Khutoot E Maulana Abul Kalam Azad… Vol. 1 Edited by Malik Ram
Articles
Maulana Abul Kalam Azad ka Safar E A akhirat by Aagha Shorish Kashmiri
Articles
مولانا ابوالکلام آزاد کا سفر آخرت
آغا شورش کاشمیری
مولانا آزاد (رحمۃ اللہ علیہ) محض سیاست داں ہوتے تو ممکن تھا حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ، لیکن شدید احساسات کے انسان تھے ، اپنے دور کے سب سے بڑے ادیب، ایک عصری خطیب، ایک عظیم مفکر اور عالم متجر، ان لوگوں میں سے نہیں تھے ، جو اپنے لئے سوچتے ہیں ، وہ انسان کے مستقبل پر سوچتے تھے ، انہیں غلام ہندوستان نے پیدا کیا اور آزاد ہندوستان کیلئے جی رہے تھے ، ایک عمر آزادی کی جدوجہد میں بسر کی اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو اس کا نقشہ ان کی منشا کے مطابق نہ تھا، وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سامنے خون کا ایک سمندر ہے ، اور وہ اس کے کنارے پر کھڑے ہیں ، ان کا دل بیگانوں سے زیادہ یگانوں کے چرکوں سے مجروح تھا، انہیں مسلمانوں نے سالہا سال اپنی زبان درازیوں سے زخم لگائے اور ان تمام حادثوں کو اپنے دل پر گذارتے رہے ۔
آزادی کے بعد یہی سانچے دس سال کی مسافت میں ان کیلئے جان لیوا ہو گئے ، 12/فروری 1958ء کو آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ مولانا آزاد علیل ہو گئے ہیں ، اس رات کابینہ سے فارغ ہو کر غسل خانے میں گئے ، یکایک فالج نے حملہ کیا اور اس کا شکار ہو گئے ، پنڈت جواہر لال نہرو اور رادھا کرشنن فوراً پہنچے ڈاکٹروں کی ڈار لگ گئی، مولانا بے ہوشی کے عالم میں تھے ، ڈاکٹروں نے کہاکہ 48 گھنٹے گذرنے کے بعد وہ رائے دے سکتیں گے کہ مولاناخطرے سے باہر ہیں یا خطرے میں ہیں ۔
ادھر آل انڈیا ریڈیو نے براعظم میں تشویش پیدا کر دی اور یہ تاثر عام ہو گیا کہ مولانا کی حالت خطرہ سے خالی نہیں ہے ہر کوئی ریڈیو پر کان لگائے بیٹھا اور مضطرب تھا، مولانا کے بنگلہ میں ڈاکٹر راجندرپرساد (صدر جمہوریہ ہند)، پنڈت جواہرلال نہرو وزیراعظم، مرکزی کابینہ کے ارکان، بعض صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اکابر علماء کے علاوہ ہزا رہا انسان جمع ہو گئے ، سبھی پریشان تھے 19!فروری کو موت کا خدشہ یقینی ہو گیا۔
کسی کے حواس قائم نہ تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو رفقاء سمیت اشکبار چہرے سے پھر رہے تھے ، ہر کوئی حزن و ملال کی تصویر تھا۔ ہندوستان بھر کی مختلف شخصیتیں آ چکی تھیں ۔
جب شام ہوئی ہر امید ٹوٹ گئی۔ عشاء کے وقت سے قرآن خوانی شروع ہو گئی، مولانا حفیظ الرحمن سیوہارویؒ، مولانا محمد میاں ؒ، مفتی عتیق الرحمنؒ، سید صبیح الحسنؒ، مولانا شاہد فاخریؒ اور بیسیوں علماء وحفاظ تلاوت کلام الہیٰ میں مشغول تھے ۔
آخر ایک بجے شب سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہو گئی اور 22/فروری کو 2:15 بجے شب مولانا کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔
(انا ﷲ وانا الیہ راجعون)
اس وقت بھی سینکڑوں لوگ اضطراب میں کھڑے تھے ، جوں ہی رحلت کا اعلان ہوا تمام سناٹا چیخ و پکار سے تھرا گیا۔
دن چڑھے تقریباً 2 لاکھ انسان کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے ۔ تمام ہندوستان میں سرکاری وغیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دئیے گئے ، ملک کے بڑے بڑے شہروں میں لمبی ہڑتال ہو گئی، دہلی میں ہو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے ہر مذہب کی آنکھ میں آنسو تھے ، بالفاظ دیگر مولانا تاریخ انسانی کے تنہا مسلمان تھے ، جن کے ماتم میں کعبہ و بت خانہ ایک ساتھ سینہ کوب تھے ، پنڈت جواہر لال نہرو موت کی خبر سنتے ہی دس منٹ میں پہنچ گئے اور بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے انہیں یاد آ گیا کہ مولانا نے آج ہی صبح انہیں “اچھا بھائی خدا حافظ “کہا تھا۔
ڈاکٹروں نے 21 کی صبح کو ان کے جسم کی موت کا اعلان کر دیا اور حیران تھے کہ جسم کی موت کے بعد ان کا دماغ کیونکر 24 گھنٹے زندہ رہا۔
ڈاکٹر بدھان چندر رائے (وزیراعلیٰ بنگال) نے انجکشن دینا چاہا تو مولانا نے آخری سہارا لے کر آنکھیں کھولیں اور فرمایا “ڈاکٹر صاحب اﷲ پر چھوڑئیے ” ۔ اس سے پہلے معالجین کے آکسیجن گیس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: “مجھے اس پنجرہ میں کیوں قید کر رکھا ہے ؟ اب معاملہ اﷲ کے سپرد ہے “۔
میجر جنرل شاہ نواز راوی تھے کہ تینوں دن بے ہوش رہے ، ایک آدھ منٹ کیلئے ہوش میں آئے ، کبھی کبھار ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید کچھ کہنا چاہتے ہیں ، معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کا ورد کر رہے ہیں ، پنڈت نہرو کے دو منٹ بعد ڈاکٹر راجندر پرساد آ گئے ان کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے ، آن واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے ، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کے پھوار سے تر تھا اور ادھر ادھر ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں ۔
مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے ، ڈاکٹر رادھا کرشنن نے آبدیدہ ہو کر کہا :
“ہندوستان کا آخری مسلمان اٹھ گیا، وہ علم کے شہنشاہ تھے ” ۔
کرشن مین سکتے میں تھے ، پنڈت پنٹ یاس کے عالم میں تھے ، مرار جی دیسائی بے حال تھے ، لال بہادر شاستری بلک رہے تھے ڈاکٹر ذا کرحسین کے حواس معطل تھے ۔ مولانا قاری طیب غم سے نڈھال تھے ، مولانا حفظ الرحمن کی حالت دیگر گوں تھی، ادھر زنانہ میں مولانا کی بہن آرزو بیگم تڑپ رہی تھیں ….
اب کوئی آرزو نہیں باقی
ان کے گرد اندرا گاندھی، بیگم ارونا آصف علی اور سینکڑوں دوسری عورتیں جمع تھیں ۔ اندرا کہہ رہی تھیں “ہندوستان کا نور بجھ گیا”
اور ارونا رورہی تھیں “ہم ایک عظمت سے محروم ہو گئے “۔
پنڈت نہرو کا خیال تھا کہ مولانا تمام عمر عوام سے کھینچے رہے ان کے جنازہ میں عوام کے بجائے خواص کی بھیڑ ہو گئی۔ لیکن جنازہ اٹھا تو کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 کے باہر 2 لاکھ سے زائد عوام کھڑے تھے اور جب جنازہ انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا دریا گنج کے علاقہ میں پہنچا تو 5 لاکھ افراد ہو چکے تھے ، صبح 4 بجے میت کو غسل دیا گیا اور کفنا کر 9 بجے صبح کوٹھی کے پورٹیکو میں پلنگ پر ڈال دیا گیا۔
سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ، پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے کئی ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت کو دیکھتے ہی دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں ، ان کے ہونٹوں پر ایک ہی بول تھا
“مولانا آپ بھی چلے گئے ، ہمیں کس کے سپرد کیا ہے ؟”۔
ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں ۔ ایک عجیب عالم تھا چاروں طرف غم و اندوہ اور رنج و گریہ کی لہریں پھیلی ہوئی تھیں ۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضا کار کی طرح عوام کے ہجوم میں گھس جاتے اور انہیں بے ضبط ہجوم کرنے سے روکتے ، پنڈت جی نے یمین ویسار سکیورٹی افسروں کو دیکھا تو ان سے پوچھا :
“آپ کون ہیں ؟”
“سکیورٹی افسر”۔
“کیوں “۔
“آپ کی حفاظت کیلئے “۔
“کیسی حفاظت؟ موت تو اپنے وقت پر آکے رہتی ہے، بچا سکتے ہو تو مولانا کو بچا لیتے ؟”
شری پربودھ چندر راوری تھے کہ پنڈت جی نے یہ کہا اور بلک بلک کر رونے لگے ، ان کے سکیورٹی افسر بھی اشکبار ہو گئے ، ٹھیک پون بجے میت اٹھائی گئی، پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفراء نے دیا، جب کلمہ شہادت کی صداؤں میں جنازہ اٹھا تو عربی سفراء بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، جوں ہی بنگلہ سے باہر کھلی توپ پر جنازہ رکھا گیا تو کہرام مچ گیا، معلوم ہوتا تھا پورا ہندوستان روہا ہے مولانا کی بہن نے کوٹھی کی چھت سے کہا :
“اچھا بھائی خدا حافظ”۔
پنڈت پنٹ نے ڈاکٹر راجندر پرساد کا سہارا لیتے ہوئے کہا :
“مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے اور ہم تو کبھی نہ دیکھ سکیں گے “۔
مولانا کی نعش کو کوٹھی کے دروازہ تک چارپائی پر لایا گیا، کفن کھدر کا تھا، جسم ہندوستان کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا، اس پر کشمیری شال پڑا تھا اور جنازہ پر نیچے دہلی کی روایت کے مطابق غلاف کعبہ ڈالا گیا تھا۔ پنڈت نہرو، مسٹر دھیبر صدر کانگریس، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز، پروفیسر ہمایوں کبیر، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔
ان کے پیچھے دوسری گاڑی میں صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرساد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نائب صدر کی موٹر تھی۔ ان کے بعد کاروں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں مرکزی وزراء، صوبائی وزرائے اعلیٰ، گورنر اور غیر ملکی سفراء بیٹھے تھے ۔
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ تمام راستہ پھولوں کی موسلادھار بارش ہوتی رہی۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اٹ گیا۔ جب لاش لحدتک پہنچی تو ایک طرف علماء و حفاظ قرآن مجید پڑھ رہے تھے دوسری طرف اکابر فضلاء سرجھکائے کھڑے تھے ۔
اس وقت میت کو بری فوج کے ایک ہزار نوجوانوں ، ہوائی جہاز کے تین سو جانبازوں اور بحری فوج کے پانچ سو بہادروں نے اپنے عسکری بانکپن کے ساتھ آخری سلام کیا، مولانا احمد سیعد دہلوی صدر جمعیت علماء ہند نے 2:50 پر نماز جنازہ پڑھائی، پھر لحد میں اتارا، کوئی تابوت نہ تھا اور اس طرح روئے کہ ساری فضاء اشکبار ہو گئی، تمام لوگ رو رہے تھے اور آنسو تھمتے ہی نہ تھے ، مولانا کے مزار کا حدود اربعہ “بوند ماند” کے تحت درج ہے ۔
مختصر … یہ کہ جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیان میں دفن کئے گئے ، مزار کھلا ہے ، اس کے اوپر سنگی گنبد کا طرہ ہے اور چاروں طرف پانی کی جدولیں اور سبزے کی روشیں ہیں ۔ راقم جنازہ میں شرکت کیلئے اسی روز دہلی پہنچا، مولانا کو دفنا کر ہم ان کی کوٹھی میں گئے کچھ دیر بعد پنڈت جواہر لال نہرو آ گئے اور سیدھا مولانا کے کمرے میں چلے گئے پھر پھولوں کی اس روش پر گئے ، جہاں مولانا ٹہلا کرتے تھے ، ایک گچھے سے سوال کیا:
“کیا مولانا کے بعد بھی مسکراؤ گے ؟”۔
راقم آگے بڑھ کر آداب بجا لایا کہنے لگے : “شورش تم آ گئے ؟ مولانا سے ملے ؟”
راقم کی چیخیں نکل گئیں ۔
مولانا ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکے تھے اور ملاقات صبح محشر تک موقوف ہو چکی تھی۔
***
بشکریہ تعمیر نیوز
Maulana Abul Kalam Azad aur Maoseeqi
Articles
مولانا ابو الکلام آزاد اور موسیقی
ثاقب اکبر
مولانا ابوالکلام آزاد کی سیاسی حیثیت تو اپنے مقام پر مسلم ہے لیکن ان کے مقام علمی کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ ایک بڑا طبقہ انھیں امام الہند کے نام سے بھی یاد کرتا ہے۔ مشرب کے لحاظ سے ان کو جدید رجحانات رکھنے والا اہل حدیث کہا جاسکتاہے۔ برصغیر میں اور بھی ایسے اکابر گزرے ہیں جن کو اس فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے جن میں مولانا جعفر شاہ پھلواروی اورمولانا محمد حنیف ندوی شامل ہیں لیکن شاید ان سب میں مولانا ابوالکلام آزاد کا مرتبہ زیادہ بلند ہے۔ ترجمان القرآن کے نام سے ان کے تفسیری مطالب تین جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ادب کی دنیا میں بھی ان کو ایک شہ سوار کی حیثیت حاصل ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کو موسیقی سے بھی خاصی دلچسپی رہی ہے۔
موسیقی کا مسئلہ علماء کے مابین خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے زیادہ تر علماء موسیقی کو مطلقاً حرام قرار دیتے رہے ہیں۔البتہ اس کے لیے وہ ‘‘غنا’’ کا کلمہ استعمال کرتے ہیں۔ علماء کی ایک تعداد اس حرمت میں سے دو استثناء ات کی قائل ہے۔ ایک شادی بیاہ کے موقع پر لڑکیوں کا آپس میں گیت گانا اور دوسرا حدی خوانی یعنی شتر بانوں کا اونٹوں کے کاروانوں میں گانا۔ یہ دونوں امور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں رائج تھے اور آپؐ نے ان سے منع نہیں کیا بلکہ بعض روایات کے مطابق شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کی سکھیوں کے گیت کی آواز نہ آنے پر استعجاب بھی کیا۔
جہاں تک موسیقی کے آلات کا تعلق ہے تو اس کو بھی مطلقاً حرام قرار دینے والے علماء بڑی تعداد میں موجود ہیں البتہ عموماً ‘‘دف’’ کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے کیونکہ ان علماء کے نزدیک رسول اللہؐ کے زمانے میں اس کا رواج تھا اور جب آنحضرتؐ مدینہ منورہ میں پہلی مرتبہ داخل ہو رہے تھے تو مدینے کی لڑکیاں آپؐ کے استقبال کے لیے دف بجا کر یہ گیت گا رہی تھیں‘‘ طلع البدر علینا۔ وجب الشکر علینا’’۔
بہرحال ایسے علماء بھی ہیں جو گائیکی کی بعض دیگر صورتوں کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح صوفیاء کا ایک گروہ ‘‘سماع’’ کو جائز قرار دیتا ہے۔ ہمارے ہاں جو مذہبی حوالے سے قوالیوں کا رواج ہے وہ اسی جواز سے استفادے کی ایک شکل ہے۔
البتہ کم تعداد میں ایسے علماء بھی ہیں جو موسیقی کی دو صورتوں کے قائل ہیں ،ایک حلال اور دوسری حرام۔ اس مسئلے کی کچھ تفصیلات ہیں جسے ہم کسی اور موقع پر اٹھا رکھتے ہیں کیونکہ آج ہمیں مولانا ابوالکلام آزاد کے ذوق موسیقی پر کچھ عرض کرنا ہے۔
موسیقی کے ساتھ ان کی وابستگی،رغبت بلکہ انتہائے شوق کا یہ عالم ہو گیا تھا کہ وہ ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:
’’ میں آپ سے ایک بات کہوں، میں نے بار ہا اپنی طبیعت کو ٹٹولا ہے، میں زندگی کی احتیاجوں میں ہر چیز کے بغیر خوش رہ سکتا ہوں لیکن موسیقی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آوازِ خوش میرے لیے زندگی کا سہارا ، دماغی کاوشوں کا مداوا اور جسم و دل کی ساری بیماریوں کا علاج ہے۔‘‘
موسیقی کے سحر میں مولانا ایسے گرفتار تھے کہ اپنی اس جاذبیت کو بیان کرتے ہوئے وہ پڑھنے والے کے قلب و نظر کو بھی جذب کرلیتے ہیں۔ چنانچہ جوانی کے اس دور کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ جب وہ موسیقی کے انتہائی دلدادہ ہو چکے تھے، لکھتے ہیں:
’’آگرہ کے سفر کا اتفاق ہوا، اپریل کا مہینہ تھا اور چاندنی کی ڈھلتی ہوئی راتیں تھیں۔ جب رات کا پچھلا پہر شروع ہونے کو ہوتا تو چاند پردۂ شب ہٹا کر یکایک جھانکنے لگتا۔ میں نے خاص طور پر کوشش کر کے یہ انتظام کررکھا تھا کہ رات کو ستار لے کر تاج محل چلا جاتا اور اس کی چھت پر جمنا کے رخ بیٹھ جاتا، پھر جونہی چاندنی پھیلنے لگتی ستار پر کوئی گیت چھیڑ دیتا اور اس میں محو ہوجاتا، کیا کہوں اور کس طرح کہوں کہ فریب تخیل کے کیسے کیسے جلوے انہی آنکھوں کے آگے گزر چکے ہیں۔ رات کا سناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے ستارے سر اٹھائے کھڑے تھے، برجیاں دم بخود بیٹھی تھیں، آپ یاد کریں یا نہ کریں مگر یہ واقعہ ہے کہ اس عالم میں، میں نے بارہا برجیوں سے باتیں کی ہیں۔‘‘
مولانا نے اپنے مختلف مکتوبات میں بتایا ہے کہ انھوں نے کب کب اور کس کس سے موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کو خاص ستار سے رغبت ہو گئی تھی اور اس پر ان کی انگلیاں خوب رواں تھیں۔ ان کے والد صاحب کے ایک مرید جو موسیقی کے استاد تھے، آزاد نے انھیں بھی چپکے سے اپنا استاد کر لیا تھا اور گوشہ نشینی میں ان سے کئی برس تک فیض موسیقی حاصل کرتے رہے، اس کا نام مسیتا خاں تھا۔ اس دور میں اپنی کیفیت وہ اس شعر کے ذریعے بیان کرتے ہیں:
عشق می ورزم و امید کہ ایں فن شریف
چوں ہنر ہائے دگر موجبِ حرماں نشود
موسیقی سے اپنی رغبت کے لیے وہ دلیل بھی ذکر کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:
’’مقصود اس اشتعال سے صرف یہ تھا کہ طبیعت اس کوچہ سے نا آشنا نہ رہے کیونکہ طبیعت کا توازن اور فکر کی لطافت بغیر موسیقی کی ممارست کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ جب ایک خاص حد تک یہ مقصد حاصل ہو گیا تو پھر مزید اشتعال نہ صرف غیر ضروری تھا بلکہ موانع کار کے حکم میں داخل ہو گیا تھا۔ البتہ موسیقی کا ذوق اور تاثر جو دل کے ایک ایک ریشے میں رچ گیا تھا، دل سے نکالا نہیں جاسکتا تھا اورآج تک نہیں نکلا:
جاتی ہے کوئی کش مکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا
حسن آواز میں ہو یا چہرے میں، تاج محل میں ہو یا نشاط باغ میں، حسن ہے اور حسن اپنا فطری مطالبہ رکھتا ہے۔ افسوس اس محروم ازلی پر جس کے بے حس دل نے اس مطالبہ کا جواب دینا نہ سیکھا ہو۔‘‘
مولانا آزاد کو دنیا کے مختلف خطوں کی موسیقی کے مزاج کا علم تھا۔ وہ عربوں کی موسیقی سے بھی اسی طرح آشنا تھے جیسے ہندوستان کی موسیقی سے۔ وہ اہل مغرب کی موسیقی میں نئے نئے تجربات سے بھی واقف تھے۔ انھوں نے موسیقی پر لکھی گئی کئی ایک قدیم کتب اچھی طرح سے پڑھ رکھی تھیں۔ وہ بعض مذہبی امور میں بھی موسیقیت کو تلاش کر لیتے تھے۔ ان کے چند کلمات ملاحظہ فرمائیے:
’’بچپنے میں حجاز کی مترنم صداؤں سے کان آشنا ہو گئے تھے۔ صدر اول کے زمانے سے لے کر جس کا حال ہم کتاب الاغانی اور عقد الفرید وغیرہ میں پڑھ چکے ہیں، آج تک حجازیوں کا ذوق موسیقی گیر متغیر رہا۔ یہ ذوق ان کے خمیر میں کچھ اس طرح پیوست ہو گیا تھا کہ اذان کی صداؤں تک کو موسیقی کے نقشوں میں ڈھال دیا۔ آج کل کا حال معلوم نہیں لیکن اس زمانے میں حرم شریف کے ہر منارہ پر ایک موذن متعین تھا اور ان سب کے اوپر شیخ الموذنین ہوتا۔ اس زمانے میں شیخ الموذنین شیخ حسن تھے اور بڑے ہی خوش آواز تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رات کی پچھلی پہر میں ان کی ترحیم کی نوائیں ایک سماں باندھ دیا کرتی تھیں۔‘‘
ہمارے کئی ایک فقہاء نے لکھا ہے کہ بھدی اور بے سری آواز میں اذان دینا مکروہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت اور مترنم آواز میں دی گئی اذان کی تاثیر کچھ اور ہی ہوتی ہے۔ ایسی اذانیں بھی گاہے سنائی دیتی ہیں جو مسجد کی طرف کھینچنے کے بجائے دور بھاگنے پر اکسا رہی ہوتی ہیں۔
مولانا ایک مقام پر مصر کے شیخ احمد سلامہ حجازی کا تذکرہ کرتے کرتے ایک مغنیہ کا ذکر ان الفاظ میں چھیڑتے ہیں:
اس زمانے میں مصر کی ایک مشہور ’’عالمہ‘‘ طاہرہ نامی باشندہ طنطا تھی۔ ’’عالمہ‘‘ مصر میں مغنیہ کو کہتے ہیں، یعنی موسیقی کا علم جاننے والی، ہمارے علماء کرام کو اس اصطلاح میں غلط فہمی نہ ہو، یورپ کی زبانوں میں یہی لفظ (Alma) ہو گیا ہے۔ شیخ سلامہ بھی اس عالمہ کی فن دانی کا اعتراف کرتا تھا۔ وہ خود بھی بلائے جان تھی، مگر اس کی آواز اس سے بھی زیادہ آفت ہوش و ایمان تھی۔ میں نے اس سے بھی شناسائی باہم پہنچائی اور عربی موسیقی کے کمالات سنے۔ دیکھیے اس خانماں خراب شوق نے کن کن گلیوں کی خاک چھنوائی۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہگزر کو میں
اس زمانے میں مصر کی مغنیہ ام کلثوم کا بھی طوطی بولتا تھا۔ مولانا ان کے بھی دل باختہ ثابت ہوئے، لکھتے ہیں:
جس زمانے کے یہ واقعات لکھ رہا ہوں، اس سے کئی سال بعد مصر میں ام کلثوم کی شہرت ہوئی اور اب تک قائم ہے۔ میں نے اس کے بے شمار ریکارڈ سنے ہیں اور قاہرہ، انگورہ، طرابلس الغرب، فلسطین اور سنگاپور کے ریڈیو سٹیشن آج کل بھی اس کی نواؤں سے گونجتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جس شخص نے ام کلثوم کی آواز نہیں سنی ہے وہ موجودہ عربی موسیقی کی دلآویزیوں کا اندازہ نہیں کر سکتا۔
مولانا موسیقی اور شاعری کی باہمی الفت و التفات کا ذکر بھی خوبصورت انداز سے کرتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ موسیقی اور شاعری ایک ہی حقیقت کے دو مختلف جلوے ہیں اور ٹھیک ایک ہی طریقہ پر ظوہر پذیر ہوتے ہیں۔ موسیقی کا مولف الحان کے اجزا کو وزن و تناسب کے ساتھ ترکیب دے دیتا ہے اسی طرح شاعر بھی الفاظ ومعانی کے اجزا کو حسن وترکیب کے ساتھ باہم جوڑ دیتا ہے۔
توحنا بستی و من معنی رنگیں بستم
جو حقائق شعر میں الفاظ و معانی کا جامہ پہن لیتے ہیں وہی موسیقی میں الحان و ایقاع کا بھیس اختیار کر لیتے ہیں۔ نغمہ بھی ایک شعر ہے لیکن اسے حرف و لفظ کا بھیس نہیں ملا۔ اس نے اپنی روح کے لیے نواؤں کا بھیس تیار کرلیا ہے۔
موسیقی کے حوالے سے مولانا کے ارشادات اور تجربات لکھتے چلے جائیں تو ایک کتاب چاہیے۔ہم نے مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر کچھ ذکر کردیا ہے۔ آخر میں مولانا کے کمال علم و فضل کا اعتراف کرنے والے چند مشاہیر کی آراء نذر قارئین کرتے ہیں:
علامہ اقبال ؒ کے نزدیک پورے برصغیر میں صرف ابوالکلام مجتہدانہ حیثیت کے اہل تھے۔
مولانا ظفر علی خاں کے نزدیک اجتہاد میں ابوالکلام آزاد ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔چنانچہ وہ ایک شعر میں اپنی اس رائے کا یوں اظہار کرتے ہیں:
جہان اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہوئی
ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ بوالکلام سے
مولانا سید مودودی کے نزدیک ابوالکلام اور اقبال اس دور کے دماغ تھے۔
مولانا حسرت موہانی کے نزدیک ابوالکلام آزاد نثر اور خطابت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔وہ زبان شعر میں یوں رطب اللساں ہیں:
جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر
نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
جس زمانے میں سب تھے مہر بلب
ایک گویا تھا بوالکلام آزاد
علامہ سید سلیمان ندوی کہتے ہیں :
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوجوان مسلمانوں میں قرآن پاک کا ذوق مولانا ابوالکلام آزاد کے ‘‘الہلال’’اور ‘‘البلاغ’’ نے پیدا کیا۔
آغا شورش کاشمیری مرحوم نے ابوالکلام آزاد کی وفات پر ایک شہرہ آفاق نظم کہی جس کا مطلع یوں ہے:
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمیں کی رونق چلی گئی ہے، اْفق پہ مہر مبیں نہیں ہے
حسن ختام کے لیے ہم یہ مصرعہ پیش کرتے ہیں:
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
Abul Kalam Azad, Unki Gunagun Khidmaat aur Urdu Sahafat by Nadeem Ansari
Articles
ابو الکلام آزاد، ان کی گو نا گوں خدمات اور اُردو صحافت
مولانا ندیم انصاری
امام الہندمولانا ابو الکلام آزاد ملک و قوم کی وہ عظیم ہستی ہیں، جن کا نام تاریخِ ہند اور تاریخِ ادب اردو میں محبِ قوم و زبان کی حیثیت سے کسی تعارف کا محتاج نہیں۔مولانا ابو الکلام آزادکا اصلی نام ’احمد‘، تاریخی نام ’محی الدین‘ ،کنیت ’ابوالکلام‘اورتخلص’ آزادؔ‘تھا۔ ان کی ولادت 11نومبر 1888ء کو مکہ مکرمہ کے محلہ ’قدوہ‘ میں ہوئی۔مولانا کا مادری وطن مدینہ منورہ اور آبائی وطن دہلی ہے۔ عرب ماں نے عرب ماحول میں اپنے لختِ جگر کی پرورش کی اور اس طرح اُنھیں مادری زبان عربی اور اجداد کی زبان اردو کا عطیہ من جانب اللہ عطا ہوا۔مولانا کے والد1857ء کے ہنگامے کے بعد دل برداشتہ ہوکرمکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور جب آزادؔ گیارہ سال کے تھے، اس وقت ملک واپس آئے اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔آزادیِ ہند کے بعد مولانا آزاد مرکزی حکومت میں پہلے وزیرِ تعلیم نام زد کیے گئے۔آگے ہم مولاناکی شخصیت و دیگر تصنیفات پر اجمالی اور صحافت پر قدرے تفصیلی معلومات پیش کریں گے۔
مولانا کی شخصیت کا تعارف کرواتے ہوئے پنڈت جوہر لعل نہرو نے کہا تھا:
مولانا کو دیکھ کر مجھے اکثر وہ فرانسیسی قاموسی یاد آجاتے ہیں جو انقلابِ فرانس سے کچھ عرصے پہلے وہاں موجود تھے۔ تاریخِ اقوامِ ماضیہ میں ان کا درک و بصیرت یقیناً حیرت انگیز ہے اور پھر یہ وسیع علم ان کے دماغ میں عجیب ضبط و ترتیب کے ساتھ موجود ہے۔ ان کا ذہن مدلّل، با ضابطہ اور سُلجھا ہوا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے منطق و فلسفےکے کسی قدیم اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا عام رویہ معقولیت پسند ہے۔ بہ ایں ہمہ ان میں ایک ایسا انسان موجود ہے جو علم کے پہاڑوں کو نرم و نازک بنا کر بلند مگر خُشک ظرافت پیش کرتا ہے۔ـ
مولانا ابوالکلام آزاد بہ یک وقت باکمال مفسرِ قرآن، جادو بیان خطیب، عمدہ انشا پرداز،بے مثال صحافی اور بلند قامت سیاست داںتھے ۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگریس کے ہم نوا رہے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد بھی موجود تھا۔ یہی سبب ہے کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا نے ہی آگے بڑھ کر اس معاملے میں مزاحمت کی۔مولانا عالی دماغ کے حامل شخص تھے۔ انھیں یہ غم ستاتا رہا کہ ان سے جیسا استفادہ کیا جا سکتا تھا، وہ نہیں کیا گیا۔ایک مقام پر فرماتے ہیں:
افسوس ہے زمانہ میرے دماغ سے کام لینے کا کوئی سامان نہ کر سکا۔ غالب کو تو صرف اپنی ایک شاعری ہی کا رونا تھا، نہیں معلوم میرے ساتھ قبر میں کیا کیا جاے گا۔۔۔بعض اوقات سوچتا ہوں تو طبیعت پر حسرت و الم کا ایک عجیب عالَم طاری ہو جاتا ہے۔ مذہب، علوم و فنون، ادب، انشا پردازی، شاعری کوئی وادی ایسی نہیں ہے جس کی بے شمار نئی راہیںمبدأ فیاض نے مجھ نامراد کے دماغ پر نہ کھول دی ہوں ۔۔۔لیکن افسوس جس ہاتھ نے فکر و نظر کی ان دولتوں سے گراں بار کیا، اس نے شاید سر و سامانِ کار کے لحاظ سے تہی دست رکھنا چاہا۔ میری زندگی کا سارا ماتم یہ ہے کہ اس عہد اور محل کا آدمی نہ تھا، مگر اس کے حوالے کر دیا گیا۔
قلمی چہرہ
شورش کاشمیری کے بیان کے مطابق قامت میانہ، بدن اکہرا، رنگ سرخ و سفید، نجیب الطرفین، ذات‘ سیادت، پیشہ‘ وزارت، خلوت کا شیدائی، خطابت میں یگانہ، صحافت میں منفرد، سیاست میں یکتا، عالمِ متبحّر، زبردست مجتہد، حسن چہرہ میں ہو یا آواز میں‘ اس کی دل پذیری پر جی جان سے فدا– دماغ یوروپی، طبیعت عجمی، دل عربی، وجود ہندوستانی– ایسے تھے مولانا ابو الکلام آزادؔ۔
مولانا نے اپنی حیاتِ مستعار میں گو نا گوں علمی خدمات انجام دی ہیں۔ مضمونِ ہذا میں ہم صحافت کا قدرے تفصیلی جایزہ لیں، لیکن اس سے قبل ان کی دیگر خدمات کا مختصر تعارف سپردِ قلم کرتے ہیں۔
تفسیرترجمان القرآن
قرآن کریم جو کہ انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہے، مولانا نے شبانہ روز مطالعے کے بعد اس کی ترجمانی کا نازک فریضہ انجام دیا۔ نومبر 1930ء میں انھوں نے لکھا تھا:
قرآن مجید کامل ستائیس برس سے میرے شب و روز کے فکر و نظر کا موضوع رہا ہے۔ ایک ایک سورت، ایک ایک مقام، ایک ایک آیت اور ایک ایک لفظ پر میں نے وادیاں قطع کی ہیں اور مرحلوں پر مرحلے طے کیے ہیں۔
مولانا کا قرآن مجید کی ترجمانی و تفسیر لکھنے کا ارادہ تو عرصے سے تھا، لیکن انھیں اس کا موقع نہیں مل سکا۔ جس کا سبب سیاسی زندگی کی شورشیں تھیں۔مولانا نے اپنی قرآنی خدمات کے متعلق ’ترجمان القرآن‘ کے دیباچے میں لکھا ہے کہ قرآن کے درس و مطالعے کی تین مختلف ضرورتیں ہیں اور میں نے اُنھیں تین کتابوں میں منقسم کر دیا ہے؛ (۱) مقدمۂ تفسیر (۲) تفسیر ’البیان‘ (۳) ترجمان القرآن۔مقدمۂ تفسیر ؛ قرآن کے مقاصد و مطالب پر اصولی مباحث کا مجموعہ ہے اور اس میںکوشش کی گئی ہے کہ مطالبِ قرآن کے جوامع و کلیات مدون ہو جائیں۔ تفسیر ’البیان‘ فکر و مطالعہ کے لیے ہے اور ’ترجمان القرآن‘ قرآن کی عالمگیر تعلیم و اشاعت کے لیے۔
’ترجمان القرآن‘کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے سعید احمد اکبرآبادی نے لکھا ہے:
مولانا ابوالکلام آزاد نے اردو ادب کے چمن میں حسن و انشا و بیان کے جو پھول کھلائے ہیں، یوں تو وہ سب ہی سدا بہار ہیں، لیکن مستقل تصنیف کی حیثیت سے قرآن مجید کی تفسیر ترجمان القرآن مولانا کی تمام علمی اور ادبی تحریروں میں شاہ کار کی حیثیت رکھتی ہے۔ قلم کی توانائی، اجتہادِ فکر، وسعتِ نظر و مطالعہ اور جذبۂ تحقیق و تدقیق، مولانا کی یہ وہ خصوصیات ہیں جو اُن کی ہر علمی و ادبی تحریر میں نظر آتی ہیں۔ لیکن مولانا کی یہ خصوصیات اس کتاب میں جا بجا نمایاں ہیں اور اس بنا پر اردو زبان کے علمی ذخیرے میں اس کو امتیازی مقام حاصل ہے۔
سیرت النبیﷺ
مولانا آزادنے باقاعدگی سے مستقلاً کوئی سیرت کی کتاب تو نہیں لکھی، البتہ’الہلال‘ اور ’ البلاغ ‘ میں سیرۃ النبیﷺ کے مختلف پہلوؤں پر مختلف اوقات میں متعدد مقالات لکھ کر شائع کیے تھے اور ہر سال ربیع الاول کے موقع پر ضرور ایک دو مقالے تحریر کیا کرتے اور لوگوںکے استفسارات پر بھی تفصیلی جواب سے نوازتے تھے۔ مولانا نے دیگر انبیاے کرام علیہ السلام ، خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعلق سے بھی بہت کچھ لکھ کر سیرت کے موضوع پر قیمتی سرمایہ جمع کر دیا تھا۔ایسی ہے بعض مضامین و مقالات کو ترتیب واضافوں کے ساتھ غلام رسول مہرؔ نے ’رسولِ رحمت‘کے نام سے شایع کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
میں نے سیرتِ طیبہ کے مقالے ترتیب سے رکھے او ان کی فہرست مرتب کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ رسولِ اکرمﷺ کی ذاتِ بابرکات کے متعلق نہایت قیمتی سرمایہ یک جا ہو گیا ہے۔ پھر مولانا کا اندازِ بیان ایسا تھا کہ جو کچھ زبانِ قلم پر آتا، دامنِ دل کو یقین و اعتماد کے گلہاے رنگارنگ سے بھر دیتا اور رشک و تذبذب کی خلش کے لیے کوئی گنجایش باقی نہ رہتی۔
شاعری
مولانا صرف نثر کے ہی بے تاج بادشاہ نہیں،انھیں شعر گوئی کا ملکہ بھی حاصل تھا۔گھر میں علم و ادب کے چرچے رہے، بڑے بھائی مولانا ابو نصر یٰسین آہؔ شاعر تھے، کچھ اُن کی دیکھا دیکھی اور کچھ فطری موزونیت کے سبب وہ بھی شعر کہنے لگے۔ ہاں آگے چل کر انھوں نے نثر کو ہی وسیلۂ اظہار بنایا۔مولانا کی ایک غزل بہ طور نمونہ پیش ہے، جس میں روایتی شاعری کا رنگ غالب ہے۔
کوئی اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا
کوئی نالاں کوئی گرریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دِگر گوں رنگِ محفل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشتِ لیلیٰ کا محمل ہو گیا
انتظار اُس گُل کا اس درجہ کیا گُلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا
تذکرہ
1916ء میں مولانا جب رانچی (بہار) میں نظر بند تھے اور ان کی عمر تقریباً تیس سال تھی، اس وقت ایک کتاب بنام ’تذکرہ‘تصنیف کی ۔ جس کے آغاز میں آبائی و خاندانی حالات، پھر جدِ امجد شیخ جلال الدین کے تفصیلی حالات، بعدہ عہدِ شیر شاہی اور سلیم شاہی کے اولیاء اللہ اور آخر میں امام احمد ابن حنبل، علامہ ابن تیمیہ اور مجددِ الف ثانی رحمہم اللہ کا تذکرہ ہے۔اس کا پہلا ایڈیشن 1919ء میں البلاغ پریس، کلکتہ سے شایع ہوا۔ یہ اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔
غبارِ خاطر
دوسری عالمی جنگ کے موقع پر یعنی اگست 1942ء میں جب مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے، 8تاریخ کی شب کو بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس کا ایک خاص جلسہ منعقد ہوا، جس کے آخری حصے یعنی 9اگست کو علی الصبح حکومت نے بشمول دیگر سرکردہ رہنماؤں کے مولانا آزاد کو بھی احمد نگر کے قلعے میں محبوس کر دیا گیا۔ مختلف مقامات پر تبدیلی کے بعد اس قید و بند سےبالآخر 15جون 1945ء میں رہا کیے گئے۔غبارِ خاطر اسی زمانے کی یادگار اور مولانا کی آخری تصنیف ہے، جو ان کی زندگی ہی میں شایع ہوئی۔مالک رام کے مطابق یہ چند متفرق مضامین کا مجموعہ ہے، جنھیں خطوط کی شکل دے دی گئی ہے۔
سیاست
مولانا ابو الکلام آزاد ایک دور اندیش و مخلص سیاسی لیڈر اور رہنما بھی تھےانھوں نے نامساعد بلکہ مخالف حالات میں اپنی صاحیتوں کو بروئے کارلاکر گو نا گوں کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں۔ ہندستان کی جنگِ آزادی کا خواب جب شرمندۂ تعبیر ہوا، اس وقت ایک اہم المیہ یہ درپیش تھا کہ ملک کو دو حصوں میں پاکستان اور ہندستان کی شکل میں منقسم ہونا پڑا گو بہت سے مسلمان اکابرین بھی اس کے مخالف تھے، لیکن آخر کار ملک دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہا۔ سردار پٹیل اور پنڈت نہرو کے پُر زور اصرار پر مہاتما گاندھی نے بھی بادلِ ناخواستہ ہتھیار ڈال دیے اور یہ عرضی منظور کر لی گئی۔ اُس وقت مسلمانوں کے مستقبل کو اپنی فہم و فراست کی نظر سے دیکھ کر مولانا آزاد نے جامع مسجد دہلی کے منبر سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ رقت آمیز اور پُراز بصیرت خطبہ دیاتھا:
کیا تمھیں یاد ہے کہ میں نے تم کو سمجھانا چاہا تو تم نے میری زبان پر تالے لگا دیے، میں نے قلم اٹھایا تو تم نے میرے ہاتھ قلم کر دیے، میں نے آگے بڑھنا چاہا تو تم نے میرے پیر پابندِ زنجیر کر دیے، میں نے پلٹنا چاہا ، تم نے میری پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا۔ پھر بھی میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم اس مسجد کے میناروں کوکس کے حوالے کرکے جانا چاہتے ہو؟ کیا تم کو یقین ہے کہ وہاں (پاکستان میں) تم کو وہی ملے گا، جس کے تم مستحق ہو؟ ہرگز نہیں، اس لیے تم یہیں رہو اور حالات کا پامردی سے مقابلہ کرو۔
آج ستّر سال بعد بھی امام الہند کے ایک ایک جملے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح ایک اجتہادی خطا کی بنا پر مسلمان ایک ایسی کشتی میں سوار ہو گئے، جس کا کوئی ناخدا نہیںاور خود انھوں نے ملک میں اپنا وقار و وزن ہلکا بنا دیا۔مولاناکے مطابق اگر ملک متحد ہندستان کی شکل میں آزاد ہوتا تو ملک کے تمام صوبوں کو تین زمروں؛ A،Bاور C میں منقسم کیا جاتا۔ حکومت وفاقی طرز کی ہوتی، مرکز کے پاس امورِ خارجہ ، دفاع اور مواصلات کے محکمے ہوتے۔ صوبائی حکومتیں خود مختار یونٹوں کی شکل میں کام کرتیں، جس صوبے میں ہندو یا مسلم‘ جس کی اکثریت ہوتی، اُ س صوبے میں اُسی کا وزیرِ اعلیٰ منتخب کیا جاتا، بقیہ یونٹوں میں آبادی کے تناسب سے یہ مرحلہ طے پاتا۔ سرکاری ملازمتیں تعلیمی، اداروں اور اسمبلیوں میں نمائندگی بھی آبادی کے متناسب ہوتی، لیکن ایسا ہو نہ سکا اور مولانا کو اپنوں اور غیروں کی انتہائی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا۔
بقول مجیب خیرآبادی ؎
دشمنوں کو اپنایا، دوستوں کے غم کھائے
پھر بھی اجنبی ٹھہرے، پھر بھی غیر کہلائے
معلوم ہوا امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کی ہمہ جہت شخصیت میں متعدد و مختلف کمالات پوشیدہ تھے۔جن سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے محض ان کی صحافت پر گفتگو کرنا آسان نہیں۔ پھر اُن کی صحافت بھی موجودہ دور کی سی نہ تھی، جو صحافت کے بجائے کہ سفاہت کے مترادف ہے۔ مولانا کے مطالعے کی وسعت، جمالیاتی ذوق اور فضل و کمال کے متنوع امتزاج نے ان کی شخصیت کی شش جہات کو روشن کر دیا تھا۔ اس پر طرّہ یہ کہ ان کی صحافتی بوالعجمی وبو قلمونی ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتی کہ اس سے سرسری طور پر گزرا جائے۔ ’نیرنگِ عالم‘، ’لسان الصدق‘، ’المصباح‘، ’الندوہ‘، ’الہلال‘، اور ’البلاغ‘ وغیرہ ان کی اعلیٰ صحافت کے ان مٹ نقوش ہیں۔ مولانا آزاد نےصحافت کے توسط سے قومی و بین الاقوامی مسائل پر مجاہدانہ تحریریں لکھنے کے علاوہ قارئین کی ذہبی و اخلاقی اصلاح پر بھی توجہ مبذول رکھی اور اس کے لیے ادب و انشا کو وسیلۂ اظہار بنایا۔
ہندستان کی صحافتی تاریخ میںمولانا ابو الکلام آزادکا مقام بہت بلند ہے۔ خاص طور سے ان کے شاہ کار ’الہلال‘کی حیثیت ایک مینارۂ نور کی ہے۔مولانا نےایک طرف جہاں ’الہلال‘ کے ذریعہ خوابِ غفلت میں ڈوبے ہوئے ہندستانی سماج کو بیدارکیا، وہیں تحریکِ آزادی کے کارواں کو بھی مہمیز کیا۔مولانا نے اپنی صحافت کے ذریعے نہ صرف قومی و ملّی جذبات کی ترجمانی کی بلکہ عالمی مسائل کا احاطہ بھی کیا۔ انھوں نے مذہبی، ادبی، سیاسی اور صحافتی مختلف النوع خدمات انجام دیںاور مسلم قوم کو احساس کم تَری سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ ان کی صحافت نے درحقیقت اُردو صحافت کو ایک نیا معیار و اعتبار عطا کیا۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافت ایسی تھی جسے خود انھوں نے ایجاد کیا اور وہ اُن ہی کے ساتھ ختم ہو گئی۔
مولانا آزاد ایک ایسے علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، جہاں صحافت کی حیثیت گھر کی لونڈی کی سی تھی۔ بچپن سے ہی انھوں نے ملک کے کونے کونے سے نکلنے والے اخبارات و رسائل کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا تھا اور ابھی ان کی عمر صرف 11برس کی تھی کہ انھوں نے ایک رسالہ’نیرنگِ عالم‘ شایع کرنا شروع کر دیا، لیکن یہ اخبار جلد ہی بند ہو گیا۔ اس کے بعد مولانا کا تعلق ’المصباح‘، ’احسن الاخبار‘، ’تحفۂ محمدیہ‘، ’خدنگِ نظر‘، ’لسان الصدق‘، ’الندوہ‘، ’وکیل‘ اور ’دا ر السلطنت‘ وغیرہ جرائد سے رہا۔ وہ ’مخزن‘ اور دیگر اخبار ورسائل میں بھی برابر لکھتے رہے۔ ’الہلال‘ سے قبل مولانا کو تقریباً متعدد اخبارات و رسائل کی ادارت کا تجربہ ہو چکا تھا، لیکن سچ بات یہ ہے کہ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز اور عروج ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کی اشاعت ہے۔
مولانا آزاد کے نزدیک صحافت ایک مقدس پیشہ تھی جسے وہ بے لوثی اور بے غرضی کے ساتھ اپنانے کے داعی تھے۔ جو لوگ اس پیشے کو خود غرضی اور مطلب پرستی کے ہاتھوں بدنام کرتے ہیں، مولانا نے ان پر سخت تنقید کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہونا چاہیے اور چاندی اور سونے کا تو سایہ بھی اس کے لیے سمِ قاتل ہے، جو اخبار نویس رئیسوں کی ضیافتوں اور امیروں کے عطیوں کو قومی اعانت، قومی عطیہ اور اسی طرح کے فرضی ناموں سے قبول کرلیتے ہیں، وہ بہ نسبت اس کے کہ اپنے ضمیر اور نورِ ایمان کو بیچیں‘ بہتر ہے کہ دریوزہ گری کی جھولی گلے میں ڈال کر اور قلندروں کی کستتی کی جگہ اور قلم دان لے کے رئیسوں کی ڈیوڑھیوں پر گشت لگائیں اور ہر گلی کوچہ ’کام ایڈیٹر کا‘ کی صدا لگا کر خود اپنے تئیں فروخت کرتے رہیں۔
مولانا صحافت کو کسی بھی دباؤ میں آنے کو سخت نقصان دہ گر دانتے تھے، جس سے کسی دانا و بینا کو انکار نہیں ہو سکتا۔ وہ ایسے صحافیوں کو ایک دھبّا سمجھتے تھے جو کسی انسان یا جماعت سے کچھ حاصل ہونے کے سبب قلم کی حق بیانی سے منحرف ہو جائے۔ مولانا صحافت کو خدا کے عظیم الشان فرض یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وسیلہ سمجھتے تھے۔خود اُنھیں ایک موقع پر ایک رئیس کی طرف سے ایک چیک نذر کیے جانے پر انھوں نے یہ کہہ کر اسے لوٹا دیا:
ہمارے عقیدے میں تو جو اخبار اپنی قیمت کے سوا کسی انسان یا جماعت سے کوئی اور رقم لینا جائز رکھتا ہو‘ وہ اخبار نہیں بلکہ اس فن کے لیے ایک دھبّا اور سر تاسر عار ہے۔ ہم اخبار نویسوں کی سطح کو بہت بلندی پر دیکھتے ہیں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرضِ الٰہی ادا کرنے والی جماعت سمجھتے ہیں۔ پس اخبار نویس کے قلم کو ہر طرح کے دباو سے آزاد ہونا چاہیے۔
مولانا کی صحافت کے ادوار
مولانا آزادکی صحافت کو تاریخی اعتبار سے مندرجۂ ذیل چار ادوارمیں تقسیم کیا جاسکتا ہے؛پہلا دور جو 1889-1903ءکا زمانہ ہے،یہ تجربے اور مشق کا دور ہے۔ جس میں انھوں نے مختلف اخبارات و رسائل کے ذریعے میدانِ صحافت کی سیاحت کی۔ دوسرا دور وہ ہے،جب ان کی عمر تقریباً 20 سال ہوئی تو ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی، جس کے چلتے کچھ وقت کے لیے وہ صحافت سے کنارہ کش ہو گئے۔ لیکن یہ وقفہ ’الہلال‘صورت میں نمودار ہوا، جس نے صحافت کے نور کو عام کیا۔نہ صرف مولانا آزاد بلکہ اردو صحافت کا عظیم کارنامہ ہے۔ اسے ان کی صحافت کا تیسرا دور شمار کرنا چاہیے۔اس دور میں چھبیس ہزار کی اس کی تاریخی اشاعت نے سب کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور علامہ اقبالؔ تک نے اس کے لیے خریدار فراہم کیے۔’الہال‘ نے موضوعات کا بے مثال تنوع پیش کیا،جس میں مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، عمرانیات، جغرافیہ، تاریخ و سوانح اورمسائل حاضرہ نیز ادب وغیرہ سب ہی کچھ موجود تھا۔مولانا کی صحافت کا چوتھا اور آخری دور رانچی میں نظربندی اور رسل رسائل کے منقطع ہو جانے کا دور ہے، جس میں انھوں نے تصنیف و تالیف کو خصوصی مشغلہ بنایا۔اسی زمانے میں ان کے دل کا غبار بصورت ’غبارِ خاطر‘ منظرِ عام پر آیا اور وہ خود اپنا ’تذکرہ‘ لکھنے پر مائل ہوئے۔یہ وہ ادبی و صحافتی اثاثہ ہے، جن سے براہ ِ راست محظوظ ہوئے بغیر ان کی قدر و قیمت کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔
نیرنگِ عالَم
یہ دراصل ایک ماہانہ ’گلدستہ‘ تھا،جس میں شعری کلام شایع ہوتا تھا۔ مولانا نے فقط گیارہ سال کی عمر یعنی نومبر 1899ء میںاسے ہریسن روڈ پر واقع ہادی پریس، کلکتہ سے جاری کیا۔ اس کے غالباًآٹھ شمارے شایع ہوئے، جو ان کی عمر کے لحاظ سے ہمیں حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔
خدنگِ نظر
1897ء میں منشی نوبت راے نے لکھنؤ سے ایک ماہنامہ بنام ’خدنگِ نظر‘ نکالنا شروع کیا تھا، جس میں ابتداء ً صرف منظوم کلام شایع ہوتا تھا۔ 1900ء سے جب اس میں مضامین شایع ہونا شروع ہوئے تو اس نثری حصے کی ترتیب مولانا کے سپرد کی گئی۔
المصباح
تقریباً بارہ سال کی عمر یعنی22جنوری 1901ءکو مولانا نے مصر کے ایک اخبار’مصباح الشرق‘ کی تقلید میں ہفتہ وار ’المصباح‘ نکالنا شروع کیا، جس میں پہلا مضمون ’عید‘لکھا۔ یہ اس قدر مقبول ہوا کہ متعدد اخبارات نے اسے شایع کیا۔ ’المصباح‘نے تین چار ماہ جاری رہ کر دم توڑ دیا۔
احسن الاخبار
1901ء میں سید احمد حسن نے کلکتہ سے ’احسن الاخبار‘نامی ایک ہفتہ وار جریدہ جاری کیا تھا۔مولانا اس میں جنوری 1902ء سے منسلک ہوئے اور تقریباً دو سال تک اس کی ترتیب کی خدمات انجام دیں۔ اس میں مولانا کے متعدد مضامین بھی شایع ہوئے اور اسی زمانے میں انھوں نے مصر، قسطنطنیہ، طرابلس اور تیونس وغیرہ کے اخبارات کا مطالعہ کیا۔جس کے زیرِ اثر انھوں نے مصر کے اخبارات ’الہلال‘ اور ’المنار‘کی طرح اپنے جریدوں کے نام ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ رکھے۔
لسان الصدق
ماہ نامہ ’لسان الصدق‘اس کا پہلا شمارہ 20نومبر 1903ء کو شایع ہوا تھا، جب کہ مولانا کی عمر فقط پندرہ سال تھی۔ اس زمانے میں بھی مولانا کی سنجیدگی و متانت کا یہ عالم تھا کہ ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر ’انجمن حمایتِ اسلام، پنجاب‘کے اصحاب نے 1904ء کے سالانہ اجلاس میں مدیرِ لسان الصدق کو خطاب کی دعوت دی۔ یکم اپریل 1904ء کو مولانا نے اس اجلاس میں ’تبلیغِ اسلام کا طریقِ کار‘کے موضوع پر تقریر کی۔ ’لسان الصدق‘ بھی تقریباً اٹھارہ ماہ جاری رہ کر بند ہو گیا۔اس رسالے کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا آزاد نے لکھا تھا کہ ’لسان الصدق‘ میں ذیل کی خصوصیتیں ایسی جمع ہو گئی ہیں، جن کی نظیر اُردو کے عام رسائل میں نہیں مل سکتیں:(۱) نئے نتیجہ، لٹریری اور تفریحی ترک کرکے صرف کارآمد علمی مضامین اس میں شایع کیے جائیں گے (۲) مضامین کے علاوہ ایک سلسلہ مشاہیر الشرق کا قایم کیا جاے گا، جس میں انیسویں صدی کے مشرقی افاضل اور مشاہیر کے حالات مع تصویر شایع کیے جائیں گے(۳) مشاہیر الشرق کے علاوہ اور تاریخی اور سائنٹفک مضامین انگریزی رسائل کی طرز پر با تصویر شایع کیے جائیں گے(۴) سائنس کی مختلف شاخوں پر دلچسپ مضامیں لکھے جائیں گے اور اُن کے مرتَّب سلسلے ماہوار شایع ہوں گے(۵) ملک کے وہ مشہور مصنف جن کی تحریرات مستقل تصانیف کے علاوہ عام اخبارات و رسائل میں بہت کم شایع ہوتی ہیں، ان کی پاکیزہ تحریریں اس رسالے میں نظر آئیں گی۔
رسالے کی مذکورہ بالا خصوصیات کو پڑھیے اور مولانا کی عمر پر نظر رکھیے تو انتہائی حیرت ہوتی ہے کہ پندرہ سولہ سال کا لڑکا کیسےاصول و ضوابط کی سنجیدہ باتیں کرتا ہے۔
ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بیان کے مطابق لسان الصدق مولانا آزاد کی ادارت میں نکلنے والا پہلا رسالہ تھا جو علمی، ادبی، تعلیمی اور معاشرتی اصلاح اور ترقی کے اہم مقاصد کے تحت جاری کیا گیا تھا اور پہلے پرچے سے لے کر آخری پرچے تک اس کے تمام مضامین اور ان کا ایک ایک لفظ ان مقاصد کا ترجمان اور ان کے حصول کا محرک ثابت ہوا۔ اس کے مقاصد کی اہمیت کے اعتراف سے اس وقت کی ادب و صحافت کی پوری دنیا گونج اٹھی تھی۔ اس کے موضوعات کی اہمیت، مضامین کی افادیت، اسلوب کی دل ربائی اور ترتیب و تدوین کے حسن نے وقت کے تمام اہلِ ذوق کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ لسان الصدق کے اجرا سے مولانا کے پیشِ نظر زبان و ادب اور تنقید میں ذوق کی تسکین و تربیت اور معاشرتی اصلاح کے جن مقاصد کا حصول تھا، ان کا ہر جز جس طرح اس وقت لائقِ توجہ تھا، اسی طرح آج بھی ان کی اہمیت اور افادیت مسلّم ہے۔
الندوہ
1905ء میں مولانا شبلی نعمانی نے مولانا آزاد کو لکھنؤ آنے اور ماہ نامہ ’الندوہ‘کی ترتیب و تدوین میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ یہ خالص علمی و تحقیقی مجلّہ اور دارالعلوم، ندوۃ العلماء لکھنؤ کا آرگن تھا اور اس وقت مولانا کی عمر تقریباً سترہ سال تھی۔جس سے مولانا آزاد کے فضل و کمال کا اندازہ لگانا آسان ہے کہ شبلی نعمانی جیسے محقق و مصنف نے انھیں ایسی اہم ذمّے داری سونپنے کا فیصلہ کیا۔مولانا آزاد ان کی دعوت پر اکتوبر 1905ء سے مارچ 1906ء تک چھے ماہ ’الندوۃ‘ میں خدمات انجام دیتے رہےاور پھر کسی سبب علاحدہ ہو گئے۔
ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کے بیان کے مطابق ماہ نامہ ’الندوہ‘ ندوۃ العلما، لکھنؤ کا علمی ترجمان تھا اور ندوے کی روحِ رواں علامہ شبلی کی خواہش تھی کہ ابوالکلام اس کے معاون مدیر بننے کی ذمّے داری قبول کریں۔ سبب یہ تھا کہ طرفین میں کئی برس پہلے ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ نیز شبلی، آزاد کے جاری کردہ ’نیرنگِ عالم‘ (گلدستہ)، ’المصباح‘ اور ’لسان الصدق‘ وغیرہ کے ذریعے ان کے غیر معمولی علمی ذوق اور دقیقہ رس مزاج سے بہ خوبی واقف ہو چکے تھے۔ ’خدنگِ نظر‘ میں ابوالکلام کے شایع ہونے والے مضامین بھی ان کی نظر سے گزر چکے تھے۔ وہ ایک موقع پر آزاد سے کہہ چکے تھے’تمھارا ذہن و دماغ تو عجائبِ روزگار میں سے ہے‘۔ مختصر یہ کہ آزاد نے شبلی سے اپنی غیر معمولی عقیدت اور مؤخر الذکر کے اصرار کے پیشِ نظر اکتوبر 1905ء میں ’الندوہ‘کے معاون مدیر کی حیثیت سے ذمّے داری سنھبالی اور قریباً چھے سات ماہ تک اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
وکیل
’الندوہ‘سے علاحدہ ہونے پر امرتسر سے شیخ غلام محمد نے انھیں ’وکیل‘کی ادارتی ذمّے داری سپرد کی، جس کی مقبولیت میں مولانا نے اپنی صلاحیتوں و محنتوں سے خوب اضافہ کیا۔ لیکن اس دوران بھائی– مولوی ابوالنصر غلام یاسین جو عراق میں سیاحت کی غرض سے گئے ہوئے تھے– کا انتقال ہو جانے کے سبب انھیںاپریل سے نومبر( 1906ء) فقط آٹھ ماہ میں امرتسر کو خیر باد کہنا پڑا۔ اگست 1907ء میں ایک بار پھر وہ اس خدمت پر مامور کیے گئے، لیکن ناسازگیِ طبیعت کے سبب تقریباً ایک سال میں جولائی یا اگست 1908ء کو علاحدہ ہو گئے۔
دارالسلطنت
یہ کلکتہ سے شایع ہونے والا ایک ہفت روزہ اخبار تھا، جس کے مالک و مدیر عبدالہادی تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی اشاعت موقوف ہو گئی تھی۔ 1907ء میں ان کے صاحب زادے محمد یوسف نے اسے دوبارہ جاری کیا اور اسی زمانے میں قلیل عرصے کے لیے مولانا نے اس کی ادارت سنبھالی۔
الہلال اور البلاغ
اس کے بعد مولانا نے ’الہلال‘ جاری کیا، جو کہ ملتِ اسلامیہ کے جذبے کے تحت نکالاگیاتھا۔ اِ س کا اپنا پریس ، انتظامی اور ادارتی عملہ تھااور مولاناآزاد اُس کے تمام امور کے نگراں اور مدیرِ مسئول تھے۔ اس کے بعد’ البلاغ‘جاری کیاگیا،جو گویا کہ ’الہلال‘ ہی کا دوسرا نام تھا۔
’الہلال‘ کا پس منظر بیان کرتے ہوئے مولانا نے لکھا تھا کہ ۱۹۰۸ء میں کلکتہ چھوڑنے سے پہلے میں سیاسی خیالات کے اعتبار سے انقلابی سرگرمیوں کی طرف مائل ہو چکا تھا۔۔۔عرب اور ترک انقلابیوں سے تعلقات ہونے کا یہ نتیجہ نکلا کہ میرے سیاسی عقائد راسخ ہو گئے۔۔۔اب میرے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ ہندستانی مسلمانوں میں سیاسی بیداری کی ایک نئی تحریک شروع کی جائے۔۔۔میں کچھ دنوں تک غورکرتا رہا کہ مجھے اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کرنا اور کیا پروگرام بنانا چاہیے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں اپنے خیالات پبلک تک پہنچا کر اپنی موافقت کے لیے رائےعامّہ پیدا کرنا چاہیے اور اس کے لیے ایک اخبار جاری کرنا ضروری تھا۔۔۔[اسی مقصد سے میں نے ایک اخبار نکالنے کی ٹھانی اور] میں نے فیصلہ کیا کہ میرا اخبار طباعت کے اعتبار سے بھی دیدہ زیب ہوگا اور دعوت و اسلوبِ بیان کے اعتبار سے بھی ایسا ہوگا کہ پڑھنے والوں کے دل جوش و جذبات سے لبریز ہو جائیں۔ میں نے اسے لیتھو کے بجاے ٹائپ میں نکالنے کا فیصلہ کیا۔ اس عزم کے مطابق میں نے الہلال پریس قایم کیا اور 1912ء میں ’الہلال‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار اخبار جاری کیا۔ اس کا پہلا نمبر 13جولائی کو نکلا تھا۔ اس کی اشاعت سے اُردو صحافت کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس اخبار کو قلیل مدت کے اندر بے نظیر ہر دل عزیزی حاصل ہوئی۔ پبلک کے لیے صرف اس کی اعلیٰ طباعت باعثِ کشش نہ تھی، بلکہ اس سے زیادہ قومیت کا وہ جذبہ تھا، جس کی وہ دعوت دیتا تھا۔ ’الہلال‘ نے عوام میں ایک انقلابی تحریک پیدا کر دی اور لوگوں میں وہ ایسا مقبول ہوا اور اس کی طلب کا جذبہ تین مہینوں کے اندر اندر اس کے تمام ابتدائی نمبروں کو دوبارہ شایع کرنا پڑا، اس لیے کہ ہر نیا خریدار چاہتا تھا کہ اس کے پاس اس کے ابتدائی نمبروں کا بھی مکمل سیٹ ہو۔
مختصر یہ کہ’ الہلال‘ نے بہت جلدشان دار مقبولیتِ عام حاصل کر لی۔جس کی وجہ ترقی پسند سیاسی تخیلات، معقول مذہبی ہدایات اور عمدہ و سنجیدہ ادبی شہ پارے کا شامل ہونا تھا۔مولانا کا یہ کارنامہ حکومت کی آنکھ میں ابتدا سے ہی کھٹکتا رہا اور اس کی طرف فقط دو مہینے یعنی 18ستمبر1912ء کو دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کی گئی، جو ادا کر دی گئی۔لیکن الٰہ آباد کے ایک انگریزی روزنامے ’پانئیر‘کی طرف سے لکھے جانے والے ایک سخت مضمون کی پاداش میں سابقہ رقم ضبط کر کے مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کی، جس کی عدم استطاعت کے سبب 8نومبر 1914ء میں بیس شمارے مکمل کرکے اسے موقوف کرنا پڑا۔
تقریباً سال بھر کے بعد 12نومبر 1915ء کو مولانا نے نئے نام ’البلاغ‘ سے ایک رسالے کا اجرا کیا، جو کہ ’الہلال‘نقشِ ثانی تھا۔ لیکن یہ بھی فقط پانچ ماہ جاری رہ کر مارچ 1916ء کو حکومت کے عتاب کا شکار ہو کر بند کر دیا گیا۔
پھر تقریباً بارہ سال کے بعد ’الہلال‘کے دورِ ثانی کا آغاز ہوا اور 10جون 1927ء کو اس دور کا پہلا شمارہ شایع کیا گیا۔جس میں مولانا شبلی نعمانی،مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبد السلام ندوی اور مولانا عبد اللہ عمادی وغیرہ کی قلمی کاوشیں شایع ہوتی تھیں اور اس کی ترتیب وغیرہ کے ذمّے دار مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی تھے لیکن اس بار بھی بیس شمارے شایع ہو کر 9دسمبر 1927ء کو بند کر دیا گیا۔
پروفیسر سید سفارش حسین لکھتے ہیں:
الہلال کا انداز بالکل نرالا تھا اور اس کا اندازِ تخاطب سب سے انوکھا۔ دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی بات کو دل کی گہرائیوں ہی میں پہنچ کر قرار آنا تھا۔ اس کے صفحات تلخ حقیقتوں سے لبریز تھے اور اس کی ایک ایک سطر نشتر کا حکم رکھتی تھی، پھر بھی پڑھنے والا ایسا محسوس کرتا گویا وہ بھی یہی کہنا چاہتا تھا۔ اس کا طرزِ تنقید، اس کا طریقۂ اعتراض اور اس کی حق گوئی، جذبۂ مخالفت کو ابھارنے کے بجائے لوگوں کے دلوں کوگرمیِ عمل سے گرماتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ الہلال نے جتنی کم مدت میں لوگوں کے ذہن، معتقدات اور رجحانات میں بنیادی تبدیلی پیدا کر دی، اس کی دوسری مثال ممکن نہیں۔ الہلال کے بعد البلاغ نے اس کی جگہ لی، لیکن کم مایہ قوم کی کم نصیبی کہ جلد ہی وہ اِن جواہر ریزوں سے محروم ہو گئی۔
نیز امداد صابری کے مطابق مولانا کی ادارت میں الہلال نے ہندستان کے عوام کو انگریزوں کے خلاف جد و جہد کی ہی دعوت نہیں دی تھی بلکہ انھیں یہ بھی بتایا کہ انگریز سامراج کے خلاف ان کی جد و جہد تمام آزاد پسند اقوام کی جد و جہد کا ایک جزو ہے۔ اس طرح الہلال نے ہندستان کے مجاہدینِ آزادی کے ذہنی افق کو وسعت بخشی اور ان کے عزائم اور ارادوں کو پختگی دی۔
پیغام
مولانا نے23ستمبر 1921ء کو کلکتہ سے ’پیغام‘نامی ایک رسالہ جاری کیا تھا، جس کی ترتیب مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کے سپرد کی گئی تھی۔ اس میںمولانا نے معرکہ آرا تحریریں شایع کی ہیں، لیکن دیگر ملکی و سیاسی ذمّے داریوں کے سبب وہ اس جانب کماحقہ توجہ نہیںدے سکے۔اسی سال 17 نومبر کو شہزادہ ’ویلز‘ہندستان آیا، جس کا ’پیغام‘نے بایکاٹ کیا اور بالآخر مولانا آزاد اور مرتب مولانا ملیح آبادی 9فروری 1922ء کو عدالتی فیصلے کے بعد جیل چلے گئے، اور ’پیغام‘بند کر دیا گیا۔ اس کا آخری شمارہ 16دسمبر 1921ء کو شایع ہوا۔
علاوہ ازیں روزنامہ اقدام، مخزن،ماہ نامہ ریویو، تحفہ احمدیہ، رسالہ محمدیہ اور ماہ نامہ الجامعہ(عربی) میں بھی مولانا نے صحافتی خدمات انجام دی ہیں۔مولانا کے نزدیک صحافت ترسیل و ابلاغ کے ساتھ رائے سازی و رہنمائی کا بھی وسیلہ تھا لیکن ان کی سیمابی طبیعت کسی ایک جگہ ٹھہر کر کام کرنے کا موقع نہ دیتی تھی۔
****
مولانا ندیم انصاری شعبہ اردو، اسماعیل یوسف کالج ، جوگیسوری ، ممبئی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ مندرجہ ذیل میل ای میل پر ان سے رابطہ کرسکتے ہیں
bin.yameen86@gmail.com
Yaum E Iqbal par Jalgaon mein Mushaira
Articles
علامہ اقبال کی یوم پیدائش پر جلگاؤں میں مشاعرے کا انعقاد
وسیم عقیل شاہ
Drama “Allama Iqbal” ki Tareekhsaz Kamiyabi
Articles
ڈرامہ "علامہ اقبال"تاریخ ساز کامیابی سے ہمکنار
وسیم عقیل شاہ
۹ نومبر ، حکیم الامّت اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے یومِ پیدائش پر آئیڈیا گروپ نے شکنتلم اسٹوڈیو اندھیری میں قاضی مشتاق صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ “علامہ اقبال”مجیب خان کی ہدایت میں کامیابی کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا۔ اس ڈرامے میں مشہور و معروف نوجوان شاعر ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے علامہ اقبال کا کردار ناظرین کے سامنے انتہائی شاندار طریقے سے پیش کیا اور عوام الناس سے داد و تحسین حاصل کی۔ڈرامہ “علامہ اقبال”شاعرِ مشرق کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس ڈرامے میں علامہ اقبال کے بچپن سے لیکر انتقال تک کے واقعات انتہائی خوبصورتی اور ایمانداری کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ علامہ کا سفرِ انگلستان ، قیام ممبئی، انجمن کی عمارت دیکھ کر ممبئی کے مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کے تئیں متاثر ہوجانا جیسے بے شمار واقعات پر مبنی یہ ڈرامہ ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی طرح اس ڈرامے کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی کہ علامہ کے والد کا ذریعۂ روزگار کیا تھا، والدہ نے کس طرح ان کی تربیت کی، آپ کے بھائی آپ کی تعلیم کے تعلق سے کس قدر فکرمند رہا کرتے تھے، مولانا میر حسن کی تربیت نے اقبال پر کیا نقوش چھوڑے، علامہ کی ذاتی زندگی کے حالات، استاد فتنہ کی فتنہ پروری، چودھری الفت علی کی سازشیں، سر کا خطاب، مولانا میر حسن کے لیے شمس العلما کے خطاب کی سفارش، سرزمینِ حجاز پر مسلمانوں کے چندے سے شفاخانہ تعمیر کرنے کی انگریز ی حکومت کی چالیںاور علامہ اقبال کی مخالفت، نظم شکوہٰ پر عوام کی جانب سے مخالفتیں اور اس کے جواب میں اقبال کی جانب نظم جواب شکوہٰ، علامہ کا انتقال اور تعزیتی قرارداد۔ ۹ نومبر ، حکیم الامّت اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے یومِ پیدائش پر آئیڈیا گروپ نے شکنتلم اسٹوڈیو اندھیری میں قاضی مشتاق صاحب کا تحریر کردہ ڈرامہ “علامہ اقبال”مجیب خان کی ہدایت میں کامیابی کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا۔ اس ڈرامے میں مشہور و معروف نوجوان شاعر ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے علامہ اقبال کا کردار ناظرین کے سامنے انتہائی شاندار طریقے سے پیش کیا اور عوام الناس سے داد و تحسین حاصل کی۔ڈرامہ “علامہ اقبال”شاعرِ مشرق کی زندگی کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس ڈرامے میں علامہ اقبال کے بچپن سے لیکر انتقال تک کے واقعات انتہائی خوبصورتی اور ایمانداری کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ علامہ کا سفرِ انگلستان ، قیام ممبئی، انجمن کی عمارت دیکھ کر ممبئی کے مسلمانوں کی تعلیمی بیداری کے تئیں متاثر ہوجانا جیسے بے شمار واقعات پر مبنی یہ ڈرامہ ناظرین کی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی طرح اس ڈرامے کے ذریعے یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی کہ علامہ کے والد کا ذریعۂ روزگار کیا تھا، والدہ نے کس طرح ان کی تربیت کی، آپ کے بھائی آپ کی تعلیم کے تعلق سے کس قدر فکرمند رہا کرتے تھے، مولانا میر حسن کی تربیت نے اقبال پر کیا نقوش چھوڑے، علامہ کی ذاتی زندگی کے حالات، استاد فتنہ کی فتنہ پروری، چودھری الفت علی کی سازشیں، سر کا خطاب، مولانا میر حسن کے لیے شمس العلما کے خطاب کی سفارش، سرزمینِ حجاز پر مسلمانوں کے چندے سے شفاخانہ تعمیر کرنے کی انگریز ی حکومت کی چالیںاور علامہ اقبال کی مخالفت، نظم شکوہٰ پر عوام کی جانب سے مخالفتیں اور اس کے جواب میں اقبال کی جانب نظم جواب شکوہٰ، علامہ کا انتقال اور تعزیتی قرارداد۔ اس ڈرامہ میں ڈاکٹر ذاکر خان نے علامہ اقبال کی شاعری اور زندگی کے حقیقی واقعات انتہائی مہارت کے ساتھ ناظرین کے سامنے پیش کیا۔اسی طرح علامہ اقبال کے والد کا کردار، والدہ کا کردا،مولانا میرحسن، استاد فتنہ، انگریز آفیسر، چودھری الفت علی اور انعام اللہ جیسے کرداروں کو ادا کرنے والے اداکاران نے اس ڈارمے میں جان ڈال دی۔یقیناً یہ ڈرامہ علامہ اقبال کی حیات و شاعری پر مبنی ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ مجیب خان صاحب کا کمال یہ ہے کہ آپ نے اس ڈارمے کو ایسے اداکاران کے ساتھ اسٹیج پر پیش کیا جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ اقبال کے مرکزی کردار کو چھوڑ کر باقی تمام اداکاران اردو سے نابلد ہیں لیکن پورے ڈرامے میں کہیں بھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ غیر اردو داں طبقے کے اداکاران ایک خوبصورت اردو ڈرامہ پیش کررہے ہیں۔علامہ اقبال کی یومِ پیدائش اور یومِ اردو پر علامہ اقبال کے لیے اس سے بڑا خراجِ عقیدت اور کیا ہوسکتا ہے۔ علامہ اقبال کے مرکزی کردار کو ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر نے نبھایا جبکہ سلوچنا کڈوانی نے علامہ کی والدہ ، محمد شارق نے والد اور ونائیک سنگھ نے علامہ کے بچپن اور استاد فتنہ کا رول ادا کیا۔ اسی طرح ساحل کمارمولانا میر حسن اور انگریز ی حکومت کے کارندے انعام اللہ کے رول میں نظر آئے، ونئے کمار نے برٹش آفیسر کا کردار ادا کیا، اسیت پاترا الفت علی جاگیردار بنے، علقمہ نے الفت علی جاگیر دار کے نوکر کا کردار ادا کیا۔ مشہور فلمی میک اپ آرٹسٹ پرشانت چوہان نے میک اپ مین کے فرائض انجام دیے۔
Qura’an mein Tamam Imbia ka Zik’r Keun Nahi Hai
Articles
قرآن میں تمام انبیا کا ذکر کیوں نہیں ہے
مولانا ابو الکلام آزاد
Khizr E Hayat: Abul Kalam Azad by Dr. Hamid Ashraf
Articles
خضرِ حیات: مولانا ابو الکلام آزاد
ڈاکٹر حامد اشرف / جاگیردار عذراشیرین
India Wins Freedom (Urdu) by Abul Kalam Azad
Articles
آزادیِ ہند ۔۔۔۔انڈیا وینس فریڈم
مولانا ابو الکلام آزاد
Maulana Abulkalam Azad ka Swanahi Khaka by Haseeb Ahmad Haseeb
Articles
مولانا ابو الکلام آزاد رح کا سوانحی خاکہ اور تفسیری منہج
حسیب احمد حسیب
بر صغیر پاک و ہند کے اہل علم کی ایک طویل فہرست ہے کہ جو مروجہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کا بھی خاص درک رکھتے تھے اور انہوں نے علوم دینیہ کے حوالے سے جدید انداز میں کام بھی کیا گو کہ ایسے احباب کی تفردات بھی بے شمار ہیں لیکن انکے علمی کام سے انکار بھی ممکن نہیں .
اسی فہرست کا ایک درخشندہ ستارہ مولانا ابو الکلام آزاد رح بھی تھے لیکن افسوس کے آپ کے علمی کمالات آپ کی سیاسی فکر کے پیچھے پوشیدہ ہو گئے اور خاص کر پاکستان کی سیاسی فضاء اور تقسیم کے قضیے کے تناظر میں مولانا آزاد رح کی علمی حیثیت کے ساتھ جو تعصب برتا گیا وہ انتہائی قابل افسوس ہے اسی حوالے سے مولانا اصلاحی مرحوم رح کو ایک تحریر بھی لکھنا پڑی .
مولانا پر بے جا تنقید
پاکستان اور ہندوستان کے متعدد مخلصین نے ہمیں کراچی کے ایک معاصر کے ایک مضمون کی طرف توجہ دلائی ہے جو معاصر مذکور کی مارچ کی اشاعت میں ’’پردہ اٹھنے کے بعد‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ یہ مضمون مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ یہ پورا مضمون نہایت ہی توہین آمیز اور حد درجہ دل آزار ہے۔ یہ معاصر مولانا مرحوم کے متعلق اسی قسم کا ایک دل آزار مضمون اس سے پہلے بھی شائع کر چکا ہے۔ مولانا آزاد معاصر مذکور کی نظر میں جیسے کچھ بھی ہوں، لیکن اب وہ اپنے رب کے پاس جا پہنچے! وفات پا جانے والوں سے متعلق ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کہ اگر ان کی کچھ بھلائیاں ہمارے علم میں ہوں تو ان کا ذکر کریں، ورنہ کم از کم ان کی لغزشوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ جو لوگ مولانا کے وفات پا چکنے کے بعد ان کا پردہ اٹھانے کی سعی میں سرگرم ہیں، ان کے سینے ہمارے نزدیک خوف خدا سے بالکل خالی ہیں۔ وہ اپنے اس رویہ سے اللہ تعالیٰ کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ اسی دنیا میں ان کے پردے چاک کرے۔
مولانا آزاد مکہ میں نہیں پیدا ہوئے کھیم کرن میں پیدا ہوئے۔ ان کے باپ کوئی بڑے عالم نہیں تھے، بلکہ مسجد کو رہن رکھنے والے اور بدعتی آدمی تھے۔ سوال یہ ہے کہ ان تحقیقات سے اقامت دین کے اس نصب العین کو کیا تقویت پہنچ رہی ہے جس کے یہ حضرات کل تک علم اٹھائے پھر رہے تھے! مولانا آزاد میں جو بڑائیاں اور خوبیاں تھیں، وہ یہ نہیں تھیں کہ وہ بہت بڑے باپ کے بیٹے یا کسی بہت بڑی درس گاہ سے نسبت رکھنے والے تھے، بلکہ یہ ساری خوبیاں ان کی ذاتی خوبیاں تھیں اور وہ اتنی شان دار تھیں کہ ان کے بدتر سے بدتر حاسد بھی ان کا انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے۔ مولانا آزاد نے دوسروں کی نسبت سے خود شرف حاصل نہیں کیا، بلکہ اپنی نسبت سے دوسروں کو شرف بخشا۔
مولانا کی عربی دانی کی بحث بھی ایک غیر ضروری اور غیر مفید بحث ہے۔ اور اگر یہ بحث کچھ مفید بھی ہے تو بہرحال ان لوگوں کے اٹھانے کی نہیں ہے جو خود عربی، فارسی، انگریزی، ہر چیز سے بے بہرہ ہیں۔
مولانا پر یہ طنز بھی ہمارے نزدیک ابھی قبل ازوقت ہے کہ ’بھارت میں گائے کے ذبیحہ کی ممانعت سے لے کر توہین رسول تک کے اندوہناک واقعات رونما ہو گئے، مگر حزب اللہ کے موسس امام الاحرار مولانا محی الدین المکنی بابی الکلام الدہلوی دم سادھے بیٹھے رہے!‘
مولانا پر یہ طنز اس وقت موزوں رہے گا جب یہ حضرات بھارت کے کفرستان میں نہیں، بلکہ پاکستان کے اسلامستان میں، جو سو فی صد مسلمانوں کا ملک ہے اور اسلام ہی کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، کچھ کر کے دکھا سکیں۔ ابھی تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن حضرات کو اپنے ناخن تدبیر کی جولانیوں پر بڑا ناز تھا، رشتہ میں ایک ہی گرہ پڑ جانے سے، وہ اس طرح چکرا گئے ہیں کہ گرہ کھولنے کے بجاے سر کھجانے میں مصروف ہیں :
اس بے بسی میں یارو، کچھ بن پڑے تو جانیں
جب رشتہ بے گرہ تھا ناخن گرہ کشا تھا
بہرحال، مولانا مرحوم کے متعلق اس طرح کی بحثیں جو لوگ چھیڑ رہے ہیں، ان کے ظرف کے متعلق کوئی اچھی راے نہیں قائم کی جا سکتی۔ مولانا آزاد ان حضرات کے نزدیک واقدی کی طرح کذاب ہیں۔ لیکن ان کی یہی ایک خوبی ان حضرات کی تمام خوبیوں پر بھاری ہے کہ ان کی ذات پر جب بھی اس قسم کے شریفانہ حملے کیے گئے تو انھوں نے ان کا نوٹس نہیں لیا، بلکہ اس سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ اپنے اس قسم کے کرم فرماؤں کے ساتھ ان کی مشکلات میں انھوں نے نہایت اچھا سلوک کیا۔ ان کی طبیعت میں بڑی بلندی تھی اور اس بلندی کی وجہ سے وہ لوگوں کی حاسدانہ باتوں کی کبھی پروا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ ابتدا ہی سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عظمت و شہرت عطا فرما دی تھی کہ ان کو اپنی شہرت و عظمت کی تعمیر کے لیے دوسروں کی شہرت پر حملہ کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی۔
مولانا آزاد جیسے لوگوں پر اگر کسی کو بحث کرنی ہو تو ان کے افکار و نظریات پر کرے۔ اس لیے کہ اس طرح کے لوگوں کے افکار و نظریات سے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں بنتی اور بگڑتی ہیں۔ مولانا آزاد کے بعض افکار و نظریات سے ہمیں بھی اختلاف ہوا ہے اور ہم نے اپنے اس اختلاف کا اپنی تحریروں میں اظہار بھی کیا ہے، لیکن اس اختلاف کے باوجود ہماری نظروں میں ا ن کی عزت و عظمت کبھی کم نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں سے درگذر فرمائے اور ان کی ذات پر اس قسم کے ’شریفانہ‘ حملے کرنے والوں کو توفیق دے کہ یہ اپنے زبان و قلم کی صلاحیتیں کسی مفید مقصد کے لیے استعمال کریں اور دوسروں کا پردہ اٹھانے کے بجاے اپنا پردہ قائم رکھنے کی کوشش کریں!
معاصر موصوف نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ مولانا مرحوم کے سارے تربیت یافتہ ملحد اور بے دین ہیں اور اس سے یہ نکتہ پیدا کیا ہے کہ مولانا بھی ایک ملحد و بے دین تھے۔ یہ نکتہ اگر صحیح ہے تو کیا یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اسی نکتہ کی روشنی میں ان بزرگوں کے متعلق کیا راے قائم کی جائے جن کے فیض تربیت کا یہ مظاہرہ معاصر موصوف نے کیا ہے اور جن کو اپنے صفحات میں وہ ہم رتبۂ ابن تیمیہ و شاہ ولی اللہ قرار دیتا رہا ہے۔
(مقالات اصلاحی ۲/ ۴۰۸، بہ حوالہ ماہنامہ میثاق لاہور۔ اپریل ۱۹۶۰ء)
مولانا آزاد سوانحی خاکہ
ابوالکلام محی الدین احمد آزاد : (پیدائش 11 نومبر 1888ء – وفات 22 فروری 1958ء)
مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنا پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپنمکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔ 1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں کانگرس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔ آپ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ 22 فروری 1958ء کو انتقال ہوا۔
مولانا کی سیاسی فکر
فروری ۱۹۲۰ء مین بنگال کی صوبائی خلافت کانفرس کے صدر کی حیثیت سے مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے خطبۂ صدارت میں مسلۂ خلافت کی شرعی حیثیت بر بحث کرتے ہوئے کہا تھا۔
’’اسلام کا قانون شرعی یہ ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں کا ایک خلیفہ و امام ہونا چاہئے ۔ خلیفہ سے مقصود ایسا خود مختار مسلمان بادشاہ اور صاحب حکومت و مملکت ہے جو مسلمانوں اور ان کی آبادیوں کی حفاظت اور شریعت کے اجراء و نفاذ کی پوری قدرت رکھتا ہو۔ اور دشمنوں سے مقابلہ کے لئے پوری طرح طاقتور ہو۔ صدیوں سے اسلامی خلافت کا منصب سلاطین عثمانیہ کو حاصل ہے اور اس وقت ازروئے شرع تمام مسلمانانِ عالم کے خلیفہ و امام وہی ہیں۔ پس ان کی اطاعت اور اعانت تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔ اسلام کا حکم شرعی ہے کہ جزیرۃ العرب کو غیر مسلم اثر سے محفوظ رکھا جائے اس میں عراق کا ایک حصہ بغداد بھی داخل ہے۔ پس اگر کوئی غیر مسلم حکومت اس پر قابض ہونا چاہے یا اس کو خلیفہ اسلام کی حکومت سے نکال کر اپنے زیر اثر لانا چاہے تو یہ صرف ایک اسلامی ملک سے نکل جانے کا مسئلہ نہ ہوگا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک مخصوص سنگین حالت پیدا ہو جائے گی۔ یعنی اسلام کی مرکزی زمین پر کفر چھا جائے گا۔ پس ایسی حالت میں تمام مسلمانِ عالم کا اولین فرض ہوگا کہ وہ اس قبضہ کو ہٹانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اسلام کے مقامامت مقدسہ میں بیت المقدس اسی طرح محترم ہے جس طرح حرمین شریف اسکے لئے لاکھوں مسلمان اپنی جان کی قربانیاں او یورپ کے آٹھ صلیبی جہادوں کا مقابلہ کر چکے ہیں۔ پس تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس مقام کو دوبارہ غیر مسلموں کے قبضے میں نہ جانے دیں۔ خاص طور سے مسیحی حکومتوں کے قبضہ واقتدار میں۔ اور اگر ایسا ہورہا ہے تو اس کے خلاف دفاع کرنا صرف وہاں کی مسلمان آبادی ہی کا فرض نہ ہوگا بلکہ بیک وقت وبیک دفعہ تمام مسلمانانِ عالم کا فرض ہوگا‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے ائمہ کے اقوال کی روشنی میں نظامِ خلافت کی تعریف کی ہے:
”مسلمانوں کی ایسی حکومت جو ارکانِ اسلام کو قائم رکھے، جہاد کا سلسلہ و نظام درست کرے، اسلامی ملکوں کو دشمنوں کے حملہ سے بچائے اور ان کاموں کے لیے فوجی قوت کی ترتیب اور لڑائی کا سامان وغیرہ جوکچھ مطلوب ہو، اُس کاانتظام کرے، مختصر یہ کہ اسلام کا خلیفہ وہ حکمران ہوسکتاہے جواسلام و ملت کے لیے دفاع و جہاد کی خدمت انجام دے سکے۔”12
مسئلہ خلافت: ص126
ابوالکلام آزاد تحریر کرتے ہیں :
”عثمانی ترک نہ تو عرب پرقانع ہوئے نہ ایران و عراق پر، نہ شام و فلسطین کی حکومت اُن کو خوش کرسکی، نہ وسط ایشیاکی بلکہ تمام مشرق سے بے پروا ہوکر یورپ کی طرف بڑھے۔ اُس کے عین قلب (قسطنطنیہ) کو مسخر کرلیا اور اور اس کی اندورنی آبادیوں تک میں سمندر کی موجوں کی طرح در آئے حتیٰ کہ دارالحکومت آسٹریا کی دیوار اُن کے جولانِ قدم کی ترکتازیوں سے بارہا گرتے گرتے بچ گئی۔ ترکوں کا یہ وہ جرم ہے جو یورپ کبھی معاف نہیں کرسکتا۔ مسلمانوں کاکوئی موجودہ حکمران خاندان اس جرم (فتح یورپ) میں اُن کا شریک نہیں ہے۔ اس لیے ہرحکمران مسلمان اچھا تھا جو یورپ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا مگر یہ ترک وحشی و خونخوار ہے اس لیے کہ یورپ کا طلسم سطوت اُس کی شمشیر بے پناہ سے ٹوٹ گیا۔”13
مسئلہ خلافت، ص116
مولانا کا تصور قومیت
مولانا نے رام گڑھ کے کانگریس کے ایک اہم اجلاس میں جو وقیع خطبہ دیا تھا آئیے ذرا اس کے ایک پیراگراف پر نظر ڈالتے ہیں:
”میں مسلمان ہو ں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کے تیرہ سو برس کی شان دارر وایتیں میرے وِرثے میں آئی ہیں ، میں تیار نہیں ہوں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں، اسلام کی تعلیم ،اسلام کی تاریخ ،اسلام کے علوم و فنون،اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں،بہ حیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتاہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے ،لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا،اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی،بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے ،میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں،میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں،میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے ،میں اس کی تکوین کا ایک ناگزیر عامل فیکٹر ہوں ،میں اس دعوے سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔ ہم تو اپنے ساتھ کچھ ذخیرے لائے تھے ،اور یہ سر زمین بھی ذخیروں سے مالا مال تھی، ہم نے اپنی دولت اس کے حوالے کردی اور اس نے اپنے خزانوں کے دروازے ہم پر کھول دیے ،ہم نے اسے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیز دے دی جس کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی،ہم نے اسے جمہوریت اور انسانی مساوات کا پیام پہنچادیا۔“
ترجمان القرآن
انتساب
غالباً دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے، مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کل اوڑھے کھڑا تھا۔
آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے۔۔
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو پہنچا میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔
١٢ ستمبر سنہ ١٩٣١ء کلکتہ
آغا شورش کاشمیری “ابوالکلام آزاد” جو مولانا کی سوانح عمری ہے کہ صفحہ نمبر 482 میں رقمطراز ہیں
“مولانا محمد علی جوہر سے تو راقم شخصی نیاز نہیں رہا کہ ان کی رحلت کے وقت راقم ساتویں یا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن مولانا ظفر علی خاں سے شرفِ تلمذ حاصل کیا، خیبر سے مانڈلے تک ان کے ساتھ شریکِ سفر رہا۔ ہندوستان کی سیاست اور مختلف شخصیتوں کے بارے میں جب بھی اُن سے بات چیت ہوتی تو ان نجی محفلوں میں قلم و زبان کی تیزی سے پرہیز کرتے۔ ان کے تبصرے نہایت نپے تُلے اور لگے بندھے ہوتے۔ کئی دفعہ مولانا آزادؒ کا ذکر آیا تو ان کے متعلق نہایت وقیع رائے ظاہر کی۔ ایک دفعہ کہیں سفر پر جا رہے تھے عملہ نے اصرار کیا تو جاتے جاتے ایک طویل نظم بالبداہت ارشاد فرمائی، مطلع تھا
؎
مجھے بھی انتساب ہے ادب کے اس مقام سے
ملی ہوئی ہے جس کی حد قدم گہ نظام سے
دسواں یا گیارھواں شعر تھا؎
جہاں اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہوئی
ہے تجھ کو جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے
راقم ہمراہ تھا۔ استفسار کیا۔
“مولانا ابوالکلام آزاد کے متعلق آپ نے جو شعر کہا ہے وہ محض قافیہ کی بندش ہے یا فی الواقعہ آپ ایسا ہی سمجھتے ہیں”:
فرمایا:
“جو کچھ میں کہا ، وہ لفظاََ ہی نہیں منعاََ بھی درست ہے”
عرض کیا”
“کیا مولانا ابوالکلام تفسیرِ قرآن میں اسلاف کے پیرو اور اس عہد کے مجتہد ہیں”؟
فرمایا:
“بالکل، اللہ تعالیٰ نے قرآن فہمی کے باب میں انہیں خاص ملکہ عطا کیا ہے ، وہ زمانہ کی فکری تحریکوں کو بخوبی سمجھتے اور قرآن کو ہر زمانے کی پچیدگیوں کا حل قرار دے کر انسانی معاشرے کو اس کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ۔ وہ قرآن کی ابدی دعوت پر نظامِ کائنات کی اساس رکھتے ہیں۔ ان پر بفضلِ ایزدی علم القرآن کے اس طرح کھلے ہیں کہ ان کے لیے کوئی سی راہ مسدود و منقطع نہیں۔ اُن کی آواز قرآن کی آواز ہے۔”
راقم:”مولانا کے ترجمہ و تفسیر میں بڑی خوبی کیا ہے؟ اور کونسا پہلو ہے جو دوسرے تراجم او تفاسیر کے مقابلے میں منفرد ہے؟”
مولانا:
“اُن کے ترجمہ و تفسیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ قرآن ہی کی زبان میں خطاب کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے ان کے الفاظ الوہیت اور نبوت کا جامہ پہنے ہوئے ہیں اور یہ صرف اللہ کی دین ہے۔ دوسرے تراجم جو اب تک ہندوستان میں ہوئے ہیں وہ قرآن کے الفاظ میں لغوی ترجمہ ہیں، ان میں قرآن کے شکوہ کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ۔ عربی الفاظ کا ترجمہ اردو الفاظ میں کیا گیا ہے ، مطالب کی طاقت و پہنائی اوجھل ہو گئی ہے۔ آزادؔ کی تفسیر محض مقامی و محض اسلامی نہیں، بین الاقوامی و بین الملی ہے۔ وہ الہیاتی زبان میں کائنات کو خطاب کرتے ہیں۔”
راقم: “ادب میں اُن کا مقام کیا ہے؟”
مولانا:
“فی الواقعہ وہ ایک سحر طراز ادیب ہیں، ان کا قلم تلوار ہے، وہ قرنِ اول کے غزوات کی چہرہ کشائی کرتے، اور عصرِ حاضر کی رزم گاہوں میں مسلمانوں کی فتح مندیاں ڈھونڈتے ہیں۔
ان کا اسلوبِ بیان بے مثال ہے آدمی ان کے الفاظ سے مسحور ہوتا اور مطالب میں ڈوب جاتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ نکتہ آفرینی کے اعتبار سے اس وقت ہندوستان بھر میں اپنی نظیر نہیں رکھتے ۔ قلم کی نزاکت اور قلم کی طاقت مبدء فیاض نے ان کے لیے ارزاں کر دی ہے”
راقم: اُن کی زبان عوام کے لیے مشکل ہے:؟
مولانا:
“کوئی زبان مشکل نہیں ہوتی، سوال ہمارے علم کا ہے کہ ہم کس حد تک اس سے بہرہ یاب ہیں۔ ان کی زبان قرآن کی زبان ہے، جو قرآن نہیں جانتے یا اس کی زبان سے نا بلد ہیں ان کے لیے ان کی زبان فی الواقعہ مشکل ہے، ورنہ وہ آبشار کی طرح بہتی ہوئی اور چاندی کی طرح کھلی ہوئی زبان لکھتے ہیں، وہ ہمارے عظیم ماضی کی زبان و بیان کے وارث ہیں۔”
راقم:
“اُن کے عوام سے کٹ کے رہنے کی وجہ کیا ہے؟
“ہر طبیعت کا ایک اسلوب ہوتا ہے ان کی طبیعت عوام گریز واقع ہوئی ہے”
۔
مولانا لکھتے ہیں ۔
‘ خدا کی سچائی ، اس کی ساری باتوں کی طرح ، اس کی عالمگیر بخشش ہے ۔ وہ نہ تو کسی خاص زمانے سے وابستہ کی جاسکتی ہے ، نہ کسی خاص نسل و قوم سے ، اور نہ کسی خاص مذہبی گروہ بندی سے ۔تم نے اپنے لیے طرح طرح کی قومیتیں اور اور جغرافیائی اور نسلی حد بندیاں بنالی ہیں ، لیکن تم خدا کی سچائی کے لیے کوئی ایسا امتیاز نہیں گھڑ سکتے ، اس کی نہ تو کوئی قومیت ہے ، نہ نسل ہے ، نہ جغرافیائی حد بندی ،نہ جماعتی حلقہ بندی ۔وہ خدا کے سورج کی طرح ہر جگہ چمکتی اورنوع انسانی کے ہر فرد کو روشنی بخشتی ہے ۔ اگر تم خدا کی سچائی کی ڈھونڈھ میں ہو تو اسے کسی ایک ہی گوشے میں نہ ڈھونڈھو ۔ وہ ہر جگہ نمودار ہوئی ہے اور ہر عہد میں اپنا ظہور رکھتی ہے ۔ تمہیں زمانوں کا ،قوموں کا ، وطنوں کا ، زبانوں کا اور طرح طرح کی گروہ بندیوں کا پرستار نہیں ہونا چاہیے۔صرف خدا کا اور اس کی عالمگیر سچائی کا پرستار ہونا چاہیے اس کی سچائی جہاں کہیں بھی آئی ہو اور جس بھیس میں بھی آئی ہو ، تمہاری متاع ہے اور تم اس کے وارث ہو ۔
(ترجمان القرآن جلد اول ص 411 )۔
مالک رام ترجمان القرآن میں پیش کیے گئے ترجمہ پر اپنی کتاب ‘ کچھ ابوالکلام کے بارے میں ‘ میں اپنے خیالات کا یوں اظہار کرتے ہیں :
‘ یہ ترجمہ ادبی لحاظ سے بھی اتنا حسین اور برجستہ ہے کہ اسے ادبی تخلیق کا درجہ دیا جانا چاہیے تھا ۔افسوس کہ اس پہلو سے کوئی توجہ نہیں کی گئی ۔ مثال کے طور پر صرف سورہ فاتحہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو :
اللہ کے نام سے جو الرحمان الرحیم ہے ۔
ہر طرح کی ستائش اللہ ہی کے لیے جوتمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے ۔ جورحمت والاہے ، اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالا مال کررہی ہے ، جو اس دن کا مالک ہے ، جس دن کاموں کابدلہ لوگوں کے حصے میں آئیگا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے ، جس سے (اپنی ساری احتیاجوں میں ) مدد مانگتے ہیں ۔ (خدایا !) ہم پر سعادت کی سیدھی راہ کھول دے ، وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہوئی جن پر تونے انعام کیا ۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے ۔ اور نہ ان کی جو راہ سے بھٹک گئے ۔
اس پر ترجمہ کا گمان ہی نہیں ہوتا ۔ بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی مصنف نے اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے اسے اصل میں لکھا ہی اس طرح ہو ۔'(ص83 )
ترجمان القرآن کی تحریر کا مقصود
مولانا ابوالکلام آزاد (م ۱۹۵۸ء) نے جب قرآن مجید کو اپنے غوروفکر کا موضوع بنایا تو ان کے پیش نظر تین طرح کے کام تھے:
۱۔ مقدمۂ تفسیر، البصائر
۲۔ البیان فی مقاصد القرآن
۳۔ ترجمان القرآن
مقدمۂ تفسیر کے تحت مولانا قرآن حکیم کے مقاصد و مطالب پر اصول و مباحث کا مجموعہ مرتب کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے کم از کم بارہ ابواب، نہ صرف لکھے جا چکے تھے، بلکہ چھپ بھی گئے تھے۔ ان بارہ ابواب کے صفحات کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔۲ مولانا نے ’’تذکرہ‘‘ میں ایک مقام پر لکھا ہے:
’’شرح حقیقت تحریف شریعت علی الخصوص فتنتین عظمتین یونانیت و عجمیت کے لیے مقدمہ تفسیر باب بست ویکم اور تفسیر فاتحہ الکتاب کو دیکھنا چاہیے۔‘‘(ابوالکلام آزاد، تذکرہ۱۹۵)
’’البیان‘‘ کے نام سے مولانا آزاد قرآن مجید کی ایک مکمل تفسیر لکھنا چاہتے تھے۔ ’’البلاغ‘‘ میں جب اس کا اشتہار شائع ہوا تو اس کے الفاظ یہ تھے:
’’اس تفسیر کے متعلق صرف اس قدر ظاہر کر دینا کافی ہے کہ قرآن حکیم کے حقائق و معارف اور اس کی محیط الکل معلمانہ دعوت کا موجودہ دور جس قلم کے فیضان سے پیدا ہوا ہے، یہ اسی قلم سے نکلی ہوئی مفصل اور مکمل تفسیر القرآن ہے۔‘‘۳
مولانا نے ایک اور مقام پر بھی ’’البیان‘‘ اور ’’البصائر‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ’’تذکرہ‘‘ میں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۳۵ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’یہ مقام منجملہ روح الروح معارف کتاب و سنت، وحقیقت الحقائق قرآن و شریعت کے ہے جس کی طرف بہت کم توجہ کی گئی ہے۔ تفسیر البیان میں ایک سے زیادہ مواقع پر اس کی تشریح و توضیح ملے گی اور اس سے بھی زیادہ مقدمہ تفسیر موسوم بہ ’’البصائر‘‘ میں بہ عنوان حقیقت ایمان و کفر۔‘‘(ابوالکلام آزاد، تذکرہ ۷۶۔۱۷۵)
مولانا نے ہفتے کے سات دنوں کی تقسیم اس طرح کر رکھی تھی کہ تین دن ’’البلاغ‘‘ کی تدوین و ادارت کے لیے وقف تھے، دو دن ترجمے کے لیے اور دو دن تفسیر کے لیے۔ اپنی گرفتاری کے باعث مولانا جس طرح اپنے مسودات سے محروم ہوئے، اس کی تفصیل انھوں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے دیباچے میں بیان کر دی ہے۔ اسی وجہ سے یہ شاہکار مکمل صورت میں ہمارے سامنے نہ آسکے۔
خدمت قرآن کے حوالے سے جو چیز مولانا کا تعارف بنی، وہ ’’ترجمان القرآن‘‘ ہے۔ مولانا نے اپنے الفاظ میں ’’ترجمان القرآن‘‘کا تعارف کراتے ہوئے ’’البیان‘‘ اور ’’البصائر‘‘ سے اس کا فرق واضح کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ترجمان القرآن کی ترتیب سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے عام مطالعہ و تعلیم کے لیے ایک درمیانی ضخامت کی کتاب مہیا ہو جائے، مجرد ترجمے سے وضاحت میں زیادہ، مطول تفاسیر سے مقدار میں کم۔ چنانچہ اس غرض سے یہ اسلوب اختیار کیا گیا کہ پہلے ترجمہ میں زیادہ سے زیادہ وضاحت کی کوشش کی جائے پھر جابجا نوٹ بڑھا دیے جائیں۔ اس سے زیادہ بحث و تفصیل کو دخل نہ دیا جائے۔ باقی رہا اصول اور تفسیری مباحث کا معاملہ تو اس کے لیے دو الگ الگ کتابیں ’’مقدمہ‘‘ اور ’’البیان‘‘ زیر ترتیب ہیں۔‘‘(ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)
تاہم جیسے جیسے یہ کام آگے بڑھا اور مولانا کی سیاسی سرگرمیاں ان کے علمی کاموں میں حائل ہوتی گئیں، اس کام کا نقشہ بھی تبدیل ہوتا گیا۔ ’’البیان‘‘ جب سامنے نہ آ سکی تو ’’ترجمان القرآن‘‘ ہی میں بعض مقامات پر اس کمی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ پہلی جلد میں جن مقامات پر محض مختصر حواشی لکھے گئے تھے، دوسری جلد میں انھی مقامات کی تفصیل بیان کر دی گئی۔ اس ترمیم کے باوجود مولانا کے نزدیک ’’ترجمان القرآن‘‘ کا اصل امتیاز اس کا ترجمہ ہے، مولانا لکھتے ہیں:
’’ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس کی تمام خصوصیات کا اصل محل اس کا ترجمہ اور ترجمہ کا اسلوب ہے۔ اگر اس پر نظر رہے گی تو پوری کتاب پر نظر رہے گی۔ وہ اوجھل ہو گئی تو پوری کتاب نظر سے اوجھل ہو جائے گی۔‘‘(ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)
ترجمے کے بعد ’’ترجمان القرآن‘‘ کی دوسری خوبی، مولانا کے نزدیک اس کے نوٹ ہیں۔ ’’ان کی ہر سطرتفسیر کا ایک پورا صفحہ، بلکہ بعض حالتوں میں ایک پورے مقالے کی قائم مقام ہے۔‘‘
’’ترجمان القرآن‘‘ کی وجہ تالیف خود مؤلف کے الفاظ میں یہ ہے:
’’ترجمان القرآن تفسیری مباحث کے ردوکد میں نہیں پڑتا صرف یہ کرتا ہے کہ اپنے پیش نظر اصول و قواعد کے ماتحت قرآن کے تمام مطالب ایک مرتب و منظم شکل میں پیش کر دے۔‘‘(ابوالکلام آزاد، ترجمان القرآن، جلد۳)
’’ترجمان القرآن‘‘ کا ایک اور امتیاز یہ ہے کہ ہر سورت کے ساتھ مطالب کی ایک فہرست دی گئی ہے جس سے اس کے مضامین کا اجمالی تعارف ہو جاتا ہے۔
مولانا آزاد چونکہ ایک صاحب طرز ادیب تھے، اس بنا پر’’ ترجمان القرآن‘‘ ان کے انشا کا بھرپور مظہر ہے، تاہم جہاں تک اصول تفسیر کا تعلق ہے تو وہ ائمۂ تفسیر ہی کی تتبع کرتے نظر آتے ہیں اور بہت کم کوئی ایسی راے قائم کرتے ہیں جو اسلاف کی راے کے برخلاف ہو۔ مولانا کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن کو اپنے عہد میں ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا ہے جو مسلمانوں کے لیے واحد راہنما ہو سکتی ہے۔ سید سلیمان ندوی نے ’’ترجمان القرآن‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’مصنف ترجمان القرآن کی یہ دیدہ وری داد کے قابل ہے کہ انھوں نے وقت کی روح کو پہچانا اور اس فتنۂ فرنگ کے عہد میں اسی طرزوروش کی پیروی کی جس کو ابن تیمیہ اور ابن قیم نے پسند کیا تھا اور جس طرح انھوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تباہی کا راز فلسفۂ یونان کی دماغی پیروی کو قرار دیا، اسی طرح اس عہد کے مسلمانوں کی بربادی کا سبب ترجمان القرآن کے مصنف نے فلسفۂ یونان و فرنگ کی ذہنی غلامی کو قرار دیا اور نسخۂ علاج وہی تجویز کیا کہ کلام الٰہی کو رسول کی زبان و اصطلاح اور فطرت کی عقل و فلسفہ سے سمجھنا چاہیے۔‘‘(ابوسلمان شاہجہانپوری، ابوالکلام آزاد(بحیثیت مفسر و محدث)۲۱۔۲۲)
ترجمان القرآن کے نمایاں اوصاف
تفسیر سوره فاتحہ
مولانا کی ترجمان القرآن کا خاصہ سوره فاتحہ کی مفصل تفسیر ہے کہ جو ٢٠٣ صفحات کی ضخیم جلد پر مشتمل ہے مولانا اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کے تحت لکھتے ہیں ہدایت کے چار درجات ہیں
١. وجدانی ہدایت
٢. حواسی ہدایت
٣. عقلی ہدایت
٤. وحی الہی سے مستنبط ہدایت
اور پھر اس بحث میں پہلی تین ہدایتوں کو ناکافی قرار دے کر وحی الہی کی فوقیت کو مظبوط دلائل سے ثابت کرتے ہیں (٧٢)
خلافت کی بحث
مولانا کی خاص بحث مسلمانوں میں احیائی روح کو بیدار کرنا ہے اور اس حوالے سے خلافت کی بحث انکی تفسیر قرآنی میں جا باجہ ملتی ہے مولانا جہاد کی تعریف کرتے ہوے اس کے دو درجات متعیّن فرماتے ہیں
١. اقدامی جہاد
٢. دفاعی جہاد
اقدامی جہاد کو مولانا فرض کفایہ قرار دیتے ہیں (١٠٤)
اور دفاعی جہاد انکے نزدیک فرض عین ہے (١٠٥)
خلافت میں قرشیت کی شرط
علماء امت کا موقف خلافت میں قرشیت لازم ہونے کا ہے
ائمہ قریش میں سے ہوں گے جب تک کہ وہ تین باتوں پر عمل کرتے رہیں گے ۔ حکم کریں تو عدل کے ساتھ، جب ان سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کریں، جب عہد کریں تو وفا کریں۔ پھر جو ان میں سے ایسا نہ کرے اس پر اللہ، فرشتوں اور انسانوں کی لعنت: مسند احمد، مسند ابو داؤد
مات قریش کے معاملے میں علمائے امت کا مسلک:
“اور وہ سب (مکتبہ ہائے فکر)اس بات کے قائل ہیں کہ امامت کے لیے قریشی النسل ہونا لازمی ہے: الفارق بین الفرق از عبدالقاہر بغدادی (429ہجری)
“اہل سنت اور تمام شیعہ اور بعض معتزلہ اور جمہور مرجئیہ کا مذہب یہ ہے کہ امات جائز نہیں ہے مگر خصوصیت کے ساتھ قریش میں۔ ۔ ۔ ۔ اور تمام خوارج اور جمہور معتزلہ اور بعض مرجئہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ منصب ہو اس شخس کے لیے جائز ہے جو کتاب و سنت پر قائم ہو خواہ وہ قریشی ہو یا عام عرب یا کوئی غلام زادہ ۔: الفصل فی املل و انحل از (452ہجری)ابن خرم
تمام امت اس امر پر متفق ہے کہ امامت قریش کے سوا کسی کے لیے درست نہیںہے” عبدالکریم شہرستانی (548 ہجری)
ضروری ہے کہ امام قریش میں سے ہوں اور ان کے سوا کسی دوسرے کو امام بنانا جائز نہیں: امام نسفی (537 ہجری)
امامت کے لیے قرشیت کا شرط ہونا تمام علما کا مذہب ہے اور علما نے اسکو اجماعی مسائل میں شمار کیا ہے” قاضی عیاض (544 ہجری)
مولانا آزاد اور سید مودودی رح نے اس مسلے سے اختلاف کیا ہے مولانا اپنی معروف کتاب ” مسلہ خلافت”
میں بھی “ شرط قرشیت “ کے عنوان کے تحت اس سے اختلاف کرتے نظر آتے ہیں .
ذولقرنین کی تاریخی تحقیق :-
مولانا نے جدید جغرافیائی تحقیق اور تاریخی حوالوں سے ذولقرنین کی حقیقت کو واضح کیا ہے اور انکے بعد کے زیادہ تر مفسرین نے اس مسلے میں انہی کا اتباع کیا ہے .
مولانا کی تحقیق کے مطابق ذولقرنین فارس کا شہنشاہ ” سائرس ” ہے
(ترجمان القرآن ، مولانا آزاد ، سوره البقرہ)
دوسری جانب مولانا یاجوج و ماجوج کے حوالے سے پڑی گرد کو بھی صاف کرتے ہیں اور منطقی دلائل سے اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ یاجوج ماجوج در اصل قدیم کاکیشین منگول قبائل ہیں .
(ترجمان القرآن ، مولانا آزاد ، سوره البقرہ)
ناسخ منسوخ کی بحث اور مولانا آزاد کا علمی استدلال : –
ناسخ و منسوخ ایک ایسا مسلہ ہے کہ جس پر متعدد مستشرقین اور دور جدید میں انکے پیروکاروں کی جانب سے تنقید آتی رہی ہے مولانا نے اس مسلے کو اتنی خوبی سے صاف کیا ہے کہ کسی ابہام و اشکال کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی .
مولانا تفسیری نوٹ میں اس کی تشریح یوں کرتے ہیں …
ایک شریعت کے بعد دوسری شریعت کا ظہور یوں ہوا کہ یا تو ” نسخ ” کی حالت طاری ہوئی یا ” نسیان ”
” نسخ ” یہ ہے کہ یب بات پہلے سے موجود تھی لیکن موقوف ہو گئی اور اس کی جگہ دوسری بات آ گئی ،
” نسیان ” کے معنی بھول جانے کے ہیں ،
پس بعض حالتوں میں ایسا ہوا کہ پچھلی شہریت کسی نہ کسی شک میں موجود تھی لیکن احوال و ظروف بدل گئے تھے یا اس کے پیروؤں کی عمل کی روح معدوم ہو گئی اسلیے ضروری ہوا کہ نئی شریعت ظہور میں آئے –
بعض حالتوں میں ایسا ہوا کہ امتداد وقت سے پچھلی تعلیم بلکل فراموش ہو گئی اور اصلیت میں سے کچھ باقی نہ رہا پس لا محالہ تجدید ہدایت ناگزیر ہوئی سنت الہی یہ ہے کہ نسخ شریعت ہو نسیان شریعت ہر نئی تعلیم پچھلی ے بہتر ہوتی ہے یا کم از کم اسی مانند ہوتی ہے ایسا نہیں ہوتا کہ کمتر ہو کیونکہ اصل تکمیل و ارتقاء ہے ناکہ تنزل و تشکل
(ترجمان القرآن ، مولانا آزاد ، سوره البقرہ)
مولانا کے افکار پر اعتراضات
١، سید مودودی رح کا اعتراض :-
۰۳ مارچ ۲۶۹۱ ء کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ نے مریم جمیلہ کے نام اپنے ایک مکتوب میں لکھا:
”۰۲۹۱ ء ۔ ا۲۹۱ ء کے زمانے تک مولانا ابوالکلام آزاد احیائے اسلام اور تحریک خلافت کے پرجوش حمایتیوں میں شامل تھے مگر اس کے بعد مولانا اپنے اس موقف کے متضاد قول فعل کی تکرار کرتے ہیں ۔ اس یک لخت تبدیلی پر بعض افراد کو یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ابوالکلام ہیں ،ایسے لوگ آنکھیں ملتے ہوئے انہیں دیکھتے کہ یہ وہی ابوالکلام ہیں یا کوئی بالکل نئی شخصیت ! اب ابوالکلام سو فی صد ایک ہندوستانی قوم پرست کا روپ اختیار کرلیتے ہیں جو ہندوﺅں مسلمانوں کو ایک قوم کی شکل دینا چاہتا ہے۔ اب ابوالکلام بعض ہندو فلسفیوں کے پیش کردہ ”وحدت ادیان“ اور ڈارون کے نظریہ ارتقاءکو پوری طرح اپنی فکر کا حصہ بنالیتے ہیں ۔ ابوالکلام کے ان افکار تازہ کا نقش ان کی تفسیر قرآن میں صاف صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ “
مولانا یوسف بنوری رح کا اعتراض :-
سوره فاتحہ کے متعلق ان کی تفسیر خوب مفصل و مبسوط شایع ہوئی میں نے بھی اس کو خوب شوق سے لیا اور پڑھنا شروع کیا اور سوره فاتحہ کی مکمل تفسیر پڑھی اور پھر مختلف آیات کی تفسیر دیکھی تب اس شدت اشتیاق کی لو جو میرے دل میں جل رہی تھی وہ بجھ گئی اور میں انگشت بدنداں رہ گیا اور افسوس کرتا یہ سوچنے لگا کہ اگر یہ تفسیر نہ طبع ہوتی تو زیادہ بہتر تھا اسلئے کہ اس کے مطالعے سے قبل ان کی قدر و منزلت میرے قلب میں جاگزیں تھی اس مطالعے سے میں نے بھانپ لیا کہ خواہشات اور محض عقل کی کارفرمائی ان کو مختلف وادیوں میں لے گئی ہے اور اس اوہام پرستی نے موصوف کو کہیں کا نہ چھوڑا اور میں نے جانچ لیا کہ اس خود رائی اور اعجاب نے موصوف کو تقلید سے بے بہرہ کیا اور اور آخر صراط مستقیم سے ورے ورے شاہراہ باطل پہ گامزن کر دیا –
وكلّ يدّعي وصلا بليلى
وليلى لا تقرّ لهم بذاك
اصول تفسیر و علوم القرآن ، مصنف مولانا یوسف بنوری رح ، مکتبہ البینات ، صفحہ : ١١٢
مولانا کے حوالے سے تحریر کا اختتام علامہ شورش کاشمیری کے ان اشعار کے ساتھ جو انھوں نے 10 مارچ 1858 مولانا آزاد کے مزار پر لکھے تھے:
کئی دماغوں کا ایک انساں میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زباں سے زور بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے، امیر کیا؟ کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
یہ کون اٹھا کہ دیر وکعبہ شکستہ دل، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم خواص پہنچے عوام پہنچے
تیری لحد پہ ہو رب کی رحمت،تیری لحد کو سلام پہنچے
مگر تیری مرگ ناگہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے
بشکریہ اردو ویب ڈاٹ آرگ