
کسی تخلیق کار کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ناقد کو اس امر کا مکلّف نہیں بناتی کہ وہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات کے مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع ، اسلوب ،ہیئت ،ڈکشن اور فنی طریقۂ کارکے معروضی اور تجزیاتی مطالعے سے گریز کرکے محض موضوع کی Paraphrasingاور بعض غیر قطعی نیز پیش پا افتادہ تنقیدی اصطلاحات کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تنقیدی فریضے سے عہدہ بر آہوجائے ۔مقام افسوس ہے کہ اردو کے بیش تر ناقدین نے عہد حاضر کے ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی تعیین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقیدی سہل نگاری کا ثبوت دیا۔ہوا یہ کہ بیش تر ناقدین نے مجاز کے شعری اکتسابات اور فنی طریقۂ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان کی مقبولیت کو موضوعات کی عمومیت اور غنائیت کی رہین منت قراردیا۔ان کی شاعری’’رومانی انقلابیت‘‘اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی بدحالی،بے اطمینانی ،کرب اور شکستِ خواب کی مظہر قراردی گئی اور غزلوں و نظموں کی تحسن کے سلسلے میں بعض کلیشے مثلاََ ’’نغمہ باز غنائیت‘‘،’’لطافت احساس‘‘،’’جمالیاتی آہنگ‘‘،’’رومانی طرز احساس‘‘اور ’’ترقی پسند سماجی شعور‘‘وغیرہ تواتر اور شدومد کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ان کی شاعری کو’’نغمہ سنج کے گلے کے وفور‘‘کی زائید بھی ٹھہرایا گیا تاہم ’’آہنگ ‘‘ کے بالاستیاب اور مرکز آمیز مطالعے (Close Reading)کی کوئی سنجیدہ اور با معنی کوشش نہیں کی گئی۔یہی سبب ہے کہ مجاز کی شہر آفاق رومانیت کے اجزا ئے ترکیبی اور ان کے فن کے اسلوبیاتی و ہیئتی خصائص اب تک واضح نہیں ہو سکے پیں۔ کسی تخلیق کار کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ناقد کو اس امر کا مکلّف نہیں بناتی کہ وہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات کے مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع ، اسلوب ،ہیئت ،ڈکشن اور فنی طریقۂ کارکے معروضی اور تجزیاتی مطالعے سے گریز کرکے محض موضوع کی Paraphrasingاور بعض غیر قطعی نیز پیش پا افتادہ تنقیدی اصطلاحات کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تنقیدی فریضے سے عہدہ بر آہوجائے ۔مقام افسوس ہے کہ اردو کے بیش تر ناقدین نے عہد حاضر کے ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی تعیین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقیدی سہل نگاری کا ثبوت دیا۔ہوا یہ کہ بیش تر ناقدین نے مجاز کے شعری اکتسابات اور فنی طریقۂ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان کی مقبولیت کو موضوعات کی عمومیت اور غنائیت کی رہین منت قراردیا۔ان کی شاعری’’رومانی انقلابیت‘‘اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی بدحالی،بے اطمینانی ،کرب اور شکستِ خواب کی مظہر قراردی گئی اور غزلوں و نظموں کی تحسن کے سلسلے میں بعض کلیشے مثلاََ ’’نغمہ باز غنائیت‘‘،’’لطافت احساس‘‘،’’جمالیاتی آہنگ‘‘،’’رومانی طرز احساس‘‘اور ’’ترقی پسند سماجی شعور‘‘وغیرہ تواتر اور شدومد کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ان کی شاعری کو’’نغمہ سنج کے گلے کے وفور‘‘کی زائید بھی ٹھہرایا گیا تاہم ’’آہنگ ‘‘ کے بالاستیاب اور مرکز آمیز مطالعے (Close Reading)کی کوئی سنجیدہ اور با معنی کوشش نہیں کی گئی۔یہی سبب ہے کہ مجاز کی شہر آفاق رومانیت کے اجزا ئے ترکیبی اور ان کے فن کے اسلوبیاتی و ہیئتی خصائص اب تک واضح نہیں ہو سکے پیں۔ کلیم الدین احمد نے اس عام تنقیدی روش سے انحراف کرتے ہوئے مجاز کے کلام کو تجزیہ کے عمل (گو کہ یہ تجزیہ خاصا سطحی اور سرسری ہے)سے گزارکر یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے (مجاز)ہاں رومانیت کی خوبیاں کم اور نقائص زیادہ ہیں اور ان کی زیادہ تر نظموں میں کسی عمیق تجربے کا بیان نہیں ملتا۔انہوں نے مجاز کی مشہور نظم’’نورا‘‘کی اجمالی تشریح کے بعد لکھا کہ یہ نظم ایک شرارت کے بیان کو محیط 1ہے اور اس قسم کے معمولی ،رکیک اور سطحی خام جذبے موضوع شاعری نہیں ہوتے۔کلیم الدین احمد کے نزدیک مجاز کی تخلیقات میں عموماََ کسی تجربے کا وجود ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے بھی تو یہ تجربہ غیر اہم اور ناقابل اعتنا ہوتا ہے۔کلیم الدین احمد سمیت تقریباََ تمام ناقد،کیا ترقی پسند اور کیا غیر ترقی پسند ،اس بات پر متفق ہیں کہ مجاز طبعاََ اور اصلاََ رومانی شاعر ہیں۔ظاہر ہے کہ رومانی شاعری کی بعض واضح خصوصیات ہوتی ہیں اور اس نوع کے شعرا کی تفہیم کے سلسلے میں ان پیمانوں سے استنباط کیا جاتا ہے۔تاہم مجاز کی بیش تر شاعری کو ان اصولوں کی کسوٹی پرپرکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مجاز کے کلام پر پہلا اعتراض کہ ان کی شاعری میں غیر اہم اور ناقابل اعتنا تجربے بارپاتے ہیں اور اس نوع کے معمولی ،رکیک اور سطحی خام جذبے موضوع شاعری نہیں ہوتے ،کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ فن کی دنیا میں کوئی جذبہ یا تجربہ فی نفسہ اعلی یا ادنیٰ یا سطحی یا وقیع یا خام یا پختہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ اہم ان کے اظہار کی نوعیت ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تجربے(شاعری تجربے کا اظہار بھی یا نہیں،یہ الگ لائقِ بحث موضوع ہے)کافنکار انہ اظہار ہوا ہے یا نہیں۔اگر کوئی فن پارہ کمزور یا سطحی نظر آتا ہے تو سبب بیان کردہ تجربے کا کچا پن نہیں بلکہ Expressionکی ناکامی ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ مجاز کی بعض نظمیں اظہار کی ناکامی کے باعث یک رُخی ،اکہری اور ناکام لگتی ہیں مگر ایک طرف تو مجاز کو رومانی شاعر قراردیا جاتا ہے اور دوسری طرف شدومد کے ساتھ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی لازمی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے بعض غیر اہم تجربوں اور کمزور لمحوں کا بیان ملتا ہے۔یہ اعتراض ناقدین کی سہل نگاری پر دال ہے کیونکہ رومانی شاعرکی لازمی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے بعض غیر اہم Trivialنظر آنے والے تجربات وقیع تر، دور رس اور حد درجہInspiringلگتے ہیں اور یہ تجربے اس کی رومانی Sensibilityکے داعیوں کو غذا پہنچاتے رہتے ہیں اس لحاظ سے مذکورہ اعتراض Self Contradictoryٹھہرتا ہے۔ اس تنقیدی رائے کے صائب ہونے میں کلام نہیں کہ مجاز انقلابی شاعری کے دلدادہ ہونے کے باوجود بنیادی طور پر رومانی شاعر تھے۔لیکن مجاز کی رومانیت کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور پھر تخلیقات میں کس طرح ان کا اظہار ہوا ہے،نیز رومانیSensibilityکے مختلف ابعاد اور پہلوؤں کی ترسیل میں ان کے اسلوب ،ڈکشن اور فنی طریقہ کی نوعیت کیا رہی ہے،ان سوالات پر غور کرنے کے لئے مجاز کی شہر آفاق نظم ’’آوارہ‘‘کو تجزیے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔تجزیے میں’’آوارہ‘‘پر ناقدین کے اس عام اعتراض کا کہ اس کے آخری بند جذباتی جھلاہٹ کے آئینہ دار اور نظم و ضبط سے یکسر عاری ہیں،محاسبہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ زیر تجزیہ نظم ’’آوارہ‘‘ایک طرف تو رومانی طرز احساس کی مظہر ہے تو دوسری طرف مجاز کی فنی ہنر مندی کو بھی نشان زدکرتی ہے۔نظم کے مطالعے سے منکشف ہوتا ہے کہ موضوع سے قطع نظر مجاز کا فنی شعور بھی خاصا بالیدہ تھا۔شاعر نے بعض خارجی مظاہرکے حوالے سے اپنی حسیاتی اور جذباتی زندگی کی رواداد فنکارانہ شعور کے ساتھ بیان کی ہے۔احساس ہوتا ہے کہ نا آسودگی، رفاقت سے محرومی ،دوستوں کی گریزپائی اور مروجہ معاشرتی نظام سے مکمل بے اطمینانی شاعر کے داخلی وجود پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہے۔نظم کا ٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں،نہ صرف نارسائی کے جاں گسل احساسات کو نشان زد کرتا ہے بلکہ یہ احساس بھی کراتا ہے کہ استحصالی معاشرہ کے مختلف مظاہرے نے نظم کے واحد متکلم کو آتش زیر پا کردیا ہے،نیز آبلہ پائی اس کی جذباتی زندگی کی آخری پناہ گاہ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔شاعر نے داخلی احساسات کی عکاسی اور بعض خارجی مظاہر کی وساطت سے آبلہ پائی(Wandering)کی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لئے نظم کا پورا ڈھانچہ حرکت (Movement)پر استوار کردیا ہے۔نظم کے عنوان ’’آوارہ‘‘سے لے کر آخری بند تک افعال(Verbs) کا تواتر سے خلاقانہ استعمال مجاز کی فنی بالغ نظری کا ناقابل تردید ثبوت پیش کرتا ہے۔ حال سے مایوسی اور عدم اطمینان کا احساس اور پھر اس پورے نظام کو بدلنے کی خواہش کوئی جامدیا منفعل جذبہ نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل عمل اور جہد پیہم کی کیفیت ہے۔لہٰذا شاعر نے اس کیفیت کے اظہار کے لئے Action Verbsفنی چابکدستی سے استعمال کیے ہیں۔نظم کے ابتدائی بند کی ردیف ’’پھروں‘‘اور پھر اسی بند کے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں قافیے’’آوارہ‘‘اور ’’مارا‘‘ کے حوالے سے ایک متحرک بصری پیکر تخلیق کیا گیاہے۔نظم کے پانچویں بند میں ردیف ’’چل ‘‘ اور چھٹے بند کے تین مصرعے ’’ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں‘‘،’’ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں‘‘اور ’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘اصلاََفعلیاتی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔اس نظم کے کئی بندوں میں ردیف اور کافیے مرکب افعال پر قائم کیے گئے ہیں۔نویں بند میں ایک مرکب فعل’’توڑوں‘‘ردیف ہے،جبکہ گیارہویں بند کے تینوں مصرعوں ’’دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘،’’میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘اور ’’زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘میں قافیہ اور ردیف دونوں مرکب افعال پر استوار ہیں۔ اسی طرح بارہویں ،چودہویں اور پندرہویں بند میں بھی مرکب افعال ’’نوچ لوں‘‘۔’’توڑدوں‘‘اور’’ پھونک دوں‘‘ ردیف کا کام انجام دے رہے ہیں ۔اس نظم میں نہ صرف ایسے فعل اور مرکب افعال سے کسب فیض کیا گیا ہے جن سے عمل کے فوری پن اور سیال ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ بعض ایسی صفتیں بھی استعمال کی گئی ہیں جن میں تحریک کا ایک عنصر پوشیدہ ہے۔ ’’آوارہ‘‘میں استعمال کی گئیں صنعتیں تحریک کو نشان زد کرتی ہیں مثلاََپہلے بند کے دوسرے مصرعے ’’جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں‘‘میں ابتدائی ٹکڑا ’’جگمگاتی جاگتی سڑک‘‘ اصلاََایک متحرک دوہری صفت ہے۔اسی طرح دوسرے بند کے پہلے مصرعے ’’جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی‘‘میں صفت ’’جھلملاتے‘‘اور اسی بند کے تیسرے مصرعے ’’میرے سینے پہ مگر دہکی ہوئی شمشیرسی‘‘میں صفت’’دہکی ہوئی‘‘سے تحریک کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔متحرک صفتوں کے استعمال کی مثالیں اردو نظم میں شا ذہی ملیں گی۔ مجاز نے اپنی اس مشہور نظم میں افعال اور متحرک صفتوں کے علاوہ بعض ایسے اسم بھی استعمال کیے ہیں جو نظم کے ڈھانچہ(جواصلاََMovementپر استوار ہے)سے عملی طور پر ہم آہنگ ہیں کہ ان اسما کا تعلق بھی تحرک سے ہے۔مثلاََتیسرے بند میں اسم’’تاروں‘‘،چوتھے بند کے پہلے مصرعے ’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجڑی‘‘میں مستعمل اسما ’’ستارہ‘‘اور’’ پھلجھڑی‘‘کا براہ راست تعلق حرکت سے ہے۔نظم کا ڈھانچہMovementپر استوار کرنے کا مقصد ایک ایسی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بعض خارجی مظاہرے کے توسط سے بیان کرتا ہے جس کا براہ راست تعلق ان متحرک عمل یعنیWanderingسے ہے۔نظم کے مطالعے سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ WanderingاورEmotional Releaseکا ذریعہ بن گئی ہے۔افعال کے متواتر استعمال سے نہ صرف ایک نوع ڈرامائی فضا خلق ہوگئی ہے بلکہ پوری نظم میں گفتگو کی سی برجستگی(Immediacy) بھی پیدا ہوگئی ہے۔ ہیئتی خصائص سے قطع نظر زیر تجزیہ نظم کی موضوعاتی تفہیم جذبات کی منطق کے حوالے سے بھی کی جاسکتی ہے۔ٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں ،اے وحشت دل کیا کروں‘‘دو طرح کے جذبات کے اظہار سے عبارت ہے،پہلا جذبہ بدیہی طور پر غم ہے جس کا تعلق محرومی سے ہے۔اس نارسائی اور فراق نصیبی کا نتیجہ منتشر خیالی ،پراگندگی اور آوارگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس کی طرف مذکورہ مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں،اے وحشت دل کیا کروں ‘‘اشارہ کرتا ہے۔ٹیپ کا مصرعہ تجسیم’’اے غم دل‘‘،’’اے وحشت دل‘‘کے علاوہ کلمۂ استہفام’’کیا‘‘اور فعل’’کروں‘‘پر استوار ہے۔مصرعہ میں’’کیا کروں ‘‘کی تکرار سے ایک طرف تو ایک نوع کی بے بسی،لاچاری اور بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف ایک تیز اور تندجذبے کی عکاسی کا سراغ بھی ملتا ہے۔ نظم کا آغاز ایک جذباتی منظر’’شہر کی رات اور میں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے ہوتا ہے۔ابتدائی تین بندوں میں خارجی مناظر کا۔۔۔۔۔۔۔ذکر ہے تاہم پہلے بند کے تیسرے مصرعے ’’غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں‘‘اور دوسرے اور تیسرے بند کے آخری مصرعوں’’میرے سینے پر مگر دہکی ہوئی شمشیر سی‘‘اور’’آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال‘‘سے داخلی کیفیت بھی مترشح ہوتی ہے۔ نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہے جذباتیت کی لے تیز تر ہوتی جاتی ہے اور آخر کے بندوں میں بیان کردہ بعض خارجی ناظر اپنی تمام ترظاہری دلکشی کے باوجود بے اطمینانی،محرومی اور کم مایگی کے احساسات کو برانگیخت کرتے نظر آتے ہیں۔ چوتھا بند ایکEpisodeکی صورت میں سامنے آتا ہے یعنی اس کا اظہار ستارہ ٹوٹنے اور پھلجھڑی چھوٹنے کے بیان سے ہوتا ہے اور پھر اس واقعہ کے شاعر کے پارہ پارہ داخلی وجود پرپڑنے والے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔پہلے مصرعے ’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی‘‘میں بیان کردہ عمل سے نظم کے واحد متکلم کی جذباتی زندگی میں ہیجان برپا ہوتا ہے اور احساسِ محرومی بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔آخری دو مصرعوں ’’جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی‘‘اور ’’ہوک سے سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی‘‘سے اس صورت حال کا احساس کیا جاسکتا ہے۔’’ستارہ ‘‘اور ’’پھلجھڑی‘‘اپنے لغوی مفاہیم سے قطع نظر یہاں عشرت شبانہ کے مظہر کے طور پر ابھرتے ہیں جن سے اب شاعر محروم ہوچکا ہے۔ پانچویں بند میں رات کے دو مشاغل مے خواری اور حسینوں کی ہم جلیسی کا ذکر ہے مگر اب شاعر بعض خارجی اسباب کی بنا پر ان دونوں سے محروم ہو چکا ہے۔رات جو ہمیشہ شاعر کو Inspireکرتی رہتی تھی ایک بار پھر دل آسائی کا سامان کرتی ہے اور شاعر کو تلقین کرتی ہے کہ وہ یا تو مئے خانے کا رخ کرے یا پھر کسی حسینہ کے کاشانے کی طرف جائے۔اگر یہ دونوں صورتیں ناقابل عمل ہوں تو پھر وہ ویرانے میں جائے کہ یہی وہ مقام ہے جہاںشفتہ سری کو قدرے سکون مل سکتا ہے۔یوں بھی اردو شاعری کی روایت میں صحرا اور ویرانہ عاشق کے جائے مسکن کے طور پر ابھرتے ہیں۔چھٹا بند پانچویں بند کی توسیع کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ اس بند میں بھی رات سے وابستہ کیفیات کا ذکر ہے۔رات ثروت مند افراد کے لیے عشرت،رت جگے، رنگینی،رعنائی اور رنگ ونور کا سیلاب لے کر آتی ہے جس سے شاعر سخت اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس بند کے آخری مصرعے’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘سے نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ شاعر کے اخلاقی زاویۂ نظر کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اس امر کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ ہر بند خواہ اس کا تعلق خارجی منظر سے ہو یا داخلی احساسات کی ترسیل سے،لازماََ اشیا یا افراد کے تیئں جذباتی ردعمل کا اظہار کرے۔اس مرکزی تنظیم یا شیرازہ بندی کے علاوہ15بندوں پر مشتمل اس نظم کے چھ بند خارجی مظاہر کی عکاسی سے عبارت ہیں جبکہ بقیہ 9بندوں میں داخلی وجود کی مختلف النوع کیفیات کاذکر ہے۔ساتویں ،آٹھویں اور نویں بند میں نظم کے واحد متکلم نے اپنے شخصی خصائل’’راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں‘‘،’’لوٹ کر واپس چلا جاؤں میری فطرت نہیں‘‘اپنی بے بضاعتی اور محرومی’’اورکوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں‘‘،’’ان کو پاسکتا ہوں میں یہ آسرا بھی چھوڑدوں‘‘،اور مستقبل سے متعلق اپنے عزائم’’جی میں آتا ہے کہ اب عہد وفا بھی توڑدوں‘‘،’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘کاذکر کیا ہے اور مذکورہ بیان اصلاََ شاعر کے جذباتی ردعمل کے بیان کو محیط ہے۔ پانچویں بند کی طرح گیارہویں بند کی ابتدا ایک خارجی واقعہ یعنی’’اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب‘‘کے بیان سے ہوتی ہے۔محل یہاں حسن کے استحصال (یعنی حسن اس کے زیر نگیں ہے)کے پیکر کے طور پر سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے حسن کا اولین مظہر’’ماہتاب‘‘تابنا کی اور خیرہ کن روشنی کا منبع ہونے کے بجائے’’پیلا‘‘نظر آرہا ہے۔ماہتاب کی زردی تسکین قلب یا باعث اہتزاز ہونے کے بجائے بے چینی،کرب اور محرومی کے احساسات کو برانگیخت کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ویسے بھی چاند اکثر وحشت اور دیوانگی کے داعیوں کو متحرک کرتا ہے۔ پیلے ماہتاب کے افق پر نمودار ہوتے ہی شاعر کی جذباتی زندگی میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے جس کی طرف بارہواں بند’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں‘‘الخ،چودہواں بند’’لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں‘‘الخ،اور پندرہواں بند’’بڑھ کے اس اندر سبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘واضح اشارہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔مذکورہ بند نہ صرف جذباتی ہیجان کا نقطئہ عروج ہیں بلکہ یہی نظم کا کلائمکس بھی ہے۔نظم کا آغاز ایک قدرے کم جذباتی مصرعے ’’شہر کی رات اور میں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے ہوتا ہے۔آخر میں جذباتی تموج کے مظہر بند’’بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘پر ختم ہوئی۔ آوارہ کے بارہویں ،چودہویں اورپندرہویں بند کو عام طور پر ہدف تنقید بنایا گیا ہے اور کلیم الدین احمد سے لے کر جدید تر ناقدوں نے ان بندوں کو نظم وضبط سے عاری ،بہت زیادہLoudاورو فورِجذبات کاآئینہ دار قرار دے کر اسے نظم کی کمزوری پر محمول کیا ہے۔اس اعتراض کے سلسلے میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ نظم کا مذکورہ اختتامی حصہ اصلاََجذبے کے نقطئہ عروج کی عکاسی کرتا ہے جس کی مدھم لے کا اندازہ نظم کے پہلے بند سے لگایا جاسکتا ہے۔نظم میں جذبات کا دھیرے دھیرے ارتقا ہوتا ہے اور آخری بند کلائمکس ہونے کے باعث جذبے کی تندی کا مظہر ہے۔اس طرح’’آوارہ‘‘کو بجا طور پرEmotional Organic Growthکی نظم ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ اس میں جذبات کا بتدریج ارتقا نظر آتا ہے۔اس اعتبار سے ’’آوارہ‘‘کے اختتامی حصے پر بے ربطی اور نظم وضبط سے عاری ہونے کا اعتراض بھی باطل ٹھہرتا ہے۔ نظم کے Localeسے شاعر کا رومانی رویہ مترشح ہوتا ہے۔شہر جو کلاسیکی شعرا کے نزدیک مرکز تہذیب و تمدن تھا اور جس کے کوچے’’اوراق مصور‘‘اور جہاں ہر صورت’’تصویر‘‘ نظر آتی تھی،رومانی شعرا کو مصنوعیت،ریاکاری،منافقت،کھوکھلے پن،غیر فطری پابندیوں اور معاشی عدم مساوات کا مرکز نظر آتا ہے۔رومانی فن کاروں کے نزدیک شہر میں سکونت کوئی پسندیدہ یا مطبوع خاطر شے نہیں،اس لیے تخلیق کار مناظرِفطرت کی آغوش میں پناہ لینے کا خواہاں رہتا ہے۔مجاز نے بعض مظاہر فطرت مثلاََ وادی،چشمہ اور کھلی فضا سے اپنی انسیت اور قلبی تعلق اور ان کی شہر پر فوقیت کا براہ راست ذکر تو نہیں کیا مگر شہر کی لعنتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی نظم کاLocaleشہر کو بنایا ہے۔ نظم کے پہلے مصرعے’’شہر کی رات اورمیں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے پتا چلتا ہے کہ شاعر اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ شہر کی رات جو عیش وعشرت،شادکامی اور سرخوشی سے عبارت ہوتی ہے اس کے حق میں ناکامی اور آوارگی کے پیامبر کی صورت میں کیوں سامنے آئی ہے۔ابتدا چھ بندوں میں رات سے وابستہ احوال بیان کیے گئے ہیں۔رات کی خیرہ کن روشنی میں ایک طرف تو رعنائیوں اور عیش و سرمستی کی مختلف صورتیں جلوہ گر ہوتی ہیں تو دوسری طرف استحصال کی مختلف شکلیں۔’’اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب‘‘،’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی اک پھلجھڑی‘‘،’’جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی‘‘اور مفلسی اور معاشرتی جبر کے مختلف مناظر،’’مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے‘‘،’’سینکڑوں سلطان جابر ہیں نظر کے سامنے‘‘،’’سینکڑوں چنگیز ونادر ہیں نظر کے سامنے‘‘بھی ابھرتے ہیں۔یہ مظاہر Emotional Release کے جذبے کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔اس مرحلے پرEmotional Releaseکا سب سے بہتر ذریعہ یہ نظر آتا ہے کہ اس پورے نظام کو یکسر بدل دیا جائے اور فن کاروں کو اس سلسلے میں Initiativeلینا چاہیے۔نظم کا واحد متکلم بھی اقدامیت پر مائل ہوتا ہے جس کی طرف چودہواں بند’’لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑدوں‘‘،الخ،اور آخری بند’’بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘اشارہ کرتا ہے۔آخر کے ان بندوں سے نہ صرف initiativeلینے کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ایک نوع کے فوری پن یعنیSpontaneityکا احساس بھی ہوتا ہے۔نظم کے اختتامی حصے پر رومانی نظموں کی ایک مخصوص صفت جسےOverflow of powerful feelingsسے تعبیر کیا گیا ہے،کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ زیر تجزیہ نظم میں تشبیہوں کے استعمال کی بھی ایک نئی اور انوکھی صورت ملتی ہے۔’’آوارہ‘‘میں مستعمل تشبیہیں محض کسی شے کی خوبی یا دو اشیا میں باہمی مماثلت کے کسی پہلو کو اجاگر نہیں کرتیں بلکہ اصلاََاشیا کے تیئں شاعر کے ردعمل سے قاری کو بے کم وکاست واقف کراتی ہیں۔تیسرے بند میں رات کا سماں دو تشبیہوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔شاعر نے اولاََروپہلی چھاؤں کو صوفی کے تصور سے اورتاروں کے جال کو عاشق کے خیال سے تشبیہ دی ہے۔پہلے ایک مرئی شے رو پہلی چھاؤں اور ایک غیر مرئی شے صوفی کے تصور میں ایک قدرِ مماثلت تلاش کی گئی ہے۔یہ مماثلت روشن فضا کا احساس ہے۔روپہلی چھاؤں کی طرح صوفی کا تصور(مراقبہ)بھی واضح اور روشن ہوتا ہے اور جب صوفی ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو تاریکی چھٹ جاتی ہے اور اسے روشن فضا کا احساس ہوتا ہے۔اسی طرح ایک خارجی مظہر روپہلی چھاؤں ایک داخلی کیفیت’’صوفی کے تصور‘‘کے عین مماثل ہے۔مگر دونوں تشبیہوں کے حوالے سے شاعر نے رات کے تئیں اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔اسی طرح تاروں کے جال اور عاشق کے خیال میں الجھاؤ کی بنا پر مماثلت کے نقوش واضح کیے گئے ہیں۔جال پیچیدگی الجھاؤ سے عبارت ہوتا ہے۔اسی طرح عاشق کا خیال بھی مرکز جو کیفیت کا مظہر ہونے کے باوجود اکثر منتشر خیالی،پراگندگی اور الجھاؤ کی متعدد صورتوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دسویں بند میں ماہتاب کے لیے چار تشبیہیں،’’ملا کا عمامہ‘‘،’’بنئے کی کتاب‘‘، ’’مفلس کی جوانی‘‘اور’’بیوہ کا شباب‘‘استعمال کی گئی ہیں۔اس بند ’’محل‘‘حسن کے استحصال کے پیکر کے طور پر ابھرتا ہے جس کے باعث حسن مجسم ماہتاب اپنی کشش، جاذبیت،دلکشی اور تابنا کی کھو بیٹھتا ہے۔چاند کی تابناکی ماند پڑ کر پیلے رنگ کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ماہتاب اپنی معنوعیت سے محروم ہوکر شاعر کے نزدیک مفلس کی جوانی اور بیوہ کے شباب کی طرح بے کاروبے سود ہوکر رہ گیا ہے۔چاند کے تئیں شاعر کا پسندیدہ ردعمل دو تشبیہوں ’’ملا کا عمامہ‘‘اور’’بنئے کی کتاب‘‘سے ظاہر ہورہا ہے۔مجاز کی فنی بالغ نظری کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بارہویں بند میں شاعر نے جن مردہ چاند تاروں کو نوچ لینے کی خواہش کااظہار کیا ہے ان کا ذکر پہلے کے بندوں یعنی تیسرے اور دسویں میں کردیا ہے۔ تجسیم(Personification)کی بھی کئی مثالیں اس نظم میں موجود ہیں مثلاََٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں،اے وحشت دل کیا کروں‘‘،دوسرے بند کا دوسرا مصرعہ’’رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی ‘‘پانچویں بند کا تیسرا مصرعہ’’رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میںچل ‘‘اور چھٹے بند کا تیسرا مصرعہ’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘ وغیرہ۔ رومانی فنکاروں کی تخلیقات کا مابہ الامتیاز عنصرEmotional Betrayal کافنکارانہ اظہارہے۔Emotional Betrayalسے مراد یہ ہے کہ فن کاراپنی خواہش کے بر خلاف جذبے کا اظہار کرتا ہے تاہم بیان کی نوعیت سے اصل جذبے کا احساس ہوتا ہے۔ ’’آوارہ‘‘میں اس نوع کی ایک دو مثالیں نظر آتی ہیں مثلاََنویں بند میں شاعر محبوب سے ترک تعلق کا خواہاں ہوتا ہے،اس بند کا آخری مصرعہ’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘ Emotional Betrayalکی اچھی مثال ہے۔’’زنجیر ہوا‘‘کی ترکیب سے ذہن ہوا و ہوس کی طرف جاتا ہے،یعنی ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کا اور محبوب کا تعلق ہوسنا کی کی ایک شکل تھا۔نظم کے دیگر مصرعوں سے احساس ہوتا ہے کہ شاعر کا اصل تجربہ عشق ہے مگر وہ مذکورہ مصرعے میں ہوس کا ذکر کر رہا ہے جس کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہے۔زنجیر ہوا کا ایک مفہوم رشتہ کی ناپائیداری اور اس کے موہوم ہونے کا بھی ہے۔اگر یہ مفہوم بھی مرادلیاجائے تو شاعر یہاں گہرے تعلق کو ناپائیداری سے تعبیر کر رہا ہے۔Emotional Betrayalکی صورت میں Surface Structureمیں نمایاں تنذیلی آجاتی ہے۔زبان،تراکیب اور لفظیات بھی منفرد اور مختلف ہوجاتی ہے۔زیربحث مصرعے ’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘میں الفاظ کا انتخاب اور دروبست کی صورت اسی نظم کے بعض دیگر مصرعوں مثلاََ’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں‘‘،’’کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں‘‘سے بالکل مختلف ہیَ۔ رومانی شاعری کی بعض دیگر خصوصیات مثلاََاحساس تنہائی ،خود نگری اور اپنی خوبیوں کا بالتفصیل بیان بھی اس نظم میں موجود ہے ،مثلاََ’’آہ لیکن کون جانے ،کون سمجھے جی کا حال‘‘،’’اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں‘‘،’’راستے میں رک کے دم لوں یہ مری عادت نہیں‘‘اور’’اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وامیرے لئے‘‘وغیرہ۔ ان معروضات کی روشنی میں یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ’’آوارہ‘‘محض موضوع (متوسط طبقے کے نوجوانوں کی بدحالی اور اس عہد کی معاشرتی صورت حال کی عکاسی)کی عمومیت کی بنا پر ایک قابل قدر نظم نہیں ہے بلکہ یہ مجاز کی فنی ہنر مندی کا بھی ناقابل تردید ثبوت پیش کرتی ہے جو تحریک یعنیMovementپر نظم کا ڈھانچہ استوار کرنے کی مثالیں اردو شاعری میں کم کم ملتی ہیں۔اس لحاظ سے ’’آوارہ‘‘ایک منفرد نظم ہے۔


