Iqbaal ka Tasawwar-e-Maut

Articles

اقبال کا تصورِ موت

قمر صدیقی

موت ایک ایسا عام فہم لفظ ہے جس کے تصور سے ہر انسان واقفیت رکھتا ہے۔ دن رات کے مشاہدات موت کے بے شمار مناظر پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو اپنے عزا و اقربا کے وداعِ دائمی کے وقت موجود نہ رہاہو۔ حیرت کی بات ہے کہ جو چیز اس قدر ہمہ گیر اور دن رات کے

معمولات میں شامل ہے اس کے تصور سے انسان گھبراہٹ اور پریشانی محسوس کرتاہے۔ ہم یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ موت ناگزیر ہے اور حیاتِ ابدی ممکن نہیں لیکن ہمارا دل و دماغ موت کے تصور سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم موت کو زوالِ زندگی یا اختتامِ زندگی سمجھتے ہیں ۔ ہمارے ذہن و تصور پر یہ خوف چھایا رہتا ہے کہ موت کے بعد ہم لذائذِ دنیا و کوائفِ زندگی سے یک لخت محروم ہوجائیں گے اور موت ہمارے سارے ولولوں ، آرزوؤں اور تمناؤں کا خاتمہ کردے گی۔ ہم زندگی کا سفر طے کرنے کے بعد اپنی آخری منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں دائمی جمود اور ابدی تعطل کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔

موت کے تعلق سے مذکورہ بالا خیالات ایک عالمگیر تصور کی صورت انسانی نفسیات میں رچ بس گئے ہیں۔ علامہ اقبال نے اس تصور کے علی الرغم موت کے اسلامی تصور کو اپنی شاعری میں کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اقبال کے نزدیک موت کے یہ معنی نہیں کہ یہ ہمیں ابدی نیند سلادیتی ہے بلکہ اقبال موت کو دوسری بہتر اور لازوال زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں:
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے

موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی ، صبحِ دوامِ زندگی

اقبال کے نزدیک موت سے وہی لوگ ہراساں و پریشان ہوتے ہیں جن کا ایمان آخرت کے یقین سے محروم و تہی دامن ہوتا ہے۔ جو لوگ آخرت پر یقین رکھتے ہیں موت کو آئندہ زندگی کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔موت کے خوف کو علامہ اقبال دنیائے اسلام کا سب سے بڑا فتنہ تسلیم کرتے ہوئے یہ خیال پیش کیا کہ انسان ذاتی منفعت جیسی ادنیٰ ترین چیز کے لیے توہزار ذلت و رسوائی برداشت کرلیتا ہے جبکہ موت جو کہ محض ہوش و حواس کا کچھ عرصہ موقوف ہونے کا نام ہے اس سے ہمہ وقت خائف رہتا ہے۔
ہمچو کافر از اجل ترَسِندہ ئی
سینہ اش فارغ ز قلب زندہ ئی
(کافر کی طرح موت سے ڈرتا ہے۔ اس کے سینے میں زندہ رہنے کا والا دل نہیں ہے۔)

ایک بار سرورکائنات حضور ؐ نے فرمایا کہ:
’’ ایک زمانہ آنے والا ہے جبکہ مسلمان نہایت ذلیل و خوار ہوں گے ۔ ان کی زندگی باعثِ ننگ و عار ہوجائے گی۔‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد کم ہوجائے گی۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ اُس وقت تو ان کی تعداد اب سے بہت زیادہ ہوگی۔ اصحاب نے پھر دریافت کیا یا رسول اللہؐ کیا اُس وقت مسلمانوں میں افلاس آجائے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا نہیں وہ اُس وقت کافی خوش حال و دولت مند ہوں گے۔ اصحاب نے استفسار کیا یا اللہ کے رسولؐ پھر ناتوانی و بے چارگی کی کیا وجہ ہوگی۔ حضور ؐ نے ارشاد فرمایا کہ سب سے بڑی لعنت جو ان پر مسلط ہوچکی ہوگی وہ موت کا غیر معمولی خوف اور دنیا سے انتہائی محبت ہوگی۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث کی کا تجزیہ کیا جائے تو احساس ہوجائے گا کہ موت کا خوف ارفع و اعلیٰ مقاصد میں کس طرح سد راہ ہوتاہے۔ اقبال کی نظر میں موت سے خوف کھانا ایک سطحی جذبہ ہے کیوں کہ اُس چیز سے خوف کھانا جو اٹل اور ہمہ گیرہو بزدلی کی علامت اور سراسر حماقت ہے۔ انسان اپنی ہزاروں کوششیں، لاکھوں تدابیر، فنِ طب کے مسلسل و لا محدود تراکیب سے بھی موت کو زیر نہیں کرسکا ہے۔ موت کے اٹل ہونے کواقبال نے کچھ اس طرح پیش کیا ہے:

زندگی انساں کی ہے مانندِ مرغِ خوش نوا

شاخ پر بیٹھا کوئی دم ، چہچہایا ، اُڑ گیا

آہ! کیا آئے ریاضِ دہر میں ہم ، کیا گئے

زندگی کی شاخ سے پھوٹے ، کھلے مرجھا گئے

زندگی انساں کی اک دم کے سوا کچھ بھی نہیں

دم ہوا کی موج ہے ، دم کے سوا کچھ بھی نہیں

موت کی اس ہمہ گیر اور عالم گیر حقیقت کو سمجھانے کے بعد اقبال یہ بتاتے ہیں کہ موت کیوں ضروری و لازمی ہے۔ فلسفہ کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ کسی چیز کا صحیح تعارف اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی ضد موجود نہ ہو۔ روشنی کے لیے تاریکی، بیداری کے لیے خواب ، خوشی کے لیے غم اور زندگی کے لیے موت۔ اقبال اس نکتہ کو نظم ’’فلسفۂ غم ‘‘ میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں:

گو سراپا کیفِ عشرت ہے شرابِ زندگی

اشک بھی رکھتا ہے دامن میں سحابِ زندگی

موجِ غم پر رقص کرتا ہے حبابِ زندگی

ہے الم کا سورہ بھی جزوِ کتابِ زندگی

ایک بھی پتی اگر کم ہو تو وہ گل ہی نہیں

جو خزاں نادیدہ ہو بلبل ، وہ بلبل ہی نہیں

اقبال کے تصورِ موت میں موت کتابِ زندگی میں ایک نئے باب کے اضافے سے عبارت ہے اور یہ یقینی امر ہے کہ یہ نیا باب پہلے سے زیادہ حسین ، زیادہ رنگین و دلفریب ہے۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں کہ ہر موت یا فنا کے بعد انسان ارتقا کا ایک درجہ طے کرتا ہے اقبال نے نظم میں بے شمار خوشنما تشبہیوں و استعاروں سے کام لیا ہے۔غروب و طلوع آفتاب دن رات کا قصہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پھولوں کی شاخ میں پہلے کی پھوٹتی ہے جو بڑھ کر پھول کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ جانتے تو سب ہیں دیکھتا بھی ہر شخص ہے مگر اقبال کی دور رس و حقیقت شناس نظر اسی چیز کو اور ہی زاویے سے دیکھتی ہے ۔ وہ نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ اس سے وہ سبق حاصل کرتی ہے جس سے موت کی حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا اس نظم کے آخری بند میں

اقبال کچھ اس طرح گویا ہوتے ہیں:

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

اقبال کا تصورِ موت فکر اسلامی کے عین مطابق ہے۔ اُن کے نزدیک خواب و بیداری اور موت و حیات کا تعلق یکساں ہے۔ جس طرح سوتے وقت انسان دنیا و مافیہا سے کچھ دیر کے لیے بے خبر ہوجاتا ہے اسی طرح موت گو ظاہر بین نظروں کے لیے کتابِ زندگی کو تہ کردیتی ہے۔ لیکن باطن بیں نگاہیں حیاتِ مابعد کے مناظر سے آشنا ہوجاتی ہیں۔

Fan-e-Tiba’at ka Maulid wa Mansha

Articles

فنِ طباعَت کا مولد ومنشا

پروفیسر نادر علی خاں

انسانی فتوحات مےں رسمِ خط کی اےجاد وارتقا اےک عظےم الشان کارنامہ ہے جس کی مدد سے انسان نے اپنے قلبی احساسات اور ذہنی افکار کے بحرنا پےدا کنارکو کوزہ مےں بند کرلےا ہے اور فن طباعت کی اےجاد نے تو سونے پر سہاگے کا کام کےا، چنانچہ جملہ علوم وفنون صفحہ ¿ قرطاس مےں سمٹ کر آگئے اور ہزاروں سال قدےم علمی سرماےہ ہر کس و ناکس کے لیے مفےد اور مستحضر ہوگےا۔

فن طباعت کا مولد ومنشا غےر اختلافی ہے اس کی اےجاد کا سہرا چےنےوں کے سر ہے۔ کےونکہ وہاں بدھ مت کی تروےج کے لیے مذہبی ادب اور تصاوےر کی اشاعت کی ضرورت اس کا سبب بنی چنانچہ، مہاتما بدھ کی تصاوےر چھاپنے کے لیے ۰۵۶ءمےں بلاک کی چھپائی کاا ستعمال کےا گےا اور برٹش مےوزےم مےں قدےم ترےن چےنی طباعت (۰۷۷ئ)کا نمونہ محفوظ ہے۔سرارل آسٹےن نے ۷۰۹۱ءچےنی صوبہ کانسو مےں”مزار بدھ“نامی غار مےں اےک مطبوعہ کتاب درےافت کی ہے جس پر تحرےر ہے:
”اس کتاب کو وانگ چی اےبہ نے ۱۱مئی ۸۶۸ءکومفت تقسےم کرنے کے لئے چھاپا تاکہ اس کے والدےن

کی ےاد کو دوام حاصل ہو۔“۲
ےہ بارہ صفحات پر مشتمل ہے جس کا ہر صفحہ ۰۳x۲۱ انچ ہے لےکن ےہ سارے اوراق اےک دوسرے سے چسپاں کرکے ۶۱ فٹ لمبا اےک مسلسل تھان بناتے ہےں ۔پی شنگ نے ۱۴۰۱ءلغاتےہ۹۴۰۱ءمےں چےنی مٹی کے ٹائپ تےار کئے جو اےک آہنی شکنجے مےں نصب کیے گئے تھے اس کے بعد وانگ چانگ نے ۴۱۳۱ءمےں چوبی ٹائپ تےار کےا اس کے بعد جنرل لی(شاہ کورےا)نے ۲۹۳۱ءمےں دھات کے ٹائپ کا ڈھالا خانہ قائم کےا ور اےک کتاب تانبے سے بنے ہوئے کورےائی حروف سے چھاپی۔۱
جےسا کہ مذکورہ بالا بےان سے مترشح ہوتا ہے کہ بلاک کے ذرےعے طباعت کا فن چےنےوں کو ساتوےں صدی عےسوی سے معلوم تھا مگر ےورپ مےں ےہ فن بارہوےں صدی عےسوی مےں پہنچا اور ابتداََ اس کا استعمال بھی آرائشی رہا ۔چودہوےں صدی مےں تاش کے پتّوں کی طباعت ہوئی پندرہوےں صدی کے اوائل مےں(۳۲۴۱ئ)سےنٹ کرسٹوفر کی ٹھپّے سے طبع شدہ تصوےر جان رائی لےنڈزلائبرےری مانچسٹر مےں محفوظ ہے لےکن ےورپ مےں فن طباعت نے اس وقت تک ترقی نہےں کی جب تک کہ پندرہوےں صدی کے وسط مےں الگ الگ حروف کے ٹائپ اےجاد نہےں ہوئے۔

ےورپ مےں فن طباعت کی اےجاد کا مسئلہ اختلافی ہے بعض محققےن کا دعویٰ ہے کہ اس کی اےجاد کا سہرا لارنس جان زورکوسٹر (Lawrence Janzoor Coster) باشندہ ہارلم (ہالےنڈ) کے سر ہے مگر بعض محققےن مُصِر ہےں کہ جان گٹن برگ(John Guten Berg) باشندہ منےز(جرمنی) نے جان فسٹ اور پےٹر شوفر کی مدد سے اےجاد کےا بعض کا قول ہے کہ جو ہالس برےٹو باشندہ بروگسن (بےلجےم) نے ےہ کارنامہ سر انجام دیا لےکن بعض نے بامفےلو کاسٹےلڈے باشندہ فےلٹر(اٹلی) سے منسوب کےا ہے۔

جان گٹن برگ نے ۴۵۵۱ءمےں منےز (جرمنی) مےںمطبع قائم کےا جس مےں سانچے مےںٹائپ کے حروف ڈھالے گئے اور کچھ دستاوےز طبع کےں دوسال بعد انجےل طبع کی اس کے اےک سال بعد رنگےن طباعت کا بھی تجربہ کےا گےا۔منےز سے ےہ فن سارے ےورپ مےں پھےل گےا دو جرمن اٹلی پہنچے اور انھوں نے روم کے قرےب ۴۶۴۱ءمےں اےک مطبع قائم کےا لےکن طباعت کا اصل مرکز وےنس قرار پاےا جہاں مختلف ماہرےن فن نے ٹائپ کی نوک پلک درست کی اور اس مےں نفاست پےدا کی ۴۶۴۱ءمےں اندلس فن طباعت سے آشنا ہوا ۸۶۴۱ءمےں ےہ فن سوئٹزرلےنڈ پہنچا ۰۷۴۱ءمےں دو جرمنوں نے فرانس کو اس فن شرےف سے متعارف کراےا اور ساربون کے مقام پر مطبع قائم کےا ۱۷۴۱ءمےں ہالےنڈ روشناس ہوا اور انگرےزی مےں اوّلےن مطبوعہ کتاب تارےخ ٹرائے (History of Troy) ۴۷۴۱ءمےں طبع ہوئی اس کا دوسرا اےڈےشن ولےم کاکسٹن پرےس لندن سے شائع ہوا ۔ڈنمارک اور سوےڈن مےں علی الترتےب ۲۸۴۱ءاور ۳۸۴۱ءمےں مطابع وجود مےں آئے ۵۹۴۱ءمےں پرتگال اور ۳۰۵۱ءمےں ےہ فن روس پہنچا۔

امرےکہ مےں فن طباعت ہندوستان کے بعد پہنچا چنانچہ لاطےنی امرےکہ کی پہلی مطبوعہ کتاب(Cathecism on Lengna Jamuguana Castellance)مصنفہ فرانسسکو پارنےجہ ۷۲۶۱ءمےں مےکسےکو مےں طبع ہوئی اور امرےکہ کی پہلی مطبوعہ کتاب(Bay Psalm Book)۰۴۶۱ءمےں طبع ہوکر شائع ہوئی۔
انگلستان مےں ولےم کاکسٹن نے فن طباعت کی بنےاد رکھی ےہ شخص کےنٹ کا باشندہ اور نہاےت عالم فاضل انسان تھا تےن سال ہالےنڈ اور بےلجےم مےں فن طباعت کے علم کے حصول مےں بسر کیے کولون(جرمنی) کے زمانہ ¿ قےام مےں رسوخ پےدا کےا اور بالآخر انگلستان واپس آکر اپنا پرےس جاری کےا اس نے ۳۱ دسمبر۶۷۴۱ءکو اےک مذہبی دستاوےز طبع کی اور آئندہ پندرہ سال کے دوران تقرےباََ اےک سو کتابےں طبع کرکے شائع کےں۔اکثر مطبوعات کا مصنف اور مترجم تھا ۱۹۴۱ءمےں وفات پائی۔
ےورپ کے اکثر ممالک مےں فن طباعت جرمنوں کی وساطت سے پہنچا لےکن ےہ انگلستان ہی کی انفرادےت اور امتےاز ہے کہ جہاں اس کے نو نہال ولےم کاکسٹن نے اپنے ملک مےں اس عظےم الشان فن کی بنےاد ڈالی اس کے علاوہ ےورپ کے ہر اےک ملک مےں لاطےنی زبان سے طباعت کاآغاز ہوا لےکن انگلستان واحد ملک تھا جہاں قومی زبان مےں کتابےں طبع ہوکر شائع ہوئےں مزےدبراں کاکسٹن کے تےار کردہ ٹائپ کے حروف منفرد حےثےت کے مالک تھے ےعنی ان کا انداز گاتھک تھا،نہ کہ رومن۔
انےسوےں صدی کے اوائل مےں سلنڈر مشےن اور بھاپ کی اےجاد نے فن طباعت کی ترقی کی دوسری منزل طے کی ،ہاتھ سے چھاپنے کی مشےن دوسو کاپےاں فی گھنٹہ چھاپتی تھی۔مگر اس کے بعد اےک گھنٹے مےں دوہزار کاپےاں نکلنے لگےں۔

ہندوستان مےں فن طباعت کا آغاز و ارتقا:
۸۹۴۱ءمےں پرتگال کا اےک اولوالعزم واسکوڈی گاما بحر اوقےانوس اور بحر ہند کی لرزہ خےز زہرہ گداز اور جاں گسل فضاو ¿ں اور ہوشرباموجوں سے کھےلتا ہوا ساحل مالابار پہنچا اور اپنی گوناگوں صفات اور کمالات کے وسےلے سے مالا بار کے راجہ کے دربار تک رسائی حاصل کی اور مقرب بار گاہ سلطانی بن کر اعزاز واکرام سے سرفرازہوا ۔ہندوستان مےں اس کی آمد تارےخ مےں اےک نئے باب کا اضافہ تھی چنانچہ مالابار کے راجہ نے الوداع کہتے ہوئے نہ صرف داد ودہش کا بھر پور اظہار کےا بلکہ شاہ پرتگال کو لکھا:
”آپ کے ملک کے اےک شرےف فرد واسکوڈی گاما مےری مملکت مےں واردہوئے جس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی مےری قلمرو مےں دارچےنی، بونگ سےاہ مرچ اور جواہرات کی بہتات ہے آپ کے ملک سے مجھے سونا، چاندی اور سرخ رنگ درکار ہے۔“۱

واسکوڈی کی مراجعت وطن کے بعد شاہ پرتگال کے اےما اور سر پرستی مےں سفر کے نامساعدحالات کے باوجود اےک طرف پرتگالی تجار کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو دوسری طرف مسےحےت کے داعی عےسائےت کی تروےج و اشاعت کے لیے مضطراب گواپہنچ کر مصروف کار ہوگئے چنانچہ ۱۴۵۱ءمےں ان کے دو کالج سےنٹ پال اور رےشول قائم ہوگئے لےکن انھوں نے اسی پر اکتفا نہےں کےا بلکہ شاہ پرتگال جان سوم کے امروتحرےک سے پرتگالی وائسراے جان ڈی کےٹرو مقےم گوانے مضافات مےں ابتدائی مدارس بھی قائم کیے تاکہ ہندوستانی عےسائےوں کی تعلےم و تربےت صحےح نہج پر ہوسکے۔۱

تےن چار سال کی فکر وتدبر سے تعلےم و تربےت کے نظام مےں جو فروغ حاصل ہوا،اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پادری جانس دی بےرانے ۰۲نومبر ۵۴۵۱ءکو پاپائے روم کے نام اےک خط مےں لکھا:
”اس کالج مےں جوپاک عقےدہ کا گھر“کے نام سے موسوم ہے، مختلف اقوام کے ساٹھ نوجوان جو اےک دوسرے سے بالکل جدا نو مختلف زبانوں کے بولنے والے ہےں رہتے ہےں ان مےں سے بےشتر ہماری ہی زبان پڑھتے اور لکھتے ہےں اور ساتھ ہی اپنی زبان بھی پڑھنا اور لکھنا جانتے ہےں ان مےں کچھ لاطےنی اچھی طرح جانتے ہےں اور شاعری کا مطالعہ کرتے ہےں لےکن استاد اور کتابوں کی کمی کی وجہ سے کماحقہ فائدہ نہےں اٹھا سکتے عےسائی مجموعہ عقائد کو ان تمام زبانوں مےں شائع کےا جاسکتا ہے اگر اعلیٰ اقدس اس کی اجازت دےں“۔
ہندوستان کے علاوہ حبشہ مےں پرتگال مشزےوں کے اےثار وقربانی اور فکر وجہد سے نومسےحوں کا اےک معتدبہ طبقہ وجود مےں آچکا تھا حتیٰ کہ شاہ حبشہ عےسائےت کی دعوت و فروغ مےں پےش پےش تھا،چنانچہ ۶۲۵۱ءمےں شاہ حبشہ نے پرتگال کے سلطان ڈی مونےل سے فرمائش کی کہ”آپ چند اےسے افراد جو کتابےں تےار کرنے مےں مہارت رکھتے ہوں حبشہ روانہ فرمادےں۔لےکن سو ئے اتفاق اس خط کے پہنچنے سے قبل ہی ڈی مونےل کا انتقال ہوگےا اس لےے ےہی درخواست اس کے جانشےن ڈی جاو ¿ سے کی گئی اور شرف ِقبولےت کو پہنچی۔ بالآخر ۹۲ مارچ ۶۵۵۱ءکو مسےحی راہبوں کی اےک جماعت جو چودہ افراد پر مشتمل تھی اور جس کا غالب حصہ حبشہ مےں دعوت وتبلےغ اور تعلےم وتربےت کے لیے مختص تھا جاو ¿ننس براٹواسقف حبشہ کی سرپرستی اور نگرانی مےں اےک چھاپہ خانہ اور چند ماہرےن طباعت (راہب جان دی بسنا مانتے،جاو ¿ گونسا بو مےں اور اےک ہندوستانی ماہر اور رمزشناس فن طباعت)کی معےت مےں حبشہ کے لیے روانہ ہوکر ۶ دسمبر ۶۵۵۱ءکو گوآپہنچی طوےل بحری سفر کے بعد چند ماہ گو ا مےں قےام کا مقصد تھا مگر بعض وجوہ کے باعث مزےد قےام ناگزےر تھا۔

راہبوں کی تازہ دم جماعت اور پرےس کی آمد سے گوا کے کارکنوں کی چمن مےں بہار آگئی اور برسوں کا خواب شرمندہ تعبےر ہوتا نظر آےا چنانچہ گوا پہنچتے ہی طباعت کا کام شروع ہوگےا اور اکتوبر ۷۵۵۱ءمےں فلسفہ اور منطق کے بعض مقالات بھی طبع ہوکر شائع ہوگئے ۔۷۵۵۱ءمےں جاو ¿ دی مانتے نے ہندوستانی ماہر طباعت کی معاونت سے سےنٹ زےوےر(St. Tramics xavier)کی دو ترےناکر سٹا(نصاب الاطفال)طبع کرکے کتب خانے مےں محفوظ کیاہے۔

بچوں کی صحےح تعلےم کی غرض سے زےوےر نے اےک کاٹی کزم (کاٹی کزم آف دی کرسچن ڈاکٹرن ےعنی مسےحی تعلےمات بطول سوال جواب)تےارکی جو گوا مےں ۷۵۵۱ءمےں طبع ہوئی۔۳
بستا مانتے کے رفےق کار اور فن طباعت کے ماہر جان گونسالوس (John Gonsalves)نے تامل زبان کے چوٹی ٹائپ تےار کیے راہب جان ڈی فےرےا John de Feriaنے موصوف سے ےہ فن حاصل کےااور اس کی نوک پلک درست کی بالآخر اول الذکرنے ۸۷۵۱ءکوئلن مےں ہندوستانی زبان کا سب سے پہلا پرےس قائم کےا اور سن مذکور مےں سےنٹ فرانسس زےوےر کی کاٹی کزم آف دی کرےسچن ڈاکٹرن(مسےحی تعلےمات بطور سوال و جواب)کا تامل ترجمہ (کھرےشٹےہ و ناکم)طبع کرکے شائع کےا اس کتاب مےں جان گونسالوس اور جان ڈی فےرےا دونوں کے تےار کردہ ٹائپ استعمال ہوئے چنانچہ پہلی آٹھ سطروں مےں جوٹائپ استعمال کیے گئے وہ ۷۷۵۱ءمےں گوا مےں تےار ہوئے تھے اور جو باقی سطور مےں استعمال ہوئے وہ ۸۷۵۱ءمےں کوئلن مےں تےار کیے گئے تھے لےکن کاٹی کزم کے تامل ترجمے کی طباعت کے بعد ےہ پرےس قلعہ کوچےن مےں منتقل کےا گےا اور ۹۷۵۱ءمےں وہےں سے مارکوس جارج کی ۰۲۱ صفحات پر مشتمل کتاب (۶۶۵۱ءکی مطبوعہ پرتگالی کتاب کا ترجمہ)طبع ہوکر شائع ہوئی مگر اس کے بعد اےسے مواقعات پےش آئے کہ تامل طباعت کا سلسلہ زےادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکا چنانچہ پادری ہوسٹن کا بےان ہے کہ:
”بالآخر تامل چھپائی ۲۱۶۱ءکے بعد بند ہوگئی کےونکہ نوےلی اور مےنول مارٹن کی متعدد تصانےف ۹۴۶۱ءاور ۰۶۸۱ءمےں غےر پڑی رہےں۔۱

۶جنوری ۳۶۶۱ءکو قلعہ کو چےن چھ ماہ کے مسلسل محاصرے کے بعد ڈچوں کے قبضے مےں آےا تو انھوں نے قلعے کی اےنٹ سے اےنٹ بجا دی راہبوں کا زبردست نقصان ہوا اور انھےں خارج البلد کےا گےا بشپ کی قےام گاہ،شاندار کالج، تےرہ گرجے ،دوشفاخانے اور متعدد راہب خانے پےوند خاک ہوگئے۔ ۵۹۷۱ءمےں کوچےن پر انگرےزوں کا تسلّط ہوا تو انھوں نے ۶۰۸۱ءمےں پرتگال دور کے تمام آثار کو بارود سے اڑادےا،بہت سی پبلک عمارتےں اور اےک عظےم الشان کےتھڈرل جو ڈچوں کی دست برد سے بچ گئے تھے اس بارود سے وہ بھی نےست ونابود ہوگئے۔

پُنی کےل:
راہب جان ڈی فےرےا نے ۸۷۵۱ءمےں اےک مطبع اپنی کےل(ضلع ٹناولی) مےں قائم کےا موصوف نے تامل زبان کے حروف خود کاٹے اور پھر ان کو ڈھال کر مذہبی تعلےم کے لئے چھوٹی چھوٹی کتابےں طبع کرکے شائع کےں مزےد برآں تامل زبان کا قاعدہ اور دےگر نصابی کتابےں طبع کےں تاکہ اس علاقے مےں کام کرنے والے مشنری تامل زبان مےں مہارت پےدا کرسکےں۔ےہ بات خصوصےت سے قابل ذکر ہے کہ پنی کےل کے مطبع مےں جو ٹائپ استعمال ہوتا تھا اس کا اےک اےک حروف جماےا جاتا تھا کوچےن کے مطبع کی طرح سالم صفحے کا ٹھپّہ تےار نہےں کےا جاتا تھا۔۱

وپی کوٹہ:
سےنٹ ٹامس کلےسا سے معاہدہ کے کچھ عرصے بعد ۹۷۵۱ءمےں مسےحی راہبوں نے وپی کوٹہ(چنا منگلم)کو اپنا مستقر بناےا ۱۸۵۱ءمےں عبادت خانہ تےار کےا اور ۴۸۵۱ءمےں مدرسہ الہٰےات قائم کےا حتٰی کہ ۷۸۵۱ءمےں اےک کالج وجود مےں آگےا تو انھوں نے پاپائے روم سے استد عا کی باشندگان مالا بار کی مذہبی تعلےم کے لئے مخصوص دےنی کتابےں ارسال کی جائےں موصوف نے کتابوں کے بجائے اےک پرےس اور کلدانی زبان کا ٹائپ بھےج دےا جو ۲۰۶۱ءمےں ہندوستان پہنچا چنانچہ پادری البرٹ لارشی نے اسے وپی کوٹہ مےں قائم کےا جس سے قلےل عرصے مےں کئی مذہبی کتابےں کلدانی زبان مےں طبع ہوکر شائع ہوئےں۔۲

امبلا کاڑ:

امبلا کاڑ عےسائی مشنرےوں کی مصروفےت کا مرکزی مقام تھا جو ترےچورسے بےس مےل کے فاصلے پر واقع تھا انھوں نے ۰۷۶۱ءمےں وہاں اےک مدرسہ الہٰےات قائم کےا جو سےنٹ پال سےمزی کے نام سے مشہور تھا اس کے بعد اےک پرےس بھی جاری کےا جس سے سب سے پہلی کتاب تامل پرتگےزی ڈکشنری ۹۷۶۱ءمےں طبع ہوکر منظر عام پر آئی اس کے لئے اےک مالا باری مسےحی نے تامل زبان کے ٹھپّے تےار کیے تھے ۔ڈکشنری کی طباعت کے بعد اور بہت سی کتابےں طبع ہوکر شائع ہوئےں ابتدا مےں تامل حروف کے لیے جو ٹھپّے تےار کیے جاتے تھے اور ےورپی زبانوں کے لئے سےسے کے حروف ڈھالے جاتے تھے لےکن کچھ عرصے کے بعد تامل حروف بھی ڈھال لیے گئے چنانچہ ۰۰۷۱ءکے بعد متعدد تامل کتابےں سےسے کے حروف سے طبع ہوئےں۔
ابتداََ جو مشنری ہندوستان وارد ہوئے مذہبی جوش سے سرشار اور فروغ مسےحےت کے زبردست داعی تھے چنانچہ اپنے مذہب کی تروےج و اشاعت کے پےش نظر مقامی السنہ کے حصول مےں پےش پےش تھے اور انھوں نے اسی پر اکتفا نہےں کےا بلکہ نصابی کتابےں اور لغات بھی تےار کیے بعد مےں ہندوستانی اموال کی فراوانی نے غےر مخلصےن کو بھی دعوت وتبلےغ سے وابستہ کردےا اور جوق درجوق ہندوستان پہنچنے لگے چنانچہ ۶۰۶۱ءمےں صوبہ جاتی کونسل نے حکم جاری کےا کہ:
”کسی پادری کوحلقہ ¿ کلےسا کا منتظم مقرر نہ کےا جائے تا و قتےکہ وہ مقامی زبان نہ سےکھ لے اور حلقہ کلےسا کے جو پادری مقامی زبان سے ناواقف ہےں اگر چھ ماہ کے اندر مقامی زبان کا امتحان پاس نہےں کرےں گے تواپنے موجودہ منصب سے دست بردار ہوجائےں گے۔۲

مذکورہ بالا قوانےن بھی ہوس زر کے شتربے مہار کو گرفتار نہ کر سکے اور دےن مسےحی کے داعی اپنے فرائض منصبی سے بے نےاز افزائش اموال کی فکر سے سرشار داد عےش دےنے لگے چنانچہ فرانسےسی سےاّح اےبے کارلے ۲۷۶۱ءمےں گوآپہنچا تو وہاں کے مذہبی ،معاشرتی اور معاشی احوال کا مشاہدہ کرکے بےحد مترد د ہوا اور لکھا:
”اگر تم مال و دولت کے متمنی ہوتو پرتگالی خانقاہوں مےں جانا چاہےے۔وہاں تم دلّال ،تجار اور دوسرے مقامی لوگوں کو دےکھو گے جو صرف پرتگالی پادرےوں سے تجارت کرتے ہےں غرض کہ اس قوم کی کل تجارت ان کے ہاتھ مےں ہے“۔۱
رفتہ رفتہ عےش وعشرت اور حصول زر کی ہوس نے دعوت کے اس آتش کدے کو سرد کردےا جس کی حرارت سے طلب دنےا اور حب جاہ کے عناصر جل کر خاکستر ہوجاتے تھے اور ان کی فکر و نظر کاسارا سرماےہ اس تدبےر پر صرف ہوا کہ مقامی السنہ کے جوئے کو کس طرح گردن سے اتار پھےنکا جائے اوربالآخر اس مشن مےں کامےاب ہوگئے چنانچہ ۴۸۶۱ءمےں اےک حکم نامہ جاری ہوا جس کی رو سے ”۳سال کے اندر باشندگانِ گو آکو دےسی زبان ترک کرکے پرتگالی کا اختےار کرنا لازم تھا“۔انجام کار عےسائےت کی تروےج و اشاعت کے ذےل مےں السنہ ¿ ہند کے رسائل اور کتب کی اشاعت کے فقدان کے ساتھ ساتھ فن طباعت بھی معرض خطر مےں آگےا چنانچہ اس کے بعد۱۲۸۱ءتک گوا مےں پرےس کا سراغ نہےں ملتا۔اس پر مستزادےہ تحرےک صرف گوا تک محدود نہےں تھی بلکہ سارے ہی تبلےغی مراکز اس کا شکار تھے۔
اس کے شانہ بہ شانہ سےاسی اقتدار کے رسےا کلےسا کو اپنا حرےف سمجھ کر سرپےکار تھے وہ عےسائےت کی دعوت تبلےغ کو سےاسی مصَالح کے پےش نظر مضر سمجھتے تھے چنانچہ ۴۵۷۱ءمےں حکومت پرتگال کی طرف سے وائسرائے مقےم گو اکو متنبہ کےا گےا کہ وہ ہندوستان مےں طبع کے قےام کی درخواست کو مسترد کردے بلا امتےاز اس کے کہ وہ درخواست کسی عےسائی خانقاہ ےا کالج سے ہوےا کسی بارسوخ فرقے کی جانب سے۔۳

۶۱ستمبر ۱۲۸۱ءکو وائسرائے گوا معزول کردےا گےا چنانچہ جابرا نہ حکومت کے علی الرغم حرےت پسند عناصر بر سراقتدار آگئے اس وقت حکومت بمبئی سے اےک پرےس گوا لانے مےں پےش قدمی کی اور اےک ہفتہ وار اخبار بنام”گرےٹ دی گوا“جاری کےا لےکن پانچ سال کے بعد پھر انقلاب آےا اور ۹۱ اگست ۶۲۸۱ءکو ےہ اخبار بند ہوگےا اس کے بعد ۳۱ جون۵۳۸۱ءکو”کرونستا کانستی ٹےوشنال دی گوا“کے نام سے دوسرا اخبار جاری ہوا لےکن ۰۳ نومبر ۷۳۸۱ءکو ےہ بھی بند ہوگےا تےسرا اخبار ۷ دسمبر ۷۳۸۱ءکو جاری ہوا۔
دےونا گری مےں طباعت کا آغاز ۳۵۸۱ءمےں ہوا جب کہ حکومت نے دےوناگری ٹائپ بمبئی سے خرےدے تاکہ ان کو اشتہارات اور دسرے اعلانات کی طباعت کے لیے استعمال کرے چنانچہ سب سے پہلا اعلان ۳۲ مئی ۳۵۸۱ءکو طبع ہوکر شائع ہوا۔۱

ٹراونکور (مدراس):
ہندوستان مےں کےتھولک مشنری تو برسرکار اور منہمک تھے مگر پروٹسٹنٹ مشنرےوں نے ۶۰۷۱ءمےں ہندوستان پہنچ کر دعوت و تبلےغ کا آغاز کےا فرےڈرک چہارم (شاہ ڈنمارک)، مقرب اور مخصوص پادری لٹکنس نے اسی غرض سے شاہ تبخور سے اےک قطعہ زمےن خرےدا اور زےگنبالگ اور ہنری پلتشو کا اس مہم کے لئے انتخاب کےا چنانچہ دونوں ۶۰۷۱ ءمےں ہندوستان وارد ہوئے ،اس وقت پرتگال نسل کے بہت سے افراد نے جنوبی ہند مےں سکونت اختےار کرلی تھی اور اس علاقے مےں پرتگالی زبان عام طور سے بولی جاتی تھی اس لیے انھوں نے دورانِ سفر پرتگالی مےں استعدادپےدا کی اور اےک ہندوستانی پنڈت کی خدمات حاصل کےں جو پرتگالی جانتا تھا۔
آغاز کار مےں عےسائی مشنرےوں کو دوکام درپےش تھے۔اےک تو اپنے مذہب کے اصولوں کی اشاعت وتروےج دوسرے مقامی باشندوں کو اپنے آبائی ادےان سے متنفر اور برگشتہ کرنا، چنانچہ زےگنبالگ نے اپنی کامل توجہ ہندوستانی مخلوطات جمع کرنے مےں صرف کی تاکہ ان کے عمےق مطالعے سے روآسان تر ہوجائے لےکن پرےس کے بغےر ےہ کام آسان نہ تھا اس لیے موصوف نے صد ردفتر سے اےک پرتگالی اور مالاباری ٹائپ کے مطبع کی درخواست کی:
ہماری دلی خواہش ہے کہ ہمےں اےک مالاباری اور پرتگالی مطبع فراہم کےا جائے تاکہ ہم اےسی کتب جو ہمارے کام کے لئے ناگزےر ہےں ان نقل کے خرچ مےں بچت کرسکےں(چونکہ اس علاقے مےں فن طباعت ےکسر غائب تھا اس لیے طباعت کی جگہ نقل نوےسی نے لے لی تھی)۔مےں نے اب تک مالا باری کاتب اپنے مستقر پر لگا رکھے ہےں لےکن موجودہ حالات کے پےش نظر کچھ عرصے کے بعد وہ اےک بڑی مدخرچ ہوں گے۔ بے شک وہ کتابےں جو ہمےں مالاباری کا فروں سے دستےاب ہوئی ہےں ان کو تمام تر نقل کرانا ضروری ہے اس کے علاوہ جو کتابےں ہمارے مذہب کی اساس ہےں اور جنھےں کافروں مےں تقسےم کرنا ضروری ہے حتماََاحتےاط کے ساتھ طبع کرانا ناگزےر ہے۔۱
ڈنمارک کی مشنرےوں کی آمد سے بےس سال قبل انگلستان مےں انجمن برائے ترقی علوم مسےح(سوسائٹی فارپروموٹنگ کرسچےن کالج)قائم ہوچکی تھی ڈنمارک کے شہزادے جارج کے جرمن پادری اے۔ڈبلو۔بوھمی نے مذکورہ درخواست کا ترجمہ انجمن مذکورکو ارسال کےا بالآخر ۱۱۷۱ءمےں انجمن کے ارباب حل وعقدنے پرتگالی زبان مےں انجےل کے کچھ نسخے،اےک مطبع جو پائےکاٹائپ (درس پوائنٹ)تھا مطبع اور دےگر لوازمات کے ہندوستان بھےجنے کا انتظام کےا لےکن اس جہاز کو برازےل کے قرےب فرانسےسےوں نے روک لےا اور طابع جونس فنک کو گرفتار کر لےا چنانچہ دوسرے سال پرےس بغےر طابع ہندوستان پہنچا۔
پرےس اور متعلقہ سامان رےگنبالگ اور اس کے رفقائے کار کے لئے نعمت غےر مترقبہ سے کم نہ تھا چنانچہ انھوں نے پرےس کے آتے ہی تمام انتظامات درست کرکے طباعت کا کام شروع کردےا حسن اتفاق انھےں اےک جرمن ماہر فن ہاتھ آگےا جو پرےس مےن اور کمپوزےٹر کی حےثےت سے امتےاز رکھتا تھا۔
ابتدا مےں طباعت کا کام پرتگالی تک محدود تھا چنانچہ ۳۱۷۱ءکے اواخر مےںپرتگالی طباعت کے نمونے منظر عام پر آگئے اور پہلی کتاب(اےکس پلے نےشن آف کرسچےن ڈاکٹر ائن آف دی مےتھڈ آف کےچسزم)طبع ہوئی۔اس کے بعد مالاباری ڈھالا خانہ بھی قائم ہوگےا اور ۴۱۷۱ءمےں اےک کاغذسازی کا کارخانہ بھی وجود مےںآگےا۔

اگرچہ ڈنمارکی مشنرےوں نے مراٹھی زبان کی طباعت مےں براہ راست کوئی حصہ نہےں لےا لےکن اےک ڈنمارکی مشنری فرےڈرک شوراٹز،سرفوجی بھونسلے شاہ تبخور۔۹۹۷۱ئ۔ ۳۸۸۱ءکا سرپرست ،اتالےق اور رہنما بن گےا اس نے اس روشن خےال سردار کو تبخور مےں طبع قائم کرنے پر آمادہ کےا جس مےں کچھ سنسکرت اور مراٹھی کی کتابےں طبع ہوئےں سرسوتی محل مےں حسب ذےل دو کتابےں اب تک محفوظ ہےں:
ےدھ کانڈ ۹۰۸۱ئ
سسوپلوادھا ۲۱۸۱ئ
اس مطبع مےں جو دےوناگری ٹائپ مستعمل تھے وہ چارلس ولکنس نے ڈھالے تھے۔
بمبئی:
بمبئی مےں فن طباعت کے پےش رو بھےم جی پارےکھ ہےں جنھوں نے اولاََ۶جنوری ۰۷۶۱ءکو اےسٹ انڈےا کمپنی سے اےک پرےس اور اےک طابع کی فرمائش کی کمپنی نے پذےرائی کی اور وہ ۵۷۶۱ءمےں اےک ماہر طابع ہنری ہلس کے ہمراہ اےک پرےس،ٹائپ،کاغذ اور دوسرے لوازمات ہندوستان روانہ کیے مگر ہلس بنےان رسم الخط(Vanra shalir lipi)کے ٹائپ تےار کرنے سے قاصر رہا مجبوراََبھےم جی نے اےک قالب گر (Founder)کی درخواست کی جو شرف قبولےت کو پہنچی اور ۸۷۶۱ءمےں اےک قالب گر ہندوستان پہنچ گےا لےکن بھےم نے قالب گر کے انتظار مےں اوقات ضائع نہےں کیے بلکہ اپنی ذاتی ملازمےن کی مدد سے بنےان رسم خط مےں حروف تےار کیے اور طباعت مےں پےش قدمی کی چنانچہ ۳۲ جنوری ۶۷۶۱ءکے سرکاری خط مےں مذکورہے کہ ”ہم نے بنےان حروف مےں کچھ مطبوعہ کاغذات دےکھے جن کو بھےم جی کے ملازموں نے تےار کےا ہے جو صاف اور خوبصورت ہےں اور ےہ بتاتے ہےں کہ ےہ کام قابل عمل ہے۔

بھےم جی کے نادر اقدام کے بعد اےک صدی تک کامل سکوت رہا اور ملکی ےا غےر ملکی کسی نے اس عجےب و غرےب فن کی طرف التفات نہےں کےا البتہ ۷۷۷۱ءمےں رستم جی کےشاپتی نے اپنا ذاتی مطبع جاری کےا جس مےں انگرےزی کے علاوہ اردو،گجراتی، مراٹھی،کنڑی اور پرتگےزی زبان مےں طباعت ہوتی تھی اخبار بمبئی کورےر کا اجرا ہوا تو ابتدا”اسی مطبع سے حلےہ ¿ طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوتا تھا اس کے بعد ۰۸۷۱ءمےں رستم جی کارے ساجی کے مطبع کا سراغ ملتا ہے جس کے بارے مےں مدےر بمبئی ٹائمز کا بےان ہے کہ:
”اےک دےسی دوست نے ہم کو کچھ اخبارات کے اصل نسخے بھےجے ہےں جوبمبئی کی ابتدائی تارےخ کی عکاسی کرتے ہےں حالانکہ ےہ زےادہ اہم تو نہےںلےکن اس قابل ضرور معلوم ہوتے ہےں کہ ان کو محفوظ رکھا جائے۔ان مےں پہلا کلنڈر برائے سال خداوند (عےسیٰ مسےح)۰۸۷۱ءمطبوعہ بازاررستم کارے ساجی ،قےمت دو روپئے ہے۔ےہ ۴۳ صفحات پر پھےلی چھپائی پر مشتمل ہے۔ےہ مضبوط سرکاری وزےری (فل اسکےپ)کاغذ پر چھپاہے جو اپنے واٹر مارک اور انھےں تارےخوں کے منسلکہ سرکاری خطوط سے پہچانا جاتا ہے۔۱
ڈبلو۔اےس۔کوپر نے ۵۲جون ۰۹۷۱ءکو بمبئی گزٹ جاری کےا ۔۲ ےہ ہفتہ وار اخبار تھا اور چالےس روپئے سالانہ قےمت مقرر تھی۔اس مےں بمبئی کی تجارتی اور تفرےحی خبروں کے علاوہ ڈچ اور پرتگالی نوآبادےات کی خبرےں بھی درج ہوتی تھےں ۔اس کے علاوہ خلےج فارس،جزےرہ آرتوز اور مالابار کے ساحلی علاقوں سے لے کر کےپ کےمرون تک دےسی شہروں کی خبرےں بھی شائع کی جاتی تھےں اگرچہ اخبار کمپنی کا مطےع ومنقاداور وفادار تھا مگر اےک مرتبہ پولےس پر نکتہ چےنی کے باعث معرضِ خطرمےں آےا اور سنسر کا شکار ہوگےا۔
بمبئی گزٹ کے بعد دوسرا اخبار بمبئی ہےرلڈ کے نام سے ۳۱جولائی ۰۹۷۱ءکو جاری ہوا ۳ اور تےسرا بمبئی کورےر(Bombay Courier)کے نام سے منصہ شہود پرآےا اس کے مالک ڈگلس نکلسن(Dougles Nichalson)اور مدےر لک آش برنر (Luke Ash Burner)تھے اس کے بعد ۱۹۷۱ءمےں بمبئی آبزرور کے نام سے اےک اور ہفتہ وار اخبار جاری ہوا:

”بمبئی کی اولےن مطبوعہ کتاب جو ہےرس انسٹی ٹےوٹ آف ہسٹری اےنڈ کلچر بمبئی مےں محفوظ ہے ۳۹۷۱ءمےں حسب ذےل عنوان سے طبع ہوکر شائع ہوئی:
Remarks and occurance of Henry Baker during his imprisonment of two years and a help in the domains of Tipu Sultan fromwhere he made his escape.
”مسٹر ہنری بےکر کے واقعات کا بےان جو انھےں ٹےپوسلطان کی حکومت مےں ڈھائی سال کی قےد اور فرار کے دوران پےش آئے“
اس کتاب کے مقدمہ مےں خصوصےت سے اس امرکی وضاحت کی گئی ہے کہ ےہ بمبئی سے طبع ہونے والی سب سے پہلی کتاب ہے۔

آغاز کار مےں بمبئی کورےر رستم جی کےشاپتی کے مطبع مےں طبع ہوکر شائع ہوتا تھا لےکن جب حالات نے مساعدت کی تو جی جی بھائی بہرام جی نگرانی مےں ذاتی مطبع جاری کےا کورےر پرےس اپنے حسن انتظام اور صحت طباعت کے باعث ہم عصر مطابع پر فوقےت رکھتا تھا اس لئے کئی سال تک سرکاری کاغذات اور اشتہارات کی طباعت پر اس کا تصرف اور اجارہ رہا۔انجام کار جلد ہی مراٹھی اور گجراتی حروف کے ٹائپ کی ضرورت محسوس ہوئی تو جی جی بھائی بہرام جی نے گجراتی ٹائپ تےار کرلےا اور گجراتی حروف مےں پہلا اشتہار بمبئی کورےر مورخہ ۹۲ جنوری ۷۹۷۱ءکے شمارے مےں طبع ہوکر شائع ہوا اور پہلی گجراتی کتاب (ترجمہ:ژند اوستا)اسی مطبع سے چھپ کر منظر عام پرآئی۔

کلکتہ:
بنگال مےں اےسٹ انڈےا کمپنی کے سےاسی اقتدار نے فرنگےوں کو مقامی زبان کی تحصےل کی طرف متوجہ کےا ،انہوں نے نہ صرف مقامی زبانوں کے حصول پر کامل توجہ صرف کی بلکہ اس کے قواعد اور لغات بھی مرتب کیے اور طباعت و اشاعت کا بھی مناسب انتظام کےا چنانچہ بنگالی زبان اور بنگالی رسم الخط کی سب سے پہلی کتاب”بنگالی زبان کے قواعد“سولفہ نےتھےنل براسے ہال ہےڈ ۸۷۷۱ءمےں ہگلی سے طبع ہوکر شائع ہوئی۔
مذکورہ قواعد کے بعد جےمس اگسٹس ہکّی نے جنوری ۰۸۷۱ءمےں اپنا ذاتی مطبع قائم کےا اور اسی مطبع سے ہکےنز بنگال گزٹ ےا کلکتہ جنرل اےڈورٹاےزر کے نام سے ۹۲جنوری ۰۸۷۱ءکو ہفتہ وار اخبار جاری کےا۔ہکّی کے پے درپے حملوں سے مجبور ہوکر حزب مخالف نے اےک پرےس کی بنےاد ڈالی اور نومبر ۰۸۷۱ءمےں انڈےا گزٹ کے نام سے اےک ہفتہ وار اخبار جاری کےا ۴ مارچ ۴۸۷۱ءکو بنگال گزٹ منصہ شہود پرآےا ےہ بھی صاحب مطبع تھا اور اس کے مالک ومدےرفرانسس گلےڈون فارسی کے مستند عالم تھے اس کے بعد تو دےکھتے ہی دےکھتے بنگال طباعت کا بڑا مرکز بن گےا اور اٹھاروےں صدی کے اواخر تک ےکے بعد دےگرے متعدد مطابع جاری ہوئے اور ان سے متعدد اخبارات اور رسائل کا اجرا بھی ہوا۔
۱۔اےشےا ٹک مسےلےنی اےنڈ بنگال رجسٹر ۵۸۷۱ء(سہ ماہی رسالہ)۔۲۔بنگال جرنل فروری ۵۸۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔۳۔اورےنٹل مےگزےن اپرےل۵۸۷۱ء(ماہانہ رسالہ)۔ ۴۔اےشےاٹک رےسرچ ۸۸۷۱ء(رسالہ)۔۵۔بنگال ہرکارو ۵۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔ ۶۔اےشےاٹک مرر ۹۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔۷۔مارننگ پوسٹ ۹۹۷۱ء(ہفتہ وار اخبار)۔ ۸۔ٹےلی گراف ۰۹۷۱ئ(ہفتہ وار اخبار)۔۹۔اورےنٹل اسٹار ۹۹۷۱ئ(ہفتہ وار اخبار)۔
مدراس:
مدراس مےں فن طباعت کاآغاز اےک سےاسی حادثے سے منسلک ہے،کےوں کہ جب ۱۶۷۱ءمےں سرابرکورٹ نے فرانسےسےوں سے پانڈےچےری فتح کےا تو مال غنےمت مےں اےک پرےس اور ٹائپ بھی ہاتھ آئے لےکن فورٹ سےنٹ جارج کے متوسلےن مےں سے اےک فرد بھی اس فن سے واقف نہےں تھا اس لیے سارا سازو سامان مشہور تامل عالم فےبرےسس مقےم وپےری کواس شرط پر حوالے کےا گےا کہ اگر مسقبل مےں کسی وقت کمپنی کو کچھ طبع کرانا ہوگا تو موصوف ےہ کام انجام دےں گے فےبرےسس نے اسی مطبع سے اولاََاےک دعا کی کتاب شائع کی اس کے بعد ۲۸۷۱ءمےں تامل انگرےزی اور انگرےزی تامل لغات شائع کیے۔

Asli Jan

Articles

اصلی جن

سعادت حسن منٹو

لکھنؤ کے پہلے دنوں کی یاد نواب نوازش علی اللہ کو پیارے ہوئے تو ان کی اکلوتی لڑکی کی عمر زیادہ سے زیادہ آٹھ برس تھی۔ اکہرے جسم کی ، بڑی دُبلی پتلی ، نازک ، پتلے پتلے نقشوں والی۔ گڑیا سی۔ نام اس کا فرخندہ تھا۔

اُس کو اپنے والد کی موت کا دُکھ ہوا۔ مگر عمر ایسی تھی کہ بہت جلد بھول گئی۔ لیکن اُس کو اپنے دُکھ کا شدید احساس اُس وقت ہوا جب اُس کو میٹھا برس لگا اور اُس کی ماں نے اُس کا باہر آنا جانا قطعی طور پر بند کر دیا اور اس پر کڑے پردے کی پابندی عائد کر دی۔ اس کو اب ہر وقت گھر کی چار دیواری میں رہنا پڑتا۔ اُس کا کوئی بھائی تھا نہ بہن۔ اکثر تنہائی میں روتی اور خدا سے یہ گلہ کرتی کہ اُس نے بھائی سے اسے کیوں محروم رکھا اور پھر اس کا ابا میاں اُس سے کیوں چھین لیا۔

ماں سے اُس کو محبت تھی ٗ مگر ہر وقت اُس کے پاس بیٹھی وہ کوئی تسکین محسوس نہیں کرتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کوئی اور ہو جس کے وجود سے اُس کی زندگی کی یک آہنگی دُور ہو سکے۔

وہ ہر وقت اُکتائی اُکتائی سی رہتی۔ اب اُس کو اٹھارواں برس لگ رہا تھا۔ سالگرہ میں دس بارہ روز باقی تھے کہ پڑوس کا مکان جو کچھ دیر سے خالی پڑا تھا پنجابیوں کے ایک خاندان نے کرائے پر اُٹھا لیا۔ اُن کے آٹھ لڑکے تھے اور ایک لڑکی۔ آٹھ لڑکوں میں سے دو بیا ہے جا چکے تھے۔ باقی اسکول اور کالج میں پڑھتے تھے۔ لڑکی ان چھیوں سے ایک برس بڑی تھی۔ بڑی تنومند ٗ ہٹی کٹی ٗ اپنی عمر سے دو اڑھائی برس زیادہ ہی دکھائی دیتی تھی۔ انٹرنس پاس کر چکی تھی اُس کے بعد اس کے والدین نے یہ مناسب نہ سمجھا تھا کہ اسے مزید تعلیم دی جائے۔ معلوم نہیں کیوں؟

اُس لڑکی کا نام نسیمہ تھا۔ لیکن اپنے نام کی رعایت سے وہ نرم و نازک اور سست رفتار نہیں تھی۔ اُس میں بلا کی پھرتی اور گرمی تھی فرخندہ کو اُس مہین مہین مونچھوں والی لڑکی نے کوٹھے پر سے دیکھا، جب کہ وہ بے حد اُکتا کر کوئی ناول پڑھنے کی کوشش کرنا چاہتی تھی۔

دونوں کوٹھے ساتھ ساتھ تھے چنانچہ چند جملوں ہی میں دونوں متعارف ہوگئیں۔

فرخندہ کو اُس کی شکل و صورت پہلی نظر میں قطعاً پر کشش معلوم نہ ہوئی لیکن جب اُس سے تھوڑی دیر گفتگو ہوئی تو اُسے اس کا ہر خدو خال پسند آیا۔ موٹے موٹے نقشوں والی تھی، جیسے کوئی جوان لڑکا ہے۔ جس کی مسیں بھیگ رہی ہیں۔ بڑی صحت مند بھرے بھرے ہاتھ پاؤں۔ کشادہ سینہ مگر اُبھاروں سے بہت حد تک خالی۔ فرخندہ کو اُس کے بالائی لب پر مہین مہین بالوں کا غبار خاص طور پر بہت پسند آیا۔ چنانچہ ان میں فوراً دوستی ہوگئی۔

نسیمہ نے اس کے ہاتھ میں کتاب دیکھی تو پوچھا ’’ یہ ناول کیسا ہے ؟‘‘

فرخندہ نے کہا ’’ بڑا ذلیل قسم کا ہے ایسے ہی مل گیا تھا۔ میں تنہائی سے گھبرا گئی تھی۔ سوچا کہ چند صفحے پڑھ لُوں۔‘‘

نسیمہ نے یہ ناول فرخندہ سے لیا واقعی بڑا گھٹیا سا تھا۔ مگر اس نے رات کو بہت دیر جاگ کر پڑھا۔ صبح نوکر کے ہاتھ فرخندہ کو واپس بھیج دیا۔ وہ ابھی تک تنہائی محسوس کر رہی تھی اور کوئی کام نہیں تھا۔ اس لیے اس نے سوچا کہ چلو چند اوراق دیکھ لوں۔ کتاب کھولی تو اس میں سے ایک رقعہ نکلا جو اس کے نام تھا۔ یہ نسیمہ کا لکھا ہوا تھا۔

اسے پڑھتے ہوئے فرخندہ کے تن بدن میں کپکپیاں دوڑتی رہیں۔ فوراً کوٹھے پر گئی۔ نسیمہ نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ اسے بُلانا چاہے تو اینٹ جو منڈیر سے اکھڑی ہوئی تھی زور زور سے کسی اور اینٹ کے ساتھ بجا دیا کرے۔ وہ فوراً آ جائے گی۔

فرخندہ نے اینٹ بجائی تو نسیمہ سچ مچ ایک منٹ میں کوٹھے پر آگئی۔ شاید وہ اپنے رقعے کے جواب کا انتظار کررہی تھی آتے ہی وہ چار ساڑھے چار فٹ کی کی منڈیر پر مردانہ انداز میں چڑھی اور دوسری طرف کود کر فرخندہ سے لپٹ گئی اور چٹ سے اس کے ہونٹوں کا طول بوسہ لے لیا۔

فرخندہ بہت خوش ہوئی۔ دیر تک دونوں گل مل کے باتیں کرتی رہیں۔ نسیمہ اب اُسے اور زیادہ خوبصورت دکھائی دی۔ اس کی ہر ادا جو مردانہ طرز کی تھی اسے بے حد پسند آئی اور وہیں فیصلہ ہوگیا کہ وہ تادم آخر سہیلیاں بنی رہیں گی۔

سالگرہ کا دن آیا تو فرخندہ نے اپنی ماں سے اجازت طلب کی کہ وہ اپنی ہمسائی کو جو اس کی سہیلی بن چکی ہے بُلا سکتی ہے اس نے اپنے ٹھیٹ لکھنوی انداز میں کہا ’’ کوئی مضائقہ نہیں ‘‘ بلا لو لیکن وہ مجھے پسند نہیں۔ میں نے دیکھا ہے لونڈوں کی طرح کد کڑے لگاتی رہتی ہے۔ ‘‘

فرخندہ نے وکالت کی ’’ نہیں امی جان وہ تو بہت اچھی ہے۔ جب ملتی ہے بڑے اخلاق سے پیش آتی ہے‘‘

نواب صاحب کی بیگم نے کہا ’’ ہوگا ، مگر بھئی مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں لڑکیوں کی کوئی نزاکت نہیں۔ لیکن تم اصرار کرتی ہو تو بلا لو۔ لیکن اس سے زیادہ ربط نہیں ہونا چاہیے۔

فرخندہ اپنی ماں کے پاس تخت پر بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھ سے سروتالے کر چھالیا کاٹنے لگی۔ ’’ لیکن امی جان ہم دونوں تو قسم کھا چکی ہیں کہ ساری عمر سہیلیاں رہیں گی انسان کو اپنے وعدے سے کبھی پھرنا نہیں چاہیے‘‘

بیگم صاحبہ اصول کی پکی تھیں اس لیے انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور صرف یہ کہہ کر خاموش ہو گئیں ’’ تم جانو مجھے کچھ معلوم نہیں ‘‘

سالگرہ کے دن نسیمہ آئی۔ اس کی قمیص دھاری دار پوپلین کی تھی۔ چست پائجامہ جس میں سے اس کی مضبوط پنڈلیاں اپنی تمام مضبوطی دکھا رہی تھیں۔ فرخندہ کو وہ اس لباس میں بہت پیاری لگی۔ چنانچہ اس نے اپنی تمام نسوانی نزاکتوں کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور اس سے چند ناز نخرے بھی کیے۔ مثال کے طور پر جب میز پر چائے آئی تو اُس نے خود بنا کر نسیمہ کو پیش کی۔ اُس نے کہا ’’ میں نہیں پیتی ، تو فرخندہ رونے لگی۔ بسکٹ اپنے دانتوں سے توڑا تو اُس کو مجبور کیا کہ وہ اس کا بقایا حصہ کھائے۔ سموسہ منہ میں رکھا تو اس سے کہا کہ وہ آدھا اس کے منہ کے ساتھ منہ لگا کر کھائے۔

ایک آدھ مرتبہ معمولی معمولی باتوں پر لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی ، مگر فرخندہ خوش تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ نسیمہ ہر روز آئے۔ وہ اس سے چہل کرے اور ایسی نرم و نازک لڑائیاں ہوتی رہیں جن سے اس کی ٹھہرے پانی ایسی زندگی میں چند لہریں پیدا ہوتی رہیں۔ لہریں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔

اور ان میں فرخندہ اور نسیمہ دونوں لہرانے لگیں۔ اب فرخندہ نے بھی اپنی امی سے اجازت لے کر نسیمہ کے گھر جانا شروع کر دیا۔ دونوں اُس کمرے میں جو نسیمہ کا تھا دروازے بند کر کے گھنٹوں بیٹھی رہتیں۔ جانے کیا باتیں کرتی تھیں؟

اُن کی محبت اتنی شدت اختیار کر گئی کہ فرخندہ جب کوئی چیز خریدتی تو نسیمہ کا ضرور خیال رکھتی۔ اس کی اُمی اس کے خلاف تھی۔ چونکہ اکلوتی تھی اس لیے وہ اسے رنجیدہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دولت کافی تھی اس لیے کیا فرق پڑتا تھا کہ ایک کے بجائے دو قمیصوں کے لیے کپڑا خرید لیا جائے۔ فرخندہ کی دس شلواروں کے لیے سفید ساٹن لی تو نسیمہ کے لیے پانچ شلواروں کے لیے لٹھا لے لیا جائے۔

نسیمہ کو ریشمی ملبوس پسند نہیں تھے۔ اُس کو سوتی کپڑے پہننے کی عادت تھی۔ وہ فرخندہ سے یہ تمام چیزیں لیتی مگر شکریہ ادا کرنے کی ضرورت محسوس نہ کرتی۔ صرف مسکرا دیتی اور یہ تحفے تحائف وصول کر کے فرخندہ کو اپنی بانھوں کی مضبوط گرفت میں بھینچ لیتی اور اس سے کہتی ’’ میرے ماں باپ غریب ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو میں تمہارے خوبصورت بالوں میں ہر روز اپنے ہاتھوں سے سونے کی کنگھی کرتی۔ تمہاری سینڈلیں چاندی کی ہوتیں۔ تمہارے غسل کے لیے معطر پانی ہوتا۔ تمہاری بانھوں میں میری بانھیں ہوتیں اور ہم جنت کی تمام منزلیں طے کر کے دوزخ کے دہانے تک پہنچ جاتے۔ ‘‘

معلوم نہیں وہ جنت سے جہنم تک کیوں پہنچنا چاہتی تھی۔ وہ جب بھی فردوس کا ذکر کرتی تو دوزخ کا ذکر ضرور آتا۔ فرخندہ کو شروع شروع میں تھوڑی سی حیرت اس کے متعلق ضرور ہوئی مگر بعد میں جب وہ نسیمہ سے گھل مل گئی تو اس نے محسوس کیا کہ ان دونوں میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ سردی سے نکل اگر آدمی گرمی میں جائے تو اُسے ہر لحاظ سے راحت ملتی ہے اور فرخندہ کو یہ حاصل ہوتی تھی۔ ان کی دوستی دن بدن زیادہ استوار ہوتی گئی بلکہ یوں کہیے کہ بڑی شدت اختیار کر گئی جو نواب نوازش علی مرحوم کی بیگم کو بہت کھلتی تھی۔ بعض اوقات وہ یہ محسوس کرتی کہ نسیمہ اس کی موت ہے۔ لیکن یہ احساس اس کو باوقار معلوم نہ ہوتا۔

فرخندہ اب زیادہ تر نسیمہ ہی کے پاس رہتی۔ صبح اٹھ کر کوٹھے پر جاتی۔ نسیمہ اُسے اُٹھا کر منڈیر کے اُس طرف لے جاتی اور دونوں کمرے میں بند گھنٹوں جانے کن باتوں میں مشغول رہتیں۔

فرخندہ کی دو سہیلیاں اور بھی تھیں ٗ بڑی مردار قسم کی۔ یو پی کی رہنے والی تھیں۔ جسم چھیچھڑا سا۔ دو پلی ٹوپیاں سی معلوم ہوتی تھیں۔ پھونک مارو تو اُڑ جائیں۔

نسیمہ سے تعارف ہونے سے پہلے یہ دونوں اُس کی جان و جگر تھیں مگر اب فرخندہ کو ان سے کوئی لگاؤ نہیں رہا تھا۔ بلکہ چاہتی تھی کہ وہ نہ آیا کریں اس لیے کہ ان میں کوئی جان نہیں تھی۔ نسیمہ کے مقابلے میں وہ ننھی ننھی چوہیاں تھیں جو کُترنا بھی نہیں جانتیں۔

ایک بار اُسے مجبوراً اپنی ماں کے ساتھ کراچی جانا پڑا وہ بھی فوری طور پر نسیمہ گھر میں موجود نہیں تھی اُس کا فرخندہ کو بہت افسوس ہوا۔ چنانچہ کراچی پہنچتے ہی اس نے اُس کو ایک طویل معذرت نامہ لکھا۔ اُس سے پہلے وہ تار بھیج چکی تھی۔ اس نے خط میں سارے حالات درج کر دئیے اور لکھا کہ تمہارے بغیر میری زندگی یہاں بے کیف ہے۔ کاش تم بھی میرے ساتھ آتیں۔

اس کی والدہ کو کراچی میں بہت کام تھے۔ مگر اُس نے اُسے کچھ بھی نہ کرنے دیا۔ دن میں کم از کم سو مرتبہ کہتی ’’ میں اُداس ہوگئی ہوں۔ یہ بھی کوئی شہروں میں شہر ہے۔ یہاں کا پانی پی کر میرا ہاضمہ خراب ہوگیا ہے اپنا کام جلدی ختم کیجیے اور چلیے لاہور‘‘

نواب نوازش علی کی بیگم نے سارے کام ادھورے چھوڑے اور واپس چلنے پر رضا مند ہوگئی۔ مگر اب فرخندہ نے کہا ’’ جانا ہے تو ذرا شاپنگ کر لیں یہاں کپڑا اور دوسری چیزیں سستی اور اچھی ملتی ہیں‘‘

شاپنگ ہوئی۔ فرخندہ نے اپنی سہیلی نسیمہ کے دس سلیکس کے لیے بہترین ڈیزائن کا کپڑا خریدا۔ واکنگ شُو لیے۔ ایک گھڑی خریدی جو نسیمہ کی چوڑی کلائی کے لیے مناسب و موزوں تھی ماں خاموش رہی کہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔

کراچی سے لاہور پہنچی تو سفر کی تھکان کے باوجود فوراً نسیمہ سے ملی مگر اُس کا منہ سوجھا ہوا تھا۔ سخت ناراض تھی کہ وہ اس سے ملے بغیر چلی گئی۔ فرخندہ نے بڑی معافیاں مانگیں۔ ہر سطح سے اُس کی دلجوئی کی مگر وہ راضی نہ ہوئی اس پر فرخندہ نے زارو قطار رونا شروع کر دیا اور نسیمہ سے کہا کہ اگر وہ اسی طرح ناراض رہی تو وہ کچھ کھا کر مر جائے گی۔ اس کا فوری اثر ہوا اور نسیمہ نے اس کو اپنے مضبوط بازوؤں میں سمیت لیا اور اُس کو چومنے پچکارنے لگی۔

دیر تک دونوں سہیلیاں کمرہ بند کر کے بیٹھی پیار محبت کی باتیں کرتی رہیں۔ اس دن کے بعد ان کی دوستی اور زیادہ مضبوط ہوگئی۔ مگر فرخندہ کی ماں نے محسوس کیا کہ اس کی اکلوتی بیٹی کی صحت دن بدن خراب ہو رہی ہے۔ چنانچہ اُس نے اُس کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرخندہ پر ہسٹیریا ایسے دورے پڑنے لگے۔

بیگم صاحبہ نے اپنی جان پہچان والی عورتوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا کہ لڑکی کو آسیب ہوگیا ہے۔ دوسرے لفظو ں میں کوئی جن اس پر عاشق ہے جو اُس کو نہیں چھوڑتا۔ چنانچہ فوراً ٹونے ٹوٹکے کیے گئے۔ جھاڑ پھونک کرنے والے بُلائے گئے۔ تعویز گنڈے ہوئے مگر بے سود۔

فرخندہ کی حالت دن بدن غیر ہوتی گئی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ عارضہ کیا ہے۔ دن بدن دبلی ہو رہی تھی۔ کبھی گھنٹوں خاموش رہتی۔ کبھی زور زور سے چلانا شروع کر دیتی اور اپنی سہیلی نسیمہ کو یاد کر کے پہروں آنسو بہاتی۔

اس کی ماں جو زیادہ ضعیف الاعتقاد نہیں تھی۔ اپنی جان پہچان کی عورتوں کی اس بات پر یقین ہوا کہ لڑکی پر کوئی جن عاشق ہے۔ اس لیے کہ فرخندہ عشق و محبت کی بہت زیادہ باتیں کرتی تھی اور بڑے ٹھنڈے ٹھنڈے سانس بھرتی تھی۔

ایک مرتبہ پھر کوشش کی گئی۔ بڑی دُور دُور سے جھاڑنے والے بُلائے گئے دوا دارو بھی کیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ فرخندہ بار بار التجا کرتی کہ اُس کی سہیلی نسیمہ کو بُلایا جائے مگر اس کی ماں ٹالتی رہی۔

آخر ایک روز فرخندہ کی حالت بہت بگڑ گئی۔ گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کی والدہ جو کبھی باہر نہیں نکلی تھی برقعہ اوڑھ کر ایک ہمسائی کے ہاں گئی اور اس سے کہا کہ کچھ کرے۔ دونوں بھاگم بھاگ فرخندہ کے کمرے میں پہنچیں مگر وہ موجود نہیں تھی۔

نواب نوازش علی مرحوم کی بیگم نے چیخنا چلانا اور دیوانہ وار ’’ فرخندہ بیٹی ، فرخندہ بیٹی ‘‘ کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ سارا گھر چھان مارا مگر وہ نہ ملی اس پر وہ اپنے بال نوچنے لگی۔ ہمسائی نے اس کے ہاتھ پکڑ لیے مگر وہ برابر واویلا کرتی رہی۔

فرخندہ نیم دیوانگی کے عالم میں اوپر کوٹھے پر کھڑی تھی۔ اس نے منڈیر کی اکھڑی ہوئی اینٹ اُٹھائی اور زور زور سے اُسے دوسری اینٹ کے ساتھ بجایا۔

کوئی نہ آیا۔

اُس نے پھر اینٹ کو دوسری اینٹ کے ساتھ ٹکرایا۔ چند لمحات کے بعد ایک خوبصورت نوجوان جو نسیمہ کے چھ کنوارے بھائیوں میں سے سب سے بڑا تھا اور برساتی میں بیٹھا بی اے کے امتحان کی تیار کررہا تھا باہر نکلا اس نے دیکھا منڈیر کے اس طرف ایک دبلی پتی نازک اندام لڑکی کھڑی ہے۔ بڑی پریشان حال بال کھلے ہیں۔ ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں۔

آنکھوں میں سینکڑوں زخمی اُمنگیں سمٹی ہیں۔

قریب آ کر اس نے فرخندہ سے پوچھا ’’ کسے بُلا رہی ہیں آپ ‘‘

فرخندہ نے اُس نوجوان کو بڑے گہرے اور دلچسپ غور سے دیکھا ’’ میں نسیمہ کو بلا رہی تھی ‘‘

نوجوان نے صرف اتنا کہا ’’ اوہ چلو آؤ !‘‘ اور یہ کہہ کر منڈیر کے اُس طرف سے ہلکی پھلکی فرخندہ کو اُٹھایا اور برساتی میں لے گیا جہاں وہ امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔

دُوسرے دن جن غائب ہوگیا۔ فرخندہ بالکل ٹھیک تھی۔ اگلے مہینے اُس کی شادی نسیمہ کے اُس بھائی سے ہوگئی جس میں نسیمہ شریک نہ ہوئی۔

سعادت حسن منٹو

۲۶ مئی ۱۹۵۴ء

Naseer and Khadeeja

Articles

نصیر اور خدیجہ

علامہ راشد الخیری

شاباش بھائی نصیر شاباش ! چھوٹی بہن مرکے چھوٹی۔بڑی بہن کو جیتے جی چھوڑا۔ غضب خدا کا تین تین چار چار مہینے گزر جائیں اور تم کو دو حروف لکھنے کی توفیق نہ ہو ۔ حفیظ کے نکاح میں ۔ وہ بھی چچی جان کی زبانی معلوم ہوا کہ ملتان کی بدلی ہوگئی ۔ و ہ دن اور آ ج کا دن خیر صلّاح کیسی یہ بھی خبر نہیں کہ لاہور میں ہو یا ملتان میں نصیر میاں ! بہن بھائیوں کا رشتہ تو بڑی محبت کا ہوتاہے ۔ ایسی کون سی پانچ سات بہنیں بیٹھیں ہیں جو دل بھر گیا ۔ دور کیوں جاﺅ بھائی سلیم ہی کو دیکھ لو ایک چھوڑدو بہنیں ساتھ ہیں اور کس طرح؟گھربار کی مختار ۔ اندر باہر کی مالک سیاہ کریں ، چاہے سفید ۔ نہ بھائی کی اتنی مجال کہ دم مارسکے ، نہ بھاﺅج کی اتنی طاقت کہ ہوں کر سکے ۔ کسی کو دیکھ کر تو سیکھاکرو ۔ ایک وہ بھائی بہنوں کوآنکھوں پر بٹھایا ، بھانجا بھانجی کی شادیاں کیں ۔ بھانجوں کو پڑھا لکھاکر نوکرکرایا ۔ ایک تم بھائی ہو کس کا بھانجہ اور کیسی بہن ۔ چاہے کوئی مرے یا جیئے تمہاری بلا سے ۔ خدا کا شکرہے ، میں تو تمہاری روپیہ پیسہ کی بھوکی نہیں خالی محبت اور میٹھی زبان کی خواستگار ہوں ۔ جو کہیں خدانخواستہ تمہارے در پر آکر پڑتی تو کُتّے کے ٹھیکرے میں پانی پلوادیتے آخر میں بھی سنوں خطاقصور وجہ سبب۔ کچھ تو بتاﺅ ایسی لاپروائی بھی کس کام کی ، اچھے سے غرض نہ بُرے سے مطلب ۔ بہن کے تم نہیں بھائی کے تم نہیں ۔ صادقہ مرتے مرگئی اور تمہاری صورت دیکھنی نصیب نہ ہوئی ۔ امّا رہیں نہیں ، ابّا اُدھر چلے گئے ، میں اس قابل نہیں ، بڑے بھائی اس لائق نہیں ۔ اب تمہارا دلّی میں کون بیٹھا ہے جس کو خط لکھو۔ تم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو ایک سرے سے سب کو عاق کردوں۔ ابّا کا حج کو جانا اور اونگتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوگیا ۔ بہن اور بھائی ماموں اور ممانی سب کو بالائے طاق رکھا۔ چچا لاپرواہ چچی خطا وار ۔ بھائی خود غرض ، بہن گنہگار ، غرض کنبے کا کنبہ اور خاندان کا خاندان چھوٹے اور بڑے ، بڈھے اور جوان ، مرد اور عورت ،بوڑھا اور بچہ ایک بھی اچھا نہیں ۔ محبت نہیں مروّت ہی سہی ۔ بال بچوں کا ساتھ رکھنا گناہ نہیں ہے‘ دنیا جہان میں ہوتی آئی ہے مگر یہ اندھیرا کہیں نہیں دیکھا کہ الگ گھر کرتے ہی سب کو دھتا بتائی ۔ امّا کا مرنا ہماری تو مٹی پلید ہوئی مگر تم کو عید ہوگئی ۔ شفقت محبت پہلے ہی رخصت ہوچکی تھی ۔ جو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا۔ اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے۔ الٰہی تمہارے بچوں کی ہزاری عمر ہو ۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھواب سے دوراگلے برس ذرا ظہیر کو بخار ہوگیا تھا ۔ کیسے گھبرائے گھبرائے پھرتے تھے ۔ تم کو آٹھ برس کے بچے کی یہ کچھ مامتا تھی ۔امّا کو تمہاری کتنی ہوگی ؟ نصیر میاں دنیا کے جھگڑے تو ہمیشہ ہی رہیں گے ۔ بال بچے شادی بیاہ سب ہی کچھ ہوگا ۔ اب امّاں تمہاری صورت دیکھنے نہیں آئیں گی ۔

صادقہ کے بچوں کو اماں اپنی زندگی تک کلیجہ سے لگائے رہیں ‘ ان کا مرنا تماکہ تینوں کی مٹی ویران ہوگئی ۔ پرسوں دونوں لڑکے بسم اللہ کا حصہ لے کرآئے تھے ۔ میں باہر کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی رضائی ٹانک رہی تھی ۔ چھوٹا آکرگلے سے لپٹ گیا۔ کچھ خون کا جوش تھا کہ اس کی صورت دیکھتے ہی میری طبیعت بھر آئی ۔ غلاموں کی بھی حالت اچھی ہوگی جیسی ان بچوں کی تھی ۔ پھٹا ہوا کرتہ ٹوٹی ہوئی جوتی ،پاجامہ چکٹ ، ٹوپی چوہا ،بدن پہ سیروں میل، آنکھوں میں الغاروں چپڑان بچوں کو دیکھ کر مجھ کو وہ دن یادآگیا کہ جب تک دونوں کی الخالقین نہ آگئیں ۔صادقہ رابعہ کی چوتھی میں نہ گئی ۔ دیکھ لو تین چار ہی برس کے اندر اندر ۔ کیا کیا ہوگیا ۔ بُرا نہ ماننا تم قیامت تک بھی اپنے بچوں کو اس طرح نہ پالوگے جس طرح صادقہ اپنے بچوں کو پال گئی ۔ خدا کی قسم بھری ہوئی عطر کی شییاں کھڑے کھڑے حمید نے غارت کی ہیں تقدیر کی خبر نہ تھی کہ صادقہ کی اولاد یوں برباد ہوگی ۔ میں نے دیکھا نہیں مگر دادا جان ذکر کیا کرتے تھے کہ غدرسے پہلے اس مکان پر ہاتھی جھولتا تھا ۔ آج جاکردیکھوبے کُنڈی کا ایک کواڑچڑھا ہواہے او رچکنی مٹی کی ایک دیوار چنی ہوئی ہے ۔بڑے نواب کی آنکھ کا بند ہونا تھاکہ گھر بھر میں جھاڑوپھر گئی ۔ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے مسعود کے بیاہ میں صادقہ کی ساس کو گنگا جمنی پنکھے جھلے جارہے تھے ۔ لونڈیا اور مامائیں گوندنی کی طرح زیور میں لدی ہوئی تھیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا زمانہ پلٹا کہ آج پانی پینے کا کٹورہ بھی نہ رہا۔مٹکے میں آٹا برکت ،بقچی میں کپڑے اللہ کا نام ۔ بدن میں طاقت نہیں ، ہاتھ پاﺅں میں سکت نہیں ۔چلنے پھرنے سے مجبور ، دیکھنے سے معذور آنکھیں تھیں تو ایک آدھ کرتہ دو ایک ٹوپیاں کرکرالیتی تھیں۔اب تو اتنی بھی نہیں پڑوس کا حق سمجھو خدا کا خوف جانو،ہاتھ پاﺅں کی خیرات کہو چچی جان تین روپیہ مہینہ دیتی ہیں ۔ بس یہ کل کائنات ہے ۔ اس میں کیا آپ کھائیں کیا بچوں کو کھلائیں ۔ تین روپیہ چاردم ، ایک لڑکی کا ساتھ ، کیا کریں کیا نہ کریں ۔تین روپیہ مہینہ کا توسوکھا اناج چاہئے ۔ جو جو کچھ لکھا تھا سب ہی کچھ کرچکیں ۔ چکّیاں پیسیں، سلائیاں کیں ، ہاں اتنی بات رہ گئی کہ دَر دَرہاتھ نہیں پھیلایا ۔

صادقہ کے بچے کسی غیر کے بچے نہیں ہیں ۔ مری ہوئی بہن کی نشانی ہیں۔شاباش تمہاری ہمت پردیس میں بیٹھے راج کرو اور صادقہ کے بچے دو دو دانے کو محتاج ہوں۔دلّی میں آکردیکھو شہر میں کیا نام بدنام ہورہاہے آخربرس میں دو برس میں اپنے ہاں کی نہیں سسرال کی شادیوں میں تو آﺅ گے سب کو یاد ہے کہ اللہ رکھو لڑکی کا بیاہ سرپر آرہاہے یا یہ بھی وہیں کرلو گے ؟ اپنے پرائے ، کنبہ ،محلہ ،میل ملاپ، جان پہچان تمام دنیا جنم میں تھوک رہی ہے ۔ کس کا منہ کیلوگے؟
بڑے بھائی اس لائق ہوتے تو تم سے کہنے کی ضرورت نہ تھی ۔ بے چارے آپ ہی اپنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ نوکری چھوٹی ، چوری ہوئی ، مقدمہ ہارے ۔ چار روپیہ مکان کے آجاتے تھے ۔ وہ بھی نہ رہے ۔ اندر کا دالان ہوا ہوہی رہا تھا ایک ہی چھینٹے میں اُڑ اُڑ کرآن پڑا ۔ اس کے ساتھ ہی لمبی کوٹھری بھی بیٹھی گئی ۔ اتنا بھی پاس نہیں کہ اینٹیں اورملبہ تو ہٹوادیں ۔ چارسوروپیہ کے قرضدار بیٹھے ہیں ۔
ایک لے دے کر منجھلی خالہ رہ گئی ہیں ۔ وہ اکیلی کیا کیا کریں ۔ صادقہ کے بچوںکو پالیں ‘ بڑی بہو کی ٹہل کریں ، اپنے گھر کو دیکھیں ، جس کا نہ کریں اسی سے بُری ، روپیہ پیسہ کے قابل نہیں ،ہاتھ پاﺅں سے باہرنہیں ، جس کے ہاں ضرورت دیکھتی ہیں آموجود ہوتی ہیں ۔ کہنے کو جس کا جو جی چاہے کہہ لو ۔ خلق کا
حلق تھوڑی بند ہوسکتاہے ۔

ماموں اور باپ میں فرق نہیں ہوتا۔ مگر سمجھو تو ۔ نہ سمجھو تو بھانجا بھانجی تو خیر اپنی اولاد بھی غیر ہے ۔ خدا گواہ ہے میری تواگر جان تک کام آجائے تو دریغ نہیں۔اپنے بچے کم اور صادقہ کے بچے زیادہ ۔ مگر ذرا عقل سے کام لو ، ساری دنیا میں بدنام ہوں ، مَری ہوئی ہڈیاں اکھڑواﺅں ، امّا باوا کی ناک کٹواﺅں ،دادی داد ا تک کو پُنواﺅں ، جب ان کے ساتھ رکھنے کا نام لوں ۔ میں خود پرائے بس میں ہوں ۔ شہر کا معاملہ سسرال کی بات ، ساس نندوں کا ساتھ ہروقت کی جھِک جھِک، رات دن کی پِٹ پِٹ ، کنبے بھر میں ذلیل ہو۔ عمر بھر کے لئے مٹی پلید کرنی ،گھروں میں لڑائیاں ڈالنی ، دلوں میں فرق ڈالنے کس خدا نے بتائے ہیں ۔ امّاجان تو پہلے ہی فرماتی ہیں کہ میکے کا بھرنا بھرتی ہے ۔ بچوں کو رکھ لوں تو زندگی ہی دوبر ہوجائے ۔ تم کوماشاءاللہ اسّی روپیہ ملتے ہیں ۔دومیاں بیوی دو بچے کل چار دم ۔ اسّی روپیہ کیا کم ہیں ۔ بُرا مانو یا بھلا ، جس طرح ہوسکے صادقہ کے بچوں کو پانچ روپیہ مہینہ دو ۔ یہ روپیہ رائیگاں نہیں جائے گا، یہاں نیک نام وہاں سُرخرو ۔ نصیر میاں حق داروں کا حق سمجھو اللہ برکت دے گا ۔پھلوگے پھولوگے ، دنیا کی بہاردیکھو گے ، روزگار میں ترقی ہوگی ۔ ان بچوں کو غیر نہ سمجھو ظہیر اور حمید میں فرق نہیں ہے ۔بھائی بہن کی اولاد ایک ہوتی ہے۔ یہ بیچارے بھی کیا یاد کریں گے کہ کوئی ماموں تھا۔
دلہن بیگم کو بہت بہت دعائ۔ بچوں کو پیار ۔ اب تو ماشاءاللہ بچی پاﺅں پاﺅں چلتی ہوگی ۔ اچھا خداحافظ

<

Adab me insani Dosti ka Tasawwur

Articles

ادب میں انسان دوستی کا تصور

پروفیسر شمیم حنفی

بیسویں صدی تاریخ کی سب سے زیادہ پُر تشدد صدی تھی۔اکیسویں صدی کے شانوں پر اسی روایت کا بوجھ ہے۔جسمانی تشدد سے قطع نظر ،بیسویں صدی نے انسان کو تشدد کے نت نئے راستوں پر لگا دیا۔تہذیبی ،لسانی ،سیاسی ،جذباتی تشدد کے کیسے کیسے مظہر اس صدی کی تہہ سے نمودار ہوئے۔حد تو یہ ہے کہ اس صدی کی اجتماعی زندگی کے عام اسالیب تک تشدد کی گرفت سے بچ نہ سکے ۔اس عہد کی رفتار، اس کی آواز،اس کے آہنگ اور فکر ، ہر سطح پر تشدد کے آثار نمایاں ہیں۔میلان کنڈیرا کا خیال ہے کہ یہ صدی دھیمے پن (Slowness)کا جادو سرے سے گنوا بیٹھی ہے۔
آرٹ اور ادب کا انکھوا خاموشی اور تنہائی اور دھیمے پن کی شاخِ زرّیں سے پھوٹتا ہے اور ہر بڑی تخلیقی روایت کا ظہور فن کا رانہ ضبط اور ٹھہراؤ اور تحمل کی تہہ سے ہوتا ہے۔ایک بے قابو اور بے لگام معاشرے میں جو اپنی رفتار ،اپنی آواز، اپنے اعصاب اور حواس کو سنبھالنے کی طاقت سے محروم ہوچکا ہو، آرٹ اور ادب ایک طرح کے دفاعی مورچے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اس مذاکرے کا موضوع ،اپنے آپ میں،ہمارے زمانے ،ہماری اجتماعی زندگی کے لیے ایک سوالیہ نشان اور ایک سندیسے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔اس Hyper-mercantileعہد میں آرٹ اور ادب اور فلسفہ تاریخ کے حاشیے پر چلے گئے ہیں۔تخلیقی سرگرمی ایک فالتو یا بے ضرر اور بے اثر سرگرمی بن چکی ہے ،کہیں ادب میں انسان دوستی کا تصور صرف ایک آزمایشی تصور تو نہیں ہے؟

لیکن اس موضوع کے ساتھ ،کچھ اور سوچنے سے پہلے ،میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کی کوئی ادبی روایت انسان دشمن بھی ہوسکتی ہے؟اور کسی بھی زمانے یا زبان کا ادیب ،انسان دوستی کے ایک گہرے احساس کے بغیر کیا اپنے حقیقی منصب کی ادائیگی کرسکتا ہے؟
آندرے مالرو نے کہا تھا:اگر ہمیں فکر کا ایک گہرا ،بامعنی ،مثبت اور انسانی زاویہ اختیار کرنا ہے تو لامحالہ ہمیں دو باتوں پر انحصار کرنا ہوگا ایک تو یہ کہ زندگی بالآخر ہمارے اندر ایک طرح کا المیاتی احساس پیدا کرتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی تمام فکری اور مادّی کامرانیوں کے باوجود یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔دسرے یہ کہ ہمیں بہرحال انسان دوستی کے تصور کا سہارا لینا ہوگا کیونکہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم نے اپنا سفر کہاں سے شروع کیا تھا اور ہم بالآخر کہاں پہنچنا چاہتے ہیں۔گویا کہ انسان دوستی کا احساس تخلیقی تجربے کی بنیاد میں شامل ہے ۔خاص طور پر مشرق کی ادبی روایت تو اپنی تاریخ کے کسی دور میں صرف زبان و بیان کی خوبیوں کی پابند نہیں رہی۔ہر زمانے میں یہاں بلند تہذیبی اور اخلاقی قدریں بڑی شاعری کے لیے ضروری سمجھی جاتی رہیں ۔مغربی تہذیب کی بنیادیں اور اس تہذیب کا پروردہ تصور حقیقت مختلف سہی لیکن مشرق و مغرب کی ادبی ثقافت میںبہت کچھ مشترق بھی ہے۔فورسٹر نے ایک سیدھی سادی بات یہ کہی تھی کہ ادب اور آرٹ ہمیں جانوروں سے الگ کرتے ہیں اور طرح طرح کی مخلوقات سے بھری ہوئی اس دنیا میں ہمارے لیے ایک بنیادی وجہ امتیاز پیدا کرتے ہیں۔یہی امتیاز ادب اور آرٹ کو اس لائق بناتا ہے کہ اسے اس کی خاطر پیدا کیا جائے۔فورسٹر نے اسی ضمن میں یہ بھی کہا تھا کہ ایک ایسی دنیا جو ادب اور آرٹ سے خالی ہو میرے لیے ناقابل قبول ہے اور مجھے اس دنیا میں اپنے دن گزارنے کا کوئی طلب نہیں ہے۔گویا کہ انسانی تعلقات کے احساس اور سروکاروں کے بغیر آرٹ ،ادب اور زندگی سبھی بے معنی اور کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔

سائنسی اور سماجی علوم کے برعکس ،ادبی روایات کی پائداری اور استحکام کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ انسانی تجربے کے جن عناصر سے یہ روایتیں مالا مال ہوتی ہیں ،وہ نئی دریافتوں اور نئے نظریات کے چلن کی وجہ سے کبھی ناکارہ نہیں ہونے پاتیں۔بہت محدود سطح پر سہی لیکن ادب اور آرٹ کی روایتیں اجتماعی زندگی کے ارتقا میں اپنا رول ادا کرتی رہتی ہیں۔بہ قول ایلیٹ ،ایک انوکھا اتحاد انسانی تاریخ کے مختلف زمانوں سے تعلق رکھنے والی روحوں کو ایک صف میں یکجا کردیتا ہے ۔بظاہر اجنبی اور پرانی آوازوں میں نئے انسان کو اپنی روح کا نغمہ بھی سنائی دیتا ہے۔رومی اور حافظ اور شیکسپیئر اور غالب اور اقبال اور ٹیگور ایک ساتھ صف بستہ ہوجاتے ہیں۔

لیکن یہاں تاریخی اعتبار سے ادب میں انسان دوستی کے تصور پر گفتگو سے پہلے ہمارے اپنے عہد کے سیاق میں انسان دوستی کے مضمرات پر کچھ معروضات پیش کرنا ضروری ہے۔ہمارے دور میں بد قسمتی سے انسان دوستی نے ایک نعرے کی حیثیت بھی اختیار کرلی ہے۔اقوام متحدہ کی عمارت کے باب داخلہ پر شیخ سعدی کا یہ مصرعہ کہ’’بنی آدم اعضائے یکِ دیگر اند‘‘اسے رویے کا پتا دیتا ہے ۔اس کے علاوہ اپنے مقبول عام مفہوم اور مسلّمہ اوصاف کے باوجود انسان دوستی ہمارے زمانے میں خسارے کا سودا بھی بن چکی ہے۔اور نوآبادیاتی(کولونیل) مقاصد میں یقین رکھنے والوں یا نسل پرستانہ عزائم اختیار کرنے والوں نے انسان دوستی کے تصور کو ایک سیاسی حربے،ایک آلہ کار کے طور پر بھی استعمال کیا ہے۔عراق، افغانستان اور فلسطین کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

اصل میں تاریخ کی ایک اپنی مابعد الطبیعیات بھی ہوتی ہے اور مختلف ادوار یا انسانی صورت حال کے مختلف دائروں میں معروف اصطلاحات کے معنی بھی بدل جاتے ہیں۔انسان دوستی کے تصور کی بھی کئی سطحیں ہیں،مذہبی ،سماجی، سیاسی۔ادب میں انسان دوستی کا تصور ان میں سے کسی بھی سطح کا تابع نہیں ہوسکتا۔سیاسی،سماجی،مذہبی نظام کے تحت انسان دوستی کا تصور کسی نہ کسی مرحلے میں ایک طرح کی براہ راست یا بالواسطہ مصلحت کا شکار بھی ہوسکتا ہے جہاں اسے وہ آزادی، وہ کھلا پن ہر گز میسر نہ آسکے گا جس تک رسائی صرف ادب کے واسطے سے ممکن ہو سکتی ہے۔اسی طرح کولونیل عہد کی انسان دوستی اور پوسٹ کولونیل عہد کی انسان دوستی کا خمیر بھی یکساں نہیں ہوسکتا۔ادب اور آرٹ کی دنیا میں انسان دوستی کی روایت بہرحال کچھ سیکولر قدروں کی ترجمان ہوتی ہے۔ادب ہمیں بتاتا ہے کہ انسان کی روحانی طلب صرف مرئی ،ٹھوس اور مادّی چیزوں تک محدود نہیں ہوتی۔ادب ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انسان ایسی چیزیں سمجھنا چاہتا ہے جو بہ ظاہر کام کی نہیں ہوتیں اور جن سے روز مرہ زندگی میں ہماری کسی ضرورت کی تکمیل ممکن نہیں،مثلاََ فلسفہ اور نفسیات ۔اور انسان اظہار کی ایسی ہیئتیں بھی وضع کرنا چاہتا ہے ،ایسی ’’چیزیں‘‘بنانا چاہتا ہے کو مبہم ،مرموز اور منطق سے ماوارہوتی ہیں ،مثلاََ ادب اور آرٹ۔بجائے خود ادب ایک طرح کا باطنی اور روحانی تشدد بھی ہے جو بہ قول ویلیس اسٹیونس (Wallaes Stevenes)خارجی دنیا میں واقع ہونے والے تشدد سے مزاحم ہوتا ہے اور ہمیں اس کی گرفت سے بچائے رکھتا ہے۔کامیو کے ایک سوانح نگار نے اسے انسان دوستی یا انسانی (ہمدردی) کے جذبوں کی سیاست سے تعبیر کیا ہے اور اس سلسلے میں کامیو کی ان تقریروں کا حوالہ دیا ہے جن میں کامیو نے ۱۹۵۷ء کے دوران اس واقعے پر بار بار زور دیا تھا کہ ہمارا عہد انقلابی قدروں کے انحطاط اور ابتذال کا عہد ہے۔لیکن یہ انحطاط و ابتذال انقلابی قدروں کے بازیابی میں ہمارے یقین کو کمزور نہیں کرسکتا اور ہم ان اقدار سے بے نیازی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اپنے سوانح نگار فلپ تھوڈی(Philip Thody)کی اطلاع کے مطابق اس وقت کامیو کی تمام ذہنی سرگرمیوں کا نقطئہ ارتکازاس کا انسان دوستی کا تصور تھا اور انسانی المیوں اور اذیتوں کا شدید احساس۔اس وقت کامیو نے کسی سیاسی تحریک میں شمولیت کے بغیر ادبی اور ادب کے انسانی سروکاروں پر جس طرح زور دیا تھا اس سے ایک سیاسی جہت بھی خود بخود نمودار ہوجاتی ہیں۔کامیوں کی انسانی ہمدردیاں اور ترجیحات اس وقت بالکل واضح تھیں اور ان سے اس کے موقف کی صاف نشاندہی ہوتی تھی۔کامیو ہر طرح کی نظریاتی اور فکری مطلقیت کا مخالف تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ مطلقیت یا منصوبہ بند اور متعین مقاصد جن انسانی آلام کو آسان کرنے کے مدعی ہیں ان میں کوئی بھی انسانی الم بجائے خود مطلقیت سے بڑا اور اس سے زیادہ مہلک نہیں ہے۔یعنی کے ضابطہ بند عقیدے (مذہب)،نظریے(آئیڈیالوجی)،علوم(سائنس)کی روشنی میں مرتب کیا جانے والا انسان دوستی کا کوئی بھی تصور کامیو کے تصور سے مناسبت نہیں رکھتا اور ان میں سے کوئی بھی اس پر پیچ اور کشادہ انسانی احساس اور اس لازوال تجربے کی احاطہ بندی کا اہل نہیں ہے جس کی نمود ادب اور آرٹ کی زمین پر ہوتی ہے،اسی طرح جیسے آرٹ اور ادب کی خاموش سرگرمی سے پیدا ہونے والا اخلاق،رسمی اور روایتی اخلاق سے مختلف ہوتا ہے،بہ قول شخصے ادب بجائے خود اخلاق سے زیادہ با اخلاق شے ہے یا یہ کہ (More moral than morality itself)۔فراق نے کہا تھا:

خشک اعمال کے اوسر سے اگا کب اخلاق
یہ تو نخل لب دریائے معاصی ہے فراق

ایک ادیب اور آرٹسٹ جس انسانی سروکار اوراخلاقی ملال کے ساتھ اپنی تخلیقات وضع کرتا ہے،اس کا مفہوم صرف مروجہ سماجی ضابطوں اور معیاروں کی مدد ست متعین نہیں کیا جاسکتا۔گہری انسانی دوستی کا تصور ادیب یا آرٹسٹ کی اپنی تخلیقی آزادی کے شعور سے پیدا ہوتا ہے ایسی صورت میں کہ اس کے دل و دماغ پر کسی بیرونی جبر کا دباؤ نہ ہو۔وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنے آپ کو آزاد محسوس کرے ،وہ اپنی بات کسی مصلحت ،کسی خوف ،اندیشے یا لالچ کہ بغیر کہہ سکے۔کسی پارٹی لائن یا کسی منظم منصوبہ بند نظریے، کسی ادارے کے احکامات کی بجاآوری اور تخلیقی آزادی یاضمیر کی آزادی کا اظہار ایک ساتھ ہمیشہ ممکن نہیں ہوسکتا ،تاوقتیکہ ادیب اپنی صلاحیتوں کو ،احساسات کو اور اپنے ہی تصور کی طرح ،انسانی ہمدردی کے تصور کو بھی دوسروں کا مطیع وماتحت نہ بنا دے۔معاشرے میں ادیب اورآرٹسٹ کے رول کی وضاحت کرتے ہوئے کامیونے کہا تھا کہ صرف مزاحمت یا تصادم سے اعلاادب نہیں پیدا ہوتا۔بلکہ اعلیٰ ادب ہمارے اندر مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے اور اقتدار سے دودوہاتھ کرنے کی استعداد پیدا کرتا ہے۔ایڈورڈ سعید نے انسان دوستی کے تصور کی تشکیل اور تحفظ کے لیے ریڈیکل ازم(Radicalism)اور اقتدار کے تیئں آزادانہ تنقید کے رویے کو ناگزیر بتایا تھا ۔اور کامیو نے اپنی نوبیل انعام کی تقریر (1957ء)کے دوران کہا تھا:
’’بہ طور ایک فرد میں اپنے آرٹ کے بغیر نہیں رہ سکتا۔لیکن میں نے کبھی بھی اپنے آرٹ کو زندگی کی دوسری تمام اشیا سے برتر نہیں سمجھا۔اس کے برعکس ،آرٹ میرے لیے اتنا ناگزیر اس لیے ہے کہ یہ مجھے کسی سے بھی الگ نہیں ہونے دیتا اور مجھ میں یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ اپنی بساط کے مطابق (اپنے آرٹ کی مدد سے)خود کو دوسروں کی سطح پرلاسکوں۔میرے لیے آرٹ (کی تخلیق)تنہائی کا جشن نہیں ہے میرے لیے یہ انسانوں کی بڑی سے بڑی تعداد کے لیے،اپنے مشترکہ دکھ اور سکھ کی ایک استثنائی شبیہ کے واسطے سے ،ان کے دلوں کو چھو لینے کا وسیلہ ہے۔‘‘
ادب اور آرٹ میں ایسی تمام استثنائی شبیہیں ،ہجوم کے سُر میں سُر ملانے سے نہیں بلکہ تخلیق کرنے والی روح کے سناٹے ،اس کی مقدس تنہائی اور خاموشی کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ادیب کے لیے اس کی وضع کردہ یہ شبیہیں ،عام انسانی مقدرات کی نقاب کشائی کا ایک ذریعہ بھی ہیں۔وہ کسی طرح کے فکری ،نظریاتی ،سماجی،مذہبی جبر کی پرواہ کیے بغیر اپنے احساسات پروارد ہونے والی تخلیقی سچائیوں کو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو عمومیت زدہ مسئلوں اور عامیانہ باتوں میں ضائع نہ کرے اور اپنی پوری توجہ ادب یا آرٹ پر مرکوز رکھے۔اپنی تخلیقی سرگرمی کا سودا نہ کرے اور ہر قیمت پر فن کی حرمت اور فن کی تشکیل کے عمل کی حفاظت کرے۔عام مقبولیت کے پھیر میں نہ پڑے ۔ایسی باتیں نہ کہے جن کا مقصد سب کوخوش کرناہو۔اسے اپنی ترجیحات کاپتہ ہونا چاہیے۔روزمرہ کی سیاست اور سمجھوتوں سے بچنا چاہیے اور اس وقت جب سچ کو خطرہ لاحق ہو،اس کی حفاظت کے لیے کھل کر سامنے آجانا چاہیے یا پھر اپنے اخلاقی ملال اور احتجاج کوسامنے لانے کا ایک طریقہ جو بظاہر تجریدی ہے،ایک لمبی گہری خاموشی کے طور پر رونما ہوتاہے __بقول منیر نیازی

’’اس ک بعد ایک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شور!‘‘
ہماری اجتماعی تاریخ میں 1857ء کے ہنگاموں کے بعد کی فضا میں غالب کا شاعری سے تقریباََدست کش ہوجانا اسی قسم کی ایک صورت حال کاپتہ دیتا ہے۔1857ء کے آس پاس کے ماحول میں تخلیقی اظہار سے زیادہ ایک واضح میلاں اور سطح رکھنے والی علمی اور کاروباری نثر،یا پھر صریحاََمقصدی اور افادی پہلو رکھنے والی جدید نظم سے بڑھتا ہوا عام شغف،انجمن پنجاب کا قیام ،نئی نظم کا وہ منشور جو آزاد نے ایل کیکچر کے طور پر پیش کیا تھا(1874ء)یا پھر 1893ء میں مقدمہ شعری وشاعری کی اشاعت اور کلاسیکی ادبی اصناف کی کھلی ہوئی بے توقیری کا سلسلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمام واقعات ایسے ہی مقبول اور مروّج رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔غالب اس وقت ہماری مجموعی تخلیقی روایت کے اوصاف اور محاسن کے سب سے بڑے ترجمان تھے۔لیکن افادیت اور مقصد کے شور بے اماں میں ان کی شاعری اس دور میں پس پشت جا پڑی تھی۔ظاہر ہے کہ کوئی بھی سیاسی اور سماجی نظام ،اس نظام کی پروردہ کوئی بھی بوطیقا ہر شاعرکو تو غالب نہیں بنا سکتی۔اسی طرح ،جیسے کہ بہ قول پاؤنڈ،کوئی بھی بیرونی ہدایت ہر نقشہ نویس کو پکا سو کے اوصاف سے آراستہ نہیں کرسکتی۔الجیریائی مسئلے کے حل کے لیے 1958ء کے دوران کامیو نے عملی سیاست سے اپنے آپ کو جو لا تعلق رکھا تو اسی لیے کہ اسے بہ حیثیت ادیب اپنے حدود کا اور اس دور کے ہنگامہ خیز ماحول میں ادیب کی خاموشی سے رونما ہونے والے موقف کا اندازہ اپنے سرگرم معاصرین کی بہ نسبت شاید زیادہ تھا۔کامیو کی حادثاتی موت کے بعد اپنے تعزیتی مضمون میںسار تر نے لکھا تھا(1960ء)۔۔۔۔۔۔۔
’’بعد کے ان برسوں میں اس کی خاموشی کا بھی ایک مثبت پہلو تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مہملیت زدہ (لغو) ماحول کے اس کارتیسی (Cartesian)نمائندے نے اپنی اخلاقیت کی مخصوص روش کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور ایک غیر یقینی راستے کو، جو علمی سرگرمی کا تقاضی تھا،ہر گز اختیار نہ کیا۔ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ (کامیو کے)اس رویے کا سبب ہم جانتے ہیں اور اس کشمکش کو بھی سمجھ سکتے ہیں جسے کامیو نے چھپا رکھاتھا۔کیونکہ اگر ہم اخلاقیت اور صرف اخلاقیت کا تجزیہ کریں تو یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بیک وقت بغاوت کا مطالبہ بھی کرتی ہے اور اس کی(بے اثری کے باعث)مزمت بھی کرتی ہے۔‘‘

خود کامیو نے یہ بات کہی تھی کہ’’معدودے چند لوگ اس سچائی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ انکا ر کا ایک طریقہ وہ بھی ہوتا ہے جو ترک یا تیاگ کا مفہوم نہیں رکھتا ۔‘‘کامیو کے انتقال (1960ء) سے تقریباََ نو برس پہلے لکھے جانے والے مضمون میں (اشاعت نیویارک ٹائمز میگزین،16دسمبر 1951ء) برٹرینڈرسل نے دس ایسے نکات کی نشاندہی کی تھی جنھیں انسانی سروکار پر مبنی ایک ذاتی منشور کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔اس نے کہا تھا

۱۔کوئی بھی حقیقت مطلق نہیںہے۔
۲۔سچائی کو چھپانا نامناسب ہے کیونکہ سچائی بالآخر سامنے آہی جاتی ہے۔
۳۔ہر مسئلے پر آزادانہ فکرضروری ہے اور صحیح نتیجے تک پہنچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔
۴۔اختلافات پر قابو پانے کے لیے زور زبردستی سے کام لینا غلط ہے۔طاقت پر مبنی کامیابی موہوم ہوتی ہے۔
۵۔کوئی بھی مرکز اقتدار اس لائق نہیں کہ اس کی پروا کی جائے۔
۶۔کسی بھی زاویہ نظر کو پسپا کرنے کی جدوجہد فضول ہے اور اس معاملے میں طاقت کا استعمال یکسر غلط ہے۔
۷۔اپنے خیالات اور راویوں کے منحرف المرکز ہونے یا سنکی کہے جانے سے نہ ڈرو۔ہر خیال جسے اب قبول
کیا جا چکا ہے ،کبھی غلط یا منحرف المرکز بھی سمجھا گیا تھا۔
۸۔مجہول اقرار کی بہ نسبت سوچا سمجھا انکار زیادہ با معنی ہے۔
۹۔سچائی کا راستہ چاہے جتنا دشوار ہو ،اس کو ترک کرنا تکلیف اور شرمندگی کا باعث ہوگا۔
۱۰۔ایسوں کی مسرت پرحسد نہ کرو جو احمقوں کی جنت میں بستے ہیں ۔صرف احمق ہی یہ سمجھے گا کہ یہ دنیا یا دور
ہمیں مسرت دے سکتا ہے۔

برٹر ینڈرسل نے ا پنے اس مضمون کو’’اعادئیت کا بہترین جواب،رواداری‘‘کا عنوان دیا تھا اور اسے انفرادیت کے تحفظ اور ذہنی آزادی کے ایک منشور کی سی شکل دی تھی۔یہاں یہ غلط فہمی پیدا ہوسکتی ہے کہ ذہنی آزادی اور مزاحمت سے متعلق جو باتیں پچھلے چند صفحوں میں کہی گئی ہیں ان کا تعلق تخلیقی ادب یا آرٹ سے کم اور سماجی فکر یا موجودہ عہد میں دانشوری کے مضمرات سے زیادہ ہے۔اس ضمن میرے معروضات مختصراََیہ ہیں کہ ایک تو کوئی بھی تخلیقی سرگرمی ایک فعال ذہنی عنصر اور دفاعی عمل کے بغیر نہ تو شروع ہوتی ہے نہ جاری رہ سکتی ہے۔آرٹ اور ادب کا ایسا ایک بھی نمونہ پیدا کرنا یا ڈھونڈنکالنا مشکل ہے جس کو کسی نہ کسی تصور کی تائید حاصل نہ ہو،ٹرسٹن زارا کا وہ تاریخی مضمون جسے داداازم کے دستور العمل کی حیثیت حاصل ہے اور جسے ڈبلیو،وارین ویگرے نے بیسویں صدی کی انسانی صورت حال کے تناظر میں ’انسان‘ عقیدت اور سائنس‘‘کی ایک سہ رخی اصولی اور نظریاتی کشمکش کے طور پر پیش کیا تھا،اس سے میرے اس معروضے کی تصدیق ہوتی ہے۔یہی واقعہ انیسویں صدی کے اوآخر سے لے کر ہمارے اپنے زمانے تک رونما ہونے والی تمام ادبی اور تخلیقی تھیوریز کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔رومانیت، اظہاریت، تاثریت، حقیقت پسندی،ماورائے حقیقت پسندی،مکعبیت،تجریدیت کے مظاہر ادب اور آرٹ کے تمام شعبوں میں اپنی اپنی مخصوص فکری اساس اور استدلال کے ساتھ رونما ہوئے۔اس کے علاوہ دوسری اہم بات اس ضمن میں یہ ہے کہ روشن خیالی اور عقلیت کی صدیوں کے ساتھ ،جنھیں ہم ہندوستان کی تاریخ کے سیاق میں جدید نشاط ثانیہ کی تشکیل کا دور کہتے ہیں،آرٹ اور ادب کی سطح پر منظم سوش بچار کا ایک مستقل سلسلہ جاری رہا ہے،ملکی اور عالمی دونوں سطحوں پر۔لہٰذا ادب اور آرٹ میں انسان دوستی کا تصور بھی چودھویں پندرہویں صدی کی اطالوی نشاۃ ثانیہ کے سایے میں ایک نئے فکری دستور العمل کے طور پر ظہور پذیر ہوا اور اس کے عالم گیر اثرات سے ادب اورآرٹ کی کوئی بھی روایت لا تعلق نہ رہ سکی۔ایک تاریخی جائزے پر مبنی اطلاع کے مطابق انسان دوستی کی اصطلاح تو 1808ء میں ایک جرمن معلم(F.J Niethemmer) نے وضع کی تھی۔اور اس کا مقصد ایک ایسے مطالعاتی پروگرام کی وضاحت اور منصوبہ بندی تھی جو سائنسی اور ٹیکنولوجیکل تعلیمی پروگراموںسے الگ اپنا تشخص قائم کر سکے۔لیکن انسانی علوم کے سیاق میں اور اس طرح ادب اورآرٹ کے حوالے سے،انسان دوستی کا تصور چودہویں اور پندرہویں صدی عیسوی کے دوران با ضابطہ طور پر رواج پا چکا تھا اور علوم کے اس دائرے میں جسے Studia humanitatisیا انسانی مطالعات کا نام دیا گیا،یہ تصور نامانوس اور اجنبی نہیں تھا۔دوسرے الفاظ ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہر علمی،ادبی، تہذیبی،تخلیقی روایت کے مرکز میں انسان دوستی کے عنصر کو ایک بنیادی محرک کی حیثیت حاصل رہی ہے۔یہ صحیح ہے کہ اس تصور کو ایک تحریک کی شکل نشاۃ ثانیہ کی مغربی روایت نے دی۔آرٹ، ادب اور علوم کی دنیا میں اس تحریک کا مقصد انسانی وقار کی بحالی اور عہد وسطیٰ کے ظلمت کدے سے انسانی شرف اور فضیلت کے تصور کو نجات دلانا بھی تھا۔علاوہ ازیں،اس تحریک ایک اور مقصد کشف اور وجدان پر تعقل کی برتری کا اثبات بھی تھا۔پرانے متون کی بحالی اور ایک نئے لسانی معیار کی تلاش بھی تھا۔شاید اسی لیے ادب اور آرٹ کی دنیا میں کوری تعقل پسندی کے خلاف ردعمل کی صورتیں بھی بہت جلد نمودار ہوئیں اور انسان دوستی کے تصور کو ایک وسیع تر اور پیچیدہ تر سیاق میں دیکھا جانے لگا ۔ادب اور آرٹ کی دنیا میں یہ تصور ہمیں زیادہ لوچ دار، کشادہ اور بسیط اسی لیے دکھائی دیتا ہے کہ یہ ہر طرح کی مذہبی اور نظریاتی مطلقیت کے چنگل سے آزاد ہوتا ہے اور انسان کو اس کی ہستی کے تمام اسرار، اور تضادات اور حدود اور کمزوریوں اور طاقتوں کے ساتھ سمجھنے پر اصرار کرتا ہے۔
ایڈورڈ سعید نے اجتماعی زندگی میں دانشور کے رول اور تنقیدی شعور کی معنوعیت کا تجزیہ کرتے ہوئے (13 دسمبر 1997ء)جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری قبول کرتے وقت اپنے لیکچر میں بعض بنیادی امور کی طرف توجہ دلائی تھی۔انھوں نے کہا تھا کہ علم کی جستجو دراصل انسانی زندگی میں ایک لا مختم تلاش ،ایک مستقل تشکیک کے احساس سے شخصی تعہد کا نام ہے۔کوئی بھی تصور جو ہمیں اپنے ماضی سے ورثے میں ملا ہے یااپنی روایت اور ذہنی تربیت کے نتیجے میں جسے خود ہم نے خلق کیا ہے، اسے عبور کرنا اور اس سے آگے جانے کی ہمت پیدا کرنا ہی صحیح دانشور انہ اقدام ہے۔یہ تو ایک کبھی نہ بجھنے والی پیاس ہے۔جب تک ہماری جرات فکر، تصورات کی عام سطح میں ارتعاش پیدا نہیں کرتی ،پہلے سے معلوم اور مانوس نتیجوں سے آگے نہیں جاتی ،سوچتے رہنے کی اذیت نہیں جھیلتی ،اور اپنی انفرادیت کے دفاع کی خاطر خطرے نہیں اٹھاتی ،ہم سچی دانشوری کے رول کو ادا کرنے سے قاصر رہیں گے ۔آرٹ اور ادب کی تخلیق کرنے والا ہر شخص بھی بہ قول گرامچی ،بنیادی طور پر ایک دانشور ہوتا ہے لیکن ہر دانشور معاشرے میں اپنی دانش کا رول نبھانے کی اہلیت نہیں رکھتا تا وقتیکہ وہ سوال پوچھتے رہنے پر قادریہ ہو، مسلمات سے انکار کا حوصلہ نہ رکھتا ہو،اپنی دنیا میں ایک بیگانے ،ایکOutsiderکی زندگی گزارنے ،اپنے ضمیر کو ہر طرح کے خوف ، مصلحت اور ترغیب سے محفوظ رکھنے کا عادی ہو۔ایڈورڈ سعید کا کہنا تھا کہ دانشور صرف ایک شخص نہیں ہوتا ۔اس کی حیثیت ایک اندازِ نظر ،ایک رویے، اجتماعی زندگی میں طاقت اور توانائی کی ایک لہر کی بھی ہوتی ہے۔روایت اور قومیت کے عامیانہ تصور کا بوجھ ذہنی تخلیقی آزادی اور دانشوری کے راسے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔روایت کو اس حق سے زیادہ دینا اپنی آزادی اور انفرادیت کا سودا کرنا ہے۔

اسی طرح کسی ادیب یا آرٹسٹ کے لیے اپنی سرگرمی کے دائرے کو محدود اور مختص کرلینا یا ادبی اور فنی اقدار کے نام پر ایک مجہول قسم کے جھوٹے پندار اور نخوت پر مبنی حدیں قائم کرلینا بھی اس کے سامنے کچھ مجبوریاں کھڑی کردیتا ہے،جو اس کی تخلیقی سرگرمی اور اس کے مجموعی شعور پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ایڈورڈ سعید نے اپنے لیکچر کے دوران ،ویت نام کی جنگ کے زمانے میں اپنے ایک اہم عصر اور ہم پیشہ دوست سے مکالمے کا تذکرہ کیا۔کسی طالب علم کے اس سوال پر کہ ایک ایسے وقت میں جب شمالی ویتنام، لاؤس اور کمبوڈیا کے بے قصورعوام پر ساٹھ ہزار فٹ کی بلندی سے بمباری ہورہی ہے ،کیا وہ ایک احتجاج عرض داشت پر دستخط کرنا چاہیں گے ،ان کا جواب یہ تھا کہ’’جی نہیں!میں ادب کا پروفیسر ہوں ،میں شیکسپیئر اور ملٹن کے بارے میں لکھتا ہوں ،مجھے اس بمباری سے کیا لینا دینا، اور پھر میں اسے سمجھتا بھی نہیں۔‘‘
ایسا ایک واقعہ حلقۂ ارباب ذوق کے ایک ممتاز شاعر قیوم نظر کے ساتھ آیا تھا جو پیرس میں سارتر سے ملاقات کے متمنی ہوئے۔سارتر کے اس سوال پر کہ الجزائر کے مسئلے پر ان کا موقف کیا ہے؟ان کا جواب یہ تھا کہ ’’میں تو شاعر ہوں ،اس مسئلے سے میرا کیا تعلق ؟‘‘ظاہر ہے کہ سارتر نے ان سے گفتگو اسی نقطے پر منقطع کردی۔

یہ مضحکہ خیز اختصاص جو شعور کے گرد سنگین فیصلیں کھڑی کردے ،اجتماعی زندگی کے لیے کتنا مہلک ہوسکتا ہے اور اس سے انسان شناسی کی کس جہت کا اظہار ہوتا ہے،اس کی بابت کسی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے۔ایڈورڈ سعید کا خیال ہے کہ اس نوکی ذہنی لاتعلقی سے جبر اور استحصال اور بدی ہمنوائی کا ایک پہلو نکلتا ہے جو دانشورانہ طاقت اور دیانت داری کا دشمن ہے۔گویا کہ انسان دشمن ہے۔
اسی لیے دانشورانہ جہت رکھنے والی کسی بھی ادیب یا آرٹسٹ کے لیے ناگزیر ہوجاتا ہے کہ وہ طاقت اور اقتدار کے مراکز سے اپنے آپ کو دور رکھ سکے۔سیاسی مراتب اور مناصب کا طلب گار نہ ہو۔اس طرح کے مناصب شعورکی آزادی کے حریف ہوتے ہیں ۔سعید کے یادگار لفظوں میں:
‘‘I’m not saying that independence in itself is a virtue,because so many times you may be wrong, but if you are notindependent, you cannot even be wrong.’’
سیاسی قدروں کے زوال نے ادب اور آرٹ کی دنیامیں بھی ایک ہولناک درباری کلچر کو فروغ دیا ہے اور ’’ادب اور آرٹ کی یخلیق کا جوکھم اٹھانے والوں ‘‘کے ضمیر کو داغدار کیا ہے۔انعامات، اعزازات ،مناصب،مراعات، ادب اور آرٹ کی ترقی اور نمائندگی کے لیے اوپر سے بجھائے ہوئے راستوں پر اور معینہ مقاصد کے ساتھ دور دراز ملکوں کے دورے، یہ تمام باتیں ادیب اور آرٹسٹ کی بصیرت کے گرد لکیریں کھینچنے والی ہیں،اس کے شعور کو محدود کرنے والی اور ادب یا آرٹ کے مقدس اور پاکیزہ مقاصد سے توجہ ہٹانے والی ہیں۔اس قسم کی مراعات اور سہولتیں قبول کرنے میں ہمیشہ کسی جانے انجانے راستے سے ذہنی غلامی کے درآنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔اور ذہنی غلامی چاہے کسی فرد کی ہو یا ادارے یا نظریے کی، انسانی ضمیر اور تخلیقی اظہار کو ہمیشہ راس نہیں آتی۔آرٹ اور ادب کی دنیا میں اس طرح کے موسم اوع معاملات انسان دوستی کے اس عظیم تصور کو بھی راس نہیں آتے جس کی تعمیر اور ترویج کا قصہ ،تہذیب و تاریخ کی کئی صدیوں سے پھیلا ہوا ہے۔اپنے شعور اور حافظے کی جھٹلا کر ادب اور آرٹ کی بامعنی تخلیق ممکن نہیں اور یہ معنی بہرحال انسان شناسی اور انسان دوستی کے دائرے میں ہی گردش کرتے آئے ہیں۔

اب میں اس مضمون یا اپنی گفتگو کے اختتامی حصے کی طرف آتا ہوں جس کی اساس میں نے منٹو کے’’سیاہ حاشیے‘‘پر قائم کی ہے اور جسے آپ ان معروضات کا حاشیہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔یہاں میرا اشارہ منٹو کی ان تخلیقات کی طرف ہے جنھیں ہم اپنی اجتماعی زندگی کے ایک دلدوز واقعے اور چاہیں تو عام انسانی معاشرے میں اجتماعی دیوانگی کے ایک لمحے کا تخلیقی اشاریہ بھی سمجھ سکتے ہیں ۔یہ اشاریہ ہمیں ادب اور آرٹ میں انسان دوستی کے تصور سے متعلق کچھ بنیادی سوالوں تک لے جاتا ہے۔اس تصور کو ایک نئے مفہوم سے ہمکنار کرتا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کی تمام علاقائی زبانوں کی بہ نسبت 1947ء کی تقسیم ،پھر اس کے نتیجے میں واقع ہونے والی اور انسانی تاریخ کی سطح پر اپنے اجتماعی المیے اور اپنی تعداد کے لحاظ سے شاید سب سے بڑی اور وحشت آثار ہجرت کے تجربے،مزید برآں فسادات اور انسانی درندگی کے واقعات کا احاطہ اردو نظم ونثر ،خاص کر فکشن میں ،بہت غیر معمولی دکھائے دیتا ہے۔ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں تقسیم ، ہجرت اور فسادات کے پس منظر میں مقدار اور معیار،دونوں کے لحاظ سے اردو میں جو فکشن لکھا گیا ،بے مثال ہے۔فکشن کے اس ذخیرے میں اچھی بری ہر طرح کی چیزیں مل جاتی ہیں۔اردو فکشن کی پہلی بڑی نقاد ممتاز شیریں نے فسادات کے ادب پر اپنے ایک معروف مضمون کا آغاز کرسٹو فراشیروڈ کے فکشن کی ایک مثال سے کیا ہے،جس میں ایک انگریز صحافی آسٹریا کے ایک کردار(برگ مین)سے،آسٹریا کی اجتماعی واردات کے سیاسی پہلو کی بات شروع کرتا ہے،تو اپنے ہم وطنوںکے غم میں کھویا ہوا’برگ مین‘ بے تاب ہوکر چیخ اٹھتاہے اور کہتاہے

’’اسے سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ۔اس کا تعلق انسانوں سے ہے، انسانوں سے، انسانی زندگی سے،زندہ حقیقی مردوں اور عورتوں سے، گوشت اور خون سے۔‘‘

منٹونے ہندوستان پاکستان کے بٹوارے اور فسادات کے حوالے سے تقریباََ بیس کہانیاں لکھیں۔ان میں سب سے زیادہ شہرت کھول دو،ٹھنڈاگوشت،موتری،ٹیٹوال کا کتّا،گورمکھ سنگھ کی وصیت،موذیل اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کو ملی ۔ملکی اور غیر ملکی بہت سی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوچکے ہیں۔ان میں سے کچھ پر پاکستان کی عدالتوں میں مقدمے بھی چلے۔ان حالات میں منٹو کے دل و دماغ پر جو کچھ گزرا اس کی تفصیل ہولناک ہے اور فرقہ وارانہ درندگی اور مذہبی جنون سے بوجھل فضا میں ایک انسان دوست ادیب کے موقف کی شاید سب سے انوکھی مثال ہے۔اپنے ایک مضمون یار پورتاژ’’زحمتِ مہرِدرخشاں‘‘ میں منٹو نے اپنی حالت کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:

طبیعت میں اکساہٹ پیدا ہوئی کہ لکھوں۔لیکن جب لکھنے بیٹھا تو دماغ کو منتشر پایا۔کوشش کے باوجودہندوستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو ہندوستان سے علاحدہ نہ کرسکا ۔بار بار دماغ میں الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا۔کیا پاکستان کا ادب،علاحدہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔؟اگر ہوگا تو کیسے ہوگا۔وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا تھا ،اس کا مالک کون ہے؟کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں!

’’فضا پر مردنی طاری تھی۔جس طرح گرمیوں کاآغاز میں آسمان پر بے مقصد اڑتی ہوئی چیلیوں کی چیخیں اداس ہوتی ہیں اسی طرح
’’پاکستان زندہ باد‘‘اور ’’قاعد اعظم زندہ باد‘‘کے نعرے بھی کانوں کو اداس اداس لگتے تھے۔

میں اپنے عزیز دوست احمد ندیم قاسمی سے ملا ۔ساحر لدھیانوی سے ملا۔ان کے علاوہ اور لوگوں سے ملا۔سب میری طرح ذہنی طور
پر مفلوج تھے۔میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ جو اتنا زبردست بھونچال آیا ہے شاید اس کے کچھ جھٹکے آتش فشاں پہاڑ میں اٹکے ہوئے
ہیں۔باہر نکل آئیں تو فضا کی نوک پلک درست ہوگی۔پھر صحیح طور پر معلوم ہوسکے گا کہ صورت حالات کیا ہے۔‘‘
چھوٹے چھوٹے وقوعوں (Happenings)،لطیفوں کی بیرونی پرت رکھنے والے افسانچوں پر مشتمل مجموعہ’’سیاہ حاشیے‘‘کے نام سے اکتوبر 1948ء میں شائع ہوا تھا۔پاکستان میں اقامت اختیار کرنے کے بعد منٹو نے جو پہلی کہانی لکھی ’ٹھنڈا گوشت‘تھی جس پر منٹو سے معاشرتی اور سرکاری دونوں سطحوں پر باز پرس کی گئی۔پاکستان میں لکھا جانے والا دوسرا افسانہ ’کھول دو‘تھا ۔حکومت کے نزدیک یہ افسانہ امن عامہ کے مفاد کے منافی تھا لہٰذا اس کی اشاعت کے جرم میں نقوش کی اشاعت چھے مہینے کے لیے بند کر دی گئی ۔اس وقت تک فسادات ٹھنڈے پڑ چکے تھے اور پاکستانی معاشرے پر ذہنی اعتبار سے تعطل کی ایک کیفیت طاری تھی۔منٹو نے فسادات پر مبنی یہ تمام تخلیقات باہر کی دنیا میں طاری تعطل کی اسی فضا میں وضع کی تھیں،جب وہ اس ساری واردات کو ذرا دور سے دیکھ سکتا تھا،کیونکہ طوفان سر سے گزر چکا تھا اور وہ قدرے غیر جذباتی انداز میں اپنے تجربے کا تجزیہ کرسکتا تھا۔ان تحریروں جو سنگینی اور ایک گہری رچی ہوئی تخلیقی معروضیت کا عنصر ہے وہ اسی صورت حال کا پیدا کردہ ہے۔’’سیاہ حاشیے‘‘پر حاشیہ آرائی کرتے ہوئے محمّد حسن عسکری نے لکھا ہے کہ’’ادب سے ہم اس قسم کے سچ جھوٹ کا مطالبہ نہیں کرتے جو ہم تاریخ، معاشیات یا سیاسیات کی کتابوں سے کرتے ہیں۔ادیب سے ہم کسی نظریے یا خارجی دنیا کے بارے میں سچ بولنے کا اتنا مطالبہ نہیں کرتے جتنا اپنے بارے میں سچ بولنے کا ۔اپنے اندر جو سچ جھوٹ بھرا ہوا ہے اس سے چشم پوشی کرکے سچا ادب پیدا نہیں کیا جاسکتا ۔‘‘اور یہ کہ’’جب تک ہمیں کسی فعل کا انسانی پس منظر معلوم نہ ہو،محض خارجی عمل کا نظارہ ہمارے اندر کوئی دیرپا،ٹھوس اور گہرے معنویت رکھنے والا رد عمل پیدا نہیں کرسکتا۔‘‘ہندوستان میں بھاگلپور کے فسادات کے دوران کہی جانے والی کچھ نظموں کی اپنی کتاب ایک شاعر نے مجھے اس وضاحت کے ساتھ بھیجی کہ’’اس وقت جب شہر جل رہا تھا میں اپنے کمرے میں بیٹھا یہ نظمیں لکھ رہا تھا۔‘‘ظاہر ہے کہ میرا پہلا ردعمل یہی تھا کہ آس پاس آگ لگی ہوتو نظمیں کہنے کے بجائے پہلے اس آگ کوبجھانے کی فکر کرنی چاہیے اور میں نے وہ کتاب بغیر پڑھے رکھ دی تھی۔انسانی سروکاروں پر مبنی تجربے کا با معنی بیان ،انتشار اور تشدد اور ابتری کے ماحول سے نکلنے کے بعد ہی ممکن ہے۔لہٰذا ادب میں انسان دوستی کے مضمرات کا جائزہ لیتے وقت صحافتی یا ہنگامی ادب اور مستحکم یا پائیدار قدروں کے حامل ادب میں فرق کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔جنگ کے زمانے کا ادب،بہ قول آرول،صحافت ہوتی ہے۔آندرے ژید نے کہا تھا ’’ایسا آدمی جو اپنی شخصیت کی خاطر نوع انسانی کا تیاگ کرتا ہے بالآخرایک بوالعجب ،اوٹ پٹانگ اور نامکمل آدمی بن کر رہ جاتا ہے۔‘‘اور ظاہر ہے کہ نامکمل آدمی کسی آفاقی انسانیت صداقت تک نہیںپہنچ سکتا ۔

منٹو کی یہ تخلیقات (ٹھنڈا گوشت،کھول دو، سیاہ حاشیے)، جن کا ذکر اوپر کیا گیا صرف فسادات کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ انسانوں کے بارے میں ہیں۔اس فرق کو سمجھنا یوں ضروری ہے کہ مثال کے طور پر نظریاتی یا مذہبی اساس رکھنے والی جنگیں ،نظریوں اور مذاہب کے مابین ہوتی ہیں،انسانوں کے مابین نہیں ہوتیں کیونکہ بالعوم،مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے انسانوں کے مسئلے بیشتر مشترک ہوتے ہیں ،ایک سے دکھ سکھ ،ایک سی امیدیں اور مایوسیاں ،ایک سے خواب اور ایک سی ہزیمتیں ۔دوسری عالمی جنگ کے دوران کی ہندوستانی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے ممتاز شیریں نے لکھا ہے کہ اس وقت کچھ لوگوں نے ہمارے ادیبوں کی خاموشی اور جنگ سے لاتعلقی پر سوالیہ نشان تو قائم کیا لیکن یہ حقیقت بھلادی کہ’’ہمارے ادیب خاموش صرف اس لیے نہیں تھے کہ ان کے ذہنوں میں شکوک اور الجھنیں تھیں بلکہ اس لیے کہ دوسری جنگ عظیم کرہ ٔ ارض میں لڑی جانے کے باوجود ہندوستان سے دور تھی اور ادیب کے ماڈل ،یعنی انسانی زندگی۔۔۔۔۔۔۔اپنے گردوپیش کی انسانی زندگی میںکوئی ہلچل تو کیا،ایک ہلکے سے تموج کی کیفیت بھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔‘‘

لیکن فسادات تو ہمارے آس پاس کی دنیا میں ہورہے تھے اور ہمارے ادیبوں کے لیے یہ موضوع اجنبی یا نا مانوس نہیںتھا۔تقسیم کے المیے کا جو اثر عام انسانی زندگی پر پڑ رہا تھا اس کی آنچ ہم سب محسوس کر رہے تھے۔اس میں عام اور خاص کا فرق نہ تھااور اس المیے کا بنیادی تقاضا یہ تھا کہ نظریاتی یا مذہبی پوزیشن لینے کے بجائے سیدھی سادی عام انسانی سطح پر اس کے بخشے ہوئے درد کا دراک کیا جائے۔لیکن زیادہ تر افسانے عجلت میں لکھے گئے اور ان میں تخلیقی سطح پر کسی گہرے ردعمل سے زیادہ اظہار ایسے جذبوں کا ہو اجو ہنگامی اور صحافیانہ نوعیت کے حامل تھے۔منٹو اور اس کے ہم عصروں کی کہانیاں ایک ساتھ سامنے رکھی جائیں تو ان کا فرق اور منٹو کا امتیاز سمجھ میں آتا ہے۔اپنے معاصرین کے برعکس ،منٹو نے فارمولا کہانی لکھنے سے گریز کیا۔اس قسم کے مسئلے کہ انگریزی حکومت نے فسادات کا بیج بویا تھایا یہ کہ تقسیم اور ہجرت فسادات کی جڑ ہیںیا یہ کہ ہندو ،سکھ،مسلمان،سب کے سب یکساں طور پر قصور وار ہیںاس لیے اس موضوع پر لکھتے وقت سب کا ساب برابر رکھنا چاہیے،یہ منٹو کے مسئلے نہیں تھے۔منٹو نے تو اجتماعی وحشت اور دیوانگی کے اس ماحول میں ہندومسلمان سے بے نیاز ہوکر انسانوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔اس حقیقت کے باوجود کہ تقسیم کے سانحے کا اثر براہ راست منٹو کی زندگی پر بھی گہرا پڑا،اس نے اپنی حالت اور اس فضا میں اپنے باطن کی زمین پر اٹھنے والے سوالوں کا احاطہ ان لفظوں میں کیا ہے

’’اب میں سوچتا ہوں کہ میں کیا ہوں اس ملک میں جسے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہاجاتاہے، میرا کیا مقام
ہے۔میرا کیا مصروف ہے۔آپ اسے افسانہ کہہ لیجئے۔مگر میرے لیے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ میں ابھی تک خود کو
اپنے ملک میں جسے پاکستان کہتے ہیں اور جو مجھے بہت عزیز ہے،اپنا صحیح مقام تلاش نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ میری
روح بے چین رہتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں کبھی پاگل خانے اور کبھی ہسپتال میں ہوتا ہوں۔‘‘
’’سیاہ حاشیے پر حاشیہ آرائی‘‘کے عنوان سے اظہار خیال کرتے ہوئے محمدحسن عسکری نے ایک بنیادی سچائی کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ منٹو کو ان افسانوں کے اثرات کے بارے میں نہ غلط فہمیاں ہیں،نہ انھوں نے ایسی ذمے داری اپنے سرلی جو ادب پوری کرہی نہیں سکتا۔انھوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی نہ مظلوموں پر آنسو بہائے۔انھوں نے تو یہ تک نہیں کہا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں۔‘‘
ان کا نقطہ نظر نہ سیاسی ہے،نہ عمرانی ،نہ اخلاقی بلکہ ادبی اور تخلیقی ۔منٹو نے صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے۔ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کارفرما ہیں۔انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے،زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں ،منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑکائے ہیں نہ غصے کے نہ نفرت کے وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ ،انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔اگر کوئی جذبہ پیدا کرنے کی فکر میں ہیں تو صرف وہی جذبہ جو ایک فنکارکو جائز طور پر پیدا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی زندگی کے متعلق بے پایاں تحیر اور استعجاب۔فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں۔

ادب میں انسان دوستی کے تصور کی سب سے گہری اور پائدار جہت دراصل اسی زاویے سے نکلتی ہے ۔رقت خیزی یا ترحم یا مثال پرستی کی سطح سے یہ سطح بالکل الگ ہے اور اپنے لازوال انسانی عنصر کے ساتھ ساتھ لکھنے والے کی اپنے حقیقی منصب (یعنی تخلیقی عمل)کے تیئں دیانت داری اور ذمے داری کے احساس کی گواہی بھی دیتی ہے۔میرے خیال میں یہ مناسب ہوگا کہ اس گفتگو کو ختم منٹو کے سیاہ حاشیے کی دو ایک مثالوں کے ساتھ کیا جائے۔

’’چلتی گاڑی روک لی گئی۔جو دوسرے مذہب کے تھے ان کو نکال نکال کر تلواروں اور گولیوں سے ہلاک کردیا گیا۔ اس سے فارغ ہوکر گاڑی کے باقی مسافروں کی حلوے دودھ اور پھلوں سے تواضع کی گئی۔گاڑی چلنے سے پہلے تواضع کرنے والوں کے منتظم نے مسافروں کو مخاطب کرکے کہا:’’بھائیواور بہنو!ہمیں گاڑی کی آمد کی اطلاع بہت دیر میں ملی ۔یہی وجہ ہے کہ ہم جس طرح چاہتے تھے اس طرح آپ کی خدمت نہ کر سکے۔‘‘(کسر نفسی:سیاہ حاشیے)

’’جب حملہ ہوا تو محلے میں سے اقلیت کے کچھ آدمی تو قتل ہوگئے۔جو باقی تھے جانیں بچا کر بھاگ نکلے۔ایک آدمی اور اس کی بیوی البتہ اپنے گھر کے تہہ خانے میں چھپ گئے۔دو دن اور دو راتیں پناہ یافتہ میاں بیوی نے قاتلوں کی متوقع آمد میں گزاردیں ۔مگر کوئی نہ آیا۔چار دن بیت گئے ۔میاں بیوی کو زندگی اور موت سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔وہ دونوں جائے پناہ سے باہر نکل آئے۔خاوند نے بڑی نحیف آواز میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور کہا’’ہم دونوں اپنے آپ کوتمھارے حوالے کرتے ہیں ۔ہمیں مارڈالو۔جن کو متوجہ کیا گیا تھا وہ سوچ میں پڑگئے’’ہمارے دھرم میں تو جیوہیتا پاپ ہے۔‘‘وہ سب جینی تھے لیکن انھوں نے آپس میں مشورہ کیا اور میاں بیوی کو مناسب کاروائی کے لیے دوسرے محلے کے آدمیوں کے سپرد کردیا۔‘‘(مناسب کاروائی:سیاہ حاشیے)

گاڑی رکی ہوئی تھی۔تین بندوقچی ایک ڈبے کے پاس آئے ۔کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انھوں نے مسافروں سے پوچھا’’کیوں جناب!کوئی مرغا ہے۔‘‘ایک مسافر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔باقیوں نے جواب دیا ’’جی نہیں۔‘‘تھوڑی دیر بعد چار نیزہ بردار آئے ۔کھڑکیوں میں سے اندر جھانک کر انھوں نے مسافروں سے پوچھا’’کیوں جناب کوئی مرغا وُرغا ہے؟اس مسافر نے جو پہلے کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا۔ جواب دیا’’بھئی معلوم نہیں ہے!آپ اندر آکے سنڈاس میں دیکھ لیجئے ۔‘‘نیزہ بردار اندر داخل ہوئے۔سنڈاس توڑا گیا تو اس میں سے ایک مرغا نکل آیا۔ایک نیزہ بردار نے کہا’’کردو حلال۔‘‘دوسرے نے کہا ’’نہیں ۔یہاں نہیں !ڈبہ خراب ہوجائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔باہر لے چلو۔‘‘(صفائی پسندی:سیاہ حاشیے)

یہاں ان کہانیوں کی تشریح یا ان تجربات کے سلسلے میں کسی طرح کی وضاحت غیر ضروری ہے۔تاہم اس جملے کے ساتھ میں اب یہ گفتگو ختم کرتا ہوں کہ درداور دہشت سے بھرے ہوئے ان واقعات سے زیادہ درداور دہشت یہاں’’مناسب کاروائی‘‘یا ’’صفائی پسندی‘‘اور کسر نفسی‘‘کے ان تصورات میں چھپی ہوئی ہے، جن کا اظہار متعلقہ کرداروں کی طرف سے ہوا ہے۔انسان دوستی کا زاویہ یہ بھی ہے اور اس زاویے تک رسائی کے لیے منٹو نے صرف اپنی بصیرت کو رونما بنایا ہے۔ہتیا کو پاپ سمجھنے والے’’مناسب کاروائی‘‘کے لیے قاتلوں کا سہارا لے سکتے ہیں اور ایسے لوگ بھی قاتل ہوسکتے ہیں جن میں صفائی اور گندگی کی تمیز باقی ہو۔منٹو نے اپنی انسان دوستی کا مواد،وجود کی اسی بھول بھلیاں میں سے ڈھونڈنکالاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اس کی تلاش،بہرحال ،ایک ادیب کی اور ایک تخلیقی آدمی کی تلاش تھی!یہ تلاش ہمیں بتاتی ہے کہ ادب کا مطالعہ پہلے سے طے شدہ کسی سیاسی ،سماجی یا علمی دستاویز کا نعم البدل نہیں ہوتا۔
nvn

Online Kasyno Vavada

Articles

Online Kasyno Vavada

Kasyno Vavada jest całkiem nowym serwisem, który umożliwia swoim użytkownikom korzystanie z interaktywnego hazardu. Kasyno online traktuje graczy z Polski lojalnie i przyjaźnie, każdy nowy gracz ma możliwość wzięcia udziału w programie bonusowym. Vavada to kasyno, które oferuje szeroki wachlarz rozrywki dla poszukiwaczy szczęścia, uczciwe warunki gry oraz szybkie, klarowne wypłaty.

O kasynie

Oficjalna strona prezentuje się dość barwnie, kasyno Vavada od razu stara się przyciągnąć uwagę łowców fortuny kolorowymi slotami. Rejestracja w serwisie jest zakazana wyłącznie dla użytkowników ze Stanów Zjednoczonych, Włoch, Hiszpanii, Wielkiej Brytanii i Kanady. Graczy z innych krajów, administracja klubu hazardowego zawsze chętnie zobaczy podczas swoich gier. Strona jest w pełni przetłumaczona na język polski i angielski. Jeśli chodzi o waluty w grze, dostępnych jest ich siedem:

  • Amerykański dolar.
  • Euro (EUR).
  • Polski złoty.
  • Ukraińska hrywna.
  • Turecka lira.
  • Brazylijski real.
  • Rosyjski rubel.
  • Kazachski tenge.

Gracze z Polski jako walutę gry mogą wybrać dolara amerykańskiego lub euro. Serwis działa na podstawie licencji wydanej w Curacao, więc w wielu krajach świata ma reputację kasyna offshore, które mimo to zdołało się pozytywnie zaprezentować w całej przestrzeni WNP.

Bonusy i promocje

Jedną z najbardziej oczywistych zalet serwisu jest hojny program lojalnościowy, który obejmuje prezenty zarówno dla nowych, jak i stałych graczy. Bonusy od kasyna Vavada to okazja do uzyskania większej wygranej, przy tej samej inwestycji, a niektóre prezenty, takie jak darmowe spiny, mogą nauczyć nowych fanów hazardu podstaw gry na slotach bez ryzyka i strat.

Bonusy kasyno bez depozytu

Pierwszy bonus, który wita graczy to darmowe spiny przy rejestracji. Wystarczy założyć osobiste konto na oficjalnej stronie, a darmowe spiny będą dostępne. Jak na każdej platformie, program lojalnościowy w Vavadzie ma swoje własne warunki obstawiania i zasady aktywacji:

  • Ilość darmowych spinów – 100.
  • Slot – Great Pigsby Megaways.
  • Zakład – Х20.

Na obstawianie gracz ma 14 dni od momentu rejestracji, przy czym za wszystkie pieniądze wygrane na spinach, będzie musiał zakręcić przynajmniej 20 razy. Zakład X20 jest dość prosty dla darmowych spinów.

Bonus powitalny

Kolejnym bonusem, który wychodzi naprzeciw polskim graczom jest bonus od pierwszego depozytu. Jest on automatycznie aktywowany natychmiast po uzupełnieniu salda gry w wysokości co najmniej 1$ lub równowartości w innej walucie. Sedno programu bonusowego sprowadza się do tego, że serwis podwaja pierwszy depozyt użytkownika, a oprócz kwoty głównej otrzymuje on 100% od kwoty depozytu na konto bonusowe. Maksymalna wysokość bonusu, który może zostać przyznany – równowartość 1000$.

Otrzymane środki bonusowe również muszą zostać postawione. Zakład ustalony przez kasyno do obstawiania – Х35. Wszystkie zakłady są przyjmowane tylko za prawdziwe pieniądze, dopóki główne saldo gracza nie będzie mniejsze niż minimalna stawka zakładu. Następnie pod uwagę brane są środki z konta bonusowego. Bonus należy odegrać w ciągu 14 dni od dokonania pierwszej wpłaty. Obowiązują również dodatkowe warunki programu bonusowego:

  1. Wypłaty są ograniczone albo do momentu skutecznego obstawienia bonusu, albo do momentu wygaśnięcia programu.
  2. W przypadku pomyślnego postawienia zakładu, całe saldo na koncie bonusowym zostanie automatycznie przelane na konto główne (nie więcej niż kwota otrzymanego bonusu).
  3. Możesz wycofać się z Programu Lojalnościowego tylko do postawienia pierwszej stawki uczestniczącej w zakładzie.

Ten bonus jest znacznie trudniejszy do zdobycia, ale nadal pozwala na podwojenie puli początkowej.

Program Lojalnościowy

Podczas gdy pierwsze dwa bonusy są przeznaczone dla nowych graczy, to program VIP jest przeznaczony dla doświadczonych graczy. Jego istota sprowadza się do ustalenia ilości pieniędzy wydanych w ciągu miesiąca, im wyższa kwota, tym wyższy status łowcy fortuny i tym więcej różnych przywilejów. Główną zaletą tego statusu jest możliwość wypłaty dużych wygranych. Na przykład, początkujący gracz może wypłacić tylko 1000 USD, podczas gdy członek ze statusem Platinum może wypłacić do 100 000 USD.

Turnieje

Serwis regularnie organizuje turnieje, w których każdy może wziąć udział. Może to być loteria z kosmicznymi nagrodami, jak również zwykły turniej na slotach. Nagrodą może być wszystko:

  • Darmowe spiny.
  • Środki bonusowe.
  • Punkty do programu VIP.
  • Prawdziwe pieniądze.

Warunki turniejów na automatach są bardzo proste: ten, kto postawił najwięcej zakładów, wygrywa i zgarnia długo wyczekiwaną wygraną. Czasami nagroda jest dzielona na kilku graczy jednocześnie.

Rodzaje dostępnych gier

Wśród prezentowanych gier użytkownicy mogą znaleźć nie tylko kolorowe sloty, ale także ruletkę, szeroki wybór gier karcianych i video pokera. Vavada może również zaoferować graczom możliwość spróbowania swoich sił w grach na żywo z prawdziwymi krupierami. Wachlarz dostępnych rozrywek mile zaskoczy, każdego kto chce łatwo znaleźć to czego potrzebuje. Wszystkie gry są dostępne natychmiast po rejestracji, a w wersje demo ulubionych slotów możesz wypróbować po prostu odwiedzając oficjalną stronę.

Dostawcy gier

Serwis współpracuje tylko z globalnymi i licencjonowanymi markami w zakresie produkcji oprogramowania hazardowego. W sumie, na oficjalnej stronie jest ponad 15 dostawców, wśród których można wyróżnić tych najlepszych:

  • Playn’Go;
  • NetEnt;
  • Microgaming;
  • Relax Gaming;
  • Evolution;
  • Push Gaming.

Gracz może zawsze przefiltrować gry, i cieszyć się tylko produktami swoich ulubionych producentów.

Wersja mobilna

Użytkownicy mogą również uzyskać dostęp do mobilnej wersji strony, która została zaprojektowana specjalnie dla graczy, którzy wolą cieszyć się grą na swoich smartfonach. Kasyno daje również możliwość pobrania na telefon komórkowy specjalnych aplikacji, które gwarantują nieprzerwany dostęp do serwisu. Aplikacja na iPhone’a może być pobrana z oficjalnego sklepu, a plik instalacyjny na Androida z zasobów stron trzecich.

Metody płatności

Wszystkie transakcje finansowe dokonywane są w koncie osobistym gracza. Tutaj może on uzupełnić saldo gry, zostawić prośbę o wypłatę środków i przejrzeć historię swoich płatności. Vavada współpracuje z wieloma systemami płatności, dlatego gracze nie mają żadnych problemów z wpłatami.

Depozyty

Możesz uzupełnić saldo gry za pomocą kart bankowych (Visa, Mastercard), portfeli elektronicznych (Monetix, Piastrix, Webmoney), kryptowaluty Bitcoin, Ethereum, USDT, Litecoin, TRX, BNB, płatności sms oraz systemów płatniczych Skrill, Neteller. Minimalna kwota depozytu – 1 USD. Wszystkie wpłaty są realizowane w ciągu minuty, po której użytkownik może rozpocząć grę.

Wypłata środków

Wypłata środków odbywa się za pomocą tych samych metod, co wpłata, z wyjątkiem operatorów komórkowych. Minimalna kwota dostępna do wypłaty – 10 USD. Limit wypłat kryptowalut wynosi 1 000 000 USD miesięcznie. Restrykcje dotyczące wypłat zależą jedynie od statusu gracza w kasynie:

Status Na dzień (USD) Na tydzień (USD) Na miesiąc (USD)
Początkujący 1 000 5 000 10 000
Gracz 1 000 5 000 10 000
Brązowy 1 500 7 000 15 000
Srebrny 2 000 12 000 20 000
Złoty 5 000 20 000 30 000
Platynowy 10 000 50 000 100 000

Szybkość wypłaty

Na wypłaty nie trzeba długo czekać, ponieważ maksymalne opóźnienie przelewów nie przekracza 24 godzin, ale z reguły wszystkie zaksięgowania następują w ciągu kilku godzin. Do portfeli elektronicznych środki trafiają znacznie szybciej niż na karty bankowe. Prowizja za przelew dla kasyna nie jest naliczana, jeśli gracz wpłacił ostatni depozyt co najmniej 3 razy, w przeciwnym razie naliczana jest prowizja w wysokości 10%.

Zespół wsparcia

W przypadku jakichkolwiek sporów, gracz może skontaktować się z pomocą techniczną. Usługa wsparcia działa w trybie 24/7, dzięki czemu operatorzy są gotowi do udzielenia pomocy w każdej chwili. Jest kilka sposobów na skontaktowanie się z pomocą techniczną:

  • Napisać na czacie LIVE na oficjalnej stronie kasyna.
  • Napisać email.

Niezależnie od wybranej metody, menedżerowie kasyna postarają się odpowiedzieć tak szybko, jak to możliwe.

Zalety i wady

Jak każdy klub hazardowy, kasyno Vavada ma swoje mocne i słabe strony.

Zalety:

  • Szeroki wybór dostępnych gier.
  • Gry tylko od licencjonowanych dostawców.
  • Szybka wypłata wygranych.
  • Hojny program bonusowy
  • Szybko dodawane są nowe sloty.
  • Łatwa rejestracja.

Wady:

  • Gry karciane są trochę słabo przedstawione

Podsumowanie

Kasyno Vavada to miejsce, w którym gracze mogą nie tylko dobrze się bawić, ale także wygrać niezłe pieniądze. Ciągłe losowania, turnieje i hojne bonusy tylko to ułatwią. Stoły na żywo pozwolą Ci poczuć się jak w prawdziwej sali hazardowej, pełnej emocji i pragnienia wygranej. W sieci można znaleźć wiele pozytywnych opinii o klubie hazardowym, najczęściej użytkownicy zwracają uwagę na wygodną obsługę i ciekawe, kolorowe sloty z odpowiednimi zwrotami.

Często zadawane pytania

Jaka jest minimalna kwota depozytu?

Minimalna kwota depozytu wynosi $1.

Czy kasyno wymaga weryfikacji użytkownika?

Tak, jeśli wypłata przekracza 10,000 USD.

Jak mogę wypłacić pieniądze ze strony kasyna?

Aby wypłacić pieniądze, po prostu zostaw prośbę o wypłatę na swoim koncie osobistym i wybierz metodę, z pomocą której wpłaciłeś depozyt.

Czy istnieje aplikacja mobilna?

Tak, zarówno na iPhone’a, jak i na Androida.

Jaką kwotę mogę wypłacić w ciągu miesiąca?

Limit wypłat kryptowalut wynosi 1 000 000 USD miesięcznie.

Jakie dane muszę podać podczas rejestracji?

Tylko numer telefonu komórkowego lub e-mail.

Czy mogę wypłacić wygraną na moją kartę bankową?

Tak, na kartę Visa lub Mastercard.

Jak mogę skontaktować się z zespołem wsparcia?

Możesz wysłać wiadomość e-mail lub napisać na czacie na żywo.