نہ تو رنج ہے نہ امنگ ہے نہ سکون ہے نہ تناؤ ہے
یہ قیام کیسا قیام ہے یہ پڑاؤ کیسا پڑاؤ ہے
نئی صبح سے نئی رات سے مرا خواہشاتِ حیات سے
نہ بگاڑ جیسا بگاڑ ہے نہ بناؤ جیسا بناؤ ہے
عبید اعظم اعظمی
ہوش نہیں ہے ہوش کا ، ہوش سے پھر بھی کام لے
یا تو تجھے میں تھام لوں ، یا تو مجھے تُو تھام لے
رسمِ تعلقات کے دو ہی بڑے اصول ہیں
یا تو مجھے سلام کر یا تومرا سلام لے
عبید اعظم اعظمی
رسوائیوں کے ‘ان کی’ نہ امکاں ہوں پیش پیش
مسجد ہٹے تو صاحبِ ایماں ہوں پیش پیش
کوشش یہ کر رہے ہیں مسلسل ‘ذہین لوگ’
مندر بنے اور اس میں مسلماں ہوں پیش پیش
رسوائیوں کے ‘ان کی’ نہ امکاں ہوں پیش پیش
مسجد ہٹے تو صاحبِ ایماں ہوں پیش پیش
کوشش یہ کر رہے ہیں مسلسل ‘ذہین لوگ’
مندر بنے اور اس میں مسلماں ہوں پیش پیش
عبید اعظم اعظمی