Wajood be Saya a Story by Salim Sarfaraz

Articles

وجود بےسایہ

سلیم سرفراز

سورج سوا نیزے پر کھڑا تھا ـ سر پر مئی کی برہنہ رقص کرتی ہوئی دھوپ اور قدموں تلے نڈھال بچھی ہوئی کولتار کی نم آلود لیکن شعلہ فشاں سڑک ـ سنسان اور پرسکوت ـ اس کا جسم چولہے کی تیز آنچ پر چڑھے ہوئے توے کی طرح تپ رہا تھا ـ اس کے پیروں میں پلاسٹک کی چپل تھی جو گرم کولتار کی پگھلی سڑک پر چپک چپک جاتی تھی ـ وہ بمشکل قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ـ اسے شدت سے کسی ایسے سائے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی جہاں وہ کچھ دیر کے لیے اپنے مضمحل جسم کو دھوپ کے سفاک اور بےرحم پنجوں سے بچا سکے لیکن کہیں جائے پناہ نہیں تھی ـ یکایک اس کے ذہن میں ایک گھنے اور سایہ دار درخت کی شبیہ ابھری ـ اسے یاد آیا کہ تھوڑی ہی دوری پر وہ درخت موجود ہے ـ اس نے خود کو تسلی دیتے ہوئے خودکلامی کی ـ
“بس ـ تھوڑا سا حوصلہ اور ـ کچھ ہی فاصلے پر وہ گھنا سایہ دار شجر منتظر ہے ـ اس کی مہربان بانہوں میں قدرے راحت مل جائے گی ـ “
اس حوصلہ افزا دلاسے سے اس کے شل ہوتے جارہے پیروں میں توانائی بھر گئی اور اس کے قدم سرعت سے اٹھنے لگے ـ کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ اس مقام پر پہنچ گیا ـ
لیکن یہ کیا…؟ اس کی آنکھوں میں حیرت کی گرم ریت بھر گئی ـ اس نے اپنی جلتی ہوئی آنکھوں کو ہاتھ سے ملتے ہوئے چہار سمت دیکھا ـ سبھی آشنا مناظر نگاہوں کے سامنے اپنی موجودگی کا اعتراف کررہے تھے لیکن وہ درخت غائب تھا جس کے سائے میں راحت پانے کی چاہ میں وہ اپنے پژمردہ جسم کو کسی طرح یہاں تک گھسیٹ لایا تھا ـ لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ اس نے گہری بےیقینی سے سوچا ـ کل تک تو وہ تناور درخت اپنے بےشمار بازوؤں کو فضا میں پھیلائے ہوئے یہیں پر کھڑا تھا ـ کیا اسے راتوں رات کاٹ ڈالا گیا ـ لیکن آس پاس درخت کے کٹنے کا کوئی نشان تو ہوتا ـ وہ کوئی چھوٹا سا پودا نہیں تھا ـ زمین کے بڑے رقبے کو اس کی جڑیں قبضہ کیے ہوئے تھیں ـ درخت کٹ جانے کے باوجود اس کی جڑیں تو ہوتیں ـ وہاں تو کولتار کی سڑک بچھی تھی جسے دیکھ کر قطعی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ آج کل میں بچھائی گئی ہو ـ تو کیا اس کا ذہن انتشار کا شکار تھا؟ کیا یہ وہ جگہ نہیں جہاں وہ درخت موجود تھا؟ اس نے بہ نظرغائر چاروں طرف کا جائزہ لیا ـ سامنے ہی سڑک کی دوسری جانب کسی موبائل کمپنی کا اونچا ٹاور حسب سابق کھڑا تھا ـ اس کے قریب ہی پختہ چبوترے پر ملک کے ایک بڑے رہنما کا قدآور مجسمہ نصب تھا ـ درخت کے نیچے بیٹھ کر وہ ہمیشہ انہیں دیکھتا آیا تھا ـ انہیں اپنے سابقہ مقام پر دیکھ کر اس کا یقین قوی ہوا کہ وہ صحیح جگہ پر ہے لیکن تعجب خیز امر تھا کہ وہ درخت اپنی جگہ پر نہیں تھا ـ آخر وہ کدھر کھو گیا؟ وہ گہرے مخمصے میں پڑگیا ـ وہ دیر تک وہیں کھڑا اس ناقابلِ یقین معمے کو حل کرنے کی سعی کرتا رہا ـ سنسان سڑک پر کوئی ذی نفس بھی نہیں تھا کہ اس سے اس درخت کے متعلق استفسار کیا جاتا ـ معاً اس کی نگاہ مخالف سمت سے آتے ہوئے ایک شخص پر پڑی تو اسے تھوڑا اطمینان ہوا ـ شاید وہ اس گتھی کو سلجھانے میں مدد کرسکے ـ قریب آنے پر اس نے دیکھا کہ وہ ایک ستر بہتر سالہ بزرگ تھے ـ ان کے وجیہ چہرے پر گہری سنجیدگی اور متانت تھی ـ چھریرے جسم پر سلیقے کا لباس تھا ـ کچھ سوچتی ہوئی سی گہری آنکھوں پر نفیس قسم کی عینک چڑھی تھی ـ اس نے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا تو وہ استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے ـ
“بڑے میاں! یہاں ایک گھنا سایہ دار درخت تھا ـ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ کیا ہوا؟ “ـ
اس نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا تو بزرگ نے ادھر دیکھا ـ وہ کچھ دیر تک اپنے ذہن پر زور ڈالتے رہے اور پھر پرخیال آواز میں گویا ہوئے ـ
“ہاں! شاید برسوں پہلے یہاں ایک درخت ہوا کرتا تھا ـ “
“میں برسوں پہلے کی بات نہیں کررہا ہوں ـ “
اس کے لہجے میں قدرے تلخی در آئی ـ
“وہ درخت کل تک یہاں موجود تھا ـ “
“اچھا! ” ان کے چہرے پر پشیمان سی مسکراہٹ ابھری ـ
“بیٹے ـ مجھے تو ہر واقعہ ہر منظر برسوں پہلے کا ہی لگتا ہے ـ دراصل ضعیفی نے میرے ذہن کو خاصا متاثر کیا ہے ـ تمہارے کہنے پر مجھے بھی یاد آرہا ہے کہ کل تک اس جگہ ایک تناور درخت موجود تھا ـ لیکن وہ گیا کہاں؟ “
انہوں نے بھی تعجب کا اظہار کیا تو اسے گہری ناامیدی ہوئی ـ
“میں تو کافی دیر سے اسی تذبذب میں مبتلا ہوں کہ وہ کہاں گم ہوگیا ـ یہ تو یقینی بات ہے کہ اسے کاٹا نہیں گیا ورنہ زمین پر کچھ نشانات تو ہوتے ـ آخر وہ ایک تناور درخت تھا ـ “
دونوں دیر تک اپنے اپنے خیالوں میں کھوئے ہوئے کھڑے رہے ـ قدرے توقف کے بعد کچھ سوچتے ہوئے اس نے بزرگ سے استفسار کیا ـ
“کیا درخت بھی چلتے ہیں؟ کیا پتہ وہ خود ہی یہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چل دیا ہو ـ “
“درختوں کے چلنے کے بارے میں تو میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہ سکتا ـ “
بزرگ نے معذوری ظاہر کی اور پھر خوابیدہ لہجے میں بولے ـ
“لیکن ہاں! انہیں باتیں کرتے تو میں نے دیکھا ہے ـ برسوں پہلے جب میں بچہ تھا اور گاؤں میں رہتا تھا ـ ہمارے آنگن میں بہت سے درخت تھے ـ میری ماں گھریلو کام سے فرصت پاکر گھنٹوں ان سے باتیں کرتی رہتی تھی ـ جب وہ کلام کرسکتے ہیں تو شاید چلتے بھی ہوں ـ “
“میں بہت دور سے اس کے سائے میں بیٹھنے کی خواہش لیے چلا آرہا ہوں لیکن یہاں اس کا وجود ہی نہیں ـ مجھے لگتا ہے کہ یہ خواہش مجھے تاعمر پریشان رکھے گی ـ اچھا ـ ایک التجا کروں ـ کیا آپ اسے تلاش کرنے میں میرا تعاون کرسکتے ہیں؟ “
اس کے لہجے میں کچھ ایسی لجاجت اور لرزش تھی کہ بزرگ کا دل درد سے بھر آیا ـ انہوں نے سرعت سے کہا ـ
“ہاں! ہاں! کیوں نہیں بیٹے ـ میں یقیناً اس جستجو میں تمہارا ساتھ دوں گا ـ مجھے بھی بےحد تجسس ہے کہ وہ کہاں گیا؟ “
“میں تو اس راستے سے کسی سائے کی تلاش کرتا ہوا آرہا ہوں ـ ظاہر سی بات ہے کہ ادھر یہ درخت نہیں گیا ـ آپ مخالف سمت سے آرہے ہیں ـ کیا آپ نے راستے میں کوئی درخت دیکھا؟ “
” کہہ نہیں سکتا ـ “
بزرگ کے لہجے میں خجالت کے آثار تھے ـ
“دراصل میرے اندر یادوں کا ایسا ہجوم ہوتا ہے کہ مجھے باہر کے مناظر کی مطلق خبر ہی نہیں ہوتی ـ “
“تو پھر کیوں نہ اسی طرف چلتے ہیں ـ “
بزرگ نے اثبات میں سر کو جنبش دی تو دونوں اس طرف چل پڑے ـ ہرچندکہ دھوپ کی تپش میں مزید اضافہ ہوچکا تھا لیکن اب اسے قطعاً اس کا احساس نہ تھا ـ کافی دور چلنے کے باوجود درخت نظر نہ آیا تھا ـ اس نے بزرگ کی طرف دیکھا ـ وہ بھی متلاشی نگاہیں ہر سو دوڑاتے ہوئے اس کے ساتھ چلے آرہے تھے ـ معاً اس احساس سے اسے تاسف ہوا کہ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے اس بزرگ اور شریف النفس انسان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے ـ اس نے خفت آمیز لہجے میں انہیں مخاطب کیا ـ
“میری وجہ سے آپ بھی پریشان ہورہے ہیں ـ گھر میں بیوی بچے آپ کے منتظر ہوں گے ـ “
“نہیں! نہیں! پریشانی کی کوئی بات نہیں ـ یوں بھی میرے گھر میں میرا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ـ “
“کیامطلب؟ آپ کی بیوی….اور بچے….. “
اس نے تعجب سے پوچھا ـ
“میرے دو بیٹے ہیں ـ دونوں سنہری خوابوں کے تعاقب میں دور دیس چلے گئے ـ میری بیوی ان کی جدائی برداشت نہ کرسکی ـ پچھلے برس ہی داغ مفارقت دے گئی ـ اب گھر میں کسی آسیب کی طرح میں تنہا بھٹکتا رہتا ہوں ـ حالانکہ کھانے پینے کی فکر نہیں ـ پنشن کی رقم سے بسراوقات ہوجاتی ہے ـ بس یادوں کابےرحم لشکر سدا حملہ آور ہوتا رہتا ہے جس کے خوف سے میں بھاگا بھاگا پھرتا ہوں ـ “
اس نے محسوس کیا کہ ان کی آواز میں اشکوں کی آمیزش ہونے لگی ہے ـ انہوں نے یکلخت خود کو سنبھالا اور قدرے توقف کے بعد اس سے مخاطب ہوئے ـ
“لیکن اتنی شدید دھوپ میں تم کہاں سے آرہے ہو؟ تمہیں دیکھ کر تو لگتا ہےکہ تم شب خوابی کے لباس میں ہی گھرسےنکل پڑےہو. ” اس کے تمام وجود کو ایک زوردار جھٹکاسا لگا ـ اس کےقدم رک گئے ـ ذہن میں آندھیاں سی چلنے لگیں ـ آنکھوں کے سامنے خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گزشتہ واقعات اڑنے لگے ـ
وہ دیر رات تک کمپوٹر پر دفتری کام کرتا رہا تھا ـ پلکیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں تو اس نے کمپوٹر بند کیا اور بستر پر دراز ہوگیا ـ بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی تھی اس لیے بغل کا حصہ خالی تھا ـ دن بھر کا تھکا ماندہ جسم جلد ہی نیند کی آغوش میں سماگیا ـ جانے کتنی دیر ہوئی تھی کہ پاس رکھے ہوئے موبائل کی تیز آواز سے اس کی آنکھیں کھل گئیں ـ اس نے موبائل اٹھا کر رسیو کیا ـ دوسری جانب سے ایک اجنبی آواز ابھری ـ
“میں سنٹرل اولڈ ایج ہوم سے بول رہا ہوں ـ آپ کے والد کا اچانک انتقال ہوگیا ہے ـ تجہیزوتکفین میں شامل ہونے کے لیے آپ آجائیں ـ “
اس کے ہاتھ سے موبائل گرپڑا ـ آنکھوں تلے اندھیرا سا چھا گیا اور وہ بےحس وحرکت بیٹھا رہ گیا ـ بہت دیر بعد وہ بستر سے اٹھا ـ لرزش زدہ قدموں سے چلتے ہوئے دروازہ کھولا اور باہر نکل گیا ـ چاروں طرف صبح کی نرم کرنیں پھیلی ہوئی تھیں لیکن اس کے دماغ میں لاوے سے دہک رہے تھے ـ اسے یاد نہیں کہ وہ کس طرح اولڈ ایج ہوم پہنچا اور کیسے تجہیز وتکفین کا سارا عمل انجام پایا ـ وہ قبرستان سے نکلا تو دھوپ شدت اختیار کرچکی تھی اور جسم میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی تھی ـ وہ خالی الذہن سا آگے بڑھتا گیا تھا ـ راستے میں دھوپ ناقابل برداشت ہوتی گئی تواسےاس درخت کا خیال آیا تھا ـ
“کیا ہوا؟ کن خیالوں میں کھوگئے؟ ” بڑے میاں کی آواز پر جیسے وہ خواب سے بیدار ہوا ـ اس نے پھٹی پھٹی ناآشنا نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا اور وحشت زدگی سے بڑبڑایا ـ
“میں قبرستان سے آرہا ہوں ـ اپنے والد کو دفن کرکے…… “
“اوہ! “
بڑے میاں گہرے تاسف میں ڈوب گئے ـ
“میں انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کرانا نہیں چاہتا تھا لیکن.. میری بیوی…… “
اس کی بھرائی ہوئی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے ابھری ـ
“میں سمجھتا ہوں بیٹے ـ “
بڑے میاں نے تسلی آمیز نرم لہجے میں کہا ـ
“وہ بوڑھے ہوگئے تھے ـ دمہ کے مریض تھے جس کی وجہ سے کبھی کبھی رات بھر پریشان رہتے ـ میری بیوی کو بےحد ناگوار لگتا ـ وہ ان کی نگہداشت کرنا تو دور ان کے وجود کو بھی گھر میں برداشت کرنے پر قطعی آمادہ نہیں تھی ـ وہ مجھ پر دباؤ ڈالتی رہتی تھی کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کردیا جائے ـ میں نے اسے سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن لاحاصل ..اس مسئلے پر گھر میں روزانہ تلخی پیدا ہوجاتی ـ یہ سب میرے والد کے بھی علم میں تھا ـ ایک دن انہوں نے خود کہا کہ انہیں اولڈ ایج ہوم میں داخل کر دیا جائے ـ میرے انکار کرنے پر وہ بضد ہوگئے ـ آخرش تنگ آکر میں نے انہیں وہاں داخل کروادیا ـ شروعات میں روزانہ دفتر سے واپسی پر ان سے ملنے جاتا تھا لیکن پھر اس میں وقفہ آنے لگا ـ دراصل میری بیوی نے دونوں بچوں کو مہنگے انگریزی میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا تھا ـ ان کے تعلیمی اخراجات اور گھریلو ضروریات کی تکمیل کے لیے میں ایک پارٹ ٹائم جاب بھی کرنے لگا تھا ـ میری مصروفیت بڑھتی گئی تھی ـ ادھر تو میں بہت دنوں ان سے مل بھی نہیں پایا تھا کہ آج صبح اچانک … ….. “
اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں ـ بڑے میاں نے بےحد شفقت سےاس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو وہ کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح ان کے بازوؤں میں ڈھے گیا ـ سنسان اور پرسکوت سڑک پر اس کا گریہ گونجنے لگا ـ بڑے میاں اپنے شانے پر اس کے سر کو رکھے اس کی پشت کو نرمی سے تھپکتے رہے ـ کافی دیر بعد اس کا گریہ تھما ـ اس نے کاندھے سے سر اٹھایا اور آستین سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگا ـ بڑے میاں نے پیشکش کی ـ
“تم چاہو تو میرے گھر چل سکتے ہو ـ قریب ہی ہے ـ تھوڑی دیر آرام کرکے چلے جانا ـ “
وہ کسی معمول کی طرح ان کے ساتھ چل پڑا ـ کچھ ہی فاصلے پر چھوٹا سا ایک مکان تھا جس کے دروازے پر قفل جھول رہا تھا ـ انہوں نے جیب سے چابی نکالی اور تالا کھولا ـ وہ اسے لیے ہوئے اندر اس کمرے میں داخل ہوئے جو شاید خوابگاہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا ـ اسے پلنگ پر بیٹھنے کے لیے کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلے گئے ـ ثانیے بھر بعد وہ ایک طشت میں کھانے کی اشیا سجالائے ـ طشت اس کے پاس رکھتے ہوئے انہوں نے نرمی سے کہا ـ
“کھاؤ! میں چائے بناکر لاتا ہوں ـ “
ان اشیا کو دیکھ کر اسے احساس ہوا کہ اسے زوروں کی بھوک لگی ہے ـ اس نے انہیں شکم میں ڈالنا شروع کردیا ـ اس کا کھانا ختم ہونے کو تھا کہ وہ چائے لے کر حاضر ہوگئے ـ چائے پیتے ہوئے اس نے بڑے میاں کو غور سے دیکھا ـ ان کے چہرے پر طمانیت کا گہرا عکس جھلملا رہا تھا ـ معاً اسے اپنے والد یاد آگئے ـ عرصہ قبل جب وہ بچہ تھا ـ شام ہوتے ہی وہ دروازے پر اپنے والد کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا ـ اس کے والد کام سے لوٹتے ہوئے اس کے لیے کھانے پینے کی کوئی شے ضرور لاتے ـ اسے اپنے پاس بٹھا کر بڑی محبت سے کھلاتے ـ وہ کھاتا رہتا اور اس کے والد اسے گہری نگاہوں سے تکتے رہتے ـ اس نے یاد کیا کہ اس وقت ان کے چہرے پر طمانیت اور آسودگی کا کچھ ایسا ہی عکس لہراتا ہوا نظر آتا تھا ـ
جب وہ چائے سے فارغ ہوچکا تو بڑے میاں برتن اٹھاتے ہوئے بولے ـ
” تم تھوڑی دیر آرام کرلو ـ دھوپ کی شدت میں کمی آجائے تو گھر چلے جانا ـ “
اس نے اثبات میں سر کو جنبش دی اور لیٹ گیا ـ جلد ہی نیند اس پر حاوی ہوگئی ـ جب اس کی آنکھیں کھلیں تو بڑے میاں اس کے قریب ہی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے ـ وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ اٹھتے ہوئے بولا ـ “لگتا ہے بہت دیر ہوگئی ـ اب مجھے چلنا چاہیئے ـ “
وہ پلنگ سے اٹھ کھڑا ہوا ـ بڑے میاں بھی کرسی سے اٹھ گئے اور گویا ہوئے ـ
” ٹھیک ہے بیٹے ـ جاؤ ـ لیکن اسے تم اپنا ہی گھر سمجھنا ـ کبھی کسی درد بھرے لمحے میں کسی کاندھے کی ضرورت ہو تو بلاتردد یہاں چلے آنا ـ یہ بوڑھا تمہارے لیے دست دعا دراز رکھے گا ـ “
اس نے شکرگزار نگاہوں سے اس مہربان شخصیت کو دیکھا اور باہر نکل آیا ـ دھوپ اب نرم پڑ چکی تھی اور اس کے لمس میں وہ ناگوار چبھن نہیں رہی تھی ـ وہ اسی راستے پر ہولیا جس سے یہاں تک آیا تھا ـ کچھ ہی دیر بعد وہ اسی مقام پر پہنچ گیا جہاں سے بڑے میاں ساتھ ہوئے تھے ـ
“ارے! یہ کیا؟ “
اس کی سخت حیرت سے پھٹی آنکھیں چھلانگ مار کراس جگہ پہنچ گئیں جہاں وہ گھنا سایہ دار درخت اپنے مکمل وجود کے ساتھ پہلے کی طرح ہی کھڑا تھا ـ ـــــــــــــــــــــ
——————————–
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Kitabistan a Short Story by Shadab Rashid

Articles

کتابستان

شاداب رشید

35 سال بعد جب دوبارہ اپنے شہراپنے محلے میں قدم رکھا تومحسوس ہوا جیسے سب کچھ بدل گیا ہے ۔
 جب آہستہ آہستہ راستے اور گلیوں سے آنکھیں مانوس ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ نہیں کچھ بھی نہیں بدلا ہے صرف لوگ بدل گئے ہیں ۔ پرانے چہروں کی جگہ نئے چہروں نے لے لی ہے۔ سڑکیں اور گلیاں آج بھی ویسی کی ویسی ہی تھیں بلکہ بد سے بدتر ہوچکی تھیں۔ دکانیں بھی کم و بیش ویسی ہی تھیں جیسی کہ آج سے پینتیس سال پہلے تھیں بس فرق صرف اتنا تھا کہ تقریباً ہر دکان چار چار پانچ پانچ فٹ باہر کی جانب نکلی ہوئی تھیں۔ جس کی جتنی گنجایش تھی اتنی باہر ، یہاں تک کہ کچھ دکانیں تو سڑک تک نکل آئی تھیں۔فٹ پاٹھ ندارد اور جو دکانیں اپنی حدود میں تھیں وہاں کی فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ ہوچکا تھاجن پر کئی چھوٹے چھوٹے موبائل کے باکڑے، پان بیڑی کی ٹپریاں اور کھانے پینے کے ٹھیلے لگ گئے تھے۔پیدل چلنے والے سڑکوں پر چل رہے تھے اور گاڑیاں ایک دوسرے کو روندتی چلی جارہی تھیں۔ اتنے سالوں میں ایک فرق تو یہ آیا تھا کہ موٹرسائیکل اور گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا تھا۔جتنی گاڑیاں اتنے ہی ہارن۔ جس طرح کسی گلی میں ایک کتے کے بھونکتے ہی گلی کے تمام کتے بھونکنا شروع کردیتے ہیںٹھیک اسی طرح ٹرافک سگنل جیسے ہی لال سے ہرا ہوتا ایک ہارن بجتے ہی تمام کی تمام گاڑیوں کے ہارن چیخنے لگتے ہیں۔
اس ماحول کو دیکھ کر مجھ پر ہیبت سی طاری ہونے لگی۔ دل گھبرانے لگا اور میں فوراً گھر لوٹ آیا۔ میری بیوی ہمیشہ میرا چہرہ بڑی آسانی سے پڑھ لیا کرتی تھی، میں اُس سے کبھی کچھ نہیں چھپا پاتا تھا۔ میری شکل دیکھتے ہی پوچھنے لگی، ’’کیا ہوا؟ اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
’’نہیں ، کچھ بھی نہیں۔ ٹھیک ہوں۔ ‘‘
’’تم نے صبح بلڈ پریشر اور ڈائبے ٹیز کی گولیاں کھائی تھیں؟‘‘ اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں۔ کھائی تھیں۔‘‘
’’پھر اتنے پریشان کیوں ہو۔ اور اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے تمھیں؟‘‘
’’کہا نا کچھ نہیں۔ بس تھوڑی تھکان ہوگئی ہے۔ اتنا چلنے کی عادت جو نہیںرہی۔‘‘  میرے جواب پر وہ مطمئن ہوگئی۔ ’’تم سناؤ۔ تمھارا دن کیسا رہا۔ ‘‘
’’مت ہی پوچھوتو اچھا ہے۔ ‘‘
’’کیوں ؟ کیا ہوگیا؟‘‘
’’اوہو ، آپ کے جانے کے بعد میں آپا کے ساتھ بازار چلی گئی۔ وہاں ایک نوجوان لڑکے نے اپنی موٹر سائیکل سے ایک بزرگ کو ٹکر مار دی، یہی نہیں خود کی غلطی مان معافی مانگنے کے بجائے وہ تو اُس چچا کوہی گالیاں دینے لگا۔ مجھے تعجب تو تب ہوا جب میں نے دیکھا کے کسی کو بھی اس جھگڑے میں دلچسپی نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مگن دوڑا چلا جارہا ہے۔ جیسے انسانیت نام کی کوئی چیز ہی نہیں رہی اس شہر میں۔‘‘میں اپنی بیوی کے چہرے پر بھی وہی ہیبت محسوس کرنے لگا جو کچھ دیر پہلے مجھ پر طاری تھی۔ وہ بولے چلے جارہی تھی، ’’آپا بھی کہنے لگی کہ چلو چلو یہ تو روز کا ہے۔ بتاؤ یہ بھی کوئی بات ہوئی، اس سے اچھا تو دبئی تھا۔ مجال ہے جو وہاں اس طرح کی کوئی واردات ہوجائے۔ اور اگر ہو بھی جاتی ہے تو پولیس کے آنے سے پہلے ہی آس پاس موجود لوگ جھگڑے کو نپٹانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ مگر یہاں۔ ہائے توبہ۔‘‘
میرے اور اُس کے حالات تقریباً تقریباً ایک جیسے لگ رہے تھے۔
’’اوہو ، آپ خالی ہاتھ آئے ہیں کیا؟‘‘ اچانک بیوی کے سوال پر میں چونک پڑا۔
’’ہوں، ہاں ہاں۔‘‘
’’کیوں؟ آپ تو کتابستان گئے تھے نا؟ خالی ہاتھ لوٹ آئے۔ کوئی کتاب نہیں لائے ساتھ میں ۔ تعجب ہے!‘‘
’’ نہیں ۔ میں وہاں گیا ہی نہیں۔ دراصل میرا ایک پرانا دوست مل گیا تھا راستے میں ، اس کے ساتھ چائے پینے اور باتیں کرنے میں اتنا وقت گزر گیا کہ پتا ہی نہیں چلا۔‘‘پتا نہیں کیوں یہ جھوٹ میرے منہ سے اپنے آپ ہی نکل گیا، شاید میں نہیں چاہتاتھا کہ جن حالات سے وہ ابھی ابھی دو چار ہوئی ہے میں بھی اپنی پریشانی بتا کر اُسے دگنا کردوں۔
’’خیر ، اچھا ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ واپس لوٹتے ہی تم پھر سے پسارے جمع کرنا شروع کردوگے۔‘‘وہ مجھ پر ایک طنزیہ مسکراہٹ پھیکتی کمرے میں چلی گئی اور میں ہمیشہ کی طرح غصے کے کڑوے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
میری کتابوں کو وہ ہمیشہ ہی ’پسارا‘ کہا کرتی تھی۔ کتابیں جنھیں زندگی کا سرمایہ کہا جاتا ہے ، میرے گھر والے دنیاوی سرمایے کے لیے وہی میری زندگی سے دور کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ میرے دبئی چلے جانے کے بعد اُنھوںنے کتابوں کو آہستہ آہستہ ٹھکانے لگا نا شروع کردیا اور پھر مکمل طور پر دبئی منتقل ہوتے وقت  یہ کہہ کر کہ ’’کہاں اپنے ساتھ لادتے پھروگے‘‘ بچی کھچی کتابوں کو بھی ردّی میں تلوا دیا تھا۔ میں بھی مجبور تھا کہ پتا نہیں دبئی سے کب لوٹنا ہو ساتھ ہی یہ بھی خدشہ تھا کہ پتہ نہیں اب دوبارہ کب واپس آنا ہو، اس بیچ ان کتابوں کا کیا ہوگا!
آج اپنے شہر لوٹتے ہی مجھے کتابستان کی یاد آگئی اور پہلی ہی فرصت میں مَیں نے وہاں کا رُخ کیا مگر اس شہر کی افراتفری دیکھ کروہاں تک جانے کی ہمت ہی ٹوٹ گئی۔ ایک زمانے تک میں نے اپنے اس شوق کو دبائے رکھا تھا۔ اب دوبارہ مجھے موقع ملا ہے اپنا یہ شوق پورا کرنے کا۔ اور میں نے اپنی بیوی کو بھی تنبیہہ کردی ہے کہ اس بار اس کی زبردستی نہیں چلے گی ، میں کتابیں خریدوں گا اور ضرور خریدوں گا۔ آج تو میں خالی ہاتھ لوٹ آیا تھا مگر میرا ارادہ اٹل تھا۔ میں دوبارہ اس محلے میں جاؤں گا ، کتابستان میں جاؤں گا۔
کتابستان۔ اس نام کے ساتھ ہی میں ہمیشہ چالیس پچاس سال پیچھے چلا جاتا تھا۔ کتابستان وہ گلی تھی جہاں دونوں طرف کتابوں کی بے شمار دکانیں تھیں جن میں دکانوں کے باہر فٹ پاتھ تک کتابوں کا ڈھیر لگا ہوتا تھا۔ دکانوں میں کتابیں رکھنے کے کھانوں میں کتابیں ٹھونسی ہوتی تھی ، ٹیبل پر کتابوں کا انبارلگا ہوتا تھا اور تو اور زمین پر بھی کتابوں کے چھوٹے بڑے پہاڑ ہر طرف پھیلے ہوتے تھے۔ کم و بیش ہر دکان کا یہی حال ہوتا تھا۔ یہی نہیں اس گلی کی فٹ پاتھوں پر بھی چھوٹے چھوٹے باکڑے بنے ہوئے تھے جس میں کتابیں، کتابچے، پاکٹ بکس اورکلینڈر بھرے ہوتے تھے۔ وہاں آنے والے ہر خاص و عام کی تشنگی کی کتابیں وہاں موجود تھیں ۔ چاہے وہ ادب ہو یا مذہب، کھانا بنانے کی کتابیں ہوں یا فلمی رسائل ، بچوں کی دنیا ہو یا خواتین کی ڈائجسٹ اور ہر کسی کا پسندیدہ ابن صفی، مانو پوری اردو دنیا ایک گلی میں سمٹ آئی ہو ، ہر طرف صرف کتابیں ہی کتابیں۔ اسی لیے اس گلی کا نام ہی ’کتابستان‘ پڑ گیا تھا۔
اسکول جانے کےلیے مجھے اسی گلی سے گزرنا پڑتا تھا۔ پہلے پہل بچوں کی کتابیں پڑھنے کا شوق چرایا پھر آہستہ آہستہ کتابیں خریدنے کے لیے میں اپنے جیب خرچ سے پیسے بچا نے لگا۔ شروعاتی دور میں ’کھلونا‘، ’پیام تعلیم‘ ’نونہال‘  وغیرہ رسائل اور بچوں کی کتابیں میری پسندیدہ تھیں ۔ ایک بار ایک دکان کے باہر دکان سے لے کر سڑک تک پھیلی لمبی قطار دیکھ کر میں تعجب میں پڑگیا ، پوچھنے پر پتا چلا کہ ابن صفی کا نیا ناول ’ڈیڑھ متوالے‘ آج بازار میں آنے والا ہے جسے خریدنے کے لیے یہ قطار لگی ہے۔ میں اُس وقت تک ابن صفی سے ناواقف تھا۔ اتنی لمبی قطار دیکھ کر میرے اندر بھی اسے پڑھنے کا جوش ٹھاٹھے مارنے لگا۔ سڑک کے دوسری جانب  ایک باکڑا ایسا بھی تھا جو پڑھنے کے لیے کتابیں کرایے پر دیا کرتا تھا ، جس میں زیادہ تر ابن صفی، خواتین ڈائجسٹ اور پاکستانی رومانی ناول ہوا کرتے تھے۔ میں اُسی دن اُس باکڑے سے ابن صفی کا ایک پُرانا ناول کرایے پر لے آیا۔ آہا، کیا مصنف تھا وہ بھی، ایک بار جو ناول شروع کیا تو پھر ختم کرے بنا اُٹھنا مُحال تھا۔ چسکا اتنا تھا کہ جب دیکھو میں ابن صفی کی جاسوسی دنیا میں ہی کھویا رہنے لگا،اور جب کبھی گھر والوں کی ڈانٹ پڑتی تو اسکول کی کتابوں میں چھپا کر پڑھنے لگتا۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہم اس سے پیچھا چھڑا ہی نا سکے۔ دبئی میں بھی ہمارے ایک خیرخواہ نے ابن صفی کے تمام ناولوں کی PDF فائل مہیا کرادی تھی، یہ الگ بات ہے جو مزہ کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھنے میں ہے وہ PDF  میں کہاں۔ ابن صفی کی کتابیں کرائے پر لے کر پڑھنے کا سلسلہ یونہی جارہی رہا لیکن پڑھنے کے بعد اُن کتابوں کولوٹاتے وقت دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوتی ، اس لیے آہستہ آہستہ جیب خرچ کی رقم بچوں کی کتابوں کے بجائے ابن صفی کی کتابیں خریدنے پر صَرف کرنے لگا۔ آہستہ آہستہ یہ شوق جنون میں تبدیل ہوگیا اور پھر پیسے نہ ہونے کی صورت میں مَیں اپنے والد کی جیب سے پیسے چراکر کتابیں خریدنے لگا۔مُلّا کی دوڑ مسجد تک کے مصداق میں بھی چرائے ہوئے پیسےصرف کتابیں خریدنے پر ہی صَرف کرتا اس لیے پیسے چرانے کا کبھی پچھتاوا نہ ہوا۔
کتابستان کے بیچوں بیچ ایک دکان ایسی بھی تھی جس کے باہر مہینے کے آخر ی دنوں میں شامیانے باندھے جاتے، کرسیاں ٹیبل لگائے جاتے۔ جب پہلی بار میں نے یہ منظر دیکھا تو لگا شاید کسی کی شادی ہوگی لیکن جب اصلیت پتہ چلی تو میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ دراصل وہ دکان جس کا نام تو اب مجھے یاد نہیں ہےاس گلی کی سب سے قدیم اور بڑی دکانوں میں سے ایک تھی، جس کے پاس نہ صرف ہندستان کی بلکہ پاکستان کی کتابیں بھی آیا کرتی تھیں۔ ہندستان اور پاکستان سے شائع ہونے والے تمام بڑے اخبارات و رسائل بھی وہاں دستیاب تھے۔ ماہنامہ رسالوں میں شائع ہونے والے معموں کی آخری تاریخوں میں اس دکان کی فٹ پاتھ پر شامیانے باندھ کر ، کرسیاں ٹیبل لگا دی جاتی تھیں ۔ شوقین لوگ اس شامیانے میں بیٹھ کر معمہ بھرنے کی آخری تاریخوں میں اپنے اپنے حل اسی دکان میں جمع کراتے تھے۔ شامیانے میں کرسیوں پر معمے بھرتے لوگ، دکان کے سامنے لگے ٹیبل پر اپنے اپنے معمے جمع کرانے والوں کی بھیڑ  اور معمہ بھرنے والوں کا دیوانہ پن ،وہاں سے گزرتےہوئے لوگوں کا رُک کر یہ سب دیکھنا کسی تہوار کا سا سماں بنا دیتا تھا۔

بیوی کے ناک بھوں چڑھانے کے باوجود میں دوسرے دن صبح ناشتہ کرتے ہی کتابستان جانے کے لیے گھر سے نکل پڑا۔  پیتنس سال بعد اب راستے پہچاننا کافی مشکل ہوگیا تھا ، اب یہاں اتنے دوست بھی نہیں رہے تھے کہ اُن کا ساتھ حاصل ہوتا ،جو تھوڑے بہت تھے وہ اپنی اپنی نوکریوں پر نکل چکے تھے اور کچھ دوستوں کو تو میرے اس شوق سے ہی الرجی تھی ، یہ الگ بات تھی کہ شام تک اُن کا انتظار کرنا میرے لیے بھی مشکل تھا، میں تو جلد سے جلد کتابستان کے دیدار کرنا چاہتا تھا۔
گلی گلی گھومتے مجھے دو گھنٹے سے زیادہ ہوچکے تھے لیکن اب تک کتابستان کا کوئی پتا نہ چل سکاتھا۔ سڑک پر کھڑے چار پانچ لڑکوں سے میں نے پتہ پوچھنے کی کوشش کی جو اپنے اپنے موبائل میں مصروف تھے، ’’بچوں، کیا تم بتا سکتے ہو کہ کتابستان کہاں ہے؟‘‘
ایک بچہ میری طرف دو سیکنڈ تک حیرت سے دیکھتا رہا پھر بولا،’’ انکل، ہندستان اور پاکستان تو پتا ہے یہ کتابستان کیا کوئی نئی کرکٹ ٹیم ہے کیا؟‘‘ اور سب لڑکے زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔
دوسرے نے کہا، ’’ابے نہیں یار، مجھے تو لگتا ہے شاید آئی پی ایل کی کوئی نئی ٹیم ہوگی ۔‘‘ اور اچانک وہ سب سنجیدہ ہوکر آئی پی ایل کے مسئلے پر گفتگو کرنے لگے۔
 میں کھسیا کرآگے بڑھ گیا۔
بچوں کا رویہ مجھے کافی ناگوار گزرا۔ مجھے اپنے بچپن کے دن اور تربیت دینے والے کتابستان کے وہ تمام لوگ یاد آگئے۔
کتابستان کی وہ دکان یاد آگئی جہاںزیادہ خریدار تو دکھائی نہیں دیتے تھے مگر جب کبھی میں شام کو اس گلی سے گزرتا تو وہاں کھڑے رہنے کی بھی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ بہت سے آدمی اور بزرگ حضرات اس دکان میں بیٹھے اور کھڑے دکھائی دیتے۔ وہ سب ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول رہتے اور چائے کا دور چلتا رہتا۔ کچھ بڑی عمر کے نوجوان بھی ایک طرف دبکے ان کے باتیں سنتے نظر آتے۔ میں زیادہ تر اسکول سے لوٹتے وقت اس دکان میں جایا کرتا کیونکہ بچوں کے رسائل ، بچوں کی کہانیاں اور ابن صفی کے ناول سب سے پہلے اسی دکان میں آتے تھے۔ ایک بار شام میں کتابستان سے گزرتے وقت میں بھی وہاں کی بھیڑ دیکھ کر دکان کے ایک طرف چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ کسی نے مجھ سے کچھ نہ پوچھا، وہ لوگ کسی بات پر گرما گرم بحث میں لگے ہوئے تھے ، بڑی عمر کے نوجوان مجھ سے آگے کھڑے بڑے احترام کے ساتھ ان کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔ دکاندار ایک بڑا سا بہی کھاتہ کھولے اپنے کام میں مشغول تھا مانو اُسے اس بحث کی کوئی پروا ہی نہ ہو یا پھر یہ وہاں کا روز کا معمول ہو۔ وہ لوگ کسی پر لکھے ہوئے ایک مضمون پر بحث کررہے تھے جو شاید ابھی ابھی وہاں بیٹھے ہاتھ میں چھڑی پکڑے ایک مخنی سے بزرگ نے سنایا تھا ، اور جن پر وہ مضمون لکھا گیا تھا ، ایک ہاتھ میں موٹاسا پائپ اور بڑا کالا چشمہ لگائے وہیں موجود تھے۔ وہ بحث تو میری سمجھ سے بالاتر تھی لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے اُن کی گرما گرم بحث میں مزہ آنے لگا۔ پھر تو اس دکان میں جانا میرا تقریباً روز کا معمول ہی بن گیا۔ آہستہ آہستہ میں دکاندار اور دوسرے لوگوں سے مانوس ہونے لگا۔ تب مجھے پتا چلا کہ وہاں بیٹھنے والے زیادہ تر لوگ بڑی بڑی کتابوں کے مصنف تھے جس میں شاعر، افسانہ نگار، ناول نگار، مضمون نویس اورخاکہ نویس وغیرہ تھے۔ کئی لوگ صرف ان لوگوں کو دیکھنے آتے تھے اور بہت سے ادب کے قاری تھے جو اُن کی بحث و مباحثے سننے کے لیے وہاں کا رُخ کرتے۔ میں بھی ادب کے ایسے قاریوں میں شامل ہوگیا۔ بہت جلد بڑی عمر کے نوجوانوں سے دوستی ہوگئی، کم عمر ہونے کے باوجود بھی کبھی کسی نے مجھ سے یہ نہیں کہا کہ میں ان سب باتوں کے لیے بہت چھوٹاہوں بلکہ وہ اُن ادیبوں کے بارے میں مجھے معلومات دیتے وہاں ہونے والے مباحثوں کو مجھے سمجھانے کی کوشش کرتے ۔ ایک دن دکان کے انچارج چچا یوسف نے مجھے سمجھایا کہ ابن صفی تو ٹھیک ہے لیکن اب مجھے ادب بھی پڑھنا چاہیے اور پھر دھیرے دھیرے میں ادب کی دوسری اصناف بھی پڑھنے اور سمجھنے لگا ۔ پھر آہستہ آہستہ وہاں ہونے والی باتیں بھی مجھے کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگیں۔ کئی ادیبوں سے میرا تعارف بھی ہوگیاتھا لیکن پھر بھی میں اُن کے احترام میں ایک طرف دبکا اُن کی باتیں سنا کرتا کبھی اس میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی ، حالانکہ اب بڑی عمر کے نوجوان بھی وقتاً فوقتاً ان بحثوں میں اپنی رائے کا اضافہ کرنے لگے تھے ۔

 میں تھک کر ایک چائے کے ٹھیلے پر بیٹھ گیا۔ میں نے چائے پیتے پیتے ٹھیلے والے سے بھی کتابستان کے بارے میں جاننا چاہا مگر اس نے بھی لاعلمی ظاہر کی۔ ٹھیلے کے بغل کی فٹ پاتھ پر دو شخص کھڑے دبئی کی مشہور ڈش ’شوارما‘ کھارہے تھے۔میں نے جب اُن سے کتابستان کا پتا پوچھا تو وہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنے لگے،  میں نے اپنا سوال تھوڑا آسان بنانے کے لیے دوبارہ پوچھا، ’’کتابستان، وہی گلی جہاں بہت ساری کتابوں کی دکانیں ہیں۔‘‘ پہلا شخص کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑانے لگا، ’’کتابوں کی دکانیں……‘‘ تبھی دوسرے نے دخل دیتے ہوئے کہا، ’’ارے وہ لائبریری کی تو بات نہیں کررہے جو ای.آر. روڈ پر ہے؟‘‘
’’جی نہیں بھائی، میں کسی لائبریری کی نہیں بہت ساری دکانوں کی بات کررہا ہوں جہاں کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔‘‘میں نے جھنجلاتے ہوئے ان کی تصحیح کی۔
پہلے نے پھر پوچھا’’اچھا وہ تو نہیں جہاں قرآن حدیث کی کتابیں ملتی ہیں؟‘‘  
اب میں خود شرمندگی محسوس کرنے لگا ،بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی میں نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ’’جی ہاں وہی وہی…  کیا آپ جانتے ہیں؟‘‘
’’ہاں کہیں دیکھی تو تھی وہ دکان ، شاید ای.آر. روڈ پر کہیں……‘‘
میں نے ان کا شکریہ ادا کرنے میں ہی عافیت جانی ، اب کسی اور سے پوچھنے کی ہمت ہی نہیں ہورہی تھی۔میں خود ہی ہر گلی میں گھس کر اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔

کالج کے بعد ابّا نے زبردستی مجھے دبئی کمانے کے لیے بھیج دیا تھا، دو سال بعد جب واپس آیا تو یہاں پر میری شادی کی تیاریاں کی جاچکی تھیں ، بس چٹ منگی پٹ بیاہ کر دوبارہ دبئی لوٹ گیا۔ پھر جب ایک سال بعد بمبئی لوٹا تو بیوی اپنا سارا سازو سامان باندھے ساتھ چلنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔ تمام ضروری خریداری (جس میں کتابیں شامل نہیں تھی) کر دوبارہ دبئی جو گیا تو آج اپنا سب کچھ سمیٹ تمام ذمہ داریوں سے دستبردار واپس لوٹا ہوں۔ اتنا پیسہ تو کما ہی چکا ہوں کہ بقیہ زندگی چین سے کٹے گی، اور شاید اب میں اپنے وہ شوق بھی پورے کرسکوں جن کا گلا گھونٹ میں اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بنانے کے لیے یہ ملک چھوڑ گیا تھا۔
میرا ایسا ہی ایک شوق تھا ، کتابیں! مجھے آج بھی یاد ہے ، جب امّی اسکول شروع ہوتے ہی بازار سے ہمارے لیے نئی کتابیں خرید کر لاتی تو میں سب سے پہلے اُن کتابوں کو کھول کر اُس کی مہک اپنے اندر جذب کرتاتھا۔ ایک عجب سی خوشبو ہوتی تھی اُن کتابوں میں۔ بچوں کی کتابوں اور ابن صفی کے ناولوں میں بھی اُسی طرح کی مہک آتی ۔ میں اکثر کتاب پڑھتے پڑھتے بیچ بیچ میں اُسے سونگھنے لگتا۔ میرے دوست میری اس حرکت پر بہت ہنستے تھے مگر اُنھیں کیا معلوم کہ کتابوں میں نہ صرف ایک کشش ہے بلکہ اس کی مہک میں بھی جادوہے۔ جدید دنیا میں انٹرنیٹ نے کتابوں کی کمی تو پوری کردی ہے لیکن کتابوں سے آنے والی مہک کہاں سے لائیں گےاور تو اور کتابستان میں دکانوں پر لگنے والی قطاروں، شامیانے ، مختلف موضوعات پر ہونے والی گرما گرم بحثوں اور کتابوں کے مصنفوں کوقریب سے دیکھنے ، ملنے کا متبادل شاید ہی کوئی ہو۔ ہاں آج کل فیس بک پر بھی نئےنئے دوست بننے لگے ہیں، بحث و مباحثے ہونے لگے ہیں اور ایک دوسروں کی تخلیقات کی تعریفیں بھی ہونے لگی ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے وہ جھوٹ اور فریب کی دنیا لگتی ہے جہاں ہر کوئی ایک بٹن دبا کر ایک دوسرے کو خوش کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اب بتائیے بھلا لکھ لکھ کر بھی کوئی بحث کرسکتا ہے ! آدمی لکھتا کچھ ہے ،پڑھنے والا پڑھتا کچھ ہے اور سمجھنے والا کچھ بھی نہیں سمجھ پاتا، بحث کہیں کی کہیں چلی جاتی ہے۔اور ویسے بھی زیادہ تر ادبی بحثیں اب ادبی کم اور مذہبی زیادہ ہوگئی ہیں۔ جسے دیکھو اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ مذہبی ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔

 گلی گلی گھومتے ہوئے اچانک ایک گلی میں فٹ پاتھ تک پھیلی ہوئی حلوائی اور نان چاپ کی دو دکانوں کے بیچ مجھے وہی دکان نظر آئی جہاں کبھی ادیبوں کی بیٹھکیں ہوا کرتی تھیں۔ میں حیران تھا کہ یہ دکان یہاں کہاں سے آگئی،یہ دکان تو کتابستان کے بلکل بیچوں بیچ میں تھی!  خیر میں جلدی جلدی جلیبی ،گلاب جامن کے بڑے بڑے تھالوں اور بڑے سے پھیلے ہوئے نان چاپ کے توّوں کے بیچ میں سے گزر کر اس دکان کے دروازے تک پہنچا۔ آس پاس کی دکانوں پر اُمڑی بھیڑ اور نان چاب اور جلیبیوں کے لیے چیختے گراہکوں کے شور شرابے سے بے خبر دکان کے اندر ایک بزرگ اپنے ٹیبل پر ایک بڑا سا بہی کھاتا کھولے اپنے کام میں مصروف تھے۔دکان میں صرف دو ٹیوب لائٹ جل رہی تھیں جو اتنی بڑی دکان کے لیے ناکافی تھی۔ آج بھی وہ دکان ویسی ہی تھی جیسی پینتیس سال پہلے ہوا کرتی تھی۔ بس ایک دو ٹیبل نئے آگئے تھے اورکچھ نئی کتابیں نظر آرہی تھیں۔
میرے دکان میں داخل ہوتے ہی ٹیبل والے چچا نے مجھے ایک نظر دیکھا اور پھر اپنے کا م میں مصروف ہوگئے۔ میں کتابیں دیکھنے لگا، بہت سالوں بعد کسی دکان میں کتابوں کو اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ آخر کار میری محنت رنگ لے آئی۔ میں نے ایک لمبی سانس کھینچی، میں چاہتا تھا کہ ابھی اور اسی وقت دکان میں موجود تمام کتابوں کی مہک میرے نتھنوں میں بھرجائے۔
 میں نے کبھی بمبئی سے کتابیں منگوانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں، کیا کرتاوقت اور حالات نے مجھے بھی دوسروں کی طرح صرف پیسہ کمانے والی مشین بنادیا تھا۔آج کتابوں کے بیچ ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ پیسے کمانے کی دھن میں مَیں کتنا مگن تھا۔ہاں البتہ میرے کچھ پاکستانی دوست اپنے وطن سے وقتاً فوقتاً کتابیں منگوا لیا کرتےتھے۔ اُن کے گھر جاتے ہی میں سب سے پہلے کتابوں کے لیے اِصرار کرتا۔ کتاب ملتے ہی ہمیشہ کی طرح پہلے اُس کی خوشبو اپنے اندر جذب کرتا پھر سرسری طور پر سارے مضامین دیکھ ڈالتا اور اگر بہت ہی اچھی کوئی کتاب ہوتی تو بیوی سے چھپا کر اُن سے مانگ کر گھر لے جاتا اور اگر وہ مجھے دینے میں آناکانی کرتے تو میں ایک آدھ کتابیں چھین کر لے بھی آتا۔ یہی نہیں بچپن میں پیسے چوری کرنے کے ہُنر کو یہاں بھی آزماتا۔ پہلے کتابیں خریدنے کے لیے پیسے چراتاتھا اب کتابیں براہِ راست چرالیا کرتا تھا۔ ضمیر تب بھی مطمئن تھا اور اب بھی ہے۔
مجھے الماری میں لگی کتابیں دیکھتے ہوئے اُن بزرگ نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا اور پوچھا، ’’کہیے ، کیا چاہیے آپ کو؟‘‘
’’جی ، دیکھ رہا ہوں۔ کیا ابن صفی کے ناول ہیں آپ کے پاس؟‘‘
’’ہاں، کون سے چاہیے آپ کو؟ عمران سیریز یا فریدی؟‘‘
جواب سن کر میری بانچھیں کھل گئیں کہ آج بھی ابن صفی کے ناول پڑھے جاتے ہیں۔
’’کون کون سے ہیں آپ کے پاس، بتائیے؟‘‘
’’  فلحال تو نہیں ہے، مگر آپ کے آرڈر دینے پر ہم منگوا دیں گے۔‘‘
میں نے اپنے آس پاس کی کتابوں پر نظر ڈالی۔
’’اور منٹو کی کتابیں؟‘‘
’’جی ہاں ، وہ بھی مل جائیں گی۔ مگر آرڈر پر؟‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا، ’’تو یہاں آپ کے پاس اس وقت کون سی کتاب موجود ہے؟‘‘
’’یہ سب ہیں نا، دیکھیے ان میں سے آپ کو کیا چاہیے؟‘‘
وہاں لگی تقریباً تمام کتابیں نئے نئے مصنفوں کی تھیں جن کے نام بھی میں نے نہیں سننے تھے، اس لیے انتخاب کرنا تھوڑا مشکل ہورہا تھا ۔
’’جناب یہاں چچا یوسف ہوا کرتے تھے، وہ اب کہاں ہیں؟‘‘
’’کون ، یوسف بھائی؟ اوہو اُن کا تو ابھی حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ ویسے بھی وہ کئی سال پہلے نوکری چھوڑ چکے تھے۔ اُن کی عمر جو زیادہ ہوچکی تھی۔ اب پچھلے چار سالوں سے میں ہی یہاں کا انچارج ہوں۔‘‘
چچا یوسف کے انتقال کی خبر سن کر افسوس ہوا۔ جب بھی میں کتابیں خریدنے آتا تھا وہ بنا بولے مجھے کتابوں پر رعایت دے دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی دیتے تھے کہ ’’برخوردار ، تمھیں خاص رعایت دے رہاہوں، اسے ضرور پڑھنا۔صرف خرید کر رکھ نہیں دینا۔‘‘ مجھے ان کی یہ بات آج تک یاد ہے۔
’’اچھا بھائی صاحب، ایک بات اور پوچھنی تھی؟‘‘
’’پوچھیے حضرت۔‘‘
’’یہاں اور بھی دکانیں ہوا کرتی تھیں، اب صرف یہ دکان دکھائی دے رہی ہے؟ باقی دکانوں کا کیا ہوا؟‘‘
’’کیا کہیں جناب، اب لوگوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق ہی کہاں رہا! جسے دیکھیے بس موبائیل میں مصروف ہے ۔اب تو کتابیں بھی موبائیل پر آگئی ہیں۔‘‘
یہ وہ سچائی تھی جس سے منہ نہیں موڑا جاسکتا تھا،خیر میںنے بڑے میاںسے اپنی پریشانی کا ذکر کیا:
’’ مجھے اس گلی کا پتا ڈھونڈنے میں بھی کافی دقت ہوئی ۔ دراصل میں اس شہر میں پینتیس سالوں بعد جو لوٹا ہوں۔‘‘
’’ یہ کون سا مشکل کام تھا جناب، آپ کسی سے بھی ای . آر. روڈ پوچھتے ،تو کوئی بھی بتا دیتا۔‘‘
’’وہ بھی مجھے کہاں یاد تھا، میں تو اس گلی کو ایک ہی نام سے جانتا ہوں، کتابستان! میں کل سے یہ جاننے کی کوشش میں لگا تھا کہ کتابستان کہاں ہے، مگر کوئی بتا ہی نہیں سکا ۔‘‘
’’کیا!  تو آپ ’کتابستان‘ ڈھونڈ رہ تھے!؟‘‘
’’جی ہاں!کیوں کیا ہوا؟‘‘
میرے جواب پر بڑے میاں بہت زور زور سے ہنسنے لگے ۔ہنستے ہنستے اُنھوں نے کہا، ’’اب اس گلی کا نام کتابستان نہیں رہا جناب!  آپ کو چاہیے تھا کہ آپ ’کھاؤ گلی کاپتہ پوچھتے، کھاؤ گلی۔ اب اس گلی کو پورا شہر ’کھاؤگلی‘ کے نام سے جانتا ہے۔‘‘ میں چند منٹوں تک حیرت سے اُنھیں دیکھتا رہا۔
پھر اپنے آس پاس کی کتابوں کا معائنہ کرنے لگا۔ ایک پُرانی کتاب پر نظر پڑتے ہی میں نے اُسے فوراً اُٹھا کر اُسے بیچ میں سے کھول کر اُس پُرانی کتاب کی مہک اپنے اندر جذب کرنے لگا لیکن میرے نتھنے اُس کتاب کی مہک کے بجائے جلیبی، گلاب جامن، چکن، نان چاپ ، سیخ کباب اور پتا نہیں کن کن پکوانوں کی خوشبوؤں سے بھرگئے ۔


Question beyond general knowledge by Syed Mohammad Ashraf

Articles

جنرل نالج سے باہر کا سوال

سید محمد اشرف

گول چبوترے پرکھڑے ہوکر چاروں راستےصاف نظرآتے ہیں، جن پر راہ گیر سواریاں اورخوانچے والے چلتے رہتے ہیں۔ چبوترے پرجو بوڑھا آدمی لیٹا ہے، اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹےہیں۔ کہیں کہیں پیوند بھی لگے ہیں۔ اس کی داڑھی بےتریب ہے اورچہرے پرلاتعداد شکنیں ہیں۔ آنکھوں کی روشنی مدھم ہوچکی ہے۔ وہ راستے پرچلنے والے ہرفرد کوبہت حسرت سے دیکھتاہے۔ جب کوئی خوش خوش اس کے پاس سے گزرتا ہے تو وہ دور تک اوردیر تک اسے دیکھتا رہتا ہے۔

کسی طرف سے ایک دس گیارہ برس کی بچی آئی۔ وہ اسکول کی پوشاک پہنے ہوئے ہے، بستہ کندھے پرلٹکا ہے۔ ناشتہ کاڈبہ ہاتھ میں دباہے۔ لڑکی کے بال سنہری ہیں۔ چہرہ گلابی ہے، اورآنکھوں میں ایک سادہ سی چمک ہے۔ بے فکری ، خوشحالی اور بچپن جب ایک جگہ جمع ہو جائیں توآنکھوں میں ایسی ہی چمک پیدا ہو جاتی ہے۔

اسے آتے دیکھ کر بوڑھے کی آنکھو ں میں کچھ چمکا۔ جب وہ پاس سے گزری تو بوڑھے نے ہاتھ بڑھا کر اس کے پیرچھوئے۔ بچی جھجک کرکھڑی ہوگئی۔ ایک لمحہ تک بوڑھے کودیکھتی رہی۔پھر اس کی آنکھوں میں خوف چمکا۔گھرکی نصیحتیں ذہن میں کلبلائیں، لیکن بوڑھے کے چہرے پر اس نے جانے کیا دیکھا کہ آنکھوں کاخوف مدھم پڑگیا اور بھولا بھالا چہرہ دردمندی کے جذبے سے سرشار ہوگیا۔ اس نے بہت اپنائیت سے پوچھا۔

’’کیا بات ہے بابا۔ بھوک لگی ہے؟‘‘

بوڑھا دھیمے سے مسکرایا۔

’’ہاں۔ لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘

لڑکی کی آنکھوں میں حیرت جاگی، اس نے بوڑھے کاہاتھ اپنے پیروں پر سے آہستگی کے ساتھ ہٹایا اورچبوترے پراس کے پاس بیٹھ کرپوچھا، ’’میرے پاس پچاس کاسکہ ہے۔ تم لوگے؟ تمہیں ضرورت ہے؟‘‘

’’ہاں ضرورت ہے، لیکن میں نے تمہیں اس لیے نہیں روکا۔‘‘

لڑکی کی آنکھیں پھیل گئیں۔

’’پھر تم نے مجھے کاہے کو روکا بابا؟‘‘

بوڑھے نے بہت نخیف آواز میں اس سے کہا، ’’منی! بڑا احسان ہوگا اگر تم میرا ایک کام کر دو۔‘‘

بچی نے اپنا بستہ اتارکر چبوترے پر رکھا اور بوڑھے کے قریب کھسک کربہت اپنے پن کے ساتھ کہا، ’’بتاؤ کیا کام ہے تمہارا۔ میرے کرنے کا ہوگا تو میں کردوں گی۔ نہیں تو پاپا سے کہہ کرکرادوں گی۔ وہ بہت اچھے ہیں۔ سب کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس دفعہ سردیوں میں انہوں نے پڑوس کے گھر میں دوکمبل دیے تھے۔ جمیلہ کی اماں اور اس کے بھائی کوبہت سردی لگتی تھی۔‘‘ بوڑھے نے یہ سب باتیں بہت لاتعلقی سے سنیں اور کہا، ’’تم میراایک کام کر دو۔ مجھے ایک بات بتادو۔‘‘

’’کیا بات ہے۔ پوچھو۔ معلوم ہے جنرل نالج میں سب سے زیادہ نمبر میرے آئےہیں کلاس میں۔‘‘

’’کس چیز میں منی ؟‘‘

’’یہ۔۔۔ یہ ایک چیزہوتی ہے۔ مطلب ایک سجبیکٹ ہوتا ہے۔ اس میں ساری باتیں آجاتی ہیں۔ جیسے کون سا پہاڑ سب سے اونچا ہے؟ کون سی ندی سب سے بڑی ہے اور بہت ساری باتیں۔ تم مجھ سے کوئی بھی سوال پوچھ کر دیکھ لو مگرجلدی سے پوچھ لو۔ دیر ہوجائے گی توممی ڈانٹیں گی اورتمہارے پاس بیٹھا دیکھ لیا تو پاپا تو پٹائی ہی کردیں گے۔ اب جلدی سے پوچھ لو۔‘‘

’’منی۔‘‘ بوڑھے نے نیم درازہوکر بہت رازداری کے لہجے میں قریب آکر، اتنے قریب کہ بچی نے اس کے چہرے کی ساری شکنیں گن لیں، کہا، ’’مجھے یہ بتادو کہ میری عمر کتنی ہے اورمیں کب مروں گا؟‘‘

بچی کا ہاتھ بستہ پرجہاں رکھا تھا وہیں رکھا رہ گیا۔ اس کی نگاہیں بوڑھے کےچہرے پرجم کر رہ گئیں۔ پھر اچانک وہ کھلکھلا کر ہنسی، ’’واہ، یہ ہمیں کیا معلوم۔ یہ تو تمہارے ابا کومعلوم ہوگا کہ تمہاری کتنی عمر ہے۔ اور تم کب مروگے یہ اللہ میاں کو معلوم ہے۔‘‘

کئی راہ گیر ان کے پاس آکر جمع ہوگیے۔ بوڑھے نے ان کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’کوئی مجھے بتادے کہ میری عمرکتنی ہے اورمیں کب مروں گا۔ یہ بچی نہیں بتا پا رہی۔ تم بتا دو بیٹے۔‘‘ اس نے ایک نوعمر لڑکے سے کہا جس کےہاتھوں میں کرکٹ کا بلا تھا۔ وہ لڑکا آگے بڑھا، اس کے چہرے پرذہانت جگ مگ جگ مگ کر رہی تھی۔

’’بابا۔ جب آپ پیدا ہوئے۔۔۔ نہیں نہیں ۔جب آپ چھوٹے تھے، تب کی کوئی بات یاد ہے؟ کوئی بہت ہی خاص بات اگر آپ بتادیں توہم آپ کی عمر بتا دیں گے۔‘‘

’’ہاں مجھے یاد ہے۔ اس وقت سب لوگ لڑرہے تھے۔ کچھ لوگ ہارگیے تھے۔‘‘ بوڑھے نے سوچ کر کہا۔

’’تو آپ پہلی جنگ عظیم کے وقت پیدا ہوئے ہوں گے۔ مگر آپ کی عمرتو سو سال سے کم معلوم نہیں ہوتی۔ آپ شاید کسی اورجنگ کی بات کررہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے حساب سے تو آپ ساٹھ پینسٹھ سال کے ہوں گے صرف۔‘‘ لڑکے نے اپنا بلا چبوترے پررکھ دیا اور وہیں بیٹھ گیا۔

’’نہیں بیٹے۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’پہلی جنگ عظیم توکل کی بات ہے۔‘‘

بھیڑمیں سے ایک جوان شخص آگے نکلا اور حساب لگاکر بتایا، ’’آپ کی عمر تقریباً ایک سوپچیس سال ہے1857ء کے واقعہ کو لگ بھگ اتنا ہی وقت بیت چکا ہے۔‘‘

بوڑھے کے مٹیالے سے ہونٹ آہستہ سے کھلے۔ اس سے کچھ بولا نہیں گیا۔ پھر اس نے بہت دقت کے ساتھ کہا۔

’’۱۸۵۷ء کی جنگ توابھی کا واقعہ ہے۔‘‘

بھیڑمیں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ لیکن بوڑھے کے چہرے پر پھیلی ہوئی سنجیدگی نے سب کومجبور کیاکہ کوئی اس پرشک نہ کرے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اتنے میں بچی نے تاریخ کی کتاب کا ایک سبق یاد کیا اوراچھل کربولی۔

’’تم پورے ۲۲۳سال کے ہو۔ پانی پت کی تیسری لڑائی ۱۷۶۱ میں ہوئی تھی۔‘‘ بوڑھے نے اپنا سرانکار میں ہلایا۔ بھیڑمیں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ شام بڑھ رہی تھی اورساے پھیلنے لگے تھے۔ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ سب نے اپنی اپنی معلومات کوکھنگالا۔ ایک ۳۵۔۴۰ برس کے آدمی نے بڑھ کرکہا، ’’با با ، آپ کی عمر ۴۲۸ برس ہے۔ اکبرنے ہیمو کو پانی پت کی دوسری جنگ میں ۱۵۵۶ میں ہرایا تھا۔‘‘

بوڑھے نے بہت مایوسی کے ساتھ اپنا سرنفی میں ہلایا۔ لوگ جنگوں کو یاد کرتے رہے اور حساب لگاتے رہے اوربوڑھے کواس کی عمر بتاتے رہے۔ اور وہ اپناسرنفی میں ہلاتا رہا۔ اتنے میں بھیڑ کو چیرتا ہوا بچی کو ڈھونڈتا ہوا اس کا باپ آگیا۔ اس نے بچی کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ بچی خوف زدہ نظرآرہی تھی، لیکن ہمت کرکے اس نے اپنے باپ سے کہا ’’پاپا ، ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ان کے سوال کا جواب دیں گے ورنہ اپنے پاپا سے کہیں گے۔ اب آپ آگیے ہیں۔ آپ ہی بتا دیجئے کہ ان کی عمر کیا ہوگی اوریہ کب مریں گے ؟‘‘

بچی کے شفیق باپ نے بچی کاہاتھ چھوڑا۔ اب تک جوبیتا تھا ، وہ لوگوں سے سنا اور بوڑھے بابا کوغور سے دیکھ کرکچھ سوچا اورپھر بوڑھے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ تب بوڑھے نے پیوند لگے لبادے سے اپنے گھٹنے چھپائے۔ اتنے میں بھیڑ کے اندر سے ایک شخص نہایت اعتماد کے ساتھ باہرنکلا اوربولا،’’ہونہ ہویہ آدمی سکندراعظم کے وقت میں پیدا ہوا تھا۔‘‘

اس دفعہ بوڑھے سے پہلے بچی کے باپ نے نفی میں سر ہلایا اور دوزانو ہوکر بوڑھے کے پاس بیٹھ گیا۔ اوپر سے نیچے تک بوڑھے کو دیرتک دیکھا اورپھر سرآگے کرکے اعتماد کے ساتھ آہستگی کے لہجے میں بوڑھے سے مخاطب ہو کرکہا، ’’بابا میں تمہاری عمربتادوں اور یہ بتادوں کہ تم کب مروگے؟‘‘

بھیڑمیں سب کے چہرے چمکنے لگے۔ بچی کی آنکھیں روشن ہوگئیں۔ سب بہت اشتیاق کے ساتھ بچی کے باپ کودیکھنے لگے۔ بچی کے باپ نے بہت محبت سے بوڑھے کے گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ کپڑوں پر نہیں بوڑھے کے ننگے گھٹنوں پرہیں۔ تب اس نے بھیڑ کے افراد کو فرداً فرداً دیکھا، چوراہے کو دیکھا، چاروں سمتوں میں جاتے ہوئے راستوں کو دیکھا، ہر طرف پھیلی ہوئی آبادی کو دیکھا اورسفاک آسمان کو دیکھا۔

’’با با۔‘‘ بچی کے باپ نے بہت واضح الفاظ میں کہنا شروع کیا، ’’بابا! تم ہمیشہ سے ہواوراس دنیا میں کبھی نہیں مرپاؤگے۔‘‘

ننھی بچی، نوعمرلڑکا، جوان آدمی اوربھیڑ کا ہرفرد حیران ہوا جب انہوں نے دیکھا کہ اس بار بوڑھے کا سراثبات میں ہلاتھا۔
—————————————

Ram Lila Garden a Short Story by Rehan Kausar

Articles

رام لیلا میدان

ریحان کوثر

آج اتوار کا دن تھا لیکن آم گاؤں کا رام لیلا میدان بالکل خالی تھا۔ چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا۔ گاؤں کے کچھ لوگ گھروں میں اپنی اپنی کاہلی اور سستی کے غلاف میں دبکے بیٹھے تھے۔ کچھ ذمہ داریوں کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور کچھ لوگ نیند کے قید خانے میں مقید تھے۔
سردی کی خوبصورت صبح اور میدان میں کوئی نہیں ؟ بڑا عجیب معلوم ہو رہا تھا۔نرم و ملائم دھوپ میدان کے چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ دوسرے گاؤں سے الگ یہاں کا رام لیلا میدان، نہایت ہی سر سبز و شاداب تھا۔ اس میدان کے درمیان میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو بانس اور بلیوں کی مدد سے زبردستی کھڑا کیا جاتا تھا۔ اسی بغیر گھانس والے حصے پر عید کے موقع پر پیش امام صاحب بھی نماز کے لیے کھڑے ہوتے کیونکہ زمین کے آ دھے حصے میں عید کی نمازِ ادا کی جاتی اور صفیں میدان کے درمیان سے شروع ہوتیں ۔بقیہ آ دھے حصے میں عید کا میلا لگتا۔
دراصل یہ کھیل کود کا میدان تھا، ایک چھوٹا گارڈن بھی اور ساتھ ہی رام لیلا کا میدان بھی۔ یہیں عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر نمازیں بھی ادا کی جاتی تھیں ،اسی لیے یہ جگہ گاؤں کی مسلم آبادی میں عید گاہ کے طور پر مشہور تھی۔ میدان کے تینوں طرف کی دیواریں بالکل سالم تھیں ،صرف پیچھے کی ایک دیوار تھوڑی سی ٹوٹ گئی تھی جس کی وجہ سے مین گیٹ کے علاوہ ایک اور راستہ وجود میں آچکا تھا۔
عبدل چاچا کے کبوتر خانے کے تقریباً سبھی دروازے کھل چکے تھے۔ میدان میں ایک طرف جہاں جہاں عبدل چاچا نے دانے اور پانی کی کٹوریاں رکھی تھی وہاں گٹرگوں کا کیرتن کرتے ہوئے سبھی کبوتر اپنی اپنی پیٹ پوجا میں مگن تھے۔ برجو کاکا کی مرغیاں بھی میدان میں چہل قدمی کرتے ہوئے گشت کر رہی تھیں ۔کاکا کا مرغاصبح کی اذان کا فریضہ ادا کر کے ٹہل رہا تھا۔ بانو بی کی بکریاں اپنے میمنوں کے ہمراہ میدان کی دوسری جانب اپنی خوراک کی تلاش میں مصروف تھیں ۔
ادھر میدان کے سب سے قریبی مکان کی چھت پر شویتا ابھی ابھی چارپائی پر چادر بچھا کر چاول اور مونگ دال کے پاپڑ ڈال کر صبح کا ناشتہ بنانے اندر جا چکی تھیں ۔ اسی طرف رام پرساد اپنی چھت پر لگے ڈش ٹی وی کے تاروں کو جوڑنے کی تگ و دو میں صبح سے پریشان تھے۔ یہاں سے دیکھنے پر ہر چھت پر ڈش ہی ڈش اور باقی جگہوں پر الیکٹرک اور کیبل کے تاروں کا جال بچھا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ بڑے بڑے بینر ہورڈنگ اور موبائل ٹاورز بھی چاروں طرف نظر آتے ہیں ۔
گاؤں تو بس نام ہی کا تھا ۔ شکل و صورت سے کسی مصروف شہر سے کم نہ تھا۔ آس پاس رام پرساد کا وہ واحد مکان تھا جہاں سے سارا میدان دکھائی دیتا ہے۔ پڑوس کی سلمیٰ ابھی ابھی اپنی چھت پر لگی رسیوں پر گیلے کپڑے ڈال کر نیچے اتری تھی۔ ایک تو دن چھوٹا اس پر صرف تین سے چار گھنٹے ہی دھوپ سلمیٰ کی چھت کو میسر تھی۔ باقی دھوپ سورج کے زاویے بدلتے ہی سامنے والے رام پرساد کی دو منزلہ عمارت کھا جایا کرتی تھی۔ یہ تمام مکان میدان کے ایک طرف تھے اور میدان کے باقی تینوں جانب سڑکیں تھیں جہاں مسلسل کار، موٹر سائیکل اور اسکوٹی پر لوگ آتے جاتے نظر آرہے تھے۔
صبح کے تقریباً نو بج چکے تھے۔ سڑکوں پر گاڑیوں اور آنے جانے والوں کی تعداد مسلسل بڑھنے لگی تھی۔ میدان کے سامنے کی رِنگ روڈ پر اب بڑے بڑے ٹرک اور بسیں تیزی سے دھول اڑاتی ہوئی دوڑ رہی تھیں ۔ لیکن اب تک میدان بالکل خالی تھا۔ دور دور تک مرغیوں ، کبوتروں اور بکریوں کے سوا کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔ نہ آدم نہ آدم زاد۔۔۔!
تبھی گیٹ پر رام کھڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ ایک ہاتھ سے مسلسل گیٹ کے ایک حصے کو آگے پیچھے کر رہا تھا۔۔۔ دروازے سے نکلنے والی چوں چوں کی آوازیں شاید اس کے کانوں کے پردے تک تو پہنچ رہیں تھیں لیکن اس کی سوچ و فکر میں کوئی خلل واقع نہ ہوا۔ اس نے دور تک پھیلے ہوئے میدان پر ایک نظر ڈالی اور دھیرے دھیرے آ گے بڑھنے لگا۔
رام کے ہاتھ میں کرکٹ کے بلے جیسا کچھ نظر آ رہا تھا مگر اس کی لمبائی کرکٹ کے بلے سے کچھ کم تھی۔ وہ بلا نہیں تھا،وہ تو کپڑوں کی دھلائی میں استعمال ہونے والی پیٹنی تھی۔
لیکن اس پیٹنی کا میدان میں کیا کام؟ آخر رام اس پیٹنی کے ساتھ یہاں اس میدان میں کیا کر رہا تھا؟ مالی اعتبار سے رام کا تعلق اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانے سے ہے اور وہ ایک عمدہ قسم کا بلا تو خرید ہی سکتا تھا۔اگر خرید بھی لیتا تو کرکٹ آ خر کس کے ساتھ کھیلتا؟ اس کے علاوہ میدان میں تو کوئی اور تھا ہی نہیں ۔ رام اب بالکل وہاں کھڑا تھا جہاں دسہرے کے دن راون کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ رام چاروں طرف دیکھنے لگا کہ کوئی آئے تو کرکٹ کا کھیل شروع کیا جائے۔ یہ تو اس کھیل کی ریت ہے کہ بلے بازی کرنے کے لیے گیند باز کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ وہ بے چین نظروں سے ادھر ادھر دیکھتا رہا اور یہ بھی سوچتا رہا کہ آخر دنیا میں وہ کون کون سے کھیل ہیں جو بغیر مخالفین کے کھیلے جاتے ہیں ۔
’’کاش کوئی آئے۔۔۔ اور وہ گیند بازی کے لیے بھی تیار ہو جائے۔۔۔ تو بڑا مزا آئے۔۔۔‘‘
رام بڑبڑاتا ہوا دوبارہ چاروں طرف دیکھنے لگا، لیکن اب تک وہ میدان میں تنہا ہی کھڑا تھا۔
تبھی پیچھے ٹوٹی دیوار والے راستے سے رحیم بھی میدان میں داخل ہوا۔ رام نے جیسے ہی رحیم کو دیکھا، مسکرا اٹھا۔۔۔
’’ارے واہ یہ رحیم تو بڑے وقت پر آیا ہے۔ آج پھر سے اسے ہی راضی کرتا ہوں گیند بازی کے لیے۔۔۔‘‘
وہ رحیم کو پیٹنی دکھاتے ہوئے زور سے چلایا، ’’اوے رحیم چل آجا کرکٹ کھیلتے ہیں ۔۔۔‘‘
رحیم زور سے چلایا، ’’ارے واہ ‘‘ اور دوڑتے ہوئے رام کے قریب میدان کے درمیان پہنچ گیا۔ رام بلائے اور رحیم نہ آئے ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔!! آخر دونوں کی دوستی کے قصے سارے گاؤں میں یوں ہی مشہور نہ تھے۔
’’چل لا بیٹ دے رام‘‘ رحیم نے ہانپتے ہوئے کہا۔
’’نا منا نا۔۔۔ آج تو ہم بلے بازی کریں گے اور تم گیند بازی کرنا۔‘‘
’’لیکن گیند ہے کہاں ؟‘‘ رحیم نے حیرت سے پوچھا۔
’’ارے ہاں گیند تو ہے ہی نہیں ، رکو میں ابھی لاتا ہوں ۔۔۔‘‘ رام نے بیٹ بغل میں دباتے ہوئے کہا۔
’’ارے بیوقوف اب گیند لانے اپنے گھر جاؤ گے؟ ایک کام کرتے ہیں وہ دیکھو جھاڑ پر پتنگ اور مانجھا نظر آ رہا ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر رحیم نے کچھ دیر کی مشقت کے بعدمانجھا حاصل کر لیا۔ تب رام نے آس پاس سے بہت سارے کاغذ اور کپڑوں کے ٹکڑے ڈھونڈھ کر جمع کر لیے۔ میدان کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے رحیم نے ایک اینٹ نکال کر اسے زور سے زمین پر پٹکا۔ اس کے ردعمل سے حاصل شدہ اینٹ کے چند ٹکڑوں کو کاغذ اور کپڑے میں لپیٹ کر دونوں پتنگ کے مانجھے اس پر لپٹنے لگے۔ سارا مانجھا ختم ہونے پر اب رحیم کے ہاتھوں میں ایک اچھی خاصی گیند موجود تھی۔
میدان کے درمیان جہاں گھانس نہیں تھی وہاں لکڑی کی مدد سے پچ کا نقشہ کریدنے لگے تھوڑی ہی دیر میں میدان کے درمیان ایک پچ موجود تھی۔ اب اسٹمپ کی ضرورت تھی۔ اسٹمپ کا انتظام کچھ دشوار نہ تھا میدان کے دو طرف جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں ۔ دونوں نے بڑی پھرتی سے بالکل سیدھی سیدھی چھ لکڑیاں توڑ کر جمع کر لیں اور خوشی خوشی دونوں تین تین لکڑیاں پچ کے دونوں طرف گاڑنے لگے۔
اب دونوں بالکل تیار تھے۔ مقابلہ شروع ہونے والا تھا۔ رام نے بیٹ اور رحیم نے گیند سنبھال لی۔ رام اب کریز پر بیٹ لیے ڈٹ گیا۔ ادھر رحیم نے گیند پھینکنے کے لیے جیسے ہی دوڑ شروع کی رام نے چیخ کر کہا،’’ارے یار! فیلڈر تو ایک بھی نہیں ؟ میں گیند ادھر اْدھر جہاں کہیں بھی ماروں تو اسے لائے گا کون؟‘‘
’’ہاں یار بات تو بالکل ٹھیک کہی تم نے اور ہمیں ایک وکٹ کیپر بھی درکار ہے۔۔۔‘‘ رحیم نے کہا۔
اب دونوں پچ کے درمیان سر کھجاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ میدان کے چاروں طرف نظریں گھمائیں کہ ان دونوں کے علاوہ اور کوئی نظر آئے تو اس سے منت سماجت کرکے اسے فیلڈنگ کے لیے آمادہ کیا جائے۔ کافی دیر یوں ہی کھڑے رہنے کے بعد رام نے زور دار طریقے سے قہقہے لگاتے ہوئے بانو بی کی بکروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،
’’وہ رہے ہمارے فیلڈر!‘‘
رحیم نے کبوتر اور مرغیوں کی سمت دوڑتے ہوئے کہا، ’’انھیں میں پکڑتا ہوں یہ بھی آج فیلڈنگ کریں گے۔۔۔‘‘
اور دونوں ہی ان بے زبان جانوروں کو پکڑنے لگے۔۔۔
ان دونوں کے قہقہوں اور بکریوں ، مرغیوں اور کبوتروں کے شور سے سارا میدان گونج اٹھا۔۔۔ ایسا شور برپا ہوا کہ چھت پر ڈش کی تار جوڑنے میں مصروف رام پرساد دوڑتا ہوا چھت کی منڈیر پر آ پہنچا۔۔۔ اور زور زور سے چلانے لگا۔’’ پکڑو پکڑو۔۔۔ دیکھو رام اور رحیم کو پھر سے دورے شروع ہوگئے۔۔ پکڑو۔۔ روکو!‘‘
رام پرساد کی آوازیں سن کر سلمیٰ اور شویتا دونوں ہی اپنی اپنی چھتوں پر آ گئیں اور وہ دونوں بھی زور زور سے چلانے لگیں ۔۔۔!بیچ بیچ میں دونوں اپنے اپنے شوہروں کو یعنی سلمیٰ آصف کو اور شویتا روہت کو پکارنے لگیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں سارا محلہ میدان میں اکھٹا ہو گیا۔ رام کو روہت نے اور رحیم کو آصف نے دبوچ لیا۔
روہت رام کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر چلایا،
’’پاپا یہ کیا بچپنا ہے؟‘‘
رام بالکل سہم گیا۔ رام اپنے بیٹے روہت کی آنکھوں میں غصہ اور میدان میں موجود تماشائیوں کے چہرے پر ہنسی دیکھ کر سہم گیا اور بولا،’’ بیٹا ہم لوگ ان کو بھی اپنے ساتھ کھلا رہے ہیں ۔ یہ ہمارے لیے فیلڈنگ کریں گے۔‘‘
تبھی مجمع میں سے کسی نے کہا، ’’ اور امپائرنگ کرنے کے لیے جنگل سے شیر کو بلوا لیں کیا چاچا؟‘‘سارے لوگ بے تحاشہ ہنسنے لگے۔۔۔
’’ آپ سمجھتے کیوں نہیں ؟ کیا چاہتے ہیں آپ؟ آپ یہ بھی نہیں سوچتے کہ آپ کے پوتے پوتیوں پر کیا اثرات ہوں گے ان حرکتوں کے۔۔۔؟ روہت نے شرمندگی سے کہا۔
ادھر آصف نے رحیم کے ہاتھوں سے کبوتروں کو آزاد کیا اور بولا، ’’ابو بس کرو۔۔۔ بند کرو یہ پاگل پن آپ کو آپ کے پوتے پوتیوں کی قسم۔۔۔ آپ کو اپنی عمر کا اب بالکل لحاظ نہیں ؟‘‘
رام پرساد نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’سنو روہت اور آصف اب وقت آ گیا ہے کہ ان دونوں کو پاگل خانے بھیج دیا جائے۔۔۔ ورنہ ایسے تو یہ پتہ نہیں ، کل کو اور کون سا کارنامہ انجام دے دیں ؟‘‘
بانو بی نے اپنی ساڑھی کا پلو کمر میں کھونستے ہوئے کہا، ’’وہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں ۔۔۔ آج ان بے زبان جانوروں کو پکڑ رہے ہیں کل کو اگر ہمارے بچوں کو پکڑ کر کچھ الٹا سیدھا کر دیا تو پھر کیا کروگے۔۔۔؟‘‘
تبھی رام چیخ کر بول اٹھا، ’’نہیں بہن بچے تو ہماری جان ہے۔۔۔ یہ بچے تو ہماری آنکھوں کا نور ہے۔۔۔ ہم ایسا کچھ نہیں کریں گے۔۔۔‘‘
’’بیٹا آصف اب اس میدان میں کوئی نہیں کھیلتا؟ ہم کس کو پکڑیں گے۔۔ کوئی بچہ نہیں آتا۔۔۔ ہم کیوں پکڑیں گے۔۔۔ صبح سے شام ہو جاتی ہے سارے بچے موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی میں ہی لگے رہتے ہیں ۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ اب کوئی نہیں آتا۔۔۔ سب مصروف ہیں ۔۔۔ سب مصروف ہیں !‘‘ یہ سب کہتے ہوئے رحیم کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں تھیں ۔
سلمیٰ نے کہا، ’’ اب یہ دونوں برداشت کے باہر ہو چکے ہیں ۔۔۔ آپ لوگ ابھی کے ابھی فون لگاؤ اور پاگل خانے کی گاڑی بلاؤ۔۔۔ ورنہ میں تو چلی مائیکے۔۔۔‘‘
’’میں بھی ایک سیکنڈ اب یہاں نہیں رک سکتی ۔۔۔ میں بھی چلی مائکے۔۔۔‘‘ شویتا نے سلمیٰ کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
فون کرتے ہی تھوڑی دیر میں پاگل خانے کی گاڑی رام لیلا میدان کے بالکل درمیان میں کھڑی تھی۔ رام اور رحیم کو کسی طرح رسیوں سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔ گاڑی آتے ہی انھیں گاڑی میں زبردستی بٹھایا گیا۔ اب گاڑی کی جالیوں سے چار پتھرائی ہوئی آنکھیں باہر جھانک رہی تھی۔
گاؤں کے تمام ہی بچے اور نوجوان لڑکے لڑکیاں اس منظر کو اپنے اپنے موبائل میں قید کرتے رہے جب تک کہ پاگل خانے کی یہ گاڑی رام لیلا میدان کے گیٹ کو پار نہ کر گئی۔۔۔!!
٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

Virus a Short Story by Shahnaz Rahman

Articles

جراثیم

شہناز رحمن

یونیورسٹی میں داخلہ کے ہفتہ دس روز بعدوہ ایک عجیب طرح کی حیرانی کا شکار ہو گئی۔سلیقہ سے بال سنوارے ہوئے، دیدہ زیب کپڑوں میں ملبوس لڑکے اور لڑکیوں کے چہرے وحشت ناک لگ رہے تھے۔وہ پریشان تھی کہ یہ بات صرف وہ محسوس کر رہی ہے یا دو سرے کلاس میٹ کو بھی اندازہ ہو رہا ہے۔
اچانک ایک روز اس نے شیبا کو کہتے ہوئے سنا۔۔۔
وہ کلاس میں بیٹھی ان چہروں کے بدلتے رنگوں پر غور کرتی۔رفتہ رفتہ اسے ادراک ہوا کہ یہ کسی بڑی مصیبت کا اعلامیہ ہو سکتا ہے۔اسی کشاکش میں ایم۔اے مکمل ہو گیا اور وحشت ناک تاثرات والے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو تا رہا۔ اس پورے دوسال کے عرصے میں اس کی تعلیمی لیاقت میں کافی اضافہ ہوا۔ ذہین تو وہ تھی ہی صرف طبیعت میں ذرا لا ابالی پن تھا لیکن یونیورسٹی کی فضا نے یکایک اسے سنجیدہ بنا دیا تھا۔اس کی ذہانت کی وجہ سے کئی اساتذہ اسے اہمیت دیتے تھے۔حسب عادت دوستوں میں رشک و حسد کی کیفیت چلتی رہتی تھی۔ایم۔اے کے بعد وہ ریسرچ کی تیاری میں مصرو ف ہوگئی۔جب چار مہینے بعد وہ گھر سے واپس آئی تو اس نے اندازہ لگایا کہ یہاں پر کئی لڑکے اور لڑکیا ں اس بیماری کا شکار ہیں جس کا ذکر اس کے والد کیا کرتے تھے۔۔۔
ایک دن اسے ایک قریبی دوست میں اس بیماری کے آثار نظر آئے۔گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رات بھر سونہ سکی۔ لیکن خاموشی کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارا بھی نہیں تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے پوری طرح بیماری نے اسے گھیر لیا۔ ایک دو دفعہ اس نے علاج تجویز کرنی چاہی مگراس دوست کو برا لگا اوروہ اس سے بے رخی برتنے لگی۔
وحشت ناک چہرے والے طلباء میں اضافہ ہو تا رہا اور اس بیماری کے جراثیم ان کی رگ و پے میں سرایت کر گئے۔حیا پہلے سے زیادہ محنت اور لگن سے اپنی تعلیم پر توجہ دینے لگی لائبریری ہی اس کی مکمل دنیا تھی۔اس دنیا سے چونک کر اس وقت باہر آئی جب پی،ایچ۔ڈی داخلہ کے نتائج کا اعلان ہوا۔پوری فہرست مدقوق اور وحشت ناک چہرے والے ناموں سے بھری ہوئی تھی اور حیا کا نام دور دور تک نہیں تھا۔ لیکن حیا مایوس نہ ہوئی اس نے دوبارہ تیاری شروع کی دوسری دفعہ وہ بھی خوش نصیبوں کی فہرست میں تھی۔بہت ہی کم عرصے میں حیا اپنی محنت اور کچھ اساتذہ کی رہنمائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنے لگی۔
ایک دن شیبا نے دبے دبے لہجے میں کسی سے کہا ”حیا میں اس بیماری کے جراثیم پید ا ہو رہے ہیں“۔اتفاق سے حیا تک یہ بات پہنچ گئی۔سننا تھاکہ حیا کے ہوش اڑ گئے اس نے نہ کھایا نہ پیا اور مستقل بالکنی میں مضطرب ٹہلتی رہی۔ کئی روز تک وہ اپنامحاسبہ کرتی رہی کہ واقعی شیبا کی بات صحیح ہے؟
اس نے اپنا محاسبہ اس لیے کیا کہ اس کے والد ایک سیا سی کارکن تھے۔ وہ اکثر سنا کرتی تھی کہ فلاں سیات دان اس بیماری کا شکار ہو گیاہے۔وہ سوچتی یہ کیسی بلا ہے؟؟ جو آئے دن سیاست دانوں کو اپنے زد میں لے لیتی ہے۔پھر اس کے والد نے بتایا کہ یہ صرف سیاست دانوں کو ہی نہیں کسی بھی پیشے اور کسی بھی فرد کو اپنے گرفت میں لے سکتی ہے۔ بیمار شخص کو کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ اسے یہ بیماری کب لگ گئی۔ یہ بیماری عام انسانی بیماریوں سے قدرے مختلف ہے۔جیسے جیسے اس بیماری کے جراثیم پھیلتے ہیں انسان خود کو توانا اور طاقتور گمان کرنے لگتا ہے۔
ایک بار حیا نے اپنے والد کو ٹوک دیا ”ابا آپ تو بالکل الٹی بات کہہ رہے ہیں۔کوئی بیمار شخص ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔میں نے تو اپنے ارد گرد اس قسم کے بیمار لوگوں کے چہرے پر مردنی دیکھی ہے۔
انھوں نے کہا ”بیٹا یہ صرف تمہاری نظر کا دھوکہ ہے۔تم ان سے کچھ دیر گفتگو کر کے دیکھو۔ان کے لہجے اوران کی باتوں میں طاقت کا غرور نظر آئے گا“۔
حیا نے کہا ”تو یہ ان کا وہم ہو گا۔جہاں تک میرا خیال ہے کہ اس بیماری سے زیادہ ہولناک انجام دنیا کی کسی بیماری کا نہیں ہوتا۔
شیبا کو محسوس ہوا کہ اس کی بات حیا کے دل کو لگی ہے۔ اس لیے وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنے لگی ہے۔جبکہ وہ ایک لاپروا لڑکی تھی زمانہ جو کہتا ہے کہتا رہے وہ کبھی کان نہیں دھرتی تھی۔
یونیورسٹی کے ہر شعبہ میں وحشت زدہ چہرے اور مہلک مر ض کے شکار افراد موجود تھے۔اس کے دوست عامرکو اس مرض نے اس بری طرح آگھیرا تھا کہ اسے ارد گرد کی کوئی خبر نہ تھی۔محنت کرنے والے طلباء مایوسی کی ردا اوڑھے در در بھٹکتے نظر آتے لیکن عامر ان الجھنوں سے آزاد گھو متا پھر تا۔کئی بار حیا نے اسے ٹو کا بھی۔مگر اس نے کہا ”اپنی فکر کرو،میری تو یوں ہی گزر جائے گی“۔
عامر کی بات سن کر حیا کو اپنے والد کی بات بڑی حد تک صحیح معلوم ہونے لگی۔
عامر کی حر کتیں دیکھ کر حیا نے ایک دن کہہ دیا کہ ”عامرتمہاری صحت خراب ہورہی ہے“۔
تمہارا مطلب کیا ہے؟
میرا مطلب یہ ہے کہ تم یہ جو خوشامد کرتے پھرتے ہو، تمہارے کسی کام نہیں آئے گا۔
ہونہہ!!! یہ تم دیکھتی جاؤ۔بدلتا ہے رنگ آسماں آسماں کیسے کیسے۔اور ہاں!ہم اگر خوشامد کرتے ہیں توتم لڑکیا ں بھی اپنے مخصوص حربے استعمال کرنے سے باز کہاں آتی ہو۔
حیا نے محسوس کیا کہ اس کی ترقی ان جراثیم زدہ لوگوں سے دیکھی نہیں جا رہی ہے اس لیے انھوں نے یو نیورسٹی میں پھیلی ہو ئی دوسری بیماریاں اس سے منسوب کر دیں۔شعبہ کے ہر کمرے میں یہ جراثیم پائے جانے لگے جو حیا کے لیے مضر تھے۔ہر شخص حیا کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگا تھا طلباء ہی نہیں اساتذہ بھی اسے۔۔۔۔حیا کو اپنی دادی جان یاد آئیں جو کہا کرتی تھیں ”بٹیا!عورت کے لیے سب سے کمزوراور مضبوط پہلو اس کی عزت و عصمت ہے۔جب ظالم سماج کو اس کے خلاف کچھ ہاتھ نہیں آتا وہ بڑی آسانی سے اس کی عزت اچھال دیتا ہے۔“
محنت کرنے کے با وجود حیا کو وہ ساری کامیابیاں نہیں مل رہی تھیں جو وحشت زدہ چہرے والوں کو حاصل تھیں۔ایک دفعہ تو صبر کا دامن حیا کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔اسے اپنے والد کی بات یاد آگئی۔وہ کہا کرتے تھے کہ ”اس بیماری کے شکار لوگ”وفا دار کتے“کی مانند ہوتے ہیں۔اگر موقع پڑے تو اپنے آقاکی پیروی میں معصوم پرندوں کے پر تک نوچ کر کھا جائیں۔اپنی انا اوراپنا ضمیر تک داؤ پر لگا سکتے ہیں۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جنگلی کتوں کے جون میں آجاتے ہیں۔“
حیا سب کے ناقدانہ تیور برداشت کرتی رہی اور اپنا کام کرتی رہی۔یہاں تک کہ اسے کئی دفعہ سازشی ذہنوں کی وجہ سے مایوس ہونا پڑا پھر بھی اس نے ہار نہیں مانی۔
ایک مرحلہ و ہ بھی آیا جب شیبا روتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ ”حیا!میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ میں ”سر کی بات“مان لوں۔حیا کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
شیبا زار و قطار روتے ہوئے بتانے لگی کہ ”تمہاری ترقی دیکھ کر شعبہ کے لوگ بشمول میرے یہ کہنے لگے کہ تم بھی۔۔۔۔۔“لیکن میں کیا کروں۔سر نے مجھے راضی کرنے کے لیے تمہاری مثال دیتے ہوئے کہا تھاکہ ”دن بدن حیا کی ترقی میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،تم نے کبھی غور کیا ترقی کا زینہ کون ہے؟۔میرے پوچھنے پر انھوں نے عزیز سر کا نام لیا تھا۔عامر کے ساتھ لڑکوں کا پورا گروپ تمہیں اسی نظر سے دیکھتا ہے۔
شیبا کی بات سن کر حیا حیران و ششدر رہ گئی۔
لیکن پھر بھی اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ”عورت کی کردار کشی کے قصے تو بچپن سے سنتی آئی ہوں۔سیتا اور مائی عائشہ تک کو لوگوں نے جب نہیں بخشا۔ہم اورتم تو خیر عام لڑکیا ں ہیں۔
لیکن حیا اس زمانے کے لوگ غیر تعلیم یافتہ تھے۔
ہاں!یہی تو میں حیران ہوں کہ معتبر اداروں کے اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کی ذہنیت اتنی پست کیسے ہو سکتی ہے۔اور ایس۔این کمار جیسی بارعب شخصیت کے حاشیہ خیال میں ایسی بات کیسے آسکتی ہے۔
لاحول پڑھو!
اس گھٹیا انسان کو بارعب تو کہو ہی مت۔مجھے تو وہ نالی کا کیڑا لگتا ہے۔اورحیا تم کچھ زیادہ ہی بھولی ہو۔یہاں کئی ایس۔این کمار موجود ہیں۔مجھے تو یہاں داخلہ لینے سے پہلے ہی معلوم تھا کہ بلندی کی خواہش کرنا آسان نہیں ہے۔اس کے مر احل طے کرتے کرتے عزت نفس تو ختم کرنی ہی پڑتی ہے۔
رفتہ رفتہ وحشت ناک چہرے والوں کے چہرے مسخ ہونے لگے۔ناموں کے بجائے ان کی مجہول شخصیت ان کی شناخت بننے لگی۔محفلوں میں ان کا ذکر ہوتا تو لوگ پہچاننے سے اس وقت تک قاصر رہتے جب تک کسی مخصوص عضو کا ذکر نہ کیا جائے۔صورت حال دیکھ کر حیرت ہونے لگی تھی کہ ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کا ذکر شاہی پالتو جانوروں کی طرح کیوں ہوتا ہے۔تعلیم تو انفرادیت عطا کرتی ہے لیکن اعلی دانش گاہوں کے تعلیم یافتہ فرد کے لیے ایسے تیسرے درجہ کی شناختی نشانات کیوں متعین ہیں۔
فائنل ہونے کے بعد حیا نے دوبارہ یو نیورسٹی کا رخ نہیں کیا۔ڈاکٹر عزیز کی نگرانی میں کام کرکے اگرچہ حیا کو کوئی علمی مدد نہ مل سکی تھی مگر ان کی تربیت نے اسے قناعت پسند ضرور بنا دیا تھا۔اسی لیے اس نے یو نیورسٹی کے بجائے کالج کی نوکری کو ترجیح دی۔ اکثر کالج سے واپس ہوتے ہوئے مسخ چہروں کو پہچا ننے کی کوشش کرتی۔کبھی سبزی فروش کی دکان پر،کبھی بینک،کبھی پرچون کی دکان پر ان لوگوں کو قطار میں دیکھ کرطمانیت کی سانس لیتی توکبھی تاسف سے آہ بھر تی۔۔۔
٭٭٭

Krishan Chandar: Life and Work

Articles

کرشن چندر: حیات اور خدمات

---

کرشن چندر اردو کے مشہور و معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کی پیدائش 23/ نومبر1914کو وزیر آباد، ضلع گجرانوالہ، پنجاب (پاکستان) میں ہوئی تھی۔ ان کے والد گوری شنکر چوپڑا میڈیکل افسر تھے۔ انھوں نے کرشن چندر کی تعلیم کا خاص خیال رکھا۔ کرشن چندر نے چونکہ تعلیم کا آغاز اردو اور فارسی سے کیا تھا اس لئے اردوزبان و ادب پر ان کی گرفت کافی تھی۔ابتدائی تعلیم پونچھ(جموں کشمیر) میں ہوئی۔ 1930کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آگئے اور فورمین کرسچن کالج میں داخلہ لیا۔1934میں پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔اے کیا۔
کرشن چندر کی ادبی زندگی صحیح معنوں میں ”ادبی دنیا“ لاہور سے شروع ہوئی۔ جہاں صلاح الدین احمد نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ اسی زمانے میں کرشن چندر کو آل انڈیا ریڈیو، لاہور میں ملازمت مل گئی اور سال بھر میں دہلی اور پھر لکھنؤ تبادلہ ہوگیا۔لکھنؤ اس زمانے میں ترقی پسند تحریک کا مرکز تھا۔ لکھنؤ کے قیام کے دوران ہی انھیں شالیمارپکچرز کی طرف سے مکالمے لکھنے کی دعوت ملی اور وہ ریڈیو کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر پونہ چلے گئے۔بعد میں مستقل طور پر ممبئی میں سکونے اختیار کرلی اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
کرشن چندر نے پنجاب اور کشمیر کی رومان پرورآب و ہوا میں ہوش سنبھالا اس لیے ابتدائی دور کے اکثر افسانوں اور ناولوں میں سماجی حقیقت نگاری اور طبقاتی شعور کا عنصر کم کم نظر آتا ہے اور رومانیت کا عنصر زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے جب ان کے ذہن نے پختگی اختیار کی اور سماجی معاملات سے ان کا سابقہ پڑا تو لہجے میں تبدیلی آئی اور اس میں حقیقت پسندی کے ساتھ ساتھ طنز کا عنصر بھی شامل ہوتا چلا گیا۔
کرشن چندرنے اپنے افسانوں میں اس دور کے معاشی، سیاسی اور سماجی صورت حال کی خامیوں، مثلاً بیجا رسم و روایات، مذہبی تعصبات، آمرانہ نظام اور تیزی سے اْبھرتے ہوئے دولت مند طبقے کے منفی اثرات وغیرہ جیسے موضوعات کو شامل کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آخر میں تحریر کئے گئے ان کے زیادہ تر افسانوں میں زندگی کے اعلیٰ معیار اور اس کے اقدار پر بحث کی گئی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ انہیں پڑھنے اور پسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصنیفات، مثلاً ’کالو بھنگی‘، ’مہالکشمی کا پل‘ اور ’ایک گدھے کی سرگزشت‘ وغیرہ قارئین کے ذہن پر تادیر اپنا تاثر قائم رکھتے ہیں۔ کرشن چندر اپنے ہمعصر افسانہ نگاروں سے کسی حد تک مختلف تھے۔ کرشن چندر کو زبان پر جو عبور حاصل تھا اور ان کی خوبصورت اور آرائشی زبان قاری کو آغاز میں ہی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور افسانہ کے آخر تک اس سے باہر نکلنے کا موقع نہیں دیتی۔کرشن چندر کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہوئے معروف نقاد گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں کہ:
”کرشن چندر اردو افسانے کی روایت کا ایک ایسا لائق احترام نام ہے جو ذہنوں میں برابر سوال اٹھاتا رہے گا۔ ان کے معاصرین میں سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی بے حد اہم نام ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کرشن چندر ۰۶۔۵۵۹۱ء تک اپنا بہترین ادب تخلیق کر چکے تھے۔ ان کا نام پریم چند کے بعد تین بڑے افسانہ نگاروں میں آئے گا“(افسانہ بیسوی صدی میں۔ از: مہدی جعفر۔ ص: ۹۳۱۔ معیار پبلی کیشنز، دہلی۔۳۰۰۲ء)
کرشن چندر کے افسانوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلامبالغہ اس بات کا اعتراف کیا جا سکتا ہے کہ وہ نہ صرف محبت کے جذبہ اور احساس کو پورے انہماک اور حساسیت کے ساتھ اپنی کہانیوں میں پیش کرتے تھے بلکہ سماجی برائیوں کو بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھتے تھے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اور اسی لئے عام انسان کے حقوق کی بات کرتے تھے۔ ان کے دل میں امیروں کے تئیں بغاوت اور بدلے کا جذبہ تھا۔
’زندگی کے موڑ پر‘ اور ’بالکونی‘ جیسے رومانی افسانے نہ صرف جذباتی ہیں بلکہ قاری کو سوچنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ’زندگی کے موڑ پر‘ افسانہ پنجاب کی قصباتی زندگی کی انتہائی رومانی شبیہ پیش کرتا ہے، وہیں ’بالکونی‘ کشمیر کی خوبصورتی اور آب و ہوا کا عکاس ہے۔ کرشن چندر کے یہ رومانی افسانے دوسرے افسانہ نگاروں کے ذریعہ لکھے گئے افسانوں سے قدرے مختلف ہیں کیونکہ وہ ان افسانوں میں بھی روز مرہ کے عمل کے اندر سماجی عنصر کی تلاش کر لیتے ہیں۔ گویا کہ کرشن چندر کے رومانی افسانوں کی دنیا اردو افسانے کی روایتی رومانی دنیا نہیں ہے۔ اس ضمن میں محمد حسن عسکری نے تحریر کیا ہے کہ:
”اب رہی وہ رومانیت جسے عام طور پر کرشن چندر سے منسوب کیا جاتا ہے اور اس کے وہ افسانے جنہیں رومانی کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ افسانے رومانی ہیں، تب بھی کرشن چندر کی رومانیت دوسروں سے کافی مختلف ہے۔ وہ رومان کی تلاش میں ہجرت کر کے مالدیپ نہیں جاتا بلکہ یہ کوشش کرتا ہے کہ روز مرہ کی زندگی میں رومان کے امکانات ہیں یا نہیں۔ درحقیقت یہ افسانے رومانی نہیں ہیں بلکہ رومان کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں“۔(افسانہ بیسوی صدی میں۔ از: مہدی جعفر۔ ص:۱۴۱۔ معیار پبلی کیشنز، دہلی۔۳۰۰۲ء)
کرشن چندر نے ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو بنیاد بنا کر بھی کئی افسانے لکھے جن میں ’اندھے‘، ’لال باغ‘، ’جیکسن‘، ’امرتسر‘ اور ’پیشاور ایکسپریس‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان افسانوں میں کرشن چندر نے اس وقت کی سیاست کے عوام مخالف کرداروں پر بلاجھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سیاسی برائیوں سے پیدا شدہ ماحول پر ضرب لگاتے ہوئے انسانی رشتوں اور جذبات کو اہمیت دی ہے۔ وہ ان افسانوں میں فرقہ واریت کی اصل ذہنیت اور صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے انسانیت پر مبنی سماجی نظام کی تعمیر پر زور دیتے ہیں۔
کرشن چندر کے شاہکار افسانوں میں ’کالو بھنگی‘ کافی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کہانی میں انہوں نے چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والے کالو بھنگی کے ذریعہ پسماندہ طبقات کی پریشان حال زندگی اور ان کے مسائل سے روشناس کرانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس کہانی میں صرف کالو بھنگی کی پریشانیوں اور جدوجہد کو ہی پیش نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے سماج کی پست ذہنیت کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔
کرشن چندر کی تقریباً ۰۸کتابیں شائع ہوئیں۔ حالانکہ انھوں نے ناول، افسانے، ڈرامے، رپورتاژ، مضامین گویا کہ نثرکی کماحقہ‘ اصناف میں طبع آزمائی کی تاہم ان کی بنیادی شناخت ایک افسانہ نگار کی ہے۔ان کے ناولوں میں شکست، جب کھیت جاگے، اور آسمان روشن ہے قابلِ ذکر ہیں لیکن کوئی ناول زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ کرشن چندر دراصل بسیار نویس اور زود نویس تھے اور اسی چیز نے ان کے فن کو نقصان پہنچایا۔ان کی مقبولیت رومانیت اور سبک و رواں نثر کی وجہ سے تھی جس میں گویا ایک طرح کی جادو اثری تھی۔ ان کے بہترین افسانے ان کی رومان پسندی، حسن کاری، فطرت پرستی، انسان دوستی اور بہتر سماج کی آرزو مندی کے سبب زندہ رہیں گے۔
کرشن چندرنے کئی فلموں کی کہانیاں، منظرنامے اور مکالمے تحریر کئے۔ ’دھرتی کے لال‘، ’دل کی آواز‘، ’دو چور‘، ’دو پھول‘، ’من چلی‘، ’شرافت‘ وغیرہ ایسی فلمیں ہیں جنہوں نے کرشن چندر کی صلاحیتوں کو فلم ناظرین کے سامنے پیش کیا۔کرشن چندر کا انتقال8/ مارچ 1977 کو ممبئی میں ہوا۔
٭٭٭
یہ تحریر ڈاکٹر قمر صدیقی، ممبئی کی ہے۔

Rajindar Singh Bedi: Life and Work

Articles

راجندر سنگھ بیدی: حیات اور خدمات

---

اردو کے معروف فکشن نگار راجندر سنگھ بیدی غیرمنقسم پنجاب کے ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکامیں 1915 میں پیدا ہوئے۔ زندگی کے ابتدائی ایام لاہور میں گزرے۔ اس زمانے کی روایت کے مطابق انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم اردو میں حاصل کی۔1931میں میٹرک کاامتحان پاس کرنے کے بعد ڈی۔اے۔وی کالج لاہور سے انٹر میڈیٹ کیا۔گھرکے معاشی حالات بہت اچھے نہ تھے اس وجہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور ان کا گریجویشن کرنے کا خواب شرمندہئ تعبیر نہ ہوسکا۔1932 سے طالب علمی کے زمانے میں ہی انگریزی، اردو اور پنجابی میں نظمیں اور کہانیاں لکھنے لگے تھے۔
راجندر سنگھ بیدی کے معاشی حالات چونکہ اچھے نہ تھے۔لہٰذا محض18سال کی عمر میں انھوں نے لاہور پوسٹ آفس میں 1933میں بطورکلرک ملازمت اختیار کرلی۔یہ ملازمت ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو راس نہیں آرہی تھی اوروہ بہتر ملازمت کی تلاش میں تھے۔ 1941میں انھیں آل انڈیا ریڈیو، لاہور کے اردو سیکشن میں ملازمت مل گئی۔ آل انڈیا ریڈیو کے ادبی ماحول میں ان کی صلاحیتیں دھیرے دھیرے نکھرنے لگیں۔ اس دوران انھوں نے ریڈیو کے لیے متعددڈرامے تحریر کیے۔ ان ڈراموں میں ”خواجہ سرا“ اور ”نقل مکانی“ بہت مشہور ہوئے۔ بعد ازاں ان دونوں ڈراموں کو ملاکر انھوں نے 1970 میں فلم ”دستک“ بنائی۔
1943میں راجندر سنگھ بیدی لاہور کے مہیشوری فلم سے وابستہ ہوگئے۔ اس ملازمت میں ڈیڑھ سال رہنے کے بعد وہ آل انڈیا ریڈیو واپس آگئے۔ ریڈیو واپسی پر انھیں جموں میں تعینات کیا گیا جہاں وہ 1947 تک رہے۔1947میں ملک کی تقسیم ہوئی اور بیدی کا خاندان ہندوستان کی ریاست پنجاب کے فاضلکہ میں آباد ہوگیا۔ البتہ بیدی پاکستان سے نقل مکانی کرکے ممبئی آگئے اور فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوئے۔ڈی ڈی کیشپ کی نگرانی میں بننے والی فلم ”بڑی بہن“ بطور مکالمہ نگار ہندوستان میں بیدی کی پہلی فلم تھی۔ یہ فلم1949 میں ریلیز ہوئی۔ ان کی دوسری فلم ”داغ“ تھی جسے بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور فلم انڈسٹری میں بیدی کی شناخت قائم ہوگئی۔ ”داغ“1952میں ریلیز ہوئی تھی۔
1954 میں بیدی نے امرکمار، بلراج ساہنی اور گیتا بالی کے ساتھ مل کر ”سِنے کو آپریٹیو“ نامی فلم کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس کمپنی نے پہلی فلم ”گرم کوٹ“ بنائی جو بیدی کے ہی مشہور افسانہ ”گرم کوٹ“ پر مبنی تھی۔ اس فلم میں بلراج ساہنی اور نروپارائے نے مرکزی کردار ادا کیا تھاجبکہ امرکمار نے ہدایت کاری کی خدمات انجام دی تھیں۔اس فلم کے ذریعے راجندر سنگھ بیدی کو پہلی بار اسکرین پلے تحریر کرنے کا موقع ملا۔ سِنے کو آپریٹیو نے دوسری فلم ”رنگولی“ بنائی جس میں کشور کمار، وجنتی مالا اور درگا کھوٹے نے مرکزی کردار ادا کیے اور امرکمار نے ڈائریکشن دیا۔ اس فلم میں بھی اسکرین پلے راجندر سنگھ بیدی نے ہی تحریر کیا تھا۔
اپنی ذاتی فلم کمپنی کے باوجود بیدی نے مکالمہ نگاری جاری رکھی اور متعدد مشہور فلموں کے ڈائیلاگ تحریر کیے۔ جن میں سہراب مودی کی فلم ”مرزا غالب“ (1954)، بمل رائے کی فلم ”دیو داس“(1955)اور ”مدھومتی“(1958) امرکمار اور ہریکیش مکرجی کی فلمیں ”انورادھا“ (1960)، ”انوپما“(1969)، ”ستیم“ (1966)، ”ابھیمان“ (1973) وغیرہ شامل ہیں۔
1970میں فلم ”دستک“ کے ساتھ انھوں نے ہدایت کاری کے شعبہ میں قدم رکھا۔ اس فلم میں سنجیو کمار اور ریحانہ سلطان نے مرکزی کردار ادا کیے تھے جبکہ موسیقی کار مدن موہن تھے۔ ”دستک“ کے علاوہ انھوں نے مزید تین فلموں ”پھاگن“ (1973)، ”نواب صاحب“ (1978) اور ”آنکھوں دیکھی“(1978) میں ہدایت کاری کے جوہر دکھائے۔
راجندر سنگھ بیدی کے ناول ”ایک چادر میلی سی“ پر ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں فلم بن چکی ہے۔ پاکستان میں 1978 میں ”مٹھی بھر چاول“ کے عنوان سے جبکہ ہندوستان میں ”ایک چادر میلی سی“ کے ہی نام سے1986میں۔ اس طرح وہ برصغیر ہند و پاک کے واحد فکشن نگار ہیں جن کی ایک ہی کہانی پر دونوں ممالک میں یعنی ہندوستان اور پاکستان میں فلم بن چکی ہے۔بیدی کے افسانے ”لاجونتی“ پر نینا گپتا2006میں ایک ٹیلی فلم بھی بنا چکی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی کی شادی خاندانی روایت کے مطابق کم عمری میں ہی ہوگئی تھی۔ ان کی بیوی گھریلو خاتون تھیں اور بیدی نے تا عمر ان کے ساتھ محبت اور رواداری کا سلوک رکھا۔حالانکہ اداکارہ ریحانہ سلطان کے ساتھ معاشقے کی خبریں بھی گرم ہوئیں تاہم بیدی کی ازدواجی زندگی پر اس کے کچھ خاص اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ بیدی کی شخصیت میں امن پسندی، صلح کل اور محبت و رواداری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔یہی محبت واپنائیت ان کی کامیاب ازدواجی زندگی کا سبب بنی۔ بیدی کی صرف ایک اولاد تھی جس کا نام نریندر بیدی تھا۔ جوان ہوکر نریندر بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ ہوگئے اور بطور فلم ڈائریکٹر اور فلم ساز انھوں نے خوب نام کمایا۔ان کی مشہور فلموں میں ”جوانی دیوانی“(1972)، ”بے نام“ (1974)، ”رفو چکر“ (1975) اور ”صنم تیری قسم“ (1982) وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ نریندر بیدی1982 میں انتقال کرگئے۔ بیٹے کی اس ناگہانی موت کے صدمے سے راجندر سنگھ بیدی ابھر نہ سکے اور نریندر کی موت کے دو سال بعد1984میں وہ بھی دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔
راجندر سنگھ بیدی کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں کے کل چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ”دانہ و دام“(1936)اور ”گرہن“ (1942) آزادی سے پہلے شائع ہوچکے تھے۔”کوکھ جلی“(1949)، ”اپنے دکھ مجھے دے دو“(1965)، ”ہاتھ ہمارے قلم ہوئے“(1974)اور ”مکتی بودھ“ (1982) آزادی کے بعد منظر عام پر آئے۔ ڈراموں کے دو مجموعے ”بے جان چیزیں“(1943) اور ”سات کھیل“ (1974) بھی شائع ہوئے۔ ان کا ناولٹ ”ایک چادر میلی سی“1962میں شائع ہوا۔ انھیں 1965 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا جبکہ1972میں حکومتِ ہند نے پدم شری کا خطاب عطا کیا۔ 1978میں غالب ایوارڈ دیا گیا۔
راجندر سنگھ بیدی کو کردار نگاری اور انسانی نفسیات کی مرقع کشی میں کمال حاصل تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ایک حقیقت نگار تھے۔اگرچہ انھوں نے بہت زیادہ نہیں لکھا لیکن جو کچھ بھی لکھا، وہ قدرِ اول کی چیز ہے۔ بیدی کسی فیشن یا فارمولے کے پابند نہیں تھے۔ ان کے افسانوں میں مشاہدے اور تخیل کی آمیزش ملتی ہے۔ انسانی نفسیات پر گہری نظر کی وجہ سے ان کے کردار صرف سیاہ و سفید کے خانوں میں بند نہیں، بلکہ انسانی زندگی کی پیچیدگیوں کی جیتی جاگتی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ اس تعلق سے پروفیسر شمس الحق عثمانی رقم طراز ہیں:
”راجندر سنگھ بیدی کے فن کے ان اجزا و عناصر….. ان کی پُر جہد زندگی……. اور ان کی پُر گداز شخصیت کے تارو پود کو ایک دوسرے کے قریب رکھ کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے وجود کے جن لطیف ترین اجزا کے تحفظ و ارتفاع کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماجی زندگی میں پیش کیا، ان اجزا نے انھیں گہرا ایقان اور عمیق بصیرت عطا کی…….اسی ایقان اور بصیرت نے اُن کے پورے فن میں وہ عرفانی کیفیت خلق کی ہے جس کے وسیلے سے راجندر سنگھ بیدی اپنے ارد گرد سانس لینے والے افراد کو شناخت کرتے اور کراتے رہے۔ افراد کی شناخت کا یہ عمل دراصل کائنات شناسی کا عمل ہے کیونکہ راجندر سنگھ بیدی کا فن، آدمی کے وسیلے سے ہندوستانی معاشرے…… ہندوستانی معاشرے کے وسیلے سے آدمی……..اور ہندوستانی آدمی کے وسیلے سے پورے انسانی معاشرے کی شناخت کرتا ہے۔“(ممبئی کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتگان۔ مرتب: پروفیسر صاحب علی۔ ص: ۶۰۱۔ ناشر: شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی)
راجندر سنگھ بیدی کی کہانیوں میں رمزیت، استعاراتی معنویت اور اساطیری فضا ہوتی ہے۔ ان کے کردار اکثر و بیشتر محض زمان و مکاں کے نظام میں مقید نہیں رہتے بلکہ اپنے جسم کی حدود سے نکل کر ہزاروں لاکھوں برسوں کے انسان کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ یوں تو ان کے یہاں ہر طرح کے کردار ملتے ہیں لیکن عورت کے تصور کو ان کے یہاں مرکزیت حاصل ہے۔ عورت جو ماں بھی ہے، محبوبہ بھی، بیوی بھی اور بہن بھی۔ ان کے یہاں نہ تو کرشن چندر جیسی رومانیت ہے اور نہ منٹو جیسی بے باکی۔ بلکہ ان کا فن زندگی کی چھوٹی بڑی سچائیوں کا فن ہے۔ فن پر توجہ بیدی کے مزاج کی خصوصیت ہے۔ ان کے افسانوں میں جذبات کی تیزی کے بجائے خیالات اور واقعات کی ایک دھیمی لہر ملتی ہے جس کے پیچھے زندگی کی گہری ///معنویت ہوتی ہے۔

(یہ تحریر ڈاکٹر قمر صدیقی کی ہے)

Dakhma a Short Story by Baig Ahsas

Articles

"دخمہ"

بیگ احساس

سامنے سہرا ب کی نعش تھی اور اس کے پیچھے دو دو پارسی سفید لباس پہنے ہاتھ میں پیوند کا کنارہ پکڑے خاموشی سے چل رہے تھے۔ ان کے پیچھے ہم لوگ تھے۔ ’’دُخمہ‘‘ کی گیٹ پر ہم لوگ رک گیے۔ ہمیں اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔
میں نے ماحول کا جائزہ لیا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ کچھ بھی نہیں بدلا میری بہن کا گھر بھی !! لیکن اس گھر میں اب میرا کوئی نہیں رہتا تھا۔ میری بہن اور بہنوائی کا انتقال ہوئے ایک عرصہ ہوچکا تھا۔ میری بھانجی اسی شہر میں اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ اسکول کی چھٹیاں ہوتے ہی میں ا پنی بہن کے پاس دوڑا چلا آتا۔ وہ میری سب سے بڑی بہن تھیں درمیان میں چھ اور بہنیں اور ان کے بعد سب سے چھوٹا میں۔ اکلوتا بھائی۔ میری بھانجی مجھ سے صرف دو برس چھوٹی تھی۔ ہم دونوں خوب کھیلا کرتے۔

وہ گھر مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ چٹان پر بنا ہوا خوب صورت مکان اسٹیشن کے اس پار۔ پلاننگ کے ساتھ بنائے ہوئے بنگلے۔ درمیان میں سیدھی تار کول کی سڑکیں۔ کافی چڑھاؤ اور اتار تھے۔ ایک زمانے میں اس جڑواں شہر میں صرف تانگے چلتے تھے۔سائکل رکشاؤں کا داخلہ ممنوع تھا۔ میری بہن کے گھر پہنچتے پہنچتے گھوڑا ہانپنے لگتا۔ چڑھائی پر گھوڑے کے پیر جمتے نہ تھے۔جب ہم تانگے سے اترنے لگتے تو تانگے والا خاص انداز میں توازن بنائے رکھتا۔ مشرقی جانب واٹرریز روائر تھا۔ مغرب میں جہاں سڑک مسطح ہوجاتی ہے سینٹ فلومینا چرچ تھا۔ چرچ میں مشنری اسکول بھی تھا۔کھلی ٹانگوں والے یونیفارم کے اسکول کو کم ہی مسلمان لڑکیاں جاتی تھیں۔میری بھانجی بھی اسلامیہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ لیکن ہم لوگوں نے چرچ کا چپہ چپہ دیکھا تھا۔ کیوں کہ بچوں کو کوئی نہیں روکتا تھا۔ اتوار کے دن اطراف کے کرسچن prayer کے لیے آجاتے فضا میں گھنٹے گونجنے لگتے تو بڑا اچھا لگتا ۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ گھنٹے کون بجاتاہے۔مسجد کافی فاصلے پر تھی جہاں چھوٹے چھوٹے بے ترتیب مکان تھے۔
گھر کے مقابل اونچی چٹان بلکہ پہاڑ پر ایک دائرہ نما عمارت بنی ہوئی تھی۔ کئی ایکر پر پھیلا ہوا علاقہ تھا۔ بہت بڑی باؤنڈری تھی۔ نیچے بڑا سا گیٹ تھا۔ لوگ اس کو پارسی گٹہ کہتے تھے۔ احاطہ میں ایک چھوٹا سا مکان بناہوا تھا۔ جس میں چوکیدار‘ اس کی بیوی اور ایک کتا رہتے۔ عجیب سا پر اسرار کتا !! محلے کے اکثر گھروں میں السیشن تھے یہ کتا ان سے مختلف تھا۔دور سے ایسا لگتا جیسے اس کی چار آنکھیں ہوں۔
میری بہن پارسی گٹہ جانے سے منع کرتی تھیں۔ کہتی تھیں بچوں کو وہاں نہیں جانا چاہیے۔
ایک دن ہم نے دیکھا پارسی گٹّہ کا گیٹ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے اور چوکیدار صاحب بے حد مصروف ہیں۔۱۱ بجے دھوپ میں سفید کپڑوں میں ملبوس دو دو پارسی ایک رومال کے دو مختلف سرے پکڑے ہوئے ایک قطار میں چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے دوپارسی تھے۔ درمیان میں ایک گاڑی۔۔۔ پھر پارسیوں کی قطار ۔۔۔!! تقریباً ایک بجے تک وہ لوگ مصروف رہے پھر واپس ہوگئے۔ شام ہونے سے پہلے گدھوں کے جھنڈ آنا شروع ہوا۔ وہ سب اس دائرہ نما عمارت کے کنارے پر بیٹھ گئے۔ شام ہوتے ہوتے سارے گدھ اڑگئے میں نے ایک ساتھ اتنے سارے گدھ پہلی بار دیکھے تھے شام تک وہ مصروف رہے۔
میں نے اپنی بہن سے پوچھا کہ’’ اتنے گدھ اس عمارت پر کیوں جمع ہوگئے تھے؟‘‘ بہن نے بتایا پارسی گٹہ اصل میں پارسیوں کا قبرستان ہے۔ پارسی مرنے والے کی نعش کو چھت پر رکھ دیتے ہیں تاکہ گدھ اس نعش کو نوچ کھائیں یہ سارے گدھ اسی لیے آئے تھے۔
’’یہ کیسا طریقہ ہے آپی؟ ‘‘ میں نے جھر جھری سی لے کر کہا۔
’’بیٹا اپنا اپنا عقیدہ ہے۔ کوئی دفن کرتا ہے۔ کوئی جلادیتا ہے یہ لوگ پرندوں کوکھلادیتے ہیں اور اسی کو ثواب سمجھتے ہیں۔‘‘ اندھیرا ہونے سے قبل سارے گدھ لوٹ گئے ۔ اس کے باوجود ہم اس روز چھت پر نہیں سوئے ۔ میں اور میری بھانجی دونوں ڈرکے مارے نیچے کمرے میں ہی سوگئے کیا پتہ کوئی گدھ ہمیں مردہ سمجھ کر۔۔۔۔
بیدار ہوتے ہی ہم دونوں پارسی گٹہ گئے۔ کتا ہمیں دیکھ کر بھونکنے لگا۔
’’ارے بیٹا تم لوگ؟‘‘
’’چا چا کل کسی کا انتقال ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں بیٹا‘‘
’’دو دو آدمی کیوں قطار بناکر چلتے ہیں؟‘‘
’’یہی طریقہ ہے۔ تنہا کوئی نہیں چلتا۔‘‘
’’انہوں نے رومال کیوں پکڑ رکھا تھا؟‘‘
’’وہ رومال نہیں اسے پیوند کہتے ہیں‘‘
’’اور یہ گول عمارت ؟‘‘
’’یہ ‘‘ دخمہ ‘‘ہے۔ اس کی چھت درمیان سے اونچی ہوتی ہے چھت پر تین دائرے بنے ہیں۔ مرد کی نعش بیرونی دائرے میں ‘ عورت کی درمیانی دائرے میں اور بچوں کی نعش اندرونی دائرے میں رکھی جاتی ہے تاکہ ان پر تیز دھوپ پڑے اور گدھوں کو دور سے نظر آجائے۔‘‘
’’چا چا یہ کُتّا اتنا عجیب کیوں ہے ؟‘‘ میری بھانجی نے پوچھا
’’ اسے ’’سگ دید ‘‘کہتے ہیں۔ چار آنکھوں والا کتا۔۔۔ اس کی چار آنکھیں نہیں ہیں لیکن آنکھوں پر ایسے نشان ہیں جس سے اس کی چار آنکھیں نظر آتی ہیں۔ یہ ’’سگ دید‘‘ ہی آدمی کے نیک و بد ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔‘‘
’’کیسے چاچا‘‘
’’جب بڑے ہوجاؤ گے تو خود ہی پتہ چل جائے گا‘‘ چا چا نے ہمارے سوالات سے اکتا کر کہا
’’ اور چا چا یہ گدھ کہاں سے آجاتے ہیں ؟‘‘
’’ اگر فرش پر چینی گرجائے تو چیونٹیاں کہا ں سے آتی ہیں ؟‘‘ چا چا نے سوال کیا اور اندر چلے گئے۔ اس روز بھی ہم چھت پر نہیں سوئے۔
(سہراب بھی ان تمام مراحل سے گزر رہا ہوگا۔)

(۲)

سہراب کا ’’میکدہ ‘‘ شہر کے مصروف علاقے میں تھا۔ ممکن ہے جس وقت اس کے اجداد نے ’’مئے کدنہ‘‘ کھولا ہوگا یہ مصروف ترین علاقہ نہ رہا ہو۔ کیوں کہ سامنے راجہ صاحب کی بہت بڑی حویلی تھی۔۔۔ بغل میں بھی ایک بہت بڑی حویلی تھی ۔۔۔ دائیں جانب ڈراما تھیٹر تھا ۔ اور بائیں جانب بہت آگے انگریزوں کی ریزیڈنسی تھی۔ مقابل میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی مسجد سے لگ کر جو گلی تھی وہ ’’مجرد گاہ‘‘ تک جاتی تھی۔ مجرد گاہ ادیبوں ‘شاعروں اور فن کاروں کا میٹنگ پوائنٹ تھا۔ اس میں فائن آرٹس اکیڈمی بھی تھی اور رسالے کا دفتر بھی۔ہم لوگ ادیبوں‘ شاعروں اور فن کاروں کو دیکھنے آجاتے تھے۔ ان دنوں بعض ادیبوں و شاعروں کی شہرت فلمی اداکاروں سے کم نہ تھی۔ بیچلر کوارٹرس کے مقابل ایک بڑا شراب خانہ بھی تھا جہاں سستی شراب فروخت ہوتی۔ اکثر فن کار وہاں چلے جاتے۔ جیب گرم ہوتی تو اکثر ادیب و شاعر مۂ کدہ کا رخ کرتے شہر کا یہ سب سے قدیم شراب خانہ تھا!! ایک تو سہراب خالص شراب بیچتا تھا۔ دوسرے وہ ادیبوں و شاعروں کے مزاج سے اچھی طرح واقف بھی تھا۔ کسی اچھے شعر پر داد بھی دے دیا کرتا۔ پارسی ویسے بھی خوش اخلاق اور مہذب ہوتے ہیں ۔ پھر سہراب صرف شراب اور سوڈے کی اصل قیمت لیتا تھا۔ پانی اور گلاسس وہ خود فراہم کرتا۔ اندر ٹیبل اور کرسیاں بھی تھیں ۔ گزگ کا کوئی انتظام نہ تھا۔لڑکے ٹوکریوں میں گرین پیس‘ بھنی ہوئی مونگ پھلّی‘ چڑوا لیے گھومتے۔ لوگ حسبِ ضرورت ان سے چیزیں خرید لیتے۔ دوسرے بارس کے مقابلے میں ’’مئے کدہ ‘‘ نسبتاً کم خرچ تھا۔
ہم نے جس وقت ’’مئے کدہ‘‘ جانا شروع کیا۔ شہر کئی انقلابات سے گزر چکا تھا۔ کمیونسٹوں کی شاہی کے خلاف جدوجہد‘ تلنگانہ تحریک کامیاب تو ہوئی لیکن شاہی کا خاتمہ کانگریس کی نئی حکومت نے کیا تھا۔ پولس ایکشن نے مسلمانوں کو حواس باختہ کردیا تھا۔ مذہب کے نام پر ملک کی تقسیم سے پوری قوم سنبھلی بھی نہ تھی کہ زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی نئی حدبندیاں کی گئیں۔ریاست کے تین ٹکڑے کردیے گئے۔ برسوں گزر جانے کے بعد بھی دوسری ریاستوں سے جڑے یہ ٹکڑے ان کا حصہ نہ بن سکے۔ اپنی مستحکم تہذیب کی بنیاد پر ریاست کے یہ حصّے ٹاٹ میں مخمل کے پیوند لگتے تھے۔ مذہب کے نام پر تقسیم کو عوام نے قبول نہیں کیا تو زبان کے نام پر ریاستوں کی نئی حدبندیوں کو بھی ایک ہی زبان بولنے والوں نے قبول نہیں کیا۔ دو مختلف کلچر۔!! جس شہر کی تاریخ نہیں ہوتی اس کی تہذیب بھی نہیں ہوتی۔ نئے آنے والوں کی کوئی تاریخ تھی نہ تہذیب ایک مستحکم حکومت کا دارالخلافہ سیاسی جبر کی وجہ سے ان کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہ پاگلوں کی طرح خالی زمینوں پر آباد ہوگئے۔ ایک طرف بڑی بڑی حویلیاں حصے بخرے کرکے فروخت کردی گئیں ۔ زمین بیچنا یہاں کی تہذیب کے خلاف تھا ۔ شرما شرمی میں قیمتی زمینیں کوڑیوں کے مول فروخت کردی گئیں۔ آنے والے زمینیں خرید خرید کر کروڑ پتی بن گئے۔ نئے علاقوں کو خوب ترقی دی۔
کسی کوٹھی میں صدر ٹپہ خانہ آگیا‘ کسی حویلی میں انجنیرنگ کا آفس‘ کسی حویلی میں اے۔جی آفس تو کسی حویلی بڑی ہوٹل کھل گیا۔ باغات کی جگہ بازار نے لے لی ۔ لیڈی حیدری کلب پر سرکاری قبضہ ہوگیا ۔ کنگ کوٹھی کے ایک حصے میں سرکاری دواخانہ آگیا ۔ جیل کی عمارت منہدم کرکے دواخانہ بنادیا گیا ۔ رومن طرز کی بنی ہوئی تھیٹر میں اب بہت بڑا مال کھل گیا تھا۔ حویلیوں ‘ باغات ‘ جھیلوں اور پختہ سڑکوں کے شہر کی جگہ دوسرے عام شہروں جیساشہر ابھر رہا تھا جس کی کوئی شناخت نہ تھی ۔
چند برسوں میں سب کچھ بدل گیا ۔ جو تہذیب کے نمائندے تھے جو تہذیب کو بچا سکتے تھے ان میں سے کچھ اپنی زمینوں کو چھوڑ کرسرحد کے اس پار جابسے تھے اور کچھ مغربی ممالک میں آباد ہوگئے ۔ ولی عہد نے ایک مغربی ملک کو اپنا مسکن بنالیا۔ رعایہ کی محبت کا یہ حال تھا کہ جب بھی وہ اس شہر کو آتے تواس طرح خوشی سے پاگل ہونے لگتے تھے جیسے کوئی فاتح اپنی سلطنت کو لوٹا ہو۔ نہ شاہی خاندان کے افراد کو تہذیب کی فکر تھی ۔ نہ امرا کو اور نہ عوام کو ۔! ’’مۂ کدہ‘ ‘کے اطراف کا ماحول بھی تبدیل ہوگیا ۔ راجہ جی کی حویلی میں سرکاری دواخانہ آگیا ۔ سامنے کی کوٹھی میں بینک کا مین آفس ‘ ریذیڈنسی میں ویمنس کا لج‘ ڈراما تھیٹر فلمی تھیٹر میں تبدیل ہوگیا۔ شہر کا نقشہ تیزی سے بدلتا جارہا تھا ۔ تیلگو فلم انڈسٹری مدراس سے یہاں منتقل ہوگئی تھی ۔ شہر کی چمک دمک بڑھ گئی ۔ فلمی اسٹیڈیوز ‘ 70 ایم ایم تھیٹرز‘ بڑے بڑے مالس‘ کپڑوں اور زیورات کی دکانیں ۔ سب ان کا تھا ۔ سب پر ان کی چھاپ نمایاں ہورہی تھی ۔ ان کی غذاوں کے ہوٹل آگئے تھے جہاں متوسط طبقے کا آدمی پیٹ بھر کھانا کھاسکتا تھا۔’’فُل مِیل‘‘ (full meal)ملتا تھا۔ وہ آخر میں بڑے انہماک کے ساتھ چاول میں دہی ملاکر کھانے لگتے تو اکثر دہی بہہ کر کہنیوں تک آجاتا۔ سڑکوں اور کالجس میں سانولے اور سیاہ فام لڑکے لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ بڑی بڑی کاجل بھری آنکھیں۔۔ نمکین چہرے ۔ ۔پشت پر بلاوز دور تک کھلا ہوا۔۔۔ پتہ نہیں انھیں پیٹھ کی نمائش کا شوق کیوں تھا؟ مقامی لوگ لینڈ گرابرس کی فروخت کی ہوئی خشک تالابوں کی زمین پر مکانات بنانے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ ہر بارش قیامت بن کر آتی ۔ مسلسل فسادات نے پرانے شہر کی ساکھ کو بہت متاثر کیا تھا۔ ہفتوں کرفیو لگا رہتا ۔ ہر تہوار و عید پر لوگ سہم جاتے ۔ اس صورت حال سے تنگ آکر جو پرانا شہر چھوڑ سکتے تھے۔ وہ نئے علاقوں میں جابسے ۔ ساری رونق ‘ بڑی بڑی سڑکیں ‘ فلائی اوور‘ ہائی ٹیک سٹی سب کچھ نئے شہر میں تھے ۔ تمام دفاتر نئے شہر کو منتقل کردیے گئے تھے ۔ پرانے شہر میں کچھ تاریخی عمارتیں رہ گئی تھیں ۔ مشہور زمانہ چوڑیوں کا لاڈبازار تھا۔ پتھر سے تعمیر کی گئی مار کٹ پتھر گٹی تھی۔ عیدوں پر ساری رات یہ بازار جگمگایا کرتے۔ دو تہذیبوں نے الگ الگ جزیرے بنالیے تھے۔ جب بھی ریاست کے مقامی افراد کو محرومی کا احساس بہت ستا تا تو وہ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے لگتے ۔ الیکشن کے زمانے میں کوئی باغی لیڈراس مسئلے کو گرما دیتا ۔ کچھ مہینوں خوب ہماہمی رہتی پھر جذبات سرد پڑجاتے ۔
’’مۂ کدہ‘‘ کا علاقہ بھی اب ڈاون ٹاون بنتا جارہا تھا۔ پرانے شہر سے نئے علاقے کو منتقل ہونے والوں میں خود میں بھی شامل تھا۔ ( ’’دخمہ‘‘ میں پارسی ابھی تک مصروف تھے ۔ کوئی باہر نہیں آیا تھا۔)
ان دنوں ادیبوں کا کوئی میٹنگ پوائنٹ نہیں تھا۔ سب بکھر گئے تھے۔ ہمارے دور کو انتشار کا عہد مان لیا گیا تھا ۔ فرد کو مشین قرار دے دیا گیا تھا اور تنہائی کو ہمارا مقدر ۔!! یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ تاریخی‘ تہذیبی‘ قومی ‘ معاشرتی ‘ جذباتی و ذہنی ہم آہنگی کی ساری روایتیں منہدم ہوچکی ہیں ۔ پورا ادب درونِ ذات کے کرب میں مبتلا تھا ۔ اس لیے اب ضروری نہیں تھا کہ سب کسی ایک ہی بار یا ہوٹل میں ملیں ۔ شہر بہت پھیل گیا تھا۔ جگہ جگہ وائن شاپس کھل گئے تھے ۔ ہم کسی دوست کے گھر جمع ہوجاتے ۔ کسی قریبی دکان سے شراب منگوا لی جاتی ۔ فون کرنے پر ہوٹل سے ’’ گزگ‘‘ بھی پہنچ جاتی ۔ ہوم ڈیلیوری کا رواج ہوگیا تھا ۔ اب ’’مئے کدہ ‘‘ جانا ہی نہیں ہوتا تھا۔
لیکن وہ کیوں سوچ رہا ہے شہر کی تہذیب کے بارے میں شہرکے بارے میں؟ شاید اس لیے کہ ’’مئے کدہ‘‘ کو بند دیکھ کر اسے بڑا شاک لگا تھا ۔ جیسے تہذیب کا ایک حصہ مرگیا ہو۔
میرا دوست مشیرجو بہتر زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے امریکہ منتقل ہوگیا تھا۔ بیس برس بعد امریکہ سے آیا ۔ اپنا شہر چھوڑ کر باہر بس جانے والے ایک تو ناسٹالجک ہوجاتے ہیں دوسرے چیارٹی کرنے کے لیے اتاولے ہوتے ہیں ۔ وہ ایسی ہر جگہ جانا چاہتا تھا جہاں بیس برس قبل ہم جا یا کرتے تھے۔ ہرجگہ ساتھ چلتا بہت چیزوں کی تبدیلی پر اداس ہوجاتا ۔ ظاہر ہے شہر بہت تیزی سے بدلا تھا اور اس پر گلوبلائزیشن کی پرچھائیاں صاف نظر آرہی تھیں۔ اسے اس لیے بھی مایوسی ہورہی تھی کہ جو چیزیں وہاں ترقی یافتہ شکل میں دیکھ کر آیا ہے یہاں اسی کی نقل کی جارہی ہے۔ شہروں کی شناخت تیزی سے ختم ہورہی ہے ۔ سب شہر ایک جیسے ہورہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ پرانی باقیات میں صرف ’’مۂ کدہ‘‘ بچا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی عمارت‘ وہی انتظام‘ ویسے ہی کاونٹر‘ وہی مستقل گاہگ۔۔۔جو بوتل خرید کر حسب ضرورت پیتے ہیں اور بچی ہوئی شراب کی بوتل محفوظ کروا دیتے ہیں۔ اس بوتل سے ایک قطرہ بھی کم نہ ہوتا۔ ۔ دیانت داری ’’مۂ کدہ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی تھی۔ مستقل گاہکوں کو یہاں بڑی اپنائت محسوس ہوتی تھی۔ مشیر کے یہاں رہنے تک ہم روزانہ ’’مۂ کدہ‘‘ جایا کرتے تھے۔ ایک خاص وقت تک شغل کرتے پھر اپنی راہ لیتے۔ پتہ نہیں مشیر کو مۂ کدہ کی یاد کیوں نہیں آئی۔ امریکہ سے آنے کے بعد اس نے ایک بار بھی شراب کا نام نہیں لیا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ اسے ایک ایسی جگہ لے چلوں گا جو بالکل نہیں بدلی ۔ دوسرے روز میں اسے ’’مئے کدہ ‘‘ لے آیا۔
لیکن ’’ مئے کدہ‘‘ بند تھا ۔ برسوں پہلے ’’ مئے کدہ‘‘ کی پیشانی پر ابھرے ہوئے لفظوں میںMAI KADA EST: 1904 اسی طرح موجود تھا نیچے اردو میں بھی ’’مۂ کدہ‘‘ لکھا تھا ۔ آس پاس دریافت کیا تو پتہ چلا کافی دنوں سے بند ہے۔ مجھے بڑا شاک لگا۔ اپنی بے خبری پر افسوس بھی ہوا۔ پتہ نہیں یہ سب کب اور کیسے ہوا؟ ایسا محسوس ہوا جیسے تہذیب کا ایک حصہ مرگیا ہو۔
پتہ نہیں سہراب کی صحت کیسی ہے؟ کاروبار میں نقصان تو نہیں ہوا؟ کسی ناگہانی مصیبت میں تو نہیں پھنس گیا؟
ہم لوگوں نے سہراب کے گھرکا پتہ چلایا ۔ اس کے گھر پہنچے ۔ قدیم پارسی طرز کا مکان تھا ۔ ملازم نے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ۔ ہم دیوار پر ٹنگی تصویریں دیکھنے لگے ۔ سہراب نے انتظار نہیں کروایا ۔
’’آپ ‘‘ وہ مجھے دیکھ کرچونک پڑا
’’ہاں ۔ اور انھیں پہچانا ۔ مشیر !!‘‘
’’اوہ یاد آیا ۔ آپ تو پورے انگریز ہوگئے ۔‘‘
’’امریکہ میں جو رہتا ہے ۔‘‘ میں نے ہنس کرکہا
’’ آپ تو یہیں رہتے ہیں نا ؟‘‘ اس نے ہنس کر کہا
مجھے شرمندگی ہوئی۔
کہیے کیا لیں گے؟
’’نہیں میں دن میں نہیں لیتا‘‘ میں نے کہا ’’اورمشیر تم؟‘‘
’’نہیں میں بھی نہیں لوں گا‘‘
’’کوئی تکلّف نہیں۔‘‘ اس نے ملازم سے کچھ کہا۔’’آپ لوگوں کو دیکھنے آنکھیں ترس گئیں‘‘
’’میں شرمندہ ہوں ۔‘‘
’’ہاں شہر بھی تو بہت پھیل گیا ہے ۔‘‘
’’آپ کی صحت کیسی ہے ۔ ‘‘
’’اچھا ہوں ۔ ‘‘
’’بزنس میں نقصان ہوا ؟‘‘ میں نے راست پوچھ لیا
’’ نہیں ۔‘‘
’’پھر مئے کدہ ‘‘ ۔ ؟‘‘
’’چھوڑیے کوئی کب تک بزنس کرتا رہے ۔ آدمی کو آرام بھی کرنا چاہیے نا۔! ‘‘
اتنے میں ملازم ٹرے سجا کر لے آیا۔
’’خاص فرانسیسی شراب ہے۔ اتنے دن بعد ملے ہیں‘ انکار نہ کیجیے‘‘
ہم لوگ انکار نہ کرسکے۔ واقعی بڑی نفیس شراب تھی۔ دھیرے دھیرے سرور آنے لگا۔
’’آپ بتایے ‘‘ مشیر سے مخاطب ہوکر اس نے کہا ’’امریکہ میں کیسی گزررہی ہے؟‘‘
’’پہلے جیسا تو نہیں ہے ۔ یہاں کی گھٹن سے بھاگے کچھ دن تو اچھا لگا اب فضا پر حبس چھایا ہوا ہے ۔ شک کے سائے میں زندگی گزارنا کتنا مشکل ہوجاتا ہے۔اس کا تجربہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘‘
’’سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔‘‘ میں نے کہا ’’وطن کے لیے جدوجہد‘ بین الاقوامی فیصلوں کی جارحانہ خلاف ورزیاں‘ دہشت گردی سب گڈ مڈ ہوگئے ہیں ۔ایک پوری قوم کو دہشت گردی کے جال میں پھنسادیا گیا ۔ ایک آگ سی لگی ہوئی ہے جس میں پتہ نہیں کون کون ہاتھ سینک رہا ہے ۔ لیکن ملزم تیار ہے جرم کہیں بھی کسی نے کیا ہو۔ نشان زدہ ملزمین تیار ہیں ۔ پولیس نے بھی ظلم کے سارے حربے آزمالیے ۔ عدالتیں کبھی چھوڑتیں ہیں کبھی نہیں چھوڑتیں۔ اور بے وقوف قوم دلدل میں دھنستی ہی جارہی ہے ۔‘‘
’’آپ تو جذباتی ہوگئے ۔ تاریخ اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے ۔ دیکھیے نا ایران سے مسلمانوں نے ہم کو باہر کیا تھا۔اسپین میں مسلمانوں کو باہر کیا گیا۔ اس ریاست کو ہم آصف جاہی سلطنت کے چرچے سن کر آئے تھے۔ ہمارے اجداد کوسالار جنگ اول نے مدعو کیا تھا۔ انتظامیہ میں ہمیں شامل کیا گیا۔ میرمحبوب علی خان نے ہمیں خطابات سے نوازا تھا۔ نواب سہراب نوازجنگ‘ فرام جی جنگ‘ فریدون الملک وغیرہ وغیرہ فارسی یہاں کی سرکاری زبان تھی اور اردو عوامی زبان ۔ بریانی ‘نوابوں اور موتیوں کا شہر ۔!! گجراتی ‘ مارواڑی ‘ سندھی سبھی آبسے تھے۔ سب کو آزادی حاصل تھی سب نے اپنی اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرلیں۔ شاہی خزانے سے مدد بھی ملتی تھی ۔ ہمارے لیے تو بہت سازگار ماحول تھا۔بڑا عجیب معاشرہ تھا۔ ‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا ’’ آپ کو یاد ہے ؟ نہیںآپ تو بہت چھوٹے رہے ہوں گے ۔تھیٹر میں جب ہم فلم دیکھنے جاتے تو درمیان میں ایک سلائیڈ دکھائی جاتی۔ ’’وقفہ برائے نماز ‘‘ لوگ جلدی جلدی فرض نماز پڑھ کر تھیٹر لوٹ آتے ۔ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی والا معاملہ تھا ۔
’’آپ کو شاہی دور پسند تھا ؟‘‘
’’نہیں رواداری پسند تھی ۔ معاشرے کا کھلاپن اچھا لگتا تھا ۔ اب تو کٹّرپن آگیا ہے ہر قوم میں ۔!
’’ہاں مسلمان بھی خدا حافظ کی جگہ اللہ حافظ اور نماز کے بجاے صلوٰۃ کہہ کر بہت خوش ہونے لگے ہیں‘‘ میں نے کہا۔
’’مئے کدہ‘‘ آپ نے کیوں بند کردیا؟ ‘‘ مشیر نے اچانک پوچھا۔
’’ارے ہاں میں تو اصل بات ہی بھول گیا‘‘ میں نے چونک کر کہا۔
’’چھوڑیے ۔‘‘
’’نہیں بتایے کیا ہوا تھا ؟‘‘میں نے اصرار کیا۔ کافی دیر تک وہ خاموش رہا۔ پھر دھیرے سے کہا
’’ مسلمانوں نے حکومت سے شکایت کی کہ ’’مئے کدہ ‘‘ مسجد سے بہت قریب ہے جو خلاف قانون ہے ‘‘ میں سناٹے میں آگیا ۔ تو یہ مسلمانوں کا کارنامہ ہے۔ میں نے سوچا۔
’’لیکن مسجد اور مئے کدہ برسوں سے اسی جگہ ہیں پھر ؟‘‘
’’وہ شاہی دور تھا۔ اب جمہوریت ہے۔!! مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ اس کا خیال رکھنا حکومت کا فرض بھی تو ہے۔‘‘
’’مسلمان بھی بہت کٹّر ہوتے جارہے ہیں ‘‘ مشیر نے کہا۔ نشہ چڑھنے لگا تو ہم کٹر مسلمانوں کو نوازنے لگے۔
’’مسلمان ہی کیوں ‘‘ سہراب نے ہمیں روکا سب کا یہی حال ہے خود مجھے دیکھیے ۔ میں نے شادی نہیں کی کیوں کہ پارسی غیر مذہب میں شادی نہیں کرسکتے ۔ اس مذہبی شرط کی وجہ سے ہماری تعداد گھٹتی جارہی ہے ۔ اکثر تاخیر سے شادی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔اب پورے شہر میں بارہ سو پارسی رہ گئے ہیں۔‘‘
’’واقعی ؟‘‘
’’ہاں دوسرا مسئلہ موت کا ہے ۔ وہی پرانا دُخمہ ۔ برہنہ نعش کو جلتی دھوپ میں چھوڑدیتے ہیں ۔ اب تقریباً بیس برس سے گدھوں نے شہر کا رخ کرناچھوڑ دیا ہے ۔ اب مختلف الخیال گروپ بن گئے ہیں کوئی کہتا ہے نعش کو دفن کردینا چاہیے ۔ کوئی جلا نے کے حق میں ہے ۔ الکٹرک بھٹی کے بارے میں بھی غور کیا جارہا ہے ۔ کچھ لوگ گِدھوں کی Artificial Incimination کے خطوط پر افزائش کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ میں تو پرانے طریقے کو ترجیح دوں گا کہتے ہیں کوئی نیک آدمی مرتا ہے تو گدھ آتے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارا کیا حشر ہوگا۔!!آپ کے عقیدے کے مطابق شراب بیچنے والا جہنمی ہوتا ہے نا؟‘‘ اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔
’’ہاں۔۔۔اور شراب پینے والا بھی۔ اللہ معاف کرے۔!‘‘ میں نے کہا۔
ملازم نے آکر اطلاع دی کہ کھانا تیار ہے۔
’’آپ نے تکلف کیوں کیا۔ اتنی اچھی شراب پینے کے بعد کھانے کی بالکل اشتہا نہیں ہے۔‘‘
’’پارسی ڈشس بنوائی ہیں آپ کے لیے۔۔۔‘‘
ہم کھانے کی میز پر آگئے۔ زندگی میں پہلی بار پارسی ڈشس کھانے کا اتفاق ہورہا تھا۔ اس لیے بھی زیادہ انکار نہ کرسکے۔
’’یہ براون رائس ہے۔ یہ دَھن سَک یہ ساس اِن مچھی اور یہ کچومر سلاد‘‘
براون رائس باسمتی چاول کی عمدہ ڈش تھی جس میں چینی اور کالی مرچ شامل تھی۔ دَھن سَک تور کی دال‘ مونگ کی دال اور اڑت کی دال ‘ انڈے‘ ٹماٹر اور کھیرے سے بنائی گئی ڈش تھی۔ ساس اِن مچھی میں بہترین پمفرٹ تھی ساتھ میں کرارے چکن پارچہ بھی تھے۔کھانا واقعی لذیذ تھا۔ آخر میں موامی بوئی نام کا مچھلی کا میٹھا پیش کیا گیا۔ ہم نے بہت سیر ہوکر کھایا۔سہراب کی مہمان نوازی نے ہمیں بہت متاثر کیا۔
اور آج اطلاع ملی کہ سہراب مرگیا۔
مجھے بار بار یہی خیال آتا تھا کہ ’’مئے کدہ‘‘ کے بند ہوجانے کا اس پر بہت اثر ہوا ہوگا ۔ اس لیے شاید وہ زیادہ جی نہ سکا ہو ۔ میں Guilty محسوس کررہاتھا۔اس کا اپنا کوئی نہ تھا۔ دور کے رشتے دار اور چند احباب تھے۔
پارسی باہر آرہے تھے ۔ سہراب کی برہنہ نعش کو دُخمہ کی چھت پر چھوڑدیا گیا ہوگا۔ میں بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگا ۔ بہت سے پارسی بھی رک گئے تھے ۔ اگر گدھ نہ آئیں تو؟ کیا سہراب کی نعش دھوپ میں سوکھتی رہے گی؟کاش سہراب نے الکٹرک بھٹی کو ترجیح دی ہوتی میں سوچ رہا تھا۔
میں نے غیر ارادی طور پر آسمان کی طرف دیکھا ۔مجھے بچپن کا وہ منظردوبارہ نظر آنے لگا۔ گِدھوں کا ایک جھنڈ تیزی سے دخمہ کی طرف آرہا تھا ۔
پارسیوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ۔ بیس برس بعد یہ منظر لوٹا تھا ۔
’’پتہ نہیں کہاں سے آئے ہیں ؟ ‘‘ وہ ایک دوسرے سے سوال کررہے تھے۔
’’اگر فرش پر چینی گرجائے تو چیونٹیاں کہاں سے آتی ہیں ؟‘‘ کوئی میرے کان میں پھسپھسایا
———————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

The white-winged vulture a Short Story by Javed Nihal Hashmi

Articles

سفید پَروں والے گِدھ

جاوید نہال حشمی

شہر کے بیشتر حصے فساد کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔افواہوں کا بازار بھی گرم تھا۔فرقہ وارانہ تشدد کی آگ کو مزید بھڑکنے اور دیگر علاقوں میں پھیلنے سے روکنے کے لئے ضلع انتظامیہ نے حکومت کے متعلقہ شعبے کے تعاون سے انٹرنیٹ سروسز وقتی طور پر بند کروا دی تھیں۔نتیجہ، بیشتر گھروں میں ٹیلی فون اور موبائل کی گھنٹی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
مغل پورہ، حاجی پور، داراب نگر اور قصائی پاڑہ مسلم اکثریتی علاقوں میں شمار ہوتے تھے۔یہاں رہنے والے لوگوں کو اپنے ان رشتے داروں کی فکر کھائے جا رہی تھی جن کے مکان پرتاپ گڑھ، ہنومان گڑھی، سونار پور اور درگا نگر جیسے ہندو اکثریتی علاقوں میں تھے۔ یہی حال وہاں کے ہندو خاندانوں کا تھا جن کے اعزّہ و دوست مسلم علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ فرقہ وارانہ تشدد کی آگ نے مکانوں اور دکانوں کے ساتھ برسوں کی بھائی چارگی اور نسلوں سے قائم اعتماد اور بھروسے کو بھی جھلسا ڈالا تھا۔بے یقینی، خوف اور جذبۂ انتقام کے شدید احساس سے ان کی پھٹی آنکھیں پلکیں جھپکانا بھول گئی تھیں۔ پولیس کی یقین دہانی میں جھوٹ اور علاقائی چہ مگوئیوں میں حقیقت کا گمان ہونے لگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ہنومان گڑھی کے لوگوں کو خبر ملی کہ قصائی پاڑہ کےڈاکٹر شرما کا مکان لوٹ کر جلا دیا گیا ہے اور ان کی فیملی کے کسی فرد کا کوئی اَتا پتا نہیں ہے تو انہیں یقین ہو گیا کہ مسلمانوں نے ان سب کا کام تمام کر دیا ہے۔انتقامی کاروائی کے خدشے کے تحت انتظامیہ نے جعفرہ گنج کے گرد گویا پولس کا گھیرا ڈال دیا جو ہنومان گڑھی سے متصل ایک چھوٹا سا مسلم محلّہ تھا۔ ساتھ ہی پولیس افسران نے مقامی لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ جب تک لاشیں نہیں مل جاتیں، ان کے مارے جانے کی بات بے بنیاد ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے کسی محفوظ مقام پر پناہ لے رکھی ہو۔ لیکن لوگوں، خاص طور سے نوجوانوں، کو پولیس کے بیان میں قیاس آرائی نظر آئی جب کہ چند مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کی باتوں میں منطق جنہوں نے بڑے وثوق سے کہا تھا کہ قصائی پاڑہ والوں نے ڈاکٹر شرما اور ان کی فیملی کے لوگوں کو ذبح خانے میں قتل کر کے چانپڑوں سے بوٹیاں بنا کر گٹر میں بہا دیا ہوگا، لاشیں کیا خاک ملیں گی۔
کمال یاوَر صاحب تھانہ موڑ کے قریب واقع جدید طرز پر بنے اسٹار ہاؤزنگ کمپلکس میں رہتے تھے جس میں ہندو اور مسلم دونوں فرقوں کے لوگوں کے فلیٹس تھے۔ یہاں زیادہ تر تعلیم یافتہ طبقے کے لوگ رہتے تھے جس کے سبب فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ایسا ماحول تھا کہ کمپاؤنڈ میں بنے پوجا پنڈال میں مسلمان اور ان کے بچے بھی خوش گپیوں میں مشغول نظر آتے تو عید کے دن ہندو اہلِ خانہ بھی ہاؤزنگ کے گیٹ پر نماز پڑھ کر لوٹنے والے مسلمان پڑوسیوں سے گلے ملنے کے لئے سب سے آگے تیار کھڑے ملتے ۔بعض تو سیوئیاں کھانے پنجابی پائجامہ پہن کر پہنچ جاتے۔ کمال یاور صاحب دو سال قبل جب یہاں رہنے آئے تھے تو ہاؤزنگ کمیٹی کے سکریٹری شبیر صاحب نے اپنے دس سالہ تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے سوسائٹی کو قومی یکجہتی کا بہترین نمونہ قرار دیا تھا اور مشترکہ تقریبات کے علاوہ روز مرہ کے واقعات کی کئی مثالیں بھی پیش کی تھیں۔ کمال یاور صاحب صرف امید ہی کر سکتے تھے کہ ملک کی تیزی سے بدلتی سیاسی و فرقہ وارانہ صورتِ حال کا اثر ہاؤزنگ سوسائٹی کے ماحول پر نہ پڑے۔
آج چوتھے روز کرفیو میں وقفے کے دوران جب وہ باہر نکلے تو چوک بازار میں پرانے پڑوسی شمشیر خان سے ملاقات ہو گئی۔ علیک سلیک کے بعد رسمی گفتگو کے دوران اچانک شمشیر صاحب نے پوچھا:
”گزشتہ ہفتے عرفان کو دیکھا تھا۔ کافی کسرتی بدن بنا لیا ہے اس نے۔ کوئی باڈی بلڈنگ کلب جوائن کیا ہے کیا اس نے؟“
”ارے نہیں،بس ہاؤزنگ کے جِم میں پابندی سے وقت دیتا ہے۔“ کمال صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وضاحت کی۔
”کیوں؟ کیا فلموں میں کام کرنے کا ارادہ ہے؟“ شمشیر صاحب کی مسکراہٹ میں طنز کا عنصر بھی شامل تھا۔
” ایسی کوئی بات نہیں۔ آج کے نوجوانوں کو تو آپ جانتے ہی ہیں، فٹ نس کا خبط …“
”انہیں احساس ہو نہ ہو، آپ تو ملک کے حالات سے باخبر ہیں۔ہماری نئی نسل کو معلوم ہونا چاہئے کہ اب بائی سپس (Biceps) بنانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ وقت باڈی بنانے کا نہیں، بم بنانے کا ہے۔آج بابری مسجد ڈھائی گئی، کل کوئی ا ور مسجد ہوگی …“
”جی جی …بالکل ۔“انہوں نے بات کاٹتے ہوئے جلدی سے کہا ۔
پھر اس سے قبل کہ شمشیر خان مزید کچھ کہہ پاتے انہوں نے معذرت خواہ لہجے میں کہا:”میں اس وقت ذرا جلدی میں ہوں۔ پھر ملتا ہوں۔“ اور تیزی سے آگے بڑھ گئے۔ ان کے چہرے پر ناگواری کی لکیریں گہری ہو گئی تھیں۔ اگر رکتے تو زبان سے کوئی تلخ جملہ ضرور ادا ہو جاتا۔
شمشیر خان کی گفتگو سن کر انہیں لگا گویا بستی چھوڑ کر اس ہاؤزنگ کمپلکس میں رہائش اختیار کرنے کا ان کا فیصلہ درست تھا۔ ایسی سوچ چائے خانوں، پان دکانوں اور ہیئر کٹنگ سیلون میں بیٹھ کر عوام کے جذبات سے کھیلنے والے اردو اخبارات کی اشتعال انگیز سرخیوں پر بحث کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ اس مخصوص طبقے کے لوگوں کی ذہنیت سے بخوبی واقف تھے۔
ابھی کل ہی شام کو ہاؤزنگ سوسائٹی کے دفتر میں شہر کے موجودہ سنگین حالات کے پیشِ نظر ممبران کی ایک جنرل میٹنگ بلائی گئی تھی جہاں فرقہ وارانہ صورت حال کے مدنظر احتیاطی تدابیر و تجاویز پر غور و خوض کیا گیا تھا۔متفقہ طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ اس آگ اور خون کی ہولی کا ایک چھینٹا بھی ہاؤزنگ کمپلکس کے اندر آنے سے روکنے کے لئے مشترکہ طور پر ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ ہاؤزنگ کمیٹی کے سکریٹری کی حیثیت سے شبّیر صاحب نے ہاؤزنگ کمپلکس کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لئے سبھوں سے اپیل کی تھی۔کمیٹی کے صدر چتر ویدی جی اور دیگر نے بھی بھرپورتعاون کا یقین دلایا تھا اور کچھ کار آمد مشورے بھی دئیے تھے۔
ہاؤزنگ کے احاطے میں داخل ہونے کے بعد اپنے فلیٹ کی جانب جانے کی بجائے کمال یاور صاحب نے شبّیر صاحب کے بلاک کا رُخ کیا ۔
دیگر افراد کی طرح آج شبّیر صاحب بھی صبح ناشتے کے بعد سے ہی ٹی وی سے چپکے ہوئے تھے۔چہرہ پُرتفکر اور نگاہیں ٹی وی اسکرین پر مرکوز۔سلام کا جواب دیتے وقت لبوں پر آنے والی رسمی مسکراہٹ چند ساعتوں میں یوں معدوم ہو گئی گویا کسی فرض سے سبکدوش ہونے کی عجلت ہو۔
”یہ انتظامیہ کی نااہلی اور نکما پن ہے یا حکومت کے جانب دارانہ رویّے اور متعصب ذہن کا شاخسانہ … پوری اسٹیٹ مشینری فسادیوں کے آگے بےبس نظر آ رہی ہے۔“ انہوں نے کمال یاور صاحب کی توجہ ٹی وی پر دکھائی جانے والی فسادہ زدہ علاقوں کی ویڈیو کلیپنگ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی۔لہجے میں برہمی کا عنصر نمایاں تھا۔
کمال یاور صاحب نے خاموشی سے سر ہلا کر اتفاق کا اظہار کیا۔ان کا ذہن شمشیر خان کی باتوں سے پیدا شدہ بدمزگی کے اثر سے ابھی تک آزاد نہیں ہو پایا تھا۔
اچانک ان کے موبائل کا رِنگ ٹون بج اٹھا۔
”معاف کیجئے گا۔“ انہوں نے شبّیر صاحب کی طرف معذرت طلب نظروں سے دیکھتے ہوئے کال ریسو کی۔ پھر کچھ کہنے کے لئے منہ کھولاہی تھا کہ ہونٹ گویا منجمد ہو گئے، اور آنکھیں پھیلتی چلی گئیں …
چترویدی جی کی چہکتی ہوئی آواز تھی:
”ارے کمل یادو جی، ٹی وی کھولیے اور اپنا چینل لگائیے۔ہمارا اسکور تیزی سے بڑھ رہا ہے اور ہم چالیس سے زیادہ کا لیڈ لے چکے ہیں۔پہلے دن جب نمک حراموں نے ہمارے دس بھائیوں کے گھر پھونک دئیے تھے تو میرا خون کھول اٹھا تھا۔ ان غدّاروں کو سبق سکھانے کے لئے اردھ شتک کافی نہیں، ہمارے لوگوں کو سنچری بنانی ہوگی…“
کمال یاور صاحب کھانس کر رہ گئے۔ انہیں گلے میں کچھ اٹکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
”آپ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگتی۔چلیے، پھر باتیں کرتے ہیں، نمسکار۔“
کمال صاحب نےسکتے کے عالم میں موبائل کان سے ہٹایاہی تھا کہ شبّیر صاحب کی چھوٹی بیٹی نے آ کر پوچھا:
”ابّو، امّی نے پوچھا ہے چائے بسکٹ لیں گے آپ لوگ؟“
”ابھی جاؤ یہاں سے۔“ شبّیر صاحب نے ٹی وی نیوز سے نظریں ہٹائے بغیر ہاتھ اٹھا کر قدرے خشک لہجے میں اور تقریباً جھڑک کر کہا۔
ان کی پیشانی پر پڑی سلوٹیں ان کے گہرے ذہنی انتشار کا پتہ دے رہی تھیں اور بار بار مٹھیوں کے بھنچنے سے شدید اضطرابی کیفیت کا اظہار ہو رہا تھا۔
”اس وقت چائے نہیں، ان پیشاب پینے والوں کا خون پینے کی خواہش ہو رہی ہے۔“ شبّیر صاحب تنفر آمیز لہجے میں بڑبڑائے۔
کمال صاحب نے چونک کر ان کی طرف دیکھا کیوں کہ الفاظ تو ان کے تھے لیکن آواز چترویدی جی کی آئی تھی!وہ بے یقینی پن اور تذبذب کے عالم میں شبیر صاحب کا منہ تکتے رہے۔
”یہ ہوئی نا بات۔“تھوڑی دیر بعد اچانک شبّیر صاحب تقریباً چلّا اٹھے۔چہرہ بھی کھل اٹھا تھا، ”اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ وہ سب دیکھ رہا ہے۔“
کمال صاحب کا شک یقین میں بدل گیا کیوں کہ یہ آواز بھی واضح طور پر چترویدی جی کی ہی تھی۔
شیو مندر میں بھگدڑ،سیڑھیوں پر اٹھارہ لاشیں، مرنے والوں میں پانچ عورتیں اور چھ بچے _ ٹی وی پر بریکنگ نیوز۔
”صوفیہ بیٹا، اب چائے لاؤ۔ بلکہ کچھ کھانے کو بھی لاؤ۔لیٹس سیلے بریٹ۔“ شبّیر صاحب نے چترویدی جی کی آواز میں اپنی بیٹی کو پکارا۔
”ہاں کمال صاحب، بتایا نہیں کس کا فون تھا؟“ شبّیر صاحب نے پوچھا۔
”گھر سے فون تھا۔میرے لوٹنے میں تاخیر سے سبھوں کو فکر ہو رہی تھی۔ اب میں چلتا ہوں۔“
”ارے، چائے تو پیتے جائیے…“
”جی نہیں، شکریہ۔ سب لوگ پریشان ہوں گے۔ چائے پھر کبھی۔ اللہ حافظ۔“
سیڑھیوں سے اترتے وقت انہیں ایک اور الجھن نے آ گھیرا۔پتہ نہیں انہیں ایسا کیوں لگنے لگا تھا جیسے کچھ دیر قبل فون پر انہوں نے چترویدی جی کی نہیں، شبّیر صاحب کی آواز سنی ہو۔
————————————————————
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

The Flies a Short Story by Tahir Anjum Siddiqui

Articles

مکّھیاں

طاہر انجم صدیقی

کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
بس اس سے آگے وہ مزیدکچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جبپاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے۔۔۔۔۔۔
مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
’’اے اکرم ! تو مت آ یا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آ نا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو زبان چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’کیسی لڑائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چا چا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان کو خراب لگتاہے ۔
’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتاہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آ نسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میںاس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آ نکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچاکی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگرناشتہ کر رہے ہو تے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے ۔ ناشتے کے بعداُس کا منہ دُھلاتے ،تولیہ سے اپنا اوراُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اوراُسے گود میں اٹھاکر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
اپنے لئے گرما گرم چا ئے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آجانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے ۔حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّرمیں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والادودھ اُسےپلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچااکرم کواُس کے گھر والوں کے سپرد کر تے تو وہ ان سے چمٹ جاتا ۔ ان کے کپڑے ، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاور لوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
“۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابراُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیااور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگوں کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا اورپھوگ کےاُس ڈھیرپر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

٭٭٭
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔