Khel Khel mein Science
Articles
Khalid ka Khatna a Short Story by Ghazanfar
Articles
خالد کا ختنہ

غضنفر
جو تقریب ٹلتی آ رہی تھی، طے پا گئی تھی۔ تاریخ بھی سب کو سوٹ کر گئی تھی۔ پاکستان والے خالو اور خالہ بھی آ گئے تھے اور عرب والے ماموں ممانی بھی۔ مہمانوں سے گھر بھر گیا تھا۔
بھرا ہوا گھر جگمگا رہا تھا۔ در و دیوار پر نئے رنگ و روغن روشن تھے۔ چھتیں چمکے لیے کاغذ کے پھول پتوں سے گلشن بن گئی تھیں۔ کمروں کے فرش آئینہ ہو گئے تھے۔ آنگن میں چمچماتی ہوئی چاندنی تن گئی تھی۔ چاندنی کے نیچے صاف ستھری جازم بچھ چکی تھی۔
باہر کے برآمدے میں بڑی بڑی دیگیں چڑھ چکی تھیں۔ باس متی چاولوں کی بریانی سے خوشبوئیں نکل رہی تھیں۔ قورمے کی دیگوں سے گرم مصالحوں کی لپٹیں ہواؤں سے لپٹ کر دُور دُور تک پھیل رہی تھیں۔
دھیرے دھیرے محلّہ پڑوس کی عورتیں بھی آنگن میں جمع ہو گئیں۔ بچّوں کی ریل پیل بڑھ گئی۔
رنگ برنگ کے لباس فضا میں رنگ گھولنے لگے۔ سونے چاندی کے گہنے کھن کھن چھن چھن بولنے لگے۔ پرفیوم کے جھونکے چلنے لگے۔ دل و دماغ میں خوشبوئیں بسنے لگیں۔ میک اپ جلوہ دکھانے لگا۔ چہروں سے رنگین شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ ابرق سے آراستہ آنکھوں کی جھلملاہٹیں جھلمل کرنے لگیں۔ سرخ سرخ ہونٹوں کی مسکراہٹیں کھلکھلا پڑیں۔ ماحول میں رنگ نور، نگہت تینوں رچ بس گئے۔ جگمگاتا ہوا گھر اور جگمگا اُٹھا۔
ابو امّی بے حد خوش تھے کہ خوشیاں سمٹ کران کے قدموں میں آ پڑی تھیں۔ دلوں میں بے پناہ جوش و خروش تھا کہ جوش ایمانی اور پرُ جوش ہونے والا تھا۔ آنکھیں پر نور تھیں کہ نور نظر سنّت ابراہیمی سے سرفراز ہونے جا رہا تھا۔ چہرے پرتاب و تب تھی کہ لختِ جگر کی مسلمانی کو تاب و توانائی ملنے والی تھی۔ سانسیں مشک بار تھیں کہ تمنّاؤں کے چمن میں بہار آ گئی تھی۔
تقریب کا آخری مرحلے شروع ہوا۔
مہمان برآمدوں اور کمروں سے نکل کر آنگن میں آ گئے۔ چاندنی کے نیچے بیٹھے ہوئے لوگ کھڑے ہو گئے ——فرش کے وسط میں اوکھلی آ پڑی۔ اوکھلی پر پھول دار چادر بچھ گئی۔ خوان تازہ پھولوں کے سہرے سے سج گیا۔ ململ کا کڑھا ہوا کرتا پیکٹ سے باہر نکل آیا۔
بزرگ نائی نے اپنی بغچی کھول لی۔ استراباہر آ گیا۔ کمانی تن گئی۔ راکھ کی پڑیا کھل گئی۔
خالد کو پکارا گیا مگر خالد موجود نہ تھا۔ بچّوں سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ سب نے نفی میں سرہلا دیا۔ ابو امّی کی تشویش بڑھ گئی۔ تلاش جاری ہوئی۔ ابو اور میں ڈھونڈتے ہوئے کباڑ والی اندھیری کوٹھری میں پہنچے۔ ٹارچ کی روشنی میں دیکھا تو خالد ایک کونے میں دیر تک کسی دوڑائے گئے مرغ کی طرح دُبکا پڑا تھا۔
’’خالد بیٹے ! تم یہاں ہو اور لوگ ادھر تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ آؤ، چلو! تمہاری ممی پریشان ہو رہی ہیں۔ ‘‘
’’نہیں ابو !میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ ‘‘خالد منہ بسورتے ہوئے بولا۔
خالد سے ختنے کی بات چھپائی گئی تھی مگر شاید کچھ دیر پہلے کسی نے اسے بتا دی تھی۔
’’ٹھیک ہے، مت کرانا۔ مگر باہر تو آ جاؤ۔ !ابو نے بڑے پیارسے یقین دلایا۔ مگر خالد دیوارسے اس طرح چمٹ کر بیٹھا تھاجیسے دیوار نے کسی طاقت ور مقناطیس کی طرح اسے جکڑ لیا ہو۔ ہم نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر باہر کھینچنے کی کوشش کی مگر اس کا دوسرا ہاتھ دیوارسے اس طرح چپک گیا تھاجیسے وہ کوئی سانپ ہو جس کا اگلا حصہ کسی بل میں جا چکا ہو اور دم ہمارے ہاتھ میں۔ نہ جانے کہاں سے اس چھوٹے سے بچّے میں اتنی طاقت آ گئی تھی۔ بڑی زور آوری کے بعد مشکل سے اسے کوٹھری سے باہر لایا گیا۔
’’امّی!امّی! میں ختنہ نہیں کراؤں گا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
’’اچھّی بات ہے۔ نہ کرانا لیکن یہ نیا کرتا تو پہن لو۔ دیکھو نا سارے بچّے نئے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ اور یہ دیکھو!یہ سہراکتنا اچھّا ہے۔ تمہارے سرپربہت سجے گا۔ لو، اسے باندھ کر دولھا بن جاؤ۔ یہ سب لوگ تمھیں دولہا بنانے آئے ہیں۔ تمہاری شادی بھی تو ہو گی نا!
’’امّی!آپ جھوٹ بول رہی ہیں۔ میں سب جانتا ہوں ‘‘میں کرتا نہیں پہنوں گا۔ میں سہرانہیں باندھوں گا۔ ‘‘
’’یہ دیکھو!تمہارے لیے کتنے سارے روپیے لایا ہوں !ابو نے کڑکڑاتے ہوئے دس دس کے ڈھیرسارے نوٹ خالد کے آگے بچھا دیئے۔
آس پاس کھڑے بچّوں کی آنکھیں چمک انھیں۔
’’اچھّا!یہ دیکھو! تمہارے لیے میں کیا لایا ہوں ؟پاکستان والے خالو نے امپورٹیڈ ٹافیوں کا ڈبہ کھول دیا۔
بچّوں کی زبانیں ہونٹوں پر پھرنے لگیں۔
عرب والے ماموں آگے بڑھ کر بولے۔
’’دیکھو خالد! یہ کار تمہارے لیے ہے۔ بغیر چابی کے چلتی ہے۔ یوں ——‘‘تالی کی آواز پر کار اِدھر اُدھر دوڑنے لگی۔
مگر خالد کی آنکھیں کچھ نہ دیکھ سکیں۔ اس کی نظریں کسی صیّاد دیدہ جانور کی طرح پتلی میں سہمی ہوئی ساکت پڑی رہیں۔
ابو، امّی، خالو، ماموں، پیار، پیسہ، ٹافی، کارسب کچھ دے کر تھک گئے۔ خالد ٹس سے مس نہ ہوا۔
جھنجھلا کرابوزبردستی پر اُتر آئے۔ خالد کی پینٹ کھول کر نیچے کھسکانے لگے مگر خالد نے کھلی ہوئی پینٹ کے سروں کو دونوں ہاتھوں سے کس کر پکر لیا۔ آنکھوں سے آنسوؤں کے ساتھ لبوں سے رونے کی آوازیں بھی نکلنے لگیں۔ خالد کے آنسوؤں نے امّی کی آنکھوں کو گیلا کر دیا۔ ’’مت روؤ میرے لال! مت روؤ!تم نہیں چاہتے توہم زبردستی نہیں کریں گے۔ تمہارا ختنہ نہیں کرائیں گے۔ ‘‘ امّی نے روندھی ہوئی آواز میں خالد کو دلاسادیا اور اپنے آنچل میں اس کے آنسو جذب کر لیے۔ کچھ دیر تک امّی خاموش رہیں۔ پھر خالد کے سرپرہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں۔ ’’پچھلے سال تو پھوپھی کے گھر کامران کے ختنے کے وقت تم خود ضد کرتے رہے کہ امّی آپ میرا بھی ختنہ کرا دیجیے مگر آج تمھیں کیا ہو گیا ہے ؟تم اتنے ڈرپوک کیوں بن گئے ؟تم تو بڑے بہادر بچّے ہو۔ تم نے اپنے زخم کا آپریشن بھی ہنستے ہنستے کرا لیا تھا۔ اس میں تو زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی۔ ‘‘
’’امّی !میں ختنہ کرانے سے نہیں ڈرتا۔ ‘‘
’’تو؟‘‘
’’ابو!آپ ہی نے تو ایک دن کہا تھا کہ جن کا ختنہ ہوتا ہے بدمعاش انہیں جان سے مار دیتے ہیں۔ ‘‘
خالد کا جملہ ابو کے ساتھ ساتھ سب کے سروں پر فالج کی طرح گر پڑا۔ سب کی زبانیں اینٹھ گئیں۔ چہکتا ہوا ماحول چپ ہو گیا۔ جگمگاہٹیں بجھ گئیں۔ مسکراہٹیں مرجھا گئیں۔ بچّوں کی اُنگلیاں اپنے پاجاموں میں پہنچ گئیں۔
تلاشیوں کا گھناؤنا منظر اُبھر گیا۔ جسم ننگے ہو گئے۔ چاقو سینے میں اُترنے لگے۔ ماحول کا رنگ اُڑ گیا۔ نور پر دھندکا غبار چڑھ گیا۔ خوشبو بکھر گئی۔
نائی کا استرابھی کند پڑ گیا۔ راکھ پر پانی پھر گیا۔
پاکستان والے خالو نے ماحول کے بوجھل پن کو توڑتے ہوئے خالد کو مخاطب کیا۔
’’خالد بیٹے !اگر تم ختنہ نہیں کراؤ گے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟تمہارا ختنہ نہ دیکھ کر تمھیں ختنہ والے بدمعاش مار ڈالیں گے۔ ‘‘
’’سچ ابو ؟‘‘خالد سرسے پاؤں تک لرز گیا۔
’’ہاں، بیٹے !تمہارے خالوسچ کہہ رہے ہیں۔ ‘‘
’’تو ٹھیک ہے میرا ختنہ کر دیجیے۔ ‘‘جھٹ اس کے ہاتھوں سے کھلی ہوئی پینٹ کے سرے چھوٹ گئے۔ پینٹ کولھے سے نیچے سرک آئی۔ خالد ختنے کے لیے تیار تھا۔ مگراس کی رضا مندی کے باوجود کسی نے بھی اس کے سرپرسہرا نہیں باندھا۔ کوئی بھی ہاتھ کرتا پہنانے آگے نہیں بڑھا۔
اذیت ناک سکوت جب ناقابل برداشت ہو گیا تو پاکستان والے خالو نے آگے بڑھ کر خالد کو اسی حلیے میں اوکھلی کے اوپر بٹھا دیا۔
تقریب کا آغاز ہو گیا مگر نائی کے تھال میں پیسے نہیں گرے۔ نائی نے مطالبہ بھی نہیں کیا۔
خاموشی سے اس نے مسلمانی میں راکھ بھری۔ کمانی فٹ کی۔ چمٹے میں چمڑے کوکسا اور اس پر لرزتا ہوا استرارکھ دیا۔ جیسے ختنہ نہیں، گردن کاٹنے جا رہا ہو۔
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Sang Taraash a Short Story by Ishrat Naheed
Articles
سنگ تراش

عشرت ناہید
وہ ایک ماہر سنگ تراش تھاا ´ور اپنی صناعانہ صفتوں سے معمور انگلیوں سے جب بھی کوئی بت تراشتا تو ایسا لگتا کہ یہ مورت بس ابھی بول پڑیگی اور اس خوبی کا راز صرف یہ تھا کہ وہ مجسمہ سازی کرتے وقت اپنی روح کا کچھ حصہ اس مجسمہ میں منتقل کر دیتا تھا ۔ وہ روح جو کہ بہت پاکیزہ تھی اور سنگ تراش کے جسم پر قبا کی مانند لپٹی ہوئی تھی۔یہی وجہ تھی کہ ہر کوئی اس کے ہنر کے فسوں میں گرفتار ہو جاتا ۔اس کے مجسموں کو دیکھنے اور خریدنے کے لیے دور دور سے لوگ آتے اور منہ مانگی قیمت ادا کرتے ۔ اس کا فن اس کا جنون بن چکا تھا دراصل اس جنون کے پیچھے اس کا عشق تھا وہ جو دل کے نہاں خانوں میں چھپا ہوا تھا جو کہ عرصہ ہوا اپنے معشوق حقیقی کے قرب کی تمنا میں اسے چھوڑ تنہائی کا درد بخش گیا تھا اس کی جدائی نے اسے ایک نئے سوز سے ہمکنار کر دیا تھا ۔ سنگ تراش اپنی ا س لافانی محبت کو ایک مجسمہ کی طرح دل میں بسا کر اس کی عبادت میں ہمہ وقت مصروف تھا اور اس کا فن اپنے نکھار کے عروج کی طرف گامزن ۔
آہستہ آہستہ اس کا فن مقدس عبادت میں بدلتا جا رہا تھا اور وہ خود ایک تپسوی کی طرح اس کی ارچنا کر رہاتھا، وہ لین تھاہوگیا
سادھنا میں ، وہ یہ بھول گیا تھا کہ تپسیا جب آخری مرحلے پر پہنچنے کو ہوتی ہے تو دیوتا بھی حسد کا شکار ہو اٹھتے ہیں اور برہما سے وشوامتر کا ملن ناممکن ہوجاتا ہے ۔مینکا رقص کا سہارا لے کر تپسیا بھنگ بھی کر دیتی ہے ۔ان تمام خدشات سے پرے وہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز اپنے کا م میں منہمک رہتاصرف اور صرف پتھر اس کے سامنے ہوتے اور وہ اپنی چھوٹی بڑی ہتھوڑیوں سے انہیں تراشتا رہتا ۔لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ وہ اپنے بت سازی کے عمل میں مشغول ہوتا ،بے قیمت پتھر اس کی انگلیوں کی جنبش سے ا نمو ل بن رہے ہوتے ، زندگی نمو پارہی ہوتی کہ کوئی پتھر آکر اس کی ذات کے خاموش سمندر میں تلاطم پیدا کرنے کی کوشش کرتا وہ چونک اٹھتا لہروں کا ارتعاش کچھ لمحوں کے لیے اسے بے چین ضرور کرتا مگر وہ جلد ہی لہروں کو سکوت کے لیے تہہ آب بھیج دیتا اور پھر محو ہوجاتا اپنی عبادت میں، لیکن جب ایسا بار بار ہونے لگا تو اس نے اپنی قبا کو سمیٹ کر اپنی ذات کو ایک مجسمے میں ڈھال دیا کہ کوئی اسے ڈھونڈ نہ پائے ۔ور آخر کار وہ ایک نایاب مجسمہ تر اشنے میں کامیاب ہوگیا
اس نے ایک انتہائی حسین شہزادی کا عکس پتھر پر کچھ یوں اکیرا کہ دیکھ کر لگتا تھا کہ سنگ تراش کی روح شہزادی میں تحلیل کرگئی ہو یا پھر جیتی جاگتی سی شہزادی اس مجسمہ میں سما گئی ہو ،من و تو کا فرق مٹ چکا تھا گو کہ ایسا کرتے وقت اس کا وجود لہو لہان ہوتا رہا ۔ اس کی انگلیوں سے خون رستا رہا مگر وہ دیوانہ وار ضرب لگاتا رہا ا ۔ شہزادی کی آنکھیں دیکھ کر نیلگوں سمندر کا گمان ہوتا اس کے تراشیدہ ہونٹ سرخی مائل محسوس ہوتے ۔ شہزادی کی مخمور آنکھوں میں کرب کا سمندر سا ہلکورے لے رہا تھا اس کے رسیلے ہونٹوں میں ایک تشنگی چھپی ہوئی تھی ۔ جن میں صدیوں کی ان بجھی پیاس تھی ایک درد بھری روح تھی جو شہزادی کی قبا اوڑھے قلو پطرہ کے حسن کو مات دیتی مونا لیزا کی مسکراہٹ بکھیر رہی تھی ۔یہی دو اعضاءایسے تھے جو دیدہ بینا پر سنگ تراش کا راز کھول سکتے تھے اور دیدہ نابینا کے لیے تو وہ محض ایک نادر مجسمہ تھا جس سے وہ صرف رومانیت کا حظ اٹھا سکتا تھا ۔
لیکن نگاہ زرقا ءشہزادی کے درون کا سفر طے کر چکی تھی ۔ایک مینکا اس کی تپسیا بھنگ کرنے کا قصد کر بیٹھی تھی ، لیکن اس بار مینکا نے رقاصہ کا روپ نہیں دھارا تھا بلکہ نقرئی گھنگھروﺅں والی آواز میں ڈھل گئی تھی ۔اس کی نگاہوں میں نہیں لہجے میں بنگال کا جادو تھا وہ بات کرنے کے ہنر ہی سے نہیں موسیقی کے تمام سروں سے بھی واقف تھی ،اسے معلوم تھا کہ کہاں اور کس لفظ کی ادائیگی کیسے کرنا ہے ۔کس سُر پر زور دینا ہے کسے ہلکے سے ادا کردینے سے دل ِسخت مانند ِموم پگھل جاتا ہے ۔ الفاظ کی شمع کس طرح پروانے کو خاکستر کر دیتی ہے
وہ جس کا تعارف صرف ایک آواز تھا ۔
اس کا وجود محض الفاظ کا ذخیرہ تھا ۔
لہجہ کا زیر و بم تھا ۔۔۔۔
لفظوں کا جادو تھا ۔۔۔
حروف کامعنی خیز سلسلہ تھا۔۔۔
جو کبھی خمار میں ڈوبا ہوتا تو کبھی ایک سرور میں ۔
افف وہ
مدھ بھری آواز ۔۔۔
اسے اپنی آواز پر بلا کا اعتماد تھا کہ وہ سنگ تراش کے خود ساختہ مجسمے کو اسی کی بدولت پاش پاش کر دینے کا ہنر رکھتی ہے ۔
سنگ ترا ش حیران تھا کہ کوئی بھلا کیسے اس کی ردا کو ہٹا کر اس کے اصل تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ؟
وہ مصر تھی اسے اس قید سے آزاد کرنے کے لیے جب کہ سنگ تراش بضد تھا باہر نہ آنے کے لیے ۔
سنگ ترا ش اپنے فن پر مغرور
تو مینکا اپنے سروں پر مسرور
دونوں کو یہ اعتماد کہ جیت اسی کا مقدر
ویسے ان دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل تھا جسے گرانے کی خواہش دونوں طرف سے کبھی نہ ہوئی رشتہ صرف آواز کا تھا ۔نہ کبھی سنگ تراش کے دل میں اسے دیکھنے کی خواہش ہوئی نہ ہی کبھی اس نے سامنے آنا چاہا ۔ عجیب تعلق تھا یہ آوازوں کا۔
وہ جو محض سنگتراش کے فن سے متاثر ہوکر اس سے دوستی کرنے کی غرض سے آگے بڑھی تھی ،اب اسے بھی اس رشتے میں ایک انجانی کشش محسوس ہونے لگی تھی ،لیکن سنگتراش کے اعتماد نے اس پیارے سے جذبے کو ضد کا ایک تناور درخت بنا دیا تھا ۔
اب بات جیت اور ہار میں بدل چکی تھی
خمار اور سرور کے ساتھ جب سنگ تراش کو مسحور کردینے والی یہ آواز محبت کا مفہوم سمجھاتی تب سنگ تراش پر ایک مد ہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی
وہ کہتی ” محبت ایک پیارا سا موسیقی کا ردھم ہے جو دل کے تاروں کو ہولے سے چھیڑ کر کہے ’ مجھے تم سے محبت ہے۔‘ اور پھر دوسرے کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہو جائیں اور مسکراہٹیں لبیک کہہ دیں وہی محبت ہے بت ساز “
اس کی آواز کی جھنکار سچ میں اس کی دھڑکنوں میں ارتعاش پیدا کرنے لگتی ۔
وہ اس کے سحر میں گرفتار ہونے لگتا مجسمہ کی قبا ہلکی سی چاک ہونے لگتی لیکن وہ جلد ہی ہوش میں آکر شاطرانہ طریقے سے چاک قبا کو درست کر لیتا مگر نگاہ زرقاءسے اس کا یہ عمل چھپ نہ پاتا ۔ وہ اکثر خود کو سمجھاتا کہ میرے پاس تو میری محبت ہے جو صدیوں سے میرے اندر ڈیرہ ڈالے میری ہمنوا بنی ہوئی ہے بھلا کوئی اور کیسے نقب لگا سکتا ہے ؟
” نہیں سنگ تراش وہ مکین نہیں وہ تو ایک چھلاوہ ہے جب تمہارا یہ خود ساختہ بت پاش پاش ہوگا تب ہی تو تم محبت کے صحیح مفہوم سے آشنا ہو پاﺅ گے تمہیں اس خول سے باہر نکلنا ہوگا اپنے وجود کو اس کی اصل پہچان دینا ہی ہوگی ۔“ اس کے لہجے میں شہد اتر آتا
” نہیں نہیں ، میری محبت کا حصار بہت مضبوط ہے ، وہ میرے نہاں خانے کی مکین ہے جو مجھے سرشار کیے ہوئے ہے “
سنگ تراش بہت معصوم ہو تم ،یہ سرشاری دیکھو درد بن کر آنکھوں سے چھلک رہی ہے ،
دیکھو دیکھو سنگ تراش شہزادی کے ہونٹوں کی مسکراہٹ میں ایک تشنگی ہے ۔“
”نہیں نہیں دیکھو وہ مسرور ہے ، وہ بہت شاد ہے میری محبت میں “ وہ چیخ پڑتا
وہ اپنے لفظوں میں حلاوت گھولتے ہوئے کہتی
”نہیں سنگ تراش تم اس طرح خود کو بہلا رہے ہو جسے تم محبت کا نام دے رہے ہووہ تو تمہاری روح کا درد ہے ۔جس دن یہ مجسمہ چور چور ہوگا اس دن تمہیں اپنے وجود کا احساس ہوگا تمہیں خود کو پانے کے لیے ایک دن اس خول سے باہر آنا ہوگا ۔“
اس کی آواز میں ایک الگ طرح کا خمار ہوتا مگر لہجہ تحکمانہ سا ہو جاتا
” نہیں نہیں یہ سب جھوٹ ہے “وہ بے بسی سے چیخ پڑتا
” اس نہیں میں ہی تو ’ ہاں پوشیدہ ہے سنگ تراش ’ لا ہی تو ہونے کا ثبوت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو تمہاری زبان سے ’ نہیں ‘ لفظ ادا نہیں ہوتا ۔تم اپنے آپ کو اتنا جھٹلاتے کیوں ہو ؟“
وہ جھنجھلانے لگتی۔
” دیکھو دیکھو تمہارے مجسمے میں شگاف پڑنے لگا ۔ “
وہ حیران پریشان مجسمے پر ہاتھ پھیرتا اسے ہر طرف سے دیکھتا اسے تو کوئی شگاف نظر نہیں آتا
” نہیں یہ ممکن نہیں “
” ایسا ہی ہے “
فضا میں اس کی نقرئی گھنگھرو سی ہنسی بکھر جاتی
” ایک دن تمہارا یہ بھرم ٹوٹے گا سنگ تراش “
اس کا یقین سنگ تراش کے دل کی دھڑکنوں کو پھر منتشر کرنے لگتا
” ہاں مگر یہ عین ممکن ہے کہ تم اعتراف نہ کر پاﺅ کیونکہ تم ڈرپوک جو ہو ازل سے ۔لیکن آج تم مجھ سے ایک وعدہ کرو سنگ تراش کہ جس دن تمہیں کسی سے محبت ہو جائے تم اس کا اعتراف اور اظہار ضرور کروگے “
” نہیں میری روح مجھ سے روٹھ جائیگی “وہ بے بس سا نظر آنے لگتا
” روٹھ جانے دو اسے ۔سچ کو سامنے آنے د و “ وہ کمال ہشیاری سے قائل کرتی
یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اب وہ آہستہ آہستہ ، دن بہ دن اس کی آواز کے سرور میں کھونے لگا تھا ا اس کی زبان سے نکلنے والے ہر لفظ میں ایک الگ طرح کا نشہ ہوتاتھا جس کی بازگشت چاروں طرف تھی جس سے وہ نجات پانا چاہتا تھا لیکن وہ جتنی کوشش کرتا تھا اتنا ہی وہ اس کے سحر میں گرفتار ہوتا چلا جا رہا تھا اور آخر ایک دن وہ چیخ ہی پڑا ۔
” ہاں۔۔۔ہاں مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے محبت ہو گئی ہے “
اور اسی لمحہ اسے محسوس ہوا کہ وہ تو دور بہت دور تھی اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقص کر رہی تھی بت میں شگاف پڑ چکا تھا مجسمہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے لگا تھا روح نے پوری قوت سے اسے ایک بار پھر سمیٹنے کی کوشش کی مگر وہ بھر بھری مٹی اس کے ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتی چلی گئی۔ پھسلتی چلی گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Name Plate a Short Story by Tariq Chattari
Articles
نیم پلیٹ

طارق چھتاری
’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدار ناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹا کر پھینک دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔
’’ یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہو گا کچھ نام وام نہیں یاد آتا تو کیا کروں ، لیکن نام تو یاد آنا ہی چاہئے۔آخر وہ میری بیوی تھی ، میری دھرم پتنی۔‘‘انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔
’’ سر لا کی ماں ……….’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔
’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نام بھی تھا اس کا۔ کیا نام تھا؟ اس کے نام کا پہلا اکچھر ……….ہاں کچھ کچھ یاد آ رہا ہے …………‘‘ انھوں نے پیر پلنگ کے نیچے لٹکا دیے اور وہ لائٹ آن کرنے کے لئے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔
’’ اس کے نام کا پہلا اکچھر …………..’’کے ‘‘ نہیں نہیں۔ہاں ہاں یاد آ گیا۔‘‘
ان کا جھریوں سے بھرا پوپلا منھ مسکرانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگا اور پھر بھول گئے کہ وہ اکچھر کیا تھا۔
کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔
’’ ڈھائی بجنے کو ہیں۔‘‘ ان کی نظر ٹائم پیس پر پڑ گئی۔
ٹائم پیس ………….؟ ہاں …………..ٹا…………..نہیں ، پیس…..’’سا‘‘ ارے ہاں ___
’’ سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلا اکچھر۔‘‘
’’ سا‘‘ ؟ نہیں یہ تو سرلا کی ماں۔آخر نام بھی تو کچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔
’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘
وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو گھور رہے ہیں۔پلنگ، میز، کرسی اور الماری، کتابیں ……….الماری کتابوں سے بھری پڑی ہو گی ، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھر الماری کی طرف مڑ گئے۔ دروازہ کھولا الماری خالی تھی __نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔‘‘ ارے اس میں تو پچھلی دیوار بھی نہیں ہے۔‘‘
وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی __سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔
سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔
’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔
’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘ اور وہ چھڑی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انھیں کہاں جانا ہے ؟ پتہ نہیں۔پھر بھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔
یہ علاقہ کون سا ہے ؟ کیلاش نگر ؟ ہاں شاید وہی ہے۔ آگے دائیں طرف ان کے دوست شرما جی کی کوٹھی ہے۔ باہر گیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔’’ ست پرکاش شرما۔‘‘ وہ ان کے دفتر کے ساتھی تھے۔ گذرے ہوئے کئی برس ہو گئے۔
اچانک کیدار ناتھ ٹھٹھکے اور رک گئے۔’’ ارے یہی تو ہے شرما جی کی کوٹھی ، ہاں باکل یہی ہے۔ وہ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘ کیدار ناتھ کو کمرے کی دھندلی فضا میں ایک تختی نظر آئی۔
’’ شرما ……….‘‘ انھوں نے پڑھا۔ ’’ رام پرکاش شرما۔‘‘
’’رام پرکاش ………..؟.نہیں ان کا نام تو ست پرکاش تھا۔ پھر غور سے دیکھا۔
’’ رام پرکاش شرما (ایڈوکیٹ)۔‘‘ صاف صاف لکھا تھا۔
انھیں یاد آیا کہ ایک روز شرما جی نے کہا تھا۔’’ میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہو گیا ہے۔‘‘
’’ اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر…………‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔ انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔
وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی …………….یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔
سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔
سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ………..کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔
’’ پاروتی دیوی…….‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔
’’ پاروتی دیوی کی جے ………………‘‘ بچپن میں وہ اپنے با با کے ساتھ بیٹھے پوجا کر رہے تھے۔’’ بابا …………..اماں کا نام بھی تو پاروتی دیوی ہے۔‘‘ ’’ ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیں جن کے نام پر تمہاری ماں کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘ اور اس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں تو بھگوان کا روپ ہوتی ہے ، پھر بھلا سرلا کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی۔ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیما پن آ گیا مگر وہ اپنے بوڑھے جسم کو ڈھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے __!!
’’ بابو جی آج اتنے سویرے آپ ادھر………؟ ‘‘ سرلا نے کسی سوچ میں ڈوبے کیدار ناتھ کو چائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا۔ بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔ کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔
نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ……………’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیری رات…………..کہرے سے بھری ہو ئی سرد رات ………………..بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ، کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔وہ کتوں سے بچنے کے لئے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ملٹن پارک؟ اب تو اس کا نام گاندھی پارک ہو گیا ہے۔ گاندھی پارک ہو یا ملٹن پارک ، ہے تو یہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دو دن بعد اسے لے کر آئے تھے۔پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔’’ آؤ یہاں بیٹھو ………کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘ وہ دونوں سنگ مر مر کے ستون سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ دنیا سے بے خبر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔مہینوں …………برسوں …………………کہ اچانک ان کی بیٹی سر لا نے انھیں چونکا دیا۔
’’ بابو جی آپ چپ کیوں ہیں ؟ کیا سوچ رہے ہیں ؟
’’ کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے …………..اصل میں ، میں نے سوچا جو گیندر کے دفتر جانے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو اچھا ہے۔‘‘
’’ بابو جی آج تو اتوار ہے۔‘‘
’’ اوہ ، ہاں آج تو اتوار ہے۔ کیا کروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یاد ہی نہیں رہتے۔‘‘
وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔’’ دن تاریخ کیا اب تو بہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘
اتنے میں جو گیندر بھی آنکھیں ملتے ہوئے آئے اور کیدار ناتھ کو پرنام کر کے صوفے پر بیٹھ گئے۔
’’ با بو جی اتنے سویرے ؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘
’’ میرے جلد ی آنے پر یہ لوگ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں۔ ضرور میرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہوں گے۔ مجھے چلے جانا چاہئے ، ابھی…………‘‘
کیدار ناتھ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی۔’’ ارے بابو جی تو بھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
آج اتوار ہے اور میں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلا آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کا کوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے …………‘‘
’’ہفتے میں چھٹی اک ایک ہی دن تو ملتا ہے ان لوگوں کو۔مگر میں بھی تو روز روز نہیں آتا ، گھر سے چل پڑا تھا ، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آ گیا تو سوچا، ملتا چلوں ، کیا یہ لوگ آج میرے لئے اپنے پروگرام نہیں چھوڑ سکتے ؟‘‘
کیدار ناتھ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ہیں۔
’’ کمبخت بڑھاپے میں آنسو بھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں۔‘‘ وہ آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سرلا نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔’’ یہ اس طرح کیا دیکھ رہی ہے ؟ کہیں سب کچھ سمجھ تو نہیں گئی۔‘‘
’’ کیا سمجھے گی ؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہوں اور رات بھر جاگتا رہا ہوں یا یہ کہ میں رو رہا ہوں۔‘‘
’’ بیٹی آج مجھے جو گیندر سے کچھ کام تھا ………..‘‘
’’ بابو جی مجھ سے ؟‘‘ جو گیندر نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
’’ہاں یوں ہی ، کوئی خاص بات نہیں تھی_‘‘ پھر وہ لان کی رف جھانکنے لگے۔
’’ آج بہت سردی ہے۔تمہارے لان میں تو سویرے ہی دھوپ آ جاتی ہے۔‘‘ سرلا نے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
’’ہاں بابوجی ، ابھی تو دھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اور اوس بھی بہت ہے ، پورا لان گیلا……….‘‘
وہ کہہ رہی تھی کہ جو گیندر بیچ میں بول پڑے۔
’’ بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے ……..‘‘
’’ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتا کر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔‘‘ کیدار ناتھ کھانسنے لگے اور کافی دیر تک کھانستے رہے۔ وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جا رہے تھے کہ اب کیا کہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے _
’’ بیٹے تمہیں نام یاد رہتے ہیں ؟‘‘
’’ کیسے نام بابوجی؟ ویسے میں ہمیشہ نام یاد رکھنے میں کمزور رہا ہوں ، اسی لئے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘
’’ اب کیا پوچھوں ؟ کیا سرلا سے یہی سوال کروں ؟مگر یہ تو بڑی بے تکی بات ہو گی۔ اگر سرلا خود ہی بول پڑے کہ بابو جی مجھے نام یاد رہتے ہیں ، تو جلدی سے پوچھ لوں کہ بتاؤ تمہاری ماں کا کیا نام تھا _‘‘
کیدار ناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلا کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی _
سورج چڑھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ دھوپ میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔لان کی ہری گھاس پر جمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھو چکے تھے۔ کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔
دوپہر کا کھانا تیار تھا۔ لیکن ابھی تک سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھنے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔ سرلا صبح سے کھانا تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدار ناتھ باہر دھوپ میں جا کر بیٹھتے تو کبھی اندر آ کر برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ کبھی جو گیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلا آتی تو اس تلاش میں رہتے کہ ذرا جو گیندر اٹھ کر جائیں اور وہ اکیلے میں سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ لیں۔
’’اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ کھانے پر بات میں بات نکلے گی ، تب تو پاچھ ہی لوں گا۔‘‘ انھوں نے سوچا اور مطمئن ہو گئے۔
کھانے کی میز سج چکی ہے۔ سرلا نے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں _کھانا بہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھوں کا کھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کا کھاتے کھاتے ان کا دل بھر گیا تھا۔سرلا کی ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تو اب انھیں یاد بھی نہیں۔ اس کا نام بھی تو یاد نہیں __ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔
’’ بیٹی تمہاری ماں کا کیا نام تھا۔‘‘
’’ ارے یہ کیا۔ اگر اس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیں گے۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں گے __‘‘ کیدار ناتھ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کر یہ سوال ان کے منھ سے نہ نکل پڑے _‘‘ کس سے پوچھوں ؟ کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آ جائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے ؟‘‘ انھوں نے بھویں سکوڑیں ، پیشانی پر بے شمار بل پڑ گئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے جھوجھنے لگے۔’’ آج سرلا کا بیٹا نظر نہیں آ رہا ہے شاید اسے اپنی نانی کا نام یاد ہو_باتوں باتوں میں اس سے تو پوچھ ہی لوں گا _‘‘’’ سرلا آج تمہارا بیٹا ……؟‘‘
’’ہاں پتا جی میں تو بتانا بھول ہی گئی۔ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کر دی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دو دن پہلے ہی دلی چلا گیا ہے __‘‘ ’’ او…….اچھا…………تو گھر پر نہیں ہے۔‘‘کیدار ناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانا ختم ہو گیا اور کیدار ناتھ کو اپنی بیوی کا نام یاد نہیں آیا۔ کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔ کیدار ناتھ بغیر نام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔ گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔ ہر ایک شخص کو دیکھ کر انھیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کا نام معلوم ہو گا۔ وہ ہر ایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر کوئی شخص نہ تو ان کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی کچھ پوچھنے کے لئے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفر جاری رہا اور پھر اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور اترنے کے لئے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔
کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے۔ وہ بغیر روشنی کئے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔ انھوں نے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں جلن ہو نے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھر گیا تھا۔’’ اٹھ کر لائٹ جلا دی جائے۔‘‘ انھوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انھیں نیند ہی نہیں آتی۔ اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔ اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔آگ کی لپٹیں بہت تیز ہو گئی ہیں ، سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے ، روشنی بہت تیز ہے او انھیں نیند نہیں آ رہی ہے۔تو پھر آنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں __؟جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے۔ وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں ادھر سے شدید درد کی لہر اٹھتی ہے۔ ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پر جا پڑی۔کیدار ناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے۔لائٹ جلائی اور الماری کھول کر تمام کتابیں فرش پر بکھیر دیں۔ایک ایک کر کے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اور پرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں پھر دیوانوں کی طرح انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے __کسی کاغذ کو پڑھتے ، کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کو تہہ کر کے رکھ لیتے۔’’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تو نہیں مل رہی ہے۔‘‘ اب کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں ، کاغذوں اور فائلوں کو نوچ کر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ہاتھ بالکل شل ہو چکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے۔ انھوں نے گھبرا کر گلے میں بندھے مفلر کا بل کھولنا چاہا کہ پتہ نہیں کیسے گرفت اور تنگ ہو گئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔’’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں ___یاد کرنا بھی بیکار ہے ، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کا کیا نام تھا۔
شانتی………………….؟
نہیں ___
سروجنی____
نہیں …………..نہیں …….
سرشٹھا………….؟
اف یہ بھی نہیں __
ہزاروں نام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے۔ پھر وہ بھول گئے کہ وہ کیا یاد کر رہے تھے۔
آج کون سا دن ہے ؟
اتوار___
نہیں اتوار تو کل تھا۔
کل؟
اتوار تو اس دن تھا جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اور سرلا کے گھر گئے ہوئے اب صدیاں گذر چکی ہیں۔
ان کی آنکھوں سے زرد روشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ، کاغذات اور فائلیں __کچھ دھندلے دھندلے حروف نظر آئے۔
’’ شرما۔ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘‘
’’ پورا نام کیا تھا ان کا؟۔‘‘
’’ یہ بھی بھول گیا؟۔‘‘
’’ اور ان کے بیٹے کا؟۔‘‘
’’نہیں ، اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘‘
پارک___
’’کون سا پارک‘‘؟
’’ہاں وہی پارک جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘
’’ لیکن اب تو اس پارک کا نام بھی بدل گیا ہے۔‘‘
’’ کیا ہے اس کا نیا نام؟‘‘
’’ نیا ہی کیا اب تو پرانا بھی یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھولتا جا رہا ہوں۔‘‘
’’ میری بیٹی __‘‘
’’ اف اس کا نام بھی نہیں یاد آ رہا ہے۔‘‘
’’ اس کے شوہر کا نام ؟‘‘
’’ہے بھگوان مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘
کیا صرف بیوی کے نام کے لئے وہ اتنے پریشان ہیں۔
نہیں ، کوئی اور چیز بھی ہے جسے وہ بھول گئے ہیں۔
’’ کیا چیز ہے وہ؟‘‘
وہ نیم پلیٹ جو بار بار ان کے ذہن سے نکل کر گر پڑتی ہے ! کیا لکھا ہے اس میں ؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ مٹ چکا ہے ___
دیواریں ، چھت، دروازے اور فرش ……………….کچھ بھی نہیں ہے۔دور تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا میدان ہے۔زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سور ج کا گولا پھیل کر اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ پورا آسمان اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک اور کوئی بہت چھوٹی سی چیز نظر آئی۔
’’ کیا ہے وہ ؟‘‘
’’ کوئی انسان ہے جو اپنے چاروں طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ، وہ تنہا ہے ، بالکل تنہا۔‘‘
’’ ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے ، اور اب میری آنکھوں کے اتنا قریب آ گیا کہ اس کے پیچھے سارا میدان ، آسمان اور سورج کا پھیلا ہوا گولا بھی چھپ گیا ہے۔‘‘
’’ کون ہے یہ شخص؟‘‘
’’میں ؟‘‘اور ان کی آنکھوں کے سامنے خود ان کی اپنی ذات اندھیرا بن کے چھانے لگی۔
’’ مگر میں کون ہوں ؟کیا نام ہے میرا؟‘‘
’’ایں ……………….اب تو میں اپنا نام بھی بھول گیا۔‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے۔ انھیں لگا وہ کئی گز زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ ان کا دم گھٹ رہا ہے۔سر بری طرح چکرانے لگا اور آنکھوں میں نیلے پیلے بادل امڈ آئے۔ ہاتھ پاؤں سن پڑچکے ہیں اور گلا رندھ گیا ہے ، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔ کانپتا ہوا ہاتھ انھوں نے گردن پر رکھ لیا اور کھنکھارنا چاہا مگر انھیں لگا کہ کھنکھارتے ہی ہچکی آ جائے گی اور وہ مر جائیں گے۔
’’ نہیں ……….‘‘ وہ بہت زور سے چیخے۔ ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہو گئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔
’’کے …………….کے …………..‘‘ اف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زبان کٹ کر دور جا گرے گی۔ انھوں نے غور سے دیکھا، حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔’’کیدا ا ا……………..‘‘
اور پھر انھوں نے پڑھ لیا۔’’ کیدار ناتھ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ دل بہت زور سے دھڑکا، پورے بدن میں گد گدی سی ہونے لگی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔
’’ کیدار ناتھ، کیدار ناتھ__‘‘ وہ زور زور سے کہنے لگے جیسے اب انھیں سب کچھ یاد آ گیا ہو۔
اپنی بیٹی کا، دوست کا، اس پارک کا اور اپنی بیوی کا نام _ کیدار ناتھ !محسوس ہوا کہ ساری دنیا کا نام کیدار ناتھ ہے۔
پھر آہستہ سے اٹھے ، لائٹ بجھائی اور کیدار ناتھ، کیدار ناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔
صبح ہوئی تو انھوں نے خود کو بہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی۔!!
———————————————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔
Tanhai a Short Story by Iqbal Niyazi
Articles
تنہائی

اقبال نیازی
بہت عجیب بات ہو گئی……….
فلموں کے سینیر رأیٹر ساحل صاحب اچانک لاک ڈاؤن سے گھبرا کر،بڑبڑاتے ہوے کپڑے پہننے لگےتو نوجوان نوکر نے حیرت سے پوچھا
” صاحب کہاں جا رہے ہیں؟؟ باہر سب بند ہے.”
ساحل صاحب نےایک موٹی گالی دے کر کہا ” جوہو جا رہا ہوں , میری نئ فلم کی پارٹی ملنے آرہی ہے”
“ارے صاحب! لاک ڈاؤن ہے, باہر سب بند ہے. جانے کا کوئی سادھن نہیں ہےاور ایسے میں کون سی پارٹی آےگی, سب گھروں میں بند ہیں”
“چپ بے……” ایک اور موٹی گالی ان کی زبان نے ایسے ُاگلی جیسے سنّاٹے میں زِپ سے کوئ بائیک نکلتی ہے.
” تو چل تیار ہو….میرے ساتھ چل….” ساحل صاحب نے نوکر کے شانے دبائے.
لڑکا منع کرتا رہا, دُہائی دیتا رہااور ساحل صاحب اسے لے کر باندرہ کے کارٹر روڈ کے اپنے فلیٹ سے باہر آ گئے. ابھی مین روڈ تک ہی پہنچے تھے کہ پولِس جیپ نے انہیں روکا… ایک تھری اسٹار باہر نکلا,
” ارے انکل! کہاں نکلے ہو؟ دیکھ نہیں رہےلاک ڈاءون ہے.”
” دیکھئے میں فلم رأیٹر ہوں, میں نے فلاں, فلاں, فلاں فلمیں لکھی ہیں” ساحل صاحب نے مرعوب کرنے کی کوشش کی, ” اور میری ایک نئی فلم کی آج سِٹنگ ہے.”
” ارے انکل آپ اتنے بزرگ ہو گئے ہیں اس لئے بچ گئے…. ورنہ ابھی ڈنڈے پڑنے شروع ہوتے پچھواڑے پر..” انسپکٹر نے ساحل صاحب کی مشہور فلموں سے مرعوب ہوئے بغیر کہا, ” چلئے جائیے گھر پر….ایسی کنڈیشن میں کوئ سِٹنگ وِٹنگ نہیں ہوتی…چلئے… اے لڑکے ! لے جا ان کو گھر پر، ورنہ تیری سوُج جائیگی… سمجھا!!!” انسپکٹر نے ڈنڈا بتا کر نوکر لڑکے سے کہا.
ساحل صاحب بڑبڑاتے ہوئے گھر کی طرف لوٹنے لگے. راستے بھر ان کو جتنی گالیاں یاد تھیں, سب پولِس والوں کو ارپن کرتے رہے.
نوکر نے مسکرا کر گھر کا دروازہ کھولا… ساحل صاحب نے آواز لگائی,
” ارے بیوی ! او بیوی…ذرا ایک ڈرنک بنا دو… اجی بیگم….سنو!!! اور یہ تمہارا لاڈلا کہاں ہے؟؟ ابھی تک سو رہا ہے؟؟ اس کو اُٹھاؤ, بولو باپ کو جوہو تک اپنی کار میں چھوڑ آئے..اور سنو بیگم ! ہماری بٹیا کالج گئی کیا؟؟”
نوکر لڑکا حیرت سے ساحل صاحب کو دیکھ رہا تھا….وہ بہت گمبھیرتا سے اپنےبیوی بچوں کو آواز دے رہے تھے جن کا وجود ہی نہیں تھا.
ساحل صاحب نے تو شادی ہی نہیں کی تھی, پھر یہ بیوی بچے…؟؟؟ وہ سوچ میں پڑ گیا.
ایک بھدّی گالی اس کے کانوں میں پڑی ” ابے کھڑا کیا ہے.. تیری مالکن کو بول ایک وہسکی کا لارج بنا دے میرے لئے…. سالا پیاس ہی نہیں بجھ رہی..”
نوکر نے اندر روم میں جاکر ساحل صاحب کی بھتیجی کو فون لگایا.. سارا حال سنایا…دوسری طرف سے ہنسی کی آواز أئی اور فون کٹ گیا.
بھتیجی نے کانفرنس کال پر اپنے بڑے بھائی اور ایک بہن کو لیا… اپنے چاچا کا حال سن کر سب ہنسے. بھتیجے نے کہا,” بہنوں تیار رہو…کارٹر روڈ کے فلیٹ کے اب 9 کروڑ ملنے والے ہیں…. بہت جلد !!!!
——————————————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔