Ertugrul Ghazi Osman Ghazi and Ottoman Empire

Articles

ارطغرل ،عثمان اور اورخان کے کارنامے

-

Gunga Boolna Chahta Hai a Short Story by Husain ul Haq

Articles

گونگا بولنا چاہتا ہے

حسین الحق

گونگے نے بڑی بے چینی سے پہلو بدلا۔
دوسروں نے شاید اس کی بے چینی محسوس نہیں کی یا اس کی بے چینی شاید قابل توجہ ہی نہیں تھی۔ جو بھی ہو مگر وہاں موجود لوگوں پر اس کی بےتابی کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیا۔ معاملہ ہی اتنا اہم تھا کہ اس کے سامنے ایک گونگے کی بے چینی کیا معنی رکھتی۔
جنوری کی انتہائی سرد رات، تقریباً 9 بجے کا عمل، محلے کے بیچوں بیچ “ماشاءاللہ” ہوٹل میں بالکل کنارے، ایک گول میز پر جس کے چاروں طرف آٹھ دس کرسیاں ۔۔۔ ایک پر پھدو مستری، دوسری پر جلیل خان ٹھیکیدار، تیسری پر بیچو ٹیلر، چوتھی پر محلے کی مسجد کا موذن عید محمد، پانچویں پر حبو جراح، چھٹی پر ہارہوا وارڈ کمشنر کھدر پوش پہلوان نما سوشل ورکر عبد الرؤف ، ساتویں پر قوالوں اور رمضان میں “قافلہ” والوں کو “سحری” لکھ کر دینے والا دو چار محلے میں مشہور شاعر جمال غوغائی، آٹھویں پر چراغ دین بیٹری ساز ۔۔۔۔۔۔ اور نویں پر بےچینی سے پہلو بدلنے والا گونگا!

گونگا بےچینی سے پہلو بدل رہا تھا مگر گونگا جو ٹہرا، بولتا کیا، البتہ اس کی اپنی مصیبت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ بول نہیں سکتا تھا مگر سن سکتا تھا اور سمجھ سکتا تھا۔ یہ کیسے ہوا یہ ایک الگ کہانی ہے جس کے بیان کا یہ موقع نہیں ہے۔
تب تو بس ایک ہی مسئلہ سامنے تھا کہ امریکہ کیسے ہارے گا؟
جب سے عراق نے کویت کو بادشاہت سے آزادی دلائی ، اس وقت سے جنگ شروع ہونے اور خطرناک ہو جانے تک تقریباً پانچ چھ مہینے کی مدت تو ضرور گزری، ان پانچ چھ مہینوں کے درمیان ماشاء اللہ ہوٹل کی گول میز کبھی خالی نہیں رہی۔ ہوٹل کھلنے سے بند ہونے تک باری باری سے گروپ پر گروپ آتا رہتا اور ایک پیالی چائے میں امریکہ کے اسکڈ میزائیل بیڑے ، ہوائی جہاز اور ٹینک ڈبوتا رہتا۔ شروع شروع میں تو ہوٹل کا مالک رمضان علی خاں خاصا چیں بچیں ہوا :
“سالے ایک پیالی چائے پئیں گے اور ایک گھنٹہ تک بقراطی جھاڑیں گے”۔ اس نے بڑے بڑے حرفوں میں لکھوا کر چاروں طرف دیواروں پر چسپاں کر دیا:
“سیاست پر گفتگو منع ہے”۔
مگر ہر دن اور ہر وقت وہی بات ، وہی موضوع ، تنگ آ کر ایک گروپ کو ٹوک دیا: “بھائی د یکھتے نہیں؟ سیاست پر گفتگو منع ہے”۔
تو ان میں سے ایک نے ہنس کر کہا: “اجی سیاست پر گفتگو کون کر رہا ہے؟ یہاں تو جنگ پر بات ہو رہی ہے”۔
رمضان علی گڑ بڑا کر رہ گئے۔۔۔ “سیاست اور جنگ کے فرق کا مسئلہ!”
دوسرے گروپ سے انہوں نے دو ٹوک کہا: “ہوٹل کھانے پینے کی جگہ ہے، خوش گپی کی نہیں”۔ اس پر ایک من چل بول اٹھا: “رمضان بھائی ! کربلا اور نجف پر بمباری کے تذکرے کو آپ خوش گپی کہتے ہیں؟”

رمضان علی کے پاس اپنے دفاع کے لئے کچھ نہیں رہ گیا مگر وہ کاؤنٹر پر بیٹھے مسلسل کھولتے رہتے اور کبھی آہستہ کبھی زور سے بگڑتے رہتے۔ تب ایک دن ان کے بیٹے نے انہیں سمجھایا:
“ابا! اگر دس آدمی ایک پیالی چائے پر ایک گھنٹہ بیٹھتے ہیں تو گویا ایک گھنٹے میں دو پیالی۔ ہوٹل صبح سات بجے سے رات دس بجے تک کھلا رہتا ہے یعنی 15 گھنٹے ۔۔۔ اس طرح ایک دن کی صرف چائے کی کمائی 75 روپئے ہوتی ہے تو پھر بحث سے ہمارا کیا نقصان ہو رہا ہے؟
یہ نکتہ رمضان علی کی سمجھ میں آ گیا اور بحث جاری رہی۔

اس رات بھی بحث جاری تھی اور ایک ہی مسئلہ سامنے تھا کہ امریکہ کیسے ہارے گا۔ کچھ دیر پہلے ریڈیو خبر نشر کر چکا تھا کہ امریکی فوجیوں نے بغداد کے ایک بنکر پر ایسا حملہ کیا کہ اس کے اندر چھپے ہوئے ہزاروں افراد پل بھر میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ اس خبر سے کچھ دیر کے لئے سب پر سکتہ طاری ہو گیا۔ مانو سب کو سانپ سونگھ گیا، کوئی کچھ بول نہیں پا رہا تھا، چاروں طرف ایک عجیب سی ہے بس خموشی پسری تھی۔ پھر ٹیبل پر پسری خموشی کے سینے میں جیسے چاقو سا کھب گیا۔۔۔۔ شاعر جمال غوغائی کی آواز گونجی:
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔
جمال غونائی کی آواز پر جیسے عبدالرؤف چونک اٹھا اور ٹیبل پر ایک زور دار مکا مار کر چیخا: “ایک مردہ لوممبا ایک زنده لوممبا سے زیادہ طاقت ور ہے”۔
اس پر عید محمد موذن بہت بھاری اور گمبھیر آواز میں بولا:
“بھائی ! یہ ساری خبریں تو اسی شیطان اعظم امریکہ کی دی ہوئی ہیں۔ عراق کی خبریں کہاں آ پا رہی ہیں جو ہم یقین کر لیں کہ واقعی اتنے لوگ مارے گئے”۔
یہ سنتے ہی چراغ دین بیٹری ساز کچھ اس طرح اسٹارٹ ہو گیا جیسے کسی فلیتے کو آگ دکھا دی ہو :
“ارے عراقیوں نے تو ان کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ اسرائیل کو کیا مار رہا ہے ۔۔۔ دے ٹھس پر ٹھس ۔۔۔۔ اور اسرائیل امریکہ کی مجال نہیں ہو رہی ہے کہ عراقیوں کو چھوویں ، اور وہ سالا، نجدی کی اولاد الگ بلبلاتا پھر رہا ہے، کبھی دہران سے بھاگ رہا ہے کبھی ریاض سے، اور یہ شیطان بش کہتا ہے کہ ہم نے ہزاروں کو مار ڈالا ۔۔۔ جھوٹا لاغی ۔۔۔”

ٹھیک اس وقت جمال غوغائی کا بیٹا ہوٹل میں داخل ہوا: “بابا۔ بایو کو پھر دورہ پڑ گیا ہے۔ اماں بلا رہی ہیں”
“ارے تو اماں سے کہہ کہ او دوا دے دے جو طاق پر رکھی ہے”۔ جمال غوغائی کے لہجے سے اکتاہٹ ٹپک رہی تھی۔
“او دوا تو دے دیہن”۔
“اچھا تیں چل۔ ہم آویں ہیں”
“جمال بھائی۔ شادی بھی سالی مصیبت ہے”۔ پھدو مستری بولا۔
“یار مصیبت میں مجا بھی تو ہے” بیچو درزی کھی کھی کر کے ہنسا۔ اس کے سارے دانت پیلے ہو رہے تھے۔
“ہنسو مت” عبدالرؤف چیخا۔ “یہ ہنسنے کا وقت نہیں ہے۔ فیصلے کی گھڑی ہے۔ تم کو یاد نہیں ، خلافت کے زمانے میں کیا ہوا تھا۔۔۔ بولیں اماں محمد علی کی ، جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ پھر جان دینے کی باری آئی ہے”۔
“مگر یار عبدالرؤف” جمال غوغائی بہت مدہم آواز میں بولا: “خلافت پر جان دے کر ملا کیا؟”
عبدالرؤف آنکھیں نکال کر غرایا: “تم شاعر لوگ کی یہی بہت خراب عادت ہے۔ عمل کے وقت پیچھے ہٹ جاتے ہو”۔
“نہیں یار۔ پیچھے ہٹنے کی کیا بات ہے؟ اور میرے آگے رہنے سے بھی کیا ہو جائے گا۔ میں تو بس یونہی پوچھ رہا تھا”۔

جمال غوغائی اتنا بول کر چپ ہو گیا، گونگا پہلو پر پہلو بدلتا رہا اور ماشاء اللہ ہوٹل میں بھانت بھانت کی آوازیں گونجتی رہیں۔۔۔
“صدام تو مرد مجاہد ہے۔ پھر ایک نئی کربلا درپیش ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اب کے صدام بیت المقدس کو آزاد کرا کے دم لے گا۔ مگر کویت پر اسے قبضہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کویت اور سعودی کے حکمراں تو ایک نمبر کے عیاش ہیں ، صدام نے اپنی دولت کا صحیح استعمال کیا ۔۔۔”

عین اس وقت کسی اسٹیشن سے خبریں آنے لگیں۔۔۔
“بنکر پر حملہ اتنا شدید تھا کہ بم آٹھ فٹ موٹی چھت پھاڑ کر اندر گھس گیا۔ اندازے کے مطابق اس بنکر میں سترہ سو (1700) اشخاص نے پناہ لے رکھی تھی۔
اطلاعات مظہر یہ ہیں کہ پناہ لینے والوں میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ امریکہ نے اس بنکر کو فوجی تنصیب کیا ہے”۔
اسی وقت عید محمد موذن جلیل خاں کو بتا رہا تھا کہ میری مسجد کا جو صدر ہے وہ بہت جھوٹ بولتا ہے مگر مقامی تبلیغی جماعت کا امیر ہے اور محلے میں تبلیغی جماعت کا اثر دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اس لئے اس کی حمایت کو بھی لوگ مل جاتے ہیں۔

عراق پر امریکی حملہ جاری تھا۔
گونگے نے بےچینی سے پہلو بدلا ، ٹھنڈ کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ اس نے اپنے بیٹے کی، کلکتہ سے بھیجی گئی کمبل اپنے اردگرد کس کر لپیٹ لی اور جمال غوغائی کو گھر جانے کا اشارہ کیا جس کے بیٹے پر کھانسی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔
جمال غوغائی نے گونگے کے اشاروں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ اس وقت تو وہ وہاں موجود لوگوں کو کل کے مظاہرے میں پڑھی جانے والی نظم سنا رہا تھا۔
“ہم مردِ مجاہد ہیں / ہم عدل کا ساماں ہیں / ہم عزم کا عنواں ہیں / ہم نے ہی زمانے کو / اخلاق سکھایا ہے / ہم جب بھی اٹھے / تب تب / ہر فتح ہماری ہے / ہر ملک ہمارا ہے / ہم مردِ مجاہد ہیں۔۔۔۔۔”
گونگے کو پھر وہ بچہ یاد آیا۔۔

آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے لوگ اٹھتے گئے۔ رات گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ٹھنڈ اور پڑھ گئی تھی۔ عید محمد موذن کا سب سے برا حال تھا، ایک ہاف سوئٹر اور اس پر ایک سوتی چادر۔ جمال غوغائی کے بدن پر پرانی ہی سہی مگر گرم چادر تو تھی۔ پھدو مستری پرانا فل سوئٹر پہنے تھا اور کمبل اوڑھے ہوئے تھا۔ سرد ہوا سب کے بدن چیرتی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی چلی جا رہی تھی۔ بس جنگ کی باتیں کچھ گرمی پیدا کر سکتی تھیں مگرخبریں بھی تو نہیں آ پا رہی تھیں!

“لوگوں پر بم گرتا ہوگا تو کیسا تڑپ کر دم توڑتے ہوں گے؟” جمال غوغائی بدبدایا۔
گونگے نے چھٹپٹا کر اسے دیکھا۔۔۔ “یہ اب تک گھر نہیں گیا۔ اس کا بیٹا بیمار ہے”۔
“بھائی اللہ کی مرضی میں کس کا دخل؟” پھدو مستری نے ٹھنڈا سانس لیا اور اچانک ایسا لگا جیسے سردی دوگنی ہو گئی۔
“برف گرنے لگی”۔ گونگے نے آسمان کی طرف دیکھ کر سوچا۔۔۔۔ آسمان بالکل صاف تھا مگر گونگے کو ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان گدلا گیا ہے۔ گاڑھا مث میلا دھواں۔۔۔۔ اسے لگا اس کا دم گھٹ جائے گا۔

“دیکھو، یاد رکھنا کل جلسے میں سب لوگ آنا”۔ جمال غوغائی نے یاد دلایا۔
“ہاں بھائی کل ہمارے شاعر کو خوب داد ملنی چاہیئے”۔ عبدالرؤف ہنسا۔ پھر سب آہستہ آہستہ کسی نہ کسی موڑ مڑتے گئے۔

جمال غوغائی جب اپنے گھر پہنچا تو ساڑھے دس بج چکے تھے۔ سب بچے سو گئے تھے۔ صرف بیوی بیمار بچے کو لئے جاگ رہی تھی۔ دروازه اسی نے کھولا مگر کچھ بولی نہیں۔ جمال غوغائی اس کا چہرہ دیکھ کر جھینپ گئے۔ “ذرا دیر ہو گئی، بابو کیسا ہے؟”
بیوی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ گود میں لئے بچے کے منہ پر سے آنچل ہٹا دیا۔ ہڈیوں کا پنجر ، ستا ہوا بےجان چہرہ جیسے کسی نے کپڑے کو کس کر نچوڑ دیا ہو۔ کمزوری کے سبب آنکھ پوری طرح نہ کھل رہی تھی نہ بند ہو رہی تھی۔ پیاس کے غلبے کے سبب منہ کھلا ہوا۔۔۔ خشکی سے زبان کانٹے کی طرح کھدکھدی!
“کھانسی رک گئی ہے نا؟”
“پندرہ منٹ سے تو رکی ہوئی ہے”۔

اچانک جمال غوغائی چونکے۔ “بی بی سی کا وقت ہو رہا ہے”۔
بی بی سی سے خبریں نشر ہونے لگیں۔
“دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا ہوائی حملہ!”
بچے پر پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔
“ہم آخری دم تک جنگ کریں گے”۔
بچے کا بدن اینٹھنے لگا۔
“ہم مردِ مجاہد ہیں”۔ جمال غوغائی نے اپنی نظم یاد کی اور کل کے جلسے کے بارے میں سوچا۔
بیوی بچے کی تکلیف دیکھ کر رونے لگی۔

“عراق کا آسمان امریکی طیاروں سے بھرا ہوا ہے”۔ خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔
“اللہ کی مرضی میں کس کا دخل؟” پھدو مستری کا حملہ یاد آیا۔
“بیوقوف عورت کیوں روتی ہے؟ اللہ چاہے گا تو بابو کو کچھ نہیں ہوگا”۔ جمال غوغائی نے بیوی کو ڈانٹا۔

“نئی دنیا” کا تازہ شمارہ سامنے پڑا تھا۔۔۔
نوسٹریڈمس کی پیش گوئی ۔۔۔!
“امریکہ کی کامیاب جنگی حکمت عملی کے سبب جنگ کا پلڑا امریکہ کے حق میں جھک چکا ہے”۔ مبصر اپنی رائے پیش کر رہا تھا۔

بچہ کھانستے کھانستے دم توڑنے کی منزل میں آ گیا مگر مرا نہیں۔
عراق اور امریکہ کی جنگ جاری تھی۔ اللہ کی مرضی میں کسی کا دخل؟
جمال غوغائی کے بصری اور بی بی سی کے صوتی منظر نامے میں گونگا کہیں فٹ نہیں ہوتا ۔۔۔ اس لئے نظر بھی نہیں آتا۔ مگر وہ کہیں تو ہوگا۔ اور جہاں ہوگا وہاں پہلو پر پہلو بدل رہا ہوگا۔ بولنے کی خواہش رکھنے والے گونگے کا یہی تو اصل مسئلہ ہے کہ وہ دوسروں کی باتیں سمجھ لیتا ہے مگر دوسرے اس کی بات نہیں سمجھ پاتے۔۔۔!!

ماخوذ از کتاب:
نیو کی اینٹ (افسانوی مجموعہ)
مصنف : حسین الحق
ناشر: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی۔ (سن اشاعت اول: 2010)
یہ افسانہ معروف واہٹس ایپ گروپ ’’ بزمِ افسانہ‘‘ کے توسط سے پیش کیا جارہا ہے۔

The Guest a Short Story by Khan Hasnain Aaqib

Articles

مہمان

خان حسنین عاقبؔ

ممبئی اپنی رنگارنگیوں کی وجہ سے عالم میں انتخاب شہر ہے۔ لیکن جن سڑکوں پر پیدل چلتے ہوئے کبھی کھوے سے کھوا چھِلتا تھا، اب انھی سڑکوں پر ہو کا عالم ہے۔ ہر طرف سناٹا پسرا ہوا ہے۔ تھوڑی بہت ہلچل اگر کہیں نظر آتی ہے تو وہ مضافاتی علاقوں اور جھگی جھونپڑیوں میں۔ اسی ممبئی شہر کے علاقے وِلے پارلے کے مشرق میں آدھا کلومیٹر پیدل چلیں تو بائیں جانب لکشمی چال ہے۔ یہ چال نہیں بلکہ چھوٹی چھوٹی گلیوں کا ایسا جال ہے کہ اگر کوئی نیا بندہ ایک مرتبہ کسی ایک گلی میں گھس جائے تو گھنٹوں باہر نہ نکل پائے۔ یہ گلیاں نہیں بھول بھلیاں ہے۔ ان دنوں سارے ممبئی شہر میں MHADA   کی بلڈنگیں بن رہی ہیں۔بیٹھی چال کی جگہ کثیر منزلہ بلڈنگیں لے رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک نئی تعمیر شدہ بلڈنگ کی نویں منزل پر اکرم قریشی کا گھر ہے۔ گھر کیا ہے، بس ایک چھوٹی سی جگہ ہے جسے دیواروں سے گھیر دیا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں اسے فلیٹ کہتے ہیں۔ اس فلیٹ میں ایک چھوٹا سا ہال، اس سے بھی چھوٹا بیڈروم، کچن کے نام پر چولہے کے سامنے چار لوگوں کے کھڑے رہنے کی جگہ اور ماچس کی ڈبیا جتنے باتھ روم اور ٹوائلٹ۔ اس پوری بلڈنگ میں ایسے چار سو پینسٹھ فلیٹ ہیں۔ گھر میں اکرم قریشی، ان کی بیوی سلمہ، چار بیٹے رہتے ہیں۔ ملک میں لاک ڈاؤن کیا شروع ہوا، حالات ہی بدل گئے۔ صورتِ حال مخدوش سے مخدوش تر ہوتی چلی گئی۔ آج پچیسواں دن آن پہنچا تھا لاک ڈاؤن کا۔ 
اکرم قریشی کے اس فلیٹ میں گجرات کے مشہور شہر سورت سے ان کی سالی صادقہ اپنے ایک بیٹے اور بیٹی کے ساتھ گزشتہ پچیس سالوں میں پہلی مرتبہ ان کے گھر آئی تھی۔وہ آئی تو تھی تین دنوں کے لیے لیکن لاک ڈاؤن اچانک نافذ ہوگیا اور پھر شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہوتا چلاگیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اکرم میاں کی بیٹی جس کی دو مہینے قبل ہی شادی ہوئی تھی، شادی کے بعد پہلی مرتبہ میکے آئی اور لاک ڈاؤن کا شکار ہوکر یہیں اٹک کر رہ گئی۔ یعنی اب گھر میں چھ ریگولر افراد کے علاوہ چار اضافی افراد بھی موجود تھے۔ صادقہ کے لیے تو معاملہ ’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘ کا ہوگیا تھا۔ 
ایسی وباء جس کا نام کورونا تھا اور جو بیک وقت ساری دنیا پر مسلط کردی گئی تھی، انسانی آنکھ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی کانوں نے اس کے بارے میں پہلے کبھی سنا تھا۔ 
اکرم میاں میں جو بہت ساری خوبیاں تھیں ان میں ایک تو یہ تھی کہ وہ بہت گرم مزاج تھے اور دوسری خوبی یہ تھی کہ ان کی زبان پر مغلظات کی کثافت کی تہہ نہایت دبیز تھی اور عمر کے ساٹھویں برس میں اس کی دبازت میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ 
مہمان تین دن کا ٹھیک! اکرم میاں کا ایمان تین دن کی مہمانداری پر راسخ تھا۔ اس سے زیادہ کے وہ قائل نہ تھے۔ چوتھے دن وہ زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن اس کے باوجود مہمان بغیر کچھ کہے سب کچھ سمجھ جاتا۔ صادقہ، اس کی بیٹی حامدہ اور بیٹا فراز بھی بہت کچھ سمجھ رہے تھے۔ وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ لاک ڈاؤن نے اس چھوٹے سے فلیٹ کی چار دیواروں کو ایسے سکیڑ دیا ہے جیسے کسی الاسٹک کو کھینچ کر چھوڑدیا جائے۔
اتنے سارے افراد اتنے سے گھر میں مقید، محصور و معذورہوکررہ گئے۔ مہمان مہمان نہ رہا اور میزبان بھی میزبان نہ رہا۔ تکلفات کے سارے پردے درمیان سے اٹھ گئے تھے۔ صادقہ سینکڑوں کلومیڑ کی مسافت طے کرکے اپنی شادی کے بعد پہلی مرتبہ ممبئی آئی تھی اور یہاں آکر یہ سب کچھ ہوگیا۔ وہ اپنے پیچھے عمر کی سنچری مکمل کرتی ساس، اپنے سرکاری ملازم شوہر، ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو چھوڑ آئی تھی جو روز اسے فون کرکے یاد دلاتے کہ ’امّاں (صادقہ کی ساس) آپ کو بہت یاد کررہی ہیں۔‘ 
گزشتہ پچیس دنوں میں اس فلیٹ کا ماحول نہایت بوجھل ہوگیا تھا۔ ایک تو یوں بھی اکرم میاں کسی کو نچلا بیٹھے دیکھ نہیں سکتے تھے اور پھر مہمان! خدا کی پناہ! روبینہ تو خیر ان کی اپنی بیٹی تھی جو شادی کے پہلے بھی اسی فلیٹ میں رہتی تھی لیکن۔۔۔
صادقہ، حامدہ اور فراز، روز دعائیں مانگتے کہ اللہ! ٹرین کم از کم ایک روز کے لیے ہی کھول دے۔ یا کم از کم واپس گھر جانے کا کوئی ذریعہ بنادے۔ مگر ہر مرتبہ اللہ نے ان کی دعاؤں کو قبولیت والے خانے سے باہر ہی رکھا تھا۔ 
دن گزررہے تھے۔ گزر کیا رہے تھے بلکہ گزارے جارہے تھے کہ اچانک ایک روز کہیں سے گھومتے گھامتے یہ خبر گھر میں پہنچی کہ سرکار کی جانب سے لاک ڈاؤن میں دو دن کی رعایت دی جارہی ہے. لیکن یہ بات ضرور ہے کہ خبر سنانے والی زبان اکرم میاں کی تھی. اب یہ تو خدا ہی جانے کہ یہ خبر تھی یا محض افواہ! لیکن اسے سنتے ہی صادقہ سورت واپس جانے کے لیے بے چین ہوگئی. اس نے اکرم میاں کی منت سماجت کی کہ کسی بھی قیمت پر اس کے واپس جانے کا انتظام کردیں.
اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں!
بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تھا یا بلی نے خود ہی چھینکا توڑلیا تھا، یہ تو اکرم میاں جانتے تھے یا ان کا خدا.
اکرم میاں کے چہرے کی تازگی واپس آگئی اور انھوں نے اپنی پوری طاقت، صلاحیت اور تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پانچ گنا کرائے پر ایک بھروسے مند ٹیکسی والے کو تیار کرہی لیا۔ 
صادقہ ایک گھنٹے میں تیار ہوگئی اور رات ہوتے ہوتے حامدہ اور فراز کو ساتھ لیے ٹیکسی میں بیٹھ کر نکل بھی گئی۔ 
فلیٹ میں کھلی سانسوں کے لیے جگہ فارغ ہوتے ہی اکرم میاں نے سکون کی سینکڑوں سانسیں ایک ساتھ لے ڈالیں۔ رات میں انھیں اپنی ٹانگیں تھوڑی زیاہ پھیلانے کی جگہ بھی مل گئی تھی۔ 
رات کا ایک بجا ہوگا کہ اچانک سلمیٰ کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے دیکھا تو موبائل کے اسکرین پر صادقہ کا نمبر جگمگارہا تھا۔ وہ فون اکرم میاں کے پاس لے آئی اور انھیں جگاکر بتایا کہ صادقہ کا فون ہے۔ اکرم میاں کوچونکہ کئی دنوں میں پہلی مرتبہ گہری نیند آئی تھی اس لیے جاگنے میں تھوڑ ا وقت لگا۔ کچھ دیر آنکھیں ملتے رہے اور پھر بولے،’ایسا کرو! فون سوئچ آف کردو۔ ابھی کال رسیو کرکے کوئی خطرہ مول لینا ٹھیک نہیں ہوگا۔ پہلے وہ گھر پہنچ جائے پھر اس سے بات کریں گے۔‘
دونوں میاں بیوی نے فوراً اپنے اپنے سیل فون سوئچ آف کیے اور سوگئے۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے بچوں کے سیل فون سوئچ آف کرنا نہیں بھولے تھے۔

City a Short Story by Hermann Hesse

Articles

شہر

ہرمن ہیسے (اردو ترجمہ : قاسم ندیم)

لگتا ہے اب ہم کہیں پہنچ رہے ہیں انجنیئر نے بلند آواز سے کہا۔کوئلہ اوزار اشیائے خوردنوش اور مسافروں سے بھری ہوئی ٹرین اس نئے علاقہ میں پہنچی جہاں کل ہی ریل کی پٹریاں بچھائی گئی تھیں۔اس وسیع و عریض علاقے میں چاروں طرف ہریالی تھی جس پر سورج کی سنہری کرنیں چمک رہی تھیں۔دور آسمان کو چھوتے ہوئے پیڑوں سے بھرے پہاڑ نیلے کہرے میں نہا رہے تھے۔ہرے بھرے میدانی علاقے میں کوئلہ، راکھ، کاغذ، اور لوہا اتارا جارہاتھا جس سے شور و غل ہو رہا تھا۔جنگلی کتے اور سانڈ یہ سب دیکھ رہے تھے۔آرا مشین کی آواز دور تک جنگلوں کو چیرتی ہوئی چلی جارہی تھی۔بندوق کی پہلی آواز کی گونج بادلوں کی گڑگڑاہٹ کی طرح پہاڑوں پر تیر گئی،لوہے پر بھاری ہتھو ڑے کی پہلی ضرب سے گھن کی آواز ہوئی، ٹین کے پتروں سے ایک جھونپڑی تیار ہوئی، دوسرے دن لکڑی کا ایک گھر پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے پتھروں سے تعمیر کیے گئے مکانات نظر آنے لگے۔جنگلی کتے اور سانڈ اس علاقے سے دوری قائم رکھنے لگے۔زمین کو جوتا گیا۔ہل چلایا گیا اور اس میں فصل آئی۔پہلے ہی بہار کے موسم میں زمیں ہری بھری فصلوں سے بھر گئی۔وہاں کھیت اصطبل اور انا ج کے گودام بنائے گئے۔زمین کو تراش خراش کر سڑکیں بنائی گئیں۔ ریلوے اسٹیشن تعمیر ہوا اور اس کا افتتاح بھی ہوگیا۔اس کے فوراََ بعد ایک سرکاری عمارت تیار ہوئی پھر ایک بینک۔تھوڑے ہی فاصلہ پر کچھ ہی مہینوں بعد اور بھی شہر بسائے گئے۔دور دراز کے علاقوں سے وہاں مزدور آنے لگے۔کسان اور شہری، بیوپاری اور وکیل آئے۔اساتذہ اور فلسفی آئے۔کچھ دنوں میں وہاں ایک اسکول،تین عبادت گاہیں اور دو اخبار شروع ہوئے۔مغربی سمت کے علاقے میں تیل کا ذخیرہ دستیاب ہوا۔نئے شہر کی ترقی ہونے لگی۔ایک سال بعد ہی وہاں پاکٹ مار، چور، اچکے،بدمعاش،شراب کی دکان،پیرس کا درزی اور بیئر پینے کے ہال وغیرہ وارد ہوئے۔قریبی شہروں کی مقابلہ آرائی سے مزید حوصلہ ملا اب کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ انتخابی پرورگنڈہ سے لے کر ہڑتال تک سنیما گھروں سے غوروفکر کے مراکز تک سب کچھ تھا۔فرانسسی شراب، ناروجن مچھلی، اطالوی ساسیز، برطانوی اون اور روسی جیکیٹ بھی موجود تھے دوسرے درجے کے گلوکاروں رقاصاؤں اور موسیقاروں کے گروپ بھی وہاں پروگرام کے لیے آنے لگے۔ آہستہ آہستہ وہاں تہذیب و ثقافت کا ارتقابھی ہوا۔وہ شہر جو ایک جھونپڑی سے شروع ہوا تھا اب ایک مستقل رہائش میں تبدیل ہو گیا۔ ملنے جلنے اور خیر مقدم کے طریقوں میں دوسرے شہروں سے پیچھے نہیں تھا۔جن لوگوں نے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی وہ بے حد مشہور و معروف و قابل احترام ہوگئے تھے۔ وہ یہاں کے مخصوص لوگوں کا اہم حصہ تصور کیے جاتے ہیں ایک نئی پیڑھی آگئی جس کے لیے وہ شہر اس کا پرانا گھر تھا۔وہ دن جب اس کی بنیاد رکھی گئی پہلا قتل ہوا،پہلی مرتبہ عبادت کی گئی یا پہلا اخبار شائع ہوا تھا اب قصصہ کہانی کی طرح لگنے لگا تھا۔ یہ شہر اب آس پاس کے قصبوں چھوٹے شہروں پر اپنا دبدبہ رکھتا تھا جہاں پہلے راکھ کے ڈھیریوں کے ساتھ جھونپڑیاں کھڑی ہوئی تھی وہاں اب بڑی اور کھلی کھلی چوڑی سڑکیں اور ان کے کنارے بنکوں، دفتروں، تھیٹروں اور عبادت گاہوں کی قطاریں تھیں۔ راستوں پر طلبہ دکھائی دیتے جو یونیورسٹی یا لائبریری جاتے۔ ایمبولینس دوڑتی کسی، سیاست داں کی لیموزین تیز رفتاری سے گزرتی اور لوگوں اسے حیرت و استعجاب سے دیکھتے پتھروں اور لوہے سے تعمیر کردہ بیسوں اسکولوں میں ہر سال شہر کی بنیاد والے دن کو یادگار دن کے طور پر منایا جاتا اس میں گیت اور تقاریر کی جاتی شہر میں جو کھلی جگہیں موجود تھیں وہاں اب کھیل کے میدان،کارخانہ اور درجنوں ریلوے لائنیں موجود تھیں۔ ریلوے لائنوں کی وجہ سے پہاڑ اب قریب آگئے تھے۔پہاڑ کے دامن میں اور دور دراز سمندر کے کنارے رئیسوں اور مالدار لوگوں نے تعطیلات گرما کے لیے اپنے گھر تعمیر کروالیے تھے۔ تقریباََ سو سال بعد شہر ایک بڑے زلزلے کی زد میں آگیا اور پوری طرح تہس نہس ہوگیا۔اس بار پتھروں کے مکانات کی جگہ لکڑی نے اور بڑی بڑی عمارتوں کی جگہ چھوٹے مکانوں نے لے لی۔تنگ راستوں کی جگہ چوڑے راستہ بنائے گئے۔ اس کا ریلوے اسٹیشن اور اسٹاک ایکسچینج پورے ملک میں سب سے بڑا تھا۔ دوبارہ تعمیر شدہ شہر کو انجینئر وں فنکاروں اور کلاکاروں نے مختلف پارک، باغات، فواروں اور مجسموں سے سجایا۔نئی صدی میں شہر ملک کا سب سے دولت مند اور خوبصورت شہر مانا جانے لگا۔ساری دنیا سے سیاست داں انجینئر اور میئر یہاں کی تعمیرات پانی کا انتظام اور نظم و نسق کے مطالعہ کے لیے تشریف لائے۔ شہر کے نئے ٹاؤن ہال کے تعمیر کے ابتدا ہوئی جو دنیا میں سب سے بڑا اور شاندار تھا۔ ترقی اور علاقائی افتخار بڑھنے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی نفاست میں اضافہ ہوا اور مزید ترقی کرتا ہوا یہ شہر خوبصورتی کے کرشمے میں تبدیل ہوگیا۔شہر کے درمیان کا حصہ جہاں کی عمارتیں ایک خاص ہلکے رنگ کے پتھروں سے تعمیر کی گئی تھیں،چاروں طرف سے بے حد خوبصورت باغات سے گھرا ہوا تھا۔ اس کے بعد کشادہ سڑکیں جن کے کنارے گھروں کی قطاریں تھیں جو دور دیہاتوں تک جاکر کھو جاتی تھیں، خوب سرہا جانے والا میوزیم تھا۔ جہاں ہمیشہ اسے دیکھنے کے لیے لوگ آتے رہتے تھے۔ اس میں سینکڑوں کمرے ہال اور برآمدے تھے جن میں شہر کی تاریخی نوادرات کو بڑے جتن سے رکھا گیا تھا۔ ایک بڑے حصہ میں شہر کی پہلی جھونپڑی، راستے وغیرہ کے ماڈل، جنگلی جانوروں اور میدان کے ساتھ موجود تھے۔ میوزیم کا مشاہدہ کرنے والے نوجوان خیموں اور جھونپڑیوں اور اوبڑکھابڑ پٹریوں سے آج جگمگاتے ہوئے شہر تک کے اپنے ارتقا پر غوروفکر کرتے، اپنے اساتذہ و رہنماؤں کے ذریعے انھوں نے اپنی ترقی اور فروغ کے عظیم اصولوں کو سمجھ اور سیکھا کیسے تخریب سے تعمیر،بربریت سے انسانیت،جہالت سے تہذیب اور غربت سے دولت حاصل کی جا سکتی ہے۔ شہر کی ترقی بڑی تیزی سے ہوئی۔ اس میں تمام سہولیت میسر تھیں۔ اس وجہ سے اگلی صدی میں وہ انتہا پر پہنچ گیا مگر اسی وقت دبے کچلے طبقہ نے آواز بلند کی اور خونی انقلاب نے اس کی ترقی کا خاتمہ کر دیا۔ لوگوں کے جم غفیر نے تیل کے کنووؤں میں آگ لگا دی۔ کارخانوں،کھیتوں اور گاؤں سمیت اس علاقے کے بڑے حصے میں آتش زنی کی وارداتیں ہوئیں۔جس سے بربادی ہوئی۔قتل و غارت گیری کے باوجود شہر بچ گیا۔برسوں بعد یہ مصیبتوں سے ضرور نکلا مگر پہلے جیسی ترقی نہ ہوئی پھر کوئی نئی عمارت نہیں تعمیر ہوئی۔ ان مشکل حالات کے دوران سمندر پار کسی جگہ تیزی سے ترقی ہونے لگی وہاں کی زمین اناج،لوہا،چاندی اور کئی نعمتوں سے مالا مال تھی اس لیے نئی زمین کی طرف سبھی راغب ہوئے۔ پرانی زمین سے جڑے لوگ نئی امیدیں نئی صلاحتیں لیے وہاں جانے لگے۔راتوں رات اس نئی زمین پر نئے شہر جلوہ گر ہونے لگے۔ جنگل غائب ہوگئے پانی کے ذخیروں کو مرضی کے مطابق نئی سمت دی جانے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ پرانا خوبصورت شہر غریب ہونے لگا۔وہ ایک معاشرہ کا دل و دماغ اور کئی ممالک کا اسٹاک ایکسچینج نہیں رہا۔نئے دور کی اتھل پتھل میں وہ صرف کھڑا رہا۔ اپنی ثقافت کی وجہ سے کچھ ٹوٹے تار باقی رکھ سکا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس شہر کے رہنے والے اسے چھوڑ کر نئے شہر میں گئے۔ وہاں کچھ نیا نہیں بنا سکے، تجارت میں ٹھہراؤ آگیا تھا اور دولت کمانے کے مواقع بہت کم رہ گئے تھے مگر اب اس پرانی ثقافت والی سر زمین پر نئی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔ اس مرتے ہوئے شہر میں عالم اور فنکار مصور اور شاعر پیدا ہونے لگے جنھوں نے پہلے کبھی اس سر زمین پر مکان بنائے تھے ان کے وارث اب یہاں دیر سے جاگے اور فنکارانہ ماحول کو دیکھ کر مسکرانے لگے۔ انھوں نے کائی سے بھرے ہوئے باغات کی تصاویر بنائیں جن میں ٹوٹی پھوٹی مورتیاں اور ہرے تالاب تھے یا پھر وہ پرانے زمانے میں ہونے والی اتھل پتھل اور جنگ کے دوران جان بازی کے واقعات اور پرانے محلوں میں موجود تھکے ماندے لوگوں کے خوابوں کے بارے میں احساسات سے بھر پور شاعری کرتے رہے۔ ایک بار پھراس شہر کا نام دور دور تک مشہور ہونے لگا۔چاہے باہر کی دنیا جنگوں سے لرزتی رہے اور بڑے بڑے منصوبوں پر عمل آوری میں مصروف رہے۔ یہاں کے باشندے پر سکون تنہائی اور اجداد کے کارناموں کو سینے سے لگائے جی سکتے تھے۔ یہاں کی ویران سڑکیں پھیلی ہوئی ڈالیوں سے بھری تھیں۔ موسم کی مار جھیلتے ہوئے مکان کی خاموشی سے چوراہوں کو دیکھتے رہتے اور کائی زدہ فوارے اپنا راگ سناتے رہتے۔ ایک یا دو صدی تک دنیا کے لوگ اس پرانے خوابیدہ شہر کو احترام سے دیکھتے رہے۔شاعروں اور سیاحوں نے بھی اسے خوب سراہا مگر زندگی کا رخ دوسرے ممالک کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ خود اس شہر میں پرانے باشندوں کی اگلی پیڑھیاں معدوم ہوتی جارہی تھیں۔ تہذیبی تغیرات کا دور بھی بہت پہلے ختم ہو چکا تھا اور اب اس کے سڑے گلے باقیات ہی بچے تھے۔ اس کے آس پاس کے چھوٹے چھوٹے شہر ویران اور کھنڈروں میں تبدیل ہوگئے تھے۔ شاذ و نادر ہی دوسرے ممالک کے مصور اور سیاح یہاں آتے اور موقع با موقع وہاں مجرموں کا بسیرا رہنے لگا۔ شہر سے تھوڑی دور زلزلہ آیا جس نے ندی کا بہاؤ تبدیل کر دیا وہاں کی زمین کا ایک حصہ دلدل میں اور باقی ریگستان میں تبدیل ہوگیا۔ دھیرے دھیرے پہاڑ سے پرانا جنگل نیچے اترنے لگا وسیع و عریض علاقہ کو ویران دیکھ کر جنگل نے اسے ٹکڑے ٹکڑے اپنی گرفت میں لینا شروع کیا۔دلدلی علاقہ میں ہر یالی چھانے لگی اور کھنڈروں پر بڑے بڑے پیڑ اگ آئے۔ آخرکار شہر کے باشندے اٹھ گئے جو باقی رہا وہ ایک قسم کا کھنڈر،عجیب و غریب قسم کے جنگلی جاندار ان کھنڈروں میں دکھائی دیتے۔ دلدلی علاقوں میں تبدیل ہونے کے بعد طوفان کا ایک دور گزرا جس میں اس طرح کی آبادی بھی وبائی امراض سے ختم ہوگئی آخرمیں سب کچھ ویران ہوگیا۔ بوسیدہ ٹاؤن ہال جو اپنے وقت میں قابل افتخار تھا ٹوٹا پھوٹا لیکن اب بھی سیدھا کھڑا تھا۔دنیا بھر کے گیتوں میں اب بھی اس کا ذکر ہوتا تھا اور قرب و جوار میں رہنے والے لوگوں کے بیچ اس کے بارے میں بے شمار کہانیاں موجود تھیں۔ اب قریبی شہر بھی معدوم ہونے لگے تھے ان کی تہذیب و ثقافت کا بھی خاتمہ ہورہا تھا اس شہر سے جڑے ناموں اور پرانی عظمت کا ذکر بچوں کے لیے لکھی جانے والی آسیبی کہانیوں میں ہونے لگا تھا اور کبھی کبھار دور دراز کے ملکوں سے محقق یہاں تحقیق کرنے آتے، اس شہر کے بارے میں جو راز پوشیدہ تھے اس پر بحث و مباحثہ کرتے، ٹھوس سونے کے دروازوں اور جواہرات کے گنبدوں کی بات ہوتی۔کہا جاتا ہے کہ اس خطہ کے خانہ بدوش آدی باسیوں کے پاس اب بھی بہت سی چیزیں محفوظ ہیں۔ لیکن جنگل اور نیچے آتے گئے پہاڑوں سے میدانوں تک جھرنوں اور ندیوں کا بہاؤ جاری رہا۔جنگل مزید گھنے ہوگئے، دھیرے دھیرے اس نے پرانی دیواروں،محلوں، عبادت گاہوں اور میوزیم پر اپنی چادر پھیلا دی۔لومڑی، نیولے،بھیڑیے اور بھالوؤں نے ہر طرف قبضہ کر لیا۔ ایک ٹوٹے محل کے کھنڈر میں ایک نیاچیڑ کا درخت بڑھنے لگا۔صرف ایک ہی سال پہلے اس نے جنگل کے قریب آنے کی اطلاع دی تھی مگر جب اس نے آس پاس دیکھ تو دور دور تک چھوٹے چھوٹے پیڑ اپنی جڑیں جماتے جارہے تھے۔ لگتا ہے اب ہم لوگ کہیں پہنچ رہے ہیں ایک پرندے نے خوشی سے آواز لگائی جو ایک ڈال پر چوٹ کرتا جارہا تھا اور خوشی سے اس بڑھتے ہوئے جنگل کو دیکھ رہا تھا جس کی شاندار ہریالی ساری زمین پر پھیلتی جا رہی تھی۔

٭٭٭

Hijama A Islamic Therapy

Articles

حجامہ

مولانا عزیز احمد قاسمی