Selected Stories of Maupassant by Chandra Bhushan Singh
Articles
Ghalib ke Latifey by Intezamullah Shahabi
Articles
غالب کےلطیفے مرتبہ انتظام اللہ شہابی
انتظام اللہ شہابی
Ghalib ke 100 Asha’r by Mahmood Ali Khan
Articles
غالب کے سو اشعار مرتبہ محمود علی خاں
محمود علی خاں
Asrarul Haq Majaz by Prof. Muniuddin Jinabade
Articles
اسرارالحق مجاز بازتفہیم
پروفیسر معین الدین جینا بڑے
مجاز کے چھوٹے سے شعری مجموعے کا ایک وصف ایسا بھی ہے جس کی طرف ابھی تک اردوکے علمی و ادبی معاشرے نے توجہ نہیں کی ہے۔ یہ مقالہ اس وصف کے حوالے سے مجاز کی باز تفہیم کی ایک سعیِ عاجز ہے۔ مجاز کے چھوٹے سے شعری مجموعے کا ایک وصف ایسا بھی ہے جس کی طرف ابھی تک اردوکے علمی و ادبی معاشرے نے توجہ نہیں کی ہے۔ یہ مقالہ اس وصف کے حوالے سے مجاز کی باز تفہیم کی ایک سعیِ عاجز ہے۔ جدید اردو شاعری کی روایت میں شاید ہی کسی کے یہاں Confessional Poetryکی اتنی مثالیں مل جائیں جتنی مجاز کے یہاں ہیں۔ شاید ہی کسی کے مجموعۂ کلام میں اعترافیہ نوعیت کی شاعری کا وہ تناسب مل پائے جو مجاز کے یہاں ملتا ہے۔ آج کی رات، بتانِ حرم،نذرِ دل، مجبوریاں، نورا، دلّی سے واپسی، بربطِ شکستہ، تعارف، طفلی کے خواب، شکوۂ مختصر،گریز، ایک غمگین یاد، عشرتِ تنہائی، عیادت، مادام، آج بھی، شرارے، اعتراف، الہ آباد سے اور آج۔یہ تو میں نے بیس بائیس نظموں کے عنوان مثال کے طور پر آپ کی خدمت میں پیش کیے۔ چھوٹا سا مجموعہ ہے۔ گنتی کی نظمیں ہیں تناسب کا فیصد بغیر کسی خاص زحمت سے معلوم کیاجاسکتا ہے۔ یہ حساب کتاب بعد میں بھی ہو سکتا ہے سرِ دست ان کی غزلوں سے دو ایک مثالیں اس نوع کی شاعری کی آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوںگا ؎مری بربادیوں کا ہم نشینوتمھیں کیا خود مجھے غم نہیں ہے
الجھنوں سے گھبرائے میکدے میں در آئےکس قدر تن آساں ہے ذوقِ رائیگاں اپنا
یہ میری دنیا یہ میری ہستینغمہ طرازی صہبا پرستی
اعترافیہ شاعری میں شاعرکی ذات خالص شخصی اور نجی حوالوں سے شعر کے قالب میں ڈھلتی ہے۔ یہ شخصی اور نجی حوالے گفتنی بھی ہو سکتے ہیں اور ناگفتنی بھی۔ اس نوع کے شاعروں میں اعصاب زدگی قدرِ مشترک کا درجہ رکھتی ہے۔ انگریزی ادب میں اس کی عمدہ مثال مشہور شاعرہ سیلویاپلاتھ کے یہاں ملتی ہے جس کی اعصاب زدگی اسے خودکشی تک لے گئی۔ اس نوع کے شاعروں کے لیے ان کی ذات ان کے لیے کسی نہ کسی صورت میں مسئلہ بنی ہوئی ہوتی ہے اور وہ اس حقیقت کو نجی حوالوں سے شعر میں ڈھالنے سے کتراتے نہیں۔ ایسے شاعروں پر گفتگو ان کی شخصیت کے حوالے ہی سے ممکن ہے۔ مجاز کی شخصیت کا نمایاں وصف ان کا تصنع اور ریاکاری سے پاک ہونا ہے۔ انگریزی میں وہ جو کہتے ہیں کہ ان کے یہاں Pretentionsبہت ہیں،یہ بات مجاز کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ اگر اس وصف سے فائدہ اٹھایاجائے تو یہ خوبی قرار پاتا ہے بصورت دیگر جی کا روگ بن کر آدمی کو لے ڈوبتا ہے۔ مجاز کے ڈوبنے کی روداد دردناک بھی ہے اور عبرتناک بھی۔ اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں روداد کی تفصیل سے نہیں سبب سے سروکار ہے۔ تاہم روداد کا اجمال اور سبب کا خلاصہ دونوں ایک ہیں اور وہ یہ کہ اسرارالحق، مجاز سے لپٹ گئے؛لپٹے کیا، چمٹ گئے۔ ایسے چمٹے کہ الگ ہونے کا نام نہ لیا۔ مجاز تو پھر مجاز ہے حق کے اسرار کی تاب کہاں تک لاپاتا؛ اپنے ساتھ اسرار کو بھی لے ڈوبا! تخلیقی شخصیت میں فرد اور فن کار کا باہمی رشتہ تخلیق کے اسرار سے کم پُراسرار اور پیچیدہ نہیں ہوتا۔ یہ رشتہ اتنا پُراسرار اور ایسا پیچیدہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے بحیثیت مجموعی معاشرے کی نظر میں فن کار کی ذات کبھی طلسم تو کبھی مِتھ یا پھر معمے کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ساعتِ تخلیق میں شخصیت کے یہ دونوں پہلو(یعنی فرد اور فن کار) سائی کک پرسنالٹی کی وحدت میں ڈھل جاتے ہیں۔ تخلیق کا دورانیہ اس عرصۂ وحدت کی طوالت کو محیط ہوتا ہے۔ عام حالات میں جو حالتِ ثنویت ہوتی ہے؛ ان دونوں کے بیچ آنکھ مچولی کا کھیل چلتا ہے۔ ایک فعال ہوتا ہے تو دوسرا مجہول۔ کون کتنا فعال اور کس حد تک مجہول ہوگا، اس کا کوئی فارمولہ نہیں ہے۔ کلیہ ممکنات کی رو سے دو امکانات پر توجہ مرکوز کی جا سکتی ہے۔ پہلا امکان یہ کہ فرد کی حیثیت فعال عنصر کی ہو اور فن کار شخصیت کا مجہول پہلو بنے رہنے پر قانع رہے۔ دوسرا امکان اس کے برعکس ہے، وہ یہ کہ فن کار فعال حیثیت اختیار کرنے پر اصرار کرے اور فرد کو مجہول بناکر رکھ دے۔معاشرتی زندگی کے سیاق میں پہلی صورت معمول یا رول کا حکم رکھتی ہے تو دوسرا امکان معمول سے انحراف قرارپاتا ہے۔ معمول سے انحراف کی حالتِ ثنویت میں فرد جب فن کار کے مقابل مجہول حیثیت اختیار کرکے اس کے تابع ہوجاتا ہے تومعاشرے کی نظر میں اس کی حیثیت تابع مہمل کی سی ہوجاتی ہے۔ تابع مہمل کے ساتھ دل لگی کی جا سکتی ہے، دل نہیں لگایاجاسکتا۔ اس کے ساتھ وقت گزاراجاسکتا ہے، زندگی نہیں بتائی جا سکتی ہے۔ اسے سنجیدہ گفتگو میں شریک کیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف ہنسی مذاق اور دل بہلانے کی چیز نہیں ہوتا لیکن اس کی ذات کو زندگی کے سنجیدہ معاملات کا اہل نہیں سمجھا جا سکتا۔ فرد جب تخلیقی شخصیت کا فعال عنصر ہوتا ہے تو فن کار اس کی عزت و توقیر کا سبب بنتا ہے صورتِ واقعہ اس کے برعکس ہو تو اسے فن کار کی وجہ سے برداشت کیا جا تا ہے اور برداشت کی ایک حد تو بہرحال ہوتی ہے۔ اس حد کے آگے اللہ دے اور بندہ لے والا معاملہ ہوتا ہے۔ پوئٹک پرسوناسوشل ریئلم میں آپریٹ کرنے لگ جائے تو حقیقت اور فینتاسی کی حدیں گڈمڈ ہونے لگتی ہیں۔ مجاز ہوں یا میراجی دونوں اس گڈمڈ والے گھپلے کا شکار ہوئے۔ اس گھپلے کی سنگینی کا احساس اعزا و اقارب کو اس وقت ہوتا ہے جب پوئٹک پرسونا سوشل ریئلم میں اپنے تصرفِ بے جا سے دست بردارہونے پر کسی صورت راضی نہیں ہوتا۔ میراجی نے یہ کہہ کر علاج سے انکار کردیا تھا کہ پھر میں لکھ نہیں سکوںگا۔ اخترالایمان سمجھاتے رہے کہ لکھتے تو آپ اپنی ذہانت سے ہیں لیکن وہ نہیں مانے بالآخر جبر اور حکمت سے کام لینا پڑا ۔مجاز کے معاملے میں بھی حیلے بہانے ہی سے کام نکالا گیا۔ میراجی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سردست ہم مجاز پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ مجاز کی زندگی اور شاعری ایک دوسرے کا عکس ہیں۔دونوںکا محورجذبہ ہے۔ فکر کا پہلو دونوں طرف دبتا ہوا نظر آتا ہے۔ جذباتی آدمی چاہے بھی تو تصنع اور ریاکاری سے کام نہیں لے سکتا۔ بعض اوقات اس کی جذباتیت بیوقوفی کی حدوں کو چھوتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اسے زمانہ سازی نہیں آتی کہ وہ زمانہ شناس نہیں ہوتا۔اس کے عاقبت نا اندیش ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں۔ جوش نے اس ایک جملے میں کہ مجاز آدمیGenuineہے، دو باتیں کہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ آدمی کھرا ہے اور دوسری یہ کہ بیوقوف بھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج کے معاشرے میں یہ قیمت چکائے بغیر کوئی کھرا آدمی بن بھی نہیں سکتا۔ جوش زمانہ شناس اور زمانہ ساز دونوں تھے۔ ایسا آدمی اب مردم شناس بھی ہوتا ہے۔ یادوں کی برات میں جابجا راست گوئی سے برأت کا مظاہرہ کرنے والے جوش سے بہتر اس نکتے کو بھلا کون سمجھ سکتا تھاجو اس نے اس ایک جملے میں بیان کیا ہے۔ رہی بات ایک جملے میں دو باتوں کی تو کون نہیں جانتا کہ پہلودار گفتگو اودھ کا نراج اور اردو تہذیب کی شناخت سے عبارت رہی ہے۔ تصنع اور ریاکاری سے پاک مجاز کا منظوم ذاتی تعارف، تعارف کم اور کنفیشن زیادہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک ایسے شخص کا کنفیشن جس کے یہاں فکر کا پہلو دب رہا ہے۔ پورا تعارف تو نہیں چند اشعار پر ہم توجہ مرکوز کرتے ہیں۔مندرجہ ذیل اشعار اس ضمن میں ہماری توجہ کے مستحق ہیں ؎خوب پہچان لو اسرار ہوں میںجنسِ الفت کا طلب گار ہوں میںعشق ہی عشق ہے دنیا میریفتنۂ عقل سے بیزار ہوں میںعیب جو حافظ و خیام میں تھاہاں کچھ اس کا بھی گنہ گار ہوں میںکفر و الحاد سے نفرت ہے مجھےاور مذہب سے بھی بیزار ہوں میںزندگی کیا ہے گناہِ آدمزندگی ہے تو گنہ گار ہوں میں جس ترتیب سے یہ اشعار درج ہوئے ہیں، اسی ترتیب سے ان پر غور کرتے ہیں۔ جنسِ الفت کا طلب گار کون نہیں ہوتا لیکن اس طلب کو یوں واشگاف انداز میں زبان پر نہیں لایاجاتا۔ عاشقانہ نیازمندی کاPretentionاس لطیف جذبے سے وابستہ کثافت کی تطہیر کا ایک حیلہ بھی ہے۔ شاعر اس تکلف کا روادار نہیں۔ عقل فی نفسہٖ فتنہ نہیں ہوتی۔ عقل جب عقلِ سلیم نہیں بن پاتی تو فتنہ و فساد کا سبب بنتی ہے۔ عقل سلیم کی حیثیت دل کے پاسبان کی ہوا کرتی ہے۔ اس کے ہوتے عشق عشق ہوتا ہے ورنہ تو جو کچھ ہوتا ہے، اسے ہوس کے علاوہ کچھ اور نام نہیں دیا جا سکتا عقل سلیم کے ہونے یا نہ ہونے سے بات بنتی یا بگڑتی ہے۔ عقل سلیم ہے تو عشق ہے، نہیں تو فسادِ گندم۔ اپنی میخواری کے جواز کی خاطر اعتذا رکے طور پرحافظ و خیام کا سہارا لینا جرأتِ رندانہ کے فقدان کے ساتھ اصل حقیقت سے واقف نہ ہونے کی خبر دیتا ہے۔ استعارے کو لغوی معنی کی سطح پر کھینچ لانا غیر شاعرانہ حرکت ہے اور اصل حقیقت کی طرف اکبر ان الفاظ میں اشارہ کرچکے ہیں ؎رنگ حافظ پہ بہک جاتے ہیں ارباب مجازیہ نہیں سمجھتے و ہ بادہ پرستی کیا تھی زندگی کو گناہ آدم اور اپنے وجود یا ہستی کو مجسم گناہ سمجھنے کی مریضانہ فہم روحانی دیوالیہ پن کی اپج ہے۔ اس اپج پر عقل سلیم ماتم کرتی ہے تو فساد گندم کے لبوں پر مربیانہ مسکراہٹ نمودار ہوتی ہے۔تثلیث کے عقیدے اور ازلی گناہ کے تصور پر استوار فلسفے اور مابعدالطبیعاتی فکر کے علمبردار کلیسا کی استحصالی حکمت عملی نے یوروپ کے آدمی کو اس کے مذہب سے بدظن اور بیزار کردیا۔ یہ تاریخی حقیقت غیریوروپی آدمی کو اس کے مذہب سے بدظن اور بیزار کرنے کا جواز یا سبب نہیں بن سکتی۔ ان تعارفی اشعار میںاگر احتجاج ہے تو یہ احتجاج برائے احتجاج ہے۔ شاعر کے اس موقف کو فکروتدبر کی پشت پناہی حاصل نہیں۔ فکروتدبر کے مقابلے میں جذبے اور احساس کے غیرمتوازن تناسب کی وجہ سے مجاز کی شخصیت میں ایک آنچ کی کمی کا احساس ہوتا ہے۔ پختہ کارشخصیت کے تیور کچھ اور ہوتے ہیں۔ فرد کی مجہول حیثیت نے مجاز کی شخصیت کے ارتقا کے امکانات کو پوری طرح ختم کردیا۔ اسرارالحق کو اس حقیقت کا احساس تھا نہ ادراک۔ وہ پوئٹک پرسونا کی مقبولیت کے اسیر رہے۔ ایسے اسیر رہے کہ اس اسیری کو وجہ افتخار سمجھ کر سدا اس پر نازاں بھی رہے۔تعارف کے نو دس برس بعد نظم’آج بھی‘ کے بین السطور میں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے، وہ اس پر فخر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ گزرنے کو وقت گزرگیا لیکن آج بھی مجازوہی ہے جو دس برس پہلے تھا۔ ان دس برسوں میں ہونے کو تو بہت کچھ ہوا؛ اگر کچھ نہیں ہوا تو بس اتنا کہ ایک نوجوان کی زندگی میں جن باتوں کو جس طرح ہونا چاہیے، ان میں سے ایک بھی اس طرح مجاز کے یہاں نہ ہوئی۔ان کی زندگی میں محرومیوں کی مستقل نوعیت ان دس برسوس میں پوری طرح مستحکم ہوگئی۔ اس صورتحال کی المناکی سے انکار نہیں لیکن صورتحال کا یہ افسوسناک پہلو ہمارے نزدیک زیادہ اہم ہے کہ ان محرومیوں کے صلے میں غم کی دولتِ بیدار اسرارالحق کے حصے میں نہ آسکی۔ زندگی محرومیوں اور ناکامیوں کا دوسرا نام ہے کہ کسی کو مکمل جہاں کبھی نہیں ملا۔ محرومیاں اور ناکامیاںبجائے خود مسئلہ نہیں ہوتیں۔ فرد کا رویہ طے کرتا ہے کہ وہ مسئلہ بنیںگیں یا نہیں۔ارادوں کے ٹوٹنے سے جب آدمی رب کو پہچاننے لگتا ہے تو محرومیاں اور ناکامیاں شخصیت کے ارتفاع کا حیلہ بن جاتی ہیں۔ مجاز کی زندگی کا المیہ یہ ہے کہ وہ غم کی دولت سے محروم رہے۔ وہ غم جو جوانی کو لطف خواب سے جگاتا ہے۔ وہ غم جو مضراب بن کر شباب کے ساز کو بیدار کرتا ہے۔ اس محرومی کی وجہ سے یہ ہوا کہ ارادے ایک ایک کرکے ٹوٹتے رہے اور ان کے ساتھ مجاز کا باطن ریزہ ریزہ ہوتا رہا۔ باطن کے انہدام کا یہ عمل مجاز کے یہاں بڑی سرعت کے ساتھ انجام پاگیا۔ منظوم تعارف کو لکھے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجاز اندر سے پوری طرح ڈھہ چکے تھے۔’ آواراہ‘ کے ٹیپ کے مصرعے کے سیاق میں آخر ی بند تک پہنچتے پہنچتے فرسٹریشن اور جھلاہٹ کا انتہا کو چھولینا اس حقیقت کا غماز ہے کہ(جگر کے الفاظ میں)شاعر کا سینہ خالی اور آنکھیں ویران ہیں۔ وہ شکست خوردہ تو ہے ہی اس نے شکست کو تسلیم بھی کرلیا ہے اور اس اعتراف شکست میں ایک طرح کی قطعیت اور حتمیت پائی جاتی ہے۔ یہ قیامت کسی جہاںدیدہ ادھیڑ یا پختہ عمر کے آدمی پر نہیں، اس لڑکے پر ٹوٹی ہے جس کی عمر بمشکل25یا26برس ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں آدمی کو لوہو کی لالی پر ناز ہوتا ہے۔ اس کے اندر وقت سے لوہا لینے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ اپنا کس بل آزمانے اور زمانے سے پنجہ لڑانے کے لیے وہ ہر دم آمادہ رہتا ہے۔ مجاز کی جو دو چار نظمیں آج ان کی ادبی معنویت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، آوارہ سے پہلے کی ہیں۔ رات اور ریل، مجبوریاں، نوجوان خاتون سے اور نذرِ علی گڑھ جیسی نظم’ آوارہ ‘کے بعد ان سے نہ ہوپائی۔ یہ حقیقت بھی توجہ طلب ہے کہ ترقی پسند موضوعات پر مجاز کی اچھی نظمیں بھی آوارہ سے پہلے کی ہیں۔ وہ نظمیں ہیں—نوجوان سے، نوجوان خاتون سے،طفلی کے خواب، نذر دل اور انقلاب۔’ بول او ری او دھرتی بول‘ نظم نہیں، گیت ہے جو مجاز نے’ آوارہ ‘کے بعد لکھا ۔ جذبے اور احساس کے اثاثے پر گزارا کرنے والے شاعر کے لیے ’آوارہ‘ کے بعد جذبہ مسئلے کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔ نظم اعتراف کے درج ذیل ٹیپ کے شعر اس ضمن میں ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔ نظم جس مصرعے سے شروع ہوتی ہے، اسی پر ختم بھی ہوتی ہے اور وہ مصرع ہے عاب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو؟اب ٹیپ کے شعر ملاحظہ کیجیے ؎مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہےمیں نے خود اپنے کیے کی سزا پائی ہے
میری ہر فتح میں ہے ایک عزیمت پنہاںہر مسرت میںہے رازِ غم و حسرت پنہاں
وہ گدازِ دلِ مرحوم کہاں سے لاؤںاب وہ جذبۂ معصوم کہاں سے لاؤں
اب میں الطاف و عنایت کا سزاوار نہیںمیں وفادار نہیں ہاں وفادار نہیں
اب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو؟
قطعہ کی شعری ہیئت میں لکھی نظم ’گریز ‘جذبے سے فرار کا اعلان کررہی ہے ؎یہ جاکر کوئی بزمِ خوباں میں کہہ دوکہ اب درخورِ بزمِ خوباں نہیں میںمبارک تمھیں قصر و ایواں تمھارےوہ دلدادۂ قصر و ایواں نہیں میںجوانی بھی سرکش محبت بھی سرکشوہ زندانیِ زلفِ پیچاں نہیں میںتڑپ میری فطرت تڑپتا ہوں لیکنوہ زخمیِ پیکانِ مژگاں نہیں میںدھڑکتا ہے دل اب بھی راتوں کو لیکنوہ نوحہ گرِ دردِ ہجراں نہیں میںبہ ایں تشنہ کامی بہ ایں تلخ کامیرہین لبِ شکر افشاں نہیں میںشراب و شبستاں کا مارا ہوں لیکنوہ غرقِ شراب و شبستاں نہیں میںقسم نطق کی شعلہ افشانیوں کیکہ شاعر تو ہوں، اب غزل خواں نہیں میںیہ آخری شعر مجاز نے آشوبِ ذات کے سیاق میں کہا ہے۔ جگر نے یہی بات کہی تھی لیکن سیاق آشوبِ زمانہ کا تھا ؎فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کلشاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کلمجاز نے یہ بات آشوب زمانہ کے سیاق میں نہیں کہی کیونکہ پہلے شعر میں وہ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ اب وہ درخورِ بزمِ خوباں نہیں رہے۔ شکوۂ مختصر سات اشعار کی نظم ہے۔اس کے شروع کے چھ اشعار ایک مہذب، متمدن اور شریف النفس انسان کی اعترافیہ شاعری کا عمدہ نمونہ بننے کے پورے امکانات اپنے اندر رکھتے ہیں؛بات آخری شعر پر آکر ٹھہر تی ہے کہ دیکھیں یہ صاحب اس عالی ظرفی کو کیسے نبھاتے ہیں ؎مجھے شکوہ نہیں دنیا کی ان زہرہ جبینوں سےہوئی جن سے نہ میرے شوقِ رسوا کی پذیرائیمجھے شکوہ نہیں ان پاک باطن نکتہ چینوں سےلبِ معجز نما نے جن کے مجھ پر آگ برسائیمجھے شکوہ نہیں تہذیب کے ان پاسبانوں سےنہ لینے دی جنھوں نے فطرت شاعر کو انگڑائیمجھے شکوہ نہیں افتادگانِ عیش و عشرت سےوہ جن کو میرے حالِ زار پر اکثر ہنسی آئیمجھے شکوہ نہیں ان صاحبان جاہ و ثروت سےنہیں آئی میرے حصے میں جن کی ایک بھی پائیاور اب وہ آخری شعر ؎زمانے کے نظام زنگ آلودہ سے شکوہ ہےقوانینِ کہن، آئینِ فرسودہ سے شکوہ ہےیہ آخری شعرنظم کا حصہ نہیں بن پایا۔اس سے انکار نہیں کہ انسانی تاریخ استحصال کی روداد ہے لیکن استحصال کا نظام کسی خاص فرد کو اذیتِ خاص میں مبتلا کرنے کے لیے معرض وجود میں نہیں آیا ہے۔ اب اگر کوئی ترقی پسند ہمیں یہ باور کرانا چاہے کہ شروع کے چھ شعروں کو اعترافیہ شاعری کے ذیل میں رکھ کر نہ دیکھا جائے تو مشکل یہ ہے کہ ایسا کوئی قرینہ بھی تو نہیں کہ ہم ان چھ شعروں کو آر کے لکشمن کے Common Manسے منسوب کرسکیں۔ ہمارے ترقی پسندوں کے ذہن کی نکتہ رسی کے ہم بھی قائل ہیں اور ہمیں یہ اطمینان بھی ہے کہ ادب کی مارکسی جمالیات بھی ادبی متن میں قرینے سے صرفِ نظر کرنے کا تقاضہ نہیں کرتی۔ ’مادام‘ غزل کی ہیئت میں دس اشعار کی نظم ہے۔ شروع کے نو شعروں میں اپنی وارفتگیِ شوق کا بیان ہے۔ نظم جب اس شعر پر ختم ہوتی ہے ؎میری وارفتگیِ شوق مسلم لیکنکس کی آنکھیں ہیں زلیخا کا حسیں خواب لیےتو معلوم ہوتا ہے کہ اپنے یہاں وصفِ یوسفی کے زوال کا اعتراف کررہے ہیں۔ یہ کوئی دورازکار تاویل نہیں، سیدھی سی بات ہے۔ وصفِ یوسفی سلامت ہو تو ایک کیا کئی زلیخاؤں کی آنکھوں میں خواب جاگ اٹھتے ہیں۔خواب اگر نہیں جاگ رہے ہیں تو اس میں کسی زلیخاکا قصور نہیں۔ نظم آج میں تو انھوںنے خود ہی کہہ دیا کہ عیاں بہ ایں عالم غرورِ یوسفیت بھی نہیں آوارہ کے بعد جب جذبہ مسئلہ بن گیا تو بقائے حیات کی جبلت Survival Instinctکے عین مطابق مجاز نے عورت کے تصور میں پناہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جیتی جاگتی عورت مسئلہ بننے یا بنائے جانے کے امکانات اپنے اندر رکھتی ہے بالکل اسی طرح جیسے جیتا جاگتا مرد مسئلہ بننے یا بنائے جانے کے امکانات اپنے اندر رکھتا ہے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی فی نفسہٖ مسئلہ نہیں ہوتا۔ دراصل کسی بھی Actuality ء کے ساتھDealکرنے کے کچھGround rule یعنی ارضی قاعدے ہوتے ہیں۔ ان ارضی قاعدوں کو سمجھ نہ پانے یا برت نہ پانے سے مسائل جنم لیتے ہیں۔ اس کے برعکس تصور چاہے عورت کا ہو یا مرد کا، اس میں عافیت ہی عافیت ہوتی ہے۔ مجاز کی نظم’کس سے محبت ہے‘ کے تعلق سے یہ غلط فہمی عام ہے کہ اس کا موضوع عورت ہے۔ اس کے پہلے بند میں واضح الفاظ میں اور بعد کے بندوں میں بھی کچھ اسی قسم کا تاثر پایاجاتا ہے ؎بتاؤں کیا تجھے اے ہم نشیں کس سے محبت ہےمیں جس دنیا میں رہتا ہوں وہ اس دنیا کی عورت ہےسراپا رنگ و بو ہے پیکرِ حسن و لطافت ہےبہشتِ گوش ہوتی ہیں گہر افشانیاں اس کییہ بند اور اس نظم کے کچھ درمیانی بند ہمارے یہاں Misquoteہوتے رہے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ آخر آخر تک بدن چرائے رہنا نظم کاصنفی مزاج ہے۔ نظم کھلتی ہے تو آخری بند یا آخری مصرعے میں۔ذرا اس نظم کا آخری بند ملاحظہ کیجیے ؎کوئی میرے سوا اس کا نشاں پا ہی نہیں سکتاکوئی اس بارگاہِ نازتک جا ہی نہیں سکتاکوئی اس کے جنوں کا زمزمہ گا ہی نہیں سکتاجھلکتی ہیں مرے اشعار میں جولانیاں اس کیشروع کے دس بند تصور میں ابھرتی عورت کی پرچھائیاں ہیں۔ یہ آپ کے تصور میں ابھرنے والی عورت کی پرچھائیاں ہیں اسی لیے آپ کے علاوہ کوئی اور اس کا نشاں نہیں پاسکتا۔ تصور میں ابھرنے والی پرچھائی پرچھائی ہی ہوتی ہے۔اس نظم کا موضوع عورت کا ذاتی /نجی تصور ہے جسے شاعر کا دماغ/تخیل خلق کررہا ہے کہ وہ اس کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ M. L. Rosenthalجس نے اپنے مضمونPoetry As A Confessionمیں 1959میں اعترافیہ شاعری کی اصطلاح پہلی بار استعمال کی ہے۔ اس نوع کی شاعری کی معالجاتی قدر (Theraputic Value)کا معترف ہے۔ The Nationکے ستمبر1959کے شمارے میں Robert Lowellکی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:” Robert Lowell seems to regard it [poetry] more as soul’s therapy. The use of poetry for the most naked kind of confession grows apace in our day.”1. یہ معاجلاتی قدر مجاز کے یہاں بھی کارفرما ہے ۔ اسے مجاز کی جرأ ت رندانا ہی کہیے کہ اردو کو ایک جدید confessional poet فراہم ہوا ۔ ٭٭٭ 1. First Published in The Nation, 19th September,1959. Reprinted in Rosenthal,M.L. Our Life In Poetry, 1991. p.109
Majaz ke Shaeri Tareqa e kar by Prof. Sahfey Kidway
Articles
مجاز کے شعری طریقۂ کار کی شناخت آوارہ کے حوالے سے
پروفیسر شافع قدوائی
کسی تخلیق کار کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ناقد کو اس امر کا مکلّف نہیں بناتی کہ وہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات کے مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع ، اسلوب ،ہیئت ،ڈکشن اور فنی طریقۂ کارکے معروضی اور تجزیاتی مطالعے سے گریز کرکے محض موضوع کی Paraphrasingاور بعض غیر قطعی نیز پیش پا افتادہ تنقیدی اصطلاحات کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تنقیدی فریضے سے عہدہ بر آہوجائے ۔مقام افسوس ہے کہ اردو کے بیش تر ناقدین نے عہد حاضر کے ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی تعیین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقیدی سہل نگاری کا ثبوت دیا۔ہوا یہ کہ بیش تر ناقدین نے مجاز کے شعری اکتسابات اور فنی طریقۂ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان کی مقبولیت کو موضوعات کی عمومیت اور غنائیت کی رہین منت قراردیا۔ان کی شاعری’’رومانی انقلابیت‘‘اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی بدحالی،بے اطمینانی ،کرب اور شکستِ خواب کی مظہر قراردی گئی اور غزلوں و نظموں کی تحسن کے سلسلے میں بعض کلیشے مثلاََ ’’نغمہ باز غنائیت‘‘،’’لطافت احساس‘‘،’’جمالیاتی آہنگ‘‘،’’رومانی طرز احساس‘‘اور ’’ترقی پسند سماجی شعور‘‘وغیرہ تواتر اور شدومد کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ان کی شاعری کو’’نغمہ سنج کے گلے کے وفور‘‘کی زائید بھی ٹھہرایا گیا تاہم ’’آہنگ ‘‘ کے بالاستیاب اور مرکز آمیز مطالعے (Close Reading)کی کوئی سنجیدہ اور با معنی کوشش نہیں کی گئی۔یہی سبب ہے کہ مجاز کی شہر آفاق رومانیت کے اجزا ئے ترکیبی اور ان کے فن کے اسلوبیاتی و ہیئتی خصائص اب تک واضح نہیں ہو سکے پیں۔ کسی تخلیق کار کی ہمہ گیر عوامی مقبولیت اور ادبی حلقوں میں اس کی پذیرائی ناقد کو اس امر کا مکلّف نہیں بناتی کہ وہ مذکورہ فنکار کی تخلیقات کے مابہ الامتیاز عناصر بشمول موضوع ، اسلوب ،ہیئت ،ڈکشن اور فنی طریقۂ کارکے معروضی اور تجزیاتی مطالعے سے گریز کرکے محض موضوع کی Paraphrasingاور بعض غیر قطعی نیز پیش پا افتادہ تنقیدی اصطلاحات کا بے محابا استعمال کرکے اپنے تنقیدی فریضے سے عہدہ بر آہوجائے ۔مقام افسوس ہے کہ اردو کے بیش تر ناقدین نے عہد حاضر کے ایک مقبول شاعر مجاز کی شاعری کی تعیین قدر کے سلسلے میں واضح طور پر تنقیدی سہل نگاری کا ثبوت دیا۔ہوا یہ کہ بیش تر ناقدین نے مجاز کے شعری اکتسابات اور فنی طریقۂ کار پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ان کی مقبولیت کو موضوعات کی عمومیت اور غنائیت کی رہین منت قراردیا۔ان کی شاعری’’رومانی انقلابیت‘‘اور متوسط طبقے کے نوجوانوں کی معاشی بدحالی،بے اطمینانی ،کرب اور شکستِ خواب کی مظہر قراردی گئی اور غزلوں و نظموں کی تحسن کے سلسلے میں بعض کلیشے مثلاََ ’’نغمہ باز غنائیت‘‘،’’لطافت احساس‘‘،’’جمالیاتی آہنگ‘‘،’’رومانی طرز احساس‘‘اور ’’ترقی پسند سماجی شعور‘‘وغیرہ تواتر اور شدومد کے ساتھ استعمال کیے گئے ہیں۔ان کی شاعری کو’’نغمہ سنج کے گلے کے وفور‘‘کی زائید بھی ٹھہرایا گیا تاہم ’’آہنگ ‘‘ کے بالاستیاب اور مرکز آمیز مطالعے (Close Reading)کی کوئی سنجیدہ اور با معنی کوشش نہیں کی گئی۔یہی سبب ہے کہ مجاز کی شہر آفاق رومانیت کے اجزا ئے ترکیبی اور ان کے فن کے اسلوبیاتی و ہیئتی خصائص اب تک واضح نہیں ہو سکے پیں۔ کلیم الدین احمد نے اس عام تنقیدی روش سے انحراف کرتے ہوئے مجاز کے کلام کو تجزیہ کے عمل (گو کہ یہ تجزیہ خاصا سطحی اور سرسری ہے)سے گزارکر یہ نتیجہ نکالا کہ ان کے (مجاز)ہاں رومانیت کی خوبیاں کم اور نقائص زیادہ ہیں اور ان کی زیادہ تر نظموں میں کسی عمیق تجربے کا بیان نہیں ملتا۔انہوں نے مجاز کی مشہور نظم’’نورا‘‘کی اجمالی تشریح کے بعد لکھا کہ یہ نظم ایک شرارت کے بیان کو محیط 1ہے اور اس قسم کے معمولی ،رکیک اور سطحی خام جذبے موضوع شاعری نہیں ہوتے۔کلیم الدین احمد کے نزدیک مجاز کی تخلیقات میں عموماََ کسی تجربے کا وجود ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے بھی تو یہ تجربہ غیر اہم اور ناقابل اعتنا ہوتا ہے۔کلیم الدین احمد سمیت تقریباََ تمام ناقد،کیا ترقی پسند اور کیا غیر ترقی پسند ،اس بات پر متفق ہیں کہ مجاز طبعاََ اور اصلاََ رومانی شاعر ہیں۔ظاہر ہے کہ رومانی شاعری کی بعض واضح خصوصیات ہوتی ہیں اور اس نوع کے شعرا کی تفہیم کے سلسلے میں ان پیمانوں سے استنباط کیا جاتا ہے۔تاہم مجاز کی بیش تر شاعری کو ان اصولوں کی کسوٹی پرپرکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ مجاز کے کلام پر پہلا اعتراض کہ ان کی شاعری میں غیر اہم اور ناقابل اعتنا تجربے بارپاتے ہیں اور اس نوع کے معمولی ،رکیک اور سطحی خام جذبے موضوع شاعری نہیں ہوتے ،کے سلسلے میں یہ عرض کرنا ہے کہ فن کی دنیا میں کوئی جذبہ یا تجربہ فی نفسہ اعلی یا ادنیٰ یا سطحی یا وقیع یا خام یا پختہ نہیں ہوتا بلکہ زیادہ اہم ان کے اظہار کی نوعیت ہے۔دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تجربے(شاعری تجربے کا اظہار بھی یا نہیں،یہ الگ لائقِ بحث موضوع ہے)کافنکار انہ اظہار ہوا ہے یا نہیں۔اگر کوئی فن پارہ کمزور یا سطحی نظر آتا ہے تو سبب بیان کردہ تجربے کا کچا پن نہیں بلکہ Expressionکی ناکامی ہے۔یہ عین ممکن ہے کہ مجاز کی بعض نظمیں اظہار کی ناکامی کے باعث یک رُخی ،اکہری اور ناکام لگتی ہیں مگر ایک طرف تو مجاز کو رومانی شاعر قراردیا جاتا ہے اور دوسری طرف شدومد کے ساتھ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ ان کی لازمی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے بعض غیر اہم تجربوں اور کمزور لمحوں کا بیان ملتا ہے۔یہ اعتراض ناقدین کی سہل نگاری پر دال ہے کیونکہ رومانی شاعرکی لازمی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اسے بعض غیر اہم Trivialنظر آنے والے تجربات وقیع تر، دور رس اور حد درجہInspiringلگتے ہیں اور یہ تجربے اس کی رومانی Sensibilityکے داعیوں کو غذا پہنچاتے رہتے ہیں اس لحاظ سے مذکورہ اعتراض Self Contradictoryٹھہرتا ہے۔ اس تنقیدی رائے کے صائب ہونے میں کلام نہیں کہ مجاز انقلابی شاعری کے دلدادہ ہونے کے باوجود بنیادی طور پر رومانی شاعر تھے۔لیکن مجاز کی رومانیت کے عناصر ترکیبی کیا ہیں اور پھر تخلیقات میں کس طرح ان کا اظہار ہوا ہے،نیز رومانیSensibilityکے مختلف ابعاد اور پہلوؤں کی ترسیل میں ان کے اسلوب ،ڈکشن اور فنی طریقہ کی نوعیت کیا رہی ہے،ان سوالات پر غور کرنے کے لئے مجاز کی شہر آفاق نظم ’’آوارہ‘‘کو تجزیے کے لئے منتخب کیا گیا ہے۔تجزیے میں’’آوارہ‘‘پر ناقدین کے اس عام اعتراض کا کہ اس کے آخری بند جذباتی جھلاہٹ کے آئینہ دار اور نظم و ضبط سے یکسر عاری ہیں،محاسبہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ زیر تجزیہ نظم ’’آوارہ‘‘ایک طرف تو رومانی طرز احساس کی مظہر ہے تو دوسری طرف مجاز کی فنی ہنر مندی کو بھی نشان زدکرتی ہے۔نظم کے مطالعے سے منکشف ہوتا ہے کہ موضوع سے قطع نظر مجاز کا فنی شعور بھی خاصا بالیدہ تھا۔شاعر نے بعض خارجی مظاہرکے حوالے سے اپنی حسیاتی اور جذباتی زندگی کی رواداد فنکارانہ شعور کے ساتھ بیان کی ہے۔احساس ہوتا ہے کہ نا آسودگی، رفاقت سے محرومی ،دوستوں کی گریزپائی اور مروجہ معاشرتی نظام سے مکمل بے اطمینانی شاعر کے داخلی وجود پر بری طرح اثر انداز ہوئی ہے۔نظم کا ٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں ، اے وحشت دل کیا کروں،نہ صرف نارسائی کے جاں گسل احساسات کو نشان زد کرتا ہے بلکہ یہ احساس بھی کراتا ہے کہ استحصالی معاشرہ کے مختلف مظاہرے نے نظم کے واحد متکلم کو آتش زیر پا کردیا ہے،نیز آبلہ پائی اس کی جذباتی زندگی کی آخری پناہ گاہ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔شاعر نے داخلی احساسات کی عکاسی اور بعض خارجی مظاہر کی وساطت سے آبلہ پائی(Wandering)کی کیفیت کو اجاگر کرنے کے لئے نظم کا پورا ڈھانچہ حرکت (Movement)پر استوار کردیا ہے۔نظم کے عنوان ’’آوارہ‘‘سے لے کر آخری بند تک افعال(Verbs) کا تواتر سے خلاقانہ استعمال مجاز کی فنی بالغ نظری کا ناقابل تردید ثبوت پیش کرتا ہے۔ حال سے مایوسی اور عدم اطمینان کا احساس اور پھر اس پورے نظام کو بدلنے کی خواہش کوئی جامدیا منفعل جذبہ نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل عمل اور جہد پیہم کی کیفیت ہے۔لہٰذا شاعر نے اس کیفیت کے اظہار کے لئے Action Verbsفنی چابکدستی سے استعمال کیے ہیں۔نظم کے ابتدائی بند کی ردیف ’’پھروں‘‘اور پھر اسی بند کے دوسرے اور تیسرے مصرعے میں قافیے’’آوارہ‘‘اور ’’مارا‘‘ کے حوالے سے ایک متحرک بصری پیکر تخلیق کیا گیاہے۔نظم کے پانچویں بند میں ردیف ’’چل ‘‘ اور چھٹے بند کے تین مصرعے ’’ہر طرف بکھری ہوئی رنگینیاں رعنائیاں‘‘،’’ہر قدم پر عشرتیں لیتی ہوئی انگڑائیاں‘‘اور ’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘اصلاََفعلیاتی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں۔اس نظم کے کئی بندوں میں ردیف اور کافیے مرکب افعال پر قائم کیے گئے ہیں۔نویں بند میں ایک مرکب فعل’’توڑوں‘‘ردیف ہے،جبکہ گیارہویں بند کے تینوں مصرعوں ’’دل میں اک شعلہ بھڑک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘،’’میرا پیمانہ چھلک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘اور ’’زخم سینے کا مہک اٹھا ہے آخر کیا کروں‘‘میں قافیہ اور ردیف دونوں مرکب افعال پر استوار ہیں۔ اسی طرح بارہویں ،چودہویں اور پندرہویں بند میں بھی مرکب افعال ’’نوچ لوں‘‘۔’’توڑدوں‘‘اور’’ پھونک دوں‘‘ ردیف کا کام انجام دے رہے ہیں ۔اس نظم میں نہ صرف ایسے فعل اور مرکب افعال سے کسب فیض کیا گیا ہے جن سے عمل کے فوری پن اور سیال ذہنی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ بعض ایسی صفتیں بھی استعمال کی گئی ہیں جن میں تحریک کا ایک عنصر پوشیدہ ہے۔ ’’آوارہ‘‘میں استعمال کی گئیں صنعتیں تحریک کو نشان زد کرتی ہیں مثلاََپہلے بند کے دوسرے مصرعے ’’جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں‘‘میں ابتدائی ٹکڑا ’’جگمگاتی جاگتی سڑک‘‘ اصلاََایک متحرک دوہری صفت ہے۔اسی طرح دوسرے بند کے پہلے مصرعے ’’جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی‘‘میں صفت ’’جھلملاتے‘‘اور اسی بند کے تیسرے مصرعے ’’میرے سینے پہ مگر دہکی ہوئی شمشیرسی‘‘میں صفت’’دہکی ہوئی‘‘سے تحریک کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔متحرک صفتوں کے استعمال کی مثالیں اردو نظم میں شا ذہی ملیں گی۔ مجاز نے اپنی اس مشہور نظم میں افعال اور متحرک صفتوں کے علاوہ بعض ایسے اسم بھی استعمال کیے ہیں جو نظم کے ڈھانچہ(جواصلاََMovementپر استوار ہے)سے عملی طور پر ہم آہنگ ہیں کہ ان اسما کا تعلق بھی تحرک سے ہے۔مثلاََتیسرے بند میں اسم’’تاروں‘‘،چوتھے بند کے پہلے مصرعے ’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجڑی‘‘میں مستعمل اسما ’’ستارہ‘‘اور’’ پھلجھڑی‘‘کا براہ راست تعلق حرکت سے ہے۔نظم کا ڈھانچہMovementپر استوار کرنے کا مقصد ایک ایسی ذہنی اور جذباتی کیفیت کو بعض خارجی مظاہرے کے توسط سے بیان کرتا ہے جس کا براہ راست تعلق ان متحرک عمل یعنیWanderingسے ہے۔نظم کے مطالعے سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ WanderingاورEmotional Releaseکا ذریعہ بن گئی ہے۔افعال کے متواتر استعمال سے نہ صرف ایک نوع ڈرامائی فضا خلق ہوگئی ہے بلکہ پوری نظم میں گفتگو کی سی برجستگی(Immediacy) بھی پیدا ہوگئی ہے۔ ہیئتی خصائص سے قطع نظر زیر تجزیہ نظم کی موضوعاتی تفہیم جذبات کی منطق کے حوالے سے بھی کی جاسکتی ہے۔ٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں ،اے وحشت دل کیا کروں‘‘دو طرح کے جذبات کے اظہار سے عبارت ہے،پہلا جذبہ بدیہی طور پر غم ہے جس کا تعلق محرومی سے ہے۔اس نارسائی اور فراق نصیبی کا نتیجہ منتشر خیالی ،پراگندگی اور آوارگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس کی طرف مذکورہ مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں،اے وحشت دل کیا کروں ‘‘اشارہ کرتا ہے۔ٹیپ کا مصرعہ تجسیم’’اے غم دل‘‘،’’اے وحشت دل‘‘کے علاوہ کلمۂ استہفام’’کیا‘‘اور فعل’’کروں‘‘پر استوار ہے۔مصرعہ میں’’کیا کروں ‘‘کی تکرار سے ایک طرف تو ایک نوع کی بے بسی،لاچاری اور بے بضاعتی کا احساس ہوتا ہے تو دوسری طرف ایک تیز اور تندجذبے کی عکاسی کا سراغ بھی ملتا ہے۔ نظم کا آغاز ایک جذباتی منظر’’شہر کی رات اور میں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے ہوتا ہے۔ابتدائی تین بندوں میں خارجی مناظر کا۔۔۔۔۔۔۔ذکر ہے تاہم پہلے بند کے تیسرے مصرعے ’’غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں‘‘اور دوسرے اور تیسرے بند کے آخری مصرعوں’’میرے سینے پر مگر دہکی ہوئی شمشیر سی‘‘اور’’آہ لیکن کون جانے کون سمجھے جی کا حال‘‘سے داخلی کیفیت بھی مترشح ہوتی ہے۔ نظم جیسے جیسے آگے بڑھتی جاتی ہے جذباتیت کی لے تیز تر ہوتی جاتی ہے اور آخر کے بندوں میں بیان کردہ بعض خارجی ناظر اپنی تمام ترظاہری دلکشی کے باوجود بے اطمینانی،محرومی اور کم مایگی کے احساسات کو برانگیخت کرتے نظر آتے ہیں۔ چوتھا بند ایکEpisodeکی صورت میں سامنے آتا ہے یعنی اس کا اظہار ستارہ ٹوٹنے اور پھلجھڑی چھوٹنے کے بیان سے ہوتا ہے اور پھر اس واقعہ کے شاعر کے پارہ پارہ داخلی وجود پرپڑنے والے اثرات بیان کیے گئے ہیں۔پہلے مصرعے ’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی پھلجھڑی‘‘میں بیان کردہ عمل سے نظم کے واحد متکلم کی جذباتی زندگی میں ہیجان برپا ہوتا ہے اور احساسِ محرومی بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔آخری دو مصرعوں ’’جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی‘‘اور ’’ہوک سے سینے میں اٹھی چوٹ سی دل پر پڑی‘‘سے اس صورت حال کا احساس کیا جاسکتا ہے۔’’ستارہ ‘‘اور ’’پھلجھڑی‘‘اپنے لغوی مفاہیم سے قطع نظر یہاں عشرت شبانہ کے مظہر کے طور پر ابھرتے ہیں جن سے اب شاعر محروم ہوچکا ہے۔ پانچویں بند میں رات کے دو مشاغل مے خواری اور حسینوں کی ہم جلیسی کا ذکر ہے مگر اب شاعر بعض خارجی اسباب کی بنا پر ان دونوں سے محروم ہو چکا ہے۔رات جو ہمیشہ شاعر کو Inspireکرتی رہتی تھی ایک بار پھر دل آسائی کا سامان کرتی ہے اور شاعر کو تلقین کرتی ہے کہ وہ یا تو مئے خانے کا رخ کرے یا پھر کسی حسینہ کے کاشانے کی طرف جائے۔اگر یہ دونوں صورتیں ناقابل عمل ہوں تو پھر وہ ویرانے میں جائے کہ یہی وہ مقام ہے جہاںشفتہ سری کو قدرے سکون مل سکتا ہے۔یوں بھی اردو شاعری کی روایت میں صحرا اور ویرانہ عاشق کے جائے مسکن کے طور پر ابھرتے ہیں۔چھٹا بند پانچویں بند کی توسیع کی صورت میں سامنے آتا ہے کہ اس بند میں بھی رات سے وابستہ کیفیات کا ذکر ہے۔رات ثروت مند افراد کے لیے عشرت،رت جگے، رنگینی،رعنائی اور رنگ ونور کا سیلاب لے کر آتی ہے جس سے شاعر سخت اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اس بند کے آخری مصرعے’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘سے نہ صرف ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ شاعر کے اخلاقی زاویۂ نظر کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے اس امر کا بھی خاص خیال رکھا ہے کہ ہر بند خواہ اس کا تعلق خارجی منظر سے ہو یا داخلی احساسات کی ترسیل سے،لازماََ اشیا یا افراد کے تیئں جذباتی ردعمل کا اظہار کرے۔اس مرکزی تنظیم یا شیرازہ بندی کے علاوہ15بندوں پر مشتمل اس نظم کے چھ بند خارجی مظاہر کی عکاسی سے عبارت ہیں جبکہ بقیہ 9بندوں میں داخلی وجود کی مختلف النوع کیفیات کاذکر ہے۔ساتویں ،آٹھویں اور نویں بند میں نظم کے واحد متکلم نے اپنے شخصی خصائل’’راستے میں رک کے دم لے لوں مری عادت نہیں‘‘،’’لوٹ کر واپس چلا جاؤں میری فطرت نہیں‘‘اپنی بے بضاعتی اور محرومی’’اورکوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں‘‘،’’ان کو پاسکتا ہوں میں یہ آسرا بھی چھوڑدوں‘‘،اور مستقبل سے متعلق اپنے عزائم’’جی میں آتا ہے کہ اب عہد وفا بھی توڑدوں‘‘،’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘کاذکر کیا ہے اور مذکورہ بیان اصلاََ شاعر کے جذباتی ردعمل کے بیان کو محیط ہے۔ پانچویں بند کی طرح گیارہویں بند کی ابتدا ایک خارجی واقعہ یعنی’’اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب‘‘کے بیان سے ہوتی ہے۔محل یہاں حسن کے استحصال (یعنی حسن اس کے زیر نگیں ہے)کے پیکر کے طور پر سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے حسن کا اولین مظہر’’ماہتاب‘‘تابنا کی اور خیرہ کن روشنی کا منبع ہونے کے بجائے’’پیلا‘‘نظر آرہا ہے۔ماہتاب کی زردی تسکین قلب یا باعث اہتزاز ہونے کے بجائے بے چینی،کرب اور محرومی کے احساسات کو برانگیخت کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔ویسے بھی چاند اکثر وحشت اور دیوانگی کے داعیوں کو متحرک کرتا ہے۔ پیلے ماہتاب کے افق پر نمودار ہوتے ہی شاعر کی جذباتی زندگی میں تلاطم برپا ہوجاتا ہے جس کی طرف بارہواں بند’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں‘‘الخ،چودہواں بند’’لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑ دوں‘‘الخ،اور پندرہواں بند’’بڑھ کے اس اندر سبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘واضح اشارہ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔مذکورہ بند نہ صرف جذباتی ہیجان کا نقطئہ عروج ہیں بلکہ یہی نظم کا کلائمکس بھی ہے۔نظم کا آغاز ایک قدرے کم جذباتی مصرعے ’’شہر کی رات اور میں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے ہوتا ہے۔آخر میں جذباتی تموج کے مظہر بند’’بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘پر ختم ہوئی۔ آوارہ کے بارہویں ،چودہویں اورپندرہویں بند کو عام طور پر ہدف تنقید بنایا گیا ہے اور کلیم الدین احمد سے لے کر جدید تر ناقدوں نے ان بندوں کو نظم وضبط سے عاری ،بہت زیادہLoudاورو فورِجذبات کاآئینہ دار قرار دے کر اسے نظم کی کمزوری پر محمول کیا ہے۔اس اعتراض کے سلسلے میں صرف یہ عرض کرنا ہے کہ نظم کا مذکورہ اختتامی حصہ اصلاََجذبے کے نقطئہ عروج کی عکاسی کرتا ہے جس کی مدھم لے کا اندازہ نظم کے پہلے بند سے لگایا جاسکتا ہے۔نظم میں جذبات کا دھیرے دھیرے ارتقا ہوتا ہے اور آخری بند کلائمکس ہونے کے باعث جذبے کی تندی کا مظہر ہے۔اس طرح’’آوارہ‘‘کو بجا طور پرEmotional Organic Growthکی نظم ٹھہرایا جاسکتا ہے کہ اس میں جذبات کا بتدریج ارتقا نظر آتا ہے۔اس اعتبار سے ’’آوارہ‘‘کے اختتامی حصے پر بے ربطی اور نظم وضبط سے عاری ہونے کا اعتراض بھی باطل ٹھہرتا ہے۔ نظم کے Localeسے شاعر کا رومانی رویہ مترشح ہوتا ہے۔شہر جو کلاسیکی شعرا کے نزدیک مرکز تہذیب و تمدن تھا اور جس کے کوچے’’اوراق مصور‘‘اور جہاں ہر صورت’’تصویر‘‘ نظر آتی تھی،رومانی شعرا کو مصنوعیت،ریاکاری،منافقت،کھوکھلے پن،غیر فطری پابندیوں اور معاشی عدم مساوات کا مرکز نظر آتا ہے۔رومانی فن کاروں کے نزدیک شہر میں سکونت کوئی پسندیدہ یا مطبوع خاطر شے نہیں،اس لیے تخلیق کار مناظرِفطرت کی آغوش میں پناہ لینے کا خواہاں رہتا ہے۔مجاز نے بعض مظاہر فطرت مثلاََ وادی،چشمہ اور کھلی فضا سے اپنی انسیت اور قلبی تعلق اور ان کی شہر پر فوقیت کا براہ راست ذکر تو نہیں کیا مگر شہر کی لعنتوں کو بے نقاب کرنے کے لیے اپنی نظم کاLocaleشہر کو بنایا ہے۔ نظم کے پہلے مصرعے’’شہر کی رات اورمیں ناشادوناکارہ پھروں‘‘سے پتا چلتا ہے کہ شاعر اس بات پر حیرت زدہ ہے کہ شہر کی رات جو عیش وعشرت،شادکامی اور سرخوشی سے عبارت ہوتی ہے اس کے حق میں ناکامی اور آوارگی کے پیامبر کی صورت میں کیوں سامنے آئی ہے۔ابتدا چھ بندوں میں رات سے وابستہ احوال بیان کیے گئے ہیں۔رات کی خیرہ کن روشنی میں ایک طرف تو رعنائیوں اور عیش و سرمستی کی مختلف صورتیں جلوہ گر ہوتی ہیں تو دوسری طرف استحصال کی مختلف شکلیں۔’’اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب‘‘،’’پھر وہ ٹوٹا اک ستارہ پھر وہ چھوٹی اک پھلجھڑی‘‘،’’جانے کس کی گود میں آئی یہ موتی کی لڑی‘‘اور مفلسی اور معاشرتی جبر کے مختلف مناظر،’’مفلسی اور یہ مظاہر ہیں نظر کے سامنے‘‘،’’سینکڑوں سلطان جابر ہیں نظر کے سامنے‘‘،’’سینکڑوں چنگیز ونادر ہیں نظر کے سامنے‘‘بھی ابھرتے ہیں۔یہ مظاہر Emotional Release کے جذبے کی شدت میں اضافہ کرتے ہیں۔اس مرحلے پرEmotional Releaseکا سب سے بہتر ذریعہ یہ نظر آتا ہے کہ اس پورے نظام کو یکسر بدل دیا جائے اور فن کاروں کو اس سلسلے میں Initiativeلینا چاہیے۔نظم کا واحد متکلم بھی اقدامیت پر مائل ہوتا ہے جس کی طرف چودہواں بند’’لے کے اک چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر توڑدوں‘‘،الخ،اور آخری بند’’بڑھ کے اس اندرسبھا کا سازوساماں پھونک دوں‘‘اشارہ کرتا ہے۔آخر کے ان بندوں سے نہ صرف initiativeلینے کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ایک نوع کے فوری پن یعنیSpontaneityکا احساس بھی ہوتا ہے۔نظم کے اختتامی حصے پر رومانی نظموں کی ایک مخصوص صفت جسےOverflow of powerful feelingsسے تعبیر کیا گیا ہے،کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ زیر تجزیہ نظم میں تشبیہوں کے استعمال کی بھی ایک نئی اور انوکھی صورت ملتی ہے۔’’آوارہ‘‘میں مستعمل تشبیہیں محض کسی شے کی خوبی یا دو اشیا میں باہمی مماثلت کے کسی پہلو کو اجاگر نہیں کرتیں بلکہ اصلاََاشیا کے تیئں شاعر کے ردعمل سے قاری کو بے کم وکاست واقف کراتی ہیں۔تیسرے بند میں رات کا سماں دو تشبیہوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔شاعر نے اولاََروپہلی چھاؤں کو صوفی کے تصور سے اورتاروں کے جال کو عاشق کے خیال سے تشبیہ دی ہے۔پہلے ایک مرئی شے رو پہلی چھاؤں اور ایک غیر مرئی شے صوفی کے تصور میں ایک قدرِ مماثلت تلاش کی گئی ہے۔یہ مماثلت روشن فضا کا احساس ہے۔روپہلی چھاؤں کی طرح صوفی کا تصور(مراقبہ)بھی واضح اور روشن ہوتا ہے اور جب صوفی ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو تاریکی چھٹ جاتی ہے اور اسے روشن فضا کا احساس ہوتا ہے۔اسی طرح ایک خارجی مظہر روپہلی چھاؤں ایک داخلی کیفیت’’صوفی کے تصور‘‘کے عین مماثل ہے۔مگر دونوں تشبیہوں کے حوالے سے شاعر نے رات کے تئیں اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔اسی طرح تاروں کے جال اور عاشق کے خیال میں الجھاؤ کی بنا پر مماثلت کے نقوش واضح کیے گئے ہیں۔جال پیچیدگی الجھاؤ سے عبارت ہوتا ہے۔اسی طرح عاشق کا خیال بھی مرکز جو کیفیت کا مظہر ہونے کے باوجود اکثر منتشر خیالی،پراگندگی اور الجھاؤ کی متعدد صورتوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دسویں بند میں ماہتاب کے لیے چار تشبیہیں،’’ملا کا عمامہ‘‘،’’بنئے کی کتاب‘‘، ’’مفلس کی جوانی‘‘اور’’بیوہ کا شباب‘‘استعمال کی گئی ہیں۔اس بند ’’محل‘‘حسن کے استحصال کے پیکر کے طور پر ابھرتا ہے جس کے باعث حسن مجسم ماہتاب اپنی کشش، جاذبیت،دلکشی اور تابنا کی کھو بیٹھتا ہے۔چاند کی تابناکی ماند پڑ کر پیلے رنگ کی صورت میں ظاہر ہو رہی ہے۔ماہتاب اپنی معنوعیت سے محروم ہوکر شاعر کے نزدیک مفلس کی جوانی اور بیوہ کے شباب کی طرح بے کاروبے سود ہوکر رہ گیا ہے۔چاند کے تئیں شاعر کا پسندیدہ ردعمل دو تشبیہوں ’’ملا کا عمامہ‘‘اور’’بنئے کی کتاب‘‘سے ظاہر ہورہا ہے۔مجاز کی فنی بالغ نظری کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ بارہویں بند میں شاعر نے جن مردہ چاند تاروں کو نوچ لینے کی خواہش کااظہار کیا ہے ان کا ذکر پہلے کے بندوں یعنی تیسرے اور دسویں میں کردیا ہے۔ تجسیم(Personification)کی بھی کئی مثالیں اس نظم میں موجود ہیں مثلاََٹیپ کا مصرعہ’’اے غم دل کیا کروں،اے وحشت دل کیا کروں‘‘،دوسرے بند کا دوسرا مصرعہ’’رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی ‘‘پانچویں بند کا تیسرا مصرعہ’’رات ہنس ہنس کر یہ کہتی ہے کہ میخانے میںچل ‘‘اور چھٹے بند کا تیسرا مصرعہ’’بڑھ رہی ہیں گود پھیلائے ہوئے رسوائیاں ‘‘ وغیرہ۔ رومانی فنکاروں کی تخلیقات کا مابہ الامتیاز عنصرEmotional Betrayal کافنکارانہ اظہارہے۔Emotional Betrayalسے مراد یہ ہے کہ فن کاراپنی خواہش کے بر خلاف جذبے کا اظہار کرتا ہے تاہم بیان کی نوعیت سے اصل جذبے کا احساس ہوتا ہے۔ ’’آوارہ‘‘میں اس نوع کی ایک دو مثالیں نظر آتی ہیں مثلاََنویں بند میں شاعر محبوب سے ترک تعلق کا خواہاں ہوتا ہے،اس بند کا آخری مصرعہ’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘ Emotional Betrayalکی اچھی مثال ہے۔’’زنجیر ہوا‘‘کی ترکیب سے ذہن ہوا و ہوس کی طرف جاتا ہے،یعنی ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس کا اور محبوب کا تعلق ہوسنا کی کی ایک شکل تھا۔نظم کے دیگر مصرعوں سے احساس ہوتا ہے کہ شاعر کا اصل تجربہ عشق ہے مگر وہ مذکورہ مصرعے میں ہوس کا ذکر کر رہا ہے جس کا اسے کوئی تجربہ نہیں ہے۔زنجیر ہوا کا ایک مفہوم رشتہ کی ناپائیداری اور اس کے موہوم ہونے کا بھی ہے۔اگر یہ مفہوم بھی مرادلیاجائے تو شاعر یہاں گہرے تعلق کو ناپائیداری سے تعبیر کر رہا ہے۔Emotional Betrayalکی صورت میں Surface Structureمیں نمایاں تنذیلی آجاتی ہے۔زبان،تراکیب اور لفظیات بھی منفرد اور مختلف ہوجاتی ہے۔زیربحث مصرعے ’’ہاں مناسب ہے یہ زنجیر ہوا بھی توڑدوں‘‘میں الفاظ کا انتخاب اور دروبست کی صورت اسی نظم کے بعض دیگر مصرعوں مثلاََ’’جی میں آتا ہے یہ مردہ چاند تارے نوچ لوں‘‘،’’کوئی توڑے یا نہ توڑے میں ہی بڑھ کر توڑ دوں‘‘سے بالکل مختلف ہیَ۔ رومانی شاعری کی بعض دیگر خصوصیات مثلاََاحساس تنہائی ،خود نگری اور اپنی خوبیوں کا بالتفصیل بیان بھی اس نظم میں موجود ہے ،مثلاََ’’آہ لیکن کون جانے ،کون سمجھے جی کا حال‘‘،’’اور کوئی ہم نوا مل جائے یہ قسمت نہیں‘‘،’’راستے میں رک کے دم لوں یہ مری عادت نہیں‘‘اور’’اب بھی جانے کتنے دروازے ہیں وامیرے لئے‘‘وغیرہ۔ ان معروضات کی روشنی میں یہ کہنا بے جانہ ہوگاکہ’’آوارہ‘‘محض موضوع (متوسط طبقے کے نوجوانوں کی بدحالی اور اس عہد کی معاشرتی صورت حال کی عکاسی)کی عمومیت کی بنا پر ایک قابل قدر نظم نہیں ہے بلکہ یہ مجاز کی فنی ہنر مندی کا بھی ناقابل تردید ثبوت پیش کرتی ہے جو تحریک یعنیMovementپر نظم کا ڈھانچہ استوار کرنے کی مثالیں اردو شاعری میں کم کم ملتی ہیں۔اس لحاظ سے ’’آوارہ‘‘ایک منفرد نظم ہے۔
A’sr E Hazir Mein Sir Syed ke Afkaar ki Ma’niuet
Articles
عصر حاضر میں افکار سر سید کی معنویت
پروفیسریو نس اگاسکر
میں اپنی گفتگوکا آغاز ’حیات جاوید ‘ میں شامل خواجہ الطاف حسین حالی کے دیباچے کے ایک اقتباس سے کرنا چا ہو ں گا جس پر میں نے اپنی اور آپ کی سہولت کی خاطر نمبر ڈال کر اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے ۔سر سید کی لائف یا سیرت کے لکھنے کی غایت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہو ئے حالی فرماتے ہیں: میں اپنی گفتگوکا آغاز ’حیات جاوید ‘ میں شامل خواجہ الطاف حسین حالی کے دیباچے کے ایک اقتباس سے کرنا چا ہو ں گا جس پر میں نے اپنی اور آپ کی سہولت کی خاطر نمبر ڈال کر اسے ٹکڑوں میں بانٹ دیا ہے ۔سر سید کی لائف یا سیرت کے لکھنے کی غایت وضرورت پر روشنی ڈالتے ہو ئے حالی فرماتے ہیں: {۱} اس بزرگ کی لائف ہم کونصیحت کرتی ہے کہ زمانے کی مخالفت کو خدا کی مخالفت سمجھ کر اس کے ساتھ مو افقت پیدا کر و تاکہ دنیا میں آرام سے اور عزت سے زندگی بسر کرو ۔{۲} جب تم میں عمدہ حاکم بننے کی لیاقت باقی نہ رہے تو عمدہ رعیت بننے میں کوشش کرو تا کہ دونوں عمدگیوں سے ہاتھ نہ دھو بیٹھو۔(وہ بتاتی ہے کہ کوئی قوم محکوم ہونے کی حالت میں کیوں کر قومی عزت حاصل کر سکتی ہے۔){۳} وہ جس طرح ہم کو آزادیِ رائے کی تعلیم دیتی ہے ،اسی کی طرح یہ بھی سکھاتی ہے ہم کیوں کر اپنی آزادی کو قائم رکھ سکتے ہیں ۔ِ{۴} وہ ہم کو سبق دیتی ہے کہ قوم کی خیر خواہی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک کہ بہت سے کام ان کی عقل اور عادات اور مرضی کے خلاف نہ کیے جائیں اور ان کی مخالفت کو صبر و استقلا ل کے ساتھ بر داشت نہ کیا جائے ۔{۵} وہ ہم کو تعصبات سے متنفر کرتی ہے ،غیر قوموں کے ساتھ حسن معاشرت سکھاتی ہے ،دوستوں کے ساتھ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، عیسائی ہوں یا یہودی خلوص اور سچائی سے ملنا سکھاتی ہے ۔ {۶} وہ ہم کو ہدایت کرتی ہے کہ جیسا دل میں سمجھو ویسا ہی زبان سے کہو اور جو کچھ کہو اس کو کر دکھائو ۔{ ۷}وہ بآواز بلند کہتی ہے کہ وقت کی قدر کرو ،ڈیوٹی کا خیال رکھو ،ایک لمحہ بے کار نہ رہو اور کام کرتے کرتے مر جائو ۔ ہمارے موجودہ حالات اور طرز فکر و عمل کے تناظرمیں ہم حالی کی بیان کردہ ان اچھی باتوں پر غور کریں تو ہمارا دل فوراً گواہی دے گا کہ سر سید کی حیات اور ان کے خیالات کی معنویت ہمارے دور میں نہ صرف بر قرار ہے بلکہ مزید اجاگر ہو گئی ہے ۔ سر سید نے جب ہوش کی آنکھیں کھولیں تو ایک شاندار حکومت کا سورج جس نے طبقۂ اشرافیہ کے گھرانوں میں روشنی اور گرمی کے ساتھ توانائی پیدا کی تھی ، غروب ہو چکا تھا اور صرف دھند لکا باقی تھا ۔ اس دور حکومت کی پروان چڑھائی ہوئی ہندوستانی مسلم تہذیب کے ایوانوں میں بھی فانوس خیال کی گردش کا ساسماں تھا ،در ودیوار روشن تو تھے مگر ان پر رقص کرتے ہوئے مناظر اتنی تیزی سے بدل رہے تھے کہ سر چکرانے لگتے تھے ۔ایسے میں ۱۸۵۷ ء کی قیامت صغرا نے سب کچھ تہ وبالا کر دیا ۔ ’’زمانہ با تو نہ ساز دتو بازمانہ بساز‘‘ کا سبق پڑھنے والوں کے ہوش و حواس بھی پر زن ہو گئے ۔پرانی بساط کے الٹ جانے کے بعد نئی بساط بچھی تو پتہ چلا کہ نہ صرف مہرے بدل گئے ہیں بلکہ چالیں بھی نئی چلی جا رہی ہیں۔ سر سید ان بدلے ہوئے حالات کے عینی مشاہدین اور ان سے متاثربھی تھے مگر انھوں نے شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر جینے کی بجائے آندھی میں بھی اپنا راستہ تلاش کرنے کی تدبیر کی۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ابتدا میں آندھی کی مخالف سمت میں بھی چلے تھے۔ ان کی ابتدائی قلمی کا وشات میں ان کی ماضی پرستی و احیا پسندی کے ساتھ ساتھ مذہبی عقائد میں رواداری کی کمی جھلکتی ہے ۔مثلاََ سلاطین تموریہ کے تذکرے ’جام جم ‘اور’’آئین اکبری ‘‘کی تر تیب و تصحیح کے ذریعے وہ ماضی کی باز آفرینی کے طالب نظر آتے ہیں۔ اسی طرح رسالہ راہ سنت و ردّبدعت اور شیعی عقائد کی تر دید میں شاہ عبدالعزیز دہلوی کے’’ تحفۂ اثناعشریہ‘‘کے ایک باب کا کیا ہوا ان کا ترجمہ ’تحفہ حسن‘ ان کی بے لچک و ہابیت کے غماز ہیں۔لیکن انھوں نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ وہ حاکم ازل کی سلطنت کو کوئین و کٹوریہ کی حکومت سے بھی محدود سمجھ رہے ہیں جس میں مذہب و ملت اور فرقے و طبقے کے لوگوں کو اپنے عقیدے اور رسم ورواج کے مطابق چلنے کی آزادی میسّرہے۔ اور جب وہ انگلستان کے سفر سے واپس لوٹے تو انگریزی تہذیب و تمدن اور طرز حکومت و معاشرت کے مطالعے و مشاہدے نے ان کی سوچ کی دنیا ہی بدل ڈالی ۔ انھیں یقین ہو گیا کہ محض ایک سچا مسلمان ہو نے کے بجائے ایک اچھا شہری بننا ضروری ہے ۔اور اس کے لیے انگریزوں کے لائے ہوئے طرز حکومت ،نظام تعلیم اور حسن معاشرت کی تقلید لازمی ہے لیکن اپنی شناخت کو باقی رکھنے اور اپنی اجتماعیت کی حفاظت کرنے کے لیے اپنی تہذیب و مذہبی روایات کی پاس داری بھی ضروری ہے۔ سر سید نے زمانے کی مخالفت کا سامنا کرتے ہوئے حالات کو بھی موافق بنانے میں تن من دھن کی بازی لگا دی لیکن دنیا میں آرام سے رہنے اورعزت سے زندگی بسر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قومی شناخت اور قومی مفادات کے تحفظ کی بھی جان توڑ کوشش کی ۔ معاف کیجیے ، میں نے آرام سے رہنے کی بات محض حالی کے اتباع میں کہی ہے ، ورنہ سر سید کی قسمت میں آرام کہاں تھا ۔حالی کا اقتباس تو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں اب خود سر سید کی گواہی بھی سماعت فرمائیے۔ اپنے مضمون ’’امید کی خوشی‘‘ میں خود کو اپنا ہی غیر تصور کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ وہ قومی بھلائی کا پیاسا اپنی قوم کی بھلائی کی فکرکرتاہے دن رات اپنے دل کو جلاتا ہے، ہر وقت بھلائی کی تدبیر یں ڈھونڈتا ہے (اور) ان کی تلاش میں دور دراز کا سفر اختیار کرتا ہے۔ یگانوں بیگانوں سے ملتا ہے ۔جن کی بھلائی چاہتا ہے انھیں کو دشمن پاتا ہے ۔شہری وحشتی بتاتے ہیں، دوست آشنا دیوانہ کہتے ہیں، عالم فاضل کفر کے فتووںکا ڈر دکھاتے ہیں ۔بھائی بند عزیز اقارب سمجھاتے ہیں اور پھر یہ شعر پڑھ کر چپ ہو جاتے ہیں : وہ بھلا کس کی بات مانے ہیںبھائی سید تو کچھ دِوانے ہیں ہو سکتا ہے ہمارے عہد کے اکاّدکا ّ دیوانوں میں سر سید کی مذکورہ خصوصیات پیدا ہو جائیں مگر ان کی سی ہمہ جہت و ہمہ صفت شخصیت کا ورود مسعود اب ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان کی انیسویں صدی کسی اعتبار سے قحط الرجال کی صدی نہیں تھی اس کے باوجود سر سید کو جتنے محاذوں پر قومی، تہذیبی ،علمی ، سیاسی ،مذہبی ،اخلاقی ، اصلاحی اور تعلیمی جنگ لڑنی پڑی ، اس کی مثال ہمارے ملک کی تاریخ میں تو نہیں ملے گی ۔ پروفیسر آرنلڈ نے سر سید کی وفات کے بعد لاہور میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں سر سید کی مختلف النوع شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا تھا :’’تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوگا کہ دنیا میں بڑے آدمی تو اکثر گزرے ہیںلیکن ان میں بہت کم ایسے نکلیں گے جن میں یہ حیرت انگیز اوصاف اور لیاقتیں مجتمع ہوں ۔وہ(سر سید) ایک ہی وقت میں اسلام کا محقق ،علم کا حامی ، قوم کا سوشل ر فارمر ، پولیٹیشن،مصنف اور مضمون نگار تھا ۔ اس کا اثراس سوچنے والے عالم کا سانہ تھا جو گوشۂ تنہائی میں بیٹھا اپنی تحریروں سے لوگوں کے دلوں کو اکسائے بلکہ وہ اعلانیہ دنیا کے سامنے لوگوں کا رہبر بن کر آیا ۔اس لیے آیا کہ جس بات کو سچ اور صحیح سمجھے، اگر اس کی دنیا مخالف ہو تو بھی ساری دنیا سے لڑنے کے لیے ہر وقت آمادہ اور تیار رہے۔‘‘(برگ گل سر سید نمبر) پروفیسر آرنلڈ کی بات کو ڈاکٹر سید عبداﷲ نے تہذیب الاخلاق کی اہمیت کے حوالے سے قدرے تفصیل اور وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے ۔’’ تہذیب الاخلاق کے مشتہرہ مقاصد کا دائرہ بہت وسیع تھا۔مثلاً فرد کے اخلاق کی اصلاح ،قومی اصلاح و تکمیل ،تہذیب و شائستگی اور قومی عزت کا احساس پیدا کرنا ،قوم کو جدید تر قیاتِ علمی کی طرف راغب کرنا ،علمی نقطۂ نظرکی اصلاح ، دینی زاویۂ نگاہ کی اصلاح ، ادب و انشا کے لیے ذوق صحیح کا پیدا کرنا ،اردو کو قومی حِسیات اور اجتماعی افکار کا ترجمان بنانا اور با لآ خر (بہ قول مولانا حالی) قوم میں زندہ دلی پیدا کرنا۔‘‘(بر گ گل ،سر سید نمبر ۱۹۵۵ء) سر سید کی خدمات کا جب بھی ذ کر ہوتا ہے ،ان کی تعلیمی سر گرمیوں ، مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے کی کاوشوں ،اخلاقی خرابیوں اور سماجی برائیوں کو دور کرنے کی کوششوں اور اردو کو جدید دور کے تقاضوں کی تکمیل کے لایق بنانے کی تدبیروں کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے لیکن ان کی ایک نہایت اہم خدمت یعنی مسلمانوں کے علمی نقطۂ نظر اور دینی زاویۂ نگاہ کی اصلاح میں کی گئی ان کی مساعی کو بہ نظر تعمق نہیں دیکھا جا تا ۔ سر سید کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ مسلمانوں کی دنیوی علوم سے دلچسپی میں اضافہ اور اس کے نتیجے میں دنیوی ترقی کی رفتارمیں تیزی اس وقت ممکن ہے جب انھیں اسلام کی عظمت رفتہ کی باز آفرینی کے تصور سے باز رکھا جائے۔سر سید نوجوانی میں وہابی اور اہل حدیث تھے مگر آگے چل کر انھیں یہ احساس ہو گیا کہ ان عقائد کے تحت وہ مذہب کی حرکی قوت سے منحرف ہو گئے ہیں اور مذہب کو ایک جاطرز حیات بنا کر اس کے فطری ارتقامیں مانع ہو رہے ہیں۔ سر سید کے نہایت معرکہ آرا مضمون ’’آزادیِ رائے ‘‘کے حوالے سے ان کی تعقل پسندی اور حق پر ستی پر گفتگو کی جائے تو عصر حاضر کے لیے ان کے افکار کی معنومیت کو اجاگر کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے ۔سر سید نے ابتدا ہی میں اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ ہر انسان کو آزادی ِرائے کا پورا حق ہے اور کسی رائے کی صحت یا غلطی کا دارو مدار ماننے والوں کی قلت یا کثرت پر نہیں ،قوت استدلال پر ہے ۔یعنی ایک تنہا آدمی کی رائے بھی اجتماعی رائے کے مقابلے میں صحیح و درست ہو سکتی ہے۔ محض کسی مذہبی خوف یا قوم و برادری کے اندیشے یا بد نامی یا حکومت کی تعذیر کے ڈر سے آزادی ِرائے کا استعمال نہ کرنا ،فرد و قوم بلکہ پوری انسانیت کے لیے مضرت رساں ثابت ہو سکتا ہے ۔آزادیِ راے میں مزاحم ہونے والے افراد اگر وہ کسی مذہبی گروہ سے وابستہ ہوں ،اپنی نادانی سے ساری دنیا پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے مذہب کو مخالفوں کے اعتراضوں سے نہایت اندیشہ ہے ۔ ایسے میں ان کی رائے یا مذہبی عقیدہ درست بھی ہو تو اس کو صحیح ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ اپنے ہی عقیدے یا مذہب کو جس میں وہ پیدا ہوا ہے ،محض جمہور کے کہنے پر صحیح سمجھنے والا شخص اپنی کو ئی رائے نہیں رکھتا ۔ایسے میں جن وجوہات سے مسلم خاندان میں پیدا ہونے والا شخص بڑا مقدس مسلمان ہوتا ہے انھی وجوہات سے عیسائی یا بت پرست خاندان یا ملک میں پیدا ہونے والا اچھا عیسائی یا بت پرست ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں کسی کا مسلمان ، عیسائی یا ہندو پیدا ہونا ایک اتفاقی امر ہے جس کی بنیاد پر تعصب برتنا کسی طور مناسب نہیں۔ سر سید کے نزدیک جس شخص کو اپنی رائے پر کسی قدر بھروسہ کیے جانے یا اسے عام لوگوں کے ذریعے تسلیم کیے جانے کی خواہش ہے اسے اپنی رائے کو عام مباحثے کے لیے پیش کرنا چاہیے ۔اس لیے کہ جن اعتقاد وں کو ہم نہایت جائز و درست سمجھتے ہوں ان کی درستی کی کوئی سند اور بنیاد بجز اس کے نہیں ہو سکتی کہ تمام دنیا کو اختیار دیا جائے کہ وہ ان کو بے بنیاد ثابت کرے۔ آگے چل کر انھوں نے مسلمانوں کی اس روش پر افسوس کیا ہے کہ وہ قدما کی طرح دلائل و براہین اور بحث و حجت سے عقائدو اعمال کو درست ثابت کرنے کی بجائے ،جھوٹے غرور اور بے جا استغناسے کام لیتے ہیں یا عقیدے یا مسلے کے بر خلاف کوئی دلیل سننے کے بجائے اپنے گروہ کے لوگوں کو کفر کے فتووں کے ڈراورا سے جہنم میں جانے کی چھوٹی دہشت دکھا کے ان عقائد یا مسائل پر غوریا بحث کرنے سے باز رکھتے ہیں۔ مضمون کے آخری حصّے میں سر سید نے اپنی گفتگو کا رخ مسلمانوں میں تجسّس و تحقیق کی کمی کی طرف موڑ دیا ہے اور علمی جستجو کے نام پر محض کتاب میں کیا لکھا ہے یہ جاننے یا کس نے کیا کہا ہے اور آیا کہا بھی ہے کہ نہیں یہ معلوم کرنے پر اکتفا کرنے کی روش کو نا پسند یدہ قرار دیا ہے۔ انھیں کے الفاظ میں’’ اس طریقے اور عادت نے آزادیِ رائے کو کھو دیا اور اس سیرت کو جس سے غلطی میں پڑنے سے حفاظت تھی، توڑ دیا ان کے تمام علم و فضل غارت ہو گئے ۔ان کے باپ دادا کی کمائی جس سے توقع تھی کہ ان کی اولاد فائدہ اٹھاوے گی سب ڈوب گئی۔ ‘‘ عصر حاضر میں مسلمانوں کے عقائد و طرز حیات میں پیدا ہونے والے جمود پر نظر ڈالیں اور ان کی ترجیحات میں کار جہاں کو اخیر میں رکھتے ہوئے دنیا کی جگہ محض عقبیٰ کو سنوارنے اور چند مخصوص عقائد و رسوم کی پا بندی کو انسان اور کا ینات کی تخلیق کا مقصد و منتہاسمجھنے کی روش کو نظر میں رکھیں تو سر سید کے مذکورہ بالا خیالات کی معنویت کو سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی ۔
Nazr E Sir Syed by Tausef Barelvi
Articles
نذرِ سر سید
توصیف بریلوی
Naqoosh, Manto Number by Mohammad Tufail
Articles
رسالہ نقوش کا منٹو نمبر
محمد طفیل
Inshaia ke khad o Khaal by Dr. Wazeer Aagha
Articles
انشائیہ کے خدوخال
ڈاکٹر وزیر آغا
Urdu ke Uslub E Bayan by Mohiuddin Qadri Zoor
Articles
اردو کے اسلوب بیان
محی الدین قادری زور