Qabil Ajmeri Jadeed Ghazal ke Peshrao

Articles

قابل اجمیری :جدید غزل کے پیش رَو!!

عمران عاکف خان

اس دنیائے مظاہر میںگوناگوں اور نوع بہ نوع کے ایسے کتنے ہی حیرت ناک واقعے رو نما ہوئے ہیں جنھوں نے تاریخ اور روایتوں کے دھاڑے موڑے ہیں ۔ چنانچہ صدیوں بعد بھی ان کے نشانات باقی ہیں اور ان سے متاثر یا فیض یاب ہونے والی جماعتیں، قومیں،خطے ، ممالک، عقیدے،عقیدتیں انھیں یاد رکھے ہوئے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ ان رسوم و روایات کو اپناتی چلی آرہی ہیں ۔
اسی دنیامیں کبھی کبھی اللہ تعالیٰ کی صنعت وخلاقیت کے ایسے نشان بھی مل جاتے ہیں جنھیں کمال صنعت کہنے کو بے اختیار دل چاہتا ہے اور پھر صانع ِ حق کے سامنے خود بہ خود سرجھکتے چلے جاتے ہیں،تا کہ اس کے مظاہر حق کا اعتراف اور یقین مضبوط ہوسکے اور اس کی تعریف کا فریضہ بھی۔جس کا ذکر چل رہا ہے اس کی صنعت کے کرشمے یہ ہیں کہ وہ اگر چاہے تو ذرے کو آفتاب بنا دے اور اگر نہ چاہے تو آفتاب وماہتاب بھی ذرے بن جائیں ۔وہ بہت کم عرصے میں بڑا کام لینے کا ہنر اپنی خلقت اور بندوں سے بہت اچھی طرح سے جانتا ہے۔بلکہ خود اس نے بھی محض چھے دنوں کے مختصر ترین عرصے میں بزم کاینات سجادی۔بے حیثیت اور کمزور بندوں سے بڑے بڑے کام لینے کے تو تاریخ میں ایسے کتنے ہی واقعات درج ہیں جن کے سنہری حروف اس حقیقت کا بیان ہیں ۔
ہماری تاریخ اردو شعرو ادب میں بھی صانع حق نے ایک ایسا شاہ کار پیدا کیا تھا ،جسے حسب دستور کم عمرملی مگر اسی مختصر زندگی میں اس سے ایسے کام لیے کہ ان پر اردو دنیا کو نازہے۔عبد الرحیم قابل ؔ اجمیری نام تھا اس شاہ کار کا۔جنھیں عمر عزیز کے کل 32برس ملے ۔جن میں سے بارہ برس محض اردوشاعری کے لیے ملے اور وہ اسی انگلیوں پر گنے جانے والے عرصے میں اردو دنیا پر اپنی دائمی چھاپ چھوڑگئے۔قابلؔ اجمیری کے انتقال کو حالاں کہ نصف صدی سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے مگر اب تک ان کے حقیقت افروز اور سدا بہار اشعار زبان زد عوام خواص ہیں:
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے!
عشق انسان کی ضرورت ہے!!
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے !
صرف احساس کی ضرورت کی!!
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ !
زندگی کو مری ضرورت ہے !!
٭٭
وقت کرتا ہے پرورش برسوں!
حادثے اک دم نہیں ہوتے!!
٭٭
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے!
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے، ہم فغاں تک آ گئے!!
خود تمھیں آجائے گا چاک گریباں کا شعور!
تم وہاں تک آ تو جائو، ہم جہاں تک آگئے!!
آج قابلؔ میکدے میں انقلاب آنے کو ہے!
اہلِ دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے!!
٭٭
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیے!
لیکن علاجِ تنگیِ داماں نہ کر سکے!!
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے!
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے!!
٭٭
کیسا شراب خانہ کہاں کا صنم کدہ!
کعبہ میں لْٹ گیا ہے مسلماں کبھی کبھی!!
٭٭
کوئے قاتل میں ہمیں بڑھ کے صدا دیتے ہیں!
زندگی آج ترا قرض چکا دیتے ہیں!!
یہ وہ آواز ہے جو 1950کے قریب دنیا میں جدید لب ولہجے اورقدیم روایت میں جدت کے اسلوب میںگونجی۔اس آواز کا گونجنا تھا کہ ترقی پسند غزل( محض نعرے بازی) سے تنگ شائقین اردو شعرو ادب اس کے گرد جمع ہونے لگے۔یہ کون ہے؟یہ آواز کہاں سے آرہی ہے؟کتنی گہرائی سے یہ صدا،یہ آہنگ،یہ اسلوب،یہ طرح نکل کرآرہی ہے؟ان سوالات نے جب شدت کی شکل اختیار کی تو انھیں بتایا گیا کہ یہ ’عبد الرحیم قابل اجمیری‘کا سوز وساز ہے۔بس پھر کیا تھا اس وقت کے اہم شعرا اور قابل قدر نقادوں نے اس کا کھلے دل سے استقبال کیا اور ایک بڑا طبقہ قابل تفہیم میں مصروف ہو گیا۔ان کے اشعار کے تجزیے ہونے لگے اور ان پر تنقیدنما بصیرت افروز مضامین کا سلسلہ شروع ہو گیا۔جن میں عاشق حسین سیماب اکبر آبادی، علی سکندر جگر مرادآبادی،ڈاکٹر عبادت یار خاں عبادت بریلوی،محمود ہاشمی،سحر انصاری،ڈاکٹر فرمان فتح پوری ،ماہر القادری،رئیس امروہوی وغیرہ کے نام نمایاں طور پر لیے جاسکتے ہیں ۔
قابل ؔاجمیری کی شاعری اور شعر پارے محض برائے شاعری ہی نہیں ہیں بلکہ ہماری جدید روایت اور دستور کے ترجمان ہیں۔اس وقت انسانیت ، عوام و خواص،بڑی طاقتوں کے ظلم و جور سے تنگ آدمیت جن حالات سے دوچار تھی،اس کے بعد جو مسائل درآئے تھے اور انھوں نے گھروں و آبادیوں کو نگلنا شروع کر دیا تھا،ان سب کی عکس بندیاں ہمیں قابل کی شاعری میں ملتی ہیں ۔اگر دو لفظوں میں کہا جائے تو قابل کی شاعری ایک گہرے دکھ اور کرب کا عنوان ہے اور اس فرض کی ادائیگی جو ان حالات میں واجب ہوچکا تھا۔دل چسپ بات یہ ہے کہ قابلؔ کے اس اظہار دردوکرب کے احساس نے اردو شاعری کو ’ جدید غزل‘ کاراستہ دکھا دیا۔
عبد الرحیم قابلؔ اجمیری27 اگست 1931 کو اجمیر شریف کے محلے چرولی میں عبد الکریم اور گلاب بیگم کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ نے اجمیر شہر کے مدرسہ نظامیہ(جونظام حیدرآباد دکن کے زیر انتظام چلتاتھا) میں ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ محض14 برس کی عمر سے ہی شاعری کر نے لگے اور ارمانؔ اجمیری ومولانا عبدالباری معنیؔ اجمیری سے اصلاح لینے لگے۔ماں باپ کاسایہ سات سال کی عمر میں آپ کے سر سے رخصت ہو گیا ۔والد صاحب تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو کر چل بسے اور والدہ ان کے غم میں مالک حقیقی سے جاملیں۔ قابل ؔاس بھری پری دنیا اور کر بناک ماحول میں اکیلے رہ گئے اسی ماحول میں ان کے بھا ئی محمد شریف نے ان کی پر ورش کی ۔ اس وقت پوری دنیا جنگ عظیم دوم کے زخم چاٹ رہی تھی اور اس کے نتیجے میں بر پا ہونے والی مشکلوں کے اثرات دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی پڑرہے تھے دوسری طرف تقسیم کی قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔جس نے وہ حشر بپا کیا کہ تاریخ انسانیت میں ایسے واقعات کم ہی نظر آتے ہیں۔پورے ملک میں نارتھ پول سے سائوتھ پول تک اضطراب اور کشاکش کے مہیب دور شروع ہوگئے۔ ریاستوں کا غرور اور وجودٹوٹنے لگا ۔ جگہ جگہ فسادا ت اور آگ زنی ،بربادی ،عصمت دری،قتل و خون کے واقعات رونما ہونے لگے۔ان ہی سیریل اٹیکس اور مسلسل ٹریجڈیوں کو قابل نے اپنے ارد گرد محسوس کیا اور نہایت قریب سے دیکھا۔اس کا منطقی اثر یہ ہوا کہ آپ شاعربن گئے اور وہ درد و کرب،آہنگ،وہ دکھ اور سوز آپ کی شاعری میں اتر آیا۔ملک آزاد کیا ہوا ؟ہونا تھا آباد،برباد ہوگیا۔آزادی کی آڑ میں تقسیم کے شعلے بلند سے بلند ہوتے جارہے تھے نیز ہندوستانی مسلمانوں پر زندگی کا قافیہ دانستہ تنگ کیا جارہا تھا ۔ایسے حالات میںجنوری 1948 میں ، قابلؔ اجمیری بھی سرحد پار جانے والے ایک قافلے میں شامل ہوکر، اپنے چھوٹے بھائی محمد شریف کے ساتھ پاکستان ہجرت کر گئے اور حیدرآباد ، سندھ میںقیام پذیر ہوئے۔
پاکستان آنے کے بعد قابلؔ اجمیر ی کو کچھ قدردان ملے مگر اتفاق سے وہ بھی شاعر تھے۔جنھوں نے قابل کو مشاعروں کی راہ دکھائی ۔چنانچہ انھوں نے مشاعروں میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا ،وہاں امید سے زیادہ حصہ ملا اور وہ مقبول ترین شاعر بن گئے۔نیز ان کا شمار اختر انصاری اکبر آبادی، محسن بھوپالی سمیت حیدرآباد کے عظیم شعرا میں ہونے لگا اور انھیں محض 21 سال کی عمر میں اردو کے’سینئر ‘ شاعرکی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ۔قابل نے جدید غزل کی روایت کو آگے بڑھانے میں اہم کارنامہ انجام دیا بلکہ اگر انھیں جدید غزل کا پیش رَو کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔قابل کے شاگردوں میں حمایت علی شاعرؔجیسے اہم ترین شعرا کا نام آتا ہے ۔
پاکستان میں قابلؔ اجمیری ادبی جریدے ‘نئی قدریں ‘ کے مدیر و مالک اختر انصاری اکبر آبادی کی سرپرستی میں رہنے لگے اور گزر بسر کے لیے حیدرآباد (سندھ) کے روزنامے’جاوید‘میں قطعہ نگاری کا آغاز کیا۔ اس کے بعد حیدرآباد ہی کے ایک اور ہفت روزہ جریدے ’آفتاب ‘ میں قطعات لکھنے لگے۔
قابلؔ نے پاکستان میںتقریباً 14سال بسر کیے مگر یہ عرصہ کتنی کلفتوں میں گزرا،وہی جانتے تھے۔ سب سے پہلا صدمہ انھیں اپنے بھائی شریف کی موت سے پہنچا، جو ان کی پاکستان آمد کے کچھ عرصے بعد ہی تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوگئے۔ منہ پھاڑے غیر مناسب اور مصیبت بھرے حالات نے اکیلے قابلؔ کوچاروں طرف سے گھیر لیا اور حملہ کر بیٹھے۔حالاں کہ وہ ان سے لڑتے رہے مگر کب تک؟ وہ بے شمار ، نت نئے ،لمبے لمبے دانتوں ،خوف ناک آنکھوں اور ارادوں والے اور یہ تنہا۔بالآخر 1960کی دہائی میں جب کہ وہ شاعری کی دنیا میں اپنے پرچم بلند کر رہے تھے ،حالات سے ہار مان گئے اور اس شان سے ہارے کہ زندگی اپنی جیت کے باوجود رو پڑی:
میں زندگی کی بساط پر اس شان سے ہارا!
وہ اپنی جیت پر رویا بہت تھا!!
تاہم اپنے خاندانی مرض تپ دق کے موذی مرض نے ا نھیں کوئٹہ(بلوچستان) کے ملٹری اسپتال’سینوٹوریم‘پہنچادیا۔یہاںزندگی نے ان کے ساتھ ایک خوشگوار کھیل کھیلا۔ اس نے اپنا حسن دکھایا۔’سینوٹوریم ‘کے جس وارڈ میں قابل زیر علاج تھے،اس کی انچارج ایک نصرانی نرس ’نرگس سوسن ‘تھی۔انھیں جب اطلاع ملی کہ ’قابلؔ‘بطور پیشنٹ ان کے وارڈ میں لائے گئے ہیں تو انھوں نے ان کی تیمار داری کی تمام ذمے داریاں اپنے ہاتھ میں لے لیں۔نرگس کے اس حسن سلوک نے قابلؔ کو بہت متاثر کیا ۔مگر یہ عنایت یوں ہی نہ تھی، ’نرگس‘ان کی غائبانہ فین /مداح تھی اور اب تومحبوب سامنے تھا،بلکہ دسترس میں بھی۔ قدرت نے اس بہانے دونوں کو ملا دیا ۔محض رسماً نہیں بلکہ نر گس نے اسلام قبول کر کے قابل سے شادی کر لی۔یہ شادی ایک کامیاب شادی ثابت ہو ئی اور ’نرگس‘ کے بطن سے قابل کو ایک پھول’ظفر قابل اجمیری ‘کی صورت میںحاصل ہوا۔ مگر یہ قابل کی زندگی کے آخری ایام تھے۔مرض بگڑتا گیا۔بیگم نرگس قابل،انھیںتبدیلیٔ ا ٓب وہوا کی غرض سے حیدر آباد سے کوئٹہ لے آئیں لیکن قابل،اس درد سے نجات نہ پاسکے اور ایک دن دنیا کے تمام قابل ترین انسانوں کے طرز پر بہت مختصر زندگی پاکر بہ عمر31 سال عین جوانی میں تپ دق کی اسی بیماری کا شکار ہو کر 30،اکتوبر 1962 کو مالک حقیقی سے جاملے۔ان کے انتقال کے بعد ان کے قددانوں اور محبین نے حیدرآباد میں مجلس یاد گار قابل ؔ قائم کی اور اس کے زیر اہتمام سب سے پہلے ان کے شعری مجموعے’’دیدۂ بیدار‘‘1963کی اشاعت عمل میں آئی۔اس کے بعد ’’خون رگ جاں‘‘1966۔’’قابل کے سوشعر‘‘۔’’عصریات وتنقیحات ‘‘ دیگر یادگاریں شائع ہوئیں ۔ ان مجموعوں میں موجود قابل کی غزلیں،نظمیںدوہے،قطعے،گیت وغیرہ اس فکر کی غماز ہیں جو صرف اور صرف قابل کی ایجاد ہیں۔
قابل کا مطالعہ کر نے سے پتا چلاتا ہے کہ ان کی شاعری دلوں کی شاعری ہے اور ان کی غزلوں کا آہنگ ،وقت کی آوازہے ۔زندگی میں رونما ہونے والے واقعات ،وتجربات،ان کے شعری اسلوب میںڈھل گئے۔انھوںنے دل کی ہر کسک،ہر احساس اور ہر تڑپ کو شعری پیکر میں ڈھالنے کی کوشش کی ۔ان کی شاعری معیاری اورجدیدیت کے رنگ سے مزین تھی ۔جدید تصورات کے رجحانات کی عکاسی ان کے اشعار میں نمایاں طور پر موجود ہے۔اگر بغور دیکھا جائے توان کے یہاںمیر ؔ کا سوزو گداز،مومنؔ کے طرز ،غالب ؔ کی خیال آفرینی اور داغؔ کی شگفتہ بیانی کے ساتھ جدیدیت کی لے بھر پور طریقے سے موجود ہے۔انھوں نے اسی قدیم روایت میں تجدد کا راستہ اختیار کیا اور شعرو سخن کو نئی فکروں کا محور بنا دیا۔قدیم و جدید اور روایت میں تجدد کی آمیزش نے ان کے کلام کو سحر طراز ی کا عنوان بخشاہے۔
قابل اجمیری اور معاصرین کا موازنہ بھی ایک اہم ترین اور معرکۃ الآرا بحث ہے۔ ایک مقام پر جرمنی میں مقیم ظفر جعفری ،قابل اجمیری اور احمد فراز کا موازنہ کر تے ہوئے ظفر قابل اجمیری کے بلاگ میں لکھتے ہیں:
’’۔۔۔۔۔۔۔ احمد فراز بہت اچھے شاعر تھے اور ان کے بعد شاعری کے میدان میں جو سُونا پن اور خلا پیدا ہوا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ یہ سوال کہ زندگی اگر قابل کو مہلت دیتی تو وہ کس مقام پر ہوتے۔ میرا جواب یہ ہے کہ احمد فراز 1970 کے عشرہ میں ابھر کر سامنے آئے تھے جس کے بعد وہ سنورتے چلے گئے۔ لیکن احمد فراز 1970 سے پہلے غیر معروف تھے۔ اسکے بر عکس قابل اجمیری 1950-1951 ہی میں جگر اور سیماب جیسے اساتذہ سے اپنی شاعری کا لوہا منوا چکے تھے۔ اس تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے میرا یہ دعویٰ ہے کہ زندگی اگر قابل کو مہلت دیتی تو وہ استادالاساتذہ کہلاتے۔ قابل اجمیری میرے سب سے زیادہ پسندیدہ شاعر ہیں۔ اُنکا آہنگ انکا اسلوب اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ قابل نے غزل کے ساتھ نظم بھی اُسی پائے کی کہی ہے۔ قابل کی نظم کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو جس سے قابل کے منفرد آہنگ ، اسلوب اور شیریں بیانی اور فکر کا پتہ چلتاہے۔ اس عنوان پر(حالاں کہ) دوسرے شعرا نے لاتعداد نظمیں کہی ہیں۔
اقبال
وہ دیدہ ور کہ جس نے تجلّی نکھار دی
ذروں کو آفتابِ درخشاں بنا گیا
وہ چارہ ساز جس نے کیے تجرباتِ نو
ہر درد کو ضمانتِ درماں بنا گیا
وہ باغباں جو اپنی نسیمِ خیال سے
شامِ چمن کو صبحِ بہاراں بنا گیا
وہ دلربا کہ جس نے بدل دی سرشتِ دل
تکلیف کو نشاط کا ساماں بنا گیا
وہ فلسفی جو اپنی خودی کی تلاش میں
اربابِ دل کو محرمِ یزداں بنا گیا
وہ مردِ حق پرست مٹا کر جو تفرقے
اسلامیوں کو صرف مسلماں بنا گیا
اب کارواں کی بانگِ درا پر نظر نہیں!
سب کچھ ہے اس کی قوم مسلماں مگر نہیں!‘‘
(ظفر جعفری۔عالمی اخبار۔قابل اجمیری نمبر(بلاگ)19جون2010۔جرمنی)
قابل اجمیری کی اس روایت سے تجدد کی طرف مراجعت کو بعد میں’ جدید غزل‘ کے رجحان کا نام دیا گیا ۔جو بہت جلد اردو شعرو ادب کے حلقوں میں مقبول ہوا اور پھر اجنبیت و غربت کے مراحل سے گزرتے ہوئے جب محمود ایاز نے1959 میںماہنامہ ’سوغات‘ بنگلور۔اختر انصاری اکبر آبادی نے1950میں ماہنامہ’نئی قدریں‘حیدرآباد سندھ۔شمس الرحمان فاروقی نے جون 1966میں ماہنامہ’شب خون‘الہ آباداور نسیم درانی نے 1967میں ماہنامہ’سیپ‘کراچی شروع کیا تو اسے عالم گیر شہرت، مضبوطی اور تقویت ملتی چلی گئی پھر تو یہ مستحکم سلسلہ بن گیا۔مذکورہ بالا رسالے وہ ہیں جومستقل طورپر اس کے ترجمان بنے اور برسوں اس کی اشاعت وفروغ میں مصروف رہے ۔ان کے علاوہ دیگر معاصر رسالوں نے بھی اس رجحان کو عام کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ان میں اشہر ہاشمی کے دوماہی’’ گلبن‘‘ احمد آباد کا نام نمایاں ہے۔
اس رجحان کے صف اول کے شعرا میںاسلوب احمد انصاری،سرشار صدیقی،شہر ت بخاری،دیوندر اسّر ،تنویر عباسی،شوکت عباسی،مظفر علی سید ، ریحان صدیقی اوران میں نمایاں نام قابل اجمیری کاآتا ہے۔جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے قابل اس جہان میں صرف 31 برس رہے نیز اس عرصے میں بھی شاعری کے لیے انھیںبہ مشکل دس بارہ برس ہی ملے، لیکن انھو ںنے اسی مدت کو غنیمت جان کرجدید غزل کی طرح ڈال دی اور اردوغزل کا دامن نئے معانی و تراکیب سے وسیع کر دیا۔ان کی شاعری کی سطحیں جدید عناوین ورجحانات سے میل کھاتی ہیں۔ان کی غزلوں کا آہنگ خون کی دھار میں ڈوبا ہوا اورشعری ساز شعلہ وشبنم،شیشہ وتیشہ اور جگر پاش تھا۔لطف تو یہ ہے کہ ان کی یہ کربناکیاں قدیم روایت سے بالکل ہٹ کر جدید لب لہجے میں تھیں جو جدید شعرا کی اہم خصوصیت ہے۔قابل اجمیری کی حیثیت جدید غزل نگاری میں نمایندہ شاعر کی ہے۔چو ں کہ انھوں نے بہت پہلے اس رجحان کے تحت لکھی جانے والی شاعری کی ابتدا کردی تھی۔ قابل اجمیری گوباضابطہ جدید غزل کواس رجحان سے متعلق صرف دوسال ملے، مگر اس کے باوجود ان کی شاعری، فکری،فنی اور نئے و نادرامتیاز وانفرادیت کی بدولت جدید غزل کا جلی عنوان تھی۔ان کی شعری،فنی اور فکری جہات نے جد ید غزل کے رجحان سے پہلے ہی اس کی نمایندگی شروع کر دی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ ان کے کلام کا طرز فغاں ،عناوین اورموضوعات فرسو دہ روایت اور تقلید سے بالکل ہٹ کرجدید احساس و فکر لیے ہوئے ہیں۔چنانچہ ایک مقام پر عبادت یار خاں عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
’’ قابل کے یہاں تقلید کا شائبہ تک نہیں ہوتا وہ نئی بات کہتے ہیں اور نئے انداز سے کہتے ہیں۔ غزل کی روایت سے پوری واقفیت رکھنے اور اس سے خاطرِ خواہ استفادہ حاصل کرنے کے باوجود وہ کبھی لکیر کے فقیر نہیں بنے۔ ان کے یہاں خاصا تنوع ہے لیکن اس تنوع کے ہاتھوں ان کی انفرادیت کوٹھیس نہیں لگتی ان کا مخصوص زاویہ نظر اس تنوع میں بھی ایک یک رنگی پیدا کرتا ہے‘‘
(ممتاز راشد۔ مضمون :’’قابل اجمیری‘‘خصوصی صفحہ’قابل اجمیری‘(انٹرنیٹ)–اشاعت 26جنوری2011۔ممبئی)
ایک دوسرے مقام پر عبادت بریلوی یوںرقم طراز ہیں:
’’۔۔۔۔۔ایک اور بات قابل صاحب کے کلام میں قابل ذکر ہے ۔وہ یہ کہ زندگی کی محرومیوں کو محسوس کر نے کے باوجود وہ زندگی سے مایوس نہیں ہیں ۔ان کے یہاں زندگی کی کسک کومحسوس کر نے کے باوجود خاصی جولانی کا احساس ہوتا ہے اور یہ جولانی انھیں عمل کی طرف راغب کر تی ہے۔چنانچہ عمل کی راہ پر آگے بڑھنے کا احساس ان کی شاعری میں بہت نمایاں ہے۔‘‘
(جوہر قابل۔ مشمولہ طالب علم ڈائجسٹ۔’قابل نمبر‘ص:22،فروری 1970۔حیدرآباد۔پاکستان)
سحر انصاری کا خیال ہے:
’’۔۔۔۔۔زندگی کے مسائل کی طرح حسن کی بعض نفسیاتی کیفیات کا انھو ں نے گہرا مشاہدہ کیاہے۔قابلؔ نے حسن کے بعض ایسے پہلوؤں پر نگاہ ڈالی ہے جن کی طرف شایداس انداز سے کسی نے دیکھا نہیں اور اگر دیکھا بھی ہے تواس برجستگی اور اثر آفرینی کے ساتھ رقم نہیں کیا:
رُکا رُکا سا تبسم،جھکی جھکی سی نظر!
تمھیں سلیقۂ بیگانگی کہاں ہے ابھی!!
٭٭
بے نیازی کو اپنی خو نہ بنا!
یہ ادا بھی کسی کو پیاری ہے!!
٭٭
اضطراب دل سے قابلؔ وہ نگاہ بے نیاز!
بے خبر معلوم ہوتی ہے مگر ہوتی نہیں‘‘!!
(شاعر اعتماد:قابل اجمیری ۔سہ ماہی نخلستان۔قابل اجمیری نمبر۔مارچ:1986۔جے پور)
اس موقع کی مناسبت سے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ رئیس المتغزلین،حضرت جگر مرادآبادی کا قول بھی نقل کرتا چلوں۔فرماتے ہیں:
’’ان(قابل) کے کلام سے ان کی انفرادیت نمایاں ہے اور یہی خصوصیت شاعر کے لیے اہم اور اہم تر ہے۔میں نے پہلی بارجب ان کا کلام(اجمیر کے مشاعرے میں) خود ان ہی کی زبانی سنا توحقیقتاً بہت متاثر ہوا۔خیالات اور جذبات کے ساتھ ساتھ اسلوب بیان بھی شگفتہ وپاکیزہ اور تغزل کا حامل ہے۔‘‘
(جگرمرادآبادی(ایک تاثر)مشمولہ۔طالب علم ڈائجسٹ۔قابل نمبر۔فروری 1970۔حیدرآباد۔پاکستان)
غزل میں تجدد اور قابل ؔ اجمیری کی خدمات کے حوالے سے مجنوں گورکھپوری کا یہ اعتراف بھی دیکھتے چلیں:
’’۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کو ان الفاظ سے اندازہ ہوا ہوگا کہ قابل اجمیری میں نکتہ سے نکتہ پیدا کر لینے ،خیا ل روشن کر لینے اور روایت سے جدید روایت کو جنم دینے کی غیر معمولی صلاحیت ہے ۔ان کی طبیعت میں بلا کی جدت و لطافت اور ان کے احساس میں غضب کی تازگی و انفرادیت ہے۔یہی سبب ہے کہ غزل میں بعض حددرجہ فرسودہ اور ناموافق زمینوں میں بھی وہ ایسے آب دار نشتر نکال لیتے ہیں کہ خدا کی توفیق یاد آجاتی ہے۔‘‘
(غزل میں تجدد کی ایک مثال۔مشمولہ۔طالب علم ڈائجسٹ۔قابل نمبر۔فروری 1970۔حیدرآباد۔پاکستان)
بات ختم ،عبادت بریلوی ، سحر انصاری ، جگر مرادآبادی اور مجنوں گورکھپوری صاحبان کو جوکہنا تھاوہ کہہ چکے ۔اس کے بعد ذکر آتاہے اسی قابل ؔاجمیری کابلکہ فخر اجمیر وراجستھان قابل ؔاجمیری کا۔جن کے کا ذکر جدید اردو شاعری میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔
شمس الرحمن فاروقی نے ایک موقع پر قابل ؔ اجمیری کی شاعری کو ’سچی‘اور ’اچھی شاعری ‘ کہا ہے۔واقعی قابلؔ سچے اور اچھے شاعرتھے ۔ان کی زبان اور تعبیرات حیرت انگیز اور اعلا پائے کی تھیں،ان کی زبان بھی کیسی؟ کوثر وتسنیم سے دھلی ہوئی جس کی کسوٹی میں ڈھل کر ان کی شاعروں دلوں کی آواز بن گئی۔
خلاصۂ گفتگو یہ کہ قابل اجمیری وجدان اور شعری فکر و جہات کی اس روایت سے تعلق رکھتے ہیں جو ناقابل فراموش ہے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قابل کے ان سدا بہار اشعار پر اپنی بات کا اختتام کروں :
پاس ہے منزل مگر انجام کا کیا ٹھیک ہے!
شوق کو مانوس سعیٔ رائیگاں کرتے چلو!!
راستے میں بجھ نہ جائیں آرزوئوں کے چراغ!
ذکر منزل کارواں در کارواں کرتے چلو!!
٭٭
زمیں پہ ہیں لالہ و گل، فلک پہ ماہ ونجوم!
میرا شمار یہاں بھی نہیں، وہاں بھی نہیں!!
٭٭
ہماری خامشی اے دوست افسانہ سہی لیکن!
زباں بہکے تو افسانہ بھی افسانہ نہیں رہتا!!
٭٭
ہر زخم ایک بہار ہے، ہر اشک اک گہر!
قابلؔ مری خزاں بھی،حسیں ہے بہار سے!!
٭٭
میخانہ اک سراب، صنم خانہ اک طلسم!
کچھ ان سے اعتبار نظر کے سوا نہ مانگ!!
٭٭
مآخذو مراجع:
O دیدۂ بیدار۔مجلس یادگار قابل اجمیری۔حیدرآباد۔(پاکستان)1963
O خون رگ جاں۔مجلس یادگارقابل اجمیری۔حیدرآباد(پاکستان)1966
O عصریات و تنقیحات(بیاض) غیر مطبوعہ
O طالب علم ڈائجسٹ:’قابل‘ نمبر (مرتب :محمد حسین قریشی)مارکیٹ روڈحیدر آباد(پاکستان)فروری 1970
O عالمی اخبار۔(بلاگ پیج)’قابل اجمیری‘ نمبر۔پاکستان
O قابل اجمیری: شخص اور شاعر۔(مونوگراف)عبدالمتین اجمیری۔راجستھان اردو اکادمی،جے پور (راجستھان) 1980
O نخلستان۔’قابل اجمیری ‘نمبر(مرتب :عبد المتین اجمیری)راجستھان اردواکادمی،جے پور(راجستھان) مارچ 1987

٭٭٭

مضمون نگار سے رابطہ:
imranakifkhan@gmail.com
259،تاپتی ہاسٹل،جواہر لال نہرویونیورسٹی،نئی دہلی۔110067

Rajaji ki Ramayan Translated by Prof. Yunus Agaskar

Articles

راجا جی کی راماین:بال کانڈ

ڈاکٹر یونس اگاسکر

راجا جی کی راماین:بال کانڈ
(رام جنم سے سیتا سوlتک)

 

ترجمہ
ڈاکٹر یونس اگاسکر

 

 

اردو چینل ڈاٹ اِن
اندرونِ صفحات

l ابتدائیہ / ڈاکٹر یونس اگاسکر 9
l راجا جی کی راماین اور ترجمۂ یونس اگاسکر/ ڈاکٹر وِدّیا ساگر آنند 12
l راجا جی کی راماین:
¡ پہلا باب : حمل 27
¡ دوسرا باب : رِشی وِشوامتر 32
¡ تیسرا باب : ترشنکو 38
¡ چوتھا باب : رام محل سے سدھارتے ہیں 48

 

¡ پانچواں باب : رام کے ہاتھوں راکشسوں کا قتل 54
¡ چھٹا باب : سیتا 65
¡ ساتواں باب : Aتھ گنگا لاتا ہے 72
¡ آٹھواں باب : اہلیا 78
¡ نواں باب : سیتا سوl 85
¡ دسواں باب : پرشورام کی شکست 90

¡¡
ابتدائیہ

برسوں پرانی بات ہے۔ بھارت بھومی کی ایک ریاست مہاراشٹر میں واقع ُبنکروں اور محنت کشوں کی نگری بھیونڈی میں ایک گریجویٹ نوجوان رہتا تھا۔ اس نے ممبئی کے ایک قدیم کالج سینٹ زیویرس سے اُردواور عربی میں بی اے پاس کرنے کے بعد ایم اے کرنے کی تمنّا کو دِل میں دبائے ہوئے اپنی مادر درس گاہ رئیس ہائی اسکول میں ملازمت کرلی تھی۔ ان دِنوں معاون مدرّس کی اسامی کے لیے تدریس کی سند لازمی نہیں تھی۔ یہاں اُسے اُردو اور عربی کے علاوہ انگریزی اور تاریخ بھی پڑھانی پڑتی تھی۔
ایک دن اسکول کے چند طالب علموں نے جو گیارہویں درجے (ایس ایس سی) میں پڑھتے تھے اور جنھیں وہ انگریزی نہیں پڑھاتا تھا، اُس سے انگریزی کا ٹیوشن پڑھانے کی درخواست کی۔ ٹیوشن کرنا اُس نوجوان کے پسندِ خاطر نہ تھا اس لیے اُس نے معذرت کی اور خصوصاً کسی کے گھر جا کر پڑھانے سے صاف انکار کردیا۔ ساتھ ہی اُس کے اپنے گھر میں بھی اس کی گنجائش نہ ہونے کی بات اُن پر واضح کردی۔ مگر وہ طلبہ نہ مانے اور اُنھوں نے شہر کی قدیم جامع مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت حاصل کر کے اُسے راضی کرلیا۔ چناںچہ صبح کو اسکول شروع ہونے سے پہلے جامع مسجد کی اُوپری منزل کے وسیع ہال میں فرشی کلاس لگنے لگی۔
اُس وقت ایس ایس سی کی مجوّزہ انگریزی درسی کتاب میں سی راج گوپال اچاریہ یعنی راجاجی کی ’راماین‘ کا کچھ ّحصہ شامل تھا جس میں سیتا ہرن اور جٹایو کی راون سے جنگ اور ّہتیا کی حکایت مذکور تھی۔ ’راماین‘ کے قصّے سے واقف ہونے کے باوجود وہ نوجوان استاد جٹایو کی بے مثال قربانی کے واقعے سے متعارف نہ تھا۔ البتہّ سبق پڑھاتے ہوئے راجاجی کے اسلوب کی سلاست و حلاوت نے اُسے اتنا متا ّثر کیا کہ وہ راجاجی کا گرویدہ ہوگیا اور ان کا دِل سے احترام کرنے لگا۔ایک اسلامی عبادت گاہ میں راجاجی کی ’راماین‘ کی قرأت و تدریس کے انوکھے تجربے نے اُس نوجوان استاد کے جذبۂ احترام میں ایک سرشاری پیدا کردی تھی جس کی یاد اب تک برقرار ہے۔
راجاجی کی ’راماین‘ کے ابتدائی دس ابواب یعنی بال کانڈ کا زیرِ نظر ترجمہ اُسی خوب صورت یاد کے نام منسوب کرتے ہوئے راقم الحروف اپنے ملک کی رنگارنگ وراثت اور مذہبی رواداری پر اپنے اعتماد و یقین کو تازہ کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ خدا کرے کہ یہ حسین روایت پایندہ تر ہو۔
’راماین‘ کے ان دس ابواب میں جو حکایات و واقعات درج ہیں اور جن اشخاص و اشیا کا تذکرہ ملتا ہے وہ ہندوستانی ادبیات اور مشترکہ تہذیب کا اٹوٹ ّحصہ ہیں۔رِشی وشوامتر جو کئی ّقصوں کے راوی ہیں، ہندو اساطیر کا ایک امر کردار ہیں اور اپنی عظمت کے سبب اقبال کی نظم ’جاویدنامہ‘ میں بھی ’جہاں دوست‘ کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔ ان کے علاوہ رِشیوں میں وسِشٹھ، اگستیہ اور کپل، اوتاروں میں وامن، راجاؤں میں مہابلی،Aتھ، پرشورام اور ترشنکو، راکشسوں میں راون، ماریچ اور تاٹکا، اپسراؤں میں مینکا اور رمبھا، عورتوں میں اہلیا، جانوروں میں کام دھینو، ہتھیاروں میں شیو کی کمان اور برہماستر— یہ سب ہندوستانی ادبیات اور لوک ساہتیہ کے جانے پہچانے نام ہیں جن سے اُردو کے قلم کار اور قاری بھی واقف ہیں اور ہمارے بعض تخلیق کاروں نے ان تلمیحات و اساطیر کو فن کارانہ انداز میں برتا بھی ہے۔
ان دس ابواب کے مطالعے سے یہ احساس اُبھرنے لگتا ہے کہ ہندو مایتھالجی کا ایک نمایاں
ّحصہ ہمارے سامنے مزید اُجاگر ہورہا ہے۔ اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ شری رام اپنے ُگرو رِشی وِشوامتر کی آ ّگیا کا پالن کرتے ہوئے اپنے اوتار کو سوارت کرنے والے متعدّد کارناموں میں سے چند کی تکمیل کر کے جن میںسیتا سوl اور پرشورام کی شکست شامل ہیں، واپس ایودھیا لوٹ رہے ہیں تو ہمارے سامنے ’راماین‘ کا بال کانڈ سمپورن ہوجاتا ہے۔ اس اعتبار سے اس ترجمے کو اپنے آپ میں ّمکمل سمجھنا چاہیے۔
راجاجی کی ’راماین‘ کا ترجمہ ایک بزرگ کی فرمایش پر برسوں پہلے شروع کیا گیا تھا۔ اِن بزرگ نے ایک بڑے ادارے کی جانب سے اس کی اشاعت کی سبیل پیدا کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا مگر جلد ہی اپنے وعدے سے پھر گئے اور بال کانڈ تک پہنچا ہوا یہ ترجمہ یوں ہی پڑا رہ گیا۔ لیکن ’اَلْاَمُوْرُمَـوْہُـوْنَۃٌ بِاَوْقَاتِـہا‘ یعنی ہرکام کا وقت ّمعین ہے کے مصداق علم و ادب کے حامی و طلب گار اور ’راماین‘ کے عاشقِ زار محترم ڈاکٹر وِدّیا ساگر آنند کی توجّہ نے نہ صرف اشاعت کی منزل کو آسان کردیا بلکہ ان کے گراںقدر مقالے اور کلماتِ تحسین نے اس ترجمے کی قدرومنزلت بڑھائی ہے۔برادرِ گرامی ساحرؔشیوی کی دل چسپی کے سبب یہ ممکن ہوسکا۔ اس لیے ان دونوں مر ّبیوں کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔
اس ترجمے کی اشاعت ہمارے دوست پریم گوپال متّل کے موڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی کے زیرِاہتمام ہو رہی ہے، اس لیے یقین ہے کہ معیاری ہوگی۔ چناںچہ ان کا پیشگی شکریہ!
ممبئی/ یکم اپریل ۲۰۰۵ء (پروفیسر) یونس اگاسکر
راجا جی کی راماین اور ترجمۂ یونس اگاسکر

عہدِ جدید میں فاصلے کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ جدید سہولیات نے دُنیا کو ایک بین الاقوامی گا ￿نو کی حیثیت دے دی ہے۔ اب دُور دراز ممالک اور وہاں کے افراد سے واقفیت کے لیے ہمیں لمبے سفر نہیں کرنے پڑتے۔ کمپیوٹر، فیکس، ٹی وی اور ٹیلی کمیونی کیشن کی دیگر نعمتوں نے دُوریاں پاٹ دی ہیں۔ لیکن کیا ہم روحانی اور اخلاقی طور پر بھی ایک دوسرے کے نزدیک آسکے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ بے شمار مال و دولت اور لامحدود تکنیکی وسائنسی تر ّقیات کے باوجود روحانی طور پر ہماری دُنیا بے حد غریب ہے۔ موجودہ معاشرہ شراب نوشی، جنس زدگی، تشدّد اور نشیلی ادویہ میں ڈوب کر اخلاقی اقدار سے کوسوں دُور جاپڑا ہے، خصوصاً معاشی طور پر ترقی یافتہ مغربی دُنیا میں سخت بے چینی و بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ اُسے ایک ایسی فکر، ایک ایسے پارس ّپتھر کی تلاش ہے جسے چھوکر وہ ذہنی سکون و اطمینان حاصل کرسکے۔
لندن میں بسے ہوئے ایک عالمی شہری کی حیثیت سے دُنیا کا دورہ کرتے ہوئے میں نے شدید بے لگام اور بے سمت مادّہ پرستی کے نتائجِ بد دیکھے ہیں۔ یہ میری خوش نصیبی ہے کہ میری ولادت اُس ملک (بھارت) میں ہوئی جس نے ہزاروں برس پہلے مادّیت کے بہاو کے چیلنج کا سامنا کیا۔ اس ملک میں صدیوں سے صوفیوں، سنتوں اور رشیوں کی ایک ایسی روایت رہی ہے جس نے مادّی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کو پہلے سے محسوس کرلیا تھا۔ اُن دُور اندیش افراد نے فطرت کی گود میں پوشیدہ تباہ کاریوں کو محسوس کرتے ہوئے دولت کی پوجا کے بُرے اثرات سے ہمیں بہت پہلے آگاہ کردیا تھا— انھوں نے ہمیں بتایا تھا کہ اس طرح ہم پاپ، پریشانی اور ذہن و کردار کی کمزوری کا شکار ہوجائیں گے۔
ہمارے قدیم ّمفکرین نے اس موضوع پر متعدّد گرنتھ تخلیق کیے ہیں، لیکن ان تمام گرنتھوں میں’راماین‘ ہی وہ واحد گرنتھ ہے، جو بے حد مؤثرّ اور واشگاف لفظوں میں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوئی انسانیت کے سامنے عملی طور پر ان دائمی اور جاوداں حقائق کو پیش کرتا ہے جو اس کے وجود کے ّتحفظ کے لیے لازمی ہیں۔ یہ گرنتھ واہموں کا شکار، مصیبت زدہ انسان کو، چاہے وہ مغرب کا ہو یا مشرق کا، ایک آدرش عالمی انسان بننے کی ترغیب دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کرتا ہے۔
’راماین‘ میں بیان شدہ واقعات میں اس عہد کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے، جب انسان نے حکومتی انتظام، ٹیکس کے نظام، عدل و انصاف اور دیگر ضابطے طے کرکے تاریخ بنائی تھی۔ نئی اقدار کے حامل ایک نئے سماج کی تشکیل کی تھی۔ مذہب نے انسان کو ا ّچھائیوں کی ترغیب تو دی، لیکن محض دھرم کی تبلیغ سے سماج کی اصلاح نہیں ہوجاتی۔ انسان کی اصلاح کے لیے اُس کی فطرت، اُس کے کردار، معاشی و سماجی حیثیت، مختلف اخلاقی معیارات، اُس کی کم علمی، لاعلمی سبھی کی اصلاح ضروری ہے اور اس کی عکاّسی ’راماین‘ میں پوری ّسچائی اور ایمان داری سے ملتی ہے۔
’راماین‘ میں ہیرو بھی ہیں اور وِلن بھی۔ اس میں طاقت ور کمزور، بہادر ڈرپوک، باعلم بے علم، لالچی اور دیش بھگت، فہیم اور کورمغز، سبھی طرح کے کردار ہیں۔ یہاں ہم جھوٹ اور بدصورتی سے نفرت کرتے ہیں اور ّسچائی، حسن، وفاداری اور پاکیزگی کو گلے لگاتے ہیں۔ سیتا سے زیادہ خوب صورت، کومل اور پاکیزہ ہیروئن کہاں ہے؟ کیا رام سے زیادہ مہربان اور رحم دِل ہیرو کوئی ہے؟ بے ریا، بے غرض لکشمن سے بڑھ کر کون بھائی ہوسکتا ہے، جو اخلاص، سوامی بھگتی اور عقیدت کا ّمجسمہ ہو۔
آج ایسے آدرش کرداروں، ہیرو اور ہیروئینوں کا تذکرہ اکثر ہوتا ہے جو ہماری نئی نسل کے لیے قابلِ تقلید ہیں۔ ہندوستان اور برِّاعظم ایشیا میں متعدّد ایسے آدرش عورتیں اور مرد پیدا ہوئے ہیں۔ ایک مشہور عالم کا قول ہے کہ لوک نایک وہ ہوتا ہے جو اپنے لوگوں کے جذبۂ آزادی، خودمختاری اور دلیری کی نمائندگی کرسکے۔ رام کے کردار میں اُن کے لوک نایک ہونے کی ایک اور خصوصیت سامنے آتی ہے۔ وہ جب دنڈک ارنیہ کو پھر سے بساتے ہیں اور دھرتی کو گل و گل زار بنا دیتے ہیں تو ایک Eco-warrior (ماحولیات کے محافظ) کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں اور اُن کے کردار کی عصری معنویت مزید اُجاگر ہوجاتی ہے۔
ہندوستان کے عہد ساز مہان نیتا جانے اَنجانے ’راماین‘ اور اس میں مذکور قدیم اقدار سے متاثرّ ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی طے کرتے ہوئے ہمارے دانشوروں، خاص طور سے ہمارے ہر دِل عزیز رہنما پنڈت جواہر لال نہرو نے ’راماین‘ میں بیان کیے گئے آدرشوں کو اپنانے کی سعی کی تھی۔ مثال کے طور پر پنچ شیل کا نظریہ ’راماین‘ ہی سے ماخوذ تھا۔ پرامن بقائے باہم، پڑوسیوں سے ا ّچھا برتاو، مذہبی رواداری، خود مختار آزاد قوموں کو سماجی و معاشی ترقیّ کا حق، جنگ سے انحراف ایسے آدرش ہیں جو شدید مصائب سے دو چار اور جدّوجہد کرتی ہوئی دُنیا کے لیے رہنما اور درخشاں ستارے ہیں۔
دُنیا کو سب سے پہلے ہندوستان نے ’غیر جانب داری‘ کا اخلاقی اصول دیا ہے جس میں حق کی طرف داری شامل ہے کیوں کہ ’راماین‘ نے ہمیں سکھایا ہے کہ جب حق و باطل کے درمیان محاذ آرائی ہو، تب غیر جانب داری بے معنی بن جاتی ہے، تب ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم حق کے طرف دار ہوں، لیکن اسی کے ساتھ ہمیں رواداری بھی اپنانی ہوگی، ’جیواور جینے دو‘ کا اصول بھی اپنانا ہوگا۔ کسی بھی ملک یا گروہ کو اپنے اعتقادات و نظریات دوسروں پر تھوپنے کا حق قطعی نہیں ہے۔ یہ راستہ تو جنگ کا راستہ ہے۔ واقعتا غیرجانب داری کا مطلب بے عملی اور لا ّتعلقی ہرگز نہیں ہے، غیر جانب داری کا مطلب تو اقوامِ عالم کو کسی ڈر، خوف اور دباو کے بغیر اپنا دوست منتخب کرنے کا حق دینا ہے۔ آدرشوں کی کھینچاتانی میں نہ پڑکر ُپرامن بقاے باہم کے لیے اپنے اثرات کو استعمال کرنا ہے۔ ’راماین‘ نے اس ّسچائی کو ہزاروں برس پہلے بیان کردیا تھا۔ آج کے حالات میں اگر غیر جانب دار تحریک کاوجود نہ ہوتا تو یہ دُنیا کب کی تباہ ہوچکی ہوتی۔ انسانیت کو نگلنے کے لیے جب جب جنگ کی آگ بھڑکی ہے، تب تب اس تحریک نے ’فائر بریگیڈ‘ کا کردار ادا کیا ہے۔
’راماین‘ میں فرماںبرداری، خود فراموشی، دیش بھگتی، شجاعت اور انصاف پسندی کے جن مثالی اوصاف کی تصویر کشی کی گئی ہے، وہ سب اوصاف صدیوں سے ہماری ’’زبانی روایات‘‘ کا ّحصہ ہیں۔ گا ￿نووں میں، جہاں بیش تر افراد پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، سب لوگ جگہ جمع ہوکر ست ُیگ کی پریرنا دینے والی کتھائیں سنتے رہے ہیں۔
مدھر، بے مثال اور ُپر از معانی ’راماین‘ کے جذباتی واقعات کی ڈرامائی پیشکش بھی صدیوں سے ہوتی آئی ہے۔ کئی صدیوں پہلے، ہندوستان کے ابتدائی اسٹیج پر قدرتی مناظر کے پس منظر میں ان واقعات کو پیش کیا جاتا رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ رام کتھا کے ُپراز جذبات اور متاثر ُکن واقعات کی پیشکش کے وقت خوںخوار جانور بھی اپنی روش چھوڑ کر ُپر سکون اور شانت ہوکر بیٹھ جاتے تھے— عہدِ وسطیٰ کے گھمکّڑ گایک بھی بستی بستی گھوم گھوم کر رام کتھا کا گاین کرتے اور عوام سب کچھ بھول کر اس میں ڈوب جاتے تھے۔ اس وقت کے لوگوں کے پاس ’راماین‘ جیسی عظیم المرتبت تخلیق کو سننے اور اس سے فلاح حاصل کرنے کا وقت بھی تھا اور دلِ دردمند بھی۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ’راماین‘ محض مذہبی تقریبات کے موقع پر ہی نہیں پڑھی جاتی تھی بلکہ ادبی محفلوں میں بھی اس کا مطالعہ کیا جاتا تھا۔ آج تک نہ جانے کتنے شاعروں، ادیبوں، ڈراما نگاروں اور سنگیت کی سادھنا کرنے والوں کے لیے ’راماین‘ ترغیب کا باعث رہی ہے۔ آر۔ کے۔ ناراین نے، جنھیں عصری ہندوستان کا ایک مہان ناول نگار مانا جاتا ہے اور گراہم گرین نے جن کا موازنہ معروف روسی ادیب چیخوف سے کیا گیا ہے، اپنی زندگی پر پڑنے والے ’راماین‘ کے اثرات کو بڑی صاف گوئی سے قبول کیا ہے۔ماضی میں کالی داس اور بھوبھوتی جیسے بڑے ادیبوں نے بھی اپنی تحریروں پر ’راماین‘ کے واضح اثرات کو قبول کیا ہے۔
ہمارے عہد کے جن مترجمین و شارحین نے راماین کی سماجی و اخلاقی معنویت کو اُجاگر کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے اُن میں ہندوستان کے بزرگ نیتا چکرورتی راج گوپال اچاریہ عرف راجاجی کا نام بہت نمایاں ہے۔ انھوں نے والمیکی اور کمبن کی راماینوں کو پیشِ نظر رکھ کر انگریزی میں جو راماین مرّتب کی ہے، اُس میں جگہ جگہ راماین کے واقعات اور بیانات کی نئی توجیہات پیش کرتے ہوئے ان میں دورِ حاضر سے مطابقت پیدا کی ہے۔ انھوں نے پڑھنے والوں کی ذہنی تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے۔
راجا جی کی ’راماین‘ انسان کے بنیادی وصف، اس کی عظمت اور پاکیزگی میں یقین رکھتی ہے۔ یہاں ’انسان‘ سے مراد مرد اور عورت دونوں ہیں۔ انھوں نے دونوں کے بنیادی جسمانی فرق کو تو قبول کیا ہے لیکن عورت کو کہیں بھی مرد سے کم تر نہیں مانا— سیتا جی کی روشن اور تابناک کردار سازی اس کا ّبین ثبوت ہے۔ ایک آدرش ہندوستانی ناری کی جملہ خوبیاں سیتا میں موجود ہیں۔ سیتا نے اپنے شوہر کو پوری عزّت اور پریم دیا، جس کے عوض شری رام نے بھی انھیں بلند مرتبہ عطا کیا۔ سنگین ترین حالات میں ثابت قدم رہ کر حوصلہ اور ہمّت بنائے رکھنا سیتاجی کو اپنے شوہر کے وجدانی عشق کا مناسب ترین حق دار بناتا ہے۔ رام کے لیے سیتا ایک بیوی، ایک رفیق، ایک دوست ہیں، کوئی کنیز یا محض شہوانی تکمیل کا ذریعہ نہیں ہیں۔
’راجا جی کی راماین‘ مکمّل طور پر آشاوادی گرنتھ ہے۔ اس میں تشکیک اور قنوطیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ یہی تشکیک اور قنوطیت، عقلیت کی آڑ میں انسانی اقدار کو مسخ کرتی ہیں، یہی بُرائی کی توصیف اور ا ّچھائی کی مذ ّمت کرنا سکھاتی ہیں۔ ’راماین‘ کی لاتعداد تفسیریں کی گئی ہیں اور ہر تفسیرنگار نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’راماین‘ میں پوشیدہ عظیم انسانی صداقت کا ایک نہیں، متعدد نقطہ ہاے نظر سے تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ راجاجی کی دلیل بھی یہی ہے۔ وہ انسان کے ضمیر اور اس کی فہم کو ہراساں کرنا نہیں چاہتے اور نہ کسی اندھی تقلید کے قائل ہیں۔ اُن کا عقیدہ تو یہ ہے کہ خود فکر کرو؛ بس اتنا جان لوکہ کچھ ایسی صداقتیں ہیں جو زندۂ جاوید اور ناقابلِ تسخیر ہیں۔ ’راماین‘ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایسے ہی نقطۂ نظر کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی سماج کو ضرر رساں نسلی اقتدار سے نجات دلانے کی سمت میں کافی ترقیّ ہوئی ہے، لیکن اب بھی مذہبی قدامت پرستی کے پروردہ ایسے نام نہاد افراد اور ایسے متعدد طاقت ور گروہ موجود ہیں جو لوگوں کی مذہبی، روحانی اور تہذیبی برتری کی شناخت ’راماین‘ کی روشنی میں کرنے پرُمصر ہیں اور رنگ و نسل کے امتیاز کے لیے اس ّمقدس کتاب کا مطلب پرستانہ حوالہ دیتے ہیں،جب کہ ّسچائی یہ ہے کہ اس مدّلل انسانی رزمیہ میں کہیں ایک سطر بھی ایسی نہیں جو ولادت کی بنیاد پر نسلی امتیاز کی حمایت کرتی ہو۔ راجا جی کی ’راماین‘ واشگاف طور پر کہتی ہے کہ انسان تبھی تک کسی مخصوص امتیاز کا حامل رہ سکتا ہے جب تک وہ اوصافِ حمیدہ سے خود آراستہ رہے۔ جس انسان میں کام، کرودھ، لالچ، غرور اور خودغرضی جیسی اخلاق سوز برائیاں ہوں، اسے اعلا نسب انسان نہیں مانا جاسکتا۔ نسب کا مفہوم صرف جسمانی نہیں، باطنی بھی ہے۔ جہاں انسان کے ظاہر اور باطن میں فرق ہو، وہاں اس کے اعلا نسب ہونے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اعلا نسب میں پیدا ہوکر بھی اگر انسان کا ضمیر آلودہ ہو تو اُسے اعلا نسبی کا احترام پانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ہر ذی رُوح کو معیارِ زندگی کی بہتری اور ایک مکمّل انسان بننے کا تہذیبی، سماجی اور معاشی موقع ضرور ملنا چاہیے۔ اگرچہ اس طرح کا کوئی پیغام ’راماین‘ میں واضح لفظوں میں نہیں دیا گیا ہے لیکن راجاجی کے ہاں یہ مفہوم بین ا ّلسطور میں مضمر ضرور ہے، اسی لیے اُن کی ’راماین‘ کو سرسری نظر سے پڑھ لینا کافی نہیں ہے، اس کا مطالعہ بڑی باریک بینی اور گہرے غور و فکر کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک صاحبِ فہم و عقل پر راجا جی کی ’راماین‘ کے ہر بار کے مطالعے سے کچھ نئی صداقتیں واشگاف ہوتی ہیں۔
ہماری موجودہ دُنیا میں بیش تر تنازعات اور آلام کا باعث نام نہاد اعلا طبقے کا، کسی وصف اور خوبی کے بغیر، اپنے آپ کو اشرف اور اکمل سمجھنا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے روییّ سے اپنی شرافتِ نفس کا ثبوت دیں تو ان کی اشرفیت کے قبول میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو وہ یہ حق کھو بیٹھتے ہیں۔ انسان کو دوسروں کا احترام تو کرنا ہی چاہیے۔ اسی کے ساتھ اسے آپ اپنی عزّت کرنا بھی سیکھنا چاہیے۔ اپنی عزّت خود کرنا بڑا مشکل کام ہے؛ خصوصاً اُس کے لیے جو کسی بھرم میں گرفتار ہو۔ ایک مقام پر شیکسپیئر نے کہا ہے:
’’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان اپنے تئیں ّسچا رہے۔‘‘
لہٰذا جو لوگ رام کے سچیّ پیروکار ہونے کا دعوا کرتے ہیں لیکن رام کے آدرشوں کے برعکس نفرت، نارواداری، تشدّد اور دوسروں کو اذ ّیت کے درپے ہیں، انھیں ایک لمحہ رُک کر اپنے اس روییّ کا احتساب کرنا چاہیے۔ اگر انھیں اپنے اس روییّ پر افسوس اور پشیمانی ہوتی ہے تو وہ یقینا رام راجیہ کے قیام میں اپنا بیش قیمت تعاون دے سکیں گے— ایسا رام راجیہ پھر سے قائم کرسکیں گے جس میں رُوحانی اور اخلاقی آنند ہو۔ وہ اس آنند کے امرت بھرے سرچشمے سے سرشار ہوسکیں گے۔ ’راماین‘ کے آدرشوں کو ُبھلا کر بھیدبھاوکی سیاست کرنے میں مصروف سیاست دانوں کی متشدّدانہ فطرت راکھشسی مزاج کی علامت ہے۔ یہ لوگ رام کے نہیں راون کے پیرو دِکھائی دیتے ہیں۔راجا جی کی راماین ہمیں اُن سے بچنے کا اشارہ دیتی ہے۔
’راماین‘ کا بنیادی سبق ہے ’خاندان کا وقار۔‘ خاندان، سماج کا ایک چھوٹا رُوپ ہے۔ سماج کی طرح ایک خاندان کے بھی روزمرّہ کے کچھ ضابطے ہوتے ہیں۔ خاندان کی یک جہتی کے لیے ایک دوسرے کے تئیں اعتماد اور اخلاص بہت ضروری ہے— ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا بڑی ذمّے داری ہے۔ ہندوستان میں خاندان کی جتنی اہمیت ہے اُتنی دُنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ ہندوستانی سیاق میں خاندان کی اجتماعیت نے ہمیں نسلی تفاوت، غریبی، غیرملک کے حملے اور ناقابلِ قبول تہذیبی خرابیوں کے سامنے سپر ڈالنے نہیں دی ہے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اب ہمارے سماج میں بھی خاندانی اجتماعیت کی اہمیت گھٹ رہی ہے اور اس کی جگہ ذاتی غرض کو ترجیح دی جانے لگی ہے۔ اب ہر شخص سے اپنا راستہ خود بنانے کی تو ّقع کی جاتی ہے۔ جدیدیت کے نام پر بڑوں کا ادب، اخلاقی اقدار کا وقار اور اپنی تہذیب کا سمّان مفقود ہوتا جارہا ہے۔ باپ، بھائی، پڑوسی، شہری، یہاں تک کہ انسان کے افتخار کو گہن لگتا جارہا ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لیے، جن کی زندگی کے کئی برس ہندوستانی سماج میں گزرے ہیں، نامانوس، غیرمحفوظ اور مختلف غیرملکی تہذیبی پس منظر میں خاندان کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اہلِ برطانیہ نہ صرف ہم ہندوستانیوں کی سخت کوشی اور کاروباری و تعلیمی لیاقت کے سبب ہمیں عزّت دیتے ہیں بلکہ ہماری خاندانی ہم آہنگی بھی ہمیں ان کی نظروں میں مستحسن بناتی ہے۔ خاندانی ہم آہنگی کا یہی جذبہ ہمیں وہ ّتحفظ، خلوص ، سکون اور باقاعدگی عطا کرتا ہے جس سے خاندان کے ہر فرد میں خوداعتمادی اور رجائیت پیدا ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے جدیدیت کے متزلزل کردینے والے اثرات کے باوجود، ہندوستان سے باہر رہنے والے ہندوستانیوں میں خاندانی ہم آہنگی کے جذبے کو کسی طرح کا خطرہ نہیں ہے۔
راجا جی کی’راماین‘ نے بڑی مہارت اور خوبصورتی سے ہمیں خاندان اور سماج کے فوائد سے متعارف کرایا ہے۔ جب تباہ کار مخالف عناصر سے ہمارا واسطہ ہو تب خاندان اور سماج کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ بھگوان رام پر جب مصیبت آئی، تب انھوں نے اپنے خاندان اور سماج کے تعاون سے ہی راون جیسے شہ زور دشمن پر فتح پائی تھی۔
جان ڈن نے لکھا ہے: ’’کوئی شخص ایک الگ جزیرہ نہیں ہوتا۔‘‘ جان ڈن سے ہزاروں برس پہلے ’راماین‘ یہی پیغام دے چکی ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہتے ہیں اور اجتماعی وطبقاتی فروغ کے ذمّے دار ہیں۔ پہاڑوں کے غاروں میں زندگی بسر کرنے والے رِشی مُنیوں کو بھی کبھی کبھار اپنے ُکنج سے باہر آکر سماج سے اپنے لیے غذا اور سماجی ّتحفظات حاصل کرنے پڑتے تھے۔ نجات کے ّمتمنی ان حضرات کی بات چھوڑ بھی دی جائے، جنھوں نے انسانی سماج سے اپنے آپ کو بالکل منقطع کرلیا ہے، تو بھی دیگر سبھی کو کبھی نہ کبھی انسانی سماج سے ّتعلق قائم کرنا ہی پڑتا ہے۔ خصوصاً بااقتدار شخص کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اخلاقیات کا اعلا نصب العین قائم کرتے ہوئے کمزوروں کو ّتحفظ مہیّا کرے۔ شہ زور دشمن ’بالی‘ کے خلاف کمزور ’ ُسگریو‘ کی طرف داری کرکے بھگوان رام نے جس انصاف پسندی کا ثبوت دیا تھا اس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ بالی نے ُسگریو کے ساتھ انصاف نہیں کیا تھا۔ بھگوان رام نے انصاف کا ساتھ دیا اور ُسگریو کو اس کا حق دلوایا۔ سچ پوچھا جائے تو دھرم کا تقاضا یہی تھا۔ کوئی شخص بھی، چاہے وہ کتنا ہی بااثر، طاقت ور اور اہل ہو، دھرم سے اُوپر نہیں ہے۔بھگوان رام کی طرح ہر شخص کو حق کاطرف دار اور صداقت پسند ہونا چاہیے۔ راجاجی کی ’راماین‘ میں ان آدرشوں کا بڑا واشگاف بیان آیا ہے۔
آدمی کو دُنیا میں ایک مہمان کی طرح رہنا چاہیے اور اپنے افکار میں بھی ایک مہمان کی مانند ہونا چاہیے۔ اسے ہمیشہ صداقت پر قائم رہنا چاہیے۔ وہ ہے کون؟ حق نے اُسے مٹّی سے گھڑا اور آگ میں تپا کر یہ فانی شریر دیا ہے۔ حق کے بنا وہ مٹّی کے ایک ڈھیلے کی طرح ہے۔ اس کی عظمت اسی میں ہے کہ وہ مادّی عظمت کا خواہش مند نہ ہو۔ اگر دولت کا خواہش مند ہے تو اخلاص کی دولت جمع کرے، استغنا کی نعمت پائے اور عاجزی کو فروغ دے کر لمحہ بھر میں لافانیت حاصل کرلے۔
جس بھارت بھومی نے تقوے اور حقوقِ انسانی کے دفاع میں ایسا عظیم فلسفیانہ گرنتھ دیا اُسی بھومی پر آج انسانی افتخار کی تذلیل کی جارہی ہے۔ وِشوامتر ہمیں ایسے اعمالِ بد سے آگاہ کرتے ہیں لیکن ہمارے باطن کے دشرتھ ہمارے اندر کے رگھونندن کو ان برائیوں سے لڑنے کے لیے رِشی (ضمیر) کے ساتھ جانے نہیں دیتے۔ اسی لیے موجودہ دُنیا میں شیطانی طاقتیں پوری قوّت سے تانڈو کر رہی ہیں۔ ’راماین‘ کے مطابق جب چھتری بھی صداقت اور مذہب کے دفاع میں ناکام رہے تب پرشورام کی صورت میں ظاہر ہوکر بھگوان نے ان نام نہاد محافظوں کا خاتمہ کیا۔ اور تب بھگوان رام کا جنم ہوا جنھوں نے اپنے برتاو سے ’چھاتردھرم‘ کی مریادا قائم کی۔
دُنیا کے حق اور دھرم سے بھٹک جانے کے باوجود ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہر سماج میں سچ اور جھوٹ، ا ّچھائی اور برائی کے درمیان رسّاکشی جاری رہتی ہے، جہاں کسی ایک برائی کو دبایا جاتا ہے وہیں دوسری برائی سر اُٹھانے لگتی ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ یہ برائیاں غالب نہ ہوجائیں اور آخری فتح بہرحال نیکی کی ہو۔ راجاجی کی ’راماین‘ ان لوگوں کے لیے محرّک کی حیثیت رکھتی ہے جو دُنیا کو بہتر، انصاف پرور اور خوبصورت بنانا چاہتے ہیں۔ مثلاً اہلیا کے اُدّھار کے واقعے کی مثال دیتے ہوئے راجا جی فرماتے ہیں:
’’اہلیا کے واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا پاپ کتنا ہی بڑا ہو،سزا اور پرائشچت سے گزر کر ہم اس سے نجات پانے کی تو ّقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے پاپوں پر انھیں لعنت ملامت کرنے کے بہ جائے ہم خود اپنے دِلوں کو ٹٹولیں اور ہر قسم کے ُبرے خیال سے انھیں پاک کرنے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے جو سب سے نیک ہیں انھیں بھی گناہوں سے بچنے کے لیے ہمیشہ بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔‘‘
مندرجۂ بالا اقتباس میں نے پروفیسر یونس اگاسکر کے اُردو ترجمے سے لیا ہے جو اس وقت میرے زیرِ نظر ہے۔ راجاجی کی انگریزی ’راماین‘ ہمارے عہد کی اہم کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کی سلیس و رواں انگریزی ہمارے دِلوں کو چھو جاتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی مسرّت ہوئی کہ پروفیسر یونس اگاسکر نے نہ صرف اصل کی روانی و سلاست کو بڑی صفائی سے اُردو میں منتقل کیا ہے بلکہ سنسکرت اور ہندی کے الفاظ و تراکیب کو بھی اس خوبی سے برتا ہے کہ ا ّجنبیت کا احساس نہیں ہوتا اور ہم ’راماین‘ سے وابستہ لسانی و ثقافتی ماحول میں پہنچ جاتے ہیں۔
پروفیسر یونس اگاسکر کو ہندوستان کی مشترکہ تہذیب اور ملک کی وحدت و سالمیت سے گہرا لگاو رہا ہے۔ اُنھوں نے اپنے تراجم کے ذریعے مختلف زبانوں خصوصاً مراٹھی اور اُردو بولنے والوں کے درمیان جذباتی، تہذیبی و لسانی قربت و ہم آہنگی پیدا کرنے میں جو یوگ دان کیا ہے وہ یقینا قابلِ ستائش ہے۔
ممبئی یونی ورسٹی میں انھوں نے ُگرودیو ٹیگور چیئر اور شعبۂ اُردو کے باہم اشتراک سے ’راماین‘ اور ’مہابھارت‘ کی روایات پر جو دو قومی سیمینار کیے ہیں، وہ بھی ہمارے مشترک قومی ورثے کے ّتحفظ میں اُن کی اہم خدمت کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ ان دو عظیم رزمیوں سے اُن کی دلچسپی کے پیشِ نظر اُن کے قلم سے راجاجی کی انگریزی ’راماین‘ کا اُردو میں منتقل ہونا ایک فطری عمل معلوم ہوتا ہے، جسے پروفیسر یونس اگاسکر نے بڑی تن دہی اور لگن سے انجام دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ راجاجی کی ’راماین‘ کے بال کانڈ کا یہ ترجمہ، جس میں سری رام کی پیدائش سے لے کر سیتا سوl اور پرشورام کو شکست دے کر اس کا غرور توڑنے تک کے واقعات شامل ہیں، ہمارے اندر رُوحانی تسکین کا احساس پیدا کرتا ہے۔
یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ تقسیم سے قبل شمالی ہند اور پنجاب کے ہندو اور مسلم اُردو ہی میں لکھتے پڑھتے تھے اور ہندوؤں کی ّمقدس کتابیں بھی اُردو زبان یا رسمِ خط میں چھپتی تھیں۔ راقم الحروف نے بھی ’راماین‘ سے پہلی واقفیت اُردو زبان ہی کے توسّط سے حاصل کی تھی۔ لیکن تقسیم کے بعد لسانی ماحول بدل گیا اور اُردو میں ’راماین‘ یا ’مہابھارت‘ وغیرہ کی اشاعت کا سلسلہ آہستہ آہستہ ختم ہوگیا۔
ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے پروفیسر یونس اگاسکر کا کہ انھوں نے اس حسین روایت کا احیا کیا ہے اور اُردو کے ہندوستانی مزاج کو اُجاگر کرنے میں اپنے قلم کی طاقت اور ذہنی صلاحیت کو صرف کیا ہے۔ کاش کہ وہ ّمکمل ’راماین‘ کا ترجمہ کرپاتے مگر موجودہ صورت میں بھی یہ کتاب شری رام کی زندگی کے ایک اہم موڑ یا سنگِ میل تک ہمیں پہنچاتی ہے اور اس اعتبار سے مکمّل ہے کہ رام جب رِشی وِشوامتر کی آرزو کی تکمیل کر کے سیتاجی کے ہمراہ ایودھیا نگری لوٹتے ہیں تو ہم بھی اپنے من کی ایودھیا میں پہنچ جاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اُردو کے ہندو مسلم قارئین، جن میں بچیّ بھی شامل ہوں گے اور ادب کے ماہرین و ناقدین بھی، پروفیسر ُیونس اگاسکر کی اس ادبی و قومی خدمت کی سراہنا کریں گے۔ میری نیک تمنّائیں ان کے ساتھ ہیں۔
(ڈاکٹر) وِدّیا ساگر آنند
لندن

——-v——-
راجا جی کی راماین : بال کانڈ
(رام جنم سے سیتا سوl تک)
——-v——-

 

یہاں دو باتوں کا ذکر ضروری ہے:
اس ترجمے کا دسواں باب پرشورام کی شکست سے ّمتعلق ہے لیکن ’راماین‘ کے واقعات میں سیتاسوlکو غیرمعمولی مقبولیت و شہرت حاصل ہے اور یوں بھی یہ ترجمہ رام اور سیتا کے ایودھیا لوٹنے پر پورا ہوتا ہے اس لیے کتاب کے ذیلی عنوان میں ’سیتا سوl‘ کو ترجیح دی گئی ہے۔
دوسرے یہ کہ ّبچوں، ِتعلیم بالغاں کے تحت اُردو پڑھنے والوں اور غیرملکی طالبِ علموں کی سہولت کی خاطر ترجمے کے متن (Text)کو جلی حرفوں میں چھاپا گیا ہے۔ اُ ّمید کہ ’راماین‘ کے اس ترجمے کے قدردانوں کو یہ بات پسند آئے گی۔
پہلا باب

 

حمل

دریاے گنگا کے شمال میں عظیم کوشل راج واقع تھا جس کی سرزمین کو سریوُندی نے زرخیز بنادیا تھا۔ اس کی راج دھانی ایودھیا تھی جسے سورج بنسی خاندان کے مشہور حکم راں ’’منو‘‘ نے تعمیر کیا تھا۔ والمیکی نے اپنی راماین میں جو تفصیلات دی ہیں، ان سے صاف پتا چلتا ہے کہ قدیم ایودھیا نگری ہمارے جدید شہروں سے کم تر نہیں تھی۔ قدیم بھارت میں بھی شہری تہذیب، اعلا درجے تک تر ّقی کرچکی تھی۔
راجا دشرتھ اپنی راجدھانی ایودھیا سے اس سلطنت پر حکومت کیاکرتے تھے۔ انھوں نے مختلف جنگوں میں دیوتاؤں کا ساتھ دیا تھا اور اپنی شجاعت کی بدولت تینوں لوکوں میں نام کمایا تھا۔ وہ بہادری میں اِندر اور دولت میں ُکبیر کے برابر تھے۔ کوشل راج کی رعایا خوش حال، مطمئن اور راست باز تھی۔ اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ایک زبردست فوج موجود تھی اور کوئی دشمن اس کی سرحد کے قریب پھٹکنے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
سلطنت کی حفاظت کے لیے قلعے بھی تھے جن کے اِرد گرد خندقیں اور دیگر بہت سی ّتحفظاتی تنصیبات تھیں جن کی بدولت ایودھیا اپنے نام ہی کے مصداق دشمنوں کو ناکام بنائے ہوئے تھی۔ (ایودھیا کے معنی ہیں: غیر مفتوح)
راجا دشرتھ کے دس دانش مند وزیر تھے جو انھیں مشورہ دینے اور ان کا حکم بجالانے کے لیے ہر وقت مستعد رہا کرتے تھے۔ وسِشٹھ اور وام دیو جیسے رشی اور دیگر برہمن دھرم کی تعلیم دینے اور مذہبی رسومات اور Bکی تکمیل کے لیے موجود تھے۔ اس ملک میں محصول بہت کم تھے اور جرائم کی سزائیں انصاف پر مبنی تھیں اور خطاکار کی قوّتِ برداشت کے مطابق اس پر عائد کی جاتی تھیں۔ بہترین مشیروں اور سیاست دانوں کی موجودگی کے سبب راجا دشرتھ کی شان و شوکت چڑھتے سورج کی طرح روشن سے روشن تر ہوتی چلی گئی۔
اس طرح کئی سال گذر گئے لیکن ہر قسم کی خوش حالی کے باوجود راجا دشرتھ کو ایک غم کھائے جاتا تھا۔ اُن کے کوئی بیٹا نہ تھا۔
گرمیوں کی ابتدا میں ایک دن انھوں نے سوچا کہ اولاد کے لیے ’اَشومیدھ‘ کیا جائے۔ انھوں نے اپنے مذہبی ُگروؤں سے مشورہ کیا اور ان کی صلاح سے رِشی ’رِشیہ سرنگ‘ کو B کرنے کی دعوت دی۔
یہ B ایک غیر معمولی تقریب تھی جس میں اس وقت کے تمام راجے اور حکمراں مدعو تھے۔ B کی انجام دہی آسان نہ تھی۔ اس کے لیے جگہ کا انتخاب اور قربانی کے لیے منچ کی تعمیر مذہبی صحیفوں میں درج اصولوں کے عین مطابق ہونی چاہیے تھی۔ متعدّد ماہرین سے اس کے انتظامات کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کی گئی۔ چناںچہ طے پایا کہ ایک ایسا شہر بسایا جائے جس میں ہزاروں مہمانوں کے لیے، جن میں شہزادے اور رشی شامل تھے، رہایش، ضیافت اور تفریح کا سامان مہیّا ہو۔ مختصر یہ کہ اس زمانے کے B ہمارے دَور کی ریاستی یا حکومتی سطح کی کانفرنسوں اور نمائشوں سے کم نہ تھے۔جب سارے انتظامات ّمکمل ہوگئے تو شاستروں کی ہدایتوں کے مطابق رسومات کا آغاز کیا گیا۔
جس وقت ایودھیا میں B چل رہا تھا، سورگ میں دیووں کی مجلسِ مشاورت ہورہی تھی۔ دیووں نے برہما سے شکایت کی کہ راکھشسوں کا راجا راون، برہما کے وردان کے سبب حاصل ہونے والی طاقت کے نشے میں انھیں حد سے زیادہ تکلیفیں اور اذ ّیتیں دے رہا تھا۔ انھوں نے برہما کی خدمت میں عرض کیا:
’’یہ ہماری طاقت سے باہر ہے کہ راون پر غلبہ یا فتح حاصل کریں یا اُسے جان سے ماردیں۔ آپ کے وردان کے ّتحفظ کی وجہ سے وہ زیادہ سے زیادہ شریر اور گستاخ ہوگیا ہے اور سب کے ساتھ، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، نہایت ُبرابرتاو کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اِندر کو تخت سے اُتار دے۔ اب ہمارے لیے آپ کی شرن لینے کے سوائے کوئی چارۂ کار نہیں رہا۔ اب آپ ہی کوئی طریقہ ایسا نکالیے کہ راون کا خاتمہ ہو اور اس کے ظلم و ستم سے سب کو نجات ملے۔‘‘
برہما جانتے تھے کہ راون کی ّتپسیا اور پرارتھنا سے خوش ہوکر انھوں نے اس کا ￿منہ مانگا وردان اسے دیا تھا، جس کے بل پر وہ دیووں، اَسوروں، گندھرووں اور ایسی ہی دیگر مخلوقات کے لیے غیر مفتوح اور ناقابلِ شکست ہوگیا تھا۔ البتہّ اپنے غرور کے نشے میں راون نے انسانوں کے خلاف ّتحفظ مانگنے کی پروا ہی نہیں کی تھی۔ جیسے ہی برہما نے راون کی اس بھیانک غلطی کی نشان دہی کی، سارے دیووں نے خوشیاں منائیں اور وشنو کی طرف روانہ ہوگئے۔
اپنے آپ کو ہری کے قدموں پر نثار کرتے ہوئے سارے دیووں نے ان سے التجا کی کہ انسان کا روپ لے کر پرتھوی پر جنم لیں اور راون اور اس کے اتیاچاروں کا خاتمہ کریں۔ ہری نے اُن کی پرارتھنا مان لی اور دیووں سے وعدہ کیا کہ وہ راجا دشرتھ، جو اس وقت اپنی نسل کے لیے Bکرنے میں مشغول تھے، کے چار پتروں کے روپ میں جنم لیں گے۔
چناںچہ جیسے ہی B کی اگنی میں گھی انڈیلا گیا اور اس کے شعلے بلند ہوئے، ان شعلوں میں سے ایک پُرشکوہ شبیہ، بلند ہوئی جو دوپہر کے سورج کی طرح روشن تھی اور جس کے ہاتھ میں ایک سونے کا پیالہ تھا۔ راجا دشرتھ کو اس کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے اس شبیہ، نے کہا:
’’دیوتا تم سے پر ّسن ہوئے اور تمھاری پرارتھنا انھوں نے قبول کرلی۔ یہ ’پایسم‘ لوجودیوتاؤں نے تمھاری رانیوں کے لیے بھیجا ہے۔ جب تمھاری رانیاں اس ّمقدس مشروب کو پی لیں گی تو تمھارے یہاں دیوتاؤں کی مہربانی سے لڑکوں کی پیدایش ہوگی۔‘‘
راجا دشرتھ نے بے حد خوش ہوکر اس پیالے کو کسی ّننھے بچیّ کی طرح اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنی تینوں رانیوں کوشلیا، سمترا اور کیکئی کے درمیان وہ پایسم تقسیم کردیا۔ سب سے پہلے انھوں نے کو شلیا سے کہا کہ وہ آدھا پایسم پی لیں۔ پھر بچا ہوا آدھا پایسم انھوں نے سمترا کو دیا۔ سمترا نے اس میں سے آدھا پی لیا تو بچا ہوا پایسم کیکئی کو دیا گیا۔ کیکئی نے پایسم پینے کے بعد آخری بچا ہوا ّحصہ پھر سے سمترا کو دیا۔
راجا دشرتھ کی رانیاں ’پایسم‘ پی کر ایسے خوش ہوگئیں جیسے کسی فقیر کو گڑا ہوا خزانہ مل جائے۔ تھوڑے ہی دنوں بعد وہ تینوں حاملہ ہوگئیں۔
دوسرا باب

 

رِشی وِشوا ِمتر

کچھ عرصے بعد راجا دشرتھ کے ہاں چار لڑکے پیدا ہوئے۔ کوشلیا اور کیکئی نے رام اور بھرت کو جنم دیا۔ ُسمترا نے دوجڑواں بچوں لکشمن اور شتروگھن کو جنم دیا۔ کیوںکہ انھوں نے دو مرتبہ ’پایسم‘ پیا تھا۔
روایت مشہور ہے کہ راجا دشرتھ کی رانیوں میں سے جس نے جتنی مقدار میں پایسم پیا، اس کی اولاد میں اسی قدر وشنو کی خصوصیات پیدا ہوئیں۔ اس طرح رام آدھے وشنو ہوگئے۔ مگر اس طرح کے قیاسات کی کوئی حقیقت نہیں ہے اس لیے کہ ابدیت کو کسی پیمانے سے ناپا نہیں جاسکتا۔ شرتی (وید) کے مطابق اس ذاتِ اکبر کا ایک ذرّہ بھی ُکل ہوتا ہے اور اپنی ذات میں ّمکمل ہوتا ہے۔
’’ ُکل کیا ہے۔ یہی ُکل ہے اور جو کچھ ُکل سے نکلا ہے وہ بھی ُکل ہے۔ جب ُکل سے ُکل کو نکالا جاتا ہے تو ُکل ہی باقی رہتا ہے۔‘‘
راجا دشرتھ کے چاروں بیٹوں کو وہ ساری تعلیم و تربیت دی گئی جو راج کماروں کے لیے ضروری تھی۔ رام اور لکشمن میں بڑی ّمحبت تھی۔ اور بھرت اور شتروگھن آپس میں بڑا پیار رکھتے تھے۔ ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس خصوصی لگاو کا سبب وہ طریقہ تھا جس کے تحت ّمقدس پایسم راجا دشرتھ کی رانیوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ راجا دشرتھ یہ دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے کہ ان کے بچیّ نہ صرف قوی، صالح، بہادر اور سب کے پیارے ہوگئے تھے بلکہ راج کماروں کی ساری خوبیوں کے حامل تھے۔
ایک روز راجا دشرتھ بیٹھے اپنے ّبچوں کے بیاہ کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ دربانوں نے عظیم رِشی وِشوامتر کی آمد کا اعلان کیا۔ وشوامتر کو رشیوں میں سب سے طاقت ور رشی کی حیثیت سے بڑی عزّت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ایودھیا میں رِشی وِشوامتر کی آمد قطعی غیرمتو ّقع تھی۔ راجا دشرتھ نے اپنے تخت سے اُترکر اور چند قدم آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا۔
وِشوامتر دراصل ایک راجا تھے جنھوں نے کڑی ّتپسیاؤں کے بعد رِشی کا درجہ حاصل کیا تھا۔ بہت عرصے پہلے انھوں نے اپنی روحانی قوّتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نیا برہما اور ایک نئی کاینات تخلیق کرنی شروع کی تھی۔ وہ اپنے اس کام میں یہاں تک آگے بڑھ گئے تھے کہ نئے اجرامِ فلکی تک بنالیے تھے۔ مگر گھبرائے ہوئے دیوتاؤں نے منّت سماجت کرکے انھیں اس ارادے سے باز رکھا۔
قصہ یہ ہوا کہ اپنی حکم رانی کے زمانے میں وِشوامتر ایک مرتبہ اپنی فوج لے کر نکلے تو اچانک وسِشٹھ رشی کے آشرم پہنچ گئے۔ رِشی نے خوش دلی سے اس شاہی مہمان اور اس کی وسیع فوج کا استقبال کیا۔ اور ایسے لذیذ کھانوں سے ان کی تواضع کی کہ راجاوشوامتر کو حیرت ہوئی۔ بھلا جنگل کی ایک کٹیا میں چیزوں کی یہ افراط کہاں سے ہوئی۔ جب انھوں نے وسِشٹھ رِشی سے وضاحت چاہی تو انھوں نے اپنی گائے ’’سبلا‘‘ کو آواز دی اور بتایا کہ یہی نہ ختم ہونے والی نعمتوں کا ￿منبع ہے۔
رِشی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے راجا وِشوامتر نے کہا ’’آپ یہ گائے مجھے دے دیجیے اس لیے کہ یہ میرے لیے آپ سے زیادہ کار آمد ثابت ہوگی۔ قوّت اور دولت کی حامل چیزیں راجاؤں ہی کو زیب دیتی ہیں۔‘‘
وسِشٹھ کے لیے ّمقدس گائے کو چھوڑنا ممکن نہ تھا۔ اُنھوں نے کئی عذر پیش کیے اور راجا سے درخواست کی کہ اس سلسلے میں اصرار نہ کریں لیکن جوں جوں وسِشٹھ کا انکار بڑھتا گیا، گائے حاصل کرنے کے لیے وِشوامتر کی بے قراری میں اضافہ ہوتا گیا۔ رِشی کو لالچ یا ُپھسلاوا دے کر گائے حاصل کرنے کی کوشش میں ناکام ہونے پر وِشوامتر کو غصّہ آگیا اور انھوں نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ گائے کو زبردستی پکڑ لیں۔
بے چاری سبلا نہیں سمجھ سکی کہ اس کے ساتھ زور زبردستی کیوں کی جارہی ہے۔ وہ خود بھی رشی اور ان کے آشرم سے الگ ہونا نہیں چاہتی تھی۔ آ ￿نسو بہاتے ہوئے وہ حیرانی سے سوچتی رہی کہ اس سے کیا قصور ہوگیا ہے کہ وسِشٹھ ُچپ چاپ کھڑے دیکھ رہے ہیں مگر کھینچ لے جانے والوں سے اسے چھڑا نے کی کوشش نہیں کررہے ہیں۔ آخر گائے نے سپاہیوں پر حملہ کرکے انھیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا اور رِشی کے قدموں میں پناہ لی۔اپنی محبوب گائے کی قابل رحم حالت سے وسِشٹھ بڑے متاثرّ ہوئے۔ وہ ان کے لیے چھوٹی بہن کی مانند تھی۔ انھوں نے فرمایش کی:
’’ایک فوج کھڑی کردو جو وشوامتر کی فوج کا مقابلہ کرے۔‘‘
سبلا نے فوراً حکم کی تعمیل کی جس کے نتیجے میں حملہ آوروں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ وِشوامتر غضب ناک ہوکر اپنے رتھ پر سوار ہوئے اور اپنی کمان اٹھاکر گائے کی پیدا کی ہوئی فوج پر تیروں کی بارش کردی مگر دُشمن کی طاقت اور تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ان کے تیر ختم ہوگئے اور ان کی فوج کو مکمّل شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ وِشوامتر کے چند لڑکوں نے وسِشٹھ کو نشانہ بنایا مگر وسِشٹھ کی جگہ وہ خود جل کر خاک ہوگئے۔
شکست اور ہزیمت اٹھانے کے بعد وِشوامتر نے اُسی وقت اپنی حکومت اپنے ایک لڑکے کو سونپی اور ّتپسیا کرنے کے لیے ہمالیہ کی طرف چلے گئے تاکہ وسِشٹھ کو نیچا دِکھانے کے لیے شیو کی آرادھنا اور پوجا کریں۔ وِشوامتر نے اپنی ّتپسیاؤں میں وہ ثابت قدمی اور استقلال دکھایا کہ شیو نے خوش ہوکر انھیں درشن دیا۔ بھگوان نے راجا سے پوچھا: ’’تم اپنی ّتپسیا کا کیا پھل چاہتے ہو؟‘‘
وِشوامتر نے جواب دیا: ’’اے اُماپتی! اگر آپ میری ّتپسیا سے مطمئن ہیں تو مجھے آسمانی تیر اور سارے ہتھیار چلانے کی مہارت کا وردان دیجیے۔‘‘
’’تتھاستو!‘‘ شیو نے کہا اور دیووں، گندھرووں، رشیوں، یکشوں اور راکھشسوں کو حاصل سارے ہتھیار وشوامتر کو سو￿نپ دیے۔
فخر سے سمندر کی طرح پھول کر وِشوامتر نے سوچا کہ اب وسِشٹھ کا خاتمہ ہوگیا۔ وہ سیدھے رِشی کی ُکٹیا کی طرف روانہ ہوگئے۔ وِشوامتر کی غضب ناک شکل دیکھتے ہی وسِشٹھ کے چیلوں اور آشرم کے مویشیوں میں بھگدڑ مچ گئی۔
وِشوامتر کے اگنی بان نے وسِشٹھ کے آشرم کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ وسِشٹھ کو حالات کا رُخ دیکھ کر بڑا دُکھ ہوا مگر انھوں نے ّتہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس مغرور راجا کے غرور کو توڑکے رہیں گے۔ چناںچہ انھوں نے اپنی ّمقدس لاٹھی ’’برہما نند‘‘ اٹھائی اور وشوامتر کا مقابلہ کرنے لگے۔ غصّے میں لال پیلے ہوکر وِشوامتر نے سارے آسمانی ہتھیار اُن پر چلائے لیکن وہ سارے کے سارے رشی کی لاٹھی کے نزدیک پہنچتے ہی اس کے اندر سماتے چلے گئے گویا وہ انھیں پی گئی ہو۔
اب تو وِشوامتر کے پاس صرف ایک ہتھیار بچ رہا تھا جو سب سے طاقتور تھا یعنی ’’برہماستر۔‘‘ جیسے ہی انھوں نے وسِشٹھ پر وہ ہتھیار چلایا، ساری دُنیا پر اس طرح غم کی فضا چھا گئی جیسے بہت بڑا سورج گہن لگا ہو اور ساری مخلوق خوف سے کانپنے لگی ہو۔ لیکن وہ خوفناک ہتھیار بھی رِشی کی لاٹھی میں سما گیا۔ جس کے نتیجے میں وہ لاٹھی اور رِشی دونوں اس کی روشنی سے منوّر ہوگئے۔
وِشوامتر بدحواس ہوگئے۔ کھلے طور پر شکست کا اعتراف کرتے ہوئے انھوں نے کہا:
’’ہتھیار چلانے میں ایک چھتری کی مہارت کی حیثیت ہی کیا ہے اگر محض ایک لاٹھی کے ذریعے وسِشٹھ میرے سارے ہتھیاروں کا خاتمہ کردے۔ شیو نے یقینا مجھے بیوقوف بنایا اب میرے لیے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ میں بھی وسِشٹھ ہی کی طرح برہم رِشی بن جاؤں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وِشوامتر میدانِ جنگ سے نکل گئے اور مزید کڑی ّتپسیا کرنے کے لیے جنوب کی طرف چلے گئے۔
سالہا سال تک وِشوامتر نے طرح طرح کی ّتپسیائیں کیں۔ برہما ان کی ریاضت کو دیکھ کر خوش ہوئے، اور انھیں اپنا درشن دیا۔ وِشوامتر کو یہ بشارت دیتے ہوئے کہ وہ اپنی ّتپسیا کی وجہ سے راجاؤں میں رِشی کے مرتبے کو پہنچ چکے ہیں، برہما غائب ہوگئے۔
وِشوامتر کو بڑی مایوسی ہوئی کہ اتنی ساری ریاضت اور ّتپسیا کے باوجود انھیں محض راجا رِشی کا درجہ حاصل ہوسکا۔ اپنے آپ کو برہم رِشی کے اعلا ترین مرتبے تک پہنچانے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو اور کڑی ّتپسیاؤں میں مبتلا کیا تاکہ انھیں وسِشٹھ کی برابری حاصل ہوسکے۔
تیسرا باب

 

ِترشنکو

یہ وہ زمانہ تھا جب سورج بنسی خاندان کا مشہور راجا ترشنکو حکومت کرتا تھا۔ وہ اپنے جسمانی حسن کا اس قدر عاشق تھا کہ مرتے وقت بھی اپنے جسم کو خود سے الگ کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے جسم کے ساتھ ہی سورگ میں داخل ہو۔
وسِشٹھ نے جو اس کے پروہت تھے اور جن سے اس نے مدد مانگی تھی، اس کی خواہش جان کر اسے سمجھایا کہ اس ناممکن بات کا خیال چھوڑ دے۔ وسِشٹھ کے جواب سے مطمئن نہ ہوکر راجا ترشنکو نے ان کے بیٹوں سے مدد مانگی۔ انھیں اس سے رنج پہنچا کہ جس بات کو ان کے پِتا نے ناممکن بتایا تھا اس کے لیے راجا نے ان کی مدد مانگی۔ چناںچہ انھوں نے اس کی خودبینی کا مذاق اُڑایا اور اسے صاف صاف چلے جانے کے لیے کہا۔ لیکن راجا ترشنکو اپنا ارادہ بدلنے کو تیاّر نہ تھا۔ اس نے طنز کرتے ہوئے کہا ’’تم اور تمھارے ِپتا اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ میری مدد کرسکیں اس لیے میں کچھ اور بلوان رِشیوں کی مدد لوں گا۔‘‘ اب تو وسشٹھ کے بیٹوں کی قوّتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ بولے: ’’بھگوان کرے تم چنڈال ہو جاؤ۔‘‘
اس شراپ کا اثر فوراً ہونے لگا اور دوسری صبح ترشنکو سوکر اٹھاتو اس کی شخصیت پوری طرح تبدیل ہوچکی تھی۔ وہ گندے کپڑوں میں ملبوس ایک بدشکل انسان بن چکا تھا۔ اس کے وزیروں اور محل کے لوگوں نے اسے پہچاننے سے انکار کردیا۔ نتیجے میں وہ اپنی سلطنت سے نکل کر دربدر بھٹکنے پر مجبور ہوگیا۔ یہاں تک کہ بھوک سے اس کی جان نکلنے کی نوبت آگئی۔ ایسے میں اس کی قسمت نے اسے وِشوامتر کے آشرم تک پہنچا دیا۔ ترشنکو کی قابلِ رحم حالت دیکھ کر وِشوامتر کا دل پگھل گیا اور انھوں نے پوچھا:
’’تم تو راجاترشنکو ہو۔ تمھاری یہ بُری حالت کیسے ہوگئی؟ کس کا شراپ ہے یہ؟‘‘
ترشنکو نے اس پر جو کچھ بیتی تھی رشی کو کہہ سنائی اور ان کے قدموں پر گرکے بولا:
’’میں ہمیشہ ایک ا ّچھے حکم راں کی طرح حکومت کرتا رہا اور دھرم کے راستے سے کبھی نہیں ہٹا۔ میں نے کوئی پاپ نہیں کیا اور نہ ہی کسی پر ظلم کیا۔ پھر بھی میرے دھرم ُگرو اور اس کے بیٹوں نے میرا تیاگ کیا اور مجھے شراپ دیا جس کے نتیجے میں آج میں اس حالت میں آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
وِشوامتر کو راجا پر رحم آگیا جو محض ایک شراپ کی وجہ سے چنڈال بن گیا تھا۔ وِشوامتر میں یہ بڑی کم زوری تھی کہ وہ وقتی تاثرّ کے تحت عمل کرتے تھے اور غصّہ، ہم دردی اور پیار کے جذبات سے بہت جلد مغلوب ہوجاتے تھے۔ انھوں نے اپنے شیریں الفاظ سے بادشاہ کو مسرور کردیا۔ وہ بولے:
’’اے راجا، میں نے تمھاری انصاف پر مبنی حکومت کے بارے میں سنا ہے۔میں تمھیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔ اب تمھیں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔ میں خود اس قربانی کا اہتمام کروں گا جس کے سبب تم اپنے جسم کے ساتھ ُسورگ میں داخل ہوسکو گے۔ تم اپنی اسی چنڈال کی شکل میں ُسورگ میں جاؤ گے۔ تمھارے ُگروکا شراپ تمھارا راستہ نہیں روک سکے گا۔ تمھیں میری بات پر یقین کرلینا چاہیے۔‘‘
چناںچہ انھوں نے ایک نہایت شان دار اور بے مثال B کا اہتمام کیا۔ انھوں نے اپنے چیلوں کو ہدایت کی کہ سارے رِشیوں اور ان کے چیلوں کو اس Bمیں شرکت کی دعوت دیں۔ رِشیوں میں وِشوامتر کی دعوت کو، جو حکم سے کم نہیں تھی، ردّ کرنے کی ہمّت نہیں تھی، اس لیے سب نے شرکت کی ہامی بھرلی۔ مگر وسِشٹھ کے بیٹوں نے دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس B کا یہ کہہ کر مذاق اُڑانے لگے کہ اس میں ایک ایسا شخص ’پروہت‘ ہوگا جو کبھی چھتری تھا اور’یجمان‘ ایک بدبو دار چنڈال ہوگا۔
وِشوامتر اس جواب سے، جو لفظ بہ لفظ اُن تک پہنچایا گیا تھا، سخت غضب ناک ہوئے اور انھوں نے بھڑک کر شراپ دیا ’’وسِشٹھ کے بیٹے سات جنم تک ایسے قبیلے میں پیدا ہوں گے جن کی غذاکتوّں کا گوشت ہوگی۔‘‘
اس کے بعد رِشی وشوامتر نے B شروع کیا۔ ترشنکو کی نمایاں خوبیوں کا بیان کرتے ہوئے وِشوامتر نے دوسرے رِشیوں سے اس بات کی درخواست کی کہ وہ ترشنکو کو اس کے جسم کے ساتھ ُسورگ تک پہنچانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔ دعوت میں شریک رِشیوں کو وِشوامتر کی بے پناہ طاقت اور اُن کے آتشی مزاج کا پورا اندازہ تھا اس لیے انھوں نے Bمیں ّحصہ لینے ہی میں عافیت سمجھی اور B کا سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ دیوتاؤں سے دھرتی پر آنے اور نذر و نیاز قبول کرنے کی درخواست کی گئی، لیکن ایک بھی دیوتا نہیں پدھارے۔ صاف ظاہر تھا کہ وشوامتر کا Bناکام ہوچکا تھا۔ اس تقریب میں شامل ہونے والے سبھی لوگ وِشوامتر کی شکست کو دیکھ کر آپس میں ان کا مذاق اُڑانے لگے۔ غصّے میں لال پیلے ہوتے ہوئے وِشوامتر نے گھی کی ڈوئی شعلوں کے اوپر انڈیلی اور کہا:
’’اے راجاترشنکو، اب میری طاقت دیکھو۔ اب میں اپنے سارے کمالات کو تم میں منتقل کرتا ہوں۔ اگر میری ّتپسیاؤں کی کوئی حقیقت ہے تو وہ تمھیں تمھارے جسمانی ڈھانچے کے ساتھ ُسورگ میں لے جائیں گی۔ اگر دیوتاؤں نے میری نذر قبول نہیں کی ہے تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ اے راجا ترشنکو‘ اٹھو!‘‘
پھر کیا تھا، ایک معجزہ ہوگیا۔ سارا مجمع حیرت سے دیکھتا رہا اور راجا ترشنکو چنڈال کے جسم کے ساتھ ُسورگ کی جانب کوچ کرگیا۔ دُنیا نے وِشوامتر کی
ّتپسیا کی قوّت کا نظارہ کیا۔
راجا ترشنکو ُسورگ تک تو پہنچا مگر اِندر دیوتا نے اسے یہ کہہ کر فوراً نیچے دھکیل دیا:اپنے دھرم ُگرو کا شراپ مول لینے والے مورکھ پھر سے دھرتی پر چلاجا۔‘‘
ترشنکو سورگ سے نیچے کی طرف سر کے بل گرنے لگا تو چلاّکر بولا: ’’اے وِشوامتر مجھے بچائیے۔‘‘
یہ دیکھ کر وِشوامتر غصّے سے بے قابو ہوگئے۔ دیوتاؤں کو سبق سکھانے کے ارادے سے انھوں نے چیخ کر ترشنکو سے کہا: ’’وہیں رک جا۔ وہیں رُک جا۔‘‘
سارے لوگ حیرت سے دیکھتے رہ گئے۔ ترشنکو کا زمین کی جانب گرنا اچانک تھم گیا اور وہ ایک ستارے کی طرح خلا میں معلّق ہوگیا۔ وِشوامتر نے برہماثانی کی طرح جنوب میں ایک نیا ستاروں بھرا اُفق، ایک نیا اِندر اور نئے دیوتا بنانے کی مہم کا آغاز کردیا۔ ان مخلوقات کی برتری کو دیکھ کر دیوتاؤں نے صلح کا ہاتھ بڑھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ ان سے درخواست کی کہ اپنے ارادے سے باز آجائیں۔ انھوں نے کہا:
’’ترشنکو جہاں ہے اسے وہیں رہنے دیجیے۔ آپ کے تخلیق کردہ ستارے بھی آپ کی شہرت اور وقار کی طرح ہمیشہ چمکتے رہیں۔ آپ اپنے غصّے پر قابو پائیے اور ہم سے دوستی کرلیجیے۔‘‘
دیوتاؤں کی ہار سے مطمئن ہوکر تیزی سے بھڑک اُٹھنے اور اتنی ہی جلدی شانت ہو جانے والے وِشوامتر خوش ہوگئے، انھوں نے اپنا تخلیقی کام روک دیا۔ لیکن ان کی ایسی زبردست سرگرمی نے ان کی ساری طاقت کو جو انھوں نے سالہا سال کی ّتپسیا کے بعد حاصل کی تھی، فنا کردیا۔ انھیں اس کا احساس ہوا کہ اب وہ نئے سرے سے ّتپسیا کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
اس کے بعد وشوامتر نے مغرب میں واقع پُشکر کی طرف سفر کیا اور وہاں پھر سے اپنی ّتپسیا شروع کردی۔ کئی برس تک ان کی ّتپسیا جاری رہی، لیکن عین اس وقت جب کہ ان کی ّتپسیا کا پھل انھیں ملنے والا تھا، کوئی ایسی بات ہوگئی جس کے سبب ان کا ّغصہ پھر عود کر آیا لیکن انھوں نے پوری طرح ّتہیہ کرلیا کہ غصّے کو پھر سے خود پر حاوی نہیں ہونے دیں گے۔ یہ طے کرکے وہ دو بارہ ّتپسیا میں مشغول ہوگئے۔
سالہا سال کی ّتپسیا کے بعد برہما اور دوسرے دیوتا ان کے سامنے نمودار ہوئے اور بولے: ’’اے کوشک، تمھاری ّتپسیا پوری ہوئی اب تم راجاؤں کی صف میں شامل نہیں ہو، تم سچیّ رشی ہوچکے ہو۔‘‘
وِشوامتر کو یہ وردان دے کر برہم واپس آگئے۔ وِشوامتر کے لیے یہ وردان بھی مایوس ُکن تھا۔ وہ تو برہما رِشی بن کر وسِشٹھ کے مدِّ مقابل ہونا چاہتے تھے لیکن انھیں صرف ایک عام رِشی کا درجہ دیا گیا تھا۔ ان کی ّتپسیاؤں کا یہ انعام اُتنا ہی بے مصرف تھا جتنے وہ طاقتور ہتھیار جنھیں وسِشٹھ کی لاٹھی ’’برہمانند‘‘ نگل چکی تھی۔ چناںچہ انھوں نے طے کرلیا کہ وہ اپنی ّتپسیا کو پہلے سے بھی زیادہ کڑی اور سخت بناکر جاری رکھیں گے۔
دیوتاؤں کو ان کی یہ حرکت پسند نہیں آئی۔ انھوں نے ُسورگ کی اپسرا ’’مینکا‘‘ کو روانہ کیا کہ اپنے آسمانی ُحسن اور اداؤں سے وِشوامتر کو بہکائے۔
مینکا پشکر چلی گئی جہاں وِشوامتر ّتپسیا کررہے تھے۔ اُس نے اپنے حسن اور جنسی اشاروں کے ساتھ رقص کرتے ہوئے انھیں متوجّہ کرنے کی ایسی ایسی کوششیں کیں کہ وِشوامتر اس کی طرف دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ اس کے حسن کے دام میں گرفتار ہوگئے، ان کا عزم اور ان کی ّتپسیا بھنگ ہوگئی۔ وہ دس سال تک خوابِ عیش میں مست رہے اور اپنے بلند عہد کو بھلا بیٹھے۔
آخرکار جب ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے کا ￿نپتی ہوئی مینکا کی طرف اُداسی سے دیکھا اور بولے کہ وہ اسے شراپ نہیں دیں گے کیوںکہ جو کچھ ہوا وہ ان کی اپنی حماقت سے ہوا اس میں اس کا کوئی قصور نہیں تھا، انھیں بہکاتے ہوئے وہ اپنے آقا کا حکم بجالا رہی تھی۔ بڑی اُداسی کے ساتھ وِشوامتر نے ہمالیا کی راہ لی تاکہ اپنی بگڑی ہوئی ّتپسیا کو پھر سے شروع کرسکیں۔
انھوں نے وہاں پر اپنے نفس کو پوری طرح قابو میں رکھتے ہوئے ایک ہزار سال تک بڑی سخت ّتپسیا کی۔ اُس وقت دیوتاؤں کی درخواست پر برہما، وِشوامتر کے سامنے نمودار ہوئے اور ان سے شیریں انداز میں بولے:
’’میرے بیٹے، میں ایک مہارِشی کی حیثیت سے تمھارا سواگت کرتا ہوں۔ تمھاری خلوص سے بھری ّتپسیا سے خوش ہوکر میں تمھیں یہ خطاب اور اس سے حاصل ہونے والی بزرگی عطا کرتا ہوں۔‘‘
کام رانی اور مایوسی دونوں سے متاثرّ نہ ہونے والے وِشوامتر نے احتراماً دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کاینات کے ِپتا سے پوچھا: ’’کیا اس وردان کا مطلب اپنی ساری نفسانی خواہشات پر فتح مندی ہے؟‘‘
’’ہرگز نہیں‘‘ خالق نے کہا۔ ’’اے ُمنیوں میں شیر! نفسانی خواہشات پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھو۔‘‘
وِشوامتر نے ّتہیہ کرلیا تھا کہ وہ اس عظیم ترین فتح مندی کو حاصل کرکے رہیں گے۔ چناںچہ انھوں نے مزید ہزار سال کے لیے پہلے سے بھی کڑی
ّتپسیا کا سلسلہ شروع کردیا جس سے دیوتاؤں میں اور بھی گھبراہٹ پھیل گئی۔
اِندر نے ُسورگ کی رقاصہ رمبھا کو طلب کیا اور دیوتاؤں کی ایک اہم خدمت اس کے سپرد کی۔ وہ خدمت یہ تھی کہ وِشوامتر کو اپنے حسن کے جادُو کا شکار بنائے اور انھیں اپنے مقصد سے بھٹکادے۔
رمبھا یہ کام کرنے سے خوف زدہ تھی مگر اِندرنے اسے یقین دلایا کہ وہ اس فرض کی ادایگی میں تنہا نہیں ہوگی، اس کی مدد کے لیے کام دیو اور بسنت کی دیوی دونوں اس کے ساتھ ہوں گے۔ رمبھابادلِ ناخواستہ روانہ ہوگئی۔ وہ جیسے ہی وِشوامتر کی ُکٹیا کے احاطے میں داخل ہوئی سارا جنگل موسمِ بہار کے ُحسن سے ِکھل اٹھا اور پھولوں کی خوشبو سے بھری ہوئی جنوبی ہوا دھیرے دھیرے بہنے لگی اور کویلیں کوکنے لگیں۔ اس کے ُحسن کی کشش میں اضافہ کرنے کے لیے کام دیو اور بسنت کی دیوی دونوں اپنا اپنا فرض ادا کررہے تھے۔ وِشوامتر نے جواَب تک موسم کی تبدیلیوں سے بے خبر رہے تھے، اچانک مضطرب ہوکر آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ بے مثال حسن کی ملکہ ایک اَپسرا کھڑی مسکرا رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ بہار کی روح اپنے پھولوں، خوشبوؤں اور گیتوں کے ساتھ وہاں چلی آئی ہے۔ اس نرم و گداز ّمجسمۂ شہوت کو دیکھتے ہی وشوامتر نے اندازہ کرلیا کہ اُن سے حسد رکھنے والے دیوتاؤں نے انھیں بہکانے کے لیے ایک اور جنسی ترغیب کا پا ￿نسہ پھینکا ہے۔ ان کے تن بدن میں غصے کا سُرخ شعلہ دوڑ گیا اور انھوں نے رمبھا کو شراپ دیا:
’’اے رمبھا! میں اپنے غصّے (کرودھ) اور نفس (کام) پر قابو پانے کے لیے جدّوجہد کررہا ہوں اور تو مجھے بہکانے کی کوشش کررہی ہے، اس لیے میں تجھے شراپ دیتا ہوں کہ تو دس ہزار سال تک ّپتھر کی مورت بنی رہے گی۔‘‘
جیسے ہی وشوامتر غصّے سے پھٹ پڑے اُنھیں احساس ہوا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیابی کی منزل سے اب تک کافی دُور ہیں۔ چناںچہ بڑی اُداسی کے ساتھ انھوں نے ہمالیائی جنگلوں کو خیر باد کہا اور تنہائی کی تلاش میں مشرق کی طرف چلے گئے۔ وہاں انھوں نے حبسِ دم کیا۔ دنیا کی کل اشیا کا خیال اپنے دل سے نکالا اور ایسی کڑی ّتپسیائیں کیں کہ ان کے جسم سے شعلے اور دُھواں نکلنے لگا اور ساری کائنات ان دونوں کی لپیٹ میں آگئی۔ اِس پر خوف زدہ دیوتاؤں نے برہما سے پرارتھنا کی اور ان کی التجا کو مان کر برہماایک بار پھر وشوامتر کے سامنے نمودار ہوئے اور انھیں برہم رشی کا مقام عطا کیا اور بولے:
’’مبارک ہو برہم رشی، میں تم سے پرسنّ ہوا۔ تمھاری زندگی
ّتقدس سے ُپرہو جائے۔‘‘
وِشوامتر خوش ہوگئے لیکن بڑے انکسار کے ساتھ انھوں نے کہا: ’’میں اس وقت تک خوش نہیں ہوسکتا جب تک کہ وسِشٹھ کی زبان سے نہ ُسن لوں کہ میں برہم رشی ہوں۔‘‘
وسِشٹھ نے جب سنا تو وشوامتر سے اپنی جنگ کو یاد کرکے مسکرائے اور بولے: ’’تم نے اپنی عظیم ّتپسیاؤں کا پھل پالیا۔ میرے بھائی تم یقینا برہم رِشی ہو۔‘‘
بس پھر کیا تھا ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں ناچنے لگیں۔ یہ تھی ساری کہانی اُن رِشی وِشوامتر کی جو راجا دشرتھ کے دربار میں اچانک پدھارے تھے۔
چوتھا باب

 

رام محل سے ِسدھارتے ہیں

راجا دشرتھ نے وِشوامتر کا اُسی طرح استقبال کیا جیسے اِندر برہما کا استقبال کرتے۔ اُن کے پیر چھوتے ہوئے راجا نے کہا:
’’میں یقینا انسانوں میں سب سے خوش نصیب ہوں۔ یہ میرے پُرکھوں کی نیکیوں کا پھل ہے کہ آپ میرے ہاں پدھارے ہیں۔ جس طرح صبح کا سورج اپنی روشنی سے رات کی تاریکیوں کو دُور کرتا ہے، آپ کا دیدار میری آنکھوں میں سرور بھررہا ہے۔ میرا دِل مسرّت سے بھرا ہے۔ آپ پیدایش کے اعتبار سے راجا تھے لیکن اپنی ّتپسیا کے بل پر برہم رِشی ہوگئے اور اب خود چل کر میرے گھر مہمان بن کر آئے ہیں۔ بتائیے میں آپ کے لیے کیا کرسکتا ہوں۔ جو کچھ میرے اختیار میں ہوگا آپ کے لیے کر گزروں گا۔ آپ حکم کیجیے، میں آپ کا حکم بجالاؤں گا۔‘‘
راجا دشرتھ کے یہ الفاظ سن کر وِشوامتر بہت خوش ہوئے اور ان کا چہرہ دمکنے لگا۔ وہ بولے:
’’اے راجا! تمھارے الفاظ یقینا تمھارے شایانِ شان ہیں۔ ’اِکش واکو‘ ُکل (نسل) میں جنم لے کر اور وِسِشٹھ جیسا ُگرو پانے کے بعد تمھیں ایسا ہی کہنا چاہیے۔ تم نے میرے سوال کرنے سے پہلے ہی اس کی تکمیل کی ہامی بھرلی ہے۔ میرا دِل اس بات سے بہت خوش ہوا۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے اپنی آمد کا مقصد صاف صاف بتادیا۔ وہ بولے:
’’میں ایک B کرنے میں لگاہوا ہوں لیکن جیسے ہی یہ B تکمیل کو پہنچنے لگتا ہے، ماریچ اور ُسباہو نام کے دو طاقتور راکشس اُسے ناپاک کردیتے ہیں۔ وہ ّمقدس آگ پر گندے گوشت اور خون کی بارش کردیتے ہیں۔ دوسرے رشیوں کی طرح ہم بھی انھیں شراپ دے کر برباد کرسکتے ہیں۔ مگر اس سے ہماری ّتپسیا بھی برباد ہوجائے گی۔
اگر تم اپنے جنگجو بیٹوں میں سے بڑے بیٹے رام کو ہمارے ساتھ روانہ کردو تو ہماری ساری مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا۔ میری تربیت اس کے شاہی درجات کو اور بلند کردے گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ راکشسوں کا خاتمہ کردے گا اور اس کا نام اور مشہور ہوجائے گا۔
تم رام کو کچھ دِنوں کے لیے میرے زیر تربیت دے دو۔ دیکھو میری درخواست کو رد نہ کرنا۔ میرے سوال کرنے سے پہلے ہی تم نے میری درخواست کو قبول کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اُسے پورا کرو۔ جہاں تک رام کے ّتحفظ کا سوال ہے، تمھیں کوئی فکر نہیں ہونی چاہیے۔ ایسا کرنے سے تمھیں تینوں لوکوں میں لافانی شہرت حاصل ہوگی۔ رِشی و سشٹھ اور تمھارے منتری میری بات سے ا ّتفاق کریں گے۔‘‘
راجا دشرتھ یہ سن کر اضطراب اور خوف سے کا ￿نپ اٹھے۔ ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا۔ اگر وہ وِشوامتر کی بات مان لیتے ہیں تو اپنے راج دلارے بیٹے کو راکشسوں کے مقابلے کے لیے بھیج کر اس کی جان سے ہاتھ دھولینے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔ اور اگر نہیں مانتے ہیں تو وِشوامتر کے بھیانک غصّے کا شکار ہوسکتے ہیں۔
راجا دشرتھ پر گویا بجلی سی گرپڑی اور ذہنی صدمے کی وجہ سے وہ سکتے میں آگئے لیکن جلد ہی اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے انھوں نے رشی سے التجا کی کہ اپنی مانگ پر ُ ِمصر نہ ہوں۔ وہ بولے:
’’رام تو ابھی سولہ سال کا بھی نہیں ہوا۔ وہ بھلا راکشسوں سے کیسے لڑے گا؟ آپ کے ساتھ اُس کو روانہ کرنا مفید نہ ہوگا۔ راکشسوں کے مکرو فریب کا اسے اندازہ ہی کیا ہے؟ مجھے یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا کہ ایک لڑکے کو اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ کروں۔ میں خود موجود ہوں اور میری فوج بھی ان سے لڑنے کے لیے مستعد ہے۔ ایک لڑکا آپ کی اور آپ کے Bکی حفاظت کیسے کرسکے گا؟ مجھے آپ اپنے دشمنوں کے بارے میں ساری باتیں بتائیے۔ میں خود فوج کی سربراہی کرتے ہوئے آپ کے ساتھ چلوں گا، اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ کی مشکل حل کروں گا۔ مجھے B کو ناپاک کرنے والوں کے بارے میں معلومات دیجیے۔‘‘
وِشوامتر نے ماریچ، سباہو اور ان کے آقا راون سے ّمتعلق تفصیل بتائی اور اپنی مانگ کو دہرایا کہ رام کو ان کے ساتھ روانہ کیا جائے۔ مگر دشرتھ اپنے انکار پر قائم رہے، انھوں نے کہا:
’’رام کی جدائی میری موت کا باعث ہوگی۔ میں چلوں گا آپ کے ساتھ۔ میں اور میری فوج دونوں۔ کیوںکہ آپ کا تجویز کیا ہوا کام مجھ اکیلے کے لیے بھی مشکل معلوم ہوتا ہے۔ ایسے میں میرا بیٹا اُسے کیسے انجام دے سکے گا۔ میں اسے ہرگز نہیں بھیج سکتا۔ آپ کا حکم ہوتو میں اور میری فوج حاضر ہیں۔‘‘
اپنے وعدے سے ِپھر جانے کی دشرتھ کی کوشش سے وِشوامتر کو غصّہ آگیا۔ راجا کی التجاؤں اور تاویلوں نے ان کے غصّے کی آگ پر تیل کا کام کیا۔
’’تمھارا یہ عمل تمھارے ُکل کے لیے باعثِ شرم ہے۔‘‘اُنھوں نے کہا۔ ’’صاف صاف بتاؤ کیا یہی تمھارا فیصلہ ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں جس راستے سے آیا ہوں اسی راستے سے واپس چلا جاتا ہوں۔ ّسچائی کے راستے سے ڈگمگانے والے راجا! تم اور تمھارے خاندان کی عمر دراز ہو۔‘‘
دھرتی کا ￿نپ اٹھی اور رشی کے غصّے کے نتائج کے خوف سے دیوتا لرزگئے۔
اس وقت رشی وسِشٹھ نے راجا کی طرف دیکھا اور نرمی سے بولے:
’’اے راجا! تمھیں یہ زیب نہیں دیتا کہ وعدے سے ِپھر جاؤ۔ اکشوا کو ُکل میں جنم لینے کے بعد تم ایسا نہیں کرسکتے۔ ایک مرتبہ کسی کام کے کرنے کا وعدہ کرلینے کے بعد تمھیں اسے پورا کرنا ہی ہوگا۔ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تمھاری ساری عظیم خوبیاں اور سارے ا ّچھے کرم نشٹ ہوجائیں گے۔
رام کو رشی وشوامتر کے ساتھ روانہ کردو اور لکشمن کو بھی۔ ان کی حفاظت کے لیے تمھیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں جب انھیں وِشوامتر کا ّتحفظ حاصل ہے تو کوئی راکشس ان کا بال ِبیکا نہیں کرسکتا۔ جس طرح دیوتاؤں کے مشروب کی حفاظت اگنی چکر کرتا ہے اسی طرح رام کی حفاظت وِشوامتر کریں گے۔ تمھیں وِشوامتر کی طاقت کا اندازہ نہیں ہے۔ وہ انسانی روپ میں ّمجسم ّتپسیا ہیں۔ وہ ویروں کے ویر اور گیانیوں کے گیانی ہیں۔ وہ ہر ہتھیار چلانے کے ماہر ہیں، تینوں لوکوں میں جنگی اور روحانی شجاعت کے معاملے میں نہ تو ان کا کوئی ثانی ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ وہ جب راجا تھے تو انھوں نے دیوتاؤں سے سارے ہتھیار چلانے میں مہارت کا وردان پایا تھا۔وہ ماضی، حال اور مستقبل تینوں زمانوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تمھیں ّتعجب ہوکہ اتنا سب ہونے کے باوجود وہ راجکماروں کو کیوں لے جانا چاہتے ہیں۔ وہ خود بھی اپنے Bکی حفاظت کرسکتے ہیں۔ دراصل تمھارے بیٹوں کی بھلائی کی خاطر وہ یہاں آئے ہیں اور تم سے مدد کے طالب ہوئے ہیں۔ ہچکچاؤ نہیں۔ اپنے بیٹوں کو ان کے ساتھ کردو۔‘‘
وِسِشٹھ جیسے گیانی رِشی کی بات سن کر راجا دشرتھ کی آنکھیں کھل گئیں اور انھوں نے رام اور لکشمن کو وِشوامتر کے ساتھ بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ دونوں شہزادوں کو رِشی کے سامنے پیش کیا گیا۔ پھر راجا، ان کی رانیوں اور رِشی وسِشٹھ نے آشیرواد دے کر انھیں وِشوامتر کے ساتھ روانہ کردیا۔
نہایت خوشگوار ہوا چلنے لگی اور دیولوک سے پھولوں کی بارش ہوئی۔ مبارک باد کی آوازیں سنائی دیں۔ ہاتھوں میں کمان لیے ہوئے دونوں شہزادے رِشی کے دونوں پہلوؤں میں فخر سے چلتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔
والمیکی اور کمبن دونوں نے بڑے مزے لے لے کر اُس منظر کی تصویر کشی کی ہے۔ دونوں راج کمار اپنی پہلی مہم پر روانہ ہورہے ہیں اور ایک ایسے عظیم رشی کی رہنمائی میں جو خود ایک مشہور سورما رہ چکا ہے اور ایک ایسا ُگرو ہے جو ایک نئی دُنیا تخلیق کرسکتا ہے۔ وِشوامتر کے پہلوؤں میں فخر سے سر اُٹھائے دو شاہی شاگرد چل رہے ہیں جن کا جنم راکشسوں کی نسل کے خاتمے کے لیے ہوا ہے۔ کمر سے فتح کی تلواریں لٹکائے ہوئے اور مضبوط کندھوں پر تیر اور کمان لیے ہوئے وہ دونوں اس طرح چل رہے تھے جیسے تین سروں والے ناگ پھن اٹھائے ہوئے چل رہے ہوں۔
پانچواں باب

 

رام کے ہاتھوں راکشسوں کا قتل

مہارشی وِشوامتر اور دونوں راج کماروں نے َسریوُ ندی کے کنارے رات بسر کی۔ سونے سے پہلے وِشوامتر نے دونوں راج کماروں کو ’’بل‘‘ اور ’’اتی بل‘‘ نام کے دو خفیہ منتر سکھائے جو دونوں کو تھکن اور آفت سے بچانے کی خوبی رکھتے تھے۔ ندی کے سرسبز کنارے پر رات بسر کرکے وہ لوگ صبح تڑکے اُٹھ کر آگے کے سفر پر روانہ ہوئے۔ وہ اَنگ دیش کے کام آشرم پہنچے۔ وِشوامتر نے دونوں راج کماروں کو وہاں کے رِشیوں کی خدمت میں پیش کیا اور پھر ان کو اس آشرم کی کہانی سنائی۔ انھوں نے کہا:
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں بھگوان شیو نے مدّت تک ّتپسیا کی ہے۔ یہیں پر احمق کام دیو مَن متھ نے شیو کو اپنے تیر کا نشانہ بنانے کی کوشش کی اور ان کے کرودھ سے جل کر خاک ہوگیا۔ اسی لیے اس جگہ کو کام آشرم کہا جاتا ہے۔‘‘
اس رات وہ لوگ رشیوں کے مہمان رہے اور اگلی صبح روز مرّہ کی پوجاپاٹ کے بعد وِشوامتر اور ان کے شاگرد اگلے سفر پر روانہ ہوکر گنگا پہنچے اور رشیوں کے بنائے ہوئے با ￿نسوں کے ٹھاٹھے پر سوار ہوکر ندی پارکر گئے۔ لیکن ندی پار کرتے ہوئے بیچ دھارے میں راج کماروں کو کچھ شور سا سنائی دیا۔ انھوں نے وِشوامتر سے اس کے بارے میں استفسار کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ دراصل َسریوُ ندی کا پانی ہے جو گنگا میں ملتے وقت آواز پیدا کررہا ہے۔ راج کماروں نے دونوں ّمقدس ندیوں کے سنگم کو خاموش شردھا نجلی پیش کی۔
چاہے ندی ہو یا پہاڑ، درخت ہو یا بادل، بے شک فطرت کے حسن کا کوئی بھی مظہر ہو، انسان کو ذاتِ مطلق کے بارے میں ّتفکر اور اس کی عبادت پر آمادہ کرسکتا ہے۔ خاص طور سے ّمقدس ندیاں، مندر اور مورتیاں، جن کی صدیوں سے بھکتی اور عبادت کی گئی ہے، اس قوّت کی حامل ہوتی ہیں کیوںکہ انھوں نے ّمقدس افکار کا نہ صرف مشاہدہ کیا ہے بلکہ انھیں اس طرح جذب کررکھا ہے جیسے کپڑے خوشبوؤں کو اپنے اندر سمولیتے ہیں۔
گنگا پار کرنے کے بعد وِشوامتر اور دونوں راج کمار ایک ایسے گھنے جنگل سے گزرنے لگے جہاں جنگلی جانوروں کی خوفناک آوازوں سے فضا گونج رہی تھی۔ وِشوامتر نے کہا:
’’یہ دنڈک نام کا جنگل ہے۔ اس بھیانک جنگل کی جگہ کبھی ایک بھرا پُرا ملک تھا۔ ایک مرتبہ اِندر کو وِرترا کی ہتّیا کا پاپ لگ گیا تھا، جسے دھونے کے لیے اسے دیولوک سے ہجرت کرنی پڑی تھی۔ دیوتاؤں نے اِندر کے پاپ کو دھونے کی مہم شروع کی۔ وہ ّمقدس ندیوں کا پانی لائے اور منتر پڑھتے ہوئے اِندر کو نہلانے لگے۔ اِندر کے پاپ کو دھونے والا پانی اس کے بدن سے بہہ کر زمین میں جذب ہوگیا جس سے دھرتی زرخیز ہوگئی اور سارا علاقہ ہرابھرا ہوگیا۔
ساری مردہ اشیا مثلاً بدبودار کوڑا کرکٹ یاسٹرتی ہوئی لاشیں جب دوبارہ مٹی میں مل جاتی ہیں تو مظاہرِ حسن میں تبدیل ہوکر نمایاں ہوتی ہیں جیسے پھول، پھل اور زندگی کو پروان چڑھانے والی صحت بخش اشیا۔ ایسی ہے ہماری دھرتی ماتا کی کیمیاگری۔‘‘
وِشوامتر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا:
’’ایک لمبے عرصے تک لوگ یہاں ￿ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے مگر تاٹکا ( ُشنڈ نامی یکش کی بیوی) اور اس کے بیٹے ماریچ نے یہاں تباہی مچادی اور اس بستی کو موجودہ خوف ناک جنگل میں بدل دیا۔ اب وہی اس جنگل میں بستے ہیں۔ تاٹکا کے ڈر سے کوئی یہاں قدم رکھنے کی ہمّت نہیں کرتا۔ اس میں بیس ہاتھیوں کا َبل ہے۔ میں تمھیں یہاں اس لیے لایا ہوں کہ تم اس جنگل کو اس بھیانک دُشمن سے نجات دلادو۔ مجھے یقین ہے کہ رشیوں کو تکلیف دینے والی یہ راکشسنی تمھارے ہاتھوں ماری جائے گی۔‘‘
رام نے، جو غور سے رِشی کی باتیں سن رہے تھے، ان سے پوچھا:
’’آپ کہتے ہیں کہ وہ یکش ہے۔ میں نے یکشوںکے بارے میں کبھی نہیں سنا کہ ان میں غیر معمولی طاقت ہوتی ہے اور مزید حیرت اس بات پر ہے کہ ایک عورت کو اتنی طاقت کیسے حاصل ہوگئی؟‘‘
وِشوامتر نے جواب دیا: ’’تم نے نہایت مناسب سوال کیا ہے۔ اسے یہ طاقت برہما کے ایک وردان کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔ سُکیتو نام کا ایک یکش تھا جس کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ اس لیے اس نے ّتپسیا کی اور برہما سے یہ وردان حاصل کیا کہ اس کے ہاں ایک خوب صورت بیٹی پیدا ہوگی جو غیرمعمولی جسمانی طاقت کی مالک ہوگی۔ مگر اس کے یہاں کوئی بیٹا نہیں ہوگا۔ سُکیتو کی خوب صورت اور طاقت ور بیٹی تاٹکا کی شادی شنڈنامی یکش سے ہوئی۔ ماریچ انھیں کا بیٹا ہے۔
شُنڈ ایک مرتبہ رشی اگستیہ کے شراپ کا شکار ہوکر چل بسا۔ اس سے برہم ہوکر تاٹکا اور ماریچ نے اگستیہ پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں اگستیہ نے انھیں شراپ دیا کہ وہ راکشس بن جائیں گے اور مردہ انسانوں کو کھاکر زندہ رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ تاٹکا ایک بدصورت راکشسنی ہوگئی ہے۔
تب سے تاٹکا اور ماریچ اگستیہ کے علاقے میں بسنے والے لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ تم اس بات کا خیال کرکے کہ کسی عورت کو مارنا چھتری دھرم کے خلاف ہے، اس کا خاتمہ کرنے سے ہچکچانا نہیں۔ راجا کا فرض ہے کہ شر پسندوں کو، خواہ مرد ہوں یا عورت، سزا دے۔ اس کا مارنا ایسا ہی صحیح اور درست ہے جیسے انسانوں کی حفاظت کے لیے کسی جنگلی جانور کو مارنا۔ حکمرانوں کے لیے ایسا کرنا فرض ہے۔ اس سے پہلے بھی بہت سی عورتوں کو ان کے بُرے کرموں کے لیے موت کی سزا دی گئی ہے۔ اس لیے تم بھی ایسا کرنے سے ہچکچانا مت۔‘‘
رام نے وِشوامتر سے کہا: ’’ہمارے پتا کا حکم ہے کہ ہم آپ کا حکم بے چون و چرا بجالائیں۔ آپ کے حکم کی تعمیل میں اور سب کی فلاح کے لیے ہم تاٹکا کو قتل کریں گے۔‘‘
ایسا کہتے ہوئے رام نے اپنی کمان چڑھائی اور اس کی ڈور کو اس طرح کھینچا کہ اس کی تیز آواز سے سارا جنگل گونج اُٹھا اور جنگلی جانور خوف زدہ ہوکر اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اس کی آواز تاٹکا کی مضبوط کمین گاہ میں بھی پہنچی اور وہ اس گستاخ مداخلت کار کی ّہمت پر ّتعجب کرنے لگی جس نے اس کی حکومت میں داخل ہونے کی جرأت کی تھی۔ غصّے سے بے قابو ہوتے ہوئے وہ اُس سمت دوڑ پڑی جدھر سے کمان کی آواز آئی تھی۔ اور رام کو دیکھتے ہی اس پر پل پڑی۔ دونوں میں جنگ شروع ہوگئی۔
پہلے تو رام نے سوچا کہ اس کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالیں اور اس کی جان نہ لیں۔ مگر تاٹکا نے بڑا خوف ناک حملہ کیا اور آسمان میں بلند ہوکر رام اور لکشمن پر ّپتھروں کی بارش کرنے لگی۔ دونوں راج کماروں نے اس حملے کا ￿منہ توڑ جواب دیا۔ جنگ جاری رہی۔ وِشوامتر نے رام کو تاکید کی کہ اس راکشسنی کو مارنے میں دیر نہ کریں۔
’’وہ ہمدردی کی مستحق نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے کہا۔ ’’سورج ڈوبنے والا ہے اور یاد رکھو کہ سورج ڈوبنے کے بعد راکشسوں کی طاقت دوگنی ہوجاتی ہے۔ اس لیے اسے مارنے میں دیر نہ کرو۔‘‘
وِشوامتر کی نصیحت پر رام نے تاٹکا کے قتل کا فیصلہ کرلیا اور اپنے قاتلانہ تیر سے اس کے سینے کو نشانہ بنایا۔ تیر لگتے ہی وہ پہاڑ جیسی بد صورت دیونی مردہ ہوکر گرپڑی۔
دیولوک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وِشوامتر نے جوشِ مسرّت میں رام کو سینے سے لگاکر آشیرواد دیا۔
تاٹکا کی ّہتیا کے بعد سارا جنگل اس کے شراپ سے آزاد ہوگیا اور پھر سے خوب صورت بن گیا۔ راج کماروں نے وہ رات وہیں گزاری اور اگلی صبح کو وِشوامتر کے آشرم کی طرف چل پڑے۔
چلنے سے پہلے وِشوامتر نے رام کو اپنے پاس بلایا اور اُنھیں آشیرواد دیتے ہوئے کہا:
’’میں تم سے بہت خوش ہوں۔ تم نے جو کچھ کیا ہے اس کے بدلے میں میں تمھیں کیا دوں۔ آؤ تمھیں تمام ہتھیاروں کے استعمال کا طریقہ بتاؤں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے وشوامتر نے وہ سارے ہتھیار جو انھوں نے اپنی ّتپسیا کے بل پر حاصل کیے تھے، شری رام چندر کو دے دیے۔ وِشوامتر نے رام کو ان کا استعمال، ان پر قابو رکھنے اور انھیں واپس لوٹانے کا طریقہ سکھایا، اور رام نے یہ ساری باتیں لکشمن کو سکھادیں۔
اپنے سفر کے دوران رام نے ایک اونچے پہاڑ کی جانب، جس کی ڈھلانوں پر خوب صورت جنگل اُگا ہوا تھا، اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: ’’کیا یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے اور وہ بدمعاش کون ہیں جو آپ کے B میں رخنہ ڈالتے ہیں؟ مجھے ان کا خاتمہ کرنے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔‘‘
رام چندر جی راکشسوں سے لڑکر رِشی کا آشیرواد پانے کے لیے بے چین ہو اٹھے تھے۔
’’ہاں یہی وہ جگہ ہے جہاں ہمیں جانا ہے۔‘‘ وِشوامتر نے جواب دیا۔ ’’وہیں پر بھگوان ناراین نے ّتپسیا کی تھی اور وامن اوتار کے روپ میں جنم لیا تھا۔ اس جگہ کو سِدّھ آشرم کہا جاتا ہے۔
وِروچن کا بیٹا اور نیک دل اَ ُسر پرلہاد کا پوتا مہابلی، اتنا طاقت ور حکمراں تھا کہ دیوتا بھی اس سے خوف کھاتے تھے۔ مہابلی نے اپنے نیک کرموں کے سبب خود اِندر کی طاقت حاصل کرلی تھی۔ کشیپ اور ان کی بیوی اَدیتی نے، وشنو کی پرارتھنا کی اور ان سے درخواست کی کہ ان کے بیٹے کی حیثیت سے جنم لے کر اِندر اور دوسرے دیووں کو مہابلی سے بچائیں۔ ان کی التجا کو مان کر وِشنو نے ادِیتی کی کوکھ سے وامن کے روپ میں جنم لیا۔
وامن نے ایک نوجوان شاگرد کا روپ دھارا اور اس جگہ پہنچ گیا جہاں مہابلی Bکررہا تھا اور سب کوُکھلی دعوت تھی کہ وہاں پر جو جی چاہے مانگے اور حاصل کرے۔ جب وامن نے اپنے آپ کو ایک اُ ّمیدوار کی حیثیت سے پیش کیا تو آشوروں کے پروہت اور مہابلی کے ُگرو ُشکر اچاریہ اُسے پہچان گئے اور مہابلی کو خبردار کیا کہ اس کی درخواست پوری کرنے کا وعدہ نہ کر بیٹھے کیونکہ حقیقت میں وہ بھگوان تھے جو بھیس بدل کر اسے ناکام بنانے کے لیے وہاں آئے تھے۔
لیکن مہابلی نے ان کی بات پر دھیان نہیں دیا۔ مہابلی کسی کی درخواست رد کرنے کا عادی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ دلی طور پر وہ بھگوان کا بھکت تھا اور یہ محسوس کررہا تھا کہ بھگوان نے اگر اس کے تحفے کو قبول کیا تو خود اسی پر ان کا کرم ہوجائے گا۔ چناںچہ مسکراتے ہوئے مہابلی نے وامن سے بغیر ہچکچاہٹ کے جو جی چاہے مانگنے کے لیے کہا: ’میرے پاس جو کچھ ہے میں آپ کے قدموں میں رکھتا ہوں۔ دولت، ہیرے، جواہر، یہ وسیع ملک اور اس سے پیدا ہونے والی ساری چیزیں آپ کے سامنے حاضر ہیں۔‘
وامن نے جواب میں کہا کہ ’دولت اس کے کس کام کی، اسے تو صرف اتنی ہی زمین چاہیے جتنی وہ تین قدم چل کرلے سکے۔‘ راجا نے مسکراکر پستہ قد برہم چاری کے پیروں کو دیکھا اور بولا: ’ایسا ہی ہوگا، چلو اور لے لو۔‘
وہ چھوٹا سا ￿کنوارا شاگرد اچانک اتنا اونچا ہوگیا کہ تری وکرم میں بدل گیا اور ایک قدم میں ساری زمین طے کرکے دوسرے قدم میں آکاش کو بھی پار کرگیا۔ اب تیسرا قدم رکھنے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں بچی اس لیے دانی راجا مہابلی نے اپنا سر جھکا دیا اور وامن نے اپنے بھکت کے سر پر اپنا قدم رکھ دیا۔ بھگوان کی نظروں میں ایک بھکت کا سرزمین اور آسمان کے برابر ہوتا ہے۔ راجا مہابلی کو جب ناراین کے قدم نے چھوا تو وہ بھی کاینات کے سات امر لوگوں میں سے ایک ہوگیا۔‘‘
راجا مہابلی کی کہانی سنانے کے بعد وشوامتر نے کہا: ’’یہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے ناراین نے اور پھر کشیپ نے ّتپسیا کی جس کے سبب بھگوان نے وامن کا اوتار لیا۔ اس ّمقدس جگہ پر میں رہتا ہوں مگر راکشس یہاں آکر ہماری پوجا اور ّتپسیا میں رُکاوٹ ڈالتے ہیں۔ تم اس برائی کا خاتمہ کرنے کے لیے یہاں آئے ہو۔‘‘
’’ایسا ہی ہوگا۔‘‘ رام نے کہا۔
وِشوامتر اور دونوں راج کماروں کی آمد سے آشرم میں خوشیاں منائی جانے لگیں۔ رِشیوں نے رسم کے مطابق انھیں جل اور پھل پیش کیے۔ رام نے وِشوامتر سے درخواست کی کہ وہ فوراً ہی Bکی تیاّریاں کریں، اور وِشوامتر نے اسی رات ایسا کرنے کا وعدہ کرلیا۔
اگلی صبح بہت سویرے اُٹھ کر دونوں راج کمار وشوامتر کے پاس گئے اور ان سے دریافت کیا کہ راکشس کب تک آئیں گے تاکہ وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاّر رہیں۔ مگر وشوامتر نے تو مون دھارن کرنے کا برت لے لیا تھا۔ اس لیے وہ جواب نہیں دے سکے ا ّلبتہ ان سے کم درجے کے رشیوں نے راج کماروں کو بتایا کہ انھیں چھے رات اور چھے دن تک اٹوٹ پہرا دینا ہوگا تاکہ Bکی حفاظت کرسکیں۔
ہتھیاروں سے لیس ہوکر دونوں نے چھے رات اور چھے دن پہرا دیا۔ چھٹے دن کی صبح رام نے لکشمن سے کہا: ’’ ّبھیا! دشمنوں کے آنے کا وقت ہوگیا ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔‘‘
جیسے ہی رام کا جملہ پورا ہوا B کی اگنی کے شعلے بلند ہوئے کیونکہ آگ کے دیوتا اگنی کو راکشسوں کی آمد کا پتا چل چکا تھا۔ ادھر مذہبی رسمیں ادا ہورہی تھیں کہ اچانک آسمان سے ایک بھیانک گرج سنائی دی۔
رام نے اوپر نظر ڈالی تو دیکھا کہ ماریچ اور سبا ہو اور ان کے چیلے B کی آگ پر ناپاک چیزیں پھینکنے کی تیاّری کررہے ہیں۔ راکشسوں کی فوج نے سارے آسمان کو بڑے کالے بادل کی طرح ڈھک لیا تھا۔
رام نے کہا: ’’لکشمن، ہوشیار!‘‘ اور مانواستر سے ماریچ پر حملہ کردیا۔ رام کا ارادہ ماریچ کو قتل کرنے کا تھا لیکن مانواستر نے اسے پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے کر اس طرح اُچھال دیا کہ وہ ایک سو پوجن کے فاصلے پر سمندر کے کنارے جاگرا۔ رام نے اگنی استر سے سُباہوکا خاتمہ کردیا اور پھر دونوں راج کماروں نے راکشسوں کی پوری فوج کو ملیامیٹ کردیا۔ آسمان پھر سے روشن ہوگیا۔
B کی تکمیل پر وشوامتر انتہائی خوش ہوئے اور بولے: ’’میں راجا دشرتھ کا شکر گذار ہوں۔ راجکمارو! تم نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ میں تمھاری ّہمت کی قدر کرتا ہوں۔ تم دونوں کی وجہ سے یہ آشرم نئے سرے سے فتح کی جگہ یعنی سِدّھ آشرم بن چکا ہے۔ (سدھ کے معنی ہیں فتح مند یا کام یاب)۔
اگلی صبح پوجا پاٹ کے بعد رام اور لکشمن وِشوامتر کے پاس گئے اور ان سے اگلے احکامات کے لیے درخواست کی۔ رشی وشوامتر سے رام کی پیدائش کا مقصد پوشیدہ نہیں تھا۔ اور انھیں اس کا بھی پتا تھا کہ انھوں نے رام کو جو ہتھیار دیے ہیں ان میں کتنی طاقت ہے۔ پھر بھی یہ حقیقت ہے کہ کسی چیز کا عملی تجربہ اُس چیز سے وابستہ توقعات سے زیادہ بامعنی ہوتا ہے۔ رشی وشوامتر کی خوشی الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی تھی۔ ان کا چہرہ اگنی کی طرح روشن ہوگیا۔ انھیں خیال آیا کہ اب تک انھوں نے رام کی وہ سیوا نہیں کی ہے جو اُن پر فرض ہے یعنی راج کمار کی سیتا سے شادی۔
آس پاس جمع رشیوں نے رام سے کہا: ’’ہم وِدیہا راج کی طرف جانے کا ارادہ کررہے ہیں جس کی راج دھانی مِتھیلا میں ممتاز اور دانش مند راجا جنک ایک عظیم B کرنے کا ارادہ کررہا ہے۔ ہم سب وہیں جارہے ہیں۔ ا ّچھا ہوگا اگر تم اور تمھارا راج کمار بھائی دونوں ہمارے ساتھ چلے چلو— بہت مناسب اور موزوں رہے گا کہ ایودھیا کا راج کمار راجا جنک کے دربار میں رکھی ہوئی حیرت انگیز کمان کو چل کر دیکھے۔‘‘
چناںچہ یہی طے ہوا اور رشی وشوامتر کے ساتھ رام اور لکشمن راجا جنک کی راج دھانی مِتھیلا کی طرف چل پڑے۔
چھٹا باب

 

سیتا

متھیلا کا راجا جنک ایک آدرش حکمراں تھا۔ وہ راجا دشرتھ کا انتہائی محترم دوست تھا جسے راجا دشرتھ نے اپنے B کے وقت قاصدوں کے بجائے اپنے وزیروں کو متھیلا بھیج کر B میں شرکت کی دعوت دی تھی۔
جنک صرف ایک بہادر حکمراں ہی نہیں تھا بلکہ شاستروں اور ویدوں میں کسی رِشی کی سی مہارت رکھتا تھا اور رشی یاگیہ ولکیہ کاجنھوں نے اسے برہم گیان کی تعلیم دی تھی، محبوب شاگرد تھا۔ یہ گیان دراصل ’’برہد ارنیک اُپنشد‘‘ کا خلاصہ تھا۔ بھگو دگیتا میں شری کرشن نے کرم یوگی کی حیثیت سے راجا جنک کی مثال دی ہے۔ اس لحاظ سے راجا جنک سیتا کا پتا ہونے کی لیاقت رکھتا تھا۔ کیوںکہ سیتا جی دراصل وشنو کی جنھوں نے زمین پر رام کے روپ میں جنم لیا تھا پتنی ہونے والی تھیں۔
ایک مرتبہ B کی ّنیت سے جنک نے ایک منتخب جگہ پر ہل چلایا تھا اور جیسا کہ رسم ہے، اس نے یہ کام اپنے ہاتھوں انجام دیا تھا۔ جس وقت زمین صاف اور ہموار کی جارہی تھی، راجا جنک کو جھاڑیوں میں ایک بہت ہی خوبصورت ّبچی دِکھائی دی۔ جنک لاولد تھا اس لیے اس نے اِس معصوم ّبچی کو دھرتی ماتا کا دان سمجھ کر اپنا لیا۔ اس ّبچی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر وہ اپنی محبوب بیوی کے پاس گیا اور بولا۔ ’’دیکھو ہمیں ایک خزانہ مل گیا ہے۔ مجھے B کی جگہ پر یہ بچی ملی ہے جسے ہم اپنی بیٹی کی طرح پالیں گے۔‘‘
رانی نے بڑی مسرّت کے ساتھ یہ بات قبول کرلی۔
ہماری مادّی آنکھیں دھرتی کی دیوی کے حسن کو پوری طرح نہیں دیکھ سکتیں۔ مگر جب ہم اپنے شکر گذار دل کی آنکھوں سے موسمِ بہار کی ہریالی اور مو ِسم خزاں کے سنہری کھیتوں کو دیکھتے ہیں یا حیرت اور احترام سے پہاڑوں، وادیوں، ندیوں اور سمندروں کی عظمت پر نظر ڈالتے ہیں تو اِس حسن کی جھلکیاں ہمیں دِکھائی دیتی ہیں۔
دھرتی ماتا کا یہ حسن سیتا میں پوری طرح اُتر آیا تھا۔ کمبن نے بیان کیا ہے کہ سیتا کے حسن نے لکشمی کے حسن کو، جو دودھ کے سمندر کے منتھن کے وقت امرت کے ساتھ باہر آئی تھیں، ماند کردیا تھا۔ آسمانی حسن کی مالک یہ ّبچی راجا جنک اور اس کی رانی کے ہاتھوں پروان چڑھ کر جوان ہوئی تھی۔
جب سیتا جی شادی کی عمر کو پہنچیں تو راجا جنک اس خیال سے اُداس ہوگئے کہ اب انھیں سیتا کو اپنے سے جدا کرنا پڑے گا۔ انھوں نے بہت کوشش کی مگر سیتا کے لایق کوئی راج کمار انھیں نہیں مل سکا۔ بہت سے راجا متھیلا پہنچے تاکہ سیتا کا ہاتھ مانگ سکیں لیکن راجا جنک کی نظروں میں ان میں سے کوئی بھی سیتا کے لایق نہیں تھا۔ اس کے بعد انھوں نے اس مسئلے پر بڑی تشویش کے ساتھ غور کیا اور ایک فیصلہ کرلیا۔
بہت عرصہ پہلے جنک کے Bسے خوش ہوکر ورُون دیوتا نے انھیں رُدر کی کمان اور دوترکش عطا کیے تھے۔ یہ ایک بہت قدیم آسمانی کمان تھی جسے کوئی عام انسان اٹھا بھی نہیں سکتا تھا۔ راجا جنک نے اس کمان کو ایک محترم موروثی شے کی طرح محفوظ رکھا تھا۔ راجا جنک کے نزدیک کوئی غیرمعمولی آدمی ہی سیتا کو بیاہنے کا اہل ہوسکتا تھا اس لیے انھوں نے یہ اعلان جاری کیا۔ ’’میری بیٹی سیتا سے وہی راجکمار بیاہ کرسکتا ہے جو شیو کی کمان کو، جسے ورون دیوتانے مجھے عطا کیا ہے، اٹھاسکے، موڑ سکے اور اس میں چلاّ چڑھاسکے۔‘‘
بہت سے راج کمار سیتا کی خوب صورتی کا ذکر سن کے اسے بیاہنے کے لیے متھیلا پہنچے اور ناکام اور مایوس لوٹ گئے۔ راجا جنک کی شرط کوئی بھی پوری نہ کرسکا۔
وِشوامتر کی سربراہی میں سِدّھ آشرم کے رشی بیل گاڑیوں پر سامان لاد کر متھیلا جارہے تھے۔ آشرم کے مویشی اور پرندے بھی وشوامتر کے پیچھے آنے لگے۔ تب انھوں نے نرمی سے انھیں رُک جانے کے لیے کہا۔
جب وہ لوگ سون ندی کے کنارے پہنچے تو شام ہورہی تھی اس لیے انھوں نے رات کو وہیں بسیرا کیا اور وشوامتر نے رام اور لکشمن کو اس مقام کی تاریخ بتائی۔ صبح اٹھتے ہی انھوں نے دو بارہ سفر شروع کیا اور ایک اور ندی پار کی جو زیادہ گہری نہیں تھی۔ دوپہر تک وہ لوگ گنگا کنارے پہنچ چکے تھے۔
سب نے اس پوتر ندی میں اشنان کیا اور رشیوں نے اپنے آبا و اجداد کی روحوں کو اس کے ّمقدس پانی کے ذریعے گناہوں سے پاک کیا۔ انھوں نے وہاں ایک آشرم بنایا، پوجا کی اور پھر کھانا پکایا۔ کھانا کھانے کے بعد سب وِشوامتر کے اِرد گرد بیٹھ گئے تب دونوں راج کماروں کی درخواست پر وشوامتر نے گنگا کی کہانی سنائی:
’’پربتوں کے راجا ہم وان اور اس کی رانی منورما کے دو بیٹیاں تھیں جن میں بڑی کانام تھا گنگا۔ دیوتاؤں کی درخواست پر ہم وان نے گنگا کو ُسورگ میں بھیج دیا اور وہ وہیں رہنے لگی۔ ان کی دوسری بیٹی اُما کو شیو نے پسند کرلیا اور وہ ان کی بیاہتا ہوگئی۔
ایودھیا کے ایک سابق راجا سگر کے کوئی بیٹا نہیں تھا۔ وہ اپنی دو بیویوں کیسنی اور سُمتی کے ساتھ ہمالیا میں جاکر ّتپسیا کرنے لگا۔ رشی بھرگونے اُس سے خوش ہوکر آشیرواد دیتے ہوئے کہا: ’تمھاری بہت سی اولادیں ہونگیں جو امر شہرت حاصل کریں گی۔ تمھاری دو بیویوں میں سے ایک کے یہاں اکلوتا بیٹا پیدا ہوگا جس سے تمھارا کل چلے گا۔ اور تمھاری دوسری رانی ساٹھ ہزار بلوان لڑکوں کو جنم دے گی۔‘
سگر کی رانیوں نے رشی کو جھک کر نمسکار کیا اور پوچھا کہ ان میں سے کس کے ہاں ایک بیٹا اور کس کی کوکھ سے ساٹھ ہزار بیٹے جنم لیں گے۔ رشی بھر گونے اُن دونوں سے اُن کی خواہش کے بارے میں پوچھا۔ کیسنی نے کہا کہ وہ صرف ایک بیٹے کی ماں بن کر خوش رہے گی۔کیوںکہ اُس سے راجا سُگر کی نسل چلے گی۔ سمتی نے ساٹھ ہزار لڑکوں کی ماں بننا قبول کرلیا۔
’ایسا ہی ہوگا۔‘ رِشی نے کہا۔
راجا اور اس کی دونوں رانیوں نے مطمئن ہوکر رشی سے واپس جانے کی اجازت مانگی اور ایودھیا لوٹ آئے۔ کچھ عرصے بعد کیسنی کے ہاں اسمنجس پیدا ہوا اور سُمتی نے باریک باریک ریشوں کے ایسے لوتھڑے کو جنم دیا جو ساٹھ ہزار ّبچوں میں تقسیم ہوگیا۔ ّبچوں کی اس فوج کی مناسب دیکھ بھال کے لیے ہزاروں دائیوں کا بندوبست کیا گیا۔
کئی سال بیت گئے۔ اور وہ ساٹھ ہزار لڑکے مضبوط اور خوب صورت راج کماروں میں بدل گئے جب کہ اسمنجس ایک بے رحم، جنونی انسان بن گیا۔ اُس کی تفریح یہ تھی کہ چھوٹے ّبچوں کو ندی میں پھینکے اور جب وہ باہر نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارتے ہوئے ڈوبنے لگیں تو ان کا تماشا دیکھ کر قہقہے لگائے۔ ظاہر ہے کہ لوگ اس پاگل سے سخت نفرت کرنے لگے اور انھوں نے اسمنجس کو دیش سے باہر نکال دیا۔ سب کو یہ دیکھ کر بڑی تسلّی ہوئی کہ اسمنجس کا بیٹا اَم سمان اپنے باپ کی ضد تھا۔ وہ ایک بہادر، نیک اور ملن سار راج کمار تھا۔
مہاراج سگر نے ایک بہت بڑا اَشو میدھ شروع کیا اور قربانی کے گھوڑے کی دیکھ بھال راج کمار اَم ُسمان کو سو ￿نپی۔ لیکن اِندر نے راکشس کا بھیس بدل کر گھوڑے کو چُرالیا۔ دراصل دیوتا انسانوں کے Bکو اپنی فوقیت کے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے اور اس کام میں رُکاوٹ پیدا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس کے باوجود ساری رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے انسان B کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو دیوتا ان کے نذرانے کو قبول کرنے اور Bکرنے والے کو مناسب انعام واکرام سے نوازنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔
راجا سُگر یہ جان کر بڑا دکھی ہوا کہ قربانی کا گھوڑا چرالیا گیا ہے۔ اس نے سُمتی کے ساٹھ ہزار بیٹوں کو اس کی تلاش میں روانہ کیا تاکہ وہ ساری دھرتی کو چھان ماریں اور اُسے واپس لوٹا لائیں۔ اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: ’گھوڑے کا ُچرایا جانا محض B میں رُکاوٹ کا سبب نہیں ہے، اس سے ہم سب پر پاپ اور ذ ّلت کی مار بھی پڑے گی۔ اس لیے تم سب کا فرض ہے کہ گھوڑے کو، چاہے وہ کہیں بھی چھپایا گیا ہو، تلاش کرکے واپس لے آؤ۔‘
راجا سُگر کے بیٹوں نے بڑی بے تابی کے ساتھ ساری دھرتی پر گھوڑے کی تلاش شروع کردی مگر اس کا کہیں پتا نہ چلا۔ یہاں تک کہ انھوں نے دھرتی کو اس طرح کھودنا شروع کیا جیسے پوشیدہ خزانہ ڈھونڈ رہے ہوں اور اس اضطرابی کوشش میں مقامات اور اشخاص کی عزّت کا خیال بھی انھوں نے کھو دیا، جس کے نتیجے میں لوگ ان سے نفرت کرنے لگے۔ اس کے باوجود گھوڑا نہ ملا۔ جب انھوں نے راجا سُگر کو اپنی ناکامی کی اطلاع دی تو اس نے پاتال کو بھی تہہ و بالا کرنے کا حکم دیا۔ راج کماروں نے حکم کی تعمیل کی تو انھیں وہ گھوڑا پاتال میں واقع ایک آشرم کے کنارے گھاس چرتا ہوا مل گیا۔ وہیں پاس میں رشی کپل، جو دراصل وشنو تھے، دھیان میں بیٹھے ہوئے تھے۔
راج کماروں نے بغیر سوچے سمجھے یہ نتیجہ نکالا کہ انھیں نہ صرف گھوڑا ملا ہے بلکہ چور بھی مل گیا ہے اور یہ سوچ کر وہ سب چیختے چلاتے ہوئے رشی کپل کی طرف دوڑ پڑے۔
’وہ دیکھو چور! یوگی کا سوانگ رچائے بیٹھا ہے۔‘
رشی کپل کے دھیان میں خلل پڑا اور انھوں نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں، ساٹھ ہزار راج کمار راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئے۔ گھوڑے کا اصلی چور تو اِندر تھا جس نے اسی مقصد کے تحت اسے بڑی چالاکی سے یہاں لاکر چھوڑ دیا تھا۔‘‘
ساتواں باب

 

Aتھ گنگا لاتا ہے

راجا سُگر قربانی کے گھوڑے کی تلاش میں نکلے ہوئے راج کماروں کا انتظار ہی کرتا رہ گیا۔ آخر تھک ہار کر اس نے چند روز بعد اپنے پوتے اَم ُسمان کو بلایا اور کہا: ’’میں یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں کہ پاتال میں جانے والے راج کماروں کا کیا ہوا۔ تم بہادر ہو، ہتھیاروں سے لیس ہوکر وہاں جاؤ اور معلوم کرو کہ کیا ہوا۔ اور یاد رکھو کامیاب ہوکر ہی لوٹنا۔‘‘
راج کماروں کے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے اَم سُمان پاتال میں جاپہنچا۔ جہاں اُسے چاروں کونوں پر جسیم ہاتھی کھڑے نظر آئے۔ اس نے انھیں پرنام کیا۔ چاروں کونوں کے ان محافظوں نے اس کی ہمّت بڑھائی اور یقین دلایا کہ وہ اپنی مہم میں کامیاب ہوگا۔
جب اَم سُمان پاتال میں اِدھر اُدھر گھومنے لگا تو اسے قربانی کا گھوڑا بڑے مزے سے گھاس چرتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوگیا لیکن جیسے ہی اس کی نظر چاروں طرف بکھرے ہوئے راکھ کے ٹیلوں پر پڑی تو وہ حیران اور مضطرب ہوگیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ اس کے بہادرچاچاؤں کی راکھ ہو۔
سُگر کی دوسری بیوی سمتی کا بھائی پرندوں کا راجا گروڈ جو ا ّتفاق سے وہاں موجود تھا، اَم سمان سے بولا: ’’ ُسگر کے ساٹھ ہزار لڑکوں کا وجود بس یہی راکھ کا ڈھیر ہے۔ کیونکہ انھیں رشی کپل کی عتاب بھری نظر نے جلاکر خاک کردیا ہے۔ میرے بچیّ! گھوڑے کو لے جاؤ اور Bپورا کرو۔ ا ّلبتہ رسم کے مطابق مرنے والوں کی آتماؤں کو شانتی ملنے کے لیے راکھ کے ان ڈھیروں پر پانی چھڑکنا ہوتو دیوتاؤں کی سرزمین سے گنگا کو نیچے اُتارنا ہوگا۔‘‘
اَم ُسمان گھوڑے کو لے کر تیزی سے گھر لوٹا اور جو کچھ اس نے دیکھا اور جانا تھا، راجا سے بیان کیا۔ یہ سن کر ُسگر غم میں ڈوب گیا. اس کی بدقسمتی نے اس کی اولاد کو فنا کردیا تھا۔ بہرحال گھوڑا واپس مل چکا تھا۔ اس لیے Bپورا کرلیا گیا مگر اپنے بیٹوں کی موت اور گنگا کو پاتال میں اُتارنے میں ناکامی کے غم میں اس کی موت واقع ہوگئی۔
والمیکی کی راماین کے مطابق راجا ُسگر کی عمر ۳۰ ؍ہزار سال تھی۔ تیس ہزار یا ساٹھ ہزار جیسے اعداد سے ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ تیس ہزار سے مراد محض ایک لمبی یا صرف تیس سال کی مدّت بھی ہوسکتی ہے۔ البتہّ ہمارا جی چاہے تو ہم ان اعداد کو حرف بہ حرف صحیح بھی تسلیم کرسکتے ہیں۔
سُگر کے بعد ایودھیا کے راجا کی حیثیت سے اَم ُسمان تخت پر بیٹھا اور اس کے بعد دلیپ کو راج گدّی ملی۔ دلیپ کے بعد Aتھ راجا بنا۔ اَم سُمان اور دلیپ اگرچہ زندگی کے اور معاملات میں خوش نصیب اور خوش حال تھے مگر آخری دم تک اُنھیں یہی غم رہا کہ وہ اپنے بزرگوں کی نجات کے لیے گنگا کو پاتال تک نہیں لاسکے۔
اُن کا وارث Aتھ ایک بہادر راجا تھا مگر اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔ اولاد کے حصول اور گنگا کو زمین پر لانے کی اُ ّمید میں اس نے ّتپسیا کی ّنیت سے اپنی حکومت اپنے وزیروں کے ہاتھوں میں سو ￿نپی اور گو کرن کی راہ لی۔ Aتھ نے کڑی ّتپسیائیں کیں۔ چاروں طرف آگ جلاکر اور تپتی ہوئی دھوپ میں کھلے سربیٹھ کر اور مہینے میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاکر اس نے اپنی ّتپسیا جاری رکھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نیک کام میں کی جانے والی سخت کوشش کے لیے Aتھ کی جدّوجہد کی مثال دی جاتی ہے۔
Aتھ کی ّتپسیا سے خوش ہوکر برہما نے اسے درشن دیا۔ اور پوچھا: ’’مانگو کیا مانگتے ہو۔‘‘
Aتھ نے برہما سے دو وردان مانگے۔ وہ بولا: ’’اگر آپ کو مجھ پر دَیا آتی ہے تو مجھے اولاد سے نوازیے، تاکہ میرے آباو اجداد کی نسل چلتی رہے۔ دوسرے یہ کہ کپل منی کے شراپ کی وجہ سے میرے پرکھے پاتال میں راکھ کا ڈھیر بنے پڑے ہیں۔ اگر اس راکھ کو گنگا کا پوتر پانی دھودیتا ہے تو میرے پُرکھوں کی آتمائیں ُسورگ میں جاسکیں گی۔ آپ مہربانی کرکے گنگا کو وہاں جانے کا حکم دیجیے۔‘‘
برہما نے جواب دیا: ’’دیوتا تمھاری ّتپسیا سے خوش ہوئے۔ تمھاری دونوں خواہشیں پوری کی جاتی ہیں۔ لیکن ایک مشکل ہے۔ یہ دھرتی گنگا کے اوترن کے زور کو برداشت نہیں کرسکے گی، صرف شیو میں یہ طاقت ہے کہ ُسورگ سے اُترنے والی گنگا کا زور سہارسکیں۔ اس لیے تم شیو کو منانے کے لیے ّتپسیا اور پوجا کرو۔‘‘
Aتھ نے نئے سرے سے ّتپسیا کرنا شروع کی اور ایک لمبے عرصے تک بغیر کھائے پیے ّتپسیا کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے شیو کی خوشنودی حاصل ہوگئی۔ شیو نے اس کے سامنے نمودار ہوکر کہا: ’’میں تمھاری خواہش پوری کروں گا، میں گنگا کو اپنے سرپہ لوں گا۔ تم پر گنگا کی کرپا ہو۔‘‘
جب مہادیو نے Aتھ کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تو گنگا نے برہما کے اشارے پر ُسورگ سے نیچے اُترنا شروع کیا۔ اس نے اپنے غرور میں سوچا کہ میں مہادیو کے سرپہ زور سے گروں گی اور انھیں بھی پاتال کی اور بہالے جاؤں گی۔ تین آنکھوں کے مالک بھگوان شیو نے بھی گنگا کو سبق سکھانے کی سوچی۔ مہادیو کے ارادہ کرتے ہی ان کے سرپر گرنے والے پانی کے دھارے کو ان کے الجھے ہوئے بالوں نے ایک پُرنہ ہونے والے برتن کی طرح اپنے اندر سمولیا۔ گنگا نے اپنی پوری کوشش کی کہ باہر آجائے مگر شیو کی الجھی ہوئی لٹوں کے جال میں سے اس کا ایک قطرہ بھی باہر نہ آسکا۔
یہ گنگا کے لیے ایک سبق ضرور تھا مگر Aتھ کے لیے دل توڑ دینے والی مایوسی کا سبب بھی تھا۔ اب اس کے لیے نئے سرے سے ّتپسیا کرکے شیو کو منانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ اس نے ایک نیک کام کی خاطر یہ کڑی محنت کی تھی اس لیے شیو نے اُس پر رحم کھاکر گنگا کے پانی کو آہستہ سے ’’بندو سارس‘‘ میں اتار دیا۔ یہاں سے وہ سات چھوٹے چھوٹے چشموں کی شکل میں بہہ نکلی۔ ان میں سے تین چشمے مغرب کی طرف اور تین مشرق کی طرف بہہ گئے۔ اور ایک ندی Aتھ کے پیچھے پیچھے چلنے لگی جو اپنے پُرکھوں کی نجات کو قریب دیکھ کر خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔
گنگا Aتھ کے فاتح رتھ کے پیچھے چلنے لگی۔ جیسے جیسے ندی اپنا راستہ طے کرتی گئی اس کا پانی اچھلتا ہوا اور بجلی کی طرح چمکتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ اس خوبصورت منظر کا نظارہ کرنے کے لیے آسمان میں دیوتا اور گندھرو جمع ہوگئے۔ کبھی آہستہ تو کبھی تیز، کبھی سرکتے ہوئے تو کبھی اُچھلتے ہوئے، گنگا Aتھ کے رتھ کے پیچھے ناچتی گاتی چلتی رہی اور دیولوک کے رہنے والے اس منظر کا لطف اٹھاتے رہے۔
گنگا نے اپنے راستے میں آنے والے جہنورشی کے B کے لیے نصب کیے ہوئے مچان کو نقصان پہنچایا۔ نتیجے میں رشی جہنونے گنگا کا ساراپانی اپنے چلّو میں بھرلیا اور اسے پی گئے۔ گنگا پھر سے Aتھ کو دُکھی اور پریشان چھوڑ کر غائب ہوگئی۔
دیوتا اور دوسرے رشیوں نے جہنو کے پاس جاکر ان سے درخواست کی کہ گنگا کو معاف کردیں اورAتھ کو اپنی ّتپسیاؤں اور ریاضتوں کا پھل بھوگنے کی اجازت دیں۔ رِشی نے ان کی بات مان لی اور گنگا کو اپنے سیدھے کان سے باہر نکال دیا۔ دیوتا خوش ہوگئے اور انھوں نے گنگا کو اس طرح آشیرواد دیا:
’’رشی جہنو کے بدن سے تم اس طرح نکلی ہو جیسے ماں کی کوکھ سے بچہّ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے تم جاہنوی ہو یعنی جہنو کی بیٹی۔‘‘
اس کے بعد نہ تو کوئی رُکاوٹ پیش آئی اور نہ کوئی حادثہ ہوا اور سمندر کے راستے گنگا پاتال تک پہنچ گئی۔ گنگا کے پوتر پانی سے Aتھ نے اپنے پُرکھوں کا کریا کرم کیا جس سے ُسورگ میں اُن کا داخلہ یقینی ہوگیا۔Aتھ کی کوششوں سے گنگا دھرتی پر آئی اس لیے اُسے بھاگیرتھی کہا جاتا ہے۔‘‘
اپنی کہانی ختم کرتے ہوئے وِشوامتر نے راج کماروں کو آشیرواد دیا۔ اور بولے:
’’سورج غروب ہورہا ہے۔ چلو ہم اپنی شام کی پوجا گنگا کے پانی سے کریں جسے تمھارا ایک پُرکھا زمین پر لایا ہے۔‘‘
وہ لوگ جو گنگا کے پوتر پانی میں اشنان کرتے ہیں یا بھکتی بھاونا سے اِس مقدّس کہانی کو پڑھتے یا سنتے ہیں ان کے سارے پاپ دُھل جاتے ہیں اور انھیں نیکی، استحکام اور ان تھک جوش حاصل ہوتا ہے۔
آٹھواں باب

 

اہلیا

شہر وشال میں ایک دن ٹھہرنے کے بعد وشوامتر اپنی جماعت کے ساتھ متھیلا روانہ ہوگئے۔ متھیلا سے قریب ایک جگہ انھوں نے ایک خوب صورت آشرم دیکھا۔ لیکن یہاں کسی آشرم واسی کا پتا نہیں تھا۔ رام نے وشوامتر سے پوچھا: ’’اتنے پرانے درختوں سے گھرا ہوا یہ کس کا آشرم ہے؟ ایسی خوب صورت جگہ کو یہاں کے رہنے والے کیوں چھوڑ گئے؟‘‘
وِشوامتر نے جواب دیا: ’’دراصل یہ آشرم ایک شراپ کا شکار ہوگیا ہے۔ یہاں رشی گوتم اپنی بیوی اہلیا کے ساتھ رہتے تھے، اور دلی سکون کے ساتھ دھیان گیان میں اپنے دن بتاتے تھے۔ ایک دن جب کہ رشی آشرم سے دُور تھے، اِندر نے خوب صورت اہلیا کے لیے ناپاک خواہش سے مغلوب ہوکر رِشی گوتم کا بھیس بدلا اور اہلیا سے فوری وصال کا طالب ہوا۔ اہلیا نے گوتم کے بھیس میں بھی اِندر کو پہچان لیا مگر اپنی خوب صورتی کے غرور میں اور اس بات پر فخر کا احساس کرتے ہوئے کہ دیولوک کا راجا اِندر اس کی محبت میں گرفتار ہے، وہ اپنا توازن کھو بیٹھی اور اِندر کی بات مان گئی۔
گناہ کا ارتکاب کرتے ہی اُسے احساس ہوا کہ اس نے نہ صرف ایک گھناونا پاپ کیا ہے بلکہ زبردست روحانی طاقت کے مالک شوہر کو دھوکا دیا ہے۔ چناںچہ اس نے اِندر کو اس کے تباہ کن نتیجے سے آگاہ کرتے ہوئے اس سے منّت کی کہ وہ وہاں سے فوراً نکل جائے۔
اِندر شدید احساسِ جرم کی گھبراہٹ میں وہاں سے بھاگنے لگا لیکن بدقسمتی سے اشنان کرکے واپس آنے والے گوتم رشی سے، جو گیلے کپڑوں اور روحانی نور میں لپٹے سامنے کھڑے تھے، قریب قریب ٹکراگیا۔ اِندر نے جب دیکھا کہ سرو گیانی گوتم کے سامنے ڈھونگ رچانا بے کار ہوگا تو اس نے فوراً حقیرانہ عاجزی کے ساتھ اُنھیں نمسکار کیا اور ان کے قدموں میں گرکر رحم کی بھیک مانگنے لگا۔ رشی نے غصّے اور نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور شراپ دیا: ’تم ایک خواہشوں کے غلام جانور ہو جسے ستیہ اور نیکی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اس لیے تم اپنی مردانگی سے محروم ہوجاؤگے۔‘
’’اِندر فوراً ایک زنخے میں تبدیل ہوگیا اور ذ ّلت آمیز شرمندگی کے ساتھ دیوتاؤں کے پاس واپس چلا گیا۔ اس کے بعد رشی نے اپنی غلط کار بیوی کی طرف دیکھا اور اسے ایک طویل پرائشچت کی بد دعا دی۔ انھوں نے کہا: ’ایک طویل مدّت تک تم صرف ہوا پر زندہ رہوگی اور کوئی تمھیں دیکھ نہیں سکے گا جب تک کہ دشرتھ کا بیٹا اس راہ سے نہ گزرے۔ جب وہ اس آشرم میں قدم رکھے گا تو اس شراپ سے تم آزاد ہوجاؤ گی۔ ایک مہمان کی طرح اس کا سواگت اور اس کی خدمت کرنا۔ ایسا کرنے پر تم اپنی کھوئی ہوئی عصمت اور خوب صورتی کو واپس حاصل کرسکو گی۔‘
یہ کہہ کر رِشی گو تم نے اپنا وہ آشرم، جس کی حرمت کو برباد کردیا گیا تھا، ترک کردیا اور ّتپسیائیں کرنے کے لیے ہمالیا کی طرف چلے گئے۔‘‘
وِشوامتر نے رام سے کہا: ’’آؤ اس آشرم میں چلیں۔ تم اہلیا کو اس کے شراپ سے نجات دلاؤگے اور رِشی کے کیے ہوئے وعدے کے مطابق اس کا حسن اور اس کی عصمت اسے واپس مل جائے گی۔‘‘
چناںچہ وہ لوگ آشرم میں داخل ہوئے۔ جیسے ہی رام نے آشرم میں قدم رکھا اُن کے چرنوں کے اسپرش سے شراپ کا خاتمہ ہوگیا اور اہلیا اپنی تمام تر خوب صورتی کے ساتھ ان کے سامنے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ جھاڑیوں اور پتوّں میں چھپی رہنے اور سالہا سال تک اپنی حالت پر قایم رہنے کے سبب رام کی موجودگی میں وہ ایسی تاب ناک لگنے لگی جیسے بدلی سے باہر آنے والا چاند، یا جیسے دُھوئیں سے اُٹھنے والا شعلہ یا جیسے مچلتے ہوئے پانی میں سورج کی کرنوں کا انعکاس ہو۔
رام اور لکشمن نے پرائشچت کے بعد پوتر ہوجانے والی رشی کی بیوی کے پیر چھوئے۔ اُس نے بھی مہمان نوازی کے تمام رسمی آداب کے ساتھ ان دیوتا صفت راج کماروں کا سواگت کیا۔ گناہوں سے پاک ہونے کے بعد اہلیا ایک دیوی کی طرح پُرنور ہوگئی اور آسمانوں سے اس پر پھولوں کی بارش ہوئی۔ ساتھ ہی ساتھ رِشی گوتم بھی آشرم میں لوٹ آئے، اور انھوں نے گناہ پر شرم سار اور دوبارہ پوتر ہوجانے والی بیوی کو اپنی محبت کے دائرے میں واپس لے لیا۔
یہ والمیکی کی بیان کی ہوئی اہلیا کی کہانی ہے۔ اگرچہ پُرانوں میں اور عوامی حکایتوں میں اس کہانی کے کسی قدر مختلف روپ ملتے ہیں لیکن ان اختلافات سے ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔
میں اپنے زمانے کے ان لوگوں سے، جو راماین، مہابھارت اور دوسرے پُرانوں کا مطالعہ کرتے ہیں، چند باتیں کہنا چاہوں گا۔ ان صحیفوں میں جگہ جگہ دیوتاؤں اور راکشسوں کا ذکر ملتا ہے۔ راکشس شریر تھے، دھرم کی خلاف ورزی کرتے تھے اور ادھرم کے کاموں میں مسرّت محسوس کرتے تھے۔ اَسور بھی راکشسوں ہی کے مانند تھے۔ لیکن خود راکشسوں میں دانش مند اور نیک لوگ بھی ہوا کرتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہترین نسل کے لوگوں میں بُرے لوگ پیدا ہوتے ہیں اور بُروں میں ا ّچھے جنم لیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اسور اور راکشس دراصل وہ لوگ تھے جو بُرے کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ افسوس ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے اَسوروں اور راکشسوں کو قدیم ہندوستان کے جنگلی قبیلوں اور وحشی نسلوں کے لوگ سمجھتے ہیں۔ حالاںکہ کسی پرانے ادب یا روایت یا تاریخ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی ہے جس سے اس خیال کی تائید ہوسکے۔ غیر ملکیوں کا یہ قیاس کہ راکشسوں سے مراد دراوڑی نسل کے لوگ ہیں، کسی تامل ّمصنف یا ادبی تصنیف سے ثابت نہیں ہوتا ہے۔ تامل باشندے اَسوروں یا راکشسوں کی نسل سے نہیں ہیں۔
دیوتا عام طور پر دھرم کے محافظ ہوتے تھے اور راکشسوں کو شکست دینا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ ُپرانوں کے مطابق راکشسوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انھیں بعض اوقات دھرم کے خلاف بھی قدم اٹھانا پڑتا تھا کیونکہ بعض راکشس اپنی ّتپسیاؤں کے سبب غیر معمولی قوّت کے مالک ہواکرتے تھے۔
دیوتا عموماً نیک چلن ہواکرتے تھے اور جو نیک چلنی کے راستے سے بھٹک جاتے تھے انھیں اس کا پرائشچت کرنا پڑتا تھا۔ دیوتاؤں کے لیے دھرم یا شریعت کا کوئی الگ ضابطۂ عمل نہیں تھا۔ کرم کا اصول دیوتاؤں اور دوسری مخلوقات میں فرق نہیں کرتا۔ دھرم کا قانون دیوتاؤں اور دوسری مخلوقات پر یکساں لاگو تھا۔
دیوتاؤں کے ساتھ نیکی کا تصوّر لازمی تھا اس لیے ان کی چھوٹی سی لغزش بھی ہمیں سفید کپڑے پر لگے ہوئے داغ کی طرح نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ اور راکشسوں سے بُرے کرموں ہی کی تو ّقع کی جاتی ہے، اس لیے ان کے بُرے عمل کالے کپڑے پر لگے دھبّوں کی طرح نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ نیک انسان اگر بہک جائے تو ہماری ہم دردی کا مستحق ہونا چاہیے، لیکن دنیا کا چلن یہ ہے— حالانکہ یہ غلط چلن ہے— کہ ہم نیک لوگوں کی چھوٹی سی لغزشوں پر بھی انھیں سخت لفظوں میں پھٹکارتے ہیں اور مستقل خطاکرنے والوں کو آسانی سے برداشت کرلیتے ہیں۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ پُرانوں میں ہم دیوتاؤں کو دھرم اور ادھرم کی کشمکش میں مبتلا دیکھتے ہیں۔ اِندر اور دوسرے دیوتاؤں کو ُپرانوں میں سنگین پاپ کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ہے۔ آخر اُن رِشیوں نے جو ان پُرانوں کے ّمصنف ہیں، ایسی باتیں بیان کرکے اپنے لیے مشکلات کیوں پیدا کرلیں؟ دراصل ان کا مقصد لوگوں کو دھرم پر چلنے کی راہ کے خطرات سے آگاہ کرنا تھا۔ ورنہ انھیں کیا ضرورت تھی کہ اپنے ہی مثالی کرداروں کے ساتھ جان بوجھ کر پاپ کرموں کو جوڑتے اور اپنی تعلیم کی راہ میں مشکلات حائل کرلیتے؟
کچھ لوگ پُرانوں میں بیان کردہ واقعات سے فوری غلط نتائج نکالنے میں مسرّت محسوس کرتے ہیں۔ ان کی دلیل ہوتی ہے: ’’راون ایک بہت ا ّچھا حکمراں تھا۔ والمیکی نے غلطی سے بُرے کاموں کا الزام اس کے سر ڈال دیا ہے۔‘‘ وہ پوچھتے ہیں: ’’کیا فلاں موقع پر رام نے بھی ناانصافی سے کام نہیں لیا؟ کیا سیتا جی نے فلاں موقع پر جھوٹ نہیں کہا؟‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
والمیکی چاہتے تو بڑی آسانی سے ان واقعات کو حذف کرسکتے تھے جن سے لوگوں کو روحانی درس نہیں ملتا۔ رام اور راون دونوں کا ذکر سب سے پہلے کوی والمیکی ہی نے کیا ہے۔ والمیکی کی راماین سے پہلے لکھی گئی کوئی ایسی تصنیف نہیں ملتی جس میں راون کا ذکر ہو اور جس کے حوالے سے والمیکی کے بیان کی تردید کرکے انھیں رام، سیتا اور دیوتاؤں کا طرف دار اور واقعات کو توڑ مروڑ کر لوگوں کو دھوکا دینے کا قصو وار قرار دیا جاسکے۔
اس قسم کے واقعات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ راماین میں ہماری روز مرّہ کی زندگی کے ملتے جلتے مسائل ہی کا عکس ملتا ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم پرانوں میں بیان کردہ اخلاقی آزمائشوں سے سبق سیکھیں۔ مثلاً اہلیا کے واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارا پاپ کتنا ہی بڑا ہو، سزا اور پرائشچت سے گزر کر ہم اس سے نجات پانے کی تو ّقع رکھ سکتے ہیں۔ دوسروں کے پاپوں پر انھیں لعنت ملامت کرنے کے بجائے ہم خود اپنے دلوں کو ٹٹولیں اور ہر قسم کے بُرے خیال سے انھیں پاک کرنے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے جو سب سے نیک ہیں انھیں گناہوں سے بچنے کے لیے ہمیشہ بیدار اور محتاط رہنا چاہیے۔ اہلیا کی خطا سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
نواں باب

 

سیتا سوl

جنک کے B کی ساری تیاّریاں ّمکمل ہوچکی تھیں اور مختلف ریاستوں کے رشی منی اور برہمن وہاں پدھار چکے تھے۔ وشوامتر اور ان کے ہم راہ آئے ہوئے راج کماروں کا مناسب سواگت کیا گیا۔ راجا جنک کے پروہت (دھرم ُگرو) شانند نے سب سے پہلے وِشوامتر کو تعظیم دی۔ پھر جنک نے ان کی تقلید کی، راجانے رشی سے کہا: ’’یہ میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے کہ آپ میرے B میں شریک ہیں۔‘‘
رام اور لکشمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنک نے وِشوامتر سے پوچھا: ’’یہ دونوں دیوتا صورت نوجوان کون ہیں جن کی صورتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اور جو تجربہ کار ُسورماؤں کی طرح اپنے ہتھیاروں کو فخریہ بے پروائی کے ساتھ اُٹھائے ہوئے ہیں؟ وہ کون خوش نصیب باپ ہے جس کے یہ بیٹے ہیں؟‘‘
وِشوامتر نے جنک کو بتایا کہ وہ دونوں راجا دشرتھ کے بیٹے رام اور لکشمن ہیں۔ انھوں نے ان دونوں کے راکشسوں کو تباہ کرنے اور ان کے Bکو بچانے کی بات بھی بتائی: ’’یہ دونوں یہاں اس لیے آئے ہیں کہ ممکن ہوتو تمھارے محل میں رکھی ہوئی رُدر کی کمان کے درشن کرسکیں۔‘‘
جنک وِشوامتر کے الفاظ کا مطلب سمجھ گئے اور دِل ہی دل میں خوش ہوئے، وہ بولے:
’’کمان دیکھنے کے لیے راج کمار کا سواگت ہے۔ اگر وہ اس پر چلاّ چڑھا سکے تو میری بیٹی کو جیت لے گا۔ بہت سے راج کمار آئے جنھوں نے اس کمان کو دیکھا اور واپس چلے گئے کیوںکہ وہ اسے اپنے جگہ سے ہلا بھی نہیں سکے تھے۔ مجھے سچ مچ بڑی خوشی ہوگی اگر یہ راج کمار وہ کام کر دکھائے جس میں اتنے راج کمار ناکام رہے ہیں، تاکہ میں اپنی سیتا کا بیاہ اس سے کرسکوں۔‘‘
اس کے بعد جنک نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ وہ بڑی حفاظت اور تقدّس کے ساتھ ایک لوہے کے صندوق میں رکھی ہوئی کمان کو وہاں لے آئیں۔ چناںچہ یاترا کے موقع پر نکالے جانے والے مندروں کے رتھ کی طرح آٹھ ّپہیوں والے رتھ پر رکھ کر وہ کمان وہاں لائی گئی۔
’’یہ رہی وہ رُدر کی کمان جسے میں اور میرے پُرکھے پوجتے چلے آئے ہیں۔‘‘ جنک نے کہا: ’’رام آئیں اور اس کے درشن کریں۔‘‘
وِشوامتر اور راجا جنک کی اجازت پاکر رام اس لوہے کے صندوق کے پاس گئے جس میں کمان رکھی ہوئی تھی۔ اس وقت سبھی کی آنکھیں پر اُ ّمید انداز میں ان پر جمی ہوئی تھیں۔ صندوق کو کھولتے ہوئے انھوں نے بڑی آسانی سے کمان کو اٹھالیا گویا وہ پھولوں کا ہار ہو۔ پھر اس کا ایک سرا اپنے پیر کے پنجے میں پکڑکر انھوں نے اسے موڑا اور اس پر چلاّ چڑھا دیا۔ پھر کمان کی ڈور کو ایسی زبردست قوّت کے ساتھ کھینچا کہ وہ مضبوط کمان بجلی کی کڑک کی آواز کے ساتھ دو ٹکڑے ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آسمان سے پھولوں کی بارش ہوئی۔
جنک نے اعلان کیا: ’’میری پیاری بیٹی کا بیاہ اس راج کمارسے ہوگا۔‘‘
وِشوامتر نے جنک سے کہا: ’’ اپنے سب سے تیز رفتار قاصدوں کو ایودھیا روانہ کرو تاکہ وہ راجا دشرتھ کو اس بات کی اطلاع اور بیاہ میں شرکت کا نیوتا دے سکیں۔‘‘
جنک کے قاصد تیسرے ہی دن ایودھیا پہنچ گئے۔ انھوں نے اِندر کی طرح دربار لگاکر بیٹھے ہوئے راجا دشرتھ کے حضور میں حاضری دی اور عرض کی:
’’مہاراج! رشی وشوامتر اور راجا جنک نے آپ کے لیے خوش خبری بھیجی ہے۔ آپ کے بیٹے رام نے جو میتھلا پدھارے تھے، ہماری راج کماری سیتا کو، انھیں حاصل کرنے کی شرط پوری کرکے، جیت لیا ہے۔ انھوں نے رُدر کی کمان پر، جسے اُن سے پہلے کوئی ہلا بھی نہیں سکا تھا، نہ صرف چلاّچڑھایا بلکہ اس کو اس طرح موڑا کہ وہ اپنے غرور کے ساتھ دو ٹکڑے ہوگئی۔ راجا جنک اس بیاہ کے لیے آپ کی کریمانہ اجازت اور اس تقریب میں آپ کی شرکت اور آشیرواد کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ آپ سے التجا ہے کہ اپنے جاہ و حشم کے ساتھ متھیلا کے لیے روانہ ہوں۔‘‘
راجا دشرتھ، جنھوں نے رام کو رشی وشوامتر کے ساتھ ان کی یقین دہانی کے باوجود بڑے فکر مند دل کے ساتھ روانہ کیا تھا، یہ خوش خبری سن کر خوشی سے اُچھل پڑے۔ انھوں نے اپنے وزیروں کو حکم دیا کہ فوراً سفر کی تیاّری کریں۔ اور دوسرے ہی دن وہ راجا جنک کی راجدھانی کی طرف روانہ ہوگئے۔
جب راجا دشرتھ، ان کے درباری اور نوکر چاکر متھیلا پہنچے تو گرم جوشی سے ان کا سواگت کیا گیا۔ آپسی نمسکار اور تواضع کے بعد جنک نے دشرتھ سے کہا: ’’میرا B جلد ہی پورا ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے کہ B ختم ہوتے ہی دونوں کا بیاہ کرنا بہتر ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے دشرتھ کی منظوری کے لیے ان کی طرف دیکھا۔
’’آپ لڑکی کے ِپتا ہیں اور آپ ہی کو اس کا ادھیکار ہے کہ جس طرح چاہیں رسم پوری کریں۔‘‘ راجا دشرتھ نے جواب دیا۔
مقرّرہ دن اور گھڑی پر راجا جنک نے سیتا کو رام سے بیاہ دیا اور بولے: ’’میری بیٹی سیتا اب آپ کے حوالے ہے جو دھرم کے راستے پر آپ کے قدم سے قدم ملا کر چلے گی۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رہنا۔ سعادت مندی اور عقیدت مندی کے ساتھ وہ آپ کا سایہ بن کر چلے گی۔‘‘
اس طرح جنک نے سیتا کو رام سے بیاہ دیا۔ کیا وہ دونوں ازلی پریمی نہیں تھے جو دھرتی پر پھر سے مل گئے؟ چناں چہ وہ دونوں اس ملن پر ایسے ہی مسرور ہوئے جیسے بچھڑے ہوئے پریمی ایک مدّت کے بعد ملے ہوں۔
دسواں باب

 

پرشورام کی شکست

ایودھیا میں وِشوامتر کے حوالے کیے گئے دونوں راج کماروں کو انھوں نے حفاظت کے ساتھ مِتھیلا میں راجا دشرتھ کے حوالے کیا۔ پھر بیاہ کی تقریبات میں شرکت کرنے کے بعد انھوں نے دونوں سے رخصت لی اور ہمالیا کی طرف چلے گئے۔ راماین میں اس کے بعد وِشوامتر کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
وِشوامتر کو راماین کی کتھا کے مندر کا سنگِ بنیاد کہا جاسکتا ہے۔ چناںچہ مِتھیلا میں رام کے بیاہ کے بعد وہ ہمیں پھر کہیں نظر نہیں آتے۔ خیال رہے کہ والمیکی راماین کی ایک فصل یا کانڈ میں جو کردار نمایاں اور مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ، دوسری فصل میں وہ نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ مثلاً وِشوامتر جو بال کانڈ میں سب سے اہم کردار ہیں، پھر نظر نہیں آتے۔ اس طرح کیکئی اور گہا صرف ایودھیا کانڈ ہی میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ بھرت کے بارے میں بھی یہی بات کہی جاسکتی ہے جو چترکوٹ کی ملاقات اور رام کی ایودھیا کو واپسی کے درمیان کے ابواب میں کہیں دِکھائی نہیں دیتے۔ رام کے بن باس کے زمانے میں کوی والمیکی نے بھرت کو شاذ ہی کہیں پیش کیا ہے۔ والمیکی راماین کے کردار ہمارے سامنے بار بار نہیں آتے جیسا کہ مہابھارت اور دوسرے عام ناٹکوں اور کتھاؤں میں دِکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے نقاّدوں کو والمیکی کے رزمیے کی اس عمومی خاصیت کو دھیان میں رکھنا چاہیے۔
راجا دشرتھ اپنے تام جھام کے ساتھ ایودھیا لوٹے۔ راستے میں کچھ برُے شگون بھی سامنے آئے اور پریشان دشرتھ نے وِسِشٹھ سے ان کی تعبیریں پوچھیں۔ وسِشٹھ نے جواب میں راجا کو مطمئن رہنے کے لیے کہا۔ کیوںکہ فضا میں اُڑتے پرندے آنے والی آفت کی نشان دہی کر رہے تھے۔ مگر زمین کے جانور رام اور سیتا کی خوش گوار بیاہتا زندگی کا یقین دلا رہے تھے۔
دشرتھ اور وسِشٹھ کے درمیان بات چیت چل رہی تھی کہ اچانک آندھی شروع ہوگئی۔ درخت اُکھڑ کر گرنے لگے، زمین ہلنے لگی اور آندھی کے ساتھ اُٹھنے والے گردوغبار کے بادلوں نے سورج کو بھی چھپا لیا۔ چاروں طرف گہری تاریکی چھا گئی۔ ہر شخص خوف زدہ ہوگیا۔ جلد ہی انھیں اس عجیب قدرتی مظہر کی وجہ معلوم ہوگئی۔ان کے سامنے خوف زدہ کرنے والی پرشورام کی عظیم شبیہ، کھڑی تھی۔ چھتریوں کا جانی دشمن پرشورام ایک کاندھے پر کمان اور دوسرے پر جنگی کلہاڑی (تبر) اور ہاتھ میں بجلی کی طرح چمکتا ہوا تیر لیے ہوئے تھا۔ خوفناک چہرے کے ساتھ اور اُلجھی ہوئی جٹاؤں کو سر کے اوپر باندھے ہوئے وہ ایسا لگ رہا تھا جیسے تری پرا کو تباہ کرنے میں فخر کا احساس کرنے والا رُدر ہو۔ اس کے چہرے کی چمک شعلوں جیسی تھی۔ رِشی جمداگنی کا یہ بیٹا چھتریوں میں، جن کی کئی نسلوں کو وہ برباد کر چکا تھا، خوف کی لہر دوڑا دیتا تھا۔ وہ جہاں کہیں جاتا اس سے پہلے آندھی اور زلزلہ آتا تھا اور چھتری ُکل کے لوگ خوف سے کا ￿نپنے لگتے تھے۔
راجا دشرتھ کی شاہی سواری میں شامل برہمن ایک دوسرے سے کہنے لگے:
’’پرشورام کے باپ کو ایک چھتری راجا نے قتل کردیا تھا اس لیے اس نے قسم کھائی کہ چھتریوں کو برباد کر کے رہے گا۔ ہم یہ اُ ّمید کرچلے تھے کہ اس نے بے شمار راجاؤں کا خون بہانے کے بعد اپنے انتقامی غصّے کی آگ کو ٹھنڈا کرلیا ہوگا، لیکن اس نے تو اپنی ظالمانہ سرگرمی پھر سے شروع کردی۔‘‘
بہرحال برہمنوں نے رسمی طور پر احتراماً اسے جل ارپن کیا۔ اُن کی پیش کش قبول کر کے پرشورام نے رام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’دشرتھ کے بیٹے! میں نے تمھاری جواں مردی کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ مجھے یہ جان کر تھوڑی سی حیرت بھی ہوئی کہ تم نے راجا جنک کے دربار میں رکھی ہوئی کمان پر چلاّ چڑھایا اور اس کی ڈور کو اس طرح کھینچا کہ وہ دوٹکڑے ہوگئی۔ یہ رہی میری کمان جو ہر مقابلے میں تمھاری توڑی ہوئی کمان کی برابری کرسکتی ہے۔ یہ وشنو کی کمان ہے جو میرے باپ کو دی گئی تھی۔ اگر تم اس کمان پر چلاّ چڑھاسکے تو میں تمھیں اپنے سے مقابلہ کرنے کے لایق سمجھوں گا۔‘‘
ماحول کو اس طرح بدلتے دیکھ کر راجا دشرتھ پریشان ہوگئے اور انھوں نے پرشورام سے التجا کرنی شروع کی کہ رام کو اس آزمایش میں نہ ڈالیں۔ انھوں نے پرشورام سے کہا: ’’تم ایک برہمن ہو، ہم نے سنا تھا کہ اِندر کو دیے ہوئے قول کے مطابق اپنی جیتی ہوئی دھرتی کاشیپ کو دینے اور اپنے انتقام کی پیاس بجھا لینے کے بعد تم پھر سے اپنے دھرم کے مطابق ّتپسیا میں مصروف ہوگئے ہو۔ کیا یہ مناسب ہے کہ تم اپنی قسم کو توڑو اور ایک کم عمر راج کمار کو، جس نے تمھارا کچھ نہیں بگاڑا ہے اور جو ہمیں جان سے زیادہ پیارا ہے، نقصان پہنچانے کا بہانہ تلاش کرو۔‘‘
پرشورام نے دشرتھ کی بات سنی اَن سنی کردی اور اُن کی طرف دیکھے بغیر صرف رام سے اس طرح مخاطب رہا جیسے دوسرے لوگ وجود ہی نہ رکھتے ہوں:
’’وشوکرما نے اصل میں ایک جیسی دو کمانیں بنائی تھیں۔ ایک رُودر کو دی گئی اور دوسری وِشنو کو۔ یہ وِشنو کو دی ہوئی کمان ہے۔ اور جس کمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ تم نے اس پر چلاّ چڑھایا اور یہاں تک موڑا کہ اس کے دو ٹکڑے ہوگئے، دراصل شیو کی کمان تھی۔ اب وِشنو کی کمان کو توڑنے کی کوشش کرو۔ اگر تم نے ایسا کرلیا تو یہ تمھاری مہارت اور طاقت کا ثبوت ہوگا اور میں تم سے مقابلہ کر کے تمھاری عزّت بڑھاؤں گا۔‘‘
پرشورام نے بلند اور پرغرور لہجہ میں یہ بات کہی مگر رام نے اس کی بات کا بڑے پر اخلاق مگر مستحکم لہجہ میں جواب دیا:
’’جمداگنی کے بیٹے! تم اس لیے انتقام پر اُتارو ہوگئے ہو کہ تمھارے باپ کو کسی راجا نے قتل کردیا تھا۔ میں تمھیں اس بات کے لیے الزام نہیں دوں گا۔ لیکن تم مجھے صرف اس لیے نہیں ہراسکتے کہ مجھ سے پہلے بہت سوں کو ہراچکے ہو۔ لاؤ! اپنی کمان مجھے دینے کی کرپا کرو۔‘‘
اپنی بات ختم کر کے رام نے پرشورام سے تیر اور کمان لے لیے۔ انھوں نے کمان پر چلاّ چڑھایا اور تیر جوڑ کر کمان کو کھینچا۔ پرشورام سے خطاب کرتے ہوئے وہ مسکراکر بولے:
’’وِشنو کا یہ زبردست تیر کمان پر چڑھنے کے بعد یونہی واپس ترکش میں نہیں جاسکتا۔ اس سے کسی نہ کسی کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ بتاؤ! کیا اس سے تمھاری رفتار کی طاقتوں کا خاتمہ کیا جائے یا تمھاری ّتپسیا کا پھل اس سے توڑ دیا جائے۔‘‘
جیسے ہی دشرتھ کے بیٹے نے وِشنو کی کمان پر چلاّ چڑھایا، پرشورام کے چہرے کی آب و تب جاتی رہی اور وہ جنگجو فاتح کی بجائے ایک منکسرمزاج رِشی کی مانند کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ کیونکہ پرشورام کے اوتار کا مقصد ہی پورا ہوچکا تھا۔
پرشورام نے بڑی نرمی کے ساتھ ایودھیا کے راج کمار سے کہا:
’’میں جان گیا آپ کون ہیں۔ مجھے کوئی افسوس نہیں کہ آپ نے میری غرور کی آگ کو ٹھنڈا کردیا۔ میری ساری ّتپسیا آپ پر قربان، مگر کاشیپ سے کیے گئے وعدے کے سبب میں اس کی مملکت میں ٹھہر نہیں سکتا اور سورج غروب ہونے سے پہلے مہندر کے پہاڑوں میں لوٹ جانا میرے لیے ضروری ہے۔ مجھے صرف اس کام کے لیے اپنی قوّتِ رفتار کو استعمال کرنے کی اجازت دیجیے۔ صرف اس بات کو چھوڑ کر آپ کا چڑھایا ہوا تیر میری ّتپسیا کے زور پر کمائی ہوئی طاقت کو ختم کردے تو مجھے غم نہ ہوگا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے پرشورام نے احتراماً راج کمار کا طواف کیا اور وہاں سے چلا گیا۔

ایودھیا کی جنتا میں اس خبر سے خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ راجا دشرتھ اور دونوں راج کمار راجدھانی لوٹ رہے ہیں۔ سارا شہر پھولوں سے سجا دیا گیا اور دیولوک کی طرح سندر لگنے لگا۔
رام اور سیتا ￿ہنسی خوشی بارہ سال تک ایودھیا میں رہے۔ رام سیتا پر اپنا دِل نچھاور کرچکے تھے۔ یہ کہنا مشکل تھا کہ اُن دونوں کی ّمحبت میں اُن کی نیکیوں کے سبب اضافہ ہو رہا تھا یا اس میں ان کے جسمانی حسن کو دخل تھا۔ وہ ￿منہ سے لفظ ادا کیے بغیر اپنے دِل کی مدد سے ایک دوسرے سے اپنی بات کہتے تھے۔ رام کی ّمحبت میں سرشار سیتا دیولوک کی لکشمی کی مانند سندر لگتی تھیں۔
کافی عرصے بعد جب دونوں بن باس گئے تو عظیم رِشی اَتری کی پاک باز بیوی اَن ُسویا نے رام کے لیے سیتا کے پریم کی تعریف کی۔ تب سیتا نے کہا:
’’بھلا اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا تھا۔ رام تو ایک ّمکمل انسان ہیں۔ میرے لیے اُن کی ّمحبت میری ّمحبت کی برابری کرتی ہے۔ ان کا پیار بدلتا نہیں۔ ایک پاک اور پوتر دِل کے مالک ہونے کی وجہ سے انھوں نے اپنی ساری خواہشات پر قابو پالیا ہے۔‘‘

¡¡

 

Jazbi Chand Ta’ssurat by Zubair Rizvi

Articles

جذبیؔ ___چند تاثرات

زبیر رضوی

جذبیؔ کی مقبول غزل کا ایک شعر ہے :
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جعفر علی خاںاثر ؔ نے اس غزل اور اس شعر کو پوری ترقی پسند شاعری کے ہم پایہ قرار دیا تھا ۔ ایسے اور اسی طرح کے مبالغہ آمیز بیانات نے شعر کی پرکھ اور تفہیم میں بے شمار گمراہیوں کو رواج دیا ہے ۔ مومنؔ کے ایک شعر کے عوض اپنا تمام تر شعری سرمایہ سپرد کرنے کی جو بات محمد حسین آزاد نے بغیر کسی ثبوت کے غالبؔ جیسے کج کلاہ شاعر سے منسو ب کی وہ چو نکہ چٹخارے دار تھی ، اس لیے زبان زد ہو گئی ۔ جعفر علی خاں اثرؔ کا ترقی پسندی سے بیر چونکہ جانا پہچانا تھا ، اس لیے ان کی اس بات پر طول کلامی کی نوبت نہیں آئی ۔ خدا لگتی بات تو یہ بھی ہے کہ جذبیؔؔ کی یہ غزل زمانے کا اتنا سرد و گرم سہہ لینے کے بعد بھی ہمارے حافظے سے محو نہیں ہو پائی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے ادبی ذوق کی تربیت میں ہمارے دور کے مقبول ادب پاروں کا بڑا ہاتھ تھا ۔ اس وقت فیض، جعفری، مخدوم، جذبیؔ جو کچھ لکھ رہے تھے وہ بطور قاری ہماری ادبی گفتگو اور مزاج کا حصہ بنتا جا رہا تھا اور ہم ان کے شاہکار ادب پاروں کے ساتھ اپنے ادبی ذوق کے سانولے سلونے سالوں میں قدم رکھ رہے تھے ۔ ادب کے ساتھ اپنی جنوں آمیز وابستگی کی نیو رکھنے کا یہی وہ زمانہ تھا ، جب جذبیؔ ؔ کی ’ فروزاں‘ مجاز کی ’ آہنگ‘ مخدوم کا ’ سرخ سویرا ‘ فیض کی ’ نقش فریادی‘ اور جعفری کی ’ خون کی لکیر‘ ازبر ہو گئے تھے ۔ اس طلسم سے باہر نکلنے میں برس تو لگ گئے ۔ لیکن بعض ادب پارے ہمارے حافظوں کی سطحوں سے چپک کر رہ گئے ۔ جذبیؔ کی نظم’ موت‘ اور ان کی کچھ غزلیں اس وقت بھی سامنے آکر یوں کھڑی ہو گئی ہیں جیسے کہہ رہی ہوں : ہماری اثر آفرینی سے انکار کرو تو جانیں ۔ جذبیؔ کے سارے لکھے ہوئے کو اب جو پڑھنے کی فرصت نکالی تو لگا جذبیؔ سامنے بیٹھے ہیں ۔ منھ میں سگار ہے۔ سلیقے سے سلی ہوئی شیروانی ۔ اسی کپڑے کی اونچی دیوار کی ٹوپی ،بڑے پائچے کا پاجامہ ، کم آمیز، کم گواور سوچتی ہوئی آنکھیں ، اپنائیت میں ڈوبا ہوا لہجہ ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملنے ملانے اور باتیں کرنے میں سر خوشی کا احساس ہوتا تھا ۔ جذبیؔ جن سالوں میں اپنی مقبول ہوتی ہوئی غزلوں کی داد سمیٹ رہے تھے وہ میری پیدائش کے آس پاس کے سال تھے ۔ عمر کے اس فرق کے با وجودجذبیؔ یوں ملتے جیسے برابر کے ہوں۔ ان کے لہجے میں ایسی اپنائیت ہو تی کہ بہت جلد فاصلے پگھل جاتے ۔ تکلف اور حجاب بس اتنا رہتا جتنا ربط اور تعلق کی یک گونہ سرخوشی کے لیے نمک کی صورت ضروری سمجھا جاتا ۔ دلی میں ا ن کی آمد کبھی کسی مشاعرے میں ہو تی یا ریڈیو پروگرام کے لیے یا پھر علی گڑھ سے کسی شہر میں آتے جاتے وہ دلی رکتے ۔ یا پھر ہم علی گڑھ جاتے کہ اس زمانے میں علی گڑھ جانا ادبی فیشن بھی تھا کہ علی گڑھ میں آل احمد سرور، رشید احمد صدیقی ، مجنوں گورکھپوری، جذبیؔ، خورشیدلاسلام ، منیب الرحمن ، اختر انصاری کے ساتھ ساتھ خلیل الرحمن اعظمی ، وحید اختر، انور عظیم، امین اشرف،جاوید کمال نئے لکھنے والوں کے لیے کشش کا باعث تھے ۔ خلیل کو علی گڑھ ہی میں نہیں ، اس وقت کے پورے منظر نامے میں کلیدی حیثیت حاصل تھی ۔ جذبیؔ ،خلیل کے اور خلیل، جذبیؔ کے گرویدہ تھے۔جذبیؔ ہمیشہ اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں نئے لکھنے والوں کی صحبت کو ترجیح دیتے ۔ موقع ہوتا تو خود بھی شعر سناتے ، مگر نئے لکھنے والوں سے کچھ تازہ لکھنے کا اصرار ضرور کرتے ۔ گفتگو کا زیادہ حصہ ادھر اُدھر کے موضوعات کو گھیر لیتا ، لیکن جب ہم ان سے کرید کرید کر سوال کرتے تو ان کی کم گوئی میں تھوڑی سی لچک آتی اور وہ اپنے ہم عصروں کی عیب جوئی سے زیادہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ۔ اپنے سے بزرگ شاعروں کے ساتھ اپنی یا دوں کو تازہ کرتے اور ان کم حیثیت سخن شناسوں کا بھی ذکر کرتے جو کسی چائے خانے میں بیٹھ کر جذبیؔ سے پرتجسس انداز میں با ت کرتے اور مشورہ دیتے کہ اگر فلاں غزل میں فلاں لفظ یوں ہو جاتا تو شعر کس قیامت کا ہوجاتا ۔ جذبیؔ مولانا آزاد کی طرح اپنی گفتگو میں ایسے دو تین گمنام لوگوں کاذکر ضرور کرتے جن کے مشورے کو درست سمجھ کے انھو ںنے ’ ساحل کی تمنا کون کرے‘‘ جیسی مقبول غزلوں میں ایک دو حرف بدلنے میں اپنی شاعرانہ انا کو عناں گیر ہونے نہیں دیا تھا ۔ یہ خوبی بھی انھیں میں دیکھی کہ ریڈیو کے مشاعرے میں کلام سنانے کا دعوت نامہ بھیجا گیا ہے اور اس معذرت کے ساتھ واپس آگیا ہے کہ چونکہ تازہ کلام نہیں اس لیے پرانے سنا کر ریڈیو کے قواعد کی خلاف ورزی نہیں کرنا چاہتا ۔ جذبیؔ سال میں ایک یا دو اور کبھی کبھی تو کئی سالوں میں کچھ کہہ پا تے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تمام تر ادبی سرمایہ ڈیڑھ سو صفحات سے آگے نہیں بڑھ پایا ۔ اپنی کم گوئی کا جواز انھوں نے یہی دیا کہ وہ سوچ سمجھ کر اور خوب مانجھ کر غزل/ نظم کہتے ہیں اور جب تک ان کا اعتماد اور اطمینان آخری سرے پر کھڑے ہوئے ہری جھنڈی ہلا نہیں دیتا وہ غزل کو سرکولیشن میں آنے نہیں دیتے ۔ ان کی کم گوئی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنے عہد کے بدلتے ہوئے ادبی منظر نامے پر بھی نظر رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی مباحث ، تحریک یا سرگرمی کی صورت میں ہو رہا ہوتا ہے اسی کے شور میں خود کو گم کر دینے سے مزاجاً گریز کرتے ہیں اور پھر اپنے کہے ہو ئے کا احتساب کرتے ہیں ۔ اپنا لکھاہوا اس دوران اگر جی سے نہ اترا تو پھر اسے اپنی بیاض میں زندہ رہنے کا حق دیتے ہیں ۔ وہ ترقی پسند تحریک پر گفتگو کرتے ہوئے اپنے اس خیال کو اکثر دہراتے ہیں :
’’ ایک شاعر کی حیثیت سے ہمارے لیے جو چیزسب سے اہم ہے، وہ زندگی یا زندگی کے تجربات ہیں ، لیکن کوئی تجربہ اس وقت تک موضوع سخن نہیں بنتا جب تک اس میں شاعر کو جذباتی شدت اور احساس کی تازگی کا یقین نہ ہو جائے ۔ یہی دونوں چیزیں شاعر کو قلم اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں اور اگر شاعر کے پاس اپنا کوئی نقطۂ نظر ہے تو اس کی جھلک اس کے جذبات میں نظر آئے گی ۔ یہ جھلک کبھی ہلکی ہو گی کبھی گہری ، لیکن ہو گی ضرور ۔ کیونکہ جذبات و احساسات شاعر کی تنقیدی قوتوں سے بچ کر نہیں نکل سکتے ۔ عقل انھیں شعوری طور پرپرکھتی ہے ۔ اس عمل کے بعد شاعر کے نقطۂ نظر کا جذبات و احساسات میں سرایت کر جانا لازمی ہے ۔ یہاں ’’ حل‘‘ کی وضاحت ضروری نہیں ۔ اندا ز ِ بیان خود کی غمازی کرتا ہے ۔ دریا کا بہاؤ درست ہو نا چاہئے کشتی کشاں کشاں کنارے سے آ لگے گی ۔‘ ‘ ( دیباچہ فروزاں)
اس روشنی میں اگر فروزاں کو ہی پڑھا جائے تو کئی جگہ یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ جذبیؔ ترقی پسندی کی رائج کردہ شعری بوطیقا سے انحراف کرنے کی ہمت نہ کرسکے ۔ یہ بات خاص طور سے ان کی ان نظموں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے جنھیں آل احمد سرور اور خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی ابتدائی تنقیدی اور تاثراتی تحریروں میں ’’ اہم ‘‘ قرار دیا ہے ۔ جذبیؔ نے اپنی گفتگو میں ہمیں یہ بات اکثر سجھائی کہ شاعری میں مکمل صداقت اور اس کے اظہار کا مطالبہ کرتی ہے ۔ ان کی تین اہم گنی جانے والی نظمیں ’ ہلالِ عید‘ ، ’فطرت ایک مفلس کی نظر میں ‘ اور ’ نیا سورج‘جذبیؔ کے اس شعری ایقان کی کھلی اور واضح تردید ہیں جسے میں نے نقل کیا ہے ۔ عید کا چاند برسوں سے طبقاتی تقسیم کے بغیر روزہ داروں کے لیے یکساں خوشی کا باعث رہا ہے ۔ غالب نے تو از راہ شوخی خس خانہ و برفاب نہ ہو نے کا ذکر کر کے روزہ رکھنے کے ثواب سے خود کو محروم رکھنے کا جواز پیدا کر لیا تھا ۔ لیکن جذبیؔ کے نزدیک ہلال عید تو در اصل روزہ داروں کے لیے نکلا ہے۔ کیو نکہ بقول ان کے جیب میں جتنے زیادہ پیسے ہوں گے ، عید کی مسرتیں بھی اتنی ہی بھاری بھرکم ہوں گی ۔ ایک غریب بے چارہ کیا عید منائے گا ۔ ایک مذہبی عقیدے کی رومانیت کو ترقی پسندی کی بھینٹ چڑھا دینے کی اس سے بھونڈی مثال اور کیا ہوگی ۔ اسی طرح فطرت اور اس کا حسن اس لیے ایک نادار کے لیے لا یعنی ہے کیونکہ وہ غریب ہے ۔ جب جیب میں پیسے ہوں اور کھانے کو روٹی میسر ہو تو ہر ٹوٹا پھوٹا منظر بھی تاج محل کی دید کا لطف دیتا ہے ۔
جذبیؔ کے یہاں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر فروغ پانے والا یہ زاویہ 34ء ، 37ء میں بڑا توانا تھا جو کئی برس بعد ساحر لدھیانوی کی نظم تاج محل میں ایک فن تعمیر اور اس کی خوبصورتی کی نفی کے طور پر مقبول ہوا تھا ۔’’ فروزاں‘ ‘ کے دیباچے میں جذبیؔ نے خود اس رویے کو ہدف بنایا جوترقی پسند شاعروں نے 1947ء میں ملک کو ملنے والی آزادی کے سلسلے میں اپنایا تھا ۔ لیکن ان کی نظم ’’ نیاسورج‘‘ آزادی کا پر جوش خیر مقدم نہیں کرتی ۔ یہاں پر کمیونسٹ پارٹی کا منشور ِ آزادی، شاعر کے نظم کے Textکا تعین کرتا ہے ۔
’’ فرزواں‘‘ کی ابتدائی غزلوں میں لوگ فانی کے حزنیہ لہجے کو دریافت کر کے سمندر سے موتی نکالنے والوں کی طرح شور و غوغا کرتے ہیں ۔ لیکن جذبیؔ بھی یہ جانتے ہیں کہ شعری وجدان کی سطح پر فانی سے ان کا کوئی رشتہ نہیں ہے کیونکہ جذبیؔ نے شروع میں ملال ؔ تخلص کیا تھا اور آگرہ میں وہ فانیؔ کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے تھے ۔ اس لیے ان کے کسی قدر حزنیہ لہجے کے حسب نسب کو فانی تک ملا دینا آسان تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اردو کی لمبی چوڑی شعری روایت کے تسلسل میں کسی شاعر کا فانیؔ کے رنگ میں شعر کہنا باعثِ افتخار ہے؟ دوسرے معنی میں فانیؔ کیا خود ہماری شاعری کی پوری روایت میں ’’ تتبع کیے جانے ‘‘ کی شعری توانائی رکھتے ہیں ؟
جذبیؔ چونکہ اپنی شعری جہتوں سے واقف تھے ، انھوں نے جلد ہی نظم ترک کر دی اور غزل کو ایک نئے انداز سے قبول کیا ۔’’ فروزاں‘‘ میں ’دل‘ کو کلیدی لفظ اور کسی حد تک استعارے کی حیثیت حاصل تھی ، لیکن ’’ شب گذار‘‘ تک آتے آتے جذبیؔ کی غزل ایک دوسرے ہی لہجے سے آشنا ہوتی ہے جو دیوار پر لگے پرانے پلستر کو ناخنوں سے کھرچتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ 1950ء کے بعد جذبیؔ کی غزل، خلق کرنے کی ایسی حدوں میں قدم رکھتی ہے جہاں پہنچ کر ان کی غزلوں کے لیے مرجھانے کے مہ و سال نہیں آتے ۔
جذبیؔ 1950ء کے بعد نئی شعری آبادیاں بساتے ہیں اور ہم جیسے غزل کے موہ میں گرفتار ان آبادیوں میں سیر کرتے ہوئے ان کے انہدام کی نہیں بلکہ ان کے رونقوں کے فزوں تر ہونے کی تمنا کرنے لگتے ہیں ۔چند شعر:
جاگ اے نسیم خندۂ گلشن قریب ہے
اٹھ اے شکستہ بال نشیمن قریب ہے
شریکِ محفلِ دار و رسن کچھ اور بھی ہیں
ستم گرو ابھی اہل کفن کچھ اور بھی ہیں
جب بھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا
ڈھونڈو تو کچھ ستارے ابھی ہوں گے عرش پر
دیکھو تو حریفِ شبِ تار کیا ہوئے
چمن کی نذر ہیں یہ پارہ ہائے قلب و جگر
یہ پھول وہ ہیں کہ شاید کبھی نہ مرجھائیں
جذبیؔ نے اس آخری شعر کو ’’ گدازِ شب‘‘ کے پہلے صفحے پر لکھا ہے اور اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’ فروزاں‘‘ (مطبوعہ 1943ء) کے انتساب والے صفحہ پر یہ شعر لکھا ہے :
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں
لگتا ہے جذبیؔ نے چمن کو ہمیشہ ہی زندگی کا استعارہ سمجھا ہے اور سموم، نسیم اور پھول ان کے شعری اظہار کے مختلف پیرائے رہے ہیں ۔

Sarfi Ma’shrat ke Tanazur mein Rashid ki Shairi

Articles

صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت

ڈاکٹر ناصر عباس نیّر

صارفی معاشرت کے تناظر میں راشد کی شاعری کی کیا معنویت ہے؟
اس سوال کی تہ میں شعری تنقید کا ایک نہایت اہم قضیہ کارفرما ہے۔ اس قضیے کے مطابق شاعری کے معنی اور معنویت میں فرق ہے۔ بعض لوگوں نے ان کے لیے بالترتیب Verbal meaning اور Significanceکی اصطلاحات استعمال کی ہیں۔ ۱ معنی دراصل وہ بنیادی مفہوم ہے جو شعری متن کے فوری سیاق، اس کے آس پاس کے صنفی و شعریاتی منطقے کو ملحوظ رکھنے سے برآمد ہوتا ہے۔ معنی بالعموم متعین، مقرر اور محدود ہوتا ہے، مگر واضح رہے کہ معنی کا متعین اور محدود ہونا متن کے اس فوری سیاق کا مرہون ہوتا ہے جس میں متن تخلیق ہوا تھا اور جو متن کو اس کے لمحۂ تخلیق و ماحول سے وابستہ رکھتا ہے۔ وگرنہ متن، سیاق کے کناروں کو توڑ کر باہر جانے کے لیے مضطرب ہوتا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ شعری متن، زبان کے ایک ایسے استعمال سے عبارت ہے، جس میں زبان کی بدیعی و تلازماتی قوت کو زیادہ سے زیادہ ابھارا جا سکے۔ شعری زبان میں آہنگ و صوت سے لے کر نحویاتی و معنیاتی سطحوں تک نئے نئے رشتے ابھارنے اور معنیاتی عدم تعین کی مستقل صورتِ حال تخلیق کرنے کا غیر معمولی ملکہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کسی شعری متن کا معنی متعین کیا جاتا ہے تو دراصل شعری زبان کی تلازماتی قوت پر قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش کی کام یابی کا انحصار شعری متن کے فوری سیاق کو گرفت میں رکھنے پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شعری زبان کی تلازماتی قوت کو اگر کوئی چیز پابند کر سکتی ہے تو وہ سیاق یا تناظر ہے، وگرنہ یہ ایک مرکز گریز قوت ہے اور اس کی فطرت میں ایک ایسا اضطراب ہے جو اسے کسی ایک مقام پر رکنے نہیں دیتا اور نئے معنیاتی سلسلوں کی تخلیق پر اسے مائل رکھتا ہے۔ یہ اضطراب انسانی روح میں بھی موجود ہے اسے نئی حیرتوں کی تلاش اور محدود سے لامحدود کی طرف سفر پیما رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔ جب شعری متن اپنے سیاق سے گریز اختیار کرکے کسی دوسرے تناظر میں قدم رکھتا ہے، یعنی کسی دوسرے زمانے، کسی مختلف صورتِ حال، کسی نئی فکر، کسی نامانوس معنیاتی فضا میں اسے پڑھا جاتا اور اس کی تعبیر کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ہمارے ہاتھ آتا ہے وہ متن کی معنویت ہے۔
بجا کہ معنویت، شعری زبان کی تلازماتی قوّت کے برسرِ عمل ہونے کا نتیجہ ہے، مگر اس قوت کی عمل آرائی کا میدان وہ عمومی ثقافتی فضا ہے، جسے ہم دنیا کو سمجھنے اور برتنے میں اکثر غیر شعوری طور پر کام میں لاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں شاعری کی معنویت ایک نفسیاتی عمل نہیں، ایک ثقافتی عمل ہے۔ کوئی شعری متن یا اس کے بعض مصرعے یا الفاظ کسی قاری کے یہاں کسی نفسیاتی واقعے کا محرک بن سکتے ہیں؛ قاری، متن اور اپنی ذہنی دنیاؤں میں بعض اشتراکات دریافت کر سکتا اور ایک جذباتی کیفیت میں مبتلا ہو سکتا ہے اور اس کیفیت کے زیرِ اثر ادبی متن کے مخصوص معانی قائم کر سکتا ہے، مگر انھیں متن کی معنویت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ معنویت، کسی ادبی متن میں معنی سازی کی قوّت کا وہ انکشاف ہے جسے ایک ثقافتی عمل بنایا جا سکے۔ راشد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ الفاظ کے اندر رنگ بھی ہوتے ہیں اور کئی طرح کے ٹیڑھے ترچھے زاویے بھی۔‘‘ ۲ ایک شاعر کی حیثیت میں راشد الفاظ کی اس دنیا سے خوب واقف تھے جو الفاظ کے لغوی و عمومی معانی کے آگے کی دنیا ہے۔ راشد نے دانستہ معانی کے بجائے رنگوں اور زاویوں کا ذکر کیا ہے۔ الفاظ کس طور اپنے محدود، مقرر معانی کو عبور کرنے کے لیے بے تاب رہتے، نئی نئی جمالیاتی کیفیتوں اور نئے نئے فکری اطراف کے اشارہ نما ہوتے ہیں، اس کے لیے رنگ اور زاویے ہی موزوں استعارہ ہیں۔ الفاظ کے انھی رنگوں اور زاویوں میں، معنی سازی کی قوّت ہوتی ہے۔ انگریزی تنقید میں الفاظ کے رنگوں اور زاویوں کے لیے Connotations کی اصطلاح مروّج ہے۔ ٹیری ایگلیٹن نے لکھا ہے کہ Denotations کے مقابلے میں Connotations آسانی سے گرفت میں نہیں آتے۔ ۳ حقیقت یہ ہے کہ Denotations میں فقط معنی ہے اور Connotations میں معنی سازی کا ملکہ ہے معنی گرفت میں آ جاتا ہے مگر معنی سازی کی قوت پر دسترس محال ہے اور اس قوّت کے ثقافتی تناظر میں اظہار کا دوسرا نام معنویت ہے۔
ان معروضات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ صارفی معاشرت کا کوئی براہِ راست تعلق راشد کی شاعری کے معنی سے نہیں ہے۔ بلاشبہ صارفی معاشرت، راشد کی نظم کا فوری سیاق نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بیسویں صدی کے تیسرے تا ساتویں عشرے کے درمیان، جب راشد شاعری تخلیق کر رہے تھے، صارفی معاشرت نے یہاں وہاں اپنے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ راشد کو اس مغربی معاشرت کو براہِ راست دیکھنے اور برتنے کا موقع ملا تھا، جہاں صارفیت دوسری جنگ عظیم کے بعد اہم ترین ثقافتی مظہر میں تیزی سے ڈھلنے لگی تھی، مگر راشد کے لیے صارفی معاشرت بوجوہ مرکزی شعری سروکار نہیں بن سکی تھی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ راشد نے اپنی معاصر عالمی معاشرت کا تصور استعماری معاشرت کے طور پر کیا تھا۔ چنانچہ صارفی معاشرت بالعموم، استعماری معاشرت کے ایک جز کے طور پر ہی ان کے شعری ادراک میں آئی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ راشد بہ طور شاعر صارفی معاشرتی کا ٹھیک اسی قدر ادراک کرنے میں کام یاب ہوئے، جس قدر یہ استعماری معاشرت کا حصّہ ہے۔ راشد کے یہاں استعماریت کا سیاسی پہلو مقابلتاً زیادہ نمایاں اور زیادہ اہم تھا۔ یہ سب برحق، مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ راشد کے لیے اہم ترین چیز شاعری تھی اور وہ شاعر کے طور پر نہ صرف اپنی ذمے داریوں سے خوب آگاہ تھے بلکہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ ’’ادیب کی اصل ذمہ داری پوری زندگی کے سامنے ہے۔ کسی جغرافیائی حد بندی، کسی حکومت، سیاسی عقیدے یا سیاسی حزب یا گروہ کے سامنے نہیں۔ کیوں کہ یہ اس عظیم اور بے کراں زندگی کے، جو ادیب کی ذات کے اندر اور باہر ازل سے رواں دواں ہے اور ابد تک رواں دواں رہے گا، محض مختصر، بے مایہ اور ناقابلِ ثبات اجزا ہیں۔‘‘ ۴ ہر چند ذمے داری کا تصور اور شعور ایک چیز ہے اور اسے اپنے تخلیقی عمل کی اساس بنانا دوسری چیز ہے۔ تاہم راشد کی شاعری سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے لیے ان کی معاصر سیاسی، مقامی، عالمی صورتِ حال بہر حال پوری زندگی کا ایک جز تھی۔ ہر چند راشد نے تنقیدی شعور کے لمحات میں اس جز کو بے مایہ اور حقیر کہا ہے، مگر انھوں نے استعماریت کو جس گہرائی سے پیش کیا ہے اور ایشیائی ممالک کو استعماری تہذیب کی بلندی کی چھپکلی سے تشبیہ، دی ہے، اس سے ہرگز نہیں لگتا کہ ان کے لیے یہ جز پوری زندگی کا بے مایہ اور ناقابلِ ثبات جُز تھا۔ غالباً شاعری کے اسی تصور کی وجہ سے ان کے شعری متن میں ’کئی رنگ اور ٹیڑھے ترچے زاویے‘ ظاہر ہوتے چلے گئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی نئی معنویتیں سامنے آ رہی ہیں۔
صارفی معاشرت اپنے تمام تر جلووں کے ساتھ تو یورپ اور امریکہ میں نظر آتی ہے، مگر اس کے اثرات کی زد میں پوری دنیا ہے۔ مغرب میں یہ مابعد صنعتی عہد کی صورتِ حال ہے۔ اکثر سماجی مفکّرین اسے صنعتی عہد کا لازمی، تاریخی نتیجہ قرار دیتے ہیں جو درست نہیں ہے۔ ان کے نزدیک صنعتی عہد کے نتیجے میں جب اشیا نہایت فراوانی کے ساتھ تیار ہونے لگیں تو ان کا صَرف سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ ان کے صَرف کو ممکن بنانے کے لیے ماس مارکیٹ، ماس پاپولر کلچر کو پیدا کیا گیا اور ان کے فروغ کی خاطر میڈیا، اشتہاری صنعت وغیرہ وجود میں لائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ صنعتوں کی بقا، ان کی پیداوار کی کھپت میں تھی، مگر صنعت کار محض اپنی صنعتوں کی بقا پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں تھے: انھیں اپنے سرمائے میں مسلسل اور تیز تر اضافے کی بے لگام ہوس تھی۔ اس ہوس ہی نے صارفیت کو جنم دیا۔ لہٰذا صارفیت، صنعتی عہد کا لازمی تاریخی نتیجہ نہیں، سرمایہ پرستی کی ہوس کا شاخسانہ ہے۔ صارفیت، کثیر پیداواریت کے لا متناہی اور پیہم صَرف کو ممکن بنانے کی تدبیروں کی عملی شکل ہے۔ ان تدبیروں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا وہ تصوّر تھا، جس کے مطابق انسان چند بنیادی ضرورتیں رکھتا ہے۔ (خود صنعتیانے کے عمل میں یہ تقاضا کہیں موجود نہیں تھاکہ اشیا کی پیداواریت انسان کی بنیادی ضرورتوں سے فزوں تر ہوگی۔) سرمایہ پرست ذہن نے اس تصوّرِ انسان کو تبدیل کرنے کی ٹھانی۔ اس ذہن کے نمایندہ امریکی مصنّف وکٹر لیبو نے 1955ء میں لکھا۔
’’ہماری عظیم پیداواری معیشت … تقاضا کرتی ہے کہ ہم صَرفیت کو اپنا طرزِ زندگی بنائیں۔ یہ کہ ہم اشیا کی خریداری اور ان کے استعمال کو رسومیات میں تبدیل کریں، یہ کہ ہم اپنی رومانی تسکین، اپنی انا کا اطمینان، صَرفیت میں تلاش کریں … ہمیں ایسی اشیا درکار ہیں جو صَرف ہو جائیں، راکھ ہو جائیں، پرانی بوسیدہ ہو جائیں، تبدیل ہو جائیں اور انھیں تیزی کے ساتھ ٹھکانے لگا دیا کریں۔‘‘ ۵
گویا صارفی انسان کا تصوّر تخلیق کیا گیا۔ اس تصوّر کے مطابق انسان کی ضرورتوں کا کوئی انت نہیں۔ اس کے اندر ان تمام اشیا کی شدید طلب ہے جنھیں کثرت سے منڈی میں لایا جاتا ہے۔ صارفی معاشرت میں اشیا، انسانی ضرورتوں کے مطابق پیدا نہیں کی جاتیں بلکہ اشیا کے مطابق انسانی ضرورتیں پیدا کر لی جاتی ہیں۔ صارفی معاشرت، انسانی نفسیات اور ثقافت کے گہرے مطالعے سے وہ تمام طریقے دریافت کرتی ہے، جو ایک طرف نئی انسانی ضرورتوں کی تخلیق کو ممکن بنائیں اور دوسری طرف نت نئی اشیا اور ان کے روز بدلتے برانڈ کے صَرف کو ایک ثقافتی تعیّش اور روحانی اطمینان میں بدل سکیں۔ دوسرے لفظوں میں صارفی انسان کے تصّور میں روح کا انکار موجود نہیں ہے، مگر یہ روح ارفع اور بے غرضانہ اعمال سر انجام دینے میں اطمینان حاصل کرنے کے بجائے نئی، مہنگی صنعتی اشیا کے صَرف میں سرشاری پاتی ہے۔ کیا انسانی روح اپنی اصل کو ترک کرکے باقی رہ سکتی ہے؟ صارفی معاشرت میں یہ سوال اس لیے پیدا نہیں ہوتا کہ صارفی معاشرت کسی ایسی انسانی ضرورت کے امکان ہی کو ردّ کرتی ہے، جسے وہ پورا نہ کر سکے۔ صارفی تصوّرِ کائنات میں انسانی ضرورتوں اور تمنّاؤں سے انکار کا شائبہ تک موجود نہیں ہوتا؛ وہ خود کو غیر معمولی خلاقیّت کا حامل سمجھتی ہے کہ جو ہر قسم کی انسانی تمنّا کی سرشاری کا سامان پیدا کر سکتی ہے۔
اب اگر اس تناظر میں راشد کی شاعری کی معنویت دریافت کریں تو مجموعی حیثیت میں ان کی پوری شاعری صارفی معاشرت کے خلاف مزاحمت کا استعارہ نظر آتی ہے۔ وجودیاتی سطح پر راشد کی شاعری اس تصوّر کے خلاف ایک باقاعدہ احتجاج ہے، جس کے مطابق ہر شے کی قدر و قیمت، اس کی صَرفی حیثیت سے متعین ہوتی ہے۔ صارفی معاشرت میں معنی کے واحد اور اٹل تصوّر کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہ متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کے لیے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی۔ متبادل اور استعاراتی معانی کو قبول کرنے کا مطلب لوگوں کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے کہ وہ اشیا کے معنی اور مقصد کو خود اپنے تناظر میں متعین کر سکتے ہیں۔ صارفی معاشرت کے لیے اس سے زیادہ خطرناک کوئی بات نہیں کہ لوگ معنی متعین کرنے اور فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں۔ چنانچہ وہ واحد معنی پر اپنے اجارے سے کسی طور دست بردار نہیں ہوتی۔اس زاویے سے دیکھیں تو راشد کی شاعری صارفی معاشرت کے تصوّرِ معنی کے یکسر برعکس تصوّرِ معنی کی علم بردار نظر آتی ہے۔ اگرچہ یہ خصوصیت دنیا کی تمام شاعری میں ہوتی ہے کہ وہ واحد معنی کے اجارے کو مسترد کرتی اور معانی کے نئے آفاق کی جستجو میں رہتی ہے، تاہم اس ضمن میں راشد کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں متوازی، متبادل اور استعاراتی معانی کی کثرت ہے، نیز بعض مقامات پر راشد براہِ راست صارفی کلچر کی بنیادوں پر ضرب لگاتے ہیں۔ مثلاً
زندگی ہیزمِ تنور شکم ہی تو نہیں
پارئہ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں
ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں
(کلیات، ص۱۶۱)
صارفی معاشرت کا سارا زور، انسانی زندگی کو اپنے تنور شکم کا ایندھن بنا ڈالنے پر ہے۔ اس نظم میں اس سے انکار ملتا ہے کہ زندگی کو اپنے یا غیر کے تنورِ شکم میں جھونک دیا جائے۔ اس انکار کے پردے میں زندگی کا وسیع اور بلند تصوّر تو موجود ہی ہے، زندگی کے بعض ایسے معانی کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے، جو زندگی کو کسی بھی شے کا ایندھن بننے کا انکار کرتے ہیں، خواہ وہ پارئہ نانِ شبینہ اور ہوسِ دام و درم ہوں یا آتشِ دیروحرم ہو۔ نظم کے آخر میں جن مردانِ جنوں پیشہ کا ذکر ہے، ان کے لیے زندگی انھی کی اپنی ہے اور وہی اس کے معانی و مقاصد متعین کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو راشد کے یہاں صارفی معاشرت کا ایک غیر معمولی اور وسیع تصوّر ملتا ہے۔ فقط سرمایہ پرست اور استعمار ہی لوگوں کی زندگی کو ایک قابلِ صَرف شے میں تبدیل نہیں کرتے، مختلف سٹیٹ اپریٹس، نظریے، کلامیے اور آئیڈیالوجی بھی انسانی زندگی کو اپنے تصرّف میں لاتے اور انسانوں سے اپنی ہستی کے معانی خود طے کرنے کی آزادی اور اختیار سلب کرتے ہیں۔ راشد کے یہاں فرد کی داخلی آزادی ایک ایسے تقدّس کی حامل ہے جسے مجروح کرنے کا حق کسی کو نہیں دیا جا سکتا۔ راشد اپنی اس فکر میں پوری طرح واضح تھے۔
’’میں فرد کی کامل آزادی اور اس کی انا کی نشو و نما کا شدّت سے حامی ہوں۔ ایسی آزادی جس کے راستے میں کوئی روک ٹوک نہ ہو ۔۔۔ میرا عقیدہ یہ ہے کہ تمام اقدار کا مرکز انسان ہے اور تمام اقدار انسان کے ذاتی تجربات سے پیدا ہوئی ہیں۔ کسی الوہی طاقت کی طرف سے مقرر نہیں کی جاتیں، نہ کسی حکومت یا گروہ کی طرف سے عائد کی جا سکتی ہیں۔‘‘ ۶
ہر چند یہ فرد کی آزادی کا مثالی تصوّر ہے جسے مغرب میں بشرمرکزیت فلسفے اور جدیدیت نے پیدا کیا، تاہم راشد کے لیے یہ تصوّر عقیدے کا درجہ رکھتا تھا اور وہ فرد کو ایک قابلِ صَرف شے نہیں سمجھتے تھے اور مذہبی، ریاستی یا سماجی کسی بھی ادارے کو یہ حق دینے کو تیار نہیں تھے کہ وہ فرد کو اپنے مقاصد کے حصول میں صَرف کر دے۔ ان کے نزدیک ان اداروں کا کام فرد کو شے نہیں، ایک باشعور ہستی سمجھنا اور اس کی انا، شعورِ ذات کی نشوونما میں مدد دینا تھا۔ گویا راشد کے یہاں صارفیت کا محض اقتصادی مفہوم نہیں ملتا، ایک نیم فلسفیانہ اور ثقافتی مفہوم بھی موجود ہے۔ یہ مفہوم لا=انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں شدّت سے پیش ہوا ہے۔ مثلاً نظم ’’میرے بھی ہیں کچھ خواب‘‘ کے یہ مصرعے فرد کی آزادیِ کامل پر زور دیتے ہیں۔
وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب
ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب
آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب
اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب
یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب
اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب
(کلیات، ص۲۹۱)
مابعد صنعتی عہد کی صارفی معاشرت کی تمام قباحتوں کو راشد کے یہاں تلاش کرنا عبث ہے کہ یہ ان کی شاعری کا مرکزی سروکار نہیں تھا۔ تاہم ان کی بعض نظموں کی تلازماتی اور استعاراتی جہات کی تعبیر صارفی تناظر میں ضرور کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں پہلی نظم ’وزیرے چنیں‘ ہے۔
اس نظم کی بنیاد الف لیلہ و لیلہ کی ایک کہانی ہے۔ یہ کہانی شیراز کے ایک نائی کی ہے جو نائی ہونے کے علاوہ دماغوں کا بھی مشہور ماہر تھا۔ وہ دماغ کو کاسۂ سر سے الگ کرکے، اس کی آلائشیں پاک کرکے اسے واپس اس کی جگہ لگانے کے فن میں قابل تھا۔ ایک دن اس کی دُکان پر ایران کا ایک وزیر کہن سال آیا۔ ابھی ’ماہرِ کامل‘ نے دماغ کو صاف کرنا شروع کیا ہی تھا کہ اسے بادشاہ کی طرف سے بلاوا آ گیا تو اسے عجلت میں بے مغز سر لیے دربارِ سلطانی میں جانا پڑا (گویا وہاں مغز کے بغیر ہی کام چل جاتا تھا)۔ دوسرے دن واپس آیا تو معلوم ہوا کہ اس کا دماغ نائی کے پڑوسی کی بلّی کھا گئی تھی۔ چنانچہ متبادل کے طور پر دانیالِ زمانہ کے سر میں بیل کا مغز رکھ دیا گیا اور اس کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ جنابِ وزیر، فراست، دانش اور کاروبارِ وزارت میں پہلے سے بڑھ کر چاق و چوبند ہو گئے ہیں۔ اس کہانی کا (سامنے کا) معنی تو یہ ہے کہ حکومتوں کے لیے وہ لوگ زیادہ موزوں ہوتے ہیں جو مغز ہی نہیں رکھتے یا زیادہ سے زیادہ بیل کا دماغ رکھتے ہیں۔ اس سے بہتر طنز اربابِ حکومت پر نہیں ہو سکتا تاہم یہ نظم ایک اور تناظر میں گہری معنویت کی حامل دکھائی دیتی ہے۔ غور کریں تو یہ نظم صارفی معاشرت میں فرد کے نئے تشخّص کی تخلیق کے پورے عمل کو منکشف کرتی ہے۔ اس نظم کا مرکزی کردار وزیر نہیں، نائی ہے۔ نظم میں اہم تبدیلی وزیر کے کردار میں رونما ہوتی ہے۔ یہ تبدیلی وزیر کے اپنے ارادے یا اقدام سے نہیں، نائی کی مہارت سے پیدا ہوتی ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو نائی سرمایہ پرست طبقے کی اس آئیڈیالوجی کی علامتی نمائندگی کرتا ہے جس کے ذریعے نئے انسانی تشخّص کی تخلیق کی جاتی ہے۔ مثلاً یہی دیکھیے کہ نظم میں اس کے نائی کے پیشے سے زیادہ اس کے ماہرِ دماغ ہونے پر ارتکاز ملتا ہے۔ ہر چند اسے دعویٰ ہے کہ وہ دماغ کی آلائشیں دور کر تا ہے، یعنی وہ ایک معالج ہے، مگر یہ دعویٰ اسی تضاد اور خود تردیدی صورتِ حال کا حامل ہے جو ہر آئیڈیالوجی میں ہوتی ہے۔ نظم میں اس کے معالج ہونے کے دعوے کے ثبوت میں کوئی واقعہ مذکورہ نہیں اور جو واقعہ مذکورہ ہے اور جو کہانی میں ایک فیصلہ کن موڑ لاتا ہے، وہ اسے ایک ایسے پیشہ ور نیوروسرجن کے طور پر سامنے لاتا ہے جو نیا دماغ ٹرانسپلانٹ کرنے میں ماہر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صارفی معاشرت میں فرد کو یکسر نیا تشخص دیا جاتا ہے۔ انسانی دماغ کی جگہ بیل کے دماغ کی پیوندکاری، اسی نئے تشخص کی تشکیل کی علامت ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ نائی کے پاس کئی حیوانوں کے مغز موجود تھے۔ وہ کہاں سے آئے؟ کیا ہم اسے نیم اساطیری کہانیوں کے اس عمومی واقعے کے طوپر پر لیں جس میں کوئی بھی عجیب و غریب بات اچانک ممکن ہوتی ہے اور اس کی کوئی منطق نہیں ہوتی یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وہ لوگوں کے دماغوں کو تبدیل کرنے اور انھیں نئی شناختیں دینے کی خاطر طرح طرح کے دماغ اپنی دست رس میں رکھتا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ وزیر کا مغز ہمسائے کی بلی کھا گئی ہے دراصل اسے نیا اور حیوانی دماغ لگانے کا محض بہانہ تھا۔ اسی طرح سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس نے آخر بیل کے مغز کا انتخاب ہی کیوں کیا؟ کیا اس بات کا علامتی مفہوم یہ نہیں کہ اس کی دست رس میں ایک سے زیادہ تشخصّات تھے اور اسے اپنی مرضی اور ترجیح کے مطابق کسی ایک تشخص کے انتخاب کا اختیار بھی تھا۔ صارفی معاشرت میں سرمایہ پرست طبقے کو بھی شناخت سازی کے وسائل پر اجارہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز بیل کے مغز کا انتخاب کیا یہ ظاہر نہیں کرتا کہ صارفی آئیڈیالوجی کو ایک ایسا انسانی تشخص مطلوب ہوتا ہے جو ارادے اور منشا سے محروم ہو؛ فیصلہ سازی کی صلاحیت سے عاری ہو؛ انفرادی سطح پر تلاشِ معنی کی تمنّا نہ رکھتا ہو۔ ان سب باتوں سے ہٹ کر صارفی طرزِ معاشرت میں شے پر شے صَرف کرتے چلے جانے اور پھر بھی نئی اشیا کی طلب کرتے چلے جانے کے لیے بیل کا مغز ہی چاہیے۔ اگر یہاں ایک لمحے کے لیے الف لیلہ و لیلہ کی بیل اور گدھے کی کہانی یاد کریں تو بیل کی کرداری خصوصیات آئنہ ہو جاتی ہیں: وہ وہی کچھ کرتا ہے جس کا مشورہ اسے گدھا دیتا ہے۔
اس سلسلے کی دوسری نظم ’ایک اور شہر‘ ہے جو 1957ء میں نیویارک میں لکھی گئی تھی۔ نظم کا موضوع بھی نیویارک شہر ہی ہے۔ اسے ایک اور شہر کا عنوان دینے کی ایک وجہ تو اسے اپنی ایک پہلی نظم ’ایک شہر‘ سے ممیز کرنا ہے جو 1950ء میں کراچی میں تخلیق ہوئی تھی اور دوسری وجہ اس بات پر زور دینا ہے کہ نظم جس شہر سے متعلق ہے وہ ایک نئی، انوکھی اور عجب قسم کا شہر ہے۔ نظم میں شہر اور اس کے باسیوں کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ اسے ایک صارفی معاشرت کا حامل شہر ثابت کرتا ہے۔ یوں بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ اور یورپ میں صارفی کلچر کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فروغ دیا گیا اور اسے سرمایہ دارانہ معیشت کی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔
یہ نظم ’وزیرے چنیں‘ کے گیارہ برس بعد لکھی گئی، مگر دونوں کی بافت (Texture) کو دیکھیں تو دونوں ایک ہی سلسلے کی کڑی نظر آتی ہیں۔ ’وزیرے چنیں‘ میں انسان کو ایک ایسی نئی شناخت دینے کی کہانی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی خصوصیت اپنی داخلی آزادی، اپنی ہستی کے معنی خود دریافت کرنے کی صلاحیت سے محرومی ہے۔ نظم ’ایک اور شہر‘ کے پہلے بند میں اسی جانب اشارہ ملتا ہے:
خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش
تاریکی خود بے چشم و گوش
اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!
(کلیات، ص۲۳۹)
ایک اور شہر یا صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کو خودشناسی کی تمنا ہی نہیں۔ ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ انھیں اس مغز ہی سے محروم کر دیا گیا ہے جو خود آگاہی کی تڑپ پیدا کرتا ہے۔ صارفیت، معاشی سرگرمی کے نام پر لوگوں کو مسلسل حرکت میں رکھتی ہے۔ انھیں زیادہ سے زیادہ پیسے جمع کرنے کی تحریک دیتی ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ چیزیں خرید سکیں۔ صارفیت منڈی کو مسلسل آباد اور سرگرمِ کار دیکھنا چاہتی ہے اور آدمی سے اس فرصت، تنہائی اور باطنی خلوت کو چھین لیتی ہے، جس میں آدمی اشیا و مظاہر سے بے نیاز اور ماورا ہونے اور کائنات کی بے کرانیت کو محسوس کرنے کے قابل ہوتا ہے۔
جب آدمی کا دل، فرصت، آزادی اور خودفہمی کے ارماں سے خالی ہو تو دل کی بھی ’قلبِ ماہیت‘ ہو جاتی ہے۔
سینوں میں دل یوں جیسے چشم آزِ صیّاد
تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد
خود دیوِ آہن کے مانند!
(کلیات، ص ۲۶۶)
چشمِ آزِ صیّاد، افرنگی مردانِ راد اور دیو آہن اس سرمایہ دارانہ استعماریت کی طرف غیر مبہم اشارہ ہیں، جس نے ہی صارفیت کو جنم دیا ہے۔ صارفیت کی وحشیانہ ترین شکل وہ ہوتی ہے، جو سیم وزر کو میزان قرار دے دیتی اور باقی تمام پیمانوں (اقدار) کو بے صَرفہ کر ڈالتی ہے۔ یعنی صارفی معاشرت میں اشیا کے معنی اور قدر کا واحد، یک رُخا اور حتمی تصوّر ہوتا ہے۔ یک رُخی، زر اساس اقدار کے سامنے ذوقِ حسن اور ذوقِ عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جو ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلّی کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم واضح رہے کہ ذوقِ حسن کی عطا کردہ بے قراری اور صارفیت زدہ شہر کے باسیوں کی ’اک بے پایاں عجلت، میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے__ اسی نظم میں راشد خودفہمی کے ارماں سے تہی، اپنے دل کو چشم آزِ صیّاد اور سیم وزر کو میزان بنانے والوں کو افقی انسان قرار دیتے ہیں: یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر۔ افقی انسان دراصل وہی صارفی انسان ہے۔
نظم ’تعارف‘ جو نیویارک ہی میں 1963ء میں لکھی گئی، اس میں افقی انسان کے تصوّر کو منفی انسان کے تصوّر سے بدل دیا گیا ہے۔ افقی انسان کی طرح منفی انسان بھی بندگانِ زمانہ اور بندگانِ درم ہیں۔ شاعر ان کے لیے اجل تجویز کرتا ہے۔
بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو، بندگانِ درم
اجل یہ سب انسان منفی ہیں
منفی زیادہ ہیں، انسان کم
ہو ان پر نگاہِ کرم
(کلیات، ص۱۹۶)
قابلِ غور بات ہے کہ راشد کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر صارفی معاشرے کے مشاہدے ہی سے پیدا ہوا ہے۔ ہر چند اسے راشد کے اس تصوّرِ انسان سے جوڑا جا سکتا ہے جو شروع سے آخر تک ان کی شاعری میں برابر ترقی پذیر ملتا ہے، مگر یہ بھی درست ہے کہ راشد افقی یا منفی انسان کے تصوّر کو نہ تو دہراتے ہیں نہ آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کے یہاں افقی/منفی انسان کا تصوّر مذکورہ دو نظموں میں مکمل ہو جاتا ہے۔ تاہم بعد کی دو ایک نظموں میں یہ مکمل تصوّر بین السطّور ظاہر ہوتا ہے۔افقی انسان دراصل وہ انسان ہے، جس سے عمودیت منفی ہو گئی ہے۔ نفسیاتی زاویے سے دیکھیں تو شخصیت کی افقی خصوصیات وہ ہیں جن میں کوئی درجہ بندی نہیں ہوتی، جبکہ شخصیت کے عمودی پہلووں میں درجہ بندی ہوتی ہے: کچھ خصوصیات اور اقدار، دیگر سے کم تر یا برتر ہوتی ہیں، اور انھی کی وجہ سے شخصیّت میں گہرائی پیدا ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں افقی انسان اقدار کے تصوّر سے تہی ہوتا ہے۔ اس کی نفسی قلم رَو پر واحد، یک رُخے، حتمی اور غیر مبدّل طرزِ فکر کی حاکمیت قائم ہوتی ہے۔ وہ متخیّلہ سے محروم ہوتا ہے جس کی مدد سے آدمی اپنے محدود تجربات کو وسیع تر کائناتی تناظر سے وابستہ کرنے یا اشیا و مظاہر کے نہاں پہلووں کا تصور کرنے، موجود کے جبر سے نجات پانے اور چند ایک معانی پر تکیہ کرنے کے بجائے نئے اور کثیر معانی خلق کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ راشد کے لیے متخیّلہ یا عمودیت سے عاری انسان کو زندہ تصوّر کرنا محال ہے، اسی لیے وہ اسے اجل کے سپرد کرتے ہیں۔ یعنی انسان کے تصوّر میں افقی یا منفی تصوّرِ انسان کی گنجائش ہی نہیں دیکھتے۔
’اندھا کباڑی‘ بھی صارفی تناظر میں خاص معنویت کی حامل نظم ہے۔ اندھے کباڑی پر ہومر کا گمان گزرتا ہے جو یونان کی گلیوں میں اپنی نظمیں گاتا پھرتا تھا، مگر یہ جدید دور کا ہومر ہے جس کے خواب/نظمیں دام سمیت لینے کو بھی کوئی تیار نہیں۔ اصل یہ ہے کہ اس نظم کی معنیاتی بافت میں افقی اور عمودی تصوّر انسان مضمر اور کارفرما ہے۔ اندھا کباڑی عمودی انسان کی نمائندگی کرتا ہے اور خوابوں کو لینے سے گریزاں تمام لوگ افقی انسان ہیں۔ کباڑی، ہومر کی طرح بصارت سے محروم ہے، مگر اس کی متخیّلہ حددرجہ فعال ہے اور خوابوں کی صورتِ گرثانی دینے میں ثانی نہیں رکھتی۔ لہٰذا اس کا اندھا ہونا درحقیقت اس کے اپنی عمودیت میں غرق ہونے کی علامت ہے۔
صارفی معاشرت میں ہر شے کو قابلِ صَرف بنایا جا سکتا ہے، سوائے خوابوں کے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھے کباڑی کے خواب نہ کوئی خریدتا ہے، نہ مفت لیتا ہے اور نہ دام سمیت لینے پر تیار ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں خواب انسانی ہستی کا وہ جوہر ہیں جسے ’شے‘ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا اور صرف اشیا ہی صَرف ہوتی اور معدوم ہوتی ہیں۔ خود راشد کہتے ہیں:
وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم
وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے
آلودگیِ گردِ سرِراہ سے معصوم!
جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم
خود زیست کا مفہوم!
(کلیات، ص۲۸۸)
چنانچہ صارفی معاشرت خوابوں سے گریزاں ہوتی ہے۔ اس معاشرت میں ہر شے عارضی، وقتی، لمحاتی، موسمی ہوتی ہے۔ ٹھہراؤ، استقلال، دوامیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ یہاں وقت کا تصوّر فقط لمحۂ حال تک محدود ہوتا ہے اور ہر شے کی معنویت اور افادیت فقطہ لمحۂ موجود کے حاوی رجحان کے ہاتھوں متعین ہوتی ہے۔ اسی بنا پر اس معاشرت میں خوابوں سے گریز اور خوف پایا جاتا ہے۔ خواب اگر ایک طرف انسانی وجود کے عمودی اور دوامی عنصر کی نمائندگی کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ وقت کا ایک ایسا ہمہ گیر تصوّر دیتے ہیں، جس میں لمحۂ حال محض ایک معمولی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ لہٰذا خواب صارفی یا افقی انسانوں کو ان کے عمود سے آشنا کروانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انھیں لمحۂ حال یا جز کی سطح سے اوپر اٹھا کر اُس کُل سے متعارف کروانے کی سعی کرتے ہیں جو ذرّے سے کہکشاں تک ہر شے میں رواں دواں ہے اور جس کے بغیر انسان آزادی کامل کے تجربے سے نہیں گزر سکتا، مگر صارفی انسان اس سب کے سلسلے میں بے حسّ ہوتا ہے، تشکیک میں مبتلا ہوتا ہے یا بری طرح خوف زدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ اندھا کباڑی خوابوں کو (افقی) انسانوں کے سپرد کرنے میں ناکام ہوتا ہے اور نظم کے آخری مصرعے: ’’خواب لے لو ، خواب__/میرے خواب/ خواب __میرے خواب__/خوااااب__ / ان کے دااام بھی ی ی ی، اس کے غیر معمولی حُزن کا تاثر نمایاں کرتے ہیں، مگر نظم کا المیہ اختتام دراصل ایک ’کنونشن‘ ہے جس کے ذریعے اس امر پر شدت سے اصرار کیا گیا ہے کہ ’خواب‘ کسی حال میں ’کموڈیٹی‘ نہیں بن سکتے۔ صارفی معاشرت میں خواب واحد ایسا مظہر ہیں جو اس معاشرت کے مرکزی فلسفے کہ ہر شے قابلِ صَرف اور براے فروخت ہے، کا انکار کرتے ہیں۔ نظم میں خود خواب علامت ہیں۔ شاعر نے خاص قسم کے خوابوں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے خواب کو ان تمام مثالی تصوّرات و اقدار کی علامت گردانا جا سکتا ہے جنھیں آرٹ نے منکشف کیا ہے یا جن میں آرٹ بنیاد رکھتا ہے اور جو صدیوں سے انسانی روحوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں۔۔ شاید اسی لیے اندھا کباڑی خود کو نقشِ گر ثانی کہتا ہے اور خود کو خوابوں کے مالک کے بجاے وارث کے طور پر پیش کرتا محسوس ہوتا ہے (یوں بھی ملکیت کا تصوّر استعماری/صارفی ہے)۔ حقیقی آرٹ، کبھی کموڈیئی نہیں بن سکتا۔ اسی لیے صارفی معاشرت ان کا انکار کرتی، ان کے سلسلے میں تشکیک پیدا کرتی، ان سے بیزاری خوف کو جنم دیتی ہے یا پھر اس جعلی آرٹ کی سرپرستی کرتی ہے جو خود کو قابلِ صَرف شے کے طور پر پیش کرے یا خود کو صارفیت کے ترجمان کے طور پر سامنے لائے۔
حواشی:
۱؎ یہ فرق تعبیریات کے معروف نظریہ ساز ای۔ڈی۔ ہرش جونیئر نے کیا ہے۔اپنے مقالے Meaning and Significance Reinter-preted میں لکھا ہے:
“Meaning, then, may be conceived as a self-identical schema whose boundries are determined by an originating speech event, while significance may be conceived as a relationship drawn between that self-identical meaning and something, anything, else.”
]مشمولہ Critical Inquiry، شکاگو یونیورسٹی، دسمبر ۱۹۸۴ء، ص۲۰۴[
۲؎ ن۔م۔راشد ، راشد بقلم خود، (مرتبین: سعادت سعید، نسرین انجم بھٹی) جی۔سی یونیورسٹی، لاہور، ص۸۲
۳؎ ٹیری ایگلٹن، How to Read a Poem ، بلیک ول پبلشنگ، اوکسفرڈ، ۲۰۰۷ء۔ ص۱۱۲
۴؎ ن م راشد ، راشد بقلم خود، ص۸۹
۵؎ وکٹر لیبو (Victor Lebow) ، Journal of Retailing ، بہار۱۹۵۵ء، ص۷
۶؎ ن م راشد، راشد بقلم خود، ص۹۳

Adab Aur Maoshara by Qazi Jamal Husain

Articles

ادب اور معاشرہ

پروفیسر قاضی جمال حسین

ابتدائی دور سے لے کر دور جدید تک اردو کے شعری سرمایے کا مطالعہ اس حیثیت سے بھی دلچسپ و معنی خیز ہوگا کہ سماجی ڈھانچے میں تبدیلی کے زیر اثر محبت کاتصور اور محبوب کی شخصیت بھی متاثر ہوتی رہی ہے یہ تبدیلی انسانی تجربات و جذبات کے اتار چڑھا ؤ کا فطری نتیجہ ہے چنانچہ مغلیہ سلطنت کے عہد زوال میں محبوب کا کردار ان خصوصیات کا جامع نظر آتا ہے جو کسی بادشا ہ وقت کے لیے زیادہ موزوں تھیں کیو ں کہ بد نظمی ،لوٹ مار ،قتل وغارت گری کی کثرت کے باعث بادشاہ ہی عوام کی واحد جائے پناہ اور مرکزتوجہ تھا۔جاگیردارانہ نظام کی تخلیقات کے مطالعہ سے محبوب کا جو کردار ابھرتا ہے اور ا س کی شخصیت جن اوصاف وخصوصیات کی حامل نظر آتی ہے وہ ایک جفاکش ، ستم پیشہ ،اور سنگ دل حاکم وقت کو زیادہ زیب دیتی ہیں اور شاعر جو عوام کا نمائندہ ہے اس کے رحم و کرم ،توجہ و عنایت اورایک نظر کرم کا طالب ،اس کشمکش میں وہ بس ایک بے چارگی کی تصویر نظر آتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ اخلاقی پابندیوں کی بنا پر محبو ب کی جانب سے ایک ادنیٰ التفات کا تصور بھی ناممکن تھا ایسی گھُٹی ہوئی اور تنگ فضا میں ظاہر ہے کہ محبت ایک المیہ کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی ان حالات میں محبوب کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ ایک ایسا شخص ہے جس کا معمول آئے دن کسی نہ کسی پر ظلم کرنا ،مشق نا ز کے نتیجے میں دوعالم کا خون کرنا ہے جس کا دشنہء مژگا ں ہمہ وقت لوگوں کو نیم بسمل اور بے جان کرنے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے ۔گویا محبو ب انسانی جذبات سے عاری، محبت کی فطری خواہش سے محروم ایک ایسا ظالم ،تند خو اور سفاک بادشاہ تھا جس کے دل میں رعایا کے لیے کبھی نرم گوشہ نہیں ہوتا اور اسے ان پر ایک نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہیں ،دنیا میں اور تو سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے مگر معشوق اپنے چاہنے والا کا کبھی نہیں ہوسکتا ،بیچارہ عاشق اپنے اس محبوب کے قریب بھی نہیں بیٹھ سکتا، جس کی خاطر اس نے اپنے ایمان و آگہی تک کی پر وا ہ نہ کی ،اور پھر حد تو یہ کہ اس آداب عاشقی پر وہ نازاں بھی ہے۔
لیکن جب اخلاقی بندھنوں کے تنگ دائرے سے معاشرے کو نجات ملی اور جاگیردارانہ نظام حیات کی گرفت ہلکی پڑی تو محبوب کا مرمریں جسم قالب خاکی میں تبدیل ہوا اور رگ سنگ میں انسانی لہو دوڑنے لگا ،محبو ب کے دل میں بھی چاہنے اور چاہے جانے کی فطری خواہش بیدار ہوئی ۔عورتوں کی ہم نشینی ،بجائے اخلاقی جرم ،شرافت اور عزت کامعیار بنی۔ دولت کی فراوانی اور شجاع الدولہ جیسے حاکم وقت کے میلان طبع نے عورتوں کے اختلا ط کو اور بھی سہل بنادیا۔ چنانچہ جرأت ،مصحفی اور انشاء کی شاعری میں محبو ب کا جو کردار نظر آتا ہے وہ ایک ایسی عورت ہے جو محبت کا جواب نہ صرف محبت سے دیتی ہے بلکہ اظہار محبت میں جذباتی شوخی بلکہ سطحیت کو بھی معیوب نہیں سمجھتی جب یار کی جانب سے ہمیشہ ہی رخصت بیباکی و گستاخی میسر تھی تو بھلا لکھنؤ کے خو ش مزاج خجلت تقصیر کیوں کر گوارا کرتے ۔نتیجہ ظاہر ہے اس پورے سماجی نظام کا اثر شاعری پر بھی پڑا محبت کی جگہ جنسی جذبے نے اور پرد ہ نشین محبو ب کی جگہ شوخ و بے باک عورت نے لے لی ،جو اپنے عاشق کے گھر رات میں مہمان بھی ہوسکتی ہے ،عاشق کے اصرار پر نہ ماننے والی بات ،مان بھی سکتی ہے ۔ ملاقات کے وقت طرح طرح کے اشارے بھی ہوسکتے تھے ،جن کا جواب
’’دن ہے ابھی رات کے وقت ‘‘
جیسے الفاظ میںبھی دینے سے اسے عار نہیں ! ۱؎اب نہ تو محبوب میں وہ ایذارسانی ،بے باکی و سفاکی نظر آتی ہے اور نہ عاشق میں ذلت کی حدوں کو چھوتی ہوئی خاکساری ،محرومی اور نامرادی ۔یہاں شاعر ایک گوشت پوست کی عورت سے آشنا ہوتاہے جس کے سینے میں انسانی جذبات اور نسوانی خواہشات سے بھرا ہوا ایک دل ہے جس کا مظاہر ہ وہ اپنی عادات واطوارسے بھی کرتی ہے لیکن مختلف اقتصادی ،سیاسی اور تمدنی حالات

کل واقف راز اپنے سے وہ کہتا تھا یہ بات

جرأت کے یہاں رات جو مہمان گئے ہم

 

کیا جانیے کم بخت نے کیا ہم پہ کیا سحر

جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم

اس طرح لکھنؤ کے مخصوص تمدن کی پروردہ شاعری میں محبوب کا کردار ایک ایسی عورت ہے جسے اپنے اور غیر سبھی چھیڑتے ہیں اوراسے اگر خوف ہے تو بس،کسی کے پس دیوا ر ہونے کا۔ ابواللیث صدیقی نے جرأت کے محبوب کے متعلق جو بات لکھی ہے وہ لکھنؤ کے تمام تر شعری سرمایے میں محبوب کے کردار کی نمائندگی کرتا ہے لکھتے ہیں:
’’جرأت کے دیوان کے مطالعہ سے معلو م ہوتاہے کہ ان کی محبوبہ ایک گداز بدن کی جوان عورت ہے ان کی محبت میں جنسی لگاؤ کا پہلو نمایاں ہے اس لیے وہ مضامین جن پر زیادہ زور دیاگیاہے دراصل نفسانی لذت کے اساس پر مبنی ہیں‘‘۔۱؎

کچھ اشارہ جو کیا ہم نے ملا قات کے وقت

ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت
ناسخ

چھیڑے ہے اس کوغیر تو کہتا ہے اس سے یوں

کوئی کھڑا نہ ہو پسِ دیوار دیکھنا
مصحفیؔ
۱؎ لکھنؤ کادبستان شاعری ،ابواللیث صدیقی ،ص ۱۵۲
کی تبدیلی کی بنا پر جب معاشرے نے پھر ایک نئی کروٹ لی اور نظام زندگی جاگیرداری سے سرمایے داری اور صنعتی تمدن میں داخل ہوا تو زندگی کے تقاضے بھی بدلے ، پرانے تہذیبی اقدارکی جگہ نئی تہذیبی قدریں منظر عام پر آئیں جن سے ادبی اقدار میں تبدیلیاں رونما ہوئیں ،زندگی کے متعلق انسانی رویہ بھی بدلا ۔ مسائل، فکریں،خارجی حالات،اور مادی حقائق نے فر دکے جذبے اور احساس ،فکر وشعور کو بھی متاثر کیا اب نہ تو اس کے سوچنے کا ڈھنگ پہلے کا سا رہا اور نہ اشیا کے متعلق اس کا رد عمل ۔
شاخ در شاخ سائنسی علوم کی کثرت اور وسعت ،حقیقت پسندی اور واقعیت ، کائنات اور کائنا ت کے مظاہرسے متعلق غیر جذباتی ،معتدل اور متوازن نقطئہ نظر پیچیدہ تر سماجی نظام سے ہم آہنگ ،حق ،حسن اور خیر کے نئے اصول و معیار نے شاعری میں محبت کے تصور اور محبوب کے کردار دونوں کو متاثر کیا ،اب محبت میں بجائے جذباتیت ایک سوچ اور گہری فکر کااحساس ہوتا ہے اب وصل کے سوا دوسری راحتیں بھی شاعر کا دامن دل کھینچتی ہیں اور زمانے کے دوسرے بہت سے غم اسے معشوق سے بیگانہ کردیتے ہیں شاعری میں اس نئی عورت کا ذکر کرتے ہوئے وزیر آغا نے لکھا ہے کہ :
’’نئی عورت کی ذہنی بلندی ،نزاکت اور شعریت کے پیش نظر غزل گو شاعر کو اظہار عشق میں کسی سپاٹ یا بے حد جذباتی طریق کے بجائے ایک ایسا پیرایہء بیان اختیار کرنا پڑا ہے جس میں لطیف اشاراتی عناصر کی فراوانی ہے اس میں بیشتر اوقات شاعر کے جذباتِ محبت میں عجیب سے ضبط و امتناع کا احساس بھی ہوتا ہے جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ خود شاعر کے یہاں سوچ کا عنصر بڑھ گیا ہے دوسرے لفظوںمیں غزل گو شاعر کے یہاں جذبے اور فکر کا خوشگوار امتزج رونماہوا ہے جس کے باعث جذباتِ محبت میں ضبط و توازن اور رفعت کا احساس پیداہوتاہے ‘‘۔
محبت میں اسی ضبط وتوازن اور رفعت کے احساس نے جہاں جدید دور میں محبت کے تصور کو امتیاز بخشا ہے وہیں محبوب کی مخصوص روایتی شخصیت کو بھی متاثر کیا ہے چنانچہ اب وہ نہ تو محض ظالم ، جفاکار ،ستم پیشہ ہے اور نہ عریانیت ،فحاشی اور جسمانی لذت تک محدود کوئی طوائف ، بلکہ زمینی اوصاف کی حامل ایک ایسا کردا رہے جس میں کسی Normalعورت کے تمام جذبات ایک پُروقار ٹھہراؤ کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
دوپہر کی دھوپ میں مجھ کو بلانے کے لیے
وہ ترا کو ٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
اس پرسش کرم پہ تو آنسو نکل پڑے
کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

 

(حسرت)

(فراق)
تونے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ
یہی دل تھا کہ ترستا تھا مراسم کے لیے
اب یہی ترک تعلق کے بہانے مانگے
زندگی جن کی رفاقت پہ بہت نازاں تھی
ان سے بچھڑے ہیں تو اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں

(شکیب)

(احمد فراز)

(زبیر رضوی)
ان اشعار میں محبو ب کا جو کردار ابھرتا ہے وہ جدید عہد کے تقاضوںسے نہ صرف ہم آہنگ ہے بلکہ ہمارے عہد کے شعرا کے طرز فکر اور ان کے وارداتِ ذہنی کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔زندگی کی الجھنیں ،ذہنی نا آسودگی،پراگندگی،اور یک گونہ بے حسی ،سب کچھ ان اشعار میں موجود ہے کہ شاعر جس معشوق کی رفاقت کو اپنا حاصل زیست سمجھتاہے ،شام فراق اس کی یاد میں آنکھوں سے جوئے خوں تو کیا اب ایک قطرہ آنسو بھی نہیں ٹپکتا کیوں کہ محبوب سے جداہو کر وہ کشمکش حیات میں کچھ ایسے کھو جاتا ہے کہ دنیا اور دنیا کی مختلف فکریں اسے محبوب کی یاد سے بیگانہ کردیتی ہیں اور حد تو یہ کہ موجود ہ زندگی کی روزافزوں پیچیدگیوں اور دشواریوں سے مجبور شاعر تنگ آکر اسی محبوب سے ترک تعلق کے بہانے ڈھونڈتا ہوا نظر آتاہے جس کی رسم وراہ کے لیے وہ مدتوں ترسا کیا تھا ۔ جب کہ معشوق شاعری کی روایات کے خلاف غیر متوقع طور پر عاشق کے تئیںمدتوں سراپاخلوص دکھائی دیتا ہے ۔
محبت کے تصور اور محبوب کے کردار میں عہد بہ عہدیہ تبدیلی ،اس کی بے اعتنائی ،ظلم اور سفاکی کی جگہ، شوخی، عریانیت ،اور ہوس پرستی کی یہ داستانیں اور پھر محبت کا میکانکی اور کاروباری انداز سب کچھ محض اتفاقی امور نہیں !اور نہ ہی کوئی غیبی کرشمہ ۔حقیقت یہ کہ پردوں پر بدلتی ہوئی یہ تصویریںپسِ پردہ تہذیبی اقدار اور معاصر سماجی نظام سے گہرا اور مضبوط رشتہ رکھتی ہیں کہ جوںجوں پس منظر میں عوامل اور محرکات بدلتے رہتے ہیں ادبی سرمایے سے ابھرنے والی یہ تصویریں بھی نہایت خاموشی سے اپنے اوصاف بدلتی رہتی ہیں۔
اس تمام گفتگو کاحاصل یہ ہے کہ ادب کی جملہ اصناف خواہ ان کا تعلق شاعری سے ہویا نثرنگاری سے ،اقتصادی ،سیاسی اور سماجی حالات سے بے نیا ز نہیں ہوتیں بلکہ تہذیبی قدریں شاعر کے تصور حسن اور نظریہء جمال سے لے کر دیگر ادبی اقدار تک کو متاثر کرتی ہیں حتی کہ خوب و نا خوب کے معیار بھی اس تہذیبی دباؤ اور تاریخی جبریت سے آزاد نہیں ہوتے معاشرتی حالات کے ہی زیراثر مختلف ادوار یں ادب کی نئی صنفیں وجود میں آتی رہی ہیںاور وقتاً فوقتاً شاعری کی نئی نئی صنفوں کو فروغ ہوتا رہا ہے غرض زبان سے لے کر موضوعات ، خیالات اور افکار، پھر اصناف ، ہیئتیں اور فنی وسائل سبھی کچھ ہم عصرتہذیبی اقدار اور سماجی حالات سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں اور اس طرح بہ نظر غائر ان خطوط پر ادبی سرمایے کا مطالعہ ہمیں مادی حقائق اور خارجی زندگی کو ادبی میلانا ت کے سلسلے میں کافی اہم بنادیتا ہے۔لیکن اصل مسئلہ اس سماجی دباؤ کی نوعیت کا ہے جو بہت سے غلط نتائج اور متعدد پیچیدگیوں کی وجہ بنتا ہے حالی نے ادب پر انھیں سماجی اثرات کے سلسلے میں لکھا ہے :
’’قاعدہ ہے کہ جس قدر سوسائٹی کے خیالات اس کی رائیں ،اس کی عادتیں ، اس کی نوعیتیں اس کا میلان اور مذاق بدلتا ہے اسی قدر شعر کی حالت بدلتی رہتی ہے اور یہ تبدیلی بالکل بے ارداہ معلوم ہوتی ہے کیوں کہ سوسائٹی کی حالت کو دیکھ کر شاعر قصداً اپنا رنگ نہیں بدلتا بلکہ سوسائٹی کے ساتھ ساتھ وہ خود بخود بدلتا چلا جاتا ہے شفائی صفاہانی کی نسبت جو کہا گیا ہے کہ اس کے علم کو شاعری نے اور اس کی شاعری کو ہجو گوئی نے بربادکیا اس کا منشا وہی سوسائٹی کادباؤ تھا اور عبید زاکانی نے جو علم وفضل سے دست بردار ہوکر ہزل گوئی اختیار کی یہ وہی زمانے کا اقتضا تھا‘‘۔۱؎
دراصل سوسائٹی کے ساتھ ساتھ شاعر یا ادیب کا خود بخود بدلتے رہنا اور اس تبدیلی کا بے ارادہ ہونا ہی قابل لحاظ ہے بہ صورت دیگر بہت سے معقول اور حق بجانب اختلافات پیداہوں گے جن کاجواب بھی جانب داری اور پہلے سے کسی طے شدہ نظریے کی حمایت کے سوا کچھ اور نہ ہوگا عہد اور ماحول تو خود اپنی ادبی اور فنی قدریں ساتھ لاتے ہیں جو ہر آن بدلتی ہوئی زندگی کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں اس میں فن کار کے شعور و ارداے کو بہت ز یادہ دخل نہیں ہوتا معاصر تہذیبی و اخلاقی قدریں ،مذہبی تصورات ،اقتصادی نظام ،سماجی ادارے اور سیاسی کشمکش یہ سبھی کچھ اس عہد کی ادبی تخلیقات میں موجود ہوتا ہے لیکن اثر اندازی اور اثر پذیری کا یہ عمل کچھ اتنا خاموش اور اس کی جہتیں اتنی غیر محدود ہوتی ہیں کہ ان کی نشان دہی خاصی دشوار ہوجاتی ہیں یہ مسئلہ اس وقت الجھتا ہے اور مشکل اس وقت اور پیدا ہوتی ہے جب نقاد درمیان میں آتا ہے اور ادب کو سماج یا ہیئت اجتماعی سے قریب تر لانے کی شعوری کوشش کرتا ہے جس کے نتیجے میں ادب کی اپنی ہیئت تبدیل ہونے لگتی ہے اور اس کی لے کچھ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ ادب بجائے فن ِلطیف کچھ اور ہی شکل اختیار کرلیتا ہے ادب میں سماجی شعور حقیقت نگاری اور جمالیاتی قدروں کے علاوہ فکر و نظر کی گہرائی ،اعلی آدرش ،افادیت ،زندگی کی ٹھوس اور متحرک حقیقتوں کا اظہار ،اجتماعی زندگی سے گہرا تعلق ، جیسے مطالبات سے شروع ہوکر ’بات‘سیاسی اغراض ،طبقاتی کشمکش اور سماجی اور معاشی مسائل کے براہ راست حل ڈھونڈنے تک جا پہنچتی ہے اور ادب محض کسی ایک گروہ اور ا س کے نظریات کی ترویج و

۱؎ مقدمہ شعر و شاعری ،خواجہ الطاف حسین حالی ،ؔص ۱۲۲
اشاعت کا آلہ ء کار بن کر رہ جاتا ہے ادب نہ تو بغاوت و انقلاب کا اسلحہ ہے اور نہ فسطائیت ، مناظرہ یا پروپیگنڈہ -اور فن -محض ز ندگی کا آئینہ دار ،ترجمان یا نقاد نہیں !بلکہ ز ندگی کے تجربات اور روحِ کائنات کا جمالیاتی و تاثراتی اظہار بھی ہے تاثر یا ذوق جمال سے عاری اظہار ،زندگی کی تفہیم تو کرسکتا ہے مگر سائنس یا فلسفہ کے نام پر ،جس کی نوعیت یا سطحیں ادبی اظہار سے قطعی مختلف ہوں گی۔ادب کے سماجی یا اجتماعی پہلو سے انکار مسلمات سے انکار ہوگا لیکن اس کی نوعیت غالباً یہ نہ ہوگی کہ وہ دور حاضر کی سماجی زندگی میں کھل کر حصہ لے ۔ظالموں کے ہاتھ سے عنان حکومت چھین کر بنی نوعِ ا نسان کے علم برداروں کو دے اور اپنی ساری تصویر یں اسی نقطئہ نظر سے بنائے ۔ اختر حسین رائے پوری نے ترقی پسند ادب و ادیب کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے یہ بات بھی لکھی ہے کہ :
’’ترقی پسند ادب صرف حقیقت پسند نہ ہوگا بلکہ اس کے سامنے حقیقت کا ایک صاف تخیل ہوگا او روہ ہر تصویر اسی نقطئہ نظر سے بنائے گا یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنے سماجی فرض کو نہ سمجھیں…یعنی دور حاضر کی سماجی جنگ میں اس طبقہ کی تائید کرنا جو ظالموں اور غاصبوں کے ہاتھ سے عنان ِ حکومت چھین کر بنی نوعِ انسان کی آزادی کے علم بردارو ںکو دے رہا ہے ادب اپنا سماجی فر ض اس وقت تک ادا نہیں کرسکتا جب تک اس طبقے کا ہمنوا اور ہم گوش نہ ہوجائے ‘‘۔۱؎
مجنوں صاحب نے اگرچہ ترقی پسند ادیبو ںاور نقادو ں کے ان انتہا پسند انہ خیالات کو اپنے مضامین ’’ادب اور ترقی‘‘’’ادب کی جدلیاتی ماہیت‘‘ ادب اور مقصدوغیرہ ہیں بقدر امکان Justify کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کی مختلف تاویلیں بھی کی ہیں لیکن جب بنیادی نظریہ ہی ان توجیہوں کو قبول نہ کرتا ہو توایسی صورت میں یہ کوشش کس حد تک با رآور ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اپنی انتہائی میانہ روی ،اور اعتدال پسندی کے باوجود ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے دور کی سب سے نمایا ںخصوصیت یہ ہے کہ اس وقت سرمایے و محنت کے تصادم کی شکل میں ہمارے سامنے سماجی نظام میں فساد پھیلائے ہوئے تھے ، یہ سرمایے دار اور محنت کرنے والوں کا جھگڑا دراصل گنتی کے چند قارونو ں اور خلق اللہ کا جھگڑا ہے اور ادیبوں اور فن کارو ںمیں ان دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرنا ہے جیسا کہ وہ اب تک غیر شعوری طور پر کرتے رہے ہیں اس وقت غیر جانبداری نہ ممکن ہے ،نہ مفید ادیب یا شاعر کبھی اپنے دور کے خطرات وتصادمات سے بیگانگی نہیں برت سکتا ۔ترقی پسند جماعت اس سنگین حقیقت کو محسوس کرتی ہے اور دوسروں کو اس کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے‘‘۔۲؎

۱؎ ادب اور انقلاب ،اختر حسین رائے پوری ،ص۸۵۔۸۴
۲ ؎ ا دب اور زندگی ،احمد صدیق مجنوں ؔ،مضمون ’’نیا ادب کیا ہے، ص۲۲۲
مجنو ں صاحب کا مذکورہ بالا خیال اختر حسین رائے پوری ہی کی صدائے بازگشت معلوم ہوتاہے ۔ بنیادی نظریے میں کوئی اختلاف نہیں فرق صرف لہجہ اور طریق اظہار کا ہے کہ اختر حسین رائے پور ی کے لہجے میں شدت اور ادعائیت نمایا ں ہے جب کہ وہی خیالات مجنو ں صاحب کے یہاں لہجے کی نرمی اور علمیت کے ساتھ ساتھ وضاحتی انداز میں پیش کیے گئے ہیں ۔
شاعر یا ادیب سے سماجی فریضے کے اس مطالبے نے اصل مسئلے کو کافی حد تک پیچیدہ بنادیا
ہے کیوں کہ ایسی صورت میں ادبی فریضے مجروح ہوتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں اولاً تو یہ کہ اس طر ح کے ادبی نظریات کا اگر تجزیہ کیا جائے اور قدرے ٹھہر کر صورت حال سمجھنے کی کوشش کی جائے تو خود عبارتوں کا داخلی تضاد اور اضطراب ادب کے قاری کو کسی واضح نتیجے تک پہنچنے اور پھر اسے قبول کرنے سے باز رکھتا ہے مثلاً مذکورہ عبارت ہی سے جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ کہ :
۱۔ہمارے دور کی خصوصیت سرمایے اور محنت کا تصادم ہے ۔
۲۔ نتیجتاً سماجی نظام میں فساد پھیلا ہوا ہے ۔
۳۔یہ فسا دچندقارونوں اور خلق اللہ کا جھگڑا ہے۔
۴۔ ادیب اور فن کار کو ان دونوں (قارونوں اور خلق اللہ)میں سے کسی ایک کی نمائندگی کرنا ہے ۔
۵۔ فن کار اب تک یہ نمائندگی غیر شعوری طور پر کرتا رہا ہے ۔
۶۔ اس تصادم یا فسا د کے وقت ادیب کی غیر جانب داری ممکن نہیں !
۷۔غیر جانب داری مفید بھی نہیں ۔
۸۔فن کار اپنے دور کے خطرات و تصادمات سے بیگانگی نہیں بر ت سکتا ۔
۹۔ترقی پسند جماعت نے اس حقیقت کو محسوس کیا ہے اور دوسروں کو بھی اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے ۔
سماج میں پھیلے ہوئے فساد یا جھگڑے میں فن کار کا پڑنا ہی کیوں ضروری ہے اگر وہ قارونوں اور خلق اللہ کے بیچ ہونے والے اس فساد میں ہاتھ نہیں بٹاتا تو کیا یہ فسا د فرو نہیں ہوسکتا ؟اور کیا اس کے حصہ لینے سے مصالحت کی کوئی صورت نکل ہی آئے گی ۔مارکس کے نظریۂ جدلیت کے رو سے ہر قوت خود اپنے اندر ہی اپنی ضد کا مادہ بھی رکھتی ہے جن کی باہمی آویزش کائنا ت کو حرکت اور نموبخشتی رہتی ہے ۔ طبقاتی جد و جہد ،سماج میں انقلاب اور اس کی ترقی کاوسیلہ بنتا ہے ۔پھر سماج کا یہ طبقاتی اختلاف اقتصادی بنیادوں پر ہے جس کا تعلق ذرائع پیداوار وغیرہ سے ہے نہ کہ شاعری سے۔پھر یہ کہ طبقاتی کشمکش کے بعد وجود میں آنے والا نیا سماج طبقاتی اونچ نیچ یا اختلاف سے پاک نہیں ہوتا بلکہ ظلم کی نئی نئی شکلیں اور کشمکش کی نئی صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں ایسی صورت حال میں بے چارہ شاعر اس جھگڑے میں حصہ لے تو کیا ،اور نہ لے تو کیا، معاشرے کا یہ تضاد اور کشمکش اگر ختم ہوتو سماجی حرکت اور اس کی ترقی متاثر ہوتی ہے اور یہ تصادم اگر جاویدانی ہے تو ادیب کے حصہ لینے سے فائدہ ہی کیا ہوا ۔اگر وہ شریک نہیں بھی ہوتاتو بھی تصاد م تو چلتا ہی رہے گا ۔
اس کے بعد جو دشواری نظرآتی ہے وہ یہ کہ بقول فاضل نقاد اگر ادیب نے اب تک غیر شعوری طور پر اس سرمایے و محنت کے تصادم میں کسی ایک کی نمائندگی کی ہے تو حسب روایت غیر شعوری طور پر وہ آ ئندہ بھی نمائندگی کرتا رہے گا۔ نمائندگی کے لیے اس درجہ اصرار اور تاکید کی کیاضرورت ؟ اگر نمائندگی کی اس تاکید سے کسی مخصوص طبقہ (خلق اللہ )کی شعوری نمائندگی کی طرف اشارہ ہے تو ادیب کافکر و شعور ،جو اس کے تجربات و مادی حالات کا نتیجہ ہے محض اس اشارے سے بدلا نہیں جاسکتا ۔
مجنو ں صاحب کایہ بھی خیال ہے کہ اس تصاد م کے وقت ادیب کی غیر جانب داری ممکن ہی نہیں جس کی رو سے غیر جانب داری کے مفید اور مضر ہونے کی بات ہی قطعاً بے معنی ہے کیوں کہ اس کا تو امکان ہی نہیں مضر یا مفید ہونے کی بحث تو جب اٹھتی ہے کہ اس غیر جانب داری کا امکان ہوتا ۔
آگے لکھتے ہیں کہ ’’فن کار اپنے دور کے خطرات و تصادمات سے بیگانگی نہیں برت سکتا ‘‘ اس عبارت کامفہوم یا تو بیگانگی کے امکان کی نفی ہوسکتا ہے یا زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ فن کار کو ہرگز بیگانگی نہیں برتنا چاہیے کہ اس بیگانگی کی صورت میں وہ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی کرے گا اور فن کا ر کہے جانے کا مسحق نہیں ہوگا ۔
مفہوم کے پہلے امکان کی رو سے یہ کون سی مخفی حقیقت تھی جس کا ادراک ترقی پسند جماعت نے کرلیا ہے اور جس سے 1936ء سے قبل لوگ بے خبر تھے اور بالفرض اگر بے خبر بھی تھے تو اس بے خبر ی سے نقصان ہی کیا تھا اور اس حقیقت کے عرفان سے فائدہ ہی کیا پہنچا کہ ادیب اپنے دو ر کے تصاد مات سے بیگانہ نہیں رہ سکتا ۔ا س علم سے پہلے بھی ادیب بیگانہ نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے کیوں کہ مفروضے کی رو سے بیگانگی محال ہے ۔ترقی پسند جماعت دوسروں کو بھی کیوں اس حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے دوسروں کو اگر اس حقیقت کا عرفان ہوجائے کہ ’’فن کار کا اپنے دور کے خطرات سے بیگانہ رہنا محال ہے ‘‘تواس سے ادب کے سلسلے میں کیا نئے امکانا ت پیداہوجائیں گے۔
عبارت کے مفہوم کی دوسری صورت یہ تھی کہ فن کار کو بیگانہ نہ ہوناچاہیے ورنہ وہ فن کار کہے جانے کا مستحق نہ ہوگا ‘‘اس توجیہ کے پیش نظر ان فن پاروں کا کیا ہوگا جن میں اپنے دور کے کسی خطرے یا تصادم کا ذکرنہیں مثال کے طور پر:
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلا دوں کہ اک عالم گلستاں ہے
یا
نشۂ رنگ سے ہے واشدِ گل
مست کب بند قبا باندھتے ہیں
کیا ہم ان اشعار کو فن پارہ یا غالب کو فن کار محض اس بنیاد پر نہ کہیں کہ ان اشعار میں اپنے دور کے کسی خطرے کا ذکر نہیں ۔
یہ صورت حال محض مجنو ں صاحب تک محدود نہیں بلکہ مجنوں کامعاملہ ان کے وسیع مطالعہ ، گہری فکر اورشعر و ادب کے ستھر ے ذو ق کی بنا پر دیگر ترقی پسند شاعروں ،ادیبو ںاور نقادوں کے مقابلے میں بہت سلجھا ہوا ہے ۔اختر حسین رائے پوری کے تنقید ی نظریات کاجائزہ لیتے ہوئے شارب ردولوی نے جو نتائج نکالے ہیں اور ان کے متعلق جن خیالات کااظہار کیا ہے بڑی حد تک درست ہیں لکھتے ہیں :
’’اسی لیے اختر حسین رائے پوری کے یہاں ادبی تنقید سماجی اور عمرانی تجزیہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ یہی نہیں بلکہ وہ ادب کوکمیونسٹ پارٹی کا آلہ کار بنانا چاہتے ہیں ان کی اس انتہا پسندی کے اشارے ان کے مضامین میں اکثر نظر آتے ہیں‘‘۔
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’وہ ادب کو ایک ماہر اقتصادیات اورسماجیات کی رپورٹ کی طر ح دیکھنا چاہتے ہیں وہ مارکس کے نظریات کے ایک جذباتی معلم اور مبلغ کی طرح آئے اور چوں کہ جذباتیت میں گہرائی و گیرائی نہیں ہوتی ہے اس لیے بہت جلد ان کے یہاں اس کا رد عمل شروع ہوگیا اور و ہ اس سے الگ ہوگئے ۔ان کے اسی اندا ز و رجحان کی دجہ سے انھیں سائنٹفک نقاد یا صحت مند مارکسی نقادوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا‘‘۱؎
ادب کو معاصر تہذیبی اثرات و اقدار سے قریب تر لا نے کی اس انتہا پسندانہ شعوری کوشش
نے دوسری جانب بھی نقادوں کی ایک صف کھڑی کردی اور حقیقت ان دونوں انتہاؤں کے بیچ کہیں گم ہو کر رہ گئی۔یہ رد عمل ایک فطری امر تھا جس نے ادب میں سماجی حقائق کی اہمیت سے یکسر انکار کیا اور ادب کو فن کار کامحض شخصی اظہار قرار دیا چنانچہ کلیم الدین احمد کا خیال ہے کہ :
’’سماجی حالات سے ادب پیدا نہیں ہوتا اورنہ ہوسکتا ہے آرٹ کاوجود فن کار کی کاوشوں سے ہوتا ہے سماج کی کاوشوں سے نہیں ہوتایہ ایسی روشن حقیقت جس سے سمجھدارآدمی انکار نہیں کرسکتا مارکسی نقاد اس روشن حقیقت پر پرد ہ ڈالنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں وہ ادب اور فن کی تخلیق میں فن کاروں کی انفرادیت کو کم ازکم اہمیت دیتے ہیں ‘‘۲؎

۱؎ جدید اردو تنقید ،اصول و نظریات ،شارب ردولوی ،ص۳۵۹۔۳۵۸
۲ ؎ اردو تنقید پر ایک نظر ،کلیم الدین احمد ،ص۱۹۱
یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ مارکس کے اقتصادی نظریات کی روشنی میں اد بی تنقید فن کار سے جس قسم کے سماجی شعور اور اجتماعی افادیت وغیرہ کا مطالبہ کرتی ہے اس سے ادیب کی آزادی اور ادب کافنی پہلو مجروح ہوتا ہے۔ اور یہ مارکس سے انتہائی ارادت کانتیجہ ہے کہ اس کے سماجی و اقتصادی نظریات کو فنو ن لطیفہ اور شاعری تک میں راہ دی گئی ۔بلکہ اس کے اصول و معیار تک مارکس کے فلسفے کی روشنی میں وضع کیے گئے۔ چنانچہ کلیم الدین احمد نے احتشام صاحب کی تنقیدی بصیرت کا جائزہ لیتے ہوئے ان پر جہاں اور بہت سے اعتراضات کیے ہیں وہیں یہ بات بھی کھل کرکہی ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں مارکس کی زبان سے کہتے ہیں ۔جو کچھ دیکھتے ہیں مارکس کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔اور خود مارکس کاحال بقول احسن فاروقی یہ ہے کہ :
’’مارکس کی تصانیف کامطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل یک طرفہ ذہن والا انسان تھا اور وہ سوشل تاریخ ہی کی عینک لگا کر ہر چیزکو دیکھتا تھا…مارکس بھی ادب میں وہی چیزیں دیکھتا ہے جو سوشل تاریخ اور کشمکش کے نقطئہ نظر سے اہم ہیں ۔ ایسی ہی چیزوں کو یکجاکردینا مارکسی تنقید کہلاتی ہے ‘‘۔۱؎
چنانچہ واقعہ ہے کہ بجائے فنی خوبیوں اور خامیو ں کے مارکسی نقاد کسی ادبی تخلیق کے قدر و معیار کے سلسلے میں مادی فلسفہ ،اجتماعی نظام ، سماجی تجزیہ ،تاریخی شعور ،جدلیاتی ماہیت ، طبقاتی تضاد،جہد ِحیات اور اقتصادی بنیادوں ہی کی بات کرتا ہے جن سے ادب یقینی طور پر متاثر تو ہوتا ہے لیکن اولاً تو یہ کہ اس اثر پذیری کی نوعیت دیگر علوم سے قطعاً مختلف ہوتی ہے اور جو فن کار کی تخئیل اور جذبے سے ہم آمیز ہوکر اپنی شناخت قطعا ختم کردیتی ہے اور ثانیاً یہ کہ ان امور کے علاوہ بھی دوسرے بہت سے شخصی عوامل ہیں جن سے ادب اور ادیب متاثر ہوتاہے اور جنھیں نظر انداز کرنے کے بعد ادب کی افہام و تفہیم ناممکن ہوگی ۔

۱؎ فن تنقید ،احسن فاروقی ،مشمولہ تنقیدی نظریات ،حصہ دوم، ص۱۶۶

Taraqqipasand Shairi Khalilurrahman Azmi ki Nazar Mein

Articles

ترقی پسند شاعر ی — خلیل الرحمن اعظمی کی نظر میں

پروفیسر قاضی عبید الرحمن ہاشمی

ہماری ادبی تاریخ کے معدودے چند اہلِ قلم، جنھوں نے بیک وقت تنقید اور شاعری دونوں میں اپنی صلابتِ فکر کے جوہر دکھائے، خلیل الرحمن اعظمی (1978-1927) اُن میں سے ایک ہیں۔ خلیل صاحب نے چونکہ بہت تھوڑی عمر پائی اور صرف 51 برس میں راہیِ ملک عدم ہوگئے، اس لیے انھوں نے شاعری اور تنقید دونوں میدانوں میں کچھ بہت وافر سرمایہ نہیں چھوڑا، تاہم اس میں شک نہیں کہ ان دونوں حوالوں سے ان کے جس قدر بھی اکتسابات ہیں، ان کی نمایاں ادبی حیثیت اور قدر و قیمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک اعلیٰ درجہ کے تخلیق کار ہونے کے لحاظ سے خلیل صاحب کو یقینا یہ امتیاز بھی حاصل تھا کہ وہ نسبتاً زیادہ گہری بصیرت اور ذہنی ہمدردی کے ساتھ تخلیقی متون کی تعیین قدر کرسکتے تھے، جس کا انھوں نے صحیح معنوں میں اپنے تنقیدی مطالعات میں ثبوت بھی فراہم کیا ہے۔
خلیل صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز پر جن کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ ملکی آزادی سے قبل 1945 میں تقریباً 18برس کی عمر میں ترقی پسند ادبی تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے اور علی گڑھ میں تعلیم کے دوران بحیثیتِ سکریٹری بڑی سرگرمی کے ساتھ ترقی پسند فکر و فلسفہ کی ترویج و اشاعت میں منہمک تھے۔ اِس جرم کی پاداش میں انھیں قید و بند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ 1947 کے فرقہ وارانہ ماحول کے دوران دہلی سے علی گڑھ کے سفر میں چلتی ٹرین سے پھینکے بھی گئے، تاہم وہ انسانیت کی سربلندی اور نجات کے لیے اپنے مشن اور ذہن و قلم سے جہاد کے فرض سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ البتہ ترقی پسند تحریک چونکہ بنیادی طور پر اپنا ایک سماجی نظریہ، سیاسی کردار اور انقلابی منشور رکھتی تھی، شعر و ادب اور فنونِ لطیفہ وغیرہ اس کی محض ذیلی و ضمنی شاخیں تھیں، جن کو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اشتراکی سیاست، معیشت اور قانون کی گاڑی کو ایک خاص سمت اور ڈھرے پر چلانے میں معاونت کرنی تھی۔ ان کی اپنی کوئی خودمکتفی آزادانہ حیثیت ہرگز نہ تھی۔خلیلؔ صاحب جو ایک مفلوک الحال زمیندارانہ مذہبی گھرانے کے فرد تھے، طبعاً انسانی شرافت، رواداری، عدل و انصاف اور خدمتِ خلق کی اعلیٰ اقدار کے دلدادہ تھے، ترقی پسندی کی انسانی فلاح اور مساوات پر مبنی فلسفیانہ تعبیر سے متفق ہونے کے باوجود اس کی بڑھتی ہوئی ادعائیت، مذہبی انداز کی جکڑبندی اور Regimentation سے بتدریج دل برداشتہ، اور بے زار ہوتے چلے گئے اور بالآخر 1950ء کے قریب جب تحریک اپنے عروج پر تھی، نفع و ضرر کی پروا کیے بغیر اس سے لاتعلق ہوگئے۔
خلیل صاحب جنھوں نے ترقی پسند ادبی تحریک سے گہری وابستگی کے ساتھ برسوں اس کی خدمت کی اور ذہنی و جسمانی شداید سے بھی گزرے، اس سے علاحدگی کے اسباب پر کبھی بہت تفصیل سے روشنی نہیں ڈالی، نہ اس فیصلے کے لیے کسی کو موردِ الزام ٹھہرایا۔
بہت بعد میں ایک عمومی بیان کی حد تک اختصار کے ساتھ، اظہارِ خیال بھی کیا تو صرف اتنا کہا کہ:
’’ترقی پسندی ایک فلسفۂ حیات کے طور پر تو شاید اب بھی بعض لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہو، لیکن طے شدہ منصوبوں اور پروگراموں کا باجماعت ادب، اب اپنی ساکھ اِس قدر کھوچکا ہے کہ اس پر اعتبار کرنے اور ایمان لانے والے ابھی بہت دنوں تک ہمارے یہاں پیدا نہ ہوسکیں گے۔‘‘
ترقی پسند تحریک سے علاحدگی کے چند برس بعد جب وہ پی ایچ ڈی میں داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے مقالے کا موضوع— ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ منتخب کیا، جو پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں مکمل ہوا۔ جس پر انھیں 1957ء میں ڈگری تفویض ہوئی۔ یہ مقالہ کئی برس بعد 1973ء میں پہلی بار علی گڑھ سے شائع ہوا، جس کا ادبی حلقہ میں پہلے بھی کافی ذکر تھا اور اب تک کسی نہ کسی طرح اس کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ عزیز احمد اور علی سردار جعفری کی کتابیں اِس موضوع پر خلیل صاحب سے پہلے شائع ہوچکی تھیں۔ خلیل صاحب کے اِس علمی و تحقیقی کارنامہ کو متوازن، تنقید کی بہترین مثال تصور کیا جاتا ہے۔
بقول خلیل ؔصاحب انھوں نے اپنی اِس کتاب میں مجموعی طور پر ترقی پسند ادب کا معروضی objective محاکمہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں دیگر اصناف کے ساتھ شاعری بھی شامل ہے۔ انھوں نے تقریباً دو۲ درجن شعرا کے کارناموں کا جائزہ پیش کیا ہے، جن میں سے چند کے نام اس طرح ہیں: اخترؔانصاری، اسرارالحق مجازؔ، معین احسن جذبیؔ، فراقؔ گورکھپوری، فیض احمد فیضؔ، مخدومؔ محی الدین، علی سردار جعفریؔ، کیفی ؔاعظمی، جاں نثار اخترؔ، ساحر لدھیانوی، مجروحؔ سلطان پوری، اختر ؔالایمان، احمدؔندیم قاسمی، شادؔ عارفی اور منیبؔ الرحمن وغیرہ۔

یہ مضمون آپ ـ’’ اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ پر پڑھ رہے ہیں۔

یقینا یہ چند شعراوہ ہیں جن میں سے فراقؔ اور اخترالایمان کو اگر مستثنیٰ بھی کردیا جائے تو بقیہ تمام کی شناخت، اعتبار اور امتیاز ترقی پسند تحریک کا ہی رہینِ منت رہا ہے۔ اس حلقہ میں اُن کے کارناموں کی نہ صرف خوب خوب داد دی گئی بلکہ ان میں سے بعض کی عالمی شہرت اور مقبولیت کا سبب بھی تحریک ہی رہے۔
خلیلؔ صاحب کے تنقیدی موقف کی ایک اہم خوبی جو ان کا خصوصی امتیاز کہی جاسکتی ہے اور جس کا اظہار موجودہ تنقیدی محاکموں میں بھی ہوا ہے وہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے ہمنوا ہونے اور ترقی پسندی سے یکسر مختلف نقطۂ نظر کی حمایت کرنے کے باوجود جیسا کہ انھوں نے جدیدیت سے وابستہ طریقۂ نقد کے ضمن میں، اظہارِ خیال کرتے ہوئے، وضاحت کی ہے کہ:
’’نیا ادب، مواد اور ہیئت اور جماعت، سیاسی اور غیرسیاسی مسائل کی دوئی، کے بجائے ان کی وحدت پر زور دیتا ہے اورزندگی کی رنگارنگی اور پیچیدگی کو سادہ مفروضوں اور بنے بنائے فارمولوں کی مدد سے میکانکی طور پر حل کرنے کے بجائے آزاد تحقیق کے ذریعہ سمجھنا چاہتا ہے۔ وہ نظریے اور عقیدہ Dogma سے دست بردار ہوکر سائنسی دور کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انفرادی خلوص کو ضروری سمجھتا ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
’’تخلیقی عمل، ادیب کی شخصیت، افتاد طبع، زندگی کے محسوسات و تجربات کی نوعیت اور اس کے انسانی و سماجی تعلقات، ایک پیچ در پیچ سلسلہ کا نام ہے۔ ان مراحل سے فطری طور پر گزرنے کے بعد ہی نظم یا ادب پارہ اپنے اندر وہ کیفیت پیدا کرسکتا ہے جو اسے جمالیاتی قدر اور فنی حسن عطا کرتی ہے۔‘‘
خلیلؔ صاحب نے اپنے تنقیدی محاکموں میں ترقی پسند سرمایۂ سخن کا جائزہ لیتے ہوئے کسی خارجی اصول اور فنی و لسانی فارمولے کو نافذ کرنے کے بجائے متعلقہ شعری کائنات سے ہی رہنما اصول اخذ کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح کسی کارنامہ کے حسن و قبح کی نشاندہی کی ہے۔
خلیل صاحب نے اپنے الگ الگ مضامین گرچہ کافی مبسوط طور پر زیادہ مثالوں کے ساتھ بھرپور انداز سے سپرد قلم کیے ہیں۔ تاہم اپنی کتاب— ’ترقی پسند ادبی تحریک‘ جس میں بیک وقت بہت سے شعرا کے خصوصیاتِ کلام پر رائے زنی کرنے کی مجبوری تھی، قدرے اختصار سے کام لیا ہے۔ لیکن ضبط و توازن سے کہیں دست بردار نہیں ہوئے ہیں۔
معروف شاعر اختر انصاری کی مزاجی کیفیت اور انفرادی تخلیقی سروکار پرروشنی ڈالتے ہوئے، فرماتے ہیں کہ:
’’اختر انصاری تغزل کے تمام آداب کو برتتے ہوئے، روایتی غزل گوئی کی یکسانیت اور باسی پن کے شکار نہیں ہوئے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی بنیاد خود ان کے اپنے محسوسات ہیں، اس لیے ان میں تاثیر اور دلکشی ہے۔
رومان سے ان کی ہجرت عام نوجوان ترقی پسند شعرا کی طرح انقلاب اور بغاوت کی طرف نہیں ہوئی۔ گھن گرج اوربلند آہنگی سے، ان کے مزاج کو مناسبت نہیں، نظم گوئی میں ان کا انداز سادہ اور سلیس ہے، اخترانصاری نے قطعہ نگاری کو ایک مستقل فن کی حیثیت دی۔ انھیں قطعہ کے فن پر پوری قدرت ہے اور ہر قطعہ تکمیل کا احساس دلاتا ہے ؎
میں نے اک بار کہا، تم سے محبت ہے مجھے
تم نے شرماتے ہوئے، مجھ کو جواب اس کا دیا
آہ لیکن دل ناشاد (یہ غارت ہوجائے)
اِس قدر زور سے دھڑکا، کہ میں کچھ سن نہ سکا
خلیل صاحب کا کمال دیکھیے کہ اِس مختصر سی تحریر کے ذریعہ انھوں نے اخترؔانصاری کے فکر و فن کے جملہ عناصر کی اِس انداز سے نشاندہی کردی کہ اب ان کے بارے میں کہنے کے لیے کچھ زیادہ باقی نہیں رہا۔
اسرارالحق مجازؔ جنھوں نے اپنی ہلکی پھلکی لیکن خوبصورت رومانی شاعری کے ذریعہ یوروپی رومانی شعرا کی یاد تازہ کردی، ترقی پسندوں کو ان کی شاعری میں سماجی وابستگی اور سیاسی شعور کی کارفرمائی نظر آئی اور اسی انداز سے ان کی تعبیر و تشریح کرتے رہے۔ خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ:
’’مجاز کے ذہن کی تعمیر چونکہ رومانیت کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ اس لیے یہ ذہن آگے چل کر زندگی کے سنگین حقائق سے عہدہ برآ نہ ہوسکا اور اس کی رومانیت زمانے کے طوفان سے ایسی ٹکرائی کہ اس کی شخصیت پاش پاش ہوگئی۔ نظم- آوارہؔ میں جو رومانی کرب، جھنجھلاہٹ اور وحشیانہ بغاوت ہے، وہ ایک بجھے ہوئے چراغ کا آخری بھڑکتا ہوا شعلہ ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں کہ:
’’مجازؔ کے کلام کو فکر و فن کے اعلیٰ معیار پر جانچا جائے تو شاید اس میں وہ گہرائی اور تفکر نہ ملے جو ادب میں عظمت و بلندی کا ضامن ہوتا ہے، تاہم ان کے کلام کی غنائیت، شادابی اور شگفتگی، ہمارے حواس کی تسکین کا سامان بہم پہنچاتی رہے گی۔‘‘
معین احسن جذبیؔ کے شاعرانہ مقام و مرتبہ کا تعین کرتے ہوئے، خلیل صاحبؔ فرماتے ہیں:
’’جذبیؔ کی شاعری کا آغاز غزل سے ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے ابتدائی دور کے نوجوان شعرا میں جذبیؔ ہی ایک ایسے شاعر تھے جن کو غزل کے فن پر قابو تھا، اس کی وجہ ان کی شخصیت کا گداز اور آہستہ آہستہ آنچ دینے والا انداز ہے۔ جذبیؔ نے صرف انھیں تجربات کو اپنی تخلیق کا موضوع بنایا جو ان کی شخصیت میں حل ہوچکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دور عروج میں بہت سے اہم سیاسی و سماجی مسائل پر انھوں نے لکھنے سے انکار کردیا، کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ان موضوعات پر ان کی تخلیقی گرفت ایسی نہیں ہے، جس سے کوئی قابلِ قدر فن پارہ وجود میں آسکے۔‘‘
خلیل صاحب مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جذبیؔ کی اکثر نظمیں احساس کی شدت اور اندازِ بیان کی نشتریت کی وجہ سے ترقی پسند شاعری کے سرمائے میں مستقل ادبی قدر رکھتی ہیں۔ جذبیؔ کے تجربات میں وسعت نہ ہو لیکن گہرائی ہے۔ انھوں نے زندگی کے مختلف مظاہر اور سماجی زندگی کی متنوع حقیقتوں تک رسائی حاصل نہیں کی ہے لیکن ان کا کارنامہ یہ ہے کہ تجربات کی جو متاع، ان کے ہاتھ لگی ہے، اسے انھوں نے سلیقہ کے ساتھ شعر میں ڈھالا ہے۔‘‘
فراق ؔگورکھپوری کی شاعری اردو غزل کی نیم کلاسیکی روایت کے تناظر میں ایک قطعاً نئی آواز تھی، ان کی شعری کائنات میں سماج و سیاست کے ارتعاشات یقینا محسوس کیے جاسکتے ہیں، لیکن ان کو صحیح معنوں میں ترقی پسند شاعر نہیں کہا جاسکتا۔فراقؔ کے اکتسابات پر روشنی ڈالتے ہوئے، خلیل صاحب رقمطراز ہیں:
’’فراقؔ ایک غیرسیاسی شاعر ہیں۔ ان کے تجربات کا محور عام طور پر عشق و محبت، فطرت، جمالیات اور تمدنی مسائل کے دائرے میں ہے، اسی لیے بعض حضرات جو ترقی پسندی کو خالص سیاسی اور وقتی مسائل تک محدود سمجھتے ہیں، وہ فراقؔ کو یا تو ترقی پسند ہی نہیں سمجھتے، یا ان کی شاعری کے بعض عناصر کو علاحدہ کرکے دیکھتے ہیں اور صرف ان کی بنا پر حکم لگانے لگتے ہیں۔ فراقؔ نے بعض سیاسی و سماجی مسائل پر بھی لکھنے کی کوشش کی ہے۔ جیسے ’دھرتی کی کروٹ‘، ’شاہنامہؔ آدم‘، ’ڈالردیس‘ اور ’امریکی بنجارہ نامہ‘ وغیرہ لیکن انھیں پورے طور پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔‘‘
فیض احمد فیضؔ جنھیں رومان سے خصوصی رغبت ہے لیکن جو مجازؔ کے مقابلے میں زیادہ گہرے تفکر اور تخیل کی رہنمائی میں زندگی کے طلسم تماشے کو دیکھنے دکھانے کا ہنر جانتے ہیں، باوجود اس کے کہ وہ عملی طور پر بھی تمام زندگی ترقی پسند تحریک کی خدمت کے لیے وقف رہے، انھیں خالصتاً تحریکی معنوں میں حقیقت نگار شاعر نہیں کہا جاسکتا۔ ان کی ترقی پسندی اور شاعرانہ مقام و مرتبہ کے ضمن میں خلیل صاحب فرماتے ہیں:
’’فیضؔ کی شاعرانہ شخصیت کی نشو و نما مناسب طور پر ہوئی ہے اور رومان سے حقیقت کی طرف ہجرت کرکے انھوں نے اپنی آواز کا رس اور اس کی شیرینی زائل نہیں کی۔فیضؔ بلند بانگ شاعری کے کچھ زیادہ قائل نہیں، وہ انقلابی اور سیاسی موضوعات کو کھلے ڈلے طریقہ پر، خطیبانہ اور واعظانہ انداز میں نظم کردینے، یا بندھے ٹکے نعروں کو اوڑھنا بچھونا بنانے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھنے، ان کا خیال ہے کہ ادب برائے ادب کی طرح ادب برائے انقلاب بھی ایک گمراہ کن رجحان ہے۔‘‘
مخدومؔ محی الدین جو صحیح معنوں میں تحریک کے لیے وجہ افتخار تھے، جن کا ایک ایک لمحہ اس کی کامیابی کے لیے وقف تھا، بنیادی طور پر وہ بھی اوسط درجہ کے شاعر رومان تھے اور اسی روزن سے سماجی انقلاب کی سرخ آندھیوں کا مشاہدہ کرنا انھیں پسند تھا۔ خلیل صاحب مخدومؔ کی شعری انفرادیت کا احاطہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’مخدومؔ نے جو عشقیہ اور رومانی نظمیں لکھیں، ان میں ایک عجب تازگی اور شادابی کا احساس ہوتا ہے۔ ان میں جمالیاتی کیف اور اندازِ بیان کی ندرت ہے ؎
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے، آپ آتے رہے، جاتے رہے
یہ سپردگی اور سرمستی مخدومؔ کی انقلابی نظموں میں بھی ملتی ہے۔ وہ انقلاب کا انتظار بھی اس طرح کرتے ہیں جیسے کوئی کسی خوش جمال محبوب کا انتظار کرتا ہے ؎
اے جانِ نغمہ، جہاں سوگوار کب سے ہے
ترے لیے، یہ زمیں، بے قرار، کب سے ہے
ہجوم شوق، سرِ رہگزار، کب سے ہے
گزربھی جا، کہ ترا انتظار کب سے ہے
ان کی سب سے کامیاب نظم— ’’چارہ گر‘‘ ہے۔
علی سردارؔ جعفری جو سجادؔ ظہیر کے بعد ترقی پسند تحریک کے سب سے اہم رہنما اور روحِ رواں تھے، انھوں نے اپنی تمام تخلیقی صلاحیت، شاعری میں اشتہاری مواد کے لیے وقف کردی، تحریک کو ممکن ہے اس سے کچھ فائدہ ہوا ہو لیکن اردو شاعری ان کی خدمات سے بہت کم مستفید ہوسکی۔ خلیل ؔصاحب نے ان کی خصوصیات کلام پر صحیح اظہار خیال کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’پریمؔ چند کی نصیحت پر سب سے پہلے سردار جعفری نے عمل کیا۔ انھوں نے اپنے مواد عام طور پر ’قومی جنگ‘ میں شائع ہونے والی خبروں، اداریوں، سماجی جماعتوں کی تقریروں، قراردادوں، عوامی لیڈروں کے بیانات اور ہدایات وغیرہ سے حاصل کیے، یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں وجدان اور تخلیقی عناصر کی کمی شروع ہی سے کھٹکتی رہی ہے ؎
دوستوں کے لیے، الفت کی زباں ہے لینن
دشمنوں کے لیے، شمشیر و سناں ہے لینن
رگِ مزدور میں خوں، بن کے رواں ہے لینن
دل پہ سرمائے کے اک سنگِ گراں ہے لینن
ہٹلریّت کے نشاں، جس سے جھکے جاتے ہیں
حرّیت کا وہ سرفراز، نشاں ہے لینن
اِس طرح کی نظموں سے شاعر کی ذات، اپج یا اس کی تخلیقی صلاحیت کا پتہ نہیں چلتا۔ یہ وہی انداز ہے جس کی پیروی احسانؔ دانش اور جوشؔ کے بعض معاصرین بھی کررہے تھے۔‘‘ جعفری کی طویل نظم ’نئی دنیا کو سلام‘ میں وہ حصہ جو پابند نظم میں ہے۔ اس میں بڑی خوبصورتی ہے لیکن جہاں آزاد نظم کی باگ سنبھالی ہے، یہ رہوار ان کے قابو سے نکل گیا ہے— ’اودھ ؔکی خاکِ حسیں‘ اور نیندؔ، میں ذاتی زندگی کے بعض تجربے آگئے ہیں، اس لیے ان کے استعارے جیتے جاگتے ہیں۔

یہ مضمون آپ ـ’’ اردو چینل ڈاٹ اِن‘‘ پر پڑھ رہے ہیں۔

کیفی ؔاعظمی کی تمام تر شناخت ترقی پسند تحریک سے تھی۔ جو بڑی سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ تحریک کے ایجنڈے کے مطابق شاعری کرتے رہے، خلیل صاحب ان کے کارناموں کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’کیفی اعظمی ایک شاعرانہ شخصیت لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ان کی ابتدائی نظمیں لطیف کیفیتو ںاور دل کی دھڑکنوں سے معمور ہیں، بعد میں ہنگامی واقعات پر فوری نظمیں لکھنے کی طرف مائل ہوگئے، تاہم میرانیسؔ کے اثر سے ان کے ہاں فصاحت اور روانی باقی رہتی ہے۔
منجمد خون میں شعلے سے تپاں ہیں دیکھو
افقِ دار سے لاشیں، نگراںہیں، دیکھو
وہ زیادہ تر فرمائش پر نظمیں لکھنے لگے تھے، جس کے سبب وقتی شاعری زیادہ ہوئی، لیکن جلد ہی انھیں اپنی ہنگامی شاعری کا احساس ہوگیا، اور کچھ عرصہ کے لیے خاموش ہوگئے۔ بہت عرصہ بعد ان کی ایک رومانی نظم — ’بوسہ‘ شائع ہوئی جس میں کیفیؔ نے شعریت کی روح کو چھو لیا ہے ؎
جب بھی چوم لیتا ہوں ان حسین آنکھوں کو
سو چراغ اندھیرے میں، جھلملانے لگتے ہیں
خشک خشک ہونٹوں میں جیسے دل کھینچ آتا ہے
دل میں کتنے آئینے تھرتھرانے لگتے ہیں
جاں ؔنثار اختربھی ترقی پسند ہراول دستے میں نہ صرف شامل بلکہ اس کے اہم نمائندہ ہیں، ان کا سرمایۂ شعری بہت مختصر ہے، خلیلؔ صاحب فرماتے ہیں:
’’جاں نثارؔ اختر رومان سے انقلاب کی طرف آئے۔ وہ ایک انتخابی ذہن رکھتے ہیں، خود اپنا راستہ نکالنے کے بجائے دوسروں کے بنائے ہوئے راستوں پر فوراً چل پڑتے ہیں، چنانچہ انھوں نے اکثر اقبالؔ، جوشؔ، فیضؔ، سردار اور جذبیؔ کے بیان اور خیال اخذ کیے ہیں— البتہ ان کی دو نظمیں— ’خاکِ دل‘ اور — ’خاموش آواز‘ ان کی انفرادیت کی نشانِ راہ ہیں۔‘‘
ساحرؔ لدھیانوی کی شہرت تو فلمی نغمہ نگاری سے تھی لیکن ترقی پسند تحریک کے سبب ان کو خاصی عوامی مقبولیت حاصل ہوئی، ان کے امتیازات کو نشان زد کرتے ہوئے، خلیلؔ صاحب فرماتے ہیں:
’’اُن کی ابتدائی نظموں میں ایک ناپختہ ذہن کے نقوش ملتے ہیں، تاہم ان کے مزاج میں شاعرانہ بے ساختگی اور تغزل کے عناصر شروع سے دکھائی دیتے ہیں ؎
تجھ کو خبر نہیں، مگر اک سادہ لوح کو
برباد کردیا ترے دو دن کے پیار نے
میں اور تم سے ترکِ محبت کی آرزو
دیوانہ کردیا ہے غمِ روزگار نے
پھر نہ کیجے، مری گستاخ نگاہی کا گلہ
دیکھیے آپ نے، پھر، پیار سے دیکھا مجھ کو
ترقی پسند شاعروں میں ساحرؔ کا مجموعہ کلام سب سے زیادہ پڑھا گیا ہے۔ اس کی وہ یہ ے کہ ساحرؔ نہ تو فیضؔ کی طرح ذہین طبقہ کے شاعر ہیں اور نہ بہت سے دوسروں کی طرح مزدوروں کے جلسہ کے شاعر۔ ان کی اپیل متوسط طبقہ کے عام تعلیم یافتہ نوجوانوں میں ہے۔ ان کی نظم — ’پرچھائیاں‘ امن کے موضوع پر بہت کامیاب ہے۔‘‘
مجروحؔ سلطان پوری فلم اور ترقی پسند تحریک سے وابستگی کے باوجود غزل کے منفرد شاعر ہیں، جن کے ہاں روایت کا گہرا شعور بھی ہے اور حال کی آگہی بھی۔ خلیل صاحب ان کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’مجروحؔ کی شخصیت کی نشو و نما جگر کے زیراثر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ان کو غزل کے فن پر خاصا عبور ہے۔ سیاسی موضوعات پر ان کی غزلوں میں جو آبداری ہے، وہ معدودے چند شعراکو نصیب ہے:
دیکھ زنداں سے پرے، رنگِ چمن، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے، تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
——
شبِ ظلم، نرغۂ راہزن سے پکارتا ہے کوئی مجھے
میں فرازِ دار سے دیکھ لوں، کہیں کاروان سحر نہ ہو
——
مجھے سہل ہوگئیں منزلیں، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
ترا ہاتھ، ہاتھ میں آگیا، کہ چراغ راہ میں جل گئے
جوشِ وفاداری میں مجروحؔ نے اپنی روش کے خلاف مزدور اور کسان وغیرہ کو بھی خراجِ پیش کیا لیکن بہت جلد سنبھل گئے، تاہم وہ سیاسی موضوعات کے تنگنائے سے باہر نہیں نکلتے۔ متنوع حقیقتوں کے برخلاف ایک ہی قسم کی کیفیتوں سے سابقہ پڑتا ہے۔‘‘
اخترالایمانؔ کی کوششوں سے اردو نظم کو ایک خاص وقار اور اعتبار حاصل ہوا، وہ ایک غیرمعمولی صلاحیت کے حامل، اعلیٰ پائے کے تخلیق کار ہیں، جنھوں نے فلمی زندگی کی سطحیت اور ترقی پسندی کی عوامی رغبتوں سے کبھی سمجھوتا نہیں کیا، گہرے تفکر، خلاقیت اور مخصوص شوریدہ سری کے اوصاف سے مزین اُن کی نظمیں، سرمایۂ شعری میں گرانقدر اضافہ ہیں۔ خلیل صاحب اخترالایمان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جدید شاعری میں اخترالایمان ایک نئے لہجے کے ساتھ آئے۔ ان کے فنی خلوص نے آنی و فانی موضوعات سے بچ کر زندگی کی تہوں میں جانے اور اس کا تجزیہ کرنے پر مائل کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں تفکر کا عنصر بہت نمایاں ہے۔ ان کا اسلوب جدید ہیئت کا پابند ہے۔ ان کا علامتی اسلوب اور موضوعات کی طرف بالواسطہ رویہ، وقتی مسائل کے بجائے بنیادی حقیقتوں کا عکاس ہے اور اپنے اندر بصیرت اور تہہ داری رکھتا ہے۔ ان کی ہر نظم ایک تصویر بن جاتی ہے جس میں خطوط اور رنگوں کا تناسب اور توازن ہے، ترقی پسند تحریک کا بحرانی دور گزر جانے کے بعد ان کی شاعری کی طرف زیادہ توجہ کی گئی۔
شاد عارفی جو سوداؔ، نظیرؔ اور انشااللہ خاں انشاؔ کے قبیل کے شاعر ہیں، اپنے ہجو ملیح اور طنزیہ اسلوب سے پہچانے جاتے ہیں، خلیل صاحب نے ان کی انفرادیت کے نمایاں خد و خال پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:
’’شادؔ کی نظمیں اپنی تکنیک، اسلوب اور طرزِ احساس کے اعتبار سے اردو شاعری میں ایک نئے عنوان کی حیثیت رکھتی ہیں، ان کی نظموں کا موضوع سماجی اور معاشرتی مسائل ہیں۔ انھوں نے ترقی پسند شاعروں کی طرح اپنی شاعری کا دائرہ محض سیاست تک محدود نہیں رکھا، بلکہ زمانہ اور زندگی کو قریب سے دیکھنے اور برتنے کی کوشش کی۔ بہت سے سیاسی معاملات میں ترقی پسند مصنّفین کی پالیسی سے مطمئن نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھا اور اپنی شاعری کا رشتہ آنے والے زمانے سے جوڑنے کی کوشش کی۔ انھوں نے زندگی میں جو دُکھ جھیلے ہیں، ان کے بیان میں ایک عمومیت اور ہمہ گیری پیدا ہوگئی ہے، ان معنو ںمیں شادؔ کو موجودہ دور کا عوامی شاعر کہا جاسکتا ہے۔‘‘
منیب الرحمنؔ بیشتر دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود اپنی تخلیقی تب و تاب اور کائناتی صدمات سے شرابور بے حد لطیف نظموں کے سبب ادبی حلقے کے حافظے سے کبھی غائب نہیں ہوئے۔ خلیل صاحب نے منیب الرحمن کی مخصوص انفرادیت، تخلیقی تگ و تاز اور انسانی دردمندی پر بڑی خوبی کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، فرماتے ہیں:
’’(جنگ عظیم دوم کے دوران) منیب الرحمن جب انگلینڈ گئے تو جنگ کی تباہ کاری اور ہولناکی کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس نے ان کی ذہنی حالت یکسر بدل ڈالی، ان کی سب سے پہلی نظم کا عنوان ہی’’ جنگ‘‘ ہے ؎
جنگ قابیل کے بیٹوں کا بہیمانہ جنوں
آخری لرزشیں، گرتے ہوئے، ایوانوں میں
اسلحہ جات کا، طاقت کا، حکومت کا فسوں
شہپرِ موت کی تاریک فضا میں لرزش
خوں امنڈتا ہوا آنکھوں میں، دہن شعلہ فشاں
شہر کے کوچہ و بازار میں پیروں کی دھمک
سینہ تانے ہوئے کہسار کے مانند جواں
منیب الرحمن کی اکثر نظموں پر ترقی پسند نقطۂ نظر کی چھاپ بہت واضح ہے۔— انھوں نے کلاسیکی صنف شہر آشوب، کو بھی پیرایۂ بیان کے طور پر استعمال کیا جس میں طنز کے بے شمار تیر و نشترہیں۔ یہ شہر آشوب بہت سے ترقی پسند شعراکے نام نہاد سماجی و سیاسی شاعری پر بھی بھاری ہیں۔ جن میں کسی قسم کی چیخ پکار، گھن گرج، اور نعرۂ انقلاب نہیں ہے، لیکن پھر بھی دلوں پر اثر کرتے ہیں۔ منیب الرحمن ان ترقی پسند شاعروں میں ہیں جنھوں نے اس نظریے سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن اس تحریک کی بیشتر خامیوں سے خود کو محفوظ رکھا ہے۔ ان کی شاعری اپنے اندر بڑے امکانات رکھتی ہے۔‘‘
ترقی پسند ادبی تحریک سے کسی نہ کسی طرح وابستہ مذکورہ شعرا کی شعری کائنات کے حوالے سے کسی قدر تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد خلیل صاحب نے بحیثیتِ مجموعی بھی اس خاص نقطۂ نظر سے شعر و سخن کی سرپرستی اور حمایت میں تحریک کے تاریخی کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ تحریک کے سماجی ایجنڈے اور سیاسی منشور کی مجبوری کے ماتحت بعض بندشوں اور حیدود و قیود کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ جن کے سبب اس قافلہ سے وابستہ اکثر شعراکے تخلیقی عزایم سرد ہوگئے اور سطحیت ہی ان کا مقدر بن گئی۔ اس ضمن میں خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ:
’’تقسیم ہند اور فرقہ وارانہ فسادات کا نفسیاتی اثر جس طور پر ترقی پسند شعرا کے ذہنوں پر پڑا، اس نے ایسی شاعری کے لیے زمین ہموار کی جس میں جذبات کی تہذیب و تحلیل نہیں ہوتی، بلکہ فوری تاثر اور ردِّعمل ہی اس کی سب سے اہم بنیاد ہوتی ہے۔ پھر بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بعض سنجیدہ شعرا نے اس موضوع پر بھی اچھی نظمیں لکھیں اور وہ نظمیں جو بہت اعلیٰ درجہ کی نہیں ہیں، ان میں بھی بہرحال خلوص اور انسان دوستی کی جذبہ ہے۔‘‘
البتہ خلیل صاحب کا کہنا ہے کہ تحریک کی ادبی ساکھ کو جس چیز نے سب سے زیادہ صدمہ پہنچایا وہ 1949ء میں منعقدہ بھیمڑی کانفرنس کا منشور تھا، جس نے تحریک کو خالصتاً سیاسی تحریک میں منتقل کردیا۔ ذاتی غم، انفرادی تجربے اور احساس کی مصوری کو رجعت پسندی قرار دیا گیا۔ آزادی اور انقلاب کی جدوجہد میں بین الاقوامی سیاسی ورجحان کی حمایت، فن کی جمالیاتی اور دائمی اقدار کی نفی، پروپیگنڈہ کو ادب، رمزیت و اشاریت کو بورژوائی فکر کی زائیدہ زوال کی علامت قرار دیا گیا، جن پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں تخلیقی منظرنامہ پر چیخ و پکار، خطابت، تکرارِ خیال اور مصنوعی رجائیت کے دیکھتے دیکھتے بے شمار بادل منڈلانے لگے، تاہم خس و خاشاک کے اس انبارِ ناپیداکنار میں، چند استثنائی مثالیں بھی مل جاتی ہیں مثلاً غلام ربانی تاباںؔ اور سلیمان اریب وغیرہ جنھوں نے سیل میں بہنا پسند نہیں کیا۔
آزادی کے بعد ابھرنے والے بعض شعرا مثلاً بلراج کوملؔ، شہاب جعفریؔ، مظہرامامؔ، منظرسلیمؔ، عمیقؔ حنفی، وحیداخترؔ، حسن نعیمؔ اور شفیقؔ فاطمہ شعریٰ وغیرہ نے ترقی پسند منشور کو نظرانداز کرکے اپنی انفرادی ہستی اور تخلیقی فطانت کی رہنمائی میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور آج شاید انھیں کی بدولت وقت کی طوفانی آندھیوں میں بھی شعر و سخن کی شمع روشن ہے۔
خلیل صاحب کا خیال ہے کہ ’’تحریک کے بحرانی دور سے نکلنے کے ساتھ ہی نسبتاًزیادہ متوازن نقطۂ نظر سامنے آیا ہے۔ جامد اور محدود تصورات کے بجائے، روایت کے صحت مند تصور کو سمجھنے اور نئے حالات سے خود کو منسلک کرنے کا جذبہ پیدا ہورہا ہے۔ اب اس بات کا احساس ہوچلا ہے کہ شاعری محض خیالات سے نہیں۔ احساس اور تجربے سے پیدا ہوتی ہے، غمِ ذات، غمِ جاناں اور غمِ دوراں کو انسانی تجربہ ایک رشتہ میں پروسکتا ہے۔ اب ترقی پسندی اور رجعت پرستی کے میکانکی خانے بنانے اور ان میں شاعر کو قید کرنے کی رسم بھی مٹتی جارہی ہے۔‘‘
میرا خیال ہے کہ خلیل صاحب غالباً یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیان جو آہنی دیوار اور خلیج عرصہ سے حائل تھی، اس میں اب شگاف پڑچکی ہے اور شاعری اپنے آفاقی مفہوم، جمالیاتی اقدار، اعلیٰ انسانی احساسات اور تخلیقی کردا رکے ساتھ گمنامی کے پردوں سے اب باہر آچکی ہے۔
خلیل الرحمن اعظمی کی معرکۃ الآرا تصنیف ’اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک‘ کے حوالے سے ترقی پسند شعری سرمائے کے اس مختصر سے جائزے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ خلیل صاحب کا کوئی بھی بیان، کسی ذہنی اشتعال، انتقام یا ادعائیت کا نتیجہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ معروضی اور عقلی سطح پر اس سے بہتر کوئی دوسری تحریر اب تک سامنے نہیں آئی ہے، تو شاید غلط نہ ہوگا۔ وہ ترقی پسند نہ ہوکر بھی پورے شعری سرمائے پر کسی طے شدہ فارمولے یا منصوبے کے تحت خطِ تنسیخ کھینچ دینے کے بجائے، اعلیٰ، ادنیٰ تجربات میں فرق و تمیز کرنے کا ہنر جانتے ہیں، اور بڑے ہی مدلل، مخلصانہ اور معقول طریقہ سے اپنے نتائج فکر سامنے لاتے ہیں۔ گرچہ یہ کہنا شاید غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے مولانا شبلی، رشید احمد صدیقی اور آل احمد سرورؔ کی قائم کردہ تنقیدی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اپنی تمام تر ذہانت طباعی اور انفرادیت کے باوجود تنقید کے نئے مغربی پیمانو ںکو برتنے اور شعری متن کے فنی و لسانی تجزیے کے بجائے روایتی تاثراتی طریقۂ نقد سے ہی سروکار رکھا ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس طرزِ مطالعہ سے بھی جو نتائج برآمد کیے ہیں وہ بالعموم صحیح اور اطمینان بخش ہیں۔

Urdu Afsane ka Niswani Lahan by Dr. Mirza Hamid Baig

Articles

اردو افسانے کا نسوانی لحن

ڈاکٹر مرزا حامد بیگ

”ہم زندگی کا احترام اُس وقت تک نہیں کرسکتے، جب تک کہ ”ہم جنس“ کا احترام کرنا نہ سیکھیں۔“ (ڈاکٹر ہیولاک ایلس)
مشرق اور مغرب، ہر دو اطراف کے مذہبی مفکرین کا خیال ہے کہ مرد ازل سے صاحبِ فہم و فراست ہے اور عورت ناقص العقل۔ حقوقِ نسواں کی عالمی تحاریک کے زیرِ اثر”برابری کا درجہ“ مل پائے گا یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن ہمارا قدیم ماضی اور ماضی قریب تو کم از کم اِس بات کی گواہی نہیں دیتا۔
ہمارے ہاں عورت کو زندگی کرنے کے مساویانہ حقوق نہ ملنے کے سبب جملہ تہذیبی نشوونما اور سماجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادبی سطح پر بھی عورت کا تخلیقی اشتراک اُس طور میسر نہ آسکا، جیسا کہ مغرب میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کے باوجود شعری سطح پر زیب النساءمخفی(بنتِ اورنگ زیب عالمگیر) تا شاہدہ حسن، اور افسانے کی سطح پر عباسی بیگم، نذر سجاد، آصف جہاں اور انجمن آراءسے خالدہ حسین تک نسوانی تخلیق اظہار نے تہذیبی ، سماجی اور ادبی سطح پر بھرپور اثرات مرتب کیے۔
فرانسیسی مستشرق گارسیں دتاسی نے لکھا ہے کہ:”میں نے زیب النساءکی اردو نظمیں دیکھیں اور پڑھی ہیں۔“(۱ ) لیکن بطور شاعرہ زیب النساءزیبی مخفی کا ذکر اُس کے اپنے زمانے میں ممکن نہ تھا۔ خود میر محمد تقی میر نے اپنی شاعرہ بیٹی، بیگم کا ذکر تذکرہ ”نکات الشعرائ“ میں نہیں کیا، محض اس لیے کہ عورتوں کے جذبات کو(خواہ وہ تخلیقی اور خیالی ہی کیوں نہ ہوں) بے نقاب کرنا سماج میں بُری نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
دوسری طرف ہوس گیری کا یہ عالم ہے کہ حکیم فصیح الدین رنج نے جب ایک سو چُہتر اردو شاعرات کا ا وّلین تذکرہ ”بہارستانِ ناز“(1846) میں قلم بند کیا تو اپنے زمانے کی معروف شاعرہ مُنی بائی حجاب کا ذکر یوں کرتے ہیں:
”عمر میں ابھی انیسویں سال کی گرہ پڑی ہے۔ شاعری کے رستے میںقدم تو رکھا ہے مگر سنبھل کر چلیں، یہ منزل کڑی ہے۔ پہلے ہم گداختہ دلوں سے اپنا دل لگائیں۔ معشوقی کو بالائے طاق رکھیں، عاشق بن جائیں۔ آج کل کی شاعرات سے اب بھی بہتر ہیں۔ مشتری اور زہرہ کی ہم سر ہیں۔ دُور دُور کی سیر بھی کرچکی ہیں، پیمانہ¿ زندگی خوب بھر چکی ہیں، بس ایک ہم سے ہی ملاقات ہونا باقی ہے۔ یقین ہے کہ یہ آرزو بھر آئے گی، اگر سچی مشتاقی ہے۔“۲
غرض یہ کہ مرد کا معاشرہ تھا اور ماضی قریب کا ہندوستانی سماج، رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا اور توہّمات گلے کا ہار تھے۔ ایسے میں عورت حد درجہ مظلوم تھی اور مظلوم بھی اس قدر کہ روحانی اور جسمانی قیود کا شکار ہو کر ایک طرح کی مفلوج زندگی گزاررہی تھی۔ نتیجہ کے طور پر اُس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مرد کے مقابلے میں حد درجہ کم تھی۔ تخلیقی اظہار کیوں کر ممکن ہوتا۔
انگریزی عملداری (1860ء) میں چند علم دوست انگریز حکام کی راہنمائی میں جابجا علمی اور ثقافتی انجمنوں کا قیام عمل میں آیا۔ آگرہ، بنارس، شاہجہاں پور اور لکھنو¿ میں معاشرتی اصلاح نیز تعلیم نسواں پر زور دیا گیا۔ اس سلسلے میں گورنر شمال مغربی صوبہ جات سرولیم میور اور ڈائریکٹر تعلیمات مسٹر کیمپس کی مساعی قابلِ ذکر ہے۔ لگ بھگ1864ءمیں گورنمنٹ آف پنجاب نے تعلیم نسواں کی طرف توجہ کی جس کے نتیجہ میں مدرسہ جات برائے خواتین اور نارمل اسکول معرضِ وجود میں آئے۔ لیکن اس ضمن میں مردانہ معاشرے کی بے توجہی نے اس کوشش کا عدم وجود برابر کردیا۔ ان مدرسوں میں معمولی گھرانوں کی لڑکیاں داخلہ لیتیں۔ اعلیٰ درجہ کے مسلم گھرانے اپنی لڑکیوں کو ان اسکولوں میں داخلہ دلوانا کسرِ شان تصو ر کرتے۔ لڑکیوں کی کم سنی میں شادی بھی اس حوالے سے بڑی رکاوٹ تھی۔ابتداءمیں سرسید تحریک کا دائرہ اثر ہندوستان کے مقامی مرد تک محدود تھا۔ یہ دیکھ کر نذیر احمد دہلوی نے اصلاح نسواں کی ضرورت کے پیش نظر تربیت اولاد پر توجہ مبذول کی۔نذیر احمد دہلوی کے تمثیلی قصے ”مراة العروس“ (1869ء) ، ”منتخب الحکایات“(1869ء) ، ”بنات النعش“(1872ء) اور رشید النساءبیگم کا ”اصلاح النسائ“(1881ء) ایک طرح سے مسلم گھرانوں میں گھریلو مکتب کا آغاز ہیں۔ خاص طور پر ”مراة العروس“ میں ہندوستانی عورت کی اصلاح اور تعلیم کے لیے جہاں گھرداری کے معاملات سے متعلق دو ابواب مختص کیے گئے ہیں وہیں اسے جغرافیہ، جرِ ثقیل، مقناطیس، اجرامِ فلکی اور علم تاریخ کے ساتھ ساتھ ایک پاکباز انگریز گھرانے کا احوال بھی سنایا گیا۔
19 ویں صدی کے نصف آخر میں عورت کے لیے چار قسم کا ادب سامنے آیا:
۱۔ چھوٹے چھوٹے رسائل کی صورت ناصحانہ ادب۔ مقصد تعلیم اور اصلاح تھا از قسم ”مجالس النسائ“ از حالی 1874ء
۲۔ مذہبی رسائل۔ احادیث اور تفاسیر کی روشنی میں حقوق و فرائض سے متعلق، از قسم”رسالہ تحفہ الزوجین“ از مولوی محمد قطب الدین خاں 1858ء۔ نیز آدابِ معاشرت و اخلاقی سے متعلق رسائل از قسم ”آداب النسائ“ از حافظ سید محمد بنگلوریہ 1858ء/”چند بند“ از نذیر احمد دہلوی1871-72ء/”رسالہ علم الاخلاق‘ از مولوی سید کرامت حسین۔
۳۔تمثیلی قصے۔ مقصد اصلاحِ نسواں از قسم ”مراة العروس“،”بنات النعش“،”توبتہ النصوع“،”فسانہ¿ مبتلا“، ”ایامیٰ“ اور ”رویائے صادقہ“ از نذیر احمد دہلوی،”اصلاح النسائ“ از رشید النساءبیگم1849ء، ”عفتِ نسواں“،’اور ”شعلہ پنہاں“ از اکبری بیگم (قبل 1906ء)۔
۴۔ معلوماتی کتب کے تراجم۔ از قسم ”رسوم ہند“ جاری کردہ محکمہ تعلیم 1968ء/”منتخب الحکایات “ ترجمہ نذیر احمد دہلوی 1869ء/”سیرِ ظلمات“ ترجمہ ظفر علی خاں۔
عورت، جسے مرد نے ہمیشہ سربستہ راز تصور کیا، مرد تخلیق کاروں کا موضوع رہی، لیکن عورت کی نزول نفسی کیفیات کو پوری طرح بیان کرنے کے لیے ہمیشہ عورت ہی کی ضرورت محسوس کی گئی۔
ابن العربی کا قول ہے کہ:”ہر جزو، اپنی کُل کی طرف لوٹتا ہے۔ آدم نے حوّا کو اپنی پسلی سے جُدا کرکے دیکھا اور اُس کی طرف راغب ہوگیا۔“
یقینا واپسی کا راستہ جنس کے شاداب خطے سے ہو کر نکلتا ہے لیکن ہمارے ہاں جسمانی قربت ہی پر قناعت کی گئی۔ یہ دیکھتے ہوئے محمدی بیگم (والدہ امتیاز علی تاج) نے صغرا ہمایوں مرزا کی سرپرستی میں ”تہذیبِ نسواں“ لاہور کا اجراء(1898ء) کرکے نسوانی اظہار کو ایک پلیٹ فارم مہیا کردیا۔ ”تہذیب نسواں“ ہندوستان کا پہلا ہفتہ وار زنانہ اخبار تھا۔ بقول قرة العین حیدر اسی زنانہ اخبار کے اجراءسے ”معمولی تعلیم یافتہ پردہ نشیں خواتین میں تصنیف و تالیف کا شوق پیدا ہوا۔“۳
”مدرسة النسواں“ علی گڑھ(قیام:1906ء) کا مجلّہ ”خاتون“ علی گڑھ، منشی محبوب عالم کا مُجلّہ ”شریف بی بی“ لاہور، بیگم شیخ محمد اکرام (مدیرہ) کا مُجلّہ”عصمت“ دہلی(اجراء:1908ء)، بیگم احتشام (قلمی نام: مسز خاموش) کا مُجلّہ ”رسالہ پردہ نشین“ آگرہ(اجراء:1912ء) ، راشد الخیری کا ہفتہ وار مُجلّہ ”سہیلی“ دہلی اور ”بنات“ دہلی (اجراء1915ء) اور قمر النساءبیگم (والدہ اختر جمال) کا مُجلّہ اُمہات“ بھوپال(اجراء1920ء) نے بیسیوں خواتین افسانہ نگار پیدا کردیں۔راشد الخیری کی ”تربیت گاہِ بنات“ دہلی (قیام 1923ء) ایک اور جرات مندانہ اقدام تھا جسے سجاد حیدر یلدرم کی ”آزادی نسواں تحریک“ نے بڑھاوا دیا۔ جس سے یہ ہوا کہ چلمن کے پیچھے سے جھانکنے والی سرشار کی سپہرآراءلکھنو، دہلی، علی گڑھ اور لاہور کی مقفل حویلیوں کی چہار دیواریوں سے نکل کر ممبئی کی چوپاٹی پر کُھلی ہوا میں سانس لینے لگی۔۴
عجیب اتفاق ہے کہ اردو کی اوّلین افسانہ نگار خواتین: عباسی بیگم، نذر سجاد حیدر، آصف جہاں اور انجمن آراءکے پہلے طبع زاد افسانوں کا سال اشاعت ایک ہی ہے یعنی 1915ء۔ یوں تاریخی اعتبار سے ان افسانہ نگار خواتین سے قبل اردو کے افسانوی افق پر صرف اور صرف دس نام ہی دکھائی دیتے رہے ہیں، یعنی راشد الخیری(1903ء) ، علی محمود(1904ء) ، وزارت علی اورینی(1905ء) ، سجاد حیدر یلدرم(1906ء) ، سلطان حیدر جوش(1907ء) ، پریم چند(1908ء)، محمد علی ردولوی(1910-11ء) ، خواجہ حسن نظامی (1912ء)، نیاز فتح پوری اور سدرشن (1913ء)۔
اوّلین افسانہ نگاروں میں عباسی بیگم کا پہلا افسانہ ”گرفتار قفس“ مطبوعہ ”تہذیبِ نسواں“ لاہور، 1915ءہے۔ عباسی بیگم (والدہ حجاب امتیاز علی ) کا تعلق مدراس کے ایک متمول اور روشن خیال گھرانے سے تھا۔ عباسی بیگم کے ابتدائی افسانے ”تہذیب نسواں“ لاہور ، ”عصمت“ دہلی، ”خاتون“ علی گڑھ اور ”تمدن“ دہلی میں شائع ہوئے اور کچھ ہی مدت بعد انھیں بطور افسانہ نگار ”مخزن“ لاہور اور ”زمانہ“ کانپور نے بھی قبول کرلیا۔
عباسی بیگم ایک آدرشک حقیقت نگار تھیں۔ افسانہ ”گرفتار قفس“ میں پردہ نشیں عورت کو ایک ایسے پرندے سے تشبیہ دی گئی ہے جسے پنجرے میں قید کردیا گیا ہو۔ افسانہ ” دو شہزادیاں“ میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد سے متعلق ایک تاریخی واقعہ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ شہزادہ شجاع کی اپنے باپ اورنگ زیب کے خلاف بغاوت اور شکست کے نتیجہ میں جلا وطنی نصیب ہوتی ہے۔ ایسے میں شجاع کی دو بیٹیاں بھاگ کر ایک جنگل میں پناہ لیتی ہیں۔ ان کا قیام ایک جھونپڑی میں ہے ا ور کسمپرسی کا عالم۔ ایسے میں ایک نو عمر لڑکا ”عالیہ“ اُدھر آنکلتا ہے۔ جو اپنی ظریفانہ حرکات سے شہزادیوں کا غم غلط کرتا ہے۔ شہزادیاں بھی اس سے مانوس ہوجاتی ہیں۔ کچھ مدت بعد پتا چلتا ہے کہ اس علاقے کے ایک رئیس کو جنگل میں ان کی موجودگی کا علم ہوگیا ہے۔ یہ قیامت کی گھڑی تھی اور موت صاف نظر آرہی تھی۔ ایسے میں ایک شہزادی اُس لڑکے کو الوداع کہتے ہوئے اپنی انگوٹھی بطور یادگار دے دیتی ہے۔ خلاف توقع اس رئیس کے محل میں شہزادیوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔ جب تمام خواص اور عمائدین رخصت ہوجاتے ہیں تو رئیس اپنے تخت سے نیچے اتر کر شہزادیوں سے پوچھتا ہے:
”کیا تم نے جنگل کے اس پُرانے رفیق ”عالیہ“ کو پہچان لیا؟“
حقیقت یہ تھی کہ عالیہ ہی اُس علاقے کا رئیس تھا۔ محبت کی نفسیات سے متعلق یہ افسانہ خاصے کی چیز ہے۔ جب کہ افسانہ ”ظلم بیکساں“ ایک سیدھا سادہ بیانیہ افسانہ ہے جس میں عورت کو مرد کے ظلم و ستم کا شکار دکھایا گیا ہے۔نذر سجاد حیدر کا پہلا افسانہ ”خونِ ارماں“ 1915ءمیں شائع ہوا اور پھر یکے بعد دیگرے ”حور صحرائی“،”نیرنگ زمانہ“ اور ”حق بہ حق دار“ جیسے افسانے لکھ کر شہرت پائی۔ ان کے افسانوں کا لینڈ اسکیپ خاص طور پر اُتر پردیش اور علی گڑھ کا علاقہ ہے۔
نذر سجاد حیدر کے افسانوں میں آزادی¿ نسواں کے حوالے سے عورت کی تعلیم، آزادی اور رجعت پسندی کے ردّ کے آثار خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی نظر اپنے دور کی سیاست پر بھی گہری تھی۔ یہی سبب ہے کہ تحریک عدم تعاون پر انھوں نے کُھل کر لکھا۔ ان کے افسانہ ”حورِ صحرائی“ (مطبوعہ 1926ئ) کے لیے ایک اخباری خبر نے پلاٹ مہیا کیا، جس میں بتایا گیا تھاکہ جنگل میں ایک شیر کی کچھار سے دو صحت مند بچے برآمد ہوئے جنھیں شیرنی نے ماں بن کر اپنا دودھ پلایا تھا۔
آصف جہاں آزادی¿ نسواں کی علمبردار تھیں۔ انھوں نے عورت اور مرد کے باہمی رشتے کو اپنا موضوع بنایا۔ اُن کا پہلا افسانہ ”شش و پنج“ (1915ئ) کے عنوان سے شائع ہوا۔ پھر وقفے وقفے سے انھوں نے متعدد یادگار افسانے لکھے خصوصاً ”تیسری تاریخ کا چاند“ (1918ئ) ، ”مشق ِ ستم“(1920ئ) ،”سالگرہ“ (1920ئ) ، ”ندامت“ (1924ئ)، ”مرتا کیا نہ کرتا“(1925ئ)،اور ”عجلت بے جا“(1925ئ) نے بہت شہرت پائی۔
انجمن آراءکا افسانہ”ریل کا سفر“ (1915ئ) خاص طور پر یاد رکھا جائے گا، جس میں ریل کے پہلے سفر کے دوران عورت کی بے بسی اور مجبوری قابل ِ دید ہے۔ مرد کی ہوس پرستی پر یہ ایک شدید طنز ہے۔اِن چار اوّلین افسانہ نگار خواتین کے 1915ءمیں سامنے آنے کے فوراً بعد نئے ناموں کی جیسے ایک کہکشاں سج گئی۔
اُمّت الوحی کی افسانہ نگاری کا آغاز 1916ءمیں تہذیب نسواں ، لاہور اور ’عصمت‘ دہلی سے ہوا۔ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع خاص طور پر قابل توجہ ہے۔ جب کہ اصلاح پسندی قدرِ مشترک۔ 1927۱ءمیں ان کا افسانہ ”شاہد وفا“ شائع ہوا اور یہی ان کا شہرت کا باعث بھی ہے۔ ”شاہدِ وفا“ کے تین مرکزی کردار ہیں۔ سعید، سلمہ ایک نوبیاہتا جوڑا ہے جس کی خوشیوں کا محور ان کا نومولود بیٹا ہے۔ بچے کی دیکھ بھال کے لیے ایک نرس مہرالنساءکو ملازم رکھا جاتا ہے۔ جو بچے سے محبت کی آڑ میں سعید پر ڈورے ڈالتی ہے۔ سعیداشارے کنائیوں میں بیوی پر صورت احوال واضح کرتا ہے لیکن سلمہ، مہرالنساءکی بے بسی اور مجبوری کو دیکھتے ہوئے خدا ترسی کے سبب اسے ملازمت سے علاحدہ نہیں کرتی۔ تاوقتیکہ مہرالنساءپوری طرح سعید کے حواس پر چھا جاتی ہے۔ سلمہ سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ ان دونوں کی شادی پر رضا مند ہوگئی۔ اب مہرالنساءکمال مہارت سے سعید کو اس کی وفا شعار اور خدا ترس بیوی سے بدٰظن کردیتی ہے اور سعید اپنی بیوی کو عین اُس وقت اپنے گھر سے نکال دیتا ہے جب وہ امید سے ہے۔
خود راکردن علاج نیست کے مصداق سلمہ بے کسی کے عالم میں دوسرا بچہ جنتی ہے۔ افسانے کے دوسرے حصے میں سعید اور مہرالنساءکو بے اولاد رکھا گیا ہے جب کہ سلمہ پر دوسری افتاد یہ پڑی کہ سعید اس سے اس کی زندگی کا سہارا جمیل(بیٹا) بھی چھین لیتا ہے۔ کچھ مدت بعد مہرالنساءبیمار پڑتی ہے تو سلمہ اپنے ہی گھر میں بھیس بدل کر بطور ملازمہ پہنچ جاتی ہے۔ اب وہ اپنے ہی گھر میں بطور خدمت گار ملازم ہے اور سعید کے بیمار پڑنے پر اُسے اپنا خون دینے کے سبب جان گنوا بیٹھتی ہے۔ آخری وقت میں سعید کو جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جان بچانے والی سلمہ تھی تو وہ کفِ افسوس مَلتاہے لیکن اس کی یہ پشیمانی سلمہ کو موت سے نہیں بچا سکتی۔
یہ افسانہ دوہرے پلاٹ کا حامل ہے اور اس تکنیک کو اُمّت الوحی نے پہلی بار برتا۔ اس افسانے کی مقبولیت کا اس بات سے اندازہ لگائیے کہ قیام پاکستان کے بعد اداکار و ہدایت کار نذیر نے اس کہانی پر مشہور فلم ”نوکر“ بنائی۔ جس میں سلمہ کا کردار مشہور اداکار سورن لتا اور سعید کا کردار نذیر نے ادا کیا تھا۔
اُمّت الوحی کے سات افسانوں کا مجموعہ ”شاہد وفا“ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
خاتون اکرم نے مختصر افسانہ لکھنے کے ساتھ پہلی بار طویل مختصر افسانے لکھنے کی ابتدا کی۔ ان کے بیشتر افسانے1918ءتا 1920ءکی تخلیقات ہیں۔خاتون اکرم نے رسوم باطلہ اور نئی تہذیب کی خرابیوں کو اپنا موضوع بنایا۔ ان کے افسانوی کردار سرسید احمد خان کے مضمون ”گزرا ہوا زمانہ“ (مطبوعہ: ”تہذیب الاخلاق“ علی گڑھ بابت: 21 مارچ 1973) کے انداز میں اپنے بُرے افعال سے متعلق بھیانک خواب دیکھ کر گزشتہ زندگی سے تائب ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی ایک مثال ان کا افسانہ ”بالائی آمدنی“ ہے۔
خاتون اکرم کا نمائندہ افسانہ ”آرزو کی قربانی“ ایک ایسی ہٹ دھرم خاتون کی کہانی ہے جو بے جا رسوم کی پابند ہے اور نئی تہذیب کی گرویدہ ۔ اس نے محض ایک رنگا رنگ تقریب کا اہتمام اپنے گھر پر کرنے کی خاطر اپنی تین سالہ بیٹی ثریا کو شدید گرم موسم میں روزہ رکھوایا اور افطار پارٹی کے اہتمام میں جُت گئی۔ افطار کے وقت جب ثریا کی ڈھنڈیا پٹی تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ معصوم لڑکی اپنے کمرے میں پانی سے بھری صراحی پر منہ رکھے ابدی نیند سورہی ہے۔ اس نے ماں کے خوف سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا اور پیاس کے سبب جان دے دی۔
خاتون اکرم کا پہلا افسانوی مجموعہ ”گلستانِ خاتون“ کے عنوان سے شائع ہوا اور اس کے بعد دو طویل مختصر افسانے ”پیکر وفا“ اور ”بچھڑی بیٹی“ کے عنوانات سے الگ الگ کتابی صورت میں سامنے آئے۔
سعیدہ اختر نے 1919ءمیں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا افسانہ ”کوکب“ تھا لیکن اس کے بعد محض چند افسانے لکھ کر ادبی اُفق سے غائب ہوگئیں۔ سعیدہ اختر کے افسانے تکنیکی اعتبار سے بیانیہ لیکن کرداروں کا ڈوب کر مطالعہ کرنے کے غماز ہیں۔ انھوں نے ایک افسانوی مجموعہ ”ستارے“ کے نام سے یادگار چھوڑا۔
زبیدہ زری نے لگ بھگ 1920-21ءمیں افسانہ نگاری شروع کی اور تسلسل کے ساتھ اس دور کے تمام اہم ادبی جرائد خصوصاً ”ہمایوں“ اور ”ادبی دنیا“ میں لکھتی رہیں۔ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع ہے اور اصلاح پسندی کا وہ زور و شور بھی نہیں جو ابتدائی دور کی خواتین افسانہ نگاروں کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔
زبیدہ زری کے افسانوں کو پریم چند کی ادبی روایت میں رکھ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ”ادب زری“ کے عنوان سے ایک افسانوی مجموعہ یادگار چھوڑا۔
آمنہ نازلی نے افسانہ نگاری کے ساتھ ڈراما نگاری بھی کی۔آمنہ نازلی کے افسانوں اور ڈراموں میں زبان و بیان کا وہ اعلیٰ معیار دیکھنے کو ملتا ہے جسے اکثر مرد افسانہ نگار بھی چُھو کر نہیں گزرے۔ اُن کے افسانوں کی اہم خصوصیات میں موضوعات کا تنوع اور حد درجہ اختصار ہے۔ اُن کے ایک افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
”خالہ امی نے پلیٹ پوش ہٹا کرایک لمبی سی پسلی اٹھائی:”اوئی بُوا یہ حصّہ“ ۔
”کیا کہیں سے حصہ آیا ہے، بیگم صاحبہ؟“ سعیداً باورچی خانہ سے لپک کر آئی۔
”ہاں ہاں، بھاوج کے گھر سے، ذرا دیکھو تو اُس گھر میں کیا بلیاں رہتی ہیں جو چھیچھڑوں کے ڈھیر لگادیئے۔“
خالہ امی نے دوبارہ کپڑا ہٹا کردو بوٹیاں چٹکی سے پکڑ کر لٹکائیں۔ لمبے لمبے چھیچھڑوں میں پتلی پتلی پسلیاں، کہیں غدودوں کے گُچھے جھلّی میں لپٹی ہوئی مُنحنی سی بوٹی۔ خالہ امی تو خالہ امی، اُس وقت بُوا سعیداً کو بھی غصہ آگیا۔“
(افسانہ: ”بقرعید کے حصّے بخرے“)
آمنہ نازلی کے دو افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں سے ”ننگے پاؤں“ نے بہت شہرت پائی۔
ابتدائی دور کی دیگر افسانہ نگار خواتین میں حجاب امتیاز علی کی دو خالاؤں رابعہ سلطان بیگم اور خیر النساءبیگم، سیدة النسائ، صُغرا ہمایوں مرزا، نسیم ایوب، زبیدہ سلطان اور عزیز النساءکے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
اردو افسانے میں اصلاحِ نسواں (بہ حوالہ راشد الخیری) قوم پرستی، سماجی اصلاح پسندی، داستانوی رومانیت(بہ حوالہ پریم چند اور سدرشن)، ماضی میں پناہ لینے کا رویہ، نفسیات سے شغف اور داستان طرازی(بہ حوالہ محمد علی ردولوی) کی ملی جلی صورتیں خواتین کے افسانوں میں بھی ظاہر ہورہی تھیں کہ سجاد حیدر یلدرم نے ترکی ادب کے تراجم کی معرفت خالصتاً یورپی وضع کی رومانیت متعارف کروائی۔ اس سے قبل ہمارے افسانوی ادب میں رومانیت کا مشرقی رویہ تو موجود تھا لیکن اب نیاز فتح پوری نے اپنے دور کے مروج افسانے سے محض اصلاح نسواں اور سماجی اصلاح پسندی کو موضوعی سطح پر چنتے ہوئے رومانی ذات کے حوالے سے معاشرتی سطح پر انقلاب برپا کرنے کی ٹھانی۔ یوں اردو افسانے میں بلند آہنگی اور نشتریت کی جگہ انسانی داخل کا اثر و نفوذ بڑھا نیز سرسید احمد خان کی متعارف کردہ خشک بے جان نثر کی جگہ ادبِ لطیف نے لے لی۔ اب مجنوں گورکھ پوری نے مرد اور عورت کی محبت کو معاشرتی جکڑ بندیوں سے آزاد دیکھا اور ٹامس ہارڈی و ہیگل کے گہرے اثرات قبول کرتے ہوئے رومان اور فلسفے کے باہمی امتزاج سے ارد و افسانے میں نرول رومان پسندی کی ایک نئی الم پسند لہر متعارف کروادی۔ اس نئی رومان پسند لہر میں مسز عبدالقادر اور حجاب امتیاز علی( حجاب اسماعیل) کا حصہ بہت نمایاں ہے۔1920ءمیں اس نئی رومانی لہر کی اولین نمائندہ نسوانی آواز راحت آراءبیگم کے افسانوں کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ ان کے تین افسانوی مجموعے ”پریمی“،”بانسری“،اور ”غنچہ“ کے عنوانات سے شائع ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ راحت آراءبیگم کا اپنا کوئی مخصوص رنگ نہیں۔ انہوں نے یلدرم اور نیاز فتح پوری کے ساتھ پریم چند کے متحارب رنگوں کو باہم ملا کر پیش کردیا۔
نرول رومانی انگ کی پہلی بھرپور صورت مسز عبدالقادر(اصل نام: غلام زینب خاتون) کے افسانے ہیں۔ مسز عبدالقادر کا پہلا افسانہ ”لاشوں کا شہر“ لگ بھگ 1920ءکی تخلیق ہے۔ یوں ”لاشوں کا شہر“ سے افسانہ ”صدائے جرس“ تک ان کے افسانوں پر امریکی ناول نگار اور افسانہ نگار ایڈگرایلن پو کی چھاپ بہت گہری ہے۔ خاص طور پر افسانہ ”بلائے ناگہاں“ اور ایڈگرایلن پو کے افسانے “The Black Cat” کی حیرت انگیز مشابہت خاص طور پر قابل توجہ ہے۔
مسز عبدالقادر کے افسانوں میں حد درجہ کی پُراسراریت اور تجسّس انسانی نفسیات کی حیرت انگیز جہتوں کی چہرہ نمائی کے وسیلے ہیں۔ جب کہ بعض افسانوں خصوصاً ”راکھشس“،”سمادھ کا بھوت“،”بلائے ناگہاں“،”لاشوںکا شہر“،”صدائے جرس“،”راہبہ“،”ارواحِ خبیثہ“،”شگوفہ“،”کاسہ¿ سر“،”ناگ دیوتا“،”رسیلا“ میں خوف اور دہشت کی کیفیات انہیں اردو ادب میں سب سے الگ تھلگ اور نمایاں مقام عطا کرتی ہیں۔
مسز عبدالقادر نے ایڈگر ایلن پو کے گہرے اثرات کے تحت افسانہ نگاری کا آغاز کیا اور اس میں اُن کی اپنی نفسی کیفیات نے بھی اہم رول ادا کیا۔ بقول مسز عبدالقادر:
”سیاحت کے دوران میں نے انجیل، تورات، زبور اور قرآن مجید کا تفصیلاً مطالعہ کی۔ اس تمام مطالعہ کا مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میرا فلسفہ آواگوں پر یقین ہوگیا اور مجھے یہ خیال آنے لگے کہ میرا دوسرا جنم ہے اور اس لیے میرا اس دنیا میں دل نہیں لگتا۔ لیکن یہ اعتقاد ہندو عقیدے کی و جہ سے نہیں ہوا کیونکہ مجھے ہندوؤں سے بہت نفرت ہے بلکہ میرا یہ اعتقاد مطالعہ سے اور اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر ہوا کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ جب میں کسی چیز کو دیکھتی تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میں اس چیز کو پہلے بھی دیکھ چکی ہوں لیکن یہ یاد نہ آتا کہ یہ چیز پہلے کہاں دیکھی تھی۔“۵
اس نفسی کیفیت کے زیرِ اثر انھوں نے ڈوب کر لکھا:
”فرزانہ کی چیخیں بند ہوچکی تھیں۔ وہ بے حس و حرکت پڑی تھی۔ میں اس بدحواسی میں اٹھا۔ مرتعش ہاتھوں سے بندوق اٹھائی اور ایک لاش کی پیشانی کا نشانہ لے کر داغ دی۔ گولی ٹھیک نشانہ پر بیٹھی۔ اس لاش کا آدھا سر اڑ گیا۔ مگر وہ بدستور بڑھ رہی تھی۔ حتی کہ لاشیں بالکل قریب آگئیں۔ بڑھی ہوئی مایوسی اور بے بسی سے میرا دل بیٹھ رہا تھا۔ میں دیوار کے سہارے کھڑا ہوگیا۔ اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مجھے صرف اتنا معلوم ہوا کہ کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی سخت چیز میرے بدن پر مَس ہوئی۔ اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہ رہا۔“(افسانہ:”لاشوں کا شہر“)
افسانوی مجموعہ ”وادی قاف“ کے افسانے متنوع منظرناموں اور مناظرِ فطرت(خصوصاً قہار فطرت) اور ”راہبہ“ کے افسانے دنیا بھر کی گم نام سیاحت گاہوں کے حوالے سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر دو مجموعوں میں قہار فطرت کے مقابل انسان کھڑا ہے:
”اس کا بدن بخار سے پھنک رہا تھا۔ اس کی آنکھیں لال انگارہ ہورہی تھیں۔ ادھر اُدھر سر پٹختا تھا اور ”مجھے بچاؤ بچاؤ“ کہہ کر جگر خراش چیخیں مارتا، کبھی کہتا ”ہائے چچی حفیظ گرم سلاخوں سے میرا بدن داغ رہی ہے۔“ کبھی کہتا۔” ریشمہ مجھے آتشیں بھالا نہ مارو۔ ہائے مجھے دوزخ کے فرشتے پابجولاں کرکے لے چلے ہیں، مجھے چھڑاؤ۔“
غرض کہ اسی طرح چیختا چلاتا صبح کے وقت مر گیا۔ ادھر طوفان بھی تھم گیا تھا۔“
(افسانہ ”پاداش عمل“ سے اقتباس)
مسز عبدالقادر خود بتاتی ہیں:
”میںنے کبھی کسی کہانی کا پلاٹ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی بلکہ جب کبھی مجھے کسی کہانی کے پلاٹ کی ضرورت پڑے تو میں کسی ویران اور سنسان کھنڈر میں چلی جاتی ہوں تو وہاں ماحول کے تاثرات سے کہانی کا پلاٹ خود بخود سوجھ جاتا ہے۔“
(بحوالہ: ”خود نوشت حالاتِ زندگی“:مملوکہ مرزا حامد بیگ)
اُن کے افسانے نہ صرف موضوعی سطح پر منفرد ہیں بلکہ اسلوبیاتی سطح پر بھی الگ ذائقہ کے حامل ہیں۔ تحیر خیزی اور دہشت ناکی کی پیش کش کے ساتھ ان کا رومانی رویہ انھیں اردو کے بڑے رومانی افسانہ نگاروں میں اہم مقام دلاتا ہے۔
مسزعبدالقادر کے چار افسانوی مجموعے ”لاشوں کا شہر اور دوسرے افسانے“(طبع اول: 1936ئ، ”صدائے جرس“(طبع اوّل:1939ئ) ،”راہبہ اور دوسرے افسانے“(1946ء)اور”وادی¿ قاف اور دوسرے افسانے “ (طبع اول: 1954ئ) کے عنوانات سے شائع ہوئے۔
اردو افسانے میں نرول رومانی لہر کے حوالے سے دوسری توانا آواز حجاب امتیاز علی کی ہے۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ حجاب امتیاز علی کے لڑکپن میں اُن کی والدہ (عباسی بیگم) کی ناوقت موت نے حجاب کو یکسر تنہا ہی نہیں کردیا بلکہ مسز عبدالقادر کی طرح وہ بھی ذہنی اذیت کا شکار رہیں۔ اس عالم میں انھوں نے نثر لطیف لکھ کر نوجوانی میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔ فکشن نگاری کی سطح پر طویل مختصر افسانہ ”میری ناتمام محبت“ مطبوعہ: نیرنگ خیال“ لاہور ۲۳۹۱ءسے انھیں لازوال شہرت ملی۔
پہلے پہل انھوں نے حجاب اسماعیل کے نام سے لکھا۔ امتیاز علی تاج سے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے لگیں۔ اُن کے افسانے رومانی کردار نگاری اور رومانی فضا بندی کے ساتھ اجنبیت کا احساس لیے ہوئے ہیں۔ اس پر مُستزاد رومان پرور اور سحر آفریں ماحول ہے۔ جس کا جنم جنوبی ہند کے ضلع کرشنا کے مضافات اور دریائے گوداوری سے ہوا۔ کنول کے پھول، کیوڑے کے جنگلات، تاڑ کے سربلند درخت، دھان کے کھیت۰ حواصلیں، کال کلیچیاں، سنگھا پوری مینائیں اور اگیا بیتال سے پیدا ہونے والی ہیبت ناکی۔ یہ اردو میں بصری رومانیت کا پہلا تجربہ تھا۔ لیکن حجاب کے افسانوں کی طلسماتی فضا اور رومان میں ڈوبے ڈاکٹر گار، چچا لوث، دادی زبیدہ، رُوحی، صبوحی، صوفی اور ریحانی جیسے کرداروں کی نقل و حرکت پُراسرار تو ہے، مسز عبدالقادر کے افسانوی فضا کی طرح ہیبت ناک ہر گز نہیں۔
حجاب امتیاز علی نے تاریخ، نفسیات، سائنس، علم نجوم اور مذاہب عالم کا مطالعہ جم کر کیا تھا، اِ س لیے وہ کردار نگاری کی سطح پر دادی زبیدہ، جسوتی، سرجعفر، ڈاکٹرگار، زوناش اور چچا لوث جیسے بڑے رومانی کردار خلق کرپائیں۔ یہ سب کردار حجاب کے تخلیق کردہ فنٹاسٹک ماحول میں جیتے ہیں۔ یہ حجاب کی خیالی ریاستوں شموگیہ اور کیباس کے باشندے ہیں۔ جو اکثر چہل قدمی کرتے ہوئے حجاب کے خلق کردہ خیالی جنگل ناشپاس تک چلے جاتے ہیں۔
حجاب امتیاز علی اپنی افتادِ طبع کی تشکیل سے متعلق خود بتاتی ہیں:
”میری ادبی زندگی کا گہرا تعلق میرے بچپن کی تین چیزوں سے ہے۔ فضا، ماحول اور حالات میرے بچپن کا ابتدائی زمانہ جنوب میں دریائے گوداوری کے ہوشربا کناروں پر گزرا۔
….ہوتا یہ تھا کہ کالی اندھیری راتوں میں گوداوری کے سنسان کناروں پر ہندوؤں کی لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ جلانے کے دوران ہڈیاں اور سر اس قدر ڈراؤنے شور کے ساتھ چیختے تھے کہ انہیں سن کر ہوش اڑ جاتے تھے۔ اس سرزمین پر گوشت پوست سے عاری انسانی ڈھانچے اور ہڈیاں جگہ جگہ پڑی رہتی تھیں اور چیخ چیخ کر انسان کے فانی ہونے کا یقین دلایا کرتی تھیں۔ ا تنا ہی نہیں بلکہ جب ان ساحلوں پر رات پڑتی تو ہڈیوں کا فاسفورس اندھیرے میں جل اٹھتا تھا اور ٹیلوں فاصلے سے غول بیابانی کی طرح ان ویرانوں میں روشنیاں رقصاں نظر آتی تھیں۔ یہ دہشت خیز منظر ہیبت ناک کہانیوں کے لکھنے کی ترغیب دیتا تھا۔ غرض ان کا حسن اور رات کی خوفناکی یہ تھی فضا۔ ایسی فضا میں جو شخص بھی پلے اور بڑھے اس میں تھوڑی بہت ادبیت، شعریت اور وحشت نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو۔
تیسری بات حالات کی تھی۔ جنھوں نے مجھے کتاب و قلم کی قبر میں مدفون کردیا۔ مدفون کا لفظ میں نے اس لیے استعمال کیا کہ اگر میں نے اس زمانے میں اپنے آپ کو ادبی مشاغل میں دفن نہ کردیا ہوتا تو میں کبھی کی ختم ہوگئی ہوتی۔ وہ زمانہ مرے لیے بے حد حزن و ملال ا تھا۔ مری والدہ ابھی جواں سال ہی تھیں کہ اللہ کو پیاری ہوگئیں ان کی موت مرے خرمن پر بجلی بن کر گری۔ اس زمانے میں میرا ذہنی توازن درست نہ تھا۔ لڑکپن تھا، اس پر شدید ذہنی دھچکا ماں کی موت کا تھا۔ ان دونوں نے مل کر مجھے اعصابی بنا دیا تھا۔“۶
حجاب امتیاز علی کے ان خالص رومانی افسانوں کے ساتھ ساتھ ایسے رومانی افسانے بھی لکھے جن میں زندگی کے تلخ حقائق کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس خصوص میں ”عناصر میں ظہور ترتیب“ اور ”پے انگ گیسٹ“ جیسے افسانے الگ ذائقے کے حامل ہیں لیکن اُن کے آخری افسانے ”درزی“ تک اُن سے مخصوص رومانی فضا قائم و دائم رہی۔
حجاب امتیاز علی کے متعدد افسانوی مجموعے بہ عنوان:”میری ناتمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے“(طبع اول: 1932)، ”لاش اور دوسرے ہیبت ناک افسانے“(طبع اول:1933)، ”کاؤنٹ الیاس کی موت“(طبع اول:1935)، ”تحفے اور دوسرے شگفتہ افسانے “(طبع اول: 1939)، ”صنوبر کے سائے اور دوسرے رومانی افسانے“(1939ءسے قبل)، ”ممی خانہ اور دوسرے ہیبت ناک افسانے“(1946ءسے قبل)،”ڈاکٹر گار کے افسانے“(1946ءسے قبل) اور ”وہ بہاریں یہ خزائیں“(طبع اول: 1946ء) شائع ہوچکے ہیں۔
رومان نگاری کی اس روایت میں سحاب قزلباش کا افسانوی مجموعہ: ”بدلیاں“، زبیدہ سلطان کے دو افسانوی مجموعے ”لمحات رنگین“ اور ”شبستان“ ، سعیدہ عبدل کا افسانوی مجموعہ ”پرچھائیاں“، مشہوراداکارہ خورشید کا مجموعہ ”آبشار“ ، سعیدہ بزمی کا افسانوی مجموعہ:”حجاب“ اور نجمہ انوارالحق کا افسانوی مجموعہ ”پھول کی زبانی“ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ان باقاعدہ رومانی افسانہ نگار خواتین کے علاوہ فلمی دنیا سے متعلق تین نام ایسے ہیں جنھوں نے جزوقتی طور پر اچھے رومانی افسانے لکھے۔ ان میں اسٹیج کی ملکہ شریفہ بائی اور مشہور زمانہ اداکار نثار کی اداکارہ بیٹی حسن بانو(اصل نام: روشن آراءپ:1919) مشہور مغنیہ جدن بائی کی اداکارہ بیٹی نرگس (اصل نام: کنیز فاطمہ پ:1928) اور ادکارہ منورما(پ:1926) کے نام خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
رومانی افسانہ نگار خواتین میں طاہرہ دیوی شیرازی کا نام بھی شامل کیا جاتا رہا ہے۔ جس کا بارہ افسانوں پر مشتمل ایک افسانوی مجموعہ بھی 1935ءمیں شائع ہوا، لیکن درحقیقت طاہرہ دیوی شیرازی کا وجود نہ تھا۔ اس نام کے پردے میں چراغ حسن حسرت اور ضمیر جعفری تھے۔
1932ءمیں پروفیسر محمد مجیب کا افسانوی مجموعہ ”کیمیا گر اور دوسرے افسانے“ اور ”انگارے“ مرتبہ احمد علی اردو افسانے کے نسوانی لحن کو بھی نئی جہت عطا کر گئے۔ یہ اعلامیہ تھا مذہبی اور معاشرتی جکڑ بندیوں سے بغاوت کا۔ جبکہ رشید جہاںکا نام ”انگارے گروپ“ کا دوسرا اہم نام ہے۔ ان کا پہلا افسانہ ”سلمیٰ“ بہ زبان انگریزی، ازابیلا تھوبرن کالج، لکھنو کے کالج میگزین میں1932ءمیں شائع ہوا۔ ازاں بعد اس افسانے کا ترجمہ آل احمد سرور نے کیا اور اب وہ افسانہ رشید جہاں کے افسانوی مجموعہ ”شعلہ جوالا“ میں شامل ہے۔
رشید جہاںکا تعلق آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی سے تھا۔”انگارے“ میں شامل اُن کا افسانہ ”دلّی کی سیر“ یوں تو اس مجموعے میں شامل دیگر افسانوں کی نسبت بے ضرر شے ہے لیکن آگے چل کر انھوںنے جن موضوعات پر ہاتھ ڈالا وہ ان کی بے پناہ جرا¿ت فکر اور جرا¿ت بیان کو ظاہر کرتا ہے۔ بلکہ کہاجاسکتا ہے کہ آج بھی ”سودا“ جیسا افسانہ لکھنا مرد افسانہ نگاروں کے بس کی بات نہیں۔
”ماشاءاللہ کیا کہنے، آپ کیوں پہلے جائیں گے! یہ خوب رہی کہ آپ تو وہاں مزے کریں اور ہمارا جوش یہیں کھڑے کھڑے ختم ہوجائے…. اس اندھیرے میں وہ تینوں مرد برابر ہلتے ہوئے نظر آرہے تھے ایک عورت اور تین مرد اور تینوں اتنے سخت بے چین اور بے تاب، فیصلہ مشکل تھا ۔ ان کی آوازیں جوش حیوانی سے اسی طرح کانپ رہی تھیں جس طرح کہ ان کے جسم متحرک تھے۔ یہ عورت بالکل خاموش تھی۔ بازار میں جب ایک کتیا کے پیچھے تین چار کتے پڑتے ہیں اور اسی طرح جوش اور بے تابی دکھاتے ہیں تو کم بخت کتیا بھی اتنے خریداروں کا ہجوم دیکھ کر جان چھپا کر بھاگتی ہے لیکن یہ انسان عورت جس کو مالداروں اور نیک شریف عورتوں نے کتیا سے بھی نیچا کردیا تھا ایک ہاتھ سے کار پکڑ کر جھولتی رہی۔“
”سودا“(رشید جہاں)
رشید جہاں کے افسانوں میں چرکہ لگانے اور چوٹ کرنے کا عنصر نمایاں ہے۔ جیسے اُس دور کی ادبی فضا پر چھائی ہوئی رومانیت کا ردِ عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ لیکن بقول قرة العین حیدر:
”1938ءتک پہنچتے پہنچتے دنیا بدل چکی تھی۔ گھر آنگن وہی تھے۔ مگر باہر کی دنیا میں”آندھیاں“ چل رہی تھیں۔ ڈیوڑھیوں پر لٹکے ہوئے ٹاٹ کے ٹکڑے اور محل سراؤں اور کوٹھوں کے ڈرائنگ رومز کے مخملیں پردے، سب کے سب اس آندھی میں پھٹپھٹانے لگے تھے اور اُن کے اٹھنے سے اندر کی ایک بالکل نئی اور غیر متوقع جھلک دکھائی دے گئی تھی۔“۷
رشید جہاں نے ناقص اقتصادی نظام اور فرسودہ معاشرت کی غلط روش کو اس طور پر اجاگر کیا کہ سب ششدر رہ گئے۔ رشید جہاں وہ پہلی باہمت خاتون ہیں جنہوںنے حد درجہ جرا¿ت اور بے باکی کے ساتھ سماج کی کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے مرد کی انسانی دوستی، غیرت اور حمیت کو للکارا۔
افسانہ ”استخارہ“ میں ایک مظلوم دلہن کی افسانوی روداد بیان کی گئی ہے…. ایک طرف مولانا خادم علی اپنی تیسری بیوہ کنیز کے بطن سے سالانہ ایک بچے کی آمد کو یقینی بنانے میں مصروف تھے اور دوسری طرف زچگی کے موقع پر اس امر کے لیے بھی استخارہ لینے کو اپنا ایمان جانتے ہیں کہ زچگی ہسپتال میں کرائی جائے یا کسی دائی کے حوالے کنیز کو کیا جائے۔ چنانچہ کنیز خادم علی کے استخارے کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ مگر اس افسانے کا انجام معنی خیز ہے:
”کنیز اب اتنی سخت بیمار تھی اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی لیکن سانس ہے تو آس ہے۔ خادم علی نے عمر میں پہلی دفعہ استخارہ کی بغیر اجازت ایک کام کیا اور وہ یہ تھا کہ جا کر لیڈی ڈاکٹر کو بلالائے۔“
رشید جہاں نے محمد حسن عسکری کے نام ایک خط میں اپنا نظریہ فن بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:
”میں اپنے افسانوں میں یہی کوشش کرتی ہوں کہ جو میرے خیالات ہیں، ان کی ترجمانی ایمانداری سے کروں۔“۸
افسانہ ”سڑک“ میں جولائی اگست 1947ءکا ہندوستان پوری طرح اپنی جھلک دکھاتا ہے۔رشید جہاں نے ڈراموں کے علاوہ کل 19 افسانے لکھے۔ جو ان کے تین افسانوی مجموعوں ”عورت اور دیگر افسانے“(طبع اول: نومبر1937)، ”شعلہ¿ جوالا“(طبع اول:1928) اور ”وہ اور دوسرے افسانے“ (طبع اول :1977) میں شامل ہیں۔
شکیلہ اختر (بیگم اختر اورینوی) کا تعلق بہار سے ہے۔ کچھ یہی سبب ہے کہ ان کے بیشتر افسانوں کا لینڈ اسکیپ بہار کے دیہات رہے۔ دیہی معاشرت کی پیش کش کے حوالے سے ان کے مشاہدے کی گہرائی اور بیان کی سادگی خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ ترقی پسند نظریات کے سبب مالک اور مزارع کی باہمی کش مکش خاص طور پر شکیلہ اختر کا من پسند موضوع رہالیکن کبھی کبھار انھوں نے افسانہ ”تین ستارے“ (1944) جیسے رومانی افسانے بھی لکھے۔ ”آنکھ مچولی“ ان کا نمائندہ افسانہ شمار کیا جاتا ہے لہٰذا اسی افسانے سے ایک اقتباس دیکھیے:
”وہ بچپن سے بہت شوخ و چنچل اور بڑی ہنس مکھ تھی، دیکھنے والے اسے دیکھ کر کرکہتے ”ہنستے ہی ہنستے تو گھر بستے ہیں“ اور جب اس کی زندگی کا دوسرا اور سب سے اہم دور شروع ہوا تو اس کے تبسم اور زیادہ رنگین ہوگئے اور ہنسی کی سریلی جھنکاریں ستاروں کی طرح تاب ناک ہوگئیں۔ اسے تنہائی سے وحشت ہوتی تھی، اسی لیے وہ رنگ و بو کی طرح ہر محفل پر چھائی رہتی۔“ (افسانہ :”آنکھ مچولی“)
شکیلہ اختر کے پانچ افسانوی مجموعے بہ عنوان ”درپن“(1943۱) ، ”آگ میں پھول“،”آنکھ مچولی“(1947)، ”لہو کے مول“ اور ”ڈائن“(1956) منظر عام پر آئے۔ ا س کے باوجود ان کے لاتعداد افسانے ادبی رسائل میں بکھرے پڑے ہیں جنھیں سمیٹنے کی صورت میں کئی مجموعوں کا مواد مل سکتا ہے۔
رضیہ سجاد ظہیر کے افسانوں کا خاص موضوع متوسط گھرانوں کی روز مرہ زندگی ہے، جس میں سماج کی بے انصافیاں اور یکایک نمودار ہونے والے انہونے واقعات فرد کی زندگی کو تلپٹ کردیتے ہیں، ایک مثال:”نئی نویلی“
نظریاتی طور پر رضیہ سجاد ظہیر سرکردہ ترقی پسند خاتون تھیں۔ اپنے میاں سجاد ظہیر کی ہمراہی میں آل انڈیا کمیونسٹ پارٹی سے قربت کے سبب ان کے افسانوں میں معاشرتی اونچ نیچ کے باہمی تفاوت کا تجزیہ خصوصی طور پر توجہ طلب ہے۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں ”لنگڑی ممانی“،”نیچ“،”معجزہ“اور ”نگوڑی چلی آوے“ خاص طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ رضیہ سجاد ظہیر کے دو افسانوی مجموعے ”اللہ کی مرضی“ اور ”رنگ روتے ہیں“ شائع ہوچکے ہیں۔
عصمت چغتائی نے ابتدا میں حجاب اور نیاز فتح پوری کے زیر اثر رومانی افسانے لکھے لیکن 1938ءتک اُن کے افسانے اشتراکی فکر کے نمائندہ بن گئے۔ ہندوستان کے گھٹن زدہ ماحول کی لاچار عورت عصمت چغتائی کا موضوع خاص ہے اور اس حوالے سے عصمت کا باغیانہ لہجہ سب کو حیران کر گیا۔ بقول پطرس بخاری:”انھوں نے بعض ایسی پرانی فصیلوں میں رخنے ڈال دیئے ہیں کہ جب تک وہ کھڑی تھیں، کئی رستے آنکھوں سے اوجھل تھے۔“
عصمت کے اولین افسانے ”کافر“ مطبوعہ ”ساقی“ دہلی1938ءکی اشاعت کے بعدیکے بعد دیگرے ”خدمت گار“،”بچپن“ اور” ڈھیٹ“ جیسے چُلبلے افسانے ۸۳۹۱ءہی میں سامنے آگئے اور 1940ءمیں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ”کلیاں“ شائع ہوا تو مولانا صلا ح الدین احمد نے انھیں ”بصیرت کی ایک نہایت بے باک اور صداقت شعار ترجمان“ قرار دیا۔
عصمت چغتائی کے شاہکار افسانوں :”لحاف“،”ساس“،”چھوئی موئی“،”پنکچر“،”ایک بات“، ”چابڑے“،”جڑیں“،”ننھی کی نانی“اور مٹھی مالش“ کی گونج اردو افسانے کے ایوان میں موجود تھی کہ انھوں نے مغل بچہ“ اور ”گلدان“ جیسے دو شاہکار افسانے لکھ کر سب سے الگ اور نمایاں مقام حاصل کرلیا۔ اب وہ اپنے یکسر منفرد کرداروں اور احساسات کے تعمیر کردہ جہان کی باسی تھیں جسے کوئی اور چھوکر بھی نہیں گزرا۔
عصمت چغتائی کے متعددافسانوی مجموعے بہ عنوان ”کلیاں“(1940) ، ”چوٹیں“ (1942)، ”ایک بات“(1952) ، ”چھوئی موئی“(1952) ، ”دو ہاتھ‘ (1962) ، ”زہر“ ،”پہلی لڑکی“،”خرید لو“،” لحاف“،”بدن کی خوشبو“ اور ”آدھی عورت ، آدھا خواب“ شائع ہوا۔
برانٹے سسٹرز کی طرح خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے نام اردو کے افسانوی اُفق پر طویل مدت چمکے ہیں۔ خدیجہ مستور نے افسانہ نگاری کا آغاز 1938ء میں ہفت روزہ ”خیام“ لاہور میں لکھنے سے کیا اور ان کا پہلا باقاعدہ افسانہ ”پہیا“ مجلہ ”عالمگیر“ لاہور1941ءمیں شائع ہوا۔اس کے فوراً بعد انھوں نے اس دور کے اہم ادبی پرچوں از قسم ”ساقی“ دہلی اور ”ادب لطیف“ لاہور میں افسانہ ”جوانی“،”موہنی“،”یہ بڈھے“،” یہ ہم ہیں“،” کیا پایا“،”لاشیں“،”پتنگ“ اور ”دہائی“ جیسے افسانے لکھ کر اپنی پہچان کروائی۔ ۵۴۹۱ءمیں جب ان کا افسانہ ”ہُنہ“ اور افسانہ ”یہ گاؤں ہے“ شائع ہوئے تو اس دور کے اہم نقاد احتشام حسین نے آل انڈیا ریڈیو لکھنو¿ کے ایک ادبی جائزے میں ان کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ۔ یہ خدیجہ مستور کا آغاز تھا۔
اس زمانے میں ترقی پسند تحریک عروج پر تھی۔ جس کی فرنٹ لائین پر رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے ساتھ خدیجہ مستور بھی کھڑی دکھائی دیں۔ ان کے ابتدائی افسانوں میں معاشرتی حقائق کا بیان بھی ہے اور رومانی لحن بھی۔ اس طریقہ کار کے نمونے ان کے پہلے افسانوی مجموعے ”کھیل“ میں ملتے ہیں جب کہ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ”بوچھاڑ“ ترقی پسند افسانے کے پہچان ہے۔ اب ان کے افسانوں میں آزادی کی تڑپ، جنسی گھٹن، افلاس اور محرومی جیسے موضوعات فنکارانہ چابک دستی سے بیان کیے گئے۔ اس حوالے سے خاص طور پر افسانہ ”ہُنہ“،”چیلیں“ اور ”چپکے چپکے“ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
جزئیات نگاری کا کمال دیکھنا ہوتو خدیجہ مستور کے افسانے دیکھیے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا تیسرا مجموعہ ”چند روز اور“ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں ایک افسانہ ”ایک خط“قیام پاکستان سے قبل 1945ءکا تحریر کردہ ہے۔ 1947ءکے بعد ان کے دیگر دو افسانوی مجموعے ”تھکے ہارے“ اور ”ٹھنڈا میٹھا پانی“ کے عنوانات سے سامنے آئے۔
”ہینڈ پمپ“ اور”مینوں لے چلے بابلا“ خدیجہ مستور کے نمائندہ افسانے ہیں۔خدیجہ مستور کی طرح ہاجرہ مسرور کی پیدائش بھی لکھنو¿ کی ہے لیکن ان دونوں کا بچپن اُتر پردیش کے مختلف قصبہ جات میں گزرا اور دونوں کو ادبی دنیا سے متعارف کروانے کا سہرا ”خیام“ لاہور اور ”عالمگیر“ لاہور کے مدیر عبدالحلیم شبلی کے سر بندھتا ہے۔ ہاجرہ مسرور کا پہلا افسانہ ”لاوارث لاش“ کے عنوانات سے 1941ءکے ہفت روزہ ”خیام“ میں شائع ہوا۔ یوں1944۱ءتک وہ ادبی حلقوں میں متعارف ہوچکی تھیں۔ جس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کا ایک شاندار افسانہ ”بندر کا گھاؤ“1944ءکے مجلہ ”ساقی“ دہلی میں شائع ہوا۔ اس افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
”پنجرے کا پنچھی اڑان کے لیے پَر تول رہا تھا۔
رات کو ماں نے پلنگ پر لیٹتے ہی چابیوں کا گُچھا کمر بند سے کھول کر دیتے ہوئے کہا۔
”لو یہ…. اور کوٹھڑی کا تالا کھول کر زینے کے دروازے میں ڈال دو۔ آج تو بچے کی پتنگ پر نیت خراب کی۔ کل کو گھر کا صفایا کردے گا۔ اے ہاں نگوڑا!“ اور پھر اپنا گھڑا جیسا چمکتا ہوا پیٹ کھول کر اطمینان سے ٹانگیںپساردیں۔ اپنے بھر حفاظت کرچکی تھیں۔ لیکن ادہر شروع ہوگیا کاٹ پیچ۔ وہ کوٹھڑی کا تالا کھولتے ہوئے سوچ رہی تھی ”چھت سے چھت تو ملی ہے آج اس سے وہ سب کچھ کیوں نہ کہہ ڈالوں جو ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک دل میں بھرا ہوا ہے۔“ زینے کا دروازہ مقفل کردیا گیا لیکن گچھے سے اس کی چابی غائب ہو کر تکیہ کے نیچے پہنچ گئی۔“
1944ءمیں ہاجرہ مسرور نے اوپر تلے ”ہائے اللہ“،”موہنی“،”تل اوٹ پہاڑ“،”نیلم“،”میرا بھیا“ اور فروزاں جیسے عمدہ افسانے لکھ کر افسانہ نگاروں کی فرنٹ لائن میں اپنی جگہ بنالی۔ 1945ءمیں ان کے دو افسانے ”گربہ مسکین“ اور ”کوٹھی اور کوٹھڑی“ سامنے آئے جن کا ذکر ممتاز شیریں نے ”نیا دور“ بنگلور(1945) کے ادبی جائزے میں کیا۔
اپنی بہن خدیجہ مستور کی طرح ہاجرہ مسرور بھی انجمن ترقی پسند مصنفین سے جڑی ہوئی تھیں اور ان کا پسندیدہ موضوع سماجی ناانصافیوں میں گھری ہوئی عورت ہے۔ ہاجرہ مسرور کے افسانوں کا ابتدائیہ خوبصورت جزئیات نگاری کے سبب خاموشی کے ساتھ رفتہ رفتہ سارے منظرنامے تک پھیلتا ہے اور اختتامیہ یکلخت سکڑ کر ایک نئی ترتیبی ہئیت اختیار کرکے چونکا دیتا ہے۔ افسانہ ”ننھے میاں“ کا ابتدائیہ ملاحظہ ہو:
”مردانے کمرے میں ننھے میاں اور ان کے دوست بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ باتیں بھی ایسی جو بار بار کانا پھوسیوں میں تبدیل ہوجاتیں لیکن نہ جانے کیوں ننھے میاں کی خوب صورت آنکھیں بوجھل ہوئی جارہی تھیں اور پورا چہرہ لال بھبھوکا۔ وہ رہ رہ کر پہلو بدل رہے تھے ان کا دوست جو عمر میں ان سے بھی کم دکھائی دیتا تھا اپنی پتلیاں گھما گھما کر کھسر پھسر کرتا جارہاتھا۔
”اماں بس کرو“ ننھے میاں بری طرح کسمسا کر بولے۔
”سنو تو یار! پھر ایک دن وہ آگئی جھانسے میں“ …. وہ پھر سرگوشیاں کرنے لگا۔
ننھے میاں کا چہرہ ایک بڑا سا دہکتا ہوا انگارہ معلوم ہونے لگا۔“
(افسانہ: ”ننھے میاں“)
ہاجرہ مسرور کے افسانوں میں سماجی الجھیڑوں پر چٹکیاں لینے اور زہر خند کا انداز نمایاں ہے(مثالیں:”بندر کا گھاؤ“ اور ”ہائے اللہ“) یہاں نوجوان لڑکیوں کے جنسی مسائل کو عصمت چغتائی کی طرح ہر قیدو بند سے آزاد کرکے نہیں دیکھا گیا بلکہ ہلکے ہلکے اشارے کنائے ہیں۔ البتہ ہاجرہ کے ہاں عصمت کی نسبت طنز کی کاٹ زیادہ گہری ہے مثال: ”چراغ کی لَو“
ہاجرہ مسرور کے اولین افسانوی مجموعے ”چرکے“ (1944) میں شامل پانچ افسانے: ”چاند“،”ڈھونگ“،”اندھیرے میں“،”تھپڑ“ اور ”کدھر“ طبقہ نسواں کی مظلومیت اور بے بسی کے آئینہ دار ہیں۔ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ ”ہائے اللہ“ ۶۴۹۱ءمیں نکلا۔ دیگر افسانوی مجموعوں میں ”چوری چھپے“،”اندھیرے اجالے“،”تیسری منزل“اور ”چاند کی دوسری طرف“ یادگار ہیں۔
شیلا سمیر کا تعلق جموں و کشمیر سے تھا۔ بعد میں پنجاب آبسیں۔ اُن کا ایک نمائندہ افسانہ ”برکت“ بشیر ہندی کی مرتب کردہ انتھالوجی ”میرا پسندیدہ افسانہ “(1942) میں شامل ہے۔ افسانے سے اقتباس ملاحظہ ہو:
”گاؤں میں ڈاک والے کا آنا ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے۔ میں سمٹ کر، پلو نیچا کرکے دیوار سے ہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ خط لال دین کے نام تھا۔ میرے ہونٹ پھڑک رہے تھے۔“ (افسانہ :”برکت“)
کوشلیا اشک (بیگم اوپندرناتھ اشک) کا پہلا افسانہ ”تھکان“1943ءمیں شائع ہوا۔1944ءمیں انھوں نے ”فیصلہ“ اور ”نمو“ جیسے کامیاب افسانے لکھے۔ اُن کا افسانہ ”جگن ناتھ“ اردو افسانوں کی اہم انتھالوجیز میں شامل ہے۔
سرلا دیوی (کرشن چندر اور مہندر ناتھ کی ہمشیرہ) نے بہت کم لیکن بہت عمدہ لکھا۔ ان کا افسانہ ”چاند ہوگیا“ نقوش، لاہور افسانہ نمبر 1955ءکا بہترین افسانہ ہے۔ اسی طرح ناہید عالم بہت عمدہ لکھنے والی تھیں لیکن کم لکھا۔ ان کا افسانہ ”رخشی“ مطبوعہ ”سویرا“ لاہور شمارہ :۴ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
اختر جمال کا پہلا افسانہ ”پیاسی دھرتی“ قدوس صہبائی کے ادبی مجلہ ”انصاری“ دہلی 1945ءمیں شائع ہوا تھا۔ اُس کے بعد انھوں نے ”افکار“ بھوپال اور ”نقوش“ لاہور سے شہرت پائی۔ اختر جمال کو ترقی پسند افسانے کے نسوانی لحن کی آخری نمائندہ آواز کہہ سکتے ہیں۔ یہ بنیادی طو رپر امن کی پرچارک ہیں۔ ان کے چار افسانوی مجموعے بہ عنوان ”پھول اور بارود“ (1967) ، ”انگلیاں فگار اپنی“ (1971) ”زرد پتوں کا بن“ (1981) اور ”سمجھوتہ ایکسپریس“(1990) شائع ہوئے۔
خواتین افسانہ نگاروں میں اس ترقی پسندانہ لحن کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے نام دکھائی دیتے ہیں جو موضوعاتی تنوع، تکنیک کے تجربات اور اسلوب کے حوالے سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں بطور خاص صالحہ عابد حسین، تسنیم سلیم چھتاری، شائستہ اکرام اللہ، صدیقہ بیگم سیوہاروی، قرة العین حیدر، جیلانی بانو، ممتاز شیریں، جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، واجدہ تبسم اور بانو قدسیہ بہت نمایاں ہیں۔ صالحہ عابد حسین (بیگم ڈاکٹر عابد حسین) کے افسانوں کا پہلا مجموعہ :”بات چیت“(1928ئ) تھا۔ اس کے بعد اُن کے تین دیگر افسانوی مجموعے ”ساز ہستی“، ”تونگے“ اور”نراس میں آس“ کے عنوانات سے شائع ہوئے۔
معاشرتی مسائل اور گھریلو زندگی کی پیش کش میں صالحہ عابد حسین کی شگفتگی بیان اور لطافت فکر ان کی خاص پہچان ہے۔
”شام کا وقت تھا۔ بے وقت کی بارش نے موسم خوش گوار کردیا تھا۔ آسمان پر بادلوں کے ٹکڑے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ جن کے بیچ بیچ میں گہرے نیلے آسمان کی جھلک بڑی دل کش تھی۔ سورج کی گول تھال دھیرے دھیرے مغرب کے اُفق کی طرف سرک رہی تھی اور اس کے چاروں طرف قوس و قزح کے حسین رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ پکّے کھیتوں کی سنہری بالیاں ہوا سے ہلکورے لے رہی تھیں۔ گھاس کا دھانی رنگ کچھ اور نکھر آیا تھا۔“
(افسانہ: ”تفریح“ سے اقتباس)
تسنیم سلیم چھتاری کی پیدائش نینی تال کی ہے اور ان کے افسانوں کا خاص موضوع سفید پوش طبقے کے سماجی اور نفسیاتی مسائل رہے ہیں(ایک مثال:”کاش“)۔ متوسط اور اعلی درجے کی روز مرہ زندگی کی پیش کش میں انھیں خاص ملکہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موضوعات میں رنگا رنگی نہ ہونے کے باوجود انھیں ایک زمانے میں حد درجہ مقبولیت حاصل رہی۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
”سائنس کا گھنٹہ تھا اور اسٹرانومی پڑھائی جارہی تھی۔ ایک لڑکے نے پروفیسر سے پوچھا۔”تارے کیوں ٹوٹ جاتے ہیں؟“ پروفیسر صاحب اس وقت لیکچر میں گم تھے۔ انھوں نے اس سوال پر دھیان نہیں دیا۔
اسی لڑکے نے پھر یہی سوال کیا اور پروفیسر صاحب نے دوبارہ بھی نہیں سنا تو میرے قریب سے ایک دوسرے لڑکے نے آہستہ سے کہا۔
”مجھ سے پوچھو…. جب کسی کی موت آتی ہے تو تارا ٹوٹتا ہے۔“
”جب کسی انسان کی موت آتی ہے تو آسان سے ایک چمکتا ہوا تارا ٹوٹ کر تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔“ اس فقرے سے سب کے کان آشنا تھے۔ یہ بات لاکھ مرتبہ چمکتے تارے کی طرح دل کے آسمان پر طلوع ہوئی تھی اور تکلیف کی اندھیری گہرائیوں میں کھو گئی تھی۔
مجھے اس جواب نے وہ ساری کہانی یاد دلا دی جس میں ایک تارہ نکلا، چمکا اور پھر اپنے پیچھے یاد کی گہری لکیر چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے غائب ہوگیا۔“
(افسانہ: ”ٹوٹ گیا اِک تارا“)
تسنیم سلیم چھتاری کے بیان میں مزاح کی چاشنی او رشوخی ان کی الگ سے پہچان کا باعث بنی۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ”کسک“(1942) اور ”قصص شرر کے بعد“یادگار ہیں۔
شائستہ اکرام اللہ کی نظر اردو افسانے پر بہت گہری ہے۔ انھیں اردو فکشن کی تنقید لکھنے کے حوالے سے خواتین میں اولیت حاصل ہے لیکن انھوں نے خود بہت کم افسانے لکھے۔ ان سے ایک افسانوی مجموعہ ’کوششِ ناتمام“ یادگار ہے۔
صدیقہ بیگم سیوہاروی کے افسانوں میں موضوعات اور منظرناموں کا تبدیل ہوتا ہوا ایک طویل سلسلہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ انھیں ماضی کو حال میں دیکھنے دکھانے پر حد درجہ عبور حاصل ہے۔ ان کا قلم تنگ و تاریک گلی محلوں، بنگال کے قحط زدہ علاقوں کے ساتھ ساتھ اطلس و کمخواب سے سجے ایوانوں کا احاطہ یکساں قدرت کے ساتھ کرتا ہے۔ ایسے میں بیان کی شگفتگی اور ہندی گیتوں کی فضا بندی میں اُن کے منفرد اسلوب کی پہچان ہے۔ مثالیں:”ملہار ہے یا دیپک“ اور ”روپ چند“۔
”اگر ندی کے پاس سوکھے درخت کا تنا نہ ہوتا تو لوگ ضرور پوچھتے کہ آج تک بوڑھا روپ چند ندی کے کنارے کیسے بیٹھا رہ گیا تھا، یہ تیز و تند ہوا کے جھونکے اس کا کچھ بھی تو نہ بگاڑ سکے تھے، ریت کے ٹیلے بنتے اور بگڑتے رہے مگر وہ درخت نہ تو کبھی ہرا ہوا اور نہ اس پر کبھی پھل پھول ہی کھلے اور نہ پت جھڑ میں اس کے نیچے سوکھی پتیاں ہی نظر آئیں۔“ (افسانہ: ”رُوپ چند“)
صدیقہ بیگم سیوہاروی کے متعدد افسانوی مجموعے شائع ہوئے، جن میں سے ”پلکوں میں آنسوں“،”ہچکیاں“،”دود ھ اور خون“،”آنکھ مچولی“،”درد کے افسانے“ اور ”رقصِ بسمل“ خاص طور پر یاد رکھے جائیں گے۔
قرة العین حیدر کا پہلا افسانہ ”ہمایوں“ لاہور1944ءمیں سامنے آیا۔ اُن کے ابتدائی افسانے خصوصاً ”دیودار کے درخت“،” میری گلی میں ایک پردیسی“ اور ”خوابوں کے محل“ واضح طور پر رومانی لحن کے حامل ہیں۔ یوں قرة العین حیدر کی افسانہ نگاری کا آغاز رومانی افسانہ نگاروں کے زیر اثر ہوا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ قرة العین حیدر نے ماحولیاتی سطح پر اُس مراعات یافتہ طبقے کی عکاسی کی جس کے بارے میں متوسط اور زیریں طبقے میں آدھی ادھوری معلومات پائی جاتی تھیں۔قرة العین حیدر کے پہلے افسانوی مجموعے ”ستاروں سے آگے“ (طبع اوّل 1947ء) کے افسانوں کی رومانی فضا بندی، کتھا کلی اوربرج کی محفلوں اورکرداری سطح پر بورژوا نسوانی کردارو ںکی بظاہر لایعنی مصروفیات میں بھی ایک معنویت تھی۔ اُن افسانوں میں ترقی پسند افسانہ نگاروں کی طرح بنگال کا قحط دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن مایخل اینجلو کو زیر بحث لانے والے بالائی طبقے کے کرداروں کی عکاسی اتنی بے معنی نہیں جتنی کہ اُس دور کے ناقدین کو دکھائی دی۔ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کی پیش کش کے مقابل ماضی قریب کے مراعات یافتہ طبقے کی عکاسی قرة العین حیدر کی عطا ءخاص ہے۔
قرة العین حیدر کا ایک منفرد اسلوبِ تحریر ہے جسے تاریخ اور سماجیات کے گہرے مطالعے نے جِلا بخشی ہے۔ ان کے ہاں لفظیات کی سطح پر حسیاتی تاثر کی موسیقیت نے جنم لیا ہے جس کی خوبصورت امثال ”فصل گل آئی یا اجل آئی“،”یہ داغ داغ اجالا“،”کارمن“ اور ”سرراہے“ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔
ان کے شاہکار افسانوں میں ”کارمن“،”جب طوفان گزر گیا“،”دحلہ بہ دجلہ یم بہ یم“،”فوٹوگرافر“ اور کیکٹس لینڈ“ بہت نمایاں ہیں۔
”فوٹوگرافر نے چونک کر اُن کو دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کی۔ پھر خاتون کے جھریوں والے چہرے پر نظر ڈال کر الم سے دوسری طرف دیکھنے لگا۔ خاتون کہتی ہیں…. اُن کی آواز بھی بدل چکی تھی۔ چہرے پر درشتی اور سختی تھی اور انداز میں چڑچڑاپن اور بے زاری اور وہ سپاٹ آواز میں کہے جارہی تھیں:
”میں اسٹیج سے ریٹائر ہوچکی ہوں۔ اب میری تصویریں کون کھینچے گا بھلا، میں اپنے وطن واپس جاتے ہوئے رات کی رات یہاں ٹھہر گئی تھی۔ نئی ہوائی سروس شروع ہوگئی ہے۔ یہ جگہ راستے میں پڑتی ہے….“
”اور….اور….آپ کے ساتھی؟“ فوٹوگرافر نے آہستہ سے پوچھا۔
کوچ نے ہارن بجایا۔
”آپ نے کہا تھا نا کہ کارزارِ حیات میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ اُسی گھمسان میں کہیں کھو گئے۔“
کوچ نے دوبارہ ہارن بجایا۔
”اور اُن کو کھوئے ہوئے بھی مدت گزر گئی…. اچھا خدا حافظ۔“
خاتون نے بات ختم کی اور تیز قدم رکھتی کوچ کی طرف چلی گئیں۔ والرس کی مونچھوں والا فوٹوگرافر پھاٹک کے نزدیک جاکر اپنی ٹین کی کرسی پر بیٹھ گیا۔
زندگی انسانوں کو کھا گئی ۔ صرف کاکروچ باقی رہیں گے۔“
(افسانہ: ”فوٹوگرافر“ کا اختتامیہ)
قرة العین حیدر کے افسانوی مجموعوںمیں ”ستاروں سے آگے“(1947) ، ”شیشے کا گھر“ (1956) ”پت جھڑ کی آواز“ (1967) ، ”فصل گل آئی یا اجل آئی“،” جہاں پھول کھلتے ہیں“،”جگنوؤں کی دنیا“،” تلاش“،” روشنی کی رفتار“،”کلیسا میں قتل“اور ”میرے بہترین افسانے“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جیلانی بانو کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے۔ انھوں نے آزادی سے قبل ”ادب لطیف“ لاہور اور ”افکار“ بھوپال سے افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ خود جیلانی بانو کا کہنا یہ ہے کہ انھوں نے موپاساں اور چیخوف کا مطالعہ گہری نظر سے کیا۔ شاید اسی لیے ان کے افسانوں کی سب سے بڑی پہچان ان کے ابتدائیے ہیں اور ابتداءہی سے قاری کُلّی طور پر ان کی گرفت میں چلا جاتا ہے۔
جیلانی بانو کے افسانوں خصوصاً ”ادھوری بات“ اور ”اکیلا“ میں بچوں کی صورت میں آسودگی حاصل کرنے کی تمنا ایک انوکھے لحن کی حامل ہے۔ ایک افسانے کا ابتدائیہ دیکھیے:
”آج بھی اندھیرے کمرے میں لیٹا میں خیالی ہیولوں سے کھیل رہا تھا۔
اور جب بھی اندھیرا چھا جاتا تم نہ جانے کہاں سے نکل آتی ہو جیسے تم نے تاریکی کی کوکھ ہی سے جنم لیا ہو، اور مجبوراً مجھے جلے ہوئے سگریٹ کی راکھ کی طرح تمھیںبھی زمین پر جھٹک دینا پڑتا ہے۔
میں نے کبھی تمھارے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ کبھی تمھارے لیے نظمیں نہیں لکھیں۔ کبھی تمہاری یاد میں تارے نہیں گنے۔ پھر کیوں میں تمھیں یاد کیے جاؤں….؟“ (افسانہ:”موم کی کی مریم“)
جیلانی بانو کے چار افسانوی مجموعے بہ عنوان ”اجنبی چہرے“،” روشنی کے مینار“،”نروان“ اور نغمے کا سفر“ شائع ہوچکے ہیں۔
ممتاز شیریں کا تعلق آندھرا پردیش سے تھا تاہم بچپن میں ہی میسور چلی گئیں اور اُس کے بعد بنگلور اور کراچی میں قیام رہا۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز ان کے شوہر صمد شاہین کے مرتب کردہ ادبی مجلہ ”نیا دور“ بنگلور میں چھپنے والے تنقیدی جائزے”1943ءکے افسانے“ کی اشاعت سے ہوا۔ اس تنقیدی جائزے نے انھیں ملک گیر شہرت دلا دی۔ اس کے اگلے برس ان کا پہلا افسانہ ”انگڑائی“،”ساقی“ دہلی 1944ءمیں شائع ہوا۔ اس افسانے کی اشاعت سے قبل انھوںنے انگریزی اور فرانسیسی فکشن کو پوری طرح کھنگال ڈالا تھا۔ لیکن اِس بے پناہ مطالعے کا انھیں ایک نقصان بھی اٹھانا پڑا، اور وہ یہ کہ ان کے بعض افسانوں کی بُنت میں شعوری کاوشوں ، منصوبہ بندی اور اس دور کی ادبی تحریکات کا اجتماع، ایک مصنوعی فضا بندی کا باعث بنا۔(امثال:”میگھ ملہار“ اور ”دیپک راگ“)
جہاں تک ان کے ابتدائی افسانوں خصوصاً ”انگڑائی“،” آئینہ“،” اور گھنیری بدلیوں میں“ کا تعلق ہے تو ان کے موضوعات خصوصی طور پر اہمیت رکھتے ہیں مثلاً افسانہ ”انگڑائی“ ہم جنسی کے موضوع پر اردو کے اولیں افسانوں میں شمار ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ کہ ممتاز شیریں کے افسانوی کردار ایک خاص قسم کی خود پسندی کا شکار ہیں۔ افسانہ ”شکست“ اور ”رانی“ پر ترقی پسند تحریک کے اثرات بھی ظاہر ہوئے۔ یہ الگ قصہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد محمد حسن عسکری کی طرح ممتاز شیریں نے بھی ”نیادور“ کراچی کی معرفت پاکستانی ادب کی تحریک چلائی اور ان دو افسانوں کے لکھنے پر ہمیشہ شرمندگی کا اظہار کیا۔ ممتاز شیریں لکھتی ہیں:
”شکست“ اور ”رانی“ گو میںنے پورے جذباتی خلوص سے لکھے ہیں اور ان میں ہمدردی کے ساتھ غریب طبقے کی مصیبت زدہ زندگی کو پیش کیا ہے لیکن میرے لیے یہ پیش کش، بہرحال ایک شعوری کوشش تھی…. ”شکست“ اور ”رانی“ کے جذباتی خلوص کے باوجود ان میں ادبی خلوص کی کمی تھی۔“(9)
”وہ گڑگڑارہی تھی۔ پھر وہ خاموشی سے آنکھیں پونچھتی ہوئی باہر نکل آئی اور گھر آکر پانچوں بچوں کو ساتھ لے آئی۔ اُف وہ بچے! آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں، صرف ایک پھٹی لنگوٹی باندھے، ننگ دھڑنگ پیٹ پیٹھ سے جا لگا تھا اور پسلیوں کی ہڈیاں اتنی اُبھر آئی تھیں کہ انھیں اچھی طرح گنا جاسکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے تین دن سے نہیں تو دو ایک دن سے تو کچھ نہیں کھایا تھا۔ وہ مشکل سے گھسٹ گھسٹ کر چل رہے تھے اور چھوٹے بچوں کو تو ماں کھینچے لیے آرہی تھی۔“
(افسانہ :”رانی“)
کیا عجیب اتفاق ہے کہ ممتاز شیریں کے خود ردّ کردہ افسانوں میں سے ”شکست“ کو 1959ءمیں ایک آسٹریلئن انتھالوجی میں جگہ ملی اور اُن کا پہلا افسانہ ”انگڑائی“ تاحال ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث ہے۔
ممتاز شیریں کے دو افسانوی مجموعے ”اپنی نگریا“ اور ”میگھ ملہار“ آزادی کے بعد شائع ہوئے۔
آزادی کے فوراً بعد اُبھر کر سامنے آنے والی افسانہ نگاروں میں جمیلہ ہاشمی، الطاف فاطمہ، واجدہ تبسم، اور بانو قدسیہ اپنے اپنے منفرد موضوعات اور اندازِ تحریر کے سبب نمایاں ہیں۔
جمیلہ ہاشمی اور الطاف فاطمہ کے افسانوں میں سماجی اور نفسیاتی مسائل کی شکار عورت کی تصویر کشی کا اپنا اپنا انداز ہے لیکن یہ دونوں، ایک دوجے سے یکسر الگ بیانئے اکثر اُس حیرت کو جگاتے ہیں جو لوک دانش کا خاصہ رہا ہے۔
جمیلہ ہاشمی کے ہاں دیہی منظرنامہ، کھری سکھ معاشرت کی عکاسی، کرداروں کی انا پیشگی اور روہی کے منظرنامے سے مخصوص دھیمے دھیمے درد کی لَے ایک انوکھا تاثر رکھتی ہے۔ اور اس حوالے سے ”لہو رنگ“،”سرخ آندھی“،”بن باس“،”آتما کی شانتی“ اور ”ناستک“ جیسے افسانے جمیلہ ہاشمی کی پہچان ہیں۔
”ماں مندر سے ابھی تک نہیں لوٹی۔ ٹوپے کی طرف جانے والے راہ پر بنے گرجا کا گھنٹہ بِنا رُکے بج رہا تھا۔ شام کی نیلی دُھند بادلوں میں کھو گئی ہے۔ نیچے وادی کے گھروں میں جلتے دیوں کی روشنیاں دُور سے یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے برکھا کے دنوں میں کھیتوں پر جگنوؤں کی براتیں اتری ہوں۔“
(افسانہ”ناستک“ سے اقتباس)
الطاف فاطمہ کے ہاں تجرد کی زندگی کا تجربہ اور ملازمت پیشہ نسوانی کردار نگاری بے مثل ہے۔ اس خصوص میں ان کا افسانہ ”بیچلرز ہوم“ یادگار ہے۔ جب کہ الطاف فاطمہ اور جمیلہ ہاشمی کے افسانوں میں شاندار زبان لکھنے کا عمل ایک اضافی خوبی ہے۔
”جس دن وہ روانہ ہوئی ہے، وہ دن کتنا سرد تھا! صبح سے کُہر کا دُھندلکا چھایا ہوا تھا۔ کمرے کی کھڑکیوں اور برآمدے میں سے سامنے کی سڑک بھی نظر نہیں آرہی تھی۔ لان کا سبزہ اور سفیدے کے اونچے درخت بھی کُہر کی چادر میں چُھپے جارہے تھے۔ دوپہر کے وقت سورج کی اِکا دُکا کرنیں چوری چوری جھانکنے لگیں تو میں برآمدے میں کرسی پر جا بیٹھا۔“ (افسانہ ”بیچلرز ہوم“ سے اقتباس)
جمیلہ ہاشمی کے دو افسانوی مجموعے :”اپنا اپنا جہنم“ اور ”آپ بیتی، جگ بیتی“ اور الطاف فاطمہ کے بھی دو افسانوی مجموعے ”وہ جسے چاہا گیا“ اور”جب دیواریں گریہ کرتی ہیں“ یادگار ہیں۔
واجدہ تبسم نے حیدرآبادی جاگیردار طبقے کے زوال اور جنس نگاری کی معرفت ایک انوکھا اسلوب وضع کیا، جس کی مثال نہ تو منٹو کے ہاں دیکھنے کو ملتی ہے نہ ممتاز مفتی، شیر محمد اختر، عصمت چغتائی، اور رحمان مذنب کے ہاں۔ یہ سب سے جداگانہ لطف ہے جو واجدہ تبسم کے افسانوں:”اُترن“،” نتھ اترائی“،”دیار حبیب“،” گلستان سے قبرستان تک“ اور ”محبت“ سے مخصوص ہے:
”نکو اللہ، میرے کو بہوت شرم لگتی ہے۔“
”ایو، اِس میں شرم کی کیا بات ہے؟ میں نئیں اتاری کیا اپنے کپڑے؟“
”اوں…. “ چمکی شرمائی۔
”اب اتارتی کی بولوں انا بی کو؟“ شہزادی پلشا، جن کی رگ رگ میں حکم چلانے کی عادت رچی ہوئی تھی، چلا کر بولیں۔ چمکی نے کچھ ڈرتے ڈرتے، کچھ شرماتے شرماتے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے پہلے تو اپنا کُرتا اُتارا، پھر پاجامہ۔“
(افسانہ ”اترن“ سے اقتباس)
واجدہ تبسم کے افسانوں کے مجموعوں میں ”شہر ممنوع“،”توبہ توبہ“،”محبت“،” کنگن محل“، ”(1971ئ)”جیسے دریا“ (1970) ، ”آئینہ کے سامنے “(طبع دوم:1978) ، ”روزی کا سوال“ (طبع دوم:1977)، ”کیسے سمجھاؤں“(1977) ، اُترن“ ، ”پوجا کا مان“،”پھول کھلنے دو“ اور زخمِ دل“ بہت مقبول ہوئے۔
بانو قدسیہ نے مشرقی عورت کی معاشرتی زندگی کو اُس کے روحانی اور جنسی مسائل سمیت چنا ہے۔ جب یہی موضوع پھیل کر جانوروں اور پرندوں کے طرزِ زیست کے مشاہدے کی گہرائی میں جا نکلتا ہے تو ”کال کلیجی“ جیسے شاہکار افسانے جنم لیتے ہیں۔ بانو کے ہاں تصوف کی لہر ایک انوکھا آہنگ ہے۔ جس کی خوب صورت مثال افسانہ ”انترہوت اداسی“ ہے:
”یہ پہلی بار تھی، اُس کے بعد دو بار اور ایسے ہوا…. بالکل ایسے۔جب میرا بایاں پاؤں بانس کی سیڑھی کے آخری ڈنڈے پر تھا اور میرا دایاں پاؤں صحن کی کچی مٹی سے چھ انچ اونچا تھا تو پیچھے سے ماں نے میرے بال ایسے پکڑے جیسے نئے نئے چوزے پر چیل جھپٹتی ہے….
”بول، بول اس بھری دوپہر میں تُو کہاں سے آرہی ہے؟ گشتی….“
(افسانہ ”انتر ہوت اداسی“ سے اقتباس)
بانو قدسیہ کے افسانوی مجموعہ میں ”بازگشت “،” امربیل“،”کچھ اور نہیں“،”دانت کا دستہ“ اور ”ناقابل ذکر“ (طبع اول:1985) یادگار ہیں۔
ساٹھ کی دہائی میں ابھر کر سامنے آنے و الی افسانہ نگاروں میں آمنہ ابوالحسن، خالدہ حسین اور عذرا بخاری نمایاں ہیں۔
آمنہ ابوالحسن نے متوسط ہندو مسلم گھرانوں میں زندگی کا جتن کرتی ہوئی عورت کے خواب رقم کیے۔ ان کے افسانوں میں یکایک نمودار ہونے والے ان ہونے واقعات فرد کی زندگی کو تلپٹ کررہے ہیں، جس کی مثال ”میری میّا“،”من کا موتی“ اور ”ستون“ جیسے خوبصورت افسانے ہیں:
”کسی ناقابلِ یقین واقعے ، کسی اچانک ظہورپذیر حادثے کی ایک لہر سرتاپا قدم اُسے جھنجھوڑ گئی۔ اُس نے آنکھیں مَل کر دیکھا۔ وہ جاگ رہا تھا۔ تو پھر ایسا غیر معمولی حسن، ایسا پُرکشش وجود“ (افسانہ ”من کا موتی“ سے اقتباس)
آمنہ ابوالحسن کا افسانوی مجموعہ ” کہانی“ سراہا گیا۔
خالدہ حسین نے ابتدائی افسانے خالدہ اصغر اور خالدہ اقبال کے ناموں سے لکھے۔ اُن کے بیشتر افسانوں کا منظرنامہ متوسط درجے کے گھرانوں سے متعلق ہے اور کردارو ںمیں محسوساتی سطح پر ایک انجانا خوف پل رہا ہے، جس کے ڈانڈے کبھی تو نفرت ، کبھی اذیت اور بعض اوقات تشکیک سے جا ملتے ہیں۔
خالدہ حسین نے ”سواری“ اور ”ایک رپورتاژ‘ جیسے عمدہ افسانے لکھ کر ساٹھ کی دہائی میں سب کو حیران کردیا تھا۔ پھر پندرہ برس کے تعطل کے بعد انھوں نے ”اے ڈیڈ لیٹر“،” پرندہ“،”سایہ“ اور ”مکڑی“ جیسے صوفیانہ رچاؤ اور بالغ عصری شعور کے حامل افسانے لکھے۔ قہار فطرت کے مقابل انسان کی بے بسی کی کہانی خالدہ حسین نے بڑے سبھاؤ کے ساتھ لکھی ہے۔ ان کے ہاں تکنیکی سطح پر استعارہ، علامت اور تجرید کا ورتارا معنویت کے نئے جہان سامنے لاتا ہے۔ اب تک اُن کے تین افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں:”پہچان“ (1980)، ”دروازہ“(1984) اور ”مصروف عورت“(1989)۔
عذرا بخاری کے افسانوں کا موضوع اص مشرق کی مجبور اور بے بس گھریلو عورت کا تجربہ اور دکھ ہے۔ جو ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا چلا آیا ہے۔ انھوںنے جنس کے حوالے سے عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم کی طرح کھل کر نہیں بین السطور لکھا ہے۔ ان کے بیانیہ افسانوں میں ”دیوانے فرزانے“ اور ”کفارہ“ یادگار ہیں جب کہ نیم علامتی اسلوب کے افسانوں میں ”آرزو کی موت“ عمدہ افسانہ ہے۔ ان کا افسانوی مجموعہ ”فاصلے“ شائع ہوچکا ہے۔
ساٹھ کے دہے کی دیگر افسانہ نگاروں میں نکہت حسن( افسانے:”سونی سنسان سڑک“، ”زبان“،”کھلونے والا“)، رشیدہ رضویہ (افسانہ:راندے ووں)، فہمیدہ ریاض(بوڑھا اور لڑکا، دو عورتیں، ایک محبت کی کہانی، دامنی)، رضیہ فصیح احمد(منو چچا، کبھی شعلہ کبھی شبنم، موڑ، بارش کا آخری قطرہ، بڑماں) ، سیدہ حنا(پتھر کی نسل) ، فہمیدہ اختر( مجاہد کا بیٹا)،فرخندہ لودھی(گوبر ٹیکس، آدھی رات) ، عطیہ پروین) دل کا کانٹا) اور حسانہ انیس(پچھتاوا) کے نام بیانیہ افسانے کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
ستر کی دہائی اردو افسانے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوئی لیکن مین اسٹریم کے افسانہ نگاروں میں نسوانی لحن بہت کم اُبھر کر سامنے آیا۔ لے دے کر زاہدہ حنا ، خالدہ شفیع، رفعت مرتضیٰ، ذکیہ مشہدی، مسرت لغاری، نگہت مرزا، نزہت نوری، سعیدہ نور، قدسیہ انصاری، اور نیلوفر اقبال کے نام دکھائی دیتے ہیں اور ان میں سے بھی زاہدہ حنا کو چھوڑ کر تمام کے تمام نام بیانیہ افسانے سے متعلق ہیں۔ یعنی ستر کے دہے میں جس نوع کا تکنیکی تنوع دیکھنے کو مل رہا تھا، افسانے کا نسوانی لحن اس سے محروم تھا۔ البتہ زاہدہ حنا کے افسانوں میں وجودیت کے فلسفہ کے زیر اثر انسانی جدوجہد کی معنویت اُبھری ہے۔ زاہدہ حنا کا موضوعِ خاص وجودی سطح پر عورت اور مرد کا ازلی تنازعہ ہے جس کی خوبصورت مثالیں ”ساتویں رات“ اور ”تتلیاں ڈھونڈنے والی“ جیسے افسانے ہیں۔ زاہدہ حنا کے دو افسانوی مجموعے :”قیدی سانس لیتا ہے“(طبع اول:1983) اور ”راہ میں اجل ہے“(1993) شائع ہوچکے ہیں۔ خالدہ شفیع(چاندی کا گھاؤ، ریپ، اک تری خاطر) ، رفعت مرتضے (سفر، آدم کی ہڈی) ، ذکیہ مشہدی(چرایا ہوا سکھ)، مسرت لغاری)ریپلیکا، سمجھوتا، شریف زادی، کینسر) ، نگہت مرزا(بری بات، نامراد) نزہت نوری(مسیحا) سعیدہ نور( بازار، کانج کے پتلے) ، قدسیہ انصاری(جھوٹی رکابی، کوری چادر) اور نیلوفر اقبال (حساب، دستاویزی ثبوت، گھنٹی) بھرپور بیانیہ افسانے ہیں۔
1980ءتاحال، افسانوی افق پر عطیہ سید، نیلم احمد بشیر اور طاہرہ اقبال ہی کے نام نمایاں دکھائی دیتے ہیں، لیکن وہ اردو افسانے کی ’مین اسٹریم‘ کا حصہ تب بنیں گی جب خالدہ حسین کے افسانوں جیسا تکنیکی تنوع ان کے ہاں جھلک دکھائے گا۔ فی الوقت تو عطیہ سید کے نمائندہ افسانوں(”ایبل اور میں“،”بنت اسرائیل “ اور ”خزاں میں کونپل“) میں وقت کا تصور اور سفر مستقیمی ہے، لہذا گزرا ہوا زمانہ اوریادوں کے سلسلے دکھائی دیتے ہیں التبہ ان کے افسانوں میں وصال کی نسبت فراق کی اپنی معنویت ہے۔ نیز انسانی تاریخ اور نفسیات سے شغف عطیہ سید کے افسانوں میں گہرائی پیدا کرتا ہے اور نیلم احمد بشیر کے بیانیہ افسانوں میں کرداری مطالعے خاص معنویت کے حامل (مثالیں: بچت، شریف، اپنی اپنی مجبوری، چائے کی پیاس) مغربی طرز زیست پر نیلم احمد بشیر کی نظر گہری اور قابل مطالعہ ہے۔ جب کہ پنجاب کے محتلف دیہی علاقہ جات کا مشاہدہ اور ان سے مخصوص پنجابی لحن طاہرہ اقبال کے افسانوں کی پہچان۔
مجمل طور پر اردو افسانے کا نسوانی لحن یہ ثابت کرتا ہے کہ عورت کی جذباتی دنیا، مرد کے مقابلے میں کہیں زیادہ رنگا رنگ اور بھرپور ہے۔ جزئیات نگاری، خواتین افسانہ نگاروں کا وصفِ خاص ہے، نیز نفسیاتی الجھیڑوں اور جذباتی تناؤ کا بیان حد درجہ متنوع۔

حواشی و حوالہ جات:
(۱) ”مقالات گارساں دتاسی“ ، ترجمہ: ڈاکٹر یوسف حسین خاں، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری و عزیز احمد، اورنگ آباد:
انجمن ترقی اردو(ہند) جلد اول: 1935ء جلد دوم:1943ء
(۲) ”بہارستانِ ناز“ مولفہ حکیم فصیح الدین رنج، طبع اول:1864۱ء، طبع دوم:1869ء، طبع سوم:1888ء
(۳) ”کارِ جہاں دراز ہے“(ناول) از قرة العین حیدر( جلد اول) ، طبع اول:1977ء
(۴) مجلہ ”پگڈنڈی“ امرتسر(یلدرم نمبر) ص :36
(۵) ایک خط سے اقتباس، مشمولہ :”مسز عبدالقادر “ مقالہ برائے ایم اے اردو ، یونیورسٹی اورنٹل کالج لاہور
(۶) ”میری ادبی زندگی“ مطبوعہ:’نیرنگِ خیال“ لاہور
(۷) ”افسانہ“ (مضمون) مشمولہ :”پکچر گیلری“ از قرة العین حیدر، لاہور، قوسین، ص 38
(۸) ”میرا بہترین افسانہ“ مرتبہ:محمد حسن عسکری، دہلی: ساقی بک ڈپو، طبع اول: 1943ء
(۹) دیباچہ ”میگھ ملہار“ از ممتاز شیریں

Ibne Safi Mukhtasar Sawaneh Hayat

Articles

ابن صفی __مختصر سوانح حیات

محمد حنیف

ابن صفی ٢٦،جولائی ١٩٢٨ء کو الٰہ آباد ڈسٹرکٹ کے گائوں نارہ میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد صفی اللہ اور والدہ نزیرہ بی بی نے ان کا نام اسرار احمد رکھا ۔اسرار احمد کا خاندان نارہ کے راجہ ویشدر دیال سنگھ سے تعلق رکھتا تھا جو قبول اسلام کے بعد بابا صدیقی کے نام سے معروف ہوئے ۔ان کا مزار آج بھی نارہ میں موجود ہے ۔ابن صفی کے والدین کا تعلق ایک جاگیر دار گھرانے سے تھا ۔ان کے دادا مولوی عبدالفتح تقسیم سے قبل ایک اسکول ٹیچر تھے ۔والدہ نزیرہ بی بی کا خاندان حکیموں کا خاندان کہلاتا تھا ۔والدہ کے چچا ،تایا حکیم احسان علی اور حکیم رحمان علی نے طب پر مستند کتابیں چھوڑی ہیں۔ان کی فارسی کتابیں طب رحمانی اور طلب احسانی عرصے تک ہندوستان کے طبی مدارس میں شامل نصاب تھیں۔نزیرہ بی بی نے بڑی شفقت اور محنت سے اسرار احمد کی پرورش کی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ انھیں بہتر دوستوں کی صحبت اورا چھے تعلیمی مواقع میسر آ سکیں۔
اسرار احمد کے بھائی ایثار احمد اور بہن غفیرہ خاتون بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے ۔البتہ ان کی بہن عذرا رحمان (بلاغت خاتون) اور ان کا ساتھ ساری زندگی رہا ۔
اسراراحمد نے ابتدائی تعلیم نارہ کے پرائمری اسکول میں جبکہ ثانوی تعلیم مجیدیہ اسلامیہ ہائی اسکول میں حاصل کی۔جب وہ آٹھ برس کے تھے تو انھیں طلسم ہوش ربا کی پہلی جلد پڑھنے کا اتفاق ہوا مگر زبان کے ثقیل ہونے کے باعث وہ اسے اچھی طرح نہ سمجھ پائے لیکن اس کی کہانی نے ان کے تخلیقی ذہن پر گہرا اثر مرتب کیا اس کے بعد انھوں نے طلسم ہو ش ربا کی ساتوں جلدوں کو باربار پڑھا ڈالا۔
اسرار احمد نے کم عمری میں ہی نثر لکھنا شروع کر دیا تھا ۔جب وہ ساتویں درجے میں پہنچے تو عادل رشید کے زیر ادارت شائع ہونے والے ہفت روزہ ”شاہد” میں ان کی پہلی کہانی ”ناکام آرزو” شائع ہوئی۔آٹھویں درجے میں آنے کے بعد شاعری بھی شروع کر دی۔جگر مرادآبادی حواس پر چھائے ہوئے تھے چنانچہ ابتدا خمریات سے ہوئی ۔
اس دوران ان کے والدین الٰہ آباد منتقل ہوگئے اور حسن منزل کے فلیٹ نمبر پندرہ اور سولہ میں قیام پذیر ہوئے چنانچہ اسرار احمد نے میٹرک ڈی ۔اے۔وی اسکول الٰہ آباد سے کیا ۔انہی دنوں رائیڈرہیگرڈ کی”She”اور” “Return of Sheکا اردو ترجمہ عذرا اور عذرا کی واپسی کے نام سے پڑھنے کا موقع ملا ۔جس نے ان کے ذہن کو اسراریت کی طرف آمادہ کیا ۔میٹرک میں پہنچے تو بے بی کمیونسٹوں کا ساتھ ہو گیا جس کے باعث ان کی شاعری میں ظالم سماج اور سرمایہ دار در آئے ۔لیکن دوسری جنگ عظیم کے باعث بدلتے ہوئے حالات نے انھیں کمیونسٹوں سے برگشتہ کر دیا ۔ان دنوں ترقی پسندی کا بھی بڑا چرچا تھا۔چنانچہ اسرار احمد بھی اپنے آپ کو اس سے دور نہ رکھ سکے ۔جس کے نتیجے میں ان کے بھی وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے ۔
اسرار احمد نے انٹر میڈیٹ کی تعلیم ایونگ کرسچین کالج الٰہ آباد میں حاصل کی۔یہ ایک مخلوط تعلیمی ادارہ تھا جہاں آپ کی شاعری پروان چڑھتی رہی۔کالج کے دوسرے سال بزم ادب کی صدارت ان کے حصے میں آئی چنانچہ سالانہ مشاعرے میں ان کی پڑھی جانے والی نظم”بنسری کی آواز” کو بے حد داد ملی ۔
١٩٤٧ء میں اسرار احمد جب الٰہ آباد یونی ورسٹی پہنچے تو ڈاکٹر سید اعجاز حسین کے لیکچر ز نے ذہنی نشو ونما کے نئے باب کھول دئیے ۔ لیکن یہ عرصہ کافی مختصر رہا کیوںکہ آزادی ہندوستان کی تحریک زور پکڑ چکی تھی۔اس سلسلے میں یونی ورسٹی میں بھی خنجر زنی کی ایک واردات ہو گئی چنانچہ بزرگوں نے آپ کا یونی ورسٹی جانا بند کرادیا ۔جب ١٩٤٨ء میںتقسیم پاک و ہند کے بعد حالات معمول پر آئے تو دوبارہ داخلے کی ہمت اس لیے نہیں پڑی کہ ان کے ساتھی اگلے درجے میں پہنچ چکے تھے ۔
الٰہ آباد یونی ورسٹی میں پرائیویٹ امیدواروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی ۔یوپی میں صرف آگرہ یونی ورسٹی ایسے طلبا کا واحد سہارا تھی ۔لیکن شرط یہ تھی کہ امیدوار کو کسی ہائی اسکول میں معلمی کا دو سال کا تجربہ ہونا چاہیے ۔چنانچہ پہلے اسلامیہ اسکول الٰہ آباد اور اس کے بعد یادگار حسین اسکول میں پڑھایا ۔اس طرح انھوں نے آگرہ یونی ورسٹی سے بی ۔اے کیا۔اس دوران ادبی ذوق کے باعث ان کے مراسم عباس حسینی اور ان کے بھائی جمال رضوی (شکیل جمالی) سے ہو گئے اور یوں ایک نئے گروپ کی تشکیل ہوئی جس میں عباس حسینی کے کزن سرور جہاں (مشہور مصور سرور جہاں عابدی) ،مجاور حسین رضوی (ابن سعید ) ڈاکٹر راہی معصوم رضا ،اشتیاق حیدر ،یوسف نقوی ،حمید قیصر ،قمرجائسی ،نازش پرتاب گڑھی اور تیغ الٰہ آبادی (مشہور شاعر مصطفی زیدی) شامل تھے ۔
١٩٤٨ء میں عباسی حسینی نے ایک ادبی رسالہ ماہنامہ ”نکہت” کی داغ بیل ڈالی ۔اسرار احمد حصہ نظم اور مجاور حسین نے حصہ نثر سنبھال لیا۔اس دوران اسرار احمد نے ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی شروع کی اور سنکی سولجر اور طغرل فرغان کے قلمی ناموں سے کہانیاں اور طنز و مزاح پر مشتمل مضامین لکھنے لگے ۔
اتنا کچھ لکھنے کے باوجود اسرار احمد اپنی تحریروں سے مطمئن نہیں تھے ۔آٹھ برس کا وہ لڑکا جس نے طلسم ہوش ربا کو اچھی طرح سے کھنگال ڈالا تھا اور جس کے ذہن پر رائیڈرہیگرڈ کی پراسرار زمین اور واقعات و اسرار نے قبضہ جما رکھا تھا وہ انھیں کچھ اور کرنے پر اکساتا رہا ۔
١٩٥١ء کے اواخر میں ایک ادبی نشست کے دوران کسی نے کہا کہ اردو میں صرف وہ کہانیاں مقبولیت کا درجہ پاسکتی ہیں جن میں جنسیت کا عنصر شامل ہو ۔اسرار احمد نے اس سے اختلاف کیا اور وعدہ کیا کہ وہ اس کا متبادل سامنے لائیں گے ۔اسرا ر احمد کے مشورے سے عباس حسینی نے ماہنامہ ”جاسوسی دنیا” کا اجر ا کیا۔جس کے تحت اسرار احمد نے ابن صفی کے قلمی نام سے پہلا ناول ”دلیر مجرم” لکھا ۔یہ ناول مارچ ١٩٥٢ء میں شائع ہوا۔اس ناول کا پلاٹ وکٹر گن کے ناول آئرن سائڈزلون ہینڈ سے ماخوذ تھا جبکہ فریدی اور حمید کے کردار ابن صفی کے اپنے تخلیق کردہ تھے ۔دلیر مجرم کے بعد ابن صفی باقاعدگی سے جاسوسی دنیا کے لیے ہر ماہ ناول لکھتے رہے اور ان کی تحریروں کے چاہنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی رہی ۔
اگست ١٩٥٣ء میں جبکہ جاسوسی دنیا کے سات ناول شائع ہو چکے تھے ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر گئے جہاں ان کے والد صفی اللہ اپنے کام کے سلسلے میں پہلے سے کراچی میں مقیم تھے ۔ابن صفی نے جاسوسی دنیا کا آٹھواں ناول”مصنوعی ناک” دوران سفر تحریر کیا ۔کراچی آ کر ابن صفی پہلے پہل C-1ایریا لالو کھیت (لیاقت آباد) میں رہائش پزیر ہوئے ۔پاکستان آکر بھی ابن صفی تواتر کے ساتھ ہر ماہ جاسوسی دنیا کے لیے ناول تحریر کرتے جو کہ جاسوسی دنیا الٰہ آباد ہی سے شائع ہوتے رہے ۔١٩٥٣ء میںجب ان کی عمر صرف ٢٥ برس تھی وہ برصغیر پاک و ہند میںاردو پڑھنے والوں کے حواسوں پر چھا چکے تھے ۔لوگ بے چینی سے ہر ماہ ان کے ناول کا انتظار کرتے اور ٩ آنے قیمت کا ناول کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کو تیار ہو جاتے ۔
١٩٥٣ء میں ابن صفی ”ام سلمی خاتون” کے ساتھ رشتہ ٔ ازدواج میں منسلک ہو گئے ۔سلمیٰ خاتون ١٢،اپریل ١٩٢٨ء کو پیدا ہوئیں ۔ان کے والد محمدامین احسن سلطان پور ،انڈیا میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولس کے عہدے پر فائز تھے ۔ان کی والدہ کا نام ریاض فاطمہ بیگم تھا ۔سلمیٰ خاتون کا تعلق ایک تعلیم یافتہ مذہبی گھرانے سے تھا ۔مشہور شاعر محمد احسن وحشی ان کے دادا جبکہ چچا مولانا نجم احسن ،مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ تھے ۔سلمیٰ خاتون کے بھائی مکین احسن کلیم روزنامہ مشرق لاہور کے چیف ایڈیٹر رہے اور ان کی بہن صفیہ صدیقی کا شمار بھی اچھے لکھنے والوں میں ہوتا ہے ۔
١٩٥٥ء میں ابن صفی نے ایک نیا کردار”عمران” تخلیق کرکے عمران سیریز کا آغاز کیا۔اس سلسلے کا پہلا ناول ”خوفناک عمارت” اگست ١٩٥٥ء میں اے اینڈ ایچ پبلیکشنز،١٣،حسن علی آفندی روڈ ،کراچی سے شائع ہوا۔الٰہ آباد میں عمران سیریز کے پہلے دو ناول ”خوفناک عمارت” اور ”چٹانوں میں فائر” ماہنامہ نکہت کے تحت عباس حسینی نے ”عمران کے کارنامے ” کے عنوان سے اکتوبر ١٩٥٥ء میں شائع کیے۔عمران کے کردار کو بھی قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور یوں ہر ماہ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے ناول باقاعدگی سے شائع ہونے لگے۔١٩٥٦ء میںجاسوسی دنیا کی شعلہ سیریز نے ایک تہلکہ مچا دیا اور ابن صفی کی شہرت آسمانوں کو چھونے لگی۔
ابتدائی طور پرانڈیا میں عمران سیریز کے ناول ماہنامہ نکہت الٰہ آبادکے تحت شائع کیے جاتے تھے ۔عمران کے کارنامے اس قد ر مقبول ہوئے کہ ١٥،دسمبر ١٩٥٥ء کو نکہت کے ”ناول نمبر” میں اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا گیا ۔
عمران سیریز کا چوتھا ناول ”بھیانک آدمی” جاسوسی دنیا کے تحت شمارہ ٤٩ کے طور پر مارچ ١٩٥٦ء میں شائع ہوا ۔اس کی وجہ جاسوسی دنیا کے گولڈن جوبلی ناول ”شعلوں کا ناچ” کی اشاعت میں تاخیر تھی ۔اکتوبر ١٩٥٦ء میںنکہت نے ”عمران نمبر”کے عنوان سے ”جہنم کی رقاصہ” اور ”سانپوں کے شکاری” یکجا کر کے شائع کیے ۔نومبر ١٩٥٧ء میں”عمران کی جاسوسی” کے عنوان سے نکہت نے ”دھوئیں کی تحریر” اور ”لڑکیوں کا جزیزہ” ایک ہی جلد میں شائع کیے۔بالآخر دسمبر ١٩٥٧ء میں عباس حسینی نے فیصلہ کیا کہ عمران سیریز کو ماہنامہ نکہت کے زیر اہتمام مستقل طور پر ہر ماہ شائع کیا جائے اور اس کی ابتدا عمران سیریز کے جو بیسویں ناول”پاگل کتے” سے ہوئی۔
ابن صفی کی شخصیت اپنے قارئین کے لیے اب تک اسرار میں گم تھی ۔چنانچہ قارئین کی بے حدفرمائش پر ابن صفی کی تصویر پہلی مرتبہ گولڈن جوبلی ”شعلوں کا ناچ” میں اپریل ١٩٥٦ء میں شائع ہوئی اور یوں لاکھوں مداح ان کی صورت سے آشنا ہوئے ۔
اکتوبر ١٩٥٧ء میں ابن صفی نے اسرار پبلیکشنز لالوکھیت کراچی کی بنیاد ڈالی اور یہاں سے جاسوسی دنیا کا جو ناول پہلے پہل شائع ہوا وہ ”ٹھنڈی آگ” تھا ۔یہ ناول بیک وقت الٰہ آباد سے بھی شائع ہوا۔
١٩٥٨ء میں ابن صفی اپنے نئے تعمیر شدہ مکان ناظم آباد نمبر ٢ میں منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے بقیہ ماہ و سال گزارے۔اس کے ساتھ ہی جنوری ١٩٥٩ء میں اسرار پبلیکشنز ،فردوس کالونی کراچی نمبر ١٨ میں منتقل ہوگئی۔دفتر کے باوجود ابن صفی اپنے تخلیقی کاموں کے لیے گھر میں لکھنا زیادہ پسند کرتے تھے ۔عمران سیریز کے آغاز کے بعد ابن صفی ہر ماہ دو سے چار ناول لکھ ڈالتے تھے ۔جون ١٩٦٠ء تک ابن صفی جاسوسی دنیا کے ٨٨(پرنس وحشی) اور عمران سیریز کے ٤١ (بے آواز سیارہ) ناول لکھ چکے تھے ۔اس دوران اٹھوں نے جاسوسی دنیا کے میگزین ایڈیشن کا بھی اجرا کیا ۔یہ پاکستان میں ڈائجسٹ کی ابتدائی شکل تھی ۔اس کا پہلا شمارہ نومبر ١٩٥٩ء میں شائع ہوا لیکن اس کے چار شمارے ہی شائع ہوپائے ۔اس تیز رفتار تخلیقی عمل سے وہ ذہنی طور پر بیمار ہو گئے اور شیزوفرینیا اور نروس بریک ڈائون کا شکار ہوگئے ۔چنانچہ ١٩٦٠ء سے ١٩٦٣ء کے دوران وہ کچھ نہ لکھ پائے ۔بالآخر قریبی عزیزوں ،دوستوں اور لاکھوں مداحوں کی دعائوں کے علاوہ حکیم اقبال حسین کے علاج سے وہ صحت یاب ہوئے ۔
٢٥،نومبر ١٩٦٣ء کو ایک طویل انتظار کے بعد ابن صفی کی عمران سیریز کا ٤٢ واں ناول”ڈیڑھ متوالے” منظر عام پر آیا جس نے برصغیر پاک و ہند میں مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ۔ہندوستان میں اس ناول کی تقریب رونمائی آنجہانی لال بہادر شاشتری نے کی جو کہ اس وقت وزیر مواصلات تھے ۔ایک ہفتے کے بعد ہی اس ناول کا پہلا ایڈیشن فروخت ہو گیا ۔کئی شہروں میں یہ ناول بلیک میں فروخت ہوا ۔اس لیے اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جس کی تقریب رونمائی صوبائی وزیر قانون جناب علی مظہر نے کی ۔
صحت یابی کے بعد انھوں نے معالج کی ہدایت کے مطابق لکھنے کے عمل میں آہستگی پیدا کی ۔چنانچہ روزنامہ حریت میں ”ڈاکٹر دعاگو” کے عنوان سے عمران سیریز کا ناول قسط وار لکھنا شروع کیا ۔اس کے بعد ”جونک کی واپسی” اور ”زہریلی تصویر” بھی قسط وار چھپتے رہے ۔یہ ناول ہفتے میں دو بار اتوار اور بدھ کو شائع ہوتے تھے ۔
١٩٦٥ء کے دوران ابن صفی کے ناولوں کے یک رنگ ایڈیشن لاہور سے شائع ہونا شروع ہوئے ۔٢٧،جون ١٩٦٧ء کوابن صفی کے والد صفی اللہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اس دوران ابن صفی جاسوسی دنیا کا پلاٹینم جوبلی نمبر ”دیوپیکر درندہ” تحریر کر رہے تھے ۔٧٠، کی دہائی میں قومی ادارے آئی ایس آئی کی درخواست پر جاسوسی کے بنیادی طریق کار پر چند لیکچرز بھی دئیے۔
ابن صفی نے ١٩٧٣ء میںفلم پروڈیوسر نواب محمد حسین تالپر المعروف بہ مولانا ہپی کی فرمائش پر فلم ”دھماکہ” کی کہانی لکھی جو کہ عمران سیریز کے ناول”بے باکوں کی تلاش” پر مبنی تھی۔اس فلم کو ہدایت کار قمر زیدی نے ڈائریکٹ کیا ۔ابن صفی نے اس فلم کے مکالمے اور گیت بھی لکھے ۔حتیٰ کہ ہیروئن کے کپڑے بھی انھوں نے ڈیزائن کیے ۔فلم میں جاوید شیخ نے ظفر الملک اور مولانا ہپی نے جیمس کے کردار ادا کیے ۔”بیباکوں کی تلاش ” کی صبیحہ کا کردار شبنم نے بخوبی اد کیا ۔عمران اور ایکس ٹو کی ٹیم کو اس فلم میں پیش کرنے سے احتراز کیا گیا۔X2کی آواز کے لیے ابن صفی نے اپنی آواز دی۔یہ فلم کراچی میں ١٣،دسمبر ١٩٧ء کو ریلیز ہوئی لیکن چند تکنیکی وجوہ کی بناء پر خاطر خواہ کامیابی نہ حاصل کر سکی۔
جنوری ١٩٧٧ء میں مشتاق احمد قریشی نے ابن صفی میگزین کے عنوان سے ایک نئے ڈائجسٹ کا اجرا کیا ۔ابن صفی اس کے اعزازی مدیر اعلیٰ تھے ۔بعد میں چند قانونی دشواریوں کے باعث اس ڈائجسٹ کا نام نئے افق کر دیا گیا ۔
مارچ ١٩٧٧ء کے الیکشن کے دوران پاکستان ٹیلی وژن ،اسلام آباد سینٹر نے عمران سیریز کے ناول”ڈاکٹر دعاگو” کی ڈرامائی تشکیل کی ۔اس کا اسکرپٹ حمید کاشمیری نے تحریر کیا اور اداکار قوی خان نے عمران کا کردار ادا کیا ۔پی ٹی وی نے اس کی اشتہاری فلم بھی نشر کی۔لیکن الیکشن کے منسوخ ہو جانے کے بعد یہ ڈراما بھی نہ نشر ہو سکا ۔بعد میں مارشل لا حکام نے الیکشن کا سارا ریکارڈ ضبط کر لیا اور یوں یہ ڈراما کہیں ردی کی نظر ہو گیا ۔
١٨،جون ١٩٧٨ء کو ابن صفی کی والدہ کا انتقال ہو گیا ۔ابن صفی نے ان کی جدائی کے کرب کو اپنی نظم ”ماں” میں سمودیا ۔
ستمبر ١٩٧٩ء میں ابن صفی کے پیٹ میں درد اٹھا تو انھیں ہسپتال لے جایا گیا ۔وقتی طور پر تکلیف رفع ہو گئی تو گھر واپس آ گئے ۔اس برس دسمبر میں یہ تکلیف دوبارہ ہوئی تو جناح ہسپتال کے اسپیشل وارڈ میں داخل کر ایا گیا۔اس وقت ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچ گئے کہ انھیں لبلبے کا کینسر ہے ۔فیملی فزیشن ڈاکٹر سعید اختر زیدی اور ایک ڈاکٹر قمر الدین صدیقی نے ان کا علاج کیا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔پھر آخری دنوں میں جنرل فزیشن ڈاکٹر رب اور کینسر اسپیشلسٹ سید حسن منظور زیدی نے بھی ان کا علاج کیا لیکن مشیت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔دسمبر ١٩٧٩ء سے جولائی ١٩٨٠ء کے درمیان ان کی صحت تیزی سے گر رہی تھی لیکن انھوں نے لکھنا نہیں چھوڑا ۔ہفتہ ٢١،جولائی ١٩٨٠ء بمطابق ١٢،رمضان المبارک ١٤٠٠ھ کو فجر کے قریب اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر ابن صفی ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ان کا نامکمل عمران سیریز کا آخری ناول”آخری آدمی” ان کے سرہانے رکھا تھا ۔
ابن صفی نے پسماندگان میں اپنی اہلیہ سلمیٰ خاتون کے علاوہ چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیوں کو سوگوار چھوڑا ۔
١۔ ڈاکٹر ایثار احمد صفی ،ماہر امراض چشم ، ان کا انتقال ٣،جولائی ٢٠٠٥ء ہوا
٢۔ ابرار احمد صفی، میکانیکل انجینئر ،امریکا میں رہائش پزیر ہیں۔
٣۔ ڈاکٹر احمد صفی، مکانیکل انجینئر ،معاش کے سلسلے میں لاہور میں مقیم ہیں۔
٤۔ افتخار احمد صفی، الیکڑیکل انجینئر ، ریاض ،سعودی عرب میںرہائش پزیر ہیں۔
صاحبزادیوں میں نزہت افروز، ثروت اسرار اور محسنہ صفی شامل ہیں۔ابن صفی کی اہلیہ جمعرت ١٢،جون ٢٠٠٣ء کو اس دنیا سے انتقال فرما گئیں۔
ابن صفی نے جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے علاوہ بھی چند کتابیں لکھیں جن کے نام حسب ذیل ہیں:
١۔ پرنس چلی۔یہ ناول دلکش سیریز میں اولاً ”زلفیں پریشاں ہو گئیں” کے عنوان سے شائع ہوا لیکن بعدمیں مزید اضافہ کے ساتھ پرنس چلی کے نام سے شائع ہوا۔
٢۔ آدمی کی جڑیں۔یہ نفسیاتی ناول ابن صفی نے جاسوسی دنیا کے میگزین ایڈیشن کے لیے لکھنا شروع کیا تھا جو کہ نامکمل رہ گیا ۔
٣۔ بلدران کی ملکہ۔ معزز کھوپڑی، گلترنگ،شمال کا فتنہ، ان کی تخلیق کردہ ریاستوں شکرال، قلاق، اور کراغال کی نمائندہ طویل کہانیاں ہیں۔
٤۔ ”اب تک تھی کہاں”، مصر کے اساطیری ماحول میں پروان چڑھی ایک پراسرار کہانی جو کہ عالمی ڈائجسٹ میںقسط وار شائع ہوئی۔
٥۔ ”ڈپلومیٹ مرغ”۔”ساڑھے پانچ بجے”، ابن صفی کے لکھے گئے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مجموعے
٦۔ ”تزک دوپیازی” ۔دوپیازہ کی آپ بیتی جو کہ پیروڈی کے طور پر لکھی گئی۔
(بشکریہ ’اردو فلک ڈاٹ نیٹ)

Bayania Tareef o Tabeer by Dr. Abdur Rahman Faisal

Articles

بیانیہ - تعریف وتعبیر

ڈاکٹر عبدالرحمن فیصل

 

اردو میںNarrativeکاترجمہ ’بیانیہ‘اورNarratologyکا’بیانیات‘کیاجاتاہے۔ جدید تنقیدمیں نقدِبیانیہ اوراس کے نظریاتی مباحث کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔ اس نے باقاعدہ ایک شعبہ علم’بیانیات‘(Narratology)کی شکل اختیار کرلی ہے۔
’بیانیات‘مطالعۂ متن کاایک شعبہ (Discipline) ہے ۔جس میں بیانیہ کی ساخت(Narrative structure) کامطالعہ کیا جاتا ہے۔ یہ تھیوری صرف نظریاتی مباحث کامجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی اطلاقی اہمیت وافادیت بھی مسلم کرتی ہے۔ یہ بیانیہ کے مختلف ترکیبی عناصرکی تعریف متعین کرتی ہے اوران اسباب پربھی غورکرتی ہے جن کے ذریعے بیانیہ متن معرضِ وجودمیں آتاہے۔ علم بیانیات کے ذریعے ایسے مخصوص ،بیانیہ اصول بھی مرتب کیے جاسکتے ہیں جوبیانیہ کی امتیازی خصوصیات کاتعین کرنے کے علاوہ اس کی مختلف سطحوں کی علاحدہ علاحدہ شناخت قائم کرنے میں معاون ہوں۔ غرض یہ کہ علم ’’بیانیات‘‘میں بیانیہ کی تھیوری ،اقسام، اوصاف اوراس کی اہمیت وافادیت کامطالعہ کیاجاتاہے۔
اردوادب میں اس موضوع پراب تک بہت کم لکھاگیاہے۔ لیکن مغرب میں بیانیہ کی تھیوری ،اس کے اوصاف ، اہمیت وافادیت پربہت کچھ لکھاجاچکاہے ۔Encyclopedia of literary Critics & Criticism میں بیانیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے :
“What are Narrative. Is a sequence of events connected by Causality and probability”. (1)
(ترجمہ:بیانیہ کیا ہے ؟یہ واقعات کا ایسا تسلسل ہے جو ممکنات اور سبب ونتیجے کی منطق سے مربوط ہوتا ہے۔)
Gerald Priceلکھتے ہیں:
“Narrative has been minimally defined as the Representation of at least one event one change in a state of affairs. In narrative discourse revisited, for example Gerard Genette wrote: the idea of minimal Narrative presents a problem of definition that is not slight [….] for me, as soon as there is an action or an envent, even a single one, there is story because there is a transformation, a transition from an earlier to a later and resultant state. (1983:18f).” (2)
(ترجمہ: کم سے کم الفاظ میں بیانیہ کی یہ تعریف کی گئی ہے کہ بیانیہ کم سے کم ایک واقعے یا ایک صورت حال میں کسی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہو۔ بیانیہ کلامNarrative) discourse )کی نظر ثانی میں، مثلاـ ژراژنت نے جو لکھا ہے کہ کم سے کم بیانیہ(minimal narrative) کا تصور بیانیہ کی تعریف کے مسائل کو پیش کرتا ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔میرے نزدیک جیسا میں نے کہا کہ صرف ایک عمل یا ایک واقعہ ہو تو وہ قصہ ہے کیوں کہ ایسی صورت میں ماقبل سے بعد کی طرف کوئی نہ کوئی نتیجہ خیز تقلیب ہوتی ہے۔)
Jerame Brunerبیانیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” A Narrative is an account of events occuring over time it is irreducibly durative.” (3)
(ترجمہ: بانیہ واقعات کا وہ بیان ہے جو ایک وقت مقررہ میں واقع ہوتا ہے اور اس کا کردارلازماً زمانی ہوتا ہے۔ )
Paul Cobleyاپنی کتاب Narrative the new Critical Idomمیں لکھتے ہیں:
” Story Consists of all the events which are to be depicted, Plot is the chain of causation which dictates that these events are some how and that they are there fore to be depicted in relation to each other… Narrative is the showing or the telling of these events and the mode selected for that to take place…Narrative is a sequence that is narrated.” (4)
(ترجمہ: کہانی ان تمام واقعات سے تعمیر ہوتی ،جسے بیان کیا جانا ہے۔پلاٹ اسباب کی وہ زنجیر ہوتا ہے جو یہ متعین کرتا ہے کہ یہ واقعات ایک دوسرے کی مطابقت میں بیان کیے جانے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بیانیہ ان واقعات کو بیان کرتا یا دکھاتا ہے اور یہ بھی طئے کرتا ہے کہ انہیں کس طرز پر بیان کیا جائیگا۔)
زرارژینت(Gerard Genette) بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگرہم خودکوصرف ادبی اظہار کی عمل داری تک محدود رکھیں توہم کسی دقت کے بغیر بیانیہ کی تعریف کرسکتے ہیں:
’’یہ زبان کے ذریعے اوربہ طورخاص تحریری زبان کے ذریعے ،حقیقی یا افسانوی واقعہ یاواقعات کے تسلسل کی نمائندگی ہے۔‘‘(۵)
بیانیہ کی تھیوری کے مضمرات اوراس کے امکانات کوپوری وضاحت کے ساتھ پیش کرنے والے ناقدین میں ایک قابل قدرنام ڈچ خاتون Mieke Balکا ہے۔ انھوںنے اپنی تصنیف “Narratology: An Introduction to the theory of Narrativeمیں بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
” A narrative text is a text in which a narrative agent tells a story.” (6)
(ترجمہ: ایک بیانیہ متن،وہ متن ہے جس میں ایک راوی کہانی بیان کرتا ہے ۔)
بال نے بیانیہ متن کو موضوع بحث بناتے ہوئے بیانیہ کی یہ تعریف وضع کی ہے ۔ اس کا اطلاق بیانیہ کی ان تمام اصناف پر ہوسکتا ہے جن کا ذریعۂ اظہار لسانی نشانات یعنی الفاظ ہیں۔
اردومیں سب سے پہلے ممتاز شیریں نے بیانیہ کے متعلق اپنے مضمون ’’ناول اورافسانے میں تکنیک کاتنوعـ‘‘میں لکھا ہے :
’’بیانیہ صحیح معنوں میں کئی واقعات کی ایک داستان ہوتی ہے ۔ جویکے بعددیگرے علی الترتیب بیان ہوتے ہیں۔ ہم بیانیہ کوبقول عسکری کہانیہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔‘‘(۷)
مندرجہ بالااقتباس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ممتازشیریں کے نزدیک بیانیہ سے مراد وہ تحریر ہے کہ کوئی شخص واقعات کوترتیب دے کر کوئی افسانہ تشکیل دیتاہے۔ شمس الرحمن فاروقی ، ممتازشیریںکے اس اقتباس کے متعلق لکھتے ہیں :
’’ممتاز شیریں(یامحمد حسن عسکری اوران کی اتباع میں ممتاز شیریں) بیانیہ سے وہ چیزمرادلیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ جسے روسی ہیئت پرست نقاد وں خاص کربورس آئخن بام(Boris Eixenbam)نے Syuzetیعنی قصہ مروی کا نام دیاتھا۔ قصہ مروی سے اس کی مرادتھی واقعات اوران کی وہ ترتیب، جس ترتیب سے وہ قاری تک پہنچتے ہیں۔ Syuzetیعنی قصہ مروی کے متقابل شئے کوآئخن بام نے fabulaیعنی قصہ مطلق کانام دیاتھا۔ قصہ مطلق سے اس کی مرادتھی وہ تمام ممکن واقعات جوکسی بیانیہ میں ہوسکتے تھے،لیکن جن میں سے چندکو منتخب کرکے بیانیہ مرتب کیاجائے۔‘‘ (۸)
فاروقی صاحب بیانیہ کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’’بیانیہ سے مراد ہروہ تحریر ہے جس میں کوئی واقعہ (event)یاواقعات بیان کیے جائیں۔‘‘(۹)
پروفیسرقاضی افضال حسین نے اپنے مضمون’’واقعہ راوی اوربیانیہ‘‘میں بیانیہ کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
’واقعہ کابیان اصطلاحاً بیانیہ کہلاتاہے۔‘‘(۱۰)
مندرجہ بالاتمام تعریفوں سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ واقعہ یاواقعات کابیان ،کم سے کم ایک صورت حال کا تبدیل ہونا، واقعات کاترتیب واربیان ،جوسبب اورنتیجے کی منطق پرمبنی ہوبیانیہ کی تشکیل کے لیے ضروری ہے۔
بیانیہ کی ان تعریفوں میں ایک لفظ ’’واقعہ‘‘(event)قدرمشترک ہے۔ یایہ کہیں کہ بیانیہ کے وجود کے لیے واقعہ شرط ہے ۔ توسوال یہ ہے کہ واقعہ کیاہے؟یاکسے کہتے ہیں؟میکے بال لکھتی ہیں:
“Events have been defined in this study as ‘the transition from one state to another state, Caused or experienced by actor s ۱۱؎
(ترجمہ:اس مطالعہ میں واقعہ کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ یہ ایک صورت حال سے دوسری صورت حال میں تقلیب ہے جس سے کوئی کردار گزرتا ہے یا اس کا تجربہ کرتا ہے۔)
Shlomith Rimmankenanلکھتا ہے:
“An event may be defined without great rigaur as somthing that happens, something that can be summed up by a verb or a name of action.”۱۲؎
(ترجمہ: ایک واقعہ کی بغیرکسی دشواری کے یہ تعریف کی جا سکتی ہے کہ’’کچھ ہوا‘‘( یعنی جو ہوا) اسے ایک ’فعل‘ یا ’عمل کے اسم‘ میں مجملاً بیان کیا جا سکتا ہے۔ )
واقعہ کی تعریف کرتے ہوئے شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیںکہ:
’’وہ بیان جس میں کسی قسم کی تبدیلی حال کاذکرہوeventیعنی واقعہ کہاجائے گا۔‘‘
مثلاً حسب ذیل بیانات میںواقعہ بیان ہواہے:
(الف):
(۱) اس نے دروازہ کھول دیا
(۲) دروازہ کھلتے ہی کتااندرآگیا۔
(۳) کتااس کوکاٹنے دوڑا۔
(۴) وہ کمرے کے باہر نکل گیا۔
ان کے برخلاف مندرجہ ذیل بیانات کوواقعہ یعنی eventنہیں کہہ سکتے ،کیونکہ ان میں کوئی تبدیل حال نہیں ہے:
(ب):
(۱) کتے بھونکتے ہیں
(۲) انسان کتوںسے ڈرتاہے۔
(۳) ہرکتے کے جبڑے مضبوط ہوتے ہیں۔
(۴) کتے کے نوک دار دانتوں کودندان کلبی کہاجاتاہے۔(۱۳)
پروفیسرقاضی افضال حسین واقعہ کی تعریف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جس عمل (حرکت) میں صورت حال تبدیل ہوتی ہواسے واقعہ کہتے ہیںاور صورت حال سے مراد وہ زمانی تسلسل ہے جس میں مظہر /تنظیم/اشیاء ایک ہی شکل میں قائم رہتی ہیں۔ اس تسلسل یاٹھہرائو یاتنظیم میں کسی عمل کے سبب تبدیلی رونماہوتی ہے تواسے واقعہ کہتے ہیں۔‘‘(۱۴)
واقعہ کی اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ لسانی نشانات کے بیان میں جب ایک صورت حال کسی عمل کے سبب زمانی ومنطقی طورسے دوسری صورت حال میں تبدیل ہوتی ہے توواقعہ وجودمیں آتاہے اورواقعے کے لسانی اظہار یاتنظیم کو بیانیہ کہتے ہیں۔
یہاں پر یہ سوال ذہن میں آتاہے کہ صورت حال تبدیل ہونے سے پہلے کابیان کیاکہلائے گا۔ کیونکہ وہ بھی اسی بیانیہ متن کاحصہ ہے ۔ ایک مثال کے ذریعے اس کی وضاحت کی جاسکتی ہے ۔ایک افسانہ نگاردن یارات کے کسی حصے کا منظر بیان کرتاہے یاکسی کمرے یامکان کی تصویر کشی کرتاہے تویہ ایک صورت حال ہوگی اور جب کسی عمل کے نتیجے میں اس صورت حال میں تبدیلی ہوتی ہے تووہ واقعہ ہوگا۔ مثلاً ’’رات کاسناٹا جنگل کی طرح سائیں سائیں کررہا تھا ، کمرے میں گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز کے علاوہ کہیں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی ۔میں بسترپر لیٹا چھت کو گھورے جارہا تھا۔‘‘یہ ایک صورت حال ہے ’’کہ اچانک ایک دل دہلادینے والی دھماکے کی آواز سنائی دی ۔میں ڈرسے بسترپر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ ایک واقعہ ہوا۔ اس بیان میں صورت حال بیان کرنے والے لسانی نشانات کے ساختیاتی مجموعے کو ’’وصف حال‘‘ (Description)اورواقعہ کے بیان کو بیانیہ (Narration)کہتے ہیں ۔یعنی ایک مکمل متن، بیانیہ اوروصف حال سے مل کر تعمیر ہوتاہے۔
زرار ژینت(Gerard Genette)لکھتا ہے:
’’ہربیان حقیتاً دوقسم کی نمائندگی سے مل کربنتاہے۔ جومختلف تناسب میں ایک دوسرے میں گھلے ملے ہوتے ہیںایک طرف عمل اورواقعات کی نمائندگی ہے ۔جواپنے خالص مفہوم میں بیانیہ ہے اوردوسری طرف اشیاء وکرداروں کا بیان ہے جوروئیداد اور تفصیل کانتیجہ ہے۔۔۔۔روئیدادکاتصور بیانیہ کے بغیر کیا جاسکتا ہے ،لیکن حقیقت میں یہ کبھی آزاد حالت میں نہیں ملتا:بیانیہ ،روئیداد کے بغیرقائم نہیں ہوتالیکن روئیداد پراس کایہ انحصار، متن میں اس کے غالب کردارکو متاثر نہیں کرتا۔ روئیداد بالکل فطری طورپر بیانیہ کالاحقہ ہے جوہمیشہ فرماں بردار ،ہمیشہ بہت ضروری غلام ہوتاہے اورکبھی دعویِ خود مختاری نہیں کرتا۔‘‘(۱۵)
وصف حال Descriptionبیانیہ کاایک لازمی جزو ہے یعنی ایک مکمل بیان /متن بیانیہ اوروصف حال سے مل کر تعمیر ہوتاہے ۔
بیانیہ کاتعلق چونکہ واقعہ سے ہوتاہے اورواقعہ صورت حال کی تبدیلی سے عبارت ہے اس لیے اس میں افعال کوکلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وصف حال (Description)کاتعلق اشیاء، افراد یاکسی موقع کی تصویر سے ہوتاہے جس میں مرکزی حیثیت اسماء کوحاصل ہوتی ہے۔
اقتباس ملاحظہ ہو:
’’بیانیہ کاسروکار فعل یاواقعہ سے ہے جوخالص تسلسلِ عمل ہے اور اس سبب وہ بیان کے ڈرامائی اورزمانی کردار پر زور دیتاہے۔ دوسری طرف روئیداد یا صراحتی بیان چونکہ یہ اشیاٗ اورمعروض پران کے ہمہ وقتی وجودکے حوالے سے غور کرتاہے اورعمل کے تسلسل کوبھی ایک منظرتصور کرتاہے۔ وقت کومعطل کرتااور بیانیہ کوایک مخصوص مکانی عرصے میں پھیلاتا محسوس ہوتاہے۔ اس طرح کلام کی یہ دواقسام دومتضاد رویّوں کااظہار کرتی معلوم ہوتی ہیں۔‘‘(۱۶)
مذکورہ اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ بیانیہ کا سروکار فعل یا واقعہ سے ہے یعنی واقعہ فعل سے مشتق ہوتا ہے۔ فعل سے تعلق ہونے کے سبب واقعہ کی کچھ صفات بھی ہوں گی جیسا کہ مذکورہ اقتباس میں ذکر ہوا ہے کہ بیان کے ڈرامائی اور زمانی کردار پر زور دیتا ہے۔ ڈرامائی کردار پر زور دینے کے معنی یہ ہوئے کہ واقعہ حرکت سے عبارت ہوگا یعنی ایک صورت حال جب دوسری صورت حال میں تبدیل ہوگی تو اس عمل میں سبب اور نتیجے کا تعلق ہوگا۔ دوسرا، زمانی کردار کے معنی یہ ہیں کہ اس عمل /حرکت میں ایک زمانہ بھی شامل ہوگا۔ فعل سے عبارت ہونے کے سبب واقعہ کی ایک صفت یہ بھی ہوگی کہ اس عمل کا کوئی نہ کوئی کرنے والا بھی موجود ہوگا۔ یعنی واقعہ جسے پیش آئے گا، اصطلاحاً اسے کردار کہتے ہیں۔ اس طرح یہ کہاجاسکتا ہے کہ یہ تمام شرائط واقعہ کے بنیادی وصف ہیں۔
بیانیہ کے لیے واقعہ کاہوناشرط ہے ۔واقعہ حقیقی بھی ہوسکتاہے۔ یعنی خارج میں اس کاوقوع ہواہواورواقعہ خیالی بھی ہوسکتاہے۔ یعنی خارج میں اس کاوقوع نہ ہوبلکہ خیال یاجذبے کی غیرمادی دنیامیں ہو۔قاضی افضال حسین لکھتے ہیں:
’’ان دونوں صورتوں میں واقعہ کی تعریف نہیں بدلتی ہے لیکن اس کے بیان کی صفات وامتیازات بدلتے جاتے ہیں۔ مثلاً واقعہ اگر خارج میں ہو جس کی صفت یہ ہے کہ حواس کے ذریعے اس کاادراک ممکن ہواس لیے نتیجتاً اس کی تصدیق ہوسکے تواس کابیان خبر، تاریخ، سوانح، سفرنامہ یا روزنامچہ وغیرہ کہاجائے گا۔ اوراگرواقعہ نہ تو خارج میں ہواورنہ ہی اس کی تصدیق ممکن ہواورنہ تصدیق ضروری ہو۔تو اس کا بیان داستان افسانہ نگار یافکشن کی دوسری شکلیں کہلائے گا۔‘‘(۱۷)
اس طرح واقعہ کی نوعیت کے اعتبارسے بیانیہ (تحریری بیانیہ)کودوحصوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ اول غیرافسانوی بیانیہ اوردوسراافسانوی بیانیہ ۔ کوئی بھی بیان یامتن خود بخود وجودمیں نہیں آتابلکہ کوئی اسے بیان کرتایاترتیب دیتاہے ۔ واقعہ بیان کرنے والے کواصطلاحاً راوی کہتے ہیں یعنی ہرنوع کے بیانیے میں ایک بیان کرنے والا موجود ہوتا ہے۔
بیانیہ حرکت وعمل کی تصویرپیش کرتاہے ۔اس کاتعلق صورت حال کی تبدیلی سے ہے۔بیانیہ اس وقت قائم ہوتاہے جب اس میں کسی واقعہ کاانعقاد یاکم از کم اس کے انعقاد کاامکان موجود ہو۔ کسی بھی عمل یاواقعے کاانعقاد لازماً کسی نہ کسی زمانے کاپابند ہوتاہے اوراسی کے سہارے بیانیہ یاتوسیدھے خطوط پر آگے بڑھتا ہے یااپنے گردوپیش پھیلتاہے۔ بیانیہ محض بیانِ واقعہ یا واقعات کاسلسلہ نہیں بلکہ واقعات کابامعنی سلسلہ ہوتاہے۔ دوسرے الفاظ میں واقعات ایک مربوط اورمنظم سلسلے کے تحت بیان ہوتے ہیںخواہ اس کاربط منطقی ہوزمانی ہو، سبب یانتیجے کی منطق پر ہویا یہ تعلق ایک کردار یاکرداروں کے مختلف صورت حال سے دوچار ہونے کے نتیجے میں پیداہو۔یعنی بیانیہ کے لیے واقعات میں معنی کی وحدت بنیادی شرط ہے۔
لسانی اظہارکے علاوہ اظہار کے وہ طریقے جن میں واقعہ بیان نہیں ہوتابلکہ واقعے کو آنکھوں کے سامنے پیش کیاجاتاہے ان کوبیانیہ کہاجائے گایانہیں مثلاًڈرامہ ،فلم، اخباری فلم وغیرہ ۔شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں کہ:
’’یہ سوال بڑی حدتک پیش کردگی پرمبنی ہے اورپیش کردگی ہی پرمبنی کرکے خالص بیانیہ کوبھی تین انواع میں تقسیم کیاجاسکتاہے :
۱۔لکھاہوابیانیہ، جوزبانی سنانے کے لیے خصوصی طورپر لکھاگیاہومثلاً ناول، افسانہ، سفرنامہ، تاریخ وغیرہ۔
۲۔ایسابیانیہ جوصرف زبانی سنایاجائے مثلاً داستان، جب تک وہ غیر تحریری شکل میں ہو۔
۳۔ ایسابیانیہ جولکھاہواہو۔لیکن پہلے وہ زبانی سنایاگیاہویاجسے زبانی سنانے کی غرض سے لکھاگیاہو۔ مثلاً داستان جب وہ زبانی سنانے کے کام کی ہولیکن لکھ لیا گیا ہو یاچھاپ دیاگیاہو۔‘‘(۱۸)
گویا فاروقی صاحب بیانیہ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں، تحریری بیانیہ اور غیر تحریری بیانیہ یعنی زبانی بیانیہ خصوصاً داستانوی بیانیہ۔
رولاں بارت لکھتا ہے:
’’دنیا میں بیانیے کی اقسام بے شمار ہیں… بیانیہ کے اظہار کے وسیلوں میں تحریری یا غیر تحریری، مدلل و مربوط زبان، ساکت یا متحرک تصاویر، جسمانی حرکات و سکنات، یا پھر ان سب کی آمیزش سے بنا کوئی وسیلۂ اظہار شامل ہے۔ بیانیہ اسطور،روایتی قصوں حکایتوں، داستانوں، مختصر افسانوں، رزمیوں، تاریخ، المیہ، ڈراما (تجسس ڈراما)، طربیہ مائم (Pantomime) ،مصوری (مثلاً کارپاکسیو کی کی پینٹنگ، سینٹ ارسلا کو یاد کریں)، دھندلے شیشوں کی کھڑکی، سنیما، کامکس، مقامی خبروں اور گفتگو، سب میں موجود ہوتا ہے۔ یہ ہیئتوں کے لامتناہی تنوع میں تو ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ بیانیہ ہر عہد میں، ہر مقام پر اور ہر سماج میں وجود رکھتا ہے۔‘‘(۱۹)
رولاں بارت کے اس بیان سے بیانیہ کی ہمہ گیر آفاقیت کے ساتھ ساتھ اظہار کے ان تمام طریقوں کا بھی علم ہوتا ہے، جن میں بیانیہ موجود ہوتا ہے۔ماہرین بیانیات نے بیانیہ پربہت توجہ صرف کی ہے ۔ شاید اسی لیے بیانیات کو جدید تنقید میں ایک اہم ترین مقام حاصل ہے ۔ بیانیہ کی دنیابہت وسیع ہے ۔اسے پوری زندگی کااستعارہ کہہ سکتے ہیں ۔بقول زویتان ڈارف (Tzvetan Todorov)’’بیانیہ برابر ہے حیات کے۔‘‘(۲۰)
رولاں بارتھ(Roland barth) کاخیال ہے کہ بیانیہ ہرعہد اور سماج اورہرجگہ موجود ہے ۔انفرادی اور اجتماعی طورپر ہر شخص کاحوالہ بیانیہ ہی ہے ۔’’بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں۔‘‘بیانیہ کی حیثیت بین الاقوامی ،ماورائے ثقافت اورماورائے تاریخ ہے ۔یہ بس موجود ہے جس طرح زندگی موجود ہے۔
رولاں بارتھ کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ’ بیانیہ ہے اسی لیے میں ہوں‘ ، کیوں کہ بیان کے ذریعے ہی اس دنیا میں ہرفرد اور معاشرہ کی اپنی شناخت قائم ہوتی ہے ۔
٭٭٭
حوالہ جات حواشی:
۱۔ Encyclopedia of litrary Critics & Criticism: Edited by Chris Murray. V2-Pg793, 1999.
۲۔ Narrative Theory: Micke ball. v.I, Pg11,2004
۳۔ ایضاً ۔Pg217
۴۔ Narrative the new Critical Idiom: Paul Cobley. Pg-5 to 7, 2001, Routledge Newyork.
۵۔ بیانیہ کی سرحدیں : مترجم قاضی افضا ل حسین ،مشمولہ تنقید علی گڑھ ۔ص۱۶۴،۲۰۱۱ء
۶۔ Narratology: An Introduction to the theory of Narrative: Mieke ball.Pg-16, 1999. Second edition. University of Toronto Press.
۷۔ ناول اورافسانے میں تکنیک کاتنوع۔ممتاز شیریں۔ تنقید علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۸۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۵۳۔۲۰۱۱ء
۹۔ ایضاً۔ص۵۳
۱۰۔ واقعہ ،راوی اور بیانیہ ازقاضی افضال حسین ۔مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۱۱۔ Narratology: An Introduction to the theory of Narrative: Mieke ball.Pg-182, 1999. Second edition. University of Toronto Press.
۱۲۔ Shlomith Rimmon-Kenan : Narration Fiction, Contemporary Poetics Second Edition 2003 Routledge London Newyork
۱۳۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۵۳
۱۴۔ واقعہ ،راوی اوربیانیہ ازقاضی افضال حسین مشولہ ،تنقید،علی گڑھ ۔ص۱۹۵
۱۵۔ بیانیہ کی سرحدیں :مترجم قاضی افضال حسین، مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص:۱۷۱۔۱۷۲
۱۶۔ رسالہ تنقید ششماہی علی گڑھ ۲۰۱۱ء،ص:۱۹۸)
۱۷۔ واقعہ ،راوی اوربیانیہ ازقاضی افضال حسین مشولہ ،تنقید،علی گڑھ ۔ص۲۰۴
۱۸۔ چندکلمے بیانیہ کے بیان میں ۔شمس الرحمن فاروقی ،مشمولہ تنقید ،علی گڑھ ۔ص۶۰
۱۹۔ بیانیہ کا ساختیاتی تجزیہ: ایک تعارف مترجم ارجمند آرا، مشمولہ تنقید ششماہی علی گڑھ، ۲۰۱۱ء، ص:۶۴
۲۰۔ رسالہ تنقید ،علی گڑھ ،مدیر قاضی افضال حسین ۔ص۶۲

Ahde Hazir mein Mashriqi Uloom by Obaidur R .Hashmi

Articles

عہد حاضر میں مشرقی علوم و افکار کی معنویت

پروفیسرقاضی عبید الرحمن ہاشمی

قبل اس کے کہ مختصراً مشرقی علوم و افکار کی ضرورت اور اہمیت بیان کی جائے، مشرق، اہل مشرق، خصوصاً اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں صدیوں سے چلے آرہے مغربی تصورات و افکار سے بھی کسی قدر واقفیت ضروری معلوم ہوتی ہے جس پر بیسویں صدی میں بڑی خوش اسلوبی، ہمدردی اور خلوص کے ساتھ ایڈورڈ سعید نے اپنی معروف کتاب مشرقیات(Orientalism) میں روشنی ڈالی ہے۔
اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ مشرقیات(Oriantalism) کی تحریک نے ان تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو وحشی، غیر مہذب اور پسماندہ بتایا جو مغربی دائرہ ٔاثر سے باہر تھے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد ان تہذیبی تبدیلیوں کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا جن سے مغرب کی سیاسی، عسکری اور اقتصادی توسیع پسندی میں آسانی ہوسکے۔ چنانچہ مشرقیات بنیادی طورپر بیک وقت استحصالی بھی تھی اور نوآبادیاتی بھی۔
مغربی معاشرے میں قرونِ وسطیٰ سے اسلام کے بارے میں مناظراتی صورت نظر آتی ہے کہ یہ ایک پرتشدد اور خطرناک عقیدہ ہے۔ جبکہ موجودہ مغربی فکر سر تاسر اسلام دشمنی اور کینہ پروری کی غماز ہے۔ قرونِ وسطیٰ میں مغربی سیاحوں کے سفر ناموں میں کثرت سے بے سر پیر اور حیران کن بیانات کا سراغ ملتا ہے۔ ان متون میں مسلمانوں کو بے دین، شہوت پسند، لالچی، ظالم اور وحشی کہا گیا ہے۔ ان کے نزدیک بظاہر یہی وہ بنیادی عناصر تھے جن سے مشرقی اسلام عبارت تھا۔ Divine Comedyمیں دانتے (1320d)نے حضور مقبولؐ کے خلاف صریح نازیبا کلمات استعمال کیے ہیں۔ بہت سے یورپین دانشوروں اور مصنّفین نے اسی بیمار ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے جس میں کئی نام عالمی شہرت رکھتے ہیں، مثلاً Machiavelli(d1527)، سمن اوکلےSimon Ockley(d1720)، بولین ولیرسBoulain Villiers(d1722)، ڈائڈریٹDiderot (d1784)، مولیرMoliere (d1673)اور والٹیرVoltaire (d1778)وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جنھوں نے مسلمانوں، اسلام اور حضور مقبولؐ کے بارے میں نہایت ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔ حد یہ ہے کہ پایرلوتی Pierre Lote (d1923)جو کہ عثمانیوں کا دوست سمجھا جاتا تھا اس کا خیال تھا کہ مسلم ممالک میں مقامی عورتیں شہوت پرست، بدچلن اور آوارہ ہوتی ہیں۔
نیپولین کے زیر نگیں مصر کے تذکرے میں فلابیر کہتا ہے کہ یہاں مردوں کی شہوت انگیزی کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنی داشتاؤں کے ساتھ قاہرہ کے شاہی محل کے سامنے کھلے میدان میں سب کے سامنے مباشرت کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں اس وجہ سے زیادہ حیران کن ہیں کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے مرد عورتوں کے درمیان تعلقات کے سلسلہ میں واضح قوانین دیے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اہل مغرب اور مغربی سیاحوں نے مسلمانوں کی شہوت زدگی کی جو تصویریں پیش کی ہیں انھوں نے کبھی اسلام کی تعلیم پر توجہ کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی، اس سے اسلام اور مسلمانوں کے سلسلہ میں غیر مسلموں کی عقل عامہ کی شدید کمی کا بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
جیکولین سیزیری(Jecelune Cesari)اس تناقص کا سبب تلاش کرنے کے لیے اس تاریخی تناظر کی طرف اشارہ کرتی ہیں جب قرون وسطیٰ کے بعد بحیرۂ روم میں اسلام اور یورپ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، ان کا خیال ہے کہ اسلام کے بارے میں تمام اطلاعات یورپی نقطۂ نظر کی پیداوار ہیں جو ان سیاسی اور مذہبی تناقضات کی زائیدہ ہیں جو صدیوں سے چلے آرہے ہیں اس طرز فکر کے ذریعہ شخصی اور ذاتی پسند و ناپسند کو بنیاد بنا کر اسلام کی سچائی کو ملبے کے نیچے دبانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
یورپ میں اسلام سے متعلق مواد(Literature)کا تعلق سفر ناموں تک محدود نہیں ہے۔ ۱۸ویں صدی تک آتے آتے محسوس ہوتا ہے کہ اسلام کے بارے میں ریسرچ پہلے شروع ہوگئی تھی چنانچہ ان متعلقات نے استشراق(Orientalism) کی شکل میں بتدریج ایک باقاعدہ مبسوط ضابطۂ فکر کی شکل اختیار کرلی، تاہم اس عرق ریزی کے پس پشت ہمیشہ ایک ’غیر‘ کا ہی تصور کارفرما رہا ہے۔ اسلام کے بارے میں اس بشری نقطۂ نظر نے نہ صرف یہ کہ یورپ کو تعصب سے آزاد نہیں ہونے دیا بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور بالآخر اہل مغرب کو اعلان کرنا پڑا کہ اسلام مغربی اقدار اور بالعموم سائنسی ترقی کا دشمن ہے۔ استشراق(Orientalism)نے ایک ایسی سائنس اور خیالات کی روایت ڈالی جس کی اساس اس بات پر تھی کہ مشرق اور مغرب وجودیاتی (Ontological)سطح پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں لہٰذا اس نے ۱۸ویں صدی اور ۱۹ویں صدی میں اس بنیاد پر ایک بین الاقامی نوآبادیات کا جواز پیدا کیا۔
استشراق کی خاص دلیل یہ تھی کہ اسلام ہر طرح کی سائنس وتحقیق کو گناہ سمجھتا ہے جس نے مسلمانوں کو وحشی گروہ کے ساتھ جوڑ دیا۔ ارنیسٹ رینن (Mernes Renan D 1892)کے مطابق مسلمان سائنس سے نفرت کرتے ہیں، تحقیق کو غیر ضروری، غیر مفید اور فضول سمجھتے ہیں۔ فطری سائنس سے بھی انھیںنفرت ہے، یہ الگ بات ہے کہ رینن نے مسلمانوں کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس کی تائید میں کوئی ثبوت بہم پہنچانا ضروری نہیں سمجھتا ہے۔ یوں بھی وہ اسلام کے بجائے یہودیت پر اپنے کاموں کے لیے مشہور تھا اور سامی روایت پر تحقیق میں اہمیت رکھتا تھا۔ اس کی تحقیقات میں سامی دشمنی کی بھی نمایاں جھلک موجود ہے۔ اس کے اسلام کے بارے میں متعصبانہ رویہ غالباً اس کی اسی ذہنی حالت سامی دشمنی کا پیدا کردہ تھا۔ اس نے اپنے مضمون’اسلام اور سائنس‘ میں مشرقی وسطیٰ میں مسلمانوں کے زوال کا ذمہ دار اسلام کو قرار دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ تمام سامی مذاہب و ثقافتوں میں اسلام کا مطمح نظر سائنس اور سائنسی خیالات کے بجائے صرف الہامی اکتسابات اور شاعرا نہ جوش و خروش تک محدود ہے۔ حالانکہ رینن جو کچھ کہہ رہا ہے اس کا زیادہ تر تعلق قرونِ وسطیٰ میں مغربی کلیساؤں سے وابستہ عیسائیوں کے سائنس کے بارے میں ذہنی رویے سے ہے۔
آج ان مستشرقین کی ذہنیت کے گہرے اثرات کو ان مغربی تجزیوں میں دیکھا جاسکتا ہے جو انھوں نے مسلم دنیا کے تعلق سے کیے ہیں۔ مغربی میڈیا ان مظاہر سے بے حد متاثر ہے جو مسلم دنیا سے متعلق اہم نشانات اور اسلام کے ثقافتی تصورات کے بارے میں انتشار پیدا کرنے والے ہیں۔
تشدد اور ہٹ دھرمی کے واقعات کی فوری اطلاعات کے ذریعہ مغربی تخیل کو اسلام کے خلاف برگشتہ کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں میڈیا اسلام اور اسلامی دنیا کے مسلمانوں کی ایسی علامتی شبیہہ پیش کرتا ہے جس میں سیاسی اور نظریاتی بنیاد پرستانہ جہت شامل ہوتی ہے۔ مختلف میڈیا کے ذریعہ گمراہ کیے جانے کے سبب عوام کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ شام، الجیریا، ایران، مصر، افغانستان، ترکی اور عراق میں کیا سیاسی کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اہل مغرب میں جب تک اسلام کے بارے میں صحیح معلومات اور واقفیت نہیں ہوگی اس وقت تک وہ مذکورہ شبہے سے خوف زدہ رہیںگے۔ علاوہ ازیں موجودہ عہد میں مسلمان ملکوں میں اسلام کے بارے میں بڑھتی ہوئی واقفیت ان کے نزدیک بین الاقوامی گروہی دہشت پسندی کے مترادف رہے گی۔
اس مغربی نقطۂ نظر کو اسلامی دنیا کی بعض تحریکوں سے بھی تقویت حاصل ہوئی ہے۔ مثلاً انقلاب ایران، امریکی سفارت خانے کا محاصرہ، توڑ پھوڑ، انور سادات کا قتل (۱۹۸۱ء)، سلمان رشدی کے خلاف فتویٰ، عرب اسرائیل جنگ، الجیریا اور افغانستان کا بحران اور حالیہ زمانے میں خصوصیت کے ساتھ شام اور عراق کے حالات کو مغربی میڈیا نے جس طرح پیش کیا ہے، اس سے کمیونسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد ایک نئی نزاعی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے ہر بین الاقوامی واقعے کو اسلام سے منسوب کردینے کے باعث ، تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نظریے کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اسلام کی سیاسی جہت پر حد سے زیادہ اصرار کے باعث اس کی دینی حیثیت پر کسی قسم کی عالمانہ گفتگو آج کم ہی کی جاتی ہے چنانچہ مغرب کا دانشورانہ تخیل اسلام کو صرف ایک سیاسی محرک کی حیثیت سے ہی دیکھنے دکھانے پر مصر نظر آتا ہے۔
موجودہ حالات میں جبکہ آج ہماری زندگی اور اس کے تمام تر مظاہر و ممکنات، تہذیبی ادارے، علوم و فنون اور افکار و خیالات پر صحیح معنوں میں دانش مغرب کی مکمل حکمرانی ہے۔ مغربی سیاسی و نظریاتی تسلط اور تہذیبی بالادستی کا جو عمل ہمارے ملک میں خاموشی کے ساتھ گزشتہ تقریباً ڈیڑھ دو سو برسوں سے جاری تھا آج وہ اپنی مکمل صورت میں اپنے تمام تر عذاب و ثواب کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ تہذیبی یلغار کا عمل جو ابتدا میں بہت مدھم تھا گزشتہ کچھ برسوں میں صنعتی، مواصلاتی اور تکنیکی شعبوں میں برق رفتار ترقی کے طفیل اس قدر تیزی سے آگے بڑھا ہے کہ عقل حیران ہے اور یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ سیلاب کب، کس طرح اور کہاں جاکر تھمے گا۔
آج جہاں ہماری تمام تر معاشرتی زندگی، اس کے امتیازی خد و خال اور اقدار کو اپنی نیستی کا خطرہ درپیش ہے، خود ہمارے علوم و افکار بھی نوآبادیاتی اثرات سے اس قدر رنگین ہوچکے ہیں کہ ان کی الگ سے شناخت ایک مشکل مرحلہ بن چکی ہے۔ ہمارے جملہ علوم، ادبی و جمالیاتی افکار، مذہبی و روحانی اقدار، فنی و فکری کارگزاریاں اور ادارے نہ صرف عام بے اعتنائی کے شکار ہیں بلکہ بدیسی ثقافت کے ملبے میں دب کر یہ تمام سرمایۂ علم و دانش بتدریج معدوم ہوئے جاتے ہیں، چنانچہ تہذیب مغرب کی تحقیر یا اس کی گوناگوں برکات سے چشم پوشی کیے بغیر بھی جب ہم پچھلے کچھ برسوں میں اپنی علمی و فکری متاع کا جائزہ لیتے ہیں تو اطمینان سے زیادہ تشویش کو راہ ملتی ہے اس لیے کہ ہم نے نئی عمارت بنانے کی دھن میں نہ صرف سنگ و خشت اور رنگ و روغن مغرب سے مستعار لیا بلکہ عمارت کی بنیادبھی مستعار افکار کی سرزمین پر استوار کرتے رہے اور اسی پر فخر کرتے رہے۔ تاہم جس طرح ہماری ادبی و لسانی تاریخ میں پہلے بھی نو آبادیاتی ترجیحات کے غلبے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی رہی ہے، مشرقی اور ہند اسلامی ثقافت سے وابستہ امتیازی اور آفاقی، فنی اور جمالیاتی اقدار پر زور دیا جاتا رہاہے۔ ہمارے عہد میں بھی مغربی افکار کی سرکش لہروں کے متوازی ایک لہر مشرقی علوم و فنون اور خالص ہندوستانی افکار و خیالات کے احیا اور اثبات کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ مغرب جو خود اپنے وجودی اور روحانی زخموں کا مداوانہ کرسکا اس کے ژولیدہ افکار ہماری تاریک راتوں کو کس طرح منور کرسکیں گے۔ اس طرز فکر کے نتیجے میں جہاں وسیع تر پیمانے پر زندگی کی ہر سطح پر از سر نو غور و خوض اور نقد و احتساب کا عمل تیز ہوا ہے ادبی سطح پر بھی عظیم کلاسیکی شاہکاروں کی شعریات کی بازیافت اور ان کو از سر نو جانچنے اور پرکھنے کا رجحان بھی تیزی پکڑ رہا ہے۔ مشرق کی منفرد علمی ادبی روایات اور ان کی گہری بنیادوں کی جستجو کا مقصد دراصل خود اپنی ہستی کو جواز فراہم کرنا اور اپنا شناخت نامہ ترتیب دینا ہے۔
اس نوع کی سرگرمی کی معنویت افادیت اور اہمیت موجودہ دور میں یوں بڑھ جاتی ہے کہ آج وہ تمام افکار و نظریات جن کی تعقل پسندی اور معروضیت کا بڑا شہرہ تھا، اکثر و بیشتر سرنگوں ہوچکے ہیں اور وہ تمام محل جو صرف مادی خیالات اور مغربی افکار کی بنیادوں پر استوار کیے گئے تھے ریزہ ریزہ ہوکر بکھر رہے ہیں۔ میری مراد ترقی پسند تحریک کی فکری بنیادوں اور جدیدیت کے میلان کی پشت پر کارفرما فلسفے اور نظریات سے ہے۔
نئے عہد میں مشرقی اقدار کی جستجو کا ایک مفہوم ہماری، علمی ادبی روایات میں مضمر سچے مذہبی شعور و ادراک اور روحانی و قلبی واردات کی بھی تلاش و جستجو ہے جن کی آگہی سے دانش مغرب قاصر ہے۔ اساطیر، دیومالا، علامات، مابعد الطبعیاتی افکار اور وہ تمام فنی و لسانی لزوم جو ہماری خالص مشرقی ثقافت اور تخلیقی مزاج کا صدیوں سے حصہ رہے ہیں ان کی تعبیر و تشریح اور افہام و تفہیم موجودہ آگہی کا لازمی نتیجہ ہے۔
میرا خیال ہے کہ ہماری علمی ، ادبی ، جمالیاتی اور فنی روایات میں مشرقی ، روحانی اور انسانی مآخذ و سرچشموں کو ڈھونڈنے کا عمل جس قدر تیز ہوگا اسی قدر سرعت کے ساتھ ہمیں اپنی علمی میراث کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوگا اور مغربی علوم کے مقابلے میں اپنے سرمایۂ علم و ودانش کے تئیں ہماری تحقیری روش بھی یکسر بدل جائے گی۔ تاہم اس عمل کو اگر کوئی Puritanismاور ترقی معکوس سے تعبیر کرتا ہے تو یہ محض ایک غلط فہمی ہوگی۔ مشرق و مغرب کے بنیادی فلسفیانہ حقائق میں مماثلتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنے علمی و ادبی ورثے اور اکتسابات کے امتیازات کو نمایاں کرنے کا عمل کسی طرح منفی یا Fanaticتصور ہرگز نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭