Beemari a Short Story by Wajahat Abdussattar

Articles

بیماری

وجاہت عبدالستار

ملک میں کرفیو نافذ ہوکر پندرہ دن مکمل ہو چکے تھے ۔کورونا نامی معمولی جرثومے کے خوف نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لےرکھا تھا ۔ حکومتوں کے پاس اب تک اس کا کوئی مناسب علاج موجود نہیں تھا اسلئے حکومتیں صرف احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے گھروں میں قید رہنے کی سختی بنام تلقین کر رہی تھیں۔غذائی اجناس اور ضروریات زندگی کی خریداری کے لئے روزانہ صبح دو گھنٹے کرفیو میں راحت دی جاتی ۔ آج بھی کرفیو میں دو گھنٹے کی راحت ملی تو سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل پڑے اور ضروری اشیا کی خرید و فروخت میں مصروف ہوگئے ۔ کچھ بے فکرے ایسے بھی تھے جنہوں نے چالاکی سے تین چار مہینے کے اناج کی ذخیرہ اندوزی کر رکھی تھی۔اس لئے ان اوقات میں باہر آکر وہ گپے شپے لڑاتے رہتے ۔ ندیم نے جیسے ہی حاجی اسلم کو دیکھا مبارک باد دیتے ہوئے کہا ۔
” مبارک ہو حاجی صاحب ۔۔ رفیق بتا رہا تھا کہ فیس بک پہ آپ کی تصویر کو پانچ سو زیادہ لائک ملے ہیں ۔۔”
”ہائیں ۔۔! کون سی تصویر ۔۔؟”
حاجی اسلم نے پان کی پچکاری مارتے ہوئے پوچھا ۔۔

” شاید کسی مسکین کو اناج کی تھیلی پکڑا رہے تھے آپ ۔۔”
ندیم نے جواباً کہا تو حاجی اسلم کی باچھیں کھل گئیں اور ان باچھوں سے پان کی پیک رِستے رِستے رہ گئی ۔
” اب کیا بتاوں ندیم بھائی … ” حاجی صاحب نے پان کو واپس اپنے دانتوں کے چنگل میں پھنساتے ہوئے کہا ۔
” بس اللہ کام لے رہا ہے جی ۔۔ لیکن یہ رفیق ہے نا ۔۔بڑا خار کھاتا ہے مجھ پر ۔۔”
” اچھا ۔۔۔بھلا وہ کیوں ۔۔؟” ندیم نے سوال داغا ۔
” ارے اس کی تصویروں کو کوئی نہیں پوچھتا نا فیس بک پر ۔۔۔” حاجی صاحب نےسرگوشیوں کے انداز میں کہا ۔۔” اس لئے کم لائک والی فوٹو کے بارے میں بتایا ہوگا لیکن مجھے یقین ہے اس نے تمہیں چار ہزار لائک والی پوسٹ کے بارے میں بالکل نہیں بتایا ہوگا ۔۔”
” چار ہزار ۔۔۔؟ ” ندیم نے حیرت ظاہر کرتے ہوئے کہا ۔۔” ارے واہ واہ حاجی صاحب ۔۔۔چار ہزار لائک معمولی بات نہیں ۔۔۔ واه ..!”
” صرف لائک ہی نہیں۔۔ سات سو کمنٹ بھی تھے ۔۔” یہ بتاتے ہوئےحاجی صاحب کا سینہ چھپن انچ چوڑا ہو گیا اور چہرے سے مسرت چھلکنے نہیں بلکہ ٹپکنے لگی ۔
” ارے واہ ۔۔۔ بھلا ایسی کیا بات تھی اس پوسٹ میں ؟ ”
” وہی ۔۔۔۔وہ پڑوسیوں والی حدیث نقل کی تھی میں نے ۔۔” حاجی صاحب نے اپنی ٹوپی اٹھا کر سر کھجایا اور کہا ۔ ” ارے وہی ۔۔جس میں نبی پاک ﷺ نے فرمایا نا ۔۔کہ تمہاری مدد کے سب سے زیادہ مستحق تمہارے پڑوسی ہیں ۔۔”
” ارے واہ واہ حاجی صاحب ۔۔واہ ۔۔۔ ۔۔۔آپ تو وی آئی پی بن گئے محلے کے ۔۔چار ہزار لائک اور سات سو کمنٹ ۔۔واہ بھئی واہ ۔۔۔ایک بار پھر مبارک ۔۔”
اسی اثنا میں سلیم رکشہ والا دوڑتا ہوا آیا اور تقریباً چیخ پڑا ۔۔
” ندیم بھائی ، ندیم بھائی۔۔حاجی صاحب ۔۔ وہ ۔۔وہ ۔۔۔ خواجہ چاچا ۔۔۔! ”
” ارے کون خواجہ چاچا ۔۔۔ ؟ یہ اتنا کیوں ہانپ رہا ہے تو ؟ ۔۔ذرا ہانپنا تو بند کر پہلے ۔ ” ندیم نے سلیم کو جھاڑتے ہوئے کہا ۔
” وہ دیہاڑی پہ کام کرنے والے خواجہ چاچا تھے نا ۔۔۔ارے وہی جن کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔” سلیم اپنی سانسیں درست کرتے ہوئے یاد دلانے کے انداز میں بولا ۔۔ ”ارے چھ مہینے پہلے ہی ان کی بیوی مر گئی تھی نا ۔۔”
” ہاں تو کیا ہوا انہیں ؟ وه بھی مر گئے کیا ۔۔؟ ”
حاجی صاحب نے پان کی پچکاری سے دیوار لال کرتے ہوئے اطمینان سے پوچھا ـ
” ہاں ۔مرگئے ۔۔۔” سلیم رکشہ والے نے بجھے بجھے انداز میں کہا ۔
” صبح اپنے بستر پر مردہ حالت میں پائے گئے ہیں ۔ ”
” انا للہ و انا الیہ راجعون ”
دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا پھرندیم نے سلیم سے پوچھا ۔۔
” کیا بیماری تھی انہیں ؟ کیا انہیں بھی کورونا ہو گیا تھا ۔۔؟”
سلیم نے دونوں کو عجیب سی نگاہوں سے دیکھا اور کہا ۔۔
” کورونا ؟ … نہیں نہیں ندیم بھائی ۔۔! کورونا نہیں ۔۔”
” اچھا ۔۔۔” ندیم کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ دوڑ گئی جیسے اس نے کورونا کو مار بھگایا ہو ، پھر اس نے اپنی بائیں آنکھ دبا کر تمسخرانہ انداز میں سلیم سے پوچھا ۔
” تو کیاایڈز ہو گیا تھا انہیں اس عمر میں۔۔۔؟ ”
سلیم ایک لمحے کے لئے بھونچکا سا رہ گیا اور تعجب سے سماج کے ان وی آئی پی لوگوں کو دیکھنے لگا جن پر یہ مخصوص حالات بھی اثر انداز نہیں ہوئے تھے ۔۔ کچھ دیر کے لئے تو اسکی زبان گنگ ہو کر رہ گئی پھر اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا
”ایڈز نہیں ندیم بھائی ۔۔ایڈز سے بڑی بیماری ہوگئ تھی اس بڈھے کو ۔۔ بھوک ۔۔۔بھوک کی بیماری چاٹ گئی اس بڈھے کو ۔۔ بھوک کی بیماری ۔۔”
سلیم رکشے والا نمناک آنکھوں سے یہ الفاظ بدبداتا ہوا پلٹنے لگا تو حاجی اسلم بھائی نے آواز لگائی ۔۔
”اوئے سلیم ۔۔ سچ میں اس بڈھے کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا کیا ۔۔؟ ۔۔ اب کفن دفن کا انتظام تو ہم لوگوں کو ہی کرنا پڑے گا نا ۔۔۔ ”
” ہاں ۔۔ ”
”اب یہ تو بتاتا جا یہ بڈھا رہتا کہاں تھا ۔۔”
” وہ ۔۔۔ وہ تو آپ کے بالکل پڑوس ہی میں رہتا تھا حاجی صاحب ”
سلیم نے چبھتی ہوئی نگاہوں سے حاجی صاحب کو دیکھتے ہوئے کہا اور پژمردہ قدموں سے پلٹ پڑا ۔

Daman e Yazdaan Chaak a Short Story by Ansari Afzaal Ahmad

Articles

دامنِ یزداں چاک

انصاری افضال احمد

رات کا پچھلا پہر تھا … میرے سامنے نئے افسانے کا ادھورا مسودہ پڑا ہوا تھا ، میں بالوں میں انگلیاں دیئے ہوئے مسلسل مرکزی کردار کے اختتام کے بارے میں سوچ رہا تھا ، بیوی کی بے حیائی، بے وفائی، دوسرے مردوں سے کھلے عام معاشقہ، مرکزی کردار کی بے روزگاری، بے بسی، بیوی کا اچھی تنخواہ پر کام کرنا، گھر میں آفس کے لوگوں کو کام کے بہانے سے لانا اور بے حیائی کرنا… مرکزی کردار کو کیا کرنا چاہیے؟؟ طلاق دے کر دوسری لڑکی تلاش کر لے؟؟ مگر اس سے بھی شاید دل دریدہ زخموں کا مداوا نہ ہو سکے اور یہ تو ایک سیدھا سا اختتام ہوگا، اس میں نہ کوئی کرب آزارافسانوی رنگ ہوگا نہ پڑھنے والے کے لیے کوئی دلچسپی… پھر؟؟؟ پھر کیا کرنا چاہیے اسے؟؟ یہ سوچتے ہوئے میرے ماتھے کی رگیں تن گئیں، مٹھیاں بھنچی ہوئیں اور سانسیں چڑھی ہوئی تھیں پھر اچانک ایک خیال سا ذہن میں آیا… ہاں اسے خودکشی کرنا ہوگی تاکہ انجام افسانوی اور چونکا دینے والا ہو .. اور ویسے بھی موت سے کردار کے سارے دکھوں کا مداوا ہوجاتاہے… موت زندگی کا سب سے بہترین حسن ہے۔موت سارے دکھوں کا اپنے خوبصورت ہاتھوں سے گلا گھونٹ کر اپنے چاہنے والوں کو رہائی دیتی ہے.. ہاں اسے یقیناً مر ہی جانا چاہیے.. یہ سوچتے ہوئے میں نے آنکھیں موند لیں.. اچانک کچھ آوازوں کے شور سے میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا.. کمرا مختلف نوع کی آوازوں سے بھرا ہوا تھا، ہر طرف پرچھائیاں اور سائے لہرا رہے تھے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے مگر ایک ساتھ آتی ہوئی آوازوں کے سبب میں کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا .. میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی، جسم سے جیسے پسینے کی دھاریں پھوٹ رہی تھیں، سانسیں تنی ہوئی تھیں ٹیبل لیمپ کی روشنی ہلکی ہلکی سی سارے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اسے شاید روشنی کہنا بھی غلط تھا یہ تو ایک ایسا اندھیرا تھا جسے تھوڑی سے روشنی نے اور گھنا کر دیا تھا…. مسلسل آوازیں جب میری برداشت کے باہر ہونے لگیں تو میں اچانک پھٹ پڑا… “خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ !!!کون ہو تم لوگ؟ اور میرے کمرے میں کیوں گھس آئے ہو ؟ ” میں تم لوگوں کو جانتا تک نہیں” ۔۔ کون ہو تم لوگ”
میرا خاموش ہونا تھا کہ آواز کی بھنبناہٹوں کا شور غالب آگیا. ان میں غصیلی آوازیں بھی تھیں، تکرار اور اضطراب سے بھری آوازیں بھی، کچھ آوازیں خود میں بے انتہا درد سموئے ہوئی تھیں تو کچھ گریہ وزاری کر رہی تھیں… اس مرتبہ میں حلق پھاڑ کر چینخا… “چپ ہو جاو!!… چپ ہوجاؤ!!!… کیوں میری جان کے گاہک بنے ہوئے ہو؟اگر تم لوگ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو تو ایک ایک کر کے مجھ سے بات کرو! ” یہ کہنا تھا کہ کمرے میں دل کو دہلا دینے والا گمبھیر سناٹا چھا گیا اور سایوں کی بھیڑ میں سے ایک سایہ آگے آ گیا.. ” ہاں کہو! کیا کہنا چاہتے ہو؟ اور تم کون ہو یہ بھی مجھے بتاؤ؟؟ ” ” میں کون ہوں؟؟” ایک کھرکھراتی ہوئی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی “تم مجھے نہیں جانتے؟ تم نے مجھے زندگی دی، تمہاری ہی مرضی کے مطابق میں نے وہ زندگی گزاری!!اور تم نے ہی مری مرضی کے خلاف مجھ پر موت مسلط کر دی!! جس کہانی میں تم نے مجھے جنم دیا تھا، میں اس کے دوسرے کرداروں سے بے انتہا محبت کرتا تھا! ٹھیک ہے میری بیوی میری بے روزگاری کی وجہ سے مجھے کوستی رہتی تھی، یہ بھی درست ہے کہ میرا لڑکا مجھے ہمیشہ اس بات کا طعنہ دیتا تھا کہ میں نے اسے ایک اچھی اور معیاری زندگی نہیں دی، لیکن کیا تمہیں نہیں معلوم انہیں کرداروں میں میری چھ سال کی ایک بچی تھی.. جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، میں جب گھر آتا تو میرے پیروں سے لپٹ جاتی، اپنی توتلی زبان میں مجھے دن بھر کی معصوم سی باتیں بتاتی، تم اگر میرے اندر جی رہے ہوتے تو تم جان پاتے کہ اس کی محبت ساری نفرتوں پر حاوی تھی، میں اس کے لیے جینا چاہتا تھا، مگر تم……!!.! اس کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی.. “مگر تم میرے خدا بن بیٹھے، تمھیں تو میری کہانی کا درد بھرا اختتام چاہیے تھا، تا کہ لوگ تمھیں سراہیں.. اور تم نے اپنے لالچ کے چلتے میرے حق میں موت کا فیصلہ سنا دیا، تم نے مجھے خود کشی پر مجبور کر دیا ” ” میں نے مجبور کیا ؟ ” ” ہاں تم نے!! لوگوں نے اسے خودکشی سمجھا ہوگا ! مگر میں جانتا ہوں کہ یہ قتل تھا، اور تم میرے قاتل ہو!! تم ہوتے کون ہو میری زندگی کا فیصلہ کرنے والے؟ کیا صرف اس لئے کہ تم نے مجھے تخلیق کیا ہے؟ “
” میرے لحاظ سے جو فیصلہ میں نے لکھا تھا ، وہ درست تھا ” میں نے اپنے دفاع کی کمزور سی کوشش کی.. ” اس نے سبھوں کے ساتھ ایک سا برتاؤ کیا ہے ” ایک منمناتی ہوئی آواز میرے کانوں میں آئی اور ایک سایہ بھیڑ سے نکل کر سامنے آ گیا… ” میں ایک عفیفہ تھی، شوہر کی شراب کی لت، اس کی بیماری، بچوں کی کثرت نے مجھے توڑ تو دیا تھا مگر پھر بھی میں اپنے حوصلے کے سہارے ان مصائب کا سامنا کیا مگر میری اس مجبوری اور میری خوبصورتی کا فائدہ اٹھا کر تم نے مجھے کوٹھے پر بٹھا دیا، مجھے جسم فروشی پر مجبور کیا… ” ” میں نے مجبور کیا؟؟” “ہاں تم نے…..!! کیوں کہ تم کہتے ہو ‘چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے۔ اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے۔ تمہارے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ تمہاری ہیروئن چکلے کی ایک طوائف ہو سکتی ہے۔ تمہیں اور تمہارے پڑھنے والوں کو میری مشقت بھری با عزت زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے تم نے مجھے چکلے پر بٹھا دیا، تم نے اگر میرے کردار کو جیا ہوتا، جیسا تمہارا دعوی ہے، تو شاید تم میرے لیے چکلے کا انتخاب نہ کرتے، لیکن تم تو ہمارے خالق ہو تمہیں ہمارے جذبات اور احساسات سے کیا لینا، تمہیں تو صرف اپنی تحریروں پر داد بٹورنی ہوتی ہے، میری عصمت کا سودا کرنے والے تم ہو، تم نے میری دلالی کی ہے، میرے جسم کو فروخت کر کے تم نے دولت، عزت اور شہرت کمائی ہے.
میری جانب اٹھنے والی غلیظ نگاہیں اور میری جانب لپکنے والے ہاتھ تمہارے تھے، تم کیا سمجھتے ہو کہ میری عصمت کے لٹنے کا الزام تم دوسروں پر ڈال کر بری الذمہ ہو جاؤ گے؟؟ ”
” سنو! میں نے تمہارے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی ہے، مجھے لگا کہ ایسے حالات میں شاید یہی ہونا چاہیے تھا “میں نے دفاع کی ایک کمزور سی کوشش کی…
” یہی ہونا چاہیے تھا؟؟ تم ہوتے کون ہو میرا اگلا قدم طے کرنے والے؟؟ چکلہ اور کوٹھا تم مرد ذات کے دماغوں میں گھسا ہوا ہے، جتنی نجاست اور غلاظت تمہارے دماغوں میں بھری ہوئی ہے اتنی تو ان کوٹھوں پر بھی نہیں ہوتی،بلکہ کوٹھے تو تم لوگوں کے ذہنی بیت الخلاء کا کام کرتے ہیں، جہاں تم اپنی گندگیاں اگل کر معاشرے میں سفید پوش بنے پھرتے ہو.. اچانک ایک پھٹے پھٹے سے سائے نے اس عورت کو پیچھے کیا اور خود آگے آ گیا اور نہایت درد ناک آواز میں چلانے لگا، اس کی شکل میں پہچانتا تھا، میں نے بھی چلّا کر کہا..
“ارے تمہیں تو میں بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں، تم میری آخری کہانی کے کردار تھے، تم جو ایک مذہبی جنونی تھے تم نے ایک بھرے چوک پر خود کو بم سے اڑا لیا تھا اور بے شمار معصوموں کی جان لی تھی “
“میں نے خود کو بم سے اڑایا تھا؟؟؛ ارے میں تو مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے والا ایک عام سا نوجوان تھا، جو خود بھی جینا چاہتا تھا اور دوسروں کو بھی جینے دینا چاہتا تھا مگر تم نے میرے جسم ہر بم باندھ کر مجھے بھرے چوک میں اڑا دیا، تم جو کرداروں کے لہو سے اپنی کہانیوں میں رنگ بھرتے ہو، آہوں اور سسکیوں سے اس کا راگ سنوارتے ہو… کیا تمہارے پاس دریائے نیل سے آنے والے امن کے حوالے نہیں تھے؟ کیا تم نے برگد کے نیچے بیٹھے اس شخص کی انسان سے انسان کی محبت کے پیغام کو نہیں سنا جس نے امن اور محبت کے لیے اپنا سب کچھ تیاگ دیا تھا؟ کیا تم تک مردوں کو زندہ کرنے والے کا پیغام امن نہیں پہنچا؟؟ وہ جو مردوں کو زندہ کرکے مسیحائی کرتا تھا اور تم جو زندوں کو مردہ بنانے پر تلے ہوئے ہو.. کیا تمہارے کانوں میں رس گھولتی ہوئی بانسری کی وہ آوازیں نہیں آئیں جس نے جانوروں کو بھی محبت کی ڈور سے باندھ دیا تھا ؟ ہاں تم سنتے بھی تو کیسے سنتے!! تم دیکھتے بھی تو کیسے دیکھتے!! ان میں تمہارے اور تمہارے قارئین کے لیے دلچسپی کہاں تھی!!! تم نے تو ان قوموں سے سیکھا جنھوں نے دنیا کو لکیروں، زاویوں، رنگوں، نسلوں، زبانوں اور دھرموں میں تقسیم کیا، تم بھی تو انہیں کے علم بردار ہو، تمہیں کیا ہوجاتا اگر تم مجھے میرے اصلی کردار میں پیش کر دیتے؟ ہاں شاید تمہاری کہانی کا رنگ چلا جاتا کیونکہ امن کا پرچم بھی سفید ہوتا ہے”…
اچانک سایوں کی بھیڑ میں سے ایک سایہ آگے سرک آیا،اس کی آنکھوں میں موت کا خوف رقص کر رہا تھا اس نے فضا میں مکے لہرائے اور بلند آواز سے کہنے لگا.. “تمہیں تو اس نے انجام تک پہنچا دیا مگر میرا انجام ہونا باقی ہے، میری ادھوری کہانی اس کی میز پر رکھی ہوئی ہے، اور اس نے مجھے میرا انجام نہیں بتایا ہے،لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ میرے لیے بھی موت ہی چنے گا، سن رہے ہو تم؟؟ بتاؤ مجھے تم نے میرے لیے کیا چنا ہے؟؟ “
رفتہ رفتہ میرے سارے کردار سامنے سے ہٹتے چلے گئے، اب میرے سامنے ایک ہی کردار تھا جو مجھ سے سوال کر تھا کہ میں نے اس کے لیے کیا چنا ہے…
” ہاں تم نے صحیح سوچا ہے، موت ہی تمہارے غموں کا مداوا ہے “
” یہ تو تمہارا فیصلہ ہے… قلمکار!..!! تم اپنے حصے کی موت مجھ پر لادنا چاہتے ہو…مگر آج نہیں!! آج قلم وہی ہوگا اور کاغذ بھی وہی اور فیصلہ بھی وہی مگر لکھنے والے ہاتھ اور کردار بدل جائیں گے… ”
رات کا سیاہ اندھیرا چھٹ چکا ہے ، سورج کی پہلی کرن ابھی ابھی اندرداخل ہوئی ہے۔ کلائیوں سے بہنے والے خون نے کاغذ پر پھیلی سیاہی کو مٹاکر ادھوری کہانی کو مکمل کردیا ہے.
————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Singhar Daan a Short Story by Shamoil Ahmad

Articles

سنگھار دان

شموئل احمد

فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں….

برحمبوہن کو نسیم جان کا سنگھار دان ہاتھ لگا تھا۔ سنگھار دان کا فریم ہاتھی دانت کا تھا۔ جس میں قد آدم شیشہ جڑا ہوا تھا اور برجمبو ہن کی لڑکیاں باری باری سے شیشے میں اپنا عکس دیکھا کرتی تھیں۔ فریم میں جگہ جگہ تیل، ناخن پالش اور لپ اسٹک کے دھبے تھے جس سے اس کا رنگ مٹ میلا ہو گیا تھااور برجمبوہن حیران تھا کہ ان دنوں اس کی بیٹیوں کے لھچن….

یہ لچھن پہلے نہیں تھے…. پہلے بھی وہ بالکنی میں کھڑی رہتی تھیں لیکن انداز یہ نہیں ہوتا تھا…. اب تو چھوٹی بھی چہرے پر اُسی طرح پاﺅڈر تھوپتی تھی اور ہونٹوں پر گاڑھی لپ اسٹک جما کر بالکنی میں ٹھٹھا کرتی تھی۔

آج بھی تینوں کی تینوں بالکنی میں کھڑی آپس میں اسی طرح چہلیں کر رہی تھیں اور برحمبوہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ یکایک بڑی نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔ اس کے جوبن کا اُبھار نمایاں ہو گیا۔ منجھلی نے جھانک کر نیچے دیکھا اور ہاتھ پیچھے کر کے پیٹھ کھجائی۔ پان کی دکان کے قریب کھڑے ایک نوجوان نے مسکرا کر بالکنی کی طرف دیکھا تو چھوٹی نے منجھلی کو کہنی سے ٹھوکا دیا اور پھر تینوں کی تینوں ہنسنے لگیں…. اور برحمبوہن کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑکنے لگا…. آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا…. آخر وہی ہوا….

یہ خوف برحمبوہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔ جب بلوائی رنڈے پاڑے میں گھسے تھے کہرام مچ گیا۔ برحمبوہن ور اس کے ساتھی دندناتے ہوئے نسیم جان کے کوٹھے پر چڑھ گئے تھے۔ نسیم جان خوب چیختی چلاتی تھی۔ برحمبوہن جب سنگھاردان لے کر اُترنے لگا تو اس کے پاﺅں سے لپٹ کر گڑ گڑانے لگی تھی۔

”بھیا….یہ موروثی سنگھاردان ہے…. اس کو چھوڑ دو…. بھیا۔“

لیکن برحمبوہن نے اپنے پاﺅں کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔

”چل ہٹ……..رنڈی….“

اور وہ چاروں خانے چت گری تھی۔ اس کی ساڑی کمر تک اُٹھ گئی تھی۔ لیکن پھر اس نے فوراً ہی خود کو سنبھالا تھا اور ایک بار پھر برحمبوہن سے لپٹ گئی تھی۔

”بھیا…. یہ میری نانی کی نشانی ہے….بھیا“

اس باربرحمبوہن نے اس کی کمر پر زور کی لات ماری۔ نسیم جان زمین پر دوہری ہو گئی۔ اس کے بلوز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھونے لگیں۔برحمبوہن نے چھرا چمکایا۔

”کاٹ لوں گا۔“

نسیم جان سہم گئی اور دونوں ہاتھوں سے چھاتیوں کو ڈھکتی ہوئی کونے میں دبک گئی۔ برحمبوہن سنگھاردان لئے نیچے اتر گیا۔

برحمبوہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔ یقینا یہ موروثی سنگھاردان تھا جس میں اس کی پرنانی اپنا عکس دیکھتی ہو گی۔ پھر اس کی نانی اور اس کی ماں بھی اسی سنگھار دان کے سامنے بن ٹھن کر گاہکوں سے آنکھیں لڑاتی ہو گی۔ برحمبوہن یہ سوچ کر خوش ہونے لگا کہ بھلے ہی نسیم جان اس سے اچھا سنگھار دان خرید لے لیکن یہ موروثی چیز تو اب اُسے ملنے سے رہی…. تب ایک پل کےلئے برحمبوہن کو کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہے۔

برحمبوہن جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی کو سنگھاردان بھا گیا۔ شیشہ اس کو دھندلا معلوم ہوا تو وہ بھیکے ہوئے کپڑے سے پونچھنے لگی۔ شیشے میں جگہ جگہ تیل کے گرد آلود دھبے تھے۔ صاف ہونے پر شیشہ جھل مل کر اُٹھا۔ اوربرحمبوہن کی بیوی خوش ہو گئی۔ اس نے گھوم گھوم کر اپنے کو آئینہ میں دیکھا۔ پھر لڑکیاں بھی باری باری سے اپنا عکس دیکھنے لگیں۔

برحمبوہن نے بھی سنگھاردان میں جھانکا تو قد آدم شیشے میں اس کو اپنا عکس مکمل اور دلفریب معلوم ہوا۔ اس کو لگا سنگھاردان میں واقعی ایک خاص بات ہے۔ اس کے جی میں آیا کچھ دیر اپنے آپ کو دیکھئے…. لیکن یکایک نسیم جان روتی بلکتی نظر آئی۔

بھیا….سنگھاردان چھوڑدو…. میری پرنانی کی نشانی ہے….بھیا….“

”چل ہٹ رنڈی….“برحمبوہن نے سر کو دو تین جھٹکے دیئے اور سامنے سے ہٹ گیا۔

برحمبوہن نے سنگھاردان اپنے بیڈ روم میں رکھا۔ اب کوئی پرانے سنگھاردان کو پوچھتا نہیں تھا۔ نیا سنگھاردان جیسے سب کا محبوب بن گیا تھا۔ گھر کا ہر فرد خواہ مخواہ ہی آئینے کے سامنے کھڑا رہتا۔ برحمبوہن اکثر سوچتا کہ رنڈی کے سنگھاردان میں آخر کیا اسرار چھپا ہے کہ دیکھنے والا آئینہ سے چپک سا جاتا ہے لڑکیاں جلدی ہٹنے کا نام نہیں لیتی ہےں اور بیوی بھی رہ رہ کر خود کو مختلف زاویوں سے گھورتی رہتی ہے…. یہاں تک کہ خود وہ بھی…. لیکن اس کےلئے دیر تک آئینہ کا سامنا کرنا مشکل ہوتا۔ فوراً ہی نسیم جان رونے بلکنے لگی تھی اور برحمبوہن کے دل و دماغ پر دھواں سا چھانے لگتا تھا۔

برحمبوہن نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ گھر میں سب کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگتے ہےں۔ بیوی اب کولہے مٹکا کر چلتی تھی اور دانتوں میں مسی بھی لگاتی تھی لڑکیاں پاﺅں میں پائل باندھنے لگی تھیں اور نت نئے ڈھنگ سے بناﺅ سنگھار میں لگی رہتی تھیں۔ ٹیکہ، لپ اسٹک اور کاجل کے ساتھ وہ گالوں پر تل بھی بنائیں۔ گھر میں ایک پاندان بھی آگیا تھا اور ہر شام پھول اور گجرے بھی آنے لگے تھے۔ برحمبوہن کی بیوی سرشام پاندان لے کر بیٹھ جاتی چھالیا کترتی اور سب کے سنگ ٹھٹھا کرتی اوربرحمبوہن تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہتا۔ اس کو حیرت تھی کہ اس کی زبان گنگ کیوں ہو گئی ہے…. وہ کچھ بولتا کیوں نہیں….؟ انہیں تنبیہ کیوں نہیں کرتا؟

ایک دن برحمبوہن اپنے کمرے میں موجود تھا کہ بڑی سنگھاردان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر اس نے اپنے آپ کو دائیں بائیں دیکھا اور چولی کے بند ڈھیلے کرنے لگی۔ پھر بایاں بازو اُوپر اُٹھایا اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے بغل کے بالوں کو چھو کر دیکھا۔ پھر سنگھار دان کی دراز سے لوشن نکال کر بغل میں ملنے لگی۔ برحمبوہن جیسے سکتے میں تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹی کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں منجھلی بھی آگئی اور اس کے پیچھے پیچھے چھوٹی بھی۔

”دیدی…. لوشن مجھے بھی دو….“

”کیا کرے گی……..؟“بڑی اترائی

”دیدی یہ باتھ روم لگائے گی……..“چھوٹی بولی

”چل ہٹ……..“ منجھلی نے چھوٹی کے گالوں میں چٹکی لی اور تینوں کی تینوں ہنسنے لگیں۔

برحمبوہن کا دل کسی انجانے خوش سے دھڑکنے لگا…. ان لڑکیوں کے تو سنگھار ہی بدلنے لگے ہےں…. ان کو کمرے میں اپنے باپ کی موجودگی کا بھی خیال نہیں ہے…. تب برحمبوہن اپنی جگہ سے ہٹ کر اس طرح کھڑا ہوا کہ اس کا عکس سنگھاردان میں نظر آنے لگا۔ لیکن لڑکیوں کے روےے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بڑی اسی طرح لوشن ملنے میں منہمک رہی اور دونوں اس کے اغل بغل میں کھڑی دیدے مٹکاتی رہیں۔

برحمبوہن کو محسوس ہوا جیسے گھر میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تب یکایک نسیم جان شیشے میں مسکرائی۔

”گھر میں اب میرا وجود ہے….“

اور برحمبوہن حیران رہ گیا…. اس کو لگا واقعی نسیم جان شیشے میں بند ہو کر چلی آئی ہے اور ایک دن نکلے گی اور گھر کے چپہ چپہ میں پھیل جائے گی۔

برحمبوہن نے کمرے سے نکلناچاہا۔ لیکن اس کے پاﺅں جیسے زمین میں گڑ گئے تھے وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔ وہ خاموش سنگھار دان کو تکتا رہا اور لڑکیاں ہنستی رہیں…. دفعتاً برحمبوہن کو محسوس ہوا کہ اس طرح ٹھٹھا کرتی لڑکیوں کے درمیان کمرے میں اس وقت ان کا باپ نہیں ایک بھڑوا کھڑا ہے….

برحمبوہن کو اب سنگھاردان سے خوف محسوس ہونے لگا اور نسیم جان اب شیشے میں ہنسنے لگی…. بڑی چوڑیاں کھنکھاتی تو وہ ہنستی…. چھوٹی پائل بجاتی تو وہ ہنستی اور برحمبوہن کو اب….

آج بھی جب وہ بالکنی میں کھڑی ہنس رہی تھیں تو وہ تماشائی بنا سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا دل کسی انجانے خوب سے دھڑک رہا تھا۔

برحمبوہن نے محسوس کیا کہ راہ گیر بھی رُک رُک کر بالکنی کی طرف دیکھنے لگے ہےں۔ یکایک پان کی دکان کے قریب کھڑے نوجوان نے کچھ اشارہ کیا۔ جواب میں لڑکیوں نے بھی اشارہ کیا تو نوجوان مسکرانے لگا۔ برحمبوہن کے جی میں آیا کہ وہ نوجوان کا نام پوچھے۔ وہ دوکان کی طرف بڑھا۔ لیکن نزدیک پہنچ کر خاموش رہا۔ دفعتاً اس کو محسوس ہوا کہ وہ نوجوان میں اسی طرح دلچسپی لے رہا ہے جس طر ح لڑکیاں لے رہی ہےں…. تب یہ سوچ کر اس کو حیرت ہوئی کہ وہ اس کا نام کیوں پوچھنا چاہتا ہے….؟ آخر اس کے ارادے کیا ہےں….؟ کیا وہ اس کو لڑکیوں کے درمیان لے جائے گا؟ برحمبوہن کے ہونٹوں پر لمحہ بھر کےلئے ایک پراسرار مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے پان کا بیڑہ کلے میں دبایا اور جیب سے کنگھی نکال کر دوکان کے شیشے میں بال سونٹنے لگا۔ اس طرح بالوں میں کھنگی کرتے ہوئے اس کو یک گونہ راحت کا احساس ہوا۔ اس نے ایک بار کنگھیوں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک رکشہ والے سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہاتھا اور بیچ بیچ میں بالکنی کیطرف بھی دیکھ رہا تھا۔ جیب میں کنگھی رکھتے ہوئے برحمبوہن نے محسوس کیا کہ واقعی اس کی نوجوان میں کسی حد تک دلچسپی ضرور ہے۔ گویا خود اس کے سنسکار بھی…. اونہہ…. یہ سنسکارونکسار سے کیا ہوتا ہے….؟ یہ اس کا کیسا سنسکار تھا کہ اس نے ایک رنڈی کو لوٹا…. ایک رنڈی کو…. کس طرح روتی تھی…. بھیا ….بھیا میرے…. اور پھر برحمبوہن کے کانوں میں نسیم جان کے رونے بلکنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ برحمبوہن نے غصہ میں دو تین چھٹکے سر کو دیئے…. ایک نظر بالکنی کی طرف دیکھا پان کے پیسے ادا کئے اور سڑک پار کر کے گھر میں داخل ہوا۔

اپنے کمرے میں آکر وہ سنگھار دان کے سامنے کھڑاہوا گیا۔ اس کو اپنا رنگ روپ بدلا ہوا نظر آیا۔ چہرے پر جگہ جگہ جھائیاں پڑ گئی تھیں اور آنکھوں میں کاسنی رنگ گھلا ہوا تھا۔ ایک بار اس نے دھوتی کی گرہ کھول کر باندھی اور چہرے کی جھائیوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ آنکھوں میں سرمہ لگائے اور گلے میں لال رومال باندھ لے۔ کچھ دیر تک وہ اپنے آپ کو اسی طرح گھورتا رہا پھر اسکی بیوی بھی آگئی۔ اس نے انگیا پر ہی ساڑی لپیٹ رکھی تھی۔ سنگھاردان کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تو اس کا آنچل ڈھلک گیا۔ وہ بڑی ادا سے مسکرائی اور آنکھ کے اشارے سےبرحمبوہن کو انگیا کے بند لگانے کےلئے کہا۔

برحمبوہن نے ایک بار شیشے کی طرف دیکھا۔ انگیا میں پھنسی ہوئی چھاتیوں کا عکس اس کو لبھاﺅنا لگا۔ بند لگاتے ہوئے ناگہاں اس کے ہاتھ چھاتیوں کی طرف رینگ گئے۔

”اوئی دیا….“ برحمبوہن کی بیوی بل کھا گئی اور برحمبوہن کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ اس نے چھاتیوں کو زور سے دبا دیا۔“

”ہائے راجہ….“ اس کی بیوی کسمسائی اور برحمبوہن کی رگوں میں خون کی گردش یکلخت تیز ہو گئی۔ اس نے ایک جھٹکے میں انگیا نوچ کر پھینک دی اور اس کو پلنگ پر کھینچ لیا۔ وہ اس سے لپٹی ہوئی پلنگ پر گری اور ہنسنے لگی۔

برحمبوہن نے ایک نظر شےشے کی طرف دیکھا۔ بیوی کے ننگے بدن کا عکس دیکھ کر اس کی رگوں میں شعلہ سا بھڑک اُٹھا۔ اس نے یکایک خود کو کپڑوں سے ایک دم بے نیاز کر دیا۔ تببرحمبوہن کی بیوی اس کے کانوں میں آہستہ سے پھسپھائی۔

”ہائے راجہ….لوٹ لو بھرت پور)“

برحمبوہن نے اپنی بیوی کے منہ سے کبھی ”اوئی دیا“ اور ہائے راجہ“ جیسے الفاظ نہیں سنے تھے۔ اس کو لگا یہ الفاظ نہیں سارنگی کے سر ہےں جو نسیم جان کے کوٹھے سے بلند ہو رہے ہےں اور تب….

اور تب فضا کاسنی ہو گئی تھی…. شیشہ دھندلا گیا تھا…. اور سارنگی کے سر گونجنے لگے تھے۔

برحمبوہن بستر سے اُٹھا۔ سنگھاردان کی دراز سے سرمہ دانی نکالی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ کلائی پر گجرا لپیٹا اور گلے میں لال رومال باندھ کر نیچے اُتر گیا اور سیڑھیوں کے قریب دیوار سے لگ کر بیڑی کے لمبے کش لینے لگا۔

(ذہن جدید نئی دہلی فروری1993ئ)
———————————————————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Ana ki Taskeen a Short Story by Noman Nazeer

Articles

انا کی تسکین

نعمان نذیر

چھت مسلسل چھلنی ہو رہی تھی گو یا کسی جنگ میں دشمن کی گولیوں کے نشانے پہ ہو اور اس میں مسلسل چھید ہو رہے ہوں۔ ان سوراخوں سے پا نی کے تیز رفتار قطرے خون کی دھاریوں کی ما نند چل رہے تھے۔ بارش تھی کی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ دسمبر کی اس با رش نے خون رگوں میں جما دیا تھا۔رضیہ اور اللہ دتہ اپنے بچوں کو مثل پرندوں کی اپنے پروں میں چھپائے بیٹھے تھے۔جیسے شکاری سامنے موجود ہو اور شکار اپنے بچاؤ کی آخری کوشش کر رہا ہو۔ اس قاتل موسم میں کچے کمرے میں موجود گرم انگیٹھی تو کب کی ٹھنڈ ی ہو چکی تھی بستر بھی مسلسل چھت ٹپکنے سے کافی حد تک گیلے ہو چکے تھے۔
رضیہ اور اللہ دتہ پیدائشی مفلس نہ تھے بلکہ ایک آفت کے مارے اس حال میں تھے۔ اللہ دتہ کے پاس وراثت میں ملی ۴ ایکڑ زمین تھی جس میں فصل اگا کے وہ اچھا گزر بسر کر رہے تھے۔اللہ دتہ کا باپ اب بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور بیمار بھی رہتا تھا۔اس کا ایک چھوٹا بھائی سکول میں اچھا طالب علم رہنے کے بعد اب کا لج میں داخل ہو چکا تھا۔سکول کے سب اساتذہ اس کی قابلیت کے متعرف تھے۔اللہ دتہ سے عمر میں آٹھ نو سا ل چھوٹا تھا اس نے تو پڑھائی میں زیادہ دلچسپی نہ لی اور باپ کے ساتھ کھتی باڑی کر نے لگا۔اب تمام خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اس پہ تھی۔اس لیے اس کی خواہش تھی کے اس کا بھائی پڑ لکھ کر اچھا مسقبل بنائے کیھتوں میں کیا رکھا ہے مٹی میں مٹی ہو نا۔
حبیب اللہ نے میڑک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پا س اور مز ید تعلیم کے لئے شہر میں کا لج میں داخلہ لے لیا۔ گاؤں سے شہر کا فاصلہ بارہ تیرا میل تھا۔ساتھ کے گاؤں سے ایک بس روز صبح شہر کو جا تی اورشام سے قبل واپس آجا تی اس لئے اس کا شہر جا نا زیادہ مشکل نہ ہوا۔کالج میں بھی جلد ہی اس نے نمایاں طالب ِ علوں میں جگہ بنا لی۔گاؤں میں بھی سب اس کو بڑی عزت دیتے تھے کہ وہ گاؤں والوں کے لئے فخر کا باعث تھا۔بل کھاتی سڑکوں پہ وہ زندگی کی منزلوں کا متلاشی تھا۔
حبیب اللہ نے ایف۔ایس۔ سی میں کامیابی کے بعد بی۔ایس۔سی میں داخلہ لے لیا۔اس کو سکالر شپ مل گئی جس کی وجہ سے بھائی پہ خرچے کا زیادہ بوجھ نہ پڑا۔وہ کا لج سے چھٹی کے بعد ایک جگہ ٹیوشن پڑھانے کے بعد گھر آتا۔اس نے کچھ رقم جمع کر کے اور کچھ بھائی سے لے کر ایک پرانی موٹر سائیکل لے لی تاکہ شہر ٓانے جا نے میں آسانی ہو۔ پورے گاؤں میں سے وہ چند ایک پڑے لکھے لوگوں میں سے ایک تھا گاؤں کے نوجوان زیادہ تر زمینداری، غلہ بانی کی طرف راغب ہو جا تے۔گاؤں کا سب سے بڑا زمیندار چوہدری عبدالعزیز تھا۔ چوہدری صاحب نیک سیرت،ہمدرد اور غریبوں کے خیر خواہ تھے صلوۃ و صوم کے پابند۔۔۔۔۔۔!! لیکن حبیب اللہ کے تعلیم حاصل کرنے کی خبر نے ان کے دل میں کوئی خاص خوشگورگی کا احساس پیدا نہ کیا۔۔۔۔ چوہدری کا اپنا بیٹا نہ تھا اس کی واحد اکلوتی اولاد ایک بیٹی تھی۔اس کی واحد اکلوتی وارث لیکن چوہدری کی طبیعت میں اسی قدر حرص و لالچ بھی شامل تھا۔اس کا بھائی شہر میں رہتا تھا اس کے تین بیٹے تھے جو وہیں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک اپنا کاروبار چوہدری کی نسبت ان کا مزاج روشن خیال تھا لیکن چوہدر ی فرسودہ خیالات کا مالک تھا۔اس کی بیٹی”عالیہ“بمشکل میڑک پاس کیا اور چوہدری نے اسے شہر کے مشہور کالج میں داخل کرویا جبکہ عالیہ کی طبعت پڑھائی کی جانب ہو نے کے برابر تھی۔ایک روز چوہدری نے اللہ دتہ کو ڈیرے پہ بلایا،اس سے حبیب کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ وہ حویلی میں آکے چھوٹی چوہدرانی(عالیہ) کو آکے پڑھایا کرے۔ اللہ دتہ جی سرکار جو آپ کا حکم وہ ضرور آئے گا اور سر کے بل چل کے آئے گا۔۔۔۔ حبیب بھائی کی تا کید کے مطابق شام کو حویلی پہنچا اس کوعام لو گوں کی طرح بیٹھک میں نہیں بٹھایا گیا۔ چوہدرانی نیک اور رحم دل خاتون تھی وہ حبیب کے سا تھ بہت عزت سے پیش آتی وہ اُسے استاد کا درجہ دیتی اور بیٹوں کی طر ح سمجھتی جبکہ چوہدری کا رویہ یکسر مختلف تھا۔عالیہ کا رویہ پڑھائی کی جابب کچھ اچھا نہ تھا۔لیکن وہ حبیب کے سا تھ بہت عزت سے پیش آتی۔ دو ماہ گذر گئے عالیہ کے امتحان قریب آگئے اس نے با پ سے کہلوایا کہ اب اس کو حبیب کی زیادہ ضرورت ہے وہ اسے امتحانات کے دوران زیادہ وقت دے تا کہ اس کا نتیجہ اچھا آئے۔ وہ اس کی اکلوتی لاڈلی بیٹی تھی اس کی با ت کو کیسے رد کر سکتا تھا سا تھ ہی اس کو یہ خوشی بھی ہو ئی کہ اس کا پڑھائی میں دل لگ گیا۔۔۔۔۔ عالیہ حبیب کی منتظر رہتی اس کی آنکھوں کی چمک کچھ اور ہی بتا رہی تھی۔ حبیب کو ایک دو با ر اس با ت کا شک ہو لیکن اس نے زیادہ توجہ نہ دی۔ عالیہ اس کے باتوں سے زیادہ اس کی طرف توجہ دینے لگی۔عالیہ نے اس سے اظہار کر دیا کہ وہ اسے پسند کرنے لگی ہے حبیب نے اس با ت پہ تعجب کا اظہار کیا اور اس ڈانٹا بھی لیکن وہ اس کی تما م باتوں کو برداشت کر گئی لیکن با ت سمجھنے کو تیا ر نہ ہوئی۔حبیب اس بات کا خوف نا ک انجام جا نتا تھا لیکن وہ فل وقت آنے سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اس کی سوچوں کی گھتی مزیدالجھ رہی تھی۔عالیہ جذباتیت کی اس انتہا پہ تھی جہاں کوئی نصحت کار گر نہیں ہو تی۔
سردیوں کے خاتمے کے بعد بہار کے موسم کی آمد آمد تھی۔ گاؤں کے ہر سو ہریالی کی بہار تھی گندم کی ٖفصل جواں تھی سٹوں میں دانہ پڑ چکا تھا سرسوں کے پھول ختم ہو کہ پھلیوں کی صورت میں ڈھل چکے تھے۔دوپہر کے وقت کریم عالیہ کو حساب کے پر چے کی تیاری کروا رہا تھا۔چوہدری صاحب ڈیرے پہ تھے۔عالیہ کے پرچے جلد ہی شروع ہو نے والے تھے۔عالیہ کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی کہ مشکل سے ہی ایسی نظر رائیگاں جا تی ہے۔عالیہ نے پھر وہی مو ضو ع چھیڑا لیکن کریم نے تو جہ نہ دی۔عالیہ نے بسی کے آنسو بہانے لگی حبیب نے گھبراہٹ کے عالم میں اس کو سمجھانے کی بہت کو شش کی۔اس نے شفقت سے اس کے سر پہ ہا تھ رکھا۔ عالیہ رونے ہو اس کے گلے لگ گیا اس نے خود کو الگ ہو نے کی بہت کو شش کیا لیکن وہ پھوٹ پھو ٹ کر رو نے لگی۔ اچانک چوہدری صاحب آگئے بیٹی کو اس حالت میں گاؤں کیاایک معمولی لڑکے کے سا تھ دیکھ کر یک لخت سکتے میں آگئے۔ ایک لمحے کے بعد وہ وہاں سے اپنے کمرے کی جانب چلے گئے۔ کئی راتوں تک وہ سو نہ سکے لیکن اس راز کو فاش نہ کیا کہ اس میں اپنی عزت کے تاتار ہونے کا اندیشہ تھا۔
چند دن بعد ایک خبر جنگل میں آگ کی طر ح پھیلی کہ چوہدری عبدالعزیز کے گھر میں چوری ہو گئی ہے اس میں لاکھوں مالیت کے زیورات کے علاوہ نقدی بھی شا مل تھی۔حبیب کے امتحا نا ت کے سلسلے میں کا لج سے چھٹیاں تھی اور وہ اس کی تیاری کر رہا تھا۔ اپریل کے مہینے کا آغاز تھا وہ صحن میں موجود دریک کے درخت کے پتلی چھاؤں میں چارپائی پہ بیٹھا پڑھائی میں مشغول تھا کہ اچانک گھر کے پرانے زنگ آلود دروازے پہ دستک رضیہ نے دروازہ کھولا تو پولیس کی وردی میں ملبوس چار سپاہی اندر آئے اورحبیب جو چار پائی سے اُٹھنے کا اردہ ہی کر رہا تھا آدبوچااُس کو ہتھکڑیاں لگا کر جانے لگے وہ حیران تھا رضیہ رونے لگی حبیب نے بھی حیرت اور پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ آخر قصور کیا ہے پولیس والے اس کو گاڑی میں بٹھاتے ہو ئے صرف اتنا بولے ”چوری“۔۔۔۔چوہدری عزیز کے گھر چوری نمک حرام نے۔۔۔۔چوری کی!!
جیل کے تاریک کمرے میں وہ بیٹھا اسی سوچ میں غرق تھا جرم۔۔۔کیسا جرم۔۔عالیہ کا مجھ سے محبت کرنا۔۔ کیونکہ میں میری حثیت۔۔ سوچوں کا جال الجھتا ہی جا رہا تھا۔اس کو ایک ایسے جرم کی سزا دی جا رہی ہے جس میں اس کا کو ئی قصور بھی نہیں۔ لیکن اس راز کو کبھی اس نے بھی فاش نہ کیا۔ کریم کے بھائی نے بہت دوڑ دوپ کی لیکن ایک عام دیہاتی غریب آدمی کی کون سنتا۔آخر کار چوہدری کی لاکھوں کی چوری تھی۔۔۔۔سال بھر میں دو ایکڑ زمین بک گئی لیکن اس کی رہائی نہ ہوئی۔اللہ دتہ بہت رویا منت سماجت کی لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔عالیہ نے اپنے باپ کو ساری بات بتائی کی اصل قصور وار وہ خود ہے اس پہ چوہدری صاحب نے بہت مہربانی کہ بقایا دو ایکڑ زمین کے بدلے صلح ہو گئی اور حبیب ڈیڑھ سال کی قید با مشقت کے بعد رہا ہو گیا۔اس دوران اس کا بوڑھا باپ جوان بیٹے کے دکھ میں دنیا سے چل بسا۔بھائی کے پاس بھی اب کچھ نہ بچاتھا۔ زمین مال مویشی سب بک گیا۔اللہ دتا محنت مزدوری پہ آگیا زمین جو اس کی آس اس کا مان تھی اب چوہدری کے پاس تھی۔حوالات میں بے جا تشدد کے باعث حبیب کی ہڈیاں کمزور ہو گئیں اس کی صحت نے بھی جواب دے دیا سانس کی تکلیف دمے کی صورت اختیار کر چکی تھی۔اللہ دیہ ان سب مشکلات کو برداشت کرتے کرتے قبل از وقت بوڑھا اور کمزور ہو رہا تھا مگر پھر بھی حوصلہ نہ ہارا۔حبیب سارا دن گھر میں پڑ ا اس خوف ناک وقعے کی وجہ سوچتارہتا۔ گھر کے درو دیوار اس کو قید سے کم نہ لگتے اب وہ اپنی بیماری سے بھی لڑ رہا تھا اور حالات سے بھی۔گھر کے حالات دن بہ دن خستہ حالی کا شکار ہو ر تھے۔کھیتی باڑی کے لئے اب زمین بھی نہ تھی۔اللہ دتہ اب محنت مزدوری کرتا تھا۔حبیب دو ہفتے بعد شہر میں سرکاری ہسپتال میں گھنٹوں قطاروں میں لگ کے دوائی لے کہ آتا غریب کا واحد سہارا سرکاری ہسپتال ہی ہو تا ہے جس میں ڈاکٹر تک پہنچنے کے لئے بھی صبرو استقامت سے کا م لینا پڑتا ہے۔حبیب کو علا ج سے زیادہ افاقہ نہ ہو رہا تھا۔اس کے مرض میں بتدریج اضافہ ہی ہو تا رہا۔
اللہ دتہ سارا دن چوہدری کے ہاں کام کاج کرتا۔ چوہدری اس کی ایمانداری اور کام کی لگن سے خو ش تھا۔ایک دن اس نے اسے ڈیرے پہ بلایا اس کے کام کی تعریف کی اور کہا کہ اس ڈیرے کے تمام کام کی دیکھ بھا ل وہ کرے گا اور حساب کتا ب کے لئے اپنے بھائی حبیب کی مدد بھی لے سکتا ہے کیونکہ وہ پڑھا لکھا نو جوان ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر سخاوت یہ کہ اگر وہ چاہے تو ڈیرے پہ ہی اپنی رہائش رکھ سکتا ہے یہ سب ایک درد دل اور ہمدر انسان ہی کہہ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔چوہدری جی آپ ہمارے مالک ہیں آپ کے سواء ہمارا اور ہے کون آپ کے اعلٰی ظرفی ہے جو اس غریب کو اس قابل سمجھا۔اللہ دتہ شکرانہ انداز میں بو لا۔
حبیب کو احساسِ ندامت ہر وقت ستاتا کی اس کی وجہ سے سارا خاندان تباہ ہو گیا۔یہ خیال اس کے دل پہ چرکے لگاتا۔بھائی نے اس کی خاطر اپنا سب کچھ لُٹا دیا اور اب بھی اس کی خاطر سب کچھ کرنے کو تیا ر ہے کہ کسی طرح اس کی صحت بحا ل ہو جائے اور اپنی پڑھائی پھر سے شروع کرکے اپنا اچھا مستقبل بنا سکے۔حبیب حسب معمول دوا کی خاطر ہسپتال گیا تو ڈاکٹروں نے اس کو داخل کر لیا اس کے مزید ٹیسٹ بھی کراوئے۔ اس کو ٹی بی کا مرض تشخیص ہوا۔ ڈاکٹروں نے اس کو اچھے ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جس کا خرچ تو زیادہ لیکن سہولیات تما م موجود تھیں۔اللہ دتہ نے چوہدری سے قرض لے کر اس کے علاج کا بندوبست کیا۔ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا۔اللہ دتہ ہر دوسرے دن اس کی خیر خبر لینے آتا۔وہ سارا دن ہسپتال میں لاورثوں کی طرح پڑا بھائی کی راہ تکتا رہتا۔اس وارڈ میں موجود دوسرے مریضوں کے عزیز و اقارب آتے تو ان کو دیکھ اس کا دل بیٹھ سا جاتا جو جاتے ہو ئے اس پہ بھی ہمدردی کی ایک نگاہ ڈال جا تے۔۔۔۔۔۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں سے لے کر خاکروب تک سھبی اس کو جاننے لگے آتے جا تے اس سے خیریت دریافت کر تے۔جو آپس میں بات کرتے تو کہتے بے چارہ غریب جوان۔۔۔۔۔۔۔۔
بھائی آتا آکے مل کے واپس چلا جا تا اس کے سواء کر بھی کیا سکتا تھا سب کچھ لُٹا دینے کے بعد اب اگر محنت مزدوری بھی نہ کرتا تو جسم اور روح کا رشتہ کیسے برقرار رہتا۔اس کے دو معصوم بچے بھی تھے جو اب دو وقت کی روٹی کے بھی محتاج تھے۔ہسپتال میں حبیب کو آئے دو ہفتے بیت چکے تھے۔ڈاکٹروں کو اب اس کی بہتر ی کی کا فی اُمید نظر آنے لگی تھی۔ بظاہر اب اس کی حالت اب ویسی نہ تھی جیسے دو ہفتے پہلے سے اب بہت بہتر تھا۔ایک سہ پہر اس کو اچانک کھانسی کا شدید دورہ پڑا اس کے ساتھ ہی اُسے ایک خون آلود قہہ آئی۔اس کی حالت خراب ہو نے لگی۔ ڈیوٹی پہ معمور وارڈ نرس نے ڈاکٹر کو بلایا اس کا سا نس اکھڑ رہا تھا۔ اس کی سانس کی بحالی کی پوری کوشش کی گئی۔ڈاکٹروں اور نرسوں کی آنکھیں سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی جا نب دیکھنے لگے ان نظر وں میں ہی جواب تھا۔۔۔۔۔۔سوری۔۔۔
گاؤں مں اس قابل ہونہار نوجوان کی لاش پہنچنے پہ کہرام مچ گیا ہر کوئی اشکبار تھا۔ چوہدری صاحب نے کفن دفن کا بندوبست کرایا۔ لواحقین کی خوب داد رسی کی۔کیونکہ وہ سب کے ہمدرد تھے۔۔۔۔اللہ دتہ کئی روز تک بھوکا پیاسا روتا رہا بھائی کی قبر سے نہ ہلا مگر۔۔۔زندگی بہت کچھ کرنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ عالیہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو اس نے بہت آہ زاری کی اس کے ساتھ ہونے والے سلوک کا ذمہ دار باپ کو ٹھہرا اس راز کو فاش کر دیا جس نے کئی زندگیاں اُجاڑی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن چوہدری انا پرست تھا کیوں کہ وہ با اختیار تھا عالیہ کی محبت یک طرفہ تھی اس بات کو جاننے کے باوجود اس کی انا کی تسکین ابھی نہ ہوئی تھی۔
چند ماہ بعد ہی چوہدری نے قرض کی واپسی کا تقاضا شروع کر دیا۔ اللہ دتہ تو دو وقت کی روٹی کا محتاج تھا وہ قرض کی واپسی کو اتنا جلدی رقم واپس کر نا اس کے بس میں نہ تھا۔ چوہدری نے چند ماہ کے انتظار کے بعد قرض کے بدلے اللہ دتہ کا گھر بھی کے لیا اُس کو رہنے کے لئے ڈیرے پہ جانور باندھنے والے کمروں سے متصل ایک کمرہ رہنے کے لئے دیا تاکہ وہ اس کی ملازمت بھی کرتے رہیں۔

Sadat Hasan Manto: Life and Work

Articles

سعادت حسن منٹو: حیات اور خدمات

ڈاکٹر قمر صدیقی

سعادت منٹو کی ولادت لدھیانہ کے سبرمالہ ضلع کے پاپرودی گاؤں میں 11/مئی1912 میں ہوئی۔ والد کانام میاں غلام حسن تھا جو حکومت پنجاب کے محکمہئ انصاف میں سب جج کے عہدے پر فائز تھے۔ منٹو کی والدہ سردار بیگم، میاں غلام حسن کی دوسری بیوی تھیں۔ منٹو کومیٹرک کا امتحان مسلم ہائی اسکول، امرتسر سے پاس کرنے میں چار برس لگ گئے۔ تین بار فیل ہوئے اور آخر کار1931 میں یہ امتحان درجہ سوم میں پاس کیا۔ اردو کے مضمون میں برابر فیل ہوتے رہے تھے، چوتھی بار میٹرک تو پاس ہوگئے لیکن اردو کے مضمون میں فیل ہی رہے۔ انٹر کے طالبِ علم کی حیثیت سے پہلے ہندو سبھا کالج امرتسر میں داخلہ لیا اور اُس کے بعد ایم اے او کالج، امرتسر چلے گئے۔ انٹر تو نہ کرسکے البتہ1935میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچ گئے۔ لیکن تپ دق کا مریض ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی حکام نے انھیں کیمپس کے حدود میں رہنے سے منع کردیا۔ منٹو ایک بار پھر امرتسر واپس آگئے اور غازی عبد الرحمن کے اخبار ”مساوات“ میں مترجم کی حیثیت سے نوکری کرلی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب منٹو نے عبدالباری علیگ کی حوصلہ افزائی کے طفیل 1933میں وکٹر ہیگو کے ناول The Last Days of Condemnکا ترجمہ ”سرگزشتِ اسیر“ کے نام سے اور آسکر وائلڈ کے ایک ڈرامے کا حسن عباس کے اشتراک سے ”ویرا“ کے عنوان سے کیا۔ منٹو کے تراجم اردو میں مقبول ہوئے اور انھوں نے ایک طرح سے راتوں رات شہرت حاصل کرلی۔ اِس شہرت سے منٹو کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بطور اسکرپٹ ایڈیٹر ملازم ہوگئے۔ اسی شہرت کے چلتے انھیں منورنجن پکچرز کی فلم ”بنجارہ“ لکھنے کا موقع بھی ملا۔ تاہم فلم مکمل ہونے سے پہلے ہی یہ ادارہ بند ہوگیا اور فلموں میں لکھنے کا شوق منٹوکو ممبئی لے آیا۔ ممبئی کی فلم نگری کو شروع میں بطور فلم رائٹر منٹو کچھ زیادہ متاثر نہ کرسکے لہٰذا وہ ہفتہ وار فلمی اخبار ”مصور“ سے بطور ایڈیٹر منسلک ہوگئے۔اسی ہفتہ وار اخبار سے منسلک رہتے ہوئے منٹو نے دھواں، کالی شلوار، بو، کھول دواور ٹھندا گوشت جیسے افسانے تحریر کیے۔ ان افسانوں میں فحش نگاری کو بنیاد بناکر انجمن ترقی پسند مصنفین نے منٹو کو انجمن سے بے دخل کردیااور حکومت نے بھی منٹو پر مقدمے قائم کیے۔ مئی1938میں منٹو کا نکاح کشمیری خاندان کی ایک سادہ سی لڑکی صفیہ سے ہوا۔ شادی کے بعد منٹو ’سنے ٹون فلم کمپنی‘ سے منسلک ہوگئے اور اس کمپنی کے لیے انھوں نے فلم ’اپنی نگریا‘ لکھی۔ یہ فلم 1940 میں ریلیز ہوئی۔ فلم سوپر ہٹ ہوئی اور منٹو کی مالی مشکلات کچھ دنوں کے لیے حل ہوگئیں۔ ابھی فلم انڈسٹری میں منٹو کے قدم جم ہی رہے تھے کہ وہ جنوری 1948 میں لاہور ہجرت کرگئے۔ ایک بارپھر اُن کی معاشی حالت ڈانواں ڈول ہوگئی۔ اُن کا قلم رواں رہا لیکن معاشی مسائل تھے کہ الجھتے گئے۔ اِس پر مزید ستم یہ کہ اُن کی مخصوص سنک اور شراب کی لت نے انھیں کہیں کا نہ رکھا۔دو بار ذہنی امراض کے شفا خانے میں بھی داخل ہونا پڑا۔ معاشی اور ذہنی پریشانیوں نے ازدواجی زندگی پر بھی تلخ اثرات مرتب کیے تاہم اُن کی صابر و شاکر بیوی صفیہ نے ان تمام تلخیوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ آخری وقت میں منٹو کو اپنی بیوی کی اِس عظمت کا احساس ہوا اور 18/ جنوری1955کو مرتے وقت منٹو نے اُن سے کہا: ”اب یہ ذلت ختم ہوجانی چاہیے۔“ منٹو نے اپنا ادبی سفر وکٹر ہگو، اوسکر وائلڈ، چیکوف اور میکسم گورکی کی تخلیقات کے تراجم سے شروع کیا۔منٹو کاپہلا مطبوعہ افسانہ ”تماشا“ تھا جو ہفت روزہ ”خلق“ امرتسر میں 1933 میں شائع ہوا۔ جلیانوالہ باغ کے پس منظر میں لکھے گئے اس افسانے کو منٹو نے ’ابنِ آدم‘ کے قلمی نام سے لکھا تھا۔ منٹو کی ابتدائی تخلیقات پر ترقی پسندرویے اور رجحانات کے اثرات نمایاں ہیں۔ انھوں نے سماجی حقیقت پسندی اور کمیونزم کے اثرات بھی قبول کیے۔منٹو نے انسانی نفسیات اورتقسیم کے بعد گرتی ہوئی قدروں کو اپنا موضوع بنایا۔ کہیں کہیں پر منٹو نے انسانی زندگی کے معاشی مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔غرض کہ انسانی وجود اور بقا کا شاید ہی کوئی ایسا جزو رہا ہو گا جسے منٹو کے نوکِ قلم نے نہ چھوا ہو۔ انھوں نے طوائفوں کے حالات تحریر کرتے ہوئے جنسی غلامی کے موضوع کو لافانی بنا دیا۔منٹوکو اپنی بصیرت اور بصارت دونوں کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سعادت حسن منٹو کے بیش تر افسانے تھیم پر مبنی ہیں۔منٹوکا افسانوی عمل کسی سماجی یا ادبی گروہ کا حلیف بننے سے انکار کرتا اورایک نیااور منفرد تھیم تخلیق کرتا ہے۔اس امر کی ایک عمدہ مثال ان کا افسانہ جانکی ہے۔واحد متکلم کے ”نقطہئ نظر“میں لکھے گئے اس افسانے کا موضوع ”عورت کی محبت“ ہے اور تھیم یہ ہے:”عورت ایک آزاد و خود مختار وجود ہے۔وہ محبت کے فیصلے آزادانہ طور پر کرتی ہے اور اپنی ہر محبت میں پر خلوص ہوتی ہے۔“ واضح رہے کہ موضوع اور تھیم میں فرق ہوتا ہے اور اس فرق کا لحاظ اکثر نہیں رکھا گیا۔کسی افسانے کا موضوع ایک عام سچائی،رویہ،قدر،مسئلہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔اس لیے موضوع سے کسی افسانے کے امتیاز کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔اس کے مقابلے میں تھیم کے ذریعے اس امتیاز کی طرف اشارہ ممکن ہے۔لہٰذا افسانے میں موضوع ”عام“ ہے،جبکہ تھیم خاص۔یہ دوسری بات ہے کہ ہر خاص تھیم میں ایک عمومی صداقت یا اصول بننے کا امکان ہوتا ہے۔افسانہ جانکی کے علاوہ بھی منٹو کے بیشتر افسانے اِس رجحان کے حامل نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر افسانہ ’ہتک‘ کا موضوع جسم فروشی جیسی لعنت پر طنز ہے جبکہ اِس کا تھیم عورت کی عظمت ہے۔ اس تعلق سے پروفیسر گوپی چند نارنگ نے تحریر کیا ہے کہ: ”جو چیز منٹو کے تخلیقی ذہن میں اضطراب پیدا کرتی ہے۔ وہ خریدی اور بیچی جاسکنے والی جنس نہیں بلکہ انسانی روح کا وہ درد و کرب ہے جو جسم کو بکاؤ مال بنانے سے پیدا ہوتا ہے یعنی انسانی عظمت کا سودا اور بے بسی اور بے چارگی کا گھاؤ جو وجود کو کھوکھلا اور زندگی کو لغو بنا دیتا ہے۔ مال کے دام تو لگائے جا سکتے ہیں لیکن انسانی روح کی عظمت کے دام نہیں لگائے جا سکتے۔“(جدیدیت کے بعد:منٹو کی نئی قرأت۔ از: پروفیسرگوپی چند نارنگ۔ص ۰۱۳۔) منٹو کے افسانوں میں انسانی نفسیات کا گہرا شعور نظر آتا ہے۔انسانی زندگی کی صورتحال اور فطرت نگاری کے علاوہ ان کے یہاں جو ایک اور اہم موضوع ملتا ہے وہ سماجی اور معاشی ناہمواری کی کوکھ سے جنم لینے والے مسائل ہیں۔ یہ مسائل انسانی دکھوں اور آشوب کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ اس کے علاوہ جنسی ناآسودگی بھی منٹو کا من پسند موضوع ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جو ہولناک فسادات کی کہانیاں منظرعام پر آئیں وہ بھی منٹو کے افسانوں میں جا بجا ملتی ہیں۔ منٹو براہ راست ابلاغ میں یقین رکھتے تھے اور حقیقت پسندانہ اسلوب نگارش ان کے افسانوں کا طرہئ امتیاز ہے۔لیکن وہ موپساں کی طرح انسانوں کی بے بسی اور بے کسی پر خاموشی سے ماتم کناں نہیں ہوتے بلکہ مروجہ سماجی اور معاشی نظام کے جسم پر بڑی سفاکی سے تنقید اور طنز کے کوڑے برساتے نظر آتے ہیں۔ان کے اکثر افسانوں کا کلائمکس بھی بہت حیران کن ہوتا ہے اور قاری کوبہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں اْ ن کے بے مثال افسانے ٹھنڈا گوشت،کالی شلوار، دھْواں، ’جانکی ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، نیا قانون، بابو گوپی ناتھ اور ”بو“ وغیرہ نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اردو کے افسانوی منظر نامے کو مسلسل متاثر کررہے ہیں۔ منٹواردو کے ایک رجحان ساز نہیں بلکہ تاریخ ساز افسانہ نگار ہیں۔

Prem Chand: Life and Work

Articles

پریم چند : حیات اور خدمات

ڈاکٹر قمر صدیقی

پریم چند کا خاندانی نام دھنپت رائے تھا۔31/ جولائی1880کو اترپردیش کے مردم خیز شہر بنارس سے چار پانچ میل دورایک چھوٹے سے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ احباب خانہ انھیں پیار سے نواب رائے کے نام سے پکارتے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے اسی نام سے کچھ تحریریں بھی قلمبند کیں۔ منشی پریم چند کے والد منشی عجائب لال ڈاکخانے میں ملازم تھے۔ پریم چند کی ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی۔ اردو اور فارسی پڑھنے کے بعد انٹرنس کا امتحان پاس کرکے پرائمری اسکول میں ٹیچر ہوگئے۔ چونکہ پریم چند کو تعلیم کا شوق تھا لہٰذا تعلیم کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دیا اور ترقی کرتے کرتے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی۔ پریم چند کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔1902میں ٹریننگ کے لیے الہ آباد کے ایک کالج میں داخل ہوئے تو ان کی طبیعت ناول نگاری کی طرف ملتفت ہوئی۔ یہیں انھوں نے اپنا پہلا ناول ”اسرارِ معبد“ کے نام سے لکھنا شروع کیا جس کی کچھ قسطیں بنارس کے ایک رسالے میں شائع ہوئیں۔ اسی زمانے میں پریم چند نے رسالہ ”زمانہ“کانپور کے لیے پابندی سے افسانے اور مضامین بھی لکھنے شروع کیے۔ 1908 میں ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”سوزِ وطن“ کے نام سے شائع ہوا۔چونکہ اس مجموعہ میں شامل مشمولات حب وطن اور آزادی کے جذبات سے مملو تھے۔ لہٰذا انگریز حکومت سے اسے ضبط کرکے نذرِ آتش کردیا۔”سوزِ وطن“ تک کی بیشتر تحریریں پریم چند نے نواب رائے قلمی نام سے تحریر کی تھیں۔ انگریزوں کے معاندانہ رویہ کے پیش نظر منشی دیا نرائن نگم کے مشورے پرانھوں نے پریم چند کے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا اور اسی نام سے مقبول ہوئے۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ اردو افسانے کو ابتدائی دور میں ہی کچھ ایسے افسانہ نگار مل گئے جو ایک دوسرے سے قطعی مختلف مزاج رکھتے تھے۔ پریم چند ایک رجحان کی ترویج کر رہے تھے، راشد الخیری دوسرے اورسجاد حید ر تیسرے نظریے و رجحان کے علمبردار تھے۔ لیکن پریم چند کی مقصدیت راشد الخیری کی اصلاح پسندی اور یلدرم کی رومانیت پر بازی لے گئی۔مقصدیت اور اصلاح کے پہلو نے پریم چند کے فن کو اتنا غیر معمولی بنادیا کہ وہ اردو افسانے کے سچے بنیاد گزار تسلیم کیے گئے۔ راشد الخیری اور سجاد حیدریلدرم کے رجحانات کی نیاز فتح پوری، مجنوں گوکھپوری، مہدی الافادی اور قاضی عبدالغفار کے بعد کوئی خاص تقلید نہ ہوئی۔ جبکہ پریم چند کی مقصدیت کا سدرشن، علی عباس حسینی، اعظم کریوی وغیرہ نے تتبع کیا اور ان بعد کے افسانہ نگاروں نے اس روایت کو مزید آگے بڑھانے میں معاونت کی۔اسی لیے سمجھا جانے لگا کہ پریم چند اردو افسانے کے موجد ہیں۔ لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ مختصر افسانے کی ابتداکا سہرا توراشد الخیری اور سجاد حیدر یلدرم کے سر ہی بندھے گا۔ البتہ فنی اعتبار سے پریم چند راشد الخیری پر سبقت لے گئے ہیں۔ پریم چند کی افسانہ نگاری پر غور کیا جائے تو بتدریج ارتقانظر آتا ہے۔ ان کے پہلے افسانوی مجموعے ”سوز وطن“ سے لے کر آخری دور کے مجموعوں ”واردات“ اور ”زادراہ“ کے افسانوں میں واضح فرق ہے۔ لہٰذا ان کی فسانہ نگاری کے مختلف رویوں اور رجحان کے مطالعہ کے لیے اسے تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلا دور1909 سے لے کر1920کے عرصہ پر محیط ہے۔ دوسرا دور1920 سے1932تک اور تیسرا دور جو نسبتاً مختصر دور ہے یعنی1932ء سے1936تک ان کی زندگی کے آخری چار سال کا احاطہ کرتا ہے۔ پہلے دور کے ابتدائی برسوں میں داستانوی اور رومانی رنگ غالب ہے۔ جذبہ حب الوطنی سے سرشار پریم چند کا پہلا افسانوی مجموعہ ”سوز وطن“ زمانہ پریس کانپور سے شائع ہوا تھا۔ جسے انگریز سرکارکے عتاب کا شکار ہونا پڑا۔اس کے بعد وہ تاریخ نگاری اور اصلاح ِمعاشرہ کی جانب متوجہ ہوئے۔ اس وقت تک پریم چند کے افسانوں میں فنی اور تکنیکی پختگی نہیں آئی تھی اور ان کی تحریروں میں داستانوی اسلوب غالب نظر آتا ہے۔1909 سے1920تک پریم چند ”مہوبا“ کے مقام پر ڈپٹی انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ جہاں کے کھنڈرات نے شایدانہیں ہندوؤں کی عظمت ِ رفتہ کی یاد دلائی۔ غالباً اسی لیے انھوں نے سوچا ہوگا کہ حالیؔ کی طرح انہیں اپنے افسانوں کے ذریعہ ہندوقوم کی ماضی کی شان و شوکت اجاگرکرنا چاہیے۔ چنانچہ ”رانی سارندھا“1911 میں اور1912میں ”راجہ ہردول“ اور ”آلھا“ جیسے افسانے اسی جذبے کے تحت لکھے گئے۔ ان تاریخی اور نیم تاریخی افسانوں کے بعد اپنے دوسرے دور میں پریم چند نے قومی اور معاشرتی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ انھوں نے ہندو معاشرے کی قبیح رسوم پر قلم اٹھایا اور بیوہ عورت کے مسائل، بے جوڑ شادی، جہیز کی لعنت اور چھوت چھات جیسے موضوعات پر افسانے لکھے۔افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند سیاست سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔ یہ دور برصغیر میں تحریکوں کا دور تھا۔ تحریک ِ خلافت، تحریک عدم تعاون، ستیہ گرہ، سول نافرمانی وغیرہ۔ برصغیر کے تمام باشندے ملک کی آزادی کے لیے پرجوش تھے۔ پریم چند نے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے قلم کے ذریعہ اس مہم میں شرکت کا ارادہ کیا اور سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ وہ اگرچہ کوئی سیاسی آدمی نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے باقاعدہ طور پر سیاست میں حصہ لیا۔ لیکن شاید وہ سماجی موضوعات کے ساتھ ساتھ سیاسی موضوعات پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے سرکاری ملازمت کا جو اگلے سے اتار پھینکا۔ اس دور کے افسانوں میں سیاست کا رنگ قدرے واضح طور پر جھلکتا ہے۔ افسانہ نگاری کے دوسرے دور میں پریم چند نے دیہی زندگی کی طرف بھی توجہ دی اور انھوں نے دیہاتی زندگی کے مسائل کواپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ ”پوس کی رات“،”سواسیر گہیوں“ اور دیگر افسانے کسانوں کی غربت و افلاس کی عکاسی کرتے ہیں۔پریم چند کے افسانوں کا آخری دور مختصر عرصے پرمحیط ہے لیکن یہی دور ان کے نظریات کی پختگی اور ترویج کا دور بھی ہے۔ اس دور کے افسانوں کے موضوعات بھی سیاسی زندگی سے متعلق ہیں۔ لیکن فن اور معیار کے اعتبار سے پچھلے دونوں ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہیں۔”سوز وطن“ کے افسانوں کے بعد پریم چند کے قلم سے حج اکبر،بوڑھی کاکی، دو بیل، نئی بیوی اور زادِ راہ جیسے افسانے تخلیق ہوئے اور پھر ان کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ”کفن“جیسا افسانہ لکھ کر انہوں نے دنیائے ادب میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ آخری دور کے افسانوں میں پریم چند ایک عظیم افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں۔ اس دور کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود آفاقی کہلانے کے مستحق قرار دئیے جا سکتے ہیں۔کیونکہ اب ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں جو اچھے اور معیاری افسانوں کا خاصہ سمجھی جاتی ہیں۔

Sajjad Haider Yaldaram : Life and Work

Articles

سجاد حیدر یلدرم : حیات اور کارنامے

ڈاکٹر قمر صدیقی

سجاد حیدر یلدرم 1880میں بنارس میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد سیّد جلال الدین حیدر مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ یلدرم کا خاندان پڑھا لکھا اور لبرل خاندان تھا۔ آبائی وطن قصبہ نہٹور، ضلع بجنور، اتر پردیش تھا۔ ۷۵۸۱ء کی جنگِ آزادی میں یلدرم کے دادا امیر احمد علی نے بھی انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا۔ لہٰذا اس کی پاداش میں جاگیریں ضبط ہوئیں اور خاندان کی نئی نسل کو انگریزی پڑھنی اور سرکاری ملازمتیں کرنی پڑیں۔ان کے اہل خاندان سرکاری ملازمتوں میں اچھے عہدوں پر فائز رہے۔ یلدرم اور ان کے بھائیوں نے ابتدائی تعلیم بنارس ہی میں حاصل کی۔ بعد میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اے۔ایم۔او کالج،علی گڑھ میں داخل کیے گئے۔1901میں یلدرم نے بی۔اے کیا اور پورے صوبے میں سیکنڈ آئے۱؎۔ یلدرم نے علی گڑھ میں بڑی بھرپور زندگی گزاری۔ یونین کے سکریٹری اور صدر بھی رہے۔ مولانا محمد علی اور مولانا حسرت موہانی ان کے کلاس فیلو تھے۔علی گڑھ کالج کے زمانے میں انھوں نے حسرت موہانی پر ایک نظم ”مرزا پھویا“ لکھی تھی۔ اس زمانے میں علی گڑھ کی علمی رفعت قابل رشک تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ روزگار اساتذہ علی گڑھ کالج سے منسلک تھے۔ قرۃ العین حیدر نے اس تعلق سے لکھا ہے: ”علی گڑھ ان دنوں گویا آکسفورڈ کا ماڈل بنا ہوا تھا۔ تھیوڈر بک پرنسپل تھے۔ آرنلڈ اور نکلسن انگریزی کے استاد تھے۔ پروفیسر چکرورتی اور ڈاکٹر ضیا الدین ریاضی پڑھاتے تھے۔ مولوی عباس حسین عربی کے استاد تھے اور مولانا شبلی فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ یلدرم فارسی میں بہت اچھے تھے لہٰذا شبلیؔ کے پسندیدہ شاگردوں میں تھے۔“ (”خیالستان“‘ مرتب: ڈاکٹر سیّد معین الرحمن۔ ص: ۱۵۲) زمانہئ طالب علمی سے ہی یلدرم کو ترکی سے ذہنی لگاؤ تھا۔ حاجی اسمعٰیل خان رئیس دتاولی جنھیں اردو اور ترکی زبان کا اچھا ذوق تھا۔ان کی صحبت میں یلدرم نے ترکی زبان میں مہارت بہم پہنچائی۔ بی۔ اے کے بعد ایل۔ایل۔ بی کررہے تھے کہ اس درمیان برطانوی فارن آفس نے علی گڑھ کے پرنسپل کو بغداد کے قونصل خانے کے لیے ترکی زبان کا ترجمان مہیا کرانے کے لیے لکھا۔ کسی پروفیسر نے یلدرم سے اس کا ذکر کیا۔ انھوں نے درخواست دی اور تقرر ہوگیا۔ بغداد میں یلدرم کا قیام کئی سال رہا۔ بالآخر ان کا جی بھر گیا اوروہ چھٹی لے کرہندوستان آگئے۔ ہندوستان واپس آجانے کے بعد پھر بغداد جانے کی خواہش نہ ہوئی۔ لہٰذا حکومت نے ان کاتقرر اس زمانے میں کابل کے معزول شدہ امیر یعقوب علی خان کے پولیٹیکل افسر کے طور پر کردیا۔امیر یعقوب کا قیام اُن دنوں مسوری میں تھا۔ امیر کابل کے انتقال کے بعد یلدرم کی خدمات یو۔پی سول سروس میں منتقل کردی گئیں۔ 1920میں ایم۔اے۔او، کالج (علی گڑھ) کو یونیورسٹی کا درجہ ملا۔ اس وقت مسلم یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار کی حیثیت سے اُن کی خدمات حاصل کی گئیں۔1929 میں وہ دوبارہ یو۔پی سول سروس میں واپس آگئے۔ دوران ملازمت انڈومان و نکوبار جزائر میں تبادلہ ہوا اور غازی پور اور اٹاوے میں بھی تعینات ہوئے۔1935 میں خرابیِ صحت کی وجہ سے وقت سے پہلے ریٹائر منٹ لے لیا۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے کہ یلدرم کو ترکی زبان و ادب سے علی گڑھ کالج کے زمانے سے ہی دلچسپی تھی۔ بغداد کے زمانہئ قیام میں ان کی اس دلچسپی کو اور جلا ملی۔1902 میں انھوں نے احمد حکمت کے ایک ناول ”ثالث بالخیر“ کا ترجمہ کیا۔اس وقت یلدرم کا نوجوانی کا زمانہ تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ”مخزن“ میں لکھنا شروع کیا۔ یلدرم کے افسانوی رجحان میں جس طرح کی رومانیت کا غلبہ تھا وہ بڑی حد تک مغربی اور ترکی رومانیت تھی۔ یلدرم سے پہلے اردو فکشن میں عورت کاکردار بہت نمایاں اور روشن نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے ایک ایسے رجحان کو متعارف کرانے کی کوشش کی جس میں رتن ناتھ سرشار کی سپہر آرا محض چلمن سے جھانکتی نظر نہ آئے بلکہ وہ مردوں کے دوش بدوش ان کے ہمراہ چل سکے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے نسوانی کرداروں کو لکھنؤ اور دلی کی حویلیوں کی چار دیواری سے نکال کر بمبئی کے ساحل پر کھلی ہوا میں سانس لینے کی ادا سکھائی۔ بغداد کے بعد یلدرم کا تبادلہ قسطنطنیہ کے برطانوی سفارت خانے میں ہوا۔ یہاں وہ ترکی ادب میں پیدا ہونے والی نئی تحریکوں سے متعارف ہوئے اور ینگ ترک پارٹی کے ساتھ منسلک ہوکر انقلاب میں عملی حصہ بھی لیا۔ اس ضمن میں قرۃ العین حیدر نے تحریر کیا ہے: ”یلدرم کی یہ انقلاب پرستی رومانیت کے جذبے کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی تھی۔ انھوں نے بہت بڑا خطرہ مول لے کر ینگ ترک پارٹی کے ساتھ کام کیا۔ پھر لطف یہ کہ بعد میں ساری عمر کبھی بھولے سے اس کا ذکر نہ کیا۔ میرے خیال میں اُن کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سنسنی خیز شہرت حاصل کرنے کے لیے بعد میں ہمیشہ کے واسطے لیڈر قوم اور غازی وغیرہ بن جاتا۔“ (”خیالستان“‘ مرتب: ڈاکٹر سیّد معین الرحمن۔ ص: ۹۵۲) یلدرم کی شادی ۲۱۹۱ء میں نذرِ زہرا بیگم (نذرِ سجاد) سے ہوئی۔ نذرِ زہرا بیگم اپنے زمانے کی معروف قلمکار تھیں۔۸۰۹۱ء میں بچوں کے مشہور اخبار ”پھول“ کی ایڈیٹر رہیں۔ یہ رسالہ شمس العلما ممتاز علی کے ”دار الاشاعت پنجاب“ لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ان کا مشہور ناول ”اخترالنسا بیگم“ 1910میں شائع ہو چکا تھا جب ان کی عمر صرف سولہ سال تھی۔شادی سے قبل ہی ان کی تحریریں ’نیرنگِ خیال‘، ’زمانہ‘، ’تمدن‘، ’ادیب‘، ’انقلاب‘ اور ’الناظر‘ جیسے رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ 1935 میں یلدرم حج بیت اللہ کی سعادت سے سرفراز ہوئے۔1938میں بیمار ہوئے۔ ان کی آنکھ کے عین اوپر کاربنکل نکلا تھا۔ ان کے چھوٹے بھائی نے آپریشن کیا جو اپنے زمانے میں مشہور ڈاکٹر تھے۔ آپریشن کامیاب رہا لیکن صحت کمزور ہوتی جارہی تھی۔ کمزوری اور نقاہت کے باوجود ہر مصروفیت کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے تھے۔ بالآخر6/ اپریل1943ء کو رات دو بجے حرکتِ قلب بند ہوجانے سے انتقال ہوا۔ انتقال سے قبل تک وہ علمی و ادبی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ لکھنؤ کے عیش باغ کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ سجاد حیدر یلدرم نے اپنی تحریروں کے ذریعے جس نوع کے رجحان کو فروغ دینے کی کوشش کی اس میں عورتوں کی تعلیم اور مساوات کو اولیت حاصل ہے۔ اس تعلق سے انھوں نے نہ صرف قلمی بلکہ عملی سطح پر بھی اقدامات کیے۔ خود اپنے خاندان کی بے شمار لڑکیوں کی خاطر یونیورسٹیوں کی اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حصول کے لیے اس زمانے میں کوشاں رہے جب مسلمان لڑکیوں کو اسکول بھیجنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ افسانہ نگاری کے حوالے سے یلدرم اردو زبان میں ایک نئے اور دلنواز اسلوبِ بیان کے موجد تھے۔ان کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ”خیالستان“ یلدرم کی رومانیت اور تخیل کا بہترین عکس ہے۔ خیالستان میں انشائیے، تراجم اور مختصر افسانے شامل ہیں۔ گویا صنف نثر کی تین اصناف کے مجموعہ کا نام ”خیالستان“ ہے۔ ان شہ پاروں میں کچھ ترکی ادب سے اخذ و ترجمہ ہیں اور بعض طبع زاد ہیں۔ ان میں سجاد حیدر یلدرم کا رومانی انداز فکرو بیان جادو جگا رہا ہے۔یلدرم علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور تہذیب یافتہ تھے۔ ان کی ادبی زندگی علی گڑھ سے پیدا ہوئی۔ انہیں سرسید اور علی گڑھ سے بے حد عقیدت اور غایت درجہ انس تھا۔ مگر اس کے باوجود یلدرم نے اپنی افسانوی تحریروں میں اس تحریک کی خشک حقیقت پسند ی اور بے نمکی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ اس مقصد کے لیے یلدرم کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے افسانے کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کریں جو دلچسپ بھی ہو اور زندگی کے ساتھ اس کا گہرا رابطہ بھی ہو۔ محض خیال اور خواب کی دنیا نہ ہو بلکہ اس میں اپنے عہد کی جھلک نظرآئے۔ اس مقصد کے پیش نظر یلدرم نے بطور خاص محبت اور عورت کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔چونکہ عورت، مرد کی بہترین رفیق ہے اس لیے یلدرم کے نزدیک اس کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو بہترین رفیق کے لیے موزوں اور مناسب ہے۔ یلدرم اس بات کے بھی قائل تھے کہ عورت کے بغیر مرد کی زندگی ادھوری اور نامکمل ہے۔عورت یلدر م کے ہاں عیاشی اور گناہ کا مظہر نہیں، لطافت اور زندگی کی صحت مند تصور کی علامت ہے۔٭٭٭ ۱؎ یہ بیان قرۃ العین حیدر کا ہے۔ مشمولہ ”خیالستان“ ص: ۸۴۲۔ مرتب: ڈاکٹر سیّد معین الرحمن۔ قرۃ العین حیدر کے اس بیان پر مرتب نے فٹ نوٹ لگاکر مشتاق احمد زاہدی کا بیان نقل کیا ہے کہ یلدرم تمام الہ آباد یونیورسٹی میں چوتھے نمبر تھے۔ اس زمانے میں علی گڑھ کالج الہ آباد یونیورسٹی سے منسلک تھا۔

Life and Work of Rashidul Khairi

Articles

راشد الخیری : حیات اور کارنامے

ڈاکٹر قمر صدیقی

راشد الخیری جنوری ۸۶۸۱ء میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حافظ عبد الواحد اور دادا کانام مولانا عبد القادر تھا۔ والدہ کا نام امیر بیگم بی بی رشید الزمانی تھا۔ یہ نواب فضل رسول خاں کی بیٹی تھیں۔ دادیہال کی طرف سے راشد الخیری کا خاندان علما و مشائخ میں شمار ہوتا تھا اور ننھیال کی طرف سے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر سے رشتہ داری تھی۔ گویا ایں خانہ تمام آفتاب است۔ راشد الخیری کے والد حافظ عبد الواجد خاندان کے پہلے شخص تھے جنھوں نے خاندانی روایت سے انحراف کرکے انگریزی تعلیم حاصل کی اور سرکاری ملازمت کی۔البتہ ملازمت کبھی جم کر نہ کرسکے۔ آخری ملازمت نواب آف حیدرآباد کی تھی جہاں وہ بندوبست کے مہتمم کے عہدے پر فائز تھے۔ راشد الخیری کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں۔ تاہم انھں تاریخی واقعات، بادشاہوں کے حالات، سبق آموز کہانیاں اور اردو اشعار خوب یاد تھے۔ وہ گاہے بہ گاہے ان اشعار و واقعات کو راشد الخیری کو سناتی تھیں۔ اس طرح بچپن ہی سے گھریلو تربیت کے باعث خوفِ خدا اور عظمتِ رسولؐ کا نقش دل پر ایسا بیٹھا کہ ساری زندگی جاہلانہ و باطلانہ نظریات اور رسم و رواج کے خلاف جہاد بالقلم کرتے رہے۔ راشد الخیری کی ابتدائی تعلیم ان کے دادا مولانا عبد القادر کی نگرانی میں ہوئی۔ چونکہ ان کے والد بہ سلسلہ ملازمت باہر رہتے تھے اس لیے راشد الخیری کی تربیت کی ساری ذمہ داری ان کے دادا نے ادا کی۔ قرآن کریم اپنی دادی بڑی استانی کی نگرانی میں مکمل کی اور فارسی کی تعلیم بھی گھر پر ہی ہوئی۔ بعد ازاں دلی کے عربک اسکول میں داخل ہوئے لیکن انگریزی کے علاوہ کسی مضمون میں دلچسپی نہ تھی لہٰذا اسکول سے اکثر غائب رہنے لگے۔ اسکول میں اساتذہ کا بہت احترام کرتے تھے۔ اردو فارسی کے استاد خواجہ الطاف حسین حالی تھے۔ وہ راشد الخیری کی علمی لیاقت سے بہت خوش تھے۔ حالی کے علاوہ اسکول کے ہیڈ ماسٹر خواجہ شہاب الدین اور انگریزی کے استاد مرزا احمد بیگ بھی ان سے خوش تھے۔ اس کے باوجود اسکول میں ان کا جی نہ لگتا تھا۔ گھر کے تمام بزرگوں کی تاکید اور دباؤ کے باوجود نویں جماعت سے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ یہ صورت حال تمام اہل خانہ کے لیے تشویس ناک تھی۔ باب اور دادا کا انتقال ہوچکا تھا لہٰذا ان کی دادی اور والدہ ان حالات کے مدنظر بہت پریشان ہوئیں۔ اس دوران ڈپٹی نذیر احمد جو کہ راشدالخیری کے پھوپھا تھے حیدآباد (دکن) سے دہلی آئے۔ راشدلخیری کی دادی نے راشد الخیری کو ان کی نگرانی میں دے دیا۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انھیں پڑھنے لکھنے کا سلیقہ سکھایا۔جب ڈپٹی نذیر احمدحیدر آبادجانے لگے تو انھوں نے راشد الخیری کے چچا خان بہادر ڈپٹی عبد الحامد کو خط لکھ اپنے پاس بلانے کی سفارش کی۔ ان کے چچا ان دنوں اورئی(یو پی) میں ملازم تھے۔ انھوں نے راشد الخیری کو وہاں بلا لیا اور ان کا داخلہ گورنمنٹ اسکول میں کرادیا۔لیکن یہاں بھی ان کا دل اسکول میں نہ لگا۔ کچھ دنوں بعد چچا کا تبادلہ اناؤ ہوگیا اور وہ چچا کے ساتھ اناؤ چلے گئے۔ اس طرح ان کا باقاعدہ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوگیا۔اس کے بعد انھوں نے جو صلاحیت اور لیاقت حاصل کی وہ ذاتی مطالعہ کی بنیاد پر کی۔ راشد الخیری کی بہن زاہدہ بیگم کی شادی کے بعد ان کی والدہ کو راشد الخیری کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی۔ ان کی والدہ نے اپنے پڑوسی عبد الرحیم کی بیوہ کی بیٹی فاطمہ خانم سے ان کی شادی طے کردی۔ ۵/ جنوری ۰۹۸۱ء کو حافظ سیّد محمد، امام جامع مسجد نے نکاح پڑھایا۔ راشد الخیری کی چار اولادیں راشدہ بیگم، رازق الخیری، واجدہ بیگم اور صادق الخیری نے لمبی حیات پائی البتہ ایک بیٹا عبد الخالق اٹھارہ سال کی عمر میں بیماری کی وجہ سے انتقال کرگیا۔ راشدہ بیگم سب سے بڑی تھیں اور والد سے قریب بھی۔ ۵۱۹۱ء میں ان کی شادی عبد الغفور سے ہوئی۔ رازق الخیری ان کے بعد تھے۔ بی۔اے تک تعلیم حاصل کی۔ ۳۲۹۱ء میں ان کی شادی خاتون اکرم سے ہوئی جو نئی نسل کی معروف ادیبہ تھیں۔ لیکن دوسال بعد ہی خاتون اکرم کا انتقال ہوگیا۔ دوسری شادی ۹۲۹۱ء میں آمنہ نازلی سے ہوئی۔رازق الخیری نے راشد الخیری کی زندگی میں ہی عصمت، بنات اور جوہرِ نسواں کی ادارت کی ذمہ داریاں سنبھال لی تھیں۔ لکھنے پڑھنے کا ذوق ورثے میں ملا تھا۔ تقریباً ۸کتابوں کے مصنف تھے۔ ہجرت کے بعد عصمت اور بنات کوپاکستان سے باقاعدگی سے شائع کرتے رہے۔ واجدہ بیگم کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور وہ باسلیقہ خاتون تھیں۔ ان کی شادی سردار محمد خاں کے ساتھ ہوئی۔ صادق الخیری سب سے چھوٹے تھے۔ ۷۳۹۱ء میں فلسفہ میں ایم۔ اے کیا۔ افسانے اور تنقیدی مضامین لکھتے تھے۔ ترقی پسند ادیبوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ تقریباً ۹کتابوں کے مصنف تھے۔ شادی کے چند ماہ بعد راشد الخیری کو ان کے چچا عبد الحامد جو کہ اناؤ میں ڈپٹی کلکٹر تھے کی کوششوں سے محکمہ بندو بست میں کلرک کی ملازمت مل گئی۔ لیکن یہ ملازمت راشد الخیری کے مزاج سے مناسبت نہیں رکھتی تھی اور دفتری کاموں میں ان کی طبیعت نہیں لگتی تھی۔ دوران ملازمت ان کی دوکتابیں ”صالحات“ اور ”منازل السائرہ“ شائع ہوکر مقبول ہوچکی تھیں۔ لہٰذا ان کی طبیعت تحریر و تصنیف کی طرف زیادہ مائل رہتی تھی۔ گھریلو وجوہات کی بنا پر بھی دور دراز تبادلے پر بھی انھیں تامل ہوتا تھا۔اس لیے کہیں جم کر ملازمت نہیں کی۔ ان کی آخری ملازمت دلی کے پوسٹل آڈٹ آفس میں تھی۔جب انھوں نے رسالہ ”عصمت“ جاری کیاتو سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے رسالے میں ان کا نام شائع ہونے میں قانونی دشواری پیش آئی لہٰذا۰۱۹۱ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر اپنے آپ کو پوری طرح اردو زبان و ادب کے لیے وقف کردیا۔وہ اردو کے ان چند خوش قسمت مصنفوں میں تھے جن کی کتابیں کثیر التعداد ہونے کے ساتھ ہی قبول عام کی سند حاصل کر چکی تھیں۔ راشد الخیری کا انتقال ۶۳۹۱ء میں ہوا۔ اردو افسانے کے تعلق سے جو تحقیق اب تک سامنے آئی ہے اُس کے نزدیک راشد الخیری کے افسانہ ”نصیر اور خدیجہ“ مطبوعہ رسالہ ”مخزن“، لاہور، شمارہ ۳، جلد ۶، دسمبر ۳۰۹۱ء کو اولیت حاصل ہے۔ یہی افسانہ راشد الخیری کی کتاب ”مسلی ہوئی پتیاں“ کی اولین اشاعت ۷۳۹۱ء، مطبوعہ عصمت بک ڈپو، دہلی کے صفحہ ۸۲تا۲۳میں ”بڑی بہن کا خط“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ڈاکٹر نجیب اختر نے راشد الخیری پر جومونوگراف دہلی اردو اکادمی کے لیے تحریر کیا ہے اس میں انھوں نے اس تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے: ”راشد الخیری کے دو طبع زاد افسانے ”نصیر اور خدیجہ“ اور ”بدنصیب کا لال“ دسمبر۳۰۹۱ء سے اگست۵۰۹۱ء تک شائع ہوچکے تھے۔ یلدرم کے دو افسانے ”دوست کا خط“ اور ”غربت وطن“ اکتوبر۶۰۹۱ء میں شائع ہوئے۔ سلطان حیدر جوش کا ”نابینا بیوی“ دسمبر ۷۰۹۱ء میں اور پریم چند کا پہلا افسانہ ”عشق دنیا اور حب وطن“ اپریل۸۰۹۱ء میں شائع ہوا۔ یہاں اس بات کی وضاحت مناسب ہوگی کہ پریم چند کے جس افسانے (دنیا کا سب سے انمول رتن) کو اردو پہلا افسانہ شمار کیا جاتا رہا وہ ۸۰۹۱ء میں شائع ہوا اور تاریخی اعتبار سے اردو کے طبع زاد افسانوں میں اس کا نمبر گیارہواں ہے۔“ اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ راشد الخیری اردو کے اولین افسانہ نگار ہیں۔ افسانہ نگاری سے پہلے وہ بطور ناول نگار اردو میں اپنی شناخت قائم کرچکے تھے۔ راشد الخیری کے افسانے کے مطالعے سے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ یہ ایک نوع کے مقصدی اور اصلاحی لہر کے حامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ راشد الخیری کی شخصیت اور کارنامے میں مقصدیت کو اولیت حاصل تھی اور وہ افسانے کے ذریعے بھی اصلاح معاشرہ کا کام لینا چاہتے تھے۔ لہٰذا ان کے افسانے میں اصلاحی اسلوب حاوی نظر آتا ہے۔انھوں نے اردو افسانے میں متوسط طبقے کے مسائل، عورتوں کی تعلیم و تربیت اور حقوق نسواں کے لیے آواز بلند کرنے کے رجحان کو جلا بخشی۔

Chat Par Tahri Dhoop a Short Story Mushtaq Ahmad Noori

Articles

چھت پر ٹھہری دھوپ

مشتاق احمد نوری

کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ ہم دونوں خود اپنے ساتھ فریب کر رہے ہیں؟ آخر اس خود فریبی میں مبتلا ہو کر ہم کس حقیقت سے فرار چاہ رہے ہیں۔ زندگی فرار کانام تو نہیں ہے؟ زندگی تو خود سپردگی کا نام ہے۔
تو پھر اپنے آپ کو چھلنے کی یہ خواہش اپنے ہی ساتھ کی جانے والی سازش تو نہیں؟
اب دیکھو نا۔۔۔ بیس سال پرانا لمحہ تمہاری چھت پر زندگی کی صورت نظر آیا۔ یہ تم تھی۔ مجھے لگا وہی بیس سال والی وہ لڑکی ہے ،جو مجھے دیکھنے اور خود کو دکھانے کی تمنا میں دھوپ کی شدت کی پرواہ کئے بغیر چھت پر کھڑی ہے۔
لیکن آج دھوپ کب تھی؟ وہ تو ڈھل چکی تھی۔
اب نہ وہ شدت نہ وہ تمازت۔۔۔ ڈھلان پر رکے قدم جیسے۔۔۔
ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، لیکن دونوں نے اپنے آپ کو فریب میں مبتلا رکھا۔ میں تمہیں دیکھ کر دیکھتا نہیں رہا بلکہ انجان بن کر تمہارے گھر کی جانب بڑھتا رہا، یہ سوچتا ہوا کہ تم دیکھ رہی ہوگی۔ اب چھت سے نیچے آؤ گی۔ میرے بل کا انتظار کرتی ہوئی جھٹ دروازہ کھول دو گی اور شرماتی ہوئی دریافت کرو گی:
’’آپ کب آئے؟‘‘
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
میری ہی طرح تم بھی دیکھ لیے جانے اور دیکھنے کی خواہش کے درمیان خود کو چھلتی رہی اپنے آپ کو یہ کہہ کر بہلاتی رہی کہ تم نے مجھے دیکھا ہی نہیں، میں نے بل بجایا، لیکن دروازہ نہیں کھلا۔ عقب کی کھڑکی سے آواز آئی:
’’کب آئے؟ کہو تو دروازہ کھول دوں؟‘‘
یہ تمہارے شوہر کی آواز تھی۔ میرا اچھا دوست رہا ہے۔ مکتب اور اسکول کا ساتھی۔
’’اگر چاہو تو باہر سے ہی لوٹ جاؤں؟‘‘
میں نے جواب دیا اور وہ مسکراتا ہوا دروازہ کھول کر مجھے اندر لے گیا، لیکن میری ساری توجہ تو چھت پر تھی جہاں دھوپ کی شدت نہیں تھی، کیوں کہ دھوپ کے پاؤں تو ڈھلان پر تھے۔ میں تمہارے شوہر سے گفتگو کرتا رہا ،لیکن میرا سارا دھیان تمہارے قدموں کی چاپ پر لگا ہوا تھا اور تم چھت پر انجان بنی اپنے آپ کو چھلنے میں مصروف تھی۔ اچانک تمہاری بچی سامنے آگئی۔ میں تو چونک ہی گیا۔
’’ارے دھوپ کی یہ شدت کہاں تھی؟‘‘
ہو بہو بیس سال پرانی تمہاری اپنی تصویر۔۔۔
بیس سال بہت ہوتے ہیں۔
دو زمانوں کی دوریاں کم نہیں ہوتیں۔
لیکن مجھے ایسا کہاں لگتا ہے۔
مجھے تو آج بھی درمیانی دوری نظر نہیں آتی۔۔۔
تم جب سامنے ہوتی ہو تو یہ ساری دوریاں کہاں چلی جاتی ہیں؟
لیکن تم سامنے کب ہو؟
وہ لمحہ تو چھت پر ٹھہر گیا ہے۔
میں بھی کتنا ضدی تھا ۔مجھے ضدی بھی تو تم نے ہی بنایا تھا۔ میری ہر بات ماننے کی تمہاری وہ ادا اور تمہاری ہر ادا پر قربان ہونے کی میری خواہش۔۔۔
کیسے کیسے لمحے درمیان سے گزر گئے۔
وہ زمانہ بھی خوب تھا۔ نہ جانے کس بات پر ناراض تھا میں۔ کئی دنوں تک تم سے ملنے نہیں گیا تھا۔ کئی دن اس زمانے میں زمانوں پر بھاری ہوا کرتے تھے۔ تمہاری معافی قبول ہوئی اور شرط یہ ٹھہری کہ بارہ بجے دن میں چھت پر کھڑی ہو کر میرا انتظار کرو۔ مابدولت سامنے کی سڑک سے گزریں گے۔
وقت سے قبل تم آئی۔۔۔وقت گزار کر میں گیا۔
گھنٹہ دوگھنٹہ کھلی چھت پر مئی کی دوپہر میں بغیر کسی وجہ کے کھڑا رہنا کتنا مشکل ہوتا ہے،لیکن تم وہاں تھی۔میرے من پسند لباس میں تمہاری لمبی زلفیں تمہارے وجود پر سایہ فگن تھیں ،جنہیں دیکھ کر میں اکثر کہا کرتا تھا:
’’ان زلفوں کوکھلی مت رکھنا۔ بہت سے مسافر اپنے گھر کاراستہ بھول جائیں گے۔‘‘
جواب میں تم نے مسکراتے ہوئے کہاتھا:
’’جسے راستہ بھولنا تھا وہ بھول چکا اب تو سارے راستے بند ہو گئے ہیں۔‘‘
تمہاری لمبی زلفیں تمہیں پریشان کر رہی تھیں، ہوا کے جھونکے بار بار انہیں چھیڑ رہے تھے۔ میں نے تمہیں چھت پر دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ نہ جانے وہ لمحہ اچانک ساکت کیوں ہو گیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ لمحہ صدیوں پر محیط ہو گیا ہو۔ سڑک پر ایک ہی جگہ کھڑے ہو کر دیدار یار کرنا ممکن بھی نہ تھا، اس لیے نہ جانے کتنی بار اس سڑک پر ادھر سے ادھر آتا جاتا رہا ،یہ یاد نہیں۔ یاد تو صرف تم ہو۔ کتنی شدت تھی ، کتنی بے قراری تھی اور کتنی تڑپ تھی دونوں طرف۔ ایک دوسرے کو دیکھنے اور دکھانے کی تمنا۔۔۔ آس پاس سے بے خبر دھوپ بھی خود پشیماں کہ اس کی شدت سے زیادہ شدت ہے اس جذبے میں۔
لیکن آج وہ سب کہاں تھا؟
جذبے تو شاید تھے، لیکن وہ شدت کہاں تھی؟
ہم فریب کیوں دے رہے تھے خود کو؟
چاہ تو آج بھی تھی کہ دیکھوں۔۔۔ جی بھر کے دیکھوں اور دیکھوں اور دیکھتا ہی رہوں، لیکن اندر ہی اندر اس جذبے کا گلا کیوں گھونٹ رہا تھا میں؟
تم بھی تو ویسا ہی کر رہی تھی۔ تمہیں معلوم تھاکہ میں شدت سے چھت کے نیچے، تمہارے قدموں کی چاپ سننے کا منتظر ہوں،لیکن تم انجان بنتی رہی کہ چھت کے اوپر تمہیں کچھ نہیں معلوم، حالانکہ اندر ہی اندر تم بھی اسی طرح تڑپ رہی تھی، جس طرح کہ میں ۔۔۔ لیکن یہ انجاناا حتیاط خود کو جان بوجھ کر چھلنے کی خواہش۔۔۔
بہت دیر بعد تمہارے قدموں کی آہٹ میں نے پہچان لی۔سراٹھایا ،تم سامنے تھی۔نگاہیں جھک گئیں جیسے چوری کررہا ہوں تم نے بھی بس رسمی طور پر پوچھا:
’’کب آئے آپ؟‘‘
جی میں آیا کہہ دوں:’’میں گیا ہی کب تھا۔‘‘
لیکن تمہارے جواب میں تمہیں کیسے بتاتا کہ صدیاں بیت گئیں تمہارا انتظار کرتے کرتے۔
تمہاری ساری توجہ اپنے شوہر پر مرکوز ہو گئیں ۔ تم نے اپنے شوہر پر اپنی محبت قربان کرتے ہوئے کہا:
’’آپ سوئٹر کیوں نہیں پہن لیتے۔ سردی لگ جائے گی۔‘‘
میں بھی تو اندر ہی اندر بہت سرد ہو چکا ہوں۔
میرے اندر کی گرمی سوئٹر سے واپس آسکے گی کیا؟
پھر۔۔۔پھر۔۔۔
لوگ کہتے ہیں کہ یگ کے ساتھ سب بدل جاتا ہے۔
یہاں تو پورے دویگ بیت گئے۔
لیکن بدلاؤکہاں آیا۔۔۔؟
نہیں۔۔۔ شاید نہیں۔۔۔بدلاؤ تو آیا ہے۔
دویگ قبل تم جس چھت پر کھڑی ہوا کرتی تھی اس کے نیچے ایک ہی منزل تھی آج تم جس چھت پر کھڑی تھی اس کے نیچے دو منزل تھی۔ سامنے کامیدان صرف فٹ بال گراؤنڈ ہوا کرتا تھا اور اب ایک اسٹیڈیم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ میدان کے بغل میں جو خستہ حال ڈاک بنگلہ تھا وہ اب ایک سرکٹ ہاؤس کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ گھر کے پاس والا سنیما ہال دوسری جگہ منتقل ہو گیا تھا اور اس کی جگہ ایک خوبصورت مارکیٹ نے لے لی تھی۔
بدلاؤ تو ہوا تھا۔۔۔سب کچھ بدل گیا تھا۔۔۔
میں بھی بدلا ۔۔۔تم بھی بدل گئی۔۔۔
لیکن وہ جذبہ جوں کا توں تھا۔
چھت پر دھوپ جیسے ٹھہر گئی تھی۔
لیکن وہ جذبہ صادق نہیں رہا تھا۔ ایک مجرمانہ کیفیت اس میں شامل ہو گئی تھی۔خلوص کی جگہ فرض نے لے لی تھی۔ بے قراری اور تڑپ کی جگہ بے بسی اور مجبوری آگئی تھی۔
میں وہی۔۔۔ وہی۔۔۔ تم ۔۔۔ درمیان کی ساری چیزیں بدل گئیں۔
ایسا ہوتا ہے۔۔۔ اکثر ہوتا ہے۔۔۔
’’کہاں ٹھہرے ہو، رات کہاں گزاروگے؟‘‘
تمہارے شوہر کی رسمی آواز نے مجھے چونکا دیا۔
’’سرکٹ ہاؤس میں ہی ٹھہرا ہوں ۔ساری سہولت ہے وہاں۔‘‘
’’سہولتیں یہاں بھی مل سکتی ہیں، چاہو تو یہیں ٹھہر جاؤ۔‘‘
میں انکار کر دیتا ہوں۔۔۔ خواہشوں پر جبر کیسے کیا جاتا ہے اب پتہ چلا۔
میں اسے یہ کیسے بتا پاؤں گا کہ قریب کے سرکٹ ہاؤس میں بھی میں رات بھر سونہیں پاؤں گا۔ ہزاروں گزرے لمحے مجھے پریشان کریں گے۔ میں ان لمحوں میں کھو کر شاید خودکو ہی گم کردوں گا۔۔۔اور اگر اس چھت کے نیچے سوگیا تو لمحے انگارے ہو جائیں گے۔ میرا کیا ہوگا۔۔۔ اور تم بھی سوپاؤگی کیا؟
پھر وہی ہوگا۔۔۔ سارے لوگ تو آرام کی نیند سورہے ہوں گے ،لیکن دوروحیں بے قرار ہوں گی۔ جاگ کر بھی رات بھر سونے کا ڈھونگ کریں گے۔ پاس کے کمروں سے گاہے بگاہے کھانس کر گلا صاف کرنے کے بہانے ، یا پھر چوڑیوں کی کھنک کے سہارے ایک دوسرے کو یہ احساس کراتے رہیں گے کہ ہم دونوں سو کر بھی جاگ رہے ہیں۔
لیکن جب سامنے ہوتے ہیں تو پھر جاگ کر بھی سونے کا بہانہ کیوں کرتے ہیں؟
یہ کیسی وفا داریاں ہیں؟
ہم اندر ہی اندر سمندر کی طرح بے چین ہوتے ہیں اور باہر سے پر سکون ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں۔ ہماری اس بے چینی میں کتنا سکون ہوتا ہے اسے کوئی کیسے محسوس کر سکتا ہے؟
ایک بار میں بچوں کے ساتھ گوا کے سفر پر گیا تھا۔ ہوٹل گو ون ہیری ٹیج بالکل سمندر کے کنارے تھا۔ شام اپنی بیگم کے ساتھ بیچ پر ٹہل رہا تھا ۔ماحول بالکل پر سکون تھا، لیکن چاروں طرف سمندر کی چنگھاڑتی لہروں کا شور تھا۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ سمندر کی چاندی جیسی لہروں پر شفق کا سونا بکھر ا ہوا تھا۔ میں وہاں کے ماحول میں گم تھا۔ شاید وہاں ہو کر بھی کہیں اور تھا۔ چاروں طرف سمندر کا شور۔۔۔ وسعت نگاہ تک چاندی پر پھیلی سونے کی پرت۔ میں نے بیگم سے کہا:
’’دیکھو تو اس شور میں کتنا سکون ہے۔‘‘
’’شور ہے تو سکون کیسے ہوگا؟‘‘ میری بیگم نے الٹے ہی سوال داغا:
پروفیسر وں کے ساتھ یہی بیماری ہے۔ وہ ہر سوال سے سوال پیدا کریں گے۔
’’شور تو ہے، لیکن اس شور بھرے ماحول میں تمہیں سکون کا احساس نہیں ہوتا؟‘‘
’’شور میں اگر سکون کا احساس ہونے لگے تو پھر آدمی شہر کے شور سے بھاگے ہی کیوں؟‘‘
’’تو پھر تم مئی کی شدت بھری دوپہرمیں دھوپ کی تمازت میں بھی سکون محسوس نہیں کر سکو گی؟‘‘
نہ جانے میری زبان سے یہ سوال کس طرح پھسل گیا۔ اس نے تضحیک بھری ہنسی سے سوال کیا:
’’دھوپ کی تمازت میں سکون۔۔۔ اور وہ بھی مئی میں۔۔۔‘‘
اس کا سوال درست تھا۔
اور میرا تجربہ بھی درست تھا۔
دونوں اپنی اپنی بھوگی ہوئی سچائی جھیل رہے تھے۔
ایک دن سمندر میں غسل کر رہا تھا ۔کچھ سمندر ی گھونگھے اور سیپ پاؤں کے نیچے آکر اپنی موجود گی کا احساس کرانے لگے۔ ہاتھوں میں لے کر دیکھا ان کی خوبصورتی نے متاثر کیا اور جیب بھر کر ہوٹل کے کمرے میں لے آیا۔ سمینار میں جانے سے قبل انہیں زندہ رکھنے کی تگ ودو میں پانی بھرے گلاس میں انہیں ڈال کر باہر نکل آیا۔ گھنٹہ دو گھنٹہ بعد واپس آنے پر دیکھا وہ ساری خوبصورت سمندری مخلوق مردہ پڑی تھی۔ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی۔ بہت سوچنے پر خیال آیا کہ سمندر کا پانی چونکہ کا فی کھارا ہوتا ہے اور میں نے انہیں میٹھے پانی میں رکھ دیا تھا۔
اپنی دنیا سے نکل کر وہ دوسری دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔
ہم دونوں بھی تو اپنی اپنی دنیا سے نکلے ہوئے ہیں۔
تو پھر زندہ کیوں ہیں؟
ایک صبح سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔ لہریں موج میں تھیں۔۔۔ بہت تیزی سے ہماری جانب آتیں،پاؤں چومتی ہوئی آگے نکل جاتیں۔ ایک عجیب سی مسرت کا احساس ہوتا ،لیکن یہ کیا لہروں کا پانی واپسی میں پاؤں کے نیچے کی زمین کھسکا جاتا۔ یہ ایک عجیب تجربہ تھا میرے لیے۔
ہم دونوں بھی تو اپنی اپنی جگہ مضبوطی سے قدم جمائے کھڑے تھے، لیکن نہ جانے کب حالات کے سمندر سے ایک تیز لہر آئی اور ہمارے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرکا گئی۔
کچھ باتیں دوسروں کو نہیں سمجھائی جا سکتیں۔ ان باتوں کو سمجھنے کے لیے دھوپ کی شدت میں سکون حاصل کرنے کی کلا سیکھنی ہو گی۔
ہم دونوں ہی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ تم اپنے شوہر کی ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتی ہو۔ میرے سامنے تو تم اور بھی وفادار ی کا ثبوت پیش کرتی ہو۔ جانتی ہو؟ یہ سب تمہارے اندر کا ڈر کرواتا ہے۔ یا پھر تم جتانا چاہتی ہوکہ تم اپنی زندگی سے بہت مطمئن ہو، لیکن سچ کا عکس اگر اپنے دل کے آئینے میں دیکھو گی تو ڈر جاؤ گی ۔
میں بھی اپنی بیگم کے لیے ایک آئیڈیل شوہر ہوں۔ اس کے لیے تو لاکھوں میں ایک۔ میں نے اسے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا۔
لیکن کیا اس طرح ہم ایک دوسرے سے انتقام لے رہے ہیں؟
لیکن کس بات کاانتقام ۔۔۔ کہیں یہ خود سے ہی انتقام تو نہیں۔۔۔؟
تم سمندر ی گھونگھے کی طرح گلاس کے میٹھے پانی میں مری نہیں، بلکہ زندہ ہو اور حالات کے سمندر کی لہریں بار بار میرے پاؤں کے نیچے کی زمین سر کاتی رہیں۔ پھر بھی میں کھڑا ہوں۔
یہ دویگ گزار کر۔۔۔ ہم ادھورے نہیں لگتے؟
سرکٹ ہاؤس کا کمرہ بہت شانت ہے۔ ایئر کنڈیشن کی ٹھنڈی ہواؤں میں بھی میں سکون محسوس نہیں کر پارہا ہوں۔ نرم و ملائم بستر بھی مجھے راحت نہیں دے پا رہا ہے۔ میری نگاہیں چھت پر ٹکی ہیں۔ اس چھت پر میرا کھویا ہوا لمحہ ٹھہر گیا ہے اور اس چھت پر بے شمار گزرے ہوئے لمحے متحرک ہو گئے ہیں۔ ایک کے بعد دوسرا عکس میری نظروں سے اوجھل ہوتا جارہا ہے۔ اچانک ایک عکس منجمد ہو گیا ہے۔
میں ٹیبل پر بیٹھا ہوں۔ پانی کا گلاس چھلک گیا ہے۔ ایک ٹیوٹر ٹیوشن پڑھانے کے بعد اپنے اندر کی آگ ٹھنڈے پانی سے بجھانے کی تمنا میں گلاس بھرنے کے بعد بھی پانی انڈیلنے لگتا ہے ۔ٹیبل پر پانی پھیل گیا ہے۔ میری انگلی پانی پر جاتی ہے اور پھر ٹیبل پر لکیروں کا جال بننے لگتا ہے۔ میں اس جال میں گم ہونے لگتا ہوں، تم پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ دیتی ہو اور دھیمے لہجے میں کہتی ہو:
’’ان لکیروں میں زندگی تلاش کر رہے ہیں یا پھر خود کو گم کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘
تمہارے ہاتھوں کے سبک دباؤ نے سارے زمانے کو وہیں ٹھہر جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ میری انگلی ساکت ہو گئی ہے۔ نگاہیں ٹیبل پر پتھرا گئی ہیں۔ سر کے پیچھے سے کئی روشن دان کھل جاتے ہیں اور ہر روشن دان سے تم جھانکنے لگتی ہو۔ میں پیچھے نہیں مڑتا ،لیکن تمہارا پورا سراپا میرے سامنے ہوتا ہے۔
تمہاری انگلیاں میرے الجھے بالوں میں رینگ جاتی ہیں۔ میرے پورے بدن میں ایک عجیب سی سہرن کا احساس پیدا ہوتا ہے، پھر اچانک تم اپنی ٹھڈی میرے سر سے ٹکا تی ہوئی پھسپھساتی ہو:
’’ان لکیروں کی طرح خود کو دن بدن کیوں الجھاتے جارہے ہیں؟‘‘
میرے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ سامنے صرف لکیروں کا جال ہے اور اسی جال کے درمیان سے راستہ تلاش کرنا میری مجبوری ہے۔ یہ زندگی کی ایک پہیلی ہے۔ میں جال بھرے راستے کے اس جانب ہو ں اور تم دوسری جانب ہو۔ جال کے درمیان سے راستہ تلاش کرکے تم تک پہنچنا ہے، میں جس راستے کو بھی پکڑتا ہوں وہ آگے جا کر بند ملتا ہے۔ دوسرا۔۔۔ تیسرا۔۔۔ چوتھا۔۔۔ سارے راستے ایک ہی جیسے ہیں۔ بڑھنے کا راستہ تو دیتے ہیں پھر اچانک بند ہو جاتے ہیں۔
’’ان بند دروازوں سے گزرنا آسان ہے کیا؟‘‘
’’مجھ تک پہنچنے کے لیے انہیں بند دروازوں سے گزرنا ہوگا۔‘‘
تمہارا جواب میری پریشانی بڑھا دیتا ہے۔
’’ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اس جانب سے دروازہ تلاش کرتی ہوئی مجھ تک پہنچ جاؤ؟‘‘
’’نہیں ۔۔۔ اس پہیلی کو تو آپ کو ہی حل کرنا ہے۔ میں تو دیواروں میں چنی ہوئی ہوں۔ میرا اپنا آپ تو ان لکیروں میں گم ہے۔آپ کو ہی راستہ تلاش کرنا ہے اور اس دیوار کو بھی گرانا ہے۔‘‘
’’اور تم کچھ نہیں کرو گی میری شہزادی؟‘‘
’’کروں گی، ضرور کروں گی، میں آپ کا انتظار کروں گی۔‘‘
میرے سامنے لوک کتھا کی وہ شہزادی تھی ،جس کے پورے جسم میں کانٹے پیوست تھے۔ جو یہ کانٹے نکال دیتا شہزادی اس کی ہو جاتی۔
شہزادوں کی کمی نہیں تھی، لیکن ایک غریب لکڑہارا بھی اس دوڑ میں شامل رہا۔ وہ تن من سے کانٹے نکالتا رہا۔ ایک دن ایسا بھی آیا کہ صرف آنکھ کا کانٹا نکالنا باقی رہ گیا ۔ جسے اس نے دوسرے دن پر چھوڑ دیا اور جب دوسرے دن اس نے آنکھوں سے کانٹا نکالنا چاہا تو شہزادی نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھول دیں۔
کون ہو تم۔۔۔ اور کیا کرنے آئے ہو؟ ‘‘ شہزادی نے چونک کر پوچھا۔
’’میں۔۔۔؟‘‘ اس نے پورے اعتماد سے کہا۔
’’میں وہی ہوں شہزادی، جو ایک یگ سے تمہارے جسم سے کانٹے نکالتا رہا ہے اور جس نے ہر کانٹے کی چبھن اپنی روح پر محسوس کی ہے۔‘‘
’’لیکن تم تو وہ نہیں ہو جس نے میری آنکھ سے کانٹا نکالا تھا؟‘‘ وہ تذبذب کے عالم میں گویا ہوئی۔
’’وہ تو کوئی اور تھا اور اس نے بھی یہی دعوا کیا تھا، میں تمہاری باتوں پر کس طرح یقین کر لوں؟‘‘
وہ حیران و پریشان کھڑا ہے۔ اس کے پاس کو ئی جواب نہیں ہے۔ اس کے اندر سے آواز آتی ہے:
’’شہزادی ۔۔۔ تم ایک دن اور انتظار نہیں کر سکتی تھی؟‘‘
میں چونک پڑتا ہوں۔
سامنے لکیروں کا کوئی جال نہیں ہے۔ سارے راستے اب میری دسترس میں ہیں، لیکن اس جانب دیواروں کے درمیان کوئی نہیں ہے۔ دیوار کی اونچائی پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے اور اس پر ایک مضبوط چھت بھی ہے۔ چھت پر بڑی شدت کی دھوپ ہوا کرتی تھی، لیکن اب وہ ڈھل چکی ہے اورچاروں طرف شام کی سیاہی پھیلتی جا رہی ہے۔
———————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Kuch Bologe Nahi a Short Story by Anwar Mirza

Articles

کچھ بولو گے نہیں!

انور مِرزا

صبح آنکھ کھُلتی. ..تو بس اِسی فِکر کےساتھ
کہ گیارہ بجے سے پہلے آفس پہنچنا ہے
یعنی وقت کے مقابلے انسان کی وہی دوڑ…
جو صدیوں سے چل رہی ہے…
زندگی کی سڑک پر
وقت ہمیشہ آگے بھاگتا نظر آتا ہے …
اورانسان تو بس، پیچھے سے لپکتا ہوا آ کر…
وقت کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کرتا ہے …
میَں بھی اِسی کوشش میں صبح بِستر سے نکلتا…
آنکھوں کے فریم میں …پہلی تصویر فیڈ اِن ہوتی،بیوی کی…
ڈرتے ڈرتےاُس کے چہرے پر زوم اِن کرتا…
اندازہ لگانے کی کوشش کرتا… کہ آج آفس جا سکتا ہوں…یا
اُسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کی نوبت آئے گی…
فیس ریڈنگ کے میرے ہُنر سے بیوی واقف تھی…
میرے ڈر سے بھی انجان نہیں تھی…مُسکرا پڑتی…
جیسے جتانا چاہتی ہوکہ…میَں ٹھیک ہوں! تم جاؤ…
در اصل ،فیس ریڈنگ میں وہ مجھ سے زیادہ ماہر تھی…
میَں اپنی ہوشیاری میں رہتا تھا… اور وہ اپنی کلاکاری میں…
مگر یہ خود فریبی اب میری ضرورت بن چکی تھی…
میَں بظاہر مطمئن ہو کر کمپیوٹر آن کردیتا…
وہ سمجھ جاتی کہ اب آفس کیلئے نکلنے سے پہلے…
میَں اُ س سے کوئی بات نہیں کروں گا…
میرے فریش ہونے تک چائے آجاتی…
وہ نہیں جانتی تھی کہ میَں چائے اور بریڈ، بٹر کے ذائقے سے بھی
اندازہ لگا سکتا ہوں… کہ اُس کی طبیعت کتنی اچھّی یا کتنی خراب ہے!
چائے پیتے ہوئے میَں آن لائن انگریزی اخبار پڑھ لیتا…
وہ بھی خاموشی سے چائے پیتے ہوئے میرا چہرہ پڑھتی رہتی…
جیسے انگریزی اخبار کا اُردو ٹرانسلیشن
میرے چہرے پر لکھا ہوانظر آ رہا ہو…!
جب میَں ہر طرح سے تیار ہو جاتا …
تو وہ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لا کر دیتی…
میَں بوتل اپنے شولڈر بیگ میں رکھتا…
یہ وہ لمحہ ہوتا…جب وہ بہت پُر امید ہوتی…
کہ شاید اب میَں اُس سے کچھ کہوں گا…
پتہ نہیں کیا، شاید کچھ بھی…بے معنی سا کوئی جملہ…
یا شاید صرف میری آواز…میَں کبھی سمجھ نہیں سکا…
کہ عارضی جدائی کے اِن لمحوں میں…وہ کیا سُننا چاہتی تھی…
شاید کچھ برسوں سے…یا شاید صدیوں سے…
اُس کی ایک ایک حرکت سے ایسا لگتا…
جیسے خاموشی کی زبان سےپوچھ رہی ہو…
کچھ بولوگے نہیں…!
اور میَں بس اتنا ہی بولتا…’ آتا ہوں… آفس جا کر… ‘
اُس لمحے کی, اُس کی آخری اُمّید بھی دم توڑ دیتی…
مگر اُس کی مسکراہٹ کہتی… میَں انتظار کروں گی…
پھر محض چند سیکنڈز کیلئے ہم ایسے بغل گیرہوتے…
کہ درمیان میں ایک محتاط فاصلہ رہتا…
دروازے پر پہنچ کر میَں اُس کا چہرہ…
نظروں کے فریم میں ایڈجسٹ کرتا… اور باہر نکل جاتا…
مگر اُس دن… اخبار پڑھنے کے بعد…
میَں جلدی جلدی ایک اسکرپٹ فائنل کرنے لگا…
تاکہ کل تک اکاؤنٹ میں کچھ پیسے آجائیں…
اِس درمیان انتظار کرتے کرتے…
وہ پلنگ پر دراز ہوئی… اور اُس کی آنکھ لگ گئی…
جب میَں آفس جانے کیلئے اُٹھا…
تو اُسے سوتا دیکھ کر تذبذب میں پڑ گیا…
اُسے جگاؤں… یا نہ جگاؤں… ؟
جب تک وہ سوتی رہتی… تب تک بیمار نہیں لگتی تھی…
ایک بار تو جی میں آیاکہ اُس کی راحت میں خلل نہ ڈالوں…
لیکن پھر خیال آیا کہ آنکھ کھُلنے پر…
میری غیر موجود گی سے وہ بہت افسردہ ہوگی…
میَں نے اُسے جگانے کیلئے بہت آہستگی سے…
اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا…
اُس نے فوراً ایسے آنکھیں کھول دیں…
جیسے اِسی انتظار میں تھی… اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی…
میَں نے منع کیا… وہ مان گئی…
میَں نے اُس کا چہرہ اپنی آنکھوں میں کمپوز کیا… اور…
’آتا ہوں!‘ … کہہ کر آفس کیلئے نکل گیا…
آٹو رکشہ… ٹرین… اور بس نے مجھے آفس پہنچایا…
دو چار نئے گانے… آڈیو… ویڈیو… یوٹیوب…
ایڈیٹنگ…مِکسِنگ… اپ لوڈنگ… لنچ ٹائم…
گھرسے اُس کا فون آیا… پوچھنے لگی…
کیا کمپیوٹر پر تمہاری کوئی فلم ڈاؤن لوڈ ہو رہی ہے؟
میَں نے کہا نہیں! لیکن ڈِش ٹی وی پر لائیو کرکٹ ریکارڈ ہوگا…
اُس نے چند لمحوں انتظار کیا… کہ شاید میَں کوئی اور بات کروں…
آخرپھر خود ہی ’اچھا‘ کہہ کر فون رکھ دیا…
میَں نے لنچ ٹیبل سے اُٹھتے ہوئے سوچا…
کم از کم مجھے اتنا تو پوچھ ہی لیناچاہئیے تھا …
کہ اُس نے کھانا کھا لیا یا نہیں… !
دو گھنٹے بعد پھر فون آیا… مگر یہ فون اُس کا نہیں تھا…
اُس کےبارے میں تھا…
بچّوں نے مجھے فوراً گھر آنے کیلئے کہا…
پتہ نہیں بچّوں کی آواز میں میَں نے ایسا کون سا منظر دیکھ لیا…
کہ کسی سے کچھ کہے بِنا آفس سے نِکل گیا…
میَں فاسٹ فارورڈ میں گھر پہنچ جانا چاہتا تھا…
لیکن اِس دوران پھر بچّوں کا فون آگیا…
اب مجھے گھر نہیں… اسپتال پہنچنا تھا… مجھے جلدی تھی…
مگر آٹو رکشہ جیسے سلو موشن میں اسپتال کی طرف بڑھ رہا تھا…
ذہن میں زندگی کا فلیش بیک چلنے لگا…
وہ آج پہلی بار اسپتال نہیں گئى ہے…
وہ ٹی بی کو شکست دے چکی ہے…
استھما کو حیرت زدہ کر چکی ہے…
آج بھی واپس آ جائے گی… اور آج…ہاں! آج…
آج… میں اُس سے پوچھ ہی لُوں گا
کہ وہ‌ مجھ سے کیا کہنا…یا کیا سننا چاہتی ہے…
اور اچانک’ فلیش کٹ ‘ میں شادی کی پہلی سالگرہ کی
ایک بات یاد کرکے مجھے اور آٹو رکشہ کو ایک ساتھ جھٹکا لگا…
میرے اسپتال پہنچتے ہی…بچے مجھ سے لپٹ کر رونے لگے…
’کچھ نہیں ہوگا!…میَں ہوں نا…‘میں دِلاسہ دے کر آگے بڑھا…
وہ بیڈ پر اُسی طرح لیٹی تھی…جیسے آج صبح گھر پر…
میَں نے اُسے جگانے کیلئے بہت آہستگی سے…
اُس کے شانے پر ہاتھ رکھا…
لیکن اس نے آنکھیں نہیں کھولیں…
میں نے اسے آواز دی…
ایک بار…دو بار…تین بار…
’’اٹھو…! دیکھو…!! میں آگیا ہوں…‘‘
’’چلو گھر چلو…! مجھے یاد آگیا ہے…
کہ تم برسوں سے کیاسننا چاہ‌ رہی ہو…‘‘
’’ہاں…میں تمہیں اپنی جان سے زیادہ چاہتاہوں…‘‘
’’بہت پیار کرتا ہوں تم سے…‘‘
’’بہت محبت کرتاہوں…آئی لو یو…!‘‘
بچے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے…پھر مجھ سے لپٹ گئے …
ڈاکٹر نے وہ ایک لفظ کہہ دیا…
جس کے بعد ہر امید دم توڑ دیتی ہے…
وہ جا چکی تھی…!
میَں نے اُس کا بے جان چہرہ غور سے دیکھا…
زندگی میں پہلی بار احساس ہوا …
کہ چہرے کا نُور کِسے کہتے ہیں…
وہ ڈائی بیٹیز کی گرفت میں تھی…
خالی پیٹ کے سبب اسٹروک آگیاتھا…
ایک اسٹروک میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا…
کم از کم مجھے اتنا تو پوچھ ہی لیناچاہئیے تھا …
کہ اُس نے کھانا کھا لیا یا نہیں… !
اگر پوچھ لیتا …تو… شاید…شاید!
میری نم آنکھوں میں اُس کا بھیگا ہواچہرہ کمپوز ہوا…
’کچھ بولو گے نہیں…!‘
——————————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔