیوار پر کائنات کو سجاتا ہے اور کبھی کشادہ فضائوں میں خود کو پھیلاتا ہے۔ مجھے شعر کہہ کر جس تخلیقی مسرت کا احساس ہوتا ہے وہی نثر لکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ ہا ں یہ ضرور ہے نثر نظم سے زیادہ محنت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور اس کی آزادیوں میں بہت سی ان دیکھی پابندیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔

مقصود بستوی: یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ شاعری کی ابتدا پہلے ہوئی ، نثر بعد میں آئی۔ اس سے لوگ اس لازمی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شاعری بنیادی طور وحشت ، شیفتگی، عدم ترتیب اور ذہنی تہذیب کے ضعف سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے برخلاف نثر انسانی ذہن کی بالیدگی ، تہذیب و ترتیب ، سنجیدگی اور پختگی کا ثمرہ ہے۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

ندا فاضلی: ذہن کی بالیدگی، تہذیب و ترتیب ، سنجیدگی اور پختگی کے بغیر ادب کی کسی صنف کا تصور ناممکن ہے۔ پہلے اور بعد کے زمانی فاصلے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ادب ، نظم ہو یا نثر ، دیکھے ہوئے کو نہیں دکھاتا۔ دیکھے ہوئے میں جو، اَن دیکھا ہے، اس سے تحیر جگاتا ہے۔ میرؔ نے اس وصف کو ’ہر جا میں جہانِ دیگر‘ کے لفظوں سے ظاہر کیا ہے۔ اور شیکسپئر صاحب اسے میتھڈ ان میڈنس کہتے ہیں۔ میرے یہاں نثری برتائو شاعری سے قریب ہے۔ میں اسی قربت کو اس استعجاب کے لیے ضروری تصور کرتا ہوں جو لغت کو ادب بناتا ہے۔

ظہیر انصاری:ندا صاحب! آپ کی ابتدائی شاعری میں قصباتی معصومیت اور سادگی ملتی ہے۔ بڑے شہر ممبئی میں آنے کے بعد آپ کی شاعری میں جھنجھلاہٹ اور ہر چیز سے لڑجانے کا انداز جنم لیتا ہے۔ آپ کے پہلے شعری مجموعہ ’لفظوں کا پل‘ پڑھنے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے۔ اس سے متعلق خود آپ کی رائے کیا ہے؟

ندا فاضلی: ہر زندگی ایک ہی زندگی میں، کئی زندگیوں کا دائرہ بناتی ہے۔ ان کئی زندگیوں میں، ہر زندہ آدمی کی دیکھنے کی نظر پہلے سے مختلف ہوتی ہے۔ جو زندگی کے مختلف موسموں کے ساتھ بدلتے نہیں وہ اپنے محدود دائرے سے نکلتے نہیں۔ مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ سچائی اجتماعی نہیں انفرادی ہوتی ہے۔ اور فرد اس کائنات میں ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ میری شاعری کے تعلق سے جو درجہ بندی آپ نے کی ہے وہ میرے دو مجموعوں ’لفظوں کا پُل‘ اور ’مور ناچ‘ تک محدود ہے۔ ان کے بعد بھی میرے تین مجموعے ’آنکھ اور خواب کے درمیاں‘ ، ’کھویا ہوا سا کچھ‘ اور ’شہر میرے ساتھ چل تو‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے جب جیسی زندگی جی ہے یا جینے کو ملی ہے، ان میں میرے بدلتے ہوئے ذہنی رویوں کا عمل دخل دیکھا جاسکتا ہے:

اب جہاں بھی ہیں وہیں تک لکھو روداد سفر

ہم تو نکلے تھے کہیں اور ہی جانے کے لیے

ظہیر انصاری:شہری زندگی اور اس کے اقدار سے نالاں رہتے ہوئے بھی آپ اس کے اسیر نظر آتے ہیں؟

ندا فاضلی: میں شہری زندگی سے نالاں نہیں ہوں،پنڈت نہرو کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے،شہر جس طرح انتشار و بحران کا شکار ہوا ان سے مجھے شکایت ہے۔ چھوٹی بستیوں میں روزگاروں کی کمی اور اس کے ردِّعمل میں شہر کی بڑھتی آبادی اور اس کی سیاست نے جو پیچیدگیاں پیدا کی ہیں، وہ میرے موضوعات رہے ہیں۔ شہر میں گائوں اور گائوں میں شہر کی تلاش میری شعری Ironyہے۔ آپ نے ’اسیر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ میں اسے اتفاق سے بدلنا چاہوں گا۔ گھر سے بے گھر ہونے کے بعد ممبئی میں میرا قیام ایک اتفاق ہے۔ اس اتفاق کے تعلق سے میں میرؔ کے لفظ مستعار لوں تو کہوں گا: ’’ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی‘‘

ظہیر انصاری :آپ کی شاعری میں جابجا ’’گھر‘‘ کا ذکر آتا ہے، جیسے گھر کو آپ نے بہت زیادہ Missکیا ہے ۔ یہاں گھر سے مراد محض گھر نہیں بلکہ ’’فیملی‘‘ ہے ، آپ کے ماں باپ ہمیشہ آپ کو اپنے پاس بلاتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اپنے دوسروں بیٹوں کے ساتھ آپ کانام بھی نیم پلیٹ پر لکھوایا۔ آپ وہاں جانا بھی نہیں چاہتے اور گھر کو Missبھی کررہے ہیں، یہ کیسا تضاد ہے؟ اس کیفیت کو بغاوت نہیں تو اور کیا کہیں گے؟ آپ کی شاعری میں بھی روایت سے ہٹ کر کیفیتیں ملتی ہیں۔ ایسا کہاجاسکتا ہے کہ آپ کے اندر باغیانہ عنصر پایا جاتا ہے ۔ اس باغیانہ رویے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟

ندا فاضلی: آپ کے سوال کا جواب ، زیادہ تفصیل سے میں اپنی کتابوں ’دیواروں کے بیچ‘ اور ’دیواروں کے باہر‘ دے چکا ہوں۔ یہاں میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا، برصغیر میں میرا مقدر بھی اس عام آدمی کا سا رہا ہے جسے چرواہوں کی لکڑیوں نے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر بھیڑ بکریوں کی طرح ہکایا ہے۔ میرے ساتھ سیاست نے یہ کرتب 1964-65 ء میں کیا۔ گوالیار میں فسادات سے گھبرا کر میرے گھر والوں نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور میں نے چرواہے کی بھیڑ بننا پسند نہیں کیا، کیونکہ میں ان دنوں زمینی تبدیلی کومسائل کا حل نہیں سمجھتا تھا۔ انتخاب میر اتھا اس لیے اس سے ہم رشتہ ساری اچھائیوں ، برائیوں کی ذمہ داری بھی میں قبول کرتا ہوں:

ملک خدا میں ساری زمینیں ہیں ایک سی

اس دور کے نصیب میں ہجرت نہیں رہی

آپ جسے بغاوت کہتے ہیں، میں اسے انفرادی ذہانت کہنا پسند کروںگا۔ اس انفرادی عمل نے مجھے ہندو مسلمان کی دنیا میں انسان بننے کی ترغیب دی۔ آدمی، سے انسان بننے کے راستے میں یہ میرا پہلا قدم تھا۔

ظہیر انصاری :آپ نے اپنی شاعری اور نثر میں ماں سے محبت کی کیفیت کو جس انداز میں بیان کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنی ماں کو یاد کر رہا ہے جیسے وہ مشہور نظم:

بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں

یاد آتی ہے ! چوکا ، بیسن ، چمٹا ، پھکنی جیسی ماں

وارث علوی نے ایک جگہ لکھا ہے’’ماں کے موضوع پر صرف دو ہی نظمیں یاد گار رہیں گی ایک فراقؔ کی نظم ’’جگنو‘‘اور آپ کی مندرجہ بالا نظم ۔علامہ اقبال ؔکی نظم :’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘ کے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے۔

ندا فاضلی: ماں اور اولاد کا رشتہ خالق اور مخلوق کے رشتے جیسا ہوتا ہے۔ ہر انسان کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ میری ماں یسوع مسیح کی مریم سے مختلف ہے، جب وہ کراس پر تھے تو انھوں نے مریم کو دیکھ کر کہا تھا، رشتہ ، وشواس اور عقیدہ رویہ سے بنتا ہے خون سے نہیں ۔ڈاکٹر اقبال ؔ کے یہاں بھی ماں مرگ و حیات کے فلسفہ میں کھوئی ہوئی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری ماں نچلے متوسط طبقے کی ایک عورت تھی جو شوہر کی بے اعتدالیوں سے دور ہوکر اپنے بچّوں کی تربیت و پرورش کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے تھی۔ اس مقصد کو اس نے آنسوئوں سے دھویا تھا اور بچّوں میں اپنے خواب جگانے کے لیے اپنا بہت کچھ کھویا تھا۔ میری ماں سیاست و فلسفہ سے ناوقف ہوتے ہوئے بھی ممتا کے اس نور سے روشن تھی جس کا ایک نام خدا ہے:

میں رویا پردیش میں بھیگا ماں کا پیار

دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار

میری ماں کی ردیف کی غزل میں جو ماں ہے وہ ایک عام ہندوستانی گھر کی معمولی عورت تھی۔ جس کے معمولی پن میں ہی اس کی عظمت تھی۔ وارث علوی کی پسندیدگی کی وجہ بھی شاید وہی یاد ہے جس سے میری تنہائی کی طرح ان کا ماضی بھی آباد ہے۔

’’ گھر کی تعمیر چاہے جیسی ہو، اس میں رونے کی کچھ جگہ رکھنا‘‘

مقصود بستوی: جدید غزل بظاہر ایک عجیب اصطلاح ہے کیونکہ ہر عہد میں جدید غزل کہی گئی ہے۔قلی قطب شاہ سے ولی ؔ جدیدہے۔ولی سے میر ؔ جدید ہے۔میرؔ سے غالبؔ جدید ہے ۔غالبؔ سے اقبالؔ جدید ہے ۔اور اقبالؔ سے فیضؔ جدید ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب شعراء جدید ہیں تو صرف ایک خاص عہد کی غزل کو کیوں جدید سمجھا جاتا ہے ؟

ندا فاضلی: 1413ء صدی کے امیر خسروؔ سے موجودہ عہد تک بہت سارا وقت گذر چکا ہے ۔وقت کی اس طویل مدّت میں بہت کچھ بدل چکا ہے ۔دنیا سمٹ کرکمپیوٹر بن گئی ہے،مختلف دیسی بدیسی زبانو ں سے ادب کا لین دین بڑھا ہے، آدمی کی سمجھ بوجھ میں نت نئی کشادگیاں نمودار ہوئی ہیں، شعر کا ہیٔتی اور لسانی رقبہ وسیع ہوا ہے۔غزل ہر دور میں ان عہد بہ عہد تبدیلیوں کی آئینہ داری کرتی رہی ہے۔ میں ، غزل ہو یا نظم اسے کسی عہد سے جوڑنے کے بجائے، اس عہد میں شامل شعراء کی مختلف تخلیقی سطحوں کے سیاق میں پہچانتا ہوں۔ غالبؔ کے عہد میں ذوقؔ، مومنؔاور نظیرؔ بھی ہیں۔ان سب کی شعری شباہت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ میں نے ایک مضمون لکھا تھا’ غالبؔ میرا ہم عصر ‘، یہ بات میں غالبؔ کے دیگر معاصرین کے بارے میں نہیں کہہ سکتا تھا۔ غالبؔ کے ’یوں‘ اور ’کیا‘ کے تجسس نے زمانی فاصلوں کو نزدیکیوں میں بدلاتھا۔ غالبؔ سے کئی برسوں کے بعد کے شاعر نوحؔ ناروی، جگرؔ، عزیزؔ وغیرہ غالبؔ کے مقابلے میں زیادہ قدیم لگتے ہیں۔ ہر وہ شاعر جدید ہوتا ہے جو اپنی آنکھ سے دیکھے ہوئے پر اعتماد رکھتا ہے۔ رہا سوال اصطلاحی ناموں کا تو یہ ناقدین کے تساہل کا شناختی کارڈ ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ناصر کاظمی اور احمد مشتاق میں فراقؔ چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور باقر مہدی ، فضیل جعفری اور مظفر حنفی کے لفظوں میں یگانہؔ جھانکتے پائے جائیں گے۔ جدیدیت انسان اور معاشرہ کے رشتے کو شخصی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہے:

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

مقصود بستوی: اینٹی غزل ایک جدید صنف ہے جو موضوع کی بنا پر ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس میں اکثر اشعار مہمل ہوتے ہیں لیکن شاعر کے مطابق اس میں کچھ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن معنی کی تہہ تک پہنچنا عام طور سے ممکن نہیں ۔اینٹی غزل کے تجربات میں آپ کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی ،عادل منصوری،ظفر اقبال ،سلیم احمد،بشیر بدر اور مظفر حنفی بھی شامل ہیں ۔ندا صاحب!کیا آپ یہ بتانے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ انیٹی غزل کسی خاص ضرورت یا کسی خاص مقصد کے تحت وجود میں آئی تھی ؟اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جدید شعراء نئے اسالیب بیان کے چکر میں پھنس کر غزل کی صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے؟ مثلاً آپ کا یہ شعر  :

سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

کھڑا تھا پاس جو برگد کا پیڑ صدیوں سے

ندی کے پاس وہ ٹانگیں اٹھا کے لیٹ گیا

(مظفر حنفی )

اور اسی طرح بشیر بدر کا یہ شعر :

اگر مجھ کو سورج کے نیزے لگے

تو کتّے کو کچا چبا جاؤں گا

ندا فاضلی:  ہرنئی نسل ، اپنی پچھلی نسل سے مختلف ہونے کے جوش میں ابتدا میں انتہا پسندیوں کا شکار ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ متوازن سمتوں میں مڑ جاتی ہے۔ اینٹی غزل اور اینٹی کہانی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ آپ کے دیئے ہوئے ناموں میں بیشتر اب کئی کئی مجموعوں کے شاعر ہیں۔ ان میں اکثر کا شعری مزاج اب پہلے سے جدا ہی نہیں ہوا، ان ناموں سے غزل کی زبان اور موضوعات کے تنوع میں کئی اضافے بھی منسوب کیے جاسکتے ہیں۔ اور یوں بھی میں کامیاب تقلید سے ناکام تجربہ کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ ان تجربوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جو سر یلزم ، دادا زم اور ایبسرڈ رائٹنگ کی تحریکیں فرانس کی مصوری سے یورپی ادب میں داخل ہوئی تھیں، ان کے اچھے برے اثرات بھی اردو اور ہندوستان کی دوسری علاقائی زبانوں کے ادب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اردو کا افسانہ اور شاعری اب ابتدائی انتہا پسندیوں سے آزاد ہوکر قاری اور تخلیق کے فاصلوں کو کم کرنے لگی ہیں۔ لیکن ان ابتدائی تجربوں نے غزل کی لفظیات اور موضوعات کے برتائو میں نئے امکانات بھی روشن کیے ہیں جو اب سے پہلے کی غزل میں نظر نہیں آتے۔ جدیدذہن اب مقابلتاً زیادہ انتخابی اور احتسابی محسوس ہوتا ہے۔ ان میں سے کئی شاعروں کی تخلیقات نے غزل کی مستعمل تعریف اور اس کے تعقنات میں نئی تبدیلیوں کا احساس بھی دلایا ہے۔

ظہیر انصاری :ادب میں تحریکوں اور رجحانات کو آپ کس طرح Evacuateکرتے ہیں اور ان کے وجود کو مانتے بھی ہیں یا نہیں ۔ادب میںادوار کی درجہ بندی کرنا درست ہے یا نہیں ؟

ندا فاضلی:  اچھا ادب تحریکوں کے عروج و زوال کا محتاج نہیں ہوتا۔ تحریکیں عہد بہ عہد تبدیلیوں کی آئینہ داری ضرور کرتی ہیں لیکن شاعر و ادیب ان سے یکساں اثرات قبول نہیں کرتے۔ ترقی پسند عہد میں فیضؔ و مخدومؔ کے ساتھ جذبیؔ، مجازؔ اور جاں نثارؔ بھی ہیں۔ اور اسی دور میں عزیز حامد مدنی اور مجید امجدکے ساتھ ساحرؔ اور سلام مچھلی شہری ہیں اور انھیں کے ہم سفر کیفیؔ ، نیاز حیدر اور سردار جعفری بھی ہیں۔ ان میں سب کی شعری شناخت ایک دوسرے سے جدا ہے۔ اسی کا اطلاق جدیدیت کے شعراء پر کیا جاسکتا ہے۔ کسی ایک اصطلاح سے پورے عہد کی تفہیم ممکن نہیں۔ میرا شعری رویہ عادل منصوری اور قاضی سلیم سے کافی الگ ہے۔ لیکن ان سب کو جدیدیت کے ذیل میں رکھا جاتا ہے اور چوکٹھا بند نتائج نکال لیے جاتے ہیں ۔زبیر رضوی کی ’علی بن متقی سلسلے‘ کی نظموں کو بھی جدید کہاجاتا ہے۔ صنعتی شہروں میں ایک جیسے مکانوں کی طرح ادب کسی بھی دور میں یک چہرہ نہیں ہوتا ۔ ہماری تنقید انفراد سے کم اور تعمیم سے زیادہ بحث کرتی ہے۔

مقصود بستوی: آج کل جو ادب تخلیق ہو رہا ہے وہ ہمیں متاثر کیوں نہیں کر پاتااور اگر متاثر بھی کرتا ہے تو دوسرے پل اپنی آب کیوں کھو دیتا ہے ؟

ندا فاضلی: یہی بات کچھ سال پہلے ، مجھ سے سردار جعفری نے کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا ’جس طرح مجازؔ، فیضؔ اور دوسرے شاعروں کے کلام کے اکثر نمونے قارئین کے حافظوں کا حصّہ ہیں، جدید شعراء میں ایسی کوئی ابیلٹی کیوں نہیں ہے؟‘ یہ مسئلہ انسان کے ذہن کی کنڈیشننگ کا ہے۔ جس سے مشکل سے ہی آدمی باہر نکل پاتا ہے۔ متاثر ہونے کا عمل اضافی ہے۔ میں اس سلسلے میں بہادر شاہ ظفرؔ کے ایک شعر کا حوالہ دینا چاہوں گا:

کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے

دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

اگر ذہن میں 1857ء کے حادثات نہ ہوں ، اور ان کی پرچھائیں ان لفظوں پر نہ پڑیں تو مذکورہ شعر ایک عام سا روایتی شعر بن جائے گا۔ لیکن قارئین و سامعین کے حافظوں میں چھپی ان کی سوانح نے اسے نہ صرف پر اثر بنادیا ہے، بلکہ اردو محاورہ کی شکل بھی دیدی ہے۔ تاثر پذیری میں ناسٹلجیا کے ساتھ ان مانوس شباہتوں کا بھی بڑا حصّہ ہوتا ہے جن سے ہم پہلے سے واقف ہوتے ہیں۔ اور پھر وقت بھی اس میں اہم رول ادا کرتا ہے۔۔۔۔۔ آپ کا یہ کہنا کہ آج کل کا ادب متاثر نہیں کرتا شاید درست نہیں ۔ پہلے کا ادب ، ادب کی کئی چھلنیوں سے چھن کر آپ تک پہنچا ہے اور آج کل کے ادب کے ساتھ آپ کا ہم عصر تعصب کارفرما ہے۔ کسی بھی عہد کے اچھے ادب سے جڑنے کے لیے تھوڑی سی ہم مزاجی ، تھوڑا سا تبدیلیوں کا احساس ، تھوڑی سی ہر رنگ میں وا ہونے کی پیاس بھی ضروری ہے۔

ظہیر انصاری :اختر الایمان نے ایک انٹرویو کے دوران آپ سے کہا تھا کہ نسل تو کتوں اور گھوڑوں کی ہوتی ہے پھر بھی میں آپ سے 80ء کے بعد کی نسل جسے نئی نسل کا نام دیا گیاہے کے بارے میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ لوگ اپنے مشن میں کہاں تک کامیاب نظر آتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی آپ جیسے سرپرستوں پر کتنی لازم ہے؟

ندا فاضلی:  زندہ زبان ہر پانچ یا دس سال میں، ادب میں اپنا رنگ روپ بدلتی رہتی ہے۔ ادب زبان کے تخلیقی برتائو سے عبارت ہے۔ میں نسلوں کے امتیاز کو تو نہیں مانتا، لیکن وقت کے ساتھ شعری زبان میں جو رد و بدل پیدا ہوتا ہے اسے نیک شگون سمجھتا ہوں۔ ادب میں سرپرستی سے کام نہیں چلتا، خود کے مطالعہ اور عہد شناسی سے بات بنتی ہے۔ مجھے 80ء کے بعد کے کئی شاعر پسند ہیں۔یہ ممبئی میں بھی ہیں، بہار میں بھی ہیں، احمد آباد میں بھی ہیں، دہلی میں بھی، لکھنؤ میں بھی ہیں، کشمیر میں بھی ہیں ، حیدرآباد اور کرناٹک میں بھی ہیں۔ فہرست سازی سے اس لیے گریز کررہا ہوں کہ یاد داشت اکثر دھوکادیتی ہے اور اس عیب کی وجہ سے دوستوں کی ناراضگی کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ مجھے پڑھنے کا شوق ہے۔ اس شوق میں خاص طور سے نئے شاعر زیادہ ہوتے ہیں۔ انھیں میں اس لیے بھی پڑھتا ہوں کہ ان کے بدلے ہوئے الفاظ کے آئینہ میں ، میں اپنے الفاظ کا جائزہ لے سکوں۔

مقصود بستوی: آج لفظ سے جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے اپنی مرضی اور مفاد کے پیشِ نظراس کی معنی او رمفہوم کو بدلا جا رہا ہے ادھر ہمارے ہندوستان میں یہ کام سنگھ پریوار بڑی دیدہ دلیری سے کر رہا ہے ۔یہاں تاریخی حقیقت کو ’’ڈھانچہ‘‘اور مفروضے کو ’’آستھا‘‘کہا جا رہا ہے صداقت کو جھٹلایا اور تاریخ کو اپنے مزاج کے مطابق گڑھا جا رہا ہے ’’تاج محل ‘‘کوشیو مندر اور سنگِ اسود کو شیو لنگ بتایا جا رہا ہے کیا یہ کسی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ نہیں ہے ؟

ندا فاضلی: سنگھ پریوار جو ہندو واد کاچہرہ لگائے گھوم رہی ہے ، وہ اس ملک کی ہندو آبادی کے ایک چھوٹے سے حصّہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ملک کی آبادی کی کثیر تعداد اس سیاست کے فریب سے دور ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو بنیاد پرستی کی مخالفت بھی تحریراً اور تقریراً بیدار ذہن ہندو ہی کر رہا ہے۔ ہندو واد کی سیاست ایک پیشہ وارانہ تجارت ہے۔ یہ انھیں خطوں میں وقتی طور سے کامیاب نظر آتی ہے جہاں تعلیم کی روشنی نہیں پہنچی ہے۔ ہر متعصب سیاست کی طرح ، اس نے بھی تعلیم کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ایک ریکارڈ کے مطابق،آر ایس ایس ہر سال اپنی شاکھاؤں اور ششومندروں میں ۱۲ لاکھ کچے ذہنوں میں تعصب کا زہر انڈیلتی ہے نصاب میں تبدیلی ،تاریخ کے ساتھ کھلواڑ اسی زہر کے ترکیبی اجزاء ہیں مدرسوں میں بھی دوسری سطح پر کچھ ایساہی فرقہ وارانہ کام ہورہا ہے۔ لیکن مٹھی بھر لوگوں کے سیاسی کرتبوں سے ’ہندوستان کی جمہوریت‘ پر میرا اعتماد کمزور نہیں ہوتا۔ اس جمہوریت کی جڑیں پانچ ہزار سال گہری ہیں اور اس کا ثبوت موجودہ حکومت کی ساخت ہے۔ آج اسی ہندو اکثریت کے ملک میں صدارت کی کرسی پر ایک مسلمان بیٹھا ہے، پرائم منسٹر سکھ ہے اور ملک کی سب سے طاقت ور نسائی آواز عیسائی ہے۔ اس کی مثال پڑوسی ملک تو کجا ، کسی دوسرے ملک میں بھی ممکن نہیں۔ جو کام چھوٹے پیمانے پر آر ایس ایس ، شیوسینا اور دہشت گرد کررہے ہیں ، بڑے پیمانے پر وہی بُش اور ان کے اتحادی کررہے ہیں۔لیکن اقتدار کی یہ آنکھ مچولی بہت دن تک نہیں چل سکتی۔امریکہ میں بُش کی سیاست کے خلاف مظاہرے ، برطانیہ میں بلیئرکے خلاف برٹش کا غم و غصّہ اور اسرائیل میں اعتدال پسندوں کا احتجاج اور بھارت میں این ڈی اے کی شکست دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔

ظہیر انصاری :بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے Backdropمیں آپ نے ایک نظم کہی تھی ’’ایک قومی رہنما کے نام‘‘ :مجھے معلوم ہے/تمہارے نام سے منسوب ہیں /ٹوٹے ہوئے سورج /شکستہ چاند/تمہارے جیب میں خنجر/نہ ہاتھوں میں /کوئی بم تھا /تمہارے رتھ پہ تو/مریادہ پرشوتم کا پرچم تھا۔اس نظم میں کرب اور غصے کے ساتھ ساتھ قوم کے درد کا ادراک بھی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ سیکولر بننے کی ہوڑ میں آپ کوئی واضح Standنہیں لے پاتے ہیں ۔

ندا فاضلی: میری نظم’ ایک قومی رہنما کے نام‘ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے اس رتھ یاترا کے بارے میں تھی جس کے سارتھی اڈوانی تھے۔ میں ادب کو ہندو مسلمان میں تقسیم نہیں کرتا۔میرے نزدیک اس کا رشتہ انسان سے ہے جو اپنے عقیدے اور آستھا کے ساتھ مشترک زمین پررہنے کے لیے آزاد ہے۔خداکی کتاب میں خدا کو رب العالمین پکارا گیا ہے۔ ہندو شاستروں میں ایشور کو ذرہ ذرہ میں پوشیدہ بتایا گیا ہے۔ مقدس انجیل میں جب روشنی کو پھیلنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس کے پھیلائو کی حدیں مقرر نہیں کی گئی تھیں۔ میں نے یہ نظم لال قلعہ کے مشاعرہ میں پڑھی تھی جس کی صدارت اس وقت دہلی کے چیف منسٹر کھورانا کررہے تھے۔ نظم پڑھنے سے پہلے میں نے کھورانا کو مخاطب کرکے کہا تھا۔ مادری زبان کا حق ہو یا مذہب کی آزادی، یہ بھیک میں نہیں حق کے طور پر حاصل کیا جائے گا اور میری اس بات کی تائید مشاعرہ کے دس ہزار سامعین نے کی تھی۔ ہندوتو تلسی داس بھی ہیں، گاندھی بھی ہیں اور چھوٹا راجن بھی۔ مسلمانوں میں بھی امیر خسروؔ بھی ہیں ، ابوالکلام آزاد بھی ہیں اور دائود ابراہیم بھی۔ میری نظم کی طرفداری ان اقدار سے جو انسان کی انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبالؔ کی ایک نظم کے مصرعے ہیں:

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدے کے بت ہوگئے پرانے

اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا

جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے

ظہیر انصاری :نائن الیون9/11کے بعد عالمی ترجیحات بدل گئے ہیں ۔اس حادثے کا ظاہر ہے شعراء و ادبا نے اثر لیا ہے اور ان کی سوچ (فکر)متاثر ہوئی ہے ۔Scenarioمیں ایک شاعر و ادیب کا کیا رول ہونا چاہیے؟

ندا فاضلی: میرا موضوع ہمیشہ کی طرح اس حادثے کے بعد بھی انسان ہی رہا ہے۔ میں ہر انسان کو قدرت کا اعتبار مانتا ہوں۔ 9/11کے حادثہ کا شکار ہونے والوں میں عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ مسلمان بھی تھے۔ پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات میں مارے جانے والے مختلف عقائد کے باوجود مسلمان ہی ہیں۔ ایران اور عراق کی جنگ میں بھی دونوں محاذوں پر ایک ہی عقیدہ کے لوگ تھے۔ بنگالی مسلمان اور پنجابی مسلمان کی لڑائی جو بنگلہ دیش کے وجود کی بنیاد بنی ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے خون خرابے کی داستان ہے۔ عراق اور کویت کی جنگ بھی مختلف مذاہب کے درمیان نہیں ہوئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ راجپوت حکمرانوں کی آپس میں جتنی لڑائیاں ہوئی ہیں وہ ان لڑائیوں سے کم ہیں جو مسلم حملہ آوروں اور ہندوستانی راجائوں کے درمیان ہوئی تھیں۔ اسی طرح مسلمان آپس میں جتنا لڑے ہیں اس سے بہت کم دوسروں سے نبردآزما ہوئے ہیں۔ لوگوں کے سوچنے کا انداز ، عوامی سطح پر سرکاری اور نیم سرکاری پبلیسٹی کے ذریعہ بنتا بگڑتا ہے۔ امریکہ میں بھی ہندوستان کی طرح عوامی جہالت کی افراط ہے، جسے ملکی سیاست اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی رہتی ہے۔ بُش نے دہشت پسندی کے خلاف جنگ کو جس طرح عیسائیت اور اسلام کی لڑائی بنایا تھا ، اسی نے انھیں الیکش جتایا تھا۔ اڈوانی نے رتھ یاترا سے جو مذہبی جنون پھیلایا تھا اسی نے پارلیمنٹ میں ان کے ممبران کی تعداد کو بڑھایاتھا۔ پاکستان نے ضیاء الحق کے دور میں اسی حکمت عملی کو دہرایا تھا اور مذہب کے نام پر عوام کو بھٹکایا تھا۔ مذہب کو جب اس کی روح سے الگ کرکے اقتدار کی تجارت بنایا جاتا ہے تو اسی طرح کا تماشا دکھایا جاتا ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم مذہب کی روحانیت اور مذہب کی تجارت میں فرق کرنا بھول گئے ۔ میں نے اپنی نظم’قومی رہنما کے نام‘ جس کے حوالے سے آپ نے پہلے سوال کیا تھا اس کی دو لائینیں یوں ہیں:

تمھیں ہندو کی چاہت ہے ، نہ مسلم سے عداوت ہے

تمھارا دھرم صدیوں سے تجارت تھا ، تجارت ہے

میرا خدا رب العالمین ہے۔یہ تمام عالموں کا خدا ’میرا یقین‘ ہے۔ ہاں خدا کے تاجروں میں، میں ہندو ، مسلم اور عیسائی کی تفریق غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ میں مذہب کو قول سے زیادہ عمل میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور عمل کی کسوٹی پر بہت کم پورے اترتے ہیں۔

ظہیر انصاری :فلمی شاعری اور ادبی شاعری میں نمایاں فرق کیا ہے؟

ندا فاضلی: فلمی نغمہ نگاری اور ادبی شاعری دو مختلف رویوں کے ترجمان ہیں۔ فلم میں ایک گیت کو کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ موسیقار کی دُھن، پروڈیوسر کی پسند، ڈائریکٹر کی کہانی کی سمجھ، کہانی میں کردار کی عمر اور سماجی حیثیت ، ان ساری حد بندیوں سے صحیح سلامت گزرکر ہی کوئی گیت صدا بند کیا جاتا ہے۔ ادبی شاعری ان پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ لیکن ان حد بندیوں کے باوجود ، اگر لکھنے والا لفظ شناس ہوتو ساحرؔ اور شیلندرؔ کے گیت وجود میں آتے ہیں۔

ظہیر انصاری :آخری سوال _____شاعری آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔آپ کے والد صاحب بھی کہنہ مشق شاعر تھے ۔اگر آپ شاعر نہ ہوتے تو کیا ہوتے ؟

ندا فاضلی: جائداد کی طرح فن وراثت میں نہیں ملتا۔ فن اپنے ہر روپ میں زمین پر آسمان کی نعمت ہوتا ہے۔ لیکن اس نعمت کی حفاظت انسان کی محنت ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے، جب اس کی خاطر خواہ حفاظت کوئی فنکار اپنی محنت سے نہیں کرتا تو یہ نعمت عطاکرنے والا واپس بھی لے لیتاہے۔ میرے گھر میں شاعرانہ ماحول ضرور تھا۔ میرے والد دعاؔ ڈبائیوی ، جانشین داغؔ حضرت نوح ؔناروی کے ممتاز شاگرد تھے ان کے دو مجموعے تصویرِ دعاؔ، اور تاثیرِ دعاؔ کے نام سے شائع ہوئے تھے۔والدہ کو بھی شعر کہنے کا شوق تھا۔ وہ ان دنوں کے خواتین کے رسائل میں جمیل فاطمہ مخفی کے نام سے شائع ہوتی تھیں۔ اگر میں شاعر نہ ہوتا تو اپنی ماں کی خواہش کے مطابق ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرتا اور آرام کی زندگی گزارتا۔ وقت پر تعلیم پوری کرتا ، اس کے بعدکوئی پیشہ اپنا تا ، پھر شادی کرتا، بڑھتی آبادی میں دو تین اپنے بھی شامل کرتا اور ماں باپ کی دعائوں کا حصّہ دار بنتا۔ لیکن شاعری کے شوق نے ایسا کچھ نہیں ہونے دیا۔ اور پھر جو کچھ ہوا تاخیر سے ہوا، تاخیر سے بے گھری کو گھر ملا، دیر سے بھوک اور روٹی کا رشتہ قائم ہوا، عورت بھی نصیب میں وقت پر نہیں آئی۔ زندگی میں اس سماجی ترتیب کے بگڑنے کا دکھ تو ضرور ہے، لیکن اپنی طرح جینے کا غرور بھی ہے، جو میرے خیال میں فن کی تربیت کے لیے اہم ہے:

کہیں چھت تھی دیوار و درتھے کہیں، ملا مجھ کو گھر کا پتہ دیر سے

دیا تو بہت زندگی نے مجھے ، مگر جو دیا وہ دیا دیر سے

ہوا نہ کوئی کام معمول سے ، گذارے شب و روز کچھ اس طرح

کبھی چاند نکلا غلط وقت پہ ، کبھی گھر میں سورج اُگا دیر سے

———————————————————————

ظہیر انصاری معروف ادبی جریدہ ’تحریرِ نو‘ کے مدیر ہیں۔

مقصود بستوی نئے شعرا میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں اور ایک ادبی دو ماہی ’بازدید‘ کے مدیر بھی ہیں۔

Town Planing in the Era of Prophet Mohammad (S)

Articles

عہد نبوی کا شہری نظام

اسد اللہ خاں شہیدی

مدینہ منور کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی ، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سر حدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک ، اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پراسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔
اگر چہ شروع میں اسلامی ریاست کانظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا تا ہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی ، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیاسیاسی تجربہ تھا؛کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی ، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے ، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جوایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبرداری تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں تسلسل سیاسی چپقلش ، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں ، عربوں میں ناصرف مرکزیت کافقدان تھا؛ بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے ، وہ کسی ”غیر“کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے ، یہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کاسیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی، جس کی اطاعت بدوی اورشہری تمام عرب باشندے کرتے تھے ، اس کا سب سے بڑا؛ بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یاخون “ کے بجائے ”اسلام یادین “معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی ۔
اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھاتو آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک پرسورہ ٴ اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے رہتی تھی :ترجمہ :﴿اے اللہ ! (نئی منزل میں ) صدق وصفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے وہاں کا نکلنا بھی صدق وصفا پر مبنی ہو(نئی جگہ دین پھیلانے کے لیے )غلبہ عطا فرما۔ ﴾(سورہ بنی اسرائیل :۸۰)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کی دعاقبول فرمائی ، اسلامی مملکت کے قیام کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم کوغلبہ عطا فرمایا ۔ ابھی آپ صلى الله عليه وسلم حضرت ابوایوب انصاری رضى الله عنه کے مکان میں قیام فرماتھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے میثاق ِمدینہ کااہتمام کیا ، اس مقصد کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے مہاجرین ، انصار ، یہود ، عیسائی اور دیگر قبائل کوجمع کیا ، آپ صلى الله عليه وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی، اس کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی ، ابتدائی موٴرخین نے اسی کو صحیفہ کانام دیا ہے ، یہ حکمرانِ وقت کا ایک فرمان تھا ، ساتھ ہی تمام لوگوں کااقرار نامہ بھی تھا ،جس پران لوگوں کے دستخط تھے ، اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے ، ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار یاہے ،وہ لکھتے ہیں :
”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا ، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنوالنضیر و بنوقریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے ، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے ، اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے ۔ ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے ؛ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کوغلبہ ہورہاتھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کوبادشاہ بنادیں ؛ حتی کہ بخاری اورابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاج شہر یاری کی تیاری بھی کا ریگروں کے سپر د ہوچکی تھی ، بلاشبہ حضور صلى الله عليه وسلم نے بیعة عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی ، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کاالگ راج تھا ، اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتاتھا ، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا ، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے ؛ مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا ، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی ، اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے ، ان حالات میں حضور صلى الله عليه وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فور ی ضرور تیں تھیں :
۱- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کاتعین ۔

۲- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزربسر کاانتظام ۔

۳- شہرکے غیر مسلم عربوں او رخاص کریہودیوں سے سمجھوتہ ۔

۴ – شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کااہتمام ۔

۵- قریشِ مکہ سے مہاجرین کوپہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کابدلہ ۔
ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی ،جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیاہے ، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں ، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینااور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا “(ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں :مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے :
۱- آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا ؛تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
۲- مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی ۔
۳- فتنہ وفساد کوقوت سے ختم کیاجائے گا ۔
۴- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا ۔
۵- حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا ۔
۶- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے رجوع کیاجائے گا۔
اس معاہدے میں مسلمانوں ، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے ،الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزآنہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی ، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا (محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : ڈاکٹر حمید اللہ )
اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی ۔اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں :
۱- امن و امان کاقیام ۔

۲- تعلیم و تربیت کی سہولتیں ۔

۳- روزگار ، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی ۔
قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پراللہ کاکنبہ ہیں ، انسان فطرتاًمل جل کر رہنا چاہتاہے اور دنیاکے تمام وسائل ہمارے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ، اس لیے صاف اورسیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ، فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے ، معلم کتاب و حکمت صلى الله عليه وسلم ان کی تشریح اور ان کی تفصیل فرماں چکے ہیں۔ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کاسیلاب امڈ پڑاتھا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنابڑھ گئی ۔ (صحیح بخاری ) ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیاتھا ، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نوآبادی (کالونائزیشن )اور شہری منصوبہ بندی (ٹاوٴن پلاننگ ) میں عظیم انقلاب برپا کردیاتھا ، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کواتنے محدود وسائل میں رہائش اور کا م کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں ، طبقوں ، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آآکر جمع ہورہے تھے ، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے ، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیداہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں … جیساکہ عام طور پرایسے حالات میں ہوتاہے …… رسول کریم صلى الله عليه وسلم کاایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کامستحق ہے ، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی ، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اس راز سے آگاہ کیاکہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کانام شہری منصوبہ نہیں؛ بلکہ ایساہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، روحانی بالیدگی ، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کاسبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیاتھا ، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کاپہلا مرحلہ تکمیل کوپہنچا ، دوسرے مرحلہ کا آغاز نووارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیاگیا ؛ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یااس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا ۔
مدینة الرسول ،ایک لحاظ سے ”مہاجربستی “ تھی ، گوسارے مہاجروہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہوتو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیاہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایاجائے ، عوالی میں رہنے والے بنوسلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نامنظور کردیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی ،ریاست کی نوآبادی اسکیم کایہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے ، بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے ؛ بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایاجاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیاجا تا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیاکرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کاانتظام مسجد کے اندر کیمپ لگاکریا صفہ میں کیاجاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پرمشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایاجاتا؛ تاآں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا ، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے اولا ًیا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیاجاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں؛ مگرخیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایساکیاگیاجبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی او رنہ ہی منظم تھی ۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموما ًبڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے ۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیاجاتا؛ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتاہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علٰحدہ رہائش کے لیے جومکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے ، (ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )
توسیعِ شہر:
تعمیرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک تواتر کے ساتھ جاری رہا، یہاں تک کہ بنی قینقاع کے اخراج( ۳ھء)کے بعد مکانات کی خاصی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ آجانے کے سبب رہائشی قلت بہت حد تک دو ر ہوگئی ، مگر یہ مسئلہ ختم نہ ہوا؛کیوں کہ رہائشی سہولتوں کے مقابلہ میں نوواردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہورہاتھا؛ اس لیے ۲ھء (بنوقریضہ کی فتح ) تک یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا، اس کے بعد اسلامی حکومت کی آمدنی کے وسائل بھی پیداہوگئے ، مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی کسی قدر سنبھل گئی ، یہودیوں کے بہت سے مکانات بھی مل گئے ، لہٰذا معاملہ کی سنگینی بڑی حدتک کم ہوگئی؛ تاہم آباد کاری کا کام فتحِ مکہ اور اس کے بعد بھی جاری رہا ، فتح کے ساتھی ہی چونکہ ہجرت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ، اس لیے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ رک گیا؛ تاہم کئی لوگ فتحِ مکہ کے بعد بھی مدینہ میں آکر آبا د ہوئے اور حصولِ تعلیم وغیرہ کے لیے آنے والوں کابھی تانتا بندھارہا (عہد نبوی کا نظام تعلیم :ڈاکٹر حمید اللہ )
عہد نبوی صلى الله عليه وسلم کے اواخر میں مدینہ کاشہر مغرب میں بطحا تک ، مشرق میں بقیع الغرقد تک ، اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانا ت تک پھیل چکا تھا ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام زبر دست اہمیت کا حامل ہے ، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جنھیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا ، اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (۵۰۰)پانچ سو ہاتھ مقرر کی ، اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پرعمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے ، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یاتو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طر ف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جاسکے ،دوسری طر ف یہ کہ قریظہ اور نضیر کی مفتوحہ بستیوں یاجوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا؛ تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے ، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی (نسائی ، کتاب الصلاة )
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انھیں ذریں اصولوں پر جنھیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایاتھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ۔
مدینہ کی شہری ریاست :
موجودہ دو رمیں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں :
۱- شہر کی گلیوں اور شاہ راہوں کابندوبست ، مارکیٹوں کی تعمیر ، رہائشی انتظامات ۔

۲- پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم ۔

۳- گندے پانی کی نکاسی ، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست ۔

۴- تعلیم ، علاج ، دیگر فلاحی ادارں ، کھیل کے میدانوں کا قیام ۔

۵- چمن بندی اور شہر کی خوبصورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام ۔

۶- ان کاموں کے لیے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب ۔
حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں ،جہاں تک محکمہٴ احتساب کا تعلق ہے ، فارابی ، ماوردی اور اور طوسی اسی کی موافقت میں ہیں ؛ماوردی نے محکمہ ٴ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمہٴ انصاف او رمحکمہٴ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے ، محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور برے کاموں کو روکے ۔
قرآنی اصطلاح معروف کی تین قسمیں ہیں :
۱- حقوق اللہ ۲-حقوق العباد ۳- وہ اعمال و ہ افعال جن کا تعلق دونوں سے ہو ۔
مدینة النبی صلى الله عليه وسلم میں یہ کام اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم خود انجام دیتے تھے ۔ حضور سرورِ کائنات صلى الله عليه وسلم مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر ، ناپ تول کر ، پیمانہ دیکھتے ، چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے ، عیب دار مال کی چھان بین کرتے ، گراں فروشی سے روکتے ، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے ؛ اس ضمن میں سید نا حضرت عمر رضى الله عنه ، حضرت عبیدہ بن رفاعہ رضى الله عنه ، حضرت ابو سعید خدری رضى الله عنه ، حضرت عبداللہ بن عباس رضى الله عنه ، حضرت ابوہریر ہ رضى الله عنه ،حضرت انس رضى الله عنه، حضرت ابو امامہ رضى الله عنه ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه، حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنها ، حضرت علی رضى الله عنه اوردیگر صحابہ کرام رضى الله عنه کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کی تعین کرتی ہیں ۔
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں ، پلوں کی تعمیراور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہ راہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتاہے ۔بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں ، بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں ، فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں؛ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ ”اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی ، اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی ۔ “(صحیح مسلم)
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے ، سڑکوں پر سایہ دا ر درخت لگانے کا حکم ہے ۔ ابوللیث سمر قندی رحمة الله عليه اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ ”کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستہ پر تھوکے یاناک صاف کرے ،یاکوئی ایساکام کرے، جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پا وٴں خراب ہوجائیں ، اسلام کا قانون حق آسائش اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑک پر کوئی عمارت بنائی جائے “
موجود ہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹرافک کاہے ، اس کے بار ے میں تعلیماتِ بنوی صلى الله عليه وسلم سے احکام ملتے ہیں، سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صلى الله عليه وسلم نے منع کیا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے جانوروں تک کے لیے راستہ کی آزادی برقرار رکھی ہے ، مدینہ کی شہری مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنوئیں خرید کر کیا گیا ، قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا ، بیت الخلاء کااس زمانہ میں رواج نہ تھا؛ لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا ۔
شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طورپر انتظام کیاگیا، مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اورچشمے بمشکل دستیاب ہوئے ۔ حضرت عثمان رضى الله عنه نے جوخود بھی مدینہ کی نوآبادی میں رہتے تھے ،آن حضور صلى الله عليه وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئرروماں خرید کر وقف کردیا ۔ (صحیح بخاری باب فضائل )
اسلام جسم و جان کی پاکیزگی او رظاہر و باطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے ، وضو ، طہارت ، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے مسجدیں بناکر وہاں طہارت خانہ تعمیر کر نے کی ہدایت جاری کی ، اسلام کے عمومی مزاج اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے ۔ ہرمسجد کے ساتھ طہارت خانہ تعمیر کیے گئے ۔(ابن ماجہ)
ہم سایہ کے حقوق کے بارے میں رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے جوارشادات ملتے ہیں، ان پر عمل درآمد سے انسانی معاشرہ کے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں ، صحیح مسلم میں حضرت انس رضى الله عنه بن مالک کی روایت ہے ”کوئی مسلمان ، مسلمان نہیں ہے، جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتاہے ۔ “
اس ایک ارشادِمقدس میں صفائی ستھرائی ، صحت ، شائستگی ، خوش خلقی ، صلح جوئی ، ہمدری ، ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہ شہری زندگی کے تمام ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہوسکتی ہے ۔
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے ، رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اسے سختی سے منع فرمادیا ، گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہوجانے کی صورت میں سات ہاتھ ”ذراع“ مقرر کی گئی۔ (صحیح مسلم ) جوفِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں ، اس لیے مدینہ میں بھی کوچہ تنگ، مگر سیدھے تھے ، باوجود یہ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے، مگرعام طورپر آپ صلى الله عليه وسلم نے کشادہ مکانات کوپسند کیا اور فرمایا ”خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہوں“(امام بخاری ۔ باب ادب المفرد)
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے ، صفائی اورپاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے ، گھر، گھر کے باہرکا ہر مقام، اپنے جسم ، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے، مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے، سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجدبنوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تواللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کوصاف کرتے تھے، وضو اور غسل کا نظام ، غلاظت سے صفائی کے احکام ، چوپال ، کھلیانوں کی جگہ ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے۔
حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص بونے پر زور دیاگیا ہے ، ملاوٹ کر نے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے ، پینے کے پانی کوصاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں ، اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں، ان میں وباوٴں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے ۔
سایہ ، چمن بندی ، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے ، مثلاً سورئہ عبس میں ارشاد ربانی ہے کہ” ہم نے زمین سے اناج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا ،یہ سب کچھ تمہاے اور تمہارے چوپایوں کے لیے بنایا ہے “(سور ئہ عبس آیت : ۳۲۔۲۷)
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتا تھا ، اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے، رسول صلى الله عليه وسلم نے شہر اورمسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، مسجد النبی صلى الله عليه وسلمکے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے ، جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا ، مسجد النبی صلى الله عليه وسلم کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضر ت ابو طلحہ انصاری رضى الله عنه کا وسیع و شاداب باغ بیر حاء تھا ، جہاں حضورپاک صلى الله عليه وسلم اکثر تشریف لے جاتے ۔( صحیح بخاری ، نسائی ، ابن ماجہ )
مدینہ میں نکاسیِ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا؛ کیوں کہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا ، اکثر کہیں سے کوئی پہاڑ ی ندی ، نالہ گذر تا تھا تو وہاں باندھ کے ذریعہ عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنادیاگیا تھا ۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید و فروخت کی سہولت کے لیے علاحدہ منڈی یابازار بنادیا گیا، خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج (۳ھء)کے بعد قائم ہوئی ہوگی؛ کیونکہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم )
مدینے کا بازار مسجد النبی صلى الله عليه وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا ، بازار خاصہ وسیع و عریض تھا اور آخر عہد بنوی میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا ، تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے زبردست کوششیں کی،جن میں سب سے اہم آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان تھا۔ ”مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے “(فتوح البلدان، بلاذری )
زمانہٴ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجات میں بڑ ی رکاوٹیں تھیں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کاسبب تھا ، اور دراصل اس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی؛ بلکہ جزیرة العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں ، مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات او ر برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا نا قابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صر ف اقوام و ملل کے لیے، بلکہ پوری نو عِ بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے ، جس کے ذریعہ بین الاقوامی طورپر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کوفائدہ پہنچایاجاسکتاہے اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں ۔

تعلیمی اداروں کا قیام :
حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے منجملہ ان باتوں کے تعلیم پر بڑا زور دیاہے ، تاریخِ اسلا م میں پہلا نصابِ تعلیم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہی ترتیب دیا، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بناکر اسلام کی پہلی اقامتی درسگا ہ کی بنیاد ڈالی تھی؛ جہاں آپ صلى الله عليه وسلم خود درس دیاکرتے تھے، اپنے دورِ خلافت میں حضرت عمر رضى الله عنه نے مسجد میں مکتب قائم کرکے ان کی نگہداشت و اخراجات کا ذمہ دار بھی حکومت کو بنایا ،آج دورِ جدید میں شہری حکومت کی ذمہ داریوں میں تعلیم کی اشاعت اور فنون کی تربیت بھی شامل ہے ۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے ، مسلمان کو چاہئے کہ جہاں سے ملے لے لے ۔
(بحوالہ: ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3 ، جلد: 95 ‏، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء)

Maharashtra mein Urdu Afsana 1960 ke Ba’ad

Articles

مہاراشٹر میں اردو افسانہ ۱۹۶۰ کے بعد

ڈاکٹر عبداللہ امتیازاحمد

جس وقت تحریکِ آزادی شباب پرتھی اس وقت بمبئی ذریعۂ معاش کا اہم مرکزتھا۔ لوگ ملک کے مختلف حصوں سے ہجرت کرکے بمبئی میں داخل ہورہے تھے جس میں ایک بڑا طبقہ ادیبوں کا بھی تھا۔ پریم چند سے لے کر کرشن چندر، منٹو، بیدی، عصمت اور خواجہ احمدعباس جیسے اعلا پایہ کے ادیبوں نے ممبئی کی ادبی محفل کو رونق بخشی۔یہ شہر اس وقت جدید افسانہ کا مرکز تھا۔ جب یہاں کے ادیبوں نے ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کی تو ادبی دنیا میں ایک انقلاب آگیا۔ اس تحریک نے جہاں دبے کچلے افراد کی زندگی اور ان کے مسائل کو موضوع بنایاوہیں دوسری طرف ظالموں اور سرمایہ داروں کے ظلم وبربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ترقی پسند تحریک کا دوراردو افسانہ نگاری کا عہدزریں کہا جاسکتا ہے۔ اس وقت ہندوستان مختلف مسائل سے دوچار تھا۔ عدم مساوات اور معاشی بحران کا مسئلہ ابھی حل بھی نہیں ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم کا سانحہ پیش آیا، تقسیم ہند کے سانحے اور اس کے ردعمل کے طور پر رونما ہونے والے فسادات نے لوگوں کو ذہنی کرب میں مبتلا کردیا۔ اس دوران انسانیت کو شرمسارکردینے والے حادثات اور ہجرت کے کرب نے لوگوں کو بے حس بنادیا جس نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کردیا۔ جہاں ان مسائل کی وجہ سے اردو افسانے کے موضوعات کو وسعت حاصل ہوئی وہیں موضوعات کی یکسانیت نے اکتاہٹ پیدا کردی اور مقلدین کی بھرمار نے ادب کو نعرہ بنادیا جس کی وجہ سے اس تحریک کا زور ،روز بروز ختم ہوتا چلاگیا۔
۱۹۶۰ کے بعداردو افسانے میں تجربات اور ردوقبول کے دور کا آغاز ہوا۔ ان تجربات نے جہاں اردو افسانے کو مروجہ اسلوب سے باہر نکالا وہیں اردو افسانے کو نئے معنی و مفاہیم بھی عطا کیے۔ جدیدیت کی یہ تحریک ادب کے ساتھ ساتھ اسلوب اور موضوعات میں بھی شعوری طور پر تبدیلی کی خواہش مند تھی۔ چنانچہ اظہار خیال کے لیے نئے اسلوب کی تشکیل کا عمل شروع ہوا اور یہیں سے اسلوب کی سطح پر تجربات کے دور کا آغاز ہوا۔ موضوعات میں انفرادیت اور نئے پن کی جستجو نے انھیں اجتماعی موضوعات سے دورکردیا ۔ کبھی افسانے میں کردار کو، کبھی کہانی کو ردکیا گیا۔ افسانہ نگار اپنی بات اشاروں ، کنایوں ، تشبیہات و استعارات میں بیان کرنے لگا۔ حقیقت نگاری کا اسلوب علامتی اور تمثیلی پیرایہ بیان اختیار کرتا چلاگیا۔ اسی دور میں قاری تلازمۂ خیال ، خود کلامی، شعور کی روکی تکنیک اور آپ بیتی جیسے جدید اسلوب سے متعارف ہوا۔
۱۹۷۰ کے بعد اردو افسانہ نگاری کا اہم مرکز مہاراشٹر رہا۔ ۱۹۷۰ کے بعد افسانہ نگاروں کی نسل جوگیندر پال، سریندرپرکاش، رام لال، اقبال متین، رتن سنگھ، اقبال مجید اور جیلانی بانو جیسے قدآور افسانہ نگاروں پر مشتمل ہے۔ سریندر پرکاش اور جوگیندرپال نے جب مہاراشٹرا کی سرزمین پر قدم رکھا تو دونوں نے جدیدیت کا پرزور استقبال کیا اور یہیں سے اردوافسانے میں ایک نئے دورکا آغازہوا۔ جوگیندرپال اور سریندرپرکاش نے جدیدیت کے زیراثر بے شمار افسانے تحریر کیے دونوں کا ویژن اور افسانوں کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں میں ’’جپّی ژاں‘‘، دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘، ’’ساحل پر لیٹی عورت‘‘اور ’’سرنگ‘‘ وغیرہ کا شمار ان کے کامیاب افسانوں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف جوگیندر پال نے ’’نوزائدہ‘‘،’’ پیچھے‘‘، ’’گھر‘‘، ’’مقامات‘‘، اور ’’پرندوں کا جھنڈ‘‘ جیسے لافانی افسانے تخلیق کیے۔ مہاراشٹرا میں جدیدیت کی اس تحریک کوآگے بڑھانے میں رفعت نواز،الیاس فرحت، ابراہیم اختر، سریندر کمارمہرا، محمود شکیل اور رشیدانور وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا جو اس وقت افسانے کے فن پر طبع آزمائی کررہے تھے اور ان کے افسانے اس دور میں متواتر رسائل میں شائع ہورہے تھے۔ ترقی پسند تحریک کی مانند علامتی اور تمثیلی افسانوں کی یہ دنیا رفتہ رفتہ یکسانیت کا شکار ہوتی چلی گئی۔ موضوعات میں دہشت گردی ، عدم تحفظ، فرد کی تنہائی، انتظامیہ کی بے حسی اور ایک نامعلوم مستقبل کی نشاندہی باقی رہ گئی تھی ۔ بیشتر افسانہ نگار انھیں موضوعات کے اردگرد چکر لگارہے تھے۔
۱۹۸۰ کے بعد کے مہاراشٹر کے افسانہ نگاروں کے لیے یہ دور لمحۂ فکریہ تھاکہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ، افسانے کی کس روش کواختیار کریں ایک طرف جہاں ترقی پسند تحریک کے واضح نقوش تھے وہیں دوسری طرف جدیدیت کی تحریک باہیں کھولے دروازے پردستک دے رہی تھی۔ جدیدیت کی تحریک کے زیراثر اردوافسانے میں مختلف سطحوں پر زبردست تجربے کیے گئے اس میں کچھ کامیاب بھی ہوئے اور کچھ ناکام بھی مگر ان تجربوں سے افسانہ نگاروں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس دور میں بہت سے افسانے ایسے لکھے گئے جو کہانی پن سے یکسر خالی تھے یعنی افسانے کے روایتی اجزا ئے ترکیبی سے انحراف کیا گیا اور اسے افسانے کے لیے غیر ضروری قرار دیتے ہوئے علامتی پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ، چاہے قاری کی رسائی ان تک ہویا نہ ہو۔ اس پیرایہ بیان میں بھی وہ افسانہ نگار جو افسانے کے فن سے واقف تھے کامیاب افسانے تحریر کیے، مگر ۱۹۸۰ء؁ کے بعد کی افسانہ نگاروں کی یہ نسل ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہوکر نئی راہ کی متلاشی تھی چناچہ انھوں نے ایسے افسانوں کی تخلیق پر زوردیاجس میں کہانی پن، پلاٹ اور ماجراکے ساتھ ساتھ علامت اور استعارہ بھی حسب ضرورت شامل ہو مگر کہیں سے بھی آورد والی کیفیت نہ پیدا ہونے پائے افسانے میں تجسس کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کے فن کو بھی ملحوظ رکھا جائے جس کی وجہ سے افسانہ کامیابی کی کسوٹی پر کھرا اترتاہے۔ مذکورہ بالا اصولوں کو سامنے رکھ کر ۱۹۸۰ء؁ کے بعد مہاراشٹرا میں لکھے گئے افسانوں میں سلام بن رزاق کا افسانہ’’آخری کنگورہ‘‘، نورالحسنین کا ’’فقط بیان تک‘‘اور’’سبزۂ نوررستہ کا نوحہ‘‘ ، مشتاق مومن کا ’’ترنت شور مچائیے اور انعام پائیے‘‘، ساجد رشید کا ’’سونے کے دانت‘‘، انور خان کا ’’حق‘‘، ’’گڑھی میں اترتی شام‘‘ اور ’’فنکاری‘‘،انورقمر کا’’فضول کاغذات میں ملے تین خط‘‘، احمدعثمانی کا ’’اپنی مٹی‘‘ اور اشتیاق سعید کا افسانہ ’’ہل جوتا‘‘ وغیرہ مہاراشٹر ا کے نئے افسانوں میں اولیت کے حامل ہیں۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی میں مہاراشٹر کے افسانہ نگاروں نے موضوعات کی یکسانیت اور مروجہ افسانوی اسلوب کے خلاف آواز بلند کی اور اس کہانی کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے جس میں دل کے دھڑکنے کی صدا واضح طور پر سنی جاسکے اور کہانی روح کی تسکین کا ذریعہ بن سکے جس میں شہری زندگی کے مسائل اور زندگی بسر کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی آرزوئیں اور تمنائیں انگڑائیاں لے رہی ہوں اور معاشرے کے ایک ایک پہلو کو اجاگر کرسکے جہاں کہانی اسلوب کے پردے میں نہ چھپ جائے۔ اس احساس کے زیرِ اثر مہاراشٹرکی اردوافسانہ نگاری نے اپنا رخ بدلا جوکہ نہ تو اپنے پیش رو افسانہ نگاروں کے مشابہ تھا اور نہ ہی بالکلیہ جدیدیت کا منحرف جس کے نتیجے میں ایک ایسے افسانے کا چہرہ سامنے آیا جسے ناقدین نے ’’نئے افسانے‘‘ کے نام سے منسوب کیا۔ جوکہ افسانہ نگاروں کے فطری تقاضوں کو اپنے بھیتر پوری طرح سموئے ہوئے تھا۔ اس دور کے افسانہ نگاروں نے جہاں ایک طرف کہانی پن کے انحراف کو رد کیا وہیںدوسری طرف علامتی افسانوں کی بامعنویت گیرائی اور گہرائی کوبھی اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ اس نئے افسانے کی کامیابی کاسہرا سلام بن رزاق کے سرہے۔ مگران کے شانہ بشانہ مہاراشٹرا کے دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی اسے ترقی دینے میں اہم کرداراداکیا۔ آج مہاراشٹر میں اردو افسانے کی یہ مستحکم بنیاد انھیں افسانہ نگاروں کی کوششوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ عصر حاضر کے مہاراشٹرکے افسانہ نگاروںمیں سلام بن رزاق، انورقمر، ساجدرشید، انور خان، نورالحسنین، حمید سہروردی،مقدرحمید، سید محمداشرف، معین الدین جنابڑے، مین را، بانوسرتاج،احمد عثمان، ایم مبین، عارف خورشید، مشتاق مومن، قاضی مشتاق ،محمودایوبی، علی امام نقوی،مظہرسلیم، اشتیاق سعید، رحمن عباس، مشتاق رضا، عظیم راہی، م۔ناگ، طارق کولہاپوری اور براق مرزاوغیرہ کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ اس میں کچھ ایسے افسانہ نگاربھی شامل ہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیںجن کے قلم اب خاموش پڑچکے ہیں۔ توکچھ ایسے بھی ہیں جن کے افسانے مسلسل ہمارے توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن سے مستقبل میں امیدیں وابستہ ہیں، مہاراشٹر میں اردو افسانہ نگاروں کا یہ کارواں آج بھی رواں دواں ہے۔
اگر مہاراشٹر میں اردو افسانہ نگاری کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو اس بات کا بخوبی طور پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں کے افسانہ نگاروں نے اپنے اطراف واکناف میں رونما ہونے والے واقعات وحادثات کی مکمل عکاسی اپنے افسانوں میں کی ہے۔جس میں معمولی افراد بھی ہیں اور درمیانی طبقہ کے لوگ بھی ۔ لٹے پٹے نواب بھی ہیں تو دوسری طرف سرمایہ دار،زمیندار، جاگیر دار، کسان، مزدوراور وہ افراد بھی ہیں جو بظاہر ہمارے سماج کا حصہ ہیں لیکن ہماری فکر کا حصہ نہیں بن پاتے۔ مہاراشٹر کے عصری افسانوں میں ہندومیتھا لوجی، حکایات اور روایتوں سے خوب استفادہ کیا گیا ہے۔ انتظامیہ کی بے حسی، بدنظمی، بدعنوانی اور عدم تحفظ جیسے مسائل مہاراشٹرکے اردو افسانہ نگاروں کا محبوب موضوع رہا ہے۔ یہاں کے افسانہ نگاروں نے قومی ، ملکی اور بین الاقوامی مسائل کو پیش کرکے معاشرے کو اس کا اصلی چہرہ دکھانے کی بہترین کوشش کی ہے۔ الغرض مہاراشٹر میں لکھا جانے والا افسانہ اردو افسانے کے ارتقا ئی سفر میں پوری طرح شامل تھا اور موجودہ عہد میں اردو افسانے کی نمائندگی کررہاہے۔
مہاراشٹر میں اردو افسانے کے عصری منظرنامے کی وضاحت کے لیے ۱۹۸۰ء؁ کے بعد مہاراشٹرمیں اردو افسانے کی سمت ورفتار پر تفصیلی گفتگو اشد ضروری ہے اس لیے یہاں مہاراشٹر کے نمائندہ افسانہ نگاروں اور ان کے افسانوں کا انفرادی طور پر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مہاراشٹر میں اردو افسانہ نگاری کا کوئی بھی باب تشنہ نہ رہ جائے اور موجودہ دور کے افسانوں کے موضوعات ومسائل کی روشنی میں ان کے معیار ومرتبے کا تعین کیا جاسکے۔
ساجد رشید کا شمار مہاراشٹر کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے حالانکہ وہ اب اس دارفانی سے رخصت ہوچکے ہیں مگر ان کے افسانے اور ان کا فن ہمارے درمیان آج بھی زندہ ہے۔ ساجدرشید ایک زندہ دل انسان تھے اس لیے وہ اپنے ماحول سے پوری طرح باخبر تھے۔ سماجی برائیوں اور مسائل کو بہت بے باکی کے ساتھ اپنے افسانوں میں جگہ دی اور ان پر جم کر وار کیا۔ آج کا دور بے مروتی اور بے حسی کا دور ہے لالچ، ہوس، حرص، خودغرضی اور موقع پرستی کو خوبیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ چاروں طرف افراتفری کا عالم ہے کوئی کسی کا پرسان حال نہیں ۔ جہاں صنعتی انقلاب نے لوگوں کی ترقی کے درواکیے وہیں اعلا قدریں اور روایتیں آخری سانسیں لے رہی ہیںجس کی وجہ سے آج کا فرد تنہائی اور گھٹن کا شکار ہے اس کی خوب صورت مثال ساجد رشید کے افسانے’’اوپرسے گرتا اندھیرا‘‘ کے طور پر پیش کیا جاسکتی ہے، جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ بظاہر انسان نے بہت ترقی کرلی ہے مگر انسان انسان سے دور ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان کے افسانے ’’شام کے پرندے‘‘ اور ’’نفرتوں کے آرپار‘‘ وہ افسانے ہیں جس میں خاندانی روایتوں کے ٹوٹنے اور بکھرنے کی کہانی بہت موثر انداز میں بیان کی گئی ہے۔ افسانہ ’’برف گھر‘‘، ’’دوپہر‘‘ ، ڈاکو‘‘،’’سونے کے دانت‘‘ اور ’’کرما‘‘ وغیرہ ساجد رشید کے سماجی وسیاسی شعور پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ساجد رشید جہاں ایک طرف بدلتی قدروں کا نقشہ کھینچتے ہیں وہیں دوسری طرف شہری زندگی کے مسائل کی بے باک ترجمانی بھی کرتے ہیں۔’’چادروالا آدمی اور میں‘‘،’’اندھی سیڑھیاں‘‘،’’ایک گمشدہ عورت اور اندھیری گلی‘‘ اس کی واضح مثال ہیں۔
سلام بن رزاق کا شمار صرف مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ اردو ادب کے اعلاپایہ کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے اور عصر حاضر کے افسانہ نگاروں میں ان کا نام اولیت کا حامل ہے۔ بقول نورالحسنین’’نئے افسانے کی امامت کا تاج بلا شبہ سلام بن رزاق کے سر ہے‘‘۔ سلام بن رزاق کے افسانوں کا موضوع انسانی رشتے، ان رشتوں کا احترام، استحصال، سیاسی جبریت، انسان کی سماجی بندشوں ، ان کی لاچاری، مجبوری، بے بسی اور ان سے آزادہونے کی تڑپ وغیرہ ان کا پسندیدہ موضوع ہے‘‘۔ سلام بن رزاق متوسط طبقہ کے افسانہ نگار ہیں۔ وہ انسان کے ظاہرو باطن دونوں پہلوؤں کو کھنگالتے ہیں۔ ’’بیت‘‘، ’’پٹا‘‘ ، ’’ایک اورشرون کمار‘‘، اور’’ البم‘‘ وغیرہ ان کے اسی قبیل کے افسانے ہیں۔ سلام بن رزاق جب معاشرے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو انھیں چاپلوسی، مکاری، تنگ نظری، مذہبی جنون، مصلحت کوشی اور خود غرضی چاروں طرف نظر آتی ہے اور انسان کی فطری خوبیاں انھیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ ان کے افسانے ’’مکھوٹے‘‘ ،’’اس دن کی بات‘‘، ’’دوچراغ‘‘،’’یک لویہ‘‘،’’تصویر‘‘ اور ’’زندگی افسانہ نہیں‘‘ وغیرہ مختلف سماجی مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’یک لویہ‘‘اور ’’زندگی افسانہ نہیں‘‘ میں مذہب کے پس پردہ ہونے والے استحصال کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ ان کا فن مسلسل ارتقا کی منزلیں طے کرتا رہا۔ دہشت گردی کے نام پر پولس کی یک طرفہ کاروائی کے خلاف ان کا افسانہ ’’آخری کنگورہ‘‘ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
سید محمداشرف کا شمار بھی ۱۹۸۰کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے حالانکہ ان کا تعلق براہ راست مہاراشٹرسے نہیں ہے لیکن انھوں نے مہاراشٹرکے ہم عصر افسانہ نگاروں کے ساتھ مل کر کامیاب افسانے تحریر کیے ۔ سید محمد اشرف کے بیشتر افسانوں میں انسانوں کے ساتھ جانوروں کا بھی ذکر ہوا ہے ۔ انھیں انسانی جبلتوں میں جانوروں کی خصوصیات نظرآتی ہیں جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کوئی نئی’’پنچ تنتر‘‘ لکھنے کی تیاری کررہے ہیں۔ چاہے افسانہ ’’لکڑبگھارویا‘‘ہویا’’لکڑ بگھا چپ ہوگیا‘‘ ان افسانوں کے ذریعے انھوں نے انسانی فطرت اور خود غرضیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا لافانی افسانہ’’روگ‘‘بظاہر پاگل ہاتھی کومارنے کی کہانی ہے اس افسانے کے ذریعے خوف اور انسانوں پر خوف کے تاثرات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ ’’چمک‘‘، ’’بادصبا کاانتظار‘‘ اور ’’تلاش رنگِ رائیگاں‘‘ کو ان کی خصوصیات کی بنیاد پر اردو ادب میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ سید محمد اشرف نے ممبئی کے ماحول میں افسانہ ’’دعا‘‘ تحریر کیا جس میں انھوں نے استحصال اور احتجاج کے امتزاج کی خوب صورت تصویر پیش کی ہے۔ سید محمد اشرف نے اپنے افسانوں کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے اس میں ہجرتوں کا کرب ، عدم تحفظ کا مسئلہ، انسانی رویے، عیاری، ریاکاری اور خود غرضی شامل ہیں۔ سید محمد اشرف کے افسانے جذباتیت سے لبریزہوتے ہیں۔
مہاراشٹر کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں انور خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے کھوکھلے پن اور انسانی رویوں پر گہرا طنز دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات میں نسلی امتیازات، تنہائی کا کرب ، عمروں کا تضاد، بے چارگی اور انسان کی مجبوری اور بے بسی شامل ہے۔ وہ اپنے افسانوں کا مواد کسی بڑے واقعات سے اخذ نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے گردوپیش میں رونما ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات وحادثات سے موضوع کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسلوبیاتی سطح پر ان کے افسانوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پہلے حصے میںان کے طویل افسانے سادہ بیانیہ اسلوب پرمشتمل ہیں دوسرے حصے کے افسانے مختصر اور فلمی منظر نامے کی تکنیک سے آراستہ ہیں۔ ان کا افسانہ ’’کتاب دارکاخواب‘‘ اعلاپایہ کی تکنیک کا لافانی افسانہ ہے۔ آثار قدیمہ کے حوالے سے ایک زبردست تجربہ ہے جس میں قاری اپنے آپ کو کتاب دار کے ساتھ ساکت محسوس کرنے لگتا ہے۔ افسانہ ’’لمس‘‘ بہ ظاہر ایک کمرے کی کہانی ہے جس میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ گھر کی بے جان چیزیں انسانی لمس کی محتاج ہیں اور ان کو چھونے سے اس میںکسی قدر جان پیدا ہوجاتی ہے۔ ان کا شاہکار افسانہ ’’کنوؤں سے ڈھکا آسمان‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں انھوں نے آگ کو زندگی کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ یہ ایک تہہ دار افسانہ ہے جس میں آج کے دور میں زندگی بسر کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے اس پہلو ؤں کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسانہ ’’صداؤں سے بنا آدمی‘‘،’’اور کبھی‘‘،’’سیاہ‘‘،’’سفید‘‘اور ’’شکستگی‘‘ وغیرہ کا شمار بھی ان کے کامیاب افسانوں میں ہوتا ہے۔ انور خان اپنے افسانوں میں سماج کے ایسے افراد کو پیش کرتے ہیں جوزندگی کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کا افسانہ ’’فنکاری‘‘ ان لوگوں کی کہانی ہے جو انتظامیہ کے خلاف آواز تو بلند کرتے ہیں مگر مانگیں پوری ہونے پر اسی انتظامیہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انور خان کے دوسرے افسانوں میں ’’یادبسیرے ‘‘، ’’اکیلی بستیاں‘‘ اور’’شام رنگ‘‘وغیرہ کے مطالعہ سے ان کے فن کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انور قمر کا شمار اردو ادب کے Genius افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں روایت اور جدت کا حسین ترین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے وسیع مطالعہ کی بنیاد پر ان کے افسانوں کے موضوعات میں ندرت دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایسے اچھوتے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن پر دوسرے افسانہ نگاروں کی نظرنہیں پڑتی۔ ان کے افسانوں کا محور ومرکز کمزور طبقات کی زبوں حالی، محرومی، اخلاقی زوال کے باعث پیدا ہونے والی خلا اور استحصال وغیرہ ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں معنوی تہداری نظرآتی ہے۔ ان کے افسانوں میں ’’قیدی‘‘، ’’ہاتھیوں کی باڑ‘‘،’’چاندنی کے سپرد‘‘،’’کابلی والا کی واپسی‘‘اور’’چوپال میں سنایا ہوا قصہ‘‘ وغیرہ کا شمار ان کے نمائندہ افسانوں میں ہوتا ہے۔ بنیادی طورپر انور قمر شہری زندگی کے افسانہ نگار ہیں۔ افسانہ ’’ڈر‘‘ اور ’’چوراہے پر ٹنگا ہوا آدمی‘‘ میں آج کے دور میں شہری زندگی میں انسان کی ناقدری کے المیے کو پیش کیا گیا ہے۔ ان کا افسانہ ’’فضول کاغذات میں ملے تین خط‘‘ کو اردو ادب میں بہت سراہا گیا جس میں انھوں نے تقسیم ہند کے دوران ہجرت کے کرب کو موضوع بنایا۔
مقدر حمید کے افسانے گہرے تجربات پر مشتمل ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے افسانوں میں ایک نئی تازگی اور انوکھا پن نظرآتا ہے۔ ان کا افسانہ ’’محفوظ راستوں کی تلاش‘‘ ایسے افراد کی کہانی ہے جو کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں لیکن انھیں اس بات کا علم نہیں کہ یہاں کے باسی اس خوف کی وجہ سے پہلے ہی یہاں سے ہجرت کر چکے ہیں۔ افسانہ ’’زربیل‘‘ میں دولت کے پجاریوں کی عبرت ناک کہانی بیان کی گئی ہے۔ افسانہ ’’فریم سے باہر کی تصویر‘‘ میں مردوں کی بے راہ روی اور دوسری عورتوں سے آسودگی حاصل کرنے کے برے نتائج کی طرف اشارہ کیا گیا ہے تو افسانہ ’’تھوڑی سی فضائی‘‘ میں دولت کے نشے میں انسان کی بے ضمیری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مقدرحمید کے افسانوں میں سماج کی حیرت ناک اور عبرت ناک تصویر دیکھنے کو ملتی ہے۔
مشتاق مومن کے افسانوں میں صنعتی انقلاب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی جیتی جاگتی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جس میں مذہب سے دوری، اقتدار کا زوال ، مذہبی استحصال ، خود غرضی، لالچ، حرص وہوس، مفاد پرستی اور ذمہ داریوں کا کرب وغیرہ کے مسائل پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔ اپنے افسانے’’ آسیب ‘‘، ’’کریم لگا بسکٹ‘‘ اور ’’چیونٹیاں‘‘ وغیرہ میں متذکرہ بالا مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کا شاہکار افسانہ ’’رت جگوں کا زوال‘‘ میں عصری جبریت اور سیاسی داؤ پیچ کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ افسانہ ’’دوساجن‘‘ میں دوسری شادی کی ضرورتوں اور جنسی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے تو افسانہ’’ مرد گزیدہ‘‘ میں دودھ کے رشتے کی دردناک تصویر پیش کی گئی ہے۔ الغرض ان کے افسانوں میں سماجی رشتوں کی ٹوٹتی بکھرتی کڑیوں کی جانب واضح طور پر اشارہ کیا گیا ہے۔
م۔ناگ کے افسانوں کے کردار بھولے بھالے معصوم انسان ہیں ۔ ان کی زبان بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں ’’ڈاکو طے کریں گے‘‘،’’اسکول‘‘،’’کٹی ہوئی ناک‘‘،’’کمپیوٹر‘‘،’’عینک والا آدمی اور اس کی بیوی‘‘،’’ژراف‘‘،’’گھوڑسوار‘‘،’’تیرتھ‘‘ اور’’ چاند میرے آجا ‘‘ وغیرہ کا شمار ان کے کامیاب افسانوں میں ہوتا ہے۔ جس کے ذریعہ انھوں نے سماجی کھوکھلے پن کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
احمد عثمانی کے افسانے سماجی حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہیں۔ جو انسانی رشتے ،رویے، گھٹن، بے روزگاری، معاشی اور معاشرتی حالات کا جبر اور اس سے نجات پانے کی جدوجہد اور ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان کے افسانوں کا محور ہیں۔ ان کے افسانوں میں ’’کوکھ جلی‘‘جس میں اولاد کی خواہش اور سماجی نفرتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانہ ’’ بھنور‘‘نفسانی خواہشات کے غلام انسان کی کہانی ہے ۔ افسانہ’’موسموں کا اسیر‘‘ میں ان افراد کی کہانی بیان کی گئی ہے جو خوش حال زندگی کی تمنا لیے شہر کا رخ کرتے ہیںمگر یہاں فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرنے کے لیے مجبور ہیں ۔ افسانہ ’’کفارہ‘‘ میں ضمیری اور بے ضمیری کے درمیان جنگ لڑتے نوجوان کی کہانی ہے۔ افسانہ ’’اپنی مٹی‘‘ ایسے افراد کی کہانی ہے جوجوش میں آکر ہجرت تو کرلیتے ہیں مگر زندگی بھر اپنی زمین سے دوری کے کرب سے آزاد نہیں ہو پاتے اور مسلسل اپنی واپسی کا خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔
معین الدین جنا بڑے کا شمار بھی ۱۹۸۰ء؁ کے بعد کے مہاراشٹرکے اہم افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ بقول معین الدین جنابڑے’’زندگی کہانی میں ڈھلتی ہے اور زندگی کہانی کا حصہ بن کر نئی کہانی کو جنم دیتی ہے ۔ زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے اور کہانی جنم لیتی رہتی ہے ‘‘جنا بڑے کے اس قول سے کہانی کے متعلق ان کے نظریات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی صورت حال ان کی کہانیوں میں بھی نظرآتی ہے۔ ان کے افسانے زندگی کے کسی موڑ سے اٹھتے ہیں اور پھر ان کے کردار کئی کہانیوں کو جنم دیتے چلے جاتے ہیں جس سے افسانے میں تہہ داری بڑھتی چلی جاتی ہے اور قاری تجسس کی آخری منزلوں پر اڑان بھرنے لگتا ہے پھر رفتہ رفتہ کہانی کی معنوی سطحیں کھلنے لگتی ہیں۔افسانہ ’’رنگ ماسٹر‘‘،’’گرجاگھر‘‘اور ’’بھول بھلیاں‘‘وغیرہ اپنے عصری ماحول کے باوجود کہیں نہ کہیں روایت کا حصہ معلوم ہوتے ہیں مطلب یہ کہ ان کے افسانے قاری کو ایسی خیالی دنیا کی سیر کرواتے ہیں جہاں ماضی کی حکایتیں بھی ہیں اور ندی، دریا، جھرنے،پہاڑ،پرفضا مقامات اورگھاٹ سے وابستہ موت کی طرف لے جانے والی کہانیاں بھی ہیں۔
عارف خورشید کے افسانوں میں انسان کی فطری بے چینیاں واضح طور پر نظرآتی ہیں اور کردار کے تصادم سے پیدا ہونے والے مسائل ، سیاسی جبریت اور عصری مسائل سبھی کچھ ان کے افسانوں میں موجود ہے۔ مگر عارف خورشید بنیادی طور پر استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے والے افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں عورت کی لاچاری ، بے بسی اور مجبوری کے ساتھ ساتھ مردوں کے ہاتھوںعورتوں کا ہونے والا استحصال کی بالکل فطری تصویر پیش کی گئی ہے۔وہ خواہ افسانہ ــ’’سنگی احاطہ دل ‘‘ کی مر حومہ بیوی ہو یاافسانہ ’’احساس کا زخمی مجسمہ‘‘ کی سازیہ یا پھر ’’گناہ کی کیل‘‘کی بے نام محبوبہ یا’’ اڑائی ہوئی کلّی‘‘کی بیوی ہو الغرض ان کے افسانوں میں عورتوں کے استحصال کی درد ناک تصویر دیکھنے کو ملتی ہے ۔
مہاراشٹرکے عصر حاضر کے افسانہ نگاروں میں قاضی مشتاق احمد کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا انداز بیان بالکل سیدھا سادہ ہے اور الفاظ کے تراش و خراش سے اپنے کو دور رکھا۔ علامتوں ، تشبیہات اور استعارات جیسے لوازمات سے ان کا افسانہ پاک ہے۔ ان کے بیشتر افسانوں کے پلاٹ عام انسانی زندگی سے مستعار ہیں یعنی ان کے افسانوں کی وہی دنیا ہے جس میں ہم اور آپ زندگی بسر کررہے ہیں اسی لیے ان کے کردارہمیں بے حد متاثر کرتے ہیں اور قاری کہانی سے جڑتا چلا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں معاشرے کی جیتی جاگتی تصویر پیش کی گئی ہے۔جس کی وجہ سے ان کی کہانیاں سماجی حقیقت نگاری کا بہترین نمونہ ہیں ۔ ان کے افسانوں میں ’’ویلکم قیامت‘‘ ’’انسان کی قسمت‘‘ ’’آہستہ آہستہ ‘‘ ’’اپنے غم‘‘اور ’’سونا اگلنے والی زمین ‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں نیا پن بھی ہے اور کرداروں میں آپ اپنی زندگی جینے کی صلاحیت بھی موجود ہے ان کے افسانے نئی کہانی کے فنی لوازمات کو پوری طرح اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
محمود ایوبی کی افسانہ نگاری کا دور بیسویںصدی کی آٹھویں دہائی سے شروع ہوتا ہے ان کے افسانوں کی برجستہ زبان اور مکالمے قاری کو محو حیرت کردیتے ہیںانہوںنے اپنے افسانوں میںسماجی مسائل کو اسی انداز سے پیش کیا ہے کہ جہاں افسانہ حقیقت نگاروں کاروپ لے لیتا ہے ، محمود ایوبی کے افسانوں میں’’چیخ ‘‘،’’بن باس‘‘، ’’آتنک‘‘ اور’’ سیوک ‘‘وغیرہ میں فرسودہ روایات اور سیاسی جبر کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ کچھ سال پہلے شائع ہونے والا ان کا افسانہ’’ندیا بہے دھیرے دھیرے‘‘ کے ادبی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی جس میں انھوں نے بڑھتی عمر میں بیوی کی اہمیت اور ضرورت کے نفسیاتی پہلوؤں کو بیان کیا ہے۔
بانو سرتاج کے افسانوں کا مرکز عورت ہے جس میں انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ عورت چاہے بے اختیار ہو چاہے بااختیار، ناخواندہ ہو یا تعلیم یافتہ، دولت مند ہو یا غریب، انھوں نے ہمیشہ عورت کو مرد کا کھلونا پایا اور کبھی کبھی تو عورت کو عورت کا استحصال کرتے ہوئے دیکھا۔ ان کے افسانوں میں ’’گھرے سمندر کا سفر‘‘، ’’عورت‘‘،’’بجوکا‘‘،’’تیسرے راستے کا مسافر‘‘،’’ایکلا چلو رے‘‘ اور ’’ماں ‘‘ وغیرہ کانام قابل ذکر ہے۔ جس میں انھوں نے عورت کے مختلف رویوں اورمسائل کی دردناک تصویر پیش کی ہے۔
۱۹۸۰کے بعد مہاراشٹر کے افسانہ نگاروں میں نورالحسنین کا شمار اعلا پایہ کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے جدیدیت سے آنکھیں چار کیں اور علامتی اور تفصیلی افسانے لکھے مگر کہانی پن کی ڈور ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے۔ ان کے علامتی اور تفصیلی افسانوں میں ’’بازی گر‘‘،’’رنگوں کے اسیر‘‘،’’اللہ پانی دے‘‘،’’شناخت‘‘ اور ’’دلدل‘‘ کی ادبی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ افسانہ بازی گر میں انھوں نے ملک کے دو بڑے مذہبی طبقوں کے مابین تصادم اور دونوں طبقوں کے مذہبی ٹھیکہ داروں اور سیاسی رہنماؤں کی بازی گری کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ دونوں طبقوں کے لوگ کس طرح ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ ان کاافسانہ ’’رنگوں کے اسیر‘‘ ملک کی صحیح قیادت کے فقدان کا نوحہ ہے۔ ’’اللہ پانی دے‘‘ ملک میں اپنے عدم تحفظ کے مسئلے پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے۔ افسانہ’’شناخت‘‘ ملک میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی دردناک تصویر پیش کرتا ہے۔ افسانہ’’ دلدل‘‘ تقسیم ہند کے المیہ کی روداد ہے۔ انھوں نے افسانوں کے ذریعے جدیدیت اور روایت کی بکھرتی کڑیوںکو جوڑنے اور کہانی پن کی واپسی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ’’گود بھری‘‘،’’جب باغ کا دروازہ کھلا‘‘ ،’’وصیت‘‘،’’ایک زندہ کہانی‘‘ ،’’گڑھی میں اترتی شام‘‘،’’ تقلیت‘‘،’’پچھلے پہر کی خوشبو‘‘،’’روح میں لپٹی ہوئی آگ‘‘،’’ دھوپ میں جلتا گاؤں‘‘ اور ’’ایکشن‘‘ وغیرہ ان کے کامیاب افسانوں کی دلیل ہیں جس کے ذریعے انھوں نے مختلف سماجی و سیاسی مسائل کی طرف ہماری توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ بقول سلام بن رزاق’’ان کے پاس مطالعاتی وصف ہے جو قاری کو باندھے رکھتا ہے ‘‘تو جاویدناصر کہتے ہیں’’نورالحسنین کا فن متنوع موضوعات سے عبار ت ہے۔
معین الدین عثمانی زندگی کے معمولی سے معمولی واقعات اور احساسات کو اپنے افسانے میں اسی طرح شامل کرتے ہیں کہ قاری ان کے افسانوں کے مطالعہ کے بعد ایک گہری سوچ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ان کا افسانہ قاری پر بھرپور تاثر چھوڑتا ہے۔ افسانہ ’’یادوں کے سلسلے‘‘ایک بچی کی مرض الموت اور داغ مفارقت کی کہانی ہے۔ بچی کی فرمائش اس کی زبان سے ادا ہونے والے کلمات ایک باپ کے دل ودماغ کو تار تار کردیتے ہیں جو بھیتر تک جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ان کے دیگر افسانوں میں افسانہ ’’خلیج ‘‘ میں جنریشن گیپ کی وجہ سے دومتضاد نظریات کے تصادم کو پیش کیا گیا ہے۔ افسانہ ’’وہ بات‘‘ اور ’’نمائش‘‘فرد کی ظاہری اور باطنی زندگی کی عکاسی کرتا ہے ’’بوجھ‘‘ اور ’’ریت کی دیوار‘‘ میں ازدواجی زندگی کے خانگی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مظہر سلیم کا شمار بھی عصرحاضر کے کامیاب افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ سماج کے دبے کچلے پسماندہ اور غریب عوام کی آواز واضح طور پر ان کے افسانوں میں سنی جا سکتی ہے۔ ان کے افسانوں میں کہیں بغاوت تو کہیں احتجاج ، کہیں مصلحت کوشی تو کہیں سمجھوتہ نظر آتا ہے۔ ان کے افسانے ’’درندہ‘‘،’’واگھ مارے نے خود کشی نہیں کی‘‘میں احتجاج اور سمجھوتا کا حسین ترین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان کے افسانوں کا انجام قاری کو چونکا دینے والا ہوتا ہے۔ جس کا تاثر قاری پر دیرتک قائم رہتا ہے۔
مہاراشٹر کے عصرحاضر کے افسانہ نگاروں میں عظیم راہی کے افسانوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ عظیم راہی بنیادی طور پر مڈل کلاس کی نمائندگی کرتے ہیں جوکہ برصغیر کی ایک بڑی آبادی پر مشتمل ہے وہ اپنے کرداروں کے خارج اور باطن پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ ان کے افسانے’’ کسی درجہ میں‘‘ مسلمانوں کی زبوں حالی، ان کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور مسلمانوں کو کس طرح نشانہ بنایا جارہاہے اس کی پوری تفصیل ہے۔
ایم۔مبین کے افسانوں کا محور و مرکزشہر ممبئی ہے۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں شہری زندگی میں روزمرہ کے مسائل ، عدم تحفظ کا مسئلہ، رہائش کا مسئلہ اور تہذیبی تصادم وغیرہ کی تصویر واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے جہاں رہائش ایک خواب کی مانند ہے اور تہذیبی تصادم کی وجہ سے ایک نیا معاشرہ جنم لے رہاہے۔ بچوں کی پرورش وپرداخت اور تربیت کی خاطر علامتوں کی منتقلی ضرور ہوتی ہے مگر یہ مسئلہ ہر جگہ یکساں نظر آتا ہے ان کے تمام افسانوں میں ان کے نظریات کا عکس واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ افسانہ ’’ٹوٹی چھت کا مکان‘‘، ’’حوادث‘‘، ’’اذان‘‘، ’’قاتلوں کے درمیان ‘‘وغیرہ اسی قبیل کے افسانے ہیں جس میں شہری زندگی کے مسائل کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے۔
سلطان سبحانی کی افسانہ نگاری کا دور ترقی پسند تحریک کے آخری پڑاؤ سے شروع ہوتا ہے جوبعدمیں جدیدیت کے ہم رکاب ہوئے اور پھرنئے افسانہ کے قافلے میں شامل ہوگئے۔ان کی افسانہ نگاری کی ابتدا رومانی افسانوں سے ہوئی مگر جلد ہی اس راستے کو خیرباد کہا اور جدیدیت کی صف میں شامل ہوگئے۔ مگر آخری دور میں نئے افسانوں سے وابستہ ہوکر کئی کامیاب افسانے تحریر کیے۔ ان افسانوں میں ’’چابک دست امام‘‘،’’دھنی ہوئی زمین‘‘ اور ’’جنگل اے جنگل‘‘ شامل ہے۔ اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کی طرح ان کے پاس بھی پاور فل بیانیہ ہے۔ وہیں دوسری طرف اپنے افسانوں میں موضوعات کے برتنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں ۔ افسانہ ’’گل فروش‘‘،’’مسمار شدہ عمارت‘‘،’’ مینی پلانٹ‘‘،’’مردکی خوشبو‘‘، ’’چھاتا‘‘ اور ’’برگدپر بسا ہوا گاؤں ‘‘ جیسے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں عصری ماحول کے حالات کے جبر کوواضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
حمید سہروردی کا شمار بھی مہاراشٹر کے صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کا اسلوب قاری کو قدر نامانوس اور اجنبی سا لگتا ہے بقول نورالحسنین’’ وہ زبان کی ندرتوں اور زبان کی بندشوں کے بجائے متن سے پھوٹنے والی روشنی میں اپنا سفر طے کرتے ہیں‘‘۔ ان کے افسانوں کی پیش کش کا ڈرامائی انداز قاری کو بہت متاثر کرتا ہے جس کے ذریعے وہ اہم سماجی مسائل کی جیتی جاگتی تصویر پل بھر میں ہمارے سامنے پیش کردیتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں پیش آنے والی تشبیہات، استعارات اور شعری اصطلاحات وغیرہ قاری کی فکرو فہم کا امتحان لیتے ہیں ۔ ان کے افسانوں میں ’’کہانی در کہانی ‘‘،’’ کھوئے راستوںکی شب ‘‘، ’’گپھائیں‘‘، ’’لمحہ لمحہ درد‘‘، ’’خالی لمحوں کا سفر‘‘،’’روشن لمحوں کی سوغات‘‘،’’ساجو کی چاندنی‘‘ اور’’ زمین کی گم شدگی‘‘ وغیرہ وہ افسانے ہیں جنھیں اردو ادب میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ افسانہ ’’کہانی درکہانی‘‘ اقدار کے زوال کا نوحہ ہے’’کھوئے راستوں کی شب‘‘ میں عہد حاضر کی بے حسی ، خودغرضی،قتل وخون اور زندہ رہنے کی جدجہد کو موضوع بنایا گیا ہے۔ افسانہ’’گپھائیں‘‘ تاریخ کی روشنی میں انسانی جبلتوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔حمید سہروردی کے افسانوں پر جدیدیت کے نقوش آج بھی واضح طور سے دیکھے جاسکتے ہیں۔
علی امام نقوی کا شمار مہاراشٹرکے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔بقول نورالحسنین’’ان کے پاس خوب صورت زبان ، ماجرے کی کیفیت اور معاشرے کی بولی ٹھولی بالکل اس طرح آتی ہیں جیسے منظر پر کسی نے کیمرہ لگا دیا ہو۔ بیانیہ پر ان کی حاکمانہ گرفت افسانے کو حقیقت میں تبدیل کردیتی ہے‘‘۔ فسادات کے موضوع پر اردو ادب کے بیشتر افسانہ نگاروں نے طبع آزمائی کی ہے مگر اس موضوع پر جب علی امام نقوی قلم اٹھاتے ہیں توان کی جدت اور فکر کی بالیدگی اسے بالکل اچھوتی کہانی میں تبدیل کردیتی ہے۔ افسانہ’’ ڈونگرواڑی کے گدھ‘‘ اور ’’۱۳؍ اگست ۱۹۸۰‘‘ وغیرہ فسادات کے موضوع پر لکھے گئے افسانے ہیں جنھیں قاری پڑھتا ہے اور تجسس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ان کے افسانے ’’ڈونگر واڑی کا گدھ‘‘ کی خوبی یہ ہے کہ اس میںکہیں بھی براہ راست فسادات کا ذکر نہیں ہے لیکن انجام اس قدر چونکا دینے والا ہے کہ قاری انجام سے آغاز کی طرف واپس آجاتا ہے۔ افسانہ ’’۱۳؍ اگست ۱۹۸۰‘‘ فسادات کے دوران گھر کے باسی گھر میں قبرستان کی ہولناکیوں سے گزرتے ہیں۔ دردوغم کی شدت، مجبوری بے بسی اور کرفیو کی فضا وغیرہ فسادات کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں جو روح کو گرمادیتے ہیں۔ علی امام نقوی کے کرداروں میں غریب نادار بھی ہیں اور اعلا طبقہ کے افراد بھی اور درمیانی طبقہ کی ذہنی الجھنیں بھی ہیں جیسے افسانہ ’’بنگالی ہائوس کی منی‘‘، ’’ساتھی‘‘،’ ’مباہلہ‘‘، ’’مسیحائی‘‘، ’’باوجی‘‘،’’میراث‘‘،’’محور‘‘ اور ’’مرگ گزیدہ‘‘ وغیرہ میں ان کے افسانوں کی خصوصیات صاف طور پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار مہاراشٹرکے اعلا پایہ کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔
رحمان عباس کا شمار مہاراشٹر کے نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ افسانہ نگاری کے جدید فن سے پوری طرح واقف ہیں اس لیے ان کے افسانوں کے مطالعہ کے وقت قاری کی دل چسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی ہے۔ ان کے افسانہ نگاری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے افسانے مرتوں اور سمجھوتوں سے یکسر خالی ہیں ۔ وہ اپنی بات کو بہت بے باکی سے کہہ جاتے ہیں۔ اور سماجی برائیوں پر گہرا وار کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میںشامل ہیں۔
نئے افسانہ نگاروں میں اشتیاق سعید کا نام قابل ذکر ہے ان کے افسانوی مجموعے ’’ہل جوتا‘‘کی وجہ سے اردو ادب میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ وہ دیہی اور شہری زندگی کے مسائل کو ایک ساتھ موضوع بناتے ہیں ۔ ان کے کئی افسانے دیہی اور شہری زندگی کا بہترین نمونہ ہیں۔ انھیں افسانہ نگاری کے فن پر گہری دسترس ہے اور مستقبل میں ان سے بہترین افسانہ نگاری کی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کے افسانوں میں ’’بجوکا‘‘،’’ہل جوتا‘‘، ’’حاضرغائب‘‘، ’’ بھوک کشمیر کو بنگال بنادیتی ہے‘‘،’’فرنگی‘‘،’’بہ رضائے صنم‘‘،’’پُتروَدھو‘‘،’’تشنہ آزاد‘‘، ’’ماں‘‘ اور’’تاخیر‘‘وغیرہ شامل ہیں۔
مہاراشٹر کے دیگر ہم عصر افسانہ نگاروں میں اقبال نیازی کا نام بھی شامل ہے جنھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا۔ ان کے افسانوں میں’’ اسپیڈ بریکر‘‘،’’طے شدہ‘‘،’’ابوخاں کی نئی بکری‘‘ اور ’’دستک‘‘ جیسے افسانے شامل ہیں۔ مگر انھوں نے بہت جلد افسانہ نگاری کو ترک کرکے ڈرامہ نگاری میں اپنی شناخت قائم کی ۔ بنیادی طور پر ان کا شمار مہاراشٹر کے کامیاب ڈرامہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ عبدالعزیز خاں مسلسل افسانہ لکھ رہے ہیں ۔ مشتاق رضا نے بھی شروع میں کچھ اچھے افسانے لکھے مگر بہت جلد مزاح نگار بن گئے۔ طارق کولہا پوری نے بھی کئی بہترین افسانے لکھے۔ فیروزہ فیاض نے بھی شروع میں کچھ اچھے افسانے لکھے مگر ادھر کافی دنوں سے ان کا قلم خاموش ہے۔ مہاراشٹر کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں مقصود اظہر کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے نئے لکھنے والوں میں انھیں منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کی فکر میں گہرائی و گیرائی ہے۔ ان کے افسانوں میں ’’کُشتن‘‘،’’پیپرویٹ‘‘ اور’’ گھر آنگن‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

Meem Naag ki Afsana Nigari by Aseem Kavyani

Articles

م۔ ناگ کی افسانہ نگاری

اسیم کاویانی

مختار احمد (م۔ ناگ) نے مغربی وِدربھ کے ضلع ناگپور کے ایک غریب اور کثیر عیال ہیڈ کانسٹیبل کے یہاں جنم لیا تھا۔ اُس کے والد نے ایمان داری میں گزر بسرکی تھی اور وہ اپنے خاندان کو غریبی کی ظلمت سے نہ نکال سکے تھے۔ پہلی کلاس ہی میں مختار احمد نے چار سال لگا دیے تھے، اس لیے کہ ہر سال کسی نہ کسی سبب سے اُس کے والد کا تبادلہ ہو جانے کی وجہ سے وہ امتحان ہی نہیں دے پاتا تھا۔ اُس نے لکھا ہے کہ ’پولیس کالونی میں کوئی گھریلو تقریب ہوتی تو ہمارے کپڑے، ہمارا اوتار دیکھ کر خود ہمیں شرم آتی۔ ۔ ۔ دو جوڑی سے زائد کپڑے کسی کے پاس نہ تھے۔ ‘1؎ وہ اکثر اپنی امّاں اور ابّا کا جھگڑا دیکھا کرتا تھا اور اُس کی ماں کا یہ فقرہ اُس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا کہ ’آپ کے اصول سب کے لیے سزا بن گئے ہیں۔ ‘ 2؎ بقول ناگ اُس کے والد نے کبھی کوئی نصیحت تو نہیں کی تھی، لیکن اُن کے کردار و عمل نے اُس کی شخصیت کی تعمیر میں ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مختار احمد کی میٹرک کے بعد اُسے پولیس کے محکمے میں لگانے کی صلاح دینے والے پولیس کمشنر کو اُس کے والد کا اپنا یہ فیصلہ سنادینا کہ وہ اپنے بیٹے سے بھیک منگوا لیں گے، لیکن اسے پولیس محکمے میں نہیں جانے دیں گے۔ 3؎ اپنے آپ میں ایک بہت بڑی نصیحت تھی۔ یہ اُن کے کردار و اصول ہی کا اثر تھا کہ جس نے مختار احمد کے خمیر میں فقر و قناعت، عاجزی و فروتنی، مصلحت و مصالحت اور سادگی و راستی کے عناصر کی پرورش کی تھی اور اس کے کردار میں احتجاج و بغاوت، چالاکی و ہوشیاری اور مسابقت و مخاصمت کے جذبات ٹھٹر کر رہ گئے تھے۔
مختار احمد میٹرک کے بعد چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتا رہا، مثلاً: گوندیا میں شراب کی ایک ہول سیل کی دکان، بھنڈارا کے ایک اینٹ کے بھٹّے اور ناگپور کے ڈیم کنٹراکٹر کے یہاں منیم گری اور ایک واٹر ٹینکر کی کلینری وغیرہ۔
جب 1975ء میں اُس کے سر میں بمبئی جانے کا سودا سمایا تو اُس کے والد نے منع کیا تھا’ وہاں کون ہے تیرا؟‘ لیکن وہ اپنے ایک دوست سے سو روپیے اُدھار لے کر بغیر کسی کو بتائے بمبئی کے لیے بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے :
’’میں ایک عدد ملازمت کے لیے بمبئی جا رہا تھا۔ میرا خواب کوئی بہت بڑا نہیں تھا کہ دنیا کو کچھ کر دکھانا ہے۔ میں تو ایک خوش حال زندگی گزارنا چاہتا تھا۔ ڈھنگ کے کپڑے جوتے ہوں، اچھا کھانا ہو، دوا دارو کا پیسہ ہو۔ ‘‘ 4؎
انصاف کی بات تو یہ ہے کہ خوش حال زندگی سے زیادہ یہ انسان کی صرف بنیادی ضرورت کی چیزیں ہیں، لیکن جیسا کہ ناگ نے لکھا ہے، ’ اس خواب کی تعبیر میں جیسے صدیاں گزر گئیں۔ ‘
م۔ ناگ نے اپنی خودنوشت کی دوسری قسط کے آغاز میں بمبئی کے بارے میں یہ عبارت درج کی ہے :
’’ممبئی ایک چوہا دان ہے، جس میں روٹی کا ٹکرا پھنسا ہے۔ میں روٹی کا ٹکڑا پانے کے لیے اندر کیا گیا، ساری دنیا باہر آ گئی۔ بس پھر کیا تھا، تیسری گھنٹی بجی، پردہ اٹھا اور چوہا بلی کا کھیل شروع ہو گیا۔ ‘‘ 5؎
اگرچہ م۔ ناگ اپنے شوقِ قلم کاری میں ’تاج‘ ویکلی میں چھپے اپنے پہلے افسانے کے بعد ماہ نامہ ’کتاب‘ لکھنؤ، ماہ نامہ ’تحریک‘ نئی دہلی، ماہ نامہ ’شمع‘ نئی دہلی، ماہ نامہ ’بانو‘ نئی دہلی اور ماہ نامہ ’روبی‘ نئی دہلی جیسے رسائل میں چھپ چکا تھا اور اس کے بیگ میں اُس کی غیر مطبوعہ کہانیوں کی ایک موٹی سی فائل بھی موجود تھی، مگر اِس شہرِ ستم گر کے سلسلے میں جب ایک زمانے میں شبلی جیسے علامہ کو یہ کہنا پڑ گیا تھا کہ ’’یہاں شبلی پڑا پھرتا ہے اور کوئی جانتا بھی نہیں کہ یہ شبلی ہے !‘‘ 6؎ تو یہ تو بے چارہ م۔ ناگ ہی تھا۔ یہاں اَن چاہا مہمان بننے سے لے کر فٹ پاتھ پر شب بسری، سروجنک غسل خانے اور بیت الخلا کے استعمال کے تجربے اور ملازمت کی تلاش میں لوکل ٹرینوں اور بسوں کی بھیڑ میں بھینچ بھنچا کر اُسے بہت جلد یہ احساس ہو گیا کہ ع
تلاشِ گُل میں ہم کس وادیِ پُر خار میں آئے !
ایک بار اُس نے دیکھا کہ لوکل ٹرین میں دروازے کا پول پکڑ کر باہر جھکے ہوئے لڑکے کو کسی مسافر نے منع کرتے ہوئے کہا تھا’ ’لڑکے، جھکو مت۔ تُو گرے گا تو ہمیں لیٹ (late) ہو گا‘‘ تو اُسے ممبئی کا مزاج سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی۔ اسی ممبئی کے بارے میں سید محمد ہادی نے کہا تھا ؎
یہاں چلنے کا طریقہ نہیں پہلے آپ کہنیاں مار کے بڑھنا سیکھولیکن ایسا کرنا تو م۔ناگ کے خمیر ہی میں شامل نہیں تھا۔ اُس نے مشہور افسانہ نگار انور قمر کی وساطت سے چمن لال سسوڈیا کی گوا اور ممبئی کی کمپنیوں میں تقریباً بارہ سال سپروائزر وغیرہ کی ملازمت کی اور چکّی کی مشقت کے ساتھ اپنی مشق سخن / قلم کو بھی جاری رکھا۔ اب یا تو وہ ملازمت اُسے راس نہیں آئی یا وہ اُس ملازمت کو راس نہیں آیا، وہ کبھی اپنے والد کو بمبئی کا سفر خرچ تک نہ بھیج سکا کہ وہ آ کر مل جائیں اور جب وہ چل بسے تو وہ اُن کے جنازے کو کندھا دینے بھی نہ جا سکا تھا۔
جب وہ اِنڈوفل میں ملازم تھا تو وہاں کے سکیوریٹی افسر الکزینڈر کو کمپنی کے مالک چمن لال سسوڈیا سے یہ کہتے سنا تھا کہ ’یہ لڑکا رات دن گدھے کی طرح کام کرتا ہے، لیکن نتیجہ صفر‘ 7؎۔ اُس وقت کے اپنے ردِّ عمل کو ناگ نے پُر لطف بمبیا ڈھنگ سے یوں بیان کیا ہے :’ یہ تو ایرانی ہو ٹل والا قصّہ ہو گیا کہ کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنہ‘!
م۔ ناگ کی کہانیاں مشہور رسائل اور اخبارات میں شائع ہو رہی تھیں۔ آخر اس نے ملازمت سے پنڈ چھڑایا اور صحافت کو بطور پیشہ اپنا لیا۔ وہ بمبئی کے ہفت روز ’بلٹز‘ اور ’انقلاب‘، ’اردو ٹائمز‘، ’صحافت‘، ’ہندستان‘ اور ’مہانگر‘ جیسے اردو روزناموں اور چند ہندی اور مراٹھی اخبارات میں کالم نگاری، تبصرہ نگاری سے لے کر معاون مدیر تک کے فرائض انجام دیتا رہا۔ اُس کا ’ جن ستّہ‘ کا کالم ’اردو دنیا‘ اور ’صحافت‘ میں اردو قلم کاروں کے لیے گئے انٹرویو سرا ہے بھی گئے، لیکن وہ اپنی سادہ دلی اور صحافتی اداروں کی استحصال کاری کے باعث عموماً تنگ دستی کا شکار رہا۔ اُس نے لکھا ہے کہ ’ضروریاتِ زندگی کے مقابل اُس کی آمدنی ایسی ہی رہی جیسے اونٹ کے منہ میں زیرہ‘۔ اردو اخباروں کے روایتی ماحول میں وہ اپنی صلاحیتوں کا کوئی پائیدار نقش نہ بنا سکا۔
اس نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ اکثر اُس کے پاس لوکل ٹرین کا سیزن ٹکٹ تک نہیں ہوتا تھا۔ اُسے بمبئی سینٹرل پر اُتر کر ناگپاڑا اپنے اخبار کے دفتر جانا ہوتا تھا تو وہ ٹکٹ چیکر سے بچنے کے لیے پلیٹ فارم کے پچھلے سِرے پر یارڈ سے ہوتا ہوا سڑک پر جا نکلتا تھا۔ ناداری کے دنوں میں اس کی شریک حیات نے گھر گھر ساڑیاں بیچنے کا کام بھی کیا تھا، لیکن سپلائر کو بروقت ادائیگی نہ کر پانے پر وہ سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ م۔ ناگ کو اُدھار لینے کی لت بھی پڑ گئی تھی اور قرض خواہوں کا سامنا کرتے کرتے اُس میں ڈھیٹ پن بھی آ گیا تھا، اُس نے خود لکھا ہے کہ لوگ اُس سے کترانے لگے تھے۔ اُس کی مفلسی نے اُس سے گھوسٹ رائٹنگ بھی کرائی اور وہ اپنے فن کو صیقل کرنے پر متوجہ نہ ہو سکا۔ ایک جگہ رقم طراز ہے :
’’بچّوں کا بچپن محرومیوں میں گزرا۔ نہ کپڑے، نہ کھلونے۔ اسکول کی فیس کے لیے بھی مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا… … میری وجہ سے بیوی بچوں کو کافی تکلیف ہوئی۔ میں اپنے آپ کو اُن کا گنہگار سمجھتا ہوں۔ بڑی مشکل سے دن گزرتے تھے۔ حالانکہ میں ’اردو ٹائمز‘، ’مسلم ٹائمز‘… …لیکن پیسوں میں کوئی برکت ہی نہیں رہی۔ ‘‘ 8؎
اپنے آخری دور میں م ناگ نے جس اردو اخبار کی ملازمت کو چھوڑا تھا وہاں کا حال تو اور بھی ناگفتہ بہ تھا۔ انٹرنیٹ اور دوسرے اخباروں کی خبروں کے cut and paste سے اخبار تیار کر لیا جاتا تھا۔ DTP آپریٹر ہی اڈیٹر کا فرض انجام دے لیتے تھے۔ ناگ جیسے سینئر صحافی پر وہاں کے چپراسی کو ترجیح حاصل تھی کہ وہ مالکِ اخبار کی ناک کا بال اور اُس کا مخبر بھی تھا۔ مختصر یہ کہ ناگ اپنی زبوں حالی میں جیسے تیسے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے جتن کرتا رہا تھا۔ …دوسری طرف اس کے ہم عصر افسانہ نگاروں یعنی سلام بن رزاق، انور خان، ساجد رشید اور انور قمر نے چونکہ اپنے کرئیر پر دھیان دیا تھا، نوکری یا روزگار کے معاملوں میں اپنی صلاحیت و زیرکی کا ثبوت دیا تھا، اس لیے وہ لوگ اس کی بہ نسبت اپنے فن کے ساتھ ساتھ دنیاداری میں بھی کامیاب رہے۔ ناگ اپنے ہم راہیوں سے ہر دو محاذ پر پچھڑ کر رہ گیا۔
اُس کے ایک افسانے ’زراف‘ کا مرکزی کردار رائٹر ہے جسے اُس نے زراف سے نسبت دی ہے : ’ زراف کہ گردن لمبی ہونے کی وجہ سے نیچے کی طرف اُگی ہری پتیاں نہیں کھاسکتا اور چوٹیوں پر اُگا سبزہ ختم ہو چکا ہے۔ ‘ 9؎ نجانے کیوں ایسا لگتا ہے کہ اُس نے جگ بیتی کے پردے میں آپ بیتی کہنے کی کوشش کی ہے اور اپنے ہم عصر ساتھیوں کو بھی ہدف بنایا ہے۔ وہ یہ مغالطہ بھی پالے ہوئے رہا کہ زمانہ اُس کا بیری ہے : ’’میں کتنے محاذ پر تنہا لڑسکتا ہوں ؟ آخر کب تک … ؟ میں اکیلا اور وہ اتنے سارے لوگ کیل کانٹوں سے لیس۔ ‘‘ ایک مقام پر رائٹر اپنی بیوی سے کہتا ہے :
’’چپ رہو۔ وہ اونچی مچان پر بیٹھے ہیں اور مجھے پریشان کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’کیوں بھلا! آپ میں کون سے سُرخاب کے پَر لگے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کی رائٹنگ سے ان کا تختہ پلٹ جائے گا! اگر یہ بات ہے تو وہ غلطی پر ہیں۔ ‘‘ بیوی ہنستی ہے۔
میں پھر سر جوڑے بیٹھا ہوں۔ کچھ نیا تخلیق ہو۔ کچھ شاہکار نہیں تو کم سے کم اوریجنل تخلیق ہوتا کہ اطمینان ہو جائے۔ ‘
اور یہ واقعہ ہے کہ اس نے اپنی کہانیوں میں اوریجنل پلاٹ پیش کرنے کی کوشش کی۔ چونکا دینے والا اسلوب اپنایا اور حد درجہ اختصار برتا۔ اب یہ الگ بات ہے کہ وہ کہیں کامیاب رہا، کہیں ناکام۔
بچپن میں وہ اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر واقع جیل میں ایک چور کو لائے جانے کی خبر سن کر تجسّس میں اسے دیکھنے چلا گیا تھا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ چور بھی سپاہی کی طرح ایک انسان ہوتا ہے۔ تب اُس کے معصوم ذہن میں انسانی کردار کی اس خلیج یا تضاد پر جو سوال قائم ہوا تھا، اس سوال کے حل کی جستجو کواس کے فن کا سفر باور کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ اس کے جواب کی جستجو میں اس نے کیا پایا لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ غم ہائے روزگار میں بھی اس نے اپنے اندر کے فنکار کو کھونے نہیں دیا۔ زندگی بھر اپنے صحافتی روزگار کے ہنگامی موضوعات اور زود نویسی پر مجبور رہنے کی بنا پر اس نے اپنے اظہارِ فن کے لیے مختصر افسانوں کا وسیلہ اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ اس کے افسانوں میں سیاست کے مکر، رشتوں کے تصنع، قدروں کے زوال اور مادیّت کے جبر پر بے محابا طنز ہے اور خاص طور پر شہری زندگی کے بناوٹی، ریا کار اور زر پرست معاشرے پر بے دریغ تنقید کا اظہار ہوا ہے۔ مثلاً: ’’جنگل کاٹ دیے گئے ہیں اور جو بچے ہیں وہ بھی کٹتے جا رہے ہیں۔ تخلیقی اظہار میں جمالیاتی پہلو ہی نہیں رہا۔ درخت اُگاؤ کی جگہ ڈالڈے کے خالی ڈبّے میں ایک پلانٹ لگایا ہے، وہ بھی منی پلانٹ، اور اسے بالکونی میں ٹانگ دیا ہے۔ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ سوچتے رہتے ہیں کہ کس طرح منی کو سر پلس کریں۔ رشتوں کو کیسے ڈیوائڈ کریں۔ پہچان کیسے ملٹی پلائی کریں۔ کیا کیش کریں۔ کیا بچ گیا ہے اور کیا بھاپ بن کر اُڑ گیا ہے۔ ‘‘(افسانہ:’زراف‘)
میری نظر میں ’ڈاکو طے کریں گے ‘ ناگ کا بہترین افسانہ ہے، جو اپنے انوکھے پلاٹ اور اسلوب کی تازگی کی وجہ سے قاری کے ذہن پر نقش چھوڑ جاتا ہے۔ اس دنیا کی غرض و غایت اور انسانی ترقی و رفتار کی حدّو انتہا نہ پاکر کبھی کبھی اس کائناتی معمّے کو اندھی سرنگ میں نامعلوم منزل کی طرف تیزی سے دوڑتی ٹرین سے تشبیہ دی گئی ہے۔ ناگ کے اس افسانے میں دوڑتی ٹرین کے ڈاکوؤں کو ہم اپنے دور کے بے رحم اور بے نکیل سیاسی مقتدرہ پر منطبق کر سکتے ہیں۔ شلوار، پینٹ، ساڑی اور دھوتی عام لوگ ہیں۔ چشمہ، دانشور ہے اور سادھو، مذہبی رہبر۔
’’ہمیں تو یہ بھی پتا نہیں کہ ٹرین جا کہاں رہی ہے۔ ‘ شلوار
’آخر ہم کس ٹرین میں بیٹھے ہیں ؟ ‘ پینٹ
’ٹکٹ دیکھو! شاید ٹکٹ پر لکھا ہو کہ تمھیں جانا کہاں ہے ؟ ‘ دھوتی
چشمہ کتاب پڑھ رہا ہے۔
’ ایک سکیوزمی! کیا اِس کتاب میں کہیں لکھا ہے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ ‘ ساڑی
’میں وہی تلاش کر رہا ہوں۔ ‘ چشمہ
ملے تو مجھے بھی بتانا پلیز! شلوار، (سادھو مہاراج بھی نہیں جانتا کہ ٹرین کہاں جا رہی ہے۔ )
یہ ڈاکو کہاں سے آ گئے ! ٹرین تو کہیں رُکی نہیں۔ پھر یہ ڈاکو کہاں سے آ گئے ؟
یہ ہمارے ساتھ ہی چلے تھے۔ یہ ہمارے ہم سفر ہیں۔ یہ ہماری جان و مال کی حفاظت کریں گے۔ یہ کہیں باہر سے نہیں آئے ہیں، کیا سمجھے، نہیں سمجھے !‘
’سب کچھ ہمارے حوالے کر دو، ورنہ بھون دیے جاؤ گے۔ ‘
’بھوننے کی کیا ضرورت ہے۔ سب کچھ بھُنا بھُنایا ہے جی۔ ‘
دوستو! ہم پھر وہیں لوٹ رہے ہیں، جہاں سے چلے تھے۔ ڈاکوؤں نے بندوق کی نال پر ہماری منزل طے کر دی ہے۔ ہم سب اُن کے آبھاری ہیں۔ 10؎
افسانے کا اختتام بتاتا ہے کہ بہ ایں ہمہ شورا شوری اپنے رہ نماؤں اور حاکموں کی وجہ سے ہم جہاں پہنچے ہیں وہ جگہ nowhereہے اور ہمارے دانش ور اور مذہبی رہنما بھی ہماری منزل کا پتہ دینے میں ناکام رہے ہیں۔
اُس کے اسلوب کی تازہ کاری اُس کی کہانی ’بائیں پسلی‘ میں بھی نمایاں ہے، بلکہ اُس کی پست و بلند ہر طرح کی کہانیوں میں بھی تازگیِ اسلوب کی جھلکیاں دیکھی جا سکتی ہے، مثلاً: اُس کی ایک کہانی ’کٹی ہوئی ناک‘ کی بے بی جوان ہو گئی اور پھر ایک دن گھر سے غائب ہو گئی، پھر:
٭ ’’پھر کئی پڑوسی زخم پر نمک چھڑکنے آ گئے۔
’’بے بی آ گئی کیا؟‘‘ … … … ’’بے بی ابھی تک نہیں آئی؟‘‘
اُن کے ہاتھوں میں سفید پِسے ہوئے نمک کے پیکٹ تھے۔ وہ زخم پر نمک چھڑکتے۔ ڈرامائی انداز میں تعجب کا اظہار کرتے اور چلے جاتے۔
٭ ’’وہ مندر میں بھگوان کے سامنے کھڑی ہے۔ مندر میں بھگوان نے اپنا ڈمی چھوڑا ہوا ہے اور خود نجانے کہاں غائب ہو چکا ہے۔ ‘‘ (گھوڑ سوار)
کہیں کہیں م۔ ناگ کی سہل انگاری بات بگاڑ بھی دیتی ہے۔ مثلاً انوکھے پن کی تلاش میں اُس نے ایک عجیب سی کہانی لکھی ’چاند میرے آ جا۔ ‘ جس میں یورینس والے زمین والوں سے چاند مانگ رہے ہیں۔ شاید اس میں اُن کے لیے کوئی خاص بات ہے۔ تبادلے میں وہ زمین کو دو چاند پیش کر رہے ہیں کیونکہ یورینس کے پاس پندرہ چاند ہیں۔ ایسے ماحول میں دھرتی پر ڈاکٹر ارشد اور رضیہ کی جوان بیٹی نازو گُم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر ارشد، رضیہ کو دلاسا دیتا ہے کہ وہ فکر نہ کرے۔ کائنات گلوبل وِلیج بن گئی ہے اور وہ اُسے جلد ہی تلاش کر لیں گے۔ ایسے اڈوانس دور میں جب کہ ٹی وی پر بریکنگ نیوز میں چاند کے چوری ہونے کی خبر دی جا رہی ہے، رضیہ کا بیٹی کی جدائی میں اپنے شوہر سے روایتی انداز سے یہ کہنا کہ ’’… … مگر ہم سماج کا کس طرح سامنا کریں گے۔ میرے لیے تو یہ اس دھماکے سے بھی بڑا ہے جو تخلیقِ کائنات کے وقت ہوا تھا۔ ‘‘ افسانے کی فضا کو عرش سے اُٹھا کر فرش پر دے مارتا ہے۔
م۔ ناگ کی کہانیوں کے تین مجموعے جو شائع ہو چکے ہیں، یوں ہیں : (1) ’ڈاکو طے کریں گے ‘ (1990ء) (2) ’ غلط پتہ ‘2009ء اور (3)’ چوتھی سیٹ کا مسافر ‘ (2015ء)۔ ان کی مجموعی ضخامت بھی تین سوصفحات سے زیادہ نہیں ہے۔ ناگ نے اپنی کہانیوں کا سارا خام مواد بھی ممبئی یا سلمبئی سے حاصل کیا ہے اور اُن کے کردار بھی۔ مثلاً لوکل ٹرین، دیونار ڈمپنگ گراؤنڈ، دھاراوی، کچرا اُلٹنے پلٹنے والے کالے کلوٹے مرد، عورتیں اور بچے، آفسوں کی میکانکی زندگی، بس اسٹاپ… … انتظار میں بیٹھی ہوئی لڑکی، جھونپڑپٹی، غنڈے، چال کے کمرے اور فلیٹ کی خلیج، شہر کی مادّیت اور میکانیکیت کے مارے ازدواجی رشتوں کی یبوسیت، شادی کی منتظر ڈھلتی جوانیاں، استحصالِ زن، ریپ، کسبیت، اسٹاکر (Stalker)، ٹریڈ یونین اور اردو اخبار کا دفتر وغیرہ۔
خاص بات یہ ہے کہ اس کی مٹھی بھر تخلیقی کائنات کی تقریباً ہر دوسری کہانی میں سیکس کا موضوع در آیا ہے۔ اس کے معاصرین میں سیکس پر سب سے انتہا پسندانہ اظہار بھی اسی کے یہاں ملتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اُس کا قلم کہیں با مراد رہا تو کہیں نامُراد۔
اِس نوعیت کی کہانیوں میں اس نے مرد و زن کے شہوانی رشتوں کی ڈھکی ہوئی سچائیاں اس انداز سے سامنے لانے کی کوشش کی ہے کہ اس کے اسلوب کی سفّاکی قارئین کو اکثر ذہنی دھچکوں سے دو چار کر دیتی ہے۔ reality showsکے سچ کو دیکھنے کی طرح اِن کہانیوں کا مطالعہ بھی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ جھوٹ ہماری زندگی کے لیے کتنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اُس کی اکثر کہانیاں اپنے کرداروں کے نفسیاتی مطالعے سے محروم ہیں اور وہ محض اپنے چونکا دینے والے ٹریٹمینٹ کی وجہ سے یاد رہ جاتی ہیں، مثلاً:
٭جنسی بھیڑیوں سے بچ کر بھاگنے والی ایک لڑکی ایک گھر میں گھس کر پناہ لیتی ہے۔ وہ اُن متعدد بدمعاشوں کے ذریعے جنسی استحصال سے بچنے کے لیے بہ مجبوری یہ گوارا کر لیتی ہے کہ اُس کمرے کے تنہا مکین مرد کی ہوس کا تقاضا پورا کر دے۔ اس ساری واردات میں وہ اس بات کو غنیمت سمجھتی ہے کہ باہر کے لوگ، اُن بدمعاشوں سے اُس کا اپنی آبرو بچا لینا باور کر لیں گے۔ اس لڑکی کا اطمینانِ خاطر اِس بات پر ٹِکا ہے کہ دروازہ تو بند ہے۔ (دروازہ)
٭لڑکیوں کے عنفوانِ شباب کے حریفانہ جذبات کو ناگ نے اپنے مخصوص رنگ میں ایک کہانی میں یوں پیش کیا ہے کہ جب کچھ اغوا کار ایک گھر سے سویٹی کو لے جانے کی تیاری کر رہے تھے تو اُسی وقت اُس کی بڑی بہن پنکی غسل خانے سے نہا کر بدن پر تول یہ لپیٹے باہر آ گئی۔ اغوا کاروں نے اُسے لے جانا پسند کیا اور سویٹی کو چھوڑ گئے۔ پنکی لُٹ لُٹا کر لوٹی تو اُس نے سویٹی کو یوں تسلی دینے کی کوشش کی کہ چلو اُس کی عزت تو بچ گئی۔ لیکن وہ سویٹی کا یہ جواب سن کر ششدر رہ جاتی ہے کہ ’۔ ۔ ۔ تم ہر بات میں میرے آڑے کیوں آ جاتی ہو۔ تم نے مجھے بچایا نہیں بلکہ اپنے آپ کو پیش کیا ہے۔ ‘ ( ایک تھی سویٹی، ایک تھی پنکی)
٭اپنے ازدواجی / شہوانی عمل میں ’شہد‘ کا خواہاں ساگر اپنی بیوی کے جسم میں مِس پریرا کی گداز ٹانگوں اور مِس جنیجا کی سڈول چھاتیوں کو ملا کر بنی ہوئی عورت پانا چاہتا ہے مگر اُسے حاصل ہوتی ہے ’کڑوی کسیلی کونین‘۔ (رائے گر مورٹس)
٭جوانی کے مچلتے ہوئے جذبات سے مغلوب ایک بیٹی کے ماں باپ کی آنکھوں میں اُس کے لیے ایک قابل اور ’گھوڑ سوار دولھے ‘ کا خواب بسا ہوا ہے اور اُنھوں نے اپنی اس بیٹی کو جو کماؤ بھی ہے، نامناسب اُمیدوار’ بھیڑیوں ‘سے ڈرا کر انتظار کی دہلیز پر لٹکا رکھا ہے۔ لڑکی کے لیے جب یہ انتظار ناقابلِ برداشت ہو جاتا ہے تو وہ ’گھوڑ سوار دولھے ‘ کو بھول کر خود کو ’بھیڑیوں ‘ کے سپرد کر دینے کا ارادہ کر لیتی ہے، اور یہ سوچ کر کہیں وہ اپنے والدین کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی بن کر تو نہیں رہ گئی، کہتی ہے : ’کاٹ لو ایک ہی دفعہ، نکال لو سارے انڈے۔ ‘ (گھوڑ سوار)
٭ ایک ماں اپنی بیٹی کے پرس میں رکھے ہوئے کنڈوم دیکھ لیتی ہے۔ بات تو چنتا کی تھی، لیکن وہ اپنے دل کو یوں سمجھا لیتی ہے کہ ’محفوظ سیکس کرتی ہے۔ ‘ (محفوظ سیکس)
ناگ ’نے ’گریبان میں جھانکنا‘ اور ’بغلیں جھانکنا‘ جیسے عام محاوروں پر چسپاں افسانچوں کو بھی سیکس کے تڑکے کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جنسی علامتوں کے لیے ’سگریٹ‘، ’ایش ٹرے ‘ اور ’ بڑا بڑاسامان‘ جیسے لفظوں کا استعمال بتاتا ہے کہ کلفتِ زمانہ نے اس کے جمالیاتی ذوق کو بھی ٹھس کر دیا تھا۔ اس باب (سیکس) میں اس کے ناقابلِ تذکرہ اور بے ہودہ افسانوں کی تعداد بھی زیاد ہے، مثلاً ’حسبِ معمول‘، ’آدم اور حوّا‘، ’لکڑ بگھا‘ اور ’جون‘ وغیرہ۔ سیکس کے موضوع پر اُس کے ذہنی رویے کا کھل کر اظہار اُس کے محرمات سے مباشرت (incest) کے تعلق سے لکھے ایک افسانے ’تیرتھ‘ میں ہوا ہے۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک عورت ہے جس نے اپنے شوہر کے ’مدن ‘نامی سب سے کم عمر دوست سے جسمانی تعلق بنا رکھا ہے اور اُس کے شوہر نے مدن کی ماں سے۔ ایک دن مدن اس سے جھلّا کر پوچھتا ہے کہ آخر اُن کا یہ جسمانی رشتہ سماج کی کس اکائی میں آتا ہے ؟ ‘ عورت پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ جس اکائی میں اُس کے شوہر اور مدن کی ماں کا جسمانی رشتہ آتا ہے اور پھر گویا مصنّف اُس عورت کی زبان سے اپنے جنسی نظریے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے :
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ تمھاری ماں ایسا نہیں کر سکتی! میرے بچے سمجھتے ہیں کہ اُن کی ماں ایسا نہیں کر سکتی۔ تمھاری ماں سمجھتی ہو گی کہ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میرا شوہر ایسا نہیں کر سکتا۔ میرا شوہر سمجھتا ہے کہ اس کی بیوی یعنی میَں ایسا نہیں کر سکتی، لیکن ہم سب ایساکر رہے ہیں۔ میں پوچھتی ہوں یہ سب سماج کی کس اکائی میں فٹ بیٹھتا ہے۔ جسموں کو بھوگنے کے لیے کسی رشتے کی ضرورت نہیں ہوتی مدن۔ ضرورت ہوتی ہے مخصوص حالات اور ایک دوسرے کی مرضی کی۔ میں نہیں چاہتی کہ ہمارے تعلقات کسی نام کے محتاج رہیں۔ جہاں دو افراد کے درمیان رونما ہونے والے کام میں مرضی کا دخل نہیں ہے، وہیں گناہ سرزد ہوتا ہے۔ (تیرتھ)
یہ افسانہ م۔ ناگ کی 2009ء میں آئی کتاب ’غلط پتہ‘ میں شامل ہے۔ اتفاق تو دیکھیے کہ 2016ء میں ریلیز ہوئی بالی وڈ کی فلم ’پنک‘ میں گو کہ incestکا پہلو نہیں ہے پر یہی مرکزی خیال پیش کیا گیا ہے کہ زن و مرد کے تعلقات میں فریقین کی مرضی کا ہونا لازمی ہے اور جہاں مرضی کا دخل نہیں، وہیں جرم سرزد ہوتا ہے۔ فلمی مبصروں اور نقادوں نے مجموعی طور پر اس فلم اور اس کے مرکزی خیال کوسراہا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ طویل افسانے کی دنیا میں ماحول سازی، جزئیات نگاری، کرداروں کی تشکیل اور ان کے احساسات کی ترجمانی کے جو تقاضے ہیں، ناگ کی اختصار پسندی اور عجلت نگاری ویسی دقّتِ نظری اور ریاضت کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی یا دوسرے لفظوں میں کمند کوتاہ، بازوئے سست و بامِ بلند کا سا معاملہ تھا، اس لیے مختصر افسانے کا میدان منتخب کر کے اس نے ایک صحیح فیصلہ کیا تھا۔ اگر چہ ناگ کے ’ بلّی‘، ’بگ بینگ‘ اور ’ غولِ بیابانی‘ جیسے کئی افسانے ابہام کا شکار ہو گئے ہیں، لیکن اس نے مشق مسلسل سے اس صنف پر دسترس حاصل کی، مختصر فقروں میں وقوعے سمیٹے اور اپنے طنز کے حربے سے ان میں جان ڈال دی۔
بہر حال اپنے اسلوب کی اِسی بے تکلفی اور طنز کی پُر اثری کی وجہ سے وہ مختصر افسانہ نگاری کا ایک معروف نام بن گیا۔ آخری دنوں میں وہ اپنے غیر مدوّن افسانوں کا مجموعہ ترتیب دے رہا تھا، جس کا نام اس نے ’پھٹی ہوئی کتاب‘ رکھا تھا۔ یہ نام بھی اس کی سابقہ کتابوں کی طرح اس کی جدّت پسندی کا مظہر ہے۔ ممکن ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد اس کی افسانہ نگاری کے بارے میں زیادہ بہتر رائے قائم کی جا سکے۔
راقمِ تحریر پچھلے پچیس برسوں سےم ناگ کی صحافتی و ادبی کار گزاریوں کا دور سے شاہد رہا ہے، پر ذاتی اعتبار سے پچھلے پانچ چھے برسوں میں ہوئی سات آٹھ ملاقاتوں نے ایک محدود سا ربط بھی پیدا کر دیا تھا۔ وہ جب بھی ملا، ستم زدۂ روز گار بنا زبانِ حال سے یہ فریاد کرتا نظر آیا کہ : ’’خاک ہو کر بھی رہے ہم تو ہوا تیز رہی!‘‘گذشتہ برس ’نیا ورق فاؤنڈیشن‘ اور ’مہاراشٹر اردو رائٹرس گلڈ‘ نے میرا روڈ (ممبئی) میں م۔ ناگ کے اعزاز میں ایک شام منائی تھی۔ م۔ ناگ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ اُس موقع پر اگر مَیں اُس کے فن پر کچھ اظہار خیال کر دوں تو وہ ممنون ہو گا۔ اُن دونوں سہ ماہی ’نیا ورق ‘میں اس کی افسانوی خودنوشت ’دکھی من میرے ‘ کی دو قسطیں آ چکی تھیں۔ راقم نے اُس خودنوشت پر اظہارِ خیال کی ہامی بھری تھی تو وہ بہت خوش ہوا تھا۔ بہرحال اُس تقریب کی شام، شیام تن م۔ ناگ، گہرے نیلے سوٹ پر شوخ رنگ کی ٹائی لٹکائے، نوشہ بن کر اسٹیج پر آیا تو ناگ کے زہریلے رنگ کے ذوقِ انتخاب پر یار دوستوں نے خوب ہنسی مذاق کیا تھا اور اُس نے اپنی آرائشِ لباس میں سے کسی چیز کے کرایے پر لانے کا لطیفہ سنا کر اُنھیں مزید محظوظ ہونے کا موقع فراہم کر دیا تھا۔ تو ایسا تھا، م۔ ناگ۔
٭٭

1، 2:ص:152، افسانوی خود نوشت ’دُکھی من میرے ‘، پہلی قسط، ’نیا ورق‘، (ممبئی) اکتوبر2014 تا مارچ2015
3:ص:153
4:ص:159
5:ص:166، دوسری قسط، اپریل تا ستمبر 2015
6:ص:762، حیاتِ شبلی، (مولفۂ مولانا سیّد سلیمان ندوی)، طبعِ ثانی، 1970، دارالمصنّفین(مولانا شبلی طبعاً خلوت پسند تھے جب کہ ندوہ میں انھیں احباب اور ملاقاتی گھیرے رہتے تھے۔ وہ سیرت النبی کا کام سکون سے کرنے کے لیے بمبئی چلے آتے تھے اور جانتے تھے کہ یہاں کے کاروباری ذہن کے لوگ ان کے کام میں مخل نہیں ہوں گے۔ متذکرہ قول کے راوی اُن کے اسسٹنٹ مولوی عبدالسلام ندوی ہیں۔ )
7:ص:181، افسانوی خود نوشت ’دُکھی من میرے ‘، تیسری قسط، ’نیا ورق‘، (ممبئی)، اکتوبر تا دسمبر2015
8:ص:184
9:ص:55، افسانہ، ’زراف‘ مشمولہ ’ڈاکو طے کریں گے ‘
10:ص:39 تا43، افسانہ’ڈاکو طے کریں گے ‘ مشمولہ ’ڈاکو طے کریں گے ‘۔

Sajid Rasheed aur Samaji Discourse

Articles

ساجد رشید اور سماجی ڈسکورس

پروفیسر گوپی چند نارنگ

ایک عہد کی episteme دوسرے عہد میں بدل جاتی ہے۔ episteme سے مراد ہے علمیاتی زمرہ یعنی کسی عہد کے مباحث، مسائل، توقعات، تعصبات، علمیاتی موقف وغیرہ۔ علمیاتی افق کوئی منجمد شے نہیں بلکہ انسانی سرگرمی کے ساتھ ساتھ تغیر پذیر ہوتا رہتا ہے اور ایک دور اپنی توقعات و تعصبات کے ساتھ دوسرے دور میں بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جدیدیت کے عہد کی episteme کی سب سے بڑی پہچان ideology سے بیزاری تھی اور آئیڈیولوجی سے مراد وہ سیاسی آمریت تھی جس کا نفاذ پارٹی کرتی تھی۔ اس episteme کے بدلنے کے بعد نہ صرف آئیڈیولوجی کی معمولہ اور متعینہ معنویت بدل گئی ہے بلکہ ادب، زبان اور ثقافت کے آئیڈیولوجی سے رشتے کی نوعیت بھی بدل گئی ہے۔ بقول ایگلٹن اب آئیڈیولوجی سے مراد فقط سیاسی تصورات اور اصول و ضوابط ہی نہیں بلکہ بشمول جمالیات، الٰہیات، عدلیات وہ تمام نظامات بھی ہیں جن کی رو سے فرد زندگی کا ذہنی تصور قائم کرتا ہے۔ اب متن کے ذریعے رونما ہونے والے معنی و تصورات دراصل اُس تصورِ حقیقت کی لسانی تشکیل ہوتے ہیں جنھیں زبان اور آئیڈیولوجی نے قائم کیا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب آئیڈیولوجی کے مباحث کی جدلیاتی بازیافت ہوتا ہے، اس لیے کہ ادب آئیڈیولوجی سے متاثر بھی ہوتا ہے اور اس کو متاثر کرتا بھی ہے۔ غرض جدیدیت کی episteme نے ادب، آئیڈیولوجی، فرد کے بارے میں جو موقف اختیار کیا تھا وہ کالعدم ہوچکا ہے۔ ایک عہد کی episteme کے بدل جانے کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب اس سے فاصلہ پیدا ہوجائے اور نیا عہد نئی episteme سے تخلیقی معاملہ کرنے لگے۔
ساجد رشید کا تعلق اردو افسانہ نگاروں کی اس کھیپ سے ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی شناخت بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں بنائی ہے اور جن کا ذہن ختم صدی کے آخری عشروں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو شدت سے انگیز کرتا رہا ہے۔ ان کے تین مجموعے ’ریت گھڑی‘ (1990)، ’نخلستان میں کھلنے والی کھڑکی‘ اور ’ایک چھوٹا سا جہنم‘ (2004) منظرعام پر آچکے ہیں۔ پیدائش کے اعتبار سے ان کا تعلق یوپی کی قدامت پسند قصباتی فضا سے ہے لیکن پرورش کے اعتبار سے وہ ایک ایسی کمرشیل مہانگری میں رہتے ہیں، جہاں گلوبلائزیشن کے شدید دباؤ اور ادب، آرٹ، انسان اور آئیڈیولوجی کے بارے میں بدلتی ہوئی توقعات کو شدت سے محسوسکیا جاسکتا ہے۔ جہاں تیز رفتار تجارتی زندگی کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی چکاچوند اور فلک بوس عمارتوں اور بے تحاشا ریل پیل کے پیچھے جھونپڑپٹیوں، چالوں اور کھولیوں کا وہ بھیانک سلسلہ ہے جس کی وجہ سے یہ شہر دنیا کا slum capital سمجھا جاتا ہے۔ انسان کی زندگی جو یوں تو ہر جگہ ارزاں ہوگئی ہے یہاں ایسی سطح پر ملتی ہے جس کا بیان لفظوں کا متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ کارپوریٹ سیکٹر اور سلولائیڈ کی چمچماتی زندگی کے بیک ڈراپ میں انسانیت کا جو بے کراں سمندر دکھوں کا بوجھ ڈھوتے ہوئے رواں دواں ہے، اس کے درد کو محسوس کرنا آسان نہیں۔ یہاں قدم قدم پر بھیانک مسائل اور تضادات ملتے ہیں۔ ساجد رشید نے اپنی کہانیوں کا تانا بانا اِسی ماحول اور انہی مسائل سے بُنا ہوگا جن کی کوئی آسان تعبیر ممکن نہیں۔ بڑے شہروں کی زندگی کے تاریک پہلوؤں پر بڑے بڑے ناول اور شاہکار کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ سماجی ڈسکورس کے نام پر ہر طرح کا ہنگامی ادب بھی لکھا جاتا ہے۔ رومانوی سطحیت سے بچنا بھی آسان نہیں لیکن ساجد رشید جس طرح اس کمرشیل معاشرے کی Underbelly (زیر ناف) اور اُس کے مکروہ مسائل سے تخلیقی معاملہ کرتے ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ اُسے غور سے دیکھا جائے۔
ساجد رشید کی ایسی کہانیوں میں ’اندھیری گلی‘، ’جنت میں محل‘، ’بادشاہ بیگم اور غلام‘ اور ’زندہ در گور‘ خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ان سب کہانیوں میں protagonist کا تعلق کسی مثبت قدر سے نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہا ہے جہاں اس کی انفرادی اور اختیاری حیثیت زائل ہوچکی ہے۔ اور وہ حالات کے جبر اور تاریخ کے بہاؤ میں نہ صرف زندہ ہے بلکہ تضادات سے نباہ بھی کررہا ہے۔ ’اندھیری گلی‘ ایک بیوڑا ماسٹر کی کہانی ہے جس کی جوان بیٹی شیرین کو کالج کا ایک غنڈا برابر چھیڑتا ہے۔ گھر کا ماحول خاصا قدامت پسند ہے۔ میاں کے آنے پر بیوی تسبیح کو چوم کر کچھ پڑھتی ہوئی شوہر پر پھونکتی ہے اور پھر شیرین پر بھی اسی طرح پھونکتی ہے۔ ڈونگری میں رہنے والی صوم و صلوٰۃ کی پابند انیسہ سمجھتی ہے کہ گھر میں آیت کریمہ کا ورد کرانے سے شیرین محفوظ رہے گی اور اُس کو غنڈے سے نجات مل جائے گی۔ درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ اعجاز ماسٹر یہ سمجھتا ہے کہ مذہب نہیں بلکہ پولس غنڈے کا واحد حل ہے۔ وہ پولس اسٹیشن جاکر شکایت درج کرواتا ہے لیکن کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ڈونگری میں غنڈوں کی حکومت ہے اور پولس غنڈوں سے ملی ہوئی ہے۔ اتفاق سے ایک لڑکا جو برسوں پہلے اسکول میں اعجاز ماسٹر کا طالب علم رہا تھا وہ ایوب گھوڑا کے نام سے غنڈوں کا سرغنہ ہے۔ وہ ماسٹر کو پہچان لیتا ہے اور چاہتا ہے کہ ماسٹر کی مدد کرے۔ لیکن ماسٹر جسے قانون پر بھروسا ہے، غنڈے کا احسان نہیں لینا چاہتا۔ ادھر انیسہ کسی پہنچے ہوئے بزرگ کا گنڈا لاکر بیٹی کو پہناتی ہے اور سمجھتی ہے کہ آیت کریمہ کے ورد اور بزرگ کے دم کیے ہوئے گنڈے کے طفیل اس کی بیٹی ہر بلا سے محفوظ ہوجائے گی۔ ماسٹر کے بار بار رپورٹ کرنے کے باوجود پولس کچھ نہیں کرتی اور شیرین کی پریشانی جوں کی توں رہتی ہے۔ بالآخر ایوب گھوڑا اور اس کی غنڈہ گردی ہی کام آتی ہے اور غنڈے کے اثر و رسوخ کی وجہ سے پولس شیرین کو چھیڑنے والے نوجوان کو پیٹتے ہوئے جیپ میں ڈال کر لے جاتی ہے :
’’اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو بیٹی۔‘‘ انیسہ نے شیرین کے سر پر ہاتھ پھیر کر پُراعتماد لہجے میں کہا اور شوہر کی طرف دیکھ کر فاتحانہ انداز میں مسکرائی۔ ’’ہماری عبادتوں اور پیر صاحب کے گنڈے کی برکتوں کے طفیل ہی وہ بدمعاش اس انجام کو پہنچا ہے۔ میری دعائیں اور منتیں کام آئیں — چلو بیٹی ہم ابھی اسی وقت پیر صاحب کے آستانے پر چل کر پھولوں کی چادر چڑھائیں گے‘‘۔
اس کہانی میں زندگی آئیڈیولوجی اور اقدار کی تین سطحوں پر ملتی ہے۔ قانون کے تحفظ کی سطح جس میں ماسٹر اعجاز یقین رکھتا ہے۔ خدا میں یقین اور مذہبی عقیدت کی سطح جس میں بیوی یقین رکھتی ہے۔ ڈونگری کی معاشرتی زندگی کی سچائی کی سطح جس پر غنڈوں کا قبضہ ہے اور پولس جن کے اشارے پر کام کرتی ہے۔ تینوں سطحوں پر آئیڈیولوجی لخت لخت ہے۔ گویا سماجی تشکیل واحدالمرکز نہیں، یہ پارہ پارہ ہوچکی ہے۔ ایک ہی گھر اور ایک ہی گلی میں زندگی مختلف سطحوں پر سانس لے رہی ہے لیکن ہر چیز ساتھ ساتھ موجود ہے اور نباہ بھی کررہی ہے۔ انسان مغالطوں میں زندہ ہے اور اپنے تعصبات سے اوپر اٹھنے کے لیے تیار نہیں اور معاشرے میں جرائم پیشہ لوگوں کو اقتدار حاصل ہے اور یہی وہ قوت ہے جو سماجی تشکیل کی شیرازہ بندی کرتی ہے۔ ’اندھیری گلی‘ اس لیے کہ معاشرہ اندھا ہوچکا ہے اور یہ محسوس کرنے کی صلاحیت کھوچکا ہے کہ کمرشیل معاشرے کی بھیانک دوڑ میں نہ قانون کے وہ معنی رہے ہیں اور نہ ایمان کے۔ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پھر بھی سہارے سہارے ہیں اور زندگی کے قائم رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سہاروں کا بھرم قائم ہے۔
اس نوع کی ایک اور کہانی ’بادشاہ بیگم اور غلام‘ ہے۔ اس میں ڈرامائیت کہیں زیادہ ہے، بیانیہ کسا ہوا اور تناؤ سے بھرا ہوا ہے۔ ساجد رشید مہانگری نیم تاریک گنجان گلیوں اور کچی آبادیوں کی منظرکاری فنی چابکدستی سے کرتے ہیں۔ اشاریت اور رمزیت سے کام لیتے ہوئے وہ ہلکی سی سرّیت بھی پیدا کرتے ہیں جس سے بیانیہ میں بعض جگہ سرگوشی کا انداز پیدا ہوجاتا ہے :
’’شام کے باریک باریک خاکستری ذرے عمارتوں، لیمپ پوسٹوں اور درختوں کو ڈھک رہے تھے۔ وہ دونوں دبے پاؤں لمبے لمبے ڈگ بھرتے لیمپ پوسٹوں کے روشن ہونے سے قبل اپنا کام ختم کرلینا چاہتے تھے۔ آڑی ترچھی گنجان گلیوں سے گزر کر وہ ایک قدرے کشادہ گلی میں آگئے اور ایک ٹرانسفارمر کی آڑ میں کھڑے ہوکر گلی کی دوسری طرف ایک جوئے خانے کے باہر لکڑی کی ایک آرام کرسی پر بیٹھے ادھیڑ عمر کے پستہ قد آدمی پر نظریں مرکوز کردیں جس کی کرسی کے ایک پائے سے ایک بھورے رنگ کا قدآور ڈابر ہاؤنڈ کتا بندھا ہوا تھا۔ پستہ قد کے اُس آدمی کا رنگ اتنا کالا تھا کہ اُس کی بڑی بڑی آنکھیں گول چہرے پر بہت زیادہ نمایاں نظر آتی تھیں بالکل ڈابر ہاؤنڈ کی طرح۔ اُس نے سفید رنگ کی پوری آستین کی قمیض اور سفید رنگ کا پاجامہ پہن رکھا تھا۔ وہ بار بار ایک سفید تولیے سے اپنی گردن کا پسینہ پونچھ رہا تھا۔ دونوں ٹرانسفارمر کے پیچھے سانسیں روکے کھڑے تھے۔‘‘
وٹھل اور جبار قتل کے بعد ضمانت پر رہا ہوجاتے ہیں۔ دونوں کو ڈر ہے کہ اگر سرکاری وکیل نے بادشاہ کے کتے اور غلام کو کورٹ میں ثبوت کے طور پر کھڑا کردیا تو کیا ہوگا۔ جبار کہتا ہے :
’’دیکھ وٹھل غلام اپنے دھندے کا بھڑوا ہے جدھر وزن دیکھے گا اُدھر پے اُس کی وفاداری جھکے گی۔ اپنا اصلی ٹینشن تو وہ بیگم ہے، بادشاہ نے جس کو کچرے میں سے اٹھا کر رانی بنادیا‘‘۔
بیگم حیدرآباد سے بھاگ کر ممبئی آئی تھی اور گھروں میں صفائی کا کام کرتے کرتے چالیس سالہ بادشاہ کے دل کی بیگم بن بیٹھی۔ اس کا رنگ کندنی تھا اور جسم دھاردار۔ بادشاہ کے مارے جانے کے بعد غلام ٹھیکے کا بادشاہ بن چکا ہے۔ وٹھل اور جبار جیل سے نکل کر اُس گلی میں آتے ہیں جہاں بادشاہ کا گھر ہے اور جہاں اب اُس کی رانی غلام کے ساتھ رہتی ہے جو اب اُس کا بادشاہ ہے۔ ڈابر ہاؤنڈ کتا دونوں قاتلوں کو پہچان لیتا ہے اور بے قابو ہوکر بھونکنے لگتا ہے۔ غلام مارے ڈر کے گھگھیاتا ہے کہ وہ دھندے کا محض نگراں ہے :
’’بھائی اصل میں دھندہ آپ دونوں کا ہے آپ حکم کروگے تو دھندہ سنبھالوں گا‘‘۔
دونوں سوچتے ہیں کہ اگر اپنے کو بھی بادشاہ بننے کا ہے تو اس بادشاہ کو کم کرنا ہوگا۔ افسانہ نگار نے جرائم پیشہ افراد کی زبان سے جو فضاسازی کی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے :
’’تو سچ بولتا ہے۔ اپنے دھندے میں اور پولیٹکس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پولیٹکس میں بھی اپنے دھندے کی طرح کون کب وفاداری بدل دے کہہ نہیں سکتے۔‘‘
’’غلام کا وفاداری بدلنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ بیگم۔۔۔‘‘ کہہ کر جبار نے نفرت سے ہونٹوں کو سکوڑ لیا۔ ’’اور غلام بھی بڑی حرامی چیز نکلا بادشاہ کے کتے اور عورت دونوں کو رکھ لیا۔‘‘
غلام اور بیگم دونوں انسان ہیں اور موقع پرستی کی اس دنیا میں جہاں طمع اور مفاد کی بالادستی ہے، انسان کو اپنی وفاداری بدلتے دیر نہیں لگتی۔ لیکن کتا تو جانور ہے۔ انسان کی وفاداری طاقت یا طمع کے آگے جھک سکتی ہے جانور کی نہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، سو وہ سودا کرسکتا ہے، جانور تو بیچارا جانور ہے۔ وٹھل بار بار ایک خواب دیکھتا ہے جس میں کتے کی بھونکار اس کو ڈرا دیتی ہے۔ بالآخر دونوں پستول میں گولیاں بھر کے کراس گلی جاتے ہیں، وہ نہ بیگم کو نشانہ بناتے ہیں نہ غلام کو، فقط کتے کو پستول کی گولیوں سے ٹھنڈا کردیتے ہیں۔ اس کے بعد جیسے ہی دونوں وین کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہیں، غلام ہاتھ جوڑے آکھڑا ہوتا ہے اور بیگم چپ چاپ پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر وین میں بیٹھ جاتی ہے۔
جرائم، قتل، اغوا، ڈکیتی، بلاتکار آج کی معاشرت میں روز کا معمول ہے۔ انسان بے حس ہو چکا ہے۔ صبح کو اخبار دیکھتے ہوئے روزمرہ کے معمول کے مطابق ہم کاغذ لپیٹ کے ہاتھ چائے کی پیالی کی طرف بڑھا دیتے ہیں۔ معاشرہ کِن کمرشیل قدروں کے ساتھ ترقی کررہا ہے۔ پولس اسٹیشن بھی ہے، چوکیاں بھی، پوسٹ بھی، نگرانی کرنے والے راؤنڈ بھی لیتے ہیں، حفاظت کے لیے نہیں ہفتہ وصولنے کے لیے۔ جرائم کے ہاتھ کس طرح کھلے ہوئے ہیں، یہ کہانی اس کا نہایت موثر نقشہ پیش کرتی ہے۔ مہانگری زیرناف کی یہ فقط ایک جھلک ہے کہ کس طرح جرائم کے اس گھناونے ماحول میں قانون اور جرائم دو ایسے نشانات ہیں جو اطمینان سے ایک دوسرے کی جگہ لے لیتے ہیں اور ان کا امتیاز مٹ جاتا ہے۔ کیا ایسا فقط اس لیے نہیں ہوتا کہ سیاسی طاقت کا ڈسکورس آئے دن یہ تسلیم کراتا ہے کہ اقتدار کے کھیل میں جرائم کی ملی بھگت جڑوں سے نہیں معاشرے کی اعلیٰ ترین سطحوں سے آتی ہے اور قانون یا سیاست کا کوئی تصور جرم سے ہٹ کر نہیں کیا جاسکتا۔
’جنت میں محل‘ اور ’چادر والا آدمی اور میں‘ ہرچندکہ اسی زندگی کے مکروہ روپ ہیں لیکن ان کی نوعیت نہ صرف مندرجہ بالا کہانی ’بادشاہ، بیگم اور غلام‘ سے الگ ہے بلکہ یہ کہانیاں باہم دیگر الگ الگ وضع کی بھی ہیں۔
’جنت میں محل‘ اس اعتبار سے ساجد رشید کے تازہ مجموعے کی کلیدی کہانی ہے کہ اس نوع کی کہانی موجودہ کارپوریٹ سیکٹر اور گلوبلائزیشن کے عہد میں ہی لکھی جاسکتی ہے۔ مشتاق کسی کمپنی میں ملازم ہے اور اس امید میں ہے کہ کمپنی کے اعلیٰ افسروں کو اس کا کام پسند آگیا تو ملازمت پکی ہوجائے گی۔ وہ صوم و صلوٰۃ کا پابند ہے، درود شریف پڑھ کر دفتر جانا اس کا معمول ہے۔ مینجمنٹ کی جانب سے دی جانے والی پارٹیوں میں شرکت کرنا ملازمت کی مجبوری ہے۔ سوڈان سے بڑا ٹینڈر ملنے کی خوشی کو سیلی بریٹ کرنے کے لیے اوبرائے میں پارٹی رکھی جاتی ہے :
’’بیلے ڈانسر کی ناف میں تھرکتے چاند کو اپنے جام میں ڈبونے کی کوشش میں وہ خود ڈوبتا چلا گیا تھا۔ اسے افسوس زیادہ پینے کا نہیں بلکہ فجر کی نماز کے چھوٹ جانے کا تھا۔ فجر پڑھنا اسکول کے دنوں سے اس کا معمول تھا۔ اس کی تربیت ہی کچھ اس ڈھنگ سے ہوئی تھی کہ نماز نہیں تو ناشتہ بھی نہیں۔‘‘
سوڈان سے ایک بڑا پروجیکٹ ملنے کی خوشی میں سوڈانی مہمان کی تواضع کے لیے مشتاق سے کہا جاتا ہے کہ شیمپین کے علاوہ مینو میں کوئی فلپائنی لڑکی بھی ہونی چاہیے۔ ایسی فرمائشوں کی تکمیل کرنے والے قادر کو جب وہ فون ملاتا ہے تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ ہکلا رہا تھا۔ قادر قہقہہ مارکر کہتا ہے :
’’اومین بی فرینک وی بوتھ آران دی سیم بزنس‘‘
بعد میں جب سوڈانی مہمان کو بخوبی انٹرٹینمنٹ کرنے کے لیے کمپنی کے جنرل منیجر سے وہ اپنی تعریف سنتا ہے تو نوکری کے مستقل ہونے کے تصور سے اس کا رواں رواں جھوم اٹھتا ہے، گاؤں میں آبائی مکان کی مرمت، چھوٹی بہن کی شادی وغیرہ وغیرہ۔ مذہبی معمولات کی پابندی کے باوجود اب وہ اس کام کو پورے اعتماد سے کرنے لگتا ہے۔
ساجد رشید عموماً کہانی کا آغاز ایسی منظرکاری یا مکالمے سے کرتے ہیں جس میں تھیم یا مرکزی مسئلے کا وہ رخ سامنے آجائے جس کو وہ قائم کرنا چاہتے ہیں یا جس کے بل پر وہ سکے کو گھماکر حقیقت کے دوسرے رخ کو سامنے لاسکیں :
’’رکوع میں جھکتے ہی تیز ڈکار آئی اور رات کی شراب کا کڑوا ذائقہ منہ میں گھل گیا۔ معدے کی تیزابی رطوبت کی آمیزش کے بعد وہسکی کی ترشی قدرے تیز ہوگئی تھی۔ سجدے میں جاتے ہی مشتاق کی آنکھوں میں وہ سرخ ربن لہرانے لگا جو بھاری کولہوں اور پتلی نازک سی کمر سے بندھا ہوا تھا اور جس کی گانٹھ سے جھولتے دونوں سرے کمر کے ہر لوچ پر سانپ کی طرح لہرا لہرا جاتے تھے۔ ناف کی گہرائی کے اطراف میں پسینے کے باریک قطرے ہزاروں ننھے ننھے قمقموں کی طرح جلتے بجھتے دکھائی دے رہے تھے۔ سجدے میں اس کے منہ سے بے ساختہ سبحان ربّی الاعلیٰ کے بجائے سبحان اللہ، سبحان اللہ نکل گیا تھا ۔۔۔ اس نے لاحول پڑھ کر سلام پھیر کر جا نماز لپیٹ دی تھی۔‘‘
ابّو موتیا بند کی تشخیص کرانے کے لیے شہر آجاتے ہیں تو مشتاق کچن میں رکھی ہوئی بیئر اور وہسکی کی بوتلوں کو ٹھکانے لگا دیتا ہے۔ ابو کو فکر ہے کہ بڑے شہر میں آکر مشتاق نے کہیں نماز تو ترک نہیں کردی، وہ اسے امّی کی دی ہوئی یاسین شریف دیتے ہیں کہ اسے جیب میں رکھوگے تو شر سے محفوظ رہوگے۔ ابو گاؤں کی مسجد کی رسید بُک دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچیس رسیدیں ہیں اپنے جاننے والوں سے پیسے جمع کرلینا۔ وہ سوچتا ہے کہ خدا کے گھر کی تعمیر میں حصہ لینا کتنا بڑا ثواب ہے۔
اس دوران آفس کی سالانہ میٹنگ میں کامرس منسٹری کا بنگالی سکریٹری بھی شریک ہوتا ہے۔ وی آئی پی گیسٹ کی مکمل انٹرٹینمنٹ کا انتظام کرنے کے بعد وہ رات گئے گھر پہنچتا ہے تو ابو گاؤں واپس جانے کی تیاری کرچکے ہیں۔ رات کی ندامت، فجر کی نماز چھوٹ جانے کا دُکھ، وہ مسجد کی رسیدوں کے پیسے ابو کو دیتا ہے تو ابو پھر کہتے ہیں :
’’نماز مت قضا کیا کرو بیٹا اور ہاں تمھاری امی نے تمھارے لیے یاسین شریف کی جو دفتی بھجوائی ہے اسے جیب میں رکھا کرو۔ تمام شر سے پاک رہوگے۔‘‘
کارپوریٹ سیکٹر کی ہوشربا ترقی سے معاشرتی زندگی میں انقلاب آگیا ہے اور معمولات میں جو تناقص پیدا ہوگیا ہے یہ کہانی اس کی ایک بین مثال ہے۔ والدین اور گھر کے لوگ الگ وضع کی زندگی جی رہے ہیں جو ایک دھڑے پر چلی جارہی ہے جس میں مذہبی شعائر کا سہارا ہے، وسائل کی کمی ہے لیکن کوئی شکوہ شکایت نہیں۔ مذہبی عقائد، آداب و اطوار اور ان کی پابندی بھی ایک طرح کی آئیڈیولوجی ہے جو یک گونہ طمانیت کا سرچشمہ ہے۔ دوسری طرف اقدار سے تہی کمرشیل زندگی ہے جہاں کامیابی کا واحد معیار دولت اور منافع ہے۔ دیکھا جائے تو باپ اور بیٹے کے درمیان کوئی جنریشن گیپ بھی نہیں۔ بیٹا بھی ان اقدار کو نباہنا چاہتا ہے جن کو نباہتا چلا آیا ہے لیکن کیریر کی کامیابی اپنی قیمت چاہتی ہے۔ دینی فرائض و وظائف شر سے پاک رکھنے کی ضمانت ہیں لیکن کیریر شر میں لپٹا ہوا ہے۔ مشتاق کی زندگی یکسر دوسری وضع پر آگئی ہے اور وہ نہ چاہنے کے باوجود کمرشیل زندگی کے بنیادی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے لگا ہے جہاں خود اپنے مذہبی و تہذیبی وجود سے اس کا فاصلہ بڑھتا جارہا ہے۔ ’جنت میں محل‘ بھلے ہی بن جائے لیکن دنیوی زندگی پُر از تناقض اور خالی از معنی ہوتی جاتی ہے۔ غور طلب ہے کہ موجودہ گلوبلائزڈ معاشرے میں کارپوریٹ کمرشیل زندگی کے نمو کرنے کی نوعیت کچھ ایسی ہے کہ ایک ڈسکورس دوسرے کو ردّ کرتا ہے لیکن بے دخل نہیں کرتا۔ زندگی میں تناقض ہے اور بظاہر دو الگ الگ دائرے ہیں لیکن ایک دائرہ دوسرے کی جگہ نہیں لیتا، یعنی تناقض کے باوجود ان میں ارتباط ہے اور دونوں ڈسکورس ایک ہی مربوط معاشرتی نظام کے اندر پہلو بہ پہلو زندہ ہیں، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا بھی ہیں، اور ایک کی معنویت دوسرے سے قائم ہے۔ گویا ہماری آج کی شہری معاشرتی زندگی بے تعلق بھی ہے اور تعلق بھی رکھتی ہے، بے حس بھی ہے اور اس بے حسی پر طنز کرنے والی حِس بھی رکھتی ہے۔ باوجود خواہش کے وہ اس سے نجات نہیں حاصل کرسکتی بلکہ زیادہ سے زیادہ اس کے گلیمر کی طرف کھنچتی ہے۔
اسی نوع کی ایک اور عمدہ کہانی ’چادر والا آدمی اور میں‘ ہے جو کتھا ایوارڈ کی وجہ سے خاصی گردش میں رہی ہے۔ ممبئی کی ایک شناخت لوکل ٹرینوں اور ان میں سفر کرنے والی بے نام بھیڑ سے بھی ہے۔ ساجد رشید کی اکثر کہانیوں میں بیانیہ واقعہ نگاری کا حق ادا کرتا ہے۔ واقعات تواتر سے آتے ہیں اور خاص طرح کی ڈرامائیت کو راہ دیتے ہیں مگر اس کہانی میں کوئی بڑا واقعہ نہیں بلکہ دھیمی رفتار سے رونما ہوتے جانے والے ایک ہی واقعہ کے sustained بیانیہ کی کہانی ہے جو جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے قاری کے اشتیاق کو بھی انگیز کرتا جاتا ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے بھیشم ساہنی کی کہانی ’امرتسر آگیا‘ کا یاد آجانا ناگزیر ہے۔ ممبئی کی گرمیوں کی حبس زدہ شام میں مسافروں سے کھچاکھچ بھرے کمپارٹمنٹ میں کوئی آدمی چادر تانے سورہا ہے جبکہ کمپارٹمنٹ میں کئی آدمی کھڑے ہیں، بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے، ہر کوئی تعجب سے اُس آدمی کی طرف دیکھتا ہے جو چادر کے اندر اطمینان سے پاؤں پسارے چہرہ ڈھکے سورہا ہے۔ یہ آدمی معمّہ ہے لیکن کسی کو اسے چھیڑنے کی جرأت نہیں :
’’جی میں آیا کہ باپ کا گھر سمجھ کر سونے والے کی چادر کھینچ کر پھینک دوں اور اس کا گریبان پکڑ کر پوری قوت سے ایسے اٹھالوں جیسے خرگوش کو کان سے پکڑ کر اٹھاتے ہیں ۔۔۔پھر مجھے اخبار کی وہ خبر یاد آگئی کہ ویسٹرن لائن کی لوکل ٹرین میں ایک غنڈہ شراب کے نشے میں دھت، سیٹ پر لیٹا گالیاں بک رہا تھا ایک نوجوان جو اپنی بیوی بچوں کے ساتھ ان کے سامنے والی سیٹ پر بیٹھا تھا ضبط نہ کرسکا اور اس نے اسے ڈانٹ دیا، شرابی نے اٹھ کر جیب میں سے چاقو نکالا اور اس نوجوان کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ عورت اور بچوں کی چیخیں نکل گئیں۔ دوسرے مسافر حیرت سے پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھتے رہ گئے۔ نشے سے جھولتے اس آدمی کو کسی نے پکڑا اور نہ ہی کسی نے گاڑی کی زنجیر کھینچی۔‘‘
لوگ چڑھتے ہیں اترتے ہیں۔ چادر تان کر سونے والے کو حیرت سے دیکھتے ہیں مگر کوئی کچھ نہیں کہتا۔ دادر، مسجدبندر، بائی کلہ، سائن ایک کے بعد ایک آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ جیسے جیسے بیانیہ بڑھتا ہے چادر اوڑھ کر سونے والے کے بارے میں اشتیاق بھی بڑھتا جاتا ہے۔ کوئی شام کا اخبار پڑھ رہا ہے، کوئی گٹکھا کھا رہا ہے، کوئی راڈ کو پکڑے کھڑا ہے، کوئی دروازے میں لٹکا ہوا ہوا کھا رہا ہے۔ بالآخر ڈبے میں تین لوگ سوار ہوتے ہیں جن کی گفتگو سے لگتا ہے کہ انھوں نے ٹھرّا پی رکھا ہے جس کے نوشادر کی بو ڈبے میں پھیل جاتی ہے۔ وہ فحش گفتگو کررہے ہیں اور گالیاں بک رہے ہیں۔ ان میں سے رودراکھشس کی مالا والا خراٹے بھرنے والے کو جھنجھوڑنے اور گالیاں دینے لگتا ہے۔ اس پر بھی جب وہ نہیں جاگتا تو رودراکھشس والا ناگواری سے چادر سمیت سونے والے کو گھسیٹتا ہے۔ چادر کے نیچے سے ایک مدقوق چہرے والے نے نحیف مٹھیوں سے چادر کے سروں کو پکڑ رکھا تھا۔ شیو بڑھا ہوا، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، کرتہ نما بنڈی و بوسیدہ پاجامہ جیسا عام طور پر سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کو پہنایا جاتا ہے، گریبان کھلا ہوا جس سے پنجر کی ہڈیاں جھانک رہی تھیں۔ رودراکھشس والا اور اس کے ساتھی اس نحیف و نزار بوڑھے کے ساتھ بدزبانی کرتے ہیں۔ بھیڑ میں انھیں روکنے والا کوئی نہیں، سوائے ایک کالے چشمے والے اندھے فقیر اور ساتھ کی بچی کے جن کو ان لوگوں کا دراز دستی کرنا اور مدقوق چہرے والے کو گالیاں دینا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ حتیٰ کہ رودراکھش والا اگلے پلیٹ فارم پر گاڑی رکتے ہی مدقوق آدمی کی گردن پکڑ کر اُسے اٹھا لیتا ہے اور اسے ڈبے سے باہر پھینک دیتا ہے۔ گاڑی چل دیتی ہے۔ پلیٹ فارم پر فقط کالے چشمے والا اندھا فقیر اور بچی ایک گٹھڑی کی طرح پڑے ایک آدمی پر جھکے ہوئے ہیں۔
گاڑیاں اور پلیٹ فارم بے ہنگم اور بے نام بھیڑ سے بھرے ہوئے ہیں۔ مہانگر گویا کوئی عفریت ہے اور یہ جم غفیر اس کے پیٹ کے غار سے نکلتا ہے اور پھر پیٹ میں سما جاتا ہے۔ ڈبے انسانوں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے ہیں۔ اسٹیشن آتے ہیں جاتے ہیں، ایک کے بعد ایک لوگ چڑھتے ہیں اترتے ہیں لیکن مدقوق چہرے والے بے نام بے سہارا نیم اپاہج انسان سے کوئی ریلیٹ نہیں کرتا۔ یہ بے حسی اور بے تعلقی مہانگر کی بے ہنگم بھیڑ اور رواں دواں بھاگتی دوڑتی زندگی کی خاص پہچان ہے۔ انسانی جم غفیر کا ایک سیل ہے جو بھاگے چلا جارہا ہے۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں۔ ٹھرّا پیے ہوئے نوجوان ایک دوسرے کی مجموعی طاقت سے بدمست ہیں، ریلیٹ وہ بھی نہیں کرتے، فقط دراز دستی کرتے ہیں۔ کوئی انھیں روکتا نہیں۔ یہ انسانی بے حسی اور بے تعلقی کی انتہائی مذموم سطح ہے جسے ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔ وہ لوگ اس بوڑھے کو گٹھڑی بناکر اسٹیشن پر دھکیل دیتے ہیں، گویا وہ کوئی انسان نہیں کیچوا ہے جس کے جینے مرنے کا کوئی مصرف نہیں۔ ہزاروں لاکھوں دوڑتے بھاگتے جیتے جاگتے انسانوں کے سیلاب میں اگر اس بے آواز ہڈیوں کے ڈھانچ سے کوئی ریلیٹ کرتا بھی ہے تو وہ کالے چشمے والا اندھا فقیر یا اس کے ساتھ کی بچی ہے اور بس۔ بڑے واقعات یا بڑے کرداروں سے بڑی کہانی بنانا آسان ہے لیکن روٹین واقعہ سے کہانی بنانا اور انسانی دردمندی کے مردہ احساس کو جگا دینا آسان نہیں۔ مہانگر کی کمرشیل معاشرت کی برق رفتار دوڑ میں انسانی بے حسی کا یہ وہ منظرنامہ ہے جس کی اندوہناکی میں امیر غریب مرد عورتیں بوڑھے جوان سب شریک ہیں۔
مہانگر کی معاشرت کا ایک رخ وہ ہے جو پانچ ستارہ ہوٹلوں میں نظر آتا ہے، یا سمندر کنارے کی روشنی سے جھلملاتی سڑکوں پر کاروں کے نئے سے نئے ماڈلوں میں یا فیشن شوز، رقص گاہوں، کارپوریٹ پارٹیوں، یا بالی ووڈ کی ذہن کو سلانے حواس کو بیدار کرنے والی نیم عریاں سرگرمیوں میں نظر آتا ہے، تو ایک چہرہ وہ ہے جو لوکل ٹرینوں میں سفر کرنے والی بھاگم بھاگ، بے ہنگم انسانی بھیڑ میں دکھائی دیتا ہے، نیز ایک چہرہ وہ بھی ہے جو جھونپڑپٹیوں، کچی بستیوں، گندی نالیوں، چالوں اور کھولیوں میں بسنے والے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی عفونت زدہ زندگیوں میں سانس لیتا ہے۔ جرائم کی موجِ تہ نشیں کہاں نہیں، لیکن یہاں کھلم کھلا دادا لوگوں کا راج ہے جو پولس کی نگرانی میں اپنا دھندہ چلاتے ہیں، تشدد کے بل پر متوازی حکومت چلاتے ہیں اور ہفتہ وصولی کرتے ہیں۔ پولس کے پاس فقط ڈنڈا ہے، ان کے پاس چاقو، پستولیں گولیاں سب کچھ ہیں۔ یہ پولس سے نہیں پولس ان سے ڈرتی ہے، سسٹم ہی ایسا ہے کہ مہانگر کے زیرناف میں نظم و نسق نہ نیتاؤں کا ہے نہ پولس کا فقط داداگری کرنے والوں کا ہے، راج ہے تو نیتاؤں کا نہ قانون کے محافظوں کا بلکہ انھیں غنڈوں، جرائم پیشہ دادا گیروں اور تسکری کرنے والوں کا ہے۔ مہانگر کے زیرناف کا کوئی ذکر پولس اور جرائم پیشہ داداؤں کے گٹھ جوڑ کے بغیر ممکن نہیں جس کی طرف کچھ اشارہ پہلے کیا جاچکا ہے۔ اسی قسم کی ایک اور کہانی ’مکڑیاں‘ ہے۔ اس کا پس منظر قصباتی ہے لیکن مرکزی مسئلہ پر مہانگر کی تجارتی ذہنیت کی طمع پیدا کرنے والی لعنت کا عکس ہے۔ بھیلی نام کی ایک گنوار قصباتی عورت ریزرو سیٹ پر چناؤ کے لیے کھڑی ہوتی ہے۔ چمرٹولے کے چماروں اور پوروا مسلمانوں کی حمایت اس کو حاصل ہے لیکن دوارکا بابو اپنی ہل واہ بہو کو امیدوار بنانا چاہتے ہیں۔ بھیلی اور اس کے میاں جیاون اور چمرٹولے والوں کو الیکشن نہ لڑنے کی تنبیہہ کی جاتی ہے۔ وہ باز نہیں آتے تو رات میں حملہ کراکے بھیلی کا اجتماعی بلاتکار کیا جاتا ہے۔ یہ وہ سانحات ہیں جو آئے دن رونما ہوتے ہیں اور اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔ ان میں کوئی نئی بات نہیں۔ کہانی کا کمال اس منظرنامے میں نہیں بلکہ ایسا بیانیہ تشکیل دینے میں ہے جہاں بھیلی، اس کا شوہر جیاون، نند چھولا، جمائی بابا اور چمرٹولے کے لوگ گاؤں کے تھانے میں بلاتکار کی رپورٹ درج کرانے جاتے ہیں تو پہلے کانسٹیبل اس کے بعد تھانیدار کا جو غیرانسانی رویہ ہے، وہ گویا پورے سسٹم کے گلے سڑے ہونے کو واشگاف کرنے کی فن کارانہ کوشش ہے۔ کہانی کا کلائمکس اس ذلت آمیز منظرنامہ سے ہٹ کر ہے۔ پہلے اخباری رپورٹر آتا ہے۔ پھر ایک کے بعد ایک ٹی وی چینل والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے ہیں، موبائل وین، ڈش اینٹینا اور جینس پہننے والی اسمارٹ اینکروں کا بے حیائی سے الٹے سیدھے سوالات پوچھنا، یہاں تک کہ بھیلی اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی ایک تجارتی commodity میں تبدیل ہوجاتی ہے اور بھیلی کا شوہر جیاون اور ٹی وی والے سب کے سب اس دھندے میں لگ جاتے ہیں۔ بھیلی کو لگتا ہے کہ وہ بلاتکار کا شکار مظلوم عورت نہیں بلکہ ایک بکاؤ مال بن چکی ہے اور ٹی وی چینل والے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے لیے جیاون سے اس کا سودا کررہے ہیں۔ اس طرح برقیاتی میڈیا کی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے والی کمرشیل ہوڑ کا یہ تکلیف دہ پہلو سامنے آتا ہے کہ کس طرح ایک حیوانی حملے کا المیہ پس پشت چلا جاتا ہے اور اجتماعی عصمت دری کا شکار قبائلی عورت فقط ایک بکنے والی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ یہ مہانگری زندگی کے زیرناف کا وہ روپ ہے جو برقیاتی میڈیا کے رنگین پردے پر آئے دن دکھائی دیتا ہے۔ افسانہ کی کامیابی اس میں ہے کہ کس طرح آج کا کمرشیل سماج ایک ’تماشا سماج‘ ہے جو انسانی المیوں کو بھی تماشہ میں بدل دیتا ہے۔ اب ’گھٹنا‘ وہ نہیں ہے جو ’گھٹ‘ رہی ہے بلکہ حقیقت وہ ہے جو اسکرین پر دکھائی جارہی ہے۔ بیانیہ کو جو چیز موثر بناتی ہے وہ آخری حصے کی سفاکی اور دردمندی ہے جو تہ نشیں آئرنی اور دبے دبے طنز کے استعمال سے پیدا ہوئی ہے۔
جیسے کہ اوپر ہم نے دیکھا بعض کہانیوں کی فضاسازی ہرچندکہ قصباتی معاشرت کے کوائف سے کی گئی ہے، لیکن ان کا رخ بھی میٹرو پلس شہروں کی بدلتی ذہنیت کی طرف کھلا ہوا ہے۔ کچھ کہانیاں نفسیاتی مسائل کے گرد گھومتی ہیں اگرچہ ان کی تعداد کم ہے۔ ایسی کہانیوں میں ’گم شدہ عورت‘ اور ‘زرد دھوپ‘ خاص ہیں۔ یہ ان کہانیوں میں ہیں جہاں افسانہ نگار نے عورت مرد کے رشتے کی تہیں کھولی ہیں، لیکن دونوں کہانیوں میں مرد ضمیمہ ہے اور عورت متن۔ ’گم شدہ عورت‘ کی سریکھا اور جگدیش کے رشتے میں ہمواری ہے۔ سریکھا دوبار حاملہ ہوتی ہے لیکن حمل ساقط ہوجاتا ہے۔ وہ چیک اپ کے لیے اسپتال میں داخل ہوتی ہے لیکن اچانک اپنے بستر سے غائب پائی جاتی ہے اور اس کی لاش اسپتال کے اسٹور روم سے ملتی ہے۔ پولس کی تفتیش سے پتہ چلتا ہے کہ موت سے قبل سریکھا کے ساتھ انٹرکورس کیا گیا۔ یعنی ریپ نہیں تھا۔ انسپکٹر جگدیش کو بتاتا ہے کہ اس کی پتنی سے ملنے والا شخص اس کے گاؤں کا تھا، وہ اسے بچپن سے جانتا تھا، لیکن جگدیش یقین کرنا نہیں چاہتا۔ وہ پولس سے پوچھتا ہے کہ کیا ملزم کا بیان بدلا نہیں جاسکتا، یعنی یہ کہ انٹرکورس نہیں سریکھا کا ریپ کیا گیا۔ سچائی معلوم ہوجانے کے بعد بھی جگدیش اپنے مائنڈ سیٹ سے باہر آنے کو تیار نہیں ہے۔ اُس کی نظر میں سریکھا کا ستی ساوتری کا جو امیج ہے وہ اس کو توڑنا نہیں چاہتا۔ انسانی رشتوں میں لاشعوری تہذیبی تصورات و توقعات کس قدر کارگر رہتی ہیں، کہانی اس گرہ کو پیش کرتی ہے۔
مرد اور عورت کے تہذیبی رویوں اور میلانات میں کبھی کبھی زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ یہ فرق پہلے سے چلا آتا ہو۔ وقت کے محور پر ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے اور دونوں یا ایک بدل بھی سکتا ہے۔ تہذیبی رویے یا طبعی میلانات بدلتے بھی ہیں اور نہیں بھی، ’مردہ دھوپ‘ اس کی مثال ہے جس میں راوی کے پھوپھا نے کچھ پہلے اپنی بیوی کی لاش کو مٹی دی ہے۔ وہ دیسی دارو کے ٹھیکے پر شراب سے لبالب بھرے گلاس کے سامنے گنہ گار کی طرح بیٹھا ہوا ہے۔ پھوپھا نے جوانی ہی میں گھر بار چھوڑ دیا تھا اور دوسری عورت کے ساتھ رہنے لگا تھا۔ خاندان کے لوگ پھوپھا کی عیب جوئی میں لگے رہتے تھے لیکن جب کوئی اس کی مے نوشی اور مقروض ہونے کے بارے میں پھوپھی سے کچھ کہتا ہے تو ہرچندکہ پھوپھی کی زندگی ویران ہوگئی ہے وہ اپنے شوہر کا اُسی طرح دفاع کرتی ہے اور اس کے عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔ بلانوشی کی وجہ سے پھوپھا اپنی تہذیبی قدروں سے دور ہوتے گئے تھے لیکن پھوپھی اپنے تہذیبی رویوں میں مرتے دم تک راسخ رہیں۔ محبت اور نفرت کا یہ ملا جلا رویہ ایک پُر اسرار ارتباط کو بھی راہ دیتا ہے، یعنی انھوں نے پھوپھا کو گھر سے تو نکال دیامگرجب تک زندہ رہیںزندگی سے نہ نکال سکیں۔
’کالے سفید پروں والے کبوتر‘ قصباتی اور شہری زندگی کے تال میل اور تضاد کی کہانی ہے۔ ’مردہ دھوپ‘ میں عورت ٹوٹ جاتی ہے لیکن اپنے تہذیبی لاشعوری رویے کو نہیں بدل سکتی۔ جبکہ ’کالے سفید پروں والے کبوتر‘ میں حضرت پیر سید خواجہ جلال الدین خاکی جو دنیا ترک کرچکے تھے اور مال و متاع اور مادی آلائشوں سے اوپر اٹھ چکے تھے، وہ اپنے بھانجے کی مدد کرنے کے لیے شہر میں آتے ہیں کہ موروثی جائیداد میں دوسرے بھائی خیانت نہ کریں لیکن رفتہ رفتہ مال و دولت اور جائیداد کا اندازہ کرکے خود ان کی ذہنیت بدل جاتی ہے۔ کہانی کا مرکزی نکتہ طمع ہے کہ انسانی ذہنیت باوجود شعوری دعاوی کے کس طرح اندر ہی اندر بدلتی ہے اور کمزوریوں کو راہ دیتی ہے۔ یہ نفسیاتی موڑ کہانی کے آخر میں آتا ہے اور بیانیہ میں خوبصورتی دینی توقعات کے بدل جانے سے پیدا ہوتی ہے۔ کہانی کا بڑا حصہ راسخ العقیدگی کی فضا میں رچا ہوا ہے اور مذہبی توقعات سے لبریز ہے۔خانقاہ کا منظر دیکھیے :
’’سب کی نظریں خانقاہ کے دروازے پر جم گئی تھیں جہاں سفید تہمد اور کرتے میں ایک بزرگ کھڑے تھے جن کی داڑھی اور گردن کے لمبے بال جگہ جگہ سے سفید ہوگئے تھے۔ سر پر مہین سفید کپڑے کا ایک بڑا سا رومال رکھا ہوا تھا۔
حضرت پیر سید خواجہ جلال الدین خاکی کھجور کے خشک پتوں کی چٹائی پر گاؤ تکیے سے پشت لگاکر بیٹھ گئے۔ وہاں موجود تمام لوگ بھی بالکل میکانیکی انداز میں اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ قیمتی کپڑوں میں ملبوس عورتیں بنا کسی جھجک کے گندے کپڑے اور میلے جسم والی عورتوں کے ساتھ ننگے فرش پر بیٹھ گئیں۔ لوگ ایک ایک کرکے حضـرت کے سامنے جاکر عقیدت سے ہاتھ چومتے۔ دھیرے دھیرے کچھ کہتے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو حضرت کے ہاتھوں پر سر رکھ کر رونے لگتے اور وہ آنکھیں بند کیے سنتے رہتے اور سب کو تقریباً ایک سا جواب دیتے ۔۔۔ ’’مصائب خدا کا امتحان ہیں ثابت قدم رہو۔‘‘
جو زیادہ دکھی اور پریشان دکھائی دیتا اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پڑھتے اور چہرے پر پھونک دیتے۔ ایسا شخص جب ان کے سامنے سے اٹھتا تو اس کے چہرے پر بشاشت ہوتی۔‘‘
کہانی کے آخر میں جب خواجہ جلال الدین خاکی کی ذہنیت بدلنے لگتی ہے تو بیانیہ چند رمزیہ جملوں کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے : ’’اقبال (راوی) کو محسوس ہوا جیسے کمرے میں شام کی سیاہی گناہ کی طرح پھیل گئی ہے۔ وہ اندھیرے میں حیرت سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان کی آنکھوں میں مستقبل کے منصوبوں کو پڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔‘‘ یہ جملے ضرب کی طرح واقع ہوتے ہیں اور قاری کے ذہن کو صدمہ سے آشنا کرتے ہیں۔
’ایک چھوٹا سا جہنم‘ بھی نفسیاتی نکتہ کے گرد گھومتی ہے، لیکن یہ قلب ماہیت کی نہیں بلکہ ذہنی کشمکش کو جھیلنے کی کہانی ہے کہ مرکزی کردار کس طرح لاشعوری تناؤ پر قابو رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کے فیصلے پر قائم رہتا ہے۔ ’ایک چھوٹا سا جہنم‘ اور زندہ در گور‘ دونوں میں مہانگر کے فسادات اور قتل و خون کی دہشت ناک پرچھائیاں ہیں، لیکن یہ فسادات کی کہانیاں نہیں۔ ’ایک چھوٹا سا جہنم‘ میں ڈاکٹر نائک کے بچپن کے دوست شہزاد اور اس کی بیوی سیما کا چہرہ بار بار ابھرتا ہے۔ شہزاد نے ایک ہندو لڑکی کو بغیر کلمہ پڑھائے رفیقۂ حیات بنا لیا تھا۔ فساد ہوا تو بلوائیوں نے حملہ کرکے سیما کی نظروں کے سامنے شہزاد کو قتل کردیا۔ نہیں کہا جاسکتا کہ شہزاد کو سیما کے رشتہ داروں نے قتل کرادیا یا شہزاد کے مسلمان دوستوں نے ہی اسے مروا دیا۔ مقتول شہزاد کا چہرہ ڈاکٹر نائک کے خیالات میں بار بار ابھرتا ہے جبکہ وہ ایک ایسے ایمرجنسی مریض کو دیکھ رہا ہے جو اتفاق سے لیڈر ہے اور جس کے ہلکے سے اشارے پر شہر میں فساد پھوٹ پڑتا ہے اور انسانی زندگی جانور سے بھی حقیر بنا دی جاتی ہے۔ ڈاکٹر نائک سوچتا ہے کہ ایسے لوگوں ہی نے شہزاد کا قتل کیا ہے، کیوں نہ وہ اس کا مانیٹر بند کردے اور اسے مرنے دے کیونکہ ایسے لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ آئی سی یو میں مریض مشینوں اور آکسیجن کی مدد سے زندہ ہے۔ ڈاکٹر نائک بار بار سوچتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اپنے دوست شہزاد کی موت کا بدلہ اس شخص سے لے سکتا ہے فقط ایک مشین کو سوئچ آف کرنے سے۔ لیکن بدلہ کی خواہش کے آگے وہ سر نہیں جھکاتا، اور ٹیک ریسٹ کہہ کر باہر نکل جاتا ہے۔ افسانہ نگار نے استعارتاً مہانگر کے جس لیڈر کی طرف اشارہ کیا ہے بیانیہ کو پڑھنے والا کوئی بھی حساس قاری اس کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ غورطلب ہے کہ شہزاد کے امیج کے بار بار ہانٹ کرنے کے باوجود ڈاکٹر زندگی کا ساتھ دیتا ہے موت کا نہیں۔
’زندہ در گور‘ میں بھی مہانگر کے فسادات کی فضا ہے۔ دیکھا جائے تو قتل و غارت اور نقضِ امن مہانگر کے معاشرتی زیرناف کا حصہ ہے۔ لیکن افسانہ نگار کا مسئلہ نہ اکثریتی ڈسکورس ہے نہ اقلیتی۔ یہ کہانی اہم اس لیے ہے کہ افسانہ نگار نے اس میں آئے دن رونما ہونے والے فسادات کو جو ایک پامال موضوع ہے، بالکل ایک نئی سطح پر لیا ہے اور بیانیہ کی تشکیل کرتے ہوئے ایک ایسا چبھتا ہوا سوال اٹھایا ہے جس کا جواب آسان نہیں۔ اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اب کوئی کتنا زور مارے میلوڈرامہ کا خدشہ رہتا ہے۔ ساجد رشید اس سے بچ نکلے ہیں۔ بیانیہ نہایت کسا ہوا، مختصر اور امیج آفریں ہے، اسٹوری لائن ہر سطر کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور منظرنگاری اور مکالمہ سازی اتنی موثر ہے کہ ہر چیز آنکھوں کے سامنے رونما ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ مجید اور نورین اپنے بیٹے پپو اور دودھ پیتی بچی کے ساتھ ہاؤسنگ بورڈ کی دومنزلہ عمارت میں جہاں رہتے ہیں وہاں قریب ہی کھلے صحنوں پر پترے کی غیرقانونی کھولیاں بن گئی ہیں۔ کھولیوں کے بچے چھوٹی چھوٹی گلیوں میں شور مچاتے ہوئے کھیلتے رہتے ہیں۔ شام ہوتے ہی سگریٹ پان کی گمٹیوں اور چھوٹے چھوٹے چائے خانوں میں رونق ہوجاتی ہے۔ لیکن اب منظر دوسرا ہے۔ فساد پھوٹ چکا ہے۔ مجید کا دوست ہیمنت مجید کو بار بار فون کرکے کہتا ہے کہ سمے بہت خراب ہے۔ لوگوں پر دھرم اور ذات پات کا بھوت سوار ہے، تم کسی سرکشت جگہ پر چلے جاؤ۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں تمھاری فیملی کو اپنے گھر پر رکھ لیتا لیکن کیا کروں کل کے دنگے کے بعد سے ٹینشن بہت ہے۔ مجید اور نورین بار بار سوچتے ہیں کہاں جائیں، گھر چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ سامنے مسلح سات آٹھ نوجوان کھڑے ہیں۔ نورین پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے :
’’آج لفڑے کا چانس ہے۔ ایک دبلے پتلے نوجوان نے آگے بڑھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا ہوشیار رہنا پانی اُبال کر رکھو اگر بہن چود حملہ کریں تو اوپر سے پانی ڈالنا ویسے ہم لوگ ان کی میت سلانے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
اس بیچ ہیمنت دوبارہ فون کرتا ہے۔ کسی سرکشت مقام پر چلے جاؤ۔ بالآخر مارے خوف کے یہ نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ پپو اپنے طوطے کا پنجرہ بھی اٹھا لیتا ہے۔ پے بہ پے خطرات سے گزرتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہاں جائیں کس سے پناہ مانگیں۔ قانون کی پاسبانی کرنے والے تو حملہ آوروں سے بھی زیادہ وحشی ہیں۔ عورتوں کی چیخ پکار بچوں کے رونے کا شور مردوں کی للکار کی آوازیں بڑھتی جاتی ہیں۔ یہ ہانپتے کانپتے چلتے رہتے ہیں۔ آس پاس لوگ بدحواس بھاگتے ایک دوسرے سے ٹکراتے نظر آتے ہیں۔ آسمان پر روشنی کا بڑا سا ہالہ پھیل رہا ہے جیسے کہیں آگ لگی ہو، ایک جیپ کچھ فاصلے پر آکر رک جاتی ہے۔ پولس کی ٹوپی پہنے ہوئے ایک شخص نشیب میں پیشاب کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ چھپ جاتے ہیں۔ جہاں جہاں کوئی ٹیلی فون بوتھ نظر آتا ہے اپنے گھر کو فون کرتے ہیں گھنٹی بجتی ہے تو عافیت کا احساس ہوتا ہے کہ حملہ نہیں ہوا۔ بالآخر فون ڈیڈ ہوجاتا ہے تو خوف سے کانپنے لگتے ہیں۔ نورین اور پپو سے اب چلا نہیں جاتا۔ گود میں سوئی بچی اور پنجرے میں جھولتا طوطا بھی چیخنے لگتا ہے۔ آس پاس سے طرح طرح کا شور اٹھتا ہے جیسے کوئی کسی کو مار رہا ہو ذبح کررہا ہو زندہ جلا رہا ہو۔ بیانیہ کے یہ ٹکرے دیکھیے :
’’اچانک خاکستری اندھیرے میں سے ایک نوجوان نمودار ہوا۔ وہ انھیں کی طرف بے تحاشہ دوڑا چلا آرہا تھا۔ نصف چاند کے اجالے میں مجید نے دیکھا کہ اس کا منہ کسی تھکے ہوئے گھوڑے کی طرح کھلا ہوا ہے لیکن اس کی اُبلی پڑ رہی آنکھوں میں چاندنی کی نہیں موت کو مدمقابل دیکھ لینے کی وحشتناک چمک ہے۔ وہ ہانپتا ہوا ان کے قریب سے تیر کی طرح گذر کر مسجد والی گلی میں گھس گیا۔ نورین مڑ کر سکتے کے عالم میں یہ سب دیکھتی رہ گئی۔ بدحواس نوجوان جس سمت سے آیا تھا وہیں سے دس پندرہ لوگوں کا ایک غول گنڈا سہ، تلواریں اور گپتیاں لہراتا ہوا اس کے تعاقب میں شکاری کتوں جیسی وحشیانہ رفتار سے ایسے گذرا کہ ان کے دوڑتے قدموں کی آواز کے علاوہ دوسری کوئی آواز ہی سنائی نہیں دے رہی تھی۔ مسلح نوجوانوں کا غول جب دوڑتا ہوا مسجد والی گلی میں غائب ہوگیا تو وہ تینوں زندگی کی سانسیں بچانے کے لیے ٹرک کے نیچے سے نکلے اور دوڑتے ہوئے سڑک پار کر کے قبرستان کی چہاردیواری سے لگ کر کھڑے ہوگئے۔‘‘
موت کی دہشت کو سامنے دیکھ کر یہ قبرستان کی دیوار سے دوسری طرف کود جاتے ہیں۔ نیم تاریکی میں دور تک شکستہ اور ٹوٹی پھوٹی قبریں بکھری ہوئی ہیں۔ برگد اور پیپل کے گھنے پیڑوں کی طرف بھیانک اندھیرا ہے۔ وہ قبرستان جو دن کے وقت بھی ڈراؤنا محسوس ہوتا تھا مجید اور نورین کو اس مصیبت کی گھڑی میں امن کی پناہ گاہ معلوم ہوتا ہے۔ انسانی بستی میں انسان ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہورہا ہے، ایسے میں قبرستان جہاں دن میں بھی موت کا سایہ لہراتا رہتا ہے، اس وقت امن و عافیت کا گہوارہ معلوم ہوتا ہے۔ گھر چھوڑ کر بھاگنے والے ان بے سہارا انسانوں کو یہاں انسان سے کوئی خطرہ نہیں۔ گویا انسان زندوں سے بھاگ رہا ہے اور مُردوں میں عافیت ڈھونڈھ رہا ہے۔ سوال زندگی کی بقا کا ہے کہ کیا زندگی کو انسانوں میں نہیں بلکہ مُردوں میں پناہ ملے گی؟
’راکھ‘ بھی ایک ایسی کہانی ہے جو ہرچندکہ ہندو مسلم تناظر میں لکھی گئی ہے، فرقہ وارانہ منافرت یا رواداری کی کہانی نہیں بلکہ بیک وقت دونوں کی ذہنیتوں کے ٹکراؤ کی کہانی ہے اور دونوں کے لاشعوری تہذیبی رویوں کے تضادات کو فنکارانہ مہارت سے بے نقاب کرتی ہے۔ آپسی رشتہ قائم کرنے والی دو روحوں کو والدین اور رشتہ داروں کے تہذیبی میلانات کی وجہ سے جس کربناک اذیت سے گزرنا پڑتا ہے کہانی ان کے جذباتی نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جہاں دباؤ فقط ایک فرقہ کا ہی نہیں دونوں کا ہے۔ ہماری بیشتر کہانیوں میں یہ رخ یا وہ رخ پیش کیا جاتا ہے اور قاری کی نظر اس پر رہتی ہے کہ افسانہ نگار نے ڈنڈی کہاں ماری ہے۔ سارا زور اسی پر صرف ہوتا ہے کہ فرقہ وارانہ ذہنیت کی مذمت ہوسکے اور باہمی ہم آہنگی اور رواداری کو پیش منظر میں رکھا جائے۔ ’راکھ‘ کا بیانیہ قطعاً ایسے کسی بوجھ سے دبا ہوا نہیں۔ اس کی بڑی خوبی اس کی معنی آفرینی اور کسا ہوا ہونا ہے جس میں واقعات آگے پیچھے آتے ہیں، واردات تواتر سے رونما ہوتی ہے اور ہر واقعہ مائل بہ ارتکاز نظر آتا ہے۔ جمال اور شمع میں محبت ہوجانا کوئی انہونی بات نہیں۔ شمع کا اصلی نام شماکلکرنی تھا۔ جمال شما کے برہمن والدین سے کہتا ہے کہ وہ دھرم بدل لے گا اور ہندو بن جائے گا لیکن وہ سویکار نہیں کرتے۔ البتہ جب اپنی ماں سے گفتگو کرتا ہے تو وہ شرط رکھتی ہے کہ لڑکی مسلمان ہوجائے تو تمہارے ابو کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ بہرحال شما کلکرنی مذہب بدل کر شمع جمال بن جاتی ہے۔ دونوں خوشی سے رہنے لگتے ہیں۔ شمع مراٹھی میں قرآن پڑھتی ہے لیکن اپنا منگل کے برت کا معمول بھی جاری رکھتی ہے اور جب تک جمال گھر نہیں آجاتا وہ اپنے پتی پرمیشور سے پہلے کھانا بھی نہیں کھاتی۔ شمع حاملہ ہوتی ہے لیکن کچھ ہی مدت بعد اسے یرقان ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر کو بلوایا جاتا ہے، یرقان اپنے آخری اسٹیج پر ہے، پیشتر اس کے کہ اسپتال لے جایا جائے شمع کا انتقال ہوجاتا ہے۔ میت گھر میں رکھی ہے۔ بیانیہ میں یہ منظر بار بار ابھرتا ہے۔ میت کو غسل کے بعد کفن پہناکر دیدار کے لیے رکھا گیا ہے۔ تلاوت کی آواز ماحول کو مزید سوگوار بنا رہی ہے۔ ابو پوچھتے ہیں کہ تدفین کب ہوگی جمال کہتا ہے کہ وہ شمع کو قبرستان نہیں شمشان لے جائے گا کیونکہ شمع نے اس کے مذہب سے متاثر ہوکر اپنا مذہب نہیں بدلا تھا بلکہ اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنے مذہب کو بدلنے کی رسم ادا کی تھی۔ جمال داہ سنسکار کرکے شمع کی آتما کو سکون پہنچانا چاہتا ہے۔ ابو غصے کو برداشت نہیں کرسکتے اور امی کا ہاتھ کھینچتے ہوئے سیڑھیوں سے اتر جاتے ہیں۔ شمع کے برہمن ماں باپ نے تو شادی کے دن سے ہی منہ موڑ لیا تھا۔ دونوں طرف سے ٹھکرایا ہوا جمال کہانی کے آخر میں شمع کے والدین کے دروازے پر کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں چھوٹی سی کلسی ہے جس کے منہ پر سرخ کپڑا بندھا ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے تو فقط اتنا :
’’میں آپ کی بیٹی کو لوٹانے آیا ہوں۔‘‘
مہانگر میں آئے دن بین المذہبی شادیاں ہوتی ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن تبدیلیٔ مذہب کے بعد بھی اس فرقے کے لیے یا اس فرقہ کے لیے قابل قبول نہ ہونا دونوں فرقوں کے سفاکانہ غیرانسانی رویوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ایسی صورت میں بالعموم یہ ہوتا ہے کہ لڑکی یا لڑکے کے تبدیل مذہب کے بعد اگر ایک فریق نہیں تو دوسرا فریق قبول کرلیتا ہے، لیکن یہاں دونوں طرف استرداد ہے۔ کہانی کار کی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی فرقے کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا بلکہ دونوں کے تہذیبی رویوں کے تضادات کو بطور واقعہ نشان زد کردیتا ہے۔ بیانیہ میں بین السطور آئرنی ironyکی ایک لہر چلتی ہے۔ میت سفید چادر میں لپٹی ہوئی رکھی ہے، اگربتیوں کا دھواں پھیل رہا ہے۔ مرنے والی نے مذہب بھی تبدیل کیا اور زندگی کو بھی ٹھکانے لگادیا لیکن اس کا ایثار و قربانی پھر بھی قابل قبول نہ ہوا۔ نہ ہی جمال کی پیش کش قبول ہوئی، نہ ہی داہ سنسکار کرنے کا اس کا فیصلہ قابل قبول ہوا۔ روح کی تہوں تک اترے ہوئے معاشرتی اور تہذیبی رویوں کے المناک تضاد کو کہانی کار نے جس طرح چند صفحوں کے بیانیہ میں ابھارا ہے اس سے بلاشبہ اس ڈسکورس کی ایک نئی جہت سامنے آتی ہے۔ یہاں بھی مہانگر کی تیز رفتار زندگی کی تبدیلیاں اور تقاضے بیک وقت قدامت پسندانہ تہذیبی رویوں کے ساتھ ساتھ موجود ہیں جو آج کے گلوبل معاشرے میں سماجی ڈسکورس کی خاص پہچان ہے۔
اوپر ہم نے ساجد رشید کے جہانِ معنی کی ایک جھلک دیکھی اور ان کی کچھ کہانیوں کے متن کے اندرون میں جھانکنے کی کوشش کی۔ اس دوران ان کی بعض بہترین کہانیوں سے بھی ہم نے ملاقات کی۔ تنقید جتنا معروضی عمل ہے اتنا موضوعی عمل بھی ہے۔ ضروری نہیں کہ سب پڑھنے والے ان کہانیوں کو اس طرح دیکھیں جیسے کہ ہم نے دیکھا ہے۔ کوئی دوسرا ان متون کو کسی اور طرح سے بھی پڑھ سکتا ہے۔ ساجد رشید کی جڑیں یوپی کے قصبات میں ہیں، ان کی سائیکی میں قصباتی آرکی ٹائپ بھی ابھرتے ہیں لیکن ان کے شعور نے metropolis ممبئی (مہانگر) کی تیزی سے بدلتی ہوئی کمرشیل فضا میں آنکھ کھولی جہاں برقیاتی ترقی کی تماشا سوسائٹی میں گلوبلائزیشن کی خیرہ کردینے والی ریل پیل و صارفیت نے انسان کو بے حس بنا دیا ہے۔ نیز جھونپڑ پٹیوں اور کھولیوں کی عفونت زدہ جرائم کی دنیا جہاں انسان کی زندگی کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر ہے۔ بڑے میٹروپلس کی پہچان فقط آبادیوں کی ریل پیل اور تضادات سے ہی نہیں ہوتی، وہ ایک جیتا جاگتا ثقافتی وجود بھی ہوتے ہیں۔ ایسے ہر شہر کی اپنی پہچان اور اپنا کردار ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ نمو کرتا ہے اور منقلب بھی ہوتا رہتا ہے۔ مہانگر کے تہذیبی اور سماجی مسائل کے بارے میں متعدد لوگوں نے لکھا ہے لیکن ساجد رشید کے افسانوں میں جس طرح آج کے میٹرو کا وجود ابھرتا ہے اور جس فن کارانہ سفاکی سے انھوں نے مہانگر کے زیرِناف اور دوسرے پہلوؤں کے بارے میں بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ ان کے زیادہ تر کردار حاشیے کے لوگ ہیں۔ جیسے کہ ہم نے اوپر دیکھا، ان کے یہاں دوسرے مسائل اور موضوعات پر کہانیاں بھی ہیں لیکن جس تخلیقی محویت اور رچاؤ سے انھوں نے آج کے مہانگری تضادات اور ان کے گھناونے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے وہ ان سے خاص ہے۔ اس نوع کے سماجی ڈسکورس میں نفسیاتی مسائل بھی ہیں۔ جرائم پیشہ داداگیری اور پولس کی بدکاریوں کے مرقعے بھی ہیں، مذہبی منافقت اور ریاکاری کے لاینحل تضادات بھی ہیں۔ وہ ان کی جیتی جاگتی پہچان کو پیش کرتے ہیں اور مہانگر کا وجود اور اس کا subaltern بین السطور میں سانس لیتا معلوم ہوتا ہے۔ ایسی کہانیوں میں میں ’زندہ در گور‘، ’راکھ‘، ’جنت میں محل‘، ’چادر والا آدمی اور میں‘، ’اندھیری گلی‘، اور ’بادشاہ بیگم اور غلام‘ کو ضرور شامل کروں گا، ہوسکتا ہے دوسروں کو دوسری کہانیاں پسند ہوں لیکن میرے نزدیک ان کے بیانیہ سے یہ بشارت ضرور ملتی ہے کہ ساجد رشید کا فن اب پختگی کی اس منزل میں ہے کہ ان سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اردو کو مہانگر کے سانس لیتے ہوئے سماجی اور ثقافتی وجود کے بارے میں ایسا ناول دیں جو اپنی مثال آپ ہو۔

Muqaddar Hameed : Shoor Angezi ke Beghair Kahaniyan

Articles

مقدر حمید: شور انگیزی کے بغیر کہانیاں

اقبال مجید

مقدر حمید کا پہلا افسانوی مجموعہ ’زربیل‘ ۸۹ کے اواخر میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ جس میں ڈیڑھ درجن کہانیاں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا تعلق آٹھویں دہائی میں سامنے آنے والے افسانہ نگاروں میں کیا جاسکتا ہے۔
اردو فکشن کا باشعور قاری اس حقیقت سے واقف ہے کہ آٹھویں دہائی تک آتے آتے اردو افسانہ دو اہم ادبی رجحانات سے گزر چکا تھا جنھیں ترقی پسند تحریک اور جدیدیت کے رجحان سے پہچانا جاتا ہے۔ ان دونوں رجحانات کی اپنی اپنی خصوصیات تھیں جن پر برسوں بحثیں ہوئی ہیں اور دفتر کے دفتر لکھے گئے ہیں۔
آٹھویں دہائی کے لیے ادب میں نظریہ سازی کا عہد مشکوک ہوچکا تھا اور ادب اور پوسٹر کے لوازمات میں جو فنی فرق تھا اس پر چھائی ہوئی دھند چھٹ چکی تھی اور اس حقیقت پر ایمان لے آیا گیا تھا کہ کسی سیاسی نظریے کی گود میں پلا ہوا ادب اور ادب کی گود میں پلا ہوا کوئی نظریہ دو الگ الگ چیزیں ہیں اور آخر الذکر اوّل الذکر کے مقابلے میں کہیں زیادہ مستحسن ہے۔ افسانے میں در آئے ماضی قریب کے خطیبانہ رویے اور رومانیت زدہ نثر بھی فیشن سے باہر ہوچکی تھی۔ کرشن چندر وغیرہ کے افسانوی سرمائے کو کھنگالا جا چکا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ وہ کون سے اجزا ہیں جو افسانے کو فارمولا کہانی بناتے ہیں اور انھیں جذباتیت کی آنچ میں پگھلا کر ان کا حلیہ بگاڑ دیاکرتے ہیں۔ اس پر بھی باتیں ہوچکی تھیں کہ آدھی ادھوری زندگی کی سطح ترجمانی کا کھیل کھیلنایا علامت اور تجریدیت کے مکڑ جال تیا ر کرنے کا نام فکشن نہیں ہے۔ لاشعور کے نہاں خانوں کی سیر و تفریح میں جو بدسلیقگی اور معاشرے کے قومی مزاج کے خلاف جو بے اعتدالی برتی جاچکی تھی اس کے منفی نتائج بھی سامنے آچکے تھے اور اس طرح کی فکشن نگارکی ہی نہیں بلکہ افسانے کے قاری کی بھی جانے انجانے نئی تربیت اور تعلیم ہوچکی تھی۔ اس طرح افسانہ نگار اور افسانے کا قاری اس دہائی میں ایک صورتِ حال سے دوچار ہورہا تھااور قاری کے اپنے عہد کے افسانے سے جو مطالبات ہورہے تھے انھیں مہدی جعفر کے لفظوں میں یو سمیٹ دیا گیا تھا:
’’قاری دیکھے گا کہ افسانے کی پراسس کو جن سطحوں پر لے کر چلا ہے وہ سطحیں بخوبی اُجاگر ہوئی ہیں یا نہیں، اس لیے ہر سطح خوب ہونا چاہیے۔ محض پلاٹ کی بات نہیں ، بیان بھی، محض عمل ہی نہیں ردِّ عمل بھی، محض تفاعل نہیں تشکیل بھی، محض میڈیم ہی نہیں مقناطیسیت بھی ، محض واقعہ نہیں صورتِ حال بھی، محض کہانی نہیں عہدِ حاضر بھی، محض تخلیق نہیں نمائندگیِ اظہار بھی۔‘‘
یہی نہیں سن ۸۰ کی دہائی میں فکشن نگاروں نے زندگی جو کہ ادب کو خام مال مہیا کرتی ہے کی جانب سے لا ابالی اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا بھی بند کردیا تھا جس کی جدیدیت کے رجحانات نے بنا ڈالی تھی اور خاطر خواہ پرورش کی تھی۔ یعنی زندگی کو مہمل اور بے معنی شئے بتایا گیا تھا، فرد اور ذات کو اولیت دے کر اس کے ڈھنڈھورے پیٹے گئے تھے جس کے نتیجے میں معاشرے کی خارجی زندگی ٹاٹ باہر ہوچکی تھی اور مزید یہ کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ فن میں ترسیل کا معاملہ کوئی اہمیت نہیں رکھتاکیوں کہ ابلاغ کا عمل ایک پیچیدہ اور بعید از امکان عمل ہے۔ جدیدیت کے اندرون کے سیر سپاٹے کی بیماری کی حد تک بڑھ جانے والے شوق نے ادیب سے اس کے سماجی شعور کی پرکھ کرنا یہ کہہ کر بند کردی تھی کہ سماجی شعور پنساری کی دکان ر بھی مل جاتا ہے ، اب یہ بات افسانہ نگاروں کو قبول نہیں رہ گئی تھی۔ آٹھویں دہای کی نسل نے جدیدیت کے ایسے تمام منفی اثرات سے اپنا دامن جھاڑ لیا تھا اس نے افسانے کو پرکھنے کے وہ سارے پیمانے مسترد کردیئے تھے جن سے شاعری کو پرکھا جاتا تھا اور یہ انتظار کرنا بند کردیا تھا کہ نثر میں فکشن کو پرکھنے کے نئے پیمانے مرتب ہوجائیں تو وہ لکھنا شروع کرے کیونکہ ادب کے کاروبار تخلیق کو ہی اکثر تنقید کے آگے آگے چلنا پڑتا ہے۔
اس مختصر سے ادبی پس منظر کی روشنی میں دیکھا جائے تو مقدر حمید اس دشت نوردی میں کم سے کم ۲۵ سال کا طویل تو پورا کر ہی چکے ہیں۔ انھیں اپنے دوسرے افسانوی مجموعے ’ابرکاری‘ کی اشاعت کے موقع پر غالباً یہ احساس ہوا کہ وہ اپنے قارئین سے اپنا ادبی موقف اور اپنی ترجیحات کا ذکر کردیں چنانچہ انھوں نے ’عرضِ حال‘ کے طور پر کچھ ایسی پتے کی باتیں کہہ دیں جن سے افسانے میں ان کے فنی رویوں کا سراغ بھی مل جاتا ہے۔ جو ان کے فن کی تعین قدر میں ہماری مدد کرتا ہے۔ اس کے مطالعے سے ان کا یہ خدشہ سامنے آتا ہے کہ ’ یہ جو مابعد جدیدیت کے زیرِ اثر سماجی سروکار اور سیاسی آگہی کا راگ الاپا جارہا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی زد میں افسانے کی لازوال فنی اور جمالیاتی قدریں آجائیں۔‘انھوں نے افسانے کے ’جادۂ معتبر‘ کی پہچان پہچان بتاتے ہوئے یوں کہا کہ ’’نامیاتی،افسانے کا سروکار زندگی کی بے معنویت سے نہیں بلکہ معنی آفرینی سے ہے، زندگی کو کلی صداقت کے روپ میں تسلیم کرنا اور معنی خیز لمحات کو تابندگی عطا کرنا ہی آج کے افسانے کا جادۂ معتبر ہے۔ ‘‘ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ وہ کسی مخصوص ادبی تحریک یا رجحان سے نہ تو مرعوب ہیں اور نہ اس کے معتقد۔ ان کا کہنا ہے ’’عقیدت مندی بعض کے نزدیک وصف ہو تو ہو میری نظر میں اندھی عقیدت سے بڑی کوئی خرابی نہیں۔ شعوری طور پر کبھی کسی خاص تحریک ، کسی خاص گروہ کی پیروی کو شعار نہیں کیا، اپنی بات کہنے کے لیے کہانی کی تصویر کو جو بھی فریم راس آئی اسے اپنانے سے احتراز نہیں برتا، ہر تخلیقی سرگرمی تن دہی ، دیانت ، تمام تر محویت بلکہ جنون کی متقاضی ہوتی ہے۔‘‘
مقدر حمید کے افسانوی سفر کے تینوں ادوار کو سامنے رکھتے ہوئے یہ دلچسپ پہلو سامنے آتا ہے کہ انھوں نے اپنی کہانیوں کے لیے بیشتر طور پر شفاف بیانیہ کی ہی راہ اپنائی ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کے افسانے زربیل، فریم سے باہر کی تصویریں، اداکار، دوریاں وغیرہ پھر دوسرے افسانوی مجموعے کے افسانے یاد گلی، ابرکاری، بدلتے موسم وغیرہ سب ہی کا بیانیہ صاف ستھرا ہے۔
زربیل سیدھا سیدھا بیانیہ تو ہے لیکن اس افسانے میں Money Plantیعنی زربیل کو آج کے معاشرے پر طنز کرنے کے لیے ایک خوبصورت اور بامعنی استعارہ بنایا گیا ہے۔یعنی جس طرح Money Plant کو دوسرے کے پاس سے چرا کر اپنے یہاں نہ لگایا جائے وہ بیل منفعت بخش ثابت نہیں ہوتی اسی طرح آج کی معیشت میں جب تک چوری چکاری نہ کی جائے وہ آسودہ حالی سے نہیں نوازتی۔ صرف زربیل ہی نہیں بلکہ وہ سارے افسانے جن کے عنوانات اوپر درج کیے گئے ہیں اور پھر نئے افسانوی مجموعے ’جل ترنگ‘ کے نمائندہ افسانے ’نَے چراغے ، نَے گُلے‘ دل کاری، شام نامہ، صبح گاہی ‘ وغیرہ سب ہی آج کے سماجی سروکاروں سے آراستہ ہیں۔
افسانہ ’ابرکاری‘ ایک شفاف بیانیہ ہے، یہاں بھی اگرچہ محیرالعقول واقعہ کو لے کر کہانی بُنی گئی ہے مگر اس کا سروکار اخلاقی اور سماجی ہے۔ مقدر حمید نے پیاسوں کو ان کی پیاس کی شدت میں بے دردی کے ساتھ پانی پلائے بغیر دروازے سے دھتکارتے ہوئے دکھایا ہے پھر ان معنی خیز لمحات کو کہانی کے اختتام میں نئی جلا بخشی ہے۔ کہانی اپنی بین السطور میں کہی ہوئی پائی جاتی ہے کہ دوسروں کو پیاسا رکھو گے تو قدرت تمھیں پیاسا رکھے گی۔ قدرت انسانوں سے ایسی ہی ابرکاری کی توقع رکھتی ہے۔
بدلتے موسم بھی ہمارے آج کے سماجی سروکاروں سے خای نہیں۔ بیٹا ایک غیر مسلم لڑکی سے محبت کی شادی کرنا چاہتا ہے، باپ اگرچہ مخالف ہے مگر لڑکے لڑکی کو ملنے ملانے کی آزادی دیتا ہے۔ لڑکے کی ماں آخرکار لڑکی کو پسند کرنے لگتی ہے مگر کچھ دنوں بعد لڑکا اور لڑکی خود ہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان میں خاصی دوریاں ہیں اور شادی کے بندھن میں بندھنا مناسب نہ ہوگا۔افسانہ نگار کی نظر اس افسانے میں محض سماجی سروکاروں کے کسی پیٹنٹ نسخے اور اس کے ترکیب استعمال پر نہیں ہے یا یہ نظریہ سازوں کے کسی گروہ کی جانب سے مہیا کی گئی ساجی حقیقت نگاری کی کوئی لیکھ بھی نہیں ہے جس پر افسانہ نگار کو چلنے کا حکم ملا ہو۔ کہانی میں جواقع ہوا ہے یعنی لڑکے اور لڑکی کا یہ فیصلہ کرنا کہ شادی کرنا مناسب نہ ہوگا یہ افسانے کے کردروں کے اپنے اتصال اور ذہنی و جذباتی تصادم کا نتیجہ ہے۔ یعنی ایک مخصوص صورتِ حال میں جو کچھ واقع ہوا وہ غیر فطری اور قیاس سے باہر نہیں ہے۔ افسانہ اس واقعہ پر قاری کو اعتبار کرلینے پر مجبور کرتے ہوئے مزید غور و فکر کی راہ فراہم کرتا ہے۔ گویا مقدر حمید کے افسانوں کا پہلا وصف ہی یہی ہے کہ وہ خارجی دنیا سے مطابقت رکھتے ہوئے تخلیق میں داخلی ہم آہنگی کو قائم کرتے ہیں۔
مقدر حمید ، سریندر پرکاش کی طرح کبھی کبھی اپنے افسانوں کے عنوانات قائم کرنے میں تازہ کاری سے کام لیتے ہیں مثلاً ’ دل کاری‘ انھوں نے ایک اچھا لفظ گڑھاہے۔ افسانے کے موضوع او اس کے طرزِ اظہار دونوں میں ندرت اور تازگی ہے۔ Chat Shaow کی تکنیک کو استعمال کرکے افسانے کو بتدریج آگے بڑھایا گیا ہے جو دلچسپ بھی اور لائقِ توجہ بھی ، افسانہ بڑی خاموشی سے ایک سوال اپنے قاری سے پوچھ کر ختم ہوجاتا ہے اور وہ سوال ہے کاش سرجری کے ذریعے دل کی رگوں میں جس طرح خون کی روانی میں رکاوٹیں دور کی جاتی ہیں ویسے ہی سرجری کے ذریعے دل کی کدورتوں اور نفرتوں کو بھی کسی طور دور کیا جاسکتا۔
یہاں پر یہ یاس دلاتا چلوں کہ نئے عہد کے سائنٹسٹوں نے انسنا کو فطری طور پر Geniticallyاور Neorologically ناقص بتایا ہے۔ انسان سے ہم مطلوبہ نیکی کا عمل تب ہی چاہ سکتے ہیں جب ہم اس کے Genesمیں تبدیلی کریں۔
ان افسانوں کو پڑھ کر بعض جگہوں پر سب سے پہلے جو بات متوجہ کرتی ہے وہ افسانہ نگار کی زبان ہے۔ مقدر حمید ناصر بغدادی کی طرح کبھی کبھی بھاری بھرکم ، کتابی اور مجلسی ٹھپّے کے الفاظ استعمال کرجاتے ہیںجو فکشن پڑھتے پڑھتے برک سا لگا دیتی ہے اور قاری ایک پل کو اس لفظ کو رک کر دوچار بار دہراتاہے تب آگے بڑھتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کبھی کبھی ایسی نثر موضوع کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پڑھنے والے کویہ محسوس نہ ہونا چاہیے کہ افسانہ نگار نے خود زبان کا چٹخارہ لینے کے لیے عبارت آرائی کی ہے۔ مثلاً ’’ نہ سورج اُگے گا، نہ چاند کی نرم و سبک کرنیں اپنے لمس سے خوابیدہ سر شاریوں کو جگائیں گی۔‘‘
’’لیکن منظر کوئی سا ہو، دلکش، دل رُبا یا ہھر اندوہناک، اسے ثبات کہاں ، بھلے ہی قریب کے لمحات یادیں بن کر سینے میں ہوک اٹھائیں یا لمبی تاریک راتوں کے عفریت دل میں برچھیاں پیوست کریں۔ ‘‘ پرتکلف اور شاعرانہ زبان آج کی کھردری، سفاک اور برہنہ حقیقت بیان کرنے والے افسانوں سے خدا واسطے کا بیر رکھتی ہے اور ٹاٹ میں مخمل کا پیوند معلومہوتی ہیں۔ ان کے روایتی سحر اور حسن سے بچا جائے تو اچھا ہے حالانکہ مقدر حمید کے کئی افسانوں مثلاً زربیل، دوریاں، دلدل، اُڑان، بدلتے موسم وغیرہ کی زبان سادہ اور پُرکار ہے۔ ان لفظوں کے استعمال میں اختصار بھی برتا گیا ہے۔ مقدر حمید کے افسانوں کا وصف خاص طور پر قابلِ توجہ ہے ،اس کی طرف اشارہ کرنا اس موقعے پر ضروری سمجھتا ہوں ۔ بار بار یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے بعض افسانہ نگاروں کو مختلف ذرائع سے عصرِ حاضر کے مسائل سے متعلق سمیٹی ہوئی معلومات (Information) کو دماغ میں بھر لینے کا شوق ہے۔ ایک حیثیت سے یہ شوق اچھا بھی ہے لیکن اگر کوئی اس معلومات کو افسانے میں صحافتی انداز سے معاشرے کا Big Brother بن کر قے کردینا چاہے اور اسی پر اصرار بھی کرے کہ باقی دوسرے افسانہ نگار اس کے آگے بچے ہیں تو اسے صحافتی معلومات اور تخلیقی آگہی کے درمیان جو بنیادی فرق ہے اور جو ایک اچھے افسانے کو پڑھنے کا انعام ہے ، بتانا ہی چاہیے۔ مقدر حمید افسانے میں علم کے پٹارے اُنڈیل کر افسانے کا حلیہ نہیں بگاڑتے۔ بھلا وہ فن ہی کیا جو حسن پر لاٹھیاں برسانے لگے۔ مقدر حمید کے افسانے ، افسانے اس لیے ہیں کہ وہ افسانوی آگہی کی روشنی سے آراستہ ہیں، ممکن ہے اس روشنی کی تمازت جگنو کی چمک سے زیادہ نہ ہوکیونکہ بیا کے گھونسلے میں جگنو تو چمکایا جاسکتا ہے ، نصف النہار کا تمتماتا ہوا آگ اُگلتا سورج نہیں۔ افسانوی آگہی قاری میں ارتکاز کو بڑھاتی ہے، قاری اپنے اندر کچھ تبدیل سا ہوتا محسوس کرتا ہے، یہ تبدیلی اس میں نرم و نازک اور لطیف احساسات کو جگاتی ہے جو اسے آسودہ خاطر کرتی ہے۔برخلاف اس کے افسانوںمیں علم و معلومات کے وفور سے پیدا کیے جانا والا دبدبہ افسانے میں فنی طور پر جھول پیدا کرکے اسے بوجھل کردیتا ہے۔مقدر حمید کے بیشتر افسانوں میں کہیں جھول نہیں ملتا، وہ اخباری رپورٹنگ اور معلومات کے بوجھل وزن سے افسانے کو بچاتے ہیں۔ کیا نہیں لکھنا ہے اس پہلو پر برابر نظر رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے غیر ضروری طور پر طویل نہیں ہوتے ، وہ افسانے میں کسی موضوع کو بھوسے کی ٹھونستے نہیں ہیں بلکہ اسے افسانے کے Spaceکی مناسبت سے اتنی ہی جگہ دیتے ہیں جس میں اس کا دم نہ گھٹے۔ موضوع کو افسانے میں باعزت اور مناسب جگہ ملنا ایک اچھے افسانے کی پہچان ہے۔ اگر اس کی جگہ افسانہ نگار اپنی لیاقت اور قابلیت بگھارنے لگے تو افسان دُم دباکر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ آج ہمارے بعض افسانہ نگاروں میں یہ بد ذوقی عام ہے۔ مقدر حمید کے افسانوں کی بیرونی تشکیل اگرچہ سادہ بیانیہ سی ہوتی ہے لیکن وہ اس بیانیہ میں موقع محل دیکھ کر ایک ہلکا سا استعاراتی اور علامتی رنگ بھی ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کہ افسانہ چیستاں اور بھول بھلیاں نہ بنے۔ علامتوں اور استعاروں کو پر اثر اور تخلیقی اوزار کی طرح استعمال کرنا افسانوی فن کی اہم ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ افسانے میں مکالمہ نگاری کا معاملہ فلم اور ڈراموں سے مختلف ہے، حالانکہ ایسے دوسرے میڈیم افسانوں کے مکالموں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ مقدر حمید کے افسانوں کے مکالمے ان بے لگام اثرات سے پاک ہیں لیکن افسانوں میں ان کی حیثیت کتنی تخلیقی ہے اور کتنی غیر تخلیقی یعنی مکالمہ برائے مکالمہ ہے یہ ایک الگ مسئلہ ہے ، مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ وہ مکالموں کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے ہیں۔
بہر حال اتنا تو طے ہے کہ سن ۸۰ کے افسانہ نگاروں کو اس بات کی نشاندہی کرنا ہنوز باقی ہے کہ وہ کن نمایاں اوصاف کے سبب اپنے سے پہلے کے افسانہ نگاروں سے ادبی طور پر زیادہ پختہ ہیں اور وہ پچھلی قید و بند کون کون سی ہیں جن کی زنجیروں سے واضح طور پر انھوں نے آزادیاں حاصل کرلی ہیں۔ جہاں تک مقدر حمید کا تعلق ہے انھوں نے کئی جہتیں پار کی ہیں جس کی مثال ان کا ایک عمدہ افسانہ ’صبح گاہی‘ ہے۔ قارئین جب اسے پڑھیں گے تو خود ہی محسوس کریں گے کہ آج کی Sensibilitiesکو کتنی خوش اسلوبی سے گرفت میں لیا گیا ہے۔ گاڑی والے کے کردار کی ایمانداری سے عکاسی ہی نہیں کی ہے بلکہ مہاجر پرندوں کی طرح اچھے موسم میں نقل مکانی کررہے اپنے بیٹے کے کردار کے پس منظر میں کتنی فنی چابکدستی سے اس دلچسپ کردار کو اُجاگر کیا ہے اور کسی شور انگیزی کے بغیر کہانی کو موثر طریقے سے انجام تک پہنچایا ہے۔

Mushtaq Momin ki Afsana Nigari by Dr. Raunaq Raees

Articles

مشتاق مومن کی افسانہ نگاری

ڈاکٹر رونق رئیس

بنکروں کی بستی اور ہندوستان کا مانچسٹر کہلانے والا شہر بھیونڈی کے واجد محلہ میں پیدا ہونے والے مشتاق مومن اپنے افسانوں کے خوبصورب اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں ۔انھوں نےاپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے ممبئی کا رُخ کیا اور اسماعیل یوسف کالج ، جوگیشوری ممبئی میں داخلہ لیا ۔یہیں سے ان کی ادبی سرگرمیاں شروع ہوئیں ۔
حالانکہ۱۹۸۴ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ رت جگوں کا زوال ‘‘ منظر عام پر آیا لیکن ان کے افسانے رسائل و جرائد میں پہلے سے شائع ہورہے تھے اور مشتاق مومن کا شمار ۱۹۷۰ کے بعد کے افسانہ نگاروں میں ہونے لگا تھا ۔ افسانوی مجموعہ ’’رت جگوں کا زوال ‘‘ کے بعد کے افسانے ان کی موت کے بعد ۲۰۱۳ء میں ان کی بیگم فریدہ نے شائع کروائیں ۔ اس مجموعے کا نام ’’تازہ خون میں ملی ہوئی مٹی ‘‘ ہے ۔ فریدہ مومن نے ’’ بھولی بسری یادو ں ‘‘ کے عنوان سے مشتاق مومن کی زندگی کے واقعات پر روشنی ڈالی ہے ۔
ساجد رشید ہی کی طرح مشتاق مومن بھی ممبئی کے ایک حساس افسانہ نگار تھے۔ان کے افسانوں کا مجموعہ’’رت جگوں کا زوال‘‘ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کامظہر ہے۔ اس میں کل چودہ افسانے اور سریندر پرکاش کا تحریرکردہ دیباچہ شامل ہے۔ سریندرپرکاش نے اپنے دیباچہ میں مشتاق مومن کی افسانہ نگاری کی تحسین کرتے ہوئے اردو افسانہ کے حوالے سے عالمی افسانہ کی صورتِ حال کا جائزہ لیا ہے۔
مشتاق مومن کے افسانوں میں سماجی وجدان کی فضا پائی جاتی ہے۔وہ مشکل پسندی سے زیادہ سہل اور سادہ اسلوب کو پسند کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں انسانی اقدار میں تنزل سے بیزاری اور قتل وغارت گری سے تنفر،سیاسی چال بازیوںکے خلاف احتجاج اور نیچر سے محبت کی کہانیاں ملتی ہیں۔بحیثیت افسانہ نگار ان کا شمار ۱۹۷۰ء کے بعد کے اہم لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔مشتاق مومن کے افسانوںمیںتہذیب کی انحطاط پذیری ،اخلاقی قدروں کی گراوٹ ، ریاکاری جیسے اہم موضوعات پائے جاتے ہیںاور ان موضوعات کے اظہار کے لیے ایک احتجاجی و انحرافی اسلوب کو متعارف کروانے کی کوشش نظر آتی ہے۔انھوں نے تمثیلی ،استعاراتی اور بیانیہ افسانوں کے ذریعہ اپنی شناخت قائم کی۔
رت جگوں کا زوال، کریم لگا بسکٹ اور چیونٹیاں ،فرذوق کہاںجائے گا؟، قصۂ جدید حاتم طائی میںاپنے عہد کی سماجی برائیوں پر نشتر زنی کی گئی ہے۔ان کے افسانے اپنے عہد کے تاریخی ،سماجی، معاشی ا وراقتصادی تجربات کے پس منظر کو پیش کرتے ہیں۔
ان کا افسانہ ’’کریم لگا بسکٹ اور چیونٹیاں ‘‘ ایک بیانیہ افسانہ ہے۔اس میں قربانی کے جذبے کی ایک انوکھی داستان بیان کی گئی ہے۔افسانہ نگار نے اس افسانے میں نہایت خلاقی سے ایک جلے ہوئے مزدور کے احساسات کو کہانی کے روپ میں پیش کیا ہے۔ بری طرح جل جانے کے باوجود زندہ رہنے والامزدور اسپتال کی تنہائی میںاپنے ہاتھوں سے اپنے نتھنوں میں لگی ہوئی آکسیجن کی نلی اس امید پر ہٹا دیتا ہے کہ اس کی موت کے بعد اس کے گھر والوں کوایک موٹی رقم بطور معاوضہ مل جائے گی۔
وہ دھاراوی میں رہنے والا ایک غریب انسان ہے جوہربار اوپر اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اورہربار نیچے گرجاتا ہے۔ گھر میں اس کی بیوی اور جوان بیٹیاں ہیںجن کاسارادارومداراس غریب مزدورپرہے۔غریبی اور ناداری کے علاوہ حالات کی مار نے اس کی بیوی کواپنے وقت سے پہلے بوڑھابنادیا ہے۔ بیٹیاں ایک پہاڑ کی طرح اس کے سینے پر سوار ہیں۔ان کی شادی کی فکر اسے ہر وقت اور لمحہ ستاتی ہے۔اس کے علاوہ ایک پکے گھر کی تعمیر کا خواب آنکھوں میں لیے وہ اپنی زندگی سے جھوجھ رہاہے۔ حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ ایک دن وہ ٹرین کے حادثے میں بری طرح جل جانے کے بعد اسپتال میں داخل ہوجاتاہے ۔ اسپتال کے قریب ایک نیم کا پیڑہے جسے وہ تکتا رہتاہے اور اس کے سرہانے تپائی یا ٹیبل پر رینگتی ہوئی چیونٹیاں ہمیشہ اس کی نظروں کامحور بنی رہتی ہیں۔
یہاں افسانہ نگار نے کہانی کو ایک نیا موڑ دینے کی کوشش کی ہے۔ ایک دن وہ پلیٹ میں ایک کریم لگا ہوا بسکٹ رکھ دیتا ہے اور پھر اس پلیٹ کو دوسری پلیٹ جس میں پانی بھراہوتا ہے، میں رکھ دیتا ہے اوردیکھتا ہے کہ چیونٹیا ں پلیٹ کے آس پاس رینگنا شروع کردیتی ہیں۔ بسکٹ تک پہنچنے کے لیے درمیان میں چیونٹیوں کو پانی پر سے گزرنا ہے۔اس عمل میںکئی چیونٹیاں مرجاتی ہیںاور مری ہوئی یہ چیونٹیاں دوسری چیونٹیوںکے لیے پانی پر پل کاکام دیتی ہیں اس طرح یہ مردہ چیونٹیاں ان زندہ چیونٹیوںکے لیے روزی روٹی کا سبب بنتی ہیں۔
دراصل چیونٹیوں کاعمل عام انسان کے لیے جدوجہد کی علامت ہے۔ اسی وقت افسانے کے کردارکے ذہن میںیہ خیال آتا ہے کہ اسے بھی اپنی جان کانذرانہ پیش کرکے اپنے گھر والوں کی بہتری اور خوشحالی کاذریعہ بننا چاہیے ۔اسے اس بات کاعلم ہے کہ ٹرین میں ہلاک ہونے والوں کو حکومت کچھ معاوضہ دینے والی ہے۔لہٰذا وہ آکسیجن کی نلی کواپنے نتھنوں سے ہٹا دیتا ہے اور گھر والوں کے لیے قربانی کامظہربن جاتا ہے۔
ان کادوسراافسانہ’’ ایک لمبی قبر‘‘ بھی بیانیہ افسانہ ہے۔اس کی کہانی ماضی کے واقعات کے سہارے آگے بڑھتی ہے اورجب حال میں لوٹتی ہے تو جنازہ ،قبر ،قبرستان اور شریک جنازہ لوگوں کے حالات کاپتہ دیتی ہے۔ اس میں میت کی تجہیز وتکفین اور تدفین کے حوالے سے کہانی کو اثرانگیز بنایاگیا ہے۔ بچپن کی یادوں کے حوالے سے راوی اس افسانے کے مرکزی کردار کی ذہانت ، حالاتِ زندگی ، اس کی مالی مجبوری اور بالآخر موت کو خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے۔ جس میں عام مذہبی انسانوں کی دو رخی زندگی پر چوٹ کی گئی ہے۔ بچپن میں دین سے تعلق اور جوانی میں دین سے بیگانگی اور بے راہ روی ، مذہب کو محض ایک رسمی شے سمجھنے والوں پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔مشتاق مومن نے تدفین کے منظر میں ایک کرب کی کیفیت بھردی ہے۔ کہانی کا اختتام جہاں ایک دوست کے احساسِ ندامت کو پیش کرتا ہے ،وہیں پر قاری کو اپنے سماجی رویے پر خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے۔
افسانہ ’’آسیب‘‘ غربت ،حالات کے جبر اور معاشی وسیاسی نظام پر گہراطنز ہے۔ افسانہ کا کردار ایک آسیب سے ڈرا ہوا ہے۔دراصل یہ ہمارے عہد کا ایک بڑا المیہ ہے۔آسیب اس کردار کے گھر دکھائی دیتا ہے۔کبھی وہ پیسہ رکھنے کے ڈبے میں گھس جاتا ہے ،کبھی راشن کے ڈبے میں،تو کبھی کپڑے کی پیٹی میںاور ہر دن اس کے گھر کی تمام اشیا مقدار میں کم ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔دیکھا جائے تو آج کی اس مہنگائی کے دور میں ہر آدمی اس آسیب کے سحر میں ہے۔جب اس کردار کو خبر ملتی ہے کہ آسیب پر قابو پالیا گیا ہے تو وہ وہاں جاکر دیکھتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ آسیب کا پکڑا جانا صرف لوگوں کے دلوںکو تسلی دینا اور اس خیال سے بہلانا ہے۔ وہاںباقاعدہ اعلان ہوتا رہتا ہے کہ آسیب پر قابو پالیا گیا ہے لیکن حقیقتاًایسا کچھ بھی نہیںہے۔یہ افسانہ سیاسی نظام اور اس کی پالیسیوں کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔اس میں افسانہ نگارنے افسانے کے فن اور اس کے تقاضوں کواشارے اور کنائے کے ساتھ بڑی خوبصورتی سے برتا ہے اورفنی مہارت وفنی چابکدستی سے کہانی کی بنت کی ہے۔دراصل ہمارے ملک میںایسے کرداروں کی کوئی کمی نہیں ۔عام آدمی رات دن غریبی کی چکی میں پستا رہتا ہے۔وہ تلاشِ معاش میں سرگرداں رہتا ہے۔غریبی کی سطح کے نیچے زندگی گزارتاہے۔اس کے گھرپرتنگدستی ہمیشہ دستک دیتی ہے۔اکثر وہ بھوکا سوتا ہے۔اس کہانی کا مرکزی کردار وہی عام آدمی ہے ۔وہ ملک کے لاکھوں لوگوں کی ذہنی صورتِ حال کا نمائندہ بن کرسامنے آتا ہے۔ اس کہانی کا تعلق اقتصادی ومعاشی بدحالی ہے اور کہانی میں سائے کو گرفت میں لینے کی کوشش اورسسٹم کی جانب سے پیدا کیا گیا ابہام کہانی کے موضوع کو دلچسپ بناتا ہے اور Stablishment پر ایک گہراوارکرتا ہے۔
’’دوسرے انسان کا زوال‘‘یہ افسانہ ایک تخلیق کار کے کرب کا بیانیہ ہے ۔اس افسانے کا موضوع کہانی کی تلاش ہے۔یہاں تخلیق کار نے اپنی خلاقانہ بصیرت کا بھرپوراستعمال کیا ہے اور مختلف مقامات پر بڑے ہی معنی خیز لیکن ہلکے اشارے کیے ہیں۔
ان کاافسانہ’’موز‘‘ کی کہانی ایک شریف عورت کی دردناک کہانی ہے جوغربت سے تنگ آکر مجبوری کی حالت میں گلف چلی جاتی ہے اور عرب آقا کے ہاتھوں عصمت گنواکر واپس لوٹتی ہے۔ یہ عورت جب ہندوستان میںرہتی ہے تو انتہائی کسمپرسی کے حالات میں زندگی گزارتی ہے اور جب گلف سے لوٹتی ہے تو اس کی مالی حالت، اس کا لباس، اس کے گھر کی آرائش کو دیکھ کر سب کی نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں۔تمام لوگ اسے دیکھ کر رشک کرتے ہیں۔اپنی نظروں سے اسے سراہتے ہیںلیکن کبھی اس کے دل کی حالت سمجھ نہیں پاتے۔ یہاں تک کہ اس کا بے روزگار اور تپ دق کے مرض میںمبتلا شوہراس سے بے اعتنائی کا اظہار کرتا ہے تب وہ تڑپ کر رہ جاتی ہے ۔اسے ہمیشہ اس کاضمیر کچوکے لگاتے رہتا ہے۔گلف میںاپنے جنسی استحصال کے واقعے کووہ فراموش نہیں کرپاتی۔اندرہی اندر وہ کڑھتی رہتی ہے۔وہ اپنی عفت اور عصمت کے تار تار ہونے کا ذکر بھی کسی سے نہیں کرپاتی۔ اسی کشمکش کو افسانہ نگار نے نہایت خوبصورت اور مناسب پیرائے میں بیان کیا ہے۔
اس افسانے کاکردار عائشہ اپنی معاشی مجبوری کے تحت مڈل ایسٹ اس لیے جاتی ہے کہ وہ اپنے بیمار شوہرکاباقاعدہ علاج کرسکے لیکن گلف کی زندگی اس کے لیے ذلت کاباعث بنتی ہے۔دولت کی دیوی اس کے در پر دستک تودیتی ہے، شوہربھی تندرست ہوجاتاہے مگر وہی شوہرعائشہ کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے اور پیراسائٹ بن کرعائشہ کاخون چوس چوس کرزندہ رہتا ہے۔
ان کےافسانوی مجموعہ ’’رت جگوں کا زوال ‘‘کے بیشترافسانے تلخ حقیقت نگاری کی واضح مثال ہیں۔ سلام بن رزاق نے اپنے مضمون ’’مشتاق مومن اور رت جگوں کا زوال‘‘میں تحریرکیا ہے۔
’’ سماجی حقیقت نگاری اردوافسانے کی تاریخ میںکوئی نئی چیز نہیںہے۔۔۔۔۔پریم چند سے لے کر کرشن چندر تک اور اس کے بعد بھی کئی افسانہ نگار وں نے زندگی کے بے شمار گوشوںکوحقیقت نگاری کے چراغوں سے روشن کیا گیا ہے۔مشتاق مومن نے بھی انہیں چراغوں سے اپنا چراغ جلایا ہے تا ہم اس چراغ کی روشنی میں زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کی نگاہ ان کی اپنی ہے۔‘‘
اس افسانے میں کردار حافظ رحمت علی کاذکرہے جو نہایت نیک ،سادہ لوح اور دردمند ہے۔وہ مخالفین کی بدگمانی اور ان کی گھنائونی سازش کی وجہ سے بدنام ہوجاتا ہے اوراسے سماج میںبدکردارکے طورپرپیش کیاجاتاہے۔افسانہ نگارنے اس کہانی میںبچپن کی یادوںکواجاگرکیاہے اور سماجی واخلاقی قدروںکی پامالی پرچوٹ کی ہے۔ساتھ ہی ساتھ سسٹم کی بدعنوانیوںکو بھی طنز کانشانہ بنایا ہے۔اس کہانی میں فساد ات برپاہونے سے پیشتر جوتنائوپیداہوتاہے اس ماحول کی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے۔ ان کے افسانے ’’ہرے بھرے درخت، شطرنج،پرندے اور انقلاب‘‘ کمزور افسانوںکے زمرے میںآتے ہیں۔ان میں علامتوں کاسہارالے کرافسانہ نگار نے ایک تاثرپیداکرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔یہ افسانے علامتی افسانوں کے معیارپرپورے نہیں اترتے۔ البتہ اس میں اس عہدکا کرب اور حسیت کودیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے افسانے قاری کے لیے ابلاغ کا مسئلہ نہیں پیدا کرتے۔ وہ زندگی کی بے ثباتی کو علامت اور استعارے کی عینک سے دیکھنے کے بجائے برہنہ آنکھوں سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ انہیں کہانی کہنے کا فن آتا ہے اورا ن کے یہاں ان جذبوں کی کارفرمائی شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے ۔ان کے پاس خلاقانہ بصیرت ہے اور وہ اس کا استعمال بھی نہایت فن کارانہ اندازمیں کرتے ہیں۔وہ افسانہ نگاری کے اصولوں کوبروئے کار لاتے ہوئے کہانی پراپنی مضبوط گرفت رکھتے ہیںنیزان کے یہاں سیاسی نظام کے خلاف احتجاج کی صدا صاف طورپر سنائی دیتی ہے۔
ان کاافسانہ ’’فرذوق کہاں جائے گا ؟‘‘ ہمارے عہد کے سیاسی جبرکا بیانیہ ہے۔ افسانے کا کردار فرذوق کے پیر میں لگا ہواپلاسٹراوراس میں کھٹملوں کی افزائش، ہمارے سماج پرایک تازیانے کی حیثیت رکھتاہے۔کھٹمل جوخون پرپلتے ہیںاوراپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں۔فرذوق راوی کا دوست ہے لیکن کسی کوبھی فرذوق کے پیر میں فریکچر آنے کی وجہ نہیں معلوم۔ دراصل یہاں افسانہ نگار نے بیانیہ طرز پر اشاراتی اسلوب کااستعمال کیا ہے۔دراصل فرذوق کے پلاسٹر میں گھُسے ہوئے ایک کھٹمل نے کئی کھٹملوں کااضافہ کردیا ہے اور ان کھٹملوں نے بہت سارے انڈے دیے ہیں جن سے ان کی نسل بڑھنے والی ہے۔
یہ افسانہ انتہائی دلچسپ ہے ۔ کہانی پیچیدگی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور یہی اس کی خوبصورتی ہے۔ یوں بھی زندگی ایک بوجھ ہی تو ہے جسے خوشی کے ساتھ کوئی اٹھانا نہیں چاہتا۔ ہر گام پر وہ اس بار گراں کو نہ چاہتے ہوئے بھی گھسیٹتا رہتا ہے جس سے اس کی ذات اور اس کی روح فریکچر ہوجاتی ہے اور اس فریکچر کی کوئی ایک وجہ نہیںہوتی۔اس کہانی میں تہہ داری کا عنصر نمایاں ہے۔
افسانہ ’’ادھوراگیان‘‘ قدیم ہندوستانی فلسفے اور موجودہ سماجی ،سیاسی شعور کے تقابل سے تیارکی گئی ایک کہانی ہے جس میں مہاتما گوتم بدھ کی تعلیم اور فلسفے کو عصر حاضر کے پس منظر میں پیش کیا گیا ہے۔اس کہانی میں فنکار نے تخلیقی بصیرت اور خلاقانہ ذہنیت کاخوبصورت ثبوت پیش کیا ہے۔اس کہانی کا کردار سدھارماایک گہری ہیجان میں مبتلا ہے۔ اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں، خواہشات اس کے سامنے دست بستہ کھڑی رہتی ہیں۔پھر بھی وہ راج گرو کی اس بات سے پریشان ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیز کی خواہش نہ کرو جو تمہاری پہنچ سے باہر ہو۔ ایک حادثہ میں رانی سلونی سدھا رما کی ماں رانی چندرا کی جان بچاتی ہے۔تب رانی چندرا اس سے کہتی ہے’’جو مانگنا ہو مانگو۔‘‘ تب موقع سے فائدہ اٹھا کر رانی سلوچنا اپنے بیٹے کے لیے راج گدی کی مانگ کرتی ہے۔ دراصل جس کا اختیار سدھا رما کوتھا اور سدھا رما جب جنگل سے گرفتار کرکے لائے جاتے ہیں تو ان کی شخصیت میں کافی تبدیلی آچکی ہوتی ہے۔ رانی اسے سمجھاتی ہے کہ اسے خاندانی بادشاہت کاسلسلہ قائم رکھنا ہوگا۔اس لیے اسے بادشاہ بننا ہوگا۔وہ کہتی ہے کہ پرجا اور راجا ندی کے دوکنارے ہیںجو کبھی آپس میں نہیں مل سکتے۔ندی کے وجود کے لیے دونوں کا نہ ملنا ہی ٹھیک ہے۔
یہاں افسانے کی ہیئت اور کردار کے تجزیہ کی صورت میںایک نیا تاثر پیداہوتا ہے۔ سدھارماکے لیے یہ ہیجانی کیفیت جس میں وہ مبتلا ہے اس سے انصاف کا تقاضا کرتی ہے ۔سدھا رتھ کی طرح وہ جاننا چاہتا ہے کہ شانتی اور گیان سے موہ مایا کی طرف جایا جائے یا موہ مایا کو تج کرگیان اور شانتی میں دھیان لگایا جائے اورپھر سدھارما راج گدی پر اپنے ادھیکار کی بات کرتا ہے ۔تب راج گرو ہڑبڑا کر سوال پوچھ بیٹھتے ہیں کہ تمہارے گیان کا کیا ہوگا؟جواب میں سدھا رما کہتے ہیںکہ ہر یگ کو اس کے حساب سے گیان کی ضرورت ہوتی ہے۔اس یگ کے لیے یہی گیان کافی ہے۔
دراصل یہ کہانی ہمارے سماجی اور علمی اسٹرکچر پر تنقید کرتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ ہمارے عہدکے سیاسی پس منظر کا پردہ بھی فاش کرتی ہے۔
افسانہ ’’مردم گزیدہ‘‘ میں مشتاق مومن نے ایک کتے ’’ڈاگی ‘‘کے حوالے سے ظلم کے خلاف فطری ردعمل کوظاہر کیا ہے۔ کہانی کی شروعات ڈاگی کی پیدائش سے ہوتی ہے۔
’’ ایک عورت نے جس کی شادی نہیں ہوئی تھی ایک بچے کو جنم دیااورخودمرگئی۔ پڑوسیوں کو اس کی اطلاع ہرگز نہ ہوتی لیکن ہنگامہ اس طرح شروع ہواکہ پہلے ۔۔۔۔۔
نوزائیدہ بچہ رویا۔۔۔۔۔
پھر اس کی ماں روئی۔۔۔۔۔
پھر دائی روئی اور اس کے بعد بہت ساری عورتوں نے رونا شروع کردیااور جب تمس زور سے چیخا تو چند سوئے ہوئے لوگ بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔دراصل چند رنا ایک کچرا چننے والی عورت تھی اور تمس کا گزر بسر چندرنا کی کمائی پر ہوتا تھااور اس کا بچہ اس کی دونوں ٹانگیں پتلی پتلی تھیں جسے دیکھ کر تمس کو غصہ آجاتا ہے کہ اب اس کو کماکر کون کھلائے گا۔ اس لیے وہ بچے کی دونوں ٹانگیں پھینک دینا چاہتا تھا۔ چندرنا کی منھ بولی بہن کُنتی بچے کو دوپہر کا دودھ پلاتی اور تمس سے کہتی :
’’اس گل گوتھنے بچے کو سنبھال میت پڑے، بڑے برے دنوں میں یہی تیرے کام آئے گا۔‘‘
’’تیرا آدھا جسم تو سڑا ہوا ہے رے۔۔۔۔۔‘‘
مصنف نے ڈاگی کے محروم بچپن کاتذکرہ بڑے خوبصورت انداز میں کیا ہے۔چندرنا کی منھ بولی بہن جب باہر جاتی تو ڈاگی کے پائوں میں رسی باندھ کراس کاایک سرا کھاٹ سے باندھ دیتی۔ایک د ن شہر میں فساد پھوٹ پڑتاہے۔ اکیلا بچہ کھاٹ سے بندھا ہوا بھوکا پیاسا روتا رہتا وہیں پر کُنتی کی پالتو کتیا بھربھری زمین پر گڈھابنائے،پیر پسارے لیٹی تھی۔ کتیا کے پلے دودھ پی رہے تھے۔ دودھ کی میٹھی خوشبو اور بھوک نے اسے اس کتیا کے دودھ کے پینے پر مجبور کردیا۔ کتیا نے ایک نظر اس کو مڑ کر دیکھا ، پھر آسمان کی طرف سر اٹھاکر رونے لگی گویا کہ انسان اور اس کی محرومیوں کاشکوہ خداسے کررہی ہے۔جب تک شہر میں فساد رہا،وہ اسی کتیا کے دودھ سے سیراب ہوتا رہا۔ جب یہ بچہ چلنے لگا،تمس نے اس کے ہاتھ میں بھیک مانگنے کی پیالی تھما دی۔
بچے کا کتیا کے دودھ پر پلنا،کہانی کو ناقابلِ یقین بناتا ہے اور کس طرح ڈاگی کی نفسیات متاثر ہوتی ہے اور اس کے اندر کتوں کی جبلت کے نقوش نمودار ہوتے ہیں ،اس سے برطرف اگر چہ دیکھا جائے تو یہ کہانی معاشی بدحالی اور انسان کے جانور میں بدل جانے کی کرب ناک کہانی ہے اور مردو عورت کے رشتے کی ایک انتہائی تکلیف دہ صداقت کی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے۔انسانی بحران کا ذمہ دار انسان ہی ہے یا کوئی اور ؟ یہ قاری کو طے کرنا ہے۔مغنی تبسم ’’مردم گزیدہ ‘‘ کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’دورِ حاضر میں انسانی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ شاید آدمی اس کرہ ارض پر سب سے ارذل مخلوق ہے اور یہ قول متناقص ہے کہ خود کو اشرف المخلوقات کہتااورسمجھتا ہے۔فطرت اور حیوانی دنیا سے ایک غیر فطری اور جارحانہ علیٰحدگی کا عمل مسلسل ہے جسے ہم انسانی تہذیب کے ارتقا کانام دیتے ہیں۔ نام نہاد انسانیت کا نصب العین اعلیٰ حیوانی قدروں سے دست بردار ہوجاناہے۔ چنانچہ آج انسان اپنا مستندوجود کھو کر ایک تجرید بن گیا ہے۔ مشتاق مومن کی کہانی ہم کو موجودہ دور کی اسی انسانی صورتِ حال کے دوبدو لاکھڑا کرتی ہے۔‘‘
افسانہ ’’ہرے بھرے کھیت ‘‘اس آدمی کی کہانی ہے جو نہایت سادگی اور عدم تشدد سے زندگی گزارناچاہتا ہے۔ اس نے کبھی کسی پرندے کو نہیں مارا، کبھی کسی ہرے بھرے درخت کو نہیںکاٹا۔اس لیے وہ ساتھیوں میں بیمار کہلاتا ہے۔ مصنف نے یہاں ایک مشہور لوک کہانی سے استفادہ کیا ہے۔جس میں ایک غریب آدمی کی کلہاڑی ندی میں گرجاتی ہے۔پھر ایک پری نمودار ہوتی ہے۔وہ پہلے اسے ندی سے ایک سونے کی کلہاڑی لاکر دیتی ہے۔غریب شخص ایماندار ہے،کہتا ہے یہ میری کلہاڑی نہیں ہے۔پھر وہ اسے چاندی کی کلہاڑی لاکر دیتی ہے۔وہ شخص اسے بھی لینے سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کلہاڑی بھی اس کی نہیں ہے۔پھر وہ پری اسے لوہے کی کلہاڑی دیتی ہے۔تب وہ شخص اس کلہاڑی کولے لیتا ہے۔اسی دوران ایک انجانی آواز اس کے کانوں میں کہتی ہے کہ تم اس کلہاڑی سے ہرے بھرے درختوں کوکاٹ دینا چاہتے ہوجبکہ ہرے بھرے درخت زندگی کی علامت ہیں۔چونکہ اس غریب شخص کادل ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔تب وہ سوچتا ہے کیونکر وہ کسی پر ظلم کرسکتا ہے۔جبکہ اس نے کبھی کسی جاندار شے کونہیں مارا۔اس سے یہ خطا کس طرح سرزد ہوسکتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ فتوحات کے سلسلے ظلم وجبر اور سفاک راہوں سے گزر کر طے کیے جاتے ہیں۔ہر عہد میں جابر کی فتح اور مظلوم کی شکست فاش ہوتی آئی ہے۔غریب شخص پرجب یہ عقدۂ راز کھل جاتا ہے تب وہ خود کو بیمار محسوس کرنے لگتا ہے۔ ظاہری طور پر یہ کہانی حقیقت سے دورمعلوم ہوتی ہے۔البتہ انجانی آواز کے حوالے سے فنکار نے زندگی کی سچائیوں پر روشنی ڈالی ہے۔
افسانہ ’’شطرنج،پرندے اور انقلاب ‘‘میںایک بادشاہ ہے جواپنے محل میں شطرنج کھیل رہا ہے۔ شطرنج کی بساط پر مہروں کی جگہ وزیر ، غلام ، کنیز ، ہاتھی، اونٹ ، پیادے کا روپ لیے کھڑ ے ہیں اور تبھی بادشاہ کو پتا چلتا ہے کہ عوام نے بغاوت کردی ہے۔ بادشاہ کو اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوتا اور نہ ہی اسے اس بات کا افسوس ہے کہ عوام باغی ہوچکی ہے، بلکہ یہاں افسانہ نگار بادشاہ کے ذریعہ اس تصویر کو دکھاتا ہے جو دیوار پر چسپاں ہےجس میں ایک دبلا پتلا گورا آدمی دوانتہائی طاقت ور اور تندرست بیلوں پر سوار ہے اور انہیں متواتر چابک ماررہا ہے اور بیل چابک کی سان پر سرپٹ دوڑے چلے جارہے ہیں۔
مصنف نے یہاں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ برسراقتداراپنے کامیاب اور کارآمد حربے کب استعمال کرسکتا ہے۔ اس کہانی میں ابہام کی فضا موجودہے۔اس ابہام کے پردے میں افسانہ نگار نے فنکارانہ تخلیقیت کا سہارا لے کر ایک سادہ خیال کو قصے کے پیکر میں ڈھالا ہے۔ جب بادشاہ اس تصویر کو دیکھتا ہے تووہ مسکراتا ہے اور ایک چال چلتا ہے ۔ دوسرے ہی لمحے بیگم کابادشاہ ،چاروںخانے چت ہوجاتا ہےجسے دیکھ کر بیگم حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔یہ کہانی عصرحاضرمیںسیاسی حربوں کے استعمال اور اسکے دائوں پیچ کی زندہ مثال بن کر سامنے آتی ہے۔اسے ماضی اور حال کے تناظر میں پیش کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔
’’جاتے ہوئے لوگ‘‘ نامی افسانہ جنگ کی تباہ کاری اور بربادی کا تذکرہ ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ جنگ کے ذریعے مسئلوں کوحل کیا جاسکتا ہے لیکن بقول ساحرلدھیانوی ’’جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے‘‘
جنگ کے سبب انسان مصائب کے دلدل میں دھنس جاتا ہے اور بڑی کسمپرسی کی زندگی گزارتا ہے۔جنگ آدمی کے ذریعے آدمی کے استحصال کادوسرا نام ہے۔جس سے انسانیت شرمندہ ہوتی ہے۔مشتاق مومن کی یہ کہانی عام آدمی کے ضمیر اور اس کی زخمی روح کی پکار ہے۔انھوں نے فوجیوں کی گفتگو کے حوالے سے اس کہانی کا خمیرتیار کیا ہے اور اس سپاہی کے دل کے درد کوبھی بیان کیاہے جو جنگ کی ہولناکیوں سے نالاں ہے۔
مشتاق مومن نے اپنی کہانیوں کا آغاز بھیونڈی سے کیا ۔فسادات کے موضوع پر’’ مردم گزیدہ‘‘ جیسا خوبصورت افسانہ لکھا۔ دھیرے دھیرے جب انھوں نے ممبئی میں مستقل سکونت اختیار کرلی تو یہاں کا ماحول اور یہاں کی زندگی ان کے افسانوں کے موضوعات میں شامل ہوگئی۔ ۱۷؍ رجب ۱۴۰۳ہجری اسی شہر بے خلوص کی کہانی ہے جس میں تُرسکر نام کاکردار ایک مظلوم انسان ہے۔ صنعت کاروں کی مکاریاں اور غریبوںاورمزدورطبقے کی بے بسی کو اس کہانی میں مشتاق مومن کی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں اسٹیم رولر میں دب کر ٹورسکر جو ممبئی کے ہندو متوسط طبقے کا ایک فر دہے،دم توڑ چکاہے اور اس بھرے پرے شہر میں اپنی پتنی اور دو بچوں کو بے سہارا ،بے یارومددگار چھوڑ کر جاچکا ہے۔اس افسانے میں انھوںنے لال باغ کے نچلے ہندو طبقے کی عکاسی کی ہے۔ لال باغ مزدوروں، مل مزدوروں اور غریبوں کی بستی ہے۔
’’رت جگوں کا زوال ‘‘مجموعے کاٹائٹل افسانہ ہے۔اس کی جزئیات میں مسلم معاشرہ اور مذہبی اقدار کی بھرپور نمائندگی کااظہار ہے۔ رحمت علی نامی کردارکاخاندان تقسیم کے دوران بکھر جاتا ہے۔ان کابڑا بھائی پاکستان اورمنجھلا بھائی مغربی پاکستان (جو اب بنگلہ دیش ہے) ہجرت کرچکا ۔ رحمت علی ہر وقت اکھنڈ بھارت کی یادوں کو سینے سے لگائے رہتا ہے۔ اسے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب سے محبت ہے۔وہ اسے اپنی میراث سمجھتا ہے۔ اس کہانی میں فسادات کے سبب دو فرقوں کے درمیان مذہب کی حائل خلیج کا ذکر ہے۔یہاں مسجد ذاتی مفاد کا ذریعہ بن جاتی ہے۔انسان کی ارزل صفات اس کہانی کا مرکزہے اور وہ دوسرے کردار امام بخش کے حوالے سے ظاہر ہے۔
مشتاق مومن ممبئی کے کلچر کی خصوصیات اور یہاں کی زندگی کی چھوٹی چھوٹی جھلکیوں کے ذریعہ ممبئی کی ایک مکمل تصویر سامنے رکھ دیتے ہیں مثلاً کولہا پوری تمباکو اور چونانکال کر ہاتھوں پر مسلنے والا کردار ٹورسکر کی کھولی میں شری ہنومان کی تصویرپر جوایک پہاڑ ہاتھ میں اٹھائے ہوا میں اڑ رہاہے۔ نچلے طبقے کے گھروں میں ٹیپ ریکارڈ کا بجنا، ہندماتا ٹاکیز کا ذکر، مل مزدور وں کی ہڑتال ، وشنو بیڑی اور شیواجی بیڑی کا تذکرہ، اشتعال انگیز نعرے ۔۔۔ ’رام ہوگا روٹی ہوگی ، جن سنگھ کی یہ نیتی ہوگی‘۔۔۔کے علاوہ زندگی کے مختلف گھنائونے پہلوئوں کی تصویر کشی میں مشتاق مومن جزیات کو نہیں بھولتے اور سماجی حقیقت نگاری سے کام لیتے ہیں۔

Ali Imam Naqvi ki Afsana Nigari by Qasim Nadeem

Articles

علی امام نقوی کی افسانہ نگاری

قاسم ندیم

علی امام نقوی کے افسانوں کا فنی تجزیہ کیا جائے تو جو عناصر خاص طور پر متوجہ کرتے ہیں ان میں واقعہ کی فنی بُنت کاری، فضاکی تخلیق اور کردار نگاری کے ساتھ مکالمہ سازی ہے۔ ان کا کمال یہ ہے کہ وہ جس موضوع کو چھوتے ہیں اسے محدود نہیں رکھتے یعنی وقوع کو صرف واقعہ کی طرح بیان نہیں کردیتے بلکہ اس میں ایک اکائی پیدا کر دیتے ہیں جس سے خیال اور واقعہ مل کر افسانہ بنتا ہے۔ اس بنا پر افسانے میں ایک ایسی فضا پیدا ہوتی ہے جس میں کردار خود بخود فطری طریقے سے اپنی شناخت کرواتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں تکنیک اور بُنت کاری کا فن پوری آب و تاب کے ساتھ دمکتا ہے۔ دوسری اہم بات ان کا بیان اور انداز ہے۔ انھوں نے اپنے زیادہ تر افسانے بیانیہ انداز میں تخلیق کیے ہیں۔ باقر مہدی کے رسالے’ اظہار‘میں ’نوسرہار‘ سیّد عارف کے ’جواز‘ میں ’صورتِ حال‘ وغیرہ جیسے خالص علامتی و تجریدی افسانوں سے صرفِ نظر کریں تو ان کا انداز بیانیہ ہی رہا ہے۔مگر ان کا بیانیہ انداز بھی دبازت لیے ہوئے ہے۔ لفظوں کااستعمال اور جملوں کی ساخت کا طریقہ بھی بڑی حد تک نیا ہی ہے۔ اسے ان کے اسلوب کا حصہ کہا جاسکتا ہے۔زیرِ نظر مضمون میں ان کے صرف پانچ افسانوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ’تھکے ہارے، کھوئی، ضرورت، وراثت اور نقش‘۔یہ پانچوں افسانے موضوع کے لحاظ سے مختلف رنگ لیے ہوئے ہیں۔ ’تھکے ہارے‘ میں ہجرت کا غم اور ہجرت نہ کرنے کی مسرّت کا رنگ ہے۔ ’کھوئی‘ میں دو تہذیبوں کا تصادم ، جنگ، وفاشعاری اور یادوں کا رنگ ہے۔ ’ضرورت‘ میں سکھ مخالف فسادات کی لہو آمیزی اور مسلم روداری کا رنگ ہے۔ ’وراثت‘ میں رشتے ناتے، ذمہ داریاں اور بھوک کا رنگ ہے اور پانچواں افسانہ ’نقش‘ معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کا رنگ لیے ہوئے ہے۔
محولہ بالا مختلف رنگوں کی بنا پر ان کے افسانہ بیان کرنے کا علیحدہ انداز ابھرا ہے۔ ان افسانوں میں بعض اوقات واقعہ سامنے کا ہوتا ہے اور اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ اپنی پہچان کراتا ہے لیکن افسانے کی مشکل میں ڈھلنے کے بعد اس میں کئی معنوی سطحیں پیدا کردیتا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’تھکے ہارے‘ دہلی سے شائع ہوانے والے رسالے ’کتاب نما‘ میں ستمبر ۱۹۹۰کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس افسانے کی ابتدائی سطر قاری کو مکمل افسانہ پڑھنے کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ افسانے کی ابتدا کچھ اس طرح ہوتی ہے:
’’تھکی ہوئی بوڑھی کی آنکھوں میں حسرتیں ہی حسرتیں ہیں ۔اس کا اکلوتا بیٹا ابھی ابھی گھر میں داخل ہوا تھا۔’سرجھکائے‘ زمانے بھر کی فکریں سجائے ، تھکی ہوئی بوڑھی آنکھوں نے بس ایک مرتبہ بیٹے کے چہرے کو دیکھا تھا۔ پھر وہ بیٹے کے پیروں پہ مرکوز ہوگئیں۔ کولہاپوری چپل کی پالش ماند پڑگئی تھی اور پیر بھی گرد آلود تھے۔‘‘
اس مختصر سے اقتباس سے قاری کے ذہن پر یہ بات عیاں ہونے لگتی ہے کہ اس خاندان پر حسرت و یاس سایہ کیے ہوئے ہے۔ بیٹے کا اپنے چہرے پر زمانے کی فکریں سجانے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بیروزگار ہے یا پھر اچھے روزگار کا متلاشی ہے ۔ کولہاپوری چپل کی پالش کا ماند ہونا مفلوک الحالی کی غمازی کرتا ہے اور پیروں کا گرد آلود ہونا بہتر مستقبل کی تلاش و جستجو کا مظہر ہے۔
اگلے پیرا گراف میں افسانہ نگار اپنے کیمرے سے دو مناظر ہمارے روبرو پیش کرتے ہیں۔ پہلے منظر میں ماں کا وجود ہے جو کہ کمان ہوا جارہا ہے اور پورا سراپا تھکن میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اٹھارہ انیس برس کی بیٹیوں کے تیزی سے تبدیل ہوتے جسموں نے اس کمان زدہ بدن کے اعضا کو مزید کمزور کردیا ہے۔افسانہ نگار اپنے کمیرے کا زاویہ تبدیل کرتے ہیں اور اٹھارہ انیس برس کی بیٹیوں پر مرکوز کردیتے ہیں۔ دونوں بیٹیاں حسرت و یاس کا مجسمہ بنی ہوئی ہیں۔ چھینٹ کی معمولی سی شلوار قمیصوں میں ڈھکی چھپی ، سروں پہ سستے سے دوپٹّے اوڑھے اور آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلائے نہ جانے کس کی منتظر ہیں۔ یہ کمال ہے علی امام نقوی کا کہ وہ اپنے الفاظ کو اور افسانے کے مناظر کو متحرک کردیتے ہیں۔ سارے مناظر میں جان سی پڑجاتی ہے۔ کرداروں کی آواجاہی ذہن کے اسکرین پر جاری رہتی ہے۔ ساتھ ہی افسانہ بھی آگے بڑھتا ہے۔ بیٹے کا یہ کہنا کہ ’’ میں ہار چکا ہوں‘‘ اور تھکی ہوئی آنکھوں کا جواب دینا کہ ’’تلاش ‘‘ نئی نسل کی تقدیر ہے۔
کچھ فقرے یا جملے تاریخی استناد کا درجہ اختیار کرلیتے ہیں۔ تقریباً آج سے تیس برس قبل ادا کیے ہوئے جملے دورِ حاضر پر بھی صد فی صد صادق آتے ہیں۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں بے شمار نوجوان بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔ اس مار کی بنا پر کئی ٹوٹ جاتے ہیں اور غلط راہوں پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ پورا معاشرہ اُس وقت بھی شکست و ریخت کا شکار تھا موجودہ حالات میں اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ اس وقت بھی رشوت ستانی اپنے عروج پر تھی آج بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس منظر کو افسانہ نگار نے کس طرح فوکس کیا ہے:
’’ایک ہی محور ہے ماں۔ جسے دفتری زبان میں وسیلہ کہتے ہیں۔
’کیا مطلب؟ـ
پنچانوے فیصد نمبر سے اول درجے کا رزلٹ ، رشوت کے سہارے نوکری دلوانے میں تو کامیاب ہوگیا تھا لیکن ترقی کے لیے وہ بھی ناکافی ثابت ہوا۔
لیکن تو تو ٹیسٹ میں کامیاب ہوگیا تھا؟
ہاں۔ لیکن اس اسامی پر اونچی ذات کے ایک ہندو کا تقرر ہوا ہے۔
کیوں؟
سرکاری محکمے ان سوالوں کے جوابات نہیں دیتے۔
مطلب یہ کہ اہم اور کلیدی عہدے ہمارے لیے نہیں۔‘‘
یہ پورا منظر نامہ آزادی سے لے کر تادمِ تحریر تبدیل نہیں ہوا اور شاید تبدیل ہونے کے آثار بھی نہیں ہیں۔ اقلیتوں اور نچلی ذات کے افراد بھٹی کا ایندھن بنتے جارہے ہیں۔ ہر محکمے میں حق تلفی کی جارہی ہے۔ عدالتِ عالیہ کے باضمیر منصف صاحبان کو پریس کانفرنس کرکے اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ عدالتِ عالیہ کے معاملات میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے۔ ایک تخلیق کار اپنے زمانے کی تلخیوں ، ترشیوں ، خامیوں اور برائیوں کو فنّی مہارت کے ساتھ صفحۂ قرطاس پر اتاردیتا ہے۔
اس افسانے میں پاکستانی مہاجرین کا ذکر کیا گیا ہے۔ دور کے ڈھول سہانے کے مصداق کمان زدہ والدہ سمجھتی ہیں کہ سرحد پار کرکے جانے والے جنّت میں رہتے ہیں۔ ان کے حالات بہتر ہیں اور وہ بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔
سرحد پار سے ماموں زاد بھائی کا خط آنے پر وہاں کے حالات سے آگہی ہوتی ہے۔ خطر کچھ اس طرح ہے:
’’ برادرِ عزیز ۔السلام علیکم
تمہارا خط ملا۔ تفصیل پڑھ کر دکھ ہوا۔ اب تک امی اور ابو کے نام پھوپھی کے خط آتے رہے ہیں اور ان کے جوابات امی اور ابو نے جس انداز میں تحریر کروائے ہیں ان کا حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ امی اور ابو نے پھوپھی کو جنّت کی سیر کروائی ہے اور سچ پوچھو تو ان کے لیے یہ ضروری بھی تھا۔‘‘
خط سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کے لوگ ہر اہم پوسٹ پر قابض ہیں اسی طرح سرحد پار بھی ہر اہم عہدہ اور اسامی پنجابی کو دے دی جاتی ہے۔ دونوں ممالک کے حالات تقریباً ایک جیسے ہیں۔ جو لوگ اپنی مرضی سے نہیں چلتے انھیں وقت کی ٹھوکر چلنے پر مجبور کرتی ہے۔ خط کے اختتام پر تھکی تھکی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں۔ تھکی تھکی آنکھوں میں چمک پیدا ہونا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہجرت نہ کرنے کا فیصلہ درست تھا۔ حسرت و یاس کے مجسموں کا دائیں بائیں دیکھنا ان کی گو مگو کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔ لیکن کمان کا مزید جھک جانا آس کو نراس میں تبدیل ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ علی امام نقوی یہ حقیقت بھی اس افسانے کے ذریعے قاری پر عیاں کرتے ہیں کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی اکثریت قومی و ملی تصورِ حیات کی طرف مائل تھی۔ سرحدوں کے دونوں جانب ماضی پرستی کا رجحان غالب رہا۔ چونکہ مملکتِ خدا داد کے انتظام و انصڑام میں ان کو فیصلہ کن کردار عطا ہوا تھا، اس لیے یہ فطری امر ہے کہ مقامیت کے تقاضے مسلسل نظر انداز ہوئے۔ جس سے وہاں صوبائیت اور لسانیت کے مسائل کو ہوا ملی، مقامی لوگوں کے اپنے خواب تھے جو کہ مملکتِ خدا داد کے نظریہ سازوں کے تصورات سے متصادم ہوئے زمینی حقائق پر کسی نے غور نہیں کیا۔ اس افسانے کا اختتام بے حد تلخ ہے جو کہ حقیقت سے قریب تر ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’ضرورت‘ ایوانِ اردو،جون ۱۹۹۰ء؁ کے شمارے میں شائع ہوا۔ اس افسانے کی بُنت نہایت ہنر مندی سے کی گئی ہے۔ یہ افسانہ سکھ نوجوان درشن سنگھ کے کردار پر مبنی ہے، جوکہ راوی بھی ہے۔ اس افسانے کا پس منظرسکھ مخالف فسادات پر مبنی ہے۔ دہلی اور قرب و جوار میں بھڑک اٹھنے والے سکھ مخالف فسادات میں درشن سنگھ اپنے والدین کی جلی ہوئی لاشوں کو دیکھتا ہے۔ دہلی سے لٹ پٹ کر وہ بیدر جاتا ہے اور خالصہ کالج میں اسے ملازمت مل جاتی ہے لیکن فسادات کی آگ وہاں بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہاں بھی خون کی ندیاں بہتی ہیں، دھواں اٹھتا ہے۔ آگ دھوئیں اور خون خرابے سے بچتا بچاتا وہ پونہ پہنچ جاتا ہے۔ بے حد پریشان حال۔ وہاں اس کی ملاقات ایک خداترس ، مشفق انسان حکیم صاحب سے ہوتی ہے۔ وہ اس کی ڈھارس ہی نہیں بندھاتے بلکہ اپنے مطب کے سامنے والی عمارت میں اس کے رہنے کا انتظام بھی کردیتے ہیں۔ حکیم صاحب، عرف بابا حکمت کے ساتھ ساتھ شاعری کا بھی شغل رکھتے ہیں۔ ان کے آس پاس ہمیشہ ادیبوں اور شاعروں کا مجمع لگا رہتا ہے۔ حکیم صاحب درشن سنگھ کو کسی اسکول میں بطورِ مدرس رکھوا دیتے ہیں۔
اس افسانے میں موڑ اس وقت آتا ہے جب وہ ایک دن صبح سانولی سلونی نازک لڑکی دیکھتا ہے۔لڑکی اپنے دوپٹے کو اپنے بالائی جسم پر لپیٹ رکھتی ہے۔ تب وہ فلیش بیک میں آگ، دھویں اور خون کے دریا پر عبور کرتا ہوا اپنے گائوں پہنچ جاتا ہیْ گڑھل کے کنارے پیتل کا لوٹا اسے شدت سے یاد آنے لگتا ہے۔ اسی پیتل کے لوٹے سے اس کے والدہ کا تعلق ہے۔ درشن سنگھ کی والدہ اس پیتل کے لوٹے میں پانی لے کر پہلے ہاتھ دھویا کرتی تھیں، پھر پہنچوں تک پانی بہاتیں، نتھنوں میں پانی ڈالتیں۔ افسانہ نگار یہاں یہ عقدہ نہیں کھولتا کہ درشن سنگھ کی والدہ وضو کرتی تھیں۔ البتہ اس کا انکشاف قاری پر ہونے لگتا ہے۔ مگر ایک روز راوی یعنی درشن سنگھ سویرے جاگ اٹھتا ہے تب اس پر یہ راز افشاں ہوتا ہے کہ اس کی والدہ کس مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ افسانہ قاری کے تجسس میں مزید اضافہ کرتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ صبح سویرے بستر چھوڑتے ہیں سامنے کے مکان کی کھڑکی کی جانب دیکھنا راوی کا معمول بن جاتا ہے ۔ اسے وہاں وہی سانولی سلونی لڑکی سر پر دوپٹہ لپیٹے نماز ادا کرتی نظر آتی لیکن افسانے کی ایک پرت اور کھلتی ہے جب درشن سنگھ پر پڑوس میں تانک جھانک کا الزام لگایا جاتا ہے اور حکیم صاحب اسے سخت سست سناتے ہیں اور یہاں سے کہیں اور چلے جانے کا حکم دیتے ہیں۔ تب کہیں جاکر درشن سنگھ اعتراف کرتا ہے کہ لڑکی میں اسے اپنی والدہ نظر آتی ہیں۔ یہ سن کر تشکیک کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور لڑکی کے والد صاحب دوسری صبح کھڑکی خود اپنے ہاتھوں سے کھول دیتے ہیں۔ اس افسانے کو علی امام نقوی نے بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ ماضی اور حال دونوں ادوار کو فیلش بیک کی مدد سے پیش کرکے اس افسانے کو پر تاثیر بنادیا ہے۔
اس افسانے میں درشن سنگھ کے ساتھ ہی حکیم صاحب کا کردار بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ابھرتا ہے اور قاری کے ذہن پر تادیر نقش ہوجاتا ہے۔ جس دور میں یہ افسانہ تخلیق کیا گیا اس وقت پونہ سے مرحوم حکیم رازی ادیبی سہ ماہی ’’تکلم‘‘ شائع کرتے تھے۔ وہ بھی حکیم تھے۔ ان کے مطب پر بھی شعرا اور ادبا کا مجمع رہتا تھا۔ شاید علی امام نقوی نے یہ جیتا جاگتا کردار اسی مطب سے اخذ کیا ہے اور افسانے کا تانا بانا اسی کے ارد گرد بنا ہے۔
علی امام نقوی کا افسانہ ’کھوئی‘‘ ان کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ افسانہ اپنے رنگ و روپ کے اعتبار سے ان کے دیگر افسانوں سے مختلف ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ’اونیل‘ امریکی دوشیزہ ہے جو کہ سکون کی تلاش میں بطور سیاح ہندوستان آئی ہے۔ ایک دور ہپیوں کا بھی تھا جو اپنے فرسٹریشن اور ڈپریشن کو مختلف نشہ آور اشیاء کا استعمال کرکے کم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اونیل کے ذہنی انتشار کا سبب اس کا منگیتر تھاجو کہ ویت نام کی جنگ میں آگیا تھا۔اونیل اس سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔ اب وہ سکون کی تلاش میں ہندوستان آگئی تھی۔ اس کی ملاقات ایک پب میں ہندوستانی سفارت کار زویری سے ہوتی ہے۔ زویری اس سے دوستی کرلیتا ہے۔ ایک بار وہ تفریح کے لیے سی وے پر جاتے ہیں وہاں اونیل گنّے کی گنڈیریاں کھانے کی فرمائش کرتی ہے۔ افسانے کا یہ اقتباس دیکھیے:
’’میں نے گنّے کی گنڈیریاں خریدیں اور رومال پھیلا کر گنڈیریاں اس پر منتقل کردیں۔ میں گنڈیریاں کھا کر کھوئی اِدھر اُدھر پھینکتا رہا اور اونیل اس کی کھوئی ایک ہہ جگہ ڈھیر کرتی رہی۔‘‘
جب زویری ، اونیل سے پوچھتا ہے کہ اب تک تمہاری شادی کیوں نہیں ہوئی؟ اونیل جواب میں کہتی ہے کہ ویت نام کی جنگ یاد ہے نا تمہیں؟ اس جنگ کے لیے ہمارے یہاں جبراً فوجی بھرتی ہوئی تھی۔ کم بخت ۔۔۔۔۔۔۔میں خوش ہوں زویری کہ وہ جنگ ختم ہوئی۔ پر تم جانتے ہو وہ اپنے پیچھے کتنا زہر چھوڑ گئی، تمہیں پتہ ہے پچیس ہزار کام آئے ، لاکھوں بھاگ گئے۔ سن کر زویری اسے بانہوں میں بھر کر محبت کا اظہار کرنا چاہتا ہے مگر اونیل بچی کھچی گنڈیریاں ہوا میں اچھال دیتی ہے اور رومال پر کھوئی بٹور کر زویری کی طرف بڑھا دیتی ہے۔ یہی افسانے کا انجام ہونا تھا اور علی امام نقوی نے انتہائی فنکارانہ انداز سے اس افسانے کے انجام کو نقطۂ عروج پر پہنچایا ہے۔ افسانہ ختم ہوکر بھی جاری ہے۔ اس افسانے کا اختتام چونکانے والا قطعی نہیں ہے بلکہ یہ افسانہ قاری کے ذہن میں اپنے اختتام کی بنا پر کئی انمٹ نقوش ثبت کردیتا ہے۔ساتھ ہی کئی سوالات کے جواب کا متقاضی بناقاری کی جانب نہارتا ہے کہ صاحب بتائیے اونیل کا کردار آپ کو کیسا لگا؟ کیا ساری امریکی دوشیزائیں بے وفا ہوتی ہیں؟ کیا انھیں اپنی یادوں کے سہارے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے؟ کیا وہ حقیقی محبت اور جزوقتی شہوانیت میں تفریق نہیں کرسکتیں؟ کیا وہ زویری جیسے کرداروں کے دامِ فریب میں آجاتی ہیں؟یہ افسانہ ایسے بے شمار سوالات قاری کے لیے چھوڑ جاتا ہے ۔ چونکہ افسانہ ایک شعوری تخلیقی عمل ہوتا ہے جو کہ زمان ومکاں کے ابعاد کیاندر تمام تر جزیات ، کیفیات اور زندگی کی متنوع خصوصیات کے ساتھ معرضِ وجود میں آتا ہے۔ اس میں خواب اور بیداری کا کھیل رچا جاتا ہے اور حقیقت اور گمان کی آمیزش حقیقی زندگی کے دائرے میں زندہ لوگوں سے مربوط رہ کر ہوتی ہے۔ علی امام نقوی نے بھی زندہ لوگوں سے رشتہ استوار رکھا۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ وہ تہذیبی اور ثقافتی ورثے کو مسترد نہیں کرتے۔ وہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوئے۔ اسی سبب اونیل اور زویری جیسے زندہ کردار افسانے کا حصہ بنے اور ’کھوئی‘ جیسا بہترین افسانہ منظرِ عام پر آیا۔ اگر کوئی تخلیق کار زندگی کے کھیل میں شامل ہی نہیں تو پھر وہ افسانہ کس طرح تخلیق کر سکتا ہے؟ افسانہ ہی زندگی ہے اور زندگی بذاتِ خود ایک افسانہ ہے۔ جس کے اجزائے ترکیبی اظہاریت ، تاثریت اور واقعیت ہیں۔ یہ تینوں اجزا ’کھوئی‘ میں موجود ہیں۔
’میراث‘ نئی نویلی دلہن ’صابرہ‘ کا افسانہ ہے۔ جو اپنے ہی قصبے میں بیاہی گئی ہے۔ وہ اپنے گھر اور سسرال کا موازنہ کرتی ہے۔ دیگر خواتین اور بچے اسے چھیڑتے ہیں مگر اس کا سارا دھیان پلائو پکنے کی خوشبو کی طرف ہے۔ اس کا تعلق ایک غریب خاندان سے ہے۔ وہ جس گھر میں بیاہ کر آئی ہے وہ بے حد کشادہ ہے۔ افرادِ خانہ بھی کئی ہیں ، دو جیٹھ اور جٹھانیا ں ہیں ،ان کے بچے ہیں، ساس ہے۔ شوہر اور دونوں بڑے بھائی رکشہ چلاتے ہیں جو کہ کرائے کے ہیں۔ بڑی جٹھانی کے ہاتھ میں گھر کے کھانے کا انتظام کرناہے اور کھانا کھلانے کی ذمہ داری نئی دلہن صابرہ پر ڈال دی جاتی ہے۔ سب کو کھانا کھلانے کے بعد جو کچھ بچا کھچا ہوتا ہے وہی صابرہ کے حصے میں آتا ہے۔ وہ اپنے شوہر سے شکایت بھرے انداز میں کہتی ہے کہ آپ کوئی دوسرا کام کیجیے جس سے آمدنی میں اضافہ ہو اور کھانے کو بھر پور ملے۔ مگر وہ انکار کردیتا ہے۔ وقت کب کس کے لیے رکا ہے؟ اور زچگی کے دوران بڑی جٹھانی کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ گھر میں عورتیں رو روکر براحال کرلیتی ہیں لیکن باورچی کھانے میں بیٹھی صابرہ اپنی بھیگی آنکھوں سے چاول ، سالن کی ڈیگچیوں اور روٹی کو دیکھتی رہتی ہے۔
اس افسانے میں علی امام نقوی نے قصباتی زندگی کی ہو بہو تصویر کشی کی ہے۔ نئی نویلی دلہن جب سسرال آتی ہے اس کی اندرونی کیفیات کو انھوں نے بالکل اچھوتے انداز میں پیش کیا ہے۔ صابرہ کے ناتواں شانوں پر جلد ہی گھر کی بڑی ذمہ داری لاد دی جاتی ہے۔ کئی بار اسے روکھی سوکھی کھا کر یا بھوکا رہ کر گزارہ کرنا پڑتا ہے اس بنا پر صابرہ گھٹن کا شکار ہوجاتی ہے۔
جب بڑی بہو کا انتقال ہوتا ہے تب بھیگی آنکھوں سے کھانے کی چیزوں کو دیکھنا یعنی حسرت و یاس کے دوران امید کی کرن پھوٹنے کا اظہار بھی ہوسکتا ہے۔ شاید اسے اب پیٹ بھر کھانے کا موقع ملے۔ انسانی فطرت میں یہ شامل ہے کہ جب بھوک انسان کو اپنے نرغے میں لے لیتی ہے تب خوشی کا موقع ہو یا غم کا ، وہ ان سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اس کا نقطۂ ارتکاز شکم سیری ہوتا ہے۔ علی امام نقوی نے صابرہ کے کردار کو صرف صابرہ تک محدود نہ رکھتے ہوئے ہمارے معاشرے میں زندگی گزارنے والی ایسی لاکھوں خواتین کی گھٹن سے انسلاک کردیا ہے۔ اس افسانے کی اہم بات اس کے چست مکالمے بھی ہیں۔ چند مکالمے ملاحظہ فرمائیں:
٭ عورت کی بھوک میاں کو کھلا کر مٹے ہے بائولی۔
٭ بائولی، کمانے والے کا پیٹ بھرجائے تو ہماری بھوک آدھی ہوجاوے ہے۔
٭ مجھے تو سرم آوے گی۔ رات بے رات اُنگے جاتے ہیں۔
٭ ابھی جائوں ہوں۔ دو نوالے تو ٹھونس لوں۔ بیاہ کا گھر تو شیطان کا گھر بن جاوے ، کھانے کی ہوس نہ پینے کی ۔
ایسے اور اس قسم کے مکالمے اس افسانے میں کئی جگہ موجود ہیں۔ مختلف کرداروں کا لب و لہجہ اس میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ ’میراث‘ علی امام نقوی کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
علی امام نقوی کے افسانوں میں معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کے مظاہر جابہ جہ نظر آتے ہیں۔ وہ زندگی کی لایعنیت سے معنی و مفاہیم اخذ کرتے ہیں۔ تاریخ کی دروغ گوئی ذہنی و معاشرتی الجھنوں کو اپنے افسانوں کا محور و مرکز بناتے ہیں۔ ابتدائی چند افسانوں کے علاوہ وہ افسانوں میں خود کلامی کے چکرویو میں نہیں گھرے رہے۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو نئی صورتِ حال میں ڈھال کر افسانے کو خلق کرنے پر قادر رہے۔ ان کے افسانوں میں بنتے ، بگڑتے ، الجھتے رشتے موجود ہیں۔ جیتے جاگتے کردار ہیں اور واقعات کی ترتیب و تزئین بھی ہے۔ ان کے افسانوں کی قرأت کرتے ہوئے قاری کو مطلق احساس نہیں ہوتا کہ افسانے کا پلاٹ یا اس کے کردار افسانہ نگار کی مرضی کے تابع ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو علی امام نقوی کے افسانوں کو فن کا اعتبار عطا کرتی ہے۔
ان کا ایک افسانہ بعنوان ’نقش‘ معاشرتی گھٹن اور انسانوں کی شکست و ریخت کا عکاس ہے۔ افسانہ بہو، بیٹا، ماں اور ڈاکٹر ان چاروں کرداروں کو لے کر بُنا گیا ہے۔ بہو اور بیٹے کی میڈیکل رپورٹ میں خامی نہ ہونے کے باوجود پانچ برس بیت جانے کے بعد بھی وہ اولاد کی خوشی سے محروم ہیں۔ تینوں کے لیے یہ زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ سارے علاج ہوچکے ، تمام طبی پیتھیوں کو آزمایا جا چکامگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ گیارہویں میڈیکل رپورٹ لے کر وہ ماہر نفسیات کے پاس جاتے ہیں اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ان کے گھر جاکر تینوں سے باری باری گفتگو کرتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ماں جو کہ ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی ہے کی بے جا احتیاط برتنے کی بنا پر بیٹا نفسیاتی مرض کا شکار بن گیا ہے۔ وہ ہر معاملے میں محتاط رہتا ہے اسی بنا پر وہ اولاد سے محروم ہے۔
اس افسانے میں بہو اور ڈاکٹر کے چند مکالمے دیکھیے:
٭ نبضیں بھی چپ سادھیں تو تہذیب کا ایک آدھ اصول اُلانگنا پڑتا ہے بی بی۔ دیکھیں میرا بھی سانس پھول رہا ہے، مگر میں مایوس نہیں ہوا کہ زمین کی پیاس سے بات چلی اور سانسوں کے پھولنے تک آپہنچی۔
٭ تو۔۔۔۔۔ تو پھر سن ہی لیجیے ۔ میرا ۔۔۔۔ میرا گھنا گھنگورا بر ۔۔۔۔۔۔ زمین کے بجائے پلنگ پہ بچھی چادر پر برستا ہے۔
٭ہر شخص اپنی زندگی میں ایسی کئی منزلوں سے گزرتا ہے جو عام طور پر امتحان کہی جاتی ہیں۔ ہر انسان اپنی زندگی کے کسی خاص امتحان میں کامیاب نہیں ہوتا۔ وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے، کیونکہ وہ جانتا نہیں کہ اس کے وجود کا جوہر کیا ہے؟
یہ افسانہ ان لوگوں کے لیے آئینہ ہے بلکہ تازیانہ ہے جو کہ زندگی میں ہرقدم پر محتاط رہنے کا رویہ اپناتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھی ڈر و خوف میں مبتلا کر بیٹھتے ہیں۔ جب کچھ کر گزرنے کا وقت آن پڑتا ہے تب بھی وہ احتیاط برتتے ہیں۔ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کی زندگی کامیاب و کامران نہیں ٹھہرتی بلکہ وہ معاشرتی گھٹن اور انسانی رشتوں کی تقدیس پر بھی تشکیک کے بادل چھوڑ جاتی ہے جو کہ کرداروں کو درد و کرب میں مبتلا کردیتی ہے۔
علی امام نقوی جس دور میں معاشرتی زندگی کی آبیاری کررہے تھے وہ دور شدید انتشاری کیفیت کا دور رہا ہے۔ اس دور میں معاشرتی زندگی میں اور ذہنی اعتبار سے بھی بے یقینی ، ہیجان اور اضطراب کی کیفیات طاری رہی ہیں۔ ایسے حالات میں کسی افسانے کے اہم کردار کی ذہنی کیفیت اجاگر کرنا بے حد کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ کردار کے درون میں در آئی پیچیدگیوں کو منعکس کرنا واقعی مشکل کام سمجھا جاتا ہے لیکن علی امام ایسے مشکل ترین مراحل سے بحسن و خوبی گزرے ہیں۔
’نقش‘ ایک ایس افسانہ ہے جو معاشرتی حالات کا شکار ہوکر پیچیدہ نفسیاتی کرداروں میں ڈھل جانے والی بہو، بیٹا اور ماں کا افسانہ ہے۔ ان کا یہ افسانہ اونچے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے اوپری طمطراق اور اندرونی کھوکھلے پن کو نشانہ بنایا ہے۔ افسانے میں کئی مقامات پر معاشرتی محرکات بھی نشان زد کیے گئے ہیں۔ انسان کے داخلی عوامل اور خارجی عوامل اور محرکات کو اشاروں ، کنایوں اور ذاتی استعاروں میں بڑے احسن طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ افسانہ خارجی زندگی اور داخلی کشمکش یا داخلی واقعیت کا خوبصورت امتزاج ہے۔ تینوں کرداروں کی ذہنی کیفیات اور انتشار بڑے واضح انداز میں سامنے آتے ہیں۔
علی امام نقوی نے زندگی جینے والے انسانوں کو کئی زاویوں سے دیکھا ہے اور دکھایا ہے۔ وہی ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا تعارف اور حوالہ ہے۔ ایسی ہی کئی خوبیاں علی امام نقوی کو ایک معتبر افسانہ نگار کے طور پر مستحکم کرتی ہیں۔