Hijrat E Nabwi ke Nataej

Articles

ہجرتِ نبوی کے نتائج

ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر

امت مسلمہ کے تمام محدثیں، مفسرین، علما اور فقہا نے بالاتفاق اور علی الإعلان اس بات کا اظہار کیا ہے کہ

 اصح الکتب بعدِ کتابِ اللہ الصحیح البخاری

 اسی بخاری شریف کی پہلی حدیث موضوعِ کا احاطہ کرنے میں معاون و مددگار ہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے کہ

          اعمال کا دارومدار نیتوں ہی پر ہے۔ اور ہر شخص کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ پس جس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کی جانب ہے تو اس کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ ہی کی جانب ہے۔ اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہے کہ اسے کمائے یا عورت کے لیے ہے کہ اس سے نکاح کرے تو اس کی ہجرت انہی کی جانب ہے

یہ چھوٹی سی حدیث بے شمار راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ہجرت اور اس کی روح کو سمجھاتی ہے۔ نیرنگیئ حیات میں نیت و اخلاص کا پتہ دیتی ہے۔ یہ حدیث حبِّ رسول اوراطاعت باریِ تعالیٰ کا سرچشمہ ہے۔ اسی حدیث سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاش و معیشت کے لیے کی جانے والی ہجرت کس شمار و قطار میں ہے اور خدا اور محبوبِ خدا کے حکم پر کی جانے والی ہجرت کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔        

          ہجرتِ نبویﷺ اسلامی تاریخ کا محیر العقول واقعہ، اہم ترین موڑ اور عظیم تر اسلامی انقلاب کا سرچشمہ ہے۔ اسی طرح سیاسی، اقتصادی، آفاقی، معاشی اور معاشرتی امن و سکون کا منبع ہے۔ یقینا نبی کریم سے پہلے بھی نبیوں نے اپنے اپنے شہروں کو خیرباد کہا تھا لیکن  ہجرت نبوی عام ہجرتوں سے بالکل الگ نوعیت کی ہجرت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت آرام وراحت کے حصول کے لیے نہیں تھی اورنہ ہی آپ کا مقصد طلبِ شہرت، حصولِ جاہ ومنصب اور حبِّ سلطنت تھا۔۔خوداشرافِ قریش آپ کو حاکم بنانے اور آپ کے قدموں تلے مال وزر کے ڈھیر بچھانے لیے تیار تھے، لیکن آپ کا مقصد اُس سے حد درجہ اعلی وارفع تھا، إسی لیے جب آپ کے چچاابوطالب نے آپ کے پاس آکر اُن کے معبودوں سے تعرض نہ کرنے کی گزارش کی توآپ نے عزم وہمت کا پیکر بن کرکہا:

چچا جان! بخدا اگر وہ ہمارے دائیں ہاتھ میں سورج اوربائیں ہاتھ میں چاند بھی لاکر رکھ دیں پھربھی میں اس کام کو ہرگز نہیں چھوڑ سکتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اِسے غالب کردے یا اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔      

          اسی توکل اور بھروسے پر آپﷺ نے ہجرت کی اور پھر تاریخ عالم نے دیکھا کہ کس طرح عرب کے ریگستانوں سے افریقہ کے چٹیل میدانوں تک، نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر، انجمِ کم ضو اور کجرو گرفتارِ طلسمِ ماہتاب ہوتے چلے گئے۔ دنیا نے دیکھا کہ جب  بامِ گردوں سے احکامِ خداوندی کے ساتھ جبینِ جبرئیل نمودار ہوئی تب ساقئی کوثر نے اپنے نالہ شبگیر اور حکمت و تدبیر سے کفر و الحاد اور دہریت و ارتداد کا قلع قمع کرتے ہوئے عظیم اسلامی سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ بقول شاعر

یوں ہی نہیں یہ برگ و ثمر لہلائیں ہیں

پیڑوں نے موسموں کے بہت دکھ اٹھائے ہیں

          یہ ہجرت کی عظمت کا اعلان ہی ہے کہ قرآن حکیم میں کئی جگہوں پر اس کا تذکرہ کیا گیا ہے مثلا سورہ انفال آیت نمبر 30، سورہ بقرہ آیت نمبر 207، سورہ یسین آیت نمبر 9، سورہ توبہ آیت نمبر 40، سورہ نسا آیت نمبر 97 وغیرہ

          ہجرت کے نتائج کا بغور و غایت مطالعہ نہیں صرف سرسری ہی نظر ڈالیں تو یہ بات ہمیں روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آئے گی کہ 9 ستمبر 622 ء سے شروع ہوکر 14 اکتوبر 622 ء پر ختم ہونے والے اس 26 روزہ سفرِ ہجرت نے نوع انسانی کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ عالمِ انسانیت کو ایک نیا رخ عطا کیا۔ ناقابلِ تسخیر قیصر و کسریٰ کو تاراج کرتے ہوئے اسلامی تمدن کی بنیاد رکھی، مال و دولت کی چاہت کو ختم کرتے ہوئے ایثار و قربانی کے جذبے کو فروغ دیا۔ جوانمردی، عزم و استقلال اور ہمت کی داستانیں رقم کیں۔عربی و عجمی، رنگ و نسل، خاک و خون کے امتیاز کو ختم کیا،پاکبازی، ایمانداری اور دیانتداری کو اعلیٰ ترین اقدار قرار دیا۔ گمرہی، ضلالت، شراب نوشی، قمار بازی، توہم پرستی، حقوق کی پامالی، ظلم و استبداد اور معاشی استحصال کا قلع قمع کرتے ہوئے انسان کو “ولقد کرمنا بنی آدم” کے اعزاز سے سرفراز کیا،اطمینانِ قلب سے محروم ذہنی اور فکری سطح پر مضطرب اہلِ عرب کے سامنے ایمان و یقین کی مشعلیں روشن کیں، مستحقین کو امداد فراہم کی، غریبوں، نادروں اور بے کسوں کی خبر گیری کی، بیواؤں کی دادرسی کی، بے گھروں کو گھر عطا کیے، یتیموں کو کے سر پر دستِ شفقت رکھا، انصار و مہاجرین کے دلوں میں الفت و محبت ڈال کر اخوت و مودّت کا بے حد مستحکم اور اٹوٹ رشتہ قائم کیا۔ دینی، مذہبی، اخلاقی، سیاسی، سماجی،  غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں فلاح و کامیابی کے جامع اور رہنما اصول وضع کیے، دین و دنیا،دونوں جہان میں کامیابی و کامرانی کے گر سکھلائے سیاسی تدبیر و حکمت اورتنظیم سے صالح معاشرے اور اسلامی سیاست کی بنیاد رکھی سیاست اور دین کو لازم و ملزوم رکھا یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کو بھی کہنا پڑا کہ

جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

          حضورﷺ کی ہجرت کے آثار ونتائج صرف اورصرف عرب کی تپتی ہوئی ریت ہی تک محدود نہیں تھے بلکہ ہجرت کے سبب کاروانِ بشریت و انسانیت، بت پرستی اور جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر علم اور توحید پرستی کی طرف گامزن ہوگئے۔ حضورﷺ کے ہجرت نے  انفرادی،اجتماعی اخلاقی قدروں سے ناآشنا اہلِ مدینہ کے ہاتھوں میں علم وتوحید کا پرچم دے کراخلاق و آداب سے آشنا ایک نئے اسلامی معاشرے کی داغ بیل ڈالی۔ مدینے میں پہلی باراسلامی حکومت کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ہجرت سے قبل سر زمین عرب میں اسلامی حکومت اورسیاسی نظام سیاسی کا وجود نہیں تھا، خاندانی اورقبائلی جنگیں سالہا سال جاری رہا کرتی تھیں۔ لیکن حضور ﷺ کی تشریف آوری پر تمام مشکلات،اور جنگوں کا خاتمہ ہوگیا اور اسلام دھیرے دھیرے پوری دنیا میں پھیلتا چلا گیا گیا۔

          ہجرت کا واقعہ ہمیں درس دیتا ہے کہ مال و دولت، عزت و شرف،جاہ و حشمت، زمین و جائداد، اہل و اعیال اور رشتے ناطے بوقتِ ضرورت دین و ایمان کی حفاظت کے لیے قربان کیے جا سکتے ہیں۔ اوس و خزرج کی طرح سالہا سال کے دشمنی بھلا کر باہم شیر و شکر رہا جاسکتا ہے۔ کوشش، تدبیر، محنت، حکمت، عزم، حوصلے اور ہمت سے مقصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔

          اگر یہ کہا جائے تو بے جان نہ ہوگا کہ اس دنیائے آب و گِل نے اعتماد و یقین اور تدبیر و حکمت کے روپ میں ہجرت کے دو بڑے نتائج دیکھے۔ مکہ میں اخلاق حسنہ کا فراخ دلی کے سا تھ مظاہرہ کرنے کے باوجو آپ کو دارِارقم میں پو شیدہ طو ر پر ”تعلیم ِدین“کا کا م کرنا پڑتاتھا، نما زیں خفیہ طور ادا کرنی پڑتی تھیں لیکن ہجرت نے وہ اعتماد بحال کیا کہ مغلوبیت غالبیت میں تبدیل ہو گئی، اسلامی احکام نافذ ہوئے، اس طرح کے بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اعتماد و یقین اور تدبیر و حکمت کو ہجرت کا واقعے سے بہ آسانی سمجھا جا سکتا۔  بیعتِ عقبہ ثانیہ میں اہلِ مدینہ کو دولتِ اسلامیہ کے قیام پر آمادہ کرنا، اُنہی میں سے 12 آدمیوں کو ان کا نقیب بنا کر حضرتِ عیسی کے حوارین کا ہم پلہ قرار دینا، صحابہ کرام کو پہلے مدینہ روانہ کردینا،خود بعد میں ہجرت کرنا، سواریوں کو کئی ماہ پہلے سے تیار رکھنا، رہبر کا انتظام کرنا، اپنے بستر پر حضرت علی کو سونے کی تلقین کرنا، غارِ ثور میں قیام کرنا یہ تدبیر و حکمت یا دانائی نہیں تو اور کیا ہے۔ اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.لیکن افسوس ہوتا ہے کہ آج ہم نے ہجرت کی روح کو فراموش کردیا، اس کے نتائج سے روگردانی کی، اس کے پیغام کو اپنی زندگیوں سے غائب کردیا، انصار و مہاجرین سا رویہ تو درکنار ہمارے اپنے گھروں میں  تعلقات کا بگاڑ بامِ عروج پر پہنچا ہوا ہے۔ ہم محنت سے کوسوں دور لیکن گلی کوچے ہم سے آباد، محنت کے نام پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے ہم لیکن بازاروں کی رونق بھی ہم سے۔۔۔۔کاش کے ہم ذرا ہجرت کے نتائج اور اس کے تقاضوں پر بھی غور کرلیتے!

 سورہ نسا کی آیت نمبر 100 میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ

”اورجو کوئی اللہ کی راہ میں اپنے وطن کو خیرباد کہہ دے وہ زمین میں رہنے کی بہت جگہ اورروزی میں کشادگی پائیگا“

ہم کہہ سکتے ہیں کہ  جوشخص اللہ کی خاطر کوئی چیزچھوڑدیتاہے اللہ تعالی اسے اُس سے بہترچیز عنایت کرتا ہے،مہاجرین کی مثال ہمارے سامنے ہے،جب صحابہ کرام نے اپنے گھربار،اپنے اہل وعیال اوراپنے مال ودولت کوخیربادکہہ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی تواللہ تعالی نے رزمینِ عرب کو ان کے لیے مسخر کردیا،انہیں شام، ایران اوریمن کے خزانوں کی چابیاں عطا فرمادیں،اورقیصروکسراکے خزانے ان کے قدموں میں لا کر ڈال دیے۔کیا ہجرت کے نتائج سمجھنے کے لیے اتنا کافی نہیں؟

……. مضمون نگار اردو کے ممتاز شاعر اور ترجمہ نگار ہیں

Critical Analysis of Makhdoom

Articles

مخدوم محی الدین کے مجموعہ کلام ”گل تر“ پر تنقید و تبصرہ

ڈاکٹر نوشاد احمدسنجری

مخدوم محی الدین کا دوسرا مجموعہئ کلام”گل تر“ ۱۶۹۱ء میں شائع ہوا۔اس مجموعے کے عنوان گل تر سے ظاہر ہے کہ یہ سرخ سویرا سے مختلف ہے اور اس میں انقلابی شاعری کے بعد رومانی کیفیات کا اظہار بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ اس دور کے دوسرے شعراء کے یہاں انقلاب اوررومان کا امتزاج نظر آتا ہے۔اس مجموعے کے تعلق سے خود مخدوم نے لکھا ہے کہ ان کے دیرینہ قارئین جب گل تر پڑھیں گے تو غالباً انہیں فوراً اس کی مختلف نوعیت کا احساس ہوگاور ان کا ذہن نئے کلام کا سرخ سویراکے جانے بوجھے اشعار سے موازنہ بھی کرنے لگے گا۔ نئے مجموعے کا کلام اپنی سج دھج اورنفس مضمون کے اعتبار سے سرخ سویرا کی نظموں سے مختلف ہے۔ان میں جن حقائق کی تصویرکشی کی گئی ہے وہ بالکل دوسرے ہیں۔ شاعر اپنی شاعرانہ عمر میں گویا کئی عمریں گزارتا ہے۔ جب اس کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے تو شعور میں پختگی آتی ہے،احساسات اور جذبات بدلتے ہیں۔ ٹھیک ویسے ہی جیسے مخدوم کے احساسات بدلے۔
مخدوم صاحب لکھتے ہیں کہ گل تر کے مطالعہ کے بعدبعض ناپختہ ذہن اس وقت بھی سوچتے تھے اور آج بھی یہ خیال کریں گے کہ مخدوم اپنے آپ سے برگشتہ یا اپنے نظریات سے منحرف ہوگئے ہیں۔جب کہ ایسا نہیں ہے۔کیوں کہ مخدوم نے خود کہا ہے کہ شاعر اپنی عمرمیں کئی عمریں گزارتا ہے۔مخدوم نے گل تر کی نظمیں اور غزلیں انتہائی مصروفیتوں میں لکھیں۔ کہتے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں لکھنے پرمجبورکیاجارہا ہوں۔سماجی تقاضے پراسرار طریقے پر شعر لکھواتے رہے ہیں۔زندگی ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے کچھ لکھا ہی نہیں۔سرخ سویراکے بعدمخدوم کے یہاں طویل خاموشی پائی جاتی ہے۔ امیرعارفی نے ایک انٹرویو میں مخدوم سے جاننے کی کوشش کی کہ سرخ سویرا کے بعد قید،چارہ گر،چاندتاروں کا بن جیسی خوبصورت نظموں کے ذریعہ آپ کی خاموشی ٹوٹی پھر آپ آج کل غزلیں کیوں کہہ رہے ہیں۔
بقول مخدوم غزلیں کہنے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔داخلی محرکات جمع ہوتے ہوتے ایک دن غزل کی صورت میں بہہ نکلے۔ایک شعر دیکھیے:
کھٹ کھٹا جاتا ہے زنجیر درمیخانہ
کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخرشب
اس غزل کی تمام علامتیں سیاسی ہیں۔مخدوم کی انقلابی شاعری میں بھی جمالیاتی عنصر زیادہ ہیں۔گل تر کی نظموں چارہ گر، رقص وغیرہ کو دیکھئے کہاں سے شروع ہوتی ہیں کہاں سے ختم۔ آج عشق اورانقلاب ایک دوسرے میں سموئے ہوئے ہیں۔
مخدوم کا پہلا مجموعہ سرخ سویرا ۴۴۹۱ء پھر بساط رقص ۶۶۹۱ء تک ان کے کلام میں بتدریج رومانیت کم ہورہی ہے اور انقلاب یا حالات سے بغاوت کا جذبہ زیادہ کارفرما ہے۔سرخ سویرا اور بساط رقص کے درمیان گل تر ہی ایسامجموعہ ہے جس میں نظموں کے مقابلہ میں غزلیں زیادہ ہیں۔ ان میں بھی تلخیئ ایام زیادہ ہے۔
الٰہی یہ بساط رقص اور بھی بسیط ہو
صدائے تیشاکامراں ہو کوہکن کی جیت ہو
یہاں کوہکن مزدورکی علامت ہے اورصدائے تیشہ مزدور کی محنت۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مزدور کو اس کی محنت کا صلہ ملے اورمزدور ایک کامیاب زندگی گزارے۔
مجموعہ کلام گل تر کی اشاعت اگست ۱۶۹۱ء میں ہوئی۔ گل تر اپنی کیفیت اور اسلوب دونوں کے اعتبار سے سرخ سویرا سے مختلف ہے۔گل تر سے پہلے مخدوم محی الدین نے ایک بھی غزل نہیں لکھی تھی۔ گل تر میں آہنگ شعر کی ایسی مثال ملتی ہے جو شاید فیض اور جوش کے علاوہ کہیں اورنہ ملے جس طرح فیض نے نقش فریادی کے بعد طویل خاموشی اختیار کی اور پھر دست صبا کا تحفہ پیش کیا ٹھیک ویسے ہی ۷۱سال کی مسلسل خاموشی کے بعد مخدوم نے گل تر کا تحفہ پیش کیا۔ سرخ سویرا اور گل تر کے اسلوب میں کچھ زیادہ ہی فرق معلوم پڑتا ہے۔
گل تر کی نمائندہ رومانی نظموں میں چارہ گر،آج کی رات نہ جا، جان غزل کے علاوہ دو انگریزی نظموں کے تراجم فاصلے اور ہم دونوں قابل ذکر ہیں۔ حیدرآباد کی ممتاز انگریزی شاعر راجکماری اندرادھن راجگیر کی دونظمیں Both of us yearning کے آزاد ترجمے مخدوم نے کیے۔گل تر سے متعلق خود مخدوم کا خیال ہے کہ گل تر کی شاعری سرخ سویرا سے مختلف ہے۔دیکھئے:
”یہ فرق میری نظر میں ایک نیاپن ہے۔جو عمر تجربہ خودعہد حاضر کی نوعیت کیاپنے ماسبق ہونے کانتیجہ ہے جو سماجی اور شعوری ارتقا کی نشان دہی کرتا ہے۔پھربھی انسان دوستی اور سمٹا ہوا جمالیاتی اثر قدرمشترک ہیں۔“
گل تر کی نظم فاصلے ایک آئیڈیل کی تلاش ہے۔شاعر اس آئیڈیل کی آواز دل کی گہرائیوں میں پاتا ہے۔وہ اس کوکوئی نام نہیں دے پاتا۔شاعرکے اندر کا جذباتی پن اس کو بدستور روشنی دے رہا ہے لیکن زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔نظم کے چندبند دیکھیے:
زندگی نوک سناں
زندگی مثل سناں،جسم میں جاں میں اترجاتی ہے
پیار کٹ جاتے ہیں کٹ جاتی ہے جان
حسن کی جوئے خنک عشق کے شعلوں کی لپک
بغض و نفریں و ملامت کے سب ہی کوہ گراں
بال کی طرح سے کٹ جاتے ہیں
زندگی نوک سناں

“Sword it strikes to kill all those it loves and all those it hates like the facess of eve it changes and varies.Like a split personality it lives a double life.”
Indra Dhan Rajgir
“Yearnings and other poems”
Hyderabad, 1963.
نظم ”ہم دونوں“ محبت کا ایک ابدی نغمہ ہے۔محبت جسم و لمس سے ماورا بھی ہوسکتی ہے۔ ایک نگاہ کرم تازیست مسرتوں کا سرچشمہ ہوسکتی ہے۔نظم چارہ گر، گل تر کی سب سے مقبول نظموں میں سے ایک ہے۔چارہ گر کے دوبدن انگنت بدن ہیں جو پیار کی آگ میں جل چکے اورجلتے رہیں گے۔نظم آج کی رات نہ جا لمحہئ غنیمت کوجکڑلینے کی شاعرانہ تفسیر ہے۔دیکھیے:
زندگی لطف بھی ہے زندگی آزار بھی ہے
ساز و آہنگ بھی زنجیر ی جھنکاربھی ہیزندگی دید بھی ہے حسرت دیداربھی ہے
زہر بھی آب حیات لب رخساربھی ہے
نظم کانشاطیہ لب ولہجہ مخدوم کے انداز فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔نظم جان غزل محبت کی پراعتماد تصویر ہے۔چند بند یکھیے:
اے دل نارسا آج اتنا مچل
مست آنکھوں کی جھیلوں میں کھلنے لگیں آنسوؤں کے کنول
مل گیا راہ میں اجنبی موڑ پرکوئی جان غزل
دل کی سنسان گلیوں میں کچھ دیر کچھ دور تک
آج تو ساتھ چل
٭
سرخ سویرا جیسے عاشق اورمحبوب گل تر اوربساط رقص کی رومانی نظموں میں نظر نہیں آتے۔ مشاہدہ اورتجربہ شاعر کو وسعت نظر بخشتا ہے۔ یہی وسعت نظر ”گل تر“ اور”بساط رقص“ میں نظر آتی ہے۔جان غزل کا یہ مصرعہ دیکھیے:
آج تویادآئیں نہ دنیا کے غم
آج دل کھول کر مسکرا چشم نم
کتنا بھاری تھا یہ زندگی کا سفر
یہ انداز اس جان غزل کی دین ہے جو اجنبی موڑپر مل گیا ہے زندگی کے بھاری ہونے کا احساس اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ شاعر کن راستوں سے ہوکر یہاں تک آیا ہے۔نظم پیارکی چاندنی کو ہم رومانی نظم نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اسکاڈکشن سیاسی اندازلیے ہوئے ہے۔جرم، چشم، اہل ہوس، ابن آدم، سردار وغیرہ لیکن آخری شعرکا لہجہ رومانی معلوم ہوتاہے:
دل بڑھاتی رہیں ہاتھ کی نرمیاں
پیارکی چاندنی جگمگاتی رہی
یہ بند عالمی اخوت اوریک جہتی کی یاد دلاتا ہے۔احساس کی رات بھی اسی قبیل کی ایک خوبصورت نظم ہے۔دیکھیے:
مجھے ڈر ہے کہ کہیں سرد نہ ہوجائے یہ احساس کی رات
نرغے طوفان حوادث کے ہوس کی یلغار
جسم کا جان کا پیمان وفا کیا ہوگا!
تیرا کیا ہوگا اے مضراب جنوں
یہ دہکتے ہوئے رخسار
یہ مہکتے ہوئے لب
یہ دھڑکتا ہوا دل
شفق زیست کی پیشانی کا رنگیں قشقہ
کیا ہوگا
مرے دل اور دھڑک، شاخ گل
اورمہک اورمہک اورمہک
احسا س کی رات رومان اور حقیقت کا ملاجلا تاثر پیش کرتی ہے۔اس نظم کا محرک کہیں ایٹم کی تباہ کن طاقت تو نہیں تیسری جنگ عظیم کا خوف تو نہیں، نظم سب کا خواب خواب کے ریزہ ریزہ ہوجانے کی کرب ناک حقیقت ہے۔عالمی اشتراکی تنظیم و تحریک کے زیروبم کو غم جاناں کے استعاروں میں پیش کیا گیاہے۔دیکھیے ایک بند:
آپ میں اک گرمیئ احساس ہوتی تھی
نہیں معلوم وہ کیا ہوگئی
یہاں آپ خود شاعر ہے۔یہاں نظم کا تھم تھم کر بڑھنا، رکنا مصرعوں کے ارکان کا ڈرامائی انداز سے کم اور زیادہ ہونا ایک خاص قسم کی زیرلب خودکلامی اور سوچ کی فضا پیداکرتا ہے۔
گل تر کے بعدمخدوم محی الدین کی کلیات بساط رقص ۶۶۹۱ء میں منظرعام پر آئی۔ اس میں شاعر کی ذہنی روش گل تر جیسی ہی ہے۔آخر کی نظموں میں بھی تازگی، اظہار و اسلوب رنگ وآہنگ، پیکر تراشی، تازگی وغیرہ نمایاں خصوصیات ہیں۔ نظم خواہش اسی نوع کی ایک مثال ہے۔

اسی سلسلے کی ایک نظم وصال ہے جس پراکتوبر ۳۶۹۱ء درج ہے:
چمک دمک جھنکار امر ہے
یار امر ہے
پیار امر ہے
اس میں اچانک دوکرخت مصرعے آجاتے ہیں
دولت خاں کی دیوڑھی کے کھنڈروں میں
بڈھاناگ کھڑا روتا ہے
اس کی کیا ضرورت آن پڑی بقول مخدوم:
”ان دومصرعوں کے بغیر بھی میری نظم مکمل ہوجاتی۔لیکن ذرا سوچیے ان دومصرعوں سے بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔ایک مرد اورعورت کے وصال میں آج بھی سماجی رکاوٹیں ہیں۔ دولت خاں کی ڈیوڑھی وہ مردہ روایتیں ہیں جو ان روحوں کے ملنے پر آج خوش نہیں ہو سکتیں بلکہ آنسو بہاسکتی ہیں کیوں کہ زمانے نے ان کی قوت جبر کو روند ا ہے۔“
”وقت بے درد مسیحا“ ایک خوبصورت رومانی نظم ہے، جو ۵۶۹۱ء میں لکھی گئی۔ اس نظم میں محبت کا دکھ ایک طلسم کی طرح پھیلتا چلاجاتا ہے۔اس نظم میں ایک کسک ملتی ہے جودوسری نظموں میں نہیں ہے:
قبر سے اٹھ کے نکل آئی ملاقات کی شام
ہلکا ہلکا سا وہ اڑتا ہوا گالوں کا گلال
بھینی بھینی سی وہ خوشبو کسی پیراہن کی
٭
آخرمیں مخدوم کی واسوخت یکم مئی ۹۶۹۱ء کولکھی گئی یعنی ان کی وفات سے چندماہ پہلے۔ اس میں مخدوم کے داخلی جذبات و تجربات ابھرکر آئے ہیں۔
تیری دیوار کے سایوں نے نہیں پہچانا
ایک ایسا بھی زمانہ ہے کہ اب آنے لگا
خوشنما یادوں کے ڈھانچوں سے ملاقات ہوئی
چہرہ ٹوٹا ہوا آئینہ نظر آنے لگا

تیری باتیں تھیں کہ پھولوں کی مہکتی چمکار
جی تیری باتوں سے کیا بات ہے گھبرانے لگا
گیان سے دھیان سے پوجا تھا کسی صورت کو
آنکھ کھولی تو کوئی اور نظر آنے لگا
دل کے تہہ خانوں میں بارود بچھی ہو جیسے
ایک اک سانس پہ دل ہے کہ سلگ جانے لگا
دشت کے پھولوں نے جب پاس بٹھایا ہم کو
عرش ٹوٹا ہوا تارہ سانظر آنے لگا
اس جنونی کو ذرا دھوپ سے روکو مخدوم
چھوڑ کر چھاؤں ’گل تر‘ کی کہاں جانے لگا
یہ انداز مخدوم کا نہیں تھا۔دل کے تہہ خانوں میں بارود کا بچھنا شاعر کی دل شکستگی کی کھلی تفسیر ہے۔شاعر اب گل تر کی چھاؤں کو چھوڑکر جانا چاہتا ہے۔یہ وہی گل تر ہے جو شاعر کواعتماد وفا اور اعتبار محبت کا درس دیتا ہے۔
بساط رقص کی آخری رومانی نظم ’رُت‘ مخدوم کے ہارجانے کی مثال ہے۔یہ نظم ۹۶۹۱ء میں واسوخت کے بعد ہبلی میں کہی گئی۔ اس نظم میں شاعر اپنی طبیعت کے خلاف مایوس ہے اورشہر وفا سے ہجرت چاہتا ہے۔لیکن گل تر میں مخدوم نے کل ۱۲ غزلیں کہیں ان غزلوں میں غزل کے سارے بنیادی عنصرپائے جاتے ہیں،دیکھیے:
پھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی
یہ مہکتی ہوئی غزل مخدوم
جیسے صحرا میں رات پھولوں کی
٭
مخدوم نے ایک طویل عمر انقلابی جدوجہد میں گزاری تھی۔ اسی لیے ترقی پسند شاعری میں آرہے بدلاؤ کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور اپنے محسوسات کو اسی شدت کے ساتھ اپنی آخری غزل میں پیش کیا۔
یہ خواب ہے کہ حقیقت نظارہ ہے کہ فریب
یقیں بھی ٹوٹا ہے طرزگماں بھی ٹوٹی ہے

سیاست دل آئینہ چور تو تھی
سیاست دل آہنگراں بھی ٹوٹی ہے
شکست و ریخت زمانے کی خوب ہے مخدوم
خودی تو ٹوٹی تھی خوئے بتاں بھی ٹوٹی ہے
مخدوم کی غزلیں ترقی پسند غزل کی بہترین ترجمانی کرتی ہیں۔ مخدوم محی الدین کے مجموعہ کلام سرخ سویرا اور گل تر کا اگر تجزیاتی مطالعہ کیاجائے تو دونوں میں واضح فرق معلوم پڑتا ہے۔ مجموعہ کلام سرخ سویرا ابتدائی جوش کا نتیجہ اورگل تر تپ کر کندن بن جانے کا ثمرہ ہے۔ گل تر میں جو فکری عنصر ہے سرخ سویرا کی اکثرنظموں میں ناپید دکھائی دیتا ہے۔مخدوم نے خود اس بات کا اعتراف کیا اورانھوں نے کہا تھاکہ قاری سرخ سویرا اور گل ترمیں جو فرق محسوس کریں وہ بالکل درست ہے۔گل تر پڑھنے کے بعد ذہن سرخ سویرا سے موازنہ کرے گا اور گل تر میری ذہنی پختگی کا ثبوت فراہم کرے گا۔ لیکن سرخ سویرا کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔ آج بھی سرخ سویرا نوجوان شاعروں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ISSN No. 2320-639X (Urdu Channel is a ugc approved research journal)

Drama, Mukhtasar Afsana aur Makhdoom

Articles

ڈرامہ، مختصر افسانہ اور مخدوم

ڈاکٹر نوشاد احمد سنجری

مخدوم نے تین ڈرامے لکھے تھے ”ہوش کے ناخن، مرشد اورپھول بن، ہوش کے ناخن“ جارج برنارڈشا کے ڈرامے وڈورس ہاؤزز سے ماخوذ ہے۔ان کا دوسرا ڈرامہ مرشد ان کا طبع زاد ڈرامہ ہے۔داؤد اشرف نے لکھا ہے:
”یہ مخدوم کا لکھا ہوا ایک طبع زاد ایک ایکٹ کا ڈرامہ ہے جو مرشد ساگر ٹاکیج کے اسٹیج پر پیش کیا گیا جس میں مرشد کا رول مخدوم نے ادا کیا تھا۔ حضورنظم، ریزیڈنٹ مہاراجہ کشن پرساد اور شاہی خاندان کے چند افراد خلاف پروگرام اچانک عین وقت پر تھیٹر پہنچ گئے۔“۲؎
یہ مخدوم کا آخری ڈرامہ تھا، پھول بن چیخوف کے ڈرامہ ”چیری آرچرڈ“کا اردو روپ تھا۔یہ تین ایکٹ پر مشتمل تھا۔ یہ زمردمحل کے اسٹیج پر پیش کیا گیا تھا۔بقول مرزا ظفرالحسن کے:
”اس کے بعد دکن کی تمثیلی سرگرمیاں بالکل ختم ہوگئیں، نہ کسی نے کوئی نئی شمع روشن کی اورنہ ہمارے جلائے ہوئے چراغوں میں کوئی روشنی رہی۔“
یہ ڈرامہ نایاب ہے کس طرح تلف ہوا یہ مخدوم کے قریبی دوست بھی نہیں جانتے ایک اندازے کے مطابق مصنف نے اس لیے ضائع کردیا ہو کہ یہ اسٹیج پربری طرح ناکام رہا تھا۔
مخدوم جن شخصیتوں سے متاثر تھے ان میں ٹیگورکا نام سب سے اہم ہے۔ڈرامہ ہوش کے ناخن کے ناظرین میں گرودیو بھی تھے۔مخدوم کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں شانتی نکیتن آنے کی دعوت دی۔سروجنی نائیڈو جو مخدوم کو اپنا بیٹا کہتی تھیں نے مخدوم کو ٹیگور سے ملوایا۔۳؎
اس کتاب کو مخدوم نے بیالیس عنوانات میں تقسیم کیاہے۔چنداہم عنوانات دیکھے۔بنگال کا نشاۃ ثانیہ،خاندان، تعلیم،شاعری کی ابتدائی،ادبی زندگی کاآغاز، لندن کا سفر، ڈرامے مذہبی شاعری، ناول نویسی، تقسیم بنگال، عالمگیرشہرت کاراز،نوبل انعام، گاندھی اور ٹیگور وغیرہ وغیرہ،مخدوم کی یہ تصنیف تجزیاتی نہیں تعارفی ہے۔ تنقیدی نہیں معلوماتی ہے۔
ٹیگور کے اندر دو شخصیتیں چھپی ہوئی تھیں ایک وہ ٹیگور جسے دنیا کا ہر عیش حاصل تھا،جس کی پرورش اس طرح ہوئی جیسے کوئی آسمانی مقدس مخلوق ہو۔جس کی طبیعت اس قدر شرمیلی ہو کہ ہم جماعت سے بات کرتے ہوئے بھی بیربہوٹی بن جائے، جس کے خدوخال اس قدر شفاف جیسے باریک قلم کی تحریر ہو چنانچہ اسکول میں دوسرے لڑکوں نے بہت دنوں تک پہنچانا ہی نہیں کہ ٹیگور لڑکا ہے یا لڑکی۔ ٹیگور کی دوسری شخصیت ایک انقلابی کی تھی،ایسا انقلابی جو صوفی بھی تھا مگر یزدان کے فلسفے کی نفی کرتا تھا۔وہ گاندھی جی کے چرخے کو ترقی کا معکوس سمجھتا تھا۔ وہ جلیاں والا باغ میں ہندوستانیوں پر جو مظالم ٹوٹے، ان ظالموں کا بھی سیاست دان تھا جنھوں نے ظلم کی انتہا کردی۔ وہ شانتی اوراہنسا کا پجاری تھا، ہر دل عزیز پجاری۔
”پھول اورپتھر“ یہ افسانہ ۰۳۹۱ء میں لکھا گیا، لیکن اشاعت ۸۳۹۱ء میں ہوپائی ۴؎ یہ پتھر اور کلیوں کے درمیان ایک مکالمہ ہے۔اس میں کلیاں پتھر کے بے مصرف ہونے کا مذاق اڑاتی ہیں۔ پتھر غم کی حالت میں سیاہ پڑجاتا ہے۔ایک پاگل نے یہ سیاہ پتھر اٹھالیا اور اسے ایک مورت بنائی۔زمین نے اس مورت کو آسمانی دیوی قراردیا۔ پاگل نے خوشی سے سرشار ہوکر کلیوں کو اس مورت کے چرنوں میں ڈال دیا،کلیوں کی آنکھیں کھل گئیں اورکلیاں مسکرانے لگیں۔
”کھوئے ہوئے تارے“ یہ افسانہ دو فرشتوں ہیلائل اورجفائل اورایک شاعر اور اس کی محبوبہ کے اطراف گھومتا ہے۔ یہ فرشتے آسمان پر کھیل رہے تھے اتفاق سے دوتارے زمین پر گرپڑتے ہیں۔ آسماں کے حکمران نے اطلاع پاتے ہی غضب ناک ہوکر فرمایا کہ جب تک وہ تارے آسمان پر نہ پہنچ جائیں فرشتے معتوب رہیں گے۔ فرشتے زمین پر آکر شاعر سے اجازت لے کر اس کی محبوبہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہیں۔ ان تاروں کی چمک نہ پاکر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ حالانکہ محبوبہ کی آنکھوں میں وہی دوتارے تھے جس پر شاعرنے تعجب کیا بھلا کس طرح فرشتوں نے نہیں پہچانا؟محبوبہ نے کہا کہ جب فرشتے میری آنکھوں میں جھانک رہے تھے تو میں نے تمہارے بوسہ اولین کا تصور کیا۔اس طرح میری آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی جو آسمانی گم شدہ تاروں میں نہ تھی۔
”آدم کی اولاد“۵؎: مختصرخاکہ ایک دن حوا کوایک فرشتے نے یہ خبر دی کہ خدائے کائنات زمین پر اترنے والا ہے۔خدانے نہایت رحیم اندازمیں آدم کا حال پوچھا۔ خدا نے بچوں کو طلب کیا،حوا نے تین بچوں کو پیش کیا باقی کوجانوروں کے حجرے میں چھپادیا۔خدا نے کہا ایک قاضی ہوگا دوسراسپہ سالار تیسرا مہاجن۔ حوا نے باقی بچوں کو پیش کیا خدا نے کہا پہلے کے تینوں نے سب لے لیا۔آئندہ ہم اپنی آمد پر بتائیں گے۔
”پاپن“: خد اکے حضور کہتی ہے میں نے پیٹ کے لیے جسم کا بیاپار کیابوڑھی ہوگئی تو قانون نے آگھیرا۔ اگر میں نہ ہوتی تودنیا کی بہو بیٹیوں کی عصمت کا ضامن کون ہوتا۔ پاپن کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ خدا کی عدالت میں سناٹا طاری تھا۔
”سویت یونین کی بالشویک پارٹی“: یہ کتاب انگریزی ایڈیشن کا ترجمہ ہے۔ مترجمین کے نام ہیں:نورالحسن، عبدالحلیم،مخدوم محی الدین،احتشام حسین۔
”گوئٹے کے مکتوبات“ ۶؎ اٹھارہویں صدی کا جرمن شاعر گوئٹے نہایت حسن پرست اور عشقباز تھا۔شادی بیاہ کی رسمی،سماجی اورقانونی پابندیاں اس کے لیے مضحکہ خیز تھیں۔ وہ اپنے ان خیالات کو نوجوانوں میں پھیلا کر داد کا متمنی رہتا تھا۔۶۶۷۱ء میں جب وہ سترہ برس کا تھا تو ”کیشین سیان“ نامی لڑکی اس کی نگاہ انتخاب کا ہدف بنی اور اس نے نومبر ۸۶۷۱ء میں پہلا محبت نامہ بھیجا پھر اس طرح کے محبت نامے اس نے کئی لڑکیوں کو بھیجے۔ ۲۹۷۱ء میں گوئٹے کی زندگی میں کوسٹانی واپس آئی جس سے گوئٹے کی کئی اولادیں ہوئیں۔بعد کو زمانے کے سخت رویے سے تنگ آکر ۶۰۸۱ء میں ’وپس‘سے شادی کرلی۔اس شادی کے بعد اس کا شعلہ ہوس مدھم نہیں ہوا، میناہرزاٹ پھر گوئٹے کے لیے لذت جسم و جان بن گئی۔ جس کا ’کرسٹانی وپس‘ کو بے حد صدمہ ہوا ۶۰۸۱ء میں گوئٹے نے فاؤسٹ کی تکمیل کی جو آج بھی شہرہ آفاق ہے۔مخدوم نے ان خطوط کا ترجمہ بہ سلسلہ ملازمت کیا تھا اوریقینا نواب صاحب کی اینگلو انڈین محبوبہ مغرور مسرور ہوئی ہوگی۔ ظاہر ہے گوئٹے کے ماحول و آب و ہوا اور فضا کو مخدوم نے ہندوستانی رنگ دیا ہوگا۔
”بگھی کے پیچھے چھوکرا”: بگھی کے پیچھے چھوکرا مخدوم کے دس ہلکے پھلکے مضامین کا مجموعہ ہے۔ابتدائی تین مضامین اپنے ملک کی تہذیب کے آئینہ دار ہیں۔ پہلا مضمون نظام شاہی حیدرآباد کی تہذیب کا نمونہ ہے۔ مخدوم اپنے بچپن کویاد کرتے ہیں۔جہاں امراا و ررؤسا کے بچے بگھی میں اسکول آیا کرتے تھے۔ یہاں بگھیاں ایک یا دو گھوڑوں کی ہوا کرتی تھیں۔کوچوان کے ساتھ ایک نوکر آگے بیٹھا ہوا اورپیچھے دوجوان باضابطہ وردی میں کھڑے ہوئے ہٹوبچو کی آواز لگاتے ہوئے امیربچوں کی حفاظت کرتے تھے۔پیدل بچے ایسی بگھیوں کی کھوج میں رہتے تھے،جس کے پیچھے جوان کھڑے نہ ہوں۔لپک کر پیچھے کے تختے پرلٹک جاتے تھے۔راستے میں چل رہے بچے اپنا یہ فرض سمجھتے کہ کوچوان کو آگاہ کریں کہ ”بگھی کے پیچھے چھوکرا“ کوچوان سامنے سے بیٹھے بیٹھے اپنی لمبی چابک زور سے چلاتا لٹکتے ہوئے بچے کبھی مار سے بچ جاتے کبھی زد میں آکر اتر کر بھا گ جاتے۔مخدوم کہتے ہیں میرے لیے بھی ایسی سواری عام تھی۔
مخدوم کا بچپن اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ شروع سے ہی ان کا انگریز حکومت اور نظام شاہی سے نفرت تھی۔ پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کی فتح پر اسکول میں ننھے ننھے فلیگ بچوں کی قمیصوں پر لگائے گئے۔مخدوم نے اپنے جھنڈے کونیچے گرادیا اور مٹھائی کھانے میں مشغول ہوگئے۔
دوسرامضمون مشاعرے ہے۔اس میں مشاعرے کے فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے نقائص پربھی توجہ دلائی گئی ہے۔تحفے(قلم) رنگاچاری آرٹسٹ کی یاد سے شروع ہوتا ہے۔جو تلنگانہ جدوجہد میں گرفتار بھی ہوا او رمارابھی گیا۔روپوشی کے دنوں میں رنگاچاری نے مخدوم کو اپنا ’قلم پار کر‘ تحفہ میں دیاان دنوں مخدوم کے پاس قلم نہ تھا۔ مخدوم نے اس قلم کو بڑے جتن سے رکھا۔روپوشی کے دنوں میں ہی وہ قلم غائب ہوگیا، پھر قلم مل جاتا ہے خیرمضمون کافی لمبا ہے اوربھی کئی مضمون ہیں مخدوم کے جس میں انھوں نے اپنے بیرونی ملکوں کے سفر کے دوران کے مشاہدے بیان کیے ہیں۔
مخدوم کے نقدونظر: مخدوم باقاعدہ کوئی نقادنہیں تھے لیکن تخلیق کارضرور تھے اوریہی وجہ ہے کہ ادب اور شعر کے متعلق بڑی نپی تلی رائے رکھتے تھے۔آج سے تقریباً ۵۶ سال پہلے کا یہ خط مخدوم ۷؎ کے نقطہئ نقد و نظر کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ ادب اور آرٹ کو پروپیگنڈہ سمجھتے ہیں تو کیوں۔ پروپیگنڈہ کا لفظ غلط فہمی پید اکرتاہے۔لیکن مخدوم کی یہ عبارت کئی گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے۔
”کون سا آرٹ پروپیگنڈہ نہیں رہا کیا تم یورپ کے کلیساؤں کو محبت سے یونان کی آزادی کی فطرت پرستی سے،ایلورااور اجنتا کی برہنیت، جنسیات اور گوتمیت کے معاشرتی فلسفے سے علیحدہ کرسکتے ہو۔ یورپ کے رقص خانوں اورتھیٹروں میں اور خود تمہارے تغزلی ادب میں جنسی معمولات کی ہنگامہ خیز تبلیغ اور تشہیر کے سوا کیا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ طرز بیان میں فرسودگی بڑھاپا محسوس ہو۔یہ سمجھو کہ آرٹسٹ کی بقا کی صلاحیت سلب ہوچکی ہے وہ مررہا ہے یہ سچ ہے کہ کوئی بالجبر آرٹ پیدانہیں کرسکتا۔فرد تو فرد مملکت بھی مجبور ہے یہ سمجھنا کہ آرٹ پروپیگنڈہ سے ماورا وقائم بالذات وجود ہے میں تو نہیں مانوں گا۔“
خورشید احمد جامی کے مجموعہ کلام رخسار سحر پر مخدوم کا پیش لفظ ان کے نقد و نظرکو سمجھنے میں مدددیتا ہے مخدوم نے اپنے مقدمے میں ان کی ذہنی ارتقاء کا جائزہ لیا ہے اوراس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ جامی کی غزل میں نہ وہ منہ در منہ باتیں ہیں جس کے نماندے فراق اکیلے ہیں ۸؎ اورنہ وہ سپاٹ پن جو کئی مشہور شاعروں کا طرہ امتیاز ہے۔جامی خلوت پسند شاعر تھے اوران کا الگ حلقہئ احباب تھا۔ وہ زمانے کی کشاکش حیات سے آنکھ ملانے کاجگر رکھتے تھے۔مخدوم نے لکھا ہے کہ جامی ان شاعروں میں معلوم ہوتا ہے جو اپنی صبح انقلاب سے ہمکنار ہوکر بھی اس سے دورہی رہے گا اس کا قصور ان پیغمبروں کا سا نظر آتا ہے جو اپنی امت کی افتادہ حالی کا حل نہ پاکر خدا سے لڑ بیٹھے تھے۔

اقبال متین کے پہلے افسانوی مجموعے اجلی پرچھائیاں پرمخدوم نے اپنی رائے دی ہے۔ دیکھیے ”اقبال متین اپنے گردوپیش کی زندگی سے واقعات اور کردار چنتا ہے۔ ندرت بیان اور تیز قوت مشاہدہ کی مدد سے ان میں ایسا رنگ بھرتا ہے کہ معمولی واقعات و کردار غیرمعمولی و دلکش بن جاتے ہیں۔ ”اجنبی بیمار“ اور ”دام ہر موج“ اس کی مشہور ومعروف کہانیوں میں چندکہانیاں ہیں۔ جس میں زندگی کے حسن اور اس کی ڈھکی چھپی قباحتوں اور فرد اور سماج کی کشمکش کی نقاشی اور پردہ کشائی بڑی چابکدستی سے کی گئی ہے۔“

ISSN No. 2320-639X (Urdu Channel is a ugc approved research journal)

Imran Series 010 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 10 ابن صفی

ابن صفی

Imran Series 009 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 9 ابن صفی

ابن صفی

Imran Series 008 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 8 ابن صفی

ابن صفی

Imran Series 007 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 7 ابن صفی

ابن صفی

Imran Series 006 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 6 ابن صفی

ابن صفی

Imran Series 005 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 5 ابن صفی

ابن صفی

Imran Series 004 by Ibne Safi

Articles

عمران سیریز 4 ابن صفی

ابن صفی