Iqbal ka Paighaam By Abdul Hai

Articles

اقبال کا پیغام

عبدالحی

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

اقبال کی مشہور و معروف نظم ’خضر راہ‘ سے لیا گیا یہ مصرع اپنے آپ میں گہرے اور وسیع مفاہیم رکھتا ہے۔ یہ مصرع اور اس طرح کے سینکڑوں مصرعے اقبال کی نظموں ، غزلوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ شاعر اور حضرت خضر کے درمیان ہونے والے مکالمے پر مشتمل یہ نظم ہمیں زندگی میں جدو جہد کرنے اور کوشش کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہمیں دوسروں کے بھروسے نہیں رہنا چاہیے بلکہ اپنی دنیا خود پیدا کرنی چاہیے، اگر ہمیں کامیابی حاصل کرنی ہے تو قوت عمل سے کام لینا ہوگا۔
آل احمد سرور نے اسی نظم کے حوالے سے کہا تھا کہ اقبال کا فن پہلی دفعہ اپنی بلندی پر نظر آتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ اس نظم کو اردو شاعری کا عہد نامہ جدید کہتے ہیں وہیں مسعود حسین خاں نے اسے اردو شاعری کی حیات آفریں اور مثبت آواز سے تعبیر کیا ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اقبال کا یہی انداز سخن ہے جس کے بارے میں سجاد انصاری نے لکھا تھا کہ اگر قرآن اردو میں نازل ہوتا تو اقبال کی نظم یا ابوالکلام کی نثر کا پیرایہ اختیار کرتا۔حالانکہ کلیم الدین احمد کو اسی نظم میں ڈھیر ساری کمیاں بھی نظر آئیں لیکن عبدالمغنی نے اپنی کتاب میں کلیم الدین احمد کی اس تنقید کا مفصل اور بھرپور جواب دیا ہے۔
اقبال کے اولین شعری مجموعے ’بانگ درا‘ میں آٹھ طویل نظمیں ہیں جن میں ’خضر راہ‘ ایک ہے۔ ( دیگر نظمیں یہ ہیں تصویر درد، گورستان شاہی، شکوہ، جواب شکوہ، شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، طلوع اسلام)
ان تمام نظموں میں اقبال قوم و ملت کو سنوارنے اور انھیں سیدھی راہ پر لانے کی کوشش میں زیادہ کامیاب نظر آتے ہیں، جس طرح کے استعارے اور تشبیہات انھوں نے استعمال کیے ہیں انھیں پڑھ کر کسی بھی شخص کے خون میں روانی پیدا ہو جائے گی۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ ساری دنیا میں پھیلے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو قرآن پاک اور احادیث نبوی کی تعلیمات دی ہیں۔ اقبال کا کمال فن یہ ہے کہ وہ ایک مصرعے میں ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جس پر پوری کتاب بھی کم پڑ جائے۔ علامہ قبال بر صغیر ہی نہیں بلکہ دنیا میں پیدا ہونے والے اہم مفکرین میں سے ایک ہیں۔ ان کے تمام فکری اور علمی موضوعات کا احاطہ کسی ایک شخص کے بس کی بات نہیں۔ اقبال کی شاعری اور ان کی فکر کے حوالے سے مختلف شخصیات نے اپنے اپنے انداز میں اقبال کو سمجھنے کی کوشش کی ہے لیکن کوئی بھی اقبال کی فکر کو مکمل طور پر سمجھنے اور اس کی تفہیم کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
اقبال کی فکر کی صحیح اور حقیقی تفہیم تب ہی ممکن ہے جب اقبال کی شاعری کو پڑھنے والے مشرق و مغرب کے مختلف علوم و فنون سے آشنا ہوں کیوں کہ اقبال کی شاعری میں ان علوم و فنون کا جا بجا ذکر ملتا ہے۔ اقبال جب کوئی شعر کہتے ہیں تو وہ محض ایک شعر نہیں ہوتا بلکہ ایک جہان معنی اس کے پس منظر میں موجود رہتا ہے۔ ان کی شاعری اوران کی فکر کا محور قرآن و حدیث ہوتے ہیں۔ وہ بھلے ہی دنیا کے کسی فلسفی، شاعر، مفکر کا حوالہ دیں لیکن قرآن و حدیث ہی ان کے پیش نظر رہتے ہیں۔ اقبال یہ بھی چاہتے ہیں کہ دنیا کی دیگر اقوام نے جس طرح ترقی حاصل کی ہے اسی طرح مسلم قوم بھی عروج کی نئی داستان رقم کرے۔ اس لیے اقبال دوسری تہذیبوں اور مذاہب کی تعلیمات دیتے ہوئے نہیں گھبراتے کیوں کہ حضور اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ تمھیں اچھائی اور نیکی جہاں سے ملے حاصل کرو۔
انسانی زندگی حرکت و عمل کا دوسرا نام ہے۔ ہمارا مذہب اسلام بھی حرکت و عمل کی دعوت دیتا ہے۔ علامہ اقبال نے بھی اسلام کی اس بنیادی روح کو سمجھتے ہوئے ملت اسلامیہ کو حرکت و عمل کی دعوت دی۔ اسلامی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی ملت اسلامیہ نے اپنے زور بازو اور خدا سے بھروسہ توڑا ہے اسے نقصانات و ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاتاریوں کا حملہ ہو یا پھر مغربی ممالک کی پیش قدمی۔ تاتاریوں کے حملے نے اسلام کی مرکزی اکائی کو ختم کر دیا۔ مسلمانوں کے کتب خانوں کو ان کی کتابوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔ لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی مسلمانوں میں وہ بنیادی تعلیمات موجود تھیں جس نے روم ،مصر اور اندلس کو فتح کرایا تھا۔ ان حملوں سے ایک سبق لیتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمانوں نے ایک ہو کر پھر سے اسلام کا پرچم بلند کیا لیکن 18ویں صدی تک آتے آتے اسلام کی یہ اکائی بھی دم توڑ گئی کیوں کہ مغربی معاشرہ، صنعتی و سرمایہ دارانہ انقلاب اور سائنسی رویوں نے ایک ساتھ مل کر عالم اسلام کو دنیا کے مختلف حصوں میں نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور اس میں اسے کامیابی ملی۔ تاتاریوں نے ظلم و بربیت کا ننگا ناچ تو کیا لیکن وہ اسلام کی روح کو نقصان نہ پہنچا سکے لیکن مغربی معاشرے نے وہ کام کر دیا جو تاتاریوں کی تلوار نہ کر سکی۔ ان تمام صورتحال نے مسلمانوں کو مایوسی اور نا امیدی کی گہری دلدل میں دھکیل دیا۔ اس صورتحال سے مسلمانوں کو باہر نکالنے میں اردو ادب کے حوالے سے پہلا نام سر سید احمد خاں کا آتا ہے۔ انھوں نے مغربی تہذیب و تمدن کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا اور مسلمانوں کو پھر سے ترقی یافتہ بنانے کی کوشش کا آغاز کیا۔ سر سید کی ان کوششوں کا ذکر یہاں بے محل ہوگا۔ مختصر یہ کہ سر سید نے مغربی تہذیب کی یلغار سے نکلنے کی یہ صورت بتائی کہ مسلمانوں کو جدید تعلیم اور سائنس کی طرف راغب کیا جائے اور اس کوشش میں وہ مذہب کو بھی سائنسی کے تناظر میں دیکھنے لگے جس سے مسلمانوں میں خلفشار پیدا ہوا اور خود ان پر کفر کے فتوے لگے۔
بیسویں صدی پوری دنیا میں نئے ہنگامے اور نئے انقلابات لے کر آئی۔ دنیا کے سیاسی نقشے میں کئی ردو بدل ہوئے اور دنیا نے پہلی جنگ عظیم کا سامنا کیا۔ ہندوستان بھی نئی تبدیلیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ ان تبدیلیوں اور نفسا نفسی کے عالم میں اقبال وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے ان رویوں کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کی بے بسی اور گمراہی کو دور کرنے کی کوشش کی اور فلسفہ خودی ، عشق و عقل، مرد مومن ،حرکت و عمل جیسے تصورات پیش کیے اور قرآن و احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تلاش کیا اور ایک نئی تعبیر پیش کی۔پہلی جنگ عظیم کے بعد ہندوستان میں رولٹ ایکٹ،گاندھی جی کی عدم تعاون کی تحریک، جنرل ڈائر کا مارشل لا اور قتل عام جیسے واقعات سے ملک میں افراتفری کا ماحول تھا اور ایسے وقت میں ہی اقبال نے یہ نظم تحریر کی اور ہمیں خواب خرگوش سے جگانے کی کوشش کی۔خضر راہ کے حوالے سے راشد حمید لکھتے ہیں :
علامہ اقبال نے اپنے تخلیقی رویوں کا اظہار شاعری کے ذریعے کیا اور ابتداً وہ مروج اصول و ضوابط کے مطابق شعر کہتے رہے لیکن بہت جلد وہ اس سلسلے کو خدا حافظ کہہ آئے اور نئے رنگ اور نئی تخلیقی اپج کے ساتھ سامنے آئے۔ خضر راہ علامہ اقبال کے انقلاب آفریں فلسفے کا بنیادی نکتہ ہے۔ انھوں نے اس نظم میں اسلام کے حرکی کردار پر گفتگو کی۔ علامہ اقبال اس حوالے سے غور و فکر کرنے اور نتائج نکالنے میں یوں کامیاب او ر کامگار ٹھہرے کہ انھوں نے تاریخ کا جو تہذیبی مطالعہ کر رکھا تھا اور اسلام کے جس تصور تاریخ سے وہ آگاہ تھے، اس کے پس منظر میں انھوں نے ایک نیا زاویۂ نگاہ وضع کیا اور اس کی تدوین اور ترتیب و تہذیب کی بنا پر وہ کچھ ایسے نئے رویے سامنے لائے کہ جن کے مسلم امہ پر نہایت دور رس اثرات مرتب ہوئے۔(بحوالہ : اقبال کا تصور تاریخ۔ راشد حمید)
اسلامی تعلیمات گواہ ہیں کہ اس مذہب میں کس قدر رواداری اور وسعت ہے۔ تعصب اور تنگ نظری کی اسلام میں کبھی کوئی گنجائش نہیں۔یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں پر بھی لعن طعن کی سخت ممانعت کی گئی ہے لیکن خود اسلام کے پیروکار ہی اپنے دینی بھائیوں سے تعصب رکھنے لگے تو اقبال کو شکوہ کرنا پڑا۔
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو
اور جب مسلمان ذاتی مفادات میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں مطالب قرآن کو بھی ذاتی مفاد کے رنگ میں ڈھال لیا تو اقبال کہتے ہیں ۔
خود بدلتے نہیں، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
بیسویں صدی میں جہاں دنیا ترقی کے نئے ذینے چڑھ رہی تھی، وہیں مذہب اسلام میں نئے قصے سر اٹھا رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی فکر کو صحیح ثابت کرنے پر تلا ہوا تھا۔ مذہب جیسے ذاتی جاگیر بن کر رہ گیا تھا۔ ان حالات میں اقبال فرماتے ہیں۔
تعصب چھوڑناداں دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویر بھی ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے
اقبال ایک بالغ نظر شاعر ہیں۔ انھوں نے نہ صرف مشرق کی تعلیمات اور فلسفے کو پڑھا ہے بلکہ فلسفہ مغرب بھی ان کے دل و دماغ میں بھی ہوا ہے۔ وہ علم کو مضامین یا علاقائیت سے پرے سمجھتے ہیں اور جہاں اس سے انھیں کچھ بھی حاصل ہوتا ہے وہ لے لیتے ہیں۔ وہ تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ فلسفہ ان کے حافظے میں ہے۔ اقتصادیات سے انھیں گہرا شغف ہے۔ دنیا کے نئے رجحانات و ریوں سے بھی واقفیت ہے، جمہوریت، اشتراکیت، شہنشاہیت غرض ہر طرز حکومت سے وہ آشنا ہیں۔ یہی نہیں قدیم ہندوستانی ، چینی، یونانی، فلسفہ و نظریات سے بھی واقف ہیں۔ انھوں نے دنیا کی مختلف اقوام کا مشاہدہ کر کے جو نتائج بر آمد کیے ہیں اسے شاعری کے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری صرف غزل، قصیدہ یا مرثیہ نہیں ہے بلکہ انسان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا ایک حل ہے، انسان کی آزادی خوشی اور طمانیت ان کی شاعری کا مقصد ہے۔ اقبال اپنے علم، تجربے اور تدبر کی مدد سے ایک راہ عمل ترتیب دیتے ہیں اور یہ بتاتے ہیں کہ انسان کی تمام پریشانیوں کا حل اس کے عمل میں پنہاں ہے۔ اگر انسان سچے دل سے کوشش کرے تو منزل مقصود کو پا سکتا ہے۔ بس اسے اپنے عمل کے تئیں خود اعتماد رہنا ہوگا۔ اپنے زور بازو پر یقین کامل رکھنا ہوگا اور اللہ پر پورا بھروسہ رکھنا ہوگا۔پھر چاہے پہاڑ ہوں یا بحر ظلمات سبھی جگہ فتح و کامرانی ہمارے قدم چومے گی۔ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں :
’’اقبال کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ جب تک اس جہان نو کی امامت و قیادت مرد مومن کے ہاتھوں میں نہیں آتی اس وقت تک یہ انسانیت ان فرنگی مقامروں کے ہاتھوں ہلاکت و بربادی سے دو چار ہوتی ہی رہے گی۔ ضرورت ہے کہ مرد مومن اٹھے اور ایک جہان نو کے بانی کی حیثیت سے موجودہ بیمار انسانیت کے دکھوں کا مداوا بن کر اٹھے ایک نئی زندگی اور توانائی عطا کرے۔‘‘( نقوش اقبال۔ علی میاں ندوی، ص۔132)
خضر راہ کے اس مصرع کے حوالے سے علامہ قبال کا یہ پیغام ہے کہ اگر انسان فنا ہو جانا چاہے تو بے لگام زندگی گزارے اور اگر انسان چاہتا ہے کہ باقی رہے تو اصول اورقاعدے کے تحت زندگی بسر کرے۔ اسی میں انسان کی بھلائی ہے۔ زندگی کا دوسرا نام عمل ہے اور اگر انسان کو زندہ رہنا ہے تو اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنی ہوگی اور اس دنیا کے لیے عمل ضروری ہے۔ اور عمل ہی انسان کو حیات بخشتا ہے۔میں اپنے اس مضمون کا اختتام عزیز احمد کے ان جملوں پر کرتا ہوں۔
اقبال کا سارا کلام پڑھنے کے بعد ایک سیدھی سادی بات جو ایک عام آدمی کی سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو پہچانے اور ان سے کام لے۔ خدا اور اس کے رسول ؐ سے عشق رکھے۔ اسلامی تعلیمات کی حرکی روح کو سمجھے اور اس پر عمل کرے تو وہ حقیقت میں خدا کا جانشین بن سکتا ہے اور اپنی تقدیر کا آپ مالک بن سکتا ہے۔ (عزیز احمد)، کلیات اقبال، اقبال اکادمی۔

مشرق سے ہو بیزار نہ مغرب سے حذر کر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ ، خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
یورپ کی غلامی پہ رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں ہے
***

Iqbal: Azamat E Insani ka Hudi Khwan by Dr. Jamal Rizvi

Articles

اقبال: عظمتِ انسانی کا حُدی خواں

ڈاکٹر جمال رضوی

علامہ اقبال کا شمار ان برگزیدہ شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے انسانی معاشرے کو کئی سطحوں پر متاثر کیا ہے ۔ اقبال کے سلسلے میں ایک بدیہی حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کے افکار و خیالات کی معنویت کو کسی مخصوص عہد یا حالات کا پابند نہیں بنایا جا سکتا۔یہ ضرور ہے کہ اقبال کی شاعری کی نمود میں بعض مخصوص حالات و واقعات سے اثر پذیری کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم اقبال نے ان مخصوص حالات و واقعات کی شعری تعبیر کچھ اس انداز میں کی ہے کہ ہردور کا انسانی سماج اس سے استفادہ کر سکتا ہے ۔اردو ادب میں اقبال کی شناخت ایک ایسے شاعر کے طور پر ہے جو حیات و کائنات کے متعلق ایک واضح فکری نظام کے تحت شعر کے تخلیقی مراحل کو طے کرتا ہے۔اس نظام فکر کی بنیاد بلاشبہ وہ اسلامی تعلیمات ہیں جن سے اقبال کو عبد و معبود شناسی کا ایسا ادراک حاصل ہوا جس نے انھیں اس روئے زمین کی زیب وزین کے امین حضرت انسان کی عظمت و رفعت کی آگہی عطا کی۔اقبال کی شاعری کا کل سرمایہ ان کی فکر و نظر کے ارتقا کی روداد ہے۔ اس روداد میں کئی ایسے مراحل آتے ہیں جو بعض امور میں اقبال کے زاویۂ نظر سے اختلاف کی گنجائش پیدا کرتے ہیں لیکن اس کے باوصف اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ ان کی شاعری میں سماجی و سیاسی انسلاکات کی متغیر کیفیت کے باوجود عظمت انسانی کی نقش گری کا رجحان ہر دور میں تقریباً یکساں نظر آتا ہے۔
اقبال کی ۶۱؍سالہ زندگی(پیدائش ۹؍نومبر ۱۸۷۷ء۔وفات ۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء)میں مذہب، ادب اور سیاست کے مثلث نے انھیں فکری بالیدگی عطا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ۶۱؍ سال کا یہ دورانیہ نہ صرف بر صغیر کی تاریخ بلکہ اسلامی تاریخ میں ایسے تغیرپذیر حالات کا مظہر ہے جس کے سبب اقبال کے افکار و نظریات میں تبدیلی کا وہ عمل نظر آتا ہے جو ان کی فکر کی ہمہ گیریت کو ایک مخصوص سیاسی و سماجی دائرے سے آزاد کر کے اسے عرص�ۂ کائنات پر محیط کر دیتا ہے۔یورپ کے سفر سے قبل اقبال کی شاعری کا انداز اور اس سفر سے واپسی کے بعد ان کی شاعری کے موضوعات اور ایک حد تک طرز بیان میں تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔اقبال کی شاعری میں اس تبدیلی پر بعض ارباب نقد و نظر اس لیے معترض ہیں کہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں جیسی نظم کا خالق اپنی فکر کو ایک مخصوص دائرے میں اس قدر محصور کر لیتا ہے کہ اسے اسلام اور مسلمان کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ اعتراض کرنے والوں کے نزدیک یہ اقبال کی فکر کی محدودیت کی علامت ہے جبکہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کے اندر ایسی فکری پختگی پیدا ہونی چاہیے جو ترانۂ ہندی سے بھی بہتر نظم کی تخلیق کا سبب بنتی۔اقبال نے اپنے افکار و نظریات میں پیداہوئی اس تبدیلی کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے سبب کی وضاحت بھی کی ہے ۔ انھوں نے بیسویں صدی کے عالمی انسانی معاشرہ میں رائج وطن پرستی اور قوم پرستی کے اس تصور کو اس کا سبب قرار دیا ہے جو جغرافیائی حدود کا اس قدر پابند ہے کہ اس کے باہر کی دنیا سے اسے کوئی سروکار نہیں۔جب ان کی فکر نوع انساں کی عظمت کے نشانات تلاش کرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے تو اقوام عالم کے مابین مختلف قسم کے امتیازات کی ایسی سنگین شکل نظر آتی ہے جو اس عظمت کو پاش پاش کر دینے کے درپے ہے۔حیات اقبال سے وابستہ اس دور کی ایک دلچسپ سچائی یہ بھی ہے کہ اس زمانے میں دنیامیں امن و آشتی کے قیام کی پائیداری کو یقینی بنانے کی جس قدر کوشش ہو رہی تھی جنگ اور غارت گری کا عفریت اسی قدر انسانی معاشرہ کو اپنے مہیب سایہ میں لے رہا تھا۔گزرتے وقت کے ساتھ یہ سایہ دراز ہوتا جارہا تھاجس کا ایک بڑا سبب مختلف قسم کے امتیازات کے سبب انسانی برادری کے درمیان تفریق و انتشار کی وہ کیفیت تھی جسے نام نہاد ترقی پذیر دنیا کے فرمانروا سیاست اور سماج اور بعض اوقات مذہب کی وہ ترقی یافتہ صورت قرار دے رہے تھے جو انسانی ارتقا کے سفر کی ضامن ہے۔ قومیت اور وطنیت کا یہ تصور حب جاہ کے خواہاں افراد کے لیے وہ نسخۂ کیمیا تھا جو ان کی خواہش کی تکمیل کی راہ کو قدرے آسان بنا دیتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ اتحاد انسانی کے لیے ایسا خطرہ ہے جس سے انسانی عظمت کے زائل ہونے کا اندیشہ قوی ہو جاتا ہے۔ان حالات میں اقبال عظمت انسانی کی بقا کے لیے اسلام کے اس نظام حیات کی تائید کو ضروری قرار دیتے ہیں جو حریت و مساوات کی راہ میں رنگ و نسل کے امتیازات سے ماورا نوع انساں کو ایک مرکز اتحاد پر مجتمع کرنے کا ذریعہ ہے ۔ اپنے اس نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:
’’ اسلام ایک قدم ہے نو ع انسانی کے اتحاد کی طرف۔ یہ ایک سوشل نظام ہے جو حریت و مساوات کے ستونوں پر کھڑا ہے ۔پس جو کچھ
میں اسلام کے متعلق لکھتا ہوں اس سے میری غرض محض خدمتِ بنی نوع ہے اور کچھ نہیں اور میرے نزدیک عملی نقطۂ خیال سے صرف
اسلام ہی Humanitarian Ideal کو Acheive کرنے کا ایک کارگر ذریعہ ہے۔ باقی ذرائع محض فلسفہ ہیں۔ خوشنما
ضرور ہیں مگر ناقابل عمل۔‘‘ (مکتوب بنام سید محمد سعید الدین جعفری مشمولہ خطوط اقبال صفحہ ۱۶۶؍ مرتبہ رفیع الدین باشمی)
اقبال کے خط کا یہ اقتباس شاعری میں ان کے فکری سروکار کو واضح کرتا ہے۔ وہ اسلامی تعلیمات کی اساس پر استوار اپنے فکری نظام کو نوع انساں کے درمیان اتحاد کا ایک وسیلہ قرار دیتے ہیں اور اس کے ذریعہ ہی وہ عظمت انسانی کے اس تصور کو آشکار کرنے کی سعی کرتے ہیں جوخلقت کائنات کا سبب ہے۔اقبال کی شاعری میں موضوعی سطح پر اس طرز فکر میں ان کے اس خاندانی پس منظر کو نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا جو ان کی ذہنی تربیت میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔اقبال کی شخصیت کا مطالعہ اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے رچے بسے گھریلو ماحول سے باہر نکل کر جب وہ تعلیمی مراحل بتدریج طے کرتے ہیں تو یہاں ایک بالکل مختلف بلکہ گھریلو ماحول سے متضاد صورتحال ان کے سامنے ہوتی ہے۔مابعد الطبعیات فلسفے کا ارتقا کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے باوصف وہ مذہب کے تئیں اپنے پختہ افکار میں کسی قسم کی تشکیک میں مبتلا نہیں ہوئے۔مذہب اور فلسفہ کے درمیان تفاوتِ توجیہی یقینی امر ہے۔ اگر چہ دونوں حیات و کائنات کے اسرار ہائے سربستہ کی گرہ کشائی کا کام انجام دیتے ہیں تاہم عملی و عقلی استنباط دونوں کے مابین ایک واضح فرق قایم کرتا ہے۔اقبال کے افکار میں مذہب اور فلسفہ سے استفادہ کی وہ شکل نظر آتی ہے جو حیات و کائنات کی ماہیت و افادیت کو دریافت کرنے کی ایسی راہ روشن کرتی ہے جو انسانی عظمت کے پرنور چراغوں سے منور ہے۔وہ کائنات کی خلقت کے سبب کا سراغ پانے کی سعی کے عمل میں ان حقائق سے واقف ہوتے ہیں جو انھیں نوع انساں کی تخلیق کے راز سے متعارف کراتی ہے۔
عطا ہوئی ہے تجھے روز وشب کی بیتابی
خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی
سنا ہے خاک سے تیری نمو د ہے لیکن
تری سر شت میں ہے کوکبی و مہتابی
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی
گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی
اسی سے ہے ترے نخل کہن کی شادابی
تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر
کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی (نظم ’ فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں‘)
اس روئے زمین پر ورودِ آدم کے پس منظر میں لکھی گئی اس مختصر سی نظم میں اقبال نے انسانی عظمت کو اس انداز سے نمایاں کیا ہے کہ جنت سے اخراج اس کی فضیلت کا سبب ٹھہرتا ہے۔ اقبال عالم بے کاخ و کو سے عالم رنگ و بو میں آدم کی آمد کو کن فیکون کا حاصل تسلیم کرتے ہوئے نوع انسان سے اس بھرم کے باقی رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں جو تخلیق کائنات کے اہم مقصد کی بنیاد ہے۔اقبال کی شاعری اسی نظام فکر کی ترجمان ہے جو اس بنیاد کے مستحکم کرنے کی تدبیر سے آشنا کرتی ہے اور اس کا مدار عرفانِ ذات کا وہ اہم نکتہ ہے جو نوع انساں کو دنیا و مافیہا کے ان اسرار و رموز کو دریافت کرنے پر آمادہ کرتا ہے جن سے خود اسے اپنی حقیقت و رفعت کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔لیکن اس مقام تک رسائی کچھ ایسی آسان بھی نہیں کہ مدتوں ایک عمل پیہم کے بعد اس کے آثار ہویدا ہوتے ہیں۔ اس مقام تک پہنچنے کی خواہش کی تکمیل میں کئی ایسے مراحل بھی آتے ہیں جو دلسوزی اور جاں سوزی کی سخت و دشوار گزار راہوں سے ہو کر گزرتے ہیں۔ ان راہوں پرثبات قدم سے ہی عظمت انسانی کے امکان روشن ہوتے ہیں لیکن تاریخ انسانی میں کئی ایسے ابواب بھی نظر آتے ہیں جبکہ نوع انساں کے قدموں کی لغزش نہ صرف منزل سے اس کی محرومی کا سبب بنی بلکہ اس کی کوتاہیِ عزم و عمل نے اس راہ کو مزید پیچیدہ اور مشکل بنا دیا۔اقبال اس سفر کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے انسان کے قلب و نظر کو حقیقت یزدانی کے نور سے معمور ہونے پر اصرا ر کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ ان برگزیدہ و بابرکت شخصیات کے کردار و عمل کو منبعِ فیضان قرار دیتے ہیں جنھوں نے اپنی حیات ارضی کو اس عظیم مقصد کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس مقام پر وہ اسلام کے عہد رفتہ کی درخشاں تاریخ کے صفحات پر ثبت ان جلیل القدر نا موں کے حوالے سے اپنے افکار کی ترجمانی کرتے ہیں جن کی زندگی حیات ارضی کی کامیابی و کامرانی کی ایک روشن مثلا ل ہے۔
اقبال نے شاعری میں اپنی فکری جہت کی وضاحت کرتے ہوئے بارہا یہ کہاہے کہ قرآن و احادیث ہی میری شاعری کے موضوعات کا ماخذہے اور میں ان کے حوالے سے ہی عصر حاضر کے مسائل و معاملات کا تجزیہ کرتا ہوں۔بیسویں صدی میں مادی ترقی کے ہوش ربا مظاہر سے مبہوت انسانی معاشرہ میں اس طرز فکر کو اگر اقبال کی قدامت پسندی اور ماضی پرستی سے تعبیر کیا گیا تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔چونکہ اقبال نے اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کے لیے ادب کو بطور وسیلہ اختیار کیا تھا لہٰذا اس ضمن میں اس دور کی ادبی صورتحال کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔اس زمانے کا ادبی منظرنامہ تخلیق ادب کے نظریاتی و اصولی مباحث میں دوباہم متضاد رویہ سے عبارت ہے۔ایک ادب برائے زندگی کا قائل اور دوسرا ادب برائے ادب کا گرویدہ ۔ان حالات میں گرچہ معاصر سیاسی و سماجی حالات کے سبب ادب اور زندگی کے ربط باہم کو مستحکم بنانے کی شعوری کوشش اہل ادب کے یہاں نظر آتی ہے تاہم اس کوشش میں کئی سارے ایسے قدیم معاشرتی تصورات شکست و ریخت سے دوچار ہوئے جو ماقبل انسانی و سماجی اخلاقیات کی اساس تھے۔ اس کے علاوہ اہل ادب کے نزدیک مذہبی اقدار کی نوعیت اور اس کی افادیت کے تصورات پر بھی مادی ترقی کی سحر انگیزی اثر انداز ہوئی۔ اپنے گرد و اطراف میں افکار و افعال کی اس قدرے پیچیدہ صورتحال کے درمیان اقبال نے اپنے لیے ایسی شاہراہ کا انتخاب کیا جس نے دنیا و عقبیٰ کے متعلق ان کی فکر کوایک واضح سمت عطا کی۔ان کی شاعری میں فکر و فلسفہ کے مرکب سے جو قصر تعمیر ہوتا ہے اس کے ہر ستون پر عظمت انسانی کے چراغ روشن نظر آتے ہیں۔شاعری میں اپنے منفرد طرز بیان اور موضوعات کی تخصیص کے متعلق انھوں نے لکھا ہے :
’’ الفاظ کے انتخاب میں لکھنے والا (شاعر)اپنی حسِّ موسیقیت سے کام لیتا ہے اور مضامین کے انتخاب میں اپنے فطری
جذبات کی پیروی پر مجبور ہوتا ہے۔ اس امر میں کسی دوسرے شخص کے مشورے پر خواہ وہ کتنا ہی نیک مشورہ کیوں نہ ہو ، عمل
نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (مکتوب بنام سید محمد سعید الدین جعفری مشمولہ خطوط اقبال صفحہ ۱۶۵؍ مرتبہ رفیع الدین باشمی)
(خطوط اقبال)
اقبال کے اس بیان سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے شاعری میں جن موضوعات کو برتا ہے ان سے اقبال کا رابطہ صرف خارجی سطح پر ہی نہیں ہے بلکہ وہ موضوعات بجائے خود ان کی شخصیت کی تعمیرو تشکیل میں جزو لاینفک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کی شاعری کا خاص وصف غور وفکر کی راہوں کو روشن کرنا ہے ۔ انسانی معاشرہ میں شاعری کے اس افادی پہلو پر ان کی بھر پور نگاہ تھی اسی لیے وہ شاعر کو محض تخیلات کا پابند تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ ان کے نزدیک شاعر کا منصب اس قدر بلند و ارفع ہے جو اپنے کلام سے خوابیدہ سماج میں بیداری کی رمق پیدا کر سکتا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں جابجا شاعر کی ذات سے منسوب اس قدر کا اظہار کیا ہے ۔ ان کے اس موقف کی وضاحت درج ذیل اس مختصر سی نظم سے ہو جاتی ہے جس کا عنوان ہی شاعر ہے ؂
قوم گویا جسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفلِ نظمِ حکومت چہرۂ زیبائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے دیدۂ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو ، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ
شاعر کی شخصیت کے لیے آنکھ کی یہ تمثیل معنویت کی کئی جہتوں کی حامل ہے ۔یہ جہات انسانی زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں تاہم اس کا محور و مرکز عظمت انسانی کے وہ مظاہر ہیں جو گردش ایام کے اثرات سے محفوظ رہتے ہوئے تا ابد کے لیے جاودانی حاصل کر لیتے ہیں۔اقبال کے یہاں انسان کامل کے تصور کے ڈانڈے انہی مظاہر سے ملتے ہیں۔ یہ تصور ہی اقبال کواس مشت خاک میں تسخیر کائنات کاولولہ و جوش دکھاتا ہے اور وہ بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں ؂
منظر چمنستاں کے زیبا ہوں کہ نازیبا
محرومِ عمل نرگس، مجبورِ تماشا ہے
رفتار کی لذت کا احساس نہیں اس کو
فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنا ہے
تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں
انسان کی ہر قوت، سرگرمِ تقاضا ہے
اس ذرہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہردم
یہ ذرہ نہیں، شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے ، بینا ہے توانا ہے (نظم ’انسان‘)
چمنستاں کی ہیئت کو بدل ڈالنے کی توفیق اسی صورت میں اس مشت خاک کا مقدر بنتی ہے جبکہ وہ اپنی ذات میں پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مصروف عمل رہے۔اقبال کی شاعری میں انسانی عظمت کا تصور ان کے نظام فکر کی اس فلسفیانہ تعبیر سے وابستہ ہے جس میں عمل پیہم اور یقین محکم کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان کے نزدیک اگر انسان عمل کی قوت اور یقین کی دولت سے محروم ہے تو وہ زندگی کے ان تقاضوں کی تکمیل نہیں کر سکتا جن سے کامیابی و کامرانی کے راستے ہموار ہوتے ہیں۔اقبال انسان کی حیات ارضی کی کامیابی کا دار و مدار اس کے مسلسل سرگرم عمل رہنے میں دیکھتے ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی شاعری میں ان حوالوں سے بھی کام لیتے ہیں جو عقائد کی رو سے گرچہ ان کی فکر سے متضاد نظر آتے ہیں تاہم جہد و عمل کے ذریعہ حصول مقصد کا ایک مثالی نمونہ ہیں۔ فکر اقبال کا یہ اجتہادی انداز ابلیس کے کردار کو بھی ایک علامت کے طور پر پیش کر کے نوع انساں کو اس سے جہد و عمل کی تحریک حاصل کرنے کا پیغام دیتا ہے۔اس کردار کے ذریعہ وہ تقدیر پر قانع رہنے کے بجائے تدبیر کے میدان میں زور آزمائی کی تلقین کرتے ہیں۔وہ بارگاہِ یزدی سے ابلیس کے نکالے جانے کو اس کی درماندگی کے بجائے اس کی بلند حوصلگی قرار دیتے ہیں اور اس جراتِ بیباکانہ کو اس کے اندر پوشیدہ جہد و عمل کی قوت کو بروئے کار لانے کا وسیلہ تسلیم کرتے ہیں۔اقبال نے اپنی کئی نظموں میں ابلیس کے کردار کے اس پہلو کو نمایاں کیا ہے ۔ اس سلسلے کی ان کی نظم ’ مکالم�ۂ جبریل و ابلیس‘ ایک شاہکار ہے۔ اس نظم میں انھوں نے جہد و عمل کی قوت سے سرشار ابلیس کو اپنے مقصد کی حصول یابی میں اس قدر سرگرم عمل دکھایا ہے کہ وہ ہر مشکل اور خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اپنے مقصد سے رو گردانی اسے کسی طوربھی قبول نہیں حتیٰ کہ وہ اپنے قدرے آسودہ و لذت بخش ماضی سے بھی اپنے حال کو بہتر قرار دیتا ہے۔اس نظم کے ذریعہ اقبال اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسائل و مشکلات سے نبر د آزمائی میں ہی شخصیت کے جوہر نمایاں ہوتے ہیں۔موضوع کی اس انفرادیت کے علاوہ اس نظم کا اسلوب بھی اقبال کے کمال شاعری کا بین ثبوت ہے۔جبریل و ابلیس کے مکالموں سے اس نظم کے تار و پود کچھ اس انداز میں بنے گیے ہیں کہ اس کا آہنگ براہ راست دل پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس نظم کا آخری اقتباس جو ابلیس کے مکالمے کی صورت میں ہے اس میں اقبال نے شورشِ ابلیس کو دنیا کی حرکت و عمل کا سبب قرار دیا ہے گرچہ اس کا مقصد نیک نہ ہو تاہم یہ ابلیس کو ہمہ وقت آمادۂ عمل رکھتا ہے ۔ اس نظم کے ذریعہ اقبال نے عزم و عمل کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے اس لطیف پہلو کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ اگر دل جہد و عمل کی قوت سے تہی ہو تو کسی نیک مقصد سے وابستگی بھی اپنی اہمیت کھو دیتی ہے۔وہ جہد و عمل کی اس قوت کے نمو پانے کے لیے طوفانِ حوادث سے مقابلہ آرائی کو ضروری قرار دیتے ہیں ؂
ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تار و پو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزمِ خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے؟ میں کہ تو؟
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست وپا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا ، جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو،اللہ ہو
اقبال نے اس نظم کے علاوہ اپنی دیگر تخلیقات میں بھی ابلیس کے کردار کو جہد و عمل کا ایک استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔وہ اس کردار کے ذریعہ نہ صرف نوع انساں کے دلوں میں جذبۂ عمل کی حرارت پیدا کرنے کے خواہاں ہیں بلکہ عصر حاضر کی انسانی تہذیب کی اس مصنوعی چکا چوند پر بھی طنزکرتے ہیں جو بنامِ ارتقا انسانوں کے طرز حیات میں ان مضرت رساں عوامل کی آمیزش کرتی ہے جن سے شیرازۂ حیات کے منتشر ہو جانے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘ میں اقبال نے عہد نو کے انسانی معاشرے میں مذہب و سیاست پر مادہ پرستی کی اس ملمع کاری کو ہدف بنایا ہے جو در حقیقت ابلیسی منصوبے کو بتدریج کامیابی سے ہمکنار کرتی نظر آتی ہے۔اقبال کی یہ نظم خصوصی طور پر ان کے سیاسی شعور کی پختگی کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔ انھوں نے اس نظم میں ابلیس کے مشیروں کی تعدا د کا جو تعین کیا ہے وہ گرچہ ان کی شعری ضرورت کا تقاضا رہا ہو لیکن اس پہلو کو اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد بین الاقوامی سیاست کے بدلے ہوئے رنگ و آہنگ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو اس کی معنویت دو چند ہو جاتی ہے۔
اقبال از آدم تا ایندم انسانی تاریخ کو ارتقا کا ایک ایسا سلسلہ قرار دیتے ہیں جو بطن گیتی و افلاک میں پوشیدہ ان اسرار نہانی کی گرہ کشائی کرتا ہے جن کے ذریعہ وہ اپنی عظمت و سربلندی کی سبیل کرتا ہے لیکن اس مرتبہ تک پہنچنے کے لیے وہ راز ہستی سے شناسائی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔عظمت انسانی کے متعلق فکر اقبال کی موثر ترجمانی کے طور پر ان کی نظم سرگزشت آدم کو پیش کیا جا سکتا ہے ؂
سنے کوئی مری غربت کی داستاں مجھ سے
بھلایا قصۂ پیمانِ اولیں میں نے
لگی نہ میری طبیعت ریاض جنت میں
پیا شعور کا جب جام آتشیں میں نے
رہی حقیقت عالم کی جستجو مجھ کو
دکھایا اوجِ خیال فلک نشیں میں نے
ملا مزاج تغیر پسند کچھ ایسا
کیا قرار نہ زیر فلک کہیں میں نے
نکالا کعبے سے پتھر کی مورتوں کو کبھی
کبھی بتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے
کبھی میں ذوق تکلم میں طور پر پہنچا
چھپایا نور ازل زیر آستیں میں نے
کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا
کیا فلک کو سفر چھوڑ کر زمیں میں نے
کبھی میں غار حرا میں چھیا رہا برسوں
دیا جہاں کو کبھی جام آخریں میں نے
سنایا ہند میں آکر سرود ربانی
پسند کی کبھی یوناں کی سرزمیں میں نے
دیار ہند نے جس دم مری صدانہ سنی
بسایا خط�ۂ جاپان و ملک چیں میں نے
بنایا ذروں کی ترکیب سے کبھی عالم
خلافِ معن�ئ تعلیمِ اہل دیں میں نے
لہو سے لال کیا سیکڑوں زمینوں کو
جہاں میں چھیڑ کے پیکار عقل و دیں میں نے
سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی
اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے
ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں
سکھایا مسئل�ۂ گردش زمیں میں نے
کشش کا راز ہویدا کیا زمانے پر
لگا کے آئین�ۂ عقل دور بیں میں نے
کیا اسیر شعاعوں کو ، برق مضطر کو
بنا دی غیرت جنت یہ سرزمیں میں نے
مگر خبر نہ ملی آہ راز ہستی کی
کیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے
ہوئی جو چشم مظاہر پرست وا آخر
توپایا خان�ۂ دل میں اسے مکیں میں نے
اس نظم میں دور قدیم سے عصر حاضر تک کی انسانی تاریخ کے ہر وہ اہم حوالے آگیے ہیں جو انسانی تہذیب و ثقافت، مذہب و معاشرت کے مختلف مراحل کی وہ روداد بیان کرتے ہیں جن سے انسانی سفر ارتقا کی داستان مرتب ہوتی ہے۔یہ طرز فکر اقبال کی شاعری میں عمومی حیثیت رکھتا ہے کہ وہ مختلف النوع موضوعات کے حوالے سے عظمت انسانی کی ترجمانی کا ایسا پہلو دریافت کر لیتے ہیں جو ان کے تصور حیات کی تائید کرتے ہوئے انسانی فضیلت کے نقوش اجاگر کرتا ہے۔اقبال نے ان نقوش کی درخشندگی و تابندگی کے لیے ان اقدار حیات کی پابندی کو لازمی قرار دیا ہے جن سے معاشرہ میں محبت ، اخوت اور اتحاد و یگانگت کی روایت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔اقبال کا سرمایۂ کلام اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ وہ اس روئے زمین پر آمد آدم کو اس عظیم مقصد کی تعبیر تصور کرتے تھے جو اس دنیا کی زینت و زیبائش سے وابستہ ہے۔یہ ضرور ہے کہ وہ اس زینت و زیبائش کے لیے کارزار حیات کے ان دشوار گزار مرحلوں سے گزرنے کو بھی لازمی قرار دیتے ہیں جن سے خود شناسی و خداشناسی تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی کے جس تصور کی ترجمانی کی ہے وہ دراصل ان دشوار گزار مرحلوں سے سرخرو گزرنے میں نوع انساں کی معاونت کرتا ہے اور اس سے حوصلہ و تقویت حاصل کرنے کے بعد انسان کی عظمت و رفعت اوجِ ثریا سے ہمکنار نظر آتی ہے۔اقبال نے انسانی تہذیب و تمدن کا جو تصور اپنی شاعری میں پیش کیا ہے اس میں ان عارضی مفاہمتوں اور سیاسی مصلحتوں کا گزر نہیں جو بنام ارتقا انسانوں کے ذریعہ انسانوں کے ہی استحصال کو روا رکھنے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ان کے نزدیک جدید دنیا کے مسائل کی ایک وجہ وہ نام نہاد تہذیبی ارتقا کا مفروضہ ہے جس نے نوع انساں کے افکار و افعال میں انتشار و خلفشار برپا کر دیا ہے اور اس اضطراب آمیز کیفیت کو اس مادی ترقی نے دو چند کرد یا ہے جس کے سبب انسانی اخلاقیات سے صالح عناصر عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ اقبال کی انسان شناسی ان کے اس مخصوص نظام فکر کی مرہون ہے جس کی اساس اسلام کی انسانیت نواز تعلیمات ہیں۔اقبال کی شاعرانہ عظمت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ وہ اپنے دور کے مسائل و معاملات پر گہری نظر رکھنے کے ساتھ ہی آئندہ کے انسانی سماج کو درپیش ممکنہ مسائل سے کماحقہ واقفیت رکھتے تھے۔چونکہ ان کی شخصیت شاعر اور مفکر کے مرکب سے تعمیر ہوئی تھی لہٰذا ان کی فکر میں ایسی آفافیت و ہمہ گیریت کا ہونا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔
عظمت انسانی کے بنیادی موضوع کی ترجمانی میں اقبال نے جن دیگر ضمنی موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے ان کی سیاسی ، معاشرتی اور معاشی تعبیر میں ان کے نقطۂ نظر سے اختلاف کے امکان کو سر دست مسترد نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ امکان اس وقت مزید قوی ہو جاتا ہے جبکہ معاصر انسانی معاشرہ میں جدید تعلیمی افکار کے سبب مذہبی اقدار پر انسانی ذہن کی اس یلغار سے متاثر ہو کر کلام اقبال کا مطالعہ کیا جائے جو کہ مذہبی تعلیمات و احکامات کو انسانی ارتقا کے لیے غیر مفید تصور کرتا ہے۔اس کے باوجود کلام اقبال کی مقبولیت کا ایک بڑا راز یہ ہے کہ ہر مکتب فکر سے وابستہ افراد کو اس میں اپنی تسکین قلب کا سامان ملتا ہے اور اگر نظریاتی سطح پر اختلاف کے باوصف اقبال کی شاعری اپنے اندر ایسی جاذبیت و تاثیر رکھتی ہے تو اس کا واحد سبب یہ ہے کہ اس میں عظمت انسانی کی ترجمانی انتہائی دل پذیر اور موثر انداز میں کی گئی ہے۔
*****

Allama Iqbal aur Hubbulwatni by Dr. Ahmad Ali Johar

Articles

علامہ اقبال اور حب الوطنی

ڈاکٹر احمد علی جوہر

علامہ اقبال دنیا کے نابغہ روزگار شاعر ہیں۔ ان کا کلام شعری جمالیات کا مرقع ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کروڑوں انسانوں کے دلوں کی آواز ہے۔ اس عظیم المرتبت شاعر کی پیدائش بروز جمعہ، ۹/نومبر ۱۸۷۷ء کو سیالکوٹ میں ہوئی۔ علامہ اقبال کے مورث اعلی کشمیری برہمن تھے جو علم و دانش میں یگانہ عصر تھے۔ ان کے والد کا نام شیخ نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی تھا۔ والدہ مذہبی اور خداترس خاتون تھیں اور والد غیرمعمولی صوفی بزرگ تھے۔ اس طرح تصوف اور شریعت دونوں نے اقبال کی ابتدائی زندگی میں ان کی کردارسازی میں اہم رول ادا کیا تھا۔
علامہ اقبال نے ابتدائی تعلیم مولانا میرحسن صاحب کی درسگاہ میں حاصل کی۔ اس کے بعد وہ اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ میں داخل کرائے گئے جہاں انھوں نے ایف۔اے تک کی تعلیم مکمل کی۔ علامہ اقبال نے ۱۸۹۷ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن اور ۱۸۹۹ء میں ایم۔اے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ اس کالج میں پروفیسر تھامس آرنلڈ نے انھیں فلسفہ پڑھایا جن سے وہ بے حد متاثر ہوئے۔ ایم۔اے کے بعد کچھ دنوں تک علامہ اقبال نے اورینٹل کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی اور فلسفہ کے شعبہ میں تدریسی خدمات انجام دیں۔
۱۹۰۵ء میں علامہ اقبال اعلی تعلیم کے حصول کے لیے یورپ کے سفر پہ روانہ ہوئے۔ یورپ میں انھوں نے ٹرینٹی کالج سے فلسفہ کی ڈگری، کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری اور جرمنی کی میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ٹرینٹی کالج میں علامہ اقبال کے استاد پروفیسر آرنلڈ، پروفیسر میکٹگرٹ، پروفیسر براؤن اور پروفیسر نکلسن تھے۔ ان اساتذہ نے انھیں کافی متاثر کیا۔ ۱۹۰۸ء میں علامہ اقبال اپنے وطن ہندوستان واپس آئے۔ ۱۹۳۴ء تک وہ وکالت سے منسلک رہے۔ ۱۹۲۳ء میں انگریز حکومت نے ان کو’سر‘ کا خطاب عطا کیا۔ ۱۹۲۶ء میں وہ پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۳۵ء میں پنجاب یونیورسٹی نے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری سے نوازا۔ دنیا کے اس عظیم شاعر نے بروز جمعرات، ۲۱/اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنی زندگی کی آخری سانس لی۔
علامہ اقبال ایک بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ سماجی مفکر و دانشور اور فلسفی تھے۔ ان کی فلسفیانہ اور سماجی شخصیت کی تعمیر میں اسلامی تاریخ و تہذیب اور مشرقی و مغربی علوم و فنون کے مطالعہ نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ علامہ اقبال مشرق و مغرب دونوں سے متاثر تھے۔ مولانا جلال الدین رومیؔ کی متصوفانہ شخصیت اور ان کی فکر و نظر نے ان کے ذہن و قلب کو شدید طور پر متاثر کیا تھا۔ رومیؔ کے علاوہ جن اسلامی مفکروں، درویشوں اور علماء و حکماء سے علامہ اقبال متاثر ہوئے تھے، ان میں بابا طاہر عریاں، محی الدین ابن عربی، ابن طفیل، فخرالدین رازی، امام غزالی، محمود وشستری، ابن خلدون، شاہ ولی اللہ، شیخ احمد سرہندی، مجدد الف ثانی، قاضی ابوبکر باقلانی، علی پاشا، حلیم ثابت، ابن مسکویہ اور البیرونی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ علامہ اقبال کو اپنے ہم عصر مغربی فلسفیوں میں برگساں، ولیم جیمس، نطشے، گوئٹے، میکٹگرٹ، ہالڈن، شوپنہار، آئنسٹائن، وہائٹ ہیڈ اور برٹرنڈ رسل کے نظریات و تصورات نے بھی بے حد متاثر کیا تھا۔ علامہ اقبال کے سیاسی تصورات پر قدیم یونانی مفکرین اور جدید مغربی مفکرین علی الخصوص ارسطو، ہابس، لاک اور روسو کے اثرات کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ ان کے سماجی تصورات کی رو ابن خلدون کے فکری دھاروں سے مل جاتی ہے۔
علامہ اقبال ایسے شاعر ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں بقول اقبالؔ :
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال کی شاعری کا دائرہ انتہائی وسیع ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہر بزم و انجمن کو اپنی جانب متوجہ کیا اور بچے، بوڑھے، مرد و عورت، غرض ہر طبقے کو متاثر کیا۔ آج بھی ان کا کلام زبان زدِ خواص و عوام ہے۔ علامہ اقبال اعلی اخلاقی قدروں اور انسانی عظمتوں کے شاعر ہیں۔ ان کی شاعری کے گوناگوں پہلو ہیں۔ ان متنوع پہلوؤں میں ان کی شاعری کا ایک تابناک پہلو ان کی حب الوطنی ہے۔ علامہ اقبال ایک سچّے اور پکّے محبّ وطن شاعر تھے۔ وہ مذہبی رواداری کے پُرزور حامی اور ہندوستانی فلاسفروں اور سنتوں کے مدح خواں تھے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے شروعاتی دور میں چند بہت ہی متاثرکن اور جذبہ حب الوطنی سے بھرپور نظمیں لکھیں۔ ایسی نظموں میں ’’ہمالہ‘‘، ’’ترانہ ہندی‘‘، ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘، اور ’’نیاشوالہ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ نظم’’ہمالہ‘‘ میں شاعر علامہ اقبال نے ہندوستان کی قدیم تہذیب، اس کے دلفریب مناظر اور اس کی عظمت رفتہ کا گن گایا ہے۔
اے ہمالہ!اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
’’ترانہ ہندی‘‘ علامہ اقبال کی وطن پرستانہ شاعری کا اعلی ترین نمونہ ہے۔ اس نظم سے مادرِ وطن سے ان کی شدید محبت کا بہت ہی پرتاثیر اظہار ہوتا ہے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمار
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
اس نظم میں علامہ اقبال نے مذہبی ہم آہنگی اور قومی اتحاد کا نغمہ یوں گایا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
مہاتما گاندھی نے ایک خط میں ’’ترانہ ہندی‘‘ کی تعریف اس طرح کی تھی۔
’’جب ان (اقبال) کی مشہور نظم ’ہندوستاں ہمارا‘ پڑھی تو میرا دل بھر آیا اور بڑودا جیل میں تو سینکڑوں بار میں نے اس نظم کو گایا ہوگا۔ اس نظم کے الفاظ مجھے بہت ہی میٹھے لگے اور یہ خط لکھتا ہوں تب بھی وہ نظم میرے کانوں میں گونج رہی ہے‘‘۔
ایک موقع پر مہاتما گاندھی نے ’’ترانہ ہندی‘‘ کی زبان کو ہندوستان کی قومی زبان کا نمونہ قرار دیا تھا۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’کون ایسا ہندوستانی دل ہے جو اقبالؔ کا ’ہندوستاں ہمارا‘ سن کر دھڑکنے نہیں لگتا اور اگر کوئی ایسا دل ہے تو میں اسے اس کی بدنصیبی سمجھوں گا۔ اقبالؔ کے اس ترانے کی زبان ہندی یا ہندوستانی ہے؟ یا اردو ہے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ہندوستان کی قومی زبان نہیں ہے‘‘۔
’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘ علامہ اقبال کی ایسی نظم ہے جس میں حب وطن کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے ملک کی وحدت اور یکجہتی کا گیت گایا ہے۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سُنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے وطن ہندوستان کے اوصاف اور اس کی عظمت کو بڑے دلآویز انداز میں نمایاں کیا ہے۔ حب الوطنی کے حوالے سے ’’نیاشوالہ‘‘ علامہ اقبال کی انتہائی معروف اور موثر نظم ہے جس میں حب وطن کے جذبہ کا اظہار بہت ہی پُرتاثیر انداز میں ہوا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال ہندوؤں اور مسلمانوں، دونوں کی آپسی رنجش اور مذہبی اختلافات کو تج کر، باہمی اتحاد و اتفاق اور یگانگت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔
سچ کہہ دوں اے برہمن! گر تو بُرا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پُرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بُتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
دراصل جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی تو انگریز ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی اختلافات پیدا کرکے انھیں آپس میں لڑا رہے تھے۔ ہندوستانیوں کے یہ آپسی جھگڑے حصولِ آزادی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہورہے تھے جس سے علامہ اقبال بے حد متردد تھے۔ اس دیر و حرم کے جھگڑوں سے تنگ آکر علامہ اقبال ایک ایسے شوالے کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے جس میں دیروحرم کا کوئی امتیاز باقی نہ ہو۔
تنگ آکے میں نے آخر دیر و حرم کو چھوڑا
واعظ کا وعظ چھوڑا، چھوڑے ترے فسانے
سونی پڑی ہوئی ہے مدّت سے دل کی بستی
آ، اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں
اس نظم میں علامہ اقبال وطن کی محبت میں اس درجہ سرشار نظر آتے ہیں کہ انہیں خاکِ وطن کا ہر ذرہ دیوتا نظر آتا ہے۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو، ہر ذرہ دیوتا ہے
اس نظم کا خلوص اور اس کا جوش آج بھی اردو زبان میں وطنی شاعری کا بلند ترین نقطہ ہے۔ اس نظم کے بارے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی لکھتے ہیں:
’’شاعری کے اعتبار سے یہ نظم اقبالؔ کے دورِ وطن پرستی کا بہترین نمونہ ہے۔ …. شاعر نے وطن کی عظمت کا نقش دلوں پر قائم کرنے کے لیے اپنی تمام شاعرانہ قوتوں کو صرف کردیا ہے۔ اکثر ناقدین اقبالؔ کا خیال ہے کہ ہندو مسلم اتحاد پر یہ اقبالؔ کی بہترین نظم ہے‘‘۔ (۱)
علامہ اقبال کے حب وطن کے شدیدجذبہ کو ’’بچوں کی دعا‘‘، ’’صدائے درد‘‘ اور ’’تصویر درد‘‘ جیسی نظموں میں بھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔ نظم ’’بچوں کی دعا‘‘ میں علامہ اقبال نے اپنے وطن ہندوستان کے سجنے سنورنے اور اس میں پھول کی طرح سے زندگی گزارنے کی تمنا کی ہے۔
ہو مرے دم سے یوں ہی مرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
نظم ’’صدائے درد’’ میں علامہ اقبال اپنے وطن عزیزمیں رونما ہونے والے مسلسل فرقہ وارانہ اختلافات پر مضطرب و بے چین ہیں۔
جل رہا ہوں، کل نہیں پڑتی کسی پہلو مجھے
ہاں ڈبو دے، اے محیطِ آبِ گنگا تو مجھے
نظم ’’تصویرِ درد‘‘ دراصل وطن ہندوستان کے درد و غم کی تصویر ہے۔ اس نظم میں وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے عناصر جیسے ہندوستانی قوموں کے درمیان باہمی نفاق و آویزش،افتراق و انتشار، تنگ نظری و تنگ دلی اور بدگمانی کا تذکرہ بڑا ہی غمناک ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے وقت میں وطن کی موجودہ صورت حال کی اندوہناک تصویر اس دردناک انداز میں پیش کی تھی۔
رُلاتا ہے ترا نظارہ اے ہندوستاں! مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے ترا فسانہ سب فسانوں میں
اور حال کے آئینے میں مستقبل کے اندیشے کی پیشین گوئی اس طرح کی تھی۔
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ان دونوں نظموں کے ذریعے علامہ اقبال اہل وطن کو فرقہ پرستی، تعصب و تنگ نظری اور شقاوت و سنگ دلی سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں اور قومی اتحاد اور باہمی محبت پر زور دیتے ہیں۔ علامہ اقبال چاہتے ہیں کہ اہلِ وطن اپنی عظمتوں کے شناسا ہوں، فکر میں بلندی پیدا کریں، ذہنی پستی کے قعر سے نکلیں اور اعلیٰ انسانی اقدار کے حامل ہوں۔ علامہ اقبال کی یہ ابتدائی نظمیں حب الوطنی کے جذبہ سے لبریز ہیں۔ مولانا صلاح الدین احمد علامہ اقبال کے ابتدائی دور کی شاعری کے تعلق سے رقم طراز ہیں:
’’ جب ہم اقبالؔ کی ابتدائی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو قدرت اور عورت کے حسن کی پرستش کے بعد جو جذبہ سب سے پہلے نظر آتا ہے وہ وطن کی پرستش ہے‘‘۔
علامہ اقبال نے اپنی ان نظموں کے ذریعے جذبۂ حب الوطنی کو فروغ دیا جس سے آزادی کی قومی جدوجہد کو بڑی تقویت حاصل ہوئی۔ علامہ اقبال نے کبھی وطن کی محبت کے جذبے کو فراموش نہیں کیا۔ ان کے دورِ آخر کے کلام میں بھی حب الوطنی کا گہرا رنگ موجود ہے۔ ’’جاویدنامہ‘‘ ۱۹۳۲ء میں شائع ہواہے۔ اس میں بھی جذبۂ حب الوطنی کا خوبصورت اظہار ملتا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے ہندوستانی سنت وشوامتر کو بڑے احترام سے یاد کیا ہے۔ اس میں انھوں نے ہندوستان کی روح کا خوبصورت روپ بھی بیان کیا ہے لیکن اس کی غلامی پر آنسو بھی بہایا ہے۔ اس نالہ و شیون علامہ اقبال کے قوت جگر کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ ’ضربِ کلیم‘ میں دو نظمیں ’’گلہ‘‘ اور ’’شعاعِ امید‘‘ ہیں۔ دیکھئے ان میں وطن کی محبت کے لئے علامہ اقبال کا دل کس طرح دھڑک رہا ہے۔
معلوم کسے ہند کی تقدیر کہ اب تک
بیچارہ کسی تاج کا تابندہ نگیں ہے
جاں بھی گروِ غیر، بدن بھی گروِ غیر
افسوس کہ باقی نہ مکاں ہے، نہ مکیں ہے
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضا کو
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب
’ارمغانِ حجاز‘ میں بھی وطن کی محبت اور اس کو آزاد دیکھنے کی خواہش کا اظہار موجود ہے۔
شبِ ہندی غلاماں را سحر نیست
بایں خاک آفتابے را گذر نیست
(ہندی غلاموں کی شب تاریک سحر آشنا نہیں ہے، گویا اس سرزمین پر آفتاب کا گذر ہی نہیں ہوتا۔ وطن کی غلامی سے علامہ اقبال کس قدر نالاں ہیں، یہ شعر اسی باطنی کرب کی عکاسی کرتا ہے۔ علامہ اقبال کو اپنے وطن سے اس قدر گہرا لگاؤ اور شدید محبت ہے کہ انھوں نے یہاں کی مقدس و برگزیدہ ہستیوں کو بڑی عقیدت و محبت سے یاد کیا ہے۔ دیکھئے انھوں نے ’رام‘ کو کس جوشِ عقیدت سے یاد کیا ہے۔
ہے رام کے وجود پہ ہندوستاں کو ناز
اہلِ نظر سمجھتے ہیں اس کو امامِ ہند
گرونانک کو یوں خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک مردِ کامل نے جگایا خواب سے
ان کے علاوہ علامہ اقبال نے سوامی رام تیرتھ، شنکرآچاریہ، بھرتری ہری، شیو، گوتم بدھ اور عارفِ ہندی کا تذکرہ بڑے احترام اور عقیدت و محبت سے کیا ہے جو علامہ اقبال کے وطن سے گہری محبت کی دلیل ہے۔ معروف شاعر علی سردار جعفری علامہ اقبال کی حب الوطنی پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال کے یہاں حب الوطنی ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی شاعری میں سامراج دشمنی کی لَے شعلہ نوائی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ہندوستان کی آزادی کا جذبہ خونِ بہار کی طرح ان کے اشعار میں رواں دواں ہے‘‘۔ (۲)
علامہ اقبال کے اشعار میں حب الوطنی کے جذبے کا اظہار بہت ہی خوبصورت اور موثر انداز میں ہوا ہے۔ علامہ اقبال کے کلام میں حب الوطنی کا جذبہ جس طرح پایا جاتا ہے، اس معاملہ میں ہندوستان کے بہت ہی کم شاعر ان کے مقابل نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبال کا کلام آج بھی ہمیں انسانیت اور حب الوطنی کے مقدس جذبے کا درس دیتا ہے اور ہمارے جذبہ حب وطن کو تحریک دیتا ہے۔
***
(۱) پروفیسر یوسف سلیم چشتی، شرحِ بانگِ درا، ص:۳۱۹۔
(۲) علی سردار جعفری، اقبال شناسی، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی، ۱۹۷۶ء، ص:۱۱

Iqbal: Masil o Mubahis by Dr. Rafiuddin Hashmi

Articles

اقبال: مسائل و مباحث از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی

Iqbal Daroon E Khana Part 1 by Khalid Nazeer Sufi

Articles

اقبال دورنِ خانہ ۔۔۔ حصہ اول از خالد نظیر صوفی

خالد نظیر صوفی

Iqbal ke Huzoor by Syed Nazeer Niyazi

Articles

اقبال کے حضور از سید نذیر نیازی

سید نذیر نیازی

Iqbal ki Ghazal Goey ki Chan Infaradi Pahloo by Roshni Khan

Articles

اقبال کی غزل گوئی کے چند انفرادی پہلو

روشنی خان

اردوغزل پر حالی کی سخت ترین تنقید کے باوجود اس صنف کا نہ تو مملکت شعر سے دیس نکالا ہوسکا اور نہ ہی شائقین ادب کے درمیان اس کی مقبولیت میں کمی آئی۔اردو کی شعری روایت میں بارہا ہدف ملامت بننے کے باوجود یہ صنف آج بھی نہ صرف اپنی جلوہ سامانی سے ایوان شاعری کو درخشندگی عطا کر رہی ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے یہ دنیا کی ان زبانوں کی شاعری کے مابین امتیازی شان کی حامل ہے جن کا حوالہ دینے کا رواج اردو تنقید میں ایک فیشن کے طور پر رائج ہو چکا ہے۔اردو غزل کا تخلیقی سفر جن مراحل سے گزر کر عصر حاضر تک پہنچا ہے اس میں ایک طبقہ ان شعرا کا ہے جو غزل کے روایتی مضمون کے اسیر رہے اور فکر و خیال کی سطح پر کسی جدت کو برتنے سے اجتناب کرتے رہے۔ایسے شاعروں کو بجا طور پر حالی کی زبان میں اسلاف کے چبائے ہوئے نوالوں کی جگالی کرنے والے شعرا کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی غزل کی دنیا میں ایسے شاعر بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے اس صنف کو موضوع و معنی کے نئے جہانوں سے متعارف کرایا۔ اقبال کا شمار بھی اردو کے ایسے غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جن کی غزلیں اسلوب بیان اور مضمون کی تازہ کاری کی نمایاں مثال ہیں۔ اقبال کی مشق سخن کا آغاز غزل کے ذریعہ ہوا اور ان کی شاعری کا تدریجی ارتقا اس حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ ابتدا میں روایتی طرز کو اختیار کرنے والا یہ شاعر غزل کو وہ نیا آہنگ عطا کرتا ہے جو آج تک صرف اس سے ہی مخصوص ہے۔ اقبال کی ابتدائی دور کی غزلوں میں زبان اور مضمون پر اردو غزل کے اس روایتی انداز کا پرتو صاف نظر آتا ہے جسے امیر اور داغ نے اپنے دور میں مقبولیت عطا کی تھی۔بانگ درا میں شامل بیشتر غزلوں میں شاعری کے اسی رنگ کو دیکھا جا سکتا ہے تاہم اس کے بعد بال جبریل کی اشاعت ہوئی تو اہل نقد و نظر نے یہ تسلیم کیا کہ اقبال نے غزل کو نئے تخلیقی امکانات سے روشناس کرنے میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو اس طور سے استعمال کیا ہے کہ غزل کو عرض مدعا کی تنگ دامانی کے الزام سے بری کر دیا۔
اقبال کی شاعرانہ عظمت جن حوالوں سے ترتیب پاتی ہے ان میں ایک حوالہ اردو غزل کو نئی تخلیقی جہت عطا کرنے کا بھی ہے۔وہ شاعری کو حیات و کائنات کے متعلق ایک خاص نصب العین کے اظہار کا وسیلہ سمجھتے ہیں اور اس اظہار میں اس سلیقہ مندی کو ملحوظ رکھنے کی کوشش پر بھی خاص توجہ رہی جس کے بغیر شاعری کو فنی اعتبار و وقار حاصل نہیں ہوپاتا۔اپنے اس تخلیقی رویہ کا اظہار انھوں نے کچھ اس طور سے کیا ہے
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرف تمنا جسے کہہ نہ سکے روبرو
اقبال شاعری میں برہنہ گفتاری کو مستحسن نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس فن سے وابستہ ان تقاضوں کی تکمیل بھی ان کے پیش نظر تھی جو شاعری کو فن کا مرتبہ عطا کرتی ہے۔ بانگ درا کی غزلوں میں واردات قلب و نظر کی ترجمانی جس روایتی پیرائے میں ہوئی اس میں معاصر شعری ماحول سے اثر پذیری کا انداز نمایاں ہے لیکن اس کے بعد کی غزل کا ارتقائی سفر جن منزلوں سے ہمکنار ہوا وہ ان کی ریاضت فن کا ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ ان کی شاعری اور شخصیت کا سرسری مطالعہ بھی اس حقیقت کو واضح کر دیتا ہے کہ وہ زندگی میں تقلید و جمود کی بجائے اجتہاد اور حرکت و عمل کو ترجیح دیتے تھے اور اس سلسلہ میں ان کا مطمح نظر خوب سے خوب تر کی تلاش کے رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔ انھوں نے بڑے واضح طور پر کہا کہ :
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی
رستہ بھی ڈھونڈ، خضر کا سودابھی چھوڑ دے
اس شعر کو اگر اردو غزل کے تخلیقی مزاج کے سیاق میں دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ تقلید کو خود کشی کے مترادف قرار دے کر اگر ایسے اجتہادی اقدام کیے جائیں جو غزل کی تہذیب سے یکسر مختلف ہوں تو شاعر غزل کے فارم میں جو کچھ بھی پیش کرے گا وہ سب کا سب فنی معیار پر پورا اترے، اس کا دعویٰ بہرحال نہیں کیا جا سکتا۔ اقبال کے ساتھ بھی کسی حد تک یہ معاملہ ضرور ہا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب اہل زبان نے ان کی غزلوں میں زبان کے استعمال پر اعتراض کیے تو انھوں نے بڑی انکساری سے یہ اعتراف کر لیا کہ وہ شاعری سے زیادہ اپنے اس پیغام کی ترسیل کو فوقیت دیتے ہیں جو خواب آلود ذہنوں میں بیداری کی رمق پیدا کر سکے۔جب شاعری کسی بڑے مقصد کے تحت تخلیقی شاہراہ پر محو سفر ہوتی ہے تو اس طرح کے مراحل کا درپیش آنا فطری بات ہے۔لیکن اقبال کے فراہم کردہ اس جواز کی بنیاد پر ان کی غزلوں کو فنی معیار سے یکسر خارج بھی نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ اگر ایک طرف وہ اپنے پیغام کی ترسیل سے کوئی مفاہمت کرنے کو تیار نہ تھے تو دوسری جانب انھوں نے غزل میں برہنہ گفتاری سے بھی حتیٰ الامکان گریز کیا ہے۔انھوں نے اردو غزل کی روایتی زبان کو نئے معنوی جہات سے روشناس کیا اور بعض فرسودہ موضوعات کو بالکل نئے انداز میں نظم کر کے غزل کے تخلیقی کینوس کو وسعت عطا کی۔
بانگ درا کے بعد بال جبریل کی غزلوں میں اقبال کا وہ اجتہادی رنگ پورے آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہوا جس نے اردو غزل کے روایتی حصار کو توڑ کر اس کے لیے نئے تخلیقی امکانات کے آثار پیدا کیے۔اقبال کی غزل گوئی کے اس ارتقائی سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا ہے:
’’اقبال کی غزل نے جس ذائقے کا احساس دلایا تھا بال جبریل کی غزلوں تک پہنچتے پہنچتے ایک واضح شکل اختیار کر لیتا ہے چنانچہ اس
دور کی غزلیں ان کی نظم کے مزاج سے زیادہ قریب ہیں ۔ یہ دور اقبال کے فکری اور تخلیقی تنوع کا دور ہے کہ اب اقبال اپنی ادبی روایت
کے امکانات کی تسخیر کے بعد بہ ذات خود شعر کی ایک نئی روایت کا سرچشمہ بن چکے تھے۔‘‘
(اقبال اور عصر حاضر کا خرابہ ، شمیم حنفی صفحہ ۹۹؍ غالب اکیڈمی نئی دہلی، ۲۰۱۰ء)
پروفیسر شمیم حنفی نے اقبال کی غزل گوئی کے حوالے سے جس تخلیقی رویہ کی طرف اشارہ کیا ہے اس کا اعتراف کم و بیش ہر شارح ادب نے کیا ہے۔اقبال کے یہاں شعر کی اس نئی روایت کا معاملہ کچھ ایسا بھی نہیں ہے کہ انھوں نے غزل کی تہذیب کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہو اور اس صنف کو برتنے میں ان فنی لوازم کا لحاظ ہی نہ رکھا ہو جو غزل کو غزل بناتے ہیں۔انھوں نے اپنے مخصوص پیغام کے اظہار کے لیے غزل کا فارم اختیار کرتے ہوئے اس کے فنکارانہ لوازم کی پاسداری کو بھی ملحوظ رکھا۔ غزل کے تخلیقی مزاج میں رمز و ایما کی کارفرمائی نہ صرف یہ کہ شعر کو صوتی حسن عطا کرتی ہے بلکہ فکری سطح پر کئی جہات سے ہمکنار کرتی ہے۔اقبال کی غزلوں میں بھی اس فنی رویہ کو بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس التزام کے ساتھ کہ مضمون کی جدت بھی آشکار ہو اور غزل کے فنی تقاضوں کی تکمیل پر بھی کوئی حرف نہ آئے۔ انھوں نے غزل کی روایتی لفظیات کو معنی و مفہوم کا نیا پیکر عطا کیا اس لیے ان کی غزلوں میں استعمال ہونے والی زبان کو روایتی پس منظر میں دیکھنے سے یہ غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ ان کے یہاں بھی بیشتر وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جن کو اسلاف بارہا غزل میں بیان کر چکے ہیں۔اس سلسلے کی سب سے نمایاں مثال عشق کے مضمون کو برتنے کے حوالے سے دی جا سکتی ہے ۔ اقبال کی غزلوں میں جس عشق کا بیان ہے وہ ماقبل شعرا کے اس عشق سے یکسر مختلف ہے جو انسان کو محرومی و یاسیت کی فضاوں کا اسیر بنا دیتا ہے اور وہ کارزار حیات میں نبرد آزما ہونے کی بجائے گوشہ نشینی کو اپنا شیوہ بنا لیتا ہے۔انھوں نے اردو غزل کے روایتی عشق کے تصور کو نئے رنگ میں پیش کیا ہے اور اسے زندگی کی کامرانی و فتح مندی کا موثر وسیلہ قرار دیا بلکہ اس سے بھی آگے یہ تسخیر کائنات کا جوش و ولولہ پیدا کرنے میں ایک اہم محرک کے طور پر اقبال کی غزلوں میں نظر آتا ہے۔ اقبال کے نظام فکر میں عشق کی عقل پر جو فوقیت نظر آتی ہے وہ اس کی واضح دلیل ہے کہ جب جذب�ۂ عشق سے سرشار انسان زندگی کی راہوں پر گامزن ہوتا ہے تو کامیابی و کامرانی کا ایک لامتناہی سلسلہ اس کا استقبال کرتا ہے۔بال جبریل کی غزلوں میں جس عشق کی ترجمانی کی گئی ہے وہ دراصل یہی عشق ہے جو انسان کو بے خطر آتش نمرود میں کود پڑنے کی تحریک و ترغیب عطا کرتا ہے:
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوز دم بہ دم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتا ہے عشق
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
عشق کی ایک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
عشق کے تصور کو نئے معنی و مفہوم سے روشناس کرانے میں اقبال نے تاریخ و تہذیب کے ان حوالوں سے استفادہ کیا ہے جو انسانی فضیلت کا نشان امتیاز ہیں۔ اقبال کی غزلوں میں عشق کو جو مرکزی مقام حاصل ہے وہ ایسی انسانی فضیلت کے اظہار کا وسیلہ ہے جس کی بنا پر وہ مسجود ملائک رہا ہے۔اس عشق سے بہرہ ور ہونے کے بعد حیات کو وہ جاودانی حاصل ہوتی ہے کہ جسے وقت کی گردش بھی مضمحل نہیں پاتی۔
عشق کے علاوہ خودی کا تصور بھی اقبال کے شعری نظام میں اہمیت کا حامل ہے۔اقبال سے قبل اردو شاعری میں اس تصور کوبیشتر منفی معنوں میں استعمال کیا گیا اور بیشتر شاعروں نے خود ی کو تکبر و انانیت کا ہم معنی قراردیا لیکن اقبال نے اسے زندگی کی ایسی مثبت قدر کے طور پر پیش کیا ہے جو انسانی صفات کو جلا بخشتی ہے اور جس کے بغیر زندگی کا کارواں منزل مقصود تک پہنچنے میں سرخرو نہیں ہو پاتا۔اقبال نے خودی کو ایک باقاعدہ فلسف�ۂ حیات کے طور پر اپنی شاعری میں برتا ہے اور ان کی غزلوں میں اس قبیل کے اشعار جا بجا نظر آتے ہیں جن میں اس فلسفہ کی ترجمانی مختلف حوالوں اور سیاق کے ساتھ ہوتی ہے:
حیات کیا ہے؟ خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناں گوں
اقبال نے خودی کے اس فلسفہ کے ذریعہ وحد ت الوجود کے اس نظریہ کی تردید کی جو انسان کو تقدیر کا محکوم بناتا ہے جس کے سبب بے عملی اور مسائل حیات کے روبرو سپر اندازی کا رویہ اس کی شخصیت کا جزو بن جاتا ہے۔اقبال کی غزلوں میں خودی کا تصور اس حرکی قوت کا استعارہ ہے جو مشت خاک کو آسمانوں کی سیر کرنے اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔اگر چہ اس تصور کی بسیط ترجمانی بیشتر ان کی نظموں میں ہوئی ہے لیکن غزلوں میں بھی اکثر ایسے اشعار نظر آتے ہیں جن میں اس تصور کو انسانی فضیلت کے سیاق میں پیش کیا گیا ہے۔اقبال کی خودی کا تصور تو اس قدر بلند و بالا ہے کہ جس نے آدم کو فرشتوں سے بھی آگے لے جا کر خدا کے روبرو سوال و جواب کے لائق بنادیا۔جنت سے نکالے جانے کے واقعے کو سزا نہیں بلکہ جزا تصور کرتے ہوئے خدا کو بھی انتظار کراتا ہے لیکن یہ گفتگو اور لہجے کی بیباکی غیر مہذب یاطبیعت پر گراں نہیں گزرتی۔مثلاً:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
تونے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سین�ۂ کائنات میں
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
اقبال کی غزلوں میں مضامین کی جدت و ندرت ان کے اس نظام فکر کو آشکار کرتی ہے جس میں حیات و کائنات کے متعلق ایک واضح تصور ملتا ہے اور اس تصور میں اگر کوئی چیز شرف و فضیلت کی حامل ہے تو وہ عظمت انسانی ہے ۔ایسا نہیں کہ اقبال سے قبل اردو غزل کا دامن اس قسم کے موضوع سے یکسر خالی رہا ہو لیکن جن شعرا کے یہاں اس قسم کے موضوعات ملتے ہیں ان کے یہاں حیات و کائنات کے متعلق ایسا واضح فکری نظام اکثر مفقود رہا ہے۔اردو غزل کے طرز بیان کو کسی حد تک کلاسیکی شعری روایت سے مربوط رکھتے ہوئے اقبال نے موضوعی اعتبار سے اس کے خزینہ میں جو اضافہ کیا وہ ان کی فنکارانہ انفرادیت کو واضح کرتا ہے۔
اقبال کی شاعری حیات و کائنات کا احاطہ کرتی ہے جس میں ایسی ہمہ گیری ہے جو حب الوطنی کے جذبات سے ہم وطنوں کو گرماتی ہے تو فلسف�ۂ خودی دے کر ایک مردہ قوم میں نئی جان پھونکنے اور عقل و منطق کے ساتھ ساتھ عشق کی رہنمائی میں زندگی کا راز تلاش کرتی ہے ۔ان کی شاعری حرکت و عمل اور سخت کوشی کا درس دیتے ہوئے بنی نوع انسان اور ان پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جو حیات انسانی کا محور ہیں۔
*****
روشنی خان شعبہ اردو، ممبئی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

Allama Iqbal ki Nazm “Shua E Ummed” Aik Mutala by Dr. Mohd. Zubair

Articles

علامہ اقبال ؔ کی نظم’’شعاعِ امید ‘‘

ڈاکٹرمحمد زبیر

علامہ اقبال ؔ اپنے عہد کے ایک عظیم شاعر، بلندپایہ فلسفی ، ممتازمفکراوربے مثل مدبّرہیں۔ ان کا شمارجدید اردو نظم کے اہم شعرا میں ہوتا ہے ۔ ان کی شاعری میں فکرکی وحدت بھی ہے اور بلا کی ہمہ گیری بھی ۔ اقبال کی طبیعت بچپن ہی سے شعرگوئی کی طرف مائل تھی لہٰذا سید میر حسن کی سرپرستی اور صحبت نے ان کے دل میں شعرکہنے کا شوق پیدا کیا۔ ۱۸۹۴ء میں داغ دہلوی کے حلقۂ تلامذہ میں شامل ہوئے اور۱۸۹۶ء میں انھوں نے اس رشتے کا ذکر فخر کے ساتھ کیا ہے :
مجھے بھی فخر ہے شاگردیِ داغِ سخنداں کا
ادبی دنیا میں اقبال کی شناخت ایک قدآور شاعر، ماہر فن اور عظیم فلسفی کی حیثیت سے ہے ۔ان کے فلسفہ اور فکروفن پر جس قدر اظہارِخیال کیا گیا ہے ایسی نظیر بمشکل ملے گی۔ آج بھی فکرِاقبال ،نقادوں اور دانشوروں کے لیے نہ صرف ایک اہم موضوع ہے بلکہ سرمایۂ ادب بھی ہے اور ذخیر�ۂ انمول بھی۔ اقبال اپنے فن اور فکرکے اعتبارسے تمام انسانیت کے سچے ہمدرد اور قوم وملت کے پاسبا ں تھے ۔ انھوں نے اپنی زندگی کے کئی اہم سال جرمنی میں صَرف کیے اور وہیں سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ چونکہ وہ شاعر تھے لہٰذا یہ فطری بات تھی کہ جرمن ادبیات ان کے اوپر اثرانداز ہوتے خصوصاً جرمن شاعری ،چنانچہ اقبال جرمن ادب سے اپنا دامن نہیں بچاسکے ۔ اہم بات یہ تھی کہ وہاں مشرقی تحریک، ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل کرچکی تھی، حافظؔ ،سعدیؔ ، رومیؔ اوردیگرایرانی شعراکے خیالات اورادبی روایات جرمن ادبیات پر اثر انداز ہوئے اوران کی پیروی بھی ہوئی۔ بایں سبب جرمن شاعری کایہ رجحان اقبال کے لیے بالخصوص بڑاپرکشش تھا لہٰذا انھوں نے اس کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔گوئٹے کی شاعری سے وہ سب سے زیادہ متاثر ہوئے ۔ بقول یوسف حسین خاں:
’’اقبال کو فارسی اوراردوکاجو ورثہ ملا اسے اس نے اپنے جذب دروں سے کچھ سے کچھ بنادیا اس نے زندگی کے توانا اورمتحرک تصورات کو نئے قالب میں ڈھال کراپنی شاعری کی صورت گری کی۔ وہ فارسی اوراردو کی روایات کے علاوہ مغربی علم وحکمت سے بھی متاثرہوا ۔چونکہ اس کاذہن فعّال اورتخلیقی تھا،اس نے مغربی افکارپرمشرقی روحانیت کاغازہ بڑی چابک دستی سے مل دیا۔اس طرح اس نے جو مرکب بنایااس میں چونکہ خود اس کے خونِ جگرکی آمیزش تھی اس لیے ہم اسے اس کی مخصوص روحانی تخلیق کہہ سکتے ہیں۔‘‘(اقبال کافن :یوسف حسین خاں،ص ۲۵۔۲۶)
علامہ اقبال ؔ ایک پیامی شاعرہیں وہ بھٹکے ہوئے راہی کو اس کی منزل کاپتہ دیناچاہتے ہیں یہی سبب ہے کہ انہوں نے فنِ شاعری کو وسیلۂ اظہار بنایا۔ اقبالؔ نے اپنے دل کی آواز کوزیادہ اہمیت دی اوراسے اپنی شاعری کے ذریعے بروئے کار لاتے ہوئے اپنی قوم کو جھنجھوڑنے کا کام کیاہے اور درسِ عمل کا پیغام بھی دیاہے۔ انھوں نے شاعری کومحض حصولِ مسرت کاذریعہ نہیں سمجھابلکہ زندگی کو بہتربنانے اورسنوارنے کا وسیلہ بھی قرار دیا ہے۔رجائیت اقبال کی شاعری کا ایک اہم پہلوہے لہٰذا امید کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑتے اورنہ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ اردو شعروادب میں اپنی فنی بصیرت سے جو جواہر ریزے بخشے ہیں ان میں ان کی نظموں کا اہم حصہ ہے۔ ان کی نمائندہ نظموں میں ’’شعاعِ امید‘‘کا بھی شمار ہوتاہے جو موضوع ، ہیئت اور معنوی اعتبارسے کئی اختصاص کی حامل ہے۔اس نظم میں اقبال ؔ نے ترکیب بندہیئت کاانتخاب کیاہے اوربحر بھی مترنم استعمال کی ہے ۔لفظوں کے انتخاب و تکرار سے موسیقیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نورالحسن نقوی ’شعاعِ امید‘ کے فنی محاسن پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طرازہیں :
’’فن کار شاعری کے فن میں کامل دستگاہ رکھتاہو تو اس کے قلم سے چھوکرفلسفہ وپیغام بھی مکمل شعر بن جاتاہے۔ اقبال کی نظم’’شعاعِ امید‘‘ اس کازندہ ثبوت ہے ۔ یہ ایک چھوٹی سی دل آویز نظم ہے ۔ اس کی دل کشی کا راز یہ ہے کہ رمزیت واشاریت ، احساس کی شدت ، تخیل کی بلند پروازی ، پیرایۂ بیان کی دل آویزی اوران کے سوا بھی جتنے فنی وسائل ممکن ہیں شاعرنے ان سب کو انتہائی سلیقے کے ساتھ استعمال کیاہے ، خیال کیساہی اچھوتا کیوں نہ ہوقاری کی توجہ کو صرف ایک بارجذب کرسکتاہے اورشعاعِ امیدکامرکزی خیال ایسااچھوتابھی نہیں لیکن اس نظم کوجتنی بارپڑھیے اتنی بارپہلے سے سوالطف حاصل ہوتاہے۔‘‘
(اقبال شاعرومفکر: نورالحسن نقوی ، ص :۲۳۱)
اقبال کی نظم’’ شعاعِ امید‘‘کی تجزیاتی قرأت کے ذریعے اس کے اصل فکری سرچشموں تک رسائی کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ ’’شعاعِ امید ‘‘ میں جس نوع کے خیالات کا اظہار کیاگیا ہے اس کا جزوی اظہار ان کی دوسری نظموں جیسے ’’ساقی نامہ ‘‘ اور ’’شاہین‘‘ وغیرہ میں بھی موجود ہے۔ البتہ ’’شعاعِ امید‘‘ کا کینوس زیادہ وسیع، متنوع اورہمہ گیرہونے کے ساتھ ساتھ حیات بخش بھی ہے ۔تکنیک کا تنوع بھی اس نظم میں جابجا نظر آتاہے۔ ’’شعاعِ امید‘‘میں اقبال نے جن کرداروں کو اپنے پیام کا وسیلہ بنایا ہے ان میں سب سے اہم کردار ایک شوخ اورسیماب صفت کرن ہے۔ اقبال نے سورج اوراس کی شعاعوں کی زبان سے جو پیغام ادا کرایا ہے وہ اچھوتا اور لا فانی ہے۔ ’’شعاعِ امید ‘‘ ایک اہم موضوع ہے اقبال سے پہلے بھی شعرانے اس موضوع کو برتاہے۔اقبال کا اختصاص یہ ہے کہ ان کی نظم میں استعارے اور تشبیہیں حسب حال اور توانا ہیں۔اس نظم میں کل تین بند ہیں ، پہلااوردوسرا بندچار چار اشعار اور تیسرا بند نو اشعار پر مشتمل ہے۔ ’’شعاعِ امید‘‘ شاعرکاپیامِ امید ہے جس میں تمثیلی پیرایۂ اظہار اختیار کیا گیا ہے۔
سورج دنیا کے عجیب وغریب چکر کو دیکھ کر اب مایوس ہوچکاہے وہ دنیا میں جتنا زیادہ اجالا پھیلانے کی کوشش کرتاہے اس کا اندھیرا اتناہی بڑھتاجارہا ہے۔ وہ اپنی شعاعوں سے مخاطب ہے کہ ایک زمانے سے تم گردآلود فضاؤں میں دنیا کو منور کرنے کی خاطر اپنا گھربار چھوڑ کر دربدر کی ٹھوکریں کھاتی پھررہی ہو، تمھاری کوششیں سب بے سود ہیں ۔نہ ریت کے ذروں میں پہلی سی چمک ہے اورنہ گل ولالہ میں پہلی سی دل آویزی وکشش باقی ہے۔ آخر کار سورج ناامید ہوکراپنی شعاعوں کو حکم دیتا ہے کہ اس تاریک دنیا کے ویرانے درو بام سے لوٹ آؤ اور پھرسے میرے پرنور سینے میں سماجاؤ۔
سورج نے دیا اپنی شعاعوں کو یہ پیغام
دنیاہے عجب چیز! کبھی صبح، کبھی شام
مدت سے تم آوارہ ہوپہنائے فضا میں
بڑھتی ہی چلی جاتی ہے بے مہریِ ایام
نے ریت کے ذروں پہ چمکنے میں ہے راحت
نے مثلِ صبا طوفِ گل و لالہ میں آرام
پھر میرے تجلّی کدۂ دل میں سماجاؤ
چھوڑو چمنستان و بیابان و در و بام
دوسرے بند میں شعاعیں سورج کے حکم کوبجالاتی ہیں اور دنیا کوچھوڑ کر اپنے بچھڑے ہوئے آقاسے ہم آغوش ہوجاتی ہیں۔تمام شعاعیں یک زبان ہوکرمغرب ومشرق کی شکایت کرتی ہیں اورکہتی ہیں کہ مغرب میں اجالاممکن نہیں کیونکہ مشینوں کے دھوئیں یعنی صنعت کاری اورمادہ پرستی سے ان کے دل مردہ اورزنگ آلود ہوچکے ہیں ۔ مشرقی ممالک پر بھی اس کے اثرات صاف نظرآرہے ہیں، مشرقی قوم بھی فرنگیوں کے طرح بے عملی اوربے راہ روی کاشکار ہے جس سے ان کے اندر مایوسی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔مغربی اور مشرقی عوام کے حالات اور کردارسے بیزار شعاعیں سورج سے کہتی ہیں کہ اب ہمارا دنیا میں چمکنا بے سود اور بے معنی ہے، لہٰذا ہمیں اپنے پاس بلالو اور اپنے سینے میں چھپالو۔
آفاق کے ہرگوشے سے اٹھتی ہیں شعاعیں
بچھڑے ہوئے خورشید سے ہوتی ہیں ہم آغوش
اک شورہے مغر ب میں اجالا نہیں ممکن
افرنگ مشینوں کے دھوئیں سے ہے سیہ پوش
مشرق نہیں گو لذتِ نظارہ سے محروم
لیکن صفتِ عالمِ لاہوت ہے خاموش
پھرہم کواسی سینۂ روشن میں چھپالے
اے مہرِ جہاں تاب نہ کر ہم کو فراموش
تیسرے بند میں شاعرنے ایک ایسی شوخ کرن کا ذکر کیاہے جو سورج کے پاس لوٹنا نہیں چاہتی۔امید کی یہ شوخ کرن ابھی مایوس نہیں ہے اور وہ آرام کرنابھی نہیں جانتی ہے، وہ چاہتی ہے کہ اسے اپنی ذمے داری پوری کرنے کاموقع دیاجائے۔ ساری کرنیں ناامید و نامراد ہوکر اپنے مرکزکی طرف لوٹ جاتی ہیں مگریہ شوخ کرن اپنے ہاتھوں سے امید کا دامن نہیں چھوڑتی ۔ وہ مشرقی ممالک خصوصاً ہندوستان کو اپنے نور سے منور کرنا چاہتی ہے ۔یہ شوخ کرن کوئی اور نہیں خود علامہ اقبال کی ذات ہے۔ علامہ اقبال شاعری کے ذریعے اپنی قوم کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ یہ شوخ کرن سرزمینِ ہند کو کسی صورت میں چھوڑنے کو تیار نہیں ، وہ ہندوستان کی تاریک فضاؤں کوروشن اور گہری نیند سوئے ہوئے ہندوستانیوں کو بیدار کرنے کاعزم کرتی ہے۔اس کے بعد ’’شعاعِ امید‘‘ خاکِ ہند کی عظمت کا ذکر کرتی ہے اور اپنی امیدوں کا مرکز قرار دیتی ہے۔ یہی وہ سرزمین ہے جسے اقبال نے اپنے آنسوؤں سے سیراب کیاہے ،اسی خاکِ ہند نے چاندستاروں کوروشنی بخشی ہے اور یہاں کے کنکرپتھر، موتیوں سے بیش قیمت ہیں ۔ اس سرزمین پربڑے بڑے شاعر، علما اور مفکرین نے جنم لیاہے، مگراب یہاں خاموشی ہے ، یہ خاموشی اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ ہندوستانی قوم ہندو اور مسلمان دونوں ہی خوابِ غفلت کا شکار ہیں ۔ برہمن بت خانے کے دروازے پر سورہا ہے اور مسلمان اپنی تقدیراور قسمت پر آنسو بہارہا ہے۔یہاں یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ علامہ اقبالؔ نے صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کو ہی مخاطب کیاہے د راصل انھوں نے ساری انسانیت کو مخاطب کیا ہے اور قومیت و وطن کے نام پر انسانیت کو تقسیم کرنے کی مخالفت کی ہے ۔ آخری شعر میں شاعر سورج کی شوخ کرن کی زبان سے یہ پیغام دیتا ہے کہ مشرق اور مغرب میں کوئی امتیاز نہیں ، فطرت یہاں کی تاریکی ختم کرکے ساری دنیا میں روشنی پھیلاناچاہتی ہے، یعنی دنیاکے تمام آلام ومصائب اورہرطرح کی خرابیوں کودور کرکے خوشیاں بھردیناچاہتی ہے۔
اک شوخ کرن ، شوخ مثالِ نگہ حور
آرام سے فارغ صفتِ جوہرِ سیماب
بولی کہ مجھے رخصتِ تنویر عطا ہو
جب تک نہ ہومشرق کاہراک ذرہ جہاں تاب
چھوڑوں گی نہ میں ہند کی تاریک فضاکو
جب تک نہ اٹھیں خواب سے مردانِ گراں خواب
خاور کی امیدوں کا یہی خاک ہے مرکز
اقبالؔ کے اشکوں سے یہ خاک ہے سیراب
چشم مہ و پرویں ہے اسی خاک سے روشن
یہ خاک کہ ہے جس کا خزف ریزہ در ناب
اس خاک سے اٹھے ہیں وہ غواصِ معانی
جن کے لیے ہربحرِ پر آشوب ہے پایاب
جس سازکے نغموں سے حرارت تھی دلوں میں
محفل کا وہی سازہے بیگانۂ مضراب
بت خانے کے دروازے پہ سوتا ہے برہمن
تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
مشرق سے ہو بیزار، نہ مغرب سے حذرکر
فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر
علامہ اقبال اپنی نظم’’شعاعِ امید ‘‘ کے ذریعہ اپنی قوم وملت کو اس امر کی جانب راغب کرناچاہتے ہیں کہ انسان کو کبھی ناامید اور مایوس نہیں ہوناچاہیئے کیونکہ مذہب اسلام میں ناامیدی کفر ہے اورانسان جیسی امید رکھتاہے اسی کے مطابق فیصلے بھی صادرہوتے ہیں ۔ اقبال گہری بصیرت کے مالک تھے ، ان کے فکروعمل کا کوئی گوشہ مخفی نہ تھا، انھوں نے بڑی جرأت کے ساتھ اسلامی تصوف کی ترجمانی کی اورمغربی تہذیب کی خرابیوں اوراس کے انجام کی نشان دہی بھی کی۔
’’شعاعِ امید ‘‘ اقبال کی ایک مشہور نظم ہے ۔اس نظم کو اگر ہم اقبال کا فنی اور فکری شاہکار کہیں توبے جانہ ہوگا۔ اس میں اقبال بحیثیت شاعر، فنکار اور مفکر اپنے فن کے عروج پر ہیں۔یہ نظم تصویرکشی ، منظرنگاری ، محاکات اور وطن پرستی کے گہرے جذبات سے نہ صرف معمور ہے بلکہ اس میں شاعر کی قادرالکلامی ، فن پر کامل دستگاہ ، جزئیات نگاری پر فنکارانہ دسترس اوراس کے دل وروح کے سوزوگدازبھی اجاگر ہوئے ہیں۔اس لحاظ سے اگر غورکریں تو اس نظم میں میرانیسؔ جیسی منظرنگاری بھی ہے ، میرؔ جیسی جذبات نگاری بھی اور غالبؔ جیسی معنی آفرینی بھی۔ان پہلوؤں کے پیش نظر اگر ہم اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے یہاں استاذشعرا کی تمام خوبیاں یک جا ہوگئی ہیں ۔
ناقدین ادب نے علامہ اقبال کی نظم ’’شعاعِ امید‘‘کی نہ صرف سراہناکی ہیں بلکہ اس کے مختلف اجزا اور اس کی خصوصیات کی وضاحت بھی کی ہیں ۔ کلیم الدین احمد اقبال کی شاعری کے زیادہ قائل نہی مگر انہیں بھی اعتراف ہے کہ’’ شعاعِ امید‘‘ ایک کامیاب تخلیقی تجربہ ہے ۔ نظم کی تعریف کرتے ہوئے لکھاہے:
’’کیسی حسین وپاکیزہ نظم ہے ! یہاں ارتقائے خیال ہے ، اشعار میں ربط وتسلسل ہے ۔ خیالات میں ابتدا ، عروج اور پھر انتہا بھی ہے ۔ یہ صحیح معنوں میں نظم ہے ، غزل نے نظم کابھیس نہیں بدلاہے ۔ خیالات میں تخیل کارنگ ہے ، طرزِ ادا سادہ اور پاکیزہ ہے ۔ باربار پڑھنے سے اس کی دل کشی میں کمی نہیں ، اضافہ ہوتاہے ۔ کاش اقبال اس قسم کی نظمیں اور لکھتے۔‘‘(بحوالہ: اقبال شاعرومفکر، ص ۲۳۹)
اقبال کی نظم’شعاعِ امید ‘‘کاشمار ان کی بہترین نظموں میں ہوتاہے ۔ اس کے الفاظ اور آہنگ نے اسے ایسا دلکش بنا دیاہے کہ باربار پڑھنے کو جی چاہتا ہے ۔نظم کا ربط وتسلسل شروع سے آخر تک برقرار رہتا ہے اور اشعار صوری اورمعنوی ہر دو اعتبارسے آپس میں اس طرح مربوط وپیوست ہیں کہ ذرابھی اِدھراُدھرکرنے کی گنجائش نہیں پائی جاتی ۔ روانی اورسلاست ایسی کہ اکثراشعار فوراً یاد ہوجاتے ہیں۔ ایسامعلوم ہوتاہے کہ سورج اور اس کی شعاعوں کی گفتگو بالکل فطری ہے ۔سادگی، جوش،اصلیت اورنغمگی ایسی کہ کوئی پڑھے تو خود بخود گنگنانے لگے۔
***
ڈاکٹر محمد زبیر نے ممبئی میں اردو تحقیق کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔ نوجوان لکھنے والوں میں توجہ سے پڑھے جاتے ہیں۔

Iqbal Aur Nawjawan by Dr. Zakir Khan Zakir

Articles

اقبال اور نوجوان

ڈاکٹر ذاکر خان

 

حکیمِ مشرق اور نبّاضِ ملت علامہ اقبال کی تفہیم مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے مختلف طریقے سے کی ہے۔ جگنو پکڑتے ہوئے بچے اقبال کی شاعری میں ایک ایسی شخصیت سے روشناس ہوتے ہیں جو ان کے لیے سرور ہی سرور ہے کیف ہی کیف ہے۔ حوصلہ مند نوجوان کلامِ اقبال میں اس شاہین کو تلاش کرتے ہیں جس کی نظریں ہمیشہ اپنے مقصد پر ہوتی ہیں۔ اہلِ تصوف اقبال کی شاعری میں عشقِ حقیقی کے پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ اہلِ مدرسہ کے یہاں کلامِ اقبال عشقِ رسول اور معرفتِ خداوندی کی علامت ہے۔ اہلِ علم ودانش علامہ اقبال کی شاعری میں اپنے مزاج کے مطابق پہلو تراش کر ان کے فلسفے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں۔
یوں توعلامہ اقبال نے ہر عمر کے شخص کو اپنی شخصیت اور شاعری کا اسیر بنایا ہے لیکن خودی، تلقینِ حرکت و عمل، خیالِ شاہین و عقاب اور طائرِ لاہوتی جیسی اصطلاحیں بطورِ خاص نوجوانوں کے لیے استعمال کی ہیں۔
اقبال نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے سالانہ اجلاس 21مارچ 1932، میں خطاب کرتے ہوئے نوجوانوں کے بارے میں کہا تھا کہ
“میں ہندوستان کے تمام بڑے شہروں میں خواتین اور لڑکوں کے ثقافتی ادارے تشکیل دینے کی تجویز پیش کرتا ہوں جن کا سیاست سے تعلق نہ ہو”
ان کا بڑا مقصد نوجوانوں کی خوابیدہ روحانی صلاحیتوں کو بیدار کرنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوانوں کو اس بات سے آگاہ کیا جائے کہ اسلام نے انسانی ثقافتی اور مذہبی تاریخ میں کیا کارنامے انجام دیے اور مستقبل میں مزید کیا امکانات ہو سکتے ہیں۔ اقبال کے تصور کے مطابق وہی نئی نسل اور نوجوان کامیابی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں جو اپنے اسلاف کی میراث کی حفاظت کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
اقبال چاہتے تھے کہ نوجوان اپنے زورِ بازو پر انحصار کرتے ہوئے اپنے مستقبل کی راہیں خود طے کریں ۔ نوجوانوں کی تن آسانی، عیش و عشرت، مغرب کی اندھی تقلید انہیں کچوکے لگاتی رہتی تھی۔ مغربیت کے بڑھتے اثرات کا اندازہ اقبال بہت پہلے ہی لگا چکے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نوجوانوں میں خودی بیدار کرنے کے حوالے سے بہت کچھ لکھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان اپنے آپ کو پہچانیں اور یہ جان لیں کہ وہ کائنات کا کتنا اہم جزو ہے۔ ان کہ یہاں ، یاس و حسرت، محرومی و ناامیدی اور بزدلی و کم ہمتی کا کوئی وجود نہیں۔ وہ یقیں محکم، عمل پیہم ، ثابت قدمی، اولعزمی، بلند حوصلگی، بلند پروازی پر یقین رکھتے تھے۔ اپنی نظم “ایک نوجوان کے نام”میں وہ کہتے ہیں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہ ہو نومید، نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے
امید مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
اقبال نے نوجوانوں کو پیغام دیا کہ وہ اپنے آپ کو اپنے اوصاف کو اور اپنی خودی کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اس کی مکمل نشو نما بھی کرتے رہیں ۔ لفظ خودی سے اقبال کی مراد تکبر یا غرور نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں خودی نام ہے احساس کی بیداری کا، جذبۂ خودداری کا، اپنی ذات و صفات کے ادراک کا، عرفانِ نفس کا، خود شناسی کا، خود بینی کا، خود آگاہی کا خدا آگاہی کا، اور لا الہ الا اللہ کے راز۔ وہ کہتے ہیں کہ توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظ ہے۔ نظم ساقی نامہ میں اقبال فرماتے ہیں کہ
یہ موجِ نفس کیا ہے تلوار ہے
خودی کیا ہے تلوار کی دھار ہے
خودی کیا ہے رازِ درونِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئ کائنات
خودی جلوہ بدمست و خلوت پسند
سمندر ہے اک بوند پانی میں بند
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک
من و تو میں پیدا من و تو سے پاک
اسی نظم میں اقبال نیرنگئ زمانہ میں الجھے ہوئے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا اور اس کی حقیقت کچھ بھی نہیں یہاں کی ہر چیز فانی ہے ثبات صرف خدا کی ذات کو ہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہماری جانیں ہیں۔ دنیاوی زندگی ،دائمی زندگی کے لیے صرف اور صرف ایک تربیت گاہ ہے۔یہ ہماری منزل نہیں بلکہ خودی تک پہنچنے اور اس سے روشناس ہونے کا ایک ذریعہ ہے ۔ اقبال کے مطابق دنیاوی زندگی وہ فرصت ہے جس میں خودی کو عمل کے لا انتہا مواقع میسر آتے ہیں۔ اس میں موت اس کا پہلا امتحان ہے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ اسے اپنے اعمال و افعال کی شیرازہ بندی میں کس حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔ لہذا خودی کی فنا اور بقا کا انحصار عمل پر موقوف ہے۔ خودی کو باقی رکھنے کے بعد ہی بلاامتیاز ہم من و تو کا احترام کر سکیں گے کیوں کہ بقائے دوام کے حصول کا انحصار ہماری مسلسل جدو جہد پر ہی ہے۔ وہ کہتے ہیں
خودی کی یہ ہے منزلِ اوّلیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاک داں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر
علامہ اقبال چاہتے تھے کہ نوجوان خودی کے راز کو پاکر مثلِ شاہین اپنے مقصد پر نظر رکھیں۔انقلاب آفرین ہستی وہ ہوتی ہے جو زمانے کو نئی سوچ دے ، پرانے الفاظ اور خیالات کو مفاہیم کے نئے جہان عطا کرے۔ اقبال سے قبل بھی ہمیں دیگر زبانوں کے شعری سرمائے میں مختلف پرندوں کا ذکر ملتا ہے۔ اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسے پرندے کا انتخاب کیا جو آسمانوں پر نظریں رکھنے کے باوجود اپنے اندر درویشی کی صفت رکھتا ہے۔اقبال کے یہاں شاہین وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے یہاں بلبل اور شیلے کے یہاں سکائی لارک کی ہے۔ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سب سے بھی بالاتر ہے۔ اقبال جمال سے زیادہ جلال پسند کرتے ہیں۔ انہیں ایسے پرندوں میں کوئی دلچسپی نہیں جو صرف جمالیاتی اہمیت رکھتے ہوں یا جو حرکت کے بجائے سکون کے پیامبر ہوں۔آپ کے یہاں شاہین ایک مسلم نوجوان کی علامت ہے۔اس لیے وہ نوجوانوں کو اس شاہین کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جو کبھی مردار نہیں کھاتا۔ انہیں ایک ایسے شاہین کی تلاش ہے جو بلند پروازہو۔ ایک ایسا شاہین جو کبھی باز ، کبھی عقاب، کبھی طائرِ لاہوتی بن آسمان کی وسعتوں کو مسخر کردے۔ایک ایسا شاہین جس کی پرواز آسمان کی وسعتوں کو چیر دے۔ ایک ایسا شاہین جو مشرق سے مغرب تک آسمانوں پر اپنی بادشاہت قائم کردے۔ ایک ایسا شاہین جو اپنے لیے جہانِ تازہ تلاش کرے، افکارِ تازہ کی نمو کرے۔
اقبال کے نزدیک شاہین کے علاوہ کوئی پرندہ نوجوانوں کے لیے قابلِ تقلید نہیں ہے۔ بالِ جبرئیل کی نظم ” شاہین” میں اقبال یو ں گویا ہوتے ہیں کہ
خیابانیوں سے ہے پرہیز لازم
ادائیں ہیں ان کی بہت دلبرانہ
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں ہوں
کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ
جھپٹنا ، پلٹنا ، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا
میرا نیلگوں آسماں بے کرانہ
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ
علامہ اقبال کا یہ کارنامہ یقیناً یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایک ایسے انسان یا نوجوان کا آئیڈیل ہمارے سامنے پیش کیا جو بقول ظ انصاری مستقبل کی ترقی یافتہ دنیا بنانے اور سجانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ایسے ہی نوجوان کو اقبال نے کہیں شاہین، کہیں طائرِ لاہوتی، کہیں مردِ مومن اور کہیں ایسا مسلمان کہا ہے جس کی خودی صورتِ فولاد ہے۔ جو بیک وقت شعلہ بھی ہے اور شبنم بھی۔ اسی نوجوان کو حرکت و عمل کا درس دے کر اقبال برسہا برس کے سکوت، جمود اور خاموشی کو توڑنا چاہتے تھے۔ وہ نوجوانوں کو مغرب اور مغرب زدہ تہذیب سے آزاد کرانا چاہتے تھے۔ حرکت و عمل کے ذریعے صدیوں کی زخم خوردہ انسانیت کے تنِ مردہ میں روح پھونکنا چاہتے تھے۔وہ عوام الناس کو ظلمت و الحاد کے گڑھوں سے اوپر اٹھا کر ان کے ہاتھوں میں ایمان و یقین کی مشعلیں دینا چاہتے تھے۔ اقبال کے نزدیک کائنات اپنے ہونے کا اظہار مسلسل تبدیلیوں کی صورت میں کرتی ہے۔ یہاں کسی شے، کسی منظر، کسی احساس، کسی قوم اور کسی بھی معاشرتی صورت حال کو قرار نہیں ہے۔ وہ ’’مرغ و ماہی ‘‘ ہوں یا ’’ ماہ و انجم‘‘ یہاں کی ہر شے’’ راہی‘‘ اور ہر چیز’’ مسافر‘‘ ہے۔اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
علامہ اقبال کے فلسفے اور شاعری کا بیشتر حصہ حرکت و تغیر کی اصلیت کو واضح کرتا ہے۔ وہ کائنات کے اصول یعنی حرکت و تغیر کو نوجوانوں کے حق میں ہمیشہ نیک شگون قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک حرکت زندگی کی پہچان اور سکون یا جمود موت کی شناخت ہے۔ شاید اسی لئے ہمارے روائتی انداز فکر میں بھی حرکت کو برکت کہا جاتا ہے۔ علامہ نے اس نکتے کی وضاحت بڑے موثر اور بھر پور انداز سے کی ہے۔ مثلاً وہ خضر کی زبانی بندہ مزدور کو یہ پیغام دلواتے ہیں۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اس شعر میں علامہ بزم جہاں کے نئے انداز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ نیا انداز وہ معاشرتی، سیاسی اور معاشی حالات ہیں جو ہمارے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں۔ علامہ ہمیں ان حالات کا صحیح شعور اوروقوف پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔اقبال اس دنیاوی زندگی کو مکمل حقیقت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے۔وہ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نوجوان کے اپنے عمل میں مضمر امکانات کو بروئے کار لانے پر زیادہ زور دیتے ہیں ۔ اقبال اپنی تمام تر امنگیں اور آرزوئیں نوجوانوں سے وابستہ کرتے ہیں ۔ وہ ایک ایسے طبقے کو ہدف بناتے ہیں جس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود ہوتا ہے۔ اقبال کا نوجوان مصلحتوں کے دائرے میں زندگی گزارنے کو غلامی تصور کرتا ہے،بقول اقبال
اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
سرِ آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
قلزم ہستی سے ابھرا ہے تو مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
علامہ اقبال کی شاعری ،ان کا فلسفہ اور اس میں پوشیدہ رموز آج نہ صرف اہلِ اردو یا اہلِ مشرق کے لیے مینارۂ نور ہیں بلکہ دنیا بھر میں دیگر زبانوں کی یونیورسٹیاں بھی اقبال کے فن سے فیضیاب ہو رہی ہیں۔ اقبال کسی ایک خطے ،کسی ایک علاقے یا کسی ایک سرزمین کے شاعر نہیں ہیں بلکہ ان کی حیثیت آفاقی ہے کائناتی ہے۔ شاعرِ مشرق جیسا خطاب بھی اقبال کے بہت معمولی نظر آتا ہے کیوں کہ وہ تو شاعرِ ہستی ہیں، شاعرِ گیتی ہیں۔
***
ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نوجوان شاعر، مترجم اور ابھرتے ہوئے نقاد اور نور الاسلام ہائی جونیئر کالج ، گوونڈی میں انگریزی کے استاد ہیں۔

Iqbaliat Editor Dr. Tahir Hameed Tanoli

Articles

اقبالیات مدیر ڈاکٹر حمید تنولی

ڈاکٹر حمید تنولی