Madarsa qayem karne ka Tariqa by Qari Siddiq Ahmad Bandawi

Articles

مدرسہ قائم کرنے کا طریقہ از قاری سید صدیق احمد باندوی

قاری سید صدیق احمد باندوی

Noorani Qaida by Mufti Mohammad Rafi Usmani

Articles

نورانی قاعدہ از مفتی محمد رفیع عثمانی

مفتی محمد رفیع عثمانی

Urdu Muallin by Zakir Usmani

Articles

اردو معلم از ذاکر عثمانی

ذاکر عثمانی

Two day National Seminar in BHU

Articles

دو روزہ قومی سیمیناربعنوان ’’ نذیر بنارسی: حیات اور کارنامے‘‘

پریس ریلیز

شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقادبتاریخ۲۹-۲۸؍ نومبر 2018 کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ بنارس کا شمار قدیم و ترین مذہبی شہروں میں ہوتا ہے ، زمانۂ قدیم سے یہ شہر علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ سنسکرت اور ہندی کے علاوہ اردو شعر و ادب کے فروغ میں یہاں کے قلم کاروں اور دانشوروں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ۔ یوں تو سرزمیں بنارس  سے اردو ادب میں کئی شخصیتں ابھریں لیکن جو شہرت نذیر بنارسی کو ملی وہ کسی کو نصیب نہ ہو سکی۔ نذیر بنیادی طور پر زمینی حقیقتوں کے شاعر ہیں جن کے یہاں قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا جذبہ ایک قدر اعلی کی حیثیت رکھتا ہے۔  شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی کے زیر اہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقادبتاریخ۲۹-۲۸؍ نومبر ۲۰۱۸؁ء کیا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ بنارس کا شمار قدیم و ترین مذہبی شہروں میں ہوتا ہے ، زمانۂ قدیم سے یہ شہر علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ سنسکرت اور ہندی کے علاوہ اردو شعر و ادب کے فروغ میں یہاں کے قلم کاروں اور دانشوروں نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ اہل نظر سے پوشیدہ نہیں ۔ یوں تو سرزمیں بنارس  سے اردو ادب میں کئی شخصیتں ابھریں لیکن جو شہرت نذیر بنارسی کو ملی وہ کسی کو نصیب نہ ہو سکی۔ نذیر بنیادی طور پر زمینی حقیقتوں کے شاعر ہیں جن کے یہاں قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا جذبہ ایک قدر اعلی کی حیثیت رکھتا ہے۔  متذکرہ خیالات کا اظہار، صدر شعبۂ اردو بنارس ہندو یونیورسٹی آفتاب احمد آفاقی نے نمائندہ سے’ نذیر بنارسی حیات اور کارنامے‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے دو روزہ قومی سیمینار کی اہمیت کی بابت گفتگو کے دوران کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا موقع ہے جب شعبۂ اردو کے زیر اہتمام اس شہر کے ممتاز شاعر اور ملک گیر پیمانے پر مشاعروں میں اپنی آواز اور کلام کی دھاک بیٹھانے والے نذیر بنارسی کی شخصیت اور فن پر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تعاون سے دو روزہ قومی سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ نذیر بنارسی کی اہمیت موجودہ دور میں اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ انھوں نے اپنی تخلیقی نگارشات کے وسیلے سے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کو نہ صرف فروغ دیا ہے بلکہ وہ زندگی بھر ملک میں امن و شانتی ، اخوت و محبت ، بھائی چارا اور جنگ آزادی کے شہداء اور مجاہدین کو خراج عقدیت پیش کرتے رہے۔ نذیر بنارسی کے شعری مجموعوں مثلاًگنگ وجمن ، جواہر سے لال تک، غلامی سے آزادی تک، اور راشٹر کی امانت راشٹر کے حوالے میں شامل نظموں کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نذیر کی جملہ تخلیقات سے گنگا جمنی تہذیب ، انسانیت اور وطن دوستی کی خوشبو پھیلتی ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ انھوں نے جو کار ہائے نمایا انجام دیے ہیں اس سے نئی نسل کو واقف کرایا جائے تاکہ نذیر کی عظمت کا احساس لوگوں کے دلوں میں پیدا ہواور ان  کے فن و شخصیت کی افہام و تفہیم کی نئی راہیں وا ہو سکیں۔

Jo Saiun ki wadi mein Chale by Qurratul ain Hyder

Articles

جو سایوں کی وادی میں چلے از قرۃ العین حیدر

تلاش و تحقیق : سید وسیم اللہ

بہت ٹھنڈا چاند ہے ۔ بہت ویران ہوائیں اندھیرے کمروں اور طویل لا متناہی، غیر ضروری گیلریوں میں سرسراتی پھر رہی ہیں۔ زینے تاریک ہیں اور سرد ، اور ایک نا معلوم خوف دل میں چیختا جارہا ہے مجھے یہیں چھوڑ دو بھائ ۔ چاند سیاہ پڑگیا ہے ۔ اور اجالوں کی پھواروں کے ایسے سرخ ذرے اس کے چاروں طرف منڈلاتے جاتے ہیں ۔گیلریاں سنسان ہیں اور تاریکی میں رینگ رہی ہیں ۔ ابھی وہ سب یہاں آئیں گے۔ اور روشنیاں جلیں گی۔ اور پانی پر سے موسیقی اٹھے گی ۔ پھر سب مرجائیں گے ۔

یہ سب اتنا نا قابلِ برداشت ہے ۔ اور اس نے کہا۔ دیکھو ادھر آؤ ۔ میرے پاس بیٹھو ۔ اور میری آواز سنو ۔ میں نے اکتا کر چاروں اور دیکھا اور اس کی آواز سنی ۔ اور میں نے دیکھا کہ یہ سب اتنا غیر ضروری تھا ۔ اور میں نے کہا سنو۔ زندگی کی روحیں وجود کے کرب سے بچنے کی کوشش میں تاریک خلاؤں میں گھوم رہی ہیں اور اس وقت چاند سرخ اور سیاہ ہوتے ہوۓ بالکل انگارے کی طرح جلتا جلتا نیچے گر پڑا ۔ اس کو میں نے چھوا ۔ لیکن وہ اتنا گرم تھا کہ مجھے باکل تکلیف محسوس نہ ہوئ۔ اور ہوائیں اندھری غلام گردشوں میں شور مچاتی رہیں ۔ اور پانی سیاہ محیط گھوں گھوں کرتا چاندکی طرف اٹھ رہا تھا۔

کیوں اس قدر اٹھلا اٹھلا کے باتیں کرتی ہو ۔ ہم مار دیں گے ۔ اللہ قسم ، میں نے پوکس سے کہا ۔ رات جب وہ نرگس کے پھولوں میں منہہ چھپاۓ ہنس رہی تھی ۔ رات میں نے دیکھا تھا کہ میں زرد گلابوں کے باغیچوں والے ان آنگنوں میں پہنچ گئ ہوں جن کے ٹھنڈے پتھروں پر پہاڑی نالوں کا خنک پانی بہتا ہے ۔ اور جہاں گلیوں کے دروازے پراسرار طریقے سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں ۔ اور میں نے پوکس سے کہا ۔ کیا تم جانتی ہو پوکس ڈارلنگ کہ میں اس طرف سے آئ ہوں جہاں ہوائیں روتی ہیں اور آدھی رات کے زینوں پر کہرا منڈلاتا ہے اور پوکس نے آنکھیں جھپکا کر چاروں طرف غور سے دیکھا اور پھر وہ چپ ہوگئ اور مدھم تکلیف دہ چاندنی میں چوڑی ، بھیگی ، سرد سیڑھیوں پر کہرہ منڈلاتا رہا ۔ کتنی ٹھنڈ ہے کتنی ٹھنڈ ہے ۔ میں نے بیوقوفوں کی طرح اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کی مٹھی بنا کر چپکے سے دہرایا کتنی ٹھنڈ ہے ۔ خدا کی پناہ دیکھو بھائ راحیل —– وہ کہہ رہا تھا —- یہ وجود کی بیوقوفی اسے تم پہچانتی ہو — ؟ ارے جاؤ بھی میں نے اکتاکر کہا ۔ کتنی ٹھنڈ ہے ۔ خدا کی پناہ ۔ میں نے پھر دھرایا ۔ اور چاند بالکل سرد ہوگیا ۔ اور بد مزاج کالی رات چیختے چیختے تھک کر خاموش ہوگئ ۔

اور ایک دفعہ ایسا ہوا تھا کہ وہاں پر اندھیرا نہیں تھا اور چاروں طرف پھول کھلے تھے ۔ اور ندی شور مچاتی تھی ۔ اور ہوا میں بہار کے نۓ شگوفوں کا رنگ اڑتا تھا ۔ دنیا اس قدر خوبصورت تھی کہ اس کا اندازہ مشکل ہے ۔تاریکی وجود کی سرد، بے رحم ، بیحس تاریکی سب ختم ہوچکی تھی ۔ سورج بادلوں میں سے جھانکتا تھا اور کریسینتھیمم کے گچھے بارش کی پھواروں میں نہاتے تھے ۔

اور اب ہم ساکت ، خاموش نیلگوں پانی کے کنارے کنارے ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے اہستہ آہستہ چل رہے ہیں اور کناروں کے پتوں کا عکس پانی میں تیر رہا ہے ۔ اور اب کچھ یاد نہیں آتا اور جو یاد آتا ہے وہ بالکل غلط ہوتا ہے ۔ یہ نہیں تھا یہ نہیں تھا محض جنگوں ، لڑائیوں اور طوفانوں ہی سے انسان زخمی نہیں ہوتے ۔ زندگی کا کرب ہر جگہ ہر وقت ہر حالت میں موجود ہے ۔ سنو پوکس ڈئیر ، یہ تار ، لمبے الجھے ہوۓ تار اور ان میں انسانوں کے ٹکڑے اور خون ۔ اور کیچڑ ۔ اور بارش موسلا دھار بارش ، ہوا کے زور سے دروازہ کھل گیا ہے اور بارش کی تیز پھوار سے ہال کا سارا چمکدار فرش بھیگ گیا ہے اور اس پر چاند کی دھندلی کرنیں پھیل گئ ہیں اور اب دروازے بند کۓ جارہے ہیں اور اب ایسا لگتا ہے جیسے پرشور طوفانوں سے گھر محفوظ ہوگیا ہے ۔ گھر جہاں آتش داں میں آگ جلتی ہے اور قالینوں پر بلیاں اونگھتی ہیں اور باہر بارش کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکراتی ہے اور اندھیرے باغ میں دیودار کی ٹہنیاں ٹوٹ ٹوٹ کر روشوں پر گرتی ہیں۔ گھر — گھر –ارے ہاۓ -اب یہ یوں ہوگا ۔ گھر جو اتنے سینکڑوں ہزاروں میل پیچھے رہ گیا ۔ اور بیوقوف گدھے چٹانوں پر بیٹھے تصویریں بناۓ جارہے ہیں ۔ جو نمائشوں میں رکھی جائیں گی ، سمندر ، ماہی گیروں کی کشتیاں ، چٹانیں اتنی بہت ساری بھوری چٹانیں کہ دیکھو تو باؤلے ہوجاؤ بھائ ۔

اور اتنے غیر ضروری مرد اور اتنی غیر ضروری عورتیں ۔ اور وہی ہیں سب کی ایک ہی سی باتیں ۔ یہ سب لوگ جو اپنے آپ کو جانے کتنا اہم سمجھتے ہوں گے ۔

میں نے چمپا کے پھولوں کی ایک ریتھ بنائ تاکہ تم جب کسی ایسی ہی کاہل سی موسمِ گرما کی شام کو نیلوفر کے ان راستوں پر سے گزرو ۔ تو ان احمق زمانوں کو یاد کرو جب وہ سب ایک سوتے ہوۓ سے خوابیدہ و بے حس پہلے چاند کے نیچے ان پگڈنڈیوں پر گھومتے تھے اور جنگل کے پرے ان سرخ چھتوں والے گھروں میں کنول جلتے تھے اور شفاف نیلگوں پروں والے چھوٹے چھوٹے پری زاد نیلوفر کی ڈالیوں پر بیٹھتے اور اتوار کے دن گزارنے آتے تھے ۔

لیکن موسمِ گرما بھی گزر رہا ہے جیسے اور سب موسم گزرتے جاتے ہیں اور میں آنکھیں کھول کر زندگی کی اس تیز جھلملاتی ہوئ روشنی کو نہیں دیکھ سکتی ۔

اور اگر یوں ہو کہ ہم وجود کے اس بے پایاں کرب میں خاموشی سے تحلیل ہوجائیں یہاں تک کہ وقت اپنی جگہ ٹہر جاۓ ۔ اور پھر کچھ نہ ہو ۔ وجود کا یہ کرب ۔ ابدی ۔ لازوال ۔ انمٹ ۔ لیکن یوں نہیں ہے اور وہ روشنیاں اور آدھی روشنیاں پھیل گئ ہیں جنہیں میں نے پکڑنا چاہا تھا اور موسمِ گرما گزرتا جارہا ہے اور سب چیزیں ویسی ہی ہیں ۔ اور کسی چیز میں کوئ تغیر نہ ہؤا ۔

(اس کی آنکھوں میں شدت کی اکتاہٹ تھی اس وقت اسے صرف دو چیزوں کا خیال تھا سگریٹ اور نیا فوکس ٹیرئیر) تم نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا– ؟ اس نے مڑ کر پوچھا اور پھر لمبے لمبے قدم رکھتا اس طرف چلاگیا جدھر کریسینتھیمم کے پھول تھے زرد ، اودے ، ہلکے نیلے اور پیازی ۔ جو اگسٹ کے مدھم آفتاب کو دیکھ رہے تھے ۔ اور باغ کی مٹی نم آلود تھی ۔ اور وطن کی خوشبوؤں کی یاد دلاتی تھی۔ اس خوشبو کو پہچانو (اس نے کریسنتھیمم کے پھولوں پر سے چلٗا کر کہا ۔ گویا اسے دفعتاً کوئ بیحد ضروری بات یاد آگئ ہے ) ۔ یہ ہر سنگھار ہے اور ہر سنگھار تمہیں یاد آنا چاہیۓ راحیل کہ وطن کی اکیلی سبزے سے گھری ہوئ ندیوں کے کنارے اگا کرتا تھا — وطن — وہ پورب دیس جو ہم نے ہمیشہ کے لۓ چھوڑ دیا اور یہاں چلے آۓ ۔ کیونکہ ہمارے سامنے ایک نئ دنیا تھی اور ایڈونچر ۔ اور نئ کائناتوں کی تخلیق کاپراسرار جذبہ ۔ لیکن اپنے اس دیس کی یادیں اس طرح نہیں چھٹ سکتیں ۔ گرمیوں کی شبنم آلود صبحیں آگسٹ کی بارشیں۔ ہر سنگھار کی مہک (اس کی کالی آنکھیں بھیگ گئیں اور بارش ہوتی رہی ۔ اندر برآمدے میں لوگ شطرنج کھیل رہے تھے ) ہاں ان خوشبوؤں کی یاد دل سے نہیں نکل سکتی ۔ ۔ اس نے آہستہ سے پھر دہرایا اور پھر وہ ہنس پڑا ۔ یہ سب کس قدر بیکار اور حماقت زدہ ہے ۔ غیر ممکن کی خواہش ۔ بھول جانے کی کوشش ۔ اس نے کہا ۔ اور خاموشی سے جیسے مذاق اڑاتا ہوا وہ واپس چلا گیا ۔ جدھر کریسینتھیمم کے پھول تھے ۔ اندر کوئ اس وقت پیانو پر ایک پرانی دھن بجا رہا تھا ( اس بہت پرانے پیانو پر جو والد ایک مرتبہ فرانس سے لاۓ تھے ) اور ہوائیں چنار اورپپیتے کے جھنڈ میں سیٹیاں بجارہی تھی ۔ اور اس نے لاپرواہی سے ایک جماہی لیکر ‘ نوستالجیا کی اس اچانک اور غیر متوقع لہر سے نجات پانے کی کوشش کی ۔ وہ خوش تھا ۔ اور مون سون کے بھولے بھٹکے بادل جو صحرا کی طرف آ نکلے تھے شام کے آسماں پر امڈتے رہے اور ہوائیں بیچینی سے ڈولتی گئیں ۔

اور تب میں نے سوچا کہ کیا یہ بہت اچھا ہوا کہ میں نے اسے اپنی شام کی دعاؤں میں شامل کیا ۔ اتنی مدتوں تک خداوند خدا سے اس کی باتیں کی ۔ اور کہا کہ ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ اے خداوند کہ ابدیت کے دھارے میں تیرتی ہوئ حیات کی رو سے تو نے ہماری زندگی کی تخلیق کی اور ہم ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لۓ تیرا شکر ادا کرتے ہیں جو اتنی حقیر اور بے وقعت ہیں کہ ان کے وجود کا تجھ پر کوئ احساں نہیں ۔ پھول حماقت زدہ لطیفے جنہیں ایک دوسرے کو سناکر وہ خوش ہوتے تھے وہ لمحات جب ہم ریلنگ پر جھک کر سمندر میں سورج کو غروب ہوتے ہوۓ دیکھتے تھے اور اندھیرا بتدریج نیچے گرتا آتا تھا ۔ اور زندگی اچھی تھی ۔

پھر میں اس معبد میں گئ جہاں اونچی اونچی موم بتیاں جلتی تھیں اور وہاں وہ خوبصورت ڈچ راہب تھا جو ہنس رہا تھا ۔ اور وہاں محض دعائیں تھیں اور پھول تھے ۔ اور میں نے آہستہ سے کہنا چاہا کہ کیوں زندگی کا مذاق اڑاتے ہو ۔ بھائ خوبصورت راہب ۔ تم جو ایک عورت کے مجسمے کی پرستش کرتے کرتے اس اندھیرے سے نکل کر دوسرے اندھیرے میں چلے جاؤگے ۔ اور تمہارے مزار پر بھی اسی طرح کے دوسرے مجسمے اور بربط والے فرشتے سجادۓ جائیں گے ۔ شب بخیر ہوئ اور میں نے اسے خدا حافظ کہا ۔ اور واپس چلی آئ ۔ شب بخیر اس نے جواب دیا اور اسی بے تعلقی سے ہنستا ہوا مقدس دیوداروں کے جھنڈ کی طرف چلا گیا جہاں وہ خدا کی ماں کی عبادت کرتے تھے ۔ وہ ڈچ راہب جو اپنی شمعوں ، اور سیاہ پوش ہیکل کے پردوں اور سینٹ پال اور جینیوا کی کیتھرین کی کتابوں کے انبار کے درمیان محفوظ تھا جس کے حسن کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا تھا ۔ جس کے حسن کو دیکھ کراطمینان ہوتا تھا کہ زندگی میں ایسا بھی ہوسکتا ہے ۔

پھر میں نے سرخ پہاڑوں کی طرف دیکھا سرخ اور نیلی پہاڑیاں جن کے چاروں طرف سخت کالے راستے پھیلے ہوۓ تھے اور ناگ پھنی جھاڑیاں آہستہ آہستہ آسمان کی طرف بڑہ رہی تھیں اور راستے کے چاروں سمت شدید تکلیف دہ وسعتیں تھیں ۔ جہاں پر کچھ نہ تھا

پھر ہوائیں چاروں طرف پھیلنے لگیں اور شمال کی سمت بڑہیں اور سائرن چیخنے لگے ۔ تو میں نے چپکے سے پوچھا ، میں نے پوچھا یہ آبشار کیوں آے خداوند خدا نے اپنے ازلی گناہ کو کس طرح پہچانا ۔ اور طوفان کیسے گرجتے رہے ۔ لیکن مجھے اس نے کوئ جواب نہ دیا ۔ اور وقت لڑھکتا گیا۔ اور طوفان میرے پاس سے گزرگۓ جبکہ میں سورہی تھی ۔ پھر میں نے اسے پہاڑوں سے اترتے دیکھا ۔ اس کے نغمے کی آواز قریب آتی گئ اور پھر دفعتاً وہ آواز بھی دور چلی گئ ۔ اور میں نے کہا میں اس کے ساتھ چل سکتی تھی ۔ کائنات کے عظیم ترین ویرانوں تک اس کے ساتھ جاسکتی تھی لیکن یہاں پر محض یہ ہوائیں بہتی ہیں۔ اور سب مرچکے ہیں ۔ جب یہاں پریاں ہنستی تھیں اور گرما کے گھومتے ہوۓ چاندوں کے نیچے وہ ایک دوسرے سے سرگوشی میں کہتے تھے — وہ آرہا ہے ۔ وہ خوابوں کا انسان آرہا ہے ۔ جو ہمیں نیلی پہاڑیوں کی طرف لے جاۓ گا ۔ وہ ہنستے رہے اور آسمان یک لخت سیاہ پڑگیا (اور وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ، وادی کے پار ، پکاسو اور اوڈن کی باتیں کر رہا تھا ) اور پھر آسمان نیچے گر پڑے۔ بہت ٹھنڈ ہے ۔ بہپت ٹھنڈ ہے ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا ، چلو یہاں سے چلیں انہوں نے طۓ کیا اور وادی کی طرف واپس چلے گۓ جہاں سفارتی ضیافتیں ہوتی تھیں اور معزز خواتین ناک کی نوک کو میکس فیکٹر سے ٹھیک کرکے ایک دوسرے سے پوچھتی تھیں۔ ازنٹ اٹ کیوٹ ڈارلنگ ؟

اور رات کے چاند تیزی سے گھومنے لگے اور شیطان چیخنے ۔ اور پریاں ایک کے بعد ایک مرگئیں ۔ اس سے پہلے کہ وہ نیلی پہاڑیوں تک پہنچ سکتیں ۔ خداوندِ خدا نے زندگی کتنی عظیم کتنی مقدس کتنی قیمتی تخلیق کی ہے ۔ کہ جوجب ختم ہوجاتی ہے ۔ تو اس کے لۓ کوئ روتا ہی نہیں ۔

ایسی باتیں نہ کرو۔ ورنہ خداوندِ عالم تم پر اپنا عتاب نازل کرے گا ۔ نورانی داڑھیوں والے عالموں نے کہا ۔ جب کہ روحیں کائنات کے ویرانوں میں اپنا ابدی گھر تلاش کرتی پھر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ انسانوں کی دعاؤں کے ذخیرے ختم ہوگۓ ۔ اور جتنی سانسیں انہیں زمین کے اوپر عطا کی گئیں تھی وہ پوری ہوگئیں ۔ تب مکمل سناٹا چھا گیا ۔ اور سب خاموش ہو گۓ ۔

میں نے یہ سب کچھ دیکھا ۔ جس وقت میں ٹھنڈی گھاس پر بیٹھی تھی ۔ اور میں نے فرشتوں کی آواز سنی جو میری گمشدہ روح کی نجات کے لۓ مصروفِ عبادت تھے ۔ تم جو کچھ سوچتی ہو ۔ اس کے لۓ تمہیں زیادہ محتاط رہنا چاہیۓ۔ ورنہ ابدی گھر کے دروازے تم پر بند ہوجائیں گے ۔ نورانی داڑھیوں والے عالموں نے دھرایا ۔ چناںچہ میں نے بھی فرمانبرداری کے ساتھ اچھے اچھے خیالات جمع کرنے شروع کۓ ۔ گلاب کے پھول ایرانی جانمازیں سفید نورانی کپڑے ۔ لیکن یہ اور بھی زیادہ بوریت تھی ۔

آخر اس شور و غل میں وجود کے طوفاں کی خاموش ساکت گرج کو میں نے پہچانا ۔ اور میں نے دیکھا کہ مٹیالے شب و روز چاروں جانب پھیلتے جا رہے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ اور خالی آسمانوں کی عظیم تنہائ میں روح القدس بلا کسی مقصد کے منڈلاتی پھر رہی ہے ۔ اور پھر پانیوں پر سے موسیقی اٹھی ۔ اور اس نے کہا میں یہاں ہوں ۔ اور میں مرچکا ہوں ۔ ( وہ اپنے ڈرائنگ روم میں ، وادی کے پار ، پکاسو اور اوڈن کی باتیں کر رہا تھا ) وہ مرگیا ۔ جس وقت کہ وہ ریلنگ پر جھکا کھڑا تھا ۔ اور غروبِ آفتاب کی روشنی میں اس کے بال سرخ نظر آرہے تھے ۔

اور زندگی کے اس ابدی اندھیرے میں اسے دفن کردیا گیا ۔ اور ہواؤں میں شیطان چیختے رہے ۔ اور زندگی کی قبروں کی لا متناہی تاریکی میں فاسفورس کی سی روشنی جھلملاتی رہی ۔ اور دریا کے طویل سیاہ پل پر سے کسی انڈر ٹیکر کی کالی گاڑی کھڑ کھڑاتی ہوئ دھیرے دھیرے گزر رہی تھی ۔ اور ہوائیں اپنے سرخ گرم آنسوؤن کو ضبط کر کے سکون سے بہنے لگیں ۔ اور چاند قبرستان کی سیاہ رنگ کی دیمک خوردہ صلیبوں پر لٹک گیا ۔

چنانچہ آج کی رات ، مارچ کے مہینے کی اس معمولی رات ، وہ ختم ہوگیا ۔ وہ اس دوسری ، روشنی کی زندگی میں پہنچ گیا جو اس کی اپنی زندگی ہے ۔ جہاں اس کا اپنا گھر ہے ۔ (اس کا گھر جس کی آرائش اور جس کے باغ کے پھول اسے اتنے پسند ہیں کہ وہ پہروں ان کے متعلق آپ سے باتیں کر سکتا ہے ) اس کا اپنا مستقبل ۔ ان گنت دن ۔ ان گنت راتیں ۔ ستاروں کی روشنی ۔ ہر سنگھار کی خوشبوئیں ۔ شور مچانے والے خوش باش دوست ، ضیافتیں خاموشی کے مکمل لمحات ۔ یہ سب کچھ اس کا اپنا ہوگا ۔ اپنا اور دلچسپ ۔

ایسا ہوتا ہے کہ روح القدس اندھیرے میں آگے بڑھ رہی تھی

یہ یسوع کی دلہن بن گئ ۔ اور یسوع اپنی اسی ہزار دلہنوں کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہے — خوبصورت ڈچ راہب نے آہستہ سے کہا ۔ کوائر کے نیلی آنکھوں والے لڑکوں نے اس کی بات دہرائ ۔ جب کہ ایک سنہری بالوں والی لڑکی بال منڈوا کے صلیب کی بیٹیوں کے مقدس سلسلے میں داخل کی جارہی تھی ۔ ( تم نے مجھے خدا حافظ نہیں کہا — ؟ وادی کے پرے اپنے ڈرائنگ روم میں ، اوڈن پر باتیں کرتے کرتے مڑ کر اس نے پوچھا ۔ صوفے پر سے اٹھ کر ایٹ ہوم کے چند اور مہمانوں سے کچھ تکلف کے الفاظ کہے اور پھربیٹھ گیا ) اور زماں و مکاں کے اس بلوریں قید خانے میں خیالوں کے ٹوٹے پھوٹے ستون چاروں جانب بکھرے پڑے تھے ۔

اور اتنے برسوں پہلے جامنوں کے ساے میں سے جو کشتی چلی تھی ۔ وہ خداوندِ خدا کے تخت کے نیچے جو کالی ندی بہہ رہی ہے ۔ اس تک پہنچ گئ ہے ۔ وقت کا آبشار تیزی سے نیچے گر رہا ہے اور اس سے سینکڑوں ہزاروں میل پرے ۔ پورب دیس کے ہمارے گھر میں آنگن کے پیپل کے نیچے مالی کی بہو نے بھوانی کا چبوترہ سجایا ہوگا اور ندیوں کے کنارے ہر سنگھار کی مہک اڑتی ہوگی ۔ کتنا عبرتناک انجام ہے ان سب چیزوں کا اے مومنو ! اور گزرتی صدیوں کی راکھ ہوا میں بکھرتی جارہی ہے ۔ اور کچھ یاد نہیں آتا ۔ لیکن اگلی پیدائش پہلی پادائش سے بہتر ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک — یہاں تک کہ اگلے آنے والے زمانوں میں وقت کے صحراؤں میں گھومتے ہوۓ میں اسے دوبارہ دیکھ پاؤں گی ۔ جس طرح پچھلی صدیوں میں میں نے اسے دیکھا تھا ۔ جیسے اس زمانے ، اس دنیا کے ایک مخصوص چکر میں دن و رات کے ان حلقوں میں اسے پہچانا تھا ۔ اس وقت تک جب کہ مارچ کی ایک شام کو وہ ختم ہوگیا۔ اور اس سمے ، دوپہر کے سناٹے میں روحیں دور دور تک تیرتی پھر رہی ہیں اور وہ سارے رنگ جو دھنک اور پھولوں اور بادلوں کے لۓ تخلیق کۓ گۓ تھے اس اکیلی لرزاں روشنی میں تحلیل ہوگۓ ہیں۔ اور اس روشنی میں خدا اپنی سنہری آنکھیں بند کرکے ابدی آنند کی نندیا میں کھو گیا ہے۔ خلاۓ بیکراں کا یہ صحرا دور تک موسیقی کی لہروں کی طرح پھیلا ہوا ہے اور چاند کنول کے اکیلے پھول کی طرح ڈنٹھل سے جدا ہو کے نور کی اس ندی میں گر چکا ہے ۔ اور یہاں اس روشنی میں آخری دعا سنی جاتی ہے ۔ اور اس بھری دوپہر ، یا اس آدھی رات کی گہرائ میں مجھے اپنے وجود کے مکمل پن کا احساس ہوتا ہے ۔ دوپہر کی لہریں چاروں طرف تیر رہی ہیں اور سونے کے رنگ کا پانی کھنڈرات پت برستا جا رہا ہے ۔ دیوانے انسانو ۔ کیا تم یہ نہیں دیکھ سکتے کہ اس پانی میں جنم جنم کا سارا نا مکمل پن ، ساری بے اطمینانی ، ساری کشمکش ہمیشہ کے لۓ بہہ جاۓ گی ۔ دیکھو کہ صحرا کا آسمان کتنا تنہا ہے ۔ یکتا خوبصورت کتنا عظیم اور وقت اپنی جگہ ٹہر گیا ہے اور حیات کی رو روح القدس میں داخل ہو کر آگے جارہی ہے

یہ لمحہ کتنی دیر ٹہر سکے — کتنی دیر ؟

اور تب میں نے پوکس سے کہا آؤ پوکس ڈارلنگ چل کر چاء پئیں ۔ پھر میں تمہیں چند نۓ پارٹی گیم بتاؤں گی ۔

( ارے اے بھئ اللہ میاں ) ۔

Prof. Qazi Abdus Sattar ke Sath Urdu Duniya mein aik Style ka Khaatma

Articles

قاضی عبدالستار کے ساتھ اردو ادب اور اردو دنیا میں ایک اسٹائل کا خاتمہ ہوا ہے

پریس ریلیز

قاضی عبدالستار کے سانحہ ارتحال پر شعبہ اردو ممبئی یونیورسٹی کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا ۔ اس نشست کی صدارت پروفیسرصاحب علی نے کی جبکہ معروف صحافی محمد وجیہ الدین (ٹائمزآف انڈیا) مہمان خصوصی کی حیثیت سے شریک تھے۔صدارتی کلمات میں ڈاکٹر صاحب علی نے قاضی عبدالستارکے سوانحی حالات، ان کی تخلیقات اور ان کے اسلوب پر اظہار خیال کیا ۔چونکہ قاضی صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میںڈاکٹر صاحب علی کے استاد رہ چکے ہیں۔انھوں نے اپنے استاد کے کئی یادگار واقعات بیان کیے۔ قاضی صاحب کی تحریر ، تقریر ، تدریس،ان کا رہن سہن ، ان کی پوشاک غرض کئی جزیات کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا کہ’’ قاضی عبدالستار کے انتقال سے نہ صرف یہ کہ اردو کا ایک ادیب نہ رہا بلکہ وہ جس قسم کی زبان لکھتے تھے ویسی زبان لکھنے ولا یا بولنے والا بھی ہم میں نہ رہا۔ وہ ایک اسٹائلش انسان تھے۔ یہ اسٹائل ان کی نہ صرف تحریر ، تقریر اور تدریس میں نمایاں اور منفرد تھی بلکہ زندگی گزارنے کے عمل میں بھی وہ اسی انفرادیت کے قائل تھے ۔ان کے ساتھ اردو ادب اور اردو دنیا کے ایک اسٹائل کا خاتمہ ہوگیا ۔ ہم ان کے پسماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ شعبہ اردو ان کے انتقال پر رنجیدہ و غمگین ہے۔اللہ رب العزت سے دعا گو ہیں کہ ان کی مغفرت فرمائے۔‘‘
 محمد وجیہ الدین نے اپنے کلمات میں قاضی صاحب سے اپنی وابستگی کا ذکر نصابی کتاب کے حوالے سے کیا۔ انھوں نے خاص طور پر ناول ’’ دارا شکوہ‘‘ کا ذکر کیا جو ان کے میٹروکولم نصاب کا حصہ تھا۔ اور اسی موضوع پر دلی میں ہوئے سیمنار کی یاد تازہ کرتے ہوئے وجیہ الدین نے بتایا کہ ’’ جس سیشن میں ’’ داراشکوہ‘‘ ناول پر مضمون پڑھنا تھا ، اتفاقاً اس کی صدارت خود ناول نگار قاضی عبدالستار کر رہے تھے۔ میرے لیے یہ کافی چیلنج بھرا لمحہ تھا۔ ‘‘ انھوں نے قاضی صاحب کے اسلوب کی انفرادیت پر بھی بات کی۔
شعبہ اردو کے استاد ڈاکٹر عبداللہ امتیاز نے قاضی صاحب کی شخصیت کے حوالے سے اپنی یادوں کو تازہ کیا۔ انھوں نے خاص طور پر قاضی صاحب کے شاہانہ رہن سہن کا ذکر کیا اور کہا کہ’’ امیری اور رئیسی کیا ہوتی ہے وہ قاضی صاحب کو دیکھ کر پتہ چل جاتا تھا۔‘‘ شعبہ اردو سے وابستہ استاد ڈاکٹر مزمل سرکھوت نے قاضی صاحب کے اسلوب اور موضوع کے حوالے سے بات کی ۔ انھوں نے کہا کہ’’ قاضی صاحب کا تاریخی شعور بیدار تھا۔ ان کے ناولوں کے موضوعات ان کے تاریخی شعور کی گواہی دیتے ہیں۔ ‘‘
 نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر قمر صدیقی نے قاضی عبدالستا رکی علمی فتوحات کا ذکر کیا۔ ان کے انفرادی اسلوب اور اس کی بے پناہ مقبولیت کا ذکر کیا۔ نشست کے آخر میں شعبہ اردو کی جانب سے ایک تعزیتی قرارداد ڈاکٹر قمر صدیقی نے پیش کی۔ جس میں قاضی عبدالستار کے سوانحی کوائف ، ان کے فکشن میں کارہائے نمایاں نیز ان کے اسلوب اور شخصیت کی انفرادیت پر روشنی ڈالی گئی ۔
اس نشست میںشعبہ اردو کی اساتذہ ڈاکٹر معزہ قاضی، محترمہ روشنی خان کے علاوہ ڈاکٹر رشید اشرف خان، ایم اے اول ودوم کے طلبانیز شہر کی چند شخصیتیں موجود تھیں۔ یہ تعزیتی نشست ممبئی یونیورسٹی کالینہ کیمپس کے لیکچر کامپلیکس میں منعقد کی گئی تھی۔
(تصویر کا کیپشن: دائیں سے : ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر عبد اللہ امتیاز، پروفیسر صاحب علی، وجیہہ الدین اور ڈاکٹر معزہ قاضی)

Ghalib Academy mein Prof. Naser Ahmad Khan ka Izhar E Kheyal

Articles

غالب اکیڈمی میں ماہانہ ادبی نشست میں پروفیسر نصیر احمد خاں اظہار خیال

پریس ریلیز

گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ماہانہ ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا ۔جس کی صدارت جناب ڈاکٹر جی آر کنول نے فرمائی۔ نشست میں اردو کے مشہور فکشن نگار قاضی عبد الستار کے انتقال پرملال پر تعزیت کا اظہار کیا گیا اس موقع پر پروفیسر نصیر احمد خاں نے اپنے تعلقات کے حوالے سے قاضی عبد الستار کی زندگی اور خدمات پر بھر پور روشنی ڈالی ۔ انھوں نے کہا کہ پروفیسر قاضی عبدالستار اردو اور ہندی دونوں زبانوں سے جڑے ہوئے تھے وہ اردو نثر کے ایک مخصوص طرز کے قصر کا چوتھا ستون تھے۔ رجب علی بیگ سرور،محمد حسین آزاد،ابولکلام آزاد اور قاضی عبدالستار کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔وہ اپنے طرز بیان سے قاری کو باربار پڑھنے پر مجبور کرتے تھے۔وہ نستعلیق قسم کے آدمی تھے اپنی زندگی خوب جئے۔فن میں یکتا تھے اس لیے شہرت اور عزت بھی خوب ملی۔ قاضی عبدالستار نے افسانوں کے علاوہ بہت سے تاریخی ناول لکھے۔ ان کی ناولوں میں ہمارے تاریخ کے سو مناظر ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔انھوں نے نثر میں رزم کی روایت قائم کی۔ ان کا رخصت ہونا ہندی اردو کا بہت بڑا نقصان ہے۔حاضرین نے دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے تعزیت کا اظہار کیا۔ نشست میں چشمہ فاروقی نے اپنا افسانہ فریب مسلسل پڑ ھ کرسنایا اور محمد خلیل نے سائنسی کہانی سردیوں میں جانوروں کی لمبی نیند سنائی اور شعرائے کرام نے اپنے اشعار سے سامعین کو محظوظ کیا۔ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں ؂
بتاؤں کیا کسی کو اپنا مذہب جب مرے دل میں

کہیں کعبہ منور ہے ، کہیں میخانہ روشن ہے

جی آر کنول
ہم کو تو خیر آپ نے برباد کردیا

اب اس کے بعد کہیے ارادہ کدھر کا ہے

ظہیر احمد برنی
ہے درد مرے دل میں نہاں دونوں جہاں کا

ہے فکر رسا میری ادھر اور ادھر بھی

متین امروہوی
راہیں دھواں دھواں ہیں سفر گرد گرد ہے

یہ منزل مراد تو بس درد درد ہے

اسد رضا
خوب صورت جو بھی ہوگا مجھ کو دیکھے گا ضرور

آئینے سا میں لگا بیٹھا ہوں اک دیوار سے

سیماب سلطان پوری
یاد اپنوں کی مجھے آئی بہت

کررہا تھا میں غم دل کا حساب

سمیر وششٹھ
پہچان ہوئی اپنے پرائے کی تجھی سے

اے گردش دوراں ترے احسان بہت ہیں

اسرار رازی
شب سیاہ کے منظر ہیں شش جہت میں ابھی

وہ تاب ناک سی لیکن سحر ضروری ہے

عزم سہریاوی
آل نبی کے خشک لبوں تک نہ جاسکا

روئے نہ اپنے آپ پہ آبِ فرات کیوں

درد دہلوی
میں وہ شاعر ہوں جسے ہے گل و رخسار سے بیر

میں فقط شہر کے حالات لکھا کرتا ہوں

فروغ الاسلام
روز و شب خوابوں میں پھر چھپ چھپ کے وہ آنا تیرا

وہ شب فر قت میں ارضِ وصل فرمانا تیرا

دریا جین
وقت مرہم ہے ہر زخم کا، تجربہ ہے بڑوں کا جگر

درد دل سے جدا کیا ہوا،زندگی ٹمٹمانے لگی

شاہد انور
پرندے بھی چہکنا بھول بیٹھے

چمن سہما ہوا ہے باغباں سے

قلم بجنوری
گلستاں جس کو کہا اقبال نے

کیا وہ کوئی اور ہندستاں ہے

ظفر کانپوری
بجزہر اضطرابِ جاں شکایت ختم کرنی ہے

مجھے بے معنی تیرا حلقۂ زنجیر کرنا ہے

حبیب سیفی
مداوا نے درد جگر ڈھونڈتا ہوں

میں صحرا میں کوئی شجر ڈھونڈتا ہوں

سید مسعود الحسن مسعود
زمانے کی حقیقت کیسے اس کو کر گئی گم سم

وہ بچہ سہما بیٹھا ہے ہنسا کے دیکھ لیتے ہیں

نزاکت امروہوی
نشست میں نسیم عباسی، عزیزہ مرزا، طلعت سروہہ،منوج شاشوت نے اپنے کلام پیش کئے۔

Taqreer Kaise Karen by Maulana Najmuddin Ahyai

Articles

تقریر کیسے کریں از مولانا نجم الدین احیائی

مولانا نجم الدین احیائی

Mualana Abul Kalam Azad ki Basirat aur Asri Ma’nuwiat by Arbar Mujeeb

Articles

مولانا آزاد کی بصیرت اور عصری معنویت

ابرار مجیب

مولانا آزاد کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ایک طرف وہ سیاسی رہنما ہیں ، دوسری طرف مفکر، تیسری طرف اسلامیات کے بہترین عالم، چوتھی طرف ایک عظیم صحافی ۔بظاہر مولانا کی شخصیت کے یہ تمام پہلو الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن بغور جائزہ لینے سے یہ علم ہوتا ہے کہ مولانا اور پرنور سورج میں کوئی فرق نہیں جس سے کروڑوں کرنیں نکل کر دنیا کو ضیا بار کرتی ہیں۔یہ تمام پہلو مولانا جیسے عظیم مفکر کے عملی اور علمی اظہار ہیں جو ہمیں الگ الگ نظر آتے ہیں لیکن یہ سب ایک ہی دھاگے میں پروئے قیمتی ہیرے ہیں۔غیر منقسم ہندوستان کی تاریخ میں دو شخصیتیں ایسی ہیں جنہوں نے سیاسی اور سماجی سطح پر خاص طور سے مسلمانوں کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔یہاں سرسید احمد خاں کے ترقی پسندانہ نظریات اور ان کی خدمات سے الگ مولانا آزاد اور علامہ اقبال کے نظریات کے اختلاف پر ایک نظر ڈالنا ضروری سمجھتا ہوں ۔اسلامی فکر کے دونوں ہی شارح ہیں ۔اقبال اپنی شاعری میں انقلابی اسلام کی عظمت کے گن گاتے نہیں تھکتے اور ماضی کے قصے سنا کر مسلمانوں کی روح کو گرمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔وہ مسلمان میں شاھین اور مردِ مومن تلاش کرتے ہیں ، مسلمانوں کے رزم و بزم کی یاد دلاتے ہیں اور حال کی زبوں حالی پر نوحہ کرتے ہیں ۔علامہ اقبال ہی ہیں جنہوں نے آلہ آباد کے مسلم لیگ کے اجلاس کے اپنے خطبہ صدارت میں اسلامی مملکت کا نظریہ پیش کیا تھا اور مسلمانوں کو ہندو سے الگ ایک قوم قرار دیا۔ایک اسلامی مملکت کے قیام کے سلسلے میں انہوں نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآخر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی۔ہندوستان کے مسلمان حالات اور نظریات سے مجبور تھے کہ ھندؤں سے الگ ایک ریاست قائم کریں۔ جہاں ان کی اکثریت ہواور جہاں نہ صرف اسلام کا اخلاقی نظام بلکہ اسلام کا معاشی نظام بھی آزاد ہو۔ اسلام کو بحیثیت ایک قوت کے ہندوستان میں زندہ رکھنے کے لیے الگ مسلم ریاست کا قیام ناگزیر ہے۔‘‘
علامہ اقبال مزید کہتے ہیں :
’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک (برصغیر )میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرسکے۔‘‘
غور کریں تو علامہ کا استدلال قیام ریاست اسلامیہ کے سلسلے میں یہ ہے کہ مسلمان حالات و نظریات سے مجبور تھے کہ وہ ایک اسلامی ریاست کاقیام عمل میں لائیں ، اسلام کو بحیثیت ایک قوت زندہ رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست قائم کی جائے اور اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت قائم رہے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا وجود عمل میں آجائے۔اس بات سے قطع نظر کہ اسلام اور اسلامی تمدن کیا ہے اور مختلف جغرافیائی خطوں کے کلچرل اور تہذیبی وراثت نے اسلام کے عربی روپ پر کیا اثر ڈالااس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ صدیوں سے چلے آرہے بھائی چارہ اور آپسی محبت کی فضا میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کتنا جائز تھا ؟ اس مطالبے نے اکثریتی طبقہ کی فکر پر کتنا منفی اثر ڈالا ہوگا۔اقبا ل اسلام کے تمدنی پہلو کی شناخت ہندوستانی مشترکہ تہذیب سے الگ کیوں کرنا چاہتے تھے۔ایک علیحدہ اسلامی ریاست کا مطالبہ اور قیام پاکستان کے کیا نتائج نکلے یہ تو ہمارے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن اسلام کے پیرو کاروں کو ایک قوم کا درجہ دینے کی قلعی بہت پہلے مولانا آزاد کھول چکے تھے۔قومیت کے تصور کو مذہب کے ساتھ وابستہ کرنا ایسی فاش غلطی تھی جس کا ازالہ تقریباّ’’ ناممکن ہے۔یہی وہ وش بیج ہے جو آج ایک تناور درخت بن گیا اور دونوں طبقوں میں منافرت کی سیاست کرنے والے اس زہریلے درخت کے پھل ہمیں پیش کررہے ہیں۔ اس معاملے میں مولانا آزاد کی دور اندیشی اور فکری نہج بالکل واضح تھی۔ ان کے مطابق مذہب کے نام پر کسی ریاست کا قیام سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں ۔کلچر ہی وہ بنیادی پہلو ہے جو قومیت کے تصور میں سب سے اہم ہے۔زبان، لباس، خوراک ، تہوار ، کھیل ، ادب ، شاعری ، فلسفہ یہ وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کے کلچر کا مشترکہ حصہ ہیں نہ کہ مذہب۔اس ضمن میں مولانا آزاد اپنی مشہور زمانہ کتاب انڈیا ونس فری ڈم میں رقم طراز ہیں:
’’اسکیم(قیام پاکستان)کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مجموعی اعتبار سے ہندوستان کے لیے ہی نہیں ، مسلمانوں کے لیے خاص طور پر مضرت رساں ہے۔اور واقعہ یہ ہے کہ جتنے مسئلے حل کرتی ہے اس سے زیادہ مسئلے پیدا کرتی ہے۔‘‘
مولانا کی اس گہری فکری بصیرت سے سرسری صرف نظر کرنا ممکن نہیں ہے ۔خاص طور سے جب ہم آج کی صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ برصغیر میں مسلمان تین حصوں میں منقسم زبوں حالی اور کس مپرسی کا شکار ہے۔ پاکستان جو اسلامی قومیت کے تصور پر بنا ،یکجا نہ رہ سکا اور کلچر و زبان کے نام پر یہی اسلامی پاکستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا ۔ ایک نئے ملک کا وجود عمل میں آیا جس نے مذہبی بنیادوں پر نہیں کلچرل اور زبان کی بنیاد پر اپنے وجود کے جواز کو ساری دنیا سے تسلیم کروا لیا۔ایک اہم بات جو مولانا آزاد نے لکھی ہے وہ یہ کہ :
’’مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ پاکستان کی اصطلاح ہی میری طبیعیت کے خلاف ہے۔اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے ناپاک ہیں ۔جب کہ کچھ پاک ہیں۔پاک اور ناپاک میں علاقوں کی یہ تقسیم غیر اسلامی ہے اور راسخ العقیدہ برہمنیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے جو انسانوں اور ملکوں کو مقدس اور نجس میں بانٹتی ہے۔‘‘
مولانا آزاد کی فکری بصیرت جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی شامل ہے اس کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم جب غور کرتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالنے میں مشکل نہیں ہوتی کہ پاکستان کی اصطلاح کے تعلق سے مولانا کی رائے غیر واجب نہیں بلکہ عین اسلامی فکر کے مطابق ہے۔ ایک طرف اسلامی تعلیمات میں زمین خدا کی ہے اور اس کا کوئی حصہ پاک اور کوئی ناپاک نہیں ہوسکتا ۔ ساری زمین پاک ہے اور اتنی
پاک کہ بلا کسی تردد نماز اداکی جاسکتی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کو جدید منظر نامے میں رکھ کر سمجھنے کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہے وہ نہ اب ہے نہ اس وقت تھی ، گوکہ اس وقت اقبال اور جناح جیسے جید عالم اور فلاسفر موجو د تھے۔اگر بعض لوگ اس کی سمجھ رکھتے بھی تھے تو مصلحتا’’ سیاسی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے۔ پاک اور ناپاک سرزمین کی ذیلی بحث سے آگے مولانا آزاد نے یہ پیش گوئی کردی تھی کہ مذہب کے بجائے کلچر انسانوں کو ایک ڈور میں باندھنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔زبان نمایاں رول ادا کرتی ہے۔ ایک اردو بولنے والاپشتو زبان بولنے والے سے اس قدر قربت محسوس نہیں کرسکتا جتنا اردو یا ہندی بولنے والے سے ۔ایک بنگالی اردو والے سے اتنا نزدیک نہیں ہوسکتا جتنا ایک بنگالی سے چاہے وہ بنگالی ہندو ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان بننے کے بعد ہم سب نے اس کا انجام دیکھا۔کس طرح زبان اور کلچر نے مذہبی قومیت کے تصور کو غلط ثابت کردیا اور بنگلہ دیش وجود میں آگیا۔مولانا آزاد کی دور اندیشی اس بات میں مضمر ہے کہ وہ غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان اور ہندو کو کاندھے سے کاندھاملا کر ملک کی ترقی میں بے مثال رول ادا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔وہ برصغیر کا مستقبل ہندو مسلم اخوت میں دیکھتے تھے ۔ عصری صورت حال پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں تقسیم کے نتیجے میں جو دو ملک وجود میں آئے وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ۔ آزادی کے بعد ہندوپاک کے درمیان تین جنگیں ہوچکیں اور لاکھوں انسان لقمہ ء اجل بن گئے ۔خود پاکستان دو حصوں میں منقسم ہوگیا۔ ہندوستان میں ہندو مسلم منافرت کو ہوا دی گئی اور سیاسی روٹی سینکی جانے لگی ۔ فسادات کا ایک نا مختتم سلسلہ شروع ہوگیا۔ تصور کریں اگر مولانا آزاد کی خواہش کے مطابق ہندوپاک کا بٹوارہ نہ ہوا ہوتا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو پہنچتا۔ بلاشبہ مسلمانوں کو ۔ ایک عظیم ملک کا حصہ ہونے کی وجہ سے غیر منقسم ہندوستان کے مسلمان زیادہ خوش حال ہوتے ۔ ساتھ ہی سیاسی اور سماجی سطح پر بھی ان کی اہمیت زیادہ ہوتی کیوں کہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے بھی مسلمان چالیس فیصد سے کم نہیں ہوتے۔آج منقسم برصغیر میں مسلمانوں کی حالت دگر گوں ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور بنگلہ دیش میں راسخ العقیدگی نے اپنی جڑیں جما لی ہیں۔ہندوستان میں مسلمان بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر غربت اور بے روزگار ی کا شکار ہیں۔ ان کی وفاداری سخت گیر ہندو جماعتوں کی نظر میں مشکوک ہے۔مولانا آزاد مستقبل کی اس پریشاں حالی کے اشاروں کو سمجھ رہے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان بننے کی پرزور مخالفت کی ۔ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں مولانا آزاد کے خیالات کو سمجھنے کے لیے ان کی تقریر کا ایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’۔۔۔۔آج اگر فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور کھڑا ہوکر اعلان کردے کہ سورا ج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجاؤں گا۔مگر اس سے دست بردار نہ ہوں کیوں کہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔ لیکن ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالمِ انسانیت کا نقصان ہوگا۔‘‘
مولانا کی مندرجہ بالا گفتگو کے پس منظر میں غور کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوراج یا حکومت کرنے کی آزادی یا وسیع تناظر میں آزادی ہے کیا؟ اس آزادی کا کسی ملک کے رہنے والوں کے درمیان اتحاد سے کیا رشتہ ہے ۔ کیا آزادی بغیر اتحاد کے قائم رہ سکتی ہے؟آزادی کے کے لیے پہلی شرط کیا ہے؟ ان بنیادی سوالوں پر غور کریں تو یہ بات صاف ہوتی نظر آتی ہے کہ غلامی کی اسیر کوئی قوم اس وقت آزادی حاصل نہیں کرسکتی جب تک وہ متحد نہیں ہو۔ ایک بکھری ہوئی آپس میں برسر پیکار قوم غلام بنانے والوں سے آزادی کس طرح حاصل کرسکتی ہے ۔ اس لیے مولانا آزاد کی نظر میں آزادی کے لیے پہلی شرط اتحاد ہے۔ہندو مسلم اتحاد ، یہ دو مذاہب کے ماننے والے اگر متحد نہیں ہوتے تو آزادی کا خٰواب دیوانے کا خواب بن کر رہ جاتا۔دوسری طرف مولانا آزادکی اس اہم گفتگو میں یہ بات بھی پوشیدہ ہے کہ آزادی کے حصول کے لیے اتحاد ضروری ہے تو اسے مستقل قائم رکھنے کے لیے بھی ہندو مسلم اتحاد قائم کرنا ضروری ہے۔ایک آزاد معاشرے میں مذہبی گروہ اگر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں تو ایک ہی آزادی باقی رہ جاتی ہے اور وہ آزادی ہے جنون کی ، پاگل پن کی ، قتل و غارت گری کی ۔غور کریں کہ مولانا آزاد فرشتے کے اس اعلان کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جس میں سوراج کی بشارت دی جارہی ہے بلکہ وہ ہندو مسلم اتحاد کو اولیت دیتے ہیں ۔ ذرا ہمارے عہد کے منظر نامے پر غور کریں اور مولانا آزاد کے ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت کو سامنے رکھیں ۔
تقسیم ہند ، آزادی اور فسادات کے یک انسانیت سوز دورکے بعد ہم دیکھتے ہیں دو ملک ایک پاکستان جو اسلامی جمہوریہ کہلایا ، ظاہر ہے کہ یہ ایک تھیوکریٹک اسٹیٹ بنا جس میں مذہب کو اولیت حاصل ہے جبکہ ہندوستان ایک غیر مذہبی ، جمہوری ، سوشلسٹ ملک بنا۔نظریاتی سطح پر ممالک تو بن گئے لیکن ہندوستان میں بھی تقسیم ہند کے بعد بعض ہندو انتہا پسند جماعت مسلم مخالفت کی بنیاد پر سیاست میں قدم جمانے لگیں ۔ یہ کہا گیا کہ ہندوستان کے بٹوارے میں مسلمانوں کا ہاتھ تھا۔تاریخی واقعات مثلا’’ بابر سے بابری مسجد کا تعلق جوڑ کر رام جنم بھومی کی تحریک ، مختلف تاریخی شہروں کے ناموں کی تبدیلی اور ہر بات کو ہندومسلم تنازعہ بنانے کی روش ۔ ایک سیاسی ماحول ایسا بن گیا جہاں ہندوستانی مسلمانوں کی توہین کے بغیر ہندوستانی سیاست آگے بڑھ ہی نہیں سکتی ۔آج کے پس منظر میں مولانا آزاد کی پیش گوئیاں بہت بامعنی نظر آتی ہیں ۔میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مولانا آزاد نے پاکستان کے قیام کی صورت میں اس قسم کی صورت حال کے پیدا ہونے کی وضاحت بہت پہلے کردی تھی ۔ اس کے باوجود مولانا نے تقسیم کے فورا’’بعد مسلمانوں کی ہجرت کی مخالفت کرتے ہوئے جامع مسجد سے وہ تاریخی تقریر کی تھی جس میں زو ر اس بات پر تھا کہ تم اپنی ثقافتی اور تاریخی وراثت کو کس کے بھروسے چھوڑ کر جارہے ہو۔ مولانا آزاد کا یہ خیال بھی تھا کہ مہاجروں کو پاکستان میں پہلے سے بسے سندھی ، پنجابی ، بلوچی اور پختون مسلمان وہ عزت نہیں دیں جو عزت انہیں آزاد ہندوستان میں حاصل ہے۔مولانا نے اپنی تاریخیٰ تقریر میں کہا تھا:
’’یہ دیکھو، مسجد کے بلند مینار اچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا ، ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلے نے وضو کیا تھااور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اتر گئے ۔پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا۔ بجلیاں آئیں تو اس پر مسکرائے ، بادل گرجے تو قہقہوں سے جواب دیا، صرصر اٹھے تو اس کا رخ پھیر دیا۔آندھیاں آئیں تو ان سے کہا تمہارا راستہ یہ نہیں ۔ یہ ایماں کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خود اپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔‘‘اس جوشیلی تقریر اور آزاد کی تھرتھرا دینے والی آواز کا تصور کریں تو مجلس میں موجود حاضرین پر اس کے اثر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اگر اسے منطقی سطح پر دیکھیں تو یہ تقریر بے مغز جذباتیت سے بھرپور ہے۔اس تقریر سے کوئی علمی خزانہ یا کوئی ایسا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاسکتا جو مستقبل کے اندھیرے میں رہنما بن سکے۔یہ ایک ہنگامی صورت حال میں کی گئی انتہائی جذباتی تقریر تھی۔ لوگ اپنی طنابیں کھول کر ایسی زمینوں کی طرف رخت سفر باندھ رہے تھے جنہیں انہوں نے کبھی دیکھا نہیں ۔ جہاں کے موسموں کی سختی یا نرمی سے وہ واقف نہیں تھے۔جہاں کی ہواؤں کو وہ جانتے نہیں تھے ، جہاں کے لوگ اجنبی تھی۔ لوگ رخت سفر باندھ رہے تھے اپنے بزرگوں کے مزاروں ، اپنی تاریخی عمارتوں ، اپنے علمی وراثت کو چھوڑ کر۔ ایسی صورت حال میں لوگوں کو علمی منطق سے روکنا ممکن نہیں تھا۔ یہ آزاد کا جینئس تھا کہ انہوں نے ایک جذباتی ، دل کو گرما دینے والی تقریر کی اور جانے والوں کے قدم رک گئے۔آج ہندوستان میں موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد ہمیں آزاد کی کوششوں کی یاد دلاتی ہے۔دوسری طرف ہجرت کرکے جانے والے ہندوستانی مسلمان آج پاکستان میں جس قسم کی منافرت اور لسانی عصبیت سے گزر رہے ہیں اس سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ۔ اس بات کی پیش گوئی آزاد نے بہت واضح طور پر کی تھی۔
مختلف حوالوں سے دراصل ہم مولانا آزاد کی آج کے عہد میں فکری معنویت پر غور کررہے ہیں ۔ان مذہبی افکار کے تعلق سے طویل گفتگو ہوسکتی جس میں زمانے اور حالات کے مطابق دینی احکام کو دیکھنے اور سمجھنے کا عمل ملتا۔جس نے ترجمان القران گہرائی سے پڑھا وہ پہلی جلد سورۃ فاتحہ کی تشریح سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کس طرح مولانا آزاد نے اس سورۃ کے حوالے قرآن الحکیم کی روح کو ہمارے سامنے پیش کردیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی تشریح اور تفسیر کے حوالے سے انہوں نے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو ہمارے سامنے پیش کردیا ۔ہماری معاشی زندگی ، اخلاقی زندگی ، سماجی زندگی ، دوسرے مذاہب سے ہمارے رشتے ،جدید دنیا میں مسلمانوں کا رول ، علم اور عمل کے اصول و ضوابط۔غرض کہ قران الحکیم کو سامنے رکھتے ہوئے آزاد نے ہمیں وہ آئینہ دکھایا جس میں جدید دنیا میں ایک مسلمان کو راسخ العقید گی کی بجائے وسیع القلبی ، جمود کی جگہ تحرک اور جہالت کی جگہ علم کے فروغ پر توجہ دینی چاہئے۔غور کیجئے آج مسلم معاشرہ کہاں کھڑا ہے۔علم کی اس بدلتی دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے۔معاشی سطح پر دنیا کے منظرنامے پر ہم کہاں ہیں۔ عورتوں کے سماجی مقام کا تعئین ہم کیسے کررہے ہیں۔زندگی کی ہر سطح پر آخر ہم پیچھے کیوں ہیں ۔ ظاہر ہے ایک طرف ہم دین کی بنیادی تعلیم کی وسعت کو راسخ العقیدگی کی عینک میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں دوسری طرف سائنس اور ٹیکنالوجی اور جدید علوم کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ مولانا آزاد کی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے اگر ہم اپنا سفر شروع کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں ہم اپنا مقام حاصل نہ کرسکیں۔اس معاملے میں سرسید اور آزاد ہم نوا نظر آتے ہیں۔خود آزادی کے بعد مولانا آزاد ہندوستانی ریاست کے دس سالوں تک وزیر تعلیم رہے اور جدید ہندوستان کے تعلیمی نظام کا جو جدید روپ آج ہمیں نظر آرہا ہے وہ مولانا آزاد کی فراست اور فکر کا نتیجہ ہی ہے۔آئی آئی ٹی سے لے کر عظیم یونیورسیٹیوں کے قیام تک مولانا آزاد کے تصور تعلیم کے حقیقی روپ کے جلوے نظر آتے ہیں۔
اس مختصر مضمون میں مولانا آزاد کی فکری معنویت اور اس معنویت کی عصری اہمیت کا پوری گہرائی سے جائزہ لینا ممکن نہیں ۔ یہ موضوع ایک مکمل کتاب کا متقاضی ہے لیکن مختصرا’’مولانا آزاد کی فکر میں تعلیم ، اتحاد، اورجدید فکر سے ہم آہنگی کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر انپہلوؤں کو ساتھ لے کر ہم آگے بڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کی دوڑمیں ہم پیچھے رہ جائیں۔
———————————————————————————————–
جناب ابرار مجیب اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور نقاد ہیں

Jashn E Wirst E Urdu 2018 organized by Delhi Urdu Academy

Articles

جشن وراثت اردو میں فنکاروں کا رنگا رنگ تہذیبی وثقافتی مظاہرہ

پریس ریلیز

نئی دہلی۔11؍نومبر
دہلی ہمیشہ ہی سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ یہ سلسہ اب بھی اسی آب و تاب کے ساتھ قائم و دائم ہے۔دہلی جہاں اپنی دوسری وجوہات سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہے ، وہیں اردو اکامی،دہلی اپنے تہذیبی وثقافتی اور علمی پروگرام کی وجہ سے پوری اردو دنیا میں معروف ہے۔ جشن وراثت اردو اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس جشن میں جہاں فنکاروں نے اپنے فن سے ناظرین و سامعین کو محظوظ کیا، وہیں نئے اور پرانے فنکاروں کو ایک ایسا اسٹیج فراہم ہوا، جہاں وہ اپنے فن کا مظاہرہ کر سکیں۔
جشن وراثت اردو کے دوسرے دن اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول نے سامعین و ناظرین کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ دہلی سرکار کی یہ کوشش ہے کہ شہر دہلی کی سماجی اور تہذیبی وراثت کا تحفظ اور فروغ ہوتا رہے ۔ اسی لیے اکادمی کی جانب سے جشن وراثت اردو کا انعقاد پچھلے کئی برسوں سے عمل میں آرہا ہے۔اس جشن میں اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے مختلف قسم کے اسٹال بھی لگائے گئے ہیں، تاکہ اردو زبان وادب کے تمام پہلوؤں کی ترجمانی ممکن ہوسکے۔
صبح دس بجے اس پروگرام کے دوسرے دن کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے اسکولی طلبا کے لیے امنگ پینٹنگ مقابلے کا انعقاد کیا گیا۔ اس مقابلے کو تین زمروں(سینئر سیکنڈری، مڈل اسکول اور پرائمری زمرہ)میں منقسم کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں دہلی کے مختلف اسکولوں سے ایک سو پچاس سے زائد طلبہ و طالبات نے شر کت کی۔ جج کے فرائض سیمیں مرتضی اورشاہ فیض الحسن(فائن آرٹس، جامعہ ملیہ اسلامیہ)نے انجام دیے ۔ نتیجے کے اعلان سے پہلے جج صاحبان نے آرٹس کے اہم نکات کی طرف اشارہ کیا۔ اس مقابلے میں شریک طلبہ و طالبات کی پینٹنگ پر اطمینان کا اظہار کیا۔سینئر سیکنڈری زمرے سے کل چودہ طلبہ و طالبات کو انعام کا مستحق قرار دیا گیا۔ جن میں جویریہ جاوید اور ضویا عالم کو پہلا انعام دیا گیا، جبکہ زارا احمد، یسریٰ اور جیوتی کو دوسرے انعام کا حقدار قرار دیا گیا۔ تیسرے انعام کے لیے اقصی، فوزیہ ، قاسم مہدی اور زینب کو منتخب کیا گیا۔ اس کے علاوہ کل پانچ طلبہ و طالبات(رحمت، اریبہ، سامعہ گلزار،سیدہ سمیرہ اور نورین فیض) کو حوصلہ افزائی کا انعام دیا گیا۔ مڈل زمرے میں پہلے انعام کا مستحق مدیحہ کو قرار دیا گیا، جبکہ دوسرا انعام عاتکہ سلطانہ، چشتیہ نازاور تیسرا انعام طوبی، کومل اور شفا کو دیا گیا۔اس زمرے سے حوصلہ افزائی کا انعام مہک، بشری شمس، گل افشاں، محمد عاطف، حماد حسن اور ہبہ کو دیا گیا جب کہ اور پرائمری زمرے میں پہلا انعام انورہ ناز کو، دوسرا انعا م شاہین پروین، صاحبہ فاطمہ اور تیسرا انعام حسن خالد، محمد افنان، رمشا رضا کودیا گیا۔ حوصلہ افزائی انعام اقرا، محمد ریحان، طرفیہ علی، محمد مصیب اور ارمان ملک کو دیا گیا۔
اس انعامی مقابلے کے بعدقصہ’’قصہ بلی کی تک بندی کا‘‘ کا پروگرام منعقد کیا گیا۔ جسے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا۔ اس گروپ میں ننھے ننھے بچوں نے ناظرین کو خوب محظوظ کیا۔ محفل قوالی نظامی چشتی برادرس(دہلی)نے پیش کی۔ سامعین نے اپنی فرمائش سے اس محفل کو اور بھی چار چاند لگایا۔ محفل غزل کے تحت شہاب خان نے متعدد کلاسیکل غزلیں پیش کیں۔ داستان گوئی کے تحت ونگس کلچرل سوسائٹی، دہلی نے ’’ٹوپی کی داستان ‘‘ پیش کی۔ انڈین اوپیرا فیوژن کے تحت صوفی گلوکار کابکی کھنہ نے امیر خسرو کے کلام کے ساتھ ساتھ داستان بھی پیش کیں۔ صوفی محفل میں اندرا نائک نے اپنے فن کا جوہر دکھایا۔ منور معصوم نے قوالی سے اتوارکی شام کو اور بھی پر نور بنا دیا۔ اس موقع پر ادب وثقافت سے دلچسپی رکھنے والے کثیر تعداد میں موجود تھے۔
آج کے تمام پروگراموں کی نظامت کے فرائض ریشما فاروقی اور اطہر سعید نے مشترکہ طور پر انجام دیے۔آخر میں شکریہ کی رسم اکادمی کے اسسٹنٹ سکریٹری مستحسن احمد نے ادا کی۔
۱۔ ۰۱؍نومبر کومعروف غزل گلوکار سریش واڈیکر غزل پیش کرتے ہوئے۔
۲۔ اسکول کے طلبا و طالبات پینٹنگ کرتے ہوئے۔
۳۔ ٹیلنٹ گروپ کے بچے قصہ گوئی کرتے ہوئے۔
۴۔ نظامی برادرس قوالی پیش کرتے ہوئے۔
۵۔ شہاب خان غزل پیش کرتے ہوئے۔
۶۔ وِنگ کلچر سوسائٹی کے ارکان ٹوپی کی داستان پیش کرتے ہوئے۔
۷۔ کابکی کھنہ انڈین اوپیرا پیش کرتے ہوئے۔
۸۔ معروف گلوکار اندرا نائک صوفیانہ کلام پیش کرتے ہوئے۔
۹۔ سامعین/ناظرین کا جم غفیر