Sydena Husain bin E Ali

Articles

سیدنا حسین بن علی

ابو ریحان ضیا الرحمن فاروقی

Sahifa E Muhabbat Ka Ijra

Articles

ناسک میں صحیفہء محبت کا اجرائے ثانی

وسیم عقیل شاہ


ناسک 21 جولائی : بھتڑا فاؤنڈیشن ،ناسک کی جانب سے  بھساول سے جاری ہونے والے ادبی رسالہ صحیفہء محبت کی تقریب اجرائے ثانی ہمسفر،چوپڑا لان، ناسک میں نہایت ہی شاندار طریقے سے منعقد ہوئی ـ یہ تقریب دو سیشن پر مشتمل رہی اور دونوں ہی سیشن کی صدارت ناسک کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس (SP) جناب سنیل کڑاسنے نے فرمائی ـ اس موقع پر جاوید انصاری نے انٹرنیٹ کے اس دور میں علمی ادبی رسائل و جرائد کی اہمیت سے روشناس کرایا ـ آپ نے مطالعے کو روح کی غذا ثابت کرتے ہوئے موجودہ حالات ہی سے اس کی راہیں نکالنے کی بات کی ـ آپ نے کہا کہ انٹرنیٹ، واٹس ایپ، فیسبک وغیرہ پر فضولیات سے پرے انھی کی توسط دنیا جہان کی علمی و ادبی کتابوں سے بہت ہی سہولت اور آسانی کے ساتھ رابطہ استوار کیا جا سکتا ہے ـ یوں انھی حوالوں سے ہم اپنے ذوق مطالعے کی آبیاری بھی کر سکتے ہیں اور ان سارے میڈیم کو اپنے لیے صحیح مصرف ثابت کر سکتے ہیں ـ اقبال برکی اور وسیم عقیل شاہ نے اپنے تاثرات میں رسالہ صحیفہء محبت کے معیاری مشمولات کو سراہا اور امید کی کہ مستقبل میں بھی یہ رسالہ اسی معیار کو قائم رکھے گا اور پابندی وقت کے ساتھ شائع ہوتا رہے گا ـ خطبہ صدارت پیش کرتے ہوئے محترم سنیل کڑاسنے نے اردو کو اپنی پسندیدہ بلکہ اولین پسندیدہ زبان بتائی ـ آپ نے صاف اور سلیس اردو زبان میں اپنا اظہاریہ دیا جس میں انھوں نے اردو کو محبت کی زبان کہا نیز اس کی ادبی و سماجی اہمیت پر روشنی ڈالی ـ ساتھ ہی ساتھ رسالہ صحیفہء محبت کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعی یہ رسالہ محبت کا پیغام دے رہا ہے اور اس وقت ملک و سماج کو سب سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے ـ پروگرام کے دوسرے سیشن میں ایک شعری نشست کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ضیا باغپتی، شکیل حسرت ، احد امجد، مشتاق ساحل ، زبیر علی تابش، ناصر شکیب ندیم مرزا اور افسر خان افسر نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ـ اس ادبی پروگرام کے دونوں سیشن میں نظامت کے فرائض ہارون عثمانی نے بہ حسن و خوبی انجام دیے اور رسم شکریہ نند کشور بھتڑا نے ادا کی ـ اس نشست میں محبان اردو برادران وطن کے ساتھ ہی اردو داں حلقے نے کثیر تعداد میں شرکت کی ـ
زیر نظر تصویر میں دائیں سے اقبال برکی، شکیل حسرت ،سنیل کڑاسنے ، پاروتا بائی بھتڑا ،انیل اگروال، نند کشور بھتڑا اور ضیا باغپتی ـ

Meer Anees by Mohammad Raza

Articles

میر انیس از دیدگاہ بزرگان

محمد رضا ایلیاؔ

میر،غالب،انیس،اقبال، جوش ،فراق اور فیض اردو شاعری کے اہم ترین نام ہیں۔ انیس نے مرثیہ کی صنف میں جس طرح اپنی خود ساختہ صلا حیت کا لو ہا منوایا ہے وہ مرتبہ دوسرے کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔
میرانیس نے اپنی شاعری کا آغاز غزل سے کیا تھا اور کم عمری ہی میںاپنی صلا حیت کا جوہر دکھا نے شروع کر دیئے تھے۔ لیکن والد کی ہدایت پر کہ’’ اپنی آخرت کیلئے کچھ کرو‘‘ انیس نے غزل کو خدا حافظ کہا اوراپنا سارا کلام صحن کی حوض میں پھینک دیا جو یقینا اردو شاعری پر ستم تھا۔ اسکے بعد انیس نے ساری شاعری اہلبیت علیہم السلام کیلئے وقف کردی اور پھر مڑ کر غزل کی طرف نہیں دیکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انیس کے مرثیوں میں تغزل بدرجہ اتم موجود ہے اور اسی چیز نے انیس کے مرثیوں کو جلا بخشی ہے۔
میر انیس کی پیدائش کے حوالے سے دو روایات موجود ہیںپہلی یکم جنوری ۱۸۰۲ء کی اور دوسری ۱۸۰۳ء کی تاہم زیادہ تر محققین نے ۱۸۰۳ء ہی کو درست قرار دیا ہے۔ انیس کے سن وفات پر تمام محققین کا اتفاق ہے اور انکی وفات ۱۸۷۴ء میں بہتر تہتر برس کی عمر میں ہوئی۔ میر انیس اتر پردیش میںضلع فیض آباد کے محلہ ’’گلاب باڑی‘‘ میں پیدا ہوئے ۔ انیس کے والد میر خلیق اور دادا میر حسن( مثنوی سحر البیان اور بدر منیر کے خالق) اپنے عہد کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے۔آپ کے مو رث اعلیٰ میر امامی شاہجہاں کے عہد میں ایران سے ہندوستان آئے تھے اور اپنے علم و فضل کی بدولت اعلیٰ منصب پر فائز رہے ۔ ان کی زبان فارسی تھی لیکن ہندوستانی اثرات کے سبب دو نسلوں کے بعد ان کی اولا د فصیح و بلیغ اردو زبان بولنے لگی ۔
مسعود حسن رضوی نے میر انیس کاخاکہ یوں کھینچا ہے :
’’میر انیس قدرے دراز قامت ، ٹھوس ، اور متناسب جسامت کے مالک تھے ، خوبصورت کتابی چہرہ ، بڑی بڑی آنکھیں ، صراحی دار گردن ، ذرا بڑی مو نچھیں اور با ریک داڑھی کہ جو دور سے تر شی ہوئی محسوس ہو ۔میر انیس کا یہ سراپا سامعین کو شعر کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کا بھی گر ویدہ بنا دیتا تھا ۔ انیس کا پسندہ لباس دو پلی ٹو پی ، لمبا گھیر دار کر تااور شکن دار پا جامہ تھے کہ یہی اس زمانے کے شرفاء اور ذی علم افراد کا لبا س ہوا کر تا تھا ۔ ‘‘
انیس کے بیٹے میر نفیس کے نواسے میر عارف کی ایک تحریری یاداشت سے پتہ چلتا ہے کہ۱۸۵۷ء کے بعد انیس نے محلہ سبزی منڈی چوک لکھنؤ کے عقب میں واقع رہائش گاہ میں۱۹۷ بند یعنی ایک ہزار ایک سو بیاسی مصرعوں کا یہ مرثیہ ’’ جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے ‘‘ایک ہی رات میں تحریر کیا اور گھر کے عشرے میں پڑھا جو انیس کے شاہکار مراثی میں سے ایک ہے۔
انیس نے اپنی آخری آرام گاہ کے لیے۲۳ جولائی۱۸۷۱ء کو ایک وسیع زمین گھر کے قریب ہی تدفین کی خاطر ۱۰۰ روپے میں خرید لی تھی۔ ۱۸۷۴ء میں ۲۴ رمضان المبا ک کو انیس بیمار ہوئے اور ابتدا میں ہونے والا بخار مرض الموت کا سبب بن گیا اور اس طرح یکم دسمبر۱۸۷۴ء کو بوقت مغرب یہ آفتاب شاعری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔غفران مآب کی امام بارگاہ میں محترم سید بندے علی نے ا نیس کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں سبزی منڈی چوک میں اپنے ہی گھر کے باغ میں سپرد خاک کیا گیا۔ زندگی کے آخری ایام میںایک سلام میر انیس کہہ رہے تھے مگر وہ پورا نہ ہو سکا اور ان کی روح معبود حقیقی سے جاملی وہ کلام مجھے محترم علی احمد دانش سے ایک ملاقات میں دستیاب ہوا جس کی اصل کا پی ان کے پاس ہے اس سلام کا فوٹو میں نے اپنے مو بائل سے لے لیا تھا اور میں شکر گزار ہوں محترم علی احمد دانش کا جو انہوں نے کلام کے علا وہ میر انیس کا قلم اور ان کی ٹوپی وغیرہ کی زیا رت کرائی اور بہت باتیں میر انیس کے متعلق بتائیں جو میرے لیے بہت زیا دہ کارگز ثابت ہوئیں ۔ وہ سلام ملاحظہ ہو
عمر بھر کے آشنا نا آشنا ہوجائیں گے
قبر تک پہنچا کے ہم کو سب جدا ہو جائیں گے
تا لحد دنیا میں ہے فقر و غنا کا امتیاز
قبر میں یکساں سب ہی شاہ و کدا ہو جائیں گے
پھیر کر منھ مجھ سے جس دم سب جدا ہو جائیں گے
میرے مونس خود علی مرتضیٰ ہوجائیں گے
کثرت عصیاں سے کیا ڈر ہے کہ خالق ہے رحیم
مرحلے آسان سب روز جزا ہوجائیں گے
رائیگاں کیا جائیں گے اشک غم سبط رسولؐ
کشت ایماں کے لیے وجہ بقا ہوجائیں گے
اکبر مہر کی صورت دیکھ کر کہتے تھے شاہ
یہ جواں ہوکر شبیہ مصطفی ہوجائیں گے
طے کروں گا دم میں بے خوف و خطر راہ صراط
ہادی و حامی علی مرتضیٰ ہوجائیں گے
اب نہ رؤ ائے سکینہ کہتی تھی زنداں میں ماں
پاس بابا کے چلیں گے جب رہا ہو جائیں
دستور زما نہ کے مطابق انیس نے بھی اپنی شا عری کا آغاز غزل سے کیا تھا ۔ ان کے والد میر خلیق مر ثیہ کی طرح غزل کے بھی استاد ما نے جا تے تھے فیض آباد میں جب تک رند اور رشک کے قیام کے باوجود ۔ میر انیس اپنی غزلوں پر اصلا ح اپنے والد ہی سے لیتے تھے ۔ پہلے حزیں تخلص تھا ۔شیخ امام بخش نا سخ کی فرمائش پر تبدیل کر کے انیس اختیار کیا ۔ انیس فارسی نظم و نثر لکھنے پر بھی قادر تھے عربی ، فارسی ، قرآن و حدیث و تاریخ کے علا وہ فنون شہسواری و سپہ گری کی تعلیم بھی نامی اور قابل فخر اسا تذہ میر نجف علی فیض آبادی ور مفتی حیدر عباس سے حا صل کی ۔
رفعت عبا س زیدی ۱۳؍ دسمبر ۲۰۰۹ کے عالمی اخبا ر میں یوں رقم طراز ہیں :
’’میر ببر علی انیس کے بارے میں میں صرف یہ کہوں گا کہ میں ان کا عا شق ہوں اور میرا اپنا نظریہ یہ ہے کہ انیس دنیا کے تمام شا عروں پر بھاری ہیں ۔ ان کے مر ثیے تو لا جواب ہیں ہی اور ان پہ کچھ لکھنا اتنی مختصر حیات میں ممکن نہیں لیکن میں آج ان کی غزلوں کے اشعار سے آپ کو با خبر کر نا چاہوں گا۔سب سے پہلے میں ان کی زندگی کا وہ پہلا شعر پیش کر رہاہوں جو انہوں نے آٹھ برس کی عمر میں اپنے والد کے دوست معروف شا عر شیخ امام بخش نا سخ کے سامنے سنا یا جس پر ناسخ ششد ر رہ گئے اور پیشنگوئی کر دی ۔ایک دن آئے گا کہ انیس کی زبان اور شا عری کی عالمگیر شہرت ہو گی یہ بچہ سلطنت شعر کابادشاہ بنے گا۔ ‘‘
وہ شعر ملا حظہ فر مائیں :
کھلا باعث یہ اس بیداد کے آنسو نکلنے کا
دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا
محمد حسین آزاد انیس کی غزل گوئی کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ ابتدا میں انہیں بھی غزل کا شوق تھا ۔ ایک موقع پر کہیں مشا عرے میں گئے اور غزل پڑھی اور وہاں بڑی تعریف ہوئی شفیق باپ سن کر تو بہت با غ با غ ہوئے مگر ہو نہار فرزند سے پو چھا کل رات کو کہاں گئے تھے ۔ انہوں نے حال بیان کیا خلیق نے غز ل سنی اور فر مایا اب اس غزل کو سلام کرو اور اس شغل میں زور طبع صرف کرو جو دین و دنیا کا سر مایہ ہے ۔ سعادت مند بیٹے نے اس دن سے قطع نظر کی اور غزل مذکورہ کی طرح میں سلام کہا ۔‘‘ ( آب حیات ص ۵۱۹، محمد حسین آزاد )
شروع شروع میں میر انیس مرثیہ پڑھنے کے لیے ہر سال لکھنؤ آتے رہے مگر جنگ آزادی کی تباہی کے بعد وہ لکھنؤ چھوڑ کر کچھ عرصہ کاکوری میں مقیم رہے پھر امن و امان کے بعد لکھنؤ واپس تشریف لائے اور محلہ سبزی منڈی میں رہائش اختیار کی۔سن ۱۸۴۳ء میں انیسؔ چالیس برس کی عمر میں جب لکھنؤ آئے تھے تو مرزا دبیر کا طوطی بول رہاتھا ہر جگہ پر دبیر کے قصیدے پڑھے جاتے تھے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مر زا دبیر کو کلام کے سمجھنے کی صلاحیت کچھ خا ص لو گوں تک محدود تھی ۔ جیسے علما ء ، اسا تذہ ،، ادبا، طلاب یا وہ جو اردو ، فارسی اور عربی کا علم رکھتے ہوں ایک سادہ عام آدمی ان کے کلام کو سمجھ نہیں سکتا تھا کیوں کہ ان کی شا عری میں عر بی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں کے ملے جلے الفاظ پائے جاتے تھے ۔
وہیں اس ماحول میں انیس نے جن الفاظ کا اپنے کلام میں استعمال کیا وہ عام فہم تھے ۔ انیس نے پہلے لکھنؤکے ماحول کابھر پور جائزہ لیا اور انہوں نے اردو زبان و ادب کو عا م فہم مر ثیہ کی شکل میں ایک نایاب اور بیش بہا تحفہ دیا ۔ بعض لو گوں میں یہ مغالطہ پیدا ہو گیا ہے کہ انیس جب لکھنؤ آئے تو انہوں نے لکھنؤ کے زبان و ادب ، تہذیب و ثقافت (گہوارۂ اردو زبان و ادب )سے کسب فیض کیاجب کہ یہ بالکل غلط ہے میر انیس نے اپنے خاندان اور اپنے گھر کی زبان، طرز زندگی سب کچھ مر ثیہ کی شکل میں اہل لکھنؤ کوبطور تحفہ عطا کیا جس کی وجہ آج لکھنؤ پہنچانا جاتا ہے ۔ اہل لکھنؤ یہ فخر نہ کریں کہ لکھنؤ نے انیس کوشناخت دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انیس نے لکھنؤ کوایک پہچان دی اور وہ سر مایہ جو وہ فیض آباد سے لائے تھے لکھنؤ کے سپرد کر دیا۔ یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ انیس ۴۰ سال کی عمر کے بعد فیض آباد سے لکھنؤ وارد ہوئے تھے۔ ان تمام باتوںکا اعتراف کر تے ہوئے مولانا آزاد کچھ اس طرح بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ملا حظہ کیجئے
’’جس طرح انیس کا کلام لاجواب تھا اسی طرح ہی ان کا پڑھنا بھی بے مثال تھا ۔ ان کے گھرانے کی زبان اردو معلیٰ کے لحاظ سے تمام لکھنؤ میں سند تھی ۔ان کے ذریعہ ہماری نظم کو قوت اور زبان کو وسعت حاصل ہوئی ۔ انیس کا کہنا تھا کہ نہ لکھنؤ کا ان کی زبان سے کوئی تعلق ہے اور ان کی زبان کا لکھنؤ سے کوئی تعلق ہے ۔ (مر ثیہ میں جو زبان استعمال ہوئی ہے )یہ ان کے گھر کی زبان ہے ۔ ‘‘
نجم سبطین اپنے ایک مضمون ’’ شاعری اور کربلا ‘‘میں انیس کے معمولات کا ذکر کر تے ہوئے تحریر کر تے ہیں :
’’ انیس کا معمول تھا کہ شب بھر جا گتے اور مطالعہ و تصنیف میں مصروف رہتے تھے ۔ ان کے پاس دوہزار سے زائد قیمتی اور نایاب کتب کے ذخیرے موجود تھے ۔ نماز صبح پڑھ کر کچھ گھنٹے آرام کر تے تھے ۔ بعد دوپہر بیٹوں اور شا گروں کے کلام کی اصلا ح کر تے تھے ۔ محفل احباب میں عقائد اور علوم وعر فانیات پر گفتگو کرتے تھے ۔میر انیس کے نواسے میر سید علی کا بیان ہے کہ میر انیس کے متعلق آئینہ لے کر مشق مرثیہ خوانی کر نے روایت بالکل غلط ہے نہ کہ کمال ادائیگی دیکھ کر کچھ لوگوں نے از خود یہ سمجھ لیا تھا کہ آئینے کے رو برو مشق کر تے ہوں گے ۔ ‘‘
سعادت خاں نا صرمیر انیس کی غزل کے بارے میں اپنے خیالا ت کا یوں اظہار کرتے ہیں :
’’ عالم شباب میں چندے مشق غزل گوئی رہی ۔ ‘‘ ( تذکرہ خوش معرکہ زیبا ص ، ۳۰۵ ، سعادت خاں ناصر ۔)
آزاد کے مذکورہ بیان کا حوالہ دیتے ہوئے پر وفیسر مسعود حسن رضوی ادیب لکھتے ہیں :
’’ اس جملے ( اب اس غزل کو سلام کر و) کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس زمین میں سلام کہو اور دوسرے یہ کہ اب غزل گوئی ترک کرو۔ سعادت مند فرزند نے ان دونوں معنوں میں والد محترم کے حکم کی تعمیل کی یہ کسی نے نہیں لکھا کہ وہ کون سی غزل تھی لیکن میر انیس کی ایک غزل کے چند اشعار اور اس طرح میں ایک سلام ملتا ہے ۔ غزل کے اشعار حسب ذیل ہیں۔ ان سے اندازہ ہو تا ہے کہ شاید یہ وہی غزل ہو ۔ ‘‘
اشارے کیا نگہ ناز دلربا کے چلے
ستم کے تیر چلے نیچمے قضا کے چلے
پکار ے کہتی تھی حسرت سے لاش عاشق کی
صنم کدھر کو ہمیں خاک میں ملا کے چلے
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
اس طرح میں سلام کے چو دہ اشعار ہیں ان میں سے چند ملا حظہ کیجئے
گنہ کا بو جھ جو گردن پہ ہم اٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجا لت سے سر جھکا کے چلے
مقام یوں ہوا اس کار گاہ دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
ملی نہ پھولوں کی چادر تو اہل بیت کرام
مزار شاہ پہ لخت جگر چڑھا کے چلے
اس سلام کا مقطع بہت مشہور ہوا تھا :
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے (۱)
(۱) انیسیات ص ۱۶۲،۱۶۳، پر وفیسر مسعود حسن رضوی ادیب ، اتر پر دیش اردو اکا دمی لکھنؤ ۱۹۸۱ء
ڈاکٹر نیر مسعود نے بھی اپنی کتاب میں ان ہی اشعار سے غزل اور سلام کا حوالہ دیا ہے جو انیس کی غزل گوئی ترک کرنے سے تعلق رکھتے ہیں قیاس بھی یہی کہتا ہے کہ یہی میر انیس کی آخری غزل ہو گی ۔ تاہم بقول ادیب صا حب :
’’ البتہ میر صا حب کے سلاموں میں ایسے بہت سے اشعار ملتے ہیں جو غزل کا باعث ہوسکتے ہیں ۔‘‘
(انیس ص ۴۲ ، پر وفیسر نیر مسعود رضوی ، قومی کا ؤنسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ۔ ۲۰۰۲۔ )
ادیب صا حب کے آخری جملے سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ انیس کے بعض سلاموں میں تغزل کے اشعار شاید پہلے ان کی غزلوں کے اشعار رہے ہوں جنہیں بعد میں انہوں نے سلام کے پیکر میں ڈھال دیا ہو۔ اس خیال کے ابھرنے کا سبب یہ ہے کہ انیس کے کئی سلام اس زما نے کی غزلوں کی طرح نظر آتے ہیں ۔ ان غزلوں کے کئی اشعار سلام کے شعر معلوم ہوتے ہیں ۔ مثلاً
ہمراہ آہ سرد بہیں اشک گرم بھی
باراں کا لطف خوب ہے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ
میر انیس کا ایک مشہور سلام ہے :
بین اے مجرئی قاسم کی دلہن کیا جا نے
بیا ہی اک شب کی رنڈاپے کا چلن کیا جانے
اسی زمین میں طالب علی عیشی کی غزل ہے ۔ اس غزل کا مقطع ہے
کیوں نہ کم ربتہ غزل اپنی سمجھو عیشی
نافع کی قدر کو آہوئے ختن کیا جانے
انیس کے مصرعے بھی عیشی کی غزل کے مصرعوں کے طرح اچھے تغزل کے نمونے ہیں ۔ مثلاً
چھد گیا کس کا جگر تیر فگن کیا جانے
مرغ بے بال بھلا سیر چمن کیا جانے
انیس کے زمانے میں شعر گوئی کے دو انداز عام تھے۔ ایک انداز تو وہی قدیمی تھا جس کی روش سے میر تقی میر کو ’’خدائے سخن‘‘ تسلیم کیا گیا تھا، لیکن اس انداز کو دہلوی شعرا سے منسوب کیا جاتا تھا۔یعنی تغزل میں داخلی افکار کی پیشکش جسے عرف عام میں فصاحت کہا جاتا ہے۔ دوسرا انداز وہ تھا جسے لکھنؤ میں ناسخ اور ان کے شاگردوں اور پیرو کار وں نے شہرت کے بام عروج پر پہنچایا تھا اور اس انداز میں الفاظ کی شعبدہ بازی اور صناعی کو زیادہ دخل حاصل تھا۔ انیس کے فن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ انیس کی شعری شخصیت اس دکھاوے کا رد عمل ہے جس شاعری کا اس زمانے میں لکھنؤ میں دور دورہ تھا۔ انیس کا رویہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ انیس صرف دعویٰ نہیں کرتے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
یہ فصاحت یہ بلاغت یہ سلاست یہ کمال
معجزہ گر نہ اسے کہیے تو ہے سحر جمال
انیس کی غزلوں میں سلام کے اچھے اشعار کی نایابی اور سلاموں میں اچھے تغزل کے اشعار دیکھ کر یہ خیال ہو تاہے کہ میر انیس نے جب غزل چھو ڑ دی تو اچھے مصرعے یا اشعار اپنے سلاموں میں کھپا لیے ہوں گے ۔ لیکن اس خیال کی کوئی دوسری شہادت موجود نہیں ہے اور راقم کا خیال بس خیال ہی ہے ۔ میر انیس کی غزل گوئی چھوڑنے کی وجہ جو اوپر بیان کی گئی ہے یعنی والدمحترم کے حکم کی تعمیل لیکن اس کا اصل سبب بقول ادیب صا حب :
وہ غیر معمولی ملکہ شاعری تھا جس کا اظہار غالب نے یوں کیا ہے ۔
بہ قدر شوق نہیں ظرف تنگنائے غزل
کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کے لیے
بعض غزل گو شا عروں کے سلسلے میں میر انیس کے چند جملے جو آزاد کے حوالے سے درج کیے جاتے ہیں ملا حظہ کیجئے ذوق کے بارے میں آزاد نے انیس کی رائے جاننا چاہی ۔
انیس کا جواب تھا :
’’ فر مایا کہ میاں سید میر کے بعد پھر دلی میں ایسا شاعر کون ہوا ہے ۔ ‘‘
(آب حیات ص نمبر ۵۴۸۔ محمد حسین آزا د)
آزادہی کا بیان ہے کہ انہوں نے میر انیس کے سامنے ذوق کا یہ مطلع پڑھا :
کوئی آوارہ تیر ے نیچے اے گردوں نہ ٹھہرے گا
مگر تو بھی اگر چاہے کہ میں ٹھہر وں نہ ٹھہرے گا
میر انیس نے یہ مصرعہ دو بارہ پڑھوا یا اور کہا
’’ صا حب کمال کی بات یہ ہے کہ لفظ جس مقام پر اس نے بٹھایا ہے اس طرح پڑھا جائے تو ٹھیک ہوتا ہے نہیں تو شعر رتبے سے گر جاتا ہے ۔‘‘
(آب حیات ص نمبر ۴۷۵ ۔ محمد حسین آزاد )
اس سلسلے میں چند واقعات کا ذکر سید امجد علی اشہری نے بھی کیا ہے جسے من و عن نقل کیا جاتا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے
میر قربان علی سالک شاگر د مر زا غالب اپنی بیاض میں ۱۸۶۱ ء کی یادداشت لکھتے ہیں :
’’ دو مہینے سے لکھنؤ میں وارد ہوں دلی میں مر زا غالب اور استادذوق کی ہوائیں دیکھتا سنتا تھا مگر یہاں میر انیس اور مر زا دبیر کی معرکہ آرائی کا عالم نرالا ہے ۔ مر زا غالب کو یگانہ فن کے لفظ سے یاد کیا اور ذوق و مومن کی نسبت فرمایا ذوق شاہی دربار کے شاعر اور مومن اپنی طبیعت کے بادشاہ ہیں پھر حکیم مو من خاں کا یہ شعر پڑھا :
نہ کچھ شوخی چلی باد صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
پڑھنے کے بعد ایک چپ سی لگ گئی جیسے کوئی حسین صور ت سامنے ہے اور ہوا اس کی زلف اڑا رہی ہے اور میر صا حب اس کو دیکھ کر کلام کے مزے لے رہے ہیں ۔ ایک روز فر مانے لگے دلی کا کچھ کلام سناؤ میں نے مرزا غالب کی یہ غزل پڑھی ۔
باز یچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تما شا میرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
پھر اپنی غزل پڑھی اس کا ایک شعر یہ ہے :
دنیا میں مجھے خاک اڑانے نے ڈبویا
ہر بار نکل آتا ہے دریا میرے آگے
اس شعر پر فرمایا خوب کہا ہے ۔ یہ کہہ کر فر ما نے لگے لکھنؤ والے ’’روکے ہے‘‘ ،’’کھینچے ہے‘‘ نہیں بولتے ہیں ۔ (حیات انیس ص ۲۵۵، ۲۵۶ ، امجد علی اشہری ۱۹۰۷ ء )
انیس نے ہر لفظ کو اس کے مقام استعمال پر رکھ دیا ۔انہوں نے لفظ کو بر محل اور بہتر محل پراستعما ل کیا ہے تب جاکے الفاظ اورزیا دہ با معنی ہو گئے ۔منظر نگاری میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ہے ۔ اہل زبان و ادب کو ان کے سامنے سر بہ سجو د ہو نا پڑے گا۔ انیس اردو ادب کو الفاظ کابر محل استعمال کر نا بتا گئے ۔ الطاف حسین حالیؔ انیسؔ کو فر دوسی کا ہم پلہ بتاتے ہیں :
’’الفاظ کو خوش سلیقگی اور شائستگی سے استعمال کرنے کو اگر معیار کمال قرار دیا جائے تو بھی میر انیس کو اردو شعرا ء میں سب سے برتر ماننا پڑیگا۔ میر انیس کے ہر نقطہ اور ہر محاورہ کے آگے ہر اہل زبان کو سر جھکا نا پڑتا ہے۔ اگر انیس چوتھی صدی ہجری میں ایران میں پیدا ہوتے اور اسی سوسائٹی میں پروان چڑھتے جس میں فردوسی پلا بڑھا تھا وہ ہرگز فردوسی سے پیچھے نہ رہتے۔ ‘‘
سید شریف الحسن شریف العلما کے ایک خط کا حوالہ سید مسعود حسن رضوی نے دیا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ سید شریف العلما اپنے خط مو رخہ ۱۶؍ ذی الحجہ ۱۲۸۷ ھ ؍ ۲۱؍ ما رچ ۱۸۷۱ء میں لکھتے ہیں کہ حیدر آباد میں ایک دن میر انیس نے میر تقی میر کے یہ دوشعر پڑھے ۔
تیری گلی میں ہم نہ چلیں اور صبا چلے
یو نہی خدا جو چاہے تو بندے کا کیا چلے (۱)
(۱) یہ شعر میر کا نہیں درد کا ہے ۔ ادیب ، انیسیات ص ۱۶۴ ۔
تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو
رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے
اس مو قع پر شریف العلما کو سہوہوا ہے ۔ پہلا شعر میر تقی میر کا نہیں بلکہ خواجہ میر درد کا ہے ۔
اس طرح کا ایک اور واقعہ میر انیس کے ایک معتقد مولوی میر حامد علی نے میر انیس کے سامنے یہ شعر پڑھا
روشن ہے اس طرح دل ویراں میں داغ ایک
اجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
میر صاحب لیٹے تھے یہ سن کر اٹھ بیٹھے ایک اف کی اور فر مایا کہ اب میں بڑھا پے میں ایسے شعروں کی تاب نہیں لا سکتا اس سن میں ایسے تیر نہیں کھا سکتا پھر میر صا حب نے اس شعرکے سلسلے میں فرمایا کہ پرانے زما نے میں جب کسی بستی پر شاہی عتاب نازل ہوتا تھا تو وہ بستی ویران کر دی جاتی تھی اور اس میں کسی نمایاں مقام پر ایک چراغ جلا دیا جا تا تھا ۔‘‘ (انیسیات ص ۱۶۴، ۶۵۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب ، اترپردیش اردو اکا دمی لکھنؤ ۱۹۸۱۔)
سید علی حیدر نظم طبا طبائی شرح دیوان غالب میں رقمطرا ز ہیں :
’’ میر انیس کے سامنے ایک صا حب نے یہ مصرع پڑھا
چیختے چیختے بلبل کی زباں سوکھ گئی
میر صاحب نے یہ مصرع لگایا
عرق گل ہے مناسب اسے دینا صیا د
اس کا چر چا لکھنؤ میں ہوا اکثر لوگوں نے طبع آزمائی کی ۔‘‘ (شرح دیوان غالب ۱۸۵ ، سید علی نظم حیدر طبا طبائی ۔)
غالب کے نزدیک مر ثیہ گوئی میں میر انیس اور دبیر جیسا کوئی نہ پیدا ہوا تھا نہ ہوگاکتنی دور اندیشی تھی غالب کے اندر یہ بات اس دور میں خوب سے خوب تر سمجھی اور پرکھی بھی جا تی ہے ۔ غالب چونکہ میر انیس سے پا نچ سال بڑے تھے ۔ پھر انہوں نے اس طرح کا اعتراف کیا ہے :
’’اردو زبان نے انیس اور دبیر سے مرثیہ گو پیدا نہیں کئے۔ ایسے مرثیہ گو نہ ہوئے ہیں نہ پیدا ہونگے۔ انیس کا مرتبہ نہایت بلند ہے‘‘ ؔ(یاد گارِ غالب۔واقعات انیس)۔
’’ میر انیس کے مقابلہ میں کسی اور کا مرثیہ کہنا میر انیس نہیں خود مرثیہ کا منہ چڑھانا ہے۔ آج لکھنؤ اور دلی میں میر انیس کی مرثیہ گوئی کو معجزہ کلام مانا جاتا ہے ۔‘‘(حیات انیس امجد اشہری )
غالب نے لکھنؤ کے مجتہد عباس صاحب کے کہنے پر ایک مرثیہ کہنا شروع کیا۔ لیکن تین بند کہنے کے بعد یہ کہہ کر قلم رکھدیا کہ مرثیہ کہنا میرے بس کی بات نہیں۔ غالب کے کلام میں انیس کی تشبیہات، تلمیحات اور استعارے موجود ہیں۔ یہ عظمتِ غالب کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ غالب میں استفادہ کرنے کی صلاحیت عالم کی طرح بدرجہ اتم موجود تھی۔ میر انیس کے یہاں دوسرے شعراء کی قدر دانی غیر معمولی حد تک موجود تھی۔ میر انیس اور غالب ایک دوسرے کے کلام سے خوب واقف تھے اور ایک دوسرے کے دلدادہ تھے۔ میر انیس عمر میں غالب سے پانچ برس چھوٹے تھے اور انکا انتقال غالب سے پانچ سال بعد ہوا۔ غالب کے انتقال پر میر انیس کی ایک رباعی
گلزارِ جہاں سے باغِ جنت میں گئے
مرحوم ہوئے جوارِ رحمت میں گئے
مدّاحِ علی کا مقام اعلیٰ ہے
غالب اسد اللہ کی خدمت میں گئے
افضل حسین ثابت مصنف حیا ت دبیر نے اپنے خط بنام حامد علی بیر سٹر مورخہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۱۲ ، میں میر انیس کا یہ مطلع نقل کیا ہے ۔
نہ روکا ہم کو پھولوں نے چلے خالی ہی گلشن سے
گلوں سے خار ہی بہتر کہ لپٹے آکے دامن سے (۱)
(۱) یادگار حامد ص ۱۸۴،افضل حسین ثابت )
یہ چند اشعار بھی بقول سید مسعود حسن رضوی، میر انیس سے منسوب کیے جاتے ہیں :
دل لے لیا ہے یار نے مٹھی میں بند ہے
کھلتا نہیں پسند ہے یا نا پسند ہے
جب مسیحا دشمن جان ہو تو ہو کیوں کر علاج
کون رہبر ہو سکے جب خضر بہکا نے لگے
رکھ کے منھ سو گیا ان آتشیں رخساروں پر
دل کو چین آیا تو نیند آگئی انگاروں پر
مبصرین کا خیال ہے کہ شیکسپیئر کے زمانہ میں وہ سہولتیں مہیا نہیں تھیں جو چار سو سال بعد برنارڈ شاء کے زمانہ میں عام تھیں اسلئے شیکسپیئر کے یہاں منظر کشی اس تفصیل کے ساتھ نظر نہیں آتی جو تفصیل برنارڈ شاء کے یہاں موجود ہے۔ اس کے برعکس انیس کی منظر کشی برنارڈ شاء سے بڑھ کر ہے۔ تینوں کے یہاں کردار خود بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مصنف بولتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
میر انیس سے منسوب غزل کے اشعار کا بر محل استعمال دوسروں کے اشعار غزل میں لکھنوی اور دہلوی زبان کا فرق اچھے اشعار کی کھل کر تعریف اور مندرجہ روایات کے آئینہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ میر انیس میں غزل کہنے اور مزاج غزل سے منصفی کر نے کا پورا ہنر موجود تھا۔
خواجہ حیدر علی آتش کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا گیا ہے۔ وہ ایسی سچائیوں کا آئینہ بھی بنتے ہیں کہ سننے والوں نے انہیں خرزجاں بنایا ہے۔ آتش جب بھی کسی شخصیت پر تبصرہ کر تے ہیں تو محض سر سری طور پر نہیں بلکہ حقیقت بیانی سے کرتے ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے میر انیس کے بارے میں کہا:
’’کون بیوقوف کہتا ہے کہ تم محض مرثیہ گو ہو۔ واللہ باللہ تم شاعر گر ہو اور شاعری کا مقدس تاج تمہارے سر کے لئے موزوں بنایا گیا ہے۔خدا مبارک کرے بھئی اس میدان میں کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ انیس کے مرثیہ پر سیکڑوں غزلوں کے دیوان صدقے کئے جا سکتے ہیں۔‘‘(اساتذہ کے تاثرات ۔ ظفر جعفری )
شیکسپیئر اور جارج برنارڈ شا ء مفروضی اور افسانوی کرداروں پر اپنی خدا داد صلاحتو ں کو کام میں لاتے تھے۔انیس و دبیر اصلی کرداروں کی بات اور ان پر جو گزری ان تما م حالات اور واقعات کی منظر کشی کرتے تھے۔میر انیس حق پر جان قربان کرنے والوں کی بات کرتے تھے ۔میر انیس سورج تھے ان کا مقابلہ مغربی ڈرامہ نگاروں سے تقابل کر نا سر ا سر غلط ہے ۔ میر انیس یقینی طور پر ’’ الہامی شاعر‘‘ہیں اور انہوں نے یقینی طور پر ’’ تائید غیبی ‘‘ کی مدد سے صرف اور صرف ایک اصلی کردار اور اسکے خاندان کی مشکلات اور اسکی حق کی خاطر باطل سے لڑائی اور اپنی اور اپنے سارے خاندان کی قربانی کی منظر کشی کی۔کہاں انیس اور کہاں ہومر، ورجل ، شیکسپیئر اور برنارڈ شاء جنھوں نے دماغی قلابا زیاں کھا کر کئی خاندانوںپر اپنا قلم اٹھایا اور انکے افسانوں کی منظر کشی کی۔؟میر انیس کا مقام مندرجہ بالا تمام افسانہ نگاروں اور ڈرامہ نگاروں سے بر تر ہے۔ اور ’’ بین الاقوامی سطح ‘‘سے بالا تر ہے ۔اگر مشاہیر ادب انیس کا موازنہ فردوسی، ہومر یا شیکسپیئر سے نہ کرتے تو ابولکلام آزاد یہ کہتے ہوئے نظرنہ آتے ہیں :
’’دنیائے ادب کو اردو ادب کی جانب سے میر انیس کے مرثیے اور مرزا غالب کی غزلیں تحفہ تصور کی جائیں۔ ادبیبات اردو اور اردو زبان کو قصرگمنامی سے نکال کر مراثی انیس نے بین الاقوامی سطح پر پہنچا دیا۔‘‘
شمس العلما ء امداد امام اثرایسے شاعر ہیں جنہوںنے اردو تنقید کی زبوں حالی کا احساس دلایا۔ان کی تنقیدی تحریریں اردو میں انقلابی نوعیت پیدا کی ہیں۔ انہوں نے روایتی ادب سے اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ اثر اخلاقیاتی شاعری کو بہتر ین شاعری تسلیم کر تے ہیں۔ ان کے خیال میں شاعری کو اخلاق آموزی کا ایک بہتریں ذریعہ ہونا چاہے لیکن وہیں جب میر انیس کی شا عری کی بات آتی ہے تو یا تقابل کی بات آتی ہے تو امداد اثر کچھ اس طرح اپنے خیالات کا اظہار کر تے ہیں ؛
’’شعرائے نامی یعنی ہومر ورجل اور فردوسی میں ابو ا لشعرا ہومر ہی ہے۔ جس کے ساتھ انیس کا موازنہ صورت رکھتا ہے۔ ورنہ ورجل جو ہومر کا تتبع ہے انیس کا ہرگز ہم پایہ نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ انکی ہم پائیگی کا استحقاق فردوسی کو حاصل ہے۔ انیس کو فردوس ہند کہنا انیس کی ایک بڑی ناقدر شناسی ہے۔ راقم کی دانست میں انیس کی کریکٹر نگاری ہومر کی کریکٹر نگاری سے بڑھی معلوم ہوتی ہے۔ بلا شبہ و شک میر انیس وہ الہامی شاعر ہیں کہ تائیدغیبی بغیر انیس کا کمال کوئی بنی آدم پیدا نہیں کرسکتا۔ انیس کا موید من اللہ ہونا ایک امریقینی ہے۔‘‘
اگر ہم غور و خوص کریں تو معلوم ہو گا کہ انیس کی شاعری کے دو اہم عنا صر یہ ہیں کہ انھو ں نے مرثیے کو مقامی رنگ میں رنگ دیا۔جسکی وجہ سے مرثیہ فن کے اظہا ر کا ذریعہ بنا اور صرف ایک مسلک کا نمائندہ بن کر محدود نہیں رہ گیا۔دوسرا عنصر بھی شاید اسی کی تو سیع ہے ا و ر وہ یہ ہے کہ اگرچہ و اقعۂ کر بلا ایک مخصو ص دور میں پیش آیا مگر انیس کی شاعری نے اس واقعے کے تمام افراد کو زمان و مکان کی قیو د سے آزاد کر دیا۔غور و فکر کی دعوت دیتے ہوئے اکبر الہ آبادی کہتے ہیں :
’’ انیس کے کلام پر غور کرنا ذوق فہمی، نکتہ سنجی اور زبان شناسی کا فائدہ دیتا ہے۔‘‘
انیس سے پہلے مرثیہ صرف مذہبی و اعتقادی صنف نظم سمجھا جاتا تھا۔ اس میں کوئی نمایاں ادبی اہمیت پیدا نہیں ہوئی تھی۔ یہ فخر انیس کا حصہ ہے کہ اردو زبان میں ایسے نئے اور پر مغز باب کاحسن کمال سے اضافہ کیاجس کا ثانی ملنا دشوار کن امر ہے ۔ مرثیے سے پیکری حیثیت سے جو قوت و اثر لطافت و تازگی، سلاست و روانی انیس نے پیدا کردی وہ اب تک متقدموں سے ممکن نہ ہوئی تھی۔انیس کے اوپر خدا وند کریم کا خاص کرم تھا ۔ ان کے اوپر الہام ہو تا تھا ۔ جب شعر کہتے تھے یا پڑھتے تھے تو گویا ایسا محسوس ہو تا تھا جیسے کوئی ان سے کہہ رہا ہو کہ اے انیس اب یہ اس طرح کا شعر کہو اب اس طرح کے شعر کہو انیس کو الہامی شا عر مانتے ہوئے ڈپٹی نظیر احمد کہتے ہیں ـ:ـ
’’ حق تعالیٰ نے ایک اردو شاعر انیس کو کیسی قدرت عطا فرمائی اور اس کے قلب پاک کو کیا نور بخشا ہے کہ وہ خاصان خدا کے ارواح پاک کی باتوں کو اس پاک وصاف طریقے سے نظم کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے بلکہ یقین ہوجاتا ہے کہ وہی ارواح پاک بول رہی ہیں اور یہ بات بغیر الہام کے غیر ممکن ہے۔ اسلئے میری رائے میں اور شعراء دنیا میں آکر اپنے کسب علوم سے نامور ہوتے گئے۔ لیکن میر انیس وہیں سے شاعر بناکر بھیجے گئے تھے اور مدارجِ اعلیٰ پر فائز ہوئے۔بہر عنوان مناظر کی نقاشی، میدانِ جنگ کی مصوری محبت کے علاوہ جرأت، ایثار، شرافت،انصاف، حق پسندی،حق گوئی جیسے بلند انسانی جذبوں کی مرقع کشی کے باب میں انیس کے مرثئے ایلیڈ،اینیڈ، رامائن،مہا بھارت اور شاہنامہ مقتدر اور مہتم بالشان لفظوں کے شاہکار میں جن سے اردو شاعری کا اخلاقی و تمدنی درجہ بہ مراتب بلند اور بہ منازل اہم ہوجاتا ہے۔ ‘‘(صحیفہ تاریخ اردو از سیّد محمد مخمور رضوی اکبرآبادی )
انیس نے جو سب سے اہم کام کیا وہ یہ ہے زبا ن اور تہذیب کا تحفظ جیسے کہ جوش اور نظیر کا نام انکی لفظیا ت کے حوالے سے بہت لیا جاتا ہے۔ انیس نے ایک مخصو ص تہذیب اور زبان،محاورے اور روزمرّہ کو اپنے مراثی کے ذریعے محظو ظ کرکے اردو ادب اور زبان کی ایک بہت بڑی خدمت کی ہے۔ یہ کام صرف مرثیے جیسی ہی صنفِ سخن کی بدولت ہی ممکن تھا۔ ہو سکتا ہے کوئی یہ بات کہے کہ غز ل نے بھی یہی کام کیا ہے یقیناکیا ہے مگر غزل میں اجمال ہوتا ا ور مرثیے میں تفصیل اور تفصیل مرثیے کا ایک مستحکم عنصر ہے۔
رام بابو سکسینہ رائے دہندگان میں اپنا نام کچھ اس انداز میں درج کر تے ہیں :
’’ انیس کی شاعری جذبات حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا۔‘‘
پروفیسر آل احمد سرور فرماتے ہیں کہ،
’’ انیس کی شاعرانہ عظمت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انیس نے سلاموں اور مرثیوں میں وہ شاعری کی ہے جن میں بقول حالی حیرت انگیز جلوئوں کی کثرت ہے جن میں زبان پرفتح ہے جو شاعر کی قادر الکلامی جذبے کی ہر لہر اور فن کی ہر موج کی عکاسی کر سکتی ہے۔ جس میں رزم کی ساری ہماہمی اور بزم کی ساری رنگینی لہجے کا اْتار چڑھائو اور فطرت کا ہر نقش نظرآتا ہے ان کا یہ دعویٰ کس طرح بیجا نہیں ۔‘‘(غبار خا طر ، وہاب اعجا ز خان)
میرانیس کے ہاں مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل ، مثنوی کا تسلسل ، واقعہ اور منظر نگاری اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔ میر انیس نے روز مرہ کی زبان کو استعمال کیا ہے ۔ الفاظ بر محل کی ان کی خو بیوں میں شامل ہے ۔ چاہئے وہ جزیا ت نگاری ہو یامنظر نگاری ہر ایک میں اساتدانہ مہارت نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ مولانا شبلی انیس کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ ان کا کلام صیح و بلیغ ہے۔ زبان صحیح اور روز مرہ بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ انتخاب الفاظ مضمون اور موضوع کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جزئیات نگاری میں اْستادانہ مہارت ، جذبا ت کے بیان کا خاص سلیقہ ، منظر نگاری اور مظاہر قدرت کے بیان میں زور تشبیہات اور استعارات میں جدت اور ندرت ہے۔‘‘
اے دیار لفظ و معنی کے، رئیس ابن رئیس
اے امینِ کربلا، باطل فگار و حق نویس
ناظم کرسی نشین و شاعر یزداں جلیس
عظمتِ آل محمّد کے مؤرخ، اے انیس
تیری ہر موجِ نفس، روح الامیں کی جان ہے
تو مری اردو زباں کا، بولتا قرآن ہے
جوش ملیح آبادی
حواشی وحوالہ جات
(۱) انیسیات ، مسعود حسن رضوی
(۲)ایک مضمون ۔رفعت عبا س زیدی ۱۳؍ دسمبر ۲۰۰۹ کے عالمی اخبا ر بلا گ
(۳) آب حیات ص ۵۱۹، محمد حسین آزاد
(۴) نجم سبطین اپنے ایک مضمون ’’ شاعری اور کربلا ‘‘
(۵) تذکرہ خوش معرکہ زیبا ص ، ۳۰۵ ، سعادت خاں ناصر ۔
(۶)انیسیات ص ۱۶۲،۱۶۳، پر وفیسر مسعود حسن رضوی ادیب ، اتر پر دیش اردو اکا دمی لکھنؤ ۱۹۸۱ء
(۷)انیس ص ۴۲ ، پر وفیسر نیر مسعود رضوی ، قومی کا ؤنسل برائے فروغ اردو زبان دہلی ۔ ۲۰۰۲۔
(۸)آب حیات ص نمبر ۵۴۸۔ محمد حسین آزا د
(۹) میر قربان علی سالک شاگر د مر زا غالب اپنی بیاض ، ۱۸۶۱ ء
(۱۰)حیات انیس ص ۲۵۵، ۲۵۶ ، امجد علی اشہری ۱۹۰۷ ء
(۱۱)سید شریف الحسن شریف العلما کا ایک خط
(۱۲)سید علی حیدر نظم طبا طبائی شرح دیوان غالب
(۱۳)حیات انیس امجد اشہری
(۱۴)یاد گارِ غالب۔واقعات انیس
(۱۵)یادگار حامد ص ۱۸۴،افضل حسین ثابت
(۱۶)اساتذہ کے تاثرات ۔ ظفر جعفری
(۱۷)صحیفہ تاریخ اردو از سیّد محمد مخمور رضوی اکبرآبادی
(۱۸)غبار خا طر ، وہاب اعجا ز خان
(۱۹)حیات انیس ص ۲۵۵، ۲۵۶ ، امجد علی اشہری ۱۹۰۷ ء
(۲۰) ایک ملا قات احمد علی دانش کے ساتھ

مضمون نگار سے رابطہ
محلہ پورہ رانی ،نزد،ا قراء پبلک اسکول، قصبہ مبارک پور ،ضلع اعظم گڑھ
9369521135

Fan E Reportaz Nigari

Articles

فن رپو رتاژنگاری :ایک مطالعہ

محمدرضا (ایلیاؔ)

تحریر کی وسا طت سے پیش آمدہ واقعات و حا د ثات کوعلمی و فنی کمالات سے قارئین کے دل و دماغ میں اتار دینے کے ہنر کو رپورتاژکہتے ہیں ۔ حقیقت پر مبنی رپورتاژنگاری کو پر کشش الفاظ ، نرالے انداز ،انو کھے طرز میں تحریر کرنا اس کی بنیادی اوراساسی اصولوں میں شمار کیا جا تا ہے ۔ان سب باتوں کے لیے لازمی ہے کہ ماضی کے تذکرے کامطالعہ کرنے کے بعدا س میں حالا ت حا ضرہ کی بول چال اور محاورات کو حسن و خوبی کے ساتھ شامل کر لیا جائے ۔ اگر رپورتاژ کے مفہوم کو وصی اللہ کھو کھر کی مرتب کر دہ قاموس ’’ جہانگیر اردو لغت‘‘ کے توسط سے سمجھنے کی کو شش کریں تو وہ تحریر کرتے ہیں کہ
’’ چشم دید واقعات کا ایسا بیان جو حقیقت کو مسخ کیے بغیر پر تخیل ادب کی تعریف میں آسکے ۔‘‘ اسے رپورتاژ سے تعبیر کرتے ہیں ۔ دراصل لفظ رپورتاژ فرانسیسی زبان کے لفظ ’’Rapportage‘‘ کی تارید ہے جس کے معنی خفیہ رپورٹ کے ہیں ۔(۱)
وہیں دوسری طرف ہم اگر’’ آن لائن اردو لغات‘‘ ملا حظہ کریں تو اس میں رپورتاژ کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں ملتا ہے :
’’ رپو رتاژ سب سے پہلے ۱۹۶۳ میں ’’ جدید کے دو تنقید ی جا ئز ہ ‘‘ میں مستعمل ملتا ہے ۔ انگریزی زبان ’’Reportage‘‘ سے اردو میں تصرف کے ساتھ داخل ہوا ۔ عربی رسم الخط میں بطور اسم مستعمل ہے ۔ رپو رتاژ اسم معرفہ ۔ مذکر ہے ۔ (۲)
لا نگ مین یونیورسل ڈکشنری میں لا نگ نے رپورتاژ کی تعریف یوں کی ہے ۔
’’خبرنگاری کا عمل۔ ایسی تحریر جس کا مقصد سانحہ کی حقیقی تصویر پیش کر نا ہو ۔ ‘‘(۳)
ڈیوڈگرامبس نے لٹریری کمپینئن ڈکشنری میں رپورتاژ کا مطلب کچھ اس طرح لکھاہے :
’’ایسی خبر نویسی یا حالات حاضرہ کی اصل رپورٹنگ جو براہ راست مشاہدے ؍ دستاویزی حیثیت ، حادثات یا حالات ، خبرنویسی یا نیو ز اسٹوری پر مبنی ہو ۔ ‘‘(۴)
علی سر دا ر جعفری ’’رپو رتاژ ‘‘کے بارے میں اپنے تاثرات کااس انداز میں اظہار کر تے ہیں:
’’یہ صنف ادب رپورتاڑ بالکل نئی ہے۔ لیکن بے انتہا اہم ہے۔ یہ صحافت اور افسانہ کی درمیانی کڑی ہے۔ اور اس سے ہمارے ادب کو بے انتہا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ رپورتاڑ ہمارے مقاصد کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے ذریعہ سے ہم بڑے بڑے کام لے سکتے ہیں ‘‘۔۵
کتاب ’انتخاب سجاد حیدر یلدرم‘کی مرتبہ ثریا حسین رپورتاژکی وضاحت کر تی ہوئی تحریر کرتی ہیں ـ:
’’ رپورتاژ ایک فرانسیسی لفظ ہے اور چند سال سے اردومیں مستعمل ہو چکا ہے ۔ رپورتاژ میں رپو رٹر بیرونی حقائق کے ساتھ ساتھ ادبی رنگ میںاپنے ذاتی تاثرات کو بھی پیش کر تا ہے جب کہ رپورٹ یا سفر نامہ محض حقائق پر مشتمل ہو تا ہے ۔(۶)
جس وقت ؍ زمانے میںقلمکار تحریر کر رہا ہے اس وقت کی بولی جانے والی زبان کا بھی استعمال اچھی رپورتاژ نگاری کے لیے ضروری ہے ۔ لیکن جو ہم زبان استعمال کریں وہ عام فہم ہو نے کے ساتھ ساتھ روز مرہ کے الفاظ کے ساتھ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ واقعات اور حادثات میں متروک الفاظ و کلمات کا بکثرت استعمال کریں ۔غیر مستعمل الفاظ سے پر ہیز کرتے ہوئے مستعمل اور ایسے جدید الفاظ کی مدد سے تزئین کا ری کریں جو گزرے ہوئے وقت کی عکا سی کرتاہو ۔
رپو رٹر کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ سامنے کی بات نیز سطحی باتوں کے ذریعہ فوراً نتیجہ اخذکر لیتا ہے جبکہ آنے والے دنوں میں سچائی جب اس کے برعکس ہوتی ہے تو رپو رٹر س معذرت کر کے بات کو ختم کر دیتے ہیں ۔ اب تو عام سی بات ہو گئی ہے کہ تازہ رپورٹ کے مطابق یوں ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مگر رپورتاژنگار کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ وہ واقعات و حادثات کو سطحی نظر سے دیکھ کر فیصلہ کر دے بلکہ گزرے ہوئے واقعات ، لمحات کی تہہ تک جائے اور ہر ہر نکات کو عمدہ طریقہ سے تحقیق کر کے تجزیہ کرے۔ یہ بات بھی ضرور سمجھ لینا چاہئے کہ جو تجزیہ ہم کر رہے ہیں اس کو سادگی کے پیراہن میںبالکل نہ پرو ئیں بلکہ اچھے ، پر لطف اوردل کو موہ لینے والے انداز میں پیش کریں۔ بات کی تہہ تک جانے کے بعد ہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے جیسے کہ رنگ لا تی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد ۔ ’حنا ‘رپورٹر کے مثل ہے اور گھسنے کے بعد جو رنگ آتا ہے وہ رپو رتاژ ہے ۔
جملے کی ہیرا پھیری سے ،تخیلات کی تبدیلی سے بہت کچھ بدل جا تا ہے ۔ایک واقعہ ، ایک ہی منظر کو الگ الگ انداز میں پیش کر کے اپنی تحریر کے رنگ دو بلا بنا سکتے ہیں ۔ ہاں توآپ متوجہ ہیں ! دیکھئے یہ وہ عجیب منظر !
۰ خونخوار شیر ہرن کا شکارنہیں کر سکتا ۔یہ اس کی عاجزی کی علا مت ہے ۔
۰ چالاک ہرن نے برق رفتاری سے اپنی تیز رفتار چوکڑی کی مدد سے شیر کو مات دے دی ۔
۰ شیر نے صحیح وقت کا انتخاب نہیں کیا ۔ جس کا فائدہ ہرن کو جیون دان کی شکل میں ملا ۔
۰ شیراپنے لنچ کے لیے دوڑ رہاتھا اس لیے ہا ر گیا ۔ ہرن اپنی زندگی کے لیے بھاگ رہا تھا اس لیے وہ جیت گیا ۔
۰ ہرن کی زندگی کے سامنے شیر کی بھوک نے دم توڑ دیا ۔
یہاںاگر غورکیا جائے تو واقعہ ایک ہے مگر بیان اوررپورٹر کا انداز بالکل مختلف اور برعکس ہے ۔ مختلف رپورتاژوں نے واقعات کی صداقت کو نظریات ، تخیلات کے ذریعہ اپنے اپنے دلچسپ انداز میں پیش کر کے قارئین ، ناظرین کو با ندھے رکھا ۔اب عوام کے اوپر منحصر ہے کہ کس کو کس انداز میں پسند کر تا ہے ۔
ڈاکٹر احتشام حسین کے نزدیک صنف رپور تاژ ادب کا حصہ تو ہے مگر اس کی شکل و صورت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی ہے ۔ تاجور سامری کی رپورتاژ ’’ جب بندھن ٹوٹے‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں :
’’رپو رتاژ کو ہم واقعات کی ادبی اور محاکا تی رپو رٹ کہہ سکتے ہیں ۔ادب کی شکل نہ تو واضح ہے اور نہ اتنی پرانی کہ اس کے حدود تعین کیے جائیں گے ۔ ‘‘(۷)
لکھنؤکی تاریخ ،واقعات ، حادثات، بلندی اور تنزلی کے مناظر کو بہت سے لوگوں نے قلمبند کیا مگر بعض کو شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھا جا تا ہے نیز کچھ خاص تحریر ایسی ہیں جن کو مکمل پڑھے بغیر سکون نہیں ملتا، کچھ تو ایسی ہیں جن میں بوریت کا احساس ہو نے لگتا ہے جب کہ وہ عمدہ اور تحقیقی ہوتیں ہیں ۔ تاریخ لکھنؤ میں ’’ گزشتہ لکھنؤ‘‘ کے حوالے مر زا جعفر حسین نے لکھا اور ان کا انداز کچھ اور ہے ۔ یہی تاریخ لکھنؤاور اجڑتا ہوا اودھ کو’’ یادوں کی برات‘‘ میں جو ش ملیح آباد ی کی تحریر کا مطالعہ کریں تو ان کا انداز بالکل دلکش ہے۔ زیادہ تر لو گوں کو پسند بھی آتا ہے کیونکہ انہوں نے تحریر کو نوک جھونک ،نرالے انداز کے ساتھ لکھا ہے ۔ یہی حال رپورتاژکا ہے ہمیں اس انداز میں لکھنا چاہئے کہ رپورتاژ مکمل ہوجائے تشنگی بھی باقی رہے نتیجہ تصور کی منزل میں نہ ہو بلکہ تصدیق ہو جائے۔
ڈاکٹرخلیق انجم ’’اردو میں رپورتاژنگاری ‘‘ کے مقدمہ میں لکھتے ہیں :
’’اردومیں با قاعدہ رپورتاژنگاری کا ارتقاترقی پسند مصنفین کے ہاتھوں ہوا ۔ سجادظہیر نے ’روشنائی ‘میں لکھاترقی پسند مصنفین کے ان جلسوں کی تفصیلی روداد اور ان کی فضا کو حمید اختر بڑی خوبی کے ساتھ قلم بند کر تے تھے ۔ ہر جلسہ میں وہ بحیثیت سکریٹری انجمن کے گزشتہ ہفتے کی روداد پڑھتے تھے ۔ عام طور سے سکریٹری کی رپورٹ ایک خشک اور رسمی سی چیز ہوتی ہے لیکن حمید اختر نے ان رپورٹوں میں بھی ادبی رنگ پیدا کر دیا اور اس طرح غالباً وہ ایک نئی ادبی صنف کے مو جد سمجھے جا سکتے ہیں ۔‘‘(۸)
رپورتاژ کو حا دثات، گزرے ہوئے واقعات کا ثمرہ کہا جا تا ہے ۔ اس کا مطلب یوں سمجھ لیجئے کہ حیات انسانی کے ہر پہلو واقعہ ، حا دثہ اور رنج و غم خو شی و فرحت کو آنکھوں دیکھا حال کی اس طرح منظر کشی کر نا کہ جذبات کی پوری طرح سے ترجمانی ہوجائے ۔ منظر یا ما حول کا نقشہ دلکش انداز میںاجا گر ہو جائے ۔رپو رتاژ کے لیے یہ لا زمی ہے کہ فروعی اطلاعات کو چھو ڑتے ہوئے اصول اطلا عات کو لفظ بہ لفظ ،ہو بہو یعنی جس طرح ، جس شکل میں ، جس وقت ، جس ساعت ، جس لمحہ میں دیکھئے اس کو بعینہ بیان کرے تبھی صحیح معنی میں رپو رتاژ کا حق ادا ہو گا۔ یا یوں کہا جائے تو کوئی مبا لغہ آرائی نہیں ہو گی کہ رو نما ہو نے والے واقعہ و حادثہ میں شمہ بھر بھی تبدیلی کے بغیر بیان کر دے ۔
شرر نے اجتما ع کی اس رودادکے بارے میں لکھا جو ۹؍ مئی بروز یک شنبہ ۱۸۸۷ ء کو قیصر باغ لکھنؤ کے تاریخی میدان میں انجمن دار السلام کی جانب سے منعقد ہوا تھا ۔ جس میں شرر کے مطابق بیس سے پچیس ہزار لو گوں نے شرکت کی ۔ انہوں نے آنکھوں دیکھے مناظرزمانہ حال میں لکھا۔ ایک اقتبا س ملا حظہ ہو :
’’ان پر شوق آنکھوں نے کیا دیکھا ، ایسا کچھ دیکھا کہ آنکھوں کو تمنا رہ گئی ، نہیں دیکھا ، نہیں دیکھ رہی ہیں ۔ ہم ایک وجد کے عالم میں جھوم رہے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان خطیبوں کی معجز بیانیاں دلوںمیں آگ لگائے دیتی ہیں ۔ ایک طرف جناب منشی امتیاز احمد صا حب جوش و خروش کے ساتھ تقریر کر رہے ہیں ، غصے میں ابھر نے والے خون کی طرح اسلامی جو ش رگوں میں دوڑتا پھرتا ہے اور بے ساختہ وجد میں آکر مسلمانوں کے پر جوش ہجوم سے سبحان اللہ ، جزاک اللہ ۔ اللہ اکبر کے نعرے بلند ہو رہے ہیں ۔ دوسری جانب مر زا محمد ہا دی رسوا صا حب اپنی عالمانہ تقریر سے ایک بہت بڑی جما عت کو اسلام کا جان فروش خادم بنائے دیتے ہیں ۔ ‘‘(۹)
رپورتاژ نگار وںکو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ہر گز ہر گز یہ نہ دیکھے کہ اس کی رپورتاژنگاری سے عوام یا زما نہ یا آئندہ وقت میں اس کے اثرات کیا مر تب ہوں گے ۔ ہمت مر داں مدد خدا کے اصول پر چلتے ہوئے حق بیانی اور علمی لیا قت ، فنی صلاحیت ، تحریر ی مہا رت ، قلمی قوت سے گزشتہ مناظر کو رقم کر دے ۔ رپو رتاژ کے لیے سب سے عمدہ اور حالات حا ضرہ میں بخوبی سمجھی جانے والی مثال کمنٹری ہے ۔ تمام شا ئقین ریڈیو ؍ٹی وی پر بر سوں سے سنتے چلے آر ہے ہیں ۔ کرکٹ میں دلچسپی رکھنے والا ہر انسان کمنٹری کو سنتا ہے مگر کبھی آپ نے غور کیا کہ کمنٹری کو ہم انتی غور سے کیوں سنتے ہیں ؟اس کی طرف ہمارا رجحان اتنا زیا دہ کیوں ہے ؟ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ کمانٹیٹر ایسے انداز میں اور موجودہ وقت کے کچھ طنز و مزاح کے ساتھ ، تاریخ میں اس سے متعلق گزرے ہوئے واقعات کو شامل کر تے ہوئے کمنٹری کر تا ہے یہ اس کی حسن بیانی ہے ۔جبکہ اگر آپ غور کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ کھلاڑی تو اپنے سادہ انداز میں کھیل رہا ہے اس طرح کا کچھ مظاہر ہ نہیں کر رہاہے مگر کمانٹیٹر کھلاڑیوںکے حرکات و سکنات کو پر لطف انداز میں پیش کر تا ہے اور سامعین اور ناظرین خوشی سے جھوم جا تے ہیں ۔ رپور تاژنگاری کے فن کو سمجھنے کے لیے کمنٹری بہترین مثال ہے ۔
ترقی پسندوں نے رپورتاژکے فن کو بہت دلچسپ بنا کر پیش کیا اور اس فن کو ایک با قاعدہ صنف کی حیثیت دی گئی ۔جنہوں نے رپورتاژ لکھے ان کی با قاعدہ طور پر ماہنا مہ رسالے ؍ جریدے میںاشاعت ہوئی بعدمیں جو طویل رپو رتاژ تھے وہ کتابی شکل میں منظر عام پر آگئے ۔ اس بات کی تائید میں ہم عبدالعزیز کی کتاب کو بطور ثبو ت پیش کر سکتے ہیں ۔ اس کے مقدمے میں کچھ یوں تحریر ہے :
’’ سید سجاد ظہیر ، کر شن چند ، ابراہیم جلیس ، تاجور سامری ، عادل رشید ،فکر تونسوی ، جمنا داس اختر ، انور عظیم ، پرکاش پنڈت ، عصمت چغتائی ، خواجہ احمد عبا س، شاہد احمد دہلوی ، قرۃ العین حید ر اور نئے لوگوں میں قاضی عبد الستار ، سید ضمیر حسن دہلوی نے اہم مختصر ،طویل رپورتاژ لکھے جو مختلف رسائل مثلاً ’’شاہراہ‘‘ ، ماہنامہ ’’کتاب ‘‘ وغیرہ میں شایع ہوئے ۔طویل رپورتاژ مثلاً ’’ پو دے ‘‘ ، ’’ خزاں کے پھول ‘‘ ، ’’ جب بندھن ٹو ٹے ‘‘ ، ’’ ستمبر کا چاند ‘‘ وغیرہ علیحدہ کتابی صورت میں سامنے آئے ۔ ‘‘(۱۰)
قرۃ العین حیدر کے رپو رتاژ ’’ ستمبر کا چاند ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے تو اک بات اور واضح ہو جاتی ہے کہ میدان جنگ کے مختلف واقعات اور اس کی ہولنا کیاں ، اقتدار کی عروجیت و شکست کے ہی مناظر نہیں پیش کیے ہیں ، بلکہ جنگ کے اختتام پر کیا اثرات مر تب ہو تے ہیں اس میں موجود ہیں۔ اس کے علا وہ دیگر متعدد مو ضوعات ہیں جس پر رپو رتاژ لکھے گئے ہیں مثلاًخشک سالی ، آسمانی آفات ، زلزلہ ، وبائی بیماری وغیرہ وغیرہ میں جو تباہ کاریاں وجود میں آتی ہیں ان پر بھی رپورتاژ لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں ۔
با مقصد رپو رتاژ نگار کی خوبی یہ ہو تی ہے کہ زما ن و مکان کا تعین اس انداز میں پیش کیا جائے کہ جو حقیقت بعض کی نظر وں میںنہیں تھی وہ سب پر عیاں ہو جائے ۔ رپو رتاژنگار رپو رتاژ لکھنے کا سبب ہی یہی ہو تا ہے کہ وہ اپنی نظروں کے سامنے گزرئی ہوئی صداقت کو دوسرے تک پہنچا سکے جو اس کے متلا شی ہیں ۔ یعنی عینی شاہدخیالوں میں اس مقام تک پہنچ چکا ہو تا ہے جہاں وہ واقعہ یا سانحہ رو نما ہوچکا ہو تا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بعض لو گوںکا خیال ہے کہ تاریخی تر تیب بھی رپورتاژ کے لیے ضروری نہیں ہے ۔ اسی سلسلے میں کشمیری لال ذاکر ’’ یہ صبح زندہ رہے گی ‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’ میں روزنامچہ یا تاریخ نہیں لکھ رہا ہوں کہ تاریخ وار اپنی روداد تحریر کروں ، میں تو صرف ایک رپورتاژ لکھ رہا ہوں ۔ اس میں تاریخوں کی اتنی اہمیت نہیںہے، جنتی شخصیات کی اور میر ے تاثر ات کی ہے ۔ لہٰذا تاریخوں پر میری توجہ کم رہے گی ۔(۱۱)
مگر سچ تو یہ ہے کہ جب کسی شخص کو کوئی اطلاع مو صول ہو تی ہے تو اس کے ذہن میں یہ بات ضرور آتی ہے اور اسے وہ تلا ش کر نے کی پو ری کو شش کرنے میں مصروف ہو جا تا ہے کہ یہ واقعہ یا سانحہ کب اور کس جگہ رو نما ہوا ہو گا۔ قاری کے مطالعہ میں تیزی آجا تی ہے اور وہ بے چین سا رہتا ہے جب تک اسے زمان اور مکان کا پتا نہ مل جائے ۔ اگر اسے اطمینان بخش جواب مل جا تا ہے وہ پر سکون حا لت میںواپس آجا تا ہے ۔ اگر اسے وہ چیز دستیاب نہیں ہو تی تو وہ عالم تصور میں چلا جا تا ہے ۔ اسے قصہ یا کہانی سے تشبیہ دینے لگتاہے ٹھیک اسی وقت رپو رتاژ کا مقصد پامال ہو جا تا ہے ۔ جب سجا د ظہیر کا رپو رتاژ جسے ’’ یا دیں ‘‘ کے نام سے جا نا جا تا ہے اور اس کو اردو کا پہلا رپو رتاژ مانا جا تاہے ۔ اس کا آغاز ہی تاریخ سے ہو تا ہے ملا حظہ ہو۔
’’ ۱۹۳۵ ء عجب سال تھا ۔ میں اس زما نے میں لندن میں اپنی طالب علمی کے آخری دن گزار رہا تھا ۔ ‘‘(۱۲)
جبکہ ثریا حسین رپورتاژکی وضاحت کر تی ہوئی تحریر کرتی ہیں ـ:
’’چندسال قبل ایک اردو روزنامے میں شعبہ اردو کے ڈاکٹر رفیق حسین نے لکھا تھا کہ اگرچہ کر شن چند ر کے ’’پو دے ‘‘ کو اردو کا پہلا نا ول رپورتاژ کہا جاتا ہے لیکن یلدرم کے ’’ سفر بغداد ‘‘ کو جو ۱۹۰۴ء میں شایع ہوا ، اردو کا اولین رپورتاژ کہنا زیا دہ صحیح ہو گا ۔ زیا رت قاہرہ و قسطنطنیہ ۱۹۱۱ ء یلدرم کا دوسرا رپورتاژ تھا ۔‘‘ (۱۳)
اس کے علا وہ اگر آپ اظہار اثر کومطالعہ میں لائیں تویہ بھی تاریخ کو اہمیت دیتے ہوئے قاری کو بھر وسہ دلا نے اور ان کے اعتماد کو پائے تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے رپورتاژ ’’ تر قی پسند مصنفین کی کل ہند کا نفر نس ‘‘ کی ابتدا کر تے ہوئے کچھ اس انداز میں مصروف تحریر ہیں :
’’ اور آخر ہندوستان کی دلہن دلی کا دل ۱۷؍ اپریل ۱۹۷۶ کو جگمگا اٹھا ۔ دلی کا یہ دل جدید و قدیم تہذیبوں کا گنگا جمنی سنگم ، بستی نظام الدین کا علا قہ ہے ۔ ‘‘(۱۴)
رپور تاژ نگار کوکسی بھی رپورتاژرقم کر نے سے پہلے صرف قوت سامعہ پر نور ایقان نہیں کر نا چاہئے بلکہ بصیرت پر اعتماد کرنے کے لیے نفسیاتی بصیرت کی مدد لینی چاہئے ۔کیونکہ موجودہ وقت میں برقی رو کے ذریعے جو آواز فضا میں گونجتی ہے اس کو سننے کے لیے ایک خاص قسم کا آواز گیر آلہ ہو تا ہے ۔ ہمارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سما عت پر نہیں بصارت سے کام لینا چاہئے ۔ جیساکہ طلعت گل اپنی کتاب ’’ اردو میں پورتاژ کی روایت ‘‘ میں تحریر کر تی ہیں :
’’ رپو رتاژ نگار اپنے کانوں پر بھر وسہ نہیں کر تا ۔ اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے اور دل سے محسوس کرتا ہے کچھ لو گوں کا خیال ہے کہ آنکھوں سے دیکھنے کے علا وہ سنے سنائے واقعات و حادثات پر بھی رپورتاژ لکھا جا سکتا ہے ۔یہ درست نہیں کیونکہ رپورتاژمیں مصنف کا موضوع سے براہ راست تعلق بنیا دی حیثیت رکھتا ہے اور رپو رتاژ کا بیان مستند مانا جا تا ہے ۔ ‘‘(۱۵)
محققین کے مطابق رویت حقیقتاًنظروں سے نہیں عقل سے ہوتی ہے ۔ حواس خمسہ میںبصارت بھی شامل ہے جو بعض دفعہ دھو کادے جا تی ہے ۔ مثلاً اگر کسی بلند مقام یا پہاڑ کی اونچائی سے کسی انسان کو دیکھیں تو وہ ما چس کی ڈبیا کے ما نند نظر آئے گا تو کیا رپو رتاژ نگار اس کو بعینہ رقم کر دے جب کہ اس نے خو داپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل نے محسوس کیا ہے ۔ جی نہیں بلکہ یہاں پر عقل سے کام لینا پڑے گا۔ یا یوں کہا جائے تو زیا دہ بہتر ہو گا کہ یہاں پرعقلی بصارت کی ضرورت ہے ۔
٭٭٭٭٭

حوالہ جات
۱……جہانگراردو لغت ، وصی اللہ کھو کھر ،ص۸۰۹
۲……http://urdulughat.info/words/3304
۳……Longman universial Dictionary 1982, Page -826
۴……Literacy Companion Dictionary By Savid Grambs 1984 Words about words- Page 313
۵……علی سردار جعفری۔ پیش لفظ۔ خزاں کے پھول۔ از عادل رشید۔ص ۱۱
۶…… انتخاب سجاد حیدر یلدرم ۔مرتبہ ثریا حسین ۔ ص ۲۰
۷……تارجور سامری ، جب بندھن ٹوٹے ۔ تعارف احتشام حسین ص۵
۸……مقدمہ ۔ اردومیں رپو رتاژ نگاری۔ ص،۷
۹…… دلگداز۔ اپریل ۱۸۸۸۔ ص ۵۹
۱۰……اردومیں رپورتاژنگاری ،عبد العزیز ، ص ۸
۱۱…… یہ صبح زندہ رہے گی ، کشمیری لال ذاکر ؔ ص ،۲۲
۱۲……یا دیں ۔ سجا د ظہیر ۔
۱۳…… انتخاب سجاد حیدر ۔ ص ۲۰
۱۴…… تر قی پسند مصنفین کی کل ہند کا نفر نس ۔ اظہار اثر
۱۵…… اردو میں رپو رتاژ کی روایت ۔طلعت گل ص ۲۷۔ اپریل ۱۹۹۲

مضمون نگار سے رابطہ کریں
پورہ رانی ، نزد اقرا پبلک اسکول ،مبارک پور ، اعظم گڑھ
رابطہ نمبر 9369521135=
ای میل : sameersm141@gmail.com

Qwaed Imla O Insha

Articles

قواعد ، املا و انشا

اختر حسین مصباحی

Jahangeer Aur Tuzk e Jahangeeri by Shibli

Articles

جہانگیر اور توزکِ جہانگیری

مولانا شبلی نعمانی

Hazrat Umar Farooq: A Short Biography

Articles

حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

ابو ریحان ضیا الرحمن فاروقی

Rafiuddin Faqeeh High School, Bhiwandi

Articles

انجمن فروغ تعلیم بھیونڈی کی جانب سے رفیع الدین فقیہ بوائز ہائی اسکول کے اساتذہ اور طلبہ کی پذیرائی

محمد احمد شاہ

۱۴ جولائی ۲۰۱۹ بروز اتوار الحاج محمد خان ہال،دھوبی تالاب اسٹیڈیم ،بھیونڈی میں انجمن فروغ تعلیم کی جانب سے ایس ایس سی اور ایچ ایس سی امتحان مارچ۲۰۱۹ میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ اوران امتحانوں میں بہتر نتائج دینے والے اساتذہ ،اسکول اور ہیڈماسٹر کی پذیرائی کے لیے ایک شاندار پروگرام کا انعقاد عمل میں آیا ۔بڑی خوشی کا مقام ہے کہ شہر بھیونڈی کے اردو میڈیم اسکولوں میںایس ایس سی امتحان مارچ ۲۰۱۹ کے مضمون اردو میں نمایاں نمبرات (۹۰/۱۰۰)حاصل کرنے والے جماعت دہم (الف )کے دوطالب علم انصاری محمدرافع عبدالصمد اور خان عامر عبارت اور ان کے اردو مضمون کے معلم اور اسکول ہذاکے معاون ہیڈ ماسٹر شفیع عاصم پٹیل کو بھی مومینٹو ،سرٹیفکٹ، میڈل اور دیگر تحا ئف سے نوازا گیا ۔ شفیع پٹیل سر کی خاطر اس انعام کو شمشاد انصاری نے حاصل کیا ۔اس پر مسرت موقع پر اسکول کے ہیڈماسٹر محمد شبیر فاروقی ، سپر وائزر فہیم پٹیل ، جملہ اسٹاف چئرمین اسکول کمیٹی اور اسکول انتظامیہ کی جانب سے مبارکباد پیش کی گئی۔

Kab Hum Aap Paraye Hain by Shams Wadood

Articles

کب ہم آپ پرائے ہیں؟

شمس ودود

ہندوستانی زبان، ہندوستانی تہذیب اور یہ لب ولہجہ عصرحاضر کے دانشوروں کو ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، لیکن اب بھی اس کے افق سے کچھ ستارے جو اپنی روشنی سے یہ اعلان کرتے ہیں۔ اعلان ہی نہیں بلکہ سناٹے میں نقارے کے مانند گونج اٹھتے ہیں اور ہماری بصارت خیرہ ہو اٹھتی ہے۔ تاریخ نے چونکہ ہمیں بھاری بھرکم اژدر نما پیش کیا ہے۔ لہذا اس بھاری بھرکم وجود کے ساتھ متحرک ہونے پر ہمیں گامزن کئے بغیر نہیں رہتا۔
میری مراد آلوک یادو سے ہے، جن کا شعری مجموعہ اسی کے نام منظرعام پر آچکا ہے اور ہر قاری کو چندھیائے بغیر نہیں رہتا۔ علی سردار جعفری اردو (ہندوستانی) زبان کو ناگری رسم الخط میں تبدیل کرتے کرتے اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ ان سے پہلے پریم چند دونوں زبانوں اور ان کے رسم الخط یعنی اردو۔۔۔نستعلیقی رسم الخط اور ہندی۔۔۔ ناگری رسم الخط میں قاری سے روبرو ہوئے، نیز دیگر اشخاص نے بھی ایسی کوششیں کیں جو کبھی مثبت رہیں اور کبھی منفی، لیکن ہم جسے ہندوستانی لب و لہجہ کہہ رہے ہیں یا کہتے اور سمجھتے آئے ہیں، اس کے وجود پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ زیر نظر شعری مجموعہ ہندی(ناگری) رسم الخط سے نستعلیقی رسم الخط میں منتقل ہوکر بھی اپنا ایک مقام رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کہیں کہیں خالص ہندی کے کچھ الفاظ شعر کو سمجھنے میں کچھ دشواریاں پیدا کرتے ہیں، لیکن وہ بھی ہماری کم نظری ہی کو ثابت کرتے ہے۔ (ہماری سے مراد میں اور جو لوگ اپنے آپ کو اس فریم میں فٹ پاتے ہیں۔ بقیہ حضرات اس زمرے میں نہیں آتے ہیں(
برسوں سے تسلیم شدہ وحشی صنف غزل میں واقعی وحشیانہ پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جبھی تو اس صنف کو برتنے اور اس صنف میں شاعری کرنے والے کیلئے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی اردوداں خانوادے ہی سے تعلق رکھے، بلکہ اس صنف کو صرف لب و لہجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر وہ شخص (شاعر) چاہے جس خطہ ارض کا باسی ہو، غزل اسے اپنائے بغیر نہیں رہتی۔
غزل کہنے کیلئے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں سے تقریبا تمام آلوک یادو کے یہاں پائی جاتی ہیں۔ خواہ ردیف و قافیہ کا انتخاب ہو یا ہر شعر ایک مکمل واقعہ، بیان کی ندرت ہو یا شعریت و نغمگی۔۔۔ ہر وہ چیز ان کی غزلوں میں موجود ہے، جسے ملاکر غزل کا قالب ڈھلتا ہے۔ روایتوں کے ذریعے قاری تک اپنا پیغام پہنچانا ہو یا مٹتی تہذیب کی عکاسی ہو ۔۔۔ آلوک یادو انہیں اس طرح بیان کر جاتے ہیں کہ بندہ سانس روک کر اس جگہ ٹھہر کے غور کرنے پہ مجبور ہوجائے۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں:۔
پھر اسے بے وفا کہہ دیا ؍ ہائے ہم نے یہ کیا کہہ دیا
ہر ستم اس کا نعمت سمجھ ؍ یار کو جب خدا کہہ دیا۔
ہوائیں ساونی جو پڑھ سکو تم ؍ انہیں پہ آنسووں نے خط لکھے ہیں۔
جئے ہیں درد اور آنسو پئے ہیں ؍ کہاں روتا، ترا کاندھا نہیں تھا۔
نہ ہوتی عشق میں حاصل جو لذت غم بھی ؍ تو کرتا کیا یہ مرا قلب زار، سمجھا کرو۔
بے خطا ہوکے بھی مانگی ہے معافی ہم نے؍ اپنے رشتے کو اسی طرح بچائے رکھا۔
جس کے ہونے کی دعا مانگی خدا سے ہم نے؍ دربدر ہم کو وہی لخت جگر کرتا ہے۔
سراپا ترا،کیا قیامت نہیں ہے؍ ادھر حشر سی دل کی حالت نہیں ہے۔
کھا کر قسم تمہاری نشیلی نگاہ کی؍ ہر روز توبہ کرتے رہے مئے کشی سے ہم۔
اس کی ہرچیزمری، عشق کیآغاز میں تھی؍ لیکن آج اس نے مری جاں بھی پرائی لکھ دی۔
پیار کا دونوں پہ آخر جرم ثابت ہوگیا؍ یہ فرشتے آج جنت سے نکالے جائیں گے۔
خفا خفا سے ہیں آخر جناب ناصح کیوں؟؍ کسی نے کردیا کیا آج ذکر حق پھر سے؟
جڑیں چاہتی ہیں ٹھہرنے کو مٹی؍ ہتھیلی پہ سرسوں اگائیں گے کیسے؟
یہ اس کا ہم، پیار میں ڈھل جائے تو اچھا؍ رسی تو جلی، بل بھی نکل جائے تو اچھا۔
مندرجہ بالا اشعار میں جابجاان روایتوں کا ذکر ملتا ہے جو اس معاشرے میں پل کر جوان ہوئیں یا پھر شاعری میں ان کا ذکر بھی ہوتا ریا ہے۔ انسان کے حقیقی ضزبوں کی عکاسی بھی، اور تجربے کی بھٹی میں تپے خیالات بھی، محبت کی باتیں بھی اور رشتوں کی حقیقت بھی، الغرض قاری کو اپنے ذوق کے مطابق یا ہم ایسے طالب علم کو اپنے ذوق کے مطابق چیزیں ان غزلوں میں دستیاب ہیں۔
عام طور پر چھوٹی بحر میں شاعری کرنا لیکھ سے ذرا ہٹ کے اور مشکل تصور کیا جاتا ہے، لیکن آلوک یادو کا یہ امتیاز ہے کہ وہ چھوٹی بحر میں اچھی شاعری کرتے ہیں اور اپنی بات بھی مکمل کہتے ہیں، جس میں کہیں پر بھی کجی محسوس نہیں ہوتی۔؎
آپ سے ہر خوشی ہوگئی ؍ سرجھکا، بندگی ہوگئی۔
غزلوں میں محبوب کے عارض و گیسو، لب و رخسار کے ذکر پہ ہی تنقید کا ایک نیا باب اور ادب میں نئے طرز اظہار کا در کھلا تھا۔ جہاں سے نظم اور جدید اردو تنقید کا آغاز ہوتا ہے۔ اس تفصیل سے قطع نظر۔۔۔ آلوک یادو نے بعض روایتوں اور اساطیر الاولین کو ایسی چوٹ دی ہے کہ دانتوں تلے انگلیاں چلی جائیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔
دینے والے نے اتنا دیا ؍ حسرتوں میں کمی ہوگئی۔
ترے ان لبوں کو میں تشبیہ کیا دوں ؍ کہ پھولوں میں ایسی نزاکت نہیں ہے۔

مذکورہ بالا اشعار میں پہلا شعر غالب کے اس شعر کا رد محسوس ہوتا ہے۔؎
ہزاروں خواہشیں ایسی، کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے۔
پھر دوسرا اور تیسرا شعر میر کے مشہور شعر ؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے ؍ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔ یا کلاسیکی شاعری اور ان کی روایتوں کی کاٹ ہے، جن پہ ناقدوں نے ایک زمانے تک بحث کیا ہے۔ یہاں کسی کو کم تر یا برتر دکھانا ہرگز نہیں بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہر زمانے کی اپنی ضرورتیں اور روایتیں ہوتی ہیں۔ سو گردش ایام کے بقدر شاعری بھی اپنا رخ تبدیل کرتی ہے۔ ہر دور کے اپنے تقاضے، اپنے استعارے ہوتے ہیں۔ اگرچہ ضروریات زندگی تبدیل نہیں ہوتی ہے، لیکن کسی حد تک ان کی نوعیت ضرور بدل جاتی ہے۔
بحر، وزن اور قافیہ و ردیف کی آمیزش اور لفظوں کی ہیرا پھیری سے شاعری تو ہوسکتی ہے، لیکن ایک ایک شعر میں عمر بھر کا تجربہ بیان کرجانے کا فن ہر کسی کو میسر نہیں ہوتا۔ اگلے زمانے میں کسی انسان کو اس وقت تک تجربہ کار تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، جب تک کہ اس کے بالوں میں سفیدی، ہاتھوں میں لرزش اور کمر میں خم نہ آجائے۔ لیکن اس دور میں بڑھاپے کا تجربہ بیان کرنے والے ایسے نوجوان موجود ہیں کہ کبھی کبھی تو ان میں اور ان کی شاعری میں کوئی مناسبت ہی نظر نہیں آتی۔ پھر بھی ان کی بات تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ہے۔ شاید اس لئے کہ جب فن کامل ہو، تو فن کار کی عمر نہیں پوچھی جاتی۔؎
جب کسی نے سر بزم دیکھا نہیں ؍ کسمساتی رہیں کانچ کی چوڑیاں۔
زندگی بھر کسی کی زمیں پہ سجے ؍ پھول تھے ہم کہیں کے، کہیں پہ سجے
ٹھوکروں میں رہے، سنگ تھے جب تلک ؍ خاک بن کر کسی کی جبیں پر سجے۔
جب بھی چھونے چلا، عکس دھندھلا گیا ؍ جیسے ہو جھیل میں چاند سی زندگی۔
آنکھ سے آنسو چرا لے گیا لیکن وہ شخص ؍ بے گہر سیپ یہیں چھوڑ گیا ہے صاحب۔
بنا کر پاوں کی بیڑی کو گھنگھرو، زندگانی؍کرے گی رقص جب تک درد سا زندہ رہے گا۔
وہ پیاس اپنی بڑھانا چاہتا ہے ؍ لب دریا پھر آنا چاہتا ہے۔
اس دور کی ہر اک چیز انوکھی ہے، یہاں ہر شخص اپنا رہبر بھی ہے اور رہزن بھی، روایتیں اور قدریں سب بدل گئیں۔ جہالت کتابوں میں سمائی ہے۔ درندے رحم کررہے ہیں، انسان درندگی پہ آمادہ ہے۔ ہر جگہ، ہر رشتے اور ہر تعلق کے معنی ہونے چاہئے۔ اس ماحول میں شاعر اپنا طرز نہ بدلے تو اور کیا کرے۔؎
کر لیں گے خود تلاش،کہ منزل ہے کس طرف؍ اکتا گئے ہیں یار،تری رہبری سے ہم۔
جرم تھا عشق،سزا ملنی تھی تاعمر کی قید؍ فیصلے میں مرے حاکم نے جدائی لکھ دی۔
جان دینے میں سربلندی ہے ؍ جان کا مول سر بھی ہوتے ہیں۔
مندرجہ بالا اشعار میں شاعر ہر بار بنے بنائے سانچے کو توڑتا ہے۔ احساسات و خیالات کا رقص اور تجربے کی الٹ موجود ہے۔ بے مثل اور ہر وہ کام جو شاید کبھی نہ ہوا ہو، ان کا ذکر بلکہ ایک آپ بیتی کی شکل میں نظر آتا ہے جو جگ بیتی بھی ہے۔
آلوک یادو کا ایک رنگ ایسا بھی ہے جو میر و غالب اور قدیم شعری روایات کی تردید کرتا ہے۔ اس کے علاوہ طنز کا ایسا اچھوتا اور نادر تجربہ پیش کرتے ہیں کہ قاری نہ چاہتے ہوئے بھی ان اشعار کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اس میں ایک انوکھاپن یہ بھی ہے کہ وہاں جمود نہیں بلکہ حرکت ہوتی ہے اور تخیلات کا قافلہ تھمتا نہیں بلکہ اس کے سارے کل پرزے متحرک نظر آتے ہیں۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں۔؎
میں دل کی بات کرتا تھا تمہیں دنیا کی چاہت تھی؍ تومجھ کوچھوڑکربھی تم، نہ ہو پائے زمانے کے۔
خفا خفا سے ہیں آخر جناب ناصح کیوں؟ ؍ کسی نے کر دیا کیا آج ذکر حق پھر سے۔
کسی سے روٹھ گئے یا کسی کا دل توڑا ؍ جبیں آگیا کیوں آپ کی عرق پھر سے۔
پھول سے جسم، بوجھ بستوں کا ؍ کیا ہے تعلیم، تربیت کیا ہے؟
جہاں ایک طرف اردو داں طبقے کو آلوک یادو کے ہندی زبان کے الفاظ پہ اعتراض ہو سکتا ہے، اور یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زبان بوجھل ہو رہی ہے، لیکن اپنی ہی کہی ہوئی بات پھر نہ دہراتے ہوئے اخیر میں بس اتنا عرض کرنا چاہوں گا کہ مندرجہ بالا چار اشعار تین مختلف غزلوں کے ہیں، جو زبان کی سطح پہ اعلی نمونے میں شامل کئے جانے کے قابل ہیں۔ اسلئے جہاں ہندی الفاظ کا استعمال ہے، وہیں اردو زبان کی شگفتگی بھی پائی جاتی ہے، اور اس طرح ایک توازن قائم ہوجاتا ہے جوکم از کم میری نظر میں ہی سہی ہندوستانی لب و لہجہ کی عکاسی ضرور کرتے ہے، اور یہی وہ آمیزش ہے جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ ؎
کب ہم آپ پرائے ہیں؟
ایک ہی ماں کے جائے ہیں