How to Write A Short Story by Mansha Yaad

Articles

افسانہ کیسے لکھیں؟

منشا یاد

(انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ،اسلام آباد کے زیر اہتمام نوجوانوں قلم کاروں کی منعقدہ ورکشاب سے خطاب 2008)

عزیر طالبات!!!!

سب سے پہلے تو میں اس خوشی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو مجھے یہاں آ کر اور یہ جان کر ہو ئی کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی جیسے ملک کے نہایت اعلیٰ اور مقتدر ادارے میں آپ جیسے طلباء موجود ہیں جو افسانہ لکھنا اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔شاہد آپ کو معلوم ہو کہ میں نے اپنی ویب سائٹ پر نوجوانوں افسانہ نگاروں کو کسی معاوضے کے بغیر فنی اور تکنیکی مشورے دینے کا اعلان کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں نوجوان لکھنے والے اکثر مجھے اپنے افسانے بھجواتے اور سوالات کرتے رہتے ہیں ان سوالات اور مشکلات کو سامنے رکھ کر جو نوجوان طلباء کو پیش آتی رہتی ہیں میں نے فن افسانہ نگاری کے بارے میں ابتدائی اور بنیادی معلومات پر مشتمل کچھ نوٹس مرتب کئے ہیں ۔ آپ کے سامنے بھی انہی پر بات ہو گی کسی بھی فن میں کوئی نیا تجربہ کرنے سے پہلے اس فن کی مبادیات اور نصابی باتوں سے آگاہ ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ آخر میں اگر وقت ملا تو آپ کے سوالوں کے بارے میں الگ سے بات کریں گے ۔

افسانہ یا کہانی کیا ہے:

آپ جانتے ہیں کہ کہانی سے انسان کا بہت قدیمی ساتھ ہے شاید تب سے جب اس نے بولنا سیکھا تھا یا شاید اس سے بھی پہلے جب وہ زمین پر لکیریں کھینچ کر اور اشاروں سے اپنے ساتھیوں کو شکار کے وقت پیش آنے والے واقعات بتاتا ہو گا مظاہر فطرت یا کسی عجیب و غریب جانور کو پہلی بار دیکھ کر اپنی حریت اور خوف کا اظہار کرتا ہو گا ۔پھر جب یہ انداز ہوا کہ بعض لوگ کوئی واقعہ لطیفہ یا سرگزشت زیادہ دلچسپ طریقے سے بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو قصہ گوئی یا قصہ خوانی ایک آرٹ تصور ہونے لگا ۔ پشاور کے معروف قصہ خوانی بازار کا نام آپ نے ضرور سنا ہوگا جو اگلے وقتوں کی یادگار ہے ۔پھر قصہ اور کہانی نظم کی صورت میں کہا اور گایا جانے لگا ۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ہمارے ہاں بسوں میں گا کر چھوٹے چھوٹے دلچسپ قصے بیچے جاتے تھے ۔ شاہد اب بھی کہیں کہیں بیچے جاتے ہوں ۔ جب انسان نے لکنا پڑھنا سیکھ لیا تو کہانی نثری اسلوب میں لکھی جانے لگی اور ایک نئے دور میں داخل ہوئی اور حکاتیوں ،تمثیلوں ،لوک کہانیوں ،مثنویوں اور منظوم داستانوں کی صورت مسلسل آگے بڑھتی رہی ۔ یہاں تک کہ یہ نثری ادب کی ایک اہم شاخ قرر پائی ۔

یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ کہانیوں تہذیب و ثقافت کی اہم ترین عکاس اور مظہر (important aspect of culture) ہوتی ہے ۔ انسانی تہذیبیں کہانیوں میں پیش ہی نہیں ہوتیں ان سے شناخت بھی ہوتی ہیں ۔حکاتیوں، روایتوں اور تمثیلوں کی صورت یہ تفریح اور تعلیم کا قدیم ترین اور اولین ترین انسانی وسیلہ اظہار ہیں ۔ قدیم مصر، میسو پوٹیمیا (عراق)، یونان ،چین اور انڈیا میں ان کا خاصا سرمایہ موجود ہے، قدیم ترین زمانے کی کہانیوں اساطیر اور بعض اوقات عقاید کا روپ اختیار کرلیتی ہیں ۔ مذاہب میں بھی قصہ اور کہانی کے ذریعے تبلیغ اور اصلاح کا کام لیا گیا ۔ بدھ کی جاتک کہانیاں مشہور ہیں ۔ قرآن پاک میں بھی دیگر قصوں کے علاوہ حضر ت یوسف کا قصہ موجود ہے جس احسن القصص کہا گیا ہے ۔

مختصر کہانیاں (افسانے) ناول کے مقابلے میں مختصر اور کم پیچیدگی کی حامل ہوتی ہیں اور عام طور سے کسی ایک واقعہ، ایک پلاٹ، ایک سیٹنگ، تھوڑے کرداروں اور وقت کے کم دورانیہ تک محدود ہوتی ہیں ۔لیکن ان کا تاثر گہرا اور دیرپا ہو سکتا ہے ۔

بیانیہ :(Narrative)

بیانیہ کا لفظ کہانی کے مترادف یا ہم معنی (synonym)کے طور پر برتا جاتا ہے۔
کہانی کے اس اسلوب کو جس میں فرضی یا حقیقی سلسلہ واقعات کو کسی خاص ترتیب سے فنی یا ادبی روپ دیا جائے بیانیہ کہتے ہیں ۔ یہ تحریری، زبانی، نثر اصناف اور فکشن کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے ۔ اس میں عوماً مصنف (ادیب، مقرر یا خطیب) قاری یا سامع سے بلاواسط اور براہ راست مخاطب ہوتا ہے ۔
بیانیہ کی اقسام:

بیانیہ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ یا اصطلاح ہے، وسیع تر معنوں میں بیانیہ کا اطلاق تمام افسانوی تحریروں پر ہوتا ہے ۔ یہ بلاغت (Rhemtorical modes) کے ذریعوں یا وسلیوں (modes)
میں سے ایک ہے
فکشن (fiction):

فکشن (fictionn) ایسی تصوراتی یا فرضی تحری رکو کہتے ہیں جوفیکٹس (facts) کے برعکس حقیقی اور سچی نہ ہو (لیکن یہ لازم نہیں ہے) ۔ اس کا مقصد لکھنے والے پیغام یا نقطۂ نظر دوسروں تک پہنچانا ہوتا ہے یا یہ فقط وقت گزاری اور تفریح کیلئے بھی ہو سکتی ہے ۔عام طور پر قصہ ،کہانی ،حکایت ،فسانچہ ،ناول ،ناولٹ ،تمثیل ،ڈراما وغیرہ فکشن کی مختلف شکیں ہیں ۔ (تا ہم صرف یہی شکلیں نہیں) وقت کے ساتھ ساتھ اس میں سکرین پلیز ،وڈی وفلمیں ،کارٹوں کتابیں ،آڈیو وڈیو بکس وغیرہ بھی شامل ہو گئی ہیں ۔

نان فکشن (non-fiction):

فکشن کے برعکس ایسی تحریریں جن کو سچائی کے دعوے کے ساتھ پیش کیا جائے (چاہے وہ سچی ہوں یا نہ ہوں) نان فکشن کہلاتی ہیں ۔
عام طور پر تاریخ (ہسٹری)، علمی مضامین ،ڈاکو میٹریز ،سائنسی مقالات ،سوالخ عمریاں ،نصابی کتب ،فوٹوز ،وڈیو گیمز، کمپیوٹر گیمز ،بلیو پرنٹس ،سفر نامے ،صحافتی تحریریں وغیرہ نان فکشن کی ذیل میں آتے ہیں ۔سادگی ،سچائی اور صفائی (clarity) اس کی اہم ترین خصوصیات ہیں ۔

افسانہ (SHORT STORY):

اردو میں فکشن کیلئے افسانہ کی اصطلاح رائج ہے جس میں فکشن یا افسانوی ادب کی دیگر ساری انواع (modes) قصہ ،کہانی ،ناول ،ناولٹ ،مختصر افسانچے ،اور سکرین پلے سب ہی شامل تھے لیکن آہستہ آہستہ لفظ صرف شارٹ سٹوری (مختصر کہانی) کیلئے استعمال ہونے لگا ہمارے ہاں کہانی کا لفظ بھی انہی معنوں میں استعمال ہوتا ۔لیکن بعض لوگ (میرے سمیت) کہانی اور افسانے میں فرق روا رکھتے ہیں اس طرح کہانیاں واقعہ نگاری کے قریب ہوتی ہیں ۔یہ سیدھی ،سادہ اور حقیقت پر مبنی ہوتی ہیں جیسے سچی کہانیوں اور تین عورتیں تین کہانیاں وغیرہ ۔ اس کے برعکس جس کہانی میں لکھنے والا زیب داستان اور معنوں گہرائی کیلئے اپنا فن ،فکر ،تخیل ،تجزیہ اور نقطہ نظر شامل کر کے اسے خلاقانہ اور فنی پیش کش بنادے اسے فسانہ کہیں گے اسی لیے عام گفتگو ،میں بھی لوگ کہتے ہیں کہ فلاں نے تو معمولی سی بات کا افسانہ بنا دیا ہے ۔ یوں تو انسائے لطیف یا نثری نظم کی طرح کے پلاٹ ،کردار اور کہانی پن کے بغیر بھی افسانے لکھے گئے اور اینٹی سٹور پز بھی لیکن میرے نزدیک افسانے میں کہانی یا کہانی کے عنصر کا ہونا ضروری ہے ۔ دلچسپی یعنی ریڈایلبٹی ،اختصار ،ایجاز اور وحدت تاثر اس کی اہم خصوصیات ہیں ۔

افسانے کی تریف:
ایک مغربی دانشور نے افسانے (مختصر کہانی ) کی ایک مختصر تعریف یوں کی کہ ایک مختصر کہانی ایسی کہانی ہے جو مختصر ہو۔
(a short story a story which is short)
لیکن سوال یہ ہے کہ کتنی مختصر ؟ وقت اور دورانیے پر ماہرین کا ہمیشہ اختلاف رہا اور یہ کہانی کو پہچاننے کا کوئی اچھا پیمانہ ثابت نہیں ہوا ۔ایک امریکی نقاد w.b.pitkin نے بھی نہایت اختصاد سے کام لیتے ہوئے کہا کہ
The Short story is a narrative drama with a single effiect

ظاہر ہے ایسی تعریفیں ،آسان اور دلچسپ ضرور ہیں لیکن مکمل نہیں ۔ایک اور نسبتاً جامع رائے ملا خطہ ہو:

سچی بات یہ ہے کہ افسانے کی ایسی کوئی مخصر ،جامع اور ہر لحاظ سے مکمل کرنا جس میں اس کی ساری خصوصیات سما جائیں آسان نہیں ہے ۔ ہر بار کچھ نہ کچھ رہ جاتا ہے ۔تا ہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ:
’’زندگی کے کسی ایک پہلو ،ایک واقعہ ایک جذبہ ،ایک احساس ،ایک خیال ،ایک تاثر ،ایک مقصد یا ایک ذہنی کیفیت کو ایجاز و اختصار کے ساتھ کہانی کی شکل میں اس خلاقاہ اور فنی طریقے سے بیان کرنا کہ اس میں اتحاد تاثر پیدا ہو جائے جو پڑھنے والے کے جدذبات و احساسات پر اثر انداز ہو ،افسانہ کہلاتا ہے‘‘

افسانے کا مقصد:
افسانے کا مقصد تفریح اور وقت گزاری بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ حیات انسانی کا عکاس اور نقاد بھی ہوتا ہے ۔آپ نئے لوگوں اور جگہوں سے تعارف حاصل کرتے ہیں ۔ ان سب لوگوں سے ملتے ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ آپ ان لوگوں کی زندگی گزار سکتے ہیں جنہیں آپ نے دور سے دیکھا ہے ۔ اس طرح آپ اپنے آپ سے باہر نکل کر دوسرے کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں اور آپ کہانیوں کے ذریعے دنیا اور لوگوں کو زیادہ بہتر طریقے سے جانتے لگتے ہیں ۔ آپ کو زندگی کے بہت سے گر معلوم ہوتے ہیں اور آپ اپنی زندگی اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔

مختصر افسانہ کا موضوع (theme):
افسانے کا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہو تا ۔ زندگی اور سوسائٹی (بلکہ کا ئنات) سے متعلق کوئی بھی واقعہ ،جذبہ ،احساس ،تجربہ ،کیفیت ،مشاہدہ ،نفسیاتی ،فکری یا روحانی نکتہ افسانے کا موضوع بن سکتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں افسانہ جس مقصد ،اصلاحی یا فکری پیغام ،خیال یا تھیم (آئیڈیا) کی خاطر لکھا گیا وہی اس کا موضوع تھیم ہو گی لیکن یہ نامحسوس طریقے سے اس میں مستور ہوگا ۔ادبی محفوں اور تنقیدی بحثوں میں ہم اکثر افسانے کے موضوع کے تعین کی کوشش کرتے ہیں ۔

ایک بات کا یہ ذکر یہاں ضرورت ہے کہ حقیقت پسندی کے موجود دور میں بعض لوگوں کو خیال ہے کہ کردار کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ آج کی نئی نسل میں ہر جگہ پلاٹ ،سسپنس اور جدوجہد (ACTION) کی کہانیوں مقبول ہیں اور ڈراموں ،فلموں اور ڈائجسٹوں کو بھی ان کی ضرورت رہتی ہے ۔ان میں کردار بہر حال موجود ہوتا ہے مگر کردار کے نفسیاتی مطالعہ کی بجائے اب ہم تھیمز (آئیڈیاز) کے زمانے میں ہیں ۔ جو کردار نگاری اور مخص قصہ گوئی سے زیادہ اہم ہے ۔ بے شک تھیم کو بھی کردار اور پلاٹ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن موضوع یا تھیم خود اپنا پلاٹ اور کردار تخلیق کر لیتی ہے ۔

افسانے کے بنیادی اجزاء (elements of fiction):
افسانے کے بنیادی اجزاء یا عناصر کے بارے میں مختلف ماہرین ،فکشن کے اساتذہ اور لکھنے والوں کی آراء میں اختلاف پایا جا تا ہے ۔بعض کے نزدیک فکشن کے تین اجزاء پلاٹ ،کردار اور سیٹنگ (جگہ اور فضا) اہم تر ہیں ۔ بعض کے خیال میں اس میں نکتہ نظر (پوائنٹ آف ویو) کو بھی شامل ہونا چاہیے کہ افسانہ کسی کردار کے پوائنٹ آف ویو سے لکھا جا رہا ہے ۔ بعض ماہرین فن کا خیال ہے کہ مکالمہ بھی بے حد اہم جزو ہے ۔مرکزی خیال یا تھیم اور ٹیکنیک یا سٹائل کو بھی بعض ماہرین اہم تصورکر تے ہیں ۔ ان پانچ اجزاء میں سے کردار ’’کون‘‘ ،پلاٹ ’’کیا اور کیوں ‘‘سیٹنگ’’ کب اور کہاں ‘‘اور سٹائل ’’کیسے‘‘ہے ۔تھیم کو آپ وی مرکزی خیال کہہ سکتے ہیں جس کے گرد لکھنے والا کہانی بنتا ہے ۔

ایک دوسرے دانشور اور ماہرین کے نزدیک افسانے کے اہم اجزائے ترکیبی (Elements) درج ذیل ہیں :
1 -پلاٹ – ۲۔ کردار ۳۔سینٹگ یا فضا ۴۔ نقطہ نظر ۵۵ اسلوب نگارش ،موڈ اور زبان وبیان ۶ ۔ موضوع ۷ علامت نگاری ،تمثیل اور عکس

پلاٹ:
پلاٹ افسانے یا کہانی کا بنیادی جزو ہے ۔یہ کہانی کا خاکہ ہے یہ واقعات ،سلسلہ واقعات اور جدوجہد یا عمل کو ترتیب دینے کا نام ہے ،جس سے کہانی میں معنی اور اثر پیدا ہوتا ہے ۔یہ واقعات مرکزی کرادر کو پیش آنے والے تصادم یا مشکلات سے پیدا ہوتے ہیں جو یا تو بیرونی عناصر جیسے موسم ،زلزلہ ،بیماری یا موت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں یا کسی دوسرے کردار کی مخالفت ،لالچ ،مفاد پرستی اور بے وفائی کی وجہ سے، چوں کہ مرکزی کردار ان تصادمات سے نپٹنے کیلئے جدوجہد کرتا ہے اس لیے پلاٹ وجود میں آتا ہے ۔پلاٹ سادہ، پیچیدہ ،ڈھیلا ڈھالا اور غیر منظم ہو سکتا ہے ۔ بعض کہانیوں میں مصنف یہ واقعات منطقی ربط کے ساتھ سلسلہ وار جیسے کہ وہ پیش آئے بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔لیکن بعض کہانیوں میں فلیش بیک کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے پہلے پیش آ چکے واقعات بعد میں بیان کیے جا سکتے ہیں ۔
قریب سے دیکھیں تو پلاٹ عمل اور ردعمل پر مشتمل ہوتا ہے ذرا دور سے دیکھیں تو پلاٹ کا ایک آغاز ایک درمیان اور ایک انجام ہوتا ہے ،پلاٹ کو عام طور پر ایک قوس سے ممشتل کیا جاتا ہے ،منظر یا سین بھی اس کا حصہ ہے ۔منظر ڈرامے کا عنصر ہے ،ہم سب ہر لمحہ کسی منظر میں ہو تے ہیں اور فلم کی سٹلز کی طرح منظروں میں حرکت کرتے ہیں ،افسانے کی بیانیہ ساخت عام طور پر کلائمکس کے حوالے سے ہوتی ہے ۔
ایک روایتی افسانے میں آہستہ آہستہ مرکزی کردار کیلئے واقعات میں الجھنیں اور پیچیدگیاں پیدا ہونے لگتی ہیں جو انتہائے تصادم یا نقطہ عروج (کلائمکس) پر جا پہنچ جاتی ہیں ۔کلائمکس کے بعد سلجھاؤ کا عمل شروع ہوتا ہے ۔اور آخر کار معاملات جن کے سدھرنے کی بظاہر کوئی امید نہیں ہوتی ، سلجھ جاتے یا ہمیشہ کے لیے بگڑ جاتے ہیں اور افسانے کا اختتام ہو جاتا ہے

کردار یا کردار کی پیش کش (characterisation):
کردار کو افسانے کا نہایت بنیادی جزو قرار دیا گیا ہے ۔یہ کہانی کے اندر جدوجہد میں مصروف شخص یا اشخاص ہو تے ہیں ۔لیکن یہ انسانی کرداروں کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں ۔کرداروں کی کئی قسمیں ہو سکتی ہیں ۔
۱۱۔بیان کنندہ (جس کے پوائینٹ آف ویو سے کہانی یا واقعات کو دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے) یہ کہانی کا مرکزی کردار بھی ہو سکتا ہے اور اس کے علاوہ بھی ۔
۲۔ کہانی کا مرکزی کردار (Protagonist) جیسے فلم یا ڈرامے کا ہیرو
۳۔مرکزی کردار کا حریف (Antagonist)
۴۔ ادنیٰ کردار (Minor Character) کہانی کو آگے بڑھانے والے مددگار اور کم اہمیت کے حامل کردار ۔
۵۔مزاحم کردار (Foil Character) جو مرکزی کردار کے ارادوں اور عمل میں مزاحم ہوں ۔
۔ماحول یا فضا (setting):
سیٹنگ کا کہانی کے مقام (جگہ) ،وقت اور زمانے سے تعلق ہے ۔یہ جگہ حقیقی یا فرضی بھی ہو سکتی ہے اور ہماری دنیا کے علاوہ کائنات کا کوئی دوسرا مقام بھی ہو سکتا ہے، علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’حقیقت حسن ‘‘میں ایک بہت خوبصورت ڈراما ہے جو بیک وقت زمین اور افلاک پر کھیلا گیا۔
۔ بیان کنبدہ اور نقطہ نظر کردار ((Pilot of view character):
ہر کہانی بیان اپنے کنندہ کا نقطہ نظر پیش کرتی اور اسی کے نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہے وہی واقعات کو سنتا ،دیکھتا اور محسوس کرتا اور ہمیں اپنے نقطہ نظر سے چیزوں کے بارے میں بتاتا ہے ۔بیان کنندہ خود لکھنے والا بھی ہو سکتا ہے اور کہانی کا کوئی دوسرا کردار بھی ،نقطہ نظر مختلف طریقوں سے پیش کیا جا سکتا ہے ۔بیان کنندہ کے لئے زیادہ تر صیغہ متکلم (میں یا ہم) اور صیغہ غائب (وہ) استعمال کیا جاتا ہے شاز ہی صیغہ حاضر (تم)۔ اس کے علاوہ ضرورت کے مطابق یہ کسی ناقابل اعتبار کردار کے ذریعے بھی بیان ہو سکتی ہے اور شعور کی روکی تکنیک کے ذریعے بھی ۔جس میں جیسے جیسے خیالات ذہن میں آتے جاتے ہیں انہیں داخلی مونو لاگ (خود کلامی) اور تلازمہ خیال (مونتاج) کے ذریعے پیش کر دیا جاتا ہے۔

۔اسلوب نگارش ،موڈ اور زبان و بیان ((style,tone&language):
کہانی کے اجزائے ترکبی میں اسلوب بھی ایک اہم جزو ہے ۔
افسانے میں جس انداز یا سلیقے سے قصہ بیان کیا جاتا ہے اور شعوری یا غیر شعوری طور پر ادیب جس قسم کی زبان ،انداز بیان ،گرامر ،فقروں کے ساخت ،لطیفیات ،پیراگرافنگ اور لب و لہجہ (ڈکشن) اختیار کرتا ہے اور اس کے اسٹائل یا اسلوب پر دلالت کرتا ہے ۔عام طور پر ہر لکھنے والا اسلوب کے حوالے سے الگ پہچان رکھتا ہے ۔

ٹیکنیک (TECHNIQUE):
مصنف کہانی کے واقعات کو جس طریقے ،سلیقے اور فنی ترتیب سے پلاٹ میں پیش کرتا ہے اسے ٹیکنیک کہتے ہیں ۔ ہر موضوع اور مواد کے مطابق اس کی ایک بہتری ٹیکنیک موجود ہوتی ہے اسے دریافت کر لینا ایک اچھے ادیب کا کام ہے ۔مواد کے تقاضوں کے مطابق موزوں تر ٹیکنیک سے افسانے کا تاثر گہرا ہو جاتا ہے ۔عموماً بیانیہ تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں واحد غائب یا واحد متکلم و اقعات بیان کرتا چلا جاتا ہے ۔خطوط کے ذریعے بھی واقعات بیان ہوتے ہیں جو سادہ مگر دلچسپ ٹیکنک ہے ۔ڈائری اور روزنامچے کے ذریعے بھی واقعات نگاری کی جاتی ہے ،سادہ بیانیہ کے علاوہ علامتی ،استعاراتی اور تمثیلی ٹیکنیکوں کو استعمال کیا جاتا ہے ۔

زبان و بیان:
افسانہ لکھنے کیلئے مناسب تعلیم اور مطالعہ ضروری ہے ۔ اس کیلئے لکھنے والے کا اچھا انشاپرداز ہونا ضروری ہے وہ عام علمی اور ادبی الفاظ و اصطلاحات کا مفہوم جانتا ہو اسے فکشن کی مخصوص زبان اور لہجے کا علم ہو ۔ اسے کہانی کہنے کے فن سے دلچسپی اور آگاہی ہو ۔اس میں دیکھے ہوئے مناظر ،اشخاص اور باتوں کو ہو بہو لفظی تصویروں میں دوبارہ دیکھانے کی صلاحیت ہو ۔

جدیدر ججانات:
نئے علمی موضوعات اور نظریات کی روشنی میں افسانے میں ہر دور میں اور ہر سطح پر تبدیلیاں آتی رہیں ۔یہ کسی صنف ادب کے ارتقا کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے کہ وہ کسی مقام پر جمود کا شکار نہ ہو اور فکر ،موضوع ،ٹیکنیکی ،اسالیب اور نئے رجحانات سے خود کو دور یا بے خبر نہ رکھے ۔چنانچہ ساٹھ کی دہائی میں اردو افسانہ بھی نئے رجحانات سے روشناس ہوا ۔ اور علامتی ،استعارتی اور تجریدی افسانے لکھنے جانے لگے ۔ایسے افسانے کو علامتی افسانے کہا جاتا ہے ۔

علامت نگاری (Symbolism):
جب کوئی لفظ یا چیز اپنے لغوی معنوں کے علاوہ وسیع تر اور مخصوص معنوں بھی استعمال ہو تو اسے علامت کہتے ہیں۔ لفظ کے معنی دو طرح کے ہوتے ہیں ایک لغوی اور ظاہری اور دوسرے باطنی جن کا کوئی مخصوص پس منظر ہوتا ہے یا اس ہے کوئی معاشرتی ،تہزیبی ،اساطیری ،مذہبی یا ادبی حوالہ یا واقعہ وابستہ ہوتا ہے اس طرح لفظ یا چیز کو استعمال کرنے سے جو جسے وسیع تر مفہوم حاصل ہوتا ہے اسے علامتی مفہوم کہتے ہیں اور علامتوں کو برتنے کے اسلوب کو علامت نگاری یا سمبلزم ۔

تمثیل نگاری (Allegory):
تمثیل کا لفظ مثل سے لیا گیا ہے ۔ایک ایسی حکایت یا کہانی جو کسی دوسری سیاسی ،مذہبی ،اخلاقی یا فلسفانہ صورت حال کی مثل ہو اور اس پر پوری طرح منطبق ہو سکے ۔دوسرے لفظوں میں یہ اپنی اصل کہانی کے علاوہ ایک علامتی مفہوم بھی رکھتی ہو۔ علامتوں کی طرح تمثیلیں بھی شخصی ،معاشرتی ،تمدنی ،اساطیری اور عالمی ہو سکتی ہیں ۔

تجریدیت (Abstractness):
یہ اصلاح مصوری سے ادب میں آئی ہے ۔ تجسیم کے برعکس یہ اشاراتی انداز بیان ہے ۔عام طور پر ایسی کہانیوں پلاٹ ،موضوع اور کرداروں کے بغیر ہوتی ہیں ۔واقعات اور تاثرات کو اشاروں کنایوں سے بیان کیا جاتا ہے اس لیے اکثر ابلاغ کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔

شعور کی رو (Stream of Consciousness):
جیسے جیسے خیالات لکھنے والے کے ذہن میں آتے ہیں وہ انہیں داخلی مونولاگ یا خود کلامی کے انداز میں لکھتا چلا جاتا ہے ،تلازمہ خیال بھی اس کا ایک انداز ہے ۔بات سے بات پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور مجموعی طور پر تحریر میں ایک تاثر ساپیدا ہو جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ساٹھ کہ دہائی میں اردو افسانے میں علامت نگاری کا جو رجحان عام ہوا تھا اسے عوام اور بعض نقادوں نے فوری طور پر قبول نہیں کیا تھا کیوں کہ نئے تجربوں کے دور میں جیسا کہ بالعموم ہوتا ہے اور اردو افسانہ بھی افراط و تفریط کا شکار ہوا اور اینٹی سٹوری اور کہانی کے بغیر انشائے لطیف یا نثری نظموں کی طرح کے افسانے بھی لکھے گئے لیکن آہستہ آہستہ ان نئے تجر بات میں پیچدگی اور اعتدال آتا گیا اورقارئین بھی وقت کے ساتھ ساتھ نئے انداز کی کہانیوں سے مانوس ہونے لگے ۔ستر کی دہائی تک آتے آتے اردو افسانے میں سارے اسالیب ایک دوسرے میں مدغم ہو گئے اور ایک نہایت معتدل اور متوازن اسلوب غالب آگیا جس میں قصہ یا کہانی پن تو موجود ہوتا ہے مگر اسے نئے انداز سے پیش کیا جاتا ہے، افسانوں میں جدت اب صرف اسلوب تک محدود نہیں بلکہ معنی کے لحاظ سے بھی نئے خیالات کو افسانے کا معضوع بنایا جاتا ہے۔

میں بے حد شکر گزار ہوں ۔ آپ سب کا کہ آپ لوگوں نے اتنی توجہ اور دلچسپی سے میری باتیں سنیں اور مٰں ممنوں ہوں آپ کے اساتذہ اور منتظمین کا بھی جنہوں نے مجھے یہاں آنے اور مستقبل کے ادیبوں سے مخاطب ہونے کا موقع فر اہم کیا ۔
———————————————————

Bichraon mein Mushaira

Articles

حضرت قاضی برہان الدین فائونڈیشن (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام بچھرائوں میں مشاعرے کا انعقاد

پریس ریلیز

بچھرائوں،حضرت قاضی برہان الدین فائونڈیشن (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام برہان العارفین لنگرِ فقراء حضرت قاضی برہان الدینؒ اور حضرت شاہ محمد اعظمؒ کے عرس مبارک کے موقع پر ہر سال کی طرح امسال بھی ایک باوقار محفل شعر وسخن کا انعقاد کیا گیا اس محفل میں بڑی تعداد میں شاعری کے شوقین سنجیدہ سامعین نے شرکت کی اس محفل شعر و سخن میں مقامی شعرا کے علاوہ دہلی اور دیگر مقامات سے آئے شعرائے کرام نے شرکت کی۔ یہ محفل شب ایک بجے اختتام پذیر ہوئی۔ مشاعرے کی صدارت قاری فضل الرحمن انجم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض عالمی شہرت یافتہ ناظم معین شاداب نے انجام دیے۔آخر میں مشاعرے کے کنوینر اور فائونڈیشن کے چیئرمین رئوف رامش نے حاضرین اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔قارئین کی خدمت میں منتخب اشعار پیش ہیں۔بچھرائوں،حضرت قاضی برہان الدین فائونڈیشن (رجسٹرڈ) کے زیر اہتمام برہان العارفین لنگرِ فقراء حضرت قاضی برہان الدینؒ اور حضرت شاہ محمد اعظمؒ کے عرس مبارک کے موقع پر ہر سال کی طرح امسال بھی ایک باوقار محفل شعر وسخن کا انعقاد کیا گیا اس محفل میں بڑی تعداد میں شاعری کے شوقین سنجیدہ سامعین نے شرکت کی اس محفل شعر و سخن میں مقامی شعرا کے علاوہ دہلی اور دیگر مقامات سے آئے شعرائے کرام نے شرکت کی۔ یہ محفل شب ایک بجے اختتام پذیر ہوئی۔ مشاعرے کی صدارت قاری فضل الرحمن انجم نے کی جب کہ نظامت کے فرائض عالمی شہرت یافتہ ناظم معین شاداب نے انجام دیے۔آخر میں مشاعرے کے کنوینر اور فائونڈیشن کے چیئرمین رئوف رامش نے حاضرین اور شعرائے کرام کا شکریہ ادا کیا۔قارئین کی خدمت میں منتخب اشعار پیش ہیں۔بربادی کے الزام کو اغیار پہ رکھ کر
نادانیاں ہر موڑ پہ ہم کرتے رہیں گے
قاری فضل الرحمن انجم
ابھی نہ روک یہ بارانِ سنگ جاری رکھ
شکستہ جاں ہی سہی میں ابھی سلامت ہوں
اسلم سحروارثی
کوئی تذلیل کرتا ہے تو اُس سے دکھ تو ہوتا ہے
مگر اک فائدہ بھی ہے تکبر ٹوٹ جاتا ہے معین شاداب
خامشی کھنڈر پکارے ہے
منھ نہ پھیروں محل رہا ہوں میں
فرمان چودھری
سناٹوں کو نوچ کے آہیں کہتیں ہیں
کم ظرفوں کو تاج حکومت مت دینا
ارشد ندیم
پہلے تو سر قلم کر دیے گئے
بدنام اُس کے بعد میں ہم کر دیے گئے
نسیم دھامپوری
ہزاروں بار ولولے دل کے نکالے ہیں
یہ جتنے حسن والے ہیں ہمارے دیکھے بھالے ہیں
ظہیر احمد اثر
اُلفت کے دِل فریب مناظر سے پیار ہے
شیدا ہے جس پہ دل وہ دل کا قرار ہے
مناظرالدین مناظر
رو برو جب بھی تو ہوگیا
آئینہ سرخرو ہوگیا
رئوف رامش

Intekhab E Kalam Ali Sardar Jafri

Articles

انتخابِ کلام علی سردار جعفری

علی سردار جعفری

 

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

باعث رشک ہے تنہا رویٔ رہ رو شوق

ہم سفر کوئی نہیں دورئ منزل کے سوا

ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو

لیکن ایک شوخ کے ہنگامۂ محفل کے سوا

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار

کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا

2

میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ

میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ

پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی

ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ

حوصلہ ہو تو اڑو میرے تصور کی طرح

میری تخئیل کے گلزار جناں تک آؤ

تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام

تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ

پھول کے گرد پھرو باغ میں مانند نسیم

مثل پروانہ کسی شمع تپاں تک آؤ

لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئیں

اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ

چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو

پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ

اسی دنیا میں دکھا دیں تمہیں جنت کی بہار

شیخ جی تم بھی ذرا کوئے بتاں تک آؤ

3

ظلم کی کچھ میعاد نہیں ہے

داد نہیں فریاد نہیں ہے

قتل ہوئے ہیں اب تک کتنے

کوئے ستم کو یاد نہیں ہے

آخر روئیں کس کو کس کو

کون ہے جو برباد نہیں ہے

قید چمن بھی بن جاتا ہے

مرغ چمن آزاد نہیں ہے

لطف ہی کیا گر اپنے مقابل

سطوت برق‌ و باد نہیں ہے

سب ہوں شاداں سب ہوں خنداں

تنہا کوئی شاد نہیں ہے

دعوت رنگ و نکہت ہے یہ

خندۂ گل برباد نہیں ہے

4

آئے ہم غالبؔ‌ و اقبالؔ کے نغمات کے بعد

مصحفؔ عشق و جنوں حسن کی آیات کے بعد

اے وطن خاک وطن وہ بھی تجھے دے دیں گے

بچ گیا ہے جو لہو اب کے فسادات کے بعد

نار نمرود یہی اور یہی گلزار خلیل

کوئی آتش نہیں آتش کدۂ ذات کے بعد

رام و گوتم کی زمیں حرمت انساں کی امیں

بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد

تشنگی ہے کہ بجھائے نہیں بجھتی سردارؔ

بڑھ گئی کوثر و تسنیم کی سوغات کے بعد

5

ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں

رنگ‌ بر دوش گلستاں بہ کنار آتے ہیں

چاک دل چاک جگر چاک گریباں والے

مثل گل آتے ہیں مانند بہار آتے ہیں

کوئی معشوق سزا وار غزل ہے شاید

ہم غزل لے کے سوئے شہر نگار آتے ہیں

کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں

جا کے ہم کوچۂ قاتل میں پکار آتے ہیں

قافلے شوق کے رکتے نہیں دیواروں سے

سینکڑوں مجس و زنداں کے دیار آتے ہیں

منزلیں دوڑ کے رہرو کے قدم لیتی ہیں

بوسۂ پا کے لیے راہ گزار آتے ہیں

خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر

پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں

کم ہو کیوں ابروئے قاتل کی کمانوں کا کھنچاؤ

جب سر تیر ستم آپ شکار آتے ہیں

Tooba Shikan A Short Story by Banu Qudsia

Articles

توبہ شکن

بانو قدسیہ

بی بی رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی۔ آنسو بے روک ٹوک گالوں پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔

“مجھے کوئی خوشی راس نہیں آتی۔ میرا نصیب ہی ایسا ہے۔ جو خوشی ملتی ہے، ایسی ملتی ہے کہ گویا کوکا کولا کی بوتل میں ریت ملا دی ہو کسی نے۔”

بی بی کی آنکھیں سرخ ساٹن کی طرح چمک رہی تھیں اور سانسوں میں دمے کے اکھڑے پن کی سی کیفیت تھی۔ پاس ہی پپو بیٹھا کھانس رہا تھا۔ کالی کھانسی نا مراد کا حملہ جب بھی ہوتا بیچارے کا منہ کھانس کھانس کر بینگن سا ہو جاتا۔ منہ سے رال بہنے لگتا اور ہاتھ پاؤں اینٹھ سے جاتے۔ امی سامنے چپ چاپ کھڑکی میں بیٹھی ان دنوں کو یاد کر رہی تھیں جب وہ ایک ڈی سی کی بیوی تھیں اور ضلع کے تمام افسروں کی بیویاں ان کی خوشامد کرتی تھیں۔ وہ بڑی بڑی تقریبوں میں مہمان خصوصی ہوا کرتیں اور لوگ ان سے درخت لگواتے، ربن کٹواتے،انعامات تقسیم کرواتے۔

پروفیسر صاحب ہر تیسرے منٹ مدھم سی آواز میں پوچھتے “لیکن آخر بات کیا ہے بی بی ہوا کیا ہے وہ پروفیسر صاحب کو کیا بتاتی کہ دوسروں کے اصول اپنانے سے اپنے اصول بدل نہیں جاتے، صرف ان پرغلاف بدل جاتا ہے۔ ستار کا غلاف، مشین کا غلاف، تکیے کا غلاف۔ درخت کو ہمیشہ جڑوں کی ضرورت ہوتی ہے! اگر اسے کرسمس ٹری کی طرح یونہی داب داب کر مٹی میں کھڑا کر دیں گے تو کتنے دن کھڑا رہے گا۔ بالآخر تو گرے گا ہی۔

وہ اپنے پروفیسر میاں کو کیا بتاتی کہ اس گھر سے رسہ تڑوا کر جب وہ بانو بازار پہنچی تھی اور جس وقت وہ ربڑ کی ہوائی چپلوں کا بھاؤ چار آنے کم کروا رہی تھی، تو کیا ہوا تھا؟

اس کے بوائی پھٹے پاؤں ٹوٹی چپلوں میں تھے۔ ہاتھوں کے ناخنوں میں برتن مانجھ مانجھ کر کیچ جمی ہوئی تھی۔ سانس میں پیاز کے باسی لچھوں کی بو تھی۔ قمیض کے بٹن ٹوٹے ہوئے اور دوپٹے کی لیس ادھڑی ہوئی تھی۔ اس ماندے حال میں جب وہ بانو بازار کے ناکے پر کھڑ ی تھی تو کیا ہوا تھا؟ یوں تو دن چڑھتے ہی روز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا پر آج کا دن بھی خوب رہا۔ ادھر پچھلی بات بھولتی تھی ادھرنیا تھپڑ لگتا تھا۔ ادھر تھپڑ کی ٹیس کم ہوتی تھی ادھر کوئی چٹکی کاٹ لیتا تھا۔ جو کچھ بانو بازار میں ہوا وہ تو فقط فل سٹاپ کے طور پر تھا۔

صبح سویرے ہی سنتو جمعدارنی نے برآمدے میں گھستے ہی کام کرنے سے انکار کر دیا۔ رانڈ سے اتنا ہی تو کہا تھا کہ نالیاں صاف نہیں ہوتیں۔ ذرا دھیان سے کام کیا کر۔ بس جھاڑ و وہیں پٹخ کر بولی۔

“میرا حساب کر دیں جی”

کتنی خدمتیں کی تھیں بد بخت کی۔ صبح سویرے تام چینی کے مگ میں ایک رس کے ساتھ چائے۔ رات کے جھوٹے چاول اور باسی سالن روز کا بندھا ہوا تھا۔ چھ مہینے کی نوکری میں تین نائلون جالی کے دوپٹے۔ امی کے پرانے سلیپر اور پروفیسر صاحب کی قمیض لے گئی تھی۔ کسی کو جرات نہ تھی کہ اسے جمعدارنی کہہ کر بلا لیتا۔ سب کا سنتو سنتو کہتے منہ سوکھتا تھا۔ پر وہ تو طوطے کی سگی پھوپھی تھی۔ ایسی سفید چشم واقع ہوئی کہ فوراً حساب کر۔ جھاڑو بغل میں داب، سر پر سلفچی دھریہ جا وہ جا۔

بی بی کا خیال تھا کہ تھوڑی دیر میں آ کر پاؤں پکڑے گی۔ معافی مانگے گی اور ساری عمر کی غلامی کا عہد کرے گی۔ بھلا ایسا گھر اسے کہاں ملے گا۔ پر وہ تو ایسی دفان ہوئی کہ دوپہر کا کھانا پک کر تیار ہو گیا پر سنتو مہارانی نہ لوٹی۔

سارے گھر کی صفائیوں کے علاوہ غسلخانے بھی دھونے پڑے اور کمروں میں ٹاکی بھی پھیرنی پڑی۔ ابھی کمر سیدھی کرنے کو لیٹی ہی تھی کہ ایک مہمان بی بی آ گئیں۔ منے کی آنکھ مشکل سے لگی تھی۔ مہمان بی بی حسن اتفاق سے ذرا اونچا بولتی تھیں۔ منا اٹھ بیٹھا اور اٹھتے ہی کھانسنے لگا۔ کالی کھانسی کا بھی ہر علاج کر دیکھا تھا پر نہ تو ہومیوپیتھی سے آرام آیا نہ ڈاکٹری علاج سے۔ حکیموں کے کشتے اور معجون بھی رائیگاں گئے۔ بس ایک علاج رہ گیا تھا اور یہ علاج سنتو جمعدارنی بتایا کرتی تھی۔ بی بی! کسی کالے گھوڑے والے سے پوچھو کہ منے کو کیا کھلائیں۔ جو کہے سو کھلا۔ دنوں میں آرام آجائے گا۔

لیکن بات تو مہمان بی بی کی ہو رہی تھی۔ ان کے آنے سے سارے گھر والے اپنے اپنے کمروں سے نکل آئے اور گرمیوں کی دوپہر میں خورشید کو ایک بوتل لینے کے لئے بھگا دیا۔ ساتھ ہی اتنا سارا سودا اور بھی یاد آگیا کہ پورے پانچ روپے دینے پڑے۔

خورشید پورے تین سال سے اس گھر میں ملازم تھی۔ جب آئی تھی تو بغیر دوپٹے کے کھوکھے تک چلی جاتی تھی اور اب وہ بالوں میں پلاسٹک کے کلپ لگانے لگی تھی۔ چوری چوری پیروں کو کیوٹیکس اور منے کو پاؤڈر لگانے کے بعد اپنے چہرے پر بے بی پاؤڈر استعمال کرنے لگی تھی۔ جب خورشید موٹی ململ کا دوپٹہ اوڑھ کر ہاتھ میں خالی سکوائش کی بوتل لے کر سراج کے کھوکھے پر پہنچی تو سڑکیں بے آباد سی ہو رہی تھیں، نقدی والے ٹین کی ٹرے میں دھرتی ہوئی خورشید بولی۔

“ایک بوتل مٹی کا تیل لا دودو سات سو سات کے صابنتین پان سادہچار میٹھےایک نلکی سفید دھاگے کیدو لولی پاپ اور ایک بوتل ٹھنڈی ٹھار سیون اپ کی

روڑی کوٹنے والا انجن بھی جا چکا تھا اور کولتار کے دو تین خالی ڈرم تازہ کوٹی ہوئی سڑک پر اوندھے پڑے تھے۔ سڑک پر سے حدت کی وجہ سے بھاپ سی اٹھتی نظر آتی تھی۔

دائی کی لڑکی خورشید کو دیکھ کر سراج کو اپنا گاؤں یاد آگیا۔ دھلے میں اسی وضع قطع، اسی چال کی سیندوری سے رنگ کی نو بالغ لڑکی حکیم صاحب کی ہوا کرتی تھی۔ ٹانسے کا برقعہ پہنتی تھی۔ انگریزی صابن سے منہ دھوتی تھی اور شاید خمیرۂ گاؤ زبان اور کشتۂ مروارید بمعہ شربت صندل کے اتنی مقدار میں پی چکی تھی کہ جہاں سے گزر جاتی سیب کے مربے کی خوشبو آنے لگتی۔ گاؤں میں کسی کے گھر کوئی بیمار پڑ جاتا تو سراج اس خیال سے اس کی بیمار پرسی کرنے ضرور جاتا کہ شاید وہ اسے حکیم صاحب کے پاس دوا لینے کے لئے بھیج دے۔ جب کبھی ماں کے پیٹ میں درد اٹھتا تو سراج کو بہت خوشی ہوتی۔ حکیم صاحب ہمیشہ اس نفخ کی مریضہ کے لئے دو پڑیاں دیا کرتے تھے۔ ایک خالی پڑیا گلاب کے عرق کے ساتھ پینا ہوتی تھی اور دوسری سفید پڑیا سونف کے عرق کے ساتھ۔ حکیم صاحب کی بیٹی عموماً اسے اپنے خط پوسٹ کرنے کو دیا کرتی۔ وہ ان خطوں کو لال ڈبے میں ڈالنے سے پہلے کتنی دیر سونگھتا رہتا تھا۔ ان لفافوں سے بھی سیب کے مربے کی خوشبو آیا کرتی تھی۔

اس وقت دائی کرمو کی بیٹی گرم دوپہر میں اس کے سامنے کھڑی تھی اوسارے میں سیب کا مربہ پھیلا ہوا تھا۔

پانچ روپے کا نوٹ نقدی والے ٹرے میں سے اٹھا کر سراج نے چپچی نظروں سے خورشید کی طرف دیکھا اور کھنکھار کر بولا”ایک ہی سانس میں اتنا کچھ کہہ گئی۔ آہستہ آہستہ کہو نا۔ کیا کیا خریدنا ہے؟” ایک بوتل مٹی کا تیلدو سات سو سات صابنتین پان سادہ، چار میٹھے۔ ایک نلکی بٹر فلائی والی سفید رنگ کی۔ایک بوتل سیون اپ کیجلدی کر، گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔

سب سے پہلے تو سراج نے کھٹاک سے سبز بوتل کا ڈھکنا کھولا اور بوتل کو خورشید کی جانب بڑھا کر بولا۔

“یہ تو ہو گئی بول اور”

“بوتل کیوں کھولی تو نےاب بی بی جی ناراض ہو ں گی۔”

“میں سمجھا کہ کھول کر دینی ہے”

“میں نے کوئی کہا تھا تجھے کھولنے کے لئے”

“اچھا اچھا بابا۔ میری غلطی تھی۔ یہ بوتل تو پی لے۔ میں ڈھکنے والی اور دے دیتا ہوں تجھے”

جس وقت خورشید بوتل پی رہی تھی، اس وقت بی بی کا چھوٹا بھائی اظہر ادھر سے گزرا۔ اسے سٹرا سے بوتل پیتے دیکھ کر وہ مین بازار جانے کی بجائے الٹا چودھری کالونی کی طرف لوٹ گیا اور این ٹائپ کے کوارٹر میں پہنچ کر برآمدے ہی سے بولا۔

“بی بی! آپ یہاں بوتل کا انتظار کر رہی ہیں اور وہ لاڈلی وہاں کھوکھے پر خود بوتل پی رہی ہے سٹرا لگا کر۔”

بھائی تو اخبار والے کے فرائض سر انجام دے کر سائیکل پر چلا گیا لیکن جب دو روپے تیرہ آنے کی ریزگاری مٹھی میں دبائے، دوسرے ہاتھ میں مٹی کے تیل کی بوتل اور بکل میں سات سو سات صابن کے ساتھ سیون اپ کی بوتل لئے خورشید آئی تو سنتو جمعدارنی کے حصے کا غصہ بھی خورشید پر ہی اترا۔

“اتنی دیر لگ جاتی ہے تجھے کھوکھے پر۔”

“بڑی بھیڑ تھی جی”

“سراج کے کھوکھے پراس وقت؟”

“بہت لوگوں کے مہمان آئے ہوئے ہیں جی سمن آباد میں ویسے ہی مہمان بہت آتے ہیںسب نوکر بوتلیں لے جا رہے تھے۔”

“جھوٹ نہ بول کمبخت! میں سب جانتی ہوں۔”

خورشید کا رنگ فق ہو گیا۔

“کیا جانتی ہیں جی آپ”

“ابھی کھوکھے پر کھڑی توبوتل نہیں پی رہی تھی۔”

خورشید کی جان میں جان آئی۔ پھر وہ بپھر کر بولی۔

“وہ میرے پیسوں کی تھی جیآپ حساب کر دیں جی میرامجھ سے ایسی نوکری نہیں ہوتی”

بی بی تو حیران رہ گئی۔سنتو کا جانا گویا خورشید کے جانے کی تمہید تھی۔ لمحوں میں بات یوں بڑھی کہ مہمان بی بی سمیت سب برآمدے میں جمع ہو گئے اور کترن بھر لڑکی نے وہ زبان دراز کی کہ جن مہمان بی بی پر بوتل پلا کر رعب گانٹھنا تھا وہ الٹا اس گھر کو دیکھ کر قائل ہو گئیں کہ بد نظمی، بے ترتیبی اور بد تمیزی میں یہ گھر حرف آخر ہے۔

آناً فاناً مکان نوکرانی کے بغیر سونا سونا ہو گیا۔ادھر جمعدارنی اور خورشید کا رنج تو تھا ہی، اوپر سے پپو کی کھانسی دم نہ لینے دیتی تھی۔۔

جب تک خورشید کا دم تھا کم از کم اسے اٹھانے پچکارنے والا تو کوئی موجود تھا۔ اب کفگیر تو چھوڑ چھاڑ کے بچے کو اٹھانا پڑتا۔ اسے بھی کالی کھانسی کا دورہ پڑتا تو رنگت بینگن کی سی ہو جاتی۔ آنکھیں سرخا سرخ نکل آتیں اور سانس یوں چلتا جیسے کٹی ہوئی پانی کی ٹیوب سے پانی رس رس کے نکلتا ہے۔

سارا دن وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر اس نے کونسا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں اس کی زندگی اتنی کٹھن ہے۔ اس کے ساتھ کالج میں پڑھنے والیاں تو ایسی تھیں گویا ریشم پر چلنے سے پاؤں میں چھالے پڑ جائیں اور یہاں وہ کپڑے دھونے والے تھاپے کی طرح کرخت ہو چکی تھی۔ رات کو پلنگ پر لیٹتی تو جسم سے انگارے جھڑنے لگتے۔ بدبخت خورشید کے دل میں ترس آ جاتا تو دوچار منٹ دکھتی کمر میں مکیاں مار دیتی ورنہ اوئی آئی کرتے نیند آ جاتی اور صبح پھر وہی سفید پوش غریبوں کی سی زندگی اور تندور میں لگی ہوئی روٹیوں کی سی سینک!

اس روز دن میں کئی مرتبہ بی بی نے دل میں کہا۔

“ہم سے اچھا گھرانہ نہیں ملے گا تو دیکھیں گے۔ ابھی کل برآمدے میں آئی بیٹھی ہوں گی۔ دونوں کالے منہ والیاں” پر اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس سے اچھا گھر ملے نہ ملے وہ دونوں اب ٹوک کر نہ رہیں گی۔سارے گھرمیں نظر دوڑاتی تو چھت کے جالوں سے لے کر رکی ہوئی نالی تک اور ٹوٹی ہوئی سیڑھیوں سے لے کر اندر ٹپ ٹپ برسنے والے نلکے تک عجیب کسمپرسی کا عالم تھا، ہر جگہ ایک آنچ کی کسر تھی۔ تین کمروں کا مکان جس کے دروازوں کے آگے ڈھیلی ڈوروں میں دھاری دار پردے پڑے تھے، عجیب سی زندگی کا سراغ دیتا تھا۔ نہ تو یہ دولت تھی اور نہ ہی یہ غریبی تھی۔ ردی کے اخبار کی طرح اس کا تشخص ختم ہو چکا تھا۔ جب تک ابا جی زندہ تھے اور بات تھی۔ کبھی کبھار مائیکہ جا کر کھلی ہوا کا احساس پیدا ہو جاتا۔ اب تو ابا جی کی وفات کے بعد امی، اظہر اور منی بھی اس کے پاس آ گئے تھے۔ امی زیادہ وقت پچھلی پوزیشن یاد کر کے رونے میں بسر کرتیں۔ جب رونے سے فراغت ہوتی تو وہ اڑوس پڑوس میں یہ بتانے کے لئے نکل جاتیں کہ وہ ایک ڈپٹی کمشنر کی بیگم تھیں اور حالات نے انہیں یہاں سمن آباد میں رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔منی کو مٹی کھانے کا عارضہ تھا۔ دیواریں کھرچ کھرچ کر کھوکھلی کر دی تھیں۔ نا مراد سیمنٹ کا پکا فرش اپنی نر م نرم انگلیوں سے کرید کر دھر دیتی۔ بہت مرچیں کھلائیں۔ کونین ملی مٹی سے ضیافت کی۔ ہونٹوں پر دہکتا ہوا کوئلہ رکھنے کی دھمکی دی پر وہ شیر کی بچی مٹی کو دیکھ کر بری طرح ریشہ خطمی ہوتی۔

اظہر جس کالج میں داخلہ لینا چاہتا تھا، جب اس کالج کے پرنسپل نے تھرڈ ڈویژن کے باعث انکار کر دیا تو دن رات ماں بیٹا مرحوم ڈی سی صاحب کو یاد کر کے روتے رہے۔ ان کے ایک فون سے وہ بات بن جاتی جو پروفیسر فخر کے کئی پھیروں سے نہ بنی۔ امی تو دبی زبان میں کئی بار یہاں تک کہہ چکی تھیں کہ ایسا داماد کس کام کا جس کی سفارش ہی شہر میں نہ چلے۔ نتیجے کے طور پر اظہر نے پڑھائی کا سلسلہ منقطع کر لیا۔ پروفیسر صاحب نے بہت سمجھایا پر اس کے پاس تو باپ کی نشانی ایک موٹر سائیکل تھا۔ چند ایک دوست تھے جو سول لائنز میں رہتے تھے وہ بھلا کیا کالج والج جاتا۔ اس سارے ماحول میں پروفیسر فخر کیچڑ کا کنول تھے۔لمبے قد کے دبلے پتلے پروفیسر سیاہ آنکھیں جن میں تجسس اور شفقت کا ملا جلا رنگ تھا۔ انہیں دیکھ کر خدا جانے کیوں ریگستان کے گلہ بان یاد آ جاتے۔ وہ ان لوگوں کی طرح تھے جن کے آدرش وقت کے ساتھ دھندلے نہیں پڑ جاتےجو اس لئے محکمہ تعلیم میں نہیں جاتے کہ ان سے سی ایس پی کا امتحان پاس نہیں ہو سکتا۔ وہ دولت کمانے کے کوئی بہتر گر نہیں جانتے۔ انہوں نے تو تعلیم و تدریس کا پیشہ اس لئے چنا تھا کہ انہیں نوجوانوں کی پر تجسس آنکھیں پسند تھیں۔ انہیں فسٹ ائیر کے وہ لڑکے بہت اچھے لگتے تھے جو گاؤں سے آتے تھے اور آہستہ آہستہ شہر کے رنگ میں رنگے جاتے تھے۔ ان کے چہروں سے جو ذہانت ٹپکتی تھی، دھرتی کے قریب رہنے کی وجہ سے ان میں جو دو اور دو چار قسم کی عقل تھی۔پروفیسر فخر انہیں صیقل کرنے میں بڑا لطف حاصل کرتے تھے۔وہ تعلیم کا میلاد النبیﷺ کا فنکشن سمجھتے۔ جب گھر گھر دیے جلتے ہیں اور روشنی سے خوشی کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ ان کے ساتھی پروفیسر جب سٹاف روم میں بیٹھ کر خالص Have-Notsکے انداز میں نو دولتی سوسائٹی پر تبصرہ کرتے تو وہ خاموش رہتے کیونکہ ان کا مسلک لوئی پاسچر کا مسلک تھا۔ کولمبس کا مسلک تھا۔ ان کے دوست جب فسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس اور سلیکشن گریڈ کی باتیں کرتے تو پروفیسر فخر منہ بند کئے اپنے ہاتھوں پر نگاہیں جما لیتے۔ وہ تو اس زمانے کی نشانیوں میں سے رہ گئے تھے جب شاگرد اپنے استاد کے برابر بیٹھ نہ سکتا تھا۔ جب استاد کے آشیر باد کے بغیر شانتی کا تصور بھی گناہ تھا۔ جب استاد خود کبھی حصول دولت کے لئے نہیں نکلتا تھا لیکن تاجدار اس کے سامنے دو زانو آ کر بیٹھا کرتے تھے۔ جب وہ شاہ جہانگیر کے دربار میں میاں میر صاحب کی طرح کہتا کہ: “اے شاہ! آج تو بلا لیا ہے پر اب شرط عنایت یہی ہے کہ پھر کبھی نہ بلانا۔”

جب استاد کہتا۔”اے حاکم وقت! سورج کی روشنی چھوڑ کر کھڑا ہو جا۔”

جب بی بی نے پہلی بار پروفیسر فخر کو دیکھا تھا تو فخر کی نظروں کا مجذوبانہ حسن شہد کی مکھیوں جیسا جذبۂ خدمت اور صوفیائے کرام جیسا اندازِ گفتگو اسے لے ڈوبا۔ بی بی ان لڑکیوں میں سے تھی جو درخت سے مشابہ ہوتی ہیں۔ درخت چاہے کیسا ہی آسمان چھونے لگے، بالآخر مٹی کے خزانوں کو نچوڑتا ہی رہتا ہے۔ وہ چاہے کتنے ہی چھتنار کیوں نہ ہو، بالآخر اس کی جڑوں میں نیچے اترتے رہنے کی ہوس باقی رہتی ہےاور پھر پروفیسر کا آدرش کوئی مانگے کا کپڑا تو تھا نہیں کہ مستعار لیا جاتا لیکن بی بی تو ہوا میں جھولنے والی ڈالیوں کی طرح یہی سوچتی رہی کہ اس کا دھرتی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہوا میں زندہ رہ سکتی ہے۔ محبت ان کے لئے کافی ہے۔

تب ابا جی زندہ تھے اور ان کے پاس شیشوں والی کار تھی جس روز وہ بی اے کی ڈگری لے کر یونیورسٹی سے نکلی تو اس کے ابا جی ساتھ تھے۔ ان کی کار رش کی وجہ سے عجائب گھر کی طرف کھڑی تھی۔ مال کو کراس کر کے جب وہ دوسری جانب پہنچے تو فٹ پاتھ پر اس نے پروفیسر کو دیکھا۔ وہ جھکے ہوئے اپنی سائیکل کا پیڈل ٹھیک کر رہے تھے۔

“سر سلام علیکم!”

فخر نے سر اٹھایا اور ذہین آنکھوں میں مسکراہٹ آ گئی۔

“وعلیکم السلام۔ مبارک ہو آپ کو”

سیاہ گاؤن میں وہ اپنے آپ کو بہت معزز محسوس کر رہی تھی۔

“سر میں لے چلوں آپ کو”

بڑی سادگی سے فخر نے سوال کیا”آپ سائیکل چلانا جانتی ہیں؟”

“سائیکل پر نہیں جیمیرا مطلب ہے کار کھڑی ہے۔ جی میری۔”

فخر سیدھا کھڑا ہو گیا اور بی بی اس کے کندھے کے برابر نظر آنے لگی۔

دیکھیے مس استادوں کے لئے کاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے شاگرد کاروں میں بیٹھ کر دنیا کا نظام چلاتے ہیں۔ استادوں کو دیکھ کر کار روکتے ہیں لیکن استاد شاگردوں کی کار میں کبھی نہیں بیٹھتا کیونکہ شاگرد سے اس کا رشتہ دنیاوی نہیں ہوتا۔ استاد کا آسائش سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ مرگ چھالا پر سوتا ہے۔ بڑ کے درخت تلے بیٹھتا اور جو کی روٹی کھاتا ہے۔

بی بی کو تو جیسے ہونٹوں پر بھڑ ڈس گئی۔ابھی چند ثانیے پہلے وہ ہاتھوں میں ڈگری لے کر فل سائز فوٹو کھنچوانے کا پروگرام بنا رہی تھی اور اب یہ گاؤن، یہ اونچا جوڑا، یہ ڈگری، سب کچھ نفرت انگیز بن گیا۔ جب مال روڈ پر ایک فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کار روک کر اباجی نے کہا۔

“ایک تو فائز سائز تصویر کھنچوا لو اور ایک پورٹریٹ”

“ابھی نہیں ابا جی! میں پرسوں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر تصویر کھنچواؤں گی۔”

“صبح کی بات پر ناراض ہو ابھی تک؟” اباجی نے سوال کیا۔

“نہیں جی وہ بات نہیں ہے۔”

صبح جب وہ یونیورسٹی جانے کے لئے تیار ہو رہی تھی تو ابا جی نے دبی زبان میں کہا تھا کہ وہ کنووکیشن کے بعد اسے فوٹو گرافر کے پاس نہ لے جا سکیں گے کیونکہ انہیں کمشنر سے ملنا تھا۔ اس بات پر بی بی نے منہ تھ تھا لیا تھااور جب تک ابا جی نے وعدہ نہیں کر لیا تب تک وہ کار میں سوار نہ ہوئی تھی۔

اب کار فوٹو گرافر کی دکان کے آگے کھڑی تھی۔ ابا جی اس کی طرف کا دروازہ کھولے کھڑے تھے لیکن تصویر کھنچوانے کی تمنا آپی آپ مر گئی۔

بی اے کرنے کے بعد کالج کا ماحول دور رہ گیا۔ یہ ملاقات بھی گرد آلود ہو گئی اور غالباً طاقِ نسیاں پر بھی دھری رہ جاتی اگر اچانک کتابوں کی دکان پر ایک دن اسے پروفیسر فخر نظر نہ آ جاتے۔ وہ حسب معمول سفید قمیض خاکی پتلون میں ملبوس تھے۔ رومن نوز پر عینک ٹکی ہوئی تھی اور وہ کسی کتاب کا غور سے مطالعہ کر رہے تھے۔ بی بی اپنی دو تین سہیلیوں کے ساتھ دکان میں داخل ہوئی اسے ویمن اینڈ ہوم قسم کے رسالے درکار تھے۔ عید کارڈ اور سٹچ کرافٹ کے پمفلٹ خریدنے تھے۔ لو کیلری ڈائٹ قسم کی ایسی کتابوں کی تلاش تھی جو سالوں میں بڑھایا ہوا وزن ہفتوں میں گھٹا دینے کے مشورے جانتی ہیں لیکن اندر گھستے ہی گویا آئینے کا لشکارا پڑا۔

“سلام علیکم سر”

“وعلیکم السلام” مٹھ کے بھکشو نے جواب دیا۔

“آپ نے مجھے شاید پہچانا نہیں سرمیں آپ کی سٹوڈنٹ ہوں جی۔ ” قمر زبیری

اس نے دوستوں کی طرف خفت سے دیکھ کر کہا۔

“میں نے تمہیں پہچان لیا ہے قمر بی بیکیا کر رہی ہیں آپ ان دنوں؟”

“میں جیکچھ نہیں جی سر!”

ایک سہیلی نے آگے چلنے کا اشارہ کیا۔ دوسری نے کمر میں چٹکی کاٹی لیکن وہ تو اس طرح کھڑی تھی گویا کسی فلم سٹار کے آگے آٹو گراف لینے کھڑی ہو۔

“آپ ایم اے نہیں کر رہی ہیں پولیٹیکل سائنس میں؟”

“اس کی تو شادی ہو رہی ہے سر۔”

کھی کھی کر کے ساری کبوتر زادیاں ہنس دیں۔

بی بی نے قاتلانہ نظروں سے سب کو دیکھا اور بولی۔ “جھوٹ بولتی ہیں جیمیں تو جی ایم اے کروں گی۔

اب پروفیسر مکمل پروفیسر بن گیا جو ان چہرے پر متانت آ گئی۔

“دیکھئے۔ پڑھی لکھی لڑکیوں کا وہ رول نہیں ہے جو آج کل کی لڑکیاں ادا کر رہی ہیں۔ آپ کو شادی کے بعد یاد رکھنا چاہئے کہ تعلیم سونے کا زیور نہیں ہے جسے بنک کے لاکرز میں بند کر دیا جاتا ہے بلکہ یہ تو جادو کی وہ انگوٹھی ہے جسے جس قدر رگڑتے چلے جاؤ اسی قدر خوشیوں کے دروازے کھلتے جاتے ہیں۔ آپ کو اس تعلیم کی زکوٰۃ دینا ہو گی۔ اسے دوسروں کے ساتھ Shareکرنا ہو گا۔”

بات بہت معمولی اور سادہ تھی۔ اس نوعیت کی باتیں عموماً عورتوں کے رسالوں میں چھپتی رہتی ہیںلیکن فخر کی آنکھوں میں، اس کی باتوں میں وہ حسن تھا جو ہمیشہ سچائی سے پیدا ہوتا ہے جب وہ پمفلٹ اور وزن گھٹانے کی تین کتابیں خرید کر کار میں آ بیٹھی تو اس کی نظروں میں وہی چہرہ تھا، وہ بھیگی بھیگی آواز تھی۔

پروفیسر فخر کو دیکھنے کی کوئی صورت باقی نہ تھی لیکن اس کی آواز کی لہریں اسے ہر لحظہ زیر آب کئے دیتی تھیں۔ اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے، وہی شکاری کتے جیسا ستا ہوا چہرہ، اندر کو دھنسی ہوئی چمکدار آنکھیں اور خشک ہونٹ نظروں کے آگے گھومنے لگے۔ پھر یہ چہرہ بھلائے نہ بھولتا اور وہ اندر ہی اندر بل کھائی رسی کی طرح مروڑی جاتی۔

ان ہی دنوں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرے گی۔ حالانکہ اس کے گھر والے ایک اچھے بر کی تلاش میں تھے۔ ہاتھی مرا ہوا بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ریٹائر ہو کر بھی اونچی نشست والی کرسی سے مشابہ ہوتا ہے۔ اباجی کے مال و متاع کو گو اندر سے گھن لگ چکا تھا لیکن حیثیتِ عرفی بہت تھی۔ نوکر چا کر کم ہو گئے تھے۔ سوشل لائف بھی پہلے سی نہ رہی تھی۔ فنکشنوں کے کارڈ بھی کم ہی آتے لیکن رشتے ڈی سی صاحب کی بیٹی کے چلے آ رہے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ آ رہے تھے۔ اس کی امی گو پڑھی لکھی عورت نہ تھی لیکن با اثر با رسوخ خواتین کی صحبت نے اسے خوب صیقل کر دیا تھا۔ اس میں ایک ایسی خوش اعتمادی اور پرکاری پیدا ہو گئی تھی کہ کالجوں کی پروفیسریں اس کے ہوتے ہوئے اپنے آپ کو کمتر سمجھا کرتیں۔

جس وقت بی بی نے پولیٹیکل سائنس کرنے پر ضد کی تو امی نے زبردست مخالفت کی۔ ابا جی نے قدم قدم پر اڑچن پیدا کی کہ جو لڑکی ہمیشہ پولیٹیکل سائنس میں کمزور رہی ہے وہ اس مضمون میں ایم اے کیونکر کرے گی۔ کئی گھنٹوں کی بحث کے بعد ابا جی اس بات پر رضامند ہو گئے کہ وہ پروفیسر سے ٹیوشن لے سکتی ہے۔

جس روز ریٹائرڈ ڈی سی صاحب کی کار سمن آباد گئی تو پروفیسر فخر گھر پر موجود نہ تھے۔ دوسری مرتبہ جب بی بی کی امی گئیں تو پروفیسر صاحب کسی سیمینار میں تشریف لے جا چکے تھے۔ ملاقات پھر نہ ہوئی۔ تیسری بار جب بی بی اور ابا جی ٹیوشن کا طے کرنے گئے تو پروفیسر صاحب مونڈھے پر بیٹھے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھے۔ باہر کے نلکے کے ساتھ نیلے رنگ کی پلاسٹک کی ٹیوب لگی ہوئی تھی۔ ٹیوب ویل کا پانی سامنے کے تنگ احاطے میں اکٹھا ہو رہا تھا لیکن پروفیسر صاحب اس سے غافل مٹتی شفق میں حروف ٹٹول ٹٹول کر پڑھ رہے تھے۔

پہلے ابا جی نے ہارن بجایا۔ پھر خانساماں خانساماں کہہ کر آوازیں دیں۔ نہ تو اندر سے کوئی باورچی قسم کا آدمی نکلا اور نہ ہی پروفیسر صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ بالآخر ابا جی نے خفت کے باوجود دروازہ کھولا اور بی بی کو ساتھ لے کر برآمدے کے طرف چلے۔ ٹیوب غالباً دیر سے لگی ہوئی تھی اور مٹی کیچڑ میں بدل چکی تھی۔ بڑی احتیاط سے قدم دھرتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچے اور پھر کھنکار کر پروفیسر صاحب کو متوجہ کیا۔

پون گھنٹہ بیٹھنے رہنے کے باوجود نہ تو اندر سے کوکا کولا آیا نہ چائے کے برتنوں کا شور سنا ئی دیا۔ اس بے اعتنائی کے باوجود دونوں باپ بیٹی سہمے سے بیٹھے تھے۔ شام گہری ہو چلی تھی اور سمن آباد یے گھروں کے آگے چھڑکاؤ کرنے میں مشغول تھے۔ قطار صورت گھروں سے ہر سائز اور ہر عمر کا بچہ نکل کر اس چھڑکاؤ کو بطور ہولی استعمال کر رہا تھا۔ عورتیں نائیلون جالی کے دوپٹے اوڑھے آ جا رہی تھیں۔ ایک ایسے طبقے کی زندگی جاری تھی۔ جو نہ امیر تھا اور نہ ہی غریبدونوں کے درمیان کہیں مرغ بسمل کی طرح لٹک رہا تھا۔ جب بات پڑھانے تک جا پہنچی تو پروفیسر فخر بولے۔

“جی ہاں۔ میں انہیں پڑھا دوں گا۔ بخوشی”

اب پہلو بدل کر ریٹائرڈ ڈی سی صاحب نے کہامعاف کیجئے پروفیسر صاحب! لیکن بات پہلے ہی واضح ہو جانی چاہئےیعنی آپمیرا مطلب ہے آپ کی Remuneration کیا ہو گی؟”

ٹیوشن کی فیس کو خوبصورت سے انگریزی لفظ میں ڈھال کر گویا ڈی سی صاحب نے اس میں سے ذلت کی پھانس نکال دی۔

لیکن پروفیسر صاحب کا رنگ متغیر ہو گیا اور وہ مونڈھے کی پشت کو دیوار سے لگا کر بولے۔

“میںمجھےدراصل مجھے گورنمنٹ پڑھانے کا عوضانہ دیتی ہے سر۔ اس کے علاوہمیں ٹیوشن نہیں کرتاتعلیم دیتا ہوں۔ جو چاہے جب چاہے مجھ سے پڑھ سکتا ہے۔۔” “دیکھیے جنابمیں اس لئے پڑھاتا ہوں کہ مجھے پڑھانے کا شوق ہے۔ اگر میں تحصیلدار ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ اگر ضلع کا ڈی سی ہوتا تو بھی پڑھاتا۔ کچھ لوگ پیدائشی میری طرح ہوتے ہیں۔ ان کے ماتھے پر مہر ہوتی ہے پڑھانے کیان کے ہاتھوں پر لکیر ہوتی ہے پڑھانے کی۔”

بی بی کے حلق میں نمکین آنسو آ گئے۔ دو غیرتوں کا مقابلہ تھا۔ ایک طرف ڈی سی صاحب کی وہ غیر ت تھی جسے ہر ضلع کے افسرو ں نے کلف لگائی تھی۔ دوسری جانب ایک Idealistic آدمی کی غیرت تھی جو گھونگے کی طرح اپنا سارا گھر اپنے ہی جسم پر لاد کر چلا کرتا ہے اور ذرا سی آہٹ پا کر اس گھونگے میں گوشہ نشین ہو جاتا ہے۔

پروفیسر صاحب بڑی بھلی سی باتیں کئے جا رہے تھے اور اس کے ابا جی مونڈھے میں یو ں بیٹھے تھے جیسے بھاگ جانے کی تدبیریں سوچ رہے ہوں۔

“فائن آرٹس کا دولت کی ذخیرہ اندوزی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں میرا پروفیشن فائن آرٹس کا ایک شعبہ ہے۔ انسان میں کلچر کا شعور پیدا کرنے کی سعیانسان میں تحصیل علم کی خواہش بیدار کرناعام سطح سے اٹھ کر سوچنا اور سوچتے رہناایک صحیح استاد ان نعمتوں کو بیدار کرتا ہے۔ ایک تصویر، ایک گیت، ایک خوبصورت بت بھی یہی کچھ کر پاتے ہیں۔ ساز بجانے والے کو اگر آپ لاکھ روپیہ دیں اور اس پر پابندی لگائیں کہ وہ ساز کو ہاتھ نہ لگائے تو وہ غالباً وہاگر وہ Genuine ہے تو آپ کی پیشکش ٹھکرا دے گامیں ٹیچر ہوں۔ Genuine ٹیچرمیں Fake نہیں ہوں زبیری صاحب!”

ڈی سی صاحب اپنی بیٹی کے سامنے ہار ماننے والے نہیں تھے۔

“اور جو پیٹ میں کچھ نہ ہو تو غالباً سازندہ مان جائے گا۔”

“پھر وہ سازندہ Fake ہو گا۔ Passion کا اس کی زندگی سے کوئی تعلق نہ ہو گا بلکہ غالباً وہ اپنے آرٹ کو ایک تمغہ، ایک پاسپورٹ، ایک اشتہار کی طرح استعمال کرتا ہو گا۔”

“اچھا جی آپ پیسے نہ لیں لیکن بی بی کو پڑھا تو دیا کریں۔”

“جی ہاں۔ میں بخوشی پڑھا دوں گا۔”

“تو کب آیا کریں گے آپ؟میں کار بھجوا دیا کروں گا۔”

پروفیسر فخر کی آنکھیں تنگ ہو گئیں اور وہ ہچکچا کر بولے”میں تو کہیں نہیں جاتا شام کے وقت” “تو میرا تو میرا مطلب ہے کہ آپ اسے پڑھائیں گے کیسے؟”

“یہ چار پانچ کے درمیان کسی وقت آ جایا کریں۔ میں پڑھا دیا کروں گا۔”

بی بی کے پیروں تلے سے یوں زمین نکلی کہ اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک وہ اپنے پلنگ پر لیٹ کر کئی گھنٹے تک آنسوؤں سے اشنان نہ کرتی رہی۔

عورت کے لئے عموماً مرد کی کشش کے تین پہلو ہوتے ہیں۔ بے نیازی، ذہانت اور فصاحت۔ یہ تینوں اوصاف پروفیسروں میں بقدر ضرورت ملتے ہیں۔ اسی لئے ایسے کالجوں میں جہاں مخلوط تعلیم ہو لڑکیاں عموماً اپنے پروفیسروں کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیںاس محبت کا چاہے کچھ نتیجہ نہ نکلے لیکن ہیروشپ کی طرح اس کا اثر ان کے ذہنوں میں ابدی ہوتا ہے جس طرح ملکیت ظاہر کرنے کے لئے پرانے زمانے میں گھوڑوں کو داغ دیا جاتا تھا اسی طرح اس رات بی بی کے دل پر مہرِ فخر لگ گئی۔

ابا جی ہر آنے جانے والے سے پروفیسر فخر کے احمق پن کی داستان یوں سنانے بیٹھ جاتے جیسے یہ بھی کوئی ویت نام کا مسئلہ ہو۔ ان کے ملنے والے پروفیسر فخر کی باتوں پر خوب ہنستے۔ بی بی کو شبہ ہو چلا تھا کہ انہوں نے بیٹی کو ٹیوشن کی اجازت نہ دی تھی پھر بھی اندر ہی اندر اباجی فخر کی شخصیت سے مرعوب ہو چکے تھے۔

ایک دن جب بی بی اپنی سہیلی سے ملنے سمن آباد گئی اور سامنے والی لائن میں اسے پروفیسر فخر کا مکان دکھائی دیا تو اچانک اس کے دل میں ایک زبردست خواہش اٹھی۔ وہ خوب جانتی تھی کہ اس وقت پروفیسر صاحب کالج جا چکے ہوں گے۔ پھر بھی وہ گھر کے اندر چلی گئی۔ سارے کمرے کھلے پڑے تھے۔ لمبے کمرے میں ایک چارپائی بچھی تھی جس کا ایک پایہ غائب تھا اور اس کی جگہ اینٹوں کی تھٹی لگی ہوئی تھی۔ تینوں کمروں میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔ ہر سائز، ہر پیپر اور ہر طرح کی پرنٹنگ والی کتابیں۔ ان کتابوں کو درستگی کے ساتھ آراستہ کرنے کی خواہش بڑی شدت کے ساتھ بی بی کے دل میں اٹھی۔ جستی ٹرنک پر پڑے ہوئے کپڑے، زرد رو چھپکلیاں جو بڑی آزادی سے چھت سے جھانک رہی تھیں اور کونوں میں لگے ہوئے جالے۔ ان چیزوں کا بی بی پر بہت گہرا اثر ہوا۔ باورچی خانے سے کچھ جلنے کی خوشبو آ رہی تھی لیکن پکانے والا دیگچی سٹوو پر رکھ کر کہیں گیا ہوا تھا۔ بی بی نے تھوڑا سا پانی دیگچی میں ڈالا اور سہیلی سے ملے بغیر آ گئی۔

جس روز بی بی نے پروفیسر فخر سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا اسی روز جمالی ملک کا رشتہ بھی آگیا۔

جمالی ملک لاہور کے ایک نامی گرامی ہوٹل میں مینجر تھے۔ بڑی پریس کی ہوئی شخصیت تھی۔ اپنی پتلون کی کریز کی طرح۔ اپنے چمکدار بوٹوں کی طرح جگمگاتی ہوئی شخصیتوہ کسی ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار نظر آتے تھے۔ صاف ستھرے دانتوں کی چمک ہمیشہ چہرے پر رہتی۔ جمالی ملک اپنے ہوٹل کی تنظیم، صفائی اور سروس کا سمبل تھے۔ ائیر کنڈیشنڈ لابی میں پھرتے ہوئے، مدھم بتیوں والی بار میں سرپرائز وزٹ کرتے ہوئے لف کے بٹن دباتے ہوئے۔ ڈائننگ ہال میں وی آئی پیز کے ساتھ پر تکلف گفتگو کرتے ہوئے، ان کا وجود کٹ گلاس کے فانوس کی طرح خوبصورت اور چمکدار تھا۔

جس روز اس بڑے ہوٹل کے بڑے مینجر نے بی بی کے خاندان کو کھانے کی دعوت دی اسی روز ڈرائی کلینر سے واپسی پر بی بی کی مڈبھیڑ پروفیسر فخر کے ساتھ ہو گئی۔ وہ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں والی دکانوں کے سامنے کھڑے تھے اور ایک پرانا سا مسودہ دیکھ رہے تھے۔ ان سے پانچ قدم چھ قدم دور “ہر مال ملے آٹھ آنے” والا چیخ چیخ کر سب کو بلا رہا تھا۔ ذرا سا ہٹ کر وہ دکان تھی جس میں سرخ چونچوں والے ہریل طوطے، افریقہ کی سرخ چڑیاں اور خوبصورت لقے کبوتر غٹر غوں غٹر غوں کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب پر سارے بازار کا کوئی اثر نہ ہو رہا تھا اور وہ بڑے۔ انہماک سے پڑھنے میں مشغول تھے۔

کار پار ک کرنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ بالآخر محکمہ تعلیم کے دفتر میں جا کر پارک کروائی اور پیدل چلتی ہوئی پروفیسر فخر تک جا پہنچی۔ پرانی کتابیں بیچنے والے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ کرم خوردہ کتابوں کے ڈھیر تھے۔ ایسی کتابیں اور رسالے بھی تھے جنہیں امریکن وطن لوٹنے سے پہلے سیروں کے حساب سے بیچ گئے تھے اور جن کے صفحے بھی ابھی نہ کھلے تھے۔

“سلام علیکم سر!”

چونک کر سر نے پیچھے دیکھا تو بی بی شرمندہ ہو گئیاللہ! اس پروفیسر کی آنکھ میں کبھی تو پہچان کی کرن جاگے گی؟ ہر بار نئے سرے سے اپنا تعارف تو نہ کروانا پڑے گا۔

“آپ اتنی دھوپ میں کھڑے ہیں سر”

پروفیسر نے جیب سے ایک بوسیدہ اور گندہ رومال نکال کر ماتھا صاف کیا اور آہستہ سے بولے “ان کتابوں کے پاس آ کر گرمی کا احساس باقی نہیں رہتا۔”

بی بی کو عجیب شرمندگی سی محسوس ہوئی کیونکہ جب کبھی وہ پڑھنے بیٹھتی تو ہمیشہ گردن پر پیسنے کی نمی سی آ جاتی اور اسے پڑھنے سے الجھن ہونے لگتی۔

“آپ کو کہیں جانا ہو تو جی میں چھوڑ آؤں آپ کو۔”

“نہیں میرا سائیکل ہے ساتھشکریہ!”

بات کچھ بھی نہ تھی۔ فٹ پاتھ پر پرانی کتابوں کی دکان کے سامنے ایک بے نیاز چھوڑے پروفیسر کے ساتھ جس کے کالر پر میل کا نشان تھا، ایک سرسری ملاقات تھی چند ثانیے بھر کی۔ لیکن اس ملاقات کا بی بی پر تو عجیب اثر ہوا۔ سارا وجود تحلیل ہو کر ہوا میں مل گیا۔ کندھوں پر سر نہ رہا اور پاؤں میں ہلنے کی سکت نہ رہی تھی۔ حالانکہ پروفیسر فخر نے اس سے ایک بات بھی ایسی نہ کی جو بظاہر توجہ طلب ہوتی۔ پر بی بی کے تو ماتھے پر جیسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے چندن کا ٹیکہ لگا دیا۔ کھوئی کھوئی سی گھر آئی اور غائب سی بڑے ہوٹل پہنچ گئی۔ جب وہ شمعوز کی ساڑھی پہنے آئینہ خانے سے لابی میں پہنچی تو دراصل وہ آکسیجن کی طرح ایک ایسی چیز بن چکی تھی جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جمالی ملک صاحب شارک سکن کے سوٹ میں ملبوس، کالر میں کارنیشن کا پھول لگائے گھٹنوں پر کلف شدہ سرویٹ سرکھے اتنے ٹھوس نظر آ رہے تھے کہ سامنے میز پر کہنیاں ٹکائے جھینگے کا پلاؤ اور چوپ سوٹی کھانے والی لڑکی پر انہیں شبہ تک نہ ہو سکا اور وہ جان ہی نہ سکے کہ مسلسل باتیں کرنے والی لڑکی دراصل ہوٹل میں موجود ہی نہیں ہے۔ اگر بی بی کی شادی جمالی ملک سے ہو جاتی تو کہانی آئسنگ لگے کیک کی طرح دلآویز ہوتی۔ لفٹ کی طرح اوپر کی منزلوں کو چڑھنے والی۔ سوئمنگ پول کے اس تختے کی طرح جس پر چڑ ھ کر ہر تیرنے والا سمرسولٹ کرنے سے پہلے کئی فٹ اوپر چلا جایا کرتا ہے۔ لیکن شادی تو بی بی کی پروفیسر فخر سے ہو گئی۔

ڈی سی صاحب کی بیٹی کا بیاہ اس کی پسند کا ہوا اور اس شادی کی دعوت ہوٹل میں دی گئی جس کے مینجر جمالی صاحب تھے۔ دلہن کے گھر والوں نے چار ڈی لکس قسم کے کمرے دو دن پہلے سے بک کر رکھے تھے اور بڑے ہال میں جہاں رات کا آکسٹرا بجا کرتا ہے، وہیں دولہا دلہن کے اعزاز میں بہت بڑی دعوت رہی۔ نکاح بھی ہوٹل میں ہی ہوا اور رخصتی بھی ہوٹل ہی سے ہوئی۔ ساری شادی کا ہنگامہ مفقود تھا۔ ایک ٹھنڈ کا، ایک خاموشی کا احساس مہمانوں پر طاری تھا۔ ٹھنڈے ٹھنڈے ہال میں یخ بستہ کولڈ ڈرنکز پیتے ہوئے سرد مہر سے مہمانوں سے مل کر بی بی اپنے میاں کے ساتھ سمن آباد چلی گئی۔

لیکن اس رخصتی سے پہلے ایک اور بھی چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ نکاح سے پہلے جب دلہن تیار کی جا رہی تھی اور اسے زیور پہنایا جا رہا تھا، اس وقت بجلی اچانک فیوز ہو گئی۔ پہلے بتیاں گئیں پھر ائیر کنڈیشنر کی آواز بند ہو گئی۔ چند ثانئے تو کانوں کو سکون سا محسوس ہوا لیکن پھر لڑکیوں کا گروہ کچھ تو گرمی کے مارے اور کچھ موم بتیوں کی تلاش میں باہر چلا گیا۔ اندھیرے کمرے میں ایک آراستہ دلہن رہ گئی۔ ارد گرد خوشبو کا احساس باقی رہا اور باقی سب کچھ غائب ہو گیا۔

بتیاں پورے آدھے گھنٹے بعد آئیں۔اب خدا جانے یہ جمالی ملک کی سکیم تھی یا واپڈا والوں کی سازش تھی۔ بجلی چلے جانے کے کوئی دس منٹ بعد بی بی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ڈری ہوئی آواز میں بی بی نے جواب دیا۔

“کم ان”

ہاتھ میں شمعدان لئے جمالی ملک داخل ہوا۔اس نے آدھی رات جیسا گہرا نیلا سوٹ پہن رکھا تھا۔ کالر میں کارنیشن کا پھول تھا اور اس کے آتے ہی تمباکو ملی کوئی تیز سی خوشبو کمرے میں پھیل گئی۔ بی بی کا دل زور زور سے بجنے لگا۔

“میں یہ بتانے آیا تھا کہ ہمارا جنریٹر خراب ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر میں بجلی آجائے گیکسی چیز کی ضرورت تو نہیں آپ کو؟”\ وہ خاموش رہی۔

“میں یہ کینڈل سٹینڈ آپ کے پاس رکھ دوں؟”

اثبات میں بی بی نے سر ہلا دیا۔

جمالی ملک نے شمعدان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا۔ جب پانچ موم بتیوں کا عکس بی بی کے چہرے پر پڑا اور کنکھیوں سے اس نے آئینے کی طرح دیکھا تو لمحہ بھر کو تو اپنی صورت دیکھ کر وہ خود حیران سی رہ گئی۔

“آپ کی سہیلیاں کدھر گئیں؟”۔

“وہ نیچے چلی گئی ہیں شاید”

“اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو تو میں یہاں بیٹھ جاؤں چند منٹ۔”

بی بی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

وہ اپالو کی طرح وجیہہ تھا۔ جب اس نے ایک گھٹنے پر دوسرا گھٹنا رکھ کر سر کو صوفے کی پشت سے لگایا تو بی بی کو عجیب قسم کی کشش محسوس ہوئی۔ جمالی ملک کے ہاتھ میں سارے ہوٹل کی ماسٹر چابیاں تھیں اور اس کی بڑی سی انگوٹھی نیم روشنی میں چمک رہی تھی۔ اس خاموش خوبصورت آدمی کو بی بی نے اپنے نکاح سے آدھ گھنٹہ پہلے پہلی بار دیکھا اور اس کی ایک نظر نے اسے اپنے اندر اس طرح جذب کر لیا جسے سیاہی چوس سیاہی کو جذب کرتا ہے۔

“میں آپ کو مبارکباد پیش کر سکتا ہوں؟” اس نے مضطرب نظروں سے بی بی کو دیکھ کر پوچھا۔

وہ بالکل چپ رہی۔

“لڑکیاںخاص کر آپ جیسی لڑکیوں کو ایک بڑا زعم ہوتا ہے اور اسی ایک زعم کے ہاتھوں وہ ایک بہت بڑی غلطی کر بیٹھتی ہیں۔”

نقلی پلکوں والے بوجھل پپوٹے اٹھا کر بی بی نے پوچھا”کیسی غلطی؟”

“کچھ لڑکیاں محض رشی سادھوؤں کی تپسیا توڑنے کو خوشی کی معراج سمجھتی ہیں” وہ سمجھتی ہیں کہ کسی کی بے نیازی کی ڈھال میں سوراخ کر کے وہ سکون معراج کو پالیں گی۔ کسی کے تقویٰ کو برباد کرنا خوشی کے مترادف نہیں ہے۔ کسی کے زہد کو عجز و انکساری میں بدل دینا کچھ اپنی راحت کا باعث نہیںہاں دوسروں کے لئے احساسِ شکست کا باعث ہو سکتی ہے یہ بات

چابیاں ہاتھ میں گھوم پھر رہی تھیں۔ ذہانت اور فصاحت کا دریا رواں تھا۔

“یہ زعمعورتوں میں، لڑکیوں میں کب ختم ہو گا؟میرا خیال تھا آپ ذہین ہیں لیکن آپ بھی وہی غلطی کر بیٹھی ہیں جو عام لڑکی کرتی ہے۔ آپ بھی توبہ شکن بننا چاہتی ہیں۔”

“مجھےمجھے پروفیسر فخر سے محبت ہے۔”

“محبت؟ آپ پروفیسر فخر کو یہ بتانا چاہتی ہیں کہ اندر سے وہ بھی گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ اپنے تمام آئیڈیلز کے باوجود وہ بھی کھانا کھاتے ہیں۔ سوتے ہیںاور محبت کرتے ہیںان کا کوٹ آف آرمر اتنا سخت نہیں جس قدر وہ سمجھتے ہیں۔”

وہ چاہتی تھی کہ جمالی ملک سے کہے کہ تم کون ہوتے ہو مجھے پروفیسر فخر کے متعلق کچھ کہنے والے! تمہیں کیا حق پہنچتا ہے کہ یہاں لیدر کے صوفے سے پشت لگا کر سارے ہوٹل کے ماسٹر چابیاں ہاتھ میں لے کر اتنے بڑے آدمی پر تبصرہ کرولیکن وہ بے بس سنے جا رہی تھی اور کچھ کہہ نہیں سکتی تھی۔

“میں پروفیسر صاحب سے واقف نہیں ہوں لیکن جو کچھ سنا ہے اس سے یہی اندازہ لگایا ہے کہ وہ اگر مجرد رہتے تو بہتر ہوتاعورت تو خواہ مخواہ توقعات سے وابستہ کر لینے والی شے ہےوہ بھلا اس صنف کو کیا سمجھ پائیں گے؟”

“جمالی صاحب!اس نے التجا کی۔

“آپ سی لڑکیاں اپنے رفیق حیات کو اس طرح چنتی ہیں جس طرح مینو میں سے کوئی اجنبی نام کی ڈش آرڈر کر دی جائے محض تجربے کی خاطرمحض تجسس کے لئے۔ وہ پھر بھی چپ رہی۔ “اتنے سارے حسن کا پروفیسر صاحب کو کیا فائدہ ہو گا بھلامنی پلاٹ پانی کے بغیر سوکھ جاتا ہے۔ عورت کا حسن پرستش اور ستائش کے بغیر مرجھا جا تا ہے کسی ذہین مرد کو بھلا کسی خوبصورت عورت کی کب ضرورت ہوتی ہے؟ اس کے لئے تو کتابوں کا حسن بہت کافی ہے۔”

شمعدان اپنی پانچ موم بتیوں سمیت دم سادھے جل رہا تھا اور وہ کیوٹیکس لگے ہاتھوں کو بغور دیکھ رہی تھی۔

“مجھ سے بہتر قصیدہ گو آپ کو کبھی نہیں مل سکتا قمرمجھ سا گھر آپ کو نہیں مل سکتا کیونکہ میرا گھر اس ہوٹل میں ہے اور ہوٹل سروس سے بہتر کوئی سروس نہیں ہوتی اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میری باتوں پر آپ کو اس وقت یقین آئے گا جب آپ کے چہرے پر چھائیاں پڑ جائیں گی۔ ہاتھ کیکر کی چھال جیسے ہو جائیں گے اور پیٹ چھاگل میں بدل جائے گامیں تو چاہتا تھامیری تو تمنا تھی کہ جب ہم اس ہوٹل کی لابی میں اکٹھے پہنچتےجب اس کی بار میں ہم دونوں کا گزر ہوتا۔ جب اس کی گیلریوں میں ہم چلتے نظر آتے تو امریکن ٹورسٹ سے لے کر پاکستانی پیٹی بورژوا تک سب، ہماری خوش نصیبی پر رشک کرتے لیکن آپ آئیڈیلسٹ بننے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ حسن کے لئے گڑھا ہے بربادی کا۔”

ساون کی رات جیسا گہر ا نیلا سوٹ، کارنیشن کا سرخ پھول اور آفٹر شیولوشن سے بسا ہوا چہرہ بالآخر دروازے کی طرف بڑھا اور بڑھے ہوئے بولا۔

“کسی سے آئیڈیلز مستعار لے کر زندگی بسر نہیں ہو سکتی محترمہآدرش جب تک اپنے ذاتی نہ ہوں ہمیشہ منتشر ہو جاتے ہیں۔ پہاڑوں کا پودا ریگستان میں نہیں لگا کرتا۔”

اس میں تو اتنا حوصلہ بھی نہ رہا تھا کہ آخری نظر جمالی ملک پر ہی ڈال لیتی۔ دروازے کے مدور ہینڈل پر ہاتھ ڈال کر جمالی ملک نے تھوڑا سا پٹ کھول دیا۔ گیلری سے لڑکیوں کے ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔

“میں بھی کس قدر احمق ہوں۔ اس سے اپنا کیس pleadکر رہا ہوں جو کبھی کا فیصلہ کر چکی ہےاچھا جی مبارک ہو آپ کو”

دروازہ کھلا اور پھر بند ہو گیا۔جاتے ہوئے وجیہہ مینجر کو ایک نظر بی بی نے دیکھا اور اپنے آپ پر لعنت بھیجتی ہوئی اس نے نظریں جھکا لیں۔چند لمحوں بعد دروازہ پھر کھلا اور ادھ کھلے پٹ سے جمالی ملک نے چہرہ اندر کر کے دیکھا۔ اس کی ہلکی براؤن آنکھوں میں نمی اور شراب کی ملی جلی چمک تھی جیسے گلابی شیشے پر آہوں کی بھاپ اکٹھی ہو گئی ہو۔

“مجھ سے بہتر آدمی تو آپ کو مل رہا ہےلیکن مجھ سے بہتر گھر نہ ملے گا آپ کو مغربی پاکستان میں۔”

اسی طرح سنتو جمعدارنی کے جانے پر بی بی نے سوچا تھا۔ ہم سے بہتر گھر کہاں ملے گا کلموہی کو۔ اسی طرح خورشید کے چلے جانے پر وہ دل کو سمجھاتی تھی کہ اس بد بخت کو اس سے اچھا گھر کہاں ملے گا اور ساتھ ساتھ بی بی یہ بھی جانتی تھی کہ اس سے بہتر گھر چاہے نہ ملے وہ لوٹ کر آنے والیوں میں سے نہیں تھیں۔ اتنے برس گزرنے کے بعد ایک پل تعمیر ہو گیا۔ آپی آپ ماضی سے جوڑنے والا۔ وہ دل برداشتہ انار کلی چلی گئیاس کا خیال تھا کہ وہ چار گھٹنے کی غیر موجودگی میں سب کچھ ٹھیک کر دے گی۔ سنتو جمعدارنی اور خورشید تک کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا۔ لیکن ہوا یوں کہ جب وہ اپنے اکلوتے دس روپے کے نوٹ کو ہاتھ میں لئے بانو بازار میں کھڑ ی تھی اور سامنے ربڑ کی چپلوں والے سے بھاؤ کر رہی تھی اور نہ چپلوں والے پونے تین سے نیچے اترتا تھا اور نہ وہ ڈھائی روپے سے اوپر چڑھتی تھی، عین اس وقت ایک سیاہ کار اس کے پاس آ کر رکی۔ اپنے بوائی پھٹے پیروں کو نئی چپل میں پھنساتے ہوئے اس نے ایک نظر کار والے پر ڈالی۔

وہ اپالو کے بت کی طرح وجیہہ تھا۔

کنپٹیوں کے قریب پہلے چند سفید بالوں نے اس کی وجاہت پر رعبِ حسن کی مہر بھی لگا دی تھی۔ وقت نے اس سینٹ کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔ وہ اسی طرح محفوظ تھا جیسے ابھی کولڈ سٹوریج سے نکلا ہو۔

بی بی نے اپنے کیکر کے چھال جیسے ہاتھ دیکھےپیٹ پر نظر ڈالی جو چھاگل میں بدل چکا تھا اور ان نظروں کو جھکا لیا جن میں اب کتیرہ گوند کی بجھی بجھی سی چمک تھی۔

جمالی ملک اس کے پاس سے گزرا لیکن اس کی نظروں میں پہچان کی گرمی نہ سلگی۔ واپسی پر وہ پروفیسر صاحب سے آنکھیں چرا کر بستر پر لیٹ گئی اور آنسوؤں کا رکا ہوا سیلاب اس کی آنکھوں سے بہہ نکلا۔

پروفیسر صاحب نے بہت پوچھا لیکن وہ انہیں کیا بتاتی کہ درخت چاہے کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو جائے اس کی جڑیں ہمیشہ زمین کو ہوس سے کریدتی رہتی ہیں۔ وہ انہیں کیا سمجھاتی کہ آئیڈیلز کچھ مانگے کا کپڑا نہیں جو پہن لیا جائے۔ وہ انہیں کیا کہتی کہ عورت کیسے توقعات وابستہ کرتی ہے

اور

یہ توقعات کا محل کیونکہ ٹوٹتا ہے؟

وہ غریب پروفیسر صاحب کو کیا سمجھاتی!

ایسی باتیں تو غالباً جمالی ملک بھی بھول چکا تھا۔
—————————————————————-
(بشکریہ ریختہ ڈارٹ آرگ)

Apne Bare Mein …. Memories of Javed Akhtar

Articles

اپنے بارے میں ۔۔۔۔ یادیں

جاوید اختراپنے بارے میں ۔۔۔۔ یادیں

Lawa The Poetry Collection of Javed Akhtar

Articles

لاوا ۔۔۔۔ شعری مجموعہ

جاوید اختر

Sahir Ludhianavi ki Shairi ka Tanqeedi Mutal’a by Dr. Mohd. Abdul Ma’roof

Articles

ساحر لدھیانوی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ

ڈاکٹر محمد عبد المعروف

Zarguzisht by Mushtaq Ahmad Yusufi

Articles

زر گزشت

مشتاق احمد یوسفی

Lahu Lahu Manzar by Saleem Khan

Articles

لہو لہو منظر

سلیم خان

Nanha Bahadur by Rais Siddiqui

Articles

ننھا بہادر

رئیس صدیقی