Hafeez Jalandhari by Jameel Yusuf
Articles
Alibaba Chalis Chor
Articles
علی بابا چالیس چور
محمد سلیم الرحمن
Nasr Kai Rang Roop ki Hooti hai : Nida Fazli (Interview)
Articles
نثر کئی رنگ روپ کی ہوتی ہے
ندا فاضلی
مقصود بستوی: نداؔ صاحب ! میں آپ سے جاننا چاہوں گا کہ نثر اور شاعری میں کیا رشتہ ہے۔ کیا یہ ایک دوسرے کو رد کرتی ہیں۔ ان میں باہمی داخلی جنگ ہے۔ اور یہ اپنی بقا کے لیے دوسری صنف کو کمزور کرنا ضروری سمجھتی ہیں؟
ندا فاضلی:شاعری کی طرح نثر بھی کئی رنگ روپ کی ہوتی ہے۔’صحافتی نثر‘، ’تنقیدی نثر‘،’ تجارتی نثر‘، ’تخلیقی نثر‘ ۔ میرے یہاں جو نثر ہے اس کا رشتہ میرے انھیں تجربہ و مشاہدہ اورسوچ کے زاویوں سے ہے جو وزن ، قافیہ اور ردیف کی پابندیوں میں شاعری میں ڈھل جاتے ہیں اور جب ان سے آزاد ہوتے ہیں تو نثر میں اتر آتے ہیں۔ ان دونوں میں ایک دوسرے کو رد کرنے کے کسی بھی رویہ کو میں نہیں مانتا۔ میرے یہاں یہ دونوں ایک دوسرے کے ہم سفر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کبھی ذہن گھر کے در و دیوار پر کائنات کو سجاتا ہے اور کبھی کشادہ فضائوں میں خود کو پھیلاتا ہے۔ مجھے شعر کہہ کر جس تخلیقی مسرت کا احساس ہوتا ہے وہی نثر لکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ ہا ں یہ ضرور ہے نثر نظم سے زیادہ محنت کا مطالبہ کرتی ہے۔ اور اس کی آزادیوں میں بہت سی ان دیکھی پابندیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔
مقصود بستوی: یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ شاعری کی ابتدا پہلے ہوئی ، نثر بعد میں آئی۔ اس سے لوگ اس لازمی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ شاعری بنیادی طور وحشت ، شیفتگی، عدم ترتیب اور ذہنی تہذیب کے ضعف سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے برخلاف نثر انسانی ذہن کی بالیدگی ، تہذیب و ترتیب ، سنجیدگی اور پختگی کا ثمرہ ہے۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ندا فاضلی: ذہن کی بالیدگی، تہذیب و ترتیب ، سنجیدگی اور پختگی کے بغیر ادب کی کسی صنف کا تصور ناممکن ہے۔ پہلے اور بعد کے زمانی فاصلے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ادب ، نظم ہو یا نثر ، دیکھے ہوئے کو نہیں دکھاتا۔ دیکھے ہوئے میں جو، اَن دیکھا ہے، اس سے تحیر جگاتا ہے۔ میرؔ نے اس وصف کو ’ہر جا میں جہانِ دیگر‘ کے لفظوں سے ظاہر کیا ہے۔ اور شیکسپئر صاحب اسے میتھڈ ان میڈنس کہتے ہیں۔ میرے یہاں نثری برتائو شاعری سے قریب ہے۔ میں اسی قربت کو اس استعجاب کے لیے ضروری تصور کرتا ہوں جو لغت کو ادب بناتا ہے۔
ظہیر انصاری:ندا صاحب! آپ کی ابتدائی شاعری میں قصباتی معصومیت اور سادگی ملتی ہے۔ بڑے شہر ممبئی میں آنے کے بعد آپ کی شاعری میں جھنجھلاہٹ اور ہر چیز سے لڑجانے کا انداز جنم لیتا ہے۔ آپ کے پہلے شعری مجموعہ ’لفظوں کا پل‘ پڑھنے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے۔ اس سے متعلق خود آپ کی رائے کیا ہے؟
ندا فاضلی: ہر زندگی ایک ہی زندگی میں، کئی زندگیوں کا دائرہ بناتی ہے۔ ان کئی زندگیوں میں، ہر زندہ آدمی کی دیکھنے کی نظر پہلے سے مختلف ہوتی ہے۔ جو زندگی کے مختلف موسموں کے ساتھ بدلتے نہیں وہ اپنے محدود دائرے سے نکلتے نہیں۔ مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ سچائی اجتماعی نہیں انفرادی ہوتی ہے۔ اور فرد اس کائنات میں ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ میری شاعری کے تعلق سے جو درجہ بندی آپ نے کی ہے وہ میرے دو مجموعوں ’لفظوں کا پُل‘ اور ’مور ناچ‘ تک محدود ہے۔ ان کے بعد بھی میرے تین مجموعے ’آنکھ اور خواب کے درمیاں‘ ، ’کھویا ہوا سا کچھ‘ اور ’شہر میرے ساتھ چل تو‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے جب جیسی زندگی جی ہے یا جینے کو ملی ہے، ان میں میرے بدلتے ہوئے ذہنی رویوں کا عمل دخل دیکھا جاسکتا ہے:
اب جہاں بھی ہیں وہیں تک لکھو روداد سفر
ہم تو نکلے تھے کہیں اور ہی جانے کے لیے
ظہیر انصاری:شہری زندگی اور اس کے اقدار سے نالاں رہتے ہوئے بھی آپ اس کے اسیر نظر آتے ہیں؟
ندا فاضلی: میں شہری زندگی سے نالاں نہیں ہوں،پنڈت نہرو کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے،شہر جس طرح انتشار و بحران کا شکار ہوا ان سے مجھے شکایت ہے۔ چھوٹی بستیوں میں روزگاروں کی کمی اور اس کے ردِّعمل میں شہر کی بڑھتی آبادی اور اس کی سیاست نے جو پیچیدگیاں پیدا کی ہیں، وہ میرے موضوعات رہے ہیں۔ شہر میں گائوں اور گائوں میں شہر کی تلاش میری شعری Ironyہے۔ آپ نے ’اسیر‘ کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ میں اسے اتفاق سے بدلنا چاہوں گا۔ گھر سے بے گھر ہونے کے بعد ممبئی میں میرا قیام ایک اتفاق ہے۔ اس اتفاق کے تعلق سے میں میرؔ کے لفظ مستعار لوں تو کہوں گا: ’’ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی‘‘
ظہیر انصاری :آپ کی شاعری میں جابجا ’’گھر‘‘ کا ذکر آتا ہے، جیسے گھر کو آپ نے بہت زیادہ Missکیا ہے ۔ یہاں گھر سے مراد محض گھر نہیں بلکہ ’’فیملی‘‘ ہے ، آپ کے ماں باپ ہمیشہ آپ کو اپنے پاس بلاتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے اپنے دوسروں بیٹوں کے ساتھ آپ کانام بھی نیم پلیٹ پر لکھوایا۔ آپ وہاں جانا بھی نہیں چاہتے اور گھر کو Missبھی کررہے ہیں، یہ کیسا تضاد ہے؟ اس کیفیت کو بغاوت نہیں تو اور کیا کہیں گے؟ آپ کی شاعری میں بھی روایت سے ہٹ کر کیفیتیں ملتی ہیں۔ ایسا کہاجاسکتا ہے کہ آپ کے اندر باغیانہ عنصر پایا جاتا ہے ۔ اس باغیانہ رویے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
ندا فاضلی: آپ کے سوال کا جواب ، زیادہ تفصیل سے میں اپنی کتابوں ’دیواروں کے بیچ‘ اور ’دیواروں کے باہر‘ دے چکا ہوں۔ یہاں میں صرف اتنا ہی کہنا چاہوں گا، برصغیر میں میرا مقدر بھی اس عام آدمی کا سا رہا ہے جسے چرواہوں کی لکڑیوں نے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر بھیڑ بکریوں کی طرح ہکایا ہے۔ میرے ساتھ سیاست نے یہ کرتب 1964-65 ء میں کیا۔ گوالیار میں فسادات سے گھبرا کر میرے گھر والوں نے کراچی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور میں نے چرواہے کی بھیڑ بننا پسند نہیں کیا، کیونکہ میں ان دنوں زمینی تبدیلی کومسائل کا حل نہیں سمجھتا تھا۔ انتخاب میر اتھا اس لیے اس سے ہم رشتہ ساری اچھائیوں ، برائیوں کی ذمہ داری بھی میں قبول کرتا ہوں:
ملک خدا میں ساری زمینیں ہیں ایک سی
اس دور کے نصیب میں ہجرت نہیں رہی
آپ جسے بغاوت کہتے ہیں، میں اسے انفرادی ذہانت کہنا پسند کروںگا۔ اس انفرادی عمل نے مجھے ہندو مسلمان کی دنیا میں انسان بننے کی ترغیب دی۔ آدمی، سے انسان بننے کے راستے میں یہ میرا پہلا قدم تھا۔
ظہیر انصاری :آپ نے اپنی شاعری اور نثر میں ماں سے محبت کی کیفیت کو جس انداز میں بیان کیا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر آدمی اپنی ماں کو یاد کر رہا ہے جیسے وہ مشہور نظم:
بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں
یاد آتی ہے ! چوکا ، بیسن ، چمٹا ، پھکنی جیسی ماں
وارث علوی نے ایک جگہ لکھا ہے’’ماں کے موضوع پر صرف دو ہی نظمیں یاد گار رہیں گی ایک فراقؔ کی نظم ’’جگنو‘‘اور آپ کی مندرجہ بالا نظم ۔علامہ اقبال ؔکی نظم :’والدہ مرحومہ کی یاد میں ‘ کے متعلق آپ کیا کہنا چاہیں گے۔
ندا فاضلی: ماں اور اولاد کا رشتہ خالق اور مخلوق کے رشتے جیسا ہوتا ہے۔ ہر انسان کی پہلی تربیت گاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ میری ماں یسوع مسیح کی مریم سے مختلف ہے، جب وہ کراس پر تھے تو انھوں نے مریم کو دیکھ کر کہا تھا، رشتہ ، وشواس اور عقیدہ رویہ سے بنتا ہے خون سے نہیں ۔ڈاکٹر اقبال ؔ کے یہاں بھی ماں مرگ و حیات کے فلسفہ میں کھوئی ہوئی نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری ماں نچلے متوسط طبقے کی ایک عورت تھی جو شوہر کی بے اعتدالیوں سے دور ہوکر اپنے بچّوں کی تربیت و پرورش کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے تھی۔ اس مقصد کو اس نے آنسوئوں سے دھویا تھا اور بچّوں میں اپنے خواب جگانے کے لیے اپنا بہت کچھ کھویا تھا۔ میری ماں سیاست و فلسفہ سے ناوقف ہوتے ہوئے بھی ممتا کے اس نور سے روشن تھی جس کا ایک نام خدا ہے:
میں رویا پردیش میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار
میری ماں کی ردیف کی غزل میں جو ماں ہے وہ ایک عام ہندوستانی گھر کی معمولی عورت تھی۔ جس کے معمولی پن میں ہی اس کی عظمت تھی۔ وارث علوی کی پسندیدگی کی وجہ بھی شاید وہی یاد ہے جس سے میری تنہائی کی طرح ان کا ماضی بھی آباد ہے۔
’’ گھر کی تعمیر چاہے جیسی ہو، اس میں رونے کی کچھ جگہ رکھنا‘‘
مقصود بستوی: جدید غزل بظاہر ایک عجیب اصطلاح ہے کیونکہ ہر عہد میں جدید غزل کہی گئی ہے۔قلی قطب شاہ سے ولی ؔ جدیدہے۔ولی سے میر ؔ جدید ہے۔میرؔ سے غالبؔ جدید ہے ۔غالبؔ سے اقبالؔ جدید ہے ۔اور اقبالؔ سے فیضؔ جدید ہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب شعراء جدید ہیں تو صرف ایک خاص عہد کی غزل کو کیوں جدید سمجھا جاتا ہے ؟
ندا فاضلی: 1413ء صدی کے امیر خسروؔ سے موجودہ عہد تک بہت سارا وقت گذر چکا ہے ۔وقت کی اس طویل مدّت میں بہت کچھ بدل چکا ہے ۔دنیا سمٹ کرکمپیوٹر بن گئی ہے،مختلف دیسی بدیسی زبانو ں سے ادب کا لین دین بڑھا ہے، آدمی کی سمجھ بوجھ میں نت نئی کشادگیاں نمودار ہوئی ہیں، شعر کا ہیٔتی اور لسانی رقبہ وسیع ہوا ہے۔غزل ہر دور میں ان عہد بہ عہد تبدیلیوں کی آئینہ داری کرتی رہی ہے۔ میں ، غزل ہو یا نظم اسے کسی عہد سے جوڑنے کے بجائے، اس عہد میں شامل شعراء کی مختلف تخلیقی سطحوں کے سیاق میں پہچانتا ہوں۔ غالبؔ کے عہد میں ذوقؔ، مومنؔاور نظیرؔ بھی ہیں۔ان سب کی شعری شباہت ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ میں نے ایک مضمون لکھا تھا’ غالبؔ میرا ہم عصر ‘، یہ بات میں غالبؔ کے دیگر معاصرین کے بارے میں نہیں کہہ سکتا تھا۔ غالبؔ کے ’یوں‘ اور ’کیا‘ کے تجسس نے زمانی فاصلوں کو نزدیکیوں میں بدلاتھا۔ غالبؔ سے کئی برسوں کے بعد کے شاعر نوحؔ ناروی، جگرؔ، عزیزؔ وغیرہ غالبؔ کے مقابلے میں زیادہ قدیم لگتے ہیں۔ ہر وہ شاعر جدید ہوتا ہے جو اپنی آنکھ سے دیکھے ہوئے پر اعتماد رکھتا ہے۔ رہا سوال اصطلاحی ناموں کا تو یہ ناقدین کے تساہل کا شناختی کارڈ ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ناصر کاظمی اور احمد مشتاق میں فراقؔ چلتے پھرتے نظر آئیں گے اور باقر مہدی ، فضیل جعفری اور مظفر حنفی کے لفظوں میں یگانہؔ جھانکتے پائے جائیں گے۔ جدیدیت انسان اور معاشرہ کے رشتے کو شخصی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہے:
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
مقصود بستوی: اینٹی غزل ایک جدید صنف ہے جو موضوع کی بنا پر ہے ۔کہا جاتا ہے کہ اس میں اکثر اشعار مہمل ہوتے ہیں لیکن شاعر کے مطابق اس میں کچھ معنی پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن معنی کی تہہ تک پہنچنا عام طور سے ممکن نہیں ۔اینٹی غزل کے تجربات میں آپ کے علاوہ شمس الرحمن فاروقی ،عادل منصوری،ظفر اقبال ،سلیم احمد،بشیر بدر اور مظفر حنفی بھی شامل ہیں ۔ندا صاحب!کیا آپ یہ بتانے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ انیٹی غزل کسی خاص ضرورت یا کسی خاص مقصد کے تحت وجود میں آئی تھی ؟اور کیا ایسا نہیں ہے کہ جدید شعراء نئے اسالیب بیان کے چکر میں پھنس کر غزل کی صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے؟ مثلاً آپ کا یہ شعر :
سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا
کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی
کھڑا تھا پاس جو برگد کا پیڑ صدیوں سے
ندی کے پاس وہ ٹانگیں اٹھا کے لیٹ گیا
(مظفر حنفی )
اور اسی طرح بشیر بدر کا یہ شعر :
اگر مجھ کو سورج کے نیزے لگے
تو کتّے کو کچا چبا جاؤں گا
ندا فاضلی: ہرنئی نسل ، اپنی پچھلی نسل سے مختلف ہونے کے جوش میں ابتدا میں انتہا پسندیوں کا شکار ہوتی ہے، جو وقت کے ساتھ متوازن سمتوں میں مڑ جاتی ہے۔ اینٹی غزل اور اینٹی کہانی اسی ذیل میں آتی ہیں۔ آپ کے دیئے ہوئے ناموں میں بیشتر اب کئی کئی مجموعوں کے شاعر ہیں۔ ان میں اکثر کا شعری مزاج اب پہلے سے جدا ہی نہیں ہوا، ان ناموں سے غزل کی زبان اور موضوعات کے تنوع میں کئی اضافے بھی منسوب کیے جاسکتے ہیں۔ اور یوں بھی میں کامیاب تقلید سے ناکام تجربہ کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ ان تجربوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جو سر یلزم ، دادا زم اور ایبسرڈ رائٹنگ کی تحریکیں فرانس کی مصوری سے یورپی ادب میں داخل ہوئی تھیں، ان کے اچھے برے اثرات بھی اردو اور ہندوستان کی دوسری علاقائی زبانوں کے ادب میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اردو کا افسانہ اور شاعری اب ابتدائی انتہا پسندیوں سے آزاد ہوکر قاری اور تخلیق کے فاصلوں کو کم کرنے لگی ہیں۔ لیکن ان ابتدائی تجربوں نے غزل کی لفظیات اور موضوعات کے برتائو میں نئے امکانات بھی روشن کیے ہیں جو اب سے پہلے کی غزل میں نظر نہیں آتے۔ جدیدذہن اب مقابلتاً زیادہ انتخابی اور احتسابی محسوس ہوتا ہے۔ ان میں سے کئی شاعروں کی تخلیقات نے غزل کی مستعمل تعریف اور اس کے تعقنات میں نئی تبدیلیوں کا احساس بھی دلایا ہے۔
ظہیر انصاری :ادب میں تحریکوں اور رجحانات کو آپ کس طرح Evacuateکرتے ہیں اور ان کے وجود کو مانتے بھی ہیں یا نہیں ۔ادب میںادوار کی درجہ بندی کرنا درست ہے یا نہیں ؟
ندا فاضلی: اچھا ادب تحریکوں کے عروج و زوال کا محتاج نہیں ہوتا۔ تحریکیں عہد بہ عہد تبدیلیوں کی آئینہ داری ضرور کرتی ہیں لیکن شاعر و ادیب ان سے یکساں اثرات قبول نہیں کرتے۔ ترقی پسند عہد میں فیضؔ و مخدومؔ کے ساتھ جذبیؔ، مجازؔ اور جاں نثارؔ بھی ہیں۔ اور اسی دور میں عزیز حامد مدنی اور مجید امجدکے ساتھ ساحرؔ اور سلام مچھلی شہری ہیں اور انھیں کے ہم سفر کیفیؔ ، نیاز حیدر اور سردار جعفری بھی ہیں۔ ان میں سب کی شعری شناخت ایک دوسرے سے جدا ہے۔ اسی کا اطلاق جدیدیت کے شعراء پر کیا جاسکتا ہے۔ کسی ایک اصطلاح سے پورے عہد کی تفہیم ممکن نہیں۔ میرا شعری رویہ عادل منصوری اور قاضی سلیم سے کافی الگ ہے۔ لیکن ان سب کو جدیدیت کے ذیل میں رکھا جاتا ہے اور چوکٹھا بند نتائج نکال لیے جاتے ہیں ۔زبیر رضوی کی ’علی بن متقی سلسلے‘ کی نظموں کو بھی جدید کہاجاتا ہے۔ صنعتی شہروں میں ایک جیسے مکانوں کی طرح ادب کسی بھی دور میں یک چہرہ نہیں ہوتا ۔ ہماری تنقید انفراد سے کم اور تعمیم سے زیادہ بحث کرتی ہے۔
مقصود بستوی: آج کل جو ادب تخلیق ہو رہا ہے وہ ہمیں متاثر کیوں نہیں کر پاتااور اگر متاثر بھی کرتا ہے تو دوسرے پل اپنی آب کیوں کھو دیتا ہے ؟
ندا فاضلی: یہی بات کچھ سال پہلے ، مجھ سے سردار جعفری نے کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا ’جس طرح مجازؔ، فیضؔ اور دوسرے شاعروں کے کلام کے اکثر نمونے قارئین کے حافظوں کا حصّہ ہیں، جدید شعراء میں ایسی کوئی ابیلٹی کیوں نہیں ہے؟‘ یہ مسئلہ انسان کے ذہن کی کنڈیشننگ کا ہے۔ جس سے مشکل سے ہی آدمی باہر نکل پاتا ہے۔ متاثر ہونے کا عمل اضافی ہے۔ میں اس سلسلے میں بہادر شاہ ظفرؔ کے ایک شعر کا حوالہ دینا چاہوں گا:
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
اگر ذہن میں 1857ء کے حادثات نہ ہوں ، اور ان کی پرچھائیں ان لفظوں پر نہ پڑیں تو مذکورہ شعر ایک عام سا روایتی شعر بن جائے گا۔ لیکن قارئین و سامعین کے حافظوں میں چھپی ان کی سوانح نے اسے نہ صرف پر اثر بنادیا ہے، بلکہ اردو محاورہ کی شکل بھی دیدی ہے۔ تاثر پذیری میں ناسٹلجیا کے ساتھ ان مانوس شباہتوں کا بھی بڑا حصّہ ہوتا ہے جن سے ہم پہلے سے واقف ہوتے ہیں۔ اور پھر وقت بھی اس میں اہم رول ادا کرتا ہے۔۔۔۔۔ آپ کا یہ کہنا کہ آج کل کا ادب متاثر نہیں کرتا شاید درست نہیں ۔ پہلے کا ادب ، ادب کی کئی چھلنیوں سے چھن کر آپ تک پہنچا ہے اور آج کل کے ادب کے ساتھ آپ کا ہم عصر تعصب کارفرما ہے۔ کسی بھی عہد کے اچھے ادب سے جڑنے کے لیے تھوڑی سی ہم مزاجی ، تھوڑا سا تبدیلیوں کا احساس ، تھوڑی سی ہر رنگ میں وا ہونے کی پیاس بھی ضروری ہے۔
ظہیر انصاری :اختر الایمان نے ایک انٹرویو کے دوران آپ سے کہا تھا کہ نسل تو کتوں اور گھوڑوں کی ہوتی ہے پھر بھی میں آپ سے 80ء کے بعد کی نسل جسے نئی نسل کا نام دیا گیاہے کے بارے میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ لوگ اپنے مشن میں کہاں تک کامیاب نظر آتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی آپ جیسے سرپرستوں پر کتنی لازم ہے؟
ندا فاضلی: زندہ زبان ہر پانچ یا دس سال میں، ادب میں اپنا رنگ روپ بدلتی رہتی ہے۔ ادب زبان کے تخلیقی برتائو سے عبارت ہے۔ میں نسلوں کے امتیاز کو تو نہیں مانتا، لیکن وقت کے ساتھ شعری زبان میں جو رد و بدل پیدا ہوتا ہے اسے نیک شگون سمجھتا ہوں۔ ادب میں سرپرستی سے کام نہیں چلتا، خود کے مطالعہ اور عہد شناسی سے بات بنتی ہے۔ مجھے 80ء کے بعد کے کئی شاعر پسند ہیں۔یہ ممبئی میں بھی ہیں، بہار میں بھی ہیں، احمد آباد میں بھی ہیں، دہلی میں بھی، لکھنؤ میں بھی ہیں، کشمیر میں بھی ہیں ، حیدرآباد اور کرناٹک میں بھی ہیں۔ فہرست سازی سے اس لیے گریز کررہا ہوں کہ یاد داشت اکثر دھوکادیتی ہے اور اس عیب کی وجہ سے دوستوں کی ناراضگی کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ مجھے پڑھنے کا شوق ہے۔ اس شوق میں خاص طور سے نئے شاعر زیادہ ہوتے ہیں۔ انھیں میں اس لیے بھی پڑھتا ہوں کہ ان کے بدلے ہوئے الفاظ کے آئینہ میں ، میں اپنے الفاظ کا جائزہ لے سکوں۔
مقصود بستوی: آج لفظ سے جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے اپنی مرضی اور مفاد کے پیشِ نظراس کی معنی او رمفہوم کو بدلا جا رہا ہے ادھر ہمارے ہندوستان میں یہ کام سنگھ پریوار بڑی دیدہ دلیری سے کر رہا ہے ۔یہاں تاریخی حقیقت کو ’’ڈھانچہ‘‘اور مفروضے کو ’’آستھا‘‘کہا جا رہا ہے صداقت کو جھٹلایا اور تاریخ کو اپنے مزاج کے مطابق گڑھا جا رہا ہے ’’تاج محل ‘‘کوشیو مندر اور سنگِ اسود کو شیو لنگ بتایا جا رہا ہے کیا یہ کسی سنگین صورتحال کا پیش خیمہ نہیں ہے ؟
ندا فاضلی: سنگھ پریوار جو ہندو واد کاچہرہ لگائے گھوم رہی ہے ، وہ اس ملک کی ہندو آبادی کے ایک چھوٹے سے حصّہ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ملک کی آبادی کی کثیر تعداد اس سیاست کے فریب سے دور ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندو بنیاد پرستی کی مخالفت بھی تحریراً اور تقریراً بیدار ذہن ہندو ہی کر رہا ہے۔ ہندو واد کی سیاست ایک پیشہ وارانہ تجارت ہے۔ یہ انھیں خطوں میں وقتی طور سے کامیاب نظر آتی ہے جہاں تعلیم کی روشنی نہیں پہنچی ہے۔ ہر متعصب سیاست کی طرح ، اس نے بھی تعلیم کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ایک ریکارڈ کے مطابق،آر ایس ایس ہر سال اپنی شاکھاؤں اور ششومندروں میں ۱۲ لاکھ کچے ذہنوں میں تعصب کا زہر انڈیلتی ہے نصاب میں تبدیلی ،تاریخ کے ساتھ کھلواڑ اسی زہر کے ترکیبی اجزاء ہیں مدرسوں میں بھی دوسری سطح پر کچھ ایساہی فرقہ وارانہ کام ہورہا ہے۔ لیکن مٹھی بھر لوگوں کے سیاسی کرتبوں سے ’ہندوستان کی جمہوریت‘ پر میرا اعتماد کمزور نہیں ہوتا۔ اس جمہوریت کی جڑیں پانچ ہزار سال گہری ہیں اور اس کا ثبوت موجودہ حکومت کی ساخت ہے۔ آج اسی ہندو اکثریت کے ملک میں صدارت کی کرسی پر ایک مسلمان بیٹھا ہے، پرائم منسٹر سکھ ہے اور ملک کی سب سے طاقت ور نسائی آواز عیسائی ہے۔ اس کی مثال پڑوسی ملک تو کجا ، کسی دوسرے ملک میں بھی ممکن نہیں۔ جو کام چھوٹے پیمانے پر آر ایس ایس ، شیوسینا اور دہشت گرد کررہے ہیں ، بڑے پیمانے پر وہی بُش اور ان کے اتحادی کررہے ہیں۔لیکن اقتدار کی یہ آنکھ مچولی بہت دن تک نہیں چل سکتی۔امریکہ میں بُش کی سیاست کے خلاف مظاہرے ، برطانیہ میں بلیئرکے خلاف برٹش کا غم و غصّہ اور اسرائیل میں اعتدال پسندوں کا احتجاج اور بھارت میں این ڈی اے کی شکست دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
ظہیر انصاری :بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے Backdropمیں آپ نے ایک نظم کہی تھی ’’ایک قومی رہنما کے نام‘‘ :مجھے معلوم ہے/تمہارے نام سے منسوب ہیں /ٹوٹے ہوئے سورج /شکستہ چاند/تمہارے جیب میں خنجر/نہ ہاتھوں میں /کوئی بم تھا /تمہارے رتھ پہ تو/مریادہ پرشوتم کا پرچم تھا۔اس نظم میں کرب اور غصے کے ساتھ ساتھ قوم کے درد کا ادراک بھی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ سیکولر بننے کی ہوڑ میں آپ کوئی واضح Standنہیں لے پاتے ہیں ۔
ندا فاضلی: میری نظم’ ایک قومی رہنما کے نام‘ بابری مسجد کی شہادت سے پہلے اس رتھ یاترا کے بارے میں تھی جس کے سارتھی اڈوانی تھے۔ میں ادب کو ہندو مسلمان میں تقسیم نہیں کرتا۔میرے نزدیک اس کا رشتہ انسان سے ہے جو اپنے عقیدے اور آستھا کے ساتھ مشترک زمین پررہنے کے لیے آزاد ہے۔خداکی کتاب میں خدا کو رب العالمین پکارا گیا ہے۔ ہندو شاستروں میں ایشور کو ذرہ ذرہ میں پوشیدہ بتایا گیا ہے۔ مقدس انجیل میں جب روشنی کو پھیلنے کا حکم دیا گیا تھا تو اس کے پھیلائو کی حدیں مقرر نہیں کی گئی تھیں۔ میں نے یہ نظم لال قلعہ کے مشاعرہ میں پڑھی تھی جس کی صدارت اس وقت دہلی کے چیف منسٹر کھورانا کررہے تھے۔ نظم پڑھنے سے پہلے میں نے کھورانا کو مخاطب کرکے کہا تھا۔ مادری زبان کا حق ہو یا مذہب کی آزادی، یہ بھیک میں نہیں حق کے طور پر حاصل کیا جائے گا اور میری اس بات کی تائید مشاعرہ کے دس ہزار سامعین نے کی تھی۔ ہندوتو تلسی داس بھی ہیں، گاندھی بھی ہیں اور چھوٹا راجن بھی۔ مسلمانوں میں بھی امیر خسروؔ بھی ہیں ، ابوالکلام آزاد بھی ہیں اور دائود ابراہیم بھی۔ میری نظم کی طرفداری ان اقدار سے جو انسان کی انسانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر اقبالؔ کی ایک نظم کے مصرعے ہیں:
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدے کے بت ہوگئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
ظہیر انصاری :نائن الیون9/11کے بعد عالمی ترجیحات بدل گئے ہیں ۔اس حادثے کا ظاہر ہے شعراء و ادبا نے اثر لیا ہے اور ان کی سوچ (فکر)متاثر ہوئی ہے ۔Scenarioمیں ایک شاعر و ادیب کا کیا رول ہونا چاہیے؟
ندا فاضلی: میرا موضوع ہمیشہ کی طرح اس حادثے کے بعد بھی انسان ہی رہا ہے۔ میں ہر انسان کو قدرت کا اعتبار مانتا ہوں۔ 9/11کے حادثہ کا شکار ہونے والوں میں عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ مسلمان بھی تھے۔ پاکستان میں شیعہ سنّی فسادات میں مارے جانے والے مختلف عقائد کے باوجود مسلمان ہی ہیں۔ ایران اور عراق کی جنگ میں بھی دونوں محاذوں پر ایک ہی عقیدہ کے لوگ تھے۔ بنگالی مسلمان اور پنجابی مسلمان کی لڑائی جو بنگلہ دیش کے وجود کی بنیاد بنی ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے خون خرابے کی داستان ہے۔ عراق اور کویت کی جنگ بھی مختلف مذاہب کے درمیان نہیں ہوئی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ راجپوت حکمرانوں کی آپس میں جتنی لڑائیاں ہوئی ہیں وہ ان لڑائیوں سے کم ہیں جو مسلم حملہ آوروں اور ہندوستانی راجائوں کے درمیان ہوئی تھیں۔ اسی طرح مسلمان آپس میں جتنا لڑے ہیں اس سے بہت کم دوسروں سے نبردآزما ہوئے ہیں۔ لوگوں کے سوچنے کا انداز ، عوامی سطح پر سرکاری اور نیم سرکاری پبلیسٹی کے ذریعہ بنتا بگڑتا ہے۔ امریکہ میں بھی ہندوستان کی طرح عوامی جہالت کی افراط ہے، جسے ملکی سیاست اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی رہتی ہے۔ بُش نے دہشت پسندی کے خلاف جنگ کو جس طرح عیسائیت اور اسلام کی لڑائی بنایا تھا ، اسی نے انھیں الیکش جتایا تھا۔ اڈوانی نے رتھ یاترا سے جو مذہبی جنون پھیلایا تھا اسی نے پارلیمنٹ میں ان کے ممبران کی تعداد کو بڑھایاتھا۔ پاکستان نے ضیاء الحق کے دور میں اسی حکمت عملی کو دہرایا تھا اور مذہب کے نام پر عوام کو بھٹکایا تھا۔ مذہب کو جب اس کی روح سے الگ کرکے اقتدار کی تجارت بنایا جاتا ہے تو اسی طرح کا تماشا دکھایا جاتا ہے۔ ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم مذہب کی روحانیت اور مذہب کی تجارت میں فرق کرنا بھول گئے ۔ میں نے اپنی نظم’قومی رہنما کے نام‘ جس کے حوالے سے آپ نے پہلے سوال کیا تھا اس کی دو لائینیں یوں ہیں:
تمھیں ہندو کی چاہت ہے ، نہ مسلم سے عداوت ہے
تمھارا دھرم صدیوں سے تجارت تھا ، تجارت ہے
میرا خدا رب العالمین ہے۔یہ تمام عالموں کا خدا ’میرا یقین‘ ہے۔ ہاں خدا کے تاجروں میں، میں ہندو ، مسلم اور عیسائی کی تفریق غیر ضروری سمجھتا ہوں۔ میں مذہب کو قول سے زیادہ عمل میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور عمل کی کسوٹی پر بہت کم پورے اترتے ہیں۔
ظہیر انصاری :فلمی شاعری اور ادبی شاعری میں نمایاں فرق کیا ہے؟
ندا فاضلی: فلمی نغمہ نگاری اور ادبی شاعری دو مختلف رویوں کے ترجمان ہیں۔ فلم میں ایک گیت کو کئی مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ موسیقار کی دُھن، پروڈیوسر کی پسند، ڈائریکٹر کی کہانی کی سمجھ، کہانی میں کردار کی عمر اور سماجی حیثیت ، ان ساری حد بندیوں سے صحیح سلامت گزرکر ہی کوئی گیت صدا بند کیا جاتا ہے۔ ادبی شاعری ان پابندیوں سے آزاد ہوتی ہے۔ لیکن ان حد بندیوں کے باوجود ، اگر لکھنے والا لفظ شناس ہوتو ساحرؔ اور شیلندرؔ کے گیت وجود میں آتے ہیں۔
ظہیر انصاری :آخری سوال _____شاعری آپ کو ورثے میں ملی ہے ۔آپ کے والد صاحب بھی کہنہ مشق شاعر تھے ۔اگر آپ شاعر نہ ہوتے تو کیا ہوتے ؟
ندا فاضلی: جائداد کی طرح فن وراثت میں نہیں ملتا۔ فن اپنے ہر روپ میں زمین پر آسمان کی نعمت ہوتا ہے۔ لیکن اس نعمت کی حفاظت انسان کی محنت ہوتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے، جب اس کی خاطر خواہ حفاظت کوئی فنکار اپنی محنت سے نہیں کرتا تو یہ نعمت عطاکرنے والا واپس بھی لے لیتاہے۔ میرے گھر میں شاعرانہ ماحول ضرور تھا۔ میرے والد دعاؔ ڈبائیوی ، جانشین داغؔ حضرت نوح ؔناروی کے ممتاز شاگرد تھے ان کے دو مجموعے تصویرِ دعاؔ، اور تاثیرِ دعاؔ کے نام سے شائع ہوئے تھے۔والدہ کو بھی شعر کہنے کا شوق تھا۔ وہ ان دنوں کے خواتین کے رسائل میں جمیل فاطمہ مخفی کے نام سے شائع ہوتی تھیں۔ اگر میں شاعر نہ ہوتا تو اپنی ماں کی خواہش کے مطابق ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کرتا اور آرام کی زندگی گزارتا۔ وقت پر تعلیم پوری کرتا ، اس کے بعدکوئی پیشہ اپنا تا ، پھر شادی کرتا، بڑھتی آبادی میں دو تین اپنے بھی شامل کرتا اور ماں باپ کی دعائوں کا حصّہ دار بنتا۔ لیکن شاعری کے شوق نے ایسا کچھ نہیں ہونے دیا۔ اور پھر جو کچھ ہوا تاخیر سے ہوا، تاخیر سے بے گھری کو گھر ملا، دیر سے بھوک اور روٹی کا رشتہ قائم ہوا، عورت بھی نصیب میں وقت پر نہیں آئی۔ زندگی میں اس سماجی ترتیب کے بگڑنے کا دکھ تو ضرور ہے، لیکن اپنی طرح جینے کا غرور بھی ہے، جو میرے خیال میں فن کی تربیت کے لیے اہم ہے:
کہیں چھت تھی دیوار و درتھے کہیں، ملا مجھ کو گھر کا پتہ دیر سے
دیا تو بہت زندگی نے مجھے ، مگر جو دیا وہ دیا دیر سے
ہوا نہ کوئی کام معمول سے ، گذارے شب و روز کچھ اس طرح
کبھی چاند نکلا غلط وقت پہ ، کبھی گھر میں سورج اُگا دیر سے
———————————————————————
ظہیر انصاری معروف ادبی جریدہ ’تحریرِ نو‘ کے مدیر ہیں۔
مقصود بستوی نئے شعرا میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں اور ایک ادبی دو ماہی ’بازدید‘ کے مدیر بھی ہیں۔
Manto Noori Na Nari by Mumtaz Sheerien
Articles
منٹو، نوری نہ ناری
ممتاز شیریں
Urdu Shairi par aik Nazar by Kaleemuddin Ahmad
Articles
اردو شاعری پر ایک نظر
کلیم الدین احمد
1857 ke Aham Kirdar by Ziauddin Lahuri
Articles
1857 کے چند اہم کردار
ضیا الدین لاہوری
Masnavi Zahr E Ishq by Mirza Shauq Lakhnawi
Articles
Alchemist Translated by Umar AlGhazali
Articles
کیمیا گری
عمر الغزالی
Tanisiat aur Qurratul Ain Hyder ke Niswani Kirdar
Articles
تانیثیت اور قرۃ العین حیدر کے نسوانی کردار
اعجاز الرحمن
Haqq E lahi part 2 bu Siddarth Chatarji
Articles
حقِ الہٰی (حصہ دوم)
سدھارتھ چٹرجی