Tibb E Nabwi Quran ki Roshni mein by Ghazal Aleem

Articles

طبِ نبوی ؐ قرآن کی روشنی میں

غزالہ علیم

Town Planing in the Era of Prophet Mohammad (S)

Articles

عہد نبوی کا شہری نظام

اسد اللہ خاں شہیدی

مدینہ منور کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی ، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سر حدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک ، اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پراسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔
اگر چہ شروع میں اسلامی ریاست کانظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا تا ہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی ، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیاسیاسی تجربہ تھا؛کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی ، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے ، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جوایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبرداری تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں تسلسل سیاسی چپقلش ، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں ، عربوں میں ناصرف مرکزیت کافقدان تھا؛ بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے ، وہ کسی ”غیر“کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے ، یہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کاسیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی، جس کی اطاعت بدوی اورشہری تمام عرب باشندے کرتے تھے ، اس کا سب سے بڑا؛ بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یاخون “ کے بجائے ”اسلام یادین “معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی ۔
اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جب راہِ ہجرت میں قدم رکھاتو آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک پرسورہ ٴ اسرائیل کی ایک آیت کثرت سے رہتی تھی :ترجمہ :﴿اے اللہ ! (نئی منزل میں ) صدق وصفا سے داخل کر اور جہاں سے نکالا ہے وہاں کا نکلنا بھی صدق وصفا پر مبنی ہو(نئی جگہ دین پھیلانے کے لیے )غلبہ عطا فرما۔ ﴾(سورہ بنی اسرائیل :۸۰)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلى الله عليه وسلم کی دعاقبول فرمائی ، اسلامی مملکت کے قیام کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم کوغلبہ عطا فرمایا ۔ ابھی آپ صلى الله عليه وسلم حضرت ابوایوب انصاری رضى الله عنه کے مکان میں قیام فرماتھے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے میثاق ِمدینہ کااہتمام کیا ، اس مقصد کے لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے مہاجرین ، انصار ، یہود ، عیسائی اور دیگر قبائل کوجمع کیا ، آپ صلى الله عليه وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی، اس کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے اس موقع پر ایک تحریر لکھوائی ، ابتدائی موٴرخین نے اسی کو صحیفہ کانام دیا ہے ، یہ حکمرانِ وقت کا ایک فرمان تھا ، ساتھ ہی تمام لوگوں کااقرار نامہ بھی تھا ،جس پران لوگوں کے دستخط تھے ، اس میں مسلمان اور مشرکین دونوں شریک تھے ، ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار یاہے ،وہ لکھتے ہیں :
”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا ، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنوالنضیر و بنوقریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے ، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے ، اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے ۔ ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے ؛ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کوغلبہ ہورہاتھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کوبادشاہ بنادیں ؛ حتی کہ بخاری اورابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاج شہر یاری کی تیاری بھی کا ریگروں کے سپر د ہوچکی تھی ، بلاشبہ حضور صلى الله عليه وسلم نے بیعة عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی ، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کاالگ راج تھا ، اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتاتھا ، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا ، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے ؛ مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا ، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی ، اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے ، ان حالات میں حضور صلى الله عليه وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فور ی ضرور تیں تھیں :
۱- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کاتعین ۔

۲- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزربسر کاانتظام ۔

۳- شہرکے غیر مسلم عربوں او رخاص کریہودیوں سے سمجھوتہ ۔

۴ – شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کااہتمام ۔

۵- قریشِ مکہ سے مہاجرین کوپہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کابدلہ ۔
ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی ،جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیاہے ، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں ، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینااور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا “(ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں :مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے :
۱- آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا ؛تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
۲- مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی ۔
۳- فتنہ وفساد کوقوت سے ختم کیاجائے گا ۔
۴- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا ۔
۵- حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا ۔
۶- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے رجوع کیاجائے گا۔
اس معاہدے میں مسلمانوں ، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے ،الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزآنہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی ، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا (محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : ڈاکٹر حمید اللہ )
اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی ۔اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں :
۱- امن و امان کاقیام ۔

۲- تعلیم و تربیت کی سہولتیں ۔

۳- روزگار ، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی ۔
قرآن حکیم نے بار بار نشاندہی کی ہے کہ انسان آدم وحوا کی اولاد ہیں اور زمین پراللہ کاکنبہ ہیں ، انسان فطرتاًمل جل کر رہنا چاہتاہے اور دنیاکے تمام وسائل ہمارے فائدے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ، اس لیے صاف اورسیدھا طریقہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں ، فرائض اور حقوق کی ایک بڑی تفصیل ہمارے سامنے ہے ، معلم کتاب و حکمت صلى الله عليه وسلم ان کی تشریح اور ان کی تفصیل فرماں چکے ہیں۔ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کاسیلاب امڈ پڑاتھا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنابڑھ گئی ۔ (صحیح بخاری ) ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیاتھا ، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نوآبادی (کالونائزیشن )اور شہری منصوبہ بندی (ٹاوٴن پلاننگ ) میں عظیم انقلاب برپا کردیاتھا ، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کواتنے محدود وسائل میں رہائش اور کا م کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں ، طبقوں ، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آآکر جمع ہورہے تھے ، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے ، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیداہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں … جیساکہ عام طور پرایسے حالات میں ہوتاہے …… رسول کریم صلى الله عليه وسلم کاایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کامستحق ہے ، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی ، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔ دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اس راز سے آگاہ کیاکہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کانام شہری منصوبہ نہیں؛ بلکہ ایساہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، روحانی بالیدگی ، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کاسبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیاتھا ، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کاپہلا مرحلہ تکمیل کوپہنچا ، دوسرے مرحلہ کا آغاز نووارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیاگیا ؛ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یااس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا ۔
مدینة الرسول ،ایک لحاظ سے ”مہاجربستی “ تھی ، گوسارے مہاجروہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہوتو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیاہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایاجائے ، عوالی میں رہنے والے بنوسلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نامنظور کردیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی ،ریاست کی نوآبادی اسکیم کایہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے ، بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے ؛ بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایاجاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیاجا تا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیاکرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کاانتظام مسجد کے اندر کیمپ لگاکریا صفہ میں کیاجاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پرمشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایاجاتا؛ تاآں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا ، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے اولا ًیا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیاجاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں؛ مگرخیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایساکیاگیاجبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی او رنہ ہی منظم تھی ۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموما ًبڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے ۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیاجاتا؛ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتاہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علٰحدہ رہائش کے لیے جومکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے ، (ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )
توسیعِ شہر:
تعمیرات کا سلسلہ ایک عرصہ تک تواتر کے ساتھ جاری رہا، یہاں تک کہ بنی قینقاع کے اخراج( ۳ھء)کے بعد مکانات کی خاصی تعداد مسلمانوں کے ہاتھ آجانے کے سبب رہائشی قلت بہت حد تک دو ر ہوگئی ، مگر یہ مسئلہ ختم نہ ہوا؛کیوں کہ رہائشی سہولتوں کے مقابلہ میں نوواردوں کی تعداد کہیں زیادہ تھی اور اس میں روز بروز اضافہ ہورہاتھا؛ اس لیے ۲ھء (بنوقریضہ کی فتح ) تک یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا، اس کے بعد اسلامی حکومت کی آمدنی کے وسائل بھی پیداہوگئے ، مسلمانوں کی اقتصادی حالت بھی کسی قدر سنبھل گئی ، یہودیوں کے بہت سے مکانات بھی مل گئے ، لہٰذا معاملہ کی سنگینی بڑی حدتک کم ہوگئی؛ تاہم آباد کاری کا کام فتحِ مکہ اور اس کے بعد بھی جاری رہا ، فتح کے ساتھی ہی چونکہ ہجرت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا ، اس لیے مدینہ میں مہاجرین کی آمد کا سلسلہ رک گیا؛ تاہم کئی لوگ فتحِ مکہ کے بعد بھی مدینہ میں آکر آبا د ہوئے اور حصولِ تعلیم وغیرہ کے لیے آنے والوں کابھی تانتا بندھارہا (عہد نبوی کا نظام تعلیم :ڈاکٹر حمید اللہ )
عہد نبوی صلى الله عليه وسلم کے اواخر میں مدینہ کاشہر مغرب میں بطحا تک ، مشرق میں بقیع الغرقد تک ، اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانا ت تک پھیل چکا تھا ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام زبر دست اہمیت کا حامل ہے ، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جنھیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا ، اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (۵۰۰)پانچ سو ہاتھ مقرر کی ، اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پرعمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے ، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یاتو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طر ف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جاسکے ،دوسری طر ف یہ کہ قریظہ اور نضیر کی مفتوحہ بستیوں یاجوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا؛ تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے ، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی (نسائی ، کتاب الصلاة )
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انھیں ذریں اصولوں پر جنھیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایاتھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ۔
مدینہ کی شہری ریاست :
موجودہ دو رمیں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں :
۱- شہر کی گلیوں اور شاہ راہوں کابندوبست ، مارکیٹوں کی تعمیر ، رہائشی انتظامات ۔

۲- پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم ۔

۳- گندے پانی کی نکاسی ، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست ۔

۴- تعلیم ، علاج ، دیگر فلاحی ادارں ، کھیل کے میدانوں کا قیام ۔

۵- چمن بندی اور شہر کی خوبصورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام ۔

۶- ان کاموں کے لیے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب ۔
حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں ،جہاں تک محکمہٴ احتساب کا تعلق ہے ، فارابی ، ماوردی اور اور طوسی اسی کی موافقت میں ہیں ؛ماوردی نے محکمہ ٴ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمہٴ انصاف او رمحکمہٴ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے ، محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور برے کاموں کو روکے ۔
قرآنی اصطلاح معروف کی تین قسمیں ہیں :
۱- حقوق اللہ ۲-حقوق العباد ۳- وہ اعمال و ہ افعال جن کا تعلق دونوں سے ہو ۔
مدینة النبی صلى الله عليه وسلم میں یہ کام اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم خود انجام دیتے تھے ۔ حضور سرورِ کائنات صلى الله عليه وسلم مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر ، ناپ تول کر ، پیمانہ دیکھتے ، چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے ، عیب دار مال کی چھان بین کرتے ، گراں فروشی سے روکتے ، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے ؛ اس ضمن میں سید نا حضرت عمر رضى الله عنه ، حضرت عبیدہ بن رفاعہ رضى الله عنه ، حضرت ابو سعید خدری رضى الله عنه ، حضرت عبداللہ بن عباس رضى الله عنه ، حضرت ابوہریر ہ رضى الله عنه ،حضرت انس رضى الله عنه، حضرت ابو امامہ رضى الله عنه ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه، حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنها ، حضرت علی رضى الله عنه اوردیگر صحابہ کرام رضى الله عنه کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کی تعین کرتی ہیں ۔
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں ، پلوں کی تعمیراور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہ راہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتاہے ۔بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں ، بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں ، فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں؛ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ ”اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی ، اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی ۔ “(صحیح مسلم)
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے ، سڑکوں پر سایہ دا ر درخت لگانے کا حکم ہے ۔ ابوللیث سمر قندی رحمة الله عليه اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ ”کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستہ پر تھوکے یاناک صاف کرے ،یاکوئی ایساکام کرے، جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پا وٴں خراب ہوجائیں ، اسلام کا قانون حق آسائش اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑک پر کوئی عمارت بنائی جائے “
موجود ہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹرافک کاہے ، اس کے بار ے میں تعلیماتِ بنوی صلى الله عليه وسلم سے احکام ملتے ہیں، سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صلى الله عليه وسلم نے منع کیا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے جانوروں تک کے لیے راستہ کی آزادی برقرار رکھی ہے ، مدینہ کی شہری مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنوئیں خرید کر کیا گیا ، قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا ، بیت الخلاء کااس زمانہ میں رواج نہ تھا؛ لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا ۔
شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طورپر انتظام کیاگیا، مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اورچشمے بمشکل دستیاب ہوئے ۔ حضرت عثمان رضى الله عنه نے جوخود بھی مدینہ کی نوآبادی میں رہتے تھے ،آن حضور صلى الله عليه وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئرروماں خرید کر وقف کردیا ۔ (صحیح بخاری باب فضائل )
اسلام جسم و جان کی پاکیزگی او رظاہر و باطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے ، وضو ، طہارت ، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے مسجدیں بناکر وہاں طہارت خانہ تعمیر کر نے کی ہدایت جاری کی ، اسلام کے عمومی مزاج اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے ۔ ہرمسجد کے ساتھ طہارت خانہ تعمیر کیے گئے ۔(ابن ماجہ)
ہم سایہ کے حقوق کے بارے میں رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کے جوارشادات ملتے ہیں، ان پر عمل درآمد سے انسانی معاشرہ کے کئی مسائل حل ہوجاتے ہیں ، صحیح مسلم میں حضرت انس رضى الله عنه بن مالک کی روایت ہے ”کوئی مسلمان ، مسلمان نہیں ہے، جب تک وہ اپنے ہمسائے کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتاہے ۔ “
اس ایک ارشادِمقدس میں صفائی ستھرائی ، صحت ، شائستگی ، خوش خلقی ، صلح جوئی ، ہمدری ، ایثار اتنی ساری باتیں آتی ہیں کہ شہری زندگی کے تمام ضوابط کی عمدگی سے پابندی ہوسکتی ہے ۔
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے ، رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اسے سختی سے منع فرمادیا ، گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہوجانے کی صورت میں سات ہاتھ ”ذراع“ مقرر کی گئی۔ (صحیح مسلم ) جوفِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں ، اس لیے مدینہ میں بھی کوچہ تنگ، مگر سیدھے تھے ، باوجود یہ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے، مگرعام طورپر آپ صلى الله عليه وسلم نے کشادہ مکانات کوپسند کیا اور فرمایا ”خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہوں“(امام بخاری ۔ باب ادب المفرد)
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے ، صفائی اورپاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے ، گھر، گھر کے باہرکا ہر مقام، اپنے جسم ، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے، مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے، سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجدبنوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تواللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کوصاف کرتے تھے، وضو اور غسل کا نظام ، غلاظت سے صفائی کے احکام ، چوپال ، کھلیانوں کی جگہ ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے۔
حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص بونے پر زور دیاگیا ہے ، ملاوٹ کر نے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے ، پینے کے پانی کوصاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں ، اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں، ان میں وباوٴں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے ۔
سایہ ، چمن بندی ، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے ، مثلاً سورئہ عبس میں ارشاد ربانی ہے کہ” ہم نے زمین سے اناج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا ،یہ سب کچھ تمہاے اور تمہارے چوپایوں کے لیے بنایا ہے “(سور ئہ عبس آیت : ۳۲۔۲۷)
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتا تھا ، اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے، رسول صلى الله عليه وسلم نے شہر اورمسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، مسجد النبی صلى الله عليه وسلمکے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے ، جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا ، مسجد النبی صلى الله عليه وسلم کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضر ت ابو طلحہ انصاری رضى الله عنه کا وسیع و شاداب باغ بیر حاء تھا ، جہاں حضورپاک صلى الله عليه وسلم اکثر تشریف لے جاتے ۔( صحیح بخاری ، نسائی ، ابن ماجہ )
مدینہ میں نکاسیِ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا؛ کیوں کہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا ، اکثر کہیں سے کوئی پہاڑ ی ندی ، نالہ گذر تا تھا تو وہاں باندھ کے ذریعہ عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنادیاگیا تھا ۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید و فروخت کی سہولت کے لیے علاحدہ منڈی یابازار بنادیا گیا، خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج (۳ھء)کے بعد قائم ہوئی ہوگی؛ کیونکہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم )
مدینے کا بازار مسجد النبی صلى الله عليه وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا ، بازار خاصہ وسیع و عریض تھا اور آخر عہد بنوی میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا ، تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے زبردست کوششیں کی،جن میں سب سے اہم آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان تھا۔ ”مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے “(فتوح البلدان، بلاذری )
زمانہٴ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجات میں بڑ ی رکاوٹیں تھیں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کاسبب تھا ، اور دراصل اس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی؛ بلکہ جزیرة العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں ، مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات او ر برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا نا قابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صر ف اقوام و ملل کے لیے، بلکہ پوری نو عِ بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے ، جس کے ذریعہ بین الاقوامی طورپر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کوفائدہ پہنچایاجاسکتاہے اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں ۔

تعلیمی اداروں کا قیام :
حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے منجملہ ان باتوں کے تعلیم پر بڑا زور دیاہے ، تاریخِ اسلا م میں پہلا نصابِ تعلیم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہی ترتیب دیا، اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ بناکر اسلام کی پہلی اقامتی درسگا ہ کی بنیاد ڈالی تھی؛ جہاں آپ صلى الله عليه وسلم خود درس دیاکرتے تھے، اپنے دورِ خلافت میں حضرت عمر رضى الله عنه نے مسجد میں مکتب قائم کرکے ان کی نگہداشت و اخراجات کا ذمہ دار بھی حکومت کو بنایا ،آج دورِ جدید میں شہری حکومت کی ذمہ داریوں میں تعلیم کی اشاعت اور فنون کی تربیت بھی شامل ہے ۔
اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے کہ علم انبیاء کا ورثہ ہے ، مسلمان کو چاہئے کہ جہاں سے ملے لے لے ۔
(بحوالہ: ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3 ، جلد: 95 ‏، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء)

Urdu Shairon ka Album Edited by Zaidi Dahlavi

Articles

اردو شاعروں کا البم

زیدی دہلوی

Delhi ka Dabistan E Shairi by Noorul Hasan Hashmi

Articles

دہلی کا دبستان شاعری

نور الحسن ہاشمی

Atishfeshan A English Novel Translted by Azhar Hayat

Articles

آتش فشاں (ناول)

مترجم: اظہر حیات

Khalish a Novel by Safina Begum

Articles

خلش (ناول) سفینہ بیگم

سفینہ بیگم

Amawas mein Khwab by Husain ul Haq

Articles

اماوس میں خواب

حسین الحق

13 August 1980 A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

تیرہ اگست 1980

علی امام نقوی

گنگاجمنی اینٹوں سے چنا ہوا مکان پوری طرف خوف و ہراس اور گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ صحن میں دستی نل کی ہودی سے قدرے ہٹ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے کو کمر پر لپیٹنے کے بعد اس کے دونوں سروں میں گرہ لگا رہی ہے۔ گرہ لگانے کے بعد خالی خالی نظروں سے اس نے مقابل کھڑی بڑی بیٹی کو دیکھا وہ اپنی شلوار کو نیفے میں اُڑاس کر اونچا کر رہی تھی۔ادھیڑ عمر عورت نے جھک کر چوڑی دار پائجامے کو ٹخنوں سے اوپر چڑھایا۔ قریب پڑے پھاوڑے کے دستے کو پکڑ تے ہوئے اس نے دالان پر نگاہ ڈالی۔ گنگاجمنی اینٹوں سے چنا ہوا مکان پوری طرف خوف و ہراس اور گہرے دکھ میں ڈوبا ہوا ہے۔ صحن میں دستی نل کی ہودی سے قدرے ہٹ کر ایک ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے کو کمر پر لپیٹنے کے بعد اس کے دونوں سروں میں گرہ لگا رہی ہے۔ گرہ لگانے کے بعد خالی خالی نظروں سے اس نے مقابل کھڑی بڑی بیٹی کو دیکھا وہ اپنی شلوار کو نیفے میں اُڑاس کر اونچا کر رہی تھی۔ادھیڑ عمر عورت نے جھک کر چوڑی دار پائجامے کو ٹخنوں سے اوپر چڑھایا۔ قریب پڑے پھاوڑے کے دستے کو پکڑ تے ہوئے اس نے دالان پر نگاہ ڈالی۔ دالان میں اس کی سب سے چھوٹی بیٹی کھبی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی،کبھی اپنی اپیا کواور کبھی زمین پر پڑی اپنے ابّو اور جوان بھائی کی لاشوں کو۔ ایک کے سینے پر گولی لگی تھی اور دوسرے کے سر میں ۔ دونوں کے سفید کرتے خون میں سنے ہوئے تھے اور اب تو خون کی رنگت بھی بدل چکی تھی۔ ماںنے اپنی نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔ بڑی بیٹی کو دیکھا ، آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں نے کچھ طئے کیا، پھاوڑے والا ہاتھ بلند ہوا اور پوری قوّت سے زمین کی چھاتی میں پھاوڑ ا دھنس گیا۔دھپ کی آواز ، دالان میں بیٹھی تینوں بہنوں نے سنی، تینوں ہی نے سہم کر ایک دوسرے کو دیکھا۔چھوٹی نے اضطرار کے عالم میںباپ کے لاشے کی پنڈلی تھام لی، سہمی سہمی نگاہ اس نے ماں پہ ڈالی ، جس کا پورا وجود ایک بار پشت کی طرف جھکا ، دونوں ہاتھ بلند ہوئے ، پھاوڑا نیم کی شاخوں تک پہنچا اور دھپ کی آواز کے ساتھ ہی دور کہیں گولی چلنے کی آواز تینوں نے سنی۔ گولی چلنے کی آواز کااثر گڑھا کھودنے والی ماں اور بیٹی پر نہیں ہوا۔ یوں لگتا تھا کہ ان کے کان قوّت سماعت سے محروم ہو چکے ہیں اور ان کی آنکھوں کے حلقوں میں اب ڈھیلے بھی نہیں رہے۔ بس انہیں یاد تھا تو اتنا کہ دالان میں بچیوں کے پاس دو لاشیں پڑی ہیں اور شہر میں بے مدت کرفیو لگا ہے۔ اگر لاشیں یوں ہی پڑی رہ گئیں تو تعفن کے مارے گھر میں بیٹھا نہ جاسکے گا اور گھر سے باہر نکلنے کی پاداش میںدائیں ،بائیں یا کسی اونچے مکان کی چھت سے گولی چلے گی اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھاوڑے اور بیلچے نے زمین کی تہیںکھولنی شروع کر دی تھیں ، پھاوڑے کی ہر ضرب خوف ناک سناٹے کی چادر کو تانتی چلی جا رہی تھی، ماں اور بیٹی بلارکے گڑھا کھود رہی تھیں۔انہیں پتہ ہی نہیں چلا کہ رات نے کرفیو زدہ شہر پر کب سیاہی پھیری ۔ دالان میں بیٹھی تلے اوپر کی تین بہنوں میں سے ایک نے صحن میں پھیلتے اندھیرے کو محسوس کیا تو اٹھ کے اس نے باورچی خانے کا رخ کیا۔ چند لمحوں بعد وہ ڈھبری جلارہی تھی۔دوسرے ہی پل گہرا زردی مائل اجالا دالان اور صحن میں پھیلنے لگا۔ لمحے بھر کی خاطر گڑھا کھودنے والی ماں اور بیٹی کے ہاتھ رکے ، چہرے گھومے ، دونوں نے قمیضوں کی آستینوں سے چہرے کا پسینہ پونچھاٹھیک اسی وقت دالان میں بیٹھی دونوں بہنوں نے ڈر کے مارے سر جھکالئے، یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری اپیا تو نہیں۔ یہ امّی تو ہر گز نہیں ہیں۔ انہوں نے سوچا۔ تو کسی اور دنیا کی عورتیں ہیں۔امّی اور اپیا کا چہرہ اتنا دہشت ناک تو نہ تھا۔ٍ اپیا کی مٹھیوں میں دبا بیلچہ زمین میں دھنسا ، مٹی کی تہہ نل کی ہودی کی طرف ڈھیر ہوئی اور ماں کا پھاوڑہ پوری قوّت سے زمین کی چھاتی پر پڑا۔ بس ۔ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ اپیا کی اپنی چھاتی میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی۔ اس نے ماں کا پھاوڑہ زمین میں دھنسا دیکھا ۔ شاید وہ کچھ اور بھی سوچتی پر بے گور کفن باپ اور بھائی کی لاش کا خیال آتے ہی وہ چونکی۔بیلچے کی کھچ کھچ اور پھاوڑے کی بھد بھد کے بیچ ہی ایک تیسری آواز بھی کافی دیر سے سنائی دے رہی تھی۔دالان کی مشترکہ دیوار میں موجود کھڑکی کی کنڈی مسلسل مگر احتیاط سے بج رہی تھی۔لیکن ماں بیٹی کے ہاتھوں کی مصروفیت اور ماحول پر مسلط خوف کی وجہ سے دالان میں بیٹھی بہنوں نے اس پر توجہ ہی نہ دی۔ اب کی مرتبہ کنڈی قدرے زور سے بجائی گئی ، تب اس لڑکی نے جو کچھ دیر پہلے ڈھبری جلا چکی تھی، پہلے گڑھے کو، پھر فرش پہ پڑی لاشوں کو دیکھااور صحن میں گڑھا کھودنے میں مصروف ماں اور اپیا کو۔گویا اسے ان کی اجازت مطلوب ہو۔لیکن انہیں اپنے کام میں منہمک پا کر اس نے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائے ، کھڑکی کے قریب پہنچی۔اور چٹخنی گرادی۔ کھڑکی کے اس پار ماسی کھڑی تھیں۔اپنا غم زدہ چہرہ لیے۔ دونوں کی نظریں ملیں، ماسی نے شفقت بھرا ہاتھ بچّی کے سر پر رکھا۔داہنا پیر اٹھا کر کھڑکی کی راہ وہ پڑوس میں چلی آئیں۔ پھر بائیں ہاتھ سے سانکل پکڑے وہ جھکیں اور اپنی اور سے تشا اٹھا کر تیزی سے صحن کی طرف بڑھ گئیں۔ دالان میں بیٹھی سب سے چھوٹی بچی نے سامنے کی دیوار پر صحن کی طرف بڑھتی ہوئی ماسی کا سایہ دیکھا تو ڈر کر آنکھیں بند کر لیں۔وہ کافی دیر سے ڈھبری کی زرد روشنی میں اپنے ہی سائے کو عجیب عجیب حرکتیں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ بس ، چند لمحوں کی خاطر بیلچے اور پھاوڑے نے زمین کی پرتیں ادھیڑنی چھوڑ دی تھیں ۔ماں اور بیٹی نے پڑوسن کو دیکھا دونوں کے دل پھڑ پھڑائے، اس سے پہلے کہ دونوںکے دل سے بخارات اٹھ کر آنکھوں کی راہ بہہ نکلتے ماں نے پھاوڑہ سر سے بلند کیا،دھپ کی آواز آئی۔کافی مٹی پھاوڑے پر آگئی تھی فوراََ ہی پڑوسن نے تشا آگے بڑھا دیا۔ اب کام بٹ گیاتھا۔ان کی ہمتیں بلند ہو گئی تھی۔پر اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔چھے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔۔ ڈھبری کی زرد روشنی میں ان تینوں کے سائے غسل خانے کی دیوار پر پڑ رہے تھے۔چھوٹی بچی کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو چلی تھیں۔اس کی پلکیں موندھتی ہی چلی جارہی تھیں کہ ماحول کے سکوت نے اس کے ذہن کو بیدار کر دیا۔آنکھیں کھول کر اس نے دیکھا۔ امّی اپیااور ماسی کے ہاتھ رکے ہوئے ہیں۔ ماں کے ہاتھ میں ایک ہڈّی ہے اور ایک ادھوری انسانی کھوپڑی مٹی کے ڈھیر پر پڑی ہوئی ہے۔ ایک گھٹی گھٹی سی چیخ اس کے اندر سے ابھری مگر حلقوم تک آتے آتے دم توڑ گئی، کچھ لمحے بعد بچی کی پلکوں کے کواڑ پھر بند ہونے لگے۔ یکبارگی دروازہ دھڑ دھڑا کر کھل گیا۔ ڈر کے مارے سب کی چیخیں بلند ہو گئیں ۔ پڑوسی شرما جی کے لڑکے انیل نے بھیا کو کندھے پر اٹھا رکھا ہے اور ابّو نڈھال سے زمین پر تڑپ رہے ہیں۔ ’’اپیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئو۔۔۔بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔سنبھالو۔۔۔۔۔۔۔۔۔عید گاہ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلوے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے گولی لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چاچا انہیں اٹھائے بھاگ رہے تھے۔اپنی۔۔۔۔۔۔۔۔گلی کے موڑ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پولس نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیچھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤاپیا ۔جلدی آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صبح ساڑھے سات بجے دونوں باپ بیٹے سفید کرتے پائجامے پہن کر عید گاہ گئے تھے اور اب انیل نے اس کے ویراکو کندھے پر سہاررکھا تھا۔اس کے ابو خون میں لت پت پڑے تھے۔سانسیں اکھڑ چلی تھیں ، اپیا اور امی بولا کر ان کی طرف بڑھیں ، جیسے تیسے انہوں نے ان دونوں کو دالان میں پہنچایا۔دروازے سے دالان تک پہنچے میں ابو نے آنکھیں بند کر لیں۔انیل بجھے دل کے ساتھ سر جھکائے مکان سے نکلااور ٹھیک اسی وقت گولی چلنے کی آواز ان لوگوں نے سنی ۔ کئی چیخیں انہوں نے سنیں۔پر ایک چیخ ان سب سے بلند تھی۔ اپیا نے دروازہ بند کرتے ہوئے گلی میں تڑپتے انیل کو دیکھ لیا تھا۔دور کہیں لائوڈ اسپیکر پر پولس والے بے مدت کرفیو کا اعلان کر رہے تھے اور پھر ایک چیخ بلند ہوئی تھی۔ گھبرا کر وہ جاگ اٹھی ۔ محراب کے کھولے سے لگے لگے اس کی آنکھ لگ گئی تھی ۔وہ اس کی اپیا کی چیخ تھی۔ جو کرفیو زدہ رات کا سینہ چیرنے کے بعد خاموشی کا ایک حصّہ بن گئی۔ اس نے نندا سی آنکھوں سے دیکھا، اپیا، امّی، ماسی، ابو اور بھیّا، کی لاشیں گڑھے میں اتر چکی ہیں۔ دونوں لاشیں برابر لٹانے کے بعد امّی نے کمر پر بندھا دو پٹہ کھولا ہے اور لاشوں پر ڈال دیا ہے۔ اپیا نے گھڑونچی پر رکھا اپنا دوپٹہ اٹھایا۔ ماسی کی مدد سے اسے پھیلایا اور میّتیں ڈھک دیں۔ ایک مرتبہ پھر بیلچہ اور پھاوڑا مصروف ہوا۔ادھر ادھر پھیلی مٹی سے گڑھا بھرا گیا۔اپیانے ، پھر آستین سے پسینہ پونچھا گھڑونچی کے قریب پہنچیں ۔بالٹی اٹھائی اور نل کی طرف بڑھنے لگی۔ایک بچّی دوڑ کرنل کے قریب پہنچی اور ہتھّی چلانے لگی۔ بالٹی بھر جانے کے بعد اپیا نے باپ اور بھائی کی مشترکہ قبر پر پانی چھڑکا ۔ا مّی نے غور سے اپنی بیٹی کو دیکھا اور نڈھال سی دالان کی طرف بڑھیں ۔ لیکن وہ چند ہی قدم چلی تھیںکہ چکر اگر گر پڑیں ۔ ماسی دوڑیں ۔چلوّمیں پانی لے کر ان کے منھ پر چھینٹے دیئے۔امّی نے آنکھیں کھول کر ماسی کو دیکھا ۔ اک ذرا سا ہاتھ اٹھا کے انہیں اطمینان دلایا۔تب ماسی نے گھٹنوں پر ہتھیلیوں کا دبائو ڈالا ۔ اٹھیں ، اپنا تشا اٹھا کر اپیا کو حسرت بھرے انداز میں دیکھااور پھاوڑے کی طرف بڑھادیا۔ اپیا اپنی اجڑی آنکھوں سے ماسی کو دیکھ رہی تھی۔اس نے دیکھا ماسی کی آنکھوںسے آنسو رواں تھے اور وہ تھکے قدموں سے دالان کی مشترکہ کھڑکی کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔ پل بھر میں اپیا نے ایک فیصلہ کیا۔اپنا بیلچہ اٹھا کر وہ بھی ماسی کے پیچھے چل پڑی ۔ محراب کے کھولے سے لگی بچی نے اپیا کو دوسری طرف جاتے ہوئے دیکھا ۔ کچھ دیر بعد برابر کے مکان سے کھچ کھچ اور دھپ دھپ کی آواز آرہی تھیں ۔ بچّی کی پلکوں کے پٹ پھر بھڑنے لگے تھے۔اور مندتی ہوئی پلکوں کی جھری سے وہ دیوار پر پڑتے سائے کو دیکھ رہی تھی ۔ اپنے ہی سائے کو۔ جو کبھی ایک جگہ تھم جاتا۔کبھی لہراتا اور کبھی طوفانی انداز میں اپنے ہی جیسے دوسرے سایوں پر حملہ کر بیٹھتا تھا۔دور کہیں پھر گولی چلی تھی اور ایک چیخ بھی بلندہوئی تھی۔

Gende ke Phool A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

گیندے کے پھول

علی امام نقوی

بھارت ٹرانسپورٹ کے مالک کھر بندہ صاحب میرٹھ ، بمبئی لائن پہ ٹرک چلانے والے ایمان دارجفا کش ڈرائیور افتخار کے گھر رسمی طور سے اس کی عیادت کرنے گئے تھے۔ پر اُسے دیکھتے ہی ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، دو تین مہینے پہلے ، جب افتخار مال بھر کے بمبئی گیا تھا تو کیسا ہٹّاکٹّاتھا۔ بھارت ٹرانسپورٹ کے مالک کھر بندہ صاحب میرٹھ ، بمبئی لائن پہ ٹرک چلانے والے ایمان دارجفا کش ڈرائیور افتخار کے گھر رسمی طور سے اس کی عیادت کرنے گئے تھے۔ پر اُسے دیکھتے ہی ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، دو تین مہینے پہلے ، جب افتخار مال بھر کے بمبئی گیا تھا تو کیسا ہٹّاکٹّاتھا۔ٍ اور اب جھلنگی چار پائی پر جو شخص انہیں دکھائی دے رہا تھا ، وہ تو کوئی دوسرا ہی بندہ تھا۔ رسمی طور پر دو چار جملے ادا کرنے کے بعد وہ باہر نکلے ، ایک کیمسٹ کی دوکان سے دفتر فون کیا۔ دوسری طرف سے رابطہ قائم ہونے پر وہ بولے۔ ــ’’ویرا میں ہوں۔سریش۔لال کرنی افتخار کے گھر ڈرائیور کے ہاتھ میری گاڑی بھیج۔ اوئے گل نہ پوچھ۔ اُسے دلّی لے جاتی ہوں۔ اسپتال میں داخل کرنے۔ٍٍ تقریباََ بیس منٹوں بعد ماروتی وین میں ڈرائیور کے برابر والی سیٹ پر وہ بیٹھے تھے، پچھلی سیٹ پر سکڑا،سمٹا افتخار اپنی بیوی شاکرہ کی گود میںسر رکھّے پڑا ہوا تھا۔ شاکرہ، حال اور مستقبل کے خدشات میں گھڑی بیٹھی تھی۔گھر میں کمانے والا، تنہا اس کا میاں تھا ۔سال دو سال کی چھوٹ بڑائی لئے تین بچیّ اور ایک بوڑھی ساس ۔ اس کے ذہن میں پچھلے دو ڈھائی مہینوں میں ہزاروں وسوسوں نے جنم لیا تھا، لیکن افتخار کی صرف ایک تھکی ماندی مسکراہٹ نے ان وسوسات کا کام تمام کرنے میں نمایں کردار ادا کیا تھا۔شاکرہ سوچ رہی تھی کہ اب تو ان کے چہرے سے وہ مسکراہٹ ہی غائب ہوگئی جو دماغ میں پنپتے تشویش کے  کیڑوں کو رسان سے کچل دیا کرتی تھی۔ طوفانی رفتار سے دوڑتی ماروتی وین ڈیڑھ گھنٹہ بعد اَ رون اسپتال کے پورچ میں رکی۔کھر بندہ صاحب کے اشارے پر وارڈ بوائز اسٹریچر اٹھا کر وین کی طرف بڑھے۔دو منٹ بعد ہی ڈاکٹر نے افتخار کا معائنہ کیا،میرٹھ میں جن ڈاکٹروں نے ا ن کی رپورٹیں Case Paperکے ساتھ نتھی کرنے کے بعد ڈاکٹر نے افتخار کو جنرل وارڈ میں داخل کرنے کی ہدایت کی اور جب وارڈ بوئے مریض کا اسٹریچر Casulaty Wardسے لے کر نکل گئے تب او۔پی۔ڈی انچارج نے کھرہ بندہ صاحب کو اطمینان دلایا۔ ’’اُس کی بیوی بھی ساتھ آئی ہے کیا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ـ’’سوری۔ جنرل وارڈ میں ، وہ بھی مَردانے وارڈ میں اس کی ذمّہ داری ہم نہیں لے سکتے ۔ٍٍ ڈاکٹر نے جذبات سے عاری لہجے میں معذرت چاہی تو کھربندہ صاحب یہ کہتے ہوئے کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ میں ہفتہ پندرہ روز میں چکر لگایا کروںگا۔بائی دی وے ایمر جنسی کی حالت میں آپ نے میرا پتہ اور فون نمبر تو لکھ ہی لیا ہے۔ چوبی سال خورہ بینچ پر ہونّق بیٹھی شاکرہ نے انہیں دیکھا تو ایک دم سے کھڑی ہوگئی ، اس کے قریب، پہنچ کے بولے۔ ــ’’افتخار کے پاس تیرے بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے۔تو، میرٹھ چل سب ٹھیک ہوجاے گا۔ ـــ’’نا ۔جی۔میں تو اِنگے ہی رہوں گی۔ اپنے میاں کے دھورے بچّوں کو ماں کنے چھوڑیائی۔بس آپ تو ان کی خبر گیری کرتے رہیٔو۔ ـ’’پرتو، یہاں کیسے رہے گی؟ ’’اجی یہیںتو مارا پپہرے گا۔ چتلی قرپہ۔ ــ’’تب تو ٹھیک ہے۔ اور سن ! اسپتال میں اپنا فون نمبر لکھوا دیا ہے میں نے۔ ضرورت پڑے تو بلوا لینا مجھے اور ہاںاب تو چتلی قبر ، اپنے میکے چلی جا۔ شام سمندھیوں کے ساتھ آجانا۔ ’’جی!۔‘‘ٍ ’’تو میں چلوں؟‘‘ کھربندہ صاحب نے پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دو تین ہزار روپے اس کی طرف بڑھائے اور پھراس سے مخاطب ہوئے ۔ ’’افتخار، اپنا بہت پرانا ڈرائیور ہے۔ اس کی ضرورت پڑے گی۔ کھر بندہ صاحب کے چہرے پر ممنونیت کی ایک بھر پور نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھا کر روپئے لیے۔اور ٹھیک جب اس لمحہ جب نوٹ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہورہے تھے۔ شاکرہ رونے لگی۔ فوراََہی کھر بندہ صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے۔ ــ’’روتی ہے پگلی۔ اب رونے کی نہیں ، رب سے دعا مانگنے کی ضرورت ہے۔رب کو یاد کر ۔ وہ چنگا ہو جائے گا۔ دوسرے دن دس بجے کے آس پاس افتخار پھر ڈاکٹروںکے درمیان گھرا ہوا تھا ۔اکیلی نحیف ونزا ر جان تھی اور کئی ڈاکٹروں کے سوالات ۔ ’’کیاکرتے ہو؟ ’’ڈرائیونگ! ’’کار چلاتے ہو؟ ـ’’نا۔ جی۔ ٹرک پہ چلوں ہوں۔ میرٹھ سے دلّی ہوتا ہوا بمبئی جایا کروں تھا۔ٍ ’’پہلی مرتبہ بخار آیا تھا؟ٍٍ ’’دو ڈھائی مہینے ہوگئے۔ سورا، اترکے ہی نہ دیوے۔ ’’شراب پیتے ہو؟ ’’توبہ کروں اُس سے۔ ’’سگریٹ ؟ ــ’’ اجی وہ کبھی کبھار پی لیا کروں ہوں۔ ’’اجی یہ جو حلق کے نلّے ہیں گے۔سورّے اینٹھیں ہیں گے۔بدن میں جان ہی نہیں لگے۔ وزٹ کرنے والے ایم۔ ڈی ڈاکٹرنے ایک لمبی ہنکاری بھری اور جونئیر زمعا لجین کو مخاطب کیا: ’’خون ، پیشاب ،ٹٹّی اورتھوک ، سب چیک کرائیں۔ ــ’’ سر! وہ سب تومریض کے کیس پیپر میں اٹیچ ہیں۔ اس نے میرٹھ کے پیارے لال شرمامیں بھی علاج کروایا تھا۔ ’’آپ پھر چیک کریں۔‘‘ بڑے ڈاکٹر کے لبوں کی مسکراہٹ دیگر ڈاکٹروں کو بہت کچھ سمجھا گئی تھی۔اُدھر افتخار جب اپنے بستر پر لٹا دیا گیاتو سوچنے لگا۔ کیسے کیسے سوال کریں ہیں سورے ڈاکٹر ۔سبھی کچھ ہم بتا دیں اور جواب میں جھولوپیٹے دوائی کی پرچی پکڑادیویں۔کھائے جائوسسری دوائیں اور سوکھتے جائو۔پر ایسا کون روگ لگ گیا جو پیچھا ہی چھوڑنے کے نہ دیوے ہے گااب پھر خون ، پیشاب ، ٹٹی چیک ہوگی۔ دیکھیں۔ اب یہ کیا کہیوں گے۔ شام کو چتلی قبر سے شاکرہ چلی آئی تو اس نے اس سے بھی یہی باتیں دہرائیں۔وہ اللہ میاں کی گائے، میاں کو حسرت بھرے انداز میں دیکھتی رہی ، پھر اُس نے میکے کا ذکر چھیڑدیا۔کھر بندہ صاحب کی تعریفوںکے پل باندھے ، افتخار نے ساری بات خاموشی سے سنی۔ پھر آہستہ سے بولا۔ ’’اِدھر کو آئیو۔ وہ اُس کے قریب جھکی تو اس نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ ’’وس سسرنے ٹول کو انگے مارے سر ہانے کھینچ لے، ایک بات کہنی ہے تجھ سے۔ ’’اچّھے ہو جائو، پھر بتا دیجیؤ۔ دماغ پر زور نہ ڈالو۔ وہ جو ڈاکٹر صاحب ہے نہ۔ وے بتا دیں تھے کہ تم سوچا کروہو۔ ’’سچ ہی کہا انھوں نے ۔ سوچوں تو ہوںپر کچھ نا سوجھے ۔ایک بات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بات کم بخت ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کئی روزسے تجھ سے کہنا چاہوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’کہانا چنگے ہونے پہ کہہ دیجیٔو۔ ’’مجھ سے وعدہ کر۔ افتخارکی لرز تی ہوئی آواز شاکرہ نے سنی تو فوراََ اس پر جھگ گئی۔ افتخار نے کچھ کہنے کے لئے ہونٹ ہلائے اور پھر سر کو بائیں طرف دال دیا۔شاکرہ نے استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔تکیہ پر ایک گیلا دائرہ پھیلتا ہی جارہا تھا۔ ’’ائے جی!  میں کہوں۔ ہمت سے کام لو۔ اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔وے سب ٹھیک کرے گا۔ لیکن افتخار پر رحمت کے دروازے بند ہو چکے تھے۔تیسرے دن پھر جب ایم۔ڈی نے وزٹ کی اور تمام رپوٹیں پڑھیں تو اپنے جونیئر زسے کہاImmediately shift him to special ward.   ’’کیوں سر؟ ایک ساتھ کئی آوازیں سوال بن گئیں۔ He has got AIDS’’اوہ۔ پھر ایک مشترکہ گونج سے کمرہ بھر گیا۔دوسرے ہی پل ڈاکٹروں نے ترحم آمیز نگاہ افتخار پر ڈالی۔ ’’ریڈ لائٹ ایریے میں گئے ہو؟ وزٹ کرنے والے ڈاکٹر نے سوال کیا۔۔’’وہ کیاہوئے ہے جی؟ ’’ مطلب یہ کہ رنڈی بازی کا شوق ہے؟‘‘ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا جی۔ سینئراور تمام جونیئر ز ڈاکٹر اس کے جواب سے مطمئن نہیں تھے۔ اسے جب جنرل وارڈ سے اسپیشل وارڈ میں منتقل کیا جانے لگاتو خود اس کی اپنی سوچ اُس ٹرک سے بھی تیز دوڑ رہی تھی جسے ہائے وے پر وہ بے خطر چلایا کرتا تھا۔میرٹھ میں لال کرتی کا علاقہ، سائیکل رکشہ سے باغپت اڈّے کا سفر ، دلّی ، متھرا ، احمد آباد ہوتا ہوا بمبئی تک کا تھکا دینے والا سفر، دن میں آرام اور رات کے سنّاٹے میں گونجتے ٹائروں کی چرمراہٹ ، سفر ،سفر،سفر۔ دم لینے کو تھے تو کچھ مخصوص پٹرول پمپ یا ان سے ملحق ڈھابے یہی تو رین بسیرے تھے میرے۔ پر نہیں۔ سوچ کو ایک دم سے ایمر جنسی بریک لگااور سب کچھ ہل کے رہ گیا۔ٍ جنرل وارڈ سے کافی دور ، اسپتال کے ایک ویران سے گوشہ میں ایک منزلہ اسپیشل وارڈتھا۔ جہاں اُسی کی مانند آٹھ دس لاغر مریض پڑے ہوئے تھے۔ان سب نے نو وارد مریض کو بہ حسرت ویاس دیکھااور سوچا۔کیا سب ہی بُری عورتوں کی سنگت میں پڑنے کے بعد یہاں آئے ہیں؟ نہیں نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی ۔ کیا کیہویںہیں ویسے؟ تشخیص ۔ ہاں مجھے تو لگے ان کی تشخیص غلط ہے گی۔ٍٍ مگر بستر پر لیٹتے ہی ذہن پہ چھائی دھند چھٹی ، اور اس کے حافظے کی ایک گرہ خود بخود کھل گئی۔وہ بمبئی کی ایک سرد شام تھی۔اس کے ساتھیوں نے سونے سے پہلے دارو پی تھی۔پھر ان میں سے چند ایک نے اُسے زبردستیاپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھا لیا تھااور ٹیکسی تھمی تو اس نے دیکھا کہ وہ بازارِحسن تھا۔مگر حسن کہاں تھا؟ یاروں کے کھدیڑنے پر وہ ایک عمارت کی دوسری منزل پر پہنچا تھا۔بڑی عجیب عجیب سی لونڈیاں تھیں۔چپٹی ناک ،چوندھی آنکھیں۔چھوٹے سے دہانے۔ اٹکھیلیاں شروع ہو گئیں۔ایک چھوٹی سی نیپالن اس کی گود میں آ بیٹھی۔ اسے ایک دم سے شاکرہ یا دآئی، ملائم ملائم وجود کا پیکر، اور یہ جو گود میں ڈھے گئی ہے۔کیسے ٹھکے ہوئے جسم کی لگائی ہے یہ۔نہیں ۔ہاں۔ہاں۔نہیں ۔نہیں ۔ہاں۔ہاں۔آخر اس کی رال ٹپک ہی گئی۔ واپسی بھی ٹیکسی سے ہی ہوئی۔مگر یاروں کی بہ نسبت وہ چپ چاپ ساتھا۔گاڑی میں سونے سے پہلے اس نے سوچا کہ یہ سب کیسے اور کیوں کر ہوا۔دو بول کے بدلے آخری سانسوں تک ساتھ دینے والی شاکرہ اور دس روپلّی میں خریدی اس لگائی میں کیا فرق تھا یہی نا کہ دال وہ بھی تھی اور یہ بھی، پر بگھار بازاری دال میں کچھ سوا تھالیکن۔ایک کمی تھی اس بگھار والی دال میں نمک کم تھا۔ تو کیا۔میں نے دس روپیے میں اپنی موت خریدی۔ دس روز شاید یہی بات میں شاکرہ سے کہنا چاہوں تھا۔ پر کہہ نہ سکا۔ بیسیوں بار اس کے سامنے کپڑے اتارے ہیں گے میں نے ۔ لیکن اگر اس سے اس بار ے میں کہہ دیا تو پورم پور ننگا ہوجائوں گا۔دس کی نگاہوں میں۔ دوسرے دن شاکرہ اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے کر صبح ہی جنرل وارڈ میں پہنچی تو افتخار کے پلنگ پر کوئی دوسرا مریض لیٹا کھانس رہا تھاوارڈ بوائز سے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اسپیشل وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔اس نے نرسوں کو تلاش کرنے کے خاطر اِدھر اُدھرنگاہ دوڑائی ۔جنرل وارڈ کے کونے میں ڈاکٹروں اور نرسوں کا جھمگٹا نظر آیا تو دونوں بھائی بہن وہاں پہنچے۔کچھ ڈرتے جھجکتے اس نے ایک نرس سے اپنے میاں کے متعلق پوچھا۔بڑے ڈاکٹر نے مریض کامعائنہ کرتے ہوئے کنکھیوں اسے دیکھا۔اس کی بات سنی اور جس مریض کو دیکھ رہا تھا اسے چھوڑ کر شاکرہ کے قریب پہنچا۔شاکرہ کے حلق کے ابھرتے نلوں پہ نگاہ ڈالتے ہوئے اس نے اپنے جونیئر ز ڈاکٹروں سے کہا۔ ’’اسے بھی داخل کیجئے۔ خون ، تھوک ، ٹٹّی اور پیشاب سب کچھ چیک ہوگا۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ۔۔۔

Bazgasht A Short Story by Ali Imam Naqvi

Articles

باز گشت

علی امام نقوی

آگ کے شعلوں سے بستی روشن ہوئی تو اس نے معنی خیز انداز میں اپنے جوان بیٹوں کے چہروں پر موجود پریشانیوں کے سائے کچھ بڑھتے ہوئے دیکھے۔ کنکھیوں سے بچوںکے باپ ہزار سنگھ کے چہرے پر نظر ڈالی جو کسی گہرے تفکر میں ڈوبا ہوا تھا، دوسرے ہی پل میں اس کی نگاہوں کا زاویہ تبدیل ہو کر سولہ برس کی بیٹی کے چہرے کو اپنے حصار میں لے آیا۔وہ مکان کے سب سے پو تر حصے میں گروجی کی بیڑ کے سامنے ہاتھ جوڑے من ہی من میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ سب کو ہراساں دیکھ دل ہی دل میں وہ مسکرائی، پھر کچھ سوچ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تے ہوئے زینوں کی طرف بڑھ گئی۔ہزار سنگھ نے تفکر کے کنویں سے سر ابھار کر اسے دیکھا اور اپنے اور اپنے بڑے بیٹے سے بولا۔ آگ کے شعلوں سے بستی روشن ہوئی تو اس نے معنی خیز انداز میں اپنے جوان بیٹوں کے چہروں پر موجود پریشانیوں کے سائے کچھ بڑھتے ہوئے دیکھے۔ کنکھیوں سے بچوںکے باپ ہزار سنگھ کے چہرے پر نظر ڈالی جو کسی گہرے تفکر میں ڈوبا ہوا تھا، دوسرے ہی پل میں اس کی نگاہوں کا زاویہ تبدیل ہو کر سولہ برس کی بیٹی کے چہرے کو اپنے حصار میں لے آیا۔وہ مکان کے سب سے پو تر حصے میں گروجی کی بیڑ کے سامنے ہاتھ جوڑے من ہی من میں سب کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہی تھی ۔ سب کو ہراساں دیکھ دل ہی دل میں وہ مسکرائی، پھر کچھ سوچ کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا تے ہوئے زینوں کی طرف بڑھ گئی۔ہزار سنگھ نے تفکر کے کنویں سے سر ابھار کر اسے دیکھا اور اپنے اور اپنے بڑے بیٹے سے بولا۔ ’’ہُن کدا ای انصاف دی گل نئی اے ۔ اک بندے دی سزا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’تسی بھول رئے ہو بائو جی۔‘‘ بیٹے نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے معنی خیز انداز میں جواب دیا تو ہزار ہ اپنے بیٹے کیہر کو گھور کر رہ گیا۔باپ اور بیٹے کے درمیان دو جملوں کی گفتگو اس نے بھی سنی ۔ ان کے اضطراب نے اس کے اپنے دل کادریچہ کھول دیاتھا۔دل میں قید مسکراہٹ چھلانگ لگا کر اس کے ہونٹوں پر براج گئی۔وہ مکان کی چھت پرپہنچ چکی تھی اوراطمینان سے اِدھر ُادھر سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلوں کا رقص دیکھ رہی تھی ۔ قرب وجوار سے ابھرنے والی امدادی صدائیں جوں ہی اس کی سماعت سے ٹکرائیں تو اس کے ہونٹوں پہ براجی مسکراہٹ کچھ پھیل گئی۔ٹھیک اسی وقت ہوا کا جھوکا اپنے دامن میں چلتے جسموں کی چراند کا بھبکا لیے اس کے نتھنوں سے ٹکرایااور اس کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہوگئی۔ ’’بی جی۔تسی کتھے ہو۔‘‘ سولہ برس کے ہر جیت کو رکو مخاطب کرنے پر اس نے پلٹ کر اس کے سراپے کو دیکھا۔ہر جیت کے پورے وجود پہ کپکپی طاری تھی اور اس کی آنکھوں میں خون کنڈلی رمالے بیٹھا تھا۔ٍٍ ’’بی جی۔۔۔۔۔۔۔تسی کتھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سارے پا سے آگ لگی ہے۔‘‘ ’’ہوں‘‘ ’’ہوںکی بی جی؟‘‘ ’’تھکی تھکی۔ نڈھال سی سنیتیں برسوں کے بن باس لوٹتے ہوئے ہی تو دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو نیچے جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھائیوں کے پاس۔ ’’تو جا ہر جیت۔‘‘ اس کے تحکمانہ لہجے کی کرختگی محسوس کرتے ہی ہر جیت زینوں کی طرف بڑھ گئی۔اس نے اپنے جسم کے بالائی حصے کو اک ذرا سا جھکانے کے بعد نیچے صحن میں سر جوڑے بیٹوں اور ہزار سنگھ کو دیکھا پھر زینے اترتی ہر جیت کو جو مسرت اور بے چارگی سے اسے دیکھتے ہوئے بے دلی سے زینے طئے کر رہی تھی۔اس نے اپنے خمیدہ وجود کو سیدھا کیا اور پھر ایک مرتبہ جلتے ہوئے مکانوں کو دیکھنے لگی۔فضا، آہوںکراہوں اور چیخوں سے اٹی پڑی تھی۔ رینگتی ہوئی ٹرین ایک جھٹکے سے رُکی تو کمپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے مردوں کے ذہنوں میں موجود تشویش نے جھنجلاہٹ اختیار کرلی تھی۔جو ا ن گاڑی کے رکتے ہی مستعد ہوگئے ان میں سے بیشتر نے پل بھر کی خاطر کمپارٹمنٹ کے بند دروازوں کو دیکھا اور دوسرے ہی پل اپنے عزیزوں کو ۔ یکایک وہ سب ہی چونک پڑے تھے۔ایک دم سے بہت سی آوازوں نے کمپارٹمنٹ کے دروازوں اور کھڑکیوں پر حملہ کردیا تھا۔کمپارٹمنٹ میں ٹھسا ٹھس بھرے مسافروں نے اپنی اپنی خوف زدہ نظروں سے کھڑکیوں کے اس پار چمکتی ہوئی کر پانوں کو دیکھا۔بوڑھی اورادھیڑ عورتوں نے کم سن اور جوان ہوتی ہوئی بچیوں کو اپنی چھاتیوں سے لپٹالیا۔اس اضطراری فعل سے وہ اپنے دلوں کے خوف پر قابو پانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں یا بچیوں کی ڈھارس بند ھا رہی تھیں۔ادھر دروازہ پیٹا جا رہا تھا پر تھپ تھپاہٹ کی ضرب وہ اپنے دلوں پر محسوس کر رہی تھیں۔ دفعتاََ ایک فائر ہوا ۔ سب نے چونک کر دیکھا ۔ ایک جوان نے اپنی خوبصورت بہن کی چھاتی میں گولی داغ دی تھی اور وہ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے رہا تھا کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔کمپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا۔گولیاں چلیں اور وہ جوان تیورا کر گرا جس کے ہاتھ میں ریوالور موجود تھا۔عورتوں کی چیخیںبلند ہونے لگیں۔ گرتے گرتے بھی اس جوان نے اپنا ریوالور حملہ آوروں پرخالی کر دیاتھاادھر بھی تین چار گرے تھے اور دوسرے ہی پل نیزوں کی انیاں جوانوں کے سینوں کو بر مانے لگیں۔کر پانوں نے مردوں کے گلے کاٹے۔ ان کے پیٹ چاک کئے۔ایک کے بعد ایک دل خراش چیخ ابھرتی ، اور کسی نئی چیخ میں معدوم ہو جاتی۔عورتیں جبراََ اتاری جانے لگیں ، جن عورتوں نے اپنی بچیوں کے تحفظ کے خاطر کمر کسی انھیں نہر کر دیا گیا۔ان کے بعد ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو، جنھوں نے اپنی چھوٹی بہنوں کی مدافعت کی رتی بھر بھی کوشش کی خود اس کی اپنی بہن بھی اس کے سامنے دیوار بنے کھڑی تھی اور اس کے سامنے ایک جوان ہاتھوں سنگین لگی بندوق تھا مے کھڑا تھا۔ موت۔ دونوں بہنوں کے سامنے تھی اور جوان کے رو برو تھر تھر کانپتی دو بے یار مددگار لڑکیاں۔ ’’باجی‘‘۔ اس کی لرزتی ہوئی آواز بھری ۔ بہن نے جرأت کا ذرا سا مظاہرہ کیا اور جواب میں اس کی باجی کی دل خراش چیخ ابھر کر رہ گئی۔اس کے اور حملہ آور جوان کے درمیان موجود دیوار گر چکی تھی۔ ’’کی سوچ میں گم اے ہزار۔‘‘ ’’دیکھ ۔کی چیزہے۔ماں دے خصم اے نوں اُتھے لے جا رئے ہوندے۔‘‘ ’’توڈا کی وچار ائے۔‘‘ ’’اے نوں میں گھر لے جاویں گا۔‘‘ ’’مسلی نوں۔‘‘ ’’آہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیکھ تسی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کڑی نئیں مٹھے دا گلاس اے۔‘‘ ’’پھینٹ پھانٹ اور ختم کراے نوں۔‘‘ ’’اوے۔کی گل کرداائے۔‘‘ ہزار ہ واقعی اسے اٹھا کر لے گیا تھا۔ ساتھیوں کے منع کرنے کے با وجود بھی۔گھر پہنچ کر اس نے بار بار اس کی عزت لوٹی ۔پھر تو اس کی آبرو ہزارہ کی خواہش کی پابند ہوتی چلی گئی۔سارا ہنگامہ ختم ہو چکا تھا۔جنون کا دریا اتر جانے کے بعد ہزارہ نے اس کا دل جیتنے کی بھی کوششیں کی تھیں لیکن اس نے تو اپنے ہونٹ سی لئے تھے۔ اکثر ہزارہ اس سے پوچھتا۔ ’’تواناںنو کدوں بھلا دینگی؟‘‘ مگراس کے پاس ہزارہ کے سوال کا ایک ہی جواب تھا۔ خاموشی ۔ بس ۔گہری خاموشی ۔ شروع شروع ناشتہ پانی کا انتظام ہزارہ نے ہی کیا تھا۔پھر چولہا چوکا خود اس نے سنبھال لیا۔اپنے پر گزر جانے والی قیامت کے اعصاب شکن احساسات کے اثر ات زائل کرنے کی خاطر ہی اس نے مصروفیت کا سہارا لیاتھا۔اسی قیامت کے عذاب کو بھلانے کی خاطر اس کی کوکھ نے بھی تین جانیں اگل دی تھیں۔بڑا کیہر سنگھ،چھوٹا کرم جیت سنگھ اور ایک بیٹی ہرجیت کور۔ وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ہزارہ کے بچے بڑے ہونے لگے۔تب اسے خیال آیا کہ گائوں کی زندگی اس کے بچوں کو بہتر مستقبل فراہم نہ کر سکے گی۔اپنی زمین فروخت کرنے کے بعد وہ دہلی منتقل ہو گیا۔راجدھانی پہنچ کر اس نے پر چون کی دکان کھولی۔کاروبار کے ترقی پاتے ہی دکان بڑے بیٹے اور ملازم کے سپرد کرکے اس نے موٹر سائیکل کے پرزوں کی ایجنسی لے لی۔ترقی نے یہاں بھی اس کے قدم چومے اور۔۔۔۔۔۔آج ہزارہ کی بچی ہرجیت اسی دہلیز پہ کھڑی تھی جہاں سے خود اس کی اپنی زندگی میں انقلاب آیا تھا۔ جلتے ہوئے مکانوں کی آگ کی روشنی اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی اور نیچے صحن میں کھڑا ہزارہ اس سے مخاطب تھا۔ اوئے تسی تھلے آجا۔۔۔۔۔۔۔ائے کی کرائی اے۔ چھت کی کگاریر ہتھیلیاں ٹیک کر اس نے سر جھکا کر نیچے دیکھا۔پھر بچوں کو۔اس سے پہلے کہ وہ ہزارہ کی بات کا جواب دیتی۔بلوائیوںنے مکان پر دھاوا بول دیا۔ہرجیت ڈر کے مارے کمرے میں بھاگی۔پل بھر میں ہزارہ ، کیہر اور کرم جیت نے ایک دوسرے کو دیکھا۔پھر کھونٹیوں پہ ٹنگی ہوئی کرپانوں کو۔آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ فیصلے ہوئے اور اس سے پہلے کہ وہ کرپانوں کی طرف بڑھتے دروازہ ٹوٹ کر صحن میں آن گرا۔ ایک دم سے کئی جوان ہاتھوں میں جلتی ہوئی مشعلیں، لاٹھیاں اور بندوقیں لیے صحن میں گھس آئے۔ ایک نے آگے بڑھ کر چھوٹے کے کھیس پکڑے دوسرا ہزارہ کی طرف بڑھا۔ کیہر کرم جیت کی طرف بڑھا تو ایک بلوائی نے اپنا ریوالور اس کے سینے پر رکھ دیااور ٹریگر پر انگلی کا دبائو بڑھاتے ہوئے گالی دینے لگا۔ کرم جیت دہشت زدہ اب بھی ان کی گرفت میں تھا ایک نے اس کا کام بھی تمام کردیا  تب کسی نے چیخ کر سب کو مخاطب کیا۔ ’’ایک عورت اور ایک لونڈیاں اور ہے گی اس مکان میں۔‘‘ وہ سنبھل گئی۔ اس نے اپنے سارے وجود سے ہمتیں بٹوریں اور چھت پر سے صحن میں کود گئی۔چند ثانیوں کے لیے تمام حملہ آوروں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اٹھ کر اس نے کولہے جھاڑے ایک نگاہ بلوائیوں پہ ڈالی۔ پھر کیہر کرم جیت اور ہزارہ کی لاشوں کو دیکھتے ہوئے الٹے قدموں کمرے کی طرف بڑھی۔ ’’ سوچو کیا ہو۔ ختم کرو۔‘‘ ’’اور لونڈیاں کو اٹھالو۔‘‘  ’’بی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ہر جیت کی کانپتی ہوئی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔ ’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت دور سے خود اپنی آواز بھی اس نے سنی۔ ’’بی۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر جیت نے اسے پھر پکارا۔ ’’باجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خود اپنی ہی آواز۔ اب اس نے بہت قریب سی سنی۔‘‘ ’’بی ۔۔۔۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہرجیت ہڑبڑا کر کمرے سے نکل آنے کی حماقت کر بیٹھی۔ ’’سوچوکیا ہو۔ ٹھکانے لگا اسے۔ اور اٹھالو۔ لونڈیا کو۔‘‘ اس نے دیکھا ایک بندوق بردار اس کا نشانہ لے رہا تھا ۔ پل بھر میںا س نے ایک فیصلہ کیا۔ سرعت سے مڑ کر اس نے ہر جیت کو اپنے سے الگ کیا۔ لپک کر کرپان نکالی اور آن واحد میں وہ کرپان ہرجیت کے پیٹ میں اتار دی۔ وہ نشانہ لے رہا تھا۔ بندوق اس کے ہاتھوں میں لرز کر رہ گئی۔ اٹھی ہوئی لاٹھیاں جھک گئیں۔مشعلوں میں روشن آگ کچھ اور تیز ہو چلی تھی۔فرش پر ہر جیت آخری سانسیں لیتے ہوئے تڑپ رہی تھی اور مشعلوں کی روشنی میں ماں اور بیٹی دونوں کا چہرہ تمتمارہا تھا۔